ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
یہود سے صرف نظر کر کے یہ ذرا دیر کے لیے یثرب اور اس کے نواح کے مشرکین کی طرف التفات ہے جو خدا کے ان دشمنوں کی وسوسہ اندازیوں سے متاثر ہو کر ان کے اعتراضات بےجانے بوجھے دہرا رہے تھے اور اس طرح اپنے آپ کو اس نعمت عظمیٰ سے محروم کر رہے تھے جو خدا نے قرآن اور پیغمبر کی صورت میں انھیں عطا فرمائی تھی۔
یعنی وہ بندگی جس کی دعوت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دے رہے ہیں۔ بندگی کے لیے اصل میں ’ اُعْبُدُوْا ‘ آیا ہے۔ قرآن کی اصطلاح میں یہ لفظ جب اپنے جامع مفہوم میں استعمال کیا جائے تو پرستش اور اطاعت ، دونوں کو شامل ہوتا ہے۔
یعنی تمہارے ان بزرگوں کو بھی پیدا کیا ہے جنھیں تم خدائی صفات میں شریک قرار دیتے ہو اور ان کے بت بنا کر ان کی پرستش کرتے ہو۔
اصل الفاظ ہیں : ’ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ‘۔ ان میں ’ لَعَلَّ ‘ کسی چیز کے متوقع نتیجے کو بیان کرنے کے معنی میں ہے اور ’ تَتَّقُوْنَ ‘ کا مفعول یہاں محذوف ہے۔ اسے قرآن نے اس کے بعد کی آیت ’ فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ ‘ میں خود واضح کردیا ہے۔
یعنی شرک کی ہر آلایش سے بالکل پاک ہو کر خدا کی بندگی کرنے کی جو دعوت یہ کتاب لے کر نازل ہوئی ہے ، اسے مانو اور اس کے مطابق خدا کی بندگی کرو۔
مطلب یہ ہے کہ تم اگر اسے خدا کی کتاب نہیں سمجھتے تو اپنی ہدایت، مضامین اور اپنے اسلوب بیان کے لحاظ سے جس شان کا یہ کلام ہے ، اس شان کی کوئی ایک سورة ہی بنا کر پیش کردو۔ تمہارے گمان کے مطابق یہ کام اگر بغیر کسی علمی اور ادبی پس منظر کے تمہاری قوم کے ایک فرد محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کرسکتے ہیں تو تمہیں بھی اس میں کوئی دقت نہ ہونی چاہیے۔ اپنے متعلق یہ قرآن کا چیلنج ہے جو اس نے اپنے اولین مخاطبین کو دیا اور ان میں سے کوئی بھی اس کا سامنا کرنے کی جرات نہ کرسکا۔
اصل میں لفظ ’ شُھَدَآءَ ‘ استعمال ہوا ہے۔ یعنی زعما، ترجمان اور نمائندے۔ مدعا یہ ہے کہ جنوں اور انسانوں میں سے اپنے وہ زعما بلا لو جو تمہارے اس دعوے میں شریک ہیں اور جن میں سے بعض کو تم خدائی اختیارات کے حامل سمجھتے ہو۔
یعنی اپنے اس گمان میں کہ یہ خدا کا کلام نہیں ہے، بلکہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے اپنی طرف سے گھڑ کر پیش کر رہے ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ اس آگ کی مرغوب غذا یا وہ جسم ہوں گے جن میں کفر و شرک کا مواد بھرا ہوا ہے اور یا وہ پتھر جو معبود کی حیثیت سے اس دنیا میں پوجے گئے ہیں۔ یہ آگ اپنے اصلی رنگ میں انھی دو چیزوں سے بھڑکے گی۔
یہ پتھر اپنے پوجنے والوں کی فضیحت اور اس طرح ان کے عذاب میں اضافے کے لیے دوزخ میں پھینکے جائیں گے تاکہ وہ دیکھ لیں کہ دنیا میں جن کی خدائی کا شہرہ تھا ، آج وہ کس انجام کو پہنچے ہیں
اصل میں ’ اَنَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’ اَنَّ ‘ سے پہلے ’ ب ‘ عربی قاعدے کے مطابق حذف ہوگئی ہے۔
اصل الفاظ ہیں : ’ کُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْھَا مِنْ ثَمَرَۃٍ رِّزْقًا ‘۔ ان میں ’ رِزْقًا ‘ دوسرا مفعول ہے اور ’ مِنْ ثَمَرَۃٍ ‘ ہمارے نزدیک ’ مِنْھَا ‘ سے بدل واقع ہوا ہے ۔
یعنی اپنے دل میں کہیں گے۔
یعنی اس سے پہلے اسی جنت میں۔
مطلب یہ ہے کہ وہ نہیں ہوگا ، بلکہ اس سے ملتا جلتا ہوگا ۔ یہ جنت کی نعمتوں کے اس پہلو کو نمایاں کیا ہے کہ وہ ہر دفعہ نئے حسن ، نئی لذت اور نئے ذائقے کے ساتھ سامنے آئیں گی ۔ ایک ہی پھل جب بار بار کھانے کے لیے دیا جائے گا تو ہر مرتبہ لذت ، حسن اور ذائقے کی ایک نئی دنیا اپنے ساتھ لے کر آئے گا۔
اصل الفاظ ہیں : ’ اَزْوَاجٌ مُّطَھَّرۃٌ‘۔ ان میں ’ مُطَھَّرَۃٌ‘ کی صفت سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ وہ اچھوتی ہیں، ان کی تربیت نہایت اہتمام اور توجہ کے ساتھ ہوئی ہے اور انھیں اس طرح سنوارا اور پاکیزہ بنایا گیا ہے کہ اہل جنت کی رفاقت کے لیے وہ پوری طرح موزوں ہوگئی ہیں۔
یہاں سے آگے آیت ٢٧ تک یہ ایک مناسب موقع تنبیہ ہے جو سلسلہ کلام کے بیچ میں جملہ معترضہ کے طور پر آگئی ہے۔ یثرب اور اس کے نواح کے مشرکین کو اس میں متنبہ کیا گیا ہے کہ یہود کی پیروی میں وہ تمثیلات کے بارے میں بےہودہ حجت طرازی کا مذاق اپنے اندر پرورش نہ کریں ۔ یہ ان کے لیے حق سے محرومی کا باعث بن جائے گا۔
اصل میں ’ اَنْ یَّضْرِبَ مَثَلاً مَّابَعُوْضَۃً فَمَا فَوْقَھَا ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’ مَثَلاً ‘ مفعول اور ’ بَعُوْضَۃً ‘ اس سے بدل واقع ہوا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ جنت اور اس کی نعمتوں کا جو ذکر اوپر ہوا ہے، وہ تمثیل ہی کے اسلوب میں ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جنت اور دوزخ کے بارے میں جو بات بھی اس دنیا میں سمجھائی جاسکتی ہے، تمثیل کے اسلوب ہی میں سمجھائی جاسکتی ہے۔ لہٰذا تمہاری نگاہ بھی اصل حقیقت پر رہنی چاہیے ، تمثیل کے طور پر جن باغوں اور نہروں کا ذکر ہوا ہے ، ان میں الجھ کر نہیں رہ جانی چاہیے۔ اللہ جب کسی حقیقت کو واضح کرنا چاہتا ہے تو مکھی اور مچھر جیسی حقیر چیزوں کو بھی مثال میں پیش کردیتا ہے۔ علم و ہدایت کے جو یا اس کی قدر کرتے ہیں ، وہ اس کا مذاق نہیں اڑاتے ۔
اصل الفاظ ہیں : ’ مَاذَآ اَرَادَ اللّٰہُ بِھٰذَا مَثَلاً ‘۔ ان میں ’ مَثَلاً ‘ اسم اشارہ سے حال ہے۔ یعنی یہ کس طرح کی مثال ہے ؟ کیا خدا کو تمثیل کے لیے مکھی اور مچھر ہی میسر ہوئے ہیں ؟
یہ اشارہ ہے یہود کی طرف ۔ اس سے آگے ان کے وہ جرائم بیان ہوئے ہیں جن کے باعث وہ توفیق ہدایت سے محروم ہوئے۔
اصل میں لفظ ’ فَاسِق ‘ استعمال ہوا ہے۔ قرآن مجید کی اصطلاح میں اس کے معنی معروف سے منکر اور اطاعت سے نافرمانی کی طرف نکل جانے کے ہیں۔
یہود یہ عہد کس طرح باندھتے اور توڑتے رہے، اس کی تفصیلات آگے سورة میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان ہوئی ہیں۔
اِس سے مراد رشتہ رحم اور رشتہ قرابت کا کاٹنا ہے۔ قرآن نے یہ اسلوب جہاں بھی اختیار کیا ہے ، موقع کلام کی دلالت سے واضح ہے کہ رشتہ رحم و قرابت کے لیے اختیار کیا ہے۔ اس میں جو ابہام ہے ، اس سے رشتہ رحم کی عظمت واضح ہوتی ہے۔ گویا یہ ایسی معروف اور بدیہی حقیقت ہے کہ اس کا نام لیے بغیر ہی ہر شخص سمجھ لیتا ہے کہ وہ کیا چیز ہے جسے خدا نے کاٹنے کا نہیں، بلکہ جوڑنے کا حکم دیا ہے۔
یعنی اللہ تعالیٰ سے عہد و پیمان توڑنے کے بعد جب یہ دوسرا قدم بھی اٹھالیتے ہیں تو اس سے زمین میں فساد برپا ہوجاتا ہے ، اس لیے کہ تمدن اور معاشرت میں صلاح و فلاح کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے تقویٰ اور رشتہ رحم کی حرمت ہی پر قائم ہے۔
یہاں سے پھر وہ دعوت سامنے آگئی ہے جو ’ اُعْبُدُوْا رَبَّکُمْ ‘ سے شروع ہوئی تھی۔
اصل میں ’ کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں استفہام انکار اور تعجب کے لیے ہے اور ’ کفر ‘ سے مراد خدا کا انکار نہیں، بلکہ قیامت کا انکار ہے۔ اس کو خدا کے انکار سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ قیامت کا انکار درحقیقت خدا کی تمام اعلیٰ صفات قدرت ، ربوبیت، علم اور حکمت کا انکار ہے۔ جو شخص ان صفات کے بغیر خدا کو مانتا ہے، اس کا ماننا اور نہ ماننا، دونوں برابر ہیں۔
یہ معاد اور قیامت کے ممکن ہونے کی دلیل ہے، یعنی جس نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا اور اس طرح گویا مردہ سے زندہ کیا ہے ، وہ مرنے کے بعد دوسری مرتبہ پیدا کرنے سے کیوں قاصر رہ جائے گا ؟
یہاں سے پیرے کے آخر تک اب قیامت کے ضروری ہونے کی دلیل بیان ہوئی ہے۔ یعنی جس پروردگار کی قدرت ، ربوبیت اور علم و حکمت کی گواہی یہ آسمان و زمین دے رہے ہیں، کس طرح ممکن ہے کہ وہ تمہیں پیدا کر کے یوں ہی چھوڑ دے اور تمہارے نیک و بد میں کوئی امتیاز نہ کرے ؟ لہٰذا قیامت اٹل ہے ، وہ ہر حال میں ہو کر رہے گی۔
اصل الفاظ ہیں : ’ ثُمَّ اسْتَوٰٓی اِلَی السَّمَآءِ فَسَوّٰھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ ‘۔ ان میں ’ استواء ‘ کے معنی سیدھے کھڑے ہونے کے ہیں اور ’ اِلَی ‘ کے ساتھ اس کا صلہ دلالت کرتا ہے کہ یہ توجہ کرنے کے مفہوم پر متضمن ہے۔ ’ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ ‘ اس جملے میں ضمیر منصوب سے حال واقع ہوا ہے۔ یہ آسمان کی استواری کے لیے اللہ تعالیٰ کے متوجہ ہونے کی تصویر ہے جسے ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ نیچے اترے، بیٹھے اور پھر کھڑے ہوئے۔
اصل میں لفظ ’ الْمَلآءِکَۃ ‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ ’ ملک ‘ کی جمع ہے جس کے معنی پیغامبر کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا جو مکالمہ ان آیات میں ان کے ساتھ نقل ہوا ہے ، اس سے واضح ہے کہ یہ محض قوتیں نہیں ہیں جنھیں ’ الْمَلآءِکَۃ ‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے، بلکہ نہایت پاکیزہ صفات کی حامل ایک مستقل مخلوق کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اصل میں لفظ ’ خَلِیْفَۃً ‘ استعمال ہوا ہے۔ سورة ص (٣٨) کی آیت ٢٦ سے واضح ہے کہ یہ جس طرح نائب اور جانشین کے معنی میں آتا ہے ، اسی طرح نیابت اور جانشینی کے مفہوم سے مجرد ہو کر محض صاحب اقتدار کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ ہم نے اسی لحاظ سے اس کا ترجمہ ’ بادشاہ ‘ کیا ہے۔ لفظ کے اس طرح اپنے معنی کے کسی پہلو سے مجرد ہو کر آنے کی مثالیں عربی زبان میں اور بھی ہیں۔
فرشتوں نے انسان کے بارے میں اس اندیشے کا اظہار لفظ ’ خَلِیْفَۃً ‘ کی بنا پر کیا ہے۔ انھوں نے محسوس کیا کہ جب ایک صاحب اختیار مخلوق کو زمین کی بادشاہی دی جائے گی تو اقتدار پا کر وہ بہکے گی اور اس بہکنے کا نتیجہ لازماً خوں ریزی اور فساد کی صورت میں ظاہر ہوگا۔
یہ عبادت کی تعبیر ہے۔ یعنی آپ کے سامنے سرافگندہ ہیں اور اپنے علم و عمل میں آپ کی شان الوہیت سے منافی صفات سے آپ کو پاک قرار دیتے اور ان صفات سے متصف قرار دیتے ہیں جن کی بنا پر آپ سزاوار حمد و شکر ہیں۔ مدعا یہ تھا کہ زمین کا نظم و نسق پہلے کی طرح ہمارے ہی ہاتھ میں کیوں نہ رہے۔ اس میں کسی مخلوق کو اقتدار دے کر اسے فتنہ و فساد کے حوالے کیوں کیا جائے ؟ فرشتوں کی بات سے یہ مدعا اگرچہ واضح ہے ، لیکن ادب کے تقاضے سے وہ اسے زبان پر نہیں لائے ۔
مطلب یہ ہے کہ میری اسکیم کے سارے پہلوؤں پر تمہاری نظر نہیں ہے۔ یہ جب واضح ہوجائیں گے تو تمہارا اشکال بھی ختم ہوجائے گا۔