• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قومی اسمبلی میں ہونے والی اکیس دن کی مکمل کاروائی

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(انگریز کے دور میں جہاد ملتوی)
جناب یحییٰ بختیار: یعنی مرزا صاحب کہہ رہے ہیں کہ سارے انگریز کے دور میں جہاد ملتوی ہے، Past, Present and Future (ماضی، حال اور مستقبل) میں
مرزا ناصر احمد: نہیں، نہیں، Future (مستقبل) کا جب تک اللہ تعالیٰ انہیں نہ کہتا، وہ نہ کہہ سکتے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں یہی Clarify (وضاحت) کررہا ہوں کہ جب تک وہ کہہ رہے ہیں…
مرزا ناصر احمد: جب تک وہ حالات رہیں۔ ’’دیکھیں، یہ سن لیں، حضرت سید احمد صاحب بریلوی کیا کہتے ہیں: ’’سرکار انگریزی گو منکر اسلام ہے…‘‘ یہ سرکار انگریزی کی بات ہورہی ہے ناں: ’’… مسلمانوں پر کچھ ظلم اور تعدی نہیں کرتی، نہ ان کو فرض مذہبی اور عبادت لازمی سے روکتی ہے۔ ہم ان کے ملک میں اعلانیہ وعظ کہتے اور ترویج کرتے ہیں اور وہ کبھی مانع اور مزاحم نہیں ہوتی، بلکہ اگر ہم پر کوئی زیادتی کرتا ہے تو اس کو سزا دینے کو تیار ہے۔ ہمارا اصل کام اشاعت توحید الٰہی اور احیائے سنن سید المرسین ہے جو ہم بلاروک ٹوک اس ملک میں کرتے ہیں۔ پھر ہم سرکار انگریزی پر کس سبب سے جہاد کریں۔‘‘
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، یہ میں نے پڑھا ہے جی …
مرزا ناصر احمد: تو یہ تو اور ہے ناں۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، وہ سب صرف اس لئے کہ آپ پڑھ لیں…
1071مرزا ناصر احمد: ہاں، یہ عام ہے اور اصل جو مسئلہ ہے وہ یہ ہے … یہ تو اس مسئلہ کا اطلاق ہر زمانے میں ہے ناں … مسئلہ یہ ہے، متفق علیہ … شرائط میں ممکن ہے کوئی تھوڑا بہت فرق ہو… کہ جب تک شرائط جہاد پوری نہ ہوں جہاد فرض نہیں اور جب جہاد کی شرائط ہوں گو اس وقت جہاد سے پیچھے رہنا گناہ ہے۔ یہی ہمارا مسئلہ ہے۔
[At this stage Mr. Chairman vacated the Chair which was occupied by Madam Deputy Speaker (Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi)]
جناب یحییٰ بختیار: ٹھیک ہے، یہ ایک آپ نے Clarify کردیا۔ اس میں ایک اور پوائنٹ ہے۔ ایک تو شرائط موجود نہیں، اس لئے جہاد جائز نہیں۔ دوسرا شرائط موجود ہیں، جہاد جائز ہے، مگر Method تلوار کا نہیں قلم کا ہو، یہ بھی آپ کا ہے کوئی؟ اس پر…
مرزا ناصر احمد: ہاں، یہ سوال یہ ہے کہ اسلامی لٹریچر میں اور نبی اکرمa کے ارشادات میں تین جہادوں کا ذکر ہے۔ ایک کو ہمارا لٹریچر کہتا ہے ’’جہاد اکبر‘‘ اور اس کا مفہوم یہ لیا جاتا ہے: ’’اپنے نفس کے خلاف جہاد، محاسبہ نفس Self Criticism (محاسبہ خود) اصلاح نفس کی خاطر‘‘ اس کو اسلامی اصطلاح میں ’’جہاد اکبر‘‘ کہتے ہیں۔ اور ایک اسلامی اور قرآن کریم کی اصطلاح میں آتا ہے ’’ جہاد کبیر‘‘ اور وہ قرآن عظیم اور اسلام کی تبلیغ اور اشاعت کا نام اور قرآن کریم میں آیا ہے: قرآن کریم کو لے کر دنیا میں اس کی اشاعت کا جو کام ہے وہ قرآنی اصطلاح میں ’’جہاد کبیر‘‘ کہلاتا ہے۔ اور1072 ایک ’’جہاد صغیر‘‘ اور وہ تلوار کی جنگ یا اب جنگ کے حالات بدل گئے، اب بندوق اور ایٹم بم سے ہونے لگ گئی، بہرحال، مادی ذرائع سے انسانی جان کی حفاظت کے لئے یا لینے کے لئے تیار ہوجانا، یہ ہے ’’جہاد صغیر‘‘
تو جو آپ نے اب بات کی، دوسری، وہ جہاد کبیر سے تعلق رکھتی ہے، جہاد صغیر سے نہیں: قرآن کریم کی آیت ہے کہ اس قرآن کریم کو لے کے دنیا میں پھیلو اور اس ہدایت اور شریعت کو پھیلانے کا جہاد کرو، تبلیغ کا جہاد کرو۔
جناب یحییٰ بختیار: یہ تلوار کی جو …
مرزا ناصر احمد: نہ، نہ، قرآن کریم …
جناب یحییٰ بختیار: نہیں جی، میں تلوار کے جہاد کی Clarification چاہتا ہوں۔
مرزا ناصر احمد: وہ جہاد صغیر کہلاتا ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: یعنی وہ جو تھا، مرزا صاحب نے کہا انگریز کے دور میں وہ بھی منسوخ ہے …
مرزا ناصر احمد: حضرت مرزا صاحب نے، حضرت مرزا صاحب سے پہلے مجدد نے، اور اس وقت کے علمائے وقت نے یہ کہا…
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں مرزا صاحب کا … کیونکہ…
مرزا ناصر احمد: میں بتا چکا ہوں کہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اگر شرائط جہاد نہ ہوں، نہ پائی جائیں، تو جہاد نہیں ہوگا …
جناب یحییٰ بختیار: یہ تو ایک بات ہوگئی…
1073مرزا ناصر احمد: اور حضرت مرزا صاحب نے یہ کہا … باقیوں کی طرح … کہ اس وقت شرائط جہاد نہیں پائی جاتیں، ہمیں مذہبی آزادی ہے، اور …
جناب یحییٰ بختیار: ہاں یہ تو Clear (واضح) ہوگئی، آپ نے جو بات کی۔
دوسری بات۔ اس کی اگر شرائط موجود ہوں تو پھر وہ Method (طریقہ) جو ہے۔ وہ تلوار کا نہیں قلم کا؟
مرزا ناصر احمد: نہیں، نہیں …
جناب یحییٰ بختیار: یہ کہاں آتا ہے؟
مرزا ناصر احمد: اوہو ! میں نے اس کو تو Explain (واضح) کیا۔ جب جہاد کی شرائط موجود ہوں، جہاد صغیر کی، تو جہاد صغیر کیا جائے گا، یعنی تلوار کا جہاد اور جس وقت جہاد صغیر کی شرائط موجود نہ ہوں تو جہاد صغیر نہیں کیا جائے گا۔ یہ تو یہاں ختم ہوگیا…
جناب یحییٰ بختیار: ہاں جی۔
مرزا ناصر احمد: … باب بند۔ دوسرا باب شروع ہوا ہے جہاد کبیر کا، اور وہ ہے قلم کا جہاد، وہ ہ قرآن کریم کے معانی اور اشاعت کا جہاد۔ اس کا تعلق جہاد صغیر سے نہیں ہے۔ اس کو ’’جہاد کبیر‘‘ کہتا ہے قرآن کریم، اور جب جہاد صغیر … مسئلہ یہ ہے کہ اگر جہاد صغیر … تلوار کا جہاد… ملتوی ہو، بوجہ شرائط کے پوری نہ ہونے کے، تب بھی جو جہاد کبیر ہے، اس سے بڑا جہاد ہے، قلم کا جہاد، قرآن کریم کو لے کے دنیا میں اس کی اشاعت کرنے کا جہاد یہ نہیں کہ ایک آدمی کھڑے ہوکے کہہ دے کہ ’’تلوار کا جہاد نہیں ہے، اس لئے ہم تبلیغ کا جہاد بھی نہیں کریں گے‘‘ یہ غلط ہوگا … شرائط جہاد صغیر نہ ہوں موجود، تب بھی جہاد کبیر، قلم کا جہاد جو ہے، وہ ضروری ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: انگریز کے زمانے میں جہاد کبیر کے حالات موجود تھے مگر جہاد صغیر کے نہیں تھے؟
1074مرزا ناصر احمد: انگریز کے زمانہ میں اس وقت کے تمام کی رائے کے مطابق جہاد صغیر کے حالات نہیں تھے، مگر ہر زمانے میں جہاد کبیر کے حالات رہتے ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: یعنی اگر مسلمانوں کا ملک ہو، مسلمانوں کی حکومت ہو … یہ تو انگریز کی حکومت تھی … ادھر بھی جہاد کبیر چلتا رہتاہے؟
مرزا ناصر احمد: قرآن کریم کو، سنت کو قائم کرنا، اور اصلاح امت، جو اس ملک میں رہ رہی ہو، اس کی کوشش کرتے رہنا اور بیدار رہنا، کوئی وسوسہ، کوئی بدعت بیچ میں نہ آجائے، یہ جہاد کبیر ہے، یہ چلتا رہتا ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، وہ تو میں سمجھ گیا ہوں۔ یہ میرا Impression (تأثر) ہے کہ مرزا صاحب نے تلوار کو قلم سے Substitute (تبدیل) کیا۔
Mirza Nasir Ahmad: No, no…
(مرزا ناصر احمد: نہیں۔ نہیں …)
جناب یحییٰ بختیار: یہ جو ناں …
مرزا ناصر احمد: نہیں، نہیں یہ نہیں ہے۔ یہ کیا کہ قلم کے جہاد کی نہیں ہیں وہ شرائط یہاں موجود، لیکن جہاد کبیر کی اس زمانہ میں خاص کر ضرورت ہے، کیونکہ غیر مذاہب حملہ آور ہو رہے تھے …
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، نہیں، وہ تو میں سمجھ گیا ہوں …
مرزا ناصر احمد: یعنی یہ بڑی وضاحت سے ہے کہ اگر شرائط پوری ہوں گی تو احمدی لڑیں گے جاکر، باقی مسلمانوں کے ساتھ مل کے۔
جناب یحییٰ بختیار: اس پر بہت سارے سوال ہیں جی، میرے پاس۔ پھر میں ان میں سے ایک دو ذرا دیکھ کے، تاکہ ٹائم ضائع نہ ہو …
مرزا ناصر احمد: ہاں جی، مجھے تو آپ ریسٹ دے دیتے ہیں، شکریہ۔
1075جناب یحییٰ بختیار: ہیں جی؟
مرزا ناصر احمد: میں نے کہا مجھے آپ ذرا آرام پہنچا دیتے ہیں، شکریہ ۱؎
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ طنز کے نشتر۔ شکریہ کی آڑ میں۔ چلمن میں چھپی طوائف کا کردار سامنے آ رہا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جناب یحییٰ بختیار: تو ہم پانچ دس منٹ کی بریک کر لیتے ہیں؟
مرزا ناصر احمد: نہیں، میرا مطلب تھا کہ یہ بھی ایک ہوجاتا ہے ناں۔
جناب یحییٰ بختیار: پھر پانچ دس منٹ کی بریک کردیتے ہیں۔
مرزا ناصر احمد: ایک ہونی تو ہے کسی وقت۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، ہاں، انہوں نے کہا کہ ابھی کردیتے ہیں، تاکہ اس کے بعد آدھا گھنٹہ اور بیٹھ لیتے ہیں۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، ٹھیک ہے۔
Mr. Yahya Bakhtiar: Mr. Chairman Shall we have a fresh for five or ten minutes)
(جناب یحییٰ بختیار: جناب چیئرمین! کیا ہمیں پانچ یا دس منٹ کے وقفہ کی اجازت ہے؟)
(Interruption)
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، انہوں نے کل کہا ہے اور مجھ پر بہت پریشر ہے کہ یہ سوال آپ پوچھیں پہلے۔ ایک طرف ممبر صاحب کہہ رہے ہیں کہ ہمارے سوال سب پوچھیں، دوسری طرف سے وہ کہہ رہے ہیں کہ جلدی فیصلہ ہو۔
محترمہ قائمقام چیئرمین (ڈاکٹر مسز اشرف خاتون عباسی): نہیں، آج تو دس بجے تک چلیں گے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، تو ابھی بریک کرلیتے ہیں ناں جی، ابھی بریک کرلیتے ہیں۔
مرزا ناصر احمد: دس ساڑھے دس بجے تک چلائیں بیشک۔
1076جناب یحییٰ بختیار: ہاں جی، بیشک اب صرف پھر دس پندرہ منٹ …
مرزا ناصر احمد: ہاں، پندرہ منٹ کی بریک کرلیتے ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: … ایک پیالی چائے کی پی لیں گے، ذرا پھر اس کے بعد …
مرزا ناصر احمد: کیوں جی، اجازت ہے، چیئرمین سر؟
جناب یحییٰ بختیار: اجازت ہے؟ Break for five or fifteen minutes
محترمہ قائمقام چیئرمین: دس منٹ کے لئے۔
Mr. Yahya Bakhtiar: Fifteen minutes. Then we will come back at 9:30
(جناب یحییٰ بختیار: پندرہ منٹ، اس کے بعد ہم واپس آجائیں گے گے ساڑھے نو بجے)
Mirza Nasir Ahmad: 9:30?
(مرزا ناصر احمد: ساڑھے نو بجے؟)
Mr. Yahya Bakhtiar: 9:30
(جناب یحییٰ بختیار: ساڑھے نو بجے)
محترمہ قائمقام چیئرمین: اچھا۔
The Delegation is allowed to leave, and come back at 9:30
(وفد کو جانے کی اجازت ہے۔ وفد 9:30 بجے واپس آجائے)
(The Delegation left the Chamber)
(وفد ہال سے باہر چلا گیا)
Madam Chairman: I think the members may keep sitting. Otherwise, if you leave the Hall, we will not be able to come back and form the quorum.
(محترمہ چیئرمین: اراکین تشریف رکھیں۔ اگر آپ (اراکین) ہال سے باہر چلے گئے تو پھر کورم پورا رکھنا بہت مشکل ہوجائے گا)
The Special Committee adjourned for tea break to meet at 9:30 p.m.
(کمیٹی کا اجلاس چائے کے وقفہ کے لئے 9:30 تک ملتوی ہوا)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
چائے کے وقفے کے بعد دوبارہ کمیٹی کا اجلاس
(The Special committee re-assembled after tea break, Mr. Chairmnan (Sahibzada Farooq Ali) in the Chair)
(چائے کے وقفہ کے بعد خصوصی کمیٹی کا اجلاس دوبارہ شروع ہوا۔ جناب چیئرمین (صاحبزادہ فاروق علی) اپنی سیٹ پر)
Mr. Chairman: The Delegation may be called. Up to 10:15. We will sit up to 10:15
(جناب چیئرمین: وفد کو بلا لیں، ہم 10:15 تک کارروائی کریں گے)
1077(The Delegation entered the Chamber)
( وفد ہال میں داخل ہوا)
Mr. Chairman: Yes, Mr. Attorney General.
(جناب چیئرمین: جی اٹارنی جنرل صاحب)
جناب یحییٰ بختیار: یہ، مرزا صاحب ! یہ جہاد کے متعلق مجھے کچھ خیال ہے کہ مجھے کچھ Pages معلوم نہیں تھے۔ میں نے کتاب نکلوالی ہے۔ یہ ’’تبلیغ رسالت‘‘ سے، حصہ دوم، یہاں لکھا ہوا ہے Page (صفحہ) جلد ہفتم … Page17 پر ہے۔
’’میرے اصولوں، اعتقادوں اور ہداییتوں میں کوئی عمل جنگجوئی و فساد کا نہیں…‘‘
یہاں تک تو بالکل Clear ہے، کہ جنگجوئی، فساد تو ٹھیک بات نہیں: ’’… اور میں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھیں گے ویسے ویسے ہی مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے۔ کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی زمان مان لینا ہی مسئلہ جہاد سے انکار کرنا ہے۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۹)
اس کی Clarification کی ضرورت ہوگی کیونکہ ایک طرف تو وہ فرماتے ہیں کہ ’’جنگجوئی‘‘ وہ تو ٹھیک ہے اور بعد میں وہ فرماتے ہیں کہ: ’’میں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھتے جائیں گے ویسے ویسے ہی مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے۔ کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی زمان مان لینا ہی مسئلہ جہاد سے انکار کرنا ہے۔‘‘
تو ایک طرف تو آپ نے کہا کہ کیونکہ حالات ایسے ہیں کہ وہ ملتوی ہے اور یہاں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ مسیح آگیا ہے اور مہدی زمان آگیا ہے، اس لئے جہاد کی ضرورت نہیں، اگر میں اس کو صحیح سمجھا ہوں۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، ٹھیک ہے، یہ میں نے جو صرف ایک حوالہ، ا س سے تو مسئلہ حل نہیں ناں ہوتا اور حوالے بھی دیکھنے پڑیں گے۔
1078جناب یحییٰ بختیار: نہیں، وہ تو ٹھیک ہے۔ میں کہنا چاہتا ہوں کہ ایک آپ، یہ جو ہے ناں، اس کا آپ اگر تھوڑا سا Explain (واضح) کردیں۔
مرزا ناصر احمد: جی اس کے Explanation (وضاحت) کئی ہوسکتے ہیں۔ ایک تو یہاں ’’جہاد‘‘ سے شرعی اسلامی جہاد مراد نہیں، بلکہ جہاد کی وہ غلط Conception (تصور) ہے جو اس زمانہ میں پائی جاتی تھی اور یہاں یہ فرمایا ہے کہ: ’’جوں جوں میں اس مسئلے کو واضح کرتا چلا جاؤں گا کہ اسلام کے نزدیک یہ جہاد ہے اور تمہارا موجودہ تصور جہاد درست نہیں ہے، تو جو موجودہ غلط تصور ہے اس کے معتقدین کی تعداد بڑھنے سے وہ دوسروں کی تعداد کم ہوتی چلی جائے گی۔‘‘ اور دوسرے وہ جو ہے شرائط کے متعلق، وہ بھی اس کے ساتھ آئے گا کہ اگر یقین لوگوں کے نزدیک شرائط جہاد ہیں … یہ کوئی ایسا بھی ہوسکتا ہے … حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے بڑی وضاحت سے یہ تحریر فرمایا ہے کہ جب بھی جہاد کی شرائط موجود ہوں، لڑنا پڑے گا۔ یہ فرض ہے مسلمان احمدی کا۔ سارے فرقوں کا یہ Common (مشترکہ) مسئلہ ہے، کوئی علیحدہ تو نہیں۔
مثلاً ایک میں چھوٹا سا حوالہ میں پڑھ دیتا ہوں اس کے مقابلے میں، ان دونوں کو ملا کر … یہ ’’نورالحق‘‘ حصہ دوم میں ہے: ’’… بلکہ صرف ان لوگوں کے ساتھ لڑنے کا حکم فرماتا ہے جو خدا تعالیٰ کے بندوں کو ایمان لانے سے روکیں اور اس بات سے روکیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے حکموں پر کاربند ہوں اور اس کی عبادت کریں، اور ان لوگوں کے ساتھ لڑنے کے لئے حکم فرماتا ہے جو مسلمانوں سے بے وجہ لڑتے ہیں اور مؤمنوں کو ان کے گھروں اور وطنوں سے نکالتے ہیں اور خلق اللہ کو جبراً اپنے دین میں داخل کرتے ہیں اور دین اسلام کو نابود کرنا چاہتے ہیں اور لوگوں کو مسلمان ہو1079نے سے روکتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر خدا تعالیٰ کا غضب ہے اور مومنوں پر واجب ہے جو ان سے لڑیں اگر وہ باز نہ آویں۔‘‘
تو یہاں جہاد کی ان شرائط کے پورا ہونے کے ساتھ جہاد کے وجوب کا فتویٰ دے دیا۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، مرزا صاحب ! میں جو پوزیشن Clarify (واضح) کرانا چاہتا تھا، ایک تو آپ نے فرمایا کہ جہاد کی بعض شرائط ہوتی ہیں، اگر وہ شرائط موجود ہوں تو جہاد فرض ہوجاتا ہے، ورنہ جائز نہیں۔ پھر دوسرا ساتھ یہ سوال آجاتا ہے کہ چونکہ وہ مسیح موعود ہیں، مہدی آخرالزمان ہیں، ان کے آنے کی وجہ سے جہاد بالکل ہی ختم ہے۔ اب یہ کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ حالات ہوں یا نہ ہوں یہ میں اس وقت پوزیشن…
مرزا ناصر احمد: ہاں نہیں، یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: یہ پوزیشن نہیں ہے؟
مرزا ناصر احمد: نہیں، یہ پوزیشن نہیں ہے، بالکل نہیں ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: ’’… جیسا کہ حدیثوں میں پہلے لکھا گیا تھا کہ جب مسیح آئے گا تو دین کے لئے لڑنا حرام کیا جائے گا…‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۸۴)
مرزا ناصر احمد: کوئی شرائط پوری نہیں ہوں گی اور…
جناب یحییٰ بختیار: ’’… سو آج سے دین کے لئے لڑنا حرام کیا گیا۔‘‘ (ایضاً) تو یہ تو ملتوی نہیں ہوا۔
مرزا ناصر احمد: وہ دوسری جگہ ملتوی کرنے کا لکھا ہوا ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، یہ میں کہہ رہا ہوں کہ دونوں کے لئے…
1080مرزا ناصر احمد: دین کے لئے وہ کردیا گیا التوا۔ وہ اردو کے شعروں میں ہے کہ وہ دینی جنگوں کا التوا کردے گا، میرا طلب صرف ایک ہے، اصولی، کہ تمام اقتباسات سامنے رکھ کر پھر ہم صحیح نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب ! میں اسی لئے تو آپ سے درخواست کررہا ہوں کہ آپ کا اپنا جو Concept (تصور) ہے…
مرزاناصر احمد: میرا تصور یہ ہے کہ شرائط پوری ہوں تو ہر مومن کے لئے جہاد کرنا تلوار کے ساتھ…
جناب یحییٰ بختیار: وہ میں سمجھ گیا۔ کیونکہ میرے پاس حوالے تھے لیکن کتاب نہیں تھی، اس لئے میں نے ان سے کہا کہ مجھے دے دیجئے …
مرزا ناصر احمد: اس روشنی میں اس کی Interpretation (تعبیر) ہوگی۔
جناب یحییٰ بختیار: ’’… کیونکہ یہاں اتنے Clear (واضح) الفاظ میں وہ کہتے ہیں کہ کیونکہ مسیح موعود آگئے ہیں، جہاد تو وہی ہے دین کے لئے لڑنا، یہ تو یعنی Clear (واضح) ہے، جہاد اور جنگ ونگ تو اور بات ہوتی ہے۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، ’’دین کی جنگوں کا التوا کردے گا۔‘‘ دوسری جگہ یہ ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، ہاں،جہاد تو ہم اسی کو کہتے ہیں جو دین کے لئے لڑے۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، دین کی لڑائی۔
جناب یحییٰ بختیار: وہ تو یہ کہہ رہے ہیں کہ: ’’آج سے دین کے لئے لڑنا حرام کیا گیا ہے۔‘‘
مرزا ناصر احمد: شرائط پوری نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، وہ یہ…
1081مرزا ناصر احمد: نہیں، وہ دوسری جگہ لکھا ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، یہاں کا میں کہہ رہا ہوں۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، میرا مطلب یہ ہے کہ دوسری جگہ یہ التواء میں کردیا۔
جناب یحییٰ بختیار: یہاں Reasons ہیں، وہاں حالات اور شرائط کی موجودگی میں نہ ہوگا۔
مرزا ناصر احمد: یہاں Reasons … اچھا، اگر مجھے اجازت دیں، جب آپ کا سوال ختم ہوجائے تو میں بتا دوں گا۔
جناب یحییٰ بختیار: یہ میں پڑھ لیتا ہوں پورا اس کو۔ پورا پیرا یہاں سے شروع ہوتا ہے، جس کی مجھے ٹھیک سمجھ نہیں آتی: ’’… تیسرے وہ گھنٹہ جو مینارہ کے کسی حصہ دیوار میں نصب کرایا جائے گا۔ اس کے نیچے یہ حقیقت مخفی ہے تاکہ لوگ اپنے وقت کو پہچان لیں، یعنی سمجھ لیں کہ آسمان کے دروازوں کے کھلنے کا وقت آگیا۔ اب سے زمینی جہاد بند ہوگیا اور لڑائیوں کا خاتمہ ہوگیا، جیسا کہ حدیثوں میں پہلے لکھا گیا تھا کہ جب مسیح آئے گا تو دین کے لئے لڑنا حرام کیا جائے گا۔ تو آج سے دین کے لئے لڑنا حرام کیا گیا ہے۔ اس کے بعد جو دین کے لئے تلوار اٹھاتا ہے، غازی نام رکھا کر کافروں کو قتل کرتا ہے، وہ خدا اور اس کے رسول کا نافرمان ہے۔ صحیح بخاری کو کھولو اور اس حدیث کو پڑھو جو مسیحی موجود کے حق میں ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۸۴،۲۸۵)
تو یہاں مرزا صاحب جو فرما رہے ہیں، جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں، کیونکہ وہ مسیح ہیں، مسیح موعود ہیں، وہ آچکے ہیں، اس لئے یہ کتابوں میں، حدیثوں کی یہی اتھارٹی ہے کہ جب وہ آئیں گے تو دین کے لئے لڑنا حرام ہو جائے گا۔ تو یہ حالات کے لئے Postpone (ملتوی) نہیں ہوتا۔ اس کے لئے آپ کہیں۔
1082مرزا ناصر احمد: ہاں، آپ کا سوال ختم ہوگیا؟ میری باری؟ پھر تشریف رکھیں، شاید لمبا کردوں۔ اس میں یہ جو عبارت آپ نے ابھی پڑھی، اس سے، آخری جو اس کے فقرے تھے، سے عیاں ہے کہ جو بھی مضمون بیان ہوا ہے وہ احادیث کی شرح ہے۔ تو احادیث کو سامنے رکھیں، پھر پتہ لگے گا کہ شرح درست ہوئی ہے یا نہیں۔ تو آپ اجازت دیں تو کل میں حدیثیں آپ کے سامنے یہاں بیان کرکے…
جناب یحییٰ بختیار: وہ تو جی میں کہہ رہا ہوں کہ حدیثوں میں تو یہی ہے کہ مسیح آئے گا تو اس کے بعد جہاد حرام ہو جائے گا۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، وہ نہیں ناں۔ اچھا، میں پھر ابھی بیان کردیتا ہوں۔ ہاں، میں ابھی بیان کردیتا ہوں۔ حدیث میں یہ ہے کہ مہدی اور مسیح کے آنے کے وقت شرائط جہاد نہیں ہوں گی اور اس وقت اسلام کی جنگیں جو ہیں وہ جہاد کبیر کی شکل میں لڑی جائیں گی۔ جہاد صغیر کی شکل میں نہیں لڑی جائیں گی، امن کا زمانہ ہوگا، وہ تمام شرائط کہ دینی لحاظ سے جبر کیا جاتا ہے، روکا جاتا ہے ان کو، وہ زمانہ نہیں ہوگا اور اس کا جو پہلا اطلاق ہے وہ صرف مہدی موعود کی زندگی کے ساتھ ہے اور آپ کی زندگی میں اور بھی یہاں ہندوستان کسی نے جہاد کی شرائط کے پورا ہونے کا اعلان نہیں کیا۔ وہ حدیثوں میں آتا ہے اس کی جو شرح ہم کرتے ہیں، میرا خیال ہے اور میرے ذہن میں نہیں، پہلے بزرگ بھی یہی کرتے ہیں کہ وہ احادیث جن میں یہ ذکر ہے کہ مہدی اور مسیح کے آنے کے وقت: صاف ہیں الفاظ کہ: ’’وہ حرب کو رکھ دے گا، منسوخ کردے گا۔‘‘ نہیں ہے۔ یعنی ’’ملتوی کردے گا۔‘‘ یہ عربی کا محاورہ ہے۔ ایک تو مہدی کی زندگی میں جہاد کی شرائط پوری نہیں، اس1083 لئے … یعنی ہمارے اپنے ایمان کے مطابق، میں اپنی بات کررہا ہوں … اور مہدی کی زندگی میں، یہ Clash (تصادم) ہی نہیں ہوا کہ فتویٰ دیا ہو، ملت نے، کہ جہاد کی شرائط پوری ہوگئیں، اور بزرگان دین جہاد کے لئے میدان میں چلے گئے، اور جماعت احمدیہ پیچھے رہ گئی۔ اب یہ تو تاریخ بن گئی ناں۔ ۱۹۰۸ء میں بانی سلسلہ احمدیہ کا وصال ہوگیا۔ آپ کے دعویٰ سے لے کر آپ کے وصال تک احادیث کے مطابق امن کا زمانہ تھا، نہ کہ جنگ کا، اور جہاد کبیر کازمانہ تھا، نہ کہ جہاد صغیر کا اور اس کی طرف میں نے ابھی ایک حوالہ پڑھا۔ دس پندرہ حوالے ہوں گے جو روشنی ڈالتے ہیں اور اس عرصے میں … ایک پوائنٹ ہے میرا۔ محدود کردیا ناں میں نے زمانہ … دعویٰ سے لے کر آپ کے وصال تک ہندوستان کے علماء نے یہ فتویٰ دیا ہی نہیں کہ جہاد کا زمانہ ہے، اور نہ ہندوستان میں علماء کے گروہ دوسروں کے ساتھ مل کر جہاد کے میدان میں نکلے، بلکہ سب نے امن کا زمانہ کہا، امن کازمانہ کہا۔ اور جہاں تک انگلستان کی سلطنت کا سوال ہے، آپ کو الہام بتایا گیا کہ ۸سال کے بعد … ۸سال تک ان کا رعب ہے اس کے بعد یہ سلطنت برطانیہ پر زوال آجائے گا، زوال شروع ہوجائے گا اور اس زوال کی ابتدا ملکہ وکٹوریا کے مرنے کے ساتھ ہوئی ہے۔ یعنی وہ آٹھ سال پورے ہوگئے ہیں، الہام کے مطابق اور اس کے بعد سے آج تک وہ کہاں ہے، وہ برٹش ایمپائر جس کے اوپر سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا؟ آج وہ برٹش ایمپائر ہے جو سورج کی کرنوں کو ڈھونڈنے کے لئے دنیا میں پھر رہے ہیں۔
تو میرا مطلب یہ ہے کہ دعویٰ سے لے کر آپ کی وفات تک علماء نے کہا بھی ہندوستان میں جہاد کا فتویٰ نہیں دیا، نہ علماء صاحبان … جس طرح ہمارے پرانے بزرگ میدان جہاد میں جایا کرتے تھے … لڑنے کے لئے اکٹھے ہو کر لڑائی کے لئے گئے۔ اس1084 کے بعد کا زمانہ ایک آتا ہے… میں آگے چلتا ہوں … کیونکہ وہ بھی شاید ممکن ہے، پرانے سوال ہیں ہمارے اوپر ہوئے ہوئے کوئی پچاس سال سے چلا آرہا ہے، کوئی تیس سال سے۔ بہرحال جنگ ہوئی۔ اس جنگ کو، ہمارے نزدیک، یہ جو جنگ لڑی گئی، یہ دنیا کی جنگ تھی، مسلمانوں کی حکومتوں کی جنگ نہیں تھی، لیکن مسلمان کروڑوں کی تعداد میں اس سے متأثر ہوگئے۔ اس وقت ایک چیز ہمارے سامنے آئی اور وہ یہ تھی کہ ہمارے خلیفۃ المسلمین … یعنی یہ درست ہے، آج میں مانتا ہوں کہ چونکہ، ہمارے نزدیک، مہدی آگئے تھے، اس واسطے ’’خلیفۃ المسلمین‘‘ ہم ان کو نہیں سمجھتے لیکن جماعت احمدیہ، جس کی تعداد اس وقت بڑی تھوڑی تھی، اس کے علاوہ تمام دنیا کے مسلمان خلافت عثمانیہ ترکیہ کو ’’خلیفۃ المسلمین‘‘ ان کو کہتے تھے، اور وہ خلافت کے تھے … اور ہمارے خود ہندوستان میں خلافت موومنٹ چلی اس جنگ میں وہ ملوث ہوگئے۔ اس لئے انہوں نے Allies (اتحادیوں) کے خلاف جو محاذ تھا، اس کا ساتھ دیا۔
اس وقت ساری دنیا کا پریشر شریف مکہ پر پڑا کہ خلیفۃ المسلمین انگریزوں سے برسرپیکار ہے اور اس کو تم جہاد "Holy War" (مقدس جنگ) اس کا ترجمہ یہ کیا جاتا ہے، پتہ نہیں درست یا غلط … بہرحال مجھے جہاد سے تعلق ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ اس کو جہاد قرار دو، Holy War (مقدس جنگ) قرار دو۔ شریف مکہ … اس وقت First World War (پہلی عالمی جنگ) کی میں بات کرتا ہوں… وہ ان کے لئے Dilemma (معمہ) تھا۔ اگر وہ اسے جہاد قرار دے، Holy war (مقدس جنگ) قرار دے، تو انگریز جس سے وہ پیسے بھی لے رہے تھے اور بندوقیں اور ایمونیشن بھی لے رہے تھے اپنی حکومت کو قائم کرنے کے لئے، وہ ناراض ہوتا تھا اور ان کے پیسے بھی بند ہوتے تھے اور وظیفہ بھی بند ہوتا تھا اور بندوقوں کی سپلائی بھی بند ہوتی تھی 1085اور اگر وہ اسے جہاد قرار نہ دیں تو سارے دنیا کے مسلمان ناراض ہوتے تھے۔ بڑا پریشر پڑا ہوا تھا۔ میں نے بتایا کہ یہاں بھی ایک خلافت موومنٹ چلی، چنانچہ انہوں نے اس وقت یہ Dilemma (معمہ) دیکھ کے ابن سعود کے پاس اپنا ایک معتمد بھیجا … یہ تاریخ کا ایک ورق ہے، ثبوت کتابیں ہیں ہمارے پاس… اور ابن سعود، جو بھی ان کے خاندان کے تھے اس وقت نجد کے حاکم … یہ تو جہاد کے ہیں، وہ نجد کے تھے … ان کو، معتمد کو کہا: ’’صاف بات کرو جاکے۔ اگر میں اسے جہاد قرار دیتا ہوں خلیفۃ المسلمین کی جنگ ہے، درست ہے… تو میرے جیسے بھی مارے جاتے ہیں اور میری سپلائی آرمز کی جو ہے وہ بھی بند ہوتی ہے اور اگر میں جہاد قرار نہیں دیتا تو مسلمان میرے پیچھے پڑ جائیں گے، حج کے اوپر میرے تکے بوٹی کریں گے، وغیرہ وغیرہ میں بڑی پریشانی میں ہوں۔ تم بتاؤ کیا مشورہ ہے؟‘‘
ابن سعود کا خاندان اس وقت انگریز کے پیسے بھی لے رہا تھا اور بندوق بھی لے رہا تھا۔ جس Dilemma (معمہ) اور مصیبت میں یہ تھے اسی Dilemma (معمہ) اور مصیبت میں ابن سعود کا خاندان نجد میں تھا۔ چنانچہ انہوں نے اس معتمد سے مشورہ کرکے شریف مکہ کو پیغام بھیجا کہ: ’’تم اسے جہاد بالکل قرار نہ دینا اور میں تمہارے ساتھ ہوں۔‘‘ اور اس وقت انہوں نے یہ فتویٰ جہاد کے خلاف اس جنگ میں اس وجہ سے دیا کہ … تاریخ یہ ریکارڈ کرتی ہے … کہ نجد کی، ابن سعود کے خاندان کی ٹوٹل انکم، کل آمدن حکومت کی ایک لاکھ پونڈ سٹرلنگ تھا، اور انگریز نے ان کو ماہانہ دیا، پانچ ہزار اور ساٹھ ہزار پونڈ سٹرلنگ، In Gold coin یہ ان کو دیا، جس کا مطلب ہے کہ ان کی ٹوٹل آمدن کا ساٹھ فیصد، اور تین برین گنیں … چھوٹی سی ان کی فوج تھی … اور تین ہزار بندوقیں۔ ایک وقت 1086وہ کتابوں میں اس کا ذکر آیا ہے۔ تو یہ جنگ چونکہ تھی نہیں، میرا مطلب ہے کہ دنیا کی جنگ تھی، کئی ہم پر یہ اعتراض کردیتے ہیں کہ اسے جہاد کیوں نہیں قرار دیا؟ حالانکہ بعض مسلمان کے سے انگریز کے خلاف لڑ رہے تھے۔
وہ تو صاف ظاہر ہے کہ وہ دنیا کی ایک جنگ تھی، مسلمانوں کا ایک طبقہ، ایک گروہ، ایک حصہ انگریز کے ساتھ مل کر دوسروں کے ساتھ لڑ رہا تھا، اور ایک حصہ دوسروں کے ساتھ مل کر انگریزوں کے ساتھ لڑ رہا تھا۔ یہ ہمارے ہندوستان سے ہزاروں کی تعداد میں تو باہر نہیں ہوں، شاید لاکھوں کی تعداد میں فوج گئی ہو وہاں اور اس کے اوپر یہ ایک چھوٹا سا … یہ جو میں نے باتیں کی ہیں، ان کے حوالے میرے پاس ہیں اور جو ان کا ایک افسر … نجد کا تعلق تھا، وائسرائے انڈیا کے ساتھ اس وقت … ایس اے ہابکن، یہ ان کا ایک خط ہے، اس کی فوٹو سٹیٹ کاپی ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب ! بات یہ ہے کہ میں نہیں سمجھتا کہ آپ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ جہاد نہیں تھا وہ لڑائی تھی، یا وہ جہاد تھا اور انہوں نے رشوت لی اور کہہ دیا کہ جہاد نہیں ہے؟
مرزا ناصر احمد: ہمارے نزدیک تو جہاد نہیں تھا۔
جناب یحییٰ بختیار: آپ کے نزدیک نہیں تھا تو پھر سوال ہی نہیں آتا ان چیزوں کا۔
مرزا ناصر احمد: اچھا جی، ٹھیک ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: دیکھیں نا جی، کیونکہ دو پوائنٹس آف ویو ہیں۔ ایک کہتا ہے کہ جہاد نہیں…
مرزا ناصر احمد: ہم پر یہ اعتراض کردیتے ہیں، اس لئے میں سمجھتا تھا کہ شاید ہے۔ لیکن اگر نہیں تو ٹھیک پھر میں معافی مانگ لیتا ہوں۔ میں نے وقت ضائع کیا ہے ہاؤس کا۱؎۔
1087جناب یحییٰ بختیار: نہیں وہ آپ… میں تو صرف یہ سوال جو میرے سامنے ہیں کہ جہاد۔ آپ نے فرمایا ہے کہ آپ کا عقیدہ یہ ہے کہ جب وہ شرائط موجود ہوں تو فرض، ورنہ وہ جائز نہیں تو دوسرا یہ مسئلہ سامنے آجاتا ہے کہ مسیح موعود کے زمانے میں، جب وہ واپس آئیں گے تو یہ: ’’حدیثوں میں لکھا گیا ہے کہ جب مسیح آئے گا تو دین کی وجہ سے لڑنا حرام کیا جائے گا…‘‘
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ اس طرح معافی مانگ رہے ہیں جس طرح ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گورداسپور سے مرزا قادیانی نے معافی مانگی تھی کہ آئندہ میں موت کا کوئی الہام شائع نہیں کروں گا۔ یہ نبوت کا گھرانہ ہے یا معافی خواستگاروں کا ٹولہ؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مرزا ناصر احمد: (عربی)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(آج سے دین کے لئے لڑنا حرام کیاگیا؟)
جناب یحییٰ بختیار: ’’… آج سے دین کے لئے لڑنا حرام کیا گیا۔‘‘ اس کا شرائط سے کوئی تعلق نہیں ہے، آپ سمجھتے ہیں کیونکہ مسیح آچکا ہے …!
مرزا ناصر احمد: دیکھیں ناں، حدیث چونکہ نبی اکرمﷺ کا قول ہے …
جناب یحییٰ بختیار: نہیں جی، وہی میں کہہ رہا ہوں ناں جی۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، میرا مطلب یہ ہے کہ اس حدیث کے سوائے یہ معنی، کے اور کوئی معنی ہو ہی نہیں سکتے کہ مسیح کے زمانے میں ایک عرصے تک جہاد کی شرائط پوری نہیں ہوں گی۔
جناب یحییٰ بختیار: یعنی وہ حرام ہوگیا، اس وجہ سے…
مرزا ناصر احمد: ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: … کہ مسیح آگئے۔
1088مرزا ناصر احمد: نہیں، حدیث میں ہے کہ مسیح کے آنے پر، یعنی اس زمانے میں، شرائط جہاد پوری نہیں ہوں گی اور جو شرائط جہاد پوری نہ ہوئے باوجود ’’جہاد‘‘ کہہ کے لڑنا وہ غلط ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: دیکھیں ناں جی، یہاں مرزا صاحب جو مہدی اپنے آپ کو کہتے تھے، وہ کہتے ہیں کہ وہ آگیا ہے۔ اسی زمانے میں، اسی وقت ایک مہدی سوڈان میں بھی آیا اور اس نے کہا کہ جہاد ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ اس زمانے میں کسی نے نہیں کیا۔ ہندوستان میں نہیں کیا ہوگا…
مرزا ناصر احمد: کیا چیز؟
جناب یحییٰ بختیار: ہندوستان میں بھی، آپ کہتے ہیں …
مرزا ناصر احمد: کہاں آئے مہدی؟ سوڈان میں؟
جناب یحییٰ بختیار: سوڈان میں۔
مرزا ناصر احمد: سوڈان میں۔ مہدی سوڈانی کا زمانہ اور مسیح موعود کا زمانہ بالکل مختلف ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: وہ ان کی جو Actual (حقیقی) لڑائی تھی وہ کچھ بعد ہوتی ہے، مگر جو زمانہ ہے وہ Contemporary (ہم عصر) ہے۔
مرزا ناصر احمد: کچھ حصہ، بالکل اوپر کا۔
جناب یحییٰ بختیار: یعنی تھوڑا سا سہی۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، بات یہ ہے کہ یہاں بات بانی ٔ سلسلہ کی یا مہدی سوڈانی کی نہیں…
1089جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں یہ نہیں کہہ رہا…
مرزا ناصر احمد: یہاں بات ہے حدیث شریف کی …
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، حدیث شریف میں تو یہ ہے کہ مہدی آئیں گے، مسیح موعود آئیں گے، تو اس کے بعد حرام ہے۔ کوئی Conditions (شرائط) کا سوال پیدا نہیں ہوتا کہ شرائط ہیں کہ نہیں۔ اس سے میں یہ مطلب سمجھا ہوں۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، حدیث میں یہ ہے کہ شریعت محمدیہ کا ایک حکم اس وقت سے قیامت تک منسوخ رہے گا؟ میں نہیں سمجھتا۔
جناب یحییٰ بختیار: یہاں جو میں سمجھا ہوں اس سے کہ … اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ مرزا صاحب کی جب تک زندگی تھی، اس میں، کے لئے حرام ہوگیا، تب تو میں اس پر سمجھ سکتا ہوں کہ وہ آگئے ہیں، وفات پاچکے ہیں، اس واسطے پھر جاری ہوگیا۔ یا یہ کہ جب وہ آگئے، اس کے بعد ہمیشہ کے لئے…
مرزا ناصر احمد: … ہاں، ’’ہمیشہ کے لئے‘‘ نہیں کہتے بالکل۔ حضرت بانی ٔ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے حوالے ہیں۔ ابھی میں نے ایک حوالہ پڑھا ہے۔ میں نے تو Explain (واضح) کردیا پورا۔ میں نے اپنی طرف سے جواب دے دیا ہے، بس۔
جناب یحییٰ بختیار: یہ میں آپ سے کہہ رہا ہوں کہ: ’’جب مسیح آئے گا تو جہادی لڑائیوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔ تو مسیح آچکا اور یہ ہے جو تم سے بول رہا ہے‘‘
ایک سوال مجھ سے یہاں پوچھا گیا کہ: کیا مرزا صاحب کے آتے ہی شرائط جہاد ختم ہوگئی ہیں؟
مرزا ناصر احمد: Dead Line (حتمی زمانہ) تو میں نہیں بتا سکتا، لیکن آپ کے زمانے میں شرائط نہیں تھیں۔
1090جناب یحییٰ بختیار: نہیں، یہ، میں، کہتا ہوں، تھیں۔
مرزا ناصر احمد: ویسے، یہ دیکھیں ناں ایک اور حوالہ بھی ہے کہ جب تک یہ شرائط رہیں اس وقت تک بند رہے گا، اور جب تک خدا تعالیٰ کوئی دوسری صورت دنیا میں ظاہر کردے اور پھر جہاد جو ہے وہ ہوجائے گا۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، وہ آپ نے فرمایا میں نے وہ، وہ ’’محضر نامہ‘‘ میں ہے…
مرزا ناصر احمد: جی۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، نہیں، میں کہتا ہوں، وہ ’’محضر نامہ‘‘ میں یہ نہیں ہے جو میں آپ کو پڑھ کر سنا رہا تھا، اس لئے کیونکہ اس کی Clarification (وضاحت) ضروری ہوجاتی ہے۔
مرزا ناصر احمد: اس لئے کہ وہ سارے ہم نے حوالے دیئے تو…
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، یہ جو ہے، مجھے بتا گیا ہے کہ یہ پوچھوں آپ سے۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں، وہ ٹھیک ہے، پوچھیں آپ۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(کیا شاہ عبدالعزیز دہلویؒ نے ہندوستان کو دارالحرب نہیں قرار دیا تھا؟)
جناب یحییٰ بختیار: پھر مجھ سے جی، دو سوال اور پوچھے گئے ہیں کہ: کیا شاہ عبدالعزیز دہلوی نے ہندوستان کو دارالحرب نہیں قرار دیا تھا؟
ایک اور سوال ہے، ساتھ ہی: جس جہاد کو انگریزوں نے Wahabi Revolt (وہابی بغاوت) کہا ہے، اس میں علماء شریک تھے یا نہیں؟
مرزا ناصر احمد: یہ کیا ہے؟ یہ تاریخی ہے؟ بڑا دلچسپ سوال: جس جہاد کو…
جناب یحییٰ بختیار: انگریزوں نے Wahabi Revolt (وہابی بغاوت) …
مرزا ناصر احمد: کس زمانے کے متعلق بات ہے یہ؟
1091Wahabis were fighting against Turks all the time with money and…
(وہابی ہمیشہ ترکوں سے برسرپیکار رہے، مال سے اور…)
جناب یحییٰ بختیار: کہتے ہیں کہ ۱۸۶۴ء
مرزا ناصر احمد: ہیں؟
جناب یحییٰ بختیار: ۱۸۶۴ء کہتے ہیں کہ اس زمانے کی بات ہے یہ، آخر تک چلتا رہا ہے یہ …
مرزا ناصر احمد: یعنی اس کے بعد سے لے کر؟
جناب یحییٰ بختیار: وہی جو آپ کہتے ہیں ناں کہ انہوں نے رشوت لی تھی۔
مرزا ناصر احمد: وہ یہ پڑے ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، وہ تو آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ جہاد نہیں تھا، وہ رشوت لے لی تھی۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، میں یہ کہہ رہا ہوں کہ اس زمانے کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد بعض دفعہ ہم یہ بھی اعتراض کردیتے ہیں۔ لیکن ہمارے، یہ سعودی خاندان جو ہے، وہ ان کی جو سیاست تھی، وہ مختلف ادوار میں سے گزر رہی تھی۔ ان پر میں اعتراض نہیں کررہا۔ ہمارے نزدیک تو وہ جہاد ہی نہیں تھا۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، یہ کہتے ہیں کہ انڈیا کی جنگ کو انگریزوں نے Wahabi Revolt (وہابی بغاوت) کہا تھا۔ وہ میں ان سے Clarify (واضح) کرکے پھر آپ سے پوچھوں گا۔ جب تک پوزیشن Clear نہ ہو …
مرزا ناصر احمد: No, no, انڈیا کی جنگ میں تو ابن سعود ان کا ساتھ دے رہا تھا، یعنی یہ آخری جو فرسٹ ورلڈ وار میں …
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، اس سے پہلے کی بات کریں جی، فرسٹ ورلڈ وار کی بات نہیں کررہے۔
1092مرزا ناصر احمد: اچھا! فرسٹ ورلڈ وار سے پہلے کی بات ہے۔ کس زمانے کی بات ہے؟ میں نے یہی کہا تھا کہ پیریڈ…
جناب یحییٰ بختیار: وہ میں Verify (تصدیق) کروں گا ڈیٹس وغیرہ، تاکہ اس میں پھر بعد میں ذرا شک پیدا نہ ہو۔
Mr. Chairman: There were two questions: one has been answered, the other has been deferred. And first reply has come. The Attorney General put two supplementaries what was, the other?
(جناب چیئرمین: دو سوال تھے۔ ایک پر بحث ہوچکی ہے، پہلا جواب ابھی نہیں ملا۔ اٹارنی جنرل سے دو ضمنی سوال کئے تھے دوسرا کیاسوال تھا؟)
Mr. Yahya Bakhtiar: The other question was:
(جناب یحییٰ بختیار: دیگر سوال کئے تھے)
شاہ عبدالعزیز دہلوی صاحب نے ہندوستان کو دارالحرب نہیں قرار دیا تھا؟
مرزا ناصر احمد: نہیں یہ تو کوئی حوالہ ہو تب ہے ناں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، اگر آپ کہتے ہیں کہ نہیں کہا تھا یا آپ کو نہیں معلوم …
مرزا ناصر احمد: تو پھر وہ مبہم رہ جائے گا۔ ہمیں بتایا جائے کہ شاہ عبدالعزیز صاحب نے اس کو قرار دیا تھا یا نہیں دیا تھا، تو تب پھر میں جواب دے سکتا ہوں۔ لیکن یہ کہ: ’’کیا فلاں شخص نے یہ کہا تھا یا نہیں کہا تھا؟‘‘ یہ سوال تو نہیں ناں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں ایسے سمجھ لیجئے کہ: ’’شاہ عبدالعزیز صاحب نے ہندوستان کو دارالحرب قرار دیا تھا یا نہیں؟‘‘
مرزا ناصر احمد: اس کا حوالہ کیا ہے؟
جناب یحییٰ بختیار: کوئی بھی نہیں۔ میں اس واسطے کہہ رہا ہوں کہ میں نے ان کے حوالے بند کرا دیئے ہیں۔
مرزا ناصر احمد: بس ٹھیک ہے…
جناب یحییٰ بختیار: … آپ سے سوال پوچھتے ہیں، آپ کہیں کہ ’’مجھے علم نہیں ہے اس کا‘‘ یا ’’کہا تھا‘‘ یا ’’نہیں تھا کہا‘‘
1093مرزا ناصر احمد: میں کہتا ہوں کہ یہ اس قسم کا سوال ہے جس کا جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے۔
یہ کس وقت، جناب چیئرمین صاحب ختم ہوگا؟
جناب چیئرمین: سوا دس کردیں گے۔
مرزا ناصر احمد: سوا دس بجے؟
Mr. Chairman: Only about 7 minutes.
مرزا ناصر احمد: ہاں، اچھا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جہاد کا حکم موقوف کر دیا گیا؟)
جناب یحییٰ بختیار: ایک اور سوال ہے جی، حوالہ میں پڑھ کے سنا دیتا ہوں میں آپ کو، کہ: ’’جہاد یعنی دینی لڑائیوں کی شدت کو خدا تعالیٰ آہستہ آہستہ کم کرتا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں اس قدر شدت تھی کہ ایمان لانا بھی قتل سے بچا نہیں سکتا تھا اور شیر خوار بچے بھی قتل کئے جاتے تھے۔ پھر ہمارے نبیa کے وقت میں بچوں اور بوڑھوں اور عورتوں کا قتل کرنا حرام کیا گیا۔ پھر بعض قوموں کے لئے بجائے ایمان کے صرف جزیہ دے کے مواخذہ سے نجات پانا قبول کیا گیا اور پھر مسیح موعود کے وقت میں قطعاً جہاد کا حکم موقوف کردیا گیا۔‘‘
(اربعین نمبر۴ ص۱۳ حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۴۴۳)
مرزا ناصر احمد: یعنی اس کا جواب میں دے دوں ابھی؟
جناب یحییٰ بختیار: ہاں جی۔
مرزا ناصر احمد: یہاں ’’منسوخ‘‘ معنی ’’التوا‘‘ کے ہے، جیسا کہ دوسرے حوالوں سے ثابت ہے۔
1094جناب یحییٰ بختیار: ٹھیک ہے، بس وہ کافی ہے … ’’قطعاً موقوف‘‘ کا مطلب ہے ’’ملتوی‘‘
مرزا ناصر احمد: ’’موقوف‘‘ کا مطلب ہی ’’ملتوی‘‘ ہے۔ میں سمجھا تھا ’’منسوخ‘‘ ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، نہیں …
مرزا ناصر احمد: ’’موقوف‘‘ … ایک وقفے تک کے لئے پیچھے ڈال دیا گیا۔
مرزا ناصر احمد: جی، میں پڑھتا ہوں، تاکہ پھر نہ ہو وہ:
’’مسیح موعود کے وقت قطعاً جہاد کا حکم موقوف کردیا گیا۔‘‘
مرزا ناصر احمد: ہاں، ’’موقوف کردیا گیا‘‘ … ’’موقوف کے معنی ہی التوا کے ہیں، وقفہ ڈالنے کے۔
جناب یحییٰ بختیار: ابھی آگے ہے جی: ’’آج سے انسانی جہاد جو تلوار سے کیا جاتا ہے خدا کے حکم کے ساتھ بند کیا گیا۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۹۵) ’’موقوف‘‘ نہیں، لفظ ’’بند‘‘ ہے … ’’بند کیا گیا‘‘ ہے۔
مرزا ناصر احمد: شاید شرائط نہ ہونے کی وجہ سے بند ہوگیا ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں پڑھ کے سنا دیتا ہوں۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، سنا دیجئے، سنا دیجئے۔
جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب ! یہ تو آپ … میں جانتا ہوں جو وہ کہیں گے جواب میں (ہنسی) ’’آج سے انسانی جہاد جو تلوار سے کیا جاتا ہے خدا کے حکم سے بند کیا گیا۔‘‘
مرزا ناصر احمد: یہ فقرہ میں نے سنا نہیں ’’آج سے انسانی جہاد‘‘؟۱؎
جناب یحییٰ بختیار: انسانی جہاد۔
1095مرزا ناصر احمد: ’’انسانی‘‘؟
جناب یحییٰ بختیار: ممکن ہے کوئی غلطی ہو پرنٹ کی۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، وہ دیکھ لیں گے۔
جناب یحییٰ بختیار: ’’آج سے انسانی جہاد جو تلوار سے کیا جاتاہے…‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۹۵)
وہ پرنٹ آپ دیکھ لیں جی، شاید یہ ٹھیک نہ ہو۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، وہ دیکھ لیں گے، شاید یہی ہوگا۔ ویسے ’’بند کیا گیا‘‘ اصل لفظ ہے ناں؟
جناب یحییٰ بختیار: ’’… خدا کے حکم کے ساتھ بند کیا گیا۔ اب اس کے بعد جو شخص کافر پر تلوار اٹھاتا اور اپنا نام غازی رکھتا ہے وہ خدا اور رسولa کی نافرمانی کرتا ہے۔ جس نے آج سے تیرہ سو برس پہلے فرمایا ہے کہ مسیح موعود کے آنے پر تمام تلوار کے جہاد ختم ہوجائیں گے۔ تو اب میرے ظہور کے بعد تلوار کا کوئی جہاد نہیں ہے۔ ہماری طرف سے امن اور صلح کاری کا سفید جھنڈا بلند کیا گیا ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۹۵)
مرزا ناصر احمد: ’’میرا حکم نہیں، میری نافرمانی نہیں، آنحضرت صلعم کی ہے‘‘ … یہ وہی ملتوی کا ہے جی۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، یہ نہیں، یہاں ’’بند کیا گیا‘‘ ہے، اس واسطے میں کہہ رہا ہوں…
مرزا ناصر احمد: نہیں، نہیں، اس کو، میرا مطلب یہی ہے، کہ نبی اکرمa کے قول کے مطابق…
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ یہ مرزا قادیانی کا ارشاد ہے۔ خدا کرے نہ سمجھے کوئی۔ جیسے آپ انہیں سمجھے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1096جناب یحییٰ بختیار: یہ جب مسیح آئیں گے تو بالکل ختم ہوجائے گا جہاد؟
مرزا ناصر احمد: جب مسیح آئیں گے تو جہاد کی شرائط نہیں ہوں گی موجود اور جب شرائط ہوجائیں گے تو وہی مہدی کہے گا کہ جب شرائط پوری ہوجائیں، جہاد کرو، ہر مومن کا فرض ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: پھر وہاں ’’تحفہ گولڑویہ‘‘ میں بھی یہی صفحہ…۳۰ کہ: ’’بس آج سے دین کے لئے لڑنا مسلمانوں کے لئے حرام ہے۔‘‘ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۲۶، خزائن ج۱۷ ص۷۷)
مرزا ناصر احمد: ’’آج سے۔‘‘
جناب یحییٰ بختیار: میں اس واسطے درجہ بدرجہ …
مرزا ناصر احمد: ہاں، ٹھیک ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: یہ ’’ملتوی ہوگیا‘‘ پھر ’’قطعاً موقوف ہوگیا‘‘ پھر ’’بند ہوگیا‘‘ پھر ’’حرام ہوگیا‘‘ اور آپ کہتے ہیں کہ سب کا مطلب ’’ملتوی‘‘ ہے …
مرزا ناصر احمد: جو جہاد کی شرائط … جب جہاد کی شرائط نہ ہوں …
جناب یحییٰ بختیار: یہاں ’’آج سے‘‘ کہہ رہے ہیں !
مرزا ناصر احمد: نہیں، ہاں، ہاں، جہاد کی شرائط کے فقدان کے وقت جہاد حرام ہے، ہمیشہ کے لئے نہیں ہمیشہ کے لئے جہاد کی شرائط کے فقدان کے وقت جہاد حرام ہے ہمیشہ کے لئے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، مرزا صاحب ! وہ تو ایسی Established (تسلیم شدہ) پوزیشن ہے …
مرزا ناصر احمد: وہی ہے ہماری پوزیشن۔
جناب یحییٰ بختیار: … کہ آنحضرتﷺ کے زمانے میں بھی اگر شرائط نہ ہوں تو نہیں …
1097مرزا ناصر احمد: بالکل، اس واسطے کہ حدیث نے یہ کہا …
جناب یحییٰ بختیار: … مگر مسیح موعود کی وجہ سے تو کچھ اور Change (تبدل) بھی آگیا ہے ناں، کہ وہ آگیا تو جیسے وہ ہوگیا، یہ…
مرزا ناصر احمد: نبی اکرمﷺ کے زمانے میں ابھی میں وضاحت کردیتا ہوں … نبی اکرمﷺ کے زمانے میں حکم یہی تھا کہ جہاد کی شرائط ہوں تو جہاد کیا جائے اور آنحضرتﷺ کے زمانے میں جہاد کی شرائط تھیں اور جہاد کیا گیا اور مہدی کے زمانے میں بھی وہی حکم ہے کہ جہاد کی شرائط ہوں تو جہاد کیا جائے۔ جہاد کی شرائط نہیں تھیں اس لئے جہاد جو تھا وہ اس وقت تک کہ جہاد کی شرائط پوری ہوں، حرام ہے۔
نبی اکرمﷺ کی مکی زندگی میں، جو مدنی زندگی سے زیادہ لمبی ہے، جہاد کی شرائط نہیں تھیں اور جہاد نہیں کیا گیا … ۱۳سال تک۔
جناب یحییٰ بختیار: پھر تو پوائنٹ بڑا Clear (واضح) ہوجاتا ہے ناں جی …
مرزا ناصر احمد: ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: … کہ جہاد شرائط سے ہے، مسیح کے آنے سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
مرزا ناصر احمد: مسیح کے آنے سے صرف اتنا تعلق ہے کہ پیش گوئی کی گئی تھی، احادیث میں، کہ اس کے زمانے میں شرائط جہاد نہیں ہوں گی۔ صرف اتنا تعلق ہے، اور نہیں جہاں تک کہ فی ذاتہ جہاد کا مسئلہ ہے، اس کا مسیح کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: یعنی جب ان کی زندگی ختم ہوجائے گی اس کے بعد پھر شروع ہوجائے گا سلسلہ؟
1098مرزا ناصر احمد: نہیں، فوراً نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں؟
مرزا ناصر احمد: … یہ کہا گیا تھا … نہیں، ابھی سمجھ جائیں گے آپ … یہ کہا گیا تھا کہ مسیح کی زندگی میں، مہدی کی زندگی میں جہاد کی شرائط پوری نہیں ہوں گی اور یہ نہیں کہا گیا کہ مسیح کی وفات کے ساتھ ہی جہاد کی شرائط پوری ہوجائیں گی۔ ایک معین وقت کے لئے ایک معین خبر دی گئی ہے۔ اس کے بعد یہ ہے کہ دس سال کے بعد یا پچاس سال کے بعد، جب بھی جہاد کی شرائط پوری ہوں، ہر مومن کے لئے جہاد فرض ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: مسیح کے آنے کے بعد تو مرزا صاحب ! اس کے بعد تو پھر یہ جہاد کی شرائط نہیں ہوںگی، یا جہاد ختم ہوجائے گا۔ کیونکہ اس کے بعد تو پھر جھگڑوں کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، پھر تو قیامت اور جو بھی ہوگا، کہ زندگی پھر جاری رہے گی؟
مرزا ناصر احمد: مسیح کی زندگی کے ساتھ قیامت نہیں آئی، مسیح کی زندگی ختم ہونے پر قیامت نہیں آئی، بلکہ اس پر اس وقت گزر چکے ہیں ۶۶سال۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں میں یہ پوچھ رہا ہوں کہ مسیح موعود کا آنا ہے، مہدی آخرالزمان جس کو کہتے ہیں، مطلب تو آخری زمانہ ہے؟
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں، آخری زمانہ۔
جناب یحییٰ بختیار: تو آخری زمانے میں سے ہم گزر رہے ہیں؟
مرزا ناصر احمد: ہاں جی۔
جناب یحییٰ بختیار: اس کے بعد تو پھر جنگ کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ نہ جھگڑا ہوگا…
1099مرزا ناصر احمد: کیوں؟
جناب یحییٰ بختیار: امن آگیا، شرط ہی کوئی نہیں ہوگی جہاد کی۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، نہیں، اس کے بعد ہوسکتا ہے کہ شرائط پوری ہوجائیں۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، ان کی وفات کے بعد پھر ہوسکتا ہے؟
مرزا ناصر احمد: وفات کے بعد ہوسکتا ہے شرائط پوری ہوجائیں۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں میں یہی پوچھنا چاہتا ہوں۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں، پھر یہ ابھی حوالہ میں نے پڑھا ہے آپ نے فرمایا ہے کہ ہر مومن کا فرض ہوگا کہ جہاد کرے۔
Mr. Chairman: Now we take it to tomorrow or now.
(جناب چیئرمین: یہ ہم اب کل جاری رکھیں گے)
Mr. Yahya Bakhtiar: Alright, Sir. There are three, four more questions.
(جناب یحییٰ بختیار: ٹھیک ہے ! جناب والا۔ ابھی تین چار سوال اور ہیں)
Mr. Chairman: Yes, tomorrow.
(جناب چیئرمین: جی، کل)
The Delegation is permitted to leave; tomorrow at 10: 00 am.
(وفد کو کل دس بجے تک جانے کی اجازت ہے)
The Honourable Members may please keep sitting.
(معزز اراکین تشریف رکھیں)
(The Delegation left the Chamber.)
(وفد ہال سے باہر چلا گیا)
Mr. Chairman: Any member who would like to say some thing?
(جناب چیئرمین: کیا کوئی معزز رکن کچھ کہنا چاہتے ہیں؟)
مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی: Yes، ’’التوا‘‘ ہوجائے۔
جناب چیئرمین: جی؟
1100مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی: اب ’’التوا‘‘ ہوجائے۔
جناب چیئرمین: ’’التوا’’؟ … On one condition only (صرف ایک شرط پر …)
پروفیسر غفور احمد: صاحب ! دس کا مطلب کیا ہوا؟
Mr. Chairman: … On one condition …
(جی، کل صبح ساڑھے نو پہلی Bell شروع ہوجائے گی اور دس بجے آپ تشریف لے آئیں)
آدھا گھنٹہ تقریر کرلیں تو … On one condition, otherwise
Tomorrow, sharp at 10: 00 am.
Thank you very much.
(آپ کا بہت بہت شکریہ)
[The Specil Committee adjourned to meet at ten of the clock, in the morning on Thursday, the 22nd August, 1974.]
(خصوصی کمیٹی کا اجلاس کل بروز جمعرات صبح دس بجے۔ ۲۲؍اگست۱۹۷۴ء تک ملتوی کیا گیا)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قومی اسمبلی میں نواں دن

Thursday, the 22th August. 1974.
(کل ایوانی خصوصی کمیٹی بند کمرے کی کارروائی)
(۲۲؍اگست ۱۹۷۴ئ، بروز جمعرات)
----------

The Special Committee of the Whole House met in Camera in the Assembly Chamber, (State Bank Building), Islamabad, at ten of the clock, in the morning. Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali) in the Chair.
(مکمل ایوان کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس اسمبلی چیمبر (سٹیٹ بینک بلڈنگ) اسلام آباد صبح دس بجے جناب چیئرمین (صاحبزادہ فاروق علی) کی زیرصدارت منعقد ہوا)
----------
(Recition from the Holy Quran)
(تلاوت قرآن شریف)
----------

Mr. Chairman: They may be called. I will request the honourable members to be attentive. The Delegation is coming.
(جناب چیئرمین: انہیں بلال لیں (مداخلت) میں معزز اراکین سے درخواست کروں گا کہ وہ توجہ فرمائیں۔ وفد آرہا ہے)
(Interruption)
(The Delegation entered the Chamber)
(وفد ہال میں داخل ہوا)
----------
جناب چیئرمین: وہ ذرا پنکھے فٹ ہو رہے ہیں۔ (وقفہ)
Mr. Chairman: The honourable members can shift to that side.
So we start with the proceedings.
(جناب چیئرمین: معزز اراکین اس طرف جا سکتے ہیں۔ تو اب ہم کارروائی کا آغاز کرتے ہیں)
Mr. Attorney General. (مسٹر اٹارنی جنرل)
----------

 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
1104CROSS- EXAMINTION OF THE QADIANI GROUP DELEGATION
(جہاد منسوخ کب تک؟)

جناب یحییٰ بختیار (اٹارنی جنرل پاکستان ): مرزا صاحب کل آپ فرما رہے تھے کہ یہ جہاد ملتوی یا منسوخ مہدی کے زمانے کے لئے ہے۔ ان کا آپ پیریڈ متعین کر رہے تھے…
مرزا ناصر احمد (گواہ سربراہ جماعت احمدیہ، ربوہ): نہیں ٹھیک ہے، آپ کرلیں بات، پھر ان سب سے…
جناب یحییٰ بختیار: … اور اس کے بعد ان کی وفات کے بعد پھر ہوسکتا ہے جہاد، یہ آپ کہہ رہے تھے،…
مرزا ناصر احمد: ہاں۔ ہوسکتا ہے، ٹھیک ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: …میں نے کہا حالات پر Depend کر رہا ہے، اگر شرائط پھر آگئیں تو پھر جہاد ہوسکتا ہے، مگر صرف یہ مرزا صاحب کی زندگی میں شرائط پوری نہیں ہوں گی؟
مرزا ناصر احمد: شرائط پوری نہیں ہوں گی۔
جناب یحییٰ بختیار: شرائط پوری نہیں ہوں گی اور وہاں یہ Suspended (معطل) سمجھئے یا ملتوی سمجھیں یا منسوخ سمجھیں؟
مرزا ناصر احمد: نہ…
جناب یحییٰ بختیار: ان کی زندگی میں؟
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں، ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: ’’حرام‘‘ بھی تو لفظ استعمال ہوا ہے؟
مرزا ناصر احمد: یعنی ’’حرام‘‘ اس معنی میں…
1105جناب یحییٰ بختیار: … کہ شرائط نہیں …
مرزا ناصر احمد: … کہ شرائط نہ ہوں …
جناب یحییٰ بختیار: … اور نہ ہوں گی۔
مرزا ناصر احمد: اگر شرائط نہ ہوں اور جہاد کیا جائے تو وہ ایک حرام فعل ہوگا۔
جناب یحییٰ بختیار: حرام ہوتا ہے تو اس لئے ان کی زندگی میں یہ حرام ہے، کیونکہ شرائط نہیں ہوں گی اور نہ ہوسکتی ہیں؟
مرزا ناصر احمد: ان کے دعویٰ میں … پیدائش کے وقت نہیں… دعوائے مسیحیت اور وصال کے درمیان کے زمانے میں۔
جناب یحییٰ بختیار: یہ Limited period (محدود وقت) ہوگا؟
مرزا ناصر احمد: ہاں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزاقادیانی نے دعویٰ مسیحیت کب کیا؟)
جناب یحییٰ بختیار: اس پر مجھے یہ بھی یاد آگیا کہ ایک سوال ہے، یہاں آپ سے پوچھ لیتا ہوں، کہ مرزا صاحب نے دعوائے مسیحیت کب کیا؟
مرزا ناصر احمد: ۱۸۹۱ء میں۔
جناب یحییٰ بختیار: ۱۸۹۱؟
مرزا ناصر احمد: ۱۸۹۱ء
Mirza Nasir Ahmad: Eighteen ninety-one (1891)
جناب یحییٰ بختیار: اور اس سے پہلے انہوں نے جو کوئی دعویٰ کیا، مجدد یا محدث کا Claim کیا؟
مرزا ناصر احمد: اس سے پہلے، دو سال پہلے، Eighteen eighty nine (1889) بیعت کا سال ہے، یعنی جب جماعت بنائی، لیکن اس وقت دعویٰ کوئی نہیں تھا اور جو بیعت کی غرض تھی وہ یہی کہ ’’میں چاہتا ہوں کہ میرے ساتھ تعلق رکھ کے لوگ کچھ سچے اور پکے مسلمان بن جائیں اور خدمت اسلام کا ان سے کام لیا جا سکے۔‘‘
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(امتی نبی کا دعویٰ کب کیا؟)
1106جناب یحییٰ بختیار: اور امتی نبی کا دعویٰ کس Date کو ہوا ہے؟
مرزا ناصر احمد: یہ جو مسیحیت ہے نا، مسیح کے متعلق ہی آنحضرتﷺ کا فرمان ہے کہ وہ امتی نبی ہوگا۔
جناب یحییٰ بختیار: میں کہتا ہوں مرزا صاحب نے کب پہلے کہا کہ ’’میں اُمتی نبی ہوں‘‘؟
مرزا ناصر احمد: ۱۸۹۱ء میں۔
جناب یحییٰ بختیار: وہی ۱۸۹۱ء میں دونوں باتیں … اسی…
مرزا ناصر احمد: وہی، میں نے کہا تھا، اُسی سے استدلال ہوتا ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: تو اس سے لے کر ان کی وفات تک انیس سو آٹھ ۱۹۰۸ء تک…
مرزا ناصر احمد: ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: … اس پریڈ میں جو ہے جہاد آپ کے نقطہ نظر سے شرائط اس کی نہیں ہوسکتی تھیں؟
مرزا ناصر احمد: شرائط نہ ہوسکتی تھیں، نہ ہندوستان میں ہوئیں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہ ہوئیں؟
مرزا ناصر احمد: نہ، نہ۔
جناب یحییٰ بختیار: اور باقی دنیا میں بھی نہیں ہوئیں؟ صرف آج کی دنیا میں ہوئیں؟
مرزا ناصر احمد: باقی دنیا میں تو دنیا کی تاریخ دیکھیں گے تو فیصلہ کریں گے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں نے تو کل یہی عرض کیا تھا، مرزا صاحب ! کہ ایک اور شخص نے دعویٰ کیا کہ وہ مہدی ہے۔ اُس نے جہاد کا اعلان بھی کیا۔ اب یہ میں کہتا ہوں کہ اسی پیریڈ میں ہے…
1107مرزا ناصر احمد: میں کہتا ہوں اس پیریڈ میں نہیں ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: بس ٹھیک ہے، وہ تو Historical fact (تاریخی حقیقت) ہے۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں، وہ تو Historical fact (تاریخی حقیقت) ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: تو آپ کا خیال ہے…
مرزا ناصر احمد: تو آپ کو کل کسی نے یعنی … ٹھیک ہے، ہمارے لئے مشکل ہے، آپ کے لئے بھی مشکل ہے، کوئی وقت کی تعین نہیں ہوئی سوڈانی مہدی کی۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، نہیں، میں نے کہا۔ آپ نے کہا کہ شاید تھوڑا پیریڈ ان کا Contemporary (ہم عصر، ہم زمانہ) ہو۔
مرزا ناصر احمد: ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہ میں Definitely (یقین کے ساتھ) کہہ سکتا ہوں نہ آپ نے کہا۔
مرزا ناصر احمد: ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: میں نے کہا کہ تھوڑا پیریڈ Contemporary (ہم عصر، ہم زمانہ) ہو۔ ممکن ہے وہ پیریڈ وہ ہو جب انہوں نے دعویٰ نہ کیا ہو؟
مرزا ناصر احمد: ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: اور یہ ممکن ہے وہ ہو جو ان کی وفات کے بعد؟
مرزا ناصر احمد: ہاں، لیکن یہ ہے کہ ہوسکتا ہے بالکل ہی اس پیریڈ میں دعویٰ کیا نہ ہو۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، کیا ہی نہ ہو۔
مرزا ناصر احمد: میں شاگرد بن کے علم حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اگر کوئی آپ کے علم میں ہو تو آپ مجھے بتا دیں۱؎۔
1108جناب یحییٰ بختیار: میں نے تو بہت کچھ سیکھا ہے، مجھے تو کسی چیز کا علم ہی نہیں تھا اس کا۔ تو مرزا صاحب ! پھر اس کا مطلب یہ ہوگیا کہ یہ شرائط جہاد کے بارے میں …
مرزا ناصر احمد: (اپنے وفد کے ایک رکن سے) شرائط نکالو۔
جناب یحییٰ بختیار: … مرزا صاحب کی وفات کے بعد …
مرزا ناصر احمد: ہوسکتی ہیں اور پھر جو شرائط ہیں، ابھی ہم فلسفیانہ بات کر رہے ہیں تو ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ شرائط کے متعلق ہمارے دوسرے بھائیوں کا کیا فتویٰ ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں جی، یہ تو … اس میں تو کوئی، جہاں تک مجھے…
مرزا ناصر احمد: میں ایک منٹ میں بتا دیتا ہوں، یعنی لمبا نہیں، ایک منٹ میں۔ یہ ہے اہل حدیث کا فتویٰ … آپس میں اختلاف ہوسکتے ہیں … میں نے صرف مثال کے طور پر ایک لے لیا ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ چار شرائط ہیں۔ اوّل یہ کہ امت مسلمہ کا … اوّل یہ شرط ہے کہ امت مسلمہ کا ایک امام اکبر ہو … یہ شرط ہے جہاد کی … امت مسلمہ میں ایک خلیفہ جو ساری دنیا کے مسلمان اس کو اپنا امام مانتے ہوں۔ پہلی شرط یہ ہے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ جس قسم کی بھی جنگ ہو، اس کے لئے مناسب ہتھیار مہیا ہوسکیں اور ہوں۔ یہ شرط ’’فتاویٰ نظیریہ‘‘ میں ہے۔ مثلاً آج کی ایٹمی جنگوں میں ایٹمی ہتھیار ہونے چاہئیں، اس فتویٰ کی رو سے۔ اسباب لڑائی کا مثل ہتھیار وغیرہ کے مہیا ہو، میں یہ ایک ایک فقرہ لے رہا ہوں۔ اس کی اگر نہ سمجھ آئے تو میں کر دوں گا … دوسرا یہ کہ اسلامی دینی جہاد کے لئے ایک Base ہونی چاہئے، دینی کوئی ملک ہو جہاں سے سارا جہاد جو دنیا کا ہے، اس کو کنٹرول کیا جا سکے، رسد مہیا کی جا سکے، ہتھیار مہیا کئے جا سکیں، آدمی مہیا کئے جا سکیں۔ تیسری شرط … Base کا ہونا اور چوتھی شرط یہ ہے کہ مسلمانوں کا لشکر اتنا ہو کہ کفار کے مقابلہ میں مقابلہ کرسکتا ہو، یعنی 1109کفار کے لشکر سے آدھے سے کم نہ ہو۔ یہ جہاد کی چوتھی شرط اہل حدیث کے نزدیک ’’فتاویٰ نظیریہ‘‘ جلد سوم میں ہے۔ مثلاً اگر … ذرا میں مثال دے کر اس کو واضح کر دیتا ہوں … اگر بیس لاکھ کی فوج امریکہ کی مسلمان ملک پر حملہ آور ہو تو دینی جہاد کے لئے ضروری ہے کہ دس لاکھ کی فوج مسلمانوں کی بھی ہو ’’فتاویٰ نظیریہ‘‘ کے مطابق۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

۱؎ شیخ سعدیؒ فرماتے۔ تھوڑے سے تصرف سے۔
سعدی، شیرازی سبق مدہ کم زاد را
مرزا شود گلہ کند استاذ را
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جناب یحییٰ بختیار: یعنی دو کے مقابلے میں ایک؟
مرزا ناصر احمد: ہاں دو کے مقابلے میں۔ انہوں نے آگے … میں نے مختصر بتایا ہے … کہ قرآن کریم سے استدلال کیا ہے، اپنے رنگ میں۔ یہ ضروری تھا کیونکہ ’’ہم جہاد، جہاد‘‘ کہتے ہیں، شرائط کا نام لیتے ہیں اور ہمارے ذہن میں رہنی چاہئیں شرائط۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، یہ شرائط تو آنحضرتﷺ کے زمانے سے آرہی ہیں؟
مرزا ناصر احمد: یہ شرائط؟
جناب یحییٰ بختیار: میں ان کا نہیں خاص کر رہا، جو شرائط جہاد …
مرزا ناصر احمد: جو ’’شرائط جہاد‘‘ کے نام سے آنحضرتﷺ کے زمانے سے…
جناب یحییٰ بختیار: وہ تو اس زمانے سے ہیں۔ اس زمانے سے اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی؟
مرزا ناصر احمد: مرزا صاحب نے ان شرائط میں جو آنحضرتﷺ کے زمانے سے آرہی ہیں، کوئی تبدیلی نہیں کی۔
جناب یحییٰ بختیار: سوائے اس کے کہ ایک روایت یہ ہے کہ جب مہدی آئے گا جہاد ختم ہوگا؟
مرزا ناصر احمد: ’’یضع الحرب‘‘ آپ نے فرمایا کہ حدیث میں ہے …
جناب یحییٰ بختیار: نہیں میں وہی کہہ رہا ہوں۔
1110مرزا ناصر احمد: … کہ مہدی کی زندگی میں جہاد کی شرائط پوری نہیں ہوں گی، اور اس واسطے دینی جنگ جو ہے وہ نہیں ہوگی۔
جناب یحییٰ بختیار: وہ نہیں ہوگی۔ اس کے بعد پھر ہوسکتی ہے؟
مرزا ناصر احمد: ہوسکتی ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: تو جہاں تک احمدیہ طبقے کا تعلق ہے یا Community (جماعت) کا تعلق ہے، ان پر ابھی وہ جو مرزا صاحب کے قول ہیں کہ ’’جنگ حرام ہے‘‘ ’’جہاد حرام ہے‘‘ وہ ابھی نہیں Apply (لاگو) کرتا آپ پہ؟
مرزا ناصر احمد: یہ ہوسکتا ہے کہ ہماری زندگیوں میں یا ہمارے بچوں کی زندگیوں یا ان بچوں کے بچوں کی زندگیوں میں یا آئندہ آنے والی کسی نسل میں جو جماعت احمدیہ اور بانی سلسلہ احمدیہ کی طرف منسوب ہونے والی ہے، شرائط جہاد پوری ہوجائیں اور اس وقت وہ سارے مسلمانوں کے ساتھ مل کر دینی جہاد میں شامل ہوں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں یہ پوچھنا چاہتا تھا، مرزا صاحب ! یہ Directives (حکم نامہ) جو ہیں مرزا صاحب کے، وہ اپنی Community (جماعت) یا فرقے یا احمدی، ان سے کہہ رہے ہیں … ممکن ہے سب مسلمانوں کو کہہ رہے ہوں… مگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ…
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں ٹھیک ہے، اپنے آپ کو، تو ٹھیک ہے۔
[At this stage Mr. Chairman vacated the chair which was occupied by Prof. Ghafoor Ahmad.]
(اس موقع پر جناب چیئرمین نے کرسی صدارت پروفیسر غفور احمد کے سپرد کی)
جناب یحییٰ بختیار: ان کو یہ ہدایت کر رہے ہیں، ان کو یہ Instructions دے رہے ہیں، ان کو Directions دے رہے ہیں کہ یہ آپ کے لئے ملتوی یا منسوخ ہے یا حرام ہے؟
1111مرزا ناصر احمد: جی۔
جناب یحییٰ بختیار: تو یہ جو ہے ۱۹۰۸ء تک تھا، اس کے بعد آپ پر حرام نہیں ہے، اگر حالات آگئے تو؟
مرزا ناصر احمد: بجائے اس کے کہ میں جواب دوں، بانی سلسلہ احمدیہ نے اس کے متعلق جو لکھا ہے وہ میں پڑھ کر سنا دیتا ہوں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزاغلام احمدقادیانی کی عبارتوں کے اقتباسات)
جناب یحییٰ بختیار: ہاں سنا دیجئے۔
مرزا ناصر احمد: اور یہ ذرا دو چار منٹ لگیں گے، تشریف رکھیں: ’اس زمانے میں جہاد روحانی صورت سے رنگ پکڑ گیا ہے، یعنی جہاد صغیر سے جہاد کبیر کی شکل…‘‘
اس کے بعد آخری فقرہ آپ کا یہ ہے: ’’جب تک یہی جہاد ہے کہ خدا تعالیٰ کوئی دوسری صورت دنیا میں ظاہر کردے…‘‘ اور یہ ’’ضمیمہ تحفہ گولڑویہ‘‘ میں عربی کی عبارت ہے، بڑی واضح ہے۔‘‘ (اس میں کوئی شک نہیں کہ شرائط جہاد، وجوہ جہاد اس زمانے میں اور ان ملکوں میں، معدوم ہیں)
’’فاالیوم …‘‘ اس لئے کیونکہ شرائط جہاد معدوم ہیں اس لئے مسلمانوں کے لئے یہ حرام ہے کہ وہ دین کی جنگ، جہاد کریں۔ وہ جو میں نے آپ کو بات کہی تھی نا، آنحضرت کی زندگی میں اور رسول کریمﷺ نے فرمایا ہے کہ نزول مسیح کے وقت جہاد کی شرائط جو ہیں وہ نہیں پائی جائیں گی: 1112یہ وہ زمانہ ہے جس میں کوئی حکومت مسلمانوں پر مسلمان ہونے کی وجہ سے… ویسے تو بڑی ظالم حکومتیں تھیں … لیکن یہ وہ زمانہ ہے جس میں کوئی ملک ایسا نہیں جس میں مسلمان پر اس کے اسلام کی وجہ سے ظلم کیا جاتا ہو۔اور نہ کوئی حاکم پایا جاتا ہے جو اسلام، جو اس کا دین ہے، اس کی وجہ سے اس کے خلاف کچھ احکام جاری کر رہا ہو۔اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے شرائط کے نہ پورا ہونے کی وجہ سے اس زمانے میں اپنے حکم کو دوسرا رنگ دیا ہے۔
اس زمانے میں … بڑی واضح ہے یہ عبارت… حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اس زمانے کے متعلق پھر آپ ایک نظم میں لکھتے ہیں:
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

’’فرما چکا ہے سید کونین مصطفی
عیسیٰ مسیح ہی جگہوں کا کر دے گا التوا‘‘
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ویسے وہ ’’حرام‘‘ کا لفظ وہ پہلے میں ہے، اور بڑی وضاحت سے وہ ’’حرام‘‘ کے معنی ہمیں بتا رہا ہے۔ پھر آپ اپنی ایک دوسری کتاب میں تحریر فرماتے ہیں: صحیح بخاری کی …
’’بلکہ خدا کا یہی ارادہ ہے۔ صحیح بخاری کی اس حدیث کو سوچو جہاں مسیح موعود کی تعریف میں لکھا ہے: یعنی مسیح جب آئے گا تو دینی جنگوں کا خاتمہ کردے گا۔ تو میں حکم دیتا ہوں کہ جو میری فوج میں داخل ہیں وہ ان خیالات کے مقام سے پیچھے ہٹ جائیں، دلوں کو پاک کریں اور اپنے انسانی ذہن کو ترقی دیں اور دردمندوں 1113کا ہمدرد بنیں، زمین پر صلح پھیلا دیں کہ اس سے ان کا دین پھیلے گا اور اس سے تعجب مت کریں کہ ایسا کیونکر ہوگا۔ کیونکہ جیسا کہ خدا نے بغیر توسط معمولی اسباب کے…‘‘
وہ مثال دی ہے۔ یہ ہے جہاد پر آپ کی کتاب: ’’…قرآن میں صاف حکم ہے کہ دین کے پھیلانے کے لئے تلوار مت اٹھاؤ اور دین کی ذاتی خوبیوں کو پیش کرو۔ نیک نمونوں سے اپنی طرف کھینچو اور یہ مت خیال کرو کہ ابتداً میں اسلام میں تلوار کا حکم ہوا تھا۔ کیونکہ وہ تلوار دین کے پھیلانے کے لئے نہیں کھینچی گی تھی، بلکہ دشمنوں کے حملوں سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے یا امن قائم کرنے کے لئے کھینچی گئی تھی۔ مگر دین کے لئے جبر کرنا کبھی مقصد نہ تھا۔‘‘
پھر آپ فرماتے ہیں کہ: ’’میں نہیں جانتا کہ ہمارے مخالفوں نے کہاں سے اور کس سے سن لیا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے۔‘‘
ظاہر ہے یہاں ’’مخالف‘‘ عیسائی وغیرہ ہیں جو اعتراض کرتے ہیں: خدا تو قرآن شریف میں فرماتا ہے: ’’یعنی دین اسلام میں جبر نہیں۔ تو پھر کس نے جبر کا حکم دیا اور جبر کے کون سے سامان تھے۔ کیا وہ لوگ جو جبر سے مسلمان کئے جاتے ہیں ان کا یہی صدق اور یہی ایمان ہوتا ہے کہ بغیر کسی تنخواہ پانے کے، باوجود دو تین سو آدمی ہونے کے ہزاروں کا مقابلہ کریں اور جب ہزار تک پہنچ جائیں تو لاکھ دشمنوں کو شکست دے دیں اور دین کو دشمن کے حملہ سے بچانے کے لئے 1114بھیڑوں اور بکریوں کی طرح سر کٹا دیں اور اسلام کی سچائی پر اپنے خون سے مہر کردیں اور خدا کی توحید کو پھیلانے کے لئے ایسے عاشق ہوں کہ درویشانہ طور پر سختی اٹھا کر افریقہ کے ریگستان تک پہنچتے ہیں اور اس ملک میں اسلام کو پھیلا دیں اور پھر ہر ایک قسم کی صعوبتیں اٹھا کر چین تک پہنچیں، نہ جنگ کے طور پر بلکہ درویشانہ طور پر اس ملک میں پہنچ کر دعوت اسلام کریں، جس کا نتیجہ یہ ہو کہ ان کے بابرکت واسطے کئی کروڑ مسلمان اس زمین میں پیدا ہوجائیں اور پھر ٹاٹ پوش درویشوں کے رنگ میں ہندوستان میں آئیں۔ بہت سے حصہ آریہ ورتھ کو اسلام سے مشرف کردیں اور یورپ کی حدود تک لا الہ الا اللہ کی آواز پہنچا دیں۔ تم ایماناً کہو، کیا یہ کام ان لوگوں کا ہے جو جبراً مسلمان کئے جاتے ہیں، جن کا دل کافر اور زبان مومن ہوتی ہے۔ بلکہ یہ ان لوگوں کے کام ہیں جن کے دل نور ایمان سے بھر جاتے ہیں اور جن کے دلوں میں خدا ہی خدا ہوتا ہے۔‘‘ (پیغام صلح)
پھر آپ فرماتے ہیں: ’’مسیح دنیا میں آیا تاکہ دین کے نام سے تلوار اٹھانے کے خیال کو دور کرے اور اپنے حجج اور براہین سے ثابت کردکھائے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو اپنی اشاعت کے لئے تلوار کی مدد کا ہرگز محتاج نہیں بلکہ اس کی تعلیم کی ذاتی خوبیاں اور اس کے حقائق و معارف و حجج و براہین اور خدا تعالیٰ کی زندہ تائیدات اور نشانات اور اس کا ذاتی جذب ایسی چیزیں ہیں جو ہمیشہ اس کی ترقی اور اشاعت کا موجب ہوئی ہیں۔ اس لئے وہ تمام لوگ آگاہ رہیں جو اسلام کے بزور شمشیر پھیلائے جانے کا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ 1115اپنے اس دعویٰ میں جھوٹے ہیں۔ اسلام کی تاثیرات اپنی اشاعت کے لئے کسی جبر کی محتاج نہیں۔ اگر کسی کو…‘‘
آگے آپ نے فرمایا: ’’اب تلوار کے ذریعے اسلام کی اشاعت کا اعتراض کرنے والے سخت شرمندہ ہوں گے۔‘‘ ’’یہ ملفوظات‘‘
پھر آپ فرماتے ہیں کہ: ’’پس جس حالت میں اسلام میں یہ ہدایت ہی نہیں کہ کسی جبر و قتل کی دھمکی سے دین میں داخل کیا جائے تو کسی خونی مہدی یا خونی مسیح کا انتظار کرنا سراسر لغو اور بیہودہ ہے کیونکہ ممکن نہیں کہ قرآنی تعلیم کے برخلاف کوئی ایسا انسان بھی دنیا میں آوے جو تلوار کے ساتھ لوگوں کو مسلمان کرے۔‘‘
پھر آپ فرماتے ہیں: ’’جبکہ یہ سنت اللہ کہ یعنی تلوار سے ظالم اور منکروں کو ہلاک کرنا … قدیم سے یہ سنت اللہ ہے، یعنی تلوار سے ظالم، منکروں کو ہلاک کرنا، قدیم سے چلی آتی ہے تو قرآن شریف پر کیوں خصوصیت کے ساتھ اعتراض کیا جاتا ہے۔ کیا موسیٰ کے زمانے میں خدا کوئی اور تھا اور اسلام کے زمانے میں کوئی اور ہوگیا۔ یا خدا تعالیٰ کو اس وقت لڑائیاں پیاری لگتی تھیں اور اب بری دکھائی دیتی ہیں۔ اسلام نے صرف ان لوگوں کے خلاف تلوار اٹھانے کا حکم فرمایا ہے جو اول آپ پر تلوار اٹھائیں اور ان ہی کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے جو اول آپ کو قتل کریں۔ یہ حکم ہرگز نہیں دیا کہ تم ایک کافر بادشاہ کے تحت 1116میں ہو اور اس کے عدل و انصاف سے فائدہ اٹھا کر اسی پر باغیانہ حملہ کرو۔ قرآن کی رو سے یہ بدمعاشوں کا طریق ہے نہ کہ نیکوں کا۔ لیکن تورات نے یہ فرق کسی جگہ نہیں کھول کر بیان فرمایا۔ اس سے ظاہر ہے کہ قرآن شریف اپنے جلالی اور جمالی احکام میں اس خط مستقیم، عدل اور انصاف، رحم اور احسان پر چلتا ہے جس کی نظیر دنیا میں کسی کتاب میں موجود نہیں۔‘‘
پھر آپ فرماتے ہیں:’’کہ ان لوگوں کے خلاف اللہ تعالیٰ نے واجب قرار دیا ہے مؤمنوں پر کہ ان سے لڑائی کریں جو جبراً، اپنے مذہب میں داخل کرتے ہیں اور مؤمنوں کو ان کی عبادات سے روکتے ہیں…‘‘ یہ لمبی عبارت ہے۔ اگر آپ کہیں تو میں اس کا ترجمہ کردیتا ہوں اور بد ایک اور … ہاں، یہ ترجمہ ہے۔ لیکن یہ ترجمہ اس کے ساتھ میں نے کیا، کروایا ہوا ہے۔ لیکن ویسے بھی کرسکتا تھا یہ رکھا بھی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جہاد کے متعلق جو فرمایا بڑا واضح ہے۔ یہاں شرائط کا حکم کس معنوں میں ہے، وہ میں نے پڑھ دیا ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں وہ آپ نے سنا دیا ایک بات جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس پر مرزا صاحب ! کوئی سوال ہی نہیں آیا۔ آپ کے سامنے، نہ کوئی Dispute (تنازع) ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے کوئی پھیلانا چاہتا ہے۔ یہ غلط Conception (تصور) ہے۔ سب مسلمان جانتے ہیں، سب مانتے ہیں کہ اسلام میں Defensive war (دفاعی جنگ) ہے۔
1117مرزا ناصر احمد: ہاں، یعنی …
جناب یحییٰ بختیار: آپ نے بڑا Emphasize (تاکید) کیا کہ تلوار کے زور سے پھیلا۔ میں اس کی بات ہی نہیں کرتا۔
مرزاناصر احمد: نہیں، نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: یہ بات عیسائی کہتے ہوں گے۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: کوئی مسلمان عالم جو ہے وہ جانتا ہے کہ تلوار کے زور سے اسلام کبھی نہیں پھیلایا جا سکتا۔
مرزا ناصر احمد: الاّ ماشاء اللہ!
جناب یحییٰ بختیار: کوئی Compulsion (مجبوری) نہیں ہے۔ اس پر تو کوئی Dispute (تنازع) نہیں ہے۔ Dispute (تنازع) تو اس بات کا ہے کہ جب جہاد لازم ہو، شرائط موجود ہوں، آپ فرماتے ہیں کہ مہدی کے زمانے میں وہ نہیں ہوگا کیونکہ مہدی کی موجودگی میں شرائط ختم ہوجاتی ہیں۔ یہ بھی وجہ آپ نے بتائی ہے۔
مرزا ناصر احمد: …آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ … ایسا نہیں ہوں گی۔
جناب یحییٰ بختیار: وہی میں کہہ رہا ہوں۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں، نہیں، کہاں، کہیں ہوئیں؟
 
Top