• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قومی اسمبلی میں ہونے والی اکیس دن کی مکمل کاروائی

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(ایک آیت کی ایسی تفسیر! جو مرزاقادیانی نے کی)
جناب یحییٰ بختیار: …پہلے نہیں تھا۔ ۱۳۰۰ تیرہ سو سال میں، پہلی دفعہ مرزاصاحب نے کیا۔ ان میں سے صرف ایک آیت جو ہے آپ بتادیں کہ کیا انہوں نے کہا ہے جو پہلے نہیں تھا۔ کیونکہ بہت بڑی چیز ہو جاتی ہے، ٹائم نہیں، صرف ایک جو آپ Select (منتخب) کر لیں، جب انہوں نے یہ چیز کہی جو کہ تیرہ سو سال میں پہلے کسی نے نہیں کہی؟
مرزاناصر احمد: جی، یہ میں بتادوں پڑھ دوں گا۔ اگلے Session (اجلاس) میں میں لے آؤں گا، پڑھ دوں گا۔
جناب یحییٰ بختیار: ابھی یہی دیکھیں، پھر یہ اسی میں فرماتے ہیں، خط میں: ’’دوسرا قابل گزارش یہ ہے کہ میں ابتدائی عمر سے اس وقت تک جو تقریباً ساٹھ سال کی عمر تک پہنچا ہوں، اپنی زبان اور قلم سے اس اہم کام میں مشغول ہوں کہ مسلمانوں کے دلوں کو گورنمنٹ انگلشیہ کی محبت اور خیرخواہی اور ہمدردی کی طرف پھیروں۔‘‘
(درخواست بحضور نواب لیفٹیننٹ گورنر ص۳ ملحقہ کتاب البریہ، خزائن ج۱۳ ص۳۳۹)
اور پھر ان سے آخیر میں ایک اور بھی گزارش کرتے ہیں۔ A Life Time.... (عمر بھر)
مرزاناصر احمد: اس کا حوالہ کیا ہے؟
جناب یحییٰ بختیار: اسی Letter (خط) سے۔
مرزاناصر احمد: اچھا، اسی Letter (خط) سے۔
1180جناب یحییٰ بختیار: اسی کے Extracts (اقتباسات) میں پڑھ رہا ہوں، کیونکہ بہت لمبا ہے وہ۔
مرزاناصر احمد: ہاں، ہاں، ہاں ٹھیک ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(انگریز کا خود کاشتہ پودا)
جناب یحییٰ بختیار: وہ لمبا ہے، اس میں سے پھر وہ آخیر میں التماس کرتے ہیں: ’’التماس ہے کہ سرکار دولت مدار ایسے خاندان کی نسبت جس کو پچاس برس کے متواتر تجربے سے ایک وفادار، جان نثار خاندان ثابت کر چکی ہے اور جس کی نسبت گورنمنٹ عالیہ کے معزز حکام نے ہمیشہ مستحکم رائے سے اپنی چٹھیات میں یہ گواہی دی ہے کہ وہ قدیم نے سرکار انگریزی کے پکے خیرخواہ اور خدمت گزار ہیں۔ اس خود کاشتہ پودے کی نسبت نہایت حزم اور احتیاط اور تحقیق اور توجہ سے کام لے اور اپنے ماتحت حکام کو اشارہ فرمائے کہ وہ بھی اس خاندان کی ثابت شدہ وفاداری اور اخلاص کا لحاظ رکھ کر مجھے اور میری جماعت کو ایک خاص عنایت اور مہربانی کی نظر سے دیکھیں۔ ہمارے خاندان سے سرکار انگریزی کی راہ میں اپنے خون بہانے اور جان دینے سے فرق نہیں کیا اور نہ اب فرق ہے۔ لہٰذا ہمارا حق ہے کہ ہم خدمات گزشتہ کے لحاظ سے سرکار دولت مدار کی پوری عنایات اور خصوصیات کی توجہ کی درخواست کریں۔ تاکہ ہر شخص بے وجہ ہماری آبروریزی کے لئے دلیری نہ کر سکے اور کسی قدر اپنی جماعت کے نام ذیل میں لکھتا ہوں…‘‘
تو مرزاصاحب یہاں، ’’ایک خود کاشتہ پودا… انگریز‘‘ کا کہہ رہے ہیں۔ یہ کن کی طرف اشارہ ہے؟
مرزاناصر احمد: اپنے اس خاندان کی طرف جو پہلے گزر چکا۔
جناب یحییٰ بختیار: یا جماعت کی طرف؟
1181مرزاناصر احمد: نہیں، نہیں جماعت نے، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں، ایک دھیلا کبھی انگریز سے نہیں لیا اور نہ کبھی جماعت نے چار مربع زمین لی جو بعض دوسرے علماء نے لی اس وقت۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، نہیں، مربعوں سے تو کسی کو Protection (تحفظ)…
مرزاناصر احمد: اور جو، دیکھیں ناں، یہ تو اس کے آخری فقرے جو ہیں، وہ خود اپنا جواب ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: دونوں چیزیں ہیں، مرزاصاحب! میں آپ کو پڑھ کر سناتا ہوں، میں نہیں کہتا کہ میں ٹھیک سمجھ رہا ہوں۔ میں اس واسطے یہ Clarification (وضاحت) چاہ رہا ہوں کہ وہ خاندان کا ذکر کرتے ہیں اور بہت زیادہ ذکر کرتے ہیں…
مرزاناصر احمد: مطالبہ کیا کرتے ہیں؟
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، وہ ساتھ ہی کہہ رہے ہیں…
مرزاناصر احمد: نہیں، مطالبہ کیا کرتے ہیں؟… کہ لوگ ہماری بے عزتی نہ کیا کریں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(انگریز کے پکے خیرخواہ اور وفادار)
جناب یحییٰ بختیار: ’’التماس ہے کہ سرکاری دولت مدار ایسے خاندان کی نسبت…‘‘
مرزاناصر احمد: ہاں، ہاں، آگے پڑھیں ناں۔ ہاں، ہاں، اب۔
جناب یحییٰ بختیار: ’’جس کو پچاس برس کے متواتر تجربے سے وفادار، جان نثار خاندان ثابت کر چکی ہے اور جس کی نسبت گورنمنٹ عالیہ کے معزز حکام نے ہمیشہ مستحکم رائے سے اپنی چٹھیات میں یہ گواہی دی ہے کہ وہ قدیم سے سرکار انگریز کے پکے خیرخواہ اور خدمت گزار ہیں…‘‘ یہ تو…
(درخواست بحضور نواب گورنر ص۱۳ ملحقہ کتاب البریہ، خزائن ج۱۳ ص۳۵۰)
1182مرزاناصر احمد: نہیں، آگے مطالبہ، آگے مطالبہ ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، پھر کہتے ہیں: ’’اس خود کاشتہ پودے کی نسبت نہایت حزم اور احتیاط اور تحقیق اور توجہ سے کام لے اور اپنے ماتحت حکام کو اشارہ فرمائے کہ وہ اس خاندان کی ثابت شدہ وفاداری اور اخلاص کا لحاظ رکھ کر مجھے اور میری جماعت…‘‘ (ایضاً)
مرزاناصر احمد: مجھے اور میری جماعت کو کیا کرے؟ مربع دے؟
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، نہیں، یہ…
مرزاناصر احمد: نہیں، نہیں، آگے تو پڑھیں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں۔ ’’… میری جماعت کو ایک خاص عنایت اور مہربانی کی نظر سے دیکھیں…‘‘ (ایضاً)
مرزاناصر احمد: آگے۔
جناب یحییٰ بختیار: تو، مرزاصاحب ’’خودکاشتہ پودا…‘‘
مرزاناصر احمد: نہیں، نہیں، نہیں۔ آگے پڑھیں جی۔ آگے اس کا جواب ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: ’’ہمارے خاندان نے سرکار انگریزی کی راہ میں اپنے خون بہانے اور جان دینے سے فرق نہیں کیا اور نہ اب فرق ہے…‘‘ (ایضاً)
مرزاناصر احمد: آگے، آگے۔
جناب یحییٰ بختیار: ’’…لہٰذا ہمارا حق ہے کہ ہم خدمات گذشتہ کے لحاظ سے سرکار دولت مدار کی پوری عنایات اور خصوصیت کی توجہ کی درخواست کریں تاکہ ہر شخص بے وجہ ہماری آبروریزی کے لئے دلیری نہ کر سکے۔‘‘ (ایضاً)
1183مرزاناصر احمد: ’’بے وجہ ہماری آبروریزی کے لئے دلیری نہ کر سکے‘‘… یہ مطالبہ ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(اپنی جماعت کے لئے مراعات کی استدعا)
جناب یحییٰ بختیار: نہیں نہ:
’’کسی قدر اپنی جماعت کے نام ذیل میں لکھتا ہوں… اب کسی قدر اپنی جماعت کے نام ذیل لکھتا ہوں…‘‘ (ایضاً)
مرزاناصر احمد: ہاں، ہاں، وہ تو بعد کی بات ہے۔ صرف یہ ساری تمہید کا مطالبہ یہ ہے کہ بلاوجہ کوئی ہماری آبروریزی نہ کر سکے۔
جناب یحییٰ بختیار: اپنے خاندان کے لئے Protection (تحفظ) چاہتے ہیں گورنمنٹ سے؟
مرزاناصر احمد: ہاں، وہ بے عزتی نہ کرے کوئی۔
جناب یحییٰ بختیار: وہی میں کہتا ہوں کہ Protection (تحفظ) چاہ رہے ہیں؟
مرزاناصر احمد: No, no, نہیں، Protection (تحفظ) بہت وسیع ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: عنایت، مہربانی چاہتے ہیں؟
مرزاناصر احمد: ہاں، ہاں ۔ مہربانی وہ تو ایک شکرگزار… جو دماغ ہے، وہ اس چیز کو، وہ اس چیز کو… ’’کہ کوئی بلاوجہ ہماری آبروریزی نہ کرے…‘‘ اس کو اتنی مہربانی سمجھتا ہے کہ اس نے کر دی۔ یہ تو ایک شان کا ہے… یہاں اعتراض کا تو کوئی موقع نہیں…
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، مرزاصاحب! ایک…
مرزاناصر احمد: … کوئی مربعے مانگے؟ کوئی پیسے لئے؟ کوئی رعایتیں لیں؟ کوئی نوکریاں مانگیں؟
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، یہ تو میں سمجھتا تھا کہ آپ کا یہ خیال ہے کہ انگریز کی گورنمنٹ انصاف کی گورنمنٹ ہے، وہاں ظلم نہیں ہوتا تھا، عدالتیں تھیں، جسٹس تھا، رول آف لاء تھا، دین کے معاملے میں دخل نہیں دیتے تھے…
1184مرزاناصر احمد: اور پھر بھی خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(خوشامد کی کیا ضرورت تھی؟)
جناب یحییٰ بختیار: … اور پھر اگر یہ Right (حق) انسان کو مل گیا تو پھر اتنی زیادہ خاندانی خدمات اور خوشامد کی کیا ضرورت تھی۔ یہ تو Right (حق) تھا۔ ’’میں نے چونکہ اتنی خدمت کی ہے، اتنی میں نے آپ کی تعریف کی ہے، میرے خاندان نے اتنی خدمت کی ہے، مجھ پر ذرا مہربانی کریں، مجھ پر ظلم نہ ہونے دیں۔‘‘ یہ تو کوئی گورنمنٹ نہیں ہے۔ اگر جس کی آپ تائید کرتے ہیں۔
مرزاناصر احمد: بات سنیں، یہ جو حقیقت ہے وہ تو حقیقت ہے، اسے تو کوئی نہیں بدل سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ…
Mr. Yahya Bakhtiar: Here I agree with you.
(جناب یحییٰ بختیار: مجھے آپ سے اتفاق ہے)
مرزاناصر احمد: … حقیقت یہ ہے کہ نہ انگریز سے ایک پیسہ لیا… Don't you agree with it? (کیا آپ اس سے متفق نہیں ہیں)
جناب یحییٰ بختیار: نہیں جی، میں نہیں جانتا۔
مرزاناصر احمد: ہاں، پھر میں آپ کو بتارہا ہوں کہ نہ کبھی کوئی زمین لی، نہ کبھی کوئی نوکریاں لیں، نہ کبھی کوئی خطاب وہ لئے، ہر چیز کو ٹھکرا دیا، اور مانگا صرف یہ کہ عزت کی زندگی ہمیں گزارنے دیں اور ایک شریف انسان کی زبان سے یہ نکلا کہ اگر تم یہ بھی کرو گے تو ہم تمہارے بڑے مشکور ہوں گے۔
Mr. Yahya Bakhtiar: (Addressing the Chair) shall we continue after lunch? Because next subject with...
(جناب یحییٰ بختیار: کیا دوپہر کے کھانے کے بعد کاروائی جاری رہے گی؟ کیونکہ اگلا موضوع…)
Mr. Chairman: Yes. (جناب چیئرمین: جی)
Mirza Nasir Ahmad: After lunch.
(مرزاناصر احمد: دوپہر کے کھانے کے بعد)
Mr. Chairman: Yes, no, in the evening.
(جناب چیئرمین: نہیں، شام کے وقت)
Mr. Yahya Bakhtiar: We break for lunch?
(جناب یحییٰ بختیار: ہم دوپہر کے کھانے کا وقفہ کر لیں)
1185Mr. Chairman: The Delegation is permitted to leave to come at 6: 00 pm. چھ بجے شام۔
(جناب چیئرمین: وفد کو جانے کی اجازت ہے۔ وفد چھ بجے شام واپس آئے گا)
The honourable members has will keep sitting.
(معزز اراکین تشریف رکھیں)
Mr. Yahya Bakhtiar: 6 O'clock.
(جناب یحییٰ بختیار: چھ بجے)
Mr. Chairman: 6: 00 pm.
(جناب چیئرمین: چھ بجے)
جناب یحییٰ بختیار: مرزاصاحب! ایک بات میں بھول جاتا ہوں، ابھی تو ایڈجرن ہوگیا، صرف کوئی Remind (یادہانی) کرانا ہے آپ کو۔ یہ شروع میں جو کچھ فتوؤں کا آپ نے ذکر کیا تھا، بریلوی سکول، دیوبندی سکول، تو انہوں نے کہا کہ ان کی جو کتابوں میں شائع ہوئے ہیں اوریجنل، وہ لسٹ بتادیجئے، کتابیں دیکھا دیں، کیونکہ یہ کوئی سوال پوچھنا چاہتے تھے…
مرزاناصر احمد: جی۔
جناب یحییٰ بختیار: … تو پہلے گزارش کی تھی، وہ جو ’’محضرنامہ‘‘ میں ذکر آیا ناں جی، کئی فتوؤں کا، ایک فرقے کے دوسرے کے خلاف تو آپ نے کتابیں Quote (حوالہ دیا) کی ہیں، وہ کتابوں کی ضرورت تھی۔
مرزاناصر احمد: کون سا؟ وہ شام کو، جو ہیں وہ لے آئیں گے۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں۔
(The Delegation left the Chamber)
(وفد ہال سے چلاگیا)
Mr. Chairman: Anything that the honourable members would like to say?
(جناب چیئرمین: معزز اراکین میں سے کوئی رکن اگر کوئی بات کرنا چاہے تو کریں)
مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی: آپ ان سے یہ فرمایا کریں جو آپ شروع میں فرمایا کرتے تھے:
"Delegation may report back at such and such time." (وفد فلاں فلاں وقت رپورٹ کرے)
1186Mr. Chairman: The House Committee will meet at 5:30.
(جناب چیئرمین: خصوصی کمیٹی کا اجلاس ساڑھے پانچ بجے ہوگا) ۳۰:۵ میں اس واسطے کہہ رہا ہوں کہ آدھا گھنٹہ کا Margin لازما رکھنا پڑتا ہے۔
ایک آواز: آنا چاہئے ان لوگوں کو In Time. (وقت پر)
Mr. Chairman: 5:30; The quorum bell will start ringing at 5:30. By 6: 00 the quorum should be complete. I have given them 6: 00 O'clock.
Thank you very much.
(جناب چیئرمین: کورم کی گھنٹی ۳۰:۵ بجے بجنا شروع ہو جائے گی۔ چھ بجے تک کورم پورا ہو جانا چاہئے۔ انہیں میں نے چھ بجے کا وقت بتایا ہے
آپ کا بہت بہت شکریہ)
----------
[The Special Committee adjourned to re-assemble at 5:30 pm.]
(خصوصی کمیٹی کا اجلاس ملتوی ہوتا ہے۔ساڑھے پانچ بجے دوبارہ ہوگا)
----------
[The Special Committee re-assembled after lunch berak Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali) in the Chair.]
(خصوصی کمیٹی کا اجلاس کھانے کے وقفے کے بعد دوبارہ ہوا۔ چیئرمین (صاحبزادہ فاروق علی) نے صدارت کی)
----------
جناب چیئرمین: ان کو بلالیں، باہر بٹھا دیں۔ ان کو بھی بلالیں۔ اٹارنی جنرل صاحب آرہے ہیں۔ ہاں ، ہاں ٹھیک ہے۔ ان کو بھی بلالیں، ڈیلی گیشن کو بھی۔
(The Delegation entered the Chamber)
(وفد ہال میں داخل ہوا)
Mr. Chairman: Yes, Mr. Attorney- General.
(جناب چیئرمین: جی، اٹارنی جنرل صاحب)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(’’یہ خود کاشتہ پودا‘‘ مرزاقادیانی کے خاندان کی طرف اشارہ ہے؟)
جناب یحییٰ بختیار: مرزاصاحب! میں وہ… میں مرزاصاحب کا وہ خط پڑھ رہا تھا جو انہوں نے گورنمنٹ کو لکھا تھا۔ یہاں سوال یہ تھا کہ: ’’اس خودکاشتہ پودا کی نسبت نہایت ہی احتیاط اور تحقیق سے کام لیں اور اپنے ماتحت حکام کو اشارہ فرمائیں کہ وہ بھی اس خاندان کی ثابت شدہ وفاداریوں اور اخلاق کا لحاظ رکھ کر مجھے اور میری جماعت کو ایک خاص عنایت کی نظر سے دیکھیں۔‘‘ (خزائن ج۱۳ ص۳۵۰)آپ نے فرمایا کہ: ’’یہ خود کاشتہ پودا‘‘ مرزاصاحب کے خاندان کی طرف اشارہ ہے، جماعت کی طرف نہیں یا…
1187مرزاناصر احمد: یہ جو ہے ناں خط، یہ شروع سے اس طرح چلتا ہے: ’’بحضور نواب لیفٹیننٹ گورنر بہادر دام اقبالہ‘‘ اس کے… (وقفہ)
اگر اجازت ہو، میں ابھی… ذرا لمبا چلے گا۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں صرف یہ کہتا تھا کہ آپ جب اس کے بارے میں کچھ Clarification (وضاحت) دیں تو میں یہ ’’پودا‘‘ جو ذکر آیا اس کا، تو میں اس وقت آپ سے پوچھ رہا تھا کہ یہ جماعت کی طرف اشارہ ہے یا خاندان کی طرف اشارہ ہے یا مرزاصاحب کی ذات کی طرف اشارہ ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ نہیں، یہ خاندان کی طرف اشارہ ہے۔ تو اس قسم کے مرزاصاحب مزید سوال یہ آجاتے ہیں کہ یہ آپ کا خاندان تو بڑا پرانا مغل خاندان ہے…
مرزاناصر احمد: جی۔
جناب یحییٰ بختیار: … اور یہ سمرقند سے مرزاصاحب کے بزرگ آئے تھے۔ انگریز کا تو یہ ’’کاشتہ پودا‘‘ نہیں ہوسکتا۔ دوسرا یہ کہ مرزاصاحب کے بارے میں بھی نہیں کہہ سکتے کہ انگریز کا خود کاشتہ پودہ تھا…
مرزاناصر احمد: نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: … تو یہ صرف جماعت جو ہے انگریز کے دور میں…
مرزاناصر احمد: جماعت جو ہے، صرف اسی کے متعلق زیادہ وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ خود کاشتہ پودا نہیں ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، تو میں یہ کہتا ہوں، وہ جو کہہ رہے ہیں مرزاصاحب، یہ تو Process of Elimination (ختم کرنے کی کارروائی) ہے کہ ایک…
مرزاناصر احمد: اس کا جواب تو میں لمبا دے سکتا ہوں۔
1188جناب یحییٰ بختیار: … مغل خاندان جو ہے، اس کی فیملی سے تعلق ہے، اور یہ انگریز کی خود کاشتہ فیملی نہیں تھی، جو میں تھوڑا بہت پڑھ چکا ہوں…
مرزاناصر احمد: یہ اس کا جو ہے سارا شروع سے پڑھیں اگر، تو اس میں جواب ہے۔ اگر مجھے اجازت دیں تو میں جواب دے دیتا ہوں ورنہ۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں جی، میں صرف اپنا سوال Clarify (واضح) کرنے کے لئے عرض کر رہا ہوں کہ یہ جو ہے ناں ’’خود کاشت پودا‘‘ یہ خاندان پر نہیں۔ Apply (لاگو) ہوتا، اس وجوہات سے جو میں نے بتایا کہ مغل خاندان کی فیملی ہے، مشہور فیملی ہے، Well to do family (خوشحال خاندان) ہے۔ دوسرے یہ ہے…
مرزاناصر احمد: آپ وجہ لے رہے ہیں باہر سے، حالانکہ وجہ اس کے اندر موجود ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، وہ آپ بتادیں گے ناں جی۔
مرزاناصر احمد: جی۔
جناب یحییٰ بختیار: اور دوسرے یہ کہ مرزاصاحب پر بھی یہ نہیں ہوسکتا سوائے جماعت کے کہ ان کے زمانے میں یہ وجود میں آئی، انگریز کے زمانے میں اور یہ Implication ہے کہ انگریز نے بنائی یا بنوائی۔ اس کو دور کرنے کے لئے آپ Clarification (وضاحت) کر دیں۔
مرزاناصر احمد: جی، بالکل۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزاقادیانی کے پانچ بڑے اصول)
جناب یحییٰ بختیار: اور ایک ساتھ ہی میں یہ عرض کروں گا کہ اسی خط میں مرزا صاحب فرماتے ہیں: ’’کہ میں باربار اعلان دے چکا ہوں کہ میرے بڑے بڑے پانچ اصول ہیں…‘‘ چار اصولوں کے بعد پھر وہ کہتے ہیں: ’’چوتھے یہ کہ اس گورنمنٹ محسنہ کی نسبت جس کے ہم زیرسایہ ہیں، یعنی گورنمنٹ انگلشیہ کوئی مفسدانہ خیالات دل میں نہ لانا اور خلوص دل سے 1189اس کی اطاعت میں مشغول رہنا۔‘‘
(خط بحضور گورنمنٹ ص۱۱، ملحقہ کتاب البریہ، خزائن ج۱۳ ص۳۴۸)
یہ اس پر آپ ذرا Clarification (وضاحت) دے دیجئے۔
مرزاناصر احمد: میں یہ…
جناب یحییٰ بختیار: کیسی یہ محسن تھی؟ کیا احسان تھے؟
مرزاناصر احمد: ہاں جی، یہ وہ میں… بالکل، بالکل۔ ہاں، ہاں میں کوشش کروں گا، جلدی ختم ہو جائے۔ یہ خط یہاں سے شروع ہوتا ہے…
جناب یحییٰ بختیار: یہ، مرزاصاحب! وہ دوسرا بھی جو ہے ناں…
مرزاناصر احمد: … وہ بھی ساتھ لے لیتے ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: وہ بھی آج… اس وقت آپ نے کہا تھا کہ اس میں کچھ کافی لمبا جواب ہے…
مرزاناصر احمد: ہاں، ہاں، ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: … تو اس پر بھی مجھے خیال نہیں تھا، صبح پوچھنا تھا، تاکہ… ٹائم کم رہ گیا ہے۔ اس کا بھی آنا ضروری ہوگا۔
مرزاناصر احمد: وہ میں ابھی اس کے بعد شروع کر دیتا ہوں: ’’چونکہ مسلمانوں کا ایک نیا فرقہ جس کا پیشواء اور امام اور پیر یہ راقم ہے، پنجاب اور ہندوستان کے اکثر شہروں میں زور سے پھیلتا جاتا ہے اور بڑے بڑے تعلیم یافتہ، مہذب اور معزز عہدہ دار اور نیک نام رئیس اور تاجر پنجاب اور ہندوستان کے اس فرقہ میں داخل ہوتے جاتے ہیں اور عموما…‘‘
جناب یحییٰ بختیار: یہ شروع سے آپ پڑھ رہے ہیں؟
مرزاناصر احمد: ہاں جی، شروع سے۔ ویسے میں بیچ میں چھوڑتا جاؤں گا: ’’… اور عموماً پنجاب کے شریف مسلمانوں کے نو تعلیم یاب جیسے بی۔اے، 1190ایم۔اے اس فرقے میں داخل ہیں اور داخل ہورہے ہیں اور ایک گروہ کثیر ہوگیا ہے جو اس ملک میں روز بروز ترقی کر رہا ہے۔ اس لئے میں نے یہ قریب مصلحت سمجھا کہ اس فرقہ جدیدہ اور نیز اپنے تمام حالات سے جو اس فرقے کا پیشوا ہوں، حضور گورنر بہادر کو آگاہ کروں اور یہ ضرورت اس لئے بھی پیش آئی کہ یہ ایک معمولی بات ہے کہ ہر ایک فرقہ جو ایک نئی صورت سے پیدا ہوتا ہے، گورنمنٹ کو حاجت پڑتی ہے کہ اس کے اندرونی حالات دریافت کرے اور بسااوقات ایسے نئے فرقے کے دشمن اور خود غرض، جن کی عداوت اور مخالفت ہر ایک نئے فرقہ کے لئے ضروری ہے۔ گورنمنٹ میں خلاف واقعہ خبریں پہنچاتے ہیں اور مفسد یا نہ مخبریوں سے گورنمنٹ کو پریشانی میں ڈالتے ہیں۔ پس چونکہ گورنمنٹ عالم الغیب نہیں ہے، اس لئے ممکن ہے کہ گورنمنٹ عالیہ ایسی مخبریوں کی کثرت کی وجہ سے کسی قدر بدظنی پیدا کرے یا بدظنی کی طرف مائل ہو جائے۔ لہٰذا گورنمنٹ عالیہ کی اطلاع کے لئے۔ چند ضروری اور ذیل میں لکھتاہوں:
۱… سب سے پہلے میں یہ اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ میں ایک ایسے خاندان میں سے ہوں جس کی نسبت گورنمنٹ نے ایک مدت دراز سے قبول کیا ہوا ہے کہ وہ خاندان اوّل درجے پر سرکار دولت مدار انگریزی کا خیرخواہ ہے۔ (وہ خاندان) چنانچہ چیف کمشنر بہادر…‘‘
آگے وہ چٹھیوں کی جو تاریخیں ہیں، وہ بڑی اہم ہیں۔ ایک تاریخ ہے… اس سے پہلے میں یہ بتادوں کہ آپ کا دعویٰ ۱۸۹۱ء کا ہے۔ Eighteen ninety one (۱۸۹۱) یہاں جو خط ہے اس کی تاریخ پہلے کی ہے۔ Eighteen fifty- eight (۱۸۵۸) اٹھارہ سو اٹھاون دوسرے کی ہے۔ 1191۱۸۷۶ء June اور تیسرے کی ہے ۱۸۴۹ئ۔ تو یہ خاندان کے متعلق ہے۔ اس عمر میں ایک نوجوان کی حیثیت سے زندگی گزار رہے تھے اور آپ کا ان خاندانی حالات سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ پہلے کی ہیں یہ ساری چٹھیاں یہاں یہ بتایا کہ گورنمنٹ ہمیشہ سے یہ جانتی ہے، خطوط آئے ہوئے ہیں ان کے، کہ ہم مفسدنہیں، امن پسند ہیں۔ خاندانی لحاظ سے، اپنے متعلق نہیں ابھی بات شروع ہوئی:’’دوسرا اور قابل گزارش یہ ہے کہ میں ابتدائی عمر سے اس وقت تک جو قریباً ساٹھ برس کی عمر تک پہنچا ہوں، اپنی زبان اور قلم سے اس اہم کام میں مشغول ہوں تاکہ مسلمانوں کے دلوں کو گورنمنٹ انگلشیہ کی سچی محبت اور خیرخواہی اور ہمدردی کی طرف پھیروں اور ان کے بعض کم فہموں کے دلوں سے غلط خیال جہاد (جہاد کا غلط خیال ہے اس کو) کو دور کروں…‘‘
جہاد کے خلاف نہیں، جہاد کے غلط خیال کو دور کروں:’’…جوان کو دلی صفائی اور مخلصانہ تعلقات سے روکتے ہیں اور اس سلسلے میں…‘‘
نمبردو کے نیچے آپ لکھتے ہیں عربی اور فارسی اور اردو میں تالیف کر کے ممالک اسلامیہ کے لوگوں کو بھی مطلع کیا کتابیں بھیج کر: ’’…عربی اور فارسی اور اردو میں تالیف کر کے، ممالک اسلامیہ کے لوگوں کو بھی مطلع کیا۔ ان کو یہ اطلاع دی کہ ہم لوگ کیونکر امن اور آرام اور آزادی سے گورنمنٹ انگلشیہ کے سایہ عاطفت میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور ایسی کتابوں کے چھاپنے اور شائع کرنے میں ہزارہا روپیہ خرچ کیاگیا۔ مگر بایں ہمہ میری طبیعت نے کبھی نہیں چاہا کہ ان متواتر خدمات کا اپنے حکام کے پاس ذکر بھی کروں۔ کیونکہ میں نے کبھی صلہ اور انعام کی خواہش سے نہیں بلکہ ایک 1192حق بات کو ظاہر کرنا اپنا فرض سمجھتا اور درحقیقت وجود سلطنت انگلشیہ خدائے تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لئے ایک نعمت تھی جو مدت دراز کی تکلیفات کے بعد ہم کو ملی۔ اس لئے ہمارا فرض تھا کہ اس نعمت کا باربار اظہار کریں۔ ہمارا خاندان سکھوں کے ایام میں ایک سخت عذاب میں تھا… ہماری اور تمام پنجاب کے مسلمانوں کی (سکھوں کے زمانے میں ہماری اور پنجاب کے تمام مسلمانوں کی) دینی آزادی کو بھی روک دیا۔ ایک مسلمان کو بانگ نماز پر مارے جانے کا اندیشہ تھا۔ (اور کئی ایسے واقعات ہوئے کہ اذان دی اور ان کو قتل کر دیا گیا) چہ جائیکہ اور رسوم عبادات آزادی سے بجا لاسکتے۔ پس یہ اس گورنمنٹ محسنہ کا ہی احسان تھا کہ ہم نے اس جلتے ہوئے تندور سے خلاصی پائی۔ (جو سکھوں کا تھا) خدا تعالیٰ نے (وہ سکھوں کے اس عذاب سے کہ اذان دینا بھی بند ہوگیا تھا چھڑانے کے لئے) ایک ابر رحمت کی طرح اس گورنمنٹ کو ہماے آرام کے لئے بھیج دیا۔‘‘ اور پھر آگے وہ سارے وہ احسانات وغیرہ کا ذکر کر کے:
’’مگر میں جانتا ہوں…‘‘ یہ اس پیرا کے آخر میں ہے، تین سطریں اوپر: ’’…مگر میں جانتا ہوں کہ وہ اسلام کی اس اخلاقی تعلیم سے (وہ جو بعض ان پڑھ مسلمان ہیں اور غلط خیال جہاد کا رکھتے ہیں وہ اسلام کی اس اخلاقی تعلیم سے بھی) بے خبر ہیں جس میں یہ لکھا ہے کہ جو شخص انسان کا شکر نہ کرے وہ خدا کا شکر بھی نہیں کرتا۔‘‘ یعنی اپنے محسن کا شکر کرنا ایسا فرض ہے جیسا کہ خدا کا:
’’یہ تو ہمارا عقیدہ ہے۔ مگر افسوس کہ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ اس لمبے سلسلہ اٹھارہ برس کی تالیفات کو جن میں بہت سی پر زور تقریریں اطاعت 1193گورنمنٹ کے بارے میں ہیں کبھی ہماری گورنمنٹ محسنہ نے توجہ سے نہیں دیکھا اور کئی مرتبہ میں نے یاد دلایا مگر اس کا اثر محسوس نہیں ہوا۔ لہٰذا میں پھر یہ یاد دلاتا ہوں کہ مفصلہ ذیل کتابوں اور اشتہاروں کو توجہ سے دیکھا جائے اور وہ مقامات پڑھے جائیں (یہ بڑا اہم ہے۔ وہ ساری کتابیں جہاد کے متعلق نہیں ہیں) اور وہ مقامات پڑھے جائیں جن کے نمبر صفحات میں نے ذیل میں لکھ دئیے ہیں…‘‘
پہلی دو… دو صفحے ساری کتاب کے ’’براہین احمدیہ‘‘ حصہ سوم، بڑی کتاب ہے۔ اس میں صرف دو صفحے لکھے ہوئے ہیں اس کے متعلق، اور وہ بھی جہاد کی حقیقت جو آپ سمجھتے تھے اس کے متعلق ’’براہین احمدیہ‘‘ حصہ چہارم چار صفحے اور یہ ’’نوٹس دربارہ توسیع دفعہ ۲۹۸‘‘ اور کتاب ’’آریہ دھرم‘‘ اس کے ہیں کوئی چھ، سات صفحے اور آگے ہے ’’التماس‘‘ یہ اشتہار ہے۔ اس کے چار صفحے اور پھر آگے اشتہار۔ ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ بڑی موٹی کتاب ہے اتنی بڑی کتاب کئی سو صفحے کی چھ سات سو صفحے کی ہے، چھ سو صفحے کی کتاب میں سے سترہ سے بیس تک، یہ کہ ہوگئے چار، اور پانچ سو گیارہ سے اٹھائیس تک، یہ ہو گئے ستاراں، یہ سارے یہ صفحے ہیں۔ اعلان درکتاب ’’نورالحق‘‘ تیئس سے چوّن صفحے تک اور کتاب ’’شہادت القرآن‘‘ یہ چند صفحے ہیں۔ ’’نور الحق‘‘ حصہ دوم انچاس، پچاس صرف دو صفحے ہیں ساری کتاب کے۔ ’’سر الخلافہ‘‘ صفحہ اکہتر، بہتر، تہتر۔ یہ بھی پہلے ضروری نہیں کہ پہلے صفحے سے، اکہتر سے شروع ہو، اس کے صفحے کے کسی حصے سے شروع ہے اور تہتر کے کسی حصے میں ختم ہوگیا۔ ’’اتمام الحجہ‘‘ پچیس سے، اسی طرح تین صفحوں کے اندر یہ آگیا اور اسی طرح ان کتابوں کے، جو ہزاروں صفحات پر مشتمل ہیں، یہ سارے صفحے مل کے سو بھی نہیں بنتے۔
1194جناب یحییٰ بختیار: یہ ’’تحفہ، قیصریہ‘‘ تمام کتاب اور بھی ہیں، تمام کتابیں بھی ہیں اس کے بعد۔
مرزاناصر احمد: ’’تحفہ قیصریہ‘‘ کتنے صفحوں کی کتاب ہے؟ یہ پچاس صفحے کی کتاب بھی نہیں اور اس کا تمام کتاب کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام کتاب ہی یہ ہے مطلب یہ ہے کہ یہ مضمون پھیلا ہوا بیان ہوا ہے۔ مختلف جگہوں پر، اس واسطے علیحدہ علیحدہ صفحات نہیں لکھے گئے اور یہ اصل یہ کتا ب کا مضمون ہے، ملکہ وکٹوریہ کو یہ دعوت کہ تم اسلام کو قبول کرو اور اسلام کی حقانیت پر اس کو دلائل دئیے گئے ہیں اور اس میں ساتھ یہ بھی، شکریہ بھی ادا کیاگیا ہے۔ اشتہار سمیت اس کے ہاں، اشتہار وغیرہ ملا کے یہ ۲۴ صفحے ہیں اور یہ بھی اب غلطی ’’تحفہ قیصریہ‘‘ کے متعلق پیدا ہوگئی ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، مرزاصاحب! میں تو اس پر، Detail (تفصیل) میں تو آپ سے پوچھ رہا تھا کہ مرزاصاحب خود کہتے ہیں کہ: ’’اتنا میں نے لکھا ہے کہ پچاس الماریاں بھر جاتی ہیں۔‘‘
مرزاناصر احمد: میں آجاتا ہوں، میں اس طرف آتا ہوں۔ ٹھیک ہے، اس طرف آجاتا ہوں مطلب یہ ہے کہ اس اشتہار سے ایک غلط تاثر بعض لوگوں کے ذہن میں پیدا ہوا۔ تو ہر ایک کے ہو جاتا ہے۔ اس کی میں وضاحت کر رہا ہوں۔ ان کتابوں کے دیکھنے کے بعد ہر ایک شخص۔ اس نتیجے پر پہنچتا ہے، جو آپ نے لکھا ہے وہ یہ ہے: ’’کیا اس کے حق میں یہ گمان ہوسکتا ہے کہ وہ اس گورنمنٹ محسنہ کا خیرخواہ نہیں۔ جو شکایتیں جا رہی تھیں گورنمنٹ کے پاس اور میں دعویٰ سے گورنمنٹ کی خدمت میں اعلان دیتا ہوں کہ یہ جورپورٹیں بھیجی جارہی ہیں کہ یہ مہدی سوڈانی کی طرح ایک فتنہ پیدا کرنے والا اور بغاوت کرنے 1195والا گروہ ہے یہ غلط ہے اور ہمارا جو یہ ہے جہاد کا جو صحیح تصور، عین اسلامی، وہ جماعت کے لوگوں میں پیدا کیا گیا ہے اس لئے ایسی گورنمنٹ کے خلاف جنہوں نے سکھوں کے مظالم سے مسلمانوں کو نجات دلائی یہ غداری نہیں کریں گے۔‘‘
(پھر اسی کے اندر آجاتا ہے) ڈلیسی پادریوں کے نہایت دل آزار حملے اور توہین آمیز کتابیں جن کے متعلق لکھتے ہیں: ’’یہ کتابیں درحقیقت ایسی تھیں کہ اگر آزادی کے ساتھ ان کی مدافعت نہ کی جاتی اور ان کے سخت کلمات کے عوض میں کسی قدر مہذبانہ سختی عمل میں نہ آتی تو بعض جاہل تو جلد تر بدگمانی کی طرف جھک جاتے ہیں۔ سارے یہ خیال کرتے کہ گورنمنٹ کو پادریوں کی خاص رعایت ہے۔ مگر اب ایسا خیال کوئی نہیں کر سکتا اوربالمقابل کتابوں کے شائع ہونے سے وہ اشتعال جو پادریوں کی سخت تحریروں سے پیداہونا ممکن تھا اندر ہی اندر دب گیا اور لوگوں کو معلوم ہوگیا کہ ہماری گورنمنٹ عالیہ نے ہر ایک مذہب کے پیروں کو اپنے مذہب کی تائید میں عام آزادی دی ہے جس سے ہر ایک فرقہ برابر فائدہ اٹھاسکتا ہے۔ پادریوں کی کوئی خصوصیت نہیں ہے۔‘‘
اور اس میں پھر اگلے پیرے میں ہے۔ ’’امہات المؤمنین‘‘ کا ذکر جو نہایت ہی گندی اور فحش کتاب تھی اور بڑی بھڑکانے والی تھی اور یہ بتایا کہ: ’’میں نے یہ سختی اس لئے کی ہے کہ وہ لوگ جو زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں، ان کے… جوش میں آجاتے ہیں ان کا تدارک کیا جاسکے۔‘‘ پھر آگے لکھتے ہیں، اسی نمبر۲ کے نیچے، کہ:1196 ’’لیکن اسلام کا مذہب مسلمانوں کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی مقبول القوم نبی کو برا کہیں۔ بالخصوص حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت جو پاک اعتقاد عام مسلمان رکھتے ہیں اور جس قدر محبت اور تعظیم سے ان کو دیکھتے ہیں۔ وہ ہماری گورنمنٹ پر پوشیدہ نہیں۔ میرے نزدیک ایسی فتنہ انگیز تحریروں کے روکنے کے لئے بہتر طریق یہ ہے کہ گورنمنٹ عالیہ یا تو یہ تدبیر کرے کہ ہر ایک فریق مخالف کو ہدایت فرمائے کہ وہ اپنے حملہ کے وقت تہذیب اور نرمی سے باہر نہ جاوے اور صرف ان کتابوں کی بناء پر اعتراض کرے جو فریق مقابل کی مسلم اور مقبول ہوں اور اعتراض بھی وہ کرے جو اپنی مسلم کتابوں میں وارد نہ ہوسکے اور اگر گورنمنٹ عالیہ یہ نہیں کر سکتی تو یہ تدبیر عمل میں لاوے کہ یہ قانون صادر فرمادے کہ ہر ایک فریق صرف اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کیا کرے اور دوسرے فریق پر ہرگز حملہ نہ کرے۔ میں دل سے چاہتا ہوں کہ ایساہو اور میں یقینا جانتا ہوں کہ قوموں میں صلح کاری پھیلانے کے لئے اس سے بہتر اور کوئی تدبیر نہیں…‘‘
’’تیسرا امر جو قابل گزارش ہے وہ یہ ہے کہ میں گورنمنٹ عالیہ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ فرقہ جدیدہ جو برٹش انڈیا کے اکثر مقامات میں پھیل گیا ہے جس کا میں پیشوا اور امام ہوں۔ گورنمنٹ کے لئے ہر گز خطرناک نہیں (جو رپورٹیں جارہی تھیں) اور اس کے اصول ایسے پاک اور صاف اور امن بخش اور صلح کاری کے ہیں کہ تمام اسلام کے موجودہ فرقوں میں اس کی نظیر گورنمنٹ کو نہیں ملے گی جو ہدایتیں اس فرقہ کے لئے میں نے مرتب کی ہیں، یعنی جن کو میں نے ہاتھ سے لکھ کر اور چھاپ کر ہر ایک مرید کو دیا ہے، ان کو اپنا دستور العمل رکھے، وہ ہدایتیں میرے اس رسالہ میں مندرج ہیں جو ۱۲؍جنوری ۱۸۸۹ء میں چھپ کر عام مریدوں میں شائع ہوا ہے جس کا نام 1197تکمیل تبلیغ مع شرائط بیعت جس کی ایک کاپی اسی زمانہ میں گورنمنٹ میں بھیجی گئی تھی… یہ سچ ہے کہ میں کسی ایسے، مہدی، ہاشمی، قریشی، خونی کا قائل نہیں ہوں۔ جو دوسرے مسلمانوں کے اعتقاد میں (یہاں سارے مسلمان نہیں مراد وہی مراد ہیں جن کا یہ اعتقاد تھا) بنی فاطمہ میں سے ہوگا اور زمین کو کفار کے خون سے بھر دے گا۔ میں ایسی حدیثوں کو صحیح نہیں سمجھتا اور محض ذخیرہ موضوعات جانتا ہوں۔ ہاں، میں اپنے نفس کے لئے اس مسیح موعوود کا ادّعا کرتا ہوں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح غربت کے ساتھ زندگی بسر کرے گا اور لڑائیوں اور جنگوں سے بیزار ہوگا اور نرمی اور صلح کاری اور امن کے ساتھ قوموں کو اس سچے ذوالجلال خدا کا چہرہ دکھائے گا جو اکثر قوموں سے چھپ گیا ہے۔ میرے اصولوں اور اعتقادوں اور ہدایتوں میں کوئی امر جنگ جوئی اور فساد کا نہیں ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھیں گے ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے۔‘‘ یہاں مسئلہ جہاد سے وہ مراد نہیں جو صحیح مسئلہ ہے، بلکہ وہ مراد ہے جس کے متعلق پہلے آیا ہے کہ غلط مسئلہ جہاد بعض ذہنوں میں پھیلا ہوا ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: آگے Explain (واضح) کر دیتے…
مرزاناصر احمد: ہاں جی۔
جناب یحییٰ بختیار: آگے خود Explain (واضح) ہو جاتا ہے۔
مرزاناصر احمد: آگے خود Explain (واضح) ہو جاتا ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: ’’… کیونکہ مجھے مسیح…‘‘
1198مرزاناصر احمد: ’’اوّل یہ کہ خداتعالیٰ کو واحدہ، لاشریک (اپنے اصول بتائے ہیں) اوّل یہ (میرے جو اصول ہیں، میرے بڑے اصول پانچ ہیں) اوّل یہ کہ خداتعالیٰ کو وحدہ لاشریک اور ہر ایک منقفت موت اور بیماری اور لاچاری اور درد اور دکھ اور دوسری نالائق صفات سے پاک سمجھنا۔ (اور یہ جو فقرہ جو ہے یہ بڑی کاری ضرب لگاتا ہے۔ عیسائی مذہب اوران کے خیالات پر… یہ میں اپنی طرف سے کہہ رہا ہوں) دوسرے یہ کہ خداتعالیٰ کے سلسلہ نبوت کا خاتم اور آخری شریعت لانے والا اور نجات کی حقیقی راہ بتلانے والا حضرت سیدنا ومولانا محمد مصطفیٰa کو یقین رکھنا۔ تیسرے یہ کہ دین اسلام کی دعوت محض دلائل عقلیہ اور آسمانی نشانوں سے کرنا اور خیالات غازیانہ اور جہاد اور جنگ جوئی کو اس زمانے کے لئے قطعی طور پر حرام اور ممتنع اورایسے خیالات کے پابند کو…‘‘
سید عباس حسین گردیزی: … متعلق اور یہ بہت ساری باتیں ہوتی جاتی ہیں جو موضوع سے باہر ہوکر بیان فرمارہے ہیں۔
Mr. Chairman: You may contact the Attorney- General as decided on the very first day.
(جناب چیئرمین: آپ جیسا کہ پہلے روز فیصلہ ہوا تھا، اٹارنی جنرل سے رابطہ کریں)
جناب یحییٰ بختیار: بیٹھ جائیے۔
مرزاناصر احمد: میں شروع کر دوں؟
جناب یحییٰ بختیار: کر دیجئے۔
مرزاناصر احمد: ’’… اور باغیانیہ اور خیالات غازیانہ اور جہاد اور جنگ جوئی کو اس زمانے کے لئے قطعی طور پر حرام اور ممتنع سمجھنا… چوتھے یہ کہ اس گورنمنٹ محسنہ 1199کی نسبت جس کے ہم زیرسایہ ہیں یعنی گورنمنٹ انگلشیہ کوئی مفسدانہ خیالات دل میں نہ لانا۔ (مفسدانہ خیالات) اور خلوص دل سے اس کی اطاعت میں مشغول رہنا Law Abiding (امن پسند) پانچویں یہ کہ بنی نوع انسان سے ہمدردی کرنا اور حتی الوسع ہر ایک شخص کی دنیا اور آخرت کی بہبودی کے لئے کوشش کرتے رہنا اور امن اور صلح کاری کا مؤید ہونا اور نیک اخلاق کو دنیا میں پھیلانا۔‘‘
یہ پانچ اصول ہیں جن کی اس جماعت کو تعلیم دی جاتی ہے۔ چوتھے… میں نے چھوڑ دیا بیچ میں سے:
۴… چوتھی گزارش یہ ہے کہ جس قدر لوگ میری جماعت میں داخل ہیں اکثر ان میں سے سرکار انگریزی کے معزز عہدوں پر ممتاز یا اس ملک کے نیک نام رئیس اور ان کے خدام اور احباب اور یا تاجر اور یاوکلاء یا نو تعلیم یافتہ انگریزی خوان اور یا ایسے نیک نام علماء اور فضلاء اور شرفاء ہیں جو کسی سرکار انگریزی کی نوکری کر چکے ہیں یا اب یا نوکری پر ہیں یا ان کے اقارب رشتہ دار اور دوست ہیں…
۵… میرا اس درخواست سے، جو بحضور کی خدمت میں مع اسماء مریدین روانہ کرتا ہوں، مدعا یہ ہے کہ اگرچہ میں ان خدمات خاصہ کے لحاظ سے جو میں نے اور میرے بزرگوں نے محض صدق دل اور اخلاص اور جوش وفاداری سے سرکار انگریزی کی خوشنودی کے لئے کہی ہیں، عنایت خاص کا مستحق ہوں۔ لیکن یہ سب امور گورنمنٹ عالہ کی توجہات پر چھوڑ کر باالفعل ضروری استغاثہ کہ مجھے متواتر اس بات کی خبر ملی ہے کہ بعض حاسد بداندیش جو بوجہ اختلاف عقیدہ یا کسی اور وجہ سے مجھ سے بغض اور عداوت رکھتے ہیں یا جو میرے دوستوں کے دشمن ہیں، میری نسبت 1200اور میرے دوستوں کی نسبت خلاف واقعہ امور گورنمنٹ کے معزز حکام تک پہنچاتے ہیں۔ اس لئے اندیشہ ہے کہ ان کے ہر روز کی مفتریانہ کارروائیوں سے گورنمنٹ عالیہ کے دل میں بدگمانی پیدا ہو کہ وہ تمام جانفشانیاں پچاس سالہ میرے والد مرحوم… اور میرے حقیقی بھائی… اور جن کا تذکرہ سرکاری چٹھیات… میں ہے۔ سب کو ضائع اور برباد نہ جائیں اور خدا ناخواستہ سرکار انگریزی اپنے ایک قدیم وفادار خیرخواہ خاندان کی نسبت کوئی تکدر خاطر اپنے دل میں پیدا کرے۔ اس بات کا علاج تو غیرممکن ہے کہ ایسے لوگوں کا منہ بند کیا جائے کہ جو اختلاف مذہبی کی وجہ سے یا نفسانی حسد اور بغض اور کسی ذاتی غرض کے سبب سے جھوٹی مخبری پر کمربستہ ہو جاتے ہیں۔ صرف یہ التماس ہے کہ سرکار دولتمدار ایسے خاندان کی نسبت (جن کی گواہیاں ہیں پہلے مان رہے سرکار انگریزی ایسے خاندان کی نسبت)… ایک وفادار جانثار خاندان ثابت کر چکی ہے۔ (جو چٹھیاں جو ہیں) (ایک جانثار خاندان ثابت کر چکی ہے) اور جس کی نسبت گورنمنٹ عالیہ کے معزز حکام نے ہمیشہ مستحکم رائے سے اپنی چٹھیات میں گواہی دی ہے کہ وہ قدیم سے سرکار انگریزی کے پکے خیرخواہ اور خدمت گزار ہیں…
… اس میں خود کاشتہ پودا خاندان کے متعلق کہا ہے۔ بڑا واضح ہے یہاں۔ اس خاندان کے اس حصہ کے متعلق جس کے لئے اپنے ایک الہام میں یہ کہا کہ تیرے آباؤ اجداد سے تیرا تعلق قطع کر دیا جائے گا اور تیرے سے شروع کیا جائے گا:
یہ یہ ’’خود کاشتہ پودا‘‘ بڑے واضح الفاظ ہیں یہ کہ صرف اپنے خاندان کے لئے کہا ہے۔ اپنے لئے یا جماعت کے لئے نہیں کہاگیا۔
1201’’… وہ قدیم سے سرکار انگریزی کے پکے خیرخواہ اور خدمت گزار ہیں۔ اس خود کاشتہ پودا کی نسبت نہایت حزم اور احتیاط اور تحقیق سے کام لے۔ لہٰذا ہمارا حق ہے کہ ہم (اگلا صفحہ) کہ ہم خدمات گزشتہ کے لحاظ سے سرکار دولت مدار کی پوری عنایات اور خصوصیت توجہ کی درخواست کریں(اور درخواست یہ ہے) کہ تاہر ایک شخص بے وجہ (اتنی درخواست ہے سارے اشتہار میں) تاہر ایک شخص بے وجہ ہماری آبروریزی کے لئے دلیری نہ کر سکے…‘‘ آگے وہ نام ہیں۔ اگلا میں اگلا… تین ہیں ناں۔ یہ لے لیں۔ دوسرا…
جناب یحییٰ بختیار: میں اس پہ جی کچھ…
مرزاناصر احمد: جی۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزاناصر احمد کی بددیانتی)
جناب یحییٰ بختیار: … پوچھتا ہوں کیونکہ ابھی تک وہ جو ہے ناں جی، آپ نے لفظ ’’جماعت‘‘ نہیں پڑھا: ’’… (اس واسطے وہ) مجھے اور میری جماعت کو ایک خاص عنایت اور مہربانی کی نظر سے دیکھیں۔ ہمارے خاندان نے سرکار انگریزی کے راہ میں اپنے خون بہانے اور جان دینے سے فرق نہیں کیا اور نہ اب فرق ہے۔ لہٰذا ہمارا حق ہے کہ ہم خدمات گذشتہ کے لحاظ سے سرکار دولت مدار کی پوری عنایات اور خصوصیات کی توجہ سے درخواست کریں تاکہ ہر ایک شخص بے وجہ ہمارے آبروریزی کے لئے دلیری نہ کر سکے۔ اب کسی قدر اپنی جماعت کے نام ذیل میں لکھتا ہوں…‘‘
(خط بحضور گورنر ص۱۳، ملحقہ کتاب البریہ، خزائن ج۱۳ ص۳۵۰)
ان ساروں کے نام بھی دے رہے ہیں۔
1202مرزاناصر احمد: جی، ’’خصوصی عنایات‘‘ سے مراد یہ ہے کہ ہماری کوئی بے عزتی نہ کرے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، وہ تو ٹھیک ہے…
مرزاناصر احمد: ہاں، ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: یعنی ’’ہماری‘‘ سے یہاں مطلب ان کے خاندان کی بھی ہوسکتی ہے اور یہ جماعت کی بھی، کیونکہ دونوں استعمال کر رہے ہیں…
مرزاناصر احمد: نہیں، نہیں…
جناب یحییٰ بختیار: … اور خاندان کی لسٹ نہیں دے رہے، جماعت کی لسٹ دے رہے ہیں۔
مرزاناصر احمد: آپ نے صحیح فرمایا۔
جناب یحییٰ بختیار: میں، دیکھیں ناں اس واسطے…
مرزاناصر احمد: ہاں، ہاں۔ آپ نے صحیح فرمایا۔ لیکن جہاں ’’خود کاشتہ‘‘ لکھا، وہ صرف اپنے اس خاندان کے متعلق لکھا جس سے منقطع ہوچکے ہیں آپ۔
جناب یحییٰ بختیار: تو ٹھیک ہے جی۔ نہیں، میں اس واسطے…
مرزاناصر احمد: لیکن یہاں، دیکھیں ناں، یہاں ’’پوری عنایات اور خصوصیات سے توجہ کی درخواست‘‘ اور درخواست یہ ہے کہ ’’بے وجہ ہمارے آبروریزی کے لئے کوئی شخص دلیری نہ کرے۔‘‘ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں مانگا۔
جناب یحییٰ بختیار: میں تو یہی… مرزا صاحب! مجھے تعجب اس بات کا تھا، جو میں صبح عرض کر رہا تھا، کہ آپ اس گورنمنٹ کو محسن گورنمنٹ کہتے ہیں کہ یہاں قانون ہے، انصاف ہے…
1203مرزاناصر احمد: (اپنے وفد کے ایک رکن سے) وہ کہاں ہے رسالہ؟
جناب یحییٰ بختیار: … یہاں انصاف ہے، قانون ہے، اس کے بعد اتنی زیادہ ان کو بتانے کے لئے کہ ہمارے خاندان نے اتنی خدمت کی ہے، اس کے لئے خدا کے لئے ہماری آبروکو بچایا جائے۔ یہ گورنمنٹ اس قابل تھی کہ اس کی تعریف کی جاتی کہ وہاں اتنی منتوں کے بعد، خوشامدوں کے بعد یہ کہا جائے کہ بھئی! ہمیں پروٹیکشن دیجئے؟
مرزاناصر احمد: ہم… اس کے علاوہ اور کچھ ہے ہی نہیں یہاں…
جناب یحییٰ بختیار: تو یہ تو اس گورنمنٹ… وہ گورنمنٹ اس قابل نہیں کہ جس کی کہ اطاعت کرو۔ یہ تو ڈیوٹی تھی اس گورنمنٹ کی، فرض تھا گورنمنٹ کا کہ ہر ایک Citizen (شہری) کی…
مرزاناصر احمد: یہ تو حکومتیں اپنے فرضوں کو کبھی کبھی بھول بھی جایا کرتی ہیں۔ ہمیشہ ہی…
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں یہ کہہ رہاہوں۔ ہمیں ان حالات کا اندازہ نہیں۔ ممکن ہے کہ وہ ایسے حالات سے گزرے ہیں اور کیا ہوا ہے۔ میں اس میں نہیں کہہ رہا کچھ…
مرزاناصر احمد: وہ تو اگر وہ اس وقت کوئی ہوں ناں تو بتائیں گے آپ کو کہ سکھ کس قدر مظالم ڈھایا کرتے تھے۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں جی، وہ تو ٹھیک ہے، میں ہسٹاریکل بیک گراؤنڈ میں سمجھ رہا ہوں۔ میں اس واسطے کہہ رہا ہوں کہ یہ چیزیں جن سے تعجب ہوتا ہے…
مرزاناصر احمد: صرف یہ مطالبہ کیا ہے کہ بے وجہ آبرو ریزی پر دلیری نہ دکھایا کریں، اور بے وجہ آبروریزی پر دلیری، جھوٹی مخبری ہے جو حکومت کو کی جارہی تھی۔
1204جناب یحییٰ بختیار: یہاں ایک…
مرزاناصر احمد: یہ اگر اجازت ہو تو میں ایک رسالہ بھی…
جناب یحییٰ بختیار: ہاں جی، فائل کر دیجئے۔
مرزاناصر احمد: … داخل کروانا چاہتا ہوں اس میں، اسی میں اور دوسروں کے حوالے بہت سارے ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: ٹھیک ہے، دے دو جی۔
یہ مرزاصاحب! یہ خزائن ج۱۳ ص۳۴۰ پر…
مرزاناصر احمد: جی۔
جناب یحییٰ بختیار: اسی خط کے ص۳۴۰ پر کتاب میں جو خط ہے…
مرزاناصر احمد: جی (اپنے وفد کے ایک رکن سے) نکال لیں۔
جناب یحییٰ بختیار: … کیونکہ آپ نے کچھ Portion (حصہ) پڑھا ہے تو میں آپ کی توجہ کچھ اور Portions (حصوں) کی طرف دلانا چاہتا ہوں…
مرزاناصر احمد: ہاں، ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: ’’…جن کی وجہ سے وہ نہایت بے وقوفی سے اپنی گورنمنٹ محسن کے ساتھ ایسے طور سے صاف دل اور سچے خیرخواہ نہیں ہوسکتے تھے جو صاف دلی اور خیرخواہی کی شرط ہے۔ بلکہ بعض جاہل ملاؤں کے ورغلانے کی وجہ سے شرائط اطاعت اور وفادری کا پورا جوش نہیں رکھتے تھے… (شرائط اطاعت اور وفاداری کا پورا جوش نہیں رکھتے تھے)… تو میں نے نہ کسی بناوٹ اور ریاکاری سے بلکہ محض اس اعتقاد کی تحریک سے جو خداتعالیٰ کی طرف سے میرے دل میں پڑی زور سے باربار اس بات کو مسلمانوں 1205میں پھیلایا ہے کہ ان کو گورنمنٹ برطانیہ کی، جو درحقیقت ان کی محسن ہے، سچی اطاعت اختیار کرنی چاہئے۔‘‘ مرزاصاحب! میرا جو سوال تھا صبح…
مرزاناصر احمد: جی۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزاقادیانی نے انگریز کی اطاعت کے لئے سب کچھ کیا)
جناب یحییٰ بختیار: … اس کے لئے میں نے کافی وقت لیا ہے اور پھر میں اس طرف آنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا کہ یہ ایک خط اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ جو بھی عیسائیوں نے اسلام پر حملے کئے اور آنحضرتﷺ کی شان میں گستاخیاں، لیکن انہیں مرزاصاحب نے جواب جہاد کے جذبے میں یا ایمان کے جوش میں نہیں دئیے۔ بلکہ انگریز کی اطاعت اور ان کی گورنمنٹ کو برقرار رکھنے کے لئے، امن برقرار رکھنے کے لئے، وحشی مسلمانوں کا جوش ٹھنڈا کرنے کے لئے، اس لئے انہوں نے یہ سب کچھ کیا۔ یہ میرا سوال تھا۔
مرزاناصر احمد: نہیں، اس میں بھی یہی لکھا ہوا ہے جو میں نے ابھی بتایا ناں، آپ یہ لکھتے ہیں، یہ اسی میں جہاں آپ نے پڑھا ہے ناں ، اس سے چند سطریں پہلے: ’’اور اس ارادہ اور قتل کی اوّل وجہ یہی ہے کہ خداتعالیٰ نے مجھے بصیرت بخشی اور اپنے پاس سے مجھے ہدایت فرمائی تاکہ میں ان وحشیانہ خیالات کو سخت نفرت اور بیزاری سے دیکھوں جو بعض نادان مسلمانوں کے دلوں میں مخفی تھے…‘‘
جناب یحییٰ بختیار: نہیں جی، ٹھیک ہے، وہ…
مرزاناصر احمد: ’’… اور جہاد کی جو اصل تعلیم ہے اسلام کے اندر اس کا پرچار کروں۔‘‘
جناب یحییٰ بختیار: اسلام کی تعلیم یہ ہے۔ جہاد کی کہ انگریز کی اطاعت کرو، سچے دل سے کرو، محبت سچے دل سے انگریز کی کرو؟ یہ باربار کہہ رہے ہیں۔
مرزاناصر احمد: ہاں، اس زمانہ کے…
1206جناب یحییٰ بختیار: وہ ہسٹاریکل بیک گراؤنڈ ہوگا اس کا۔
مرزاناصر احمد: بات یہ ہے کہ ہم نے سکھوں کے مظالم نہیں سہے…
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، یہ درست فرمارہے ہیں آپ…
مرزاناصر احمد: … اس زمانہ کے لوگ، بڑے بڑے سمجھدار علماء چوٹی کے جوتھے ناں، جو اس تندور میں پڑ کے باہر نکلے تھے، ان سب نے یک زبان ہوکر خداتعالیٰ کا شکرادا کیا کہ اس نے اس عذاب سے ہمیں نجات دلائی۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(خنزیر پالنے والوں کی اطاعت؟)
جناب یحییٰ بختیار: مرزاصاحب! آپ بجا فرماتے ہیں میں اس کو Question (سوال) نہیں کرتا، سکھوں نے بڑا ظلم کیا، اس میں کوئی Dispute (تنازعہ) نہیں ہے، اذانیں بند کرائیں، اس میں کوئی Dispute (تنازعہ) نہیں ہے۔ انگریز کی حکومت اس کے بعد آئی۔ وہ انصاف کی گورنمنٹ تھی سکھوں کے مقابلے میں، اس میں Dispute (تنازعہ) نہیں ہے۔ سوال میرا صرف اتنا تھا کہ ایک جو مشنریوں کے خلاف کیا، کس جذبے سے کیا تاکہ یہ اچھی گورنمنٹ ہے، اس کو مضبوط کیا جائے، یہ جذبہ تھا، اس کی اطاعت کی جائے۔
دوسری بات کہ وہ مہدی ہیں۔ مہدی آتے ہیں۔ مہدی نے سور کو ختم کرنا، قتل کرنا ہے، صلیب کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا ہے۔ یہ انگریز کہ صلیب لے کر آیا اور سور کو پالنے والا آیا اور سور کو کھانے والا آیا۔ کہتے ہیں اس کی اطاعت کرو اور ایران تک، افغانستان تک، مصر تک ان ہی کا پروپیگنڈا کرتے رہے ہیں تو یہ کہتے ہیں یہ مہدی اور اس مہدی میں کتنا فرق ہے۔ یہ چیز میں لارہا ہوں۔ آپ کے سامنے۔ یہ جو تھا ناں…
مرزاناصر احمد: ہاں، ہاں آپ پھر وہ واپس دے سکتے ہیں ذرا، ہاں، رسالہ، یہ جو میں نے ابھی داخل کروایا تھا۔ اس میں نواب صدیق محسن خان صاحب نے ’’مواحد الفوائد‘‘ میں… وہاں یہ حوالہ ہے ان کا… نہایت خوبی اور تحقیق سے بیان فرمایا ہے: 1207’’اور جیسے اور کتابیں ہندوستان سے لے کر مصر اور استنبول تک اور پشاور سے لے کر تہران تک تقسیم ہوگئیں ویسے ہی یہ کتاب بھی جابجا پہنچے گی۔‘‘ یعنی یہی ہے، جہاد کی مخالفت اور انگریز کی اطاعت میں۔ اصل بات یہ ہے کہ جس وقت ہم زمانہ کے لحاظ سے اس Context (سیاق وسباق) سے جدا ہو جاتے ہیں تو ہمارے لئے مشکل ہو جاتا ہے۔ ان باتوں کا سمجھنا۔
 
Top