• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قومی اسمبلی میں ہونے والی اکیس دن کی مکمل کاروائی

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(انگلستان آزادی دینے کے لئے تیار نہ تھا)
جناب یحییٰ بختیار: انگلستان تو کبھی بھی تیار نہیں تھا، جہاں تک میرا خیال ہے، جنگ ختم ہوگئی، اس کے بعد ۔۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: جب عقل مندوں نے یہ سونگھا کہ کوشش کی جائے تو ہم آزاد ہوسکتے ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، جنگ ختم ہوگئی، اس کے بعد کی بات ہے، یہ اس وقت کے زمانے میں تو کوئی سوال ہی نہیں تھا۔
مرزا ناصر احمد: سائمن کمیشن یہ وہ ۔۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، نہیں، وہ تو ۔۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: یعنی آزادی کی طرف قدم اُٹھ رہا تھا۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، وہ تو مراعات کہہ لیں ۔۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: بہرحال میں تو اپنا عندیہ بتا رہا ہوں۔
جناب یحییٰ بختیار: Concession کہہ لیں آپ۔
مرزا ناصر احمد: ایک زمانہ ایسا آیا ۔۔۔کوئی زمانہ لے لیں آپ۔۔۔ جب تمام مسلمانانِ ہند کے حقوق کی حفاظت کا سوال تھا، اس وقت مسلمانانِ ہند دو گروہوں میں بٹ گئے، ایک کا خیال یہ تھا کہ سارے ہندوستان کے مسلمان اکٹھے رہیں تو ان کے حقوق کی حفاظت زیادہ اچھی ہوسکتی ہے ۔۔۔میں صرف Out-line لے رہا ہوں۔۔۔ اور ایک کا خیال بعد میں یہ ہوا۔ ہاں! اس زمانے میں ہمارے قائداعظم محمد علی صاحب جناح کا بھی یہی خیال تھا کہ سارے مسلمان اگر اکٹھے رہیں تو ان کے حقوق کی حفاظت زیادہ اچھی طرح ہوسکتی ہے۔ چنانچہ یہ رئیس احمد جعفری نے لکھا ہے، ان کی کتاب میں سے لیا ہے، ۲۰۰ اور ۲۰۱ صفحے سے، قائداعظم کے متعلق انہوں نے لکھا ہے کہ:1256 ’’میں حیران ہوں کہ میری ملّی خودداری اور وقار کو کیا ہوگیا تھا، میں کانگریس سے صلح ومفاہمت کی بھیک مانگا کرتا تھا، میں نے اس مسئلے کے حل کے لئے اتنی مسلسل اور غیرمنقطع مساعی کیں کہ ایک انگریز اخبار نے لکھا: ’’مسٹر جناح ہندومسلم اِتحاد کے مسئلے سے کبھی نہیں تھکتے۔‘‘
لیکن گول میز کانفرنس (جس کا ابھی میں نے اُوپر ذِکر کیا) گول میز کانفرنس کے زمانے میں مجھے اپنی زندگی میں سب سے بڑا صدمہ پہنچا۔ (وہی لے لیں وقت)۔ جیسے ہی خطرے کے آثار نمایاں ہوئے، ہندوئیت دِل ودِماغ کے اِعتبار سے اس طرح نمایاں ہوئی کہ اِتحاد کا اِمکان ہی ختم ہوگیا۔ اب میں مایوس ہوچکا تھا۔ مسلمان بے سہارا اور ڈانواںڈول ہو رہے تھے۔ کبھی حکومت کے یارانِ وفادار کی رہنمائی کے لئے میدان میں آموجود ہوتے تھے، کبھی کانگریس کی نیازمندانہ (خصوصی ان کی) قیادت کا فرض ادا کرنے لگتے تھے۔ مجھے اب ایسا محسوس ہونے لگا کہ میں ہندوستان کی کوئی مدد نہیں کرسکتا اور نہ ہندو ذہنیت میں کوئی خوشگوار تبدیلی کرسکتا ہوں اور نہ مسلمانوں کی آنکھیں کھول سکتا ہوں۔ آخر میں نے لندن ہی میں بودوباش کا فیصلہ کرلیا۔ پھر بھی ہندوستان سے میں نے تعلق قائم رکھا، اور چار سال کے قیام کے بعد میں نے دیکھا کہ مسلمان خطرے میں گھرے ہوئے ہیں، آخر میں نے رختِ سفر باندھا اور ہندوستان پہنچ گیا اور یہاں آنے کے بعد ۱۹۳۵ء میں، میں نے صوبائی اِنتخاب کے سلسلے میں صدر کانگریس سے مفاہمت ومصالحت کے لئے گفت وشنید کی اور ایک فارمولا ہم دونوں نے مرتب کیا، لیکن ہندوؤں نے اسے منظور نہیں کیا اور معاملہ ختم ہوگیا۔‘‘
تو اس وقت انہوں نے آپ ہی لکھا ہے کہ مفاہمت ومصالحت کی کوشش یہ کر رہے تھے۔ اس لئے کر رہے تھے کہ ان کے دِماغ میں ۔۔۔درد تھا مسلمان کا، ان کے دلوں میں، ان بزرگوں 1257کے، اور ان کی کوشش، ان کا خیال یہ تھا کہ سارے مسلمان، دس کروڑ جو اس وقت تھے۔۔۔ اب بڑھ گئے۔۔۔ اگر یہ اکٹھے رہیں ہندوستان میں، اور اپنے حقوق، دستوری طور پر Constitutionally (آئینی طور پر) منواسکیں تو بہتر ہے۔ لیکن ہندوانہ ذہنیت نے اس چیز کو قبول نہیں کیا اور انہوں نے ایسا اِظہار کیا گویا وہ مسلمانوں پر حکومت کرنا چاہتے ہیں، انہیں اپنی غلامی میں رکھنا چاہتے تھے، اس وقت دو حصوں میں ہوگئے مسلمان، ایک کے لئے پاکستان میں آنا ممکن ہی نہیں تھا، عملاً وہ رہ رہے ہیں وہاں، اس وقت کئی کروڑ مسلمان وہاں ہندوستان میں بس رہے ہیں، اور ایک کے لئے ممکن ہوگیا۔ بعد کے حالات ایسے ہوئے۔ یہ جو کوشش تھی، جس کی طرف جناح صاحب نے اِشارہ کیا، یہ جماعت احمدیہ کی تھی ایک وقت میں۔ اگر سارے مسلمانانِ ہند اکٹھے رہیں تو وہ اپنے حقوق کی اچھی طرح حفاظت کرسکتے ہیں۔ جب پاکستان کے بننے کے آثار پیدا ہوئے تو وہ لوگ جو دُوسرا نظریہ جو تھا، وہ رکھتے تھے کہ سارے اکٹھے رہیں، یا وہ لوگ جن کو حکومت کانگریس نے خریدا ہوگا، کہا کچھ نہیں جاسکتا، میری طبیعت طبعاً حسنِ ظن کی طرف پھرتی ہے۔ بہرحال، انہوں نے اپنے لئے طاقت کا ایک چھوٹا سا سہارا ۔۔۔جماعت تو بہت چھوٹی سی ہے، کمزور یہ کیا کہ۔۔۔ یہ پروپیگنڈا شروع کردیا، جماعت میں کہ ’’تم پاکستان کیوں جانا چاہتے ہو؟ تمہارے ساتھ تو یہ ہمیشہ سختی کرتے ہیں، افغانستان میں کیا ہوا؟ فلاں جگہ کیا ہوا؟‘‘ اس وقت خلیفہ ثانی نے علی الاعلان یہ کہا کہ اس وقت سوال یہ نہیں ہے کہ جماعت احمدیہ کے مفاد کس جا ہیں؟ اس وقت سوال یہ ہے کہ مسلمانانِ ہند جو ہیں، وہ عزت کی زندگی کس طرح گزار سکتے ہیں؟ ان کے حقوق کی کس طرح حفاظت کی جاسکتی ہے؟ اگر بفرضِ محال جماعت احمدیہ کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے، پاکستان بننے کے بعد، جس سے تم ہمیں ڈراتے ہو، تب بھی میں یہ کہوں گا کہ پاکستان بننا چاہئے اور ہم ان کے ساتھ جائیں گے۔ کہیں انہوں نے یہ پروپیگنڈا کیا ۔۔۔۔۔۔۔ میں خود شاہد ہوں، میں نے وہ ۱۹۴۷ء کی وہ جو جدوجہد تھی، مسلم لیگ کے ساتھ بیٹھ کے، ان کی جو پارٹی تھی، شملہ میں بھی وہ جو ہورہا تھا، ہاں، یہی جو اپنے بیٹھا ہوا تھا، کمیشن Partition کا، تو 1258شملہ میں بھی میں ساتھ رہا، ساتھ بیٹھے، ہم نے ساتھ کوششیں کیں، اس وقت نظر آرہا تھا کہ یہ شرارت کر رہے ہیں، ہندو اس وقت بھی۔ ’’ہم سے‘‘ میری مراد ہے وہ ساری پارٹی، جو وہاں تھا۔ ہم نے ۔۔۔ تو یہ پہلے وقت میں پتا لگ گیا تھا، اس تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔۔۔ یا ان کے بداِرادے ہیں، وعدہ یہ کر رہے تھے، ریڈکلف صاحب، جنہوں نے باقاعدہ اِشارۃً یہ وعدہ کیا تھا کہ سارا گورداسپور اور فیروزپور کے اکثر حصے جو ہیں، وہ پاکستان میں جائیں گے، لیکن وہاں ہمیں پتا لگا کہ یہ دھوکابازی کر رہے ہیں اور وہاں جاکے اِطلاع دی ۔۔۔ تو بالکل یک جان ہوکر اس مجاہدے میں، اس Fight (مقابلے) میں، جو جنگ ہو رہی تھی، اس کے اندر شامل ہوئی جماعت اور اَب جب میں سوچتا ہوں، جن لوگوں نے ہماری جیسی قربانیاں دیں، قیامِ پاکستان کے لئے، پاکستان میں جو آنے والے ہیں خاندان، انہوں نے ۔۔۔ اور میں بیچ میں رہا ہوں جنگ کے۔۔۔ میرے اندازے کے مطابق پچاس ہزار سے ایک لاکھ تک ہماری عصمت قربان ہوئی ہے پاکستان کے لئے اور جو قتل ہوئے ہیں ان کا تو شمار ہی نہیں۔ مسلمان بچوں کو سکھوں نے اپنے نیزوں کے اُوپر چھیدا ہے، اُچھال کے، میں گواہ ہوں ان کا۔ میں سب سے آخر میں یہاں آیا ہوں، اور بڑی قربانی دی ہے، لیکن جو پیچھے رہ گئے، انہوں نے بھی کم قربانی نہیں دی۔ آج تک وہ قربانی دے رہے ہیں، بجائے اس کے کہ ہم یہ سوچیں، سر جوڑ کر، کہ جو ہندوستان میں مسلمان رہ گیا، ان کے حقوق کے لئے باہر سے ہم جو کرسکتے ہیں، ہمارے حالات بدل گئے ہیں، ان کے حقوق کے لئے کوئی پروگرام بنائیں، ان کے حوصلے بڑھانے کے لئے کوئی کام کریں۔ بہت سے اور طریقے ہیں، صرف حکومت کے اندر رہ کے ہی نہیں، باہر سے بھی ہم بہت ساری خدمت ان کی کرسکتے ہیں۔ جنہوں نے ہماری جیسی، ہم سے بڑھ کے نہیں، ہماری جیسی قربانیاں دی ہیں، قیامِ پاکستان میں، اور وہ پاکستان نہیں آسکے، وہ وہاں پھنس گئے، اس کی بجائے یہ اب نظر آگیا ہمیں کہ ہمارا مشرقی پاکستان بھی علیحدہ ہوگیا۔ تو میرے نزدیک تو کوئی اِعتراض نہیں ہے، اس پس منظر میں، اس واسطے جو حوالے ہیں، وہ میں اچھی طرح وہ کردیتا ہوں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(فرقان بٹالین؟)
1259فرقان بٹالین۔۔۔ یہ چھوٹا سا ہے۔ اس کے اُوپر اِعتراض ہوتے ہیں بڑے اخباروں میں، میں اس لئے اس کو لے رہا ہوں، تو فرقان بٹالین، یہ بھی میں کروں گا، میں دوتین منٹ میں، زبانی مختصراً بتادیتا ہوں۔ جس وقت پاکستان بنا، کشمیر میں جنگ شروع ہوگئی، اس وقت حالات اس قسم کے تھے کہ کھل کے ہماری فوجیں وہاں Commit نہیں کی جاسکتی تھیں، اس وقت کشمیر میں بہت سی رضاکار بٹالین بنیں، اس وقت ہمارے سرحد کے غیور پٹھان جو تھے، ان کے لشکر آئے، اور پاکستان کی آرمی کو اس طرح Commit نہیں کیا گیا جس طرح آرمی Commit کی جاتی ہے، چونکہ اس وقت ضرورت تھی رضاکاروں کی، ہمارا کسی، اس میں اِرادہ نہیں ہے تھا، میں قسم کھاکے کہہ سکتا ہوں، میں جانتا ہوں کہ اس کو کہ آرمی زور دے رہی تھی، خلیفۃالمسیح پر کہ ایک بٹالین Raise کرو، ہمیں ضرورت ہے، اور وہ کہہ رہے تھے کہ میں مصلحتیں اور جو ہمارے متعلق ہے، کیوں ہمیں یہ تنگ کرتے ہو۔ انہوں نے کہا: اگر آپ کو پیار ہے کہ محاذ کے اُوپر روکے جائیں وہ، تو آرمی تیار کریں، ایک بٹالین، دیں ہمیں، ایک بٹالین۔ ان کے زور دینے پر ایک رضاکارانہ بٹالین تیار کی گئی، اور ان کو کوئی تجربہ نہیں تھا لڑائی کا، سرائے عالمگیر میں بیس کیمپ بنا، وہاں دوتین مہینے کی ٹریننگ ہوئی۔ لیکن جذبے کا یہ حال تھا کہ ایک نوجوان وہاں رضاکار کے طور پر، نوجوان جس کا قد بڑا چھوٹا تھا، آگیا، اور جب مارچ وغیرہ سکھاکے چاندماری کے لئے لے گئے اس کو، تو پتا لگا کہ اس کی اُنگلی ٹھیک ٹریگر پر نہیں پہنچتی، اتنا ہاتھ ہے اس کا چھوٹا، اور وہ بضد، میں نے جانا ہے محاذ پر، تب انہوں نے کہا: اچھا! تو پھر رائفل چلاکے دِکھاؤ۔ تو اس نے یہاں رکھا رائفل کا بٹ، یہاں رکھنے کے بجائے اس طرح مڑکر، فائر کیا وہاں، اس کے جذبے کو دیکھ کر وہ آرمی افسر جو فرقان بٹالین کی ٹریننگ وغیرہ کے لئے جو باقاعدہ افسر تھے، انہوں نے اس کو اِجازت دے دی، اس جذبے کے ساتھ وہاں گئے، وہاں آرمز ایشو ہوئے جس طرح آرمی ایشو کرتی ہے آرمز، خیر، جو ہوا وہ سب تو یہاں ضرورت نہیں ہے۔ وہ Disband (توڑدی) ہوئی۔ اب ساری 1260دُنیا کو پتا ہے، فوج کے افسر یہاں ہیں، اب اِعتراض یہ ہوگیا کہ وہ ساری رائفلیں جو فرقان بٹالین کو دِی گئی تھیں، وہ فرقان بٹالین لے کے بھاگ گئی اور انہوں نے ربوہ کی پہاڑیوں کے اندر ان کو دفن کردیا۔ ایک منٹ میں یہ سوال حل ہوتا ہے۔ آرمی جنہوں نے یہ ایشو کی تھیں، ان سے پتا کریں کہ انہوں نے ایک ایک رائفل، ایک ایک راؤنڈ جو ہے وہ واپس ملا کہ نہیں؟ اور اس وقت کے کمانڈراِنچیف نے ایک نہایت اعلیٰ درجے کا سرٹیفکیٹ اس بٹالین کو دِیا اور شکریہ کے ساتھ اس کو بغیر آرمز کے، اس کو وہاں بھیج دیا۔ اس بٹالین کو کوئی وردیاں ایشو نہیں ہوئی تھیں۔ لنڈے بازار سے پھٹی ہوئی وردیاں انہوں نے پہنیں، اور بارشوں میں، کسی قمیض کی، وہ بانھ نہیں ہے، اور کسی کی بانہیں لٹک رہی ہیں، اور یہ نہیں ہے، دھڑ، میری ان آنکھوں نے دیکھا ہے ان کو اس طرح لڑتے ہوئے دُشمن سے اور بہرحال ۔۔۔۔۔۔۔۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(غیرمتعلقہ باتیں)
جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب! معاف کیجئے، یہ سوال، بالکل پوچھا نہیں گیا، اگر باہر کی باتیں آجائیں، اس قسم کی کہ اخبار کیا لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: نہیں ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں۔
مرزا ناصرا حمد: ۔۔۔۔۔۔۔ میں بند کردیتا ہوں۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، نہیں، اس قسم کا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، نہیں ۔۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: آپ ضرور کیجئے! مگر میں یہ گزارش کر رہا ہوں کہ یہ سوال کسی نے نہیں پوچھا۔ پر میں نے کسی اسٹیج پر نہیں پوچھا فرقان فورس کے بارے میں۔
Mirza Nasir Ahmad: I wrongly foresaw it.۱؎
(مرزا ناصر احمد: مجھے غلط فہمی ہوئی!)
Mr. Yahya Bakhtiar: No, but I did not ask.
(جناب یحییٰ بختیار: میں نے آپ سے یہ نہیں پوچھا)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزاناصر کی معذرت)
1261مرزا ناصر احمد: نہیں، بس میں نے معذرت کردی، میں بولتا ہی نہیں ایک لفظ آگے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، آپ پورا کرلیں۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، نہیں، میں نہیں بولوں گا۔ نہیں، میری غلطی ہے یہ، اندازے کی غلطی ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ قارئین! کتنا بڑا کذب ہے کہ مجھے غلط فہمی ہوئی۔ یا اپنے دِل کے پھپھولے جلا رہے ہیں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جناب یحییٰ بختیار: نہیں جی، آپ کہہ لیں۔ If you want to explain something which you think is against your interest...... (اگر آپ ایسی بات کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں جو آپ کے خلاف جاتی ہے…)
Mirza Nasir Ahmad: No, no, no not now.
(مرزا ناصر احمد: نہیں ابھی نہیں)
ٹھیک ہے، شکریہ! میں، پہلے آپ مجھے روک دیتے تو میں بند کردیتا۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر آپ کہنا چاہتے ہیں تو ٹھیک ہے، ورنہ ہم نے سوال نہیں پوچھا کوئی اس قسم کا ۔۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔۔ نہ پوچھنے کا لسٹ میں تھا، اگر ہوتا بھی تو میں آپ کو کہہ دیتا کہ آپ بے شک کریں۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، ایک اور سوال ہے، وہ میں پوچھ ہی لیتا ہوں، وقت ضائع کرنے کی بجائے۔ چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب نے اتنی خدمت کی ہے عرب ممالک کی، یہ حوالے میرے پاس ہیں، بھرے پڑے ہیں ان کی تعریف میں۔ تو آگے میں کچھ نہیں کہتا۔
ہاں! کشمیر رہ گیا ہے۔ ۱۹۳۱ء کی ۔۔۔۔۔۔۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(کشمیر کمیٹی)
جناب یحییٰ بختیار: آپ نے اس کا ذِکر کردیا تھا، کشمیر کمیٹی کا، اگر آپ کچھ اور کہنا چاہتے ہیں تو کہہ دیجئے۔
مرزا ناصر احمد: ممکن ہے ایک آدھ فقرہ ہو، یہ میں مختصراً پھر کردیتا ہوں۔ اس کی اِبتدا اس طرح شروع ہوئی، کشمیر کمیٹی، کشمیر کمیٹی کے نام سے جو کمیٹی بنی، کہ ۱۳؍جولائی ۱۹۳۱ء کو ریاستی 1262پولیس کی فائرنگ سے ۲۱مسلمان شہید اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ ۱۳؍جولائی ۱۹۳۱ء کو جب ڈوگرہ حکومت نے ۲۱مسلمان کو جب شہید کیا تو اس وقت ان کے لئے ریاست سے باہر نکلنا بھی بڑا مشکل تھا، تو انہوں نے ایک سمگل آؤٹ کیا، مسلمانانِ کشمیر نے، ایک آدمی، اور سیالکوٹ پہنچ کر انہوں نے مختلف جگہوں پر تاریں دیں، اور ہمارے خلیفہ ثانی کو بھی تار دیں۔ اس کے نتیجے میں پہلا کام یہ ہوا ہے کہ خلیفہ ثانی نے وائسرائے ہند کو تار دی، دُوسرے صوبوں کے مسلمانوں کی طرح پنجاب کے مسلمان بھی، ان کو کہا کہ تم اکٹھے ہوجاؤ، یعنی شروع کا کام شروع کیا۔ اس وقت جب یہ اعلان ہوا تو خواجہ حسن نظامی صاحب نے ایک خط لکھا حضرت خلیفہ ثانی کو، اور یہ کہا کہ آپ نے یہ اعلان کیا، ہم آپ کے ساتھ ہیں، اور یہ کام ہمیں، سب مسلمانوں کو مل کر یہ کام کرنا چاہئے۔
Mr. Chairman: We break for Maghreb.
(جناب چیئرمین: نمازِ مغرب کے لئے ہم وقفہ کرتے ہیں)
Mr. Yahya Bakhtiar: I think let them conclude it, Sir. (جناب یحییٰ بختیار: میرا خیال ہے انہیں اسے مکمل کرنے دیں)
جناب چیئرمین: ہاں؟
Mr. Yahya Bakhtiar: It will take two or three minutes, Sir.
(جناب یحییٰ بختیار: جناب! اس میں دو یا تین منٹ لگیں گے)
Mr. Chairman: Alright, then not more than five minutes. (جناب چیئرمین: ٹھیک ہے، پھر ۵منٹ سے زیادہ نہیں)
Mr. Yahya Bakhtiar: Not more than five minutes.
جناب چیئرمین: ٹھیک ہے، ختم کرلیں۔
مرزا ناصر احمد: تو اِعلان وغیرہ، خط وکتابت ہوئی ہے۔ اس کے بعد آل انڈیا تنظیم کے قیام کے لئے مسلمانانِ ہند سے اپیل کی گئی پہلے اور اس کے بعد۔ پھر کشمیریوں سے اپیل کی گئی، ابنائے کشمیر سے، یعنی وہ کشمیری خاندان جو باہر آکر آباد ہوگئے تھے اور اس میں آپ نے لکھا کہ: ’’اُمید کرتا ہوں کہ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب، شیخ دین محمد صاحب، سیّد محسن شاہ صاحب اور اسی طرح سے دُوسرے سربراہ آوردہ ابنائے کشمیر جو اپنے وطن کی محبت 1263میں کسی دُوسرے سے کم نہیں، اس موقع کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے موجودہ طوائف الملوکی کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے، ورنہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سب طاقت ضائع ہوجائے گی اور نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلے گا۔‘‘
اس پر ۲۵؍جولائی ۱۹۳۱ء کو شملہ کے مقام پر نواب ذُوالفقار علی خان صاحب کی کوٹھی "Fair View" میں مسلم اکابرینِ ہند کا اِجلاس ہوا، جس میں یہ فیصلہ ہوا کہ ایک آل انڈیا کشمیر کمیٹی بنائی جائے جو اس سارے کام کو اپنے ذمہ لے کر پایۂ تکمیل تک پہنچائے اور اس وقت تک یہ مہم جاری رہے، جب تک ریاست کے باشندوں کو ان کے جائز حقوق نہ حاصل ہوجائیں۔ اس اِجلاس میں اِمام جماعت احمدیہ کے علاوہ مندرجہ ذیل لیڈروں نے شرکت کی:
ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب،
حضرت خواجہ حسن نظامی صاحب،
سیّد محسن شاہ صاحب،
نواب سر ذُوالفقار علی صاحب،
نواب محمد اِسماعیل صاحب آف گنج پورہ،
خان بہادر شیخ رحیم بخش صاحب،
مولانا نورالحق صاحب، مالک انگریزی روزنامہ "Muslim Out Look"،
مولانا سیّد حبیب صاحب، مالک روزنامہ ’’سیاست‘‘،
عبدالرحیم صاحب درد،
مولانا اِسماعیل صاحب غزنوی، امرتسر کے تھے، غزنوی خاندان کے، نمائندہ مسلمانانِ صوبہ جموں،
مسلمانانِ صوبہ کشمیر کے نمائندے، اور صوبے سرحد کے نمائندے۔
یہ سب کے سب اکابرین آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے قائم ہوتے ہی اس اِجلاس میں اس کے ممبر بن گئے، کام شروع ہوگیا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ اس وقت بعض دوستوں نے کہا خلیفہ ثانی 1264کو کہ آپ اس کے صدر بنیں، اور آپ نے اِنکار کیا کہ: ’’مجھے صدر نہ بنائیں، میں ہر خدمت کرنے کے لئے تیار ہوں، مگر مجھے صدر کا عہدہ نہ دیں۔‘‘ کوئی مصلحتیں سمجھائیں وہاں۔ اس پر سارے جو تھے، انہوں نے زور ڈالا وہاں، جن میں سر محمد اقبال صاحب بھی تھے، کہ آپ کو ہی بننا چاہئے۔ چنانچہ آپ کو مجبور کیا کہ اس عہدے کو قبول کرلیں۔ قبول ہوگیا۔ شروع ہوا کام ،اور بہت سے مراحل میں سے گزرا، اس کے آگے میں اپنی طرف سے کروں گا، ذرا مختصر کردوں گا۔ ایک تھا پیسہ، اس وقت ہندوستان میں کام کرنے کے لئے بھی پیسے کی ضرورت تھی، اور کشمیریوں کی مدد کرنے کے لئے پیسے کی ضرورت، چنانچہ ساروں نے Contribute کئے ہوں گے۔ لیکن اپنی بساط سے زیادہ جماعت کی طرف سے کشمیریوں کی اِمداد کے لئے رقم دی گئی۔ اس وقت سوال پیدا ہوا رضاکاروں کا کہ جاکر ان کی حوصلہ افزائی کریں، ان کو آرگنائز کریں۔ خود کشمیر کی حالت تنظیم کے لحاظ سے بہت پس ماندہ تھی، ہر ایک کو پتا ہے، ہمارے، یعنی اس وقت کے ہندوستان کے حالات سے بھی زیادہ وہ پیچھے تھے۔ اس کے مہاراجہ کا Hold بڑا سخت تھا۔ خیر! وہ گئے، ایک وقت ایسا آیا کہ انہوں نے بڑے ظالمانہ طور پر مقدمے بنانے شروع کردئیے، یعنی کوئی ان کا گناہ نہیں ہوتا تھا اور مقدمہ بن جاتا تھا۔ تو اس وقت انہوں نے کہا: تار دی کہ ہمیں وکیل بھیجو، ہمارے پاس۔ بڑے سخت ان کو پریشانی تھی۔ یہاں سے گیارہ بارہ وکیل گئے۔ ان میں سے ایک صاحب (اپنے وفد کے ایک رُکن کی طرف اِشارہ کرکے) یہ بیٹھے ہیں۔ انہوں نے مہینوں وہاں کام کیا اور میرا خیال ہے کہ قریباً سارے مقدموں میں فتح جو ہوئی وہ کشمیری مسلمانوں کی ہوئی۔ ان میں ہمارے، فوت ہوچکے ہیں، شیخ بشیر احمد صاحب، جو ہائی کورٹ کے جج بھی رہے ہیں، اس وقت وکیل تھے، وہ گئے۔ ان کے لئے ساری دُنیا میں پروپیگنڈا ہوا، خصوصاً انگلستان میں۔ تو ایک لمبی Struggle (تگ ودو) ان کے لئے ۔۔۔۔۔۔ (اپنے ساتھیوں سے کہا) اس میں ہے نا فہرست شہداء کی؟ جو رضاکار گئے ان پر؟ (اٹارنی جنرل سے) ہمارے یہاں سے جو رضاکار گئے، دُوسرے بھی جو گئے، ان پر وہ سختیاں کی گئیں، ساروں پر، یہاں، وہاں کوئی فرق نہیں ہے کہ وہاں، یہ احمدی، یہ وہابی ہے یا یہ ہے، وہ ہے۔ مسلمانانِ کشمیر کی جدوجہد میں سارے شامل ہیں، ساتھ۔ یہی میرا ان اِشاروں میں تھا کہ ہمارے تو کبھی علیحدہ ہوئی ہی نہیں۔
1265Mr. Chairman: The Delegation is premitted to withdraw for Maghreb to report break at 7:30.
(جناب چیئرمین: وفد کو مغرب کی نماز کے لئے ۳۰:۷بجے تک وقفہ کی اجازت ہے)
مرزا ناصر احمد: میں اس کو ختم کرتا ہوں۔ یہ آکر داخل کردیں گے۔
Mr. Chairman: The honourable members may keep sitting. (جناب چیئرمین: معزز اراکین تشریف رکھیں)
(The Delegation left the Chamber)
(وفد باہر چلاگیا)
جناب چیئرمین: ساڑھے سات جی!
The House is adjourned to meet at 7:30
(ایوان کا اِجلاس ۳۰:۷بجے تک ملتوی کیا جاتا ہے)
[The Special Committee adjourned for Maghreb Prayers, to re-assemble at 7:30 p.m.]
----------
[The Special Committee re-assembled after Maghreb Prayers, Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali) in Chair.]
(مغرب کی نماز کے بعد کمیٹی کا اِجلاس صاحبزادہ فاروق علی کی صدارت میں دوبارہ شروع ہوا)
جناب چیئرمین: (سیکرٹری سے) ڈیلی گیشن کو بلالیں، یہاں باہر بٹھادیں، ہاں کیونکہ پھر پونے آٹھ، نوبجے، پونے نو تک کریں گے، ایک گھنٹہ۔ پھر تو دس منٹ کا بریک، پھر Nine to Ten۔
جی، مولانا عبدالحق صاحب!
----------
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
INTRODUCTION OF EXTRANEOUS MATTERS BY THE WITNESS
مولانا عبدالحق: جی، گزارش یہ ہے کہ کل دو گھنٹے تقریباً اس نے تقریر کی، اور آج بھی وہ تو اپنی تاریخ وہ پیش کر رہے ہیں یا ریکارڈ کر رہے ہیں۔ ہمارا تو اٹارنی جنرل صاحب کا یہ سوال تھا کہ انگریزوں کی وفاداری کی، جو تم نے پیش کیا ہے، تو اس کی کیا وجہ ہے؟ یا مسلمانوں کو تم کافر اور پکا کافر کہتے ہو، جنازے کی نماز میں شرکت نہیں کرتے، شادی نہیں کرتے، عبادت میں شریک نہیں ہوتے۔ اب وہ کہتے ہیں، ہم نے مسلمانوں کے ساتھ نہیں کہا۔ یہ تو ایسا ہے کہ جیسا ایک 1266شخص کسی کو کہے کہ: ’’یہ چیز کیا ہے؟‘‘ وہ کہتا ہے: ’’کتا!‘‘ اب وہ کہتا ہے کہ: ’’میں پانی بھی اس کو دیتا ہوں، روٹی بھی دیتا ہوں، جگہ بھی دیتا ہوں۔‘‘ مقصد تو اَصل وہی ہے کہ جو چیز ان سے پوچھی جائے، ہمارے اٹارنی جنرل صاحب، اس کا جواب دے دیں اور بس۔ باقی وہ دوگھنٹہ باتیں جو کرتے ہیں تو خدا معلوم اس میں کیا حکمت ہے؟
Mr. Chairman: Yes, Mr. Attorney-General to satisfy all the honourable members.
(جناب چیئرمین: ہاں جناب اٹارنی جنرل صاحب، معزز ارکان کو آپ مطمئن کریں)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مسلمانوں سے علیحدگی پسندی کا جواب نہیں دیا)
Mr. Yahya Bakhtiyar: I will try, Sir.
مولانا! بات یہ تھی کہ میں نے ان سے پوچھا تھا کہ آپ علیحدگی پسند ہیں، آپ مسلمانوں سے علیحدہ رہتے ہیں، ان کو کئی حوالے دئیے، حوالوں کے تو انہوں نے جوابات نہیں دئیے، مگر یہ کہا کہ نہیں، ہم سے اکٹھے جدوجہد کرتے رہے ہیں، آزادی کی۔ اس واسطے میں نے کہا کہ اچھا بولنے دیں ان کو۔ یہ اس ۔۔۔۔۔۔۔ ہاں یہ تو ٹھیک ہے، ابھی ختم ہوگیا بہت لمبا تھا۔
جناب چیئرمین: ہاں، بلالیں۔ بلالیں، باہر ہی بیٹھے ہیں، بلالیں جی، بلائیںجی۔
مولانا عبدالحق: میں یہی کہنا چاہتا ہوں کہ بات میں بات کریں۔
جناب چیئرمین: آگئے؟
مولانا عبدالحق: کل آپ نے فرمایا تھا کہ اس میٹنگ کے بعد ہم پوچھ لیں گے۔
جناب چیئرمین: وہ کل آیا ہوں تو ہاؤس ایڈجرن ہوگیا۔ آج کرلیں گے۔
مولانا عبدالحق: نوٹ کرکے رکھ لیں۔
جناب چیئرمین: آج کرلیں گے جی۔ After this آپ کی اِنتظار ہو رہی تھی، نورانی صاحب کی، خاص طور سے۔
ہاں، بلوائیں انہیں۔
1267Mr. Chairman: Yes the Attorney-General.
(جناب چیئرمین: جی، اٹارنی جنرل صاحب)
----------
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
CROSS-EXAMINATION OF
THE QADIANI GROUP DELEGATION
(قادیانی وفد پر جرح)

جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب! آپ ختم کرچکے ہیں اسے؟
مرزا ناصر احمد: جی۔
جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب! میں، چونکہ ٹائم کم ہوتا جارہا ہے اس لئے میں بالکل مختصر کرنا چاہتا ہوں۔ جو باتیں آگئی ہیں، آپ نے کئی باتیں کہی ہیں، اس آزادی کی جدوجہد کے بارے میں۔
مرزا ناصر احمد: جی۔
جناب یحییٰ بختیار: آزادی کی جدوجہد کے بارے میں آپ نے کافی کچھ کہا ہے، میں اس کی تفصیل میں بہت نہیں جانا چاہتا، یہ جو باؤنڈری کمیشن تھا، اس کے بارے میں آپ نے منیر صاحب کا کمیٹی کی رپورٹ سے ایک حوالہ پڑھا ہے کہ اس میں چوہدری صاحب نے بہت کوشش کی۔ وہ تو سب نے پڑھا ہوا ہے، وہ پاکستان کی نمائندگی کر رہے تھے، اور اس میں کچھ شک نہیں کہ انہوں نے بڑی کوشش کی۔ اس پر میں نے نہ کوئی سوال پوچھا ہے اور نہ کوئی Dispute ہے ہمیں اس پر۔ مگر ایک چیز جو منیر صاحب نے بعد میں کہی، ممکن ہے آپ نے وہ پڑھا ہو، ’’پاکستان ٹائمز‘‘ ۲۴؍جون ۱۹۶۴ء میں، انہوں نے کوئی دوتین آرٹیکل لکھے تھے، اس دوران میں ۔۔۔۔۔۔۔ "Days I Remember" (میرے یادگار دِن)۔
مرزا ناصر احمد: جی، میں نے وہ نہیں پڑھے۔
جناب یحییٰ بختیار: جی، وہ آپ کو یاد نہیں ہوگا، پڑھے بھی ہوں تو۔
مرزا ناصر احمد: ہوں، میں نے نہیں پڑھا ہے، دس بارہ سال پہلے ۔۔۔۔۔۔۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(احمدیوں نے الگ عرض داشت کیوں دی؟)
جناب یحییٰ بختیار: ہوں، دس سال کی بات ہے، تو وہاں وہ منیر صاحب کہتے ہیں کہ:
1268"In connection with this part of the case. I cannot reframe from mentioning an extremely unfortunate circumstance. I have never understood why the Ahmadis submitted a separate representation. The need for such representation could arise only if the Ahmadis did not agree with the Muslim League's case-it self a regrettable possibility. Perhaps, they intended to reinforce the Muslim League's Case; but in doing so, they game the facts and figures for different parts of Gash Shankar, thus giving prominence to the fact that, in the areas between the river Bein and the river Basantar, the non-Muslims Constituted a majority and providing argument for the Contention that if the area between the rivers Ujh and Bein went to India. The area between the Bein river and Basantar river would automatically go to India. As it is, this area has remaind with us. But the stand taken by the Ahmadis did create considerable embarrassment for us in the case of Gurdaspur."
(’’معاملے کے اس حصے کے متعلق میں ایک نہایت ہی ناخوش گوار واقعے کا ذِکر کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مجھے یہ بات کبھی سمجھ نہیں آئی کہ احمدیوں نے الگ عرض داشت کیوں دی تھی؟ اس قسم کی عرض داشت کی ضرورت تبھی ہوسکتی تھی جب احمدی، مسلم لیگ کے نقطئہ نظر سے متفق نہ ہوتے، جو کہ بذاتِ خود ایک افسوسناک صورتِ حال ہوتی۔ ہوسکتا ہے کہ اس طرح احمدی مسلم لیگ کے نقطئہ نظر کی تائید کرنا چاہتے ہوں۔ مگر ایسا کرتے ہوئے انہوں نے گڑھ شنکر کے مختلف حصوں کے بارے میں اعداد وشمار دئیے، جن سے یہ بات نمایاں ہوئی کہ بین دریا اور بسنتر دریا کے مابین کا علاقہ غیرمسلم اکثریت کا علاقہ ہے، اور یہ بات اس تنازعے کی دلیل بنتی تھی کہ اگر آج دریا اوربین دریا کا درمیانی علاقہ ہندوستان کو دِیا جائے تو بین دریا اور بسنتر دریا کا درمیانی علاقہ خودبخود ہندوستان کو چلا جاتا ہے، جیسا کہ حقیقتِ حال ہے۔ یہ علاقہ ہمارے پاس رہا، مگر احمدیوں نے جو رویہ اِختیار کیا تھا، وہ ہمارے لئے گورداسپور کے بارے میں خاصا پریشان کن ثابت ہوا۔‘‘)
آپ نے یہ فرمایا۔
مرزا ناصر احمد: یہ اپنی کمیٹی کی رپورٹ میں نہیں لکھا انہوں نے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں کہتا ہوں کہ ایک آرٹیکل انہوں نے ۱۹۶۴ء جون میں لکھا ہے اس کا میں کہہ رہا ہوں۔
مرزا ناصر احمد: ہوں، سترہ سال بعد۔
جناب یحییٰ بختیار: کافی عرصہ بعد، دس سال کے بعد۔
مرزا ناصر احمد: سترہ سال بعد۔
جناب یحییٰ بختیار: تو اس میں دراصل میں عرض کرنا چاہتا تھا کہ آپ نے مسلم لیگ سے آپ یہ کہتے ہیں کہ تعاون کیا، اور یہ ایک ایسا اسٹیج تھا کہ برٹش گورنمنٹ اور کانگریس بھی اس بات کو تسلیم کرچکی تھی کہ یہ واحد نمائندہ جماعت ہے مسلمانوں کی، مسلم لیگ ۔۔۔۱۹۴۶ئ،۱۹۴۷ء کی بات کر رہا ہوں ۔۔۔ واحد نمائندہ تھی، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر ایک مسلمان اس میں تھا ۔۔۔۔۔۔۔
1269مرزا ناصر احمد: نہیں، نہیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(لیگ سے علیحدہ میمورنڈم سے پریشانی)
جناب یحییٰ بختیار: مگر یہ کہ Represent (نمائندگی) کر رہی تھی، واحد آواز یہ تھی، This was the most representative body واحد نمائندہ جماعت وہ Accept کرلی تھی۔ جب انہوں نے میمورنڈم دیا تو یہ Separate (الگ) میمورنڈم دینے کی، یہاں بھی منیر صاحب کہتے ہیں: ’’ہمیں سمجھ نہیں آئی، اس سے بلکہ ہمیں خدشات پیدا ہوئے Enbarrassement (پریشانی) ہمیں ہوئی۔‘‘
مرزا ناصر احمد: یہ ۱۹۴۷ء کے سترہ سال کے بعد انہوں نے اس بات کا اِظہار کیا کہ: ’’مجھے سمجھ نہیں آئی۔‘‘
جناب یحییٰ بختیار: ہاں!
مرزا ناصر احمد: لیکن اپنی رپورٹ میں نہیں لکھا۔
جناب یحییٰ بختیار: اپنی رپورٹ میں نہیں لکھا۔
مرزا ناصر احمد: تو، وہ تو منیر صاحب تو نہیں، آپ نے تو ان کی رپورٹ پڑھی ہے ناں، تو میں آپ کو سمجھا دیتا ہوں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں یہ کہہ رہا ہوں جی کہ ایک آدمی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ جو کہ باؤنڈری کمیشن کا بھی جج تھا، تو اس رپورٹ میں بھی وہی جج تھا۔ پھر رپورٹ میں انہوں نے چوہدری صاحب کو اچھا سرٹیفکیٹ دیا ہے کہ انہوں نے بڑی محنت سے، بڑی جانفشانی سے کیس Plead کیا پاکستان کا، اس کے بعد، سات سال یا دس سال کے بعد، جیسے ۔۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، نہیں، ۱۹۶۴ئ، ۱۹۵۷ئ، ۱۹۴۷ئ۔
1270جناب یحییٰ بختیار: نہیں، وہی کہہ رہا ہوں جی، ۱۹۴۷ء میں باؤنڈری کمیشن میں تھے وہ، پھر اس کے بعد ۱۹۵۳ئ، ۱۹۵۴ء میں وہ انکوائری ہو رہی ہے۔ تو چوہدری صاحب نے جو ۱۹۴۷ء میں خدمت کی اس کا حوالہ، اس کا ذِکر کرتے ہوئے اس میں ۔۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: یہ میرا مطلب ہے کہ یہ جو ہے کہ یہ واقعہ کے سترہ سال بعد کا ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، یہ ان کے بعد یہ پھر یہ ۔۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، سترہ سال کے بعد۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔۔ ہے، یہ ۱۹۶۴ء میں۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، ۱۹۴۷ء سے ۱۹۶۴ء تک۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، تو پھر یہ سترہ سال کی خاموشی کے بعد، جب وہ کافی بوڑھے بھی ہوچکے تھے، تو شاید ممکن ہو بڑھاپے کی وجہ سے وہ بات جو اس وقت جوانی میں سمجھ آگئی ہو، وہ نہ سمجھ آئی ہو۔
جناب یحییٰ بختیار: یہ اچھا جواب ہے! یہ خیر میں اسے بس پھر آپ کی توجہ دِلانا چاہتا تھا کہ۱؎…
مرزا ناصر احمد: بات یہ ہے ۔۔۔اگر آپ کہیں تو میں بتاؤں آپ کو ۔۔۔ انہوں نے، ہندوؤں نے ایک بڑی سخت شرارت کی اور شرارت یہ کی ۔۔۔ میں نے آپ کو کہا کہ میں ان دنوں میں کام کرتا رہا ہوں ۔۔۔ ایک پہلے یہ شرارت کی کہ جماعت احمدیہ جو ہے، اس کو دُوسرے مسلمان کافر کہتے ہیں، اس لئے ان کی تعداد گورداسپور کے مسلمان میں شامل نہ کی جائے اور گورداسپور ضلع میں ۵۱ اور ۴۹ کا فرق تھا، یعنی مسلمانوں کی ۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: وہ تو میں جانتا ہوں، ہم جانتے ہیں۔
1271مرزا ناصر احمد: نہیں، میں آپ کو اندر کی ایک بات بتاؤں ۔۔۔ دُوسری شرارت۔ دُوسری شرارت اپنوں نے یہ کی کہ اگرچہ مسلمانوں کی آبادی گورداسپور میں ۵۱فیصد ہے، لیکن چھوٹے، نابالغ بچے ہیں، Adult (بالغ) نہیں ہیں، وہ تو ووٹر نہیں ہیں، ان کے اُوپر فیصلہ نہیں ہونا چاہئے اور ویسے ہی ہوائی چلادی کہ ہندوؤں کی Adult (بالغ) آبادی مسلمانوں سے زیادہ ہے۔ میں چونکہ مختلف مضامین پڑھتا رہا ہوں اپنی زندگی میں، میں نے یہ Offer کی مسلم لیگ کو کہ اگر مجھے Calculating مشین تین دے دی جائیں تو میں ایک رات میں ۱۹۳۵ء کی Census (مردُم شماری) لے کے، علیحدہ علیحدہ ضلعوں کی ہوتی ہیں ناں ۔۔۔ تو کل آپ کو یہ Data (تفصیل) یہ دے سکتا ہوں کہ Adult (بالغ) بھی مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے۔ Census (مردُم شماری) کی جو ہے رپورٹ، اس وقت تفصیلی ہوتی تھی۔ بعد پتا نہیں کیوں، اس
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ صرف ’’اچھا جواب‘‘۔۔۔؟ بلکہ اتنا اچھا جواب ہے کہ مرزائی دجل میں اسے ’’اے گریڈ‘‘ دیا جاسکتا ہے۔۔۔!
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کو چھوڑ دیا۔ ۱۹۳۵ء کی Census (مردُم شماری) رپورٹ مختلف Age (عمر) گروپ کی Mortality دی ہوئی ہے، Percentage یعنی چار سال کا جو بچہ ہے، وہ چار سال کی عمر کے جو بچے ہیں ان میں اتنے فیصد موتیں ہوجاتی ہیں، جو پانچ سال کے بچے ہیں، ان کی اتنی فیصد موتیں ہوجاتی ہیں۔ تو ہزارہا ضربیں، تقسیمیں لگانی تھیں، کیونکہ ہر Age گروپ کی جو ۱۹۳۵ء کی Census (مردُم شماری) تھی ہمارے پاس، تو ۱۹۴۷ء تک پہنچانا تھا Adult (بالغ) بنانے کے لئے کچھ جو Adult (بالغ) تھے وہ تو تھے ہی۔ تو یہ ہزارہا وہ نکال کے، ساری رات لگ کے، تین چار اور آدمیوں نے ساتھ کام کیا۔ Calculating (حساب کتاب) مشین خود مسلم لیگ کے یعنی Offices سے آئیں اور صبح کو ایک گوشوارہ چوہدری ظفراللہ خان صاحب کو دے دیا گیا کہ یہ غلط بات کر رہے ہیں اور جس وقت یہ آگے پیش ہوا، ہندو بالکل سٹپٹاگیا۔ ان کو خیال ہی نہیں تھا کہ کوئی مسلمان دماغ حساب میں بھی یہ Calculation کرسکتا ہے اتنا۔ اس قسم کی وہ شرارتیں تھیں اور اس قسم کا ہمارا تعاون تھا مسلم لیگ کے ساتھ اور ان کی خاطر ان کے مشورے کے ساتھ یہ سارا کچھ ہوا۔ تو جب بوڑھے ہوگئے جسٹس منیر صاحب وہ بھول گئے، ان کو وہ سمجھ نہیں آئی، ہم پر کوئی اِعتراض نہیں۔
 
Top