• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

محمدیہ پاکٹ بک

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
علامت نمبر ۹:
مرزا صاحب اپنی صداقت پر احادیث سے تمسک کرتے ہوئے حضرت مولوی محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ کو طعنہ دیتے ہیں کہ تمہارے نزدیک یہ حدیث بھی غلط، وہ بھی غلط حتیٰ کہ:
'' لکھا تھا کہ مسیح موعود کے وقت میں اونٹنیاں بیکار ہو جائیں گی اور اس میں یہ بھی اشارہ تھا کہ اس زمانہ میں مدینہ کی طرف سے مکہ تک ریل کی سواری ہو جائے گی۔ مگر آپ کے نزدیک یہ حدیث بھی غلط جبکہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں آپ کے نزدیک غلط میں تو میری پیشگوئیوں کو غلط کہنے کے وقت آپ کیوں شرم کرنے لگے۔'' (۳۵۳)
حضور! ہماری توبہ اگر ہم ان حدیثوں کو غلط کہیں۔ ہم پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی جملہ احادیث کو سر آنکھوں پر رکھتے ہیں۔ مگر گستاخی معاف انہی احادیث سے ثابت ہے کہ آپ کاذب مسیح ہیں۔ کیونکہ آپ کو دنیا سے رخصت ہوئے اتنا عرصہ ہوگیا مگر مکہ اور مدینہ کے درمیان آج تک ریل نہیں بنی۔
----------------------------------------------------------
(۳۵۳) ضمیمہ براھین احمدیہ ص۱۱۶، ج۵ و روحانی ص۲۸۱، ج۲۱
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
علامت نمبر ۱۰:
مکہ اور مدینہ کے درمیان ریل کا جاری ہونا اور اونٹوں کا متروک ہونا تو اوپر دکھایا گیا ہے کہ ابھی تک نہیں ہوا۔ مرزا صاحب نے یہ بھی فرما رکھا ہے کہ باقی ممالک میں بھی اونٹ بیکار ہوں گے:
'' آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی میں یہ بھی تھا کہ مسیح کے وقت میں اونٹ بیکار ہو جائیں گے۔ یہ ریل کی طرف اشارہ تھا سو ریل کے جاری ہونے پر بھی پچاس سال گزر گئے۔'' (۳۵۴) '' ایسا ہی مستدرک حاکم وغیرہ میں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ ان دنوں میں ایک نئی سواری پیدا ہوگی جو رات دن صدہا کوس چلے گی۔ ان دنوں میں اونٹ بیکار ہو جائیں گے'' (۳۵۵) '' ایک اور نشان اس زمانہ کا وہ نئی سواری تھی جس نے اونٹوں کو بیکار کردینا تھا۔ قرآن شریف نے '' وَاِذَ الْعَشِار عُطِّلَتْ کہہ کر اس زمانہ کا پتہ بتلایا، چند سالوں میں اونٹ کی سواری کا نام و نشان نہ ملے گا۔'' (۳۵۶)
ناظرین کرام! تمام دنیا کے شہر اور دیہات، سندھ، مارواڑ، بلوچستان، افغانستان، مصر و سوڈان وغیرہ تو درکنار اپنے ملک پنجاب کے شہروں میں نظر دوڑا کر دیکھیں کہ کیا اونٹ بیکار ہوچکے؟ ان پر کوئی سوار نہیں ہوتا؟ اگر جواب نفی میں ہے اور یقینا نفی میں ہے تو آپ خود ہی فیصلہ فرمائیں کہ مرزا مسیح صادق ہے یا کاذب؟
بندہ پرور منصفی کرنا خدا کو دیکھ کر
مرزائیوں کا عذر: مکہ اور مدینہ کے درمیان ریل کا جاری ہونا مرزا صاحب کا اپنا مذہب نہیں بلکہ مسلم اخبارات کی نقل ہے۔ اگر دیگر ممالک میں اونٹ بیکار ہو جانے سے مراد یہ ہے کہ تیز رفتاری کے لیے اونٹ استعمال نہیں ہونگے حدیث میں فَلَا یَسْحٰی عَلَیْھَا کا لفظ یعنی کوئی ان کو نہیں دوڑائے گا۔ پس ریل کی تیاری نے تیز رفتاری کے لحاظ سے اونٹ بیکار کردئیے۔
الجواب:
مکہ اور مدینہ کے درمیان ریل کا جاری ہونا گو کسی مسلم اخبار نے بھی لکھا ہوتا ہم مرزا صاحب اس سے انکاری نہیں ہم جو تحریر مرزا صاحب کی اس بارے میں درج کرچکے ہیں اس میں صاف لفظ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا موجود ہے۔ دیگر ممالک کے متعلق گذارش ہے۔ اونٹوں کی سواری صرف تیز رفتاری کے لحاظ سے متروک نہیں کی گئی۔ بلکہ مرزا صاحب کے نزدیک ''نام و نشان'' اونٹوں کا مٹ جانا ہے۔ ریویو کی منقولہ بالا عبارت بغور ملاحظہ فرمائیں۔ خدا تمہیں بینائی دے۔
--------------------------------------------------------
(۳۵۴) ایام الصلح ص۲۸ و روحانی ص۲۵۷، ج۱۴
(۳۵۵) ایضاً ص۴۸ و روحانی ص۲۸۰، ج۱۴
(۳۵۶) البدر جلد ۳ نمبر ۳۰ مورخہ ۸؍ اگست ۱۹۰۴ء ص۴ و ملفوظات مرزا ص۲۶، ج۴ و تفسیر مرزا ص۳۱۴، ج۸
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
مرزا صاحب کے کاذب ہونے پر تیسری دلیل

منہاجِ نبوت
مرزائی صاحبان ہمیشہ مناظرات میں ڈینگ مارا کرتے ہیں کہ مرزا صاحب کو معیار انبیاء پر پرکھ لو خود مرزا صاحب بھی لکھتے ہیں:
'' میں اپنے دعویٰ کو منہاج نبوت پر پیش کرتا ہوں۔ منہاج نبوت پر جو طریق ثبوت کا رکھا ہوا ہے وہ مجھ سے جس کا جی چاہے لے لے۔'' (ص ۳۱۰، ۳۱۴ منظور الٰہی بحوالہ اخبار الحکم، جلد ۷نمبر ۷) ، (۳۵۷)
'' میرا سلسلہ منہاج نبوت پر قائم ہوا ہے اس منہاج کو چھوڑ کر جو اس کو آزمانا چاہے وہ غلطی کرتا ہے۔'' (۳۵۸)
-----------------------------------------------------------
(۳۵۷) مفہوم الحکم جلد ۷ نمبر ۷ مورخہ ۲۱ ؍ فروری ۱۹۰۳ء ، ص۳ و ملفوظات مرزا قادیانی ص۳۸۴، ج۲
(۳۵۸) الحکم جلد ۸ نمبر ۱۲ مورخہ ۱۰ ؍ اپریل ۱۹۰۴ء ص۷ والبدر جلد ۳ نمبر ۲۰، ۲۱ مورخہ ۲۴؍ مئی ویکم جون
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
معیار اوّل:
اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَّا اُنْزِلَ عَلَیْہِ مِنْ رَّبِہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلٰٓئِکَۃِ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ۔ الآیہ (۳۵۹)
مانا رسول نے جو اس پر نازل ہوا اور مومنوں نے سب کے سب ایمان لائے ہیں ساتھ اللہ کے اور فرشتوں کے اور کتابوں کے اور رسولوں کے آیت ہذا شاہد ہے کہ سب سے پہلے رسول اپنی وحی پر ایمان لاتا ہے خاص کر عہدہ رسالت پر اور بات بھی معقول ہے کہ جب تک کسی شخص کو اپنے عہدہ اور حیثیت پر خود اطلاع نہ ہو وہ اپنے اختیارات کو کیا برت سکتا ہے۔ یہ بات نہایت ہی بودی بلکہ لغو ہے کہ گورنمنٹ کسی کو وائسراے تو بنا دے اور اسے ڈیوٹی پر کھڑا بھی کردے مگر اُسے اس کے عہدہ پر اطلاع نہ دے یا وہ خود اپنی حیثیت کو نہ سمجھتا ہو۔ مرزا صاحب فرماتے ہیں:
'' نبی کے لیے اس کے دعویٰ اور تعلیم کی مثال ایسی ہے جیسا کہ قریب سے آنکھ چیزوں کو دیکھتی ہے اور ان میں غلطی نہیں کرتی اور بعض اجتہادی امور میں غلطی ایسی ہے جیسے دور کی چیزوں کو دیکھتی ہے (۳۶۰) اصل بات یہ ہے کہ جس یقین کو نبی کے دل میں اس کی نبوت کے بارے میں بٹھایا جاتا ہے وہ دلائل تو آفتاب کی طرح چمک اٹھتے ہیں اور اس قدر تواتر سے جمع ہوئے ہیں کہ وہ امر بدیہی ہو جاتا ہے۔ پھر بعض دوسری جزئیات میں اگر اجتہادی غلطی ہو بھی تو وہ اس یقین کو مضر نہیں ہوتی، نبیوں اور رسولوں کو ان کے دعویٰ کے متعلق بہت نزدیک سے دکھایا جاتا ہے اور اس میں اس قدر تواتر ہوتا ہے جس میں کچھ شک باقی نہیں رہتا۔'' (۳۶۱)
اس عبارت سے مہر نیم روز کی طرح روشن کہ انبیاء کرام کو اپنی نبوت کے بارے میں ہرگز ہرگز کسی قسم کا شک و شبہ نہیں رہتا۔ بخلاف اس کے مرزا صاحب کا یہ حال ہے کہ انہیں ابتدا سے ہی نبی اور رسول کہا گیا ہے جیسا کہ لکھتے ہیں:
'' براہین احمدیہ میں بھی یہ الفاظ کچھ تھوڑے نہیں۔ چنانچہ ۴۹۸ میں صاف طور پر اس عاجز کو رسول کرکے پکارا گیا پھر اسی کتاب میں یہ وحی ہے کہ خدا کا رسول نبیوں کے حلوں میں ، پھر اسی کتاب میں یہ وحی اللہ ہے محمد رسول اللہ الخ اس وحی الٰہی میں میرا نام محمد رکھا گیا اور رسول بھی اسی طرح گئی جگہ رسول کے لفظ سے اس عاجز کو یاد کیا گیا۔'' (۳۶۲)
مگر مرزا صاحب برابر نبوت سے انکار کرتے رہے۔ بلکہ برملا کہتے رہے کہ مدعی نبوت:
'' مسیلمہ کذاب کا بھائی، کافر، خبیث ہے۔'' (۳۶۳)
''ہم مدعی نبوت پر لعنت بھیجتے ہیں۔ وحی نبوت نہیں بلکہ وحی ولایت کے ہم قائل ہیں۔''(۳۶۴)
'' میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں۔'' (۳۶۵)
'' تمام مسلمانوں کی خدمت میں گزارش ہے کہ اس عاجز کے رسالہ فتح الاسلام، توضیح المرام، ازالہ اوہام میں جس قدر ایسے الفاظ موجود ہیں کہ محدث ایک معنے سے نبی ہوتا ہے۔ یا محدثیت جزوی نبوت یا نا قصہ نبوت ہے یہ تمام الفاظ حقیقی معنوں پر محمول نہیں بلکہ صرف سادگی سے ان کے لغوی معنوں کی رو سے بیان کئے گئے ہیں ورنہ حاشا و کلا مجھے نبوت حقیقی کا ہرگز دعویٰ نہیں بلکہ میرا ایمان ہے کہ ہمارے سید و مولا محمد مصطفی خاتم الانبیاء ہیں۔ سو تمام مسلمان اگر ان لفظوں سے ناراض ہیں (جن میں جزوی نبوت وغیرہ کا دعویٰ ہے) تو ان الفاظ کو ترمیم شدہ تصور فرما کر بجائے اس کے محدث کا لفظ میری طرف سے سمجھ لیں۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ لفظ نبی سے مراد صرف محدث ہے جس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے متکلم مراد لیے ہیں قال النبی ﷺ قَدَ کَانَ فِیْمَنْ قَبْلَکُمْ مِن بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ رجال یکلمون من غیران یکونوا انبیاء اور لفظ نبی کو کاٹا ہوا خیال فرمائیں۔'' (۳۶۶)
ان تمام مذکورہ بالا تحریرات سے ثابت ہے کہ مرزا صاحب باوجود بقول خود نبی ہونے کے اپنی نبوت سے انکاری رہے۔ میاں محمود احمد پسر مرزا خلیفہ قادیانی اپنی کتاب حقیقۃ النبوۃ پر لکھتے ہیں:
'' آپ کو براہین احمدیہ کے زمانہ سے جو وحی ہو رہی تھی اس میں آپ کو ایک دفعہ بھی مسیح (ابن مریم علیہ السلام نبی اللہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) سے کم نہیں کہا گیا بلکہ افضل ہی بتایا گیا تھا۔ لیکن آپ چونکہ اپنے آپ کو غیر نبی سمجھتے تھے اس کے معنی اور کرتے رہے بعد کی وحیوں نے آپ کی توجہ اس طرف پھیری کہ ان (پہلی) وحیوں کا یہی مطلب تھا کہ آپ مسیح سے افضل اور نبی ہیں۔'' (۳۶۷) '' نبوت کا مسئلہ آپ پر ۱۹۰۰ء یا ۱۹۰۱ء میں کھلا ہے۔ ۱۹۰۱ء میں آپ نے اپنے عقیدے میں تبدیلی کی ہے۔ ۱۹۰۱ء سے پہلے کہ وہ حوالے جن میں آپ نے نبی ہونے سے انکار کیا ہے اب منسوخ ہیں۔'' (۳۶۸)
خلاصہ یہ کہ انبیاء کرام کو اپنے دعویٰ نبوت میں کبھی اور کسی قسم کا شک نہیں ہوسکتا۔ مگر مرزا صاحب نت نئے رنگ بدلتے رہے پس وہ معیار نبوت پر پورے نہیں اترے۔
--------------------------------------------------------------------------------------
۱۹۰۴ء ص۵ و ملفوظات مرزا ص۵۴۴، ج۳
(۳۵۹) پ۳ البقرہ آیت ۲۸۶
(۳۶۰) اعجاز احمدی ص۲۵ و روحانی ص۱۳۴، ج۱۹
(۳۶۱) اعجاز احمدی ص۲۶ و روحانی ص۱۳۵، ج۱۹
(۳۶۲) اشتہار مرزا مورخہ ۵؍ نومبر ۱۹۰۱ء بنام ، ایک غلطی کا ازالہ، مندرجہ مجموعہ اشتہارات مرزا قادیانی ص۴۳۲، ج۳ و روحانی ص۲۰۷، ج۱۸
(۳۶۳) انجام آتھم ص۲۸ و روحانی ص۲۸، ج۱۱
(۳۶۴) ملخصًا اشتہار مرزا مورخہ ۲۰؍ شعبان ۱۳۱۴ھ مندرجہ مجموعہ اشتھارات مرزا قادیانی ص۲۹۷، ج۲ و تبلیغ رسالت ص۲، ج۶
(۳۶۵) آسمانی فیصلہ ص۳ و روحانی ص۳۱۳ ، ج۴
(۳۶۶) اشتھار مرزا مورخہ ۳؍ فروری ۱۸۹۳ء مندرجہ ، مجموعہ اشتھارات مرزا قادیانی ۳۱۳ تا ۳۱۴، ج۱ و حقیقت النبوۃ ص۹۱ تا ۹۲
(۳۶۷) لم اجدہ
(۳۶۸) حقیقت النبوۃ ص۱۲۱، نوٹ: مرزا کا دعویٰ نبوت ایک مرتب سکیم کے ماتحت تھا۔ اور اس نے یہ منازل طے کرنے اور ان کا دعویٰ کرنے میں کافی احتیاط سے کام لیا۔ مرزے نے نبوت اور نبی کا لفظ صاف صاف زبان سے کہے بغیر صفات اور خصائص نبوت پر گفتگو کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ صفات افراد امت میں اتباع رسول کی وساطت سے پائی جاسکتی ہیں۔ اگلے قدم میں مرزا نے اس کا نام محدثیت رکھا اور صراحت کی کہ محدث بھی ایک معنیٰ میں نبی ہوتا ہے اور اپنی ذات کو بھی اس میں شریک و سہیم قرار دیا تو علمائے حق نے مرزا جی کی اس منطق کو بھانپ لیا اور مرزا کو مدعی نبوت قرار دے کر کفر کا فتویٰ لگایا، چنانچہ شیخ الکل فی الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی مرحوم نے اپنے فتویٰ کفر میں صاف لکھا ہے کہ اس الزام (دعویٰ نبوت) کے جواب میں شاید قادیانی یا اس کے حواری یہ دو عذر پیش کریں کہ اول یہ کہ ہر چند قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے مگر اس کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اس نبوت کا دوسرا نام محدثیت ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے نبوت کے دعویٰ سے محدثیت کا دعویٰ مراد ہے نہ حقیقتاً نبی ہونے کا دعویٰ ... جواب اس کا یہ ہے کہ اگرچہ قادیانی نے یہ بات کہہ دی ہے کہ جس نبوت کا اس کو دعویٰ ہے اس کا دروازہ قیامت تک کھلا ہے اس کا دوسرا نام محدثیت ہے اور اس محدثیت کے معنیٰ سے وہ مدعی نبوت ہے مگر ساتھ اس کے اُس نے محدثیت کے معنیٰ ایسے بیان کیے ہیں اور اس کی حقیقت کی ایسی تشریح کردی ہے کہ اس سے بجز نبوت اور کچھ مراد نہیں ہوسکتا۔ ملخصًا
علمائے ہند کا اولین فتویٰ کنز ص۷۷ طبعہ اول و ص۷۸ طبعہ دوم المکتبہ السلفیہ لاہور ۱۹۸۶ء جب یہ فتویٰ کفر متنبی قادیان کے پاس میں پہنچا اور میاں نذیر حسین صاحب محدث دہلوی کے مذکورہ استدلال کو پڑھا تو دجال قادیانی نے جھٹ پہلو بدلا اور کہنے لگا کہ میاں نذیر حسین کی حالت نہایت ہی قابل افسوس ہے کہ اس پیرانہ سالی میں گور میں پیر لٹکا رہے ہیں اپنی عاقبت کی کچھ بھی پروا نہ کی اور اس عاجز کو کافر ٹھہرانے کے لیے دیانت اور تقویٰ کو بالکل ہاتھ سے چھوڑ دیا اور موت کے کنارہ تک پہنچ کر اپنے اندرون کا نہایت ہی بُرا نمونہ دکھایا خدا ترس اور متدین اور پرہیزگار علماء کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ جب تک ان کے ہاتھ میں کسی کے کافر ٹھہرانے کے لیے ایسی صحیحہ یقینیہ قطعیہ وجوہ نہ ہوں تب تک ایسے شخص کو کافر بتانے میں جلدی نہ کریں لیکن دیکھا یہ ہے کہ میاں نذیر حسین اس تقویٰ کے طریق پر چلے ہیں یا اور طرف قدم مارا؟ سو واضح ہو کہ میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں، ملخصًا آسمانی فیصلہ ص۲،۳
مرزا قادیانی نے محدث دہلوی کے فتویٰ کفر کا ذکر کرتے ہوئے آپ کو نہایت بہ تہذیبی سے مخاطب کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ : میاں صاحب موصوف اب ارذل العمر میں ہیں اور بجز زیادت غضب اور طیش اور غصہ کے اور کوئی عمدہ صورت غور اور خوص کی ان میں باقی نہیں رہی بلکہ اگر میں غلطی نہیں کرتا تو میری رائے میں اب بباعث پیر فرتوت ہو جانے کے ان کے حواس بھی کسی قدر قریب الاختلال ہیں (بلکہ) وہ ابتدا سے ہی ایک سطحی خیالات کے آدمی ہیں۔ آئینہ کمالات اسلام ص۳۱
مزید لکھتا ہے کہ اس نالائق نذیر حسین کا یہ سراسر افتراء ہے کہ ہماری طرف دعویٰ نبوت منسوب کرتا ہے۔ انجام آتھم ص۴۵ مرزے کے اس طرح کے تحریری بیانات کی رام کہانی خاصی لمبی اور دلچسپ ہے جس میں اس نے محدث دہلوی مرحوم کے استدلال کو غلط باطل اور مردود قرار دیتے ہوئے دعویٰ نبوت کی تردید کی ہے اور مدعی نبوت کو کافر بتاتے ہوئے محدث دہلوی مرحوم کے فتویٰ کی عبارت کو ان کی کم علمی بلکہ جہالت بتایا ہے اور آپؒ کے استدلال کو کبر سنئی کے سر منڈھا دیا ہے۔
آئیے ہم آپ کو مرزائی اکابر کے بیانات کی روشنی میں بتاتے چلے کہ سطحی خیالات کسی کے تھے اور نالائق و جاہل مطلق کون تھا حواس باختہ اور پیر فرتوت اور ارذل العمر کی شخصیت کا مالک کون تھا؟ محدث دہلوی مرحوم یا دجال قادیانی؟ مرزا نے مورخہ ۲۶؍ مئی ۱۹۰۸ء میں ہیضہ سے اپنے میزبان کے گھر دم توڑ دیا اور حکیم نور الدین جانشین منتخب ہوا ۱۹۱۴ء میں مرزائی نور الدین کی وفات پر مرزائیت دو فرقوں میں بھٹ گئی ایک کا قائد مرزا محمود ہوا اور دوسرے گروں کی امارت مرزائی محمد علی نے سنبھال لی مؤخر الذکر (مرزائی لاہوری گروپ) کا یہ نظریہ تھا کہ مرزا نبی نہیں جبکہ اول الذکر (قادیانی) گروہ کا عقیدہ تھا کہ مرزا نبی تھا لطف کی بات یہ تھی کہ دونوں فریق مرزا کی تحریرات و بیانات سے استدلال کرتے ۱۹۱۵ء کے ابتدا میں مرزا محمود نے اپنے والد مرزا غلام احمد قادیانی کے دعویٰ نبوت کے اثبات پر' حقیقت النبوت'کے عنوان سے ایک صخیم کتاب لکھی جس میں مرزا محمود نے لاہوری گروپ کی طرف سے دعویٰ نبوت پر پیش کردہ، عبارات مرزا پر ان الفاظ سے تبصرہ کیا کہ : خلاصہ کلام یہ کہ حضرت مسیح موعود چونکہ ابتداً نبی کی تعریف یہ خیال فرماتے تھے کہ نبی وہ ہے جو نئی شریعت لائے یا بعض حکم منسوخ کرے یا بلاواسطہ نبی ہو اس لیے باوجود اس کے کہ وہ سب شرائط جو نبی کے لیے واقع میں ضروری ہیں آپ میں پائی جاتی تھیں آپ نبی کا نام اختیار کرنے سے انکار کرتے تھے اور گو ان ساری باتوں کا دعویٰ کرتے رہے جن کے پائے جانے سے کوئی شخص نبی ہو جاتا ہے لیکن چونکہ آپ ان شرائط کو نبی کی شرائط نہیں خیال کرتے تھے بلکہ محدث کے شرائط سمجھتے تھے اس لیے اپنے آپ کو محدث کہتے رہے اور نہیں جانتے تھے کہ میں دعویٰ کی کیفیت تو وہ بیان کرتا ہوں جو نبیوں کے سوا اور کسی میں پائی نہیں جاتیں اور نبی ہونے سے انکار کرتا ہوں لیکن جب آپ کو معلوم ہوا کہ جو کیفیت اپنے دعویٰ کی آپ شروع سے بیان کرتے چلے آئے ہیں وہ کیفیت نبوۃ ہے نہ کہ کیفیت محدثیت تو آپ نے اپنے نبی ہونے کا اعلان کیا بلفظہٖ حقیقت النبوۃ ص۱۲۴ طبعہ قادیان ۱۹۱۵ء ۔ قارئین کرام غور فرمائیے کہ جو بات محدث دہلوی مرحوم نے ۱۸۹۰ء میں کہی تھی اور مرزا نے انکار کردیا تھا۔ مرزائی اکابر نے ۱۹۱۴ء میں آکر فیصلہ محدث دہلوی مرحوم کے حق میں دیتے ہوئے صاف اعلان کردیا کہ اشد ترین مخالف بھی اگر صحیح بات کہہ جائے تو اسے اس کا حق دینا مومن کا فرض ہے ہم ان مکفرین کی اس جگہ تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتے '' ماہنامہ فرقان'' قادیان ستمبر ۱۹۴۵ء بحوالہ قادیانیت کا علمی ریمانڈ ص۶۲ ۔
قادیانی اکابرین اگر اس جگہ محدث دہلوی مرحوم کی تعریف کیے بغیر رہیں بھی تو کیونکہ رہیں جس نبوت کی تعریف ان کا نبی نہیں جانتا تھا جس وحی کا صحیح مفہوم ان کا نبی ۱۲ سال (۱۸۸۹ء سے لے کر ۱۹۰۱ء تک) سمجھنے سے قاصر رہا! وہ محدث دہلوی مرحوم پہلے دن سے جان گئے تھے مرزا حسین کی اصلاح کے لیے نبی بن کر آئے تھے اُن کا فہم و فراست اور علم درست نکلا اور قادیانی اَجہل ثابت ہوا! کیا اسی کا نام '' شان ماموریت'' علم لدنی اور عرفان الٰہی ہے۔ ابوصہیب
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
دوسرا معیار:
لَا تُحِرّکْ بِہٖ لِسَاتَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ اِنَّ علینا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ ۔ فَاِذَا قَرَأْنَاہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ ثُم اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ ۔(۳۶۹)
نہ حرکت دے اس وحی کے پڑھنے پر اپنی زبان کو کہ جلدی سیکھ لے لاریب اس وحی کو تیرے دل میں بٹھانا اور تجھ کو یاد کرانا ہمارے ذمہ ہے۔ پس جب یہ جبرائیل پڑھے تو اس کے ساتھ پڑھ لیا کر۔ پھر ہمارے ذمہ ہے اس کو کھول کر بیان کرنا۔
یہ آیت مقدمہ گواہ ہے کہ نبی پر جو وحی اترتی ہے۔ اس کی وضاحت تام خدا کے ذمہ ہے۔ یہ کبھی نہیں ہوسکتی کہ نبی اپنی وحی کو نہ سمجھ سکے۔ چونکہ مرزا صاحب اپنے دعویٰ نبوت کو منہاج نبوت پر پیش کرنے کے علاوہ اپنی وحی کو قسم کھا کر اسی رنگ کی کہتے ہیں:
'' جس رنگ کا مکالمہ آدم علیہ السلام سے ہوا پھر شیث علیہ السلام پھر نوح علیہ السلام پھر ابراہیم علیہ السلام پھر اسحق علیہ السلام پھر اسمٰعیل علیہ السلام پھر یعقوب علیہ السلام پھر یوسف علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام ، داؤد علیہ السلام ، سلیمان علیہ السلام ، عیسیٰ بن مریم علیہ السلام ، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا۔'' (۳۷۰)
بلکہ فرماتے ہیں:
مَا اَنَا اِلاَّ کالْقُرْانِ (۳۷۱)
'' تو بس قرآن ہی کی طرح ہوں۔''
ماسوا اس کے مرزا صاحب کا دعویٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کا بھی ہے جیسا کہ ہم ثبوت دے چکے ہیں۔ اس لیے لازم ہے کہ ان کی وحی اس معیار پر پوری ہو مگر افسوس ہے کہ ایسا نہیں۔ مرزا صاحب کی ساری عمر انہی چالوں میں بسر ہوئی کہ راولوں کی طرح ایک آدھ فقرہ ہر روز گھڑ لیا کرتے۔ جس کا نہ سر ہوتا پیرنہ گول مول موم کی ناک جدھر چاہا پھیر لیا جو چاہا اس سے نکال لیا۔ الہام سناتے وقت کہہ دیتے کہ مجھے اس کی سمجھ نہیں آئی۔ خدا جانے کیا معنی ہیں پھر لطف یہ کہ صدہا الہام ایسے ہیں کہ ساری عمران کی کوئی تشریح و تعیین نہیں کی بطور نمونہ چند ایک الہام ہدیہ خدمت ہیں۔
۱: ا حد من العلمین (تشریح از مرزا) مراد زمانہ حال کے لوگ ہیں یا آئندہ زمانہ کے واللہ اعلم بالصواب۔'' (ص ۱۵، البشریٰ)، (۳۷۲)
۲: ''پریشن، عمر براطوس، باپلاطوس، آخری لفظ پڑطوس ہے یا پلاطوس بباعث سرعت الہام معلوم نہیں ہوا۔'' (۳۷۳)
۳: '' بعد ۱۱۔ ان شاء اللہ'' (تشریح از مرزا) اس کی تفہیم نہیں ہوئی کہ ۱۱سے کیا مراد ہے۔'' (۳۷۴)
۴: لَا یَمُوْتُ اَحَدٌ مِّنْ رِّجَالِکُمْ تمہارے مردوں میں سے کوئی نہیں مرے گا۔ اس کے حقیقی معنی تو نہیں ہوسکتے مگر مفہوم کا پتہ نہیں۔ شاید کوئی اور معنی ہوں۔ (۳۷۵)
۵: بلا نازل یا حادث یا ... معلوم نہیں کس کی طرف اشارہ ہے۔ (۳۷۶)
۶: '' میں ان کو سزا دوں گا۔ میں اس عورت کو سزا دوں گا۔'' معلوم نہیں یہ کس کے متعلق ہے۔ (۳۷۷)
۷: '' عورت کی چال۔ ایلی ایلی لما سبقتانی۔ بریت'' خیال گذرتا ہے۔ واللہ اعلم کوئی زمانہ طور پر مکر کرے۔ یہ صرف اجتہادی رائے ہے اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے اس کے کیا معنی ہیں۔''(۳۷۸)
۸: '' امراض پھیلائی جائیں گی اور جانیں ضائع کی جائیں گی۔'' معلوم نہیں قادیان کے متعلق ہے یا پنجاب۔ (۳۷۹)
۹: '' موت تیراں ماہ حال کو'' قطعی طور پر معلوم نہیں کس کے متعلق ہے۔ (۳۸۰)
۱۰: '' پس پاشدہ ہجوم'' افسوسناک خبر آئی اس الہام پر ذہن کا انتقال بعض لاہور کے دوستوں کی طرف ہوا۔ مگر یہ انتقال ذہن بعد از بیداری ہوا۔ الہام بھی شاید اس کے متعلق ہو۔ (۳۸۱)
۱۱: کمترین کا بیڑا غرق ہوگیا کسی کے قول کی طرف اشارہ ہے شاید کمترین سے مراد کوئی شریر مخالف ہے۔ (۳۸۲)
۱۲: '' میں سوتے سوتے جہنم میں پڑ گیا'' ایک ناپاک روح کی آواز آئی۔ (۳۸۳)
۱۳: غُثِمَ غُثِمَ غُثِمَ دُفِعَ اِلَیْہِ مِنْ مَا لِہٖ دیا گیا اس کو مال اس کا اچانک۔ (۳۸۴)
۱۴: '' ایک ہفتہ تک کوئی باقی نہیں رہے گا۔'' (۳۸۵)
کوئی پتہ نہیں کہ اس کا مطلب و منشا ملہم کیا ہے۔ کیا مرزا صاحب کے اہل و عیال سے ہفتہ تک کوئی نہ رہے گا۔ یا عام مرزائیوں سے یا کل ملک ہندوستان سے یا کل روئے زمین سے؟
مصنف مرزائی پاکٹ بک کہتا ہے کہ خدا کا دن ہزار سال کے برابر ہے اور عمر دنیا کل سات ہزار ہے پس مراد ایک ہفتہ سے سات ہزار سال ہے۔
جواب:
مرزا صاحب کہتے تھے ''ملہم سے زیادہ کوئی الہام کے معنی نہیں سمجھ سکتا۔'' (۳۸۶)
پس جب وہ خود اس کے معنی و تشریح نہیں کر گئے تو '' آپ کون ہیں خواہ مخواہ کی'' ضرب المثل پوری کرنے سے کیا فائدہ؟ علاوہ ازیں ہمارا اعتراض تو مرزا صاحب پر ہے کہ وہ اس کی کوئی تشریح نہیں کر گئے نہ کہ تم پر۔ پھر یہ بھی غلط ہے کہ عمر دنیا سات ہزار سال ہے۔ قیامت کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے وَعِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ (۳۸۷) میاں محمود احمد لکھتے ہیں:
'' جب آپ (مرزا) دنیا کی عمر سات ہزار سال بتاتے ہیں اور اس کے بعد قیامت بتاتے ہیں تو اس قیامت سے اور قیامت مراد ہے۔ اس سے مراد اس دنیا کی نسل کا ایک دور ہے جو ختم ہوگا آپ (مرزا) پہلے دور کے خاتمے پر آئے۔ میرا عقیدہ یہی ہے کہ (آپ) اس دور کے خاتم ہیں اور اگلے دور کے آدم بھی آپ ہیں۔ پہلا دور سات ہزار سال کا آپ پر ختم ہوا اور اگلا دور آپ سے شروع ہوا۔ (ضمیمہ اخبار الفضل ۱۴؍ فروری ۱۹۲۸ء) ، (۳۸۸)
اندریں صورت احمدیہ پاکٹ بک کے مصنف کی تاویل قطعاً پادر ہوا ثابت ہوتی ہے۔ اگر سات ہزار میں کل بنی آدم کا خاتمہ تھا تو پھر مرزا صاحب جن پر یہ دور ختم ہوا کیسے بچے؟ اسی طرح دیگر لاکھوں انسان کیوں بچے؟ پس یہ الہام از سر تا پا جھوٹا ہے جو اصول قرآن کے خلاف ہے۔
۱۵: '' الہام ایلی اوس بباعث سرعت درود مشتبہ رہا اور نہ کچھ معنی کھلے۔'' (۳۸۹)
مرزائی پاکٹ بک کا مصنف کہتا ہے کہ اس کے یہ معنی ہیں یا وہ ہیں ہمیں اس پر بحث نہیں۔ خود ملہم کہتا ہے مجھے معلوم نہیں۔ لہٰذا آپ کے معانی اگر فی الواقع بھی صحیح ہوں ہمارے اعتراض کو نہیں اٹھاتے۔
۱۶: ھو شَعْنًا لَغْسًا یہ دونوں فقرے شاید عبرانی ہے جس کے معنی (اصل مفہوم نہیں کھلے) اس کے لفظی معنی ہیں نجات دے۔'' (۳۹۰)
احمدیہ پاکٹ بک کا مصنف بھی اس کے معنی ''نجات دے'' وغیرہ کرتا۔ (۳۹۱) ہمارا سوال اصل مفہوم پر ہے جس کے متعلق مرزا صاحب کا اقرار ہے کہ معنی نہیں کھلے '' خلاصہ یہ کہ ہم بایت قرآن مجید ثابت کر آئے ہیں کہ اپنی وحی کو بعد نزول کما حقہ سمجھا نا خدا کا ذمہ ہے۔ بخلاف اس کے مرزا صاحب ان الہامات کے معنی نہیں جانتے تھے۔ پس وہ منہاج نبوت پر پورے نہیں اترے۔
----------------------------------------------
(۳۶۹) پ۲۹ القیمۃ آیت: ۱۷ تا ۲۰
(۳۷۰) ملخصًا نزول المسیح ص۱۰۸ و روحانی ص۴۸۶، ج۱۸
(۳۷۱) بدر جلد ۲ نمبر ۲۸ مورخہ ۲۰؍ ستمبر ۱۹۰۶ء ص۳ والحکم جلد ۱۰ نمبر ۳۳ مورخہ ۲۴؍ ستمبر ۱۹۰۶ء ص۱ وتذکرہ ص۶۷۴ و البشری ص۱۱۹ ج۲
(۳۷۲) مکتوب مرزا ، مورخہ ۱۲؍ دسمبر ۱۸۸۳ء بنام میر عباس علی ، مندرجہ مکتوبات احمدیہ ص۶۸، ج۱ وتذکرہ ص۱۱۵ والبشرٰی ص۵۱، ج۱
(۳۷۴) الحکم جلد ۴ نمبر ۴۵ مورخہ ۱۷ ؍ دسمبر ۱۹۰۰ء ص۲ وتذکرہ ص۴۰۱ والبشرٰی ص۶۶، ج۲
(۳۷۵) البدر جلد ۲ نمبر ۳ مورخہ ۶؍ فروری ۱۹۰۳ء ص ۲۴ والحکم جلد ۷ نمبر ۶ مورخہ ۱۴؍ فروری ۱۹۰۳ء ص۷ وتذکرہ ص۴۵۸ والبشرٰی ص۷۸، ج۲
(۳۷۶) البدر جلد ۲ نمبر ۲۰ مورخہ ۵ ؍ جون ۱۹۰۳ء ص۱۵۴ وتذکرہ ص۴۷۳ والبشرٰی ص۸۲، ج۲
(۳۷۷) بدر جلد ۱ نمبر ۸ مورخہ ۲۵؍ مئی ۱۹۰۵ء ص۲ والحکم جلد ۹ نمبر ۱۸ مورخہ ۲۴ ؍ مئی ۱۹۰۵ء ص۱ وتذکرہ ص۵۵۰ والبشرٰی ص۹۷، ج۲
(۳۷۸) بدر جلد ۲ نمبر ۸ مورخہ ۲۳؍ فروری ۱۹۰۶ء ص۲ والحکم جلد ۱۰ نمبر ۷ مورخہ ۲۴؍ جنوری ۱۹۰۶ء ص۱ وتذکرہ ص۵۹۸ والبشرٰی ص۱۰۷، ج۲ وایضاً بدر جلد ۲ نمبر ۱۲ مورخہ ۲۲؍ مارچ ۱۹۰۶ء ص ۲ والحکم جلد ۱۰ نمبر ۱۰ مورخہ ۲۴؍ مارچ ۱۹۰۶ء ص۱وتذکرہ ص۶۰۶ واللفظ لہ
(۳۷۹) بدر جلد ۲ نمبر ۱۵ مورخہ ۱۲؍ اپریل ۱۹۰۶ء ص۲ والحکم جلد ۱۰ نمبر۱۲ مورخہ ۱۰؍ اپریل ۱۹۰۶ء ص۱ وتذکرہ ص۶۰۹ والبشرٰی ص۱۱۱، ج۲
(۳۸۰) بدر جلد ۲ نمبر ۳۹ مورخہ ۲۷؍ ستمبر ۱۹۰۶ء ص۳ والحکم جلد ۱۰ نمبر۳۳ مورخہ ۲۴؍ ستمبر ۱۹۰۶ء ص۱ وتذکرہ ص۶۷۵ والبشرٰی ص۱۲۰، ج۲
(۳۸۱) بدر جلد ۶ نمبر ۸ مورخہ ۲۱؍ فروری ۱۹۰۶ء ص۳ والحکم جلد ۱۱ نمبر۷ مورخہ ۲۴؍ فروری ۱۹۰۷ء ص۱ وتذکرہ ص۶۹۷ والبشرٰی ص۱۲۴، ج۲
(۳۸۲) بدر جلد ۲ نمبر ۴۷ مندرجہ ۲۲؍ فروری ۱۹۰۶ء ص۳ والحکم جلد ۱۰ نمبر ۳۹ مورخہ ۱۷؍ نومبر ۱۹۰۶ء ص۲ وتذکرہ ص۶۸۳
(۳۸۳) الحکم جلد ۶ نمبر ۱۲ مورخہ ۱۰؍ اپریل ۱۹۰۵ء ص۲ و اشتہار مرزا مورخہ ۸؍ اپریل ۱۹۰۵ء مندرجہ ، مجموعہ اشتہارات ص۵۲۴، ج۳ وتذکرہ ص۵۳۵
(۳۸۴) الحکم جلد ۲ نمبر ۲۶، ۲۷ مورخہ ۶، ۱۳؍ ستمبر ۱۸۹۸ء ص۱۴ و مکتوب مرزا ، بنام سیٹھ عبدالرحمن مدراسی ، مورخہ ۳؍ اکتوبر ۱۸۹۸ء مندرجہ مکتوبات احمدیہ ص۲۰، ج۵ حصہ اول وتذکرہ ص۳۱۹
(۳۸۵) بدر جلد ۶ نمبر ۸ مورخہ ۲۱ ؍ فروری ۱۹۰۷ء ص۳ والحکم جلد ۱۱ نمبر۷ مورخہ ۲۴؍ فروری ۱۹۰۷ء ص۱ وتذکرہ ص۶۹۶
(۳۸۶) اشتھار مرزا مورخہ ۷؍ اگست ۱۸۸۷ء مندرجہ ، مجموعہ اشتھارات مرزا قادیانی ص۱۴۲، ج۱
(۳۸۷) پ۲۵ الزخرف آیت ۸۶ مرزا جی اس آیت کا حسب ذیل معنٰی کرتے ہیں کہ قیامت کا علم تو سوائے خدا کے کسی کو بھی نہیں۔ البدر جلد ۱ نمبر ۴ مورخہ ۲۱؍ نومبر ۱۹۰۲ء ص۲۷ و تفسیر مرزا ص۳۱۱، ج۷۔ ابوصہیب
(۳۸۸) ضمیمہ اخبار الفضل مورخہ ، ۱۴؍ فروری ۱۹۲۸ء
(۳۸۹) براھین احمدیہ ص۵۱۳، ج۴ و روحانی ص۶۱۳، ج۱ وتذکرہ ص۹۱ والبشرٰی ص۳۶، ج۱
(۳۹۰) ایضاً ص۵۵۶، ج۴ و روحانی ص۶۶۴ وتذکرہ ص۱۰۲ والبشرٰی ص۴۳
(۳۹۱) احمدیہ پاکٹ بک ص۷۳۰ طبعہ ۱۹۴۵ء
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
معیار تیسرا:
ناظرین انبیاء کرام کو ہمیشہ ان کی مادری زبان میں وحی ہوتی ہے بخلاف اس کے مرزا صاحب خود مانتے ہیں کہ
'' بعض الہامات مجھے ان زبانوں میں ہوتے ہیں جن سے مجھے کچھ واقفیت نہیں جیسے انگریزی یا سنسکرت یا عبرانی وغیرہ۔'' (۳۹۲)
پس مرزا صاحب ازروئے منہاج نبوت بھی غیر صادق ثابت ہوئے قرآن مجید میں ہے وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ الاَّ بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَھُمْ (۳۹۳) اور نہیں بھیجا ہم نے کوئی رسول مگر اس کی قوم کا ہم زبان تاکہ انہیں واضح کرے۔
اعتراض:
اس آیت سے ہر رسول کا ہم زبان ہونا ثابت ہے مگر یہ ثابت نہیں کہ اس پر وحی بھی قوم کی زبان میں ہوتی ہو۔ (۳۹۴)
الجواب:
یہ عذر بالکل لغو ہے کیونکہ مرزا صاحب کو بھی مسلم ہے کہ یہ ''بالکل غیر معقول اور بیہودہ امر ہے کہ انسان کی اصلی زبان تو کوئی ہو اور الہام کسی اور زبان میں ہو جس کو وہ سمجھ بھی نہیں سکتا کیونکہ اس میں تکلیف مالا یطاق ہے اور ایسے الہام سے فائدہ کیا ہوا جو انسان کی زبان سے بالاتر ہو۔'' (۳۹۵) دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے بوضاحت فرمایا ہے (سورہ حم سجدہ پ ۲۵) وَلَوْ جَعَلْنَا قُرْانًا اَعْجَمِیًّا لَّقَالُوْا لَوْلَا فُصِّلَتْ اٰیٰتُہٗ ئَ اَعْجَمِیٌّ وَعَربیُّ (۳۹۶) اگر ہم اس قرآن کو اوپری زبان میں بناتے تو کفار معترض ہوتے کہ اس کی آیات کھول کر کیوں نہ بیان کی گئیں۔ یہ کیا بات ہے کہ عجمی الہام اور عربی مخاطب، یہ آیت صاف ثبوت ہے اس امر کا الہام الٰہی مخاطبوں کی مادری زبان میں ہوتا ہے۔
اعتراض:
قرآن مجید میں آتا ہے حضرت سلیمان علیہ السلام کہتے ہیں: عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ (سورہ نمل) خدا نے ہم کو جانوروں کی بولی سکھائی۔ گویا ان کو کووّں، چیلوں، کبوتروں، بٹیروں اور تمام جانوروں کی زبان میں الہام ہوا۔ (۳۹۷)
الجواب:
کہاں یہ امر کہ انبیاء علیہم السلام پر جو الہام لوگوں کی ہدایت کے لیے نازل ہوتا ہے وہ ان کی اپنی زبان میں ہوتا ہے اور یہ جواب کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو خدا نے جانوروں کی بولی بھی سکھائی ہاں اگر تم قرآن مجید سے یہ ثابت کرتے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو جو الہام انسانوں کی ہدایت کے لیے ہوتا تھا وہ ان کی اپنی زبان اور ان کی قومی زبان میں نہ تھا۔ تو البتہ دلیل ہوسکتی تھیعُلِّمْنَا کا لفظ الہام کے لیے مخصوص نہیں بلکہ طبعی فہم و تفہیم بھی اس میں داخل ہے سو اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی فطرت میں اپنی قدرت سے یہ طاقت ودیعت کردی کہ وہ جانوروں کی بولی سمجھنے لگ گئے۔ (۳۹۸)
نوٹ:
اعتراض کسی بولی کے سکھانے پر نہیں۔ اعتراض یہ ہے کہ جس زبان کو نبی نہیں جانتا۔ اس میں الہام خلاف عادت اللہ اور خلاف سنت انبیاء ہے، اور مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ مجھے الہام ان زبانوں میں ہوتا ہے جنہیں میں نہیں جانتا ۔ فَتَدَبَّرَ
---------------------------------
(۳۹۲) نزول المسیح ص۵۷ و روحانی ص۴۳۵، ج۱۸
(۳۹۳) پ۱۳ ابراھیم آیت ۵
(۳۹۴) احمدیہ پاکٹ بک ص۷۴۴ طبعہ ۱۹۴۵ء
(۳۹۵) چشمہ معرفت ص۲۰۹ و روحانی ص۲۱۸، ج۲۳
(۳۹۶) پ۲۴ حٰم السجدہ آیت ۴۵
(۳۹۷) احمدیہ پاکٹ ص۷۴۶
(۳۹۸) اس مقام پر مؤلف مرزائی پاکٹ بک نے صفحہ ۷۴۶ میں بغیر کسی دلیل دئیے لکھا ہے کہ یہ پلہ چھوڑا نے کے لیے کافی نہیں۔ مگر گزارش ہے کہ مذکورہ تفسیر سے مرزائیوں کے مفسر قرآن مربی صلاح الدین نے اپنی تفسیر ص۱۷۸۶، ج۳ میں اتفاق کیا ہے اور مرزا محمود لکھتا ہے کہ علمنا منطق الطیر کے یہ معنیٰ ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے لوگوں سے کہا کہ اے لوگو مجھے بھی وہ بولی سکھائی گئی ہے جو بلندی کی طرف پرواز کرنے والے لوگوں کو سکھائی جاتی ہے یعنی نبیوں کے معارف و حقائق تفسیر مرزا محمود بنام کبیر ص۳۵۷، ج۷ مرزے محمود کی اس تفسیر باالرائے سے کم از کم خادم کا یہ اعتراض تو رفع ہوگیا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو پرندوں کی زبان میں وحی ہوتی تھی۔ ابو صہیب
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
چوتھا معیار:
مرزا صاحب اپنی نبوت کو مجاز اور استعارہ قرار دیتے ہوئے رقم طراز ہیں:
'' اسلام کی اصطلاح میں نبی اور رسول کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ وہ کامل شریعت لاتے ہیں یا بعض احکام شریعت سابقہ کو منسوخ کرتے ہیں یا نبی سابق کی امت نہیں کہلاتے اور براہِ راست بغیر استفاضہ کسی نبی کے خد ا تعالیٰ سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے ہوشیار رہنا چاہیے کہ اس جگہ بھی یہی معنی نہ سمجھ لیں کیونکہ ہماری کتاب بجز قرآن اور رسول بجز محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور دین بجز اسلام کے نہیں ہم ایمان رکھتے ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور قرآن شریف خاتم الکتب ہے۔'' (۳۹۹)
ظاہر ہے کہ مرزا صاحب مذکورہ بالا منہاج پر پورے نہیں۔ پس وہ نبی نہیں بلکہ متنبی ہیں۔
عذر:
مرزائی دھوکہ دینے کو کہا کرتے ہیں اس معیار پر بعض سابقہ نبی بھی پورے نہیں اترے۔
الجواب:
سابقہ نبی سب کے سب صاحب شریعت۔ براہ راست خدا سے فیض پانے والے تھے۔ کسی نبی کی اتباع سے درجہ نبوت پر فائز نہیں ہوئے دیکھو مرزا صاحب تحریر فرماتے ہیں:
۱: ''جس قدر نبی گزرے ہیں ان سب کو خدا نے براہِ راست چن لیا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اس میں کچھ دخل نہیں تھا۔'' (۴۰۰)
۲: '' حضرت عیسیٰ علیہ السلام بلکہ تمام انبیاء ان ہدایتوں کے پیرو تھے جو ان پر نازل ہوئی تھیں اور براہِ راست خدا نے ان پر تجلی فرمائی تھی۔ ان کو خدا تعالیٰ نے الگ کتابیں دی تھیں اور ان کو ہدایت تھی کہ ان پر عمل کریں اور کروائیں جیسا کہ قرآن شریف اس پر گواہ ہے۔'' (۴۰۱)
----------------------------------------------
(۳۹۹) مکتوب مرزا بنام نواب محمد علی خاں مرزائی مورخہ ۷؍ اگست ۱۸۹۹ء مندرجہ الحکم جلد ۳ نمبر ۲۹ مورخہ ۷؍ اگست ۱۸۹۹ء ص ۶ و مکتوبات احمدیہ ص۱۰۳، ج۵ نمبر ۴ و حقیقت النبوۃ ص۱۲۵ وضمیمہ النبوۃ فی الاسلام ص۳۴۳ و عقائد احمدیہ متعلق نبوت محمدیہ ص۹۴ و تاریخ احمدیت ص۱۹۱، ج۳ و حیات طیبہ ص۲۹۷ اس سلسلہ میں مرزا قادیانی مزید لکھا کہ انبیاء اس لیے آتے ہیں کہ تا ایک دین سے دوسرے دین میں داخل کریں اور ایک قبلہ سے دوسرا قبلہ مقرر کرا ویں اور بعض احکام کو منسوخ کریں اور بعض نئے احکام لاویں، انتھی بلفظہٖ، ابو صہیب
(۴۰۰) حقیقت الوحی ص۲۸ و روحانی ص۳۰، ج۲۲
(۴۰۱) ملخصًا براھین احمدیہ ص۱۹۲ تا ۱۹۳، ج۵ و روحانی ص۳۶۴، ج۲۱
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
پانچواں معیار:
قرآن مجید میں ہے اِنْ اَتَّبِعُ اِلاَّ مَا یُوْحٰی اِلیَّ میں صرف اپنی وحی کی پیروی کرتا ہوں وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلاَّ لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہ (۴۰۳) نہیں بھیجا ہم نے کوئی رسول مگر مطاع بنا کر۔
ان آیات سے ظاہر ہے کہ نبی اپنی وحی کا متبع ہوتا ہے (دوسروں کی وحی کو اسی صورت میں مانتا ہے کہ اس کی وحی کے خلاف نہ ہو یا اس کی وحی کا حکم ہو کہ فلاں بات پہلی وحی کی مانو) نبی کسی دوسرے انسان کا مطیع نہیں ہوتا۔ چنانچہ مرزا صاحب بھی اقرار کرتے ہیں:
'' خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ کوئی رسول دنیا میں مطیع اور محکوم ہو کر نہیں آتا بلکہ وہ مطاع اور صرف اپنی وحی کا متبع ہوتا ہے۔'' (۴۰۴)
بخلاف اس کے مرزا صاحب بقول خود امتی نبی۔ مطیع اور محکوم رسول تھے۔ اور اپنی وحی کو بجز ''مطابقت'' قرآن کے نہیں مانتے تھے۔ پس وہ منہاج نبوت کی رو سے ''بدعتی رسول'' ہیں۔ (۴۰۵)
-----------------------------------------------------------------------------------------------------
(۴۰۲) پ۷ الانعام آیت: ۵۱
(۴۰۳) النساء آیت: ۶۵، نوٹ: مرزا اس آیت کا حسب ذیل معنیٰ کرتے ہیں کہ ہر ایک رسول مطاع اور امام بنانے کے لیے بھیجا جاتا ہے اس غرض سے نہیں بھیجا جاتا کہ کسی کا مطیع اور تابع ہو، ازالہ اوہام ص۵۶۹ و حقیقت الوحی ص۱۲۷ و تفسیر مرزا ص۲۴۸، ج۳ وللفظ لہ۔ ابوصہیب
(۴۰۴) ازالہ اوہام ص۵۷۶ و روحانی ص۳۱۱، ج۲۲
(۴۰۵) اس مقام پر ایک اور نکتہ بھی قابل غور ہے وہ یہ کہ مرزا خود کو ساری زندگی حنفی المذہب مقلد باور کراتے رہے ہیں (دیکھئے راقم کا مضمون مندرجہ الاعتصام جلد ۳۹ نمبر ۵ مورخہ ۳۰ جنوری ۱۹۸۷ء ص۱۶) اور نبی امتی کا فقہی مسلک میں پیروکار اور مقلد ہو۔ یہ تو ویسے ہی شان نبوت کی توہین ہے۔ ابو صہیب
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
چھٹا معیار:
مرزا صاحب اپنی کتاب تحفہ گولڑہ میں لکھتے ہیں کہ '' نبی کے لیے ضروری ہے کہ چالیس سالہ عمر میں مامور ہو۔'' (۴۰۶) بخلاف اس کے مرزا صاحب کی پیدائش مندرجہ ذیل تحریر کی رو سے ۱۲۶۸ھ ثابت ہوتی ہے:
'' بہت سے اکابر امت گزرے ہیں جنہوں نے میرے لیے پیشگوئی کی اور پتہ بھی بتایا بعض نے تاریخ پیدائش بھی بتائی ہے، جو چراغ دین ۱۲۶۸ھ ہے۔'' (۴۰۷)
اور سنہ بعثت مرزا ان کی ایک تحریر کی رو سے ۱۲۹۰ھ ہے۔ جیسا کہ لکھا ہے:
'' ٹھیک بارہ سو نوے ہجری میں یہ عاجز شرف مکالمہ و مخاطبہ پا چکا تھا۔'' (۴۰۸)
اندریں حساب بوقت بعثت مرزا صاحب کی عمر کل ۲۲ سال ثابت ہوتی ہے۔ حالانکہ از روئے معیار مسلمۂ مرزا انبیاء کے لیے سنت الٰہی یہی ہے کہ وہ چالیس سالہ عمر میں مبعوث ہوں۔
نوٹ: مرزا صاحب نے ''اکابر امت کی پیشگوئی'' کی رو سے اپنی تاریخ پیدائش ۱۲۶۸ھ لکھی ہے اور یہ بھی مرزا صاحب کا مذہب ہے '' مَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوَیٰ کے درجہ پر جب تک انسان نہ پہنچے اس وقت تک اسے پیشگوئی کی قوت نہیں مل سکتی۔'' (۴۰۹)
پس مرزائی یہ نہیں کہہ سکتے کہ '' اکابر امت کی پیشگوئی'' میں تاریخ پیدائش میں غلطی ہے۔
------------------------------------------------
(۴۰۶) تحفہ گولڑویہ ص۱۰۷ و روحانی ص۲۷۶، ج۱۷، مفہوم
(۴۰۷) دیکھئے باب ھذا کا حاشیہ نمبر ۱۲۵
(۴۰۸) دیکھئے باب ہذا کا حاشیہ نمبر ۱۲۸
(۴۰۹) الحکم جلد ۵ نمبر ۱۰ مورخہ ۱۷؍ مارچ ۱۹۰۱ء ص۹ و تفسیر مرزا ص۱۱، ج۸ و ملفوظات مرزا ص۲۷۵، ج۱
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
ساتواں معیار:
فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰی قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللّٰہِ ۔ (۴۱۰)
یہ قرآن جبرئیل نے تیرے قلب مبارک پر نازل کیا ہے۔ مرزا صاحب بھی اقراری ہیں کہ:
۱: '' ممکن نہیں کہ دنیا میں ایک رسول اصلاح خلق کے لیے آئے اور اس کے ساتھ وحی الٰہی اور جبرائیل نہ ہو۔'' (۴۱۱)
۲: '' رسولوں کی تعلیم اور اعلام کے لیے یہی سنت اللہ اور قدیم سے جاری ہے جو بواسطہ جبرائیل کے بذریعہ نزول آیات ربانی اور کلام رحمانی سکھلائے جاتے ہیں۔'' (۴۱۲)
صاف عیاں ہے کہ ہر ایک نبی پر نزول جبرائیل بوحی الٰہی لازمی ہے حالانکہ :
(الف): ''یہ بات مستلزم محال ہے کہ خاتم النبیین کے بعد جبرائیل علیہ السلام کی وحی رسالت کے ساتھ زمین پر آمد و رفت شروع ہو جائے۔'' (۴۱۳)
(ب): ''صرف ایک ہی فقر ہ حضرت جبرائیل علیہ السلام لا ویں اور پھر چپ ہو جاویں یہ امر بھی ختم نبوت کا منافی ہے۔'' (۴۱۴)
نتیجہ صاف ہے کہ مرزا صاحب اس سنت انبیاء اور معیار رسالت سے باصول خود کورے ہیں۔
-----------------------------------------------------
(۴۱۰) پ۱ البقرہ آیت: ۹۸
(۴۱۱) ازالہ اوہام ص۵۷۸ و روحانی ص۴۱۲، ج۳
(۴۱۲) ایضاً ص۵۸۳ و روحانی ص۴۱۴، ج۳
(۴۱۳) ایضاً ص۵۸۳ و روحانی ص۴۱۴،ج۳
(۴۱۴) ایضاً ص۵۷۷ و روحانی ص۴۱۰، ج۳
 
Top