• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

محمدیہ پاکٹ بک

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
باب دوم
ختم نبوت

مرزا صاحب کے کاذب ہونے پر گیارہوں دلیل

'' دنیا میں جو غرض انبیاء و رسل کی بعثت کی اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی تھی وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس ذات میں اپنے کمال کو پہنچ کر پوری ہوگئی اور جب غرض پوری ہوگئی تو اس کے بعد اب کسی نبی کے آنے کی حاجت باقی نہ رہی۔ ہدایت کے تمام پہلوؤں کو کمال بسط کے ساتھ اور تمام ضروری تفصیلات کے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں روشن کردیا۔ جتنی روشنی مکانی طور پر انسان سرچشمۂ الوہیت سے حاصل کرسکتا ہے ، وہ سب حاصل کرلی جو کوئی ہدایت دنیا کی کسی قوم کے لیے آئندہ آنے والے کسی زمانہ کے لیے ایک قوم، ایک ملک یا ایک فرد کے ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ سے اعلیٰ حالت تک تزکیہ اور تکمیل نفس کا کام دے سکتی ہے اس کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں پہنچا دیا، نبوت اپنے کمال کو پہنچ گئی۔ نبی کی ضرورت دنیا میں تکمیل انسانی کے کسی نئے پہلو کو واضح کرنے کے لیے ہوتی تھی لیکن قرآن نے چونکہ تکمیل انسانی کے سارے پہلوؤں کو کمال تک پہنچا دیا اس لیے کسی نئے نبی کی ضرورت بھی نہ رہی۔ نبوت کے ختم ہونے سے مراد یہ نہیں کہ ایک نعمت جو پہلے انسانوں کو ملتی تھی، اب اس کا ملنا بند ہوگیا ہے، بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ نعمت اپنے پورے کمال کے ساتھ انسانوں کو پہنچا دی گئی۔ ہم نعمت نبوت سے محروم نہیں بلکہ وہ نعمت اپنی اعلیٰ ترین صورت میں ہمارے پاس موجود ہے، جس طرح آفتاب کے بعد چراغ کی ضرورت نہیں رہتی اس لیے کہ اس کی روشنی انسانوں کو چراغ کا محتاج نہیں چھوڑتی۔ اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے آفتاب کے طلوع ہونے کے بعد کسی چراغ نبوت کی انسانوں کو ضرورت نہیں۔'' (۱)
------------------------------------------
تخریج باب دوم
(۱) النبوۃ فی الاسلام ص۷۴ مؤلفہ محمد علی مرزائی طبعہ ۱۹۷۴
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
ختم نبوت کا ثبوت از قرآن:
۱۔ مَاکَان مُحمدا بااحد من رجالکم ولکن رسول اللّٰہ وخاتم النبیین ۔(۲) محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم میں سے کسی مرد کا باپ نہیں مگر وہ رسول اللہ ہیں ختم کرنے والے نبیوں کے۔ یہ آیت صاف دلالت کر رہی ہے کہ بعد ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی رسول دنیا میں نہیں آئے گا۔(۳)
وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ اَلاَ تَعْلَمُ اَنَّ رَبَّ الرَّحِیْمَ المتفضل سَمّٰی نَبِیَّا ﷺ وَخاتِمَ الْاَنَبِیَائِ بَغَیَر اسْتَثَنَاء وفسرہ نبیاء ﷺ فی قولہٖ لا نَبِی بعدی ببیان واضح للطالبین ۔(۴)
کیا تم نہیں جانتے (اے بے سمجھ مرزائیو!) کہ خدا رحیم و کریم نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بغیر کسی استثناء کے خاتم الانبیاء قرار دیا ہے اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خاتم النبیین کی تفسیر لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ کے ساتھ فرمائی ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا اور طالبین حق کے لیے یہ بات واضح ہے:
'' حدیث لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ میں بھی (لَا) نفی عام ہے۔'' (۵)
'' ہست او خیر الرسل خیر الانام
ہر نبوت رابرو شد اختتام (۶)
'' آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار فرما دیا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور حدیث لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ ایسی مشہور تھی کہ کسی کو اس کی صحت میں کلام نہ تھا اور قرآن شریف جس کا لفظ لفظ قطعی ہے اپنی آیۂ کریمہ ولکن رسول اللّٰہ وخاتم النبیین سے بھی اس کی تصدیق کرتا ہے کہ فی الحقیقت ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہوچکی ہے۔'' (کتاب البریت مصنفہ مرزا ص۱۸۴) (۷)
مرزا صاحب نے اس آیت کی تفسیر میں جس حدیث کا حوالہ دیا ہے وہ یہ ہے اَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ لَا نَبِیِّ بَعدِیْ (مشکوٰۃ الفتن) میں نبیوں کا ختم کرنے والا ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
----------------------------------
(۲) پ۲۳ الاحزاب آیت نمبر ۴۱
(۳) ازالہ اوہام ص۶۱۴ و روحانی ص۴۳۱، ج۳ و تفسیر مرزا ص۵۲،ج۷
(۴) حمامۃ البشرٰی الٰی اھل مکۃ و صلحاء ام القریٰ ص۲۰ و روحانی ص۲۰۰، ج۷
(۵) ایام الصلح ص۱۴۶ و روحانی ص۳۹۳، ج۱۴
(۶) سراج منیر ص۹۳ و روحانی ص۹۵ ج۱۲
(۷) کتاب البریہ ص۱۸۴ و روحانی ص۲۱۸، ج۱۳ و تفسیر مرزا ص۵۸، ج۷
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
دوسری آیت:
۱۔ الْیَوْمَ اکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنکُمْ واتممت عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا یعنی آج میں نے قرآن کے اتارنے اور تکمیل نفوس سے تمہارا دین تمہارے لیے کامل کردیا اور اپنی (نبوت کی) نعمت تم پر پوری کردی اور تمہارے لیے دین اسلام پسند کرلیا۔ حاصل مطلب کہ قرآن کریم جس قدر نازل ہونا تھا ہوچکا اور مستعد دلوں میں نہایت حیرت انگیز تبدیلیاں پیدا کرچکا اور تربیت کو کمال تک پہنچا دیا اور اپنی نعمت کو ان پر پورا کردیا۔''(۹)
۲۔ قرآن شریف جیسا کہ آیت اَلْیَوْمَ اکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ اور آیت ولکن رسول اللّٰہ وخاتم النبیین میں صریح نبوت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کرچکا ہے اور صریح لفظوں میں فرما چکا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں۔(۱۰)
۳۔ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں صحابہ رضی اللہ عنہم کو مخاطب کیا کہ میں نے تمہارے دین کو کامل کیا اور تم اپنی نعمت پوری کی اور اس آیت کو اس طور سے نہ فرمایا کہ آج میں نے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کے دین کو کامل کردیا۔ اس میں حکمت یہ ہے تاکہ ظاہر ہو کہ صرف قرآن کی تکمیل نہیں ہوئی بلکہ ان کی بھی تکمیل ہوگئی جن کو قرآن پہنچایا گیا اور رسالت کی علت غائی کمال تک پہنچ گئی۔ (حاشیہ نور القرآن نمبر۱، ص۱۹) (۱۱)
۴۔ ہم لوگ ختم ہونا وحی کا مانتے ہیں۔ گو کلام الٰہی اپنی ذات میں غیر محدود ہے لیکن چونکہ وہ مفاسد جن کی اصلاح کے لیے کلام الٰہی نازل ہوئی ہے ( یا رسول آتے ہیں۔ ناقل) وہ قدر محدود سے زیادہ نہیں اس لیے کلام الٰہی بھی اسی قدر نازل ہوئی جس قدر نبی آدم کو ضرورت تھی اور قرآن ایسے زمانے میں آیا کہ جس میں ہر طرح کی ضرورتیں جن کا پیش آنا ممکن تھا پیش آگئی تھیں۔ اس لیے قرآن شریف کی تعلیم بھی انتہائی درجہ پر نازل ہوئی پس انہی معنوں میں شریعت فرقانی مختم و مکمل ٹھہری اور پہلی شریعتیں ناقص رہیں۔ اب قرآن اور دوسری کتابوں میں فرق یہ ہے کہ پہلی کتابیں خلل سے بھی محفوظ رہتیں تاہم بوجہ ناقص ہونے کے تعلیم کے ضرور تھا کہ کسی وقت کامل تعلیم یعنی قرآن ظہور ہوتا مگر قرآن کے لیے اب یہ ضرورت در پیش نہیں کہ بعد کوئی کتاب آوے کمال کے بعد اور کوئی درجہ باقی نہیں۔ ہاں اگر فرض کیا جائے کہ اصول قرآن دید اور انجیل کی طرح مشرکانہ بنائے جائیں گے یا مسلمان شرک اختیار کرلیں گے تو بیشک ایسی صورتوں میں دوسری شریعت اور دوسرے رسول کا آنا ضروری ہے مگر یہ دونوں قسم کے فرض محال ہیں۔ قرآن شریف کا محرف ہونا اس لیے محال ہے کہ خدا نے خود فرمایا ہے: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ یعنی اس کتاب کو ہم نے ہی نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں اور مسلمانوں کا شرک اختیار کرنا اس جہت سے ممتنعات سے ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس بارے میں بھی پیشگوئی کرکے فرما دیا وَمَا یُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا یُعِیْدُ یعنی شرک مخلوق پرستی نہ اپنی کوئی شاخ نکالے گی نہ پہلی حالت پر عود کرے گی۔ پس ثابت ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حقیقت میں خاتم الرسل ہیں۔ (۱۲)
-----------------------
(۸) المائدہ آیت نمبر ۴
(۹) نور القرآن ص۱۵تا۲۰ نمبر ۱ و روحانی ص۳۴۴ تا ۳۴۹، ج۹ و تفسیر مرزا ص۱۳، ج۴
(۱۰) تحفہ گولڑویہ ص۵۱ و روحانی ص۱۷۴، ج۱۳ و تفسیر مرزا ص۵۴، ج۷
(۱۱) حاشیہ نور القران نمبر۱، ص۱۹ و روحانی ص۳۵۲، ج۹ و تفسیر مرزا ص۱۳ ج۴
(۱۲) براھین احمدیہ ص۱۰۹، تا ۱۱۱،ج۲ حاشیہ نمبر ۹ و روحانی ص۱۰۱،ج۱ و تفسیر مرزا ص۳۲۸، ج۵
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
تیسری آیت:
وَمَآ اَرْسَلْنْکَ اِلاَّ کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَّذِیْرًا ۔(۱۳)
'' آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم افضل الانبیاء اور سب رسولوں سے بہتر اور بزرگ تر تھے۔ اور خدا تعالیٰ کو منظور تھا کہ جیسے آنحضرت اپنے ذاتی جوہر سے انبیاء کے سردار ہیں ایسا ظاہری خدمات کی رو سے ان کا سب سے فائق اور برتر ہونا دنیا پر ظاہر ہو جائے اس لیے خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت گو کافۃً بنی آدم کے لیے عام رکھا۔'' (۱۴)
جب دنیا نے اتحاد اور اجتماع کے لیے پلٹا کھایا اور ایک ملک کو دوسرے ملک سے ملاقات کرنے کے سامان پیدا ہوگئے تب وہ وقت آگیا کہ قومی تفرقہ درمیان سے اٹھا دیا جائے اور ایک کتاب کے ماتحت سب کو کیا جائے تب خدا نے سب دنیا کے لیے ایک ہی نبی بھیجا تاکہ وہ سب قوموں کو ایک ہی مذہب پر جمع کرے اور تا جیسا کہ ابتدا میں ایک قوم تھی آخر میں بھی ایک ہی قوم بنا دے۔(۱۵)
معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تمام بنی نوع آدم کے لیے رسول ہونا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت اور خدا کی اس حکمت کے لیے ہے کہ ابتدا کی طرح انتہا میں بھی ایک ہی قوم اور ایک ہی رسول ہو۔ پس جو شخص اس وحدت میں خلل انداز ہوتا ہے وہ نہ صرف خدا کی حکمت کو باطل کرنا چاہتا ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی سیرت کا دشمن ہے۔
-----------------
(۱۳) پ۲۲ سبا آیت نمبر ۲۸
(۱۴) براھین احمدیہ ص۵۴۵، ج۴ و روحانی ص۶۵۳ج۱
(۱۵) چشمہ معرفت ص۱۳۶ و روحانی ص۱۴۰، ج۲۳ و تفسیر مرزا ص۸۷، ج۶
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
چوتھی و پانچویں آیت:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام انجیل میں فرماتے ہیں کہ مجھے دوسری قوموں سے سروکار نہیں۔ قرآن شریف میں یہ نہیں لکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صرف قریش کے لیے بھیجے گئے بلکہ لکھا ہے کہ قُلْ یٰأَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا ۔میں تمام دنیا کے لیے بھیجا گیا ہوں وَمَآ اَرْسَلْنَکَ اِلاَّ رَحَمَۃً لِلْعَلَمِیْنَ یعنی ہم نے کسی خاص قوم پر رحمت کرنے کے لیے نہیں بھیجا بلکہ اس لیے بھیجا ہے کہ تمام جہان پر رحمت کی جائے پس جیسا کہ خدا تمام جہان کا خدا ہے ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا کے لیے رسول ہیں اور تمام دنیا کے لیے رحمت ہیں۔ (۱۶)
پس جس طرح دوسرا خدا ماننے والا مشرک ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مدعی نبوت کو ماننے والا مشرک ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمتِ عامہ میں حائل ہو کر لعنت میں گرفتار ہو رہا ہے۔(۱۷)
----------------
(۱۶) ضمیمہ چشمہ معرفت ص۱۶ و روحانی ص۳۸۸، ج۲۳ و تفسیر مرزا ص۱۰۷، ج۶
(۱۷) الفرقان آیت نمبر ۲
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
چھٹی آیت:
لِیَکُوْنَ لِلْعَالَمِیْنَ نَّذِیْرًا یعنی ہم نے تجھ کو بھیجا تاکہ تو دنیا کی تمام قوموں کو ڈراوے۔(۱۸)
جبکہ حسب قرآن پاک تمام دنیا کے لیے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نذیر ہیں تو اب کسی دوسرے کا یہ کہنا کہ '' دنیا میں ایک نذیر آیا'' صریح منافی قرآن ہے۔
---------------------------------
(۱۸) نور القران نمبر ۱، ص۵ و روحانی ص۳۳۶، ج۹ و تفسیر مرزا ص۳۳۱، ج۶
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
ساتویں آیت:
وَاِذْا اَخَذَ اللّٰہُ مِِیْثَاقَ النَّبِیِّیْنَ لَمَآ اٰتَیْتُکُمْ مِنْ کِتَاب وَّحکمْۃٍ ثُمَّ جَائَ کُمْ رَسُوْلٌ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرَنَّہٗ ۔(۱۹)
اور یاد کر کہ جب خدا نے تمام رسولوں سے عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت دوں، پھر تمہارے پاس آخری زمانہ میں میرا رسول آئے گا جو تمہاری کتابوں کی تصدیق کرے گا تمہیں اس پر ایمان لانا ہوگا اور اس کی مدد کرنی ہوگی۔(۲۰)
مطلب ظاہر ہے کہ:
'' خدا نے اور رسول بھیجے اور کتابیں بھیجیں اور سب کے آخر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا جو خاتم الانبیاء اور خیر الرسل ہے۔'' (۲۱)
---------------------------------
(۱۸) نور القران ۱۹
(۱۹) پ۳ اٰل عمران آیت ۸۲
(۲۰) حقیقت الوحی ص۱۳۰ و روحانی ص۱۳۳، ج۲۲ وتفسیر مرزا ص۱۲۶، ج۳
(۲۱) ایضاً ص۱۴۱ و روحانی ص۱۴۵، ج۲۲
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
آٹھویں جماعت:
قَدْ اَنْزَلَ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ ذِکْرًا ۔ رَسُوْلاً یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اَیَاتِ اللّٰہِ مُبِیِّنَاتٍ لِّیُخْرِجَ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّلِحٰتِ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْر ۔ (سورۃ الطلاق پارہ ۲۸)
''خدا نے اپنی کتاب (قرآن) اپنا رسول(محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) بھیجا وہ تم پر کلام الٰہی پڑھتا ہے تاکہ وہ ایمانداروں اور نیک کرداروں کو ظلمات سے نور کی طرف نکالے۔'' (۲۲)
آیت ہذا بتا رہی ہے کہ ایمانداروں، نیک کرداروں کو کفر و شرک، فسق و فجور کے اندھیروں سے نور و ہدایت، ایمان و سلامتی پر پہنچانے کو قرآن اور محمد علیہ السلام بھیجے گئے۔ اب جو کوئی بے ایمان اور بدکردار ہے وہ دوسرے کا دامن پکڑے گا۔ مومن تو اسی رسول و کتاب کے شیدائی رہیں گے۔
-----------------------------
(۲۲) براھین احمدیہ ص۵۴۰، ج۴ و تفسیر مرزا ص۱۶۹، ج۸
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
نویں آیت:
ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیِّیْنَ رَسُولاً الٰی قَوْلِہٖ وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ ۔ (پ۲۸،سورہ جمعہ، آیت:۳،۴)
''خدا وہ ہے جس نے آدمیوں میں رسول بھیجا جو خدا کی آیات ان پر پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور حکمت سکھلاتا ہے۔ اگرچہ وہ لوگ اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے پہلے صریح گمراہی میں پھنسے ہوئے تھے۔ اور ان (مسلمانوں) کے گروہ میں اور ملکوں کے لوگ (جو آخری زمانہ میں ہوں گے) بھی ہیں جن کا اسلام میں داخل ہونا ابتدا سے قرار پاچکا ہے اور ابھی وہ مسلمانوں سے نہیں ملے اور خدا غالب ہے اور حکیم ہے جس کا فعل حکمت سے خالی نہیں یعنی جب وہ وقت پہنچے گا جو دوسرے ملکوں کے مسلمان ہونے کے لیے مقرر کر رکھا ہے تب وہ لوگ اسلام میں داخل ہوں گے۔'' (۲۳)
یہ آیت بآواز بلند گویا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سرورِ کائنات جس طرح ابتداء ًاسلام کے وقت کے لوگوں کی طرف رسول تھے اس طرح آخرین کے لیے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
-------------------------------------------------------
(۲۳) ایضاً ص۲۳۸،ج۲ حاشیہ نمبر۱۱ و روحانی ص۲۶۲، ج۱ وتفسیر مرزا ص۱۲۸ ج۸
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
دسویں آیت:
وَمَنْ یَّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبیَّنَ لَہُ الْھُدَی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلٍ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَھَنَّمَ وَسَائَ تْ مَصِیْرًا ۔ (۲۴)
اور جو کوئی برخلاف کرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اس کے کہ ظاہر ہوئی واسطے اس کے ہدایت اور پیروی کرے سوا راہ مسلمانوں کے، متوجہ کریں گے ہم اس کو جدھر متوجہ ہوا ہو اور داخل کریں گے ہم اس کو دوزخ میں اور برا ٹھکانا ہے (دوزخ)۔
ناظرین غور فرمائیں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی ہو تو وہ دو حال سے خالی نہیں یا تو وہ بمقتضائے آیت مذکورہ طریق مومنین کا اتباع کرے گا اور یابمقتضائے نبوت لوگوں کو اپنے اتباع کی دعوت دے گا۔
پہلی صورت میں تو معاملہ برعکس ہو جاتا ہے کیونکہ خدا کے نبی دنیا میں اس لیے آتے ہیں کہ لوگوں کو اپنی طرف بلائیں نہ یہ کہ لوگوں کا اتباع کرنے لگیں۔ دیکھو قرآن مجید کا ارشاد ہے:
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوَلٍ اِلاَّ لیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ ۔(۲۵)
'' اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر صرف اسی لیے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ یعنی رسول دنیا میں مطیع بن کر نہیں بلکہ مطاع بن کر آتا ہے۔'' (۲۶)
دوسری صورت میں بنی کا وجود محض بے فائدہ اور اس کی بعثت محض بیکار رہ جاتی ہے کیونکہ بعثت نبی کی ضرورت اس وقت ہوتی ہے جب خدا کے بندے صراط مستقیم کو چھوڑ دیں، نبی آکر ان کو سیدھے راستہ کی ہدایت کرے۔
اور جب سبیل مومنین ایک ایسی مستقیم سبیل ہے کہ خداوند عالم تمام اہل عالم کو قیامت تک اس پر چلنے کی ہدایت فرماتے ہیں اور اس سے ہٹنے پر سخت وعید کرتے ہیں تو پھر فرمائیے کہ اب کسی جدید نبی کے پیدا ہونے کی کیا ضرورت ہے؟
نوٹ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صراط مستقیم دکھا دیا ہے۔ لہٰذا اب ضرورت نہیں کہ جدید نبی کا انتظار کیا جائے۔
----------------------------------------------
(۲۴) پ۵ النساء آیت نمبر ۱۱۵
(۲۵) پ۵ النساء آیت ۶۴
(۲۶) ازالہ اوہام ص۵۶۹ و روحانی ص۴۰۷، ج۳ و تفسیر مرزا ص۲۴۸، ج۳ مفہوماً
 
Top