ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
کذبات مرزا ’’ایام الصلح‘‘ 135 (انبیاء کی وفات پر مرزا قادیانی کی تضاد بیانی)
۱۳۵… ’’بہت سے نبیوں کی وفات کا خداتعالیٰ نے ذکر بھی نہیں کیا۔‘‘ (ایام الصلح ص۱۴۱، خزائن ج۱۴ ص۳۸۷) ابوعبیدہ: مرزاقادیانی آپ کی زبان ہے یا کیا؟ (ازالہ اوہام ص۳۴۷، خزائن ج۳ ص۲۷۷) پر تو آپ لکھتے ہیں: ’’اس بات کو تو پہلے قرآن شریف ہی بتصریح ذکر کر چکا ہے۔ جب کہ اس نے صاف لفظوں میں فرمادیا کہ کوئی نبی نہیں آیا جو فوت نہ ہوا ہو۔‘‘ اب بتلائیے کون سا بیان سچا ہے؟
کذبات مرزا ’’ایام الصلح‘‘ 136 (عیسیؑ کی پوجا کی وجہ سے وہ وفات یافتہ ہیں ، پھر فرشتوں کے متعلق کیا خیال ہے؟)
۱۳۶… ’’اس آیت میں بھی حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات کی طرف ہی اشارہ ہے اور وہ یہ ہے۔ ’’
والذین یدعون من دون اﷲ لا یخلقون شیئاً وہم یخلقون اموات غیر احیاء وما یشعرون ایان یبعثون
‘‘ ظاہر ہے کہ قرآن شریف کا یہ فرمانا کہ تمام معبود غیراﷲ اموات غیر احیاء ہیں۔ اس کا اوّل مصداق حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی ہیں۔ کیونکہ زمین پر سب انسانوں سے زیادہ وہی پوجے گئے ہیں۔‘‘ (ایام الصلح ص۱۴۰،۱۴۱، خزائن ج۱۴ ص۳۸۷)
ابوعبیدہ: حضرات! اس آیت کا حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات وممات سے کوئی تعلق نہیں۔ ذرا جھوٹ نمبر۱۳۴ کا جواب پھر پڑھ لیں۔ دوسرے اگر اس آیت کا مصداق سب معبود ہیں تو کیا فرشتے بھی مردہ ہیں۔ کیونکہ دنیا انہیں بھی پوجتی ہے۔
نیز جب فرعون کی پرستش کی جاتی تھی تو آیا وہ مردہ تھا۔ آج کل لاماؤں کی پرستش چین میں ہورہی ہے۔ کیا وہ سب مردہ ہیں۔ پھر دیکھئے (سورۂ انبیاء:۸۹) میں اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں۔ مشرکین کو مخاطب کر کے ’’
انکم وما تعبدون من دون اﷲ حصب جہنم
‘‘
’’تم اور وہ معبودان غیراﷲ جن کی تم پوجا کرتے تھے۔ دوزخ کا ایندھن ہو۔ تم اس میں داخل ہوؤ گے اور اگر یہ معبود تمہارے واقعی خدا ہوتے تو نہ پہنچتے۔ا س میں اور وہ سب دوزخ میں ہی رہیں گے۔‘‘
بولئے مرزاقادیانی! ذرا یہاں بھی وہی قانون چلائیے۔ آپ کے اصول کے مطابق تو نعوذ باﷲ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی دوزخ میں جائیں گے۔ جس دلیل سے آپ انہیں دوزخ سے الگ رکھیں گے۔ا سی دلیل سے وہ اموات سے باہر ہیں۔ ’’
فتدبر یا مرزا
‘‘
کذبات مرزا ’’ایام الصلح‘‘ 137 (ایسا غلط معنی، کہ جو پیدا نہیں ہوئے انہیں بھی جنت پہنچا دیا)
۱۳۷… ’’پھر ایک جگہ قرآن شریف میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو داخل بہشت ذکر فرمایا ہے۔ جیسا کہ فرماتا ہے۔ ’’
ان الذین سبقت لہم منا الحسنیٰ اولئک عنہا مبعدون لا یسمعون جسیسہا وہم فی مااشتہت انفسہم خالدون
‘‘ یعنی جو لوگ ہمارے وعدے کے موافق بہشت کے لائق ٹھہر چکے ہیں۔ وہ دوزخ سے دور کئے گئے ہیں اور وہ بہشت کی دائمی لذات میں ہیں۔ تمام مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ آیت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حق میں ہے۔‘‘ (ایام الصلح ص۱۴۲، خزائن ج۱۴ ص۳۸۸)
ابوعبیدہ: مرزاقادیانی! آیت کے الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ تمام وہ لوگ جو مؤمن ہیں بہشت میں داخل کئے جائیں گے۔ اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تخصیص کہاں ہے؟
دوسرے آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ ’’
مبعدون، یسمعون
‘‘ اور ’’
خالدون
‘‘ استقبال کا فائدہ دیتے ہیں۔ آپ نے ماضی کے معنی کس اصول پر کئے ہیں۔ تیسرے آپ نے تمام مفسرین پر افتراء کیا ہے۔ میرا دعویٰ ہے کہ آپ کسی ایک مفسر کا بالخصوص مجدد مفسر کا قول اپنی تائید میں پیش نہیں کر سکتے۔ یہ آیت عام ہے۔ اس کا حکم عام ہے۔ اس آیت کی رو سے تو کروڑہا وہ انسان بھی بہشتی ہیں۔ جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے۔ مگر خدا کے علم میں وہ بہشت کے لائق ٹھہر چکے ہیں۔ مگر آپ کے معنوں کی رو سے وہ بہشت میں چلے بھی گئے ہیں۔ گویا پیدا ہونے سے پہلے بھی بعض آدمی بہشت میں ہوتے ہیں اور بعض دوزخ میں۔ اس کا بیہودہ ہونا اظہر من الشمس ہے۔ کیونکہ کسی کو پیدا ہونے سے پہلے بہشت یا دوزخ میں ڈالنا فضول ہے۔ پس آپ کے معنی بھی فضول ٹھہرے۔
کذبات مرزا ’’ایام الصلح‘‘ 138 (مردوں سے ملنے کے لیے مردہ ہونا لازم ہے)
۱۳۸… ’’مردوں کے پاس وہی رہتا ہے جو مردہ ہوتا ہے۔‘‘ (ایام الصلح ص۱۴۳، خزائن ج۱۴ ص۳۸۸)
کوئی جو مردوں کے عالم میں جاوے
وہ خود ہو مردہ تب وہ راہ پاوے
ابوعبیدہ: مرزاقادیانی! آپ کا سفید جھوٹ ہے۔ اس عبارت سے صرف ایک سطر اوپر آپ نے لکھا ہے۔ ’’بخاری کی معراج کی حدیثوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو (آنحضرتﷺ نے) معراج کی رات بزمرۂ اموات دیکھا اور دوسرے عالم میں پایا۔‘‘
کیا آنحضرتﷺ بھی اس وقت نعوذ باﷲ مردہ ہوگئے تھے۔ حالانکہ آپ نے خود تسلیم کیا ہے کہ:
’’قریباً تمام صحابہ آنحضرتﷺ کے معراج جسمانی کے قائل تھے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۲۸۹، خزائن ج۳ ص۲۴۷)
کچھ بھی ہو۔ رسول کریمﷺ اس وقت زندہ تھے۔ پھر جب زندہ تھے تو آپ کا اصول جھوٹ محض ہے۔
کذبات مرزا ’’ایام الصلح‘‘ 139 (آدھی آیت لکھ کر مرزا نے اپنے مطلب کا ترجمعہ نکالا، مگر پکڑا گیا)
۱۳۹… ’’اﷲتعالیٰ ہمیں صاف فرماتا ہے: ’’
فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لا تعلمون
‘‘ یعنی ہر ایک نئی بات جو تمہیں بتلائی جائے۔ تم اہل کتاب سے پوچھ لو وہ تمہیں اس کی نظیر بتلائیں گے۔‘‘ (ایام الصلح ص۱۴۴، خزائن ج۱۴ ص۳۸۹)
ابوعبیدہ: مرزاقادیانی! کچھ تو حجاب چاہئے۔ ساری آیت یوں ہے۔ ’’
وما ارسلنا قبلک الا رجالاً نوحی الیہم فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لا تعلمون(انبیاء:۷)‘‘ جس کے معنی یہ ہیں۔ اے محمدﷺ ہم تم سے پہلے بھی بنی آدم ہی کو رسول بنا کر بھیجتے رہے ہیں۔ (اے لوگو! اگر تمہیں اس بارہ میں شک ہو) تو اہل کتاب سے اس بات کی تصدیق کر سکتے ہو کہ آیا گذشتہ رسول بنی آدم تھے یا نہ۔ آپ خواہ مخواہ جھوٹ اور غلط معنوں سے مطلب براری کر رہے ہیں۔ تمام مسائل اہل کتاب سے پوچھئے کہ ممانعت حدیث صحیح میں موجود ہے۔ حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ توریت اور انجیل پڑھنے کی اجازت چاہی تھی تو دربار نبوت سے یہ جواب ملا تھا۔ ’’
لوکان موسیٰ حیاً ما وسعہ الا اتباعی
‘‘ (مشکوٰۃ ص۳۰، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ)
یعنی اگر موسیٰ علیہ السلام بھی اس وقت زندہ ہوتے تو وہ بھی میری ہی اطاعت کرتے۔
پس مرزاقادیانی! آپ خواہ مخواہ اس آیت کا مطلب غلط بیان کر رہے ہیں۔
کذبات مرزا ’’ایام الصلح‘‘ 140 ( عیسیؑ نے دوبارہ آنا تھا تو نزول کی بجائے رجوع ہونا چاہیے تھا)
۱۴۰… ’’لیکن اگر اس جگہ (حدیثوں میں) نزول کے لفظ سے یہ مقصود تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے دوبارہ آئیں گے تو بجائے نزول کے رجوع کہنا چاہئے تھا۔ کیونکہ جو شخص واپس آتا ہے اس کو زبا عرب میں راجع کہا جاتا ہے۔‘‘ (ایام الصلح ص۱۴۶، خزائن ج۱۴ ص۳۹۲)
ابوعبیدہ: یہاں مرزاقادیانی کا مطلب صاف ہے کہ رجوع کا لفظ کسی حدیث میں نہیں آیا۔ اگر آیا ہو تو پھر مرزاقادیانی ضرور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دوبارہ جسمانی نزول مان لیں گے اور اپنا جھوٹ بھی تسلیم کر لیں گے۔ لیجئے صاحب سنئے! (تفسیر ابن کثیر جز۲ ص۱۵۱) میں امام حسن بصریؒ سے ایک مرفوع حدیث روایت کی گئی ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: ’’
قال رسول اﷲﷺ للیہود ان عیسیٰ لم یمت وانہ راجع الیکم قبل یوم القیامۃ‘
‘ فرمایا رسول اﷲﷺ نے یہود سے کہ تحقیق ابھی تک عیسیٰ علیہ السلام فوت نہیں ہوئے اور وہ تمہاری طرف قیامت سے پہلے واپس آئیں گے۔
دیکھ لیا مرزاقادیانی! آپ نے اپنے جھوٹ کا ثبوت۔ ابن کثیر کو آپ کی جماعت مجدد صدی ششم مانتی ہے۔ (عسل مصفی حصہ اوّل ص۱۶۳،۱۶۴) اور امام حسن بصریؒ بیسیوں مجددین کے پیر تھے۔ لہٰذا ایسی حدیث کو آپ ضعیف بھی نہیں کہہ سکتے۔
کذبات مرزا ’’ایام الصلح‘‘ 141 (کیا خاتم الانبیاء سے پچھلے نبیوں کی وفات ثابت ہوتی ہے؟)
۱۴۱… ’’ہمارے نبیﷺ کا خاتم الانبیاء ہونا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت کو ہی چاہتا ہے۔‘‘ (ایام الصلح ص۱۴۶، خزائن ج۱۴ ص۳۹۲)
ابوعبیدہ: مرزاقادیانی! آپ نے اپنی کتاب (براہین احمدیہ حصہ۵ ص۸۶، خزائن ج۲۱ ص۱۱۳) پر لکھا ہے کہ: ’’میں اپنے ماں باپ کے لئے خاتم الولد ہوں۔‘‘
تو کیا اس سے آپ کا یہ مطلب تھا کہ جناب کی پیدائش سے آپ کے بہن بھائی سب مرگئے۔ یا یہ کہ آپ کے بعد کوئی اور لڑکا یا لڑکی آپ کے والدین کے ہاں پیدا نہ ہوا۔ یقینا پچھلے معنی مراد ہیں۔ جیسا کہ خود آپ نے اس کے بعد اس کے معنی یہی لکھے ہیں تو پھر اسی طرح خاتم الانبیاء کے تشریف لانے سے ’’پہلے نبیوں‘‘ میں سے اگر کوئی موجود ہو تو اس کا مرنا لازم نہیں آتا۔
ہمارا تو عقیدہ یہ ہے کہ سابقہ نبیوں میں سے ایک کیا اگر سب کے سب بھی زندہ ہوں تو بھی ختم نبوت میں فرق نہیں آتا۔ کیونکہ آپﷺ سب سے آخری نبی بنے۔ ہاں کسی اور آدمی کا رسول پاکﷺ کے بعد ماں کے پیٹ سے پیدا ہوکر نبی بننا یہ ختم نبوت کے منافی ہے۔ جیسا کہ آپ کے بعد آپ کی (مرزاقادیانی کی) والدہ کے پیٹ سے کسی اور بچہ کا پیدا ہونا آپ کے خاتم الاولاد ہونے کے منافی ہے۔ (تریاق القلوب) میں آپ نے یوں لکھا ہے: ’’میں ابھی لکھ چکا ہوں کہ میرے ساتھ ایک لڑکی پیدا ہوئی تھی۔ جس کا نام جنت تھا اور پہلے وہ لڑکی پیٹ میں سے نکلی تھی اور بعد اس کے میں نکلا تھا اور میرے بعد میرے والدین کے گھر اور کوئی لڑکا یا لڑکی نہیں ہوا اور میں ان کے لئے خاتم الاولاد تھا۔‘‘ (تریاق القلوب ص۱۵۷، خزائن ج۱۵ ص۴۷۹)
اب ظاہر ہے کہ مرزاقادیانی کے خاتم الاولاد ہونے سے ان کے سابقہ بہن بھائیوںکی موت لازم نہیں آتی۔ بلکہ ان کی ماں کے پیٹ سے اولاد پیدا ہونے کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ اسی طرح خاتم النبیین کے معنی یہ ہیں کہ رسول پاکﷺ کی بعثت کے ساتھ ہی نئے نبیوں کی پیدائش کا سلسلہ بند ہوگیا نہ کہ پہلے زندہ نبیوں کی موت کا باعث ہوگیا۔ آیت ’’میثاق النبیین‘‘ تو تمام نبیوں کی موجودگی میں حضرت رسول کریمﷺ کی بعثت کو بھی ختم نبوت کے منافی نہیں بتلاتی۔ بلکہ ان میں سے بعض کی زندگی کا ثبوت بہم پہنچاتی ہے۔ خود رسول پاکﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر ’’موسیٰ زندہ ہوتے تو یقینا میری اطاعت کرتے۔‘‘ یہ نہیں فرمایا کہ اگر وہ زندہ ہوتے تو میرے آنے سے مر جاتے۔ فتدبر یا مرزا!
۱۴۲… ’’میں اس وقت اس شان (مرزاقادیانی کا آدھا حصہ عیسوی شان کا ہے اور آدھا حصہ محمدی شان کا) کو کسی فخر کے لئے پیش نہیں کرتا۔ کیونکہ فخر کرنا میرا کام نہیں ہے۔‘‘ (ایام الصلح ص۱۶۰، خزائن ج۱۴ ص۴۰۸)
ابوعبیدہ: مرزاقادیانی آپ فخر کی تعریف تو کریں۔ پھر میں ثابت کرتا ہوں کہ فخر کیا۔ آپ تو فخار ہیں۔ کیا مندرجہ ذیل دعویٰ آپ نے نہیں کئے؟
۱… ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو۔ اس سے بہتر غلام احمد ہے۔ (دافع البلاء ص۲۰، خزائن ج۱۸ ص۲۴۰)
۲… ’’آج تم میں ایک ہے جو اس حسینؓ سے بڑھ کر ہے۔‘‘ (دافع البلاء ص۱۳، خزائن ج۱۸ ص۲۳۳)
۳… ’’وہ پیالہ جو ہر ایک نبی کو خدا نے دیا ہے۔ وہ سب کا سب مجھ اکیلے کو دے دیا۔ اگرچہ دنیا میں نبی بہت گزرے ہیں۔ مگر میں بھی معرفت میں کسی سے کم نہیں ہوں۔ جو کوئی مجھے انبیاء سابقین کے ساتھ برابری کے دعویٰ میں جھوٹا سمجھتے وہ لعنتی ہے۔‘‘ (نزول المسیح ص۹۹، خزائن ج۱۸ ص۴۷۷)
۴… ’’اس کے (رسول پاکﷺ) لئے چاند کے خسوف کا نشان ظاہر ہوا اور میرے لئے چاند اور سورج دونوں کا۔ ان کے معجزات میں سے معجزانہ کلام بھی تھا۔ اسی طرح مجھے وہ کلام دیا گیا۔ جو سب پر غالب ہے۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۷۱، خزائن ج۱۸ ص۱۸۳)
۵… ’’مجھ میں اور تمہارے حسین (مرزاقادیانی کے کچھ نہیں لگتے) میں بہت فرق ہے۔ کیونکہ مجھے تو ہر ایک وقت خدا کی تائید اور مدد مل رہی ہے۔ مگر حسین پس تم دشت کربلا کو یاد کر لو۔ اب تک روتے ہو۔ پس تم سوچ لو۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۶۹، خزائن ج۱۸ ص۱۸۱)
۶… ’’اور انہوں نے (لوگوں نے) کہا کہ اس شخص (مرزاقادیانی) نے امام حسنؓ وحسینؓ سے اپنے تئیں اچھا سمجھا۔ میں (مرزاقادیانی) کہتا ہوں کہ ہاں اور میرا خدا عنقریب ظاہر کر دے گا۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۵۲، خزائن ج۱۸ ص۱۶۴)
۷… ’’
اینک منم کہ حسب بشارات آمدم۔ عیسیٰ کجا است تابنہد پابمنبرم۔
‘‘ (ازالہ اوہام ص۱۵۸، خزائن ج۳ ص۱۸۰)
سمجھے مرزاقادیانی! فخر کے سر کیا سینگ ہوتے ہیں؟
امام حسنؓ وحسینؓ سے افضل ہونے کا دعویٰ۔
تمام انبیاء علیہم السلام سے برابری کی رٹ۔
رسول پاکﷺ کے ساتھ مساوات کا جن سوار ہے اور پھر کہتے ہیں۔ فخر کرنا میرا کام نہیں ہے۔ سبحان اﷲ! برعکس نہند نام زنگی کافور۔
کذبات مرزا ’’ایام الصلح‘‘ 143 (نبی کی وجاہت ہوتی ہے یا نہیں؟)
۱۴۳… ’’دنیا داروں اور دنیا کے کتوں کی نظر میں تو کوئی نبی بھی اپنے زمانہ میں وجیہہ نہیں ہوا۔‘‘ (ایام الصلح ص۱۶۴، خزائن ج۱۴ ص۴۱۲)
ابوعبیدہ: حضرت سلیمان علیہ السلام جو تمہارے نزدیک روئے زمین کے بادشاہ تھے۔
مرزاقادیانی! خود ہی تو حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق بھی لکھتے ہو: ’’بلکہ انجیل سے ثابت ہے کہ اکثر کفار کے دلوں میں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وجاہت تھی۔‘‘ (ایام الصلح ص۱۶۶، خزائن ج۱۴ ص۴۱۴)
کذبات مرزا ’’ایام الصلح‘‘ 144 (عیسیؑ کا اس امت میں امتی بن کر آنا ان کی ہتک عزت ہے، معاذاللہ)
۱۴۴… ’’آپ لوگوں کے عقیدہ کے موافق (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) اپنی حالت اور مرتبہ سے متنزل ہوکر آئیں گے۔ امتی بن کے امام مہدی کی بیعت کریں گے۔ مقتدی بن کر ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔ پس یہ کیا وجاہت ہوئی بلکہ یہ تو قضیہ معکوسہ اور نبی اولوالعزم (عیسیٰ علیہ السلام) کی ایک ہتک ہے۔‘‘ (ایام الصلح ص۱۶۵، خزائن ج۱۴ ص۴۱۲)
ابوعبیدہ: مرزاقادیانی! کیوں جھوٹ فرماتے ہو؟ آپ امتی ہوکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے افضل بن گئے۔ (دیکھو جھوٹ نمبر۱۴۲) تو اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کوئی ہتک نہ ہو۔ لیکن اگر رسول پاکﷺ کی غلامی انہیں نصیب ہو اور وہ بھی ان کی اپنی درخواست پر تو آپ اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہتک ظاہر کریں۔ پھر خود آپ (ریویو آف ریلیجنز ج۱۲ نمبر۵ ص۱۹۶) پر لکھتے ہیں: ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی اس آیت (آیت میثاق) کی رو سے ان مؤمنین میں داخل ہیں جو آنحضرتﷺ پر ایمان لائے۔‘‘
نیز پھر آیت میثاق تو تمام نبیوں کو حضرت رسول پاکﷺ کا امتی ہونا قرار دے رہی ہے۔ اس واسطے رسول پاکﷺ تو پہلے ہی سے نبی الانبیاء ہیں۔ خاص کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق تو رسول کریمﷺ کا ارشاد ہے۔ اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو وہ بھی میری ہی اطاعت کرتے تو کیا یہ ان کی ہتک ہوتی؟ مرزاقادیانی خدا آپ کے دھوکہ سے بچائے۔ پھر آپ (مرزاقادیانی) اپنے خیال میں نبی ہوکر اپنے امتی کے پیچھے پڑھتے رہے یا نہ۔
کیا پھر اس میں کبھی آپ نے اپنی ہتک سمجھی؟ افسوس! نیز کیا خود رسول پاکﷺ نے حضرات صحابہؓ کے پیچھے نماز نہ پڑھی تھی۔ پھر کیا اس سے رسول پاکﷺ کی ہتک ہوئی تھی۔ خدا آپ کے دھوکہ سے بچائے۔