• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

رد قادیانیت کورس

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
مرزا کے جانشین

مرز اغلام احمد قادیانی کی وفات ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء بروز منگل لاہور میں ہوئی اس کا پہلا خلیفہ حکیم نورالدین ہو اجو بھیرہ کا تھا یہ بڑا اجل طبیب تھا اور عالم تھا یہ کشمیر کے راجہ کے پاس رہتا تھا ، راجہ کشمیرنے اسے انگریز کی جاسوسی کے الزام میں نکال دیا تھا اس کا چونکہ مرز اقادیانی سے پہلے سے رابطہ اور تعلق تھا اس لئے دونوں اکٹھے ہوگئے پھر دونوں نے مل کر اس دھندے کو چلایا یہ اس کا دست راست تھا اور علم میں اس سے بہت اونچا تھا حکیم نورالدین کی خلافت ۱۹۱۴ء تک رہی۔
حکیم نور الدین کی خلافت کے بعد خلافت کے دوامیدوار تھے۔
(۱) مولوی محمد علی لاہوری (۲) مرزا محموداحمد
مولوی محمد علی لاہوری
،مرزا کا بڑا قریبی مرید تھا اور بہت پڑھا لکھا آدمی تھا قابلیت کے لحاظ سے واقعی وہ خلافت کا حقدار تھا مگر مقابلہ میں چونکہ خود مرزا کا بیٹا تھا ، اس لئے اس کو کامیابی نہ ہوئی اور چونکہ مرزا بشیر الدین کے حق میں اس کی والدہ کا ووٹ بھی تھا جس کو مرزائی ام المؤمنین کہتے ہیں اس لئے مرزا بشیر الدین خلیفہ بن گیا ۔ بوقت خلافت مرزا بشیر الدین کی عمر ۲۴ سال تھی اس کی شہزادوں کی سی زندگی تھی اور خوب عیاش تھا ۔ ۱۹۶۵ء تک یہ خلیفہ رہا اس نے اپنے والد کی سیرت پر کتاب بھی لکھی جس کا نا م ’’ سیرت مسیح موعود ‘‘ ہے اس کے علاوہ بھی اس نے متعدد کتب لکھیں ۔
مولوی محمد علی لاہوری ۱۹۱۴ء سے ۱۹۲۰ء تک قادیان میں رہا اگرچہ جماعت کا کام کرتا رہا مگر اس نے بیعت نہ کی اور نہ اس کی پارٹی نے بیعت کی ان کو غیر مبایعین کہا جاتا تھا اس نے ۱۹۲۰ء میں باقاعدہ علیحدہ دکان بنانا چاہی چنانچہ اس نے لاہور آکر ایک تنظیم بنائی جس کا نام ’’ انجمن اشاعت الاسلام احمدیہ‘‘ رکھااور خود اس جماعت کا پہلا امیر بنا ۔ چونکہ مرکز ان کے پاس نہ تھا اس لئے اس کا کام زیادہ نہ چلا لیکن بڑا سمجھدار تھا اپنی تنظیم کو خوب مضبوط کیا اور غیر ممالک میں پھیلایا اور غیر ممالک میں اس کی جماعت کو بڑی کامیابی ہوئی ۔یہ مرزا کو نبی نہیں مانتے بلکہ محض مصلح یا مجدد مانتے ہیں اور نبوت کو ختم مانتے ہیں ۔ ہم کہتے ہیں یہ محض ان کی منافقت ہے اگر ان کا اختلاف حقیقی ہے تو لاہوری جماعت والوں کا چاہیے کہ وہ قادیانیوں کوکافر کہیں کیونکہ وہ ایک غیر نبی کو نبی مانتے ہیں اور سلسلہ نبوت جاری مانتے ہیں اسی طرح قادیانیوں کو بھی چاہیے کہ وہ لاہوریوں کو کافر کہیں کیونکہ وہ ایک سچے نبی کی نبوت کے منکر ہیں ۔ محمد علی لاہوری کے مرنے کے بعد جماعت کا امیر صدرالدین بنا اور اب ڈاکٹر نصیر احمد ہے۔
ان دوپارٹیوں کے علاوہ مرزائیوں کی چند اور پارٹیاں بھی ہیں مگر یہ دونوں پارٹیاں زیادہ مشہور ہیں ۔ ان دو پارٹیوں کا مباحثہ چا رنکات پر راولپنڈی میں ہو ا تھا ،جو کہ درج ذیل ہے۔
۱)مرز اغلام احمد قادیانی کی پیش گوئی متعلقہ مصلح موعود کا مصداق کون ہے ؟
۲) مرزا قادیانی کی جانشین انجمن ہے یا خلیفہ ؟
۳) مرزا نبی ہے یا مجدد؟
۴) مرزا کا منکر کافر ہے یا نہیں ؟
یہ مباحثہ بصورت رسالہ ’’مباحثہ راولپنڈی ‘‘ کے نام سے شائع ہو ا، یہ ایک نہایت اہم رسالہ ہے اس میں دونوں پارٹیوں کے دلائل خود مرزا کی تحریرات سے موجود ہیں ۔
مرزا بشیر الدین کی وفات کے بعد اس کا بیٹا مرزا ناصر احمد خلیفہ بنا ، یہ برابر ۱۹۸۲ء تک خلیفہ رہا ۔بروز بدھ مورخہ ۸ اور ۹ جون ۱۹۸۲ء کی درمیانی شب ہارٹ اٹیک سے ہلاک ہوکر واصل جہنم ہوا ۔ اس کی موت کے بعد خلافت کے بارے میں جھگڑا ہوا بعض کی رائے تھی کہ مرزا بشیر الدین کے بیٹے مرزا رفیع احمد کو خلیفہ بنایا جائے جبکہ بعض مرزا طاہر احمد کے حق میں تھے ۔ بہرحال اسی کشمکش میں مرزا رفیع احمد کو اغوا کرلیاگیا اور یوں مرزا طاہر احمد جو مرزا ناصر احمد کا بھائی ہے خلیفہ بن گیا۔ اور ان دنوں ان کا خلیفہ مرزا مسرور احمد ہے۔
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
مرزائیوں اور مسلمانوں کے مابین متنازع فیہ مسائل


تعین موضوع

مرزائیوں اور مسلمانوں کے مابین متنازع فیہ مسائل تین ہیں۔
۱﴾
اجرائے نبوت و ختم نبوت
۲﴾ حیات ووفات عیسیٰ علیہ السلام
۳﴾ صدق وکذب مرز ا یعنی سیرت وکردار مرزا
مرزائی عموماً کوشش کرتے ہیں کہ پہلے دو موضوعات پر بحث کی جائے تیسرے موضوع پر بحث کرنا انہیں موت نظر آتی ہے ۔ حتیٰ کہ بعض اوقات اس موضوع سے گھبراتے ہوئے وہ مناظرہ ہی کو خیر باد کہہ دیتے ہیں وہ عموماً حیات عیسیٰ یا اجرائے نبوت کے متعلق مناظرہ کرتے ہیں۔ مگر ہمیں چاہیے کہ سب سے پہلے انہیں مجبور کریں کہ وہ سیرت مرزا پر مناظرہ کریں کیونکہ اصل بحث کسی مدعی ماموریت کی سیرت وکردار پر ہی ہونی چاہیے اگر اس کی سیرت وکردار بے داغ ہو تو پھر دوسرے مسائل کی طرف رجوع کرنا چاہیے ۔
ہر مدعی پہلے اپنی سیرت قوم کے سامنے پیش کرتا ہے جیسا کہ نبی اکرم خاتم النبیین ﷺ نے اہل مکہ کے سامنے صفا پہاڑی پر چڑھ کر اپنی چالیس سالہ زندگی پیش کی ۔ قرآن مجید میں ہے۔
’’ فقد لبثت فیکم عمرا من قبلہ افلا تعقلون ‘‘
اس لئے ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہم سب سے پہلے مرزا صاحب کی زندگی اور کردار کو ان کی اپنی تحریروں کے آئینہ میں دیکھیں اگر وہ اپنی تحریروں کی رو سے ایک پاکیزہ سیرت ، شریف ، دیانتدار اور سچا انسان ثابت ہوجائے توا سکے تمام مسائل دعاوی کوبلا حیل و حجت مان لیں گے او ردوسرے مسائل میں بحث کرنے اور وقت ضائع کرنے کی ضرورت ہی نہ ہوگی اور اگر وہ کسی ایک بات میں جھوٹا ثابت ہوجائے تو بقول خود مرزا کے اس کی کسی بات کا اعتبار نہیں رہے گا چنانچہ مرزا صاحب خود تحریر کرتے ہیں کہ :
’’ ظاہر ہے کہ جب ایک بات میں کوئی جھوٹا ثابت ہوجائے تو پھر دوسری باتوں میں بھی اس پر اعتبار نہیں رہتا ۔ ‘‘ (چشمہ معرفت ج۲ ص۲۲۳، روحانی خزائن ص ۲۳۱ ج۲۳)
لہذا پہلے ہم مرزا صاحب کی سیرت وکردار دیکھتے ہیں ۔
ہم بلا خوف تردید کہہ سکتے ہیں کہ کسی مرزائی کے اند ر یہ جرأت نہیں ہے کہ وہ مرز اکو اس کی اپنی تحریروں کی رو سے ایک سچا اور شریف انسان ثابت کرسکے ۔ ہم آگے چل کر مشت نمونہ از خروارے اس کے کذاب ہونے کے چند دلائل پیش کریں گے لیکن اس بحث سے قبل ہم اپنی تائید میں مرز اصاحب کے دونو ں خلفاء کی تحریریں پیش کرتے ہیں ۔
حوالہ نمبر ۱﴾ ’’ جب یہ ثابت ہو جائے کہ ایک شخص فی الواقع مامور من اﷲ ہے تو پھر اجمالاً اس کے تمام دعاوی پر ایمان لانا واجب ہوجاتا ہے ……الغرض اصل سوال یہ ہوتا ہے کہ مدعی ماموریت فی الواقع سچا ہے یا نہیں اگر اس کی صداقت ثابت ہوجائے تو اسکے تمام دعاوی کی صداقت بھی ساتھ ہی ثابت ہوجاتی ہے اگر اس کی سچائی ہی ثابت نہ ہو تو اس کے متعلق تفصیلات میں پڑنا وقت کو ضائع کرنا ہوتا ہے ۔‘‘
(دعوۃ الامیر مصنفہ بشیرالدین محمود ص ۴۹،۵۰)
حوالہ نمبر۲﴾ ’’ خاکسار (بشیر احمد ایم ۔اے) عرض کرتا ہے کہ حضرت خلیفہ اول (حکیم نورالدین) فرماتے ہیں کہ ایک شخص میرے پا س آیا اور کہنے لگا کہ مولوی صاحب کیا نبی کریم ﷺ کے بعد بھی کوئی نبی ہو سکتا ہے ؟ میں نے کہا نہیں ۔ اس نے کہا کہ اگر کوئی نبوت کا دعویٰ کرے تو پھر ؟ میں نے کہا پھر ہم دیکھیں گے کہ کیا وہ صادق اور راست باز ہے یا نہیں ۔ اگر صادق ہے تو بہر حال اس کی بات کو قبول کریں گے ۔‘‘
(سیرۃ المہدی حصہ اول ص ۹۸ حدیث نمبر ۱۰۹)
ان دو حوالہ جات سے بخوبی معلوم ہوگیا کہ اصل بحث صدق و کذب پر ہونی چاہیے اگر وہ ہوہی جھوٹا تو پھر اس کے دعاوی وغیرہ پر بحث کرنے کی ضرورت ہی نہیں ۔
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
اب ہم اس بات پر دلیل دیں گے کہ وفات وحیات مسیح پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں ۔
حوالہ نمبر ۱﴾ ’’ اول تو یہ جاننا چاہیے کہ مسیح کے نزول کا عقیدہ کوئی ایسا عقیدہ نہیں ہے جو ہمارے ایمانیات کی کوئی جزو یا ہمارے دین کے رکنوں میں سے کوئی رکن ہو بلکہ صدہا پیش گوئیوں میں سے یہ ایک پیش گوئی ہے جس کو حقیقت اسلام سے کچھ بھی تعلق نہیں جس زمانہ تک یہ پیش گوئی بیان نہیں کی گئی تھی اس زمانہ تک اسلام کچھ ناقص نہیں تھا اور جب بیان کی گئی تو اس سے اسلام کچھ کامل نہیں ہوگیا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۱۴۰، روحانی خزائن ص ۳ ص ۱۷۱)
اس حوالہ سے چند امور واضح ہوئے :
۱) عقیدہ نزول مسیح ؑ ہمارے ایمانیات کی جز نہیں ہے ۔
۲) یہ مسئلہ دین کے ارکان میں سے کوئی رکن نہ ہے ۔
۳) یہ ایک پیش گوئی ہے اس اس کاحقیقت اسلام سے کچھ بھی تعلق نہیں ۔
۴) اس کے بیان نہ کرنے سے اسلام ناقص نہیں ہوتا اور بیان کرنے سے کامل نہیں ہوتا۔
حوالہ ۲﴾ ’’ کل میں نے سنا تھا کہ ایک شخص نے کہا کہ اس فرقہ میں اور دوسرے لوگوں میں سوائے اس کے کچھ فرق نہیں کہ یہ لوگ وفات مسیح کے قائل ہیں اور وہ لوگ وفات مسیح کے قائل نہیں باقی سب عملی حالت مثلاً نماز، روزہ،اور زکوٰۃ اور حج وہی ہے سوسمجھنا چاہیے کہ یہ بات صحیح نہیں کہ میرا دنیا میں آنا صرف حیات مسیح کی غلطی کو دور کرنے کے واسطے ہے اگر مسلمانوں کے درمیان صرف یہی غلطی ہوتی تو اتنے کے واسطے ضرورت نہ تھی کہ ایک شخص خاص مبعوث کیا جاتا اور الگ جماعت بنائی جاتی اور ایک بڑا شور بپا کیا جاتا یہ غلطی دراصل آج نہیں پڑی بلکہ میں جانتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ کے تھوڑے ہی عرصہ بعد یہ غلطی پھیل گئی تھی اور کئی خواص او راولیاء اور اہل اﷲ کا یہی خیال تھا اگر یہ کوئی ایسااہم امر ہوتا تو خدا تعالی اسی زمانہ میں اس کا ازالہ کردیتا۔‘‘
(احمدی اور غیر احمد ی میں فرق ص۲ از مرزا غلام احمد قادیانی)
اس حوالہ سے چند امور واضح ہوئے ۔
۱) حیا ت عیسیٰ ؑ کا عقیدہ آنحضرت کے تھوڑے ہی عرصہ بعد پھیل گیاتھا ۔
۲) کئی خواص ، اولیاء ، اہل اﷲ کا یہی عقیدہ تھا ۔
۳) یہ کوئی ایسا اہم امر نہیں ہے جس کاازالہ خدا تعالیٰ نے ضروری سمجھا ہو ۔
حوالہ نمبر ۳﴾ ’’ اور مسیح موعود کے ظہور سے پہلے اگر امت میں سے کسی نے خیال بھی کیا کہ حضرت عیسیٰ ؑ دوبارہ دنیا میں آئیں گے توان پر کوئی گناہ نہیں صرف اجتہادی خطا ہے جو اسرائیلی نبیوں سے بھی بعض پیش گوئیوں کے سمجھنے میں ہوتی رہی ہے ۔‘‘
(حاشیہ حقیقت الوحی ص ۳۰، روحانی خزائن ج۲۲ ص ۳۲)
اس حوالہ سے جو امور واضح ہوئے وہ یہ ہیں ۔
۱) نزول عیسیٰ ؑ کے معتقد پر کوئی گناہ نہیں ہے ۔
۲) یہ محض اجتہادی خطا ہے اور اس قسم کی خطا اسرائیلی نبیوں سے بھی ہوتی رہی ۔
حوالہ نمبر ۴﴾ ’’ ہماری یہ غرض ہر گز نہیں کہ مسیح علیہ السلام کی وفات و حیات پر جھگڑے اور مباحثے کرتے پھرو یہ ایک ادنیٰ سی بات ہے ۔‘‘
(ملفوظات احمدیہ ج۲ص۷۲ جدید)
اس حوالہ سے یہ واضح ہوا کہ :
۱) مرزائیوں کی غرض یہ نہیں ہونی چاہیے کہ وفات و حیات مسیح پر مباحثے و جھگڑے کریں ۔
۲) یہ ایک ادنیٰ سی بات ہے
سو ہم کہتے ہیں کہ جب یہ مسئلہ ہمارے ایمانیات کی جز نہیں ہے ،جب یہ دین کے رکنوں میں سے رکن نہیں ، جب اسلام کی حقیقت سے اس کا کچھ تعلق نہیں ، جب اس کے بیان کرنے یا نہ کرنے سے اسلام میں کچھ فرق نہیں پڑتا ، جب یہ مسئلہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ کے بعد جلد ہی پھیل گیا تھا ، جب یہ عقیدہ خواص کا تھا ، اولیاء کا تھا، اہل اﷲ کاتھا ، اور جب یہ کوئی خاص امر نہیں ہے ، جب اس کا ازالہ خدا نے ضروری نہیں سمجھا ،جب اس کے عقیدہ رکھنے والے پر کوئی گناہ نہیں ، جب یہ محض اجتہادی غلطی ہے ، جب اس قسم کی خطائیں سابقہ انبیاء سے بھی ہوتی رہیں ، جب آپ کی غرض اس پر مباحثہ کرنے کی نہیں اور جب یہ ادنیٰ سی بات ہے تو اس مسئلہ پر بحث کرنے کی کوئی ضرورت و اہمیت باقی نہ رہی لہذا ہم سب سے پہلے مرزا کی سیرت و کردار پر بحث کریں گے جو انتہائی اہم اور ضروری ہے ۔
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
تعین موضوع نہایت اہم اور کٹھن معاملہ ہے مسلمان مناظر کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ سیرت مرزا کا موضوع طے کیاجائے اور مرزائی مناظر کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ حیات ووفات مسیح ، اجرائے نبوت جیسے موضوعات میں وقت ضائع کیا جائے ۔ اس لئے اس مرحلہ میں ہمارے مناظر کو انتہائی سمجھداری سے کام لینا چاہیے ۔ ہمارے مناظر کے اندر اتنی قوت ہونی چاہیے کہ وہ اپنا موضوع منوالے اگر کسی صورت میں بھی مرزائی مناظر یہ موضوع نہ مانے تو پھر بے شک مناظرہ نہ کرو ۔ تیسرا درجہ یہ ہے کہ اگران کاایک موضوع مانو ، تو اپنا بھی ایک موضوع منوا لو اگر ان کے دو موضوع مانو ، تو پھر اپنے بھی دو موضوع منوالویعنی سیرت مرزا غلام احمد قادیانی و سیرت بشیر الدین محمود

مرزائی حربہ

مرزائی مناظر موضوع طے ہونے سے قبل ہی ہمارے مناظر کے سامنے چالاکی سے کوئی نہ کوئی آیت یا حدیث وفات مسیح پربطور دلیل پیش کر دیتے ہیں حالانکہ ابھی موضوع بحث طے نہیں ہوچکا ہوتا او رہمارا مناظر ان کی دلیل کو معمولی سمجھتے ہوئے اس کے پرخچے اڑانا شروع کردیتا ہے اور یوں خود بخود مرزائیوں کا من بھاتا موضوع وفات مسیح شروع ہوجا تا ہے اس لیے ہمارے مناظرکو چاہیے کہ جب تک موضوع طے نہ ہو ،جواب نہ دے بلکہ یہی چالاکی اور یہی حربہ ان سے کرنا چاہیے کہ بات چیت کے دوران ہی مرزا کا کوئی جھوٹ کوئی بدمعاشی وغیرہ انتہائی رعب سے بیان کرنا چاہیے اور اس طرح دباؤ ڈالنا چاہیے کہ تمہارا نبی ایسا تھا اگرایسا نہ ہو تو گویا میں ہار گیا وغیرہ تو اس طرح کرنے سے مرزائی مناظر جب اس کا جواب دے گا تو خود بخود سیرت مرزا کا موضوع شروع ہوجائے گا اور میدان ان شا ء اﷲ آپ کے ہاتھ میں ہوگا۔

ایک اہم نکتہ

اگر کوئی شخص حضرت عیسیٰ ؑ کو فوت شدہ مانے مگر مرزا کو نبی نہ مانے تو مرزائیوں کے نزدیک وہ پھر بھی کافر ہے معلوم ہوا اصل مدار مرزا کی ذات ہے اس لیے سب سے پہلے مرزا کی سیرت پر بحث ہونی چاہیے اسی طرح اگر کوئی شخص عیسیٰ ؑ کی وفات مانے اور نبوت کو بھی جاری مانے مگر مرزا کو نبی نہ مانے تب بھی وہ مرزائیوں کے نزدیک مسلمان نہیں معلوم ہوا کہ اصل مدار مرزاکی ذات ہے اسی لئے سب سے پہلے مرزا کی ذات و سیرت پر بحث ہوگی جیسا کہ بہائی فرقہ عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا بھی قائل ہے اور نبوت بھی جاری مانتا ہے مگر مرزائیوں کے نزدیک وہ پھر بھی کافرہے کیونکہ وہ مرزا کو نبی نہیں مانتا ۔ اس لیے معلوم ہوا کہ اصل محل نزاع مرزا کی ذات ہے اور اسی پر ہم بحث کرنا چاہتے ہیں ۔
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صدق وکذب مرزا

مذکورہ بالاموضوع میں ہم مدعی ہوں گے مرزائی صاحبان اول تو اس موضوع کو تسلیم ہی نہیں کرتے اگر بامر مجبوری انہیں تسلیم کرنا پڑے تو وہ مدعی بن جاتے ہیں حالانکہ یہ اصول غلط ہے ، جو فریق جو موضوع پیش کرے اصولاً اس کو اس کا مدعی ہو نا چاہیے مرزا صاحب کی سیرت و کردار کا موضوع چونکہ ہماری طرف سے پیش ہوا ہے لہذا مدعی ہمیں ہونا چاہیے اور حیات ووفات کا موضوع عموماً مرزائیوں کی طرف سے پیش ہوتا ہے اور وہ اس پر مصر ہوتے ہیں لہذا وفات مسیح کے مسئلہ میں مدعی انہیں ہونا چاہیے ۔
کذبات مرزا
کذبات مرزا بیان کرنے سے قبل ان آیات کو بار بار دہرانا چاہیے ۔
’’ لعنۃ اﷲ علی الکاذبین ، ومن اظلم ممن افتری علی اﷲ کذبا اوقال اوحی الی ولم یوح الیہ شیء ‘‘ وغیرہ ،
نیز جھوٹ کے متعلق مرزا صاحب کے اپنے فتوے بھی بار بار بیان کرنے چاہیے ۔
جھوٹ کے متعلق مرزا صاحب کے اپنے فتوے
۱) ’’ جھوٹ بولنا مرتد ہونے سے کم نہیں ‘‘
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ حاشیہ ص۲۰، روحانی خزائن ص ۵۶ ج ۱۷)
۲) ’’ جھوٹ بولنے سے بد تر دنیا میں اور کوئی براکام نہیں ‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص ۲۶، روحانی خزائن ص۴۵۹ ج ۲۲)
۳) ’’ تکلّف سے جھوٹ بولنا گوہ(پاخانہ) کھانے کے مترادف ہے ‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۵۹ ، روحانی خزائن ص۳۴۳ج۱۱ ، حقیقت الوحی ص۲۰۶ج ۲۲ص ۲۱۵)
۴) ’’ جھوٹ کے مردار کو کسی طرح نہ چھوڑنا یہ کتو ں کا طریق ہے نہ انسانوں کا ۔‘‘
(انجام آتھم مطبع قادیان ص ۴۰، روحانی خزائن ص ۴۳ج ۱۱)
۵) ’ ’ ایسا آدمی جو ہر روز خدا پر جھوٹ بولتا ہے اور آپ ہی ایک بات تراشتا اور پھر کہتا ہے کہ یہ خدا کی طرف سے وحی ہے جو مجھ پر ہوئی ہے ایسا بد ذات انسان تو کتوں اور سوؤروں اور بندروں سے بد تر ہے ۔‘‘
(براہین احمدیہ ج۵ ص ۱۲۶،۱۲۷۔ روحانی خزائن ج۲۱ ص۲۹۲)
۶) ’’ وہ کنجر جو ولد الزنا کہلاتے ہیں وہ بھی جھوٹ بولتے ہوئے شرماتے ہیں ۔ ‘‘
(شحنہ حق ص۶۰، روحانی خزائن ج۲ ص ۳۸۶)
۷) ’’ جب ایک بات میں کوئی جھوٹا ثابت ہوجا ئے تو پھر دوسری باتوں میں بھی اس پر اعتبار نہیں رہتا ۔‘‘
(چشمہ معرفت ص۲۲۲،روحانی خزائن ص۲۳۱ ج۲۳)
اب ہم مرزا کے چند ایک جھوٹ پیش کرتے ہیں اس کے کذبات کا کما حقہ احاطہ کرنا کارے دارد ہے ۔ ہم نمونے کے طور پر چند اکاذیب مرزا بیان کریں گے۔
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
﴾جھوٹ نمبر ۱
’’ اولیاو گزشتہ کے کشوف نے اس بات پر قطعی مہر لگادی ہے کہ وہ (مسیح موعود۔ناقل) چودہویں صدی کے سر پر پیدا ہوگا اور نیزیہ کہ پنجاب میں ہوگا۔‘‘
(اربعین نمبر ۲ص۲۳ طبع چناب نگر(ربوہ) ، روحانی خزائن ج۱۷ ص۳۷۱)
﴿مطبع قادیان میں انبیاء کا لفظ ہے بعد کے ایک ایڈیشن میں یہ وضاحت کی گئی کہ یہ لفظ غلطی سے لکھا گیا اور اب نئے ایڈیشن میں یہ وضاحت بھی حذف کردی گئی ہے ﴾
اولیا ء جمع کثرت ہے او رجمع کثرت دس سے اوپر ہوتی ہے اس لئے کم از کم دس معتمد اولیاء کے نام پیش کرو جنہوں نے بذریعہ کشف مہرلگائی ہو اور ولی ایسا ہو جس کو دونوں فریق صحیح ولی مانیں ۔ ہم کہتے ہیں کہ مرزا کا یہ سفید جھوٹ ہے کسی مسلمہ ولی نے اس بات کی تصریح نہیں کی کہ مہدی چودہویں صدی میں ہوگا اور نیزیہ کہ پنجاب میں ہوگا ۔ یہ تمام اولیاء کرام پر جھوٹ ہے ۔
﴾جھوٹ نمبر ۲
’’ اے عزیزو تم نے وہ وقت پا یا ہے جس کی بشارت تمام نبیوں نے دی ہے اور اس شخص کو یعنی مسیح موعود کو تم نے دیکھ لیا جس کے دیکھنے کیلئے بہت سے پیغمبروں نے بھی خواہش کی تھی ۔‘‘
(اربعین نمبر ۴ ص ۱۳،روحانی خزائن ص۴۴۲ ج۱۷)
یہ بھی بالکل صاف جھوٹ ہے کسی ایک پیغمبر سے یہ خواہش کرنا ثابت نہیں ہے ۔
ھاتوا برھانکم ان کنتم صدقین ۔
﴾جھوٹ نمبر ۳
’’ یہ بھی یاد رہے کہ قرآن شریف میں بلکہ توراۃ کے بعض صحیفوں میں بھی یہ خبر موجود ہے کہ مسیح موعود کے وقت میں طاعون پڑے گی بلکہ مسیح علیہ السلام نے بھی انجیل میں یہ خبر دی ہے ۔‘‘
(کشتی نوح ص ۵، روحانی خزائن ص۵ ج۱۹)
اسی عبارت کے متعلق اسی صفحہ پر حاشیہ لکھا ’’ مسیح موعود کے وقت میں طاعون کا پڑنا بائبل کی ذیل کی کتابوں میں موجود ہے :زکریا باب ۱۴ آیت ۱۲بائبل ۸۹۱، انجیل متی باب ۲۴ آیت ۸، مکاشفات باب ۲۲ آیت ۸،عہد نامہ جدید ص۲۵۹۔‘‘
اس عبارت میں ایک جھوٹ نہیں بلکہ خدا تعالی کی چار آسمانی کتابوں پر چار عدد جھوٹ ہیں ۔ مذکورہ کتب کے مذکورہ صفحات پر ہر گز مسیح موعود کے وقت طاعون کے پڑنے کا ذکر نہیں ہے ۔

مرزا ئی عذر
جب مرزائیوں سے سوا ل کیا جا تا ہے کہ قرآن مجید میں مسیح موعود کے وقت طاعون پڑنے کا ذکر کہاں ہے تو مرزا ئی جواب دیتے ہیں کہ قرآن مجید کی اس آیت میں مسیح موعود کے وقت میں طاعون پڑنے کا ذکر ہے اور یہ آیت پڑھتے ہیں :
’’ واذا وقع القول علیہم اخرجنا لھم دابۃ من الارض تکلمہم ……الخ ‘‘ (پ۲۰ ، سورۃ النمل آیت ۸۲)
اور کہتے ہیں کہ مرزا صاحب نے اپنی کتاب نزول مسیح ص۳۸،۳۹،۴۰روحانی خزائن ص۴۱۶تا ۴۱۸ ج ۱۸ میں اس ’’ دابۃ الارض ‘‘ سے مراد طاعون لیا ہے اور مرزائی اس آیت کو طاعون پر اس طرح چسپاں کرتے ہیں کہ دابۃ الارض سے مراد چوہا ہے جو زمین سے نکلے گا اور تکلمھم کا مطلب ہے کہ ان کو کاٹے گا۔
﴾جواب اول
کسی مفسر ، کسی محدث،کسی مجدد نے یہاں دابۃ سے مراد طاعون اور طاعون کا چوہا نہیں لیا ، یہ مرزا کا اپنا افترا ء ہے ہم بلا خوف تردید قادیانی امت کو چیلنج کرتے ہیں کہ وہ تیرہ صدیوں کے کسی مجدد کا نام پیش کریں جس نے اس آیت میں دابۃ الارض سے مراد طاعون لیا ہو ۔
﴾جواب ثانی
اگر بالفرض تمہاری یہ من گھڑت تفسیر مان بھی لی جائے تو اس میں یہ کہاں لکھا ہے کہ یہ طاعون مسیح موعود کے وقت میں پڑے گا؟ تقریب تام نہیں ہے ۔
﴾جواب ثالث
خود مرزا غلام احمد قادیانی نے اس آیت کی متعدد تفسیریں بیان کی ہیں۔ اپنی کتاب(ازالہ اوہام ج۲ ص۲۰۹ ، روحانی خزائن ص۳۷۰ ج۳) پر لکھتا ہے :
’’ واذا وقع القول علیہم اخرجنا لھم دابۃ من الارض……الخ ‘‘ ﴿ پ۲ اَلنمل ۸۲﴾یعنی جب ایسے دن آئیں گے جب کفار پر عذاب نازل ہواور ان کا وقت مقرر قریب آجائے تو ایک گروہ دابۃ الارض کا زمین سے نکالیں گے وہ گروہ متکلمین کا ہوگا جو اسلام کی حمایت میں تمام ادیان باطلہ پر حملہ کرے گا یعنی وہ علما ء ظاہر ہوں گے جن کو علم کلام اور فلسفہ میں ید طولیٰ ہوگا۔‘‘
اس عبارت میں خود مرزا نے دابۃ الارض سے مراد متکلمین و علماء ظاہر لئے ہیں ۔ معلوم ہوا دابۃ الارض سے مراد طاعون و طاعون کا چوہا نہیں ہے ۔
اسی طرح اپنی کتاب’ حمامۃ البشریٰ ‘ میں دابۃ الارض سے مراد علماء سوء لیا ہے :
’’ ان المراد من دابۃ الارض علماء سوء الذین یشھدون باقوالھم ان الرسول حق والقرآن حق ثم یعملون الخبائث ویخدمون الدجال کان وجودھم من الجزئین جزء مع الاسلام وجزء مع الکفر اقوالھم کاقوال المومنین وافعالھم کافعال الکافرین فاخبر رسول اﷲ ﷺ عن ان ھم یکثرون فی آخر الزمان وسموا دابۃ الارض لانہم اخلدو الی الارص وما ارادوان یرفعوا الی السماء ……الخ ‘‘
(حمامۃ البشریٰ ص۸۶، روحانی خزائن ص۳۰۸ج۷ )
یہاں مرز اصاحب نے دابۃ الارض سے مراد علماء سوء یعنی منافقین کو لیا ہے پھر اس سے مراد طاعون کا چوہا کیسے ہوگیا ، کہاں علماء سوء کہاں علماء متکلمین اور کہاں طاعون کا چوہا، اوریہ تین اقوال آپس میں متضاد ہیں ۔ ایک ہی آیت کی تین تفسیریں مرز اصاحب کے کذاب اور منافق ہونے کی واضح دلیل ہیں اور مرزا خود تسلیم کرتاہے کہ
جاہل ، پاگل ، مجنون منافق کے کلام میں تضاد ہوتا ہے ۔( ست بچن ص۳۱، روحانی خزائن ص ۱۴۳ج۱۰) معلوم ہوا کہ خود مرزا صاحب جاہل ، پاگل ، مجنون اور منافق ہیں۔
مذکورۃ الصدر حمامۃ البشریٰ کی عبارت میں ایک او رجھوٹ بھی ہے کہ یہ ’’فاخبر رسول اﷲ ﷺ ‘‘ سے شروع ہوتا ہے ہم پوچھتے ہیں کہ حضو ر ﷺ نے یہ کس حدیث میں خبر دی ہے وہ حدیث پیش کریں ۔ یہ حضور ﷺ پر صریح افتراء اور بہتان ہے۔
اور آپ ﷺ نے فرمایا :’’ من کذب علی متعمدا فلیتبوا مقعد ہ من النار ‘‘
’’ یعنی جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولا پس وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے ‘‘ لہذا یہ جھوٹ بول کر بھی مرزا جہنمی ہوا۔
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
﴾جھوٹ نمبر ۴
’’ ہمارے نبی اکرم ﷺ نے اور نبیوں کیطرح ظاہری علم کسی استاد سے نہیں پڑھا مگر عیسی علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام مکتبوں میں بیٹھے تھے اور حضرت عیسیٰ نے ایک یہودی استاد سے تمام توراۃ پڑھی تھی ……۔ سو آنے والے کا نام جو مہدی رکھا گیا سو اس میں یہ اشارہ ہے کہ وہ آنے والا علم دین خدا سے ہی حاصل کرے گا اور قرآن و حدیث میں کسی استاد کا شاگرد نہیں ہو گا سو میں یہ حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرا حال یہی حال ہے کوئی ثابت نہیں کرسکتا کہ میں نے کسی انسان سے قرآن وحدیث یا تفسیر کا ایک سبق بھی پڑھا ہویا کسی مفسر یا محدث کی شاگردی اختیا ر کی ہو۔‘‘
(ایام صلح ص۱۴۷، روحانی خزائن ص۳۹۴ ج ۱۴)
یہ صریح جھوٹ ہے ۔ حضرت موسیٰ و عیسیٰ علیہماالسلام نے کون سے مکتبوں میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کی ؟ یہ ان انبیا ء پر صریح الزام ہے ، قرآن و احادیث صحیحہ سے ثابت کرو کہ حضرت عیسیٰ نے کون سے یہودی عالم سے توراۃ پڑھی تھی ۔ حالانکہ قرآن پاک میں ہے ’’ ویعلمہم الکتاب والحکمۃ والتوراۃ والانجیل ‘‘ یعنی میں خود ان کو تعلیم دوں گا اسی طرح قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ فرمائیں گے۔
’’ واذاعلمتک الکتاب والحکمۃ والتوراۃ والانجیل ‘‘ اور جب میں
نے کتاب اور حکمت توراۃ وانجیل سکھائی۔ (پ۷ سورۃ المائدۃ آیت ۱۱۰ رکوع ۱۰)
اس میں بھی تعلیم کی نسبت خدا تعالیٰ نے اپنی طرف کی ہے آگے جو اپنے بارے میں لکھا ہے کہ میرا یہی حال ہے ……الخ ۔یہ بھی صاف جھوٹ ہے ہم ثابت کرتے ہیں کہ مرزا کے متعدد اساتذہ تھے۔کتاب البریۃ ص۱۶۱ تا ۱۶۳،روحانی خزائن ص۱۸۰ ۔ ۱۸۱ ج۱۳ کے حاشیہ پر اس کے اپنے ہاتھوں سے اس کی تعلیم کا حال موجود ہے جیسا کہ شروع میں گذر چکا ہے۔
مرزائی عذر
مرزائی ان ہر دوحوالوں میں تاویل کرکے تطبیق کرتے ہیں کہ یہ سفید جھوٹ نہیں ہے جو پڑھا ہے اس سے مراد قرآن کے ظاہری الفاظ ہیں اور جہاں لکھا کہ نہیں پڑھا اس سے مراد معارف ومعانی ہیں۔
﴾جواب
یہ تاویل درج ذیل متعدد وجوہ سے غلط ہے۔
وجہ اول
مرزا غلام احمد نے اپنے حال کو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے حال سے تشبیہ دی ہے کیا حضور ﷺ نے بھی ظاہری الفاظ کسی استاد سے پڑھے تھے؟ یہ اس کا تشبیہ دینا بتارہا ہے کہ وہ خود یہاں ظاہری الفاظ ومعانی وغیرہ کا فرق مراد نہیں لے رہا ۔
وجہ ثانی
اس سے معارف و معانی مراد لینا غلط ہے کیونکہ اس نے خود تین چیزیں بیان کیں : ۱) قرآن ۲) حدیث ۳) تفیسر معارف ومعانی تو تفسیر میں ہوتے ہیں یہ اس کا علیحدہ علیحدہ بیان کرنا یعنی ایک جگہ قرآن بولنا اور آگے تفسیر بولنا اس پر دال ہے کہ وہ ظاہری الفاظ و معارف دونوں کی نفی کر رہا ہے کہ دونوں میں میرا استاد کوئی نہیں ۔
وجہ ثالث
اس عبار ت میں یہ تاویل کرنا کہ اس سے مراد معارف و معانی ہیں ٹھیک نہیں ہے کیونکہ اس میں اس نے قسم اٹھائی ہے ’’ سو میں یہ حلفاً کہہ سکتا ہوں ……الخ‘‘ او رقسم میں ظاہر معنی مراد ہوتا ہے وہاں تاویل استثناء وغیرہ نہیں چل سکتے مرزا صاحب نے خود قسم کے متعلق اصول بیان کیا ہے ،یہ بڑا اہم اصول ہے جو ہمیں نزول مسیح کی احادیث میں بھی کام دے گا ۔ جہاں نبی کریم ﷺ نے قسم اٹھا کر ایک مضمون بیان فرما یا ہے اسی طرح یہاں بھی یہ اصول کام دے گا۔
اور ایک جگہ مرزا کا ایک مرید مرزا کی صفت میں یہ شعر کہتاہے :
؂ خدا سے تو خدا تجھ سے ہے واﷲ
تیرا رتبہ نہیں آتا بیاں میں

مرزائی اس کی تاویل کرتے ہیں مگر چونکہ یہاں اس نے واﷲ کے لفظ سے قسم اٹھا دی اس لے تاویل نہیں چل سکے گی اس طرح یہ اصول بیشمار مواقع میں کام دے گا اصول یہ ہے ۔
’’ والقسم یدل علی ان الخبر محمول علی الظاھر لاتاویل فیہ ولا استثناء والا فای فائدۃ کانت فی ذکر القسم ‘‘
(حمامۃ البشریٰ ص۲۶ حاشیہ روحانی خزائن ص۱۹۲ج۷)
علاوہ ازیں خود مرزا صاحب نے تسلیم کیا ہے کہ تمام انبیا ء کا کوئی استاد اور اتالیق نہیں ہوتا ۔
’’اور تمام نفوس قدسیہ انبیاء کوبغیر کسی استاد اور اتالیق کے آپ ہی تعلیم اور تادیب فرما کر اپنے فیوض قدیمہ کا نشان ظاہر فرمایا۔‘‘
( دیباچہ براہین احمدیہ ص ۷ روحانی خزائن ج۱ ص۱۶)
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
﴾جھوٹ نمبر ۵
’’ احادیث صحیحہ میں آیاتھا کہ مسیح موعود صدی کے سر پر آئے گا اور چودہویں صدی کا مجدد ہوگا۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص ۱۸۸،روحانی خزائن ج۲۱ ص ۳۵۹)
جبکہ (کتاب البریہ ص ۱۸۷۔۱۸۸ بر حاشیہ روحانی خزائن ج۱۳ ص۲۰۵۔۲۰۶ )کی عبارت یہ ہے۔
’’ بہت سے اہل کشف نے خدا تعالیٰ سے الہام پا کر خبر دی تھی کہ وہ مسیح موعود چودہویں صدی کے سر پر ظہور کرے گا اور یہ پیش گوئی اگرچہ قرآن شریف میں صرف اجمالی طورپر پائی جاتی ہے مگر احادیث کی رو سے اس قدر تواتر تک پہنچی ہے کہ جس کا کذب عندالعقل ممتنع ہے ۔‘‘
احادیث جمع کثر ت ہے اس لئے کم ازکم دس احادیث صحیحہ متواترہ دکھاؤ جن میں مسیح موعود کے چودھویں صدی کے سر پر آنے کے الفاظ وغیرہ موجود ہوں مگر ہمارا دعویٰ ہے کہ مرزائی امت تا قیامت کوئی ایک بھی صحیح حدیث نہیں دکھا سکتی ۔
﴾جھوٹ نمبر ۶
’’ اگر احادیث کے بیان پر اعتبار ہے تو پہلے ان حدیثوں پر عمل کرنا چاہیے جو صحت اور وثوق میں اس حدیث پر کئی درجہ بڑھی ہوئی ہیں مثلاً صحیح بخاری کی وہ حدیثیں جن میں آخری زمانہ میں بعض خلیفوں کی نسبت خبر دی گئی ہے خاص کر وہ خلیفہ جس کی نسبت بخاری میں لکھا ہے کہ آسمان سے اس کیلئے آواز آئے گی کہ:’’ ھذا خلیفۃ اﷲ المہدی ‘‘ اب سوچو کہ یہ حدیث کس پایہ اور مرتبہ کی ہے جو ایسی کتاب میں درج ہے جو اصح الکتب بعد کتاب اﷲ ہے ۔‘‘ (شہادۃ القرآ ن ص ۴۱،روحانی خزائن ص۳۳۷ج۶)
جھوٹ بالکل جھوٹ ! بخاری شریف میں اس قسم کی کوئی حدیث نہیں ۔ ھاتوا برہانکم ان کنتم صادقین ۔
قادیانی عذر اور ان کے جواب
۱)
ا سکے متعلق قادیانی جواب دیتے ہیں کہ یہ حدیث کنزالعمال میں موجود ہے مگر ہمارا سوال یہ ہے کہ بخاری شریف سے دکھاؤ۔کیونکہ مرزا نے بخاری شریف کا حوالہ دیا ہے
۲) بعض دفعہ وہ ہمارے بعض علماء کے اس قسم کے حوالہ جات پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے بھی غلط حوالہ دیا ۔ جواب یہ ہے کہ کیاان کے غلط حوالہ دینے سے مرزا کی بات سچی بن جائیگی ؟ہر گز نہیں ۔
۳)ہمارے کسی عالم نے بطور استدلال اتنے زور سے غلط حوالہ نہیں دیا، عام حوالہ کا غلط ہوجانا اور بات ہے مگر اتنی تحدی اور زور شور سے حوالہ دینا اور پھر غلط دینا یہ دھوکہ اور فریب ہے ۔
۴) اگر وہ کہیں کہ نسیاناً لکھا گیا تو پھر اس کی معذرت ہونی چاہیے ۔ مرزا صاحب سے اس کی معذرت دکھاؤ اور کوئی سچا نبی نسیان پر قائم رہ نہیں سکتا۔ نسیان کا وقوع اور چیز ہے اس پر استقلال اور چیز ہے ۔
۵) اگر وہ چالاکی سے کہیں کہ مرزا صاحب کی غلطی نہیں بلکہ کاتب کی غلطی ہے تو جواب یہ کہ آگے آئے الفاظ ’’ اصح الکتب بعد کتاب اﷲ ‘‘ وغیرہ اس کی تردید کرتے ہیں ۔
﴾جھوٹ نمبر ۷
’’ تین شہروں کا نام اعزاز کے ساتھ قرآن شریف میں درج کیا گیا ہے ۔ مکہ ، مدینہ اور قادیان ۔‘‘ (ازالہ اوہام بر حاشیہ ص۳۴، روحانی خزائن ص ۱۴۰ ج۳)
لعنۃ اللہ علی الکاذبین۔ یاد رہے مرزا قادیانی کو بھی ہی مسلم ہے کہ کشف و رؤیا انبیاء وحی ہوتے ہیں۔ (ضمیمہ براہین احمدیہ ص۱۵، ج۵ و روحانی ص۱۶۹، ج۲۱ و آئینہ کمالات اسلام ص۹۲)
﴾جھوٹ نمبر ۸
’’ وقد سبونی بکل سب فمارددت علیہم جوابہم ‘‘
ترجمہ:مجھ کو گالی دی گئی میں نے جواب نہیں دیا
(مواہب الرحمن ص۱۸ طبع اول ص۲۰ طبع دوم۔ روحانی خزائن ص۲۳۶ ج۱۹)
یہ بالکل جھوٹ ہے کہ میں نے لوگوں کی گالیوں کا جواب نہیں دیا بلکہ خود مرزا صاحب نے تسلیم کیا ہے کہ میرے سخت الفاظ جوابی طور پر ہیں ابتدا سختی کی مخالفوں کی طرف سے ہے ۔
(کتاب البریۃ دیباچہ ص۱۰، روحانی خزائن ص ۱۱ ج۱۳)
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
مرزا صاحب کی گالیوں کے چند نمونے

مرزا کی تہذیب و شرافت
مرزا کی گالیوں کے مطالعہ سے پہلے گالیوں سے متعلق اس کے اپنے چند فتاویٰ لکھے جاتے ہیں جن میں اس نے گالی دینے کی سخت مذمت کی ہے۔
۱) ’’ اور کسی کو گالی مت دو گو وہ گالی دیتا ہو۔ ‘‘ (کشتی نوح ج۱۹ ص ۱۱)
۲) ’’ خدا وہ خدا ہے جس نے اپنے رسو ل کو یعنی اس عاجز کو ہدایت اور دین حق اور تہذیب اخلاق کے ساتھ بھیجا۔‘‘ (اربعین ۳ص۳۶ ،روحانی خزائن ج۱۷ص۴۲۶)
۳) ’’ گالیاں اور بد زبانی کرنا طریق شرافت نہیں ہے ۔‘‘
(اربعین ۴ص۵،روحانی خزائن ج۱۷ص۴۷۱)
۴) ’’ گالیاں سن کردعا دو ، پا کے دکھ آرام دو
کبر کی عادت جو دیکھو ،تم دیکھاؤ انکسار ‘‘
(براہین احمدیہ ج۵ص۱۱۴، روحانی خزائن ج۲۱ص۱۴۴)
اب مرز اصاحب کی گالیوں کے چند نمونے ملاحظہ فرمالیں ۔
۱) ’’ تلک کتب ینظر الیہا کل مسلم بعین المحبۃ والمودۃ ویتنفع من معارفہا ویقبلنی ویصدق دعوتی الا ذریۃ البغایا الذین ختم اﷲعلی قلوبہم فہم لا یقبلون ۔ ‘‘
(ترجمہ:میری ان کتابوں کو ہر مسلمان محبت کی نظر سے دیکھتا ہے اور ان کے علوم سے فائدہ اٹھاتا ہے اور مجھے قبول کرتا ہے اور میرے دعویٰ کی تصدیق کرتا ہے مگر کنجریوں کی اولاد ،جن کے دلوں پر اﷲ نے مہر لگادی ہے پس وہ قبول نہیں کرتے ۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص ۵۴۷، ۵۴۸،روحانی خزائن ج۵ص۵۴۷،۵۴۸)
۲) مولوی سعداﷲ لدھیانوی کے متعلق چند اشعارملاحظہ فرمائیں
ومن اللئام اری رجیلا فاسقا غولا لعینا نطفۃ السفھاء
ترجمہ: اور لئیموں میں سے ایک فاسق معمولی آدمی کو دیکھتاہوں کہ ایک شیطان ملعون ہے ، سفیہوں کا نطفہ ہے ۔
شکس خبیث مفسد و مزور
نحس یسمی السعد فی الجہلاء

ترجمہ : یہ بدگو اور خبیث اور مفسد اور جھوٹ کو ملمع کرکے دکھانے والا منحوس ہے جس کا نام جاہلوں نے سعداﷲ رکھا ہے ۔
آذیتنی خبثا فلست بصادق ان لم تمت بالخزی یا ابن بغاء
ترجمہ : تو نے اپنی خباثت سے مجھے د کھ دیا ہے پس میں سچا نہیں ہوں گا اگر ذلت کے ساتھ تیری موت نہ ہو اے نسل بدکاراں ۔
(تتمہ حقیقت الوحی ص ۱۴،۱۵، روحانی خزائن ص۴۴۵،۴۴۶ج۲۲)(انجام آتھم ص۲۸۱،۲۸۲ روحانی خزائن ص۲۸۱،۲۸۲ ج ۱۱)
نوٹ: بغایا ،بغیہ کی جمع ہے جس کا معنی ہے بدکار عورت جیسا کہ قرآن کریم میں ہے :’ ’ وماکانت امک بغیا ‘‘ او رباغی جس کا معنی سرکش ہے اس کی جمع بغاۃ ہے ۔
فائدہ: ذریۃ البغایا کا ترجمہ خود مرزا نے خراب عورتوں کی نسل ، بازاری عورتیں اورکنجریوں کا بیٹا کیا ہے ۔ ( نورالحق حصہ اول ص۱۲۲، روحانی خزائن ص ۱۶۳ ج ۸، انجام آتھمج۱۱ ۲۸۲روحانی خزائن ص۲۸۲ ج۱۱ ، خطبہ الہامیہ ص ۱۶ روحانی خزائن ص۴۹ ج۱۶)
مرزا قادیانی کے اپنے بیٹے نے اس کو نہیں مانا اور مرزا قادیانی کی حیات میں مرا۔ قادیانی بتائیں گے کہ کیا ان کی پہلی ام المومنین بھی "فاخشہ" تھی؟
’’ اے بدذات فرقہ مولویان تم کب تک حق چھپاؤ گے ، کب وہ وقت آئے گا کہ تم یہودیا نہ خصلت چھوڑ و گے اے ظالم مولویو تم پر افسوس کہ تم نے جس بے ایمانی کا پیالہ پیا وہی عوام کا لانعام کو بھی پلایا۔‘‘(انجام آتھم ص۱۹ برحاشیہ روحانی خزائن حاشیہ ص۲۱ ج۱۱)
۴) ’’ مگر کیا یہ لوگ قسم کھا لیں گے ہر گز نہیں کیونکہ یہ جھوٹے ہیں اور کتوں کی طرح جھوٹ کا مردار کھا رہے ہیں ۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص ۰ ۲۵ ، روحانی خزائن ص۳۰۹ج۱۱)
۵) ’’ بعض جاہل اور فقیری سجادہ نشین اور مولیت کے شتر مرغ‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص ۱۸۰، روحانی خزائن ص۳۰۲ج۱۱)
۶) ان العدا صاروا خنازیر الفلا
ونسائھم من دونھن الا کلب

ترجمہ : دشمن ہمارے بیابانوں کے خنزیر ہوگئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئی ہیں (نجم الہدیٰ ص ۵۳، روحانی خزائن ج ۱۴ ص۵۳)
یعنی میرے مخالف جنگلوں کے سؤر ہیں اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ کر ہیں ۔
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
تنبیہ

مرزائی اگر مرزا قادیانی کے جھوٹوں کے جواب میں یہ کہیں کہ العیاذباﷲ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی تین جھوٹ بولے تھے جیسا کہ بخاری شریف میں ہے تو مرزا صاحب کے جھوٹ بھی اسی طرح کے ہیں تو اس کے دو جواب ہیں۔
جو جھوٹ ہم نے مرزا قادیانی کے پیش کئے ہیں وہ واقعتاً جھوٹ ہیں جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا کلام تو توریہ اور تعریض کے طور پر ہے وہ حقیقت میں جھوٹ ہے۔
ہے نہیں سمجھنے والوں کی غلطی ہے ورنہ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو کلام کیا ہے وہ مبنی پر حقیقت ہے جیسا کہ شراح حدیث نے اسکی وضاحت کردی ۔
مرزا قادیانی نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی نسبت اس راویت کی رو سے جھوٹ کا الزام لگانے والوں کو خبیث شیطان پلید مادہ والاکہا ہے اس نے لکھا :
’’ حضرت ابراہیم کی نسبت یہ تحریر شائع کرے کہ مجھے جس قدر ان پر بد گمانی ہے اس کی وجہ ان کی دروغ گوئی ہے تو ایسے خبیث کی نسبت اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ اس کی فطرت ان پاک لوگوں کی فطرت سے مغائر پڑی ہوئی ہے اور شیطان کی فطرت کے موافق اس کا پلید مادہ اور خمیر ہے ۔‘‘
( مرزا کی کتاب آئینہ کمالات اسلام ص۵۹۸روحانی خزائن ج۵ص۵۹۸)
مزید تفصیل یہاں دیکھی جا سکتی ہے۔
مرزائی پاکٹ بک کے جھوٹے اعتراضوں کے جوابات
 
آخری تدوین :
Top