• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

رد قادیانیت کورس

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
حیات ووفات مسیح علیہ السلام


تنقیح موضوع

مرزائی عموماً عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق وفات و حیات کے عنوان پر بحث کرتے ہیں حالانکہ یہ عنوان بالکل غلط ہے قادیانیوں نے بڑی مکاری و عیاری سے کام لیتے ہوئے اس غلط عنوان کوموضوع بحث بنا رکھا ہے موضوع بحث در حقیقت رفع اور نزول عیسےٰ علیہ السلام کے عنوان سے ہونا چاہیے جس کے لئے درج ذیل دلائل پیش کئے جاتے ہیں ۔
توجیہ
یہ امر تسلیم شدہ ہے کہ قرآن حکیم اہل کتاب کے تمام اختلافات کے لئے بطور حکم آیا ہے جیسا کہ قرآن کریم کا خود دعویٰ ہے۔
’ وما انزلنا علیک الکتاب الا لتبین لھم الذی اختلفوفیہ وھدی ورحمۃ لقوم یومنون‘
ترجمہ: اور ہم نے کتاب کو آپ پر صرف اسی لئے نازل کیا ہے تاکہ آپ ان کیلئے وہ چیز بیان کریں جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں او ر اس قوم کیلئے جو ایمان لاتے ہیں ہدایت اور رحمت ہے ۔ (پارہ۱۴ سورۃ النحل ع۸آیت۶۴)۔

چنانچہ مرزا قادیانی نے بھی مندرجہ بالا آیت سے یہی استدلال کیا ہے ہم نے اس کو اس لئے تجھ پر اتارا ہے تاکہ امو رمتنازعہ فیہ کا اس سے فیصلہ کردیں ۔
(ازالہ اوہام ۶۵۵،روحانی خزائن ص۴۵۴ج۳)
اب ہم عیسائیوں کے عقائد کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق درج ذیل عقائد رکھتے ہیں۔
(۱) تثلیث (۲) الوہیت مسیح (۳) ابنیت
(۴) صلیب اور کفارہ (۵) رفع جسمانی اور نزول جسمانی ۔
اسی طرح یہود کے بھی عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق چند خیالات پائے جاتے ہیں رفع اور نزول کے علاوہ باقی تمام غلط عقائد کی قرآن مجید نے بڑے صریح الفاظ میں تردیدکی ہے ملاحظہ ہو:
رد تثلیث﴾
لقد کفر الذین قالوا ان اﷲ ثالث ثلاثۃ ……الخ (سورۃ مائدہ ع۱۰ آیت۷۳) ’’ البتہ تحقیق وہ لوگ کافر ہیں جو کہتے ہیں کہ اﷲ تین میں سے تیسرا ہے ‘‘
رد الوہیت﴾
’ لقد کفر الذین قالوا ان اﷲ ھو المسیح ابن مریم ‘‘ (پارہ ۶ سورہ المائدہ ع۱۰ آیت ۷۲) ’’البتہ تحقیق کہ وہ لوگ کافر ہیں جوکہتے ہیں کہ اﷲ ہی عیسیٰ بن مریم ہیں ‘‘
رد ابنیت﴾
’’ وقالت النصاریٰ المسیح ابن اﷲ ‘‘ (پارہ ۱۰ سورہ توبہ ع۵ آیت۳۰)
’’ اور نصاریٰ نے کہا کہ مسیح اﷲ کا بیٹاہے ۔‘‘
رد صلیب وکفارہ﴾
’’ وماقتلوہ وماصلبوہ ‘‘ (پارہ ۶ سورۃ النساء ع۲آیت ۱۵۷)
’’ اور نہیں قتل کیا انہوں نے اس کو اور نہ سولی دیا اس کو ‘‘
’’ ولا تزر وازرۃ وزرا خریٰ ‘‘ (پارہ ۲۲ سورہ ۱۵ ع۳ آیت ۱۸)
’’ نہیں اٹھائے گا کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ‘‘۔

اب رہا ان کا عقیدہ رفع و نزول، تو ہم پوچھتے ہیں کہ اس کا فیصلہ قرآن حکیم نے کہاں کیا ہے اگر یہ عقیدہ بھی دوسرے عقائد کی طرح غلط او رباطل تھا توقرآن مجید کو صریح الفاظ میں جیسے
’’ ما رفع ، لم یرفع، لا ینزل ‘‘ وغیرہ سے تردید کرنی چاہیے تھی حالانکہ ہم بلا خوف تردید یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ قرآن مجید میں کوئی ایسا اشارہ تک نہیں پایا جاتا اور نہ حدیث کے ذخیرہ میں کوئی ایک حدیث اس مضمون کی ملتی ہے بلکہ اس کے بر عکس قرآن اور حدیث نے بڑے زور دار الفاظ میں ان کے اس عقیدہ کی تائید کی ہے اگر قرآن مجید اس عقیدہ کی تائید نہ بھی کرتا بلکہ صرف سکوت اختیار کرتا تو بھی ان کا یہ عقیدہ درست اور صحیح ماننا پڑتا ۔مرزانے خود اس اصول کو تسلیم کیا ہے کہ نہایت ادب واحترام سے فرماتے ہیں کہ
’’ اب ہم دیکھتے ہیں کہ واقعی صلیب کے متعلق قرآن شریف کیا کہتا ہے اگر یہ خاموش ہے تو پتہ چلا کہ یہود ونصاریٰ اپنےخیالا ت میں حق پر ہیں ۔‘‘ (ریویو آف ریلجنز أپریل ۱۹۱۹ء ج۱۸ شمارہ نمبر ۶ ص۱۴۹،۱۵۰)
رفع ونزول کے متعلق عیسائیوں کا عقیدہ
حوالہ نمبر ۱
’’ یہ کہ وہ ان کے دیکھتے دیکھتے اوپر اٹھا لیا گیا اور بدلی نے اسے ان کی نظروں سے چھپا لیا اور ا سکے جاتے وقت جب وہ آسمان کی طرف غور سے دیکھ رہا تھا تو دیکھو دو مرد سفید پوشاک پہنے ان کے پاس آ کھڑے ہوئے او رکہنے لگے اے گلیلی مردو! تم کیوں کھڑے آسمان کی طرف دیکھتے ہو ۔ یسوع جو تمہارے پاس سے آسمان پر اٹھیا گیاہے اسی طرح پھر آئے گا جس طرح تم نے اسے آسمان کی طرف جاتے دیکھا ہے ۔‘‘ (رسولوں کے اعمال باب ۱ آیت ۹،۱۰،۱۱ ؍متی ص۲۸ آیت ۲۴تا ۳۰)
حوالہ نمبر ۲
’’ پس توبہ کرو اور رجوع لاؤ تاکہ تمہارے گناہ مٹائے جائیں اور اس طرح خدا وند کے حضور سے تازگی کے دن آئیں اور وہ اس مسیح کو جو تمہارے واسطے مقرر ہوا ہے یعنی یسوع کو بھیجے ضرور ہے کہ وہ آسمان میں اس وقت تک رہے جبتک کہ وہ سب چیزیں بحال نہ کی جائیں جنکا ذکر خدانے اپنے پاک نبیوں کی زبانی کیا ہے جو دنیا کے شروع سے ہوتے آئے ہیں چنانچہ موسیٰ نے کہا کہ خدا وند خدا تمہارے بھائیوں میں سے تمہارے لئے مجھ سا ایک نبی پیدا کرے گا جوکچھ وہ تم سے کہے اسکی سننا۔ اور یوں ہوگا کہ جوشخص اس نبی کی نہ سنے گا ، وہ امت میں سے نیست و نابود کردیا جائے گا۔ ‘‘(رسولوں کے اعمال باب ۳ آیت ۲۰ تا ۲۴)
حوالہ نمبر ۳
’’ غرض خداوند یسوع ان سے کلام کرنے کے بعد آسمان پر اٹھایا گیاا ور خدا کی دا ہنی طرف بیٹھ گیا۔‘‘ (مرقس باب۱۴ آیت ۱۹؍۲۰)
حوالہ نمبر ۴
’’ جب وہ انہیں برکت دے رہا تھا توایسا ہو ا کہ ان سے جدا ہوگیا اور آسمان پر اٹھایا گیا۔‘‘ (لوقا باب ۲۴ آیت ۵۱)
حوالہ نمبر ۵
’’ یسوع نے اس سے کہا مجھے نہ چھو میں اب تک باپ کے پاس اوپرنہیں گیا لیکن میرے بھائیوں کے پاس جاکر ان سے کہہ کہ میں اپنے باپ او رتمہارے باپ اور اپنے خدا اور تمہارے خدا کے پاس اوپر جاتا ہوں ۔‘‘ (یوحنا باب ۲۰ آیت۱۷)
حوالہ نمبر۶
’’ یسوع نے اس سے کہاکہ اگر تو خدا کا بیٹا مسیح ہے تو ہم سے کہہ دے۔ یسوع نے اس سے کہا تو نے خود کہہ دیابلکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ اس کے بعد تم ابن آدم کو قادر مطلق کی دا اہنی طرف بیٹھے اور آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھو گے ۔‘‘(متی باب ۲۶ آیت ۶۴)
حوالہ نمبر ۷
’’ او راس وقت ابن آدم کا نشان آسمان پر دکھائی دے گا اور اس وقت زمین کی سب قومیں چھاتی پیٹیں گی اور ابن آدم کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھیں گی۔‘‘ (متی باب ۲۴آیت۳۰)
مرزا کا اعتراف
(۱)
’’ جناب نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں عیسائیوں کا یہی عقیدہ تھا کہ در حقیقت مسیح ابن مریم ہی دوبارہ دنیا میں آئیں گے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۶۱۹ روحانی خزائن ص۳۱۸ ج۳)
(۲) ’’ وان عقیدۃ حیاتہ قد جاء ت فی المسلمین من الملۃ النصرانیۃ ‘‘
ترجمہ:اور یہ کہ اس کی (عیسیٰ علیہ السلام کی) حیات کا عقیدہ ملت نصرانیہ سے مسلمانوں میں آیا ہے ۔(الاستفتا ء ضمیمہ حقیقت الوحی ص۳۹ روحانی خزائن ص۶۶۰ ج۲۲)
مرزائی عذرنمبر ۱
قرآن مجید نے جب عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کااعلان کردیا تو اس سے عیسائیوں کے رفع او رنزو ل کا عقیدہ خود بخو دباطل ہوگیا قرآن مجید میں تیس سے زائد آیات موت عیسیٰ کے بارے میں موجود ہیں۔(ازالہ اوہام روحانی خزائن ج۳ ص۴۲۳،۴۳۸)
الجواب
تیس آیت نہیں اگر تیس پارے بھی عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ثابت کردیں تو اس سے عیسائیوں کے رفع اور نزول کے عقیدہ کی تردید نہیں ہوگی کیونکہ عیسائی موت کے توخود قائل ہیں لیکن موت کے تین دن بعد زندہ اٹھائے جانے اور قیامت کے قریب بہ جسد عنصری نازل ہونے کے بھی قائل ہیں اگر یہ عقیدہ غلط ہے تو ضرورت اس کی تردید کی ہے موت سے اس عقیدہ کی تردید نہیں ہوگی۔(عقیدہ موت کیلئے دیکھو لوقا باب ۲۳ آیت ۲۴)
مرزائی عذر نمبر ۲
’’اور یہ بیان بھی صحیح نہیں ہے کہ عیسائیوں کا متفق علیہ یہی عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح ؑ دنیا میں پھر آئیں گے کیونکہ بعض فرقے ان کے حضرت مسیح کے فوت ہوجانے کے قائل نہیں اور حواریوں کی دونوں انجیلوں نے یعنی متی اور یوحنا نے اس بیان کی ہر گز تصدیق نہیں کی کہ مسیح درحقیقت آسمان پر اٹھا یاگیا(ازالہ اوہام ص۴۲۰ روحانی خزائن ج۳ص ۳۱۹)
جواب نمبر ۱
غلط بالکل غلط یہ مرزا کی یا تو صریح کذب بیانی ہے یاان کی جہالت کیونکہ ان دونوں کتابوں میں اس عقیدہ کا ذکرموجود ہے اس کے حوالے ما قبل گذر چکے ہیں۔
جواب نمبر ۲
دروغ گو را حافظ نہ باشد کے مصداق۔ مرز اقادیانی اپنی اسی کتاب
(ازالہ اوہام ص۲۴۸ روحانی خزائن ص۲۲۵ ج۳) پر تحریر کرچکا ہے کہ:
’’ نصاریٰ کے تمام فرقے اور چاروں اناجیل اسی پر متفق ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر اٹھائے گئے ۔‘‘ اب مرزا خود تسلیم کر چکا ہے کہ تمام فرقے او رچاروں اناجیل اس عقیدہ پر متفق ہیں لہذا اعتراض ہی ختم ہوگیا اور ہمارا سوال علیٰ حالہ قائم رہا جس کامرزائیوں کے پا س کوئی جواب نہ ہے۔
مرزائی عذر نمبر ۳
ایلیا نبی کے متعلق یہودیوں کا عقیدہ موجودہ ہے کہ وہ زندہ آسمانوں پر اٹھایا گیا ہے او رپھر دوبار ہ نازل ہوگا جسطرح عیسائیوں کا عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق عقیدہ ہے تو کیا یہ عقیدہ صحیح ہے یا غلط ؟؟ اگر غلط ہے تو قرآن و حدیث سے اس کی تردید دکھائیں اور اگر تردید نہ پائی جاتی اور قرآن وحدیث خاموشی اختیا ر کریں تو تمہارے اصول کے مطابق ثابت ہوا کہ یہودیوں کا ایلیا کے بارے میں یہ عقیدہ ٹھیک ہے جیسا کہ تم ہمیں عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کہتے ہو۔
جواب نمبر ۱
یہ اصول صرف ہمارے نزدیک ہی مسلّم نہیں ہے بلکہ یہ اصول مرزا صاحب نے خود بھی اسے تسلیم کیا ہے جیسا کہ حوالہ گذر چکا ہے (ریویو آف ریلجنز )
لہذا مرزا صاحب کے اس تسیلم شدہ اصول کے مطابق اگر قرآن مجید نے ایلیا علیہ السلام کی آمد ثانی کی تردید نہیں کی تو ثابت ہوا کہ ان کا یہ عقیدہ درست ہے بقول شخصے:
؎ الجھا ہے پاؤں یا ر کا زلف دراز میں
؎لو آپ اپنے دام میں صیا د آ گیا

جواب نمبر ۲
یہودیوں کے اس عقیدہ کی تردید کا مطالبہ قرآن وحدیث سے کرنا صریح حماقت او رجہالت ہے اس لئے کہ ایلیا کا تذکرہ ایجابی اور سلبی رنگ میں قرآن وحدیث میں مذکور نہیں لہذا اس کا محض بائبل میں ذکر ہونا کافی نہیں بخلاف عیسیٰ علیہ السلام کے کہ ان کا ذکر قرآن وحدیث میں بڑی صراحت کے ساتھ موجود ہے ۔ ایلیا کا عیسیٰ علیہ السلام پر قیاس کرنا غلط ہے یہ قیاس ،قیاس مع الفارق ہے ۔
اعتراض
یہودی ایلیا کے بجسدہ آنے کے منتظر تھے حالانکہ ایلیا سے مراد ان کا مثیل یوحنا نبی تھا اسی طرح عیسیٰ سے مراد بھی ان کا مثیل مراد ہے نہ کہ بعینہ عیسیٰ بن مریم ۔
جواب
اس ساری کہانی کا دارومدار بھی بائبل پر ہے جو عقلاً او رنقلاً محرف ہے قرآن وحدیث سے اس کی کوئی نظیر ہوتو پیش کیجئے جیسا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی تصدیق قرآن وحدیث میں ہے ۔
خلاصہ کلام
کلام سابق سے یہ بات روز روشن سے زیادہ واضح ہوگئی کہ اصل بحث رفع و نزل کی ہے نہ کہ موت وحیات کی جس کو مرزائیوں نے اپنی چالاکی اور عیاری سے موضوع بحث بنا رکھا ہے ۔
٭وجہ اول
اس لئے کہ موت حیات رفع و نزول کو لازم ہے نہ کہ رفع و نزول موت وحیات کو ، لہذا اگر بحث کی جائے تو اس وقت تک تمام نہیں ہوگی جب تک حیاۃ کے بعد رفع کو ثابت نہ کیا جائے او رموت کے بعد عدم رفع ثابت نہ کیاجائے تو معلوم ہوا کہ اصل بحث رفع و نزول کی ہے ۔
٭وجہ دوم
اس لئے کہ رفع ونزول عیسائیوں کا عقیدہ ہے اگر یہ بھی مثل دوسرے عقائد کے غلط ہے تو قرآن و حدیث کو اس کی تردید کرنی چاہیے تھی حالانکہ قرآن وحدیث نے اس کی تردید نہیں کہ بلکہ ان کے اس عقیدہ کی تائیداو رتصدیق کی ہے جسے ہم بعون اﷲ قرآن وحدیث واجماع امت اور اقوال مراز سے ثابت کریں گے اگر قرآن وحدیث اس عقیدے کی تائید میں کچھ بھی نہ کہے تو بھی مرزا کے مسلمہ اصول کے مطابق یہ عقیدہ صحیح ثابت ہوجا تا ہے ۔
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
﴿اثبات رفع و نزول باقوال مرزا از روئے قرآن مجید﴾

حوالہ نمبر ا
’’ اب اس تحقیق سے ثابت ہے کہ مسیح ابن مریم کی آخری زمانے میں آنے کی قرآن شریف میں پیشین گوئی موجود ہے ۔‘‘
(ازالہ اوہام حصہ دوم ص۶۷۵ روحانی خزائن ص۴۶۴ ج۳ )
حوالہ نمبر ۲
’’ ھوالذی ارسل رسولہ بالھدیٰ ودین الحق ‘‘ (پارہ ۱۰ توبہ ع ۵ آیت ۳۲ ،پارہ ۲۶فتح ع۴ آیت ۲۸،پارہ ۲۸ صف ع۱ آیت ۹)
(ترجمہ:اﷲ تعالیٰ وہ ذات ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت او ردین حق دے کر بھیجا)
یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طورپرحضرت مسیح کے حق میں پیشین گوئی ہے اور جس غلبہ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیا گیا ہے وہ غلبہ مسیح کے ذریعہ سے ظہور میں آئے گا اورجب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق واقطار میں پھیل جائے گا……حضرت مسیح کی پیش گوئی متذکرہ بالا کا ظاہری اور جسمانی طور پر مصداق ہے اور یہ عاجز روحانی اور معقولی طور پر اس کا محل اور مورد ہے ۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم برحاشیہ طبع اول ص۴۹۸،۴۹۹ قدیم ، ص ۴۵۸ جدید ، روحانی خزائن ج۱ص ۵۹۳)
حوالہ نمبر۳
’ عسی ربکم ان یرحمکم وان عدتم عدنا‘ ‘ (پ ۱۵ ع۱ آیت ۸)
یہ آیت اس مقام میں حضرت مسیح علیہ السلام کے جلالی طور پر ظاہر ہونے کا اشارہ ہے یعنی اگر طریق رفق اور نرمی اور لطف اوراحسان کو قبول نہیں کریں گے اور حق محض جو دلائل واضحہ اور آیات بینہ سے کھل گیا ہے اس سے سرکش رہیں گے تو وہ زمانہ بھی آنے والا ہے جب خدا تعالیٰ مجرمین کے لئے شدت اور عنف اور قہر اور سختی کو استعمال میں لائے گا اور حضرت مسیح نہایت جلالیت کے ساتھ دنیا میں اتریں گے اور تمام راہوں اورسڑکوں کو خس وخاشاک سے صاف کردیں گے۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ ۴ ص۴۶۵ حاشیہ ص۴۵۹ روحانی خزائن ص۶۰۱،۶۰۲ ج۱)
مرزائی عذر
ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ مرزا نے براہین احمدیہ کے ان حوالوں میں عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی کے عقید ہ کو صراحتاً تسلیم کیا ہے لیکن یہ محض رسمی طورپر لکھ دیا گیا ہے جیسا کہ مرزا نے اعجاز احمدی ص۷ ج ۱۹ ،پر اعتراف کیا ہے (روحانی خزائن ص۱۱۳ ج۹ )
جواب نمبر ۱
یہ عقیدہ رسمی نہیں بن سکتا اس لئے کہ مرز ا نے اس کے ثابت کرنے میں آیات قرآنیہ پیش کی ہیں جن سے ثابت ہوتاہے کہ انہوں نے یہ عقیدہ رسمی طور پر نہیں لکھا بلکہ یہ قرآنی طور پر لکھا ہے ۔
جواب نمبر ۲
مرزا قادیانی نے جس کتاب میں یہ عقیدہ لکھا ہے وہ بغرض اصلاح و تجدید دین تالیف کی گئی ہے مؤلف اس وقت خدائے تعالیٰ کی طرف سے ملہم اور مامور تھا اور اس کتاب پر دس ہزار کا اشتہار بھی دیا گیا ہے ۔
(تبلیغ رسالت مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۱۸ روحانی خزائن ص۲۴ تا ۵۲ ج۱،ملحقہ براہین احمدیہ وملحقہ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن ص۶۵۷ج۵ وسرمہ چشم آریہ جدید ص۳۱۹ ج۲ )
مجدد کی تعریف
’’ جولوگ خدا کی طرف سے مجددیت کی قوت پاتے ہیں وہ نرے استخواں فروش نہیں ہوتے بلکہ وہ واقعی طور پر نائب رسول ﷺ اور روحانی طور پر آنجناب کے خلیفہ ہوتے ہیں خدا تعالیٰ انہیں ان تمام نعمتوں کا وارث بناتا ہے جونبیوں اور رسولوں کو دی جاتی ہیں اور ان کی باتیں از قبیل جوشیدن ہوتی ہیں نہ محض از قبیل کوشیدن اور وہ حال سے بولتے ہیں نہ مجرد قال سے اور خداتعالیٰ کے الہام کی تجلی ان کے دلوں پر ہوتی ہے اور وہ ہر ایک مشکل کیوقت روح القدس سے سکھلائے جاتے ہیں اور ان کی گفتار وکردار میں دنیا پرستی کی ملونی نہیں ہوتی کیونکہ وہ کلی مصفی کیے گئے اور باتمام وکمال کھینچے گئے ہیں ۔‘‘ (فتح اسلام حاشیہ روحانی خزائن ص۷ ج۳)
’’وہ مجدد خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے گا یعنی علوم لدنیہ اور آیات سماویہ کے ساتھ ‘‘(ازالہ اوہام ص۱۵۴ روحانی خزائن ج۳ص۱۷۹)
جواب نمبر ۳
یہ رسمی عقیدہ یا اجتہادی غلطی اس لئے بھی نہیں ہو سکتی کہ یہ کتاب بقول مرزا صاحب نبی اکرم ﷺ کے ہاتھوں میں پہنچ چکی ہے اور اس کانام ’’ قطبی ‘‘ بتایا گیا ہے یعنی قطب ستارہ کی طرح غیر متزلزل اور مستحکم ہے ۔ (براہین احمدیہ قدیم ایڈیشن ص۲۴۸ ، ۲۴۹ روحانی خزائن ج۱ص۲۷۵) تو اگر اس کے اس عقیدہ کو رسمی عقیدہ یا اجتہادی غلطی کہہ کر غلط قرار دیا گیا تو یہ قطبی نہیں رہے گی اور اس کے دلائل مستحکم اور غیر متزلزل نہیں ہوں گے خصوصاً جب کہ نبی اکرمﷺ کے مبارک ہاتھوں میں آچکی او رآپ کی مبارک نظر سے گذرچکی تو آپ نے ایسی فاش غلطی جو مرزا صاحب کے نزدیک شرک عظیم ہے اس کو آپ نے کس طرح نظر انداز کر دیا۔
دیکھو مرزا کے نزدیک عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ ماننا شرک عظیم ہے :’’ فمن سوء الا دب ان یقال ان عیسی مامات وان ھو الا شرک عظیم یاکل الحسنات ویخالف الحصات بل ھو توفی کمثل اخوانہ ومات کمثل اھل زمانہ وان عقیدۃ حیاتہ قد جاء ت فی المسلمین من الملۃ النصرانیہ۔ ‘‘(الاستفتاء ضمیمہ حقیقت الوحی ص۳۹ ، روحانی خزائن ص۶۶۰ ج ۲۲)
جواب نمبر ۴
یہ اجتہادی غلطی اس لیے بھی نہیں بن سکتی کہ مرزا صاحب خود تسلیم کرتے ہیں کہ ہم نے اس کتاب میں کوئی دعویٰ اور کوئی دلیل اپنے قیاس سے نہیں لکھی ۔
(براہین احمدیہ حصہ دوم ص۵۰،۵۱ ،روحانی خزائن ج۱ ص۸۸ حاشیہ والا۹۹)
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
﴿اثبات رفع ونزول از روئے احادیث باقوال مرزا﴾

حوالہ نمبر ۱
’’ مسیح ابن مریم کے آنے کی پیش گوئی ایک اول درجہ کی پیش گوئی ہے جس کو سب نے باتفاق قبول کیا ہے جس قدر صحاح میں پیش گوئیاں لکھی گئی ہیں کوئی پیش گوئی اس کے ہم پہلو اور ہم وزن ثابت نہیں ہوتی تواتر کا اول درجہ اس کو حاصل ہے ……الخ۔‘‘(ازالہ اوھام ۵۵۷ روحانی خزائن ج ۳ ص۴۰۰)
تواتر کی تعریف بھی مرزا صاحب کے زبانی سن لیجئے :
’’ تواتر ایسی چیز ہے کہ اگر غیر قوموں کی تواریخ کی رو سے بھی پایا جائے تو تب بھی ہمیں قبول کرنا ہی پڑتا ہے ۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۵۵۶ روحانی خزائن ج۳ص۳۹۹)
حوالہ نمبر ۲
’’ اب پہلے ہم صفائی بیان کیلئے یہ لکھناچاہتے ہیں کہ بائبل اور ہماری احادیث اور اخبار کی کتابوں کی رو سے جن نبیوں کا اس وجود عنصری کیساتھ آسمان پر جانا تصور کیا گیا وہ دو نبی ہیں ایک یوحنا جس کا نام ایلیا اور ادریس بھی ہے دوسرا مسیح ابن مریم جن کو عیسیٰ اور یسوع بھی کہتے ہیں ان دونوں نبیوں کی نسبت عہد قدیم اور جدید کے بعض صحیفے بیان کر رہے ہیں کہ وہ دونوں آسمان کی طرف اٹھائے گئے ہیں اور پھر کسی زمانہ میں زمین پراتریں گے اور تم ان کو آسمان سے آتے دیکھو گے انہی کتابوں سے کسی قدر ملتے جلتے الفاظ احادیث نبویہ میں بھی پائے جاتے ہیں ۔‘‘ (توضیح المرام ص۴ ،روحانی خزائن ج۳ ص۵۲ )
حوالہ نمبر ۳
’’ صحیح مسلم کی حدیث میں جویہ لفظ موجود ہے کہ حضرت مسیح جب آسمان سے اتریں گے تو ان کا لباس زرد رنگ کا ہوگا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۳۶ روحانی خزائن ص۱۴۲ ج۳)
(نوٹ)یہ حدیث صحیح مسلم میں نہیں بلکہ سنن ابی داؤد ج ۲ کتاب الملاحم باب خروج الدجال میں مذکور ہے۔ قادیانیوں کیلئے چونکہ مرزا قادیانی کی تحریرات حجت ہیں اس لئے الزامی طور پر مذکورہ حوالہ لکھا جاتا ہے ۔
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
﴿اثبات رفع و نزول مسیح از روئے اجماع امت﴾

(۱) حیاۃ المسیح بجسمہ الی الیوم ونزولہ من السماء بجسمہ العنصری مما اجمع علیہ الامۃ وتواتر بہ الا حادیث۔ (تفیسرالبحر المحیط ج۲ ص۲۷۳)
(۲) والاجماع علی انہ حی فی السماء ینزل ویقتل الدجال ویؤید الدین (تفیسر جامع البیان تحت آیت انی متوفیک)
(۳) الاجماع علی انہ رفع ببدنہ حیا قالہ الحافظ ابن حجر فی تلخیص الجبیر
(۴) فتح الباری میں بھی ذکر ادریس میں حضرت مسیح کے نزول پر اجماع منقول ہے ۔
(۵) تفسیر ابن کثیر میں تواتر نزول کی صراحت کی گئی ہے ۔
مرزائیوں کی شہادت کہ رفع و نزول عیسیٰ پر تمام مفسرین کا اجماع ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب تلخیص الجبیر کے صفحہ ۳۱۹ ،۳۲۰ پر عام مفسرین کا اجماع نقل کیا ہے (عسل مصفیٰ ص ۱۶۴)
مرزائیوں کے نزدیک بھی حافظ ابن حجر عسقلانی آٹھویں صدی کے مجدد ہیں ، یہ مجددین کی اس فہرست میں داخل ہیں جوکہ عسل مصفی کے صفحہ ۱۶۲ ق،۱۱۷ سے شروع ہوتی ہے اور کتاب ہذا مرزا کی مصدقہ ہے ۔
مرزائیوں کے مسلم مجددین کی فہرست

رزائیوں کے ساتھ بحث کرنے سے پہلے یہ طے کرلیناچاہیے کہ فریقین اگر آیات قرآنی کی تفسیر وتشریح اپنی مرضی ورائے سے کریں گے توبحث کا کوئی فائد ہ نہ ہوگا، تم اپنے معنی بیان کرو گے اور ہم اپنا حلفی بیان کریں گے اور بحث کا حاصل کچھ نہ نکلے گا ،اسلئے مناسب ہے کہ تیرہ صدیوں میں سے چند ایسے مفسرین ومجددین کا انتخاب کرلیں جن کی بات ہر دو فریق تسلیم کریں ۔چودھویں صدی کے مفسرین ومجددین کی بات بے شک نہ مانو، تیرہ صدیوں میں سے ایک مفسر ومجدد کا انتخاب کرلو جس کا بیان کیاہوا معنی اور تفسیر معتبر اور قول آخر مانی جائے گی اور مجددین میں سے ان مجددین کا انتخاب کرتے ہیں جو فریقین کے نزدیک مسلم ہیں اور مرزائیوں کے مسلم مجددین کی فہرست کتاب’’ عسل مصفی‘‘ میں
موجودہے واضح ہو کہ یہ کتاب عسل مصفی وہ کتاب ہے جومرزا صاحب کے ایک مرید مرزا خدا بخش نے لکھی او رہر روز جو لکھی جاتی وہ باقاعدہ مرز اصاحب کو سنائی جاتی اگر کبھی وہ اتفاقاً مرزا صاحب کو نہ سناتا تو مرزا صاحب بڑے اہتمام کے ساتھ اس کے متعلق استفسار کرتے کہ آج تم نے مجھے اس کتاب کا مسودہ کیوں نہیں سنایا غرضیکہ یہ پوری کتاب مرز اغلام احمد قادیانی نے پورے اہتمام کے ساتھ سنی گویا یہ مرزا صاحب کی مصدقہ کتاب ہے اور اس کے اندر جو مجددین کی فہرست ہے وہ مرزا غلام احمد کے نزدیک بھی مسلم مجددین ہیں اب ہم کتاب عسل مصفی سے وہ فہرست نقل کرتے ہیں ۔(عسل مصفی مصنفہ مرزاخدا بخش ص۱۱۷ ج۱)

﴾پہلی صدی میں اصحاب ذیل مجدد تسلیم کئے گئے ہیں
(۱) عمر بن عبدالعزیز (۲) سالم (۳) قاسم (۴) مکحول
علاوہ ان کے اور بھی اس صدی کے مجدد مانے گئے ہیں چونکہ جو مجدد جامع صفات حسنی ہوتا ہے وہ سب کا سردار اور فی الحقیقت وہی مجدد فی نفسہ ماناجاتا ہے اور باقی اس کی ذیل سمجھے جاتے ہیں جیسے انبیاء بنی اسرائیل میں ایک نبی بڑا ہوتا تھاتو دوسرے اس کے تابع ہو کر کاروائی کرتے تھے چنانچہ صدی اول کے مجدد متصف بجمیع صفات حسنی حضرت عمر بن عبدالعزیز تھے ۔(نجم الثاقب ج۲ ص۹ ،وقرۃ العیون ومجالس الابرار)
﴾دوسری صدی کے مجدد اصحاب ذیل ہیں
(۱) امام محمد ادریس ابو عبداﷲ شافعی (۲) احمد بن محمد بن حنبل شیبانی (۳) یحیٰ بن عون غطفانی (۴) اشہب بن عبدالعزیز بن داؤد قیس (۵) ابو عمرو مالکی مصری (۶) خلیفہ مامون رشید بن ہارون (۷) قاضی حسن بن زیاد حنفی (۸) جنیدبن محمد بغدادی صوفی (۹) سہل بن ابی سہل بن ریحلہ الشافعی (۱۰) بقول امام شعرانی حارث بن اسعد محاسبی ابو عبداﷲ صوفی بغدادی (۱۱) او ربقول قاضی القضاۃ علامہ عینی احمد بن خالد الخلال ابو جعفر حنبلی بغدادی ۔ (نجم الثاقب ج۲ ص۱۴ ،قرۃ العیون ومجالس الابرار)
﴾تیسری صدی کے مجددین
(۱) قاضی احمد بن شریح بغدادی شافعی (۲) ابو الحسن اشعری متکلم شافعی (۳) ابو جعفر طحاوی ازدی حنفی (۴) احمد بن شعیب(۵) ابو عبدالرحمن نسائی (۶)خلیفہ مقتدر باﷲ عباسی (۷) حضرت شبلی صوفی(۸) عبیداﷲ بن حسین (۹) ابو الحسن کرخی وصوفی حنفی (۱۰) امام بقی بن مخلد قرطبی مجدد اندلس اہل حدیث ۔
﴾چوتھی صدی کے مجددین
(۱) اما م ابوبکر باقلانی (۲) خلیفہ قادر باﷲ عباسی (۳) ابوحامداسفرانی (۴) حافظ ابو نعیم (۵) ابو بکر خوارزمی حنفی (۶) بقول شاہ ولی اﷲ ابو عبداﷲ محمد بن عبداﷲ المعروف بالحاکم نیشاپوری (۷) اما م بیہقی (۸) حضرت ابو طالب ولی اﷲ صاحب قوت القلوب جوطبقہ صوفیاء سے ہیں (۹) حافظ احمد بن علی بن ثابت خطیب بغداد (۱۰) ابو اسحاق شیرازی (۱۱) ابراہیم بن علی بن یوسف فقیہ المحدث
﴾پانچویں صدی کے مجدد اصحاب
(۱) محمد بن محمد ابو حامد امام غزالی (۲) بقول عینی و کرمانی حضرت راعونی حنفی (۳) خلیفہ مستظہر بالدین مقتدی باﷲ عباسی (۴) عبداﷲ محمد بن محمد انصاری ابو اسماعیل ہروی (۵) ابو طاہر سلفی (۶) محمدبن احمد ابوبکر شمس الدین سرخسی فقیہ حنفی
﴾چھٹی صدی کے مجددین
(۱) محمد بن عبداﷲ فخرالدین رازی (۲) علی بن محمد (۳) عزالدین بن کثیر (۴) امام رافعی شافعی صاحب زبدہ شرح شفا(۵) یحیٰ بن حبش بن میرک حضرت شہاب الدین سہروردی شہید امام طریقت (۶) یحیٰ بن اشرف بن حسن محی الدین لوذی (۷) حافظ عبدالرحمن ابن جوزی
﴾ساتویں صدی کے مجدد اصحاب
(۱) احمد بن عبدالحلیم نقی الدین ابن تیمیہ حنبلی (۲) تقی الدین ابن دقیق العید (۳) شاہ شرف الدین مخدوم بہائی سندی (۴) حضرت معین الدین چشتی (۵) حافظ ابن القیم جوزی شمس الدین محمد بن ابی بکر بن ایوب بن سعد بن القیم الجوزی ورعی دمشقی حنبلی (۶) عبداﷲ بن اسعد بن علی بن سلیمان بن خلاج ابو محمد عفیف الدین یافعی شافعی (۷) قاضی بدرالدین محمد بن عبداﷲ الشبلی حنفی دمشقی
﴾آٹھویں صدی کے مجددین
(۱) حافظ علی بن حجر عسقلانی شافعی (۲) حافظ زین الدین عراقی شافعی (۳) صالح بن عمر بن ارسلان قاضی بلقینی (۴) علامہ ناصر الدین شازلی بن سنت میلی
﴾نویں صدی کے مجدد اصحاب
(۱) عبدالرحمن کمال الدین شافعی معروف بہ امام جلال الدین سیوطی (۲) محمد بن عبدالرحمن سخاوی شافعی (۳) سید محمد جونپوری مہدی اور بقول بعض دسویں صدی کے مجدد ہیں ۔
﴾دسویں صدی کے مجدد اصحاب یہ ہیں
(۱) ملا علی قاری (۲) محمد طاہر فتنی گجراتی ، محی الدین محی السنہ (۳) حضرت علی بن حسام الدین معروف بہ علی متقی ہندی مکی
﴾گیارہویں صدی کے مجددین
(۱) عالم گیر بادشاہ غازی اورنگ زیب (۲) حضرت آدم بنوی صوفی (۳) شیخ احمد بن عبدالاحد بن زین العابدین فاروقی سرہندی معروف بامام ربانی مجدد الف ثانی
﴾بارہویں صدی کے مجدد اصحاب ذیل ہیں
(۱) محمد بن عبدالوہاب بن سلیمان نجدی (۲) مرز امظہر جان جاناں دہلوی (۳) سید عبدالقادر بن احمد بن عبدالقادر حسنی کوکیانی (۴) حضرت احمد شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلوی (۵) اما م شوکانی (۶) علامہ سیدمحمد بن اسما عیل امیر یمن (۷) محمد حیات بن ملازیہ سندھی مدنی
﴾تیرھویں صدی کے مجددین
(۱) سید احمد بریلوی (۲) شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (۳) مولوی محمد اسماعیل شہید دہلوی (۴) بعض کے نزدیک شاہ رفیع الدین صاحب بھی مجدد ہیں (۵) بعض نے شاہ عبدالقادر کو مجدد تسلیم کیا ہے ، ہم اس کا انکا ر نہیں کرسکتے کہ بعض ممالک میں بعض بزرگ ایسے بھی ہوں گے جن کو مجدد مانا گیا ہو اور ہمیں اطلاع نہ ملی ہو۔
مرز اخدا بخش کی اس دی گئی فہرست میں تیرہ صدیوں کے مجددین کی تعداد اکیاسی بنتی ہے۔
مرزائی سوال
مرزائی عموماسوال کرتے ہیں کہ چودہویں صدی کامجدد کون ہے واضح ہو کہ ان کے نزدیک آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی ہی چودہویں صدی کا مجدد ہے ۔
جواب
ہم جواب میں چودھویں صدی کے مجددین کے ضمن میں یہ نام پیش کرتے ہیں۔
(۱) حضرت مولا نا محمد قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند(۲) حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (۳) مفسر قرآن حضرت مولانا حسین علی (۴) شیخ العرب والعجم حضرت مولانا حسین احمد مدنی (۵) حضرت مولا نا محمد الیاس کاندھلوی بانی تبلیغ جماعت (۶) سید المحدثین حضرت مولانا سید علامہ انور شاہ کشمیری (۷) شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری (۸) حضرت شاہ عبدالقادر رائپوری (۹) حضرت خلیفہ غلام محمد، دین پو رشریف وغیرہ
کتاب عسل مصفیٰ کی تائید و توثیق
واضح ہوکہ مولوی خدا بخش مصنف کتاب عسل مصفیٰ اپنی اس کتاب کے صفحہ ۶ ؍۷ پر لکھتا ہے کہ میری اس کتاب کو حکیم نورالدین بھیروی، مولوی عبدالکریم سیالکوٹی ، مولوی محمد احسن امروہی نے اس رسالہ کو نہایت ہی پسند فرمایا ۔ آگے لکھتا ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی رئیس قادیان مسیح موعود مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام (نعوذباﷲ العظیم) نے بھی اس ناچیزرسالے کو عزت کی نگاہ سے دیکھا اور اس کے سننے سے اظہار خوشی فرمایا ۔ سو دوسری وجہ جواس کتاب کے لکھنے کی محرک ہوئی وہ یہی ہے کہ خود ہادی امام میری ناچیز خدمت کو نظر قبولیت سے دیکھتے ہیں ۔(کتاب عسل مصفیٰ ص۷ ج۱)
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
دلائل اثبات رفع ونزول ازروئے قرآن مجید

﴾آیت نمبر ۱
’’ ھوالذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق لیظہر ہ علی الدین کلہ ‘‘(براہین احمدیہ ج۴ حاشیہ ص۴۵۹ ایڈیشن قدیم ۴۹۹ روحانی خزائن ج۱ص۵۹۳)
﴾آیت نمبر ۲
’’ عسی ربکم ان یرحم علیکم ‘‘
(براہین احمدیہ ج۴ روحانی خزائن ص۶۰۱ ج۱ قدیم ایڈیشن ص۵۰۵ حاشیہ )
﴾آیت نمبر ۳
’’ ومکروا ومکراﷲ واﷲ خیر الماکرین ‘‘ ﴿پ۳ سورۃ آل عمران ع۵آتی ۵۴﴾
ترجمہ : اور انہوں نے خفیہ تدبیر کی اور اﷲ نے بھی خفیہ تدبیر کی اور اﷲ تدبیر کرنے والوں میں بہتر تدبیر کرنیوالے ہیں ۔
طرز استدلال
یہود ونا مسعود کی تدبیر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کی تھی او رانہوں نے آپ کو قتل کرنے کی پوری کوشش کی جس کا اﷲ تعالیٰ نے ومکروا میں ذکر فرمایا ان کے مقابلہ میں اﷲ تعالیٰ نے اپنی تدبیر کا ذکر فرمایا اور اپنی تدبیر کو بہتر بتایا ان کی تدبیر ناکام ہوگئی اور اﷲ تعالیٰ کی تدبیر غالب ہوگئی ، چنانچہ یہود ا اسکریوطی جو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں میں سے تھا تیس روپے لیکر حضرت عیسیٰ علیہالسلام کو پکڑوانے والے کیلئے اس مکان میں داخل ہوا اﷲ تعالیٰ نے اسے حضرت عیسیٰ کی شکل میں تبدیل کردیا اور عیسیٰ کو اپنی کمال قدرت سے آسمان پر اٹھا لیا ۔
مذکورہ بالا آیت کی تمام مفسرین نے یہی تفسیر بیان کی ہے اور اﷲ تعالیٰ کی اس تدبیر کا ذکر کیا ہے کوئی ایک مفسر ؍مجدد پیش نہیں کیا جاسکتا جس نے یہاں پر عیسائیوں اور مرزائیوں کی تدبیربیان کی ہو ۔
نکتہ ﴾
’’ مکر ‘‘ کہتے ہیں لطیف خفیہ تدبیر کو ۔ اگر اچھے مقصد کیلئے ہو تو اچھا ہے اور برائی کیلئے ہو توبرا ہے ۔ اسی لئے ’’ ولا یحیق المکر السیئی الا باھلہ ‘‘میں مکر کے ساتھ سیئی کی قید لگائی ہے اور یہاں خدا تعالیٰ کو خیر الماکرین کہا۔ مطلب یہ ہے کہ یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف طرح طرح کی سازشیں اور خفیہ تدبیریں شروع کردیں حتیٰ کہ بادشاہ کے کان بھر دیے کہ یہ شخص (معاذاﷲ )ملحد ہے تورات کوبدلنا چاہتا ہے ، سب کو بد دین بنا کر چھوڑے گا ۔ اس نے مسیح علیہ السلام کی گرفتاری کا حکم دے دیا ادھر یہ ہورہا تھا اور ادھر حق تعالیٰ کی لطیف اور خفیہ تدبیر ان کے توڑ میں اپنا کام کررہی تھی جس کا آگے ذکر آئے گا ۔ بے
شک خدا کی تدبیر سب سے بہتر اور مضبوط ہے جسے کوئی توڑ نہیں سکتا۔﴿تفسیر عثمانی از علامہ شبیر احمد عثمانی ص۷۱﴾
﴾آیت نمبر ۴
’’ اذ قال اﷲ یا عیسی انی متوفیک……الخ ‘‘ ﴿پ۳ آل عمران ع۶آیت ۵۵﴾
ترجمہ : اے عیسیٰ بیشک میں تجھے لینے والاہوں او ر تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں ‘‘
یہ آیت بھی عیسیٰ علیہ السلام کی حیاۃ اور فع جسمانی کی صریح دلیل ہے اس میں اﷲ تعالیٰ نے یہودیوں کی تدبیر کے بالمقابل عیسیٰ کو تسلی دیتے ہوئے ان سے چا ر وعدے فرمائے ہیں۔
۱) یہ کہ تجھے وفات دونگا ،یہودی قتل نہیں کرسکیں گے
۲) اس وقت تجھے اپنی طرف اٹھا لوں گا
۳) کفار یعنی یہود سے تجھے پاک کروں گا
۴) تیرے متبعین کو تیرے دشمنوں پر قیامت تک غالب رکھوں گا
یہ چا روعدے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے اﷲ تعالیٰ نے اس وقت کئے جب یہود نامسعود آپ کے قتل کا منصوبہ تیار کرچکے تھے یہاں پر رافعک میں جو رفع کا وعدہ ہے وہ باتفاق تما م مجددین و مفسرین رفع جسمانی ہے مرزا غلام احمد قادیانی کذاب سے قبل جس قدر مجدد ین گذرے ہیں کوئی ایک مجدد بھی ایساپیش نہیں کیاجاسکتا جس نے یہاں رفع سے مراد رفع درجات یا رفع روحانی لیا ہوا لبتہ متوفیک کے معنی میں علما ء کرام کی د و رائے ہیں ۔اکثر علماء نے اس کا معنی پورا پورا لینے کا کیا ہے یعنی جسد مع الروح کیونکہ یہی توفی کا حقیقی معنی ہے۔
بعض علماء نے متوفیک کا معنی ممیتک لیا ہے جیسا کہ بخاری شریف میں حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے منقول ہے لیکن یہ بھی ہمیں مضر نہیں ہے اس لئے کہ جن حضرات نے توفیٰ کا معنی موت کا لیا ہے وہ اس میں تقدیم و تاخیر کے قائل ہیں یعنی ممیتک عند انـقضاء اجلک ورافعک الآن۔ میں تجھے ماروں گا جب تیری موت کا وقت مقرر ہوگا اور اب تجھے اٹھانے والاہوں ‘‘ ﴿تفسیر ابن عباس ﴾
جواب نمبر۱
تمام علماء نحو اس بات پر متفق ہیں کہ واؤ ترتیب کیلئے نہیں ہوتی بلکہ مطلق جمع کیلئے ہوتی ہے بخلاف ثم اور فاء کے ۔ شرح مائۃ عامل کا طالب علم بھی اس سے آگاہ ہے ۔
جواب نمبر ۲
قرآن مجید میں اس طرح کی کئی مثالیں موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ واؤ ہمیشہ ترتیب کیلئے نہیں ہوتی جیسا کہ حضرت مریم کو فرمایا
’ واسجدی وارکعی‘ ‘ اور سجدہ کیا کر اور رکوع کیا کر ۔﴿پ۳ آل عمران ۳۴ ع۵﴾
’’فاخذہ اﷲ نکال الآخرۃ والاولیٰ ‘‘ پس اﷲ تعالیٰ نے اس کو دنیا و آخرت کے عذاب میں پکڑا ۔ ﴿پ۳۰ اَلنازعات ۲۵ ع۱﴾
جواب نمبر ۳
اس پوری آیت میں مرزائیوں کے نزدیک بھی ترتیب ٹھیک نہیں ہے کیونکہ مرزائیوں کی تفسیر کے مطابق آیت کا معنی یوں ہوگا: ’’ اے عیسیٰ میں تجھے پہلے موت دینے والا ہوں اس کے بعد تیرا روحانی رفع یا رفع درجات کروں گا اس کے بعد تجھے کافروں سے پاک کروں گا اور اس کے بعد تیرے متبعین کو تیرے دشمنوں پر غالب کروں گا۔‘‘
اب مرزائیوں کے خیال کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام کی وفا ت کشمیر کی طرف ہجرت کرنے کے بعد واقعہ صلیب سے ستاسی سال بعد کشمیر میں ہوئی تو اب مطھرک من الذین کفروا (میں تجھے کافروں سے پاک کروں گا) پہلے ہوگیا اور وفات اور رفع ستاسی بر س بعد ہوا جس سے معلوم ہو اکہ ترتیب مرزائیوں کے نزدیک بھی قائم نہ رہی واقعہ کے طور پر تطہیر پہلے ہوئی او ر اس کے بعد وفات پھر رفع اور پھر غلبہ ۔
؂ الجھا ہے پاؤں یا ر کا زلف درازمیں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا

جواب نمبر ۴
کئی ایک مفسرین نے یہاں ترتیب کو الٹ کر تفسیر کی ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس کی تفسیر میں گذرچکا ہے ۔
جواب نمبر ۵
عیسائی عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق افراط کا شکا رہوئے اور انہیں الٰہ تک بنا دیا اور یہود تفریط کے قائل ہوئے تو درجہ نبوت سے بھی نیچے گرادیا ۔ خدا تعالیٰ کو دونوں کی تردید کرنا مقصود تھی عیسائیوں نے شرک کیا تھا اور یہود نے گستاخی رسول ، چونکہ شرک بہرحال گستاخی رسول سے بڑا جرم ہے اس لئے اﷲ تعالیٰ نے پہلے اس کی تردید کی لفظ متوفیک سے کہ میں تجھے موت دوں گا ۔ مطلب صاف ظاہرہے کہ جس پر موت آتی ہے وہ الٰہ اور معبود نہیں ہوسکتا اس کے بعد یہود کی تردید ورافعک الی سے کی یعنی تم نے میرے رسول کی شان میں کمی کی میں نے تو ان کو اوپر اٹھا لیا او راوپر اٹھانے سے ان کی رفعت شان ظاہر ہوئی ۔
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
بحث لفظ ’ توفیّٰ
اس لفظ کا مادہ ہے وفی یعنی جب یہ مادہ باب تفعل میں چلا جائے تو اس کے حقیقی معنی پورا پورا لینے کے ہوں گے جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے
’’ اتوفیت الثمن ‘‘ ہاں موت اور نیند کے معنی میں بھی مجازاً استعمال ہوتا ہے جبکہ وہاں کوئی قرینہ موجود ہو جیسے ’ ھوالذی یتوفاکم بالیل ‘(وہی ہے جو تمہیں رات کوموت دیتا ہے ) ﴿۷ اَلانعام ۱۳ ع۷﴾ اسی طرح ’ اﷲ یتوفی الانفس حین موتھا والتی لم تمت فی منامھا‘‘ (اﷲ تعالیٰ جانوں کو ان کی موت کے نزدیک قبض کر لیتا ہے او رجوابھی نہیں مرے ان کی جان نیند میں قبض کرلیتا ہے ) ﴿ پ۲۴ اَلزمر ۴۲ ع۵﴾
یہ آیات اس بات کی صریح دلیل ہیں کہ توفی کا حقیقی معنی موت نہیں ہے اگر اس کا حقیقی معنی موت ہوتا تو موت او ر توفی کا تقابل درست نہ تھا یہاں آیت میں توفی کے ساتھ موت او رعدم موت دونوں جمع ہورہی ہیں ۔
توفی کا معنی از کتب سلف
۱﴾ ’’ متوفیک ورافعک ای علی التقدیم والتاخیر وقد یکون الوفاۃ قبضا لیس بموت ‘‘ (مجمع الابحر ص۴۵۴ج۲ ، منقول از عسل مصفی۱۷۵ ج۱)
۲﴾ ’’ فلما توفیتنی ……الخ اخذا لشئی وافیا والموت نوع منہ ‘‘(تفسیر صافی ج۱ عسل مصفی ج۱ص۱۸۷)
۳﴾ ’ ’ یستعمل التوفی فی اخذ الشئی وافیا ای کاملا والموت نوع منہ ‘(حاشیہ شیخ احمد صاوی مالکی علی جلالین ص۳۱۵ منقول ازعسل مصفی ص۱۸۷)

' توفّٰی ' کے معنی پر مرزا قادیانی کا چیلنج
توفی کے لفظ میں جہاں خدا فاعل اور انسان مفعول بہ ہو ہمیشہ اس جگہ توفی کے معنی مارنے اور روح قبض کرنے کے آتے ہیں ۔(تحفہ گولڑویہ ۴۵ روحانی خزائن ص۱۶۲ ج۱۷)
جواب نمبر ۱
یہ محض مرزا کا من گھڑت قاعدہ ہے کسی اما م لغت نے یہ قاعدہ تحریر نہیں کیا اگر کوئی قادیانی کسی امام لغت سے یہ قاعدہ دکھا دے تو ہم اسے دس ہزار روپیہ انعام دیں گے۔
جواب نمبر ۲
مرزا کا یہ من گھڑت قاعدہ اسکی اپنی تحریر سے ٹوٹ رہا ہے ۔براہین احمدیہ حصہ ۴ ص۵۲۰ میں متوفیک کا معنی لکھا ہے ’’ میں تجھے پوری پوری نعمت دوں گا‘‘(روحانی خزائن ۶۲۰حاشیہ ج۱ )
حوالہ نمبر ۲
براہین احمدیہ کا وہ الہام یعنی یاعیسی انی متوفیک ……الخ جو سترہ برس سے شائع ہو چکا ہے اس کے اس وقت خوب معنی کھلے ہیں یعنی یہ الہام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اسوقت بطور تسلی ہوا تھا جب یہود ان کو مصلوب کرنے کی کوشش کررہے تھے اور اس جگہ بجائے یہود ، ہنود کوشش کرہے ہیں اور الہام کے یہ معنی ہیں کہ میں تجھے ایسی ذلیل اور لعنتی موتوں سے بچاؤں گا۔(سراج منیرحاشیہ ص۶۱ روحانی خزائن ص۲۳ ج۱۲)
جواب : ٭ انعامی حوالہ ٭
’’عن ابن عمر واذا رمی الجمار لا یدری احد ما لہ حتی یتوفاہ اﷲ یوم القیامۃ ‘‘ (الترغیب والترہیب ص۲۰۵، باب ماء جا فی فضل الحج رواہ البزار والطبرانی وابن حبان واللفظ لہ )
اس حدیث شریف میں مرزائیوں کی تمام شرائط موجود ہیں مگر توفی کا معنی موت نہیں ہے ۔
﴿ہما راچیلنج﴾
ہمارا دعویٰ ہے کہ اگرتوفی باب تفعل سے ہو ،اﷲ اس میں فاعل ہو اور ذی روح اس کا مفعول ہو جو بن باپ پیدا ہوا ہو وہاں پر توفّٰی کا معنی پورا پورا لینا اور اٹھا نا ہوگا موت کا معنی نہیں ہے کوئی مرزائی مرد میدان ہے جو ہمارے اس قاعدے کو توڑ کر منہ مانگا انعام حاصل کرے۔
اگر مرزائی کہیں کہ آ پ کا یہ قاعدہ کہاں لکھا ہوا ہے تو جواب یہ ہے کہ علم النحو کی جس کتاب میں مرز ا کا قاعدہ لکھا ہوا ہے اسی کتاب میں ساتھ یہ بھی لکھا ہوا ہے ۔
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
﴾آیت نمبر ۵
’ وما قتلوہ یقینا بل رفعہ اﷲ الیہ وکان اﷲ عزیزا حکیما‘﴿پارہ ۶ سورۃ النساء ۱۵۷،۱۵۸ ع۲۲﴾ ’’ اور انہوں نے اس (عیسیٰ)کو نہیں مارا یقینا بلکہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو اپنی طرف اٹھا لیا اور اﷲ تعالیٰ غالب حکمت والاہے ۔‘‘
حکیم نورالدین نے اس آیت کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ ’’ بلکہ اﷲ تعالیٰ نے اس کو اپنی طرف اٹھا لیا۔‘‘ (فصل الخطاب برحاشیہ ص۳۱۴)
یہ آیت بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع جسمانی اور حیات کی صریح دلیل ہے ۔
٭نکتہ
یہودیوں کی طرف سے قتل کا فعل واقع نہیں ہوا تھا بلکہ یہ محض ان کا ایک جھوٹا دعویٰ تھا تو ا ﷲ تعالیٰ نے ان کے ملعون ہونے کے من جملہ اسباب میں سے ان کے اس قول کو لعنتی ہونے کا سبب بتایا ہے نہ کہ فعل کو اس لئے وقتلھم نہیں فرمایا بلکہ وقولھم فرمایا۔
مرزائی عذر
اس آیت میں رفع سے مراد رفع روحانی اور رفع درجات ہے کیونکہ یہودیوں کے نزدیک صلیب کی موت لعنتی شمار ہوتی ہے تو یہاں اﷲ تعالیٰ نے یہودیوں کے جواب میں فرمایا کہ وہ ان کو ذلیل نہیں کرسکے بلکہ ہم نے ان کے درجات بلند کردیے۔
جواب نمبر ۱
یہ غلط، بالکل غلط ہے ہم پورے دعویٰ سے کہتے ہیں بلکہ ہمارا امت مرزائیہ کو چیلنج ہے کہ مرزا قادیانی سے پہلے تیرہ صدیوں کے مسلمہ بین الفریقین جس قدر مجدد اور مفسر گذرے ہیں ان میں سے کسی ایک نے بھی یہاں رفع سے مراد رفع درجات یا روحانی رفع نہیں لیا سب نے بالاتفاق یہاں رفع سے مراد اسی جسم عنصری سے آسمانوں پر اٹھایا جانا مراد لیا ہے۔ ’’ ھاتوا برھانکم ان کنتم صادقین ‘‘
جواب نمبر ۲
یہ تمہار امفروضہ کہ صلیب کی موت لعنتی موت ہوتی ہے سراسر غلط اور یہودیانہ نظریہ ہے اول یہ ہے کہ اس کا دارومدار بائبل پر ہے جو محرف ہے دوم اس لئے کہ انہوں نے اپنے رائج طریقہ سے کئی ایک انبیاء علیہم السلام کو قتل کیا ہے جیسا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں ویقتلون الانبیاء بغیر حق ’’ او روہ انبیاء کو ناحق مار ڈالتے تھے ‘‘ اور یہ ظاہر ہے کہ ان انبیاء کو جنہیں وہ بر حق نہیں مانتے تھے اپنے رائج طریقہ یعنی صلیب کے ذریعہ ختم کرتے تھے یعنی قتل کرتے تھے تو وہاں اﷲ تعالیٰ نے ان کا رفع کیوں نہیں بیان کیا بلکہ ان کے رفع کا ذکر تک بھی نہیں کیاجبکہ انکا قتل وقوع میں آچکا ہے اور یہ قتل وقوع میں بھی نہیں آیا محض یہودیوں کا قتل کا قول ہے ۔
جواب نمبر۳
یہاں رفع روحانی اس لئے بھی نہیں ہوسکتا کہ یہاں پر چار جگہ واحد مذکر غائب کی ضمیر آئی ہے جن میں تین ضمیروں کا مرجع بالاتفاق عیسیٰ بن مریم جسد مع الروح ہے ان ضمیروں کا مرجع نہ صرف جسد ہے او رنہ صرف روح کیونکہ قتل او رصلیب کا فعل تبھی واقع ہوسکتا ہے جب جسد اور روح اکٹھے ہوں تو لامحالہ رفع کی ضمیر کا مرجع بھی جسد مع الروح ہی ہوگا نہ کہ فقط روح نیز یہاں پر کان اﷲ عزیزاً حکیماً کاجملہ اس بات کی قوی دلیل ہے کہ یہاں رفع جسمانی ہی ہے ورنہ رفع روحانی کیلئے ان صفات کے لانے کی ضرورت نہیں تھی اور یہ اﷲ تعالیٰ کے کلام میں زائد جملہ ہوجائے گا۔
مرزائی عذر
عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر کیسے جاسکتے ہیں اول تواس میں کئی ناری کرّے ہیں ، دوم اسلئے کہ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے مشرکین نے کہا کہ آپ آسمانوں پر جائیں تب ہم آپ پر ایمان لائیں گے……الخ توجناب نبی اکرم ﷺ نے جواب میں فرمایا ھل کنت الا بشرا رسولا (میں تو صرف بشر رسول ہوں )﴿پارہ ۱۵ بنی اسرائیل ۴ ع۱۰﴾
جواب
عیسیٰ علیہ السلام اسی طرح چلے گئے جیسے موسیٰ علیہ السلام چلے گئے ۔(بحوالہ نورالحق ص۵۱ روحانی خزائن ص۶۹ ج۸) ذیل میں ملاحظہ فرمائیں ۔
٭٭ ایٹم بم نمبر 1 ٭٭
’’ ھذا ھو موسیٰ فتی اﷲ الذی اشاراﷲ فی کتابہ الی حیاتہ وفرض علینا ان نومن انہ حی فی السماء ولم یمت ولیس من المیتین ‘‘ (نورالحق ص۵۰ روحانی خزائن ص۶۸،۶۹ج۸)
مرزائی اعتراض
مرزائی عموماً اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ یہاں حی فی السماء سے مراد روحانی حیات ہے اور آگے لم یمت سے نفی روحانی موت کی ہورہی ہے ۔
جواب نمبر۱
کیا کوئی شخص ان کی روحانی موت کا قائل ہے کہ جب تم اس کو ثابت کر رہے ہو روحانی حیات تو کفار کو بھی حاصل ہے ۔
جواب نمبر۲
آگے اسی حوالہ میں مرزا نے حضرت موسیٰ کلیم اﷲ علیہ السلام کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے تقابل کیا ہے کہ موسیٰ تو بے شک زندہ ہیں مگر عیسیٰ کے بارے میں ہمیں آیات سے ثبوت ملتا ہے کہ وہ فوت ہوچکے ہیں جس طرح کہ آگے حوالہ میں مذکور ہے’’ ولا تجد مثل ھذہ الآیات فی شان عیسیٰ ‘‘ تو ہم پوچھتے ہیں کہ اس تقابل سے تو معلوم ہوتا ہے کہ عیسیٰ پر روحانی موت آگئی حالانکہ روحانی موت کسی پر بھی واقع نہیں ہوتی تقابل تب ہی درست بن سکتا ہے جبکہ موسیٰ کی جسمانی حیات مراد لی جائے ۔
٭٭ ایٹم بم حوالہ نمبر 2 ٭٭
’’ بل حیاۃ کلیم اﷲ ثابت بنص القرآن الکریم الا تقرء فی القرآن ما قال اﷲ تعالیٰ عزو جل ’ ولا تکن فی مریۃ من لقاۂ ‘ وانت تعلم ان ھذہ الآیۃ نزلت فی موسیٰ فھی دلیل صریح علی حیاۃ موسیٰ علیہ السلام لانہ لقی رسول اﷲ ﷺ والاموات لایلاقون الا حیاء ولاتجد مثل ھذہ الآیات فی شان عیسیٰ علیہ السلام نعم جاء ذکر وفاتہ فی مقامات شئی فتدبر فان اﷲ یحب المتدبرین ۔ ‘‘ (حمامۃ البشریٰ ۳۵ روحانی خزائن ص۲۲۱ ج۷)
جواب نمبر ۲
یہاں پر بحث جانے کی نہیں بلکہ لیجانے کی ہے ہم بھی مانتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام تو کیا کوئی نبی بھی آسمانوں پر نہیں جاسکتا ، سوال یہ ہے کہ کیا اﷲ تعالیٰ لے جاسکتے ہیں یا نہیں ۔ جناب نبی کریم ﷺ نے زیادہ سے زیادہ اس جواب میں اپنی بشریت کے اقرار میں خود جانے کی نفی کی ہے نہ کہ اﷲ تعالیٰ کے لے جانے کی ۔ دوسری جگہ اﷲ تعالیٰ حضور اکرم ﷺ کے لے جانے کا ذکر فرماتے ہیں سبحان الذی اسری بعبدہ ……الخ یہاں بھی رفع میں فاعل اﷲ تعالیٰ ہے ۔
مرزائی اعتراض
آیت مذکورہ میں بل ابطالیہ مراد لینا بالکل غلط ہے کیونکہ قرآن مجید کلام اﷲ ہے اور اﷲ تعالیٰ کے کلام میں بل ابطالیہ نہیں آسکتا۔
جواب
جن نحویوں نے یہ بات کہی ہے انہوں نے اس بات کی بھی تصریح کر دی ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ کفار کا قول نقل کریں تو ان کی تردید میں بل ابطالیہ آتا ہے جیسا کہ احمدیہ پاکٹ بک والے مرزائی نے خودص۳۷۳ پر نقل کیا ہے :
قرآن مجید میں کئی مقامات پر بل ابطالیہ استعمال کیا گیا ہے:
مثلا ً ’’ وقالوا اتخذاﷲ ولدا سبحانہ بل لہ مافی السموات والارض کل لہ قانتون ‘ ‘ ﴿پارہ ۱ آیت ۱۱۶ ع ۱۳﴾ ’’ اور انہوں نے کہا کہ اﷲ تعالیٰ نے اولاد پکڑی ،پاکی ہے اس کو بلکہ اسی کیلئے ہے جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے سب کچھ اسی کے فرمانبردار ہیں ۔‘‘
’’ وقالوا اتخذ الرحمن ولدا سبحانہ بل عبادمکرمون ۔ ‘‘(پارہ ۱۷ الانبیاء آیت۲۹) ’’ اور انہوں نے کہا کہ ر حمن نے اولاد پکڑی وہ اولاد سے پاک ہے بلکہ جن کو تم اولاد بتاتے ہو ، وہ مکرم بندے ہیں ‘‘
’’ ام یقولون افتری بل ھوالحق من ربک ‘‘ ’’ کیا وہ کہتے ہیں کہ جھوٹ باندھ لیا ہے بلکہ وہ تیرے پروردگار کی طرف سے حق ہے ‘‘۔
٭فائدہ
بل ابطالیہ یا اضرابیہ جس کلام میں آتا ہے اس میں بل کے ماقبل اور مابعد والے مضمون میں منافات ہوتی ہے ورنہ بل ابطالیہ بے سود ہے اب متنازعہ فیہ آیت میں اس کے مابعدسے اگر رفع درجات مراد لیا جائے تو اس کی ماقبل سے منافات نہیں ہاں رفع حیاً اور قتل میں منافات ہے۔
مرزائی اعتراض
یہ ضروری نہیں کہ رفعہ میں ضمیر کا مرجع حضرت عیسیٰ علیہ السلام جسد مع الروح ہوں جیسا کہ قرآن مجید میں وارد ہے ثم اماتہ فاقبرہ یہاں دو ضمیریں آئی ہیں جو انسان کیطرف لوٹتی ہیں پہلی ضمیر جسد مع الروح کی طرف اور دوسری ضمیر صرف جسد یا روح کی طرف۔
جواب نمبر۱
آپ مندرجہ بالا آیت میں موت واقع ہونے کے بعد جبکہ جسد اور روح میں انفصال ہوگیا تو لامحالہ دوسری ضمیر کا مرجع یاجسد ہوگا یا فقط روح دونوں نہیں بن سکتے بخلاف متنازعہ فیہ آیت کے کہ اس میں قتل اور صلیب یعنی موت کی نفی کے بعد رفع کے ساتھ ضمیر آرہی ہے تو لامحالہ یہاں رفع جسد مع الروح ہوگا نہ کہ فقط روح کا لہذا یہ قیاس ،قیاس مع الفارق ہے ۔
جواب نمبر۲
یہاں اقبرہ میں ضمیر جسد مع الروح انسان کی طرف لوٹ رہی ہے او ر
یہاں پر انسان کے مختلف حالات ذکر ہورہے ہیں ۔
مرزائی اعتراض
رفعہ میں ضمیرکا مرجع صنعت استخدام ہے
جواب
یہ مرزائیوں کی جہالت او رکور علمی کا بین ثبوت ہے اگر انہیں صنعت استخدام کی تعریف معلوم ہوتی تو وہ اس قسم کی جہالت کا ثبوت نہ دیتے۔
صنعت استخدام اسے کہتے ہیں کہ ایک لفظ جس کے دو معنی ہوں ، لفظ سے ایک معنی مراد لیا جائے اور جب اس لفظ کی طرف کوئی ضمیر لوٹائی جائے تو اس سے دوسرا معنی مرادا لیا جائے یا ایک لفظ کے دو معنی ہوں اس کی طرف دو ضمیریں لوٹائی جائیں ایک ضمیر سے ایک معنی اور دوسری ضمیر سے دوسرا معنی مراد لیا جائے (دیکھو مختصر المعانی وغیرہ ص۴۵۷) یہاں پر عیسیٰ بن مریم کے دومعنی نہیں کہ صنعت استخدام بن سکے ۔
مرزائی اعتراض
الیہ سے مراد آسمانوں پر لینا درست نہیں کیونکہ اﷲ تعالیٰ تو ہر جگہ موجود ہے ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں فاینما تولوا فثم وجہ اﷲ یعنی پس جدھر کو منہ کرو اُدھر ہی اﷲ تعالیٰ کی ذا ت ہے﴿پارہ ۱ ع۱۴ اَلبقرہ ۱۱۵﴾ وھو اﷲ فی السماء الہ وفی الارض الہ ’’ اوراﷲ ہی کی ذات ہے جوزمینوں میں بھی معبود ہے اور آسمانوں میں بھی معبو دہے ‘‘ ﴿پارہ ۲۵ ع۱۳ آیت۸۴﴾
جواب نمبر ۱
الیہ سے مرادا الی السماء ہے جیسا کہ مرزا صاحب خود تسلیم کرتے ہیں کہ : ’’ ہرایک اپنے درجہ کے موافق آسمانوں کی طرف اٹھایا جاتا ہے اور اپنے قرب کے انداز کے موافق رفع سے حصہ لیتا ہے اورانبیاء واولیاء کی روح اگرچہ دنیوی حیات کے زمانہ میں زمین پر ہو مگر پھر بھی اس آسمان سے اسکاتعلق ہوتا ہے جو اس کی روح کیلئے حد رفع ٹہرایا گیا ہے اور موت کے بعد وہ روح اس آسمان جا میں ٹہر تی ہے جو اس کیلئے حد رفع مقرر کیا گیا ہے ‘‘ (ازالہ اوہام ص۳۴۵روحانی خزائن ص۲۷۶ج۳)
اب اس حوالہ سے ثابت ہوگیا کہ الیہ سے مراد آسمان ہے لہذا حد رفع میں قادیانیوں اور ہمارا کوئی احتلاف نہ ہوا بلکہ اختلاف مرفوع شے میں ہے کہ اٹھائی کون سی چیز گئی ہے فقط روح یا جسد مع الروح ۔اس کا جواب بل ابطالیہ میں موجود ہے کیونکہ بل کے ماقبل اور مابعد میں ضدیت ہے اور ضدیت کیلئے وحدت زمانی ضروری ہے لہذا عدم موت او ررفع کا زمانہ بھی ایک ہونا چاہیے اور آپ کے نزدیک عدم موت او ررفع کے درمیان ۸۷ برس کا طویل فاصلہ ہے ۔
جواب نمبر۲
اصل بات یہ ہے کہ بلندی کی نسبت اﷲ تعالیٰ اپنی طرف کرتے ہیں چونکہ اﷲ تعالیٰ کی ذات بلند اور رفع ہے جیسا کہ فرمایا ’’ الیہ یصعد الکلم الطیب ‘‘ یہاں بھی الیہ سے مراد آسمان ہی ہے ۔
جواب نمبر ۳
قرآن خود گواہی دے رہا ہے کہ اﷲ تعالیٰ آسمانوں میں ہے ’’ أء منتم من فی السماء ان یخسف بکم الارض ……الخ ‘‘ کیا تم نڈر ہواس ذات سے جو آسمان میں ہے کہ تم سب کوزمین میں دھنسا دے۔ ﴿پارہ ۲۹ اَلملک ۱۶﴾
جواب نمبر ۴
مرزا کا الہام ہے۔
۱) ’’ فرزند دل بند گرامی وارجمند مظہر الحق والعلاکانّ اﷲ نزل من السماء ‘‘(تذکرہ ص۱۴۴،۱۸۴طبع دوم مثلہ ازالہ اوہام ص ۱۵۶ روحانی خزائن ج۳ ص۱۸۰)
۲) ’’ جری اﷲ فی حلل الانبیاء کان اﷲ نزل من السماء ‘‘(تبلیغ رسالت اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶،مندرجہ مجموعہ اشتہارات ج ۱ ص۱۰۱ وایضاً تذکرہ ص۸۱ ؍۶۴۶)
اس الہام سے معلوم ہوا کہ مرز اصاحب کے نزدیک اﷲ تعالیٰ آسمانوں پر ہے۔
جواب نمبر۵
خو دمرزا کا قول ہے ’’ الا یعلمون اَنَّ المسیح ینزل من السماء یجمیع علومہ ولا یاخذ شیئا من الارض مالھم لا یشعرون ‘‘ (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن ج۵ص۴۰۹)
مرزائی اعتراض
’’ اذا تواضع العبد رفعہ اﷲ الی السماء السابعۃ ‘‘ دیکھئے اس میں رفع جسمانی مراد نہیں بلکہ روحانی مراد ہے حالانکہ یہ حدیث بعینہ بل رفعہ اﷲ کی طرح ہے ۔
۔جواب نمبر ۱
یہاں رفع سے پہلے تواضع کا قرینہ موجود ہے لہذا یہاں پر رفع درجات ہی مراد ہوگا نیز یہ قیاس مع الفارق ہے کیونکہ یہ آیت کے مشابہ نہیں کیونکہ آیت میں تو پہلے قتل کی نفی موجود ہے قتل کی نفی کے بعد تو رفع جسمانی ہوگا بخلاف اس کے کہ یہاں نہ قتل کا ذکر ہے اور نہ بل ابطالیہ موجو دہے اسی طرح باقی تمام جگہوں میں سمجھیں جہاں جہاں رفع درجات مراد ہوگا وہاں کوئی نہ کوئی قرینہ ضرور موجود ہوگا۔
جواب نمبر ۲
کسی مقام میں رفع سے رفع درجات یا رفع روحانی پائے جانے سے یہ کیسے ثابت ہوگیا کہ متنازع فیہ آیات میں بھی رفع سے مراد روحانی رفع ہے ہم بلا خوف تردید یہ کہہ چکے ہیں کہ اس آیت میں کسی ایک مسلم مفسر یا مجدد نے رفع روحانی مراد نہیں لیا اگر ہمت ہے تو مرزاکے علاوہ اس سے قبل کسی مجدد کا نام پیش کرو۔
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
﴾آیت نمبر۶
’’ وان من اھل الکتاب الالیومنن بہ قبل موتہ ……الخ۔ ‘‘ اور اہل کتاب میں سے ہر ایک اس(عیسیٰ پر یعنی آپ کے زندہ ہونے ) پر ایمان لائے گا آپ (عیسیٰ) کی موت سے پہلے اور آپ قیامت کے دن ان پر گواہ ہوں گے۔‘‘ ﴿پارہ ۶ النساء ۱۵۹ ع۲۲﴾
آیت مذکورہ میں بہ اور موتہ دونوں ضمیروں کا مرجع عیسیٰ علیہ السلام ہیں اور آیت کا مطلب ہے کہ آئندہ زمانہ میں جس قدر اہل کتاب موجود ہونگے تمام کے تمام عیسیٰ علیہ السلام پر ان کی موت سے قبل ان پرایمان لائیں گے یہ آیت اس بات کی صریح دلیل ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اب تک فوت نہیں ہوئے اور وہ قیامت کے قریب دوبارہ تشریف لائیں گے ۔ تمام مفسرین نے آیت مذکورہ کا یہی معنی بیان کیا ہے۔
دیکھئے حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ نے جب یہ حدیث بیان کی’’ والذی نفسی بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ……الخ ‘‘تو اس کے بعد فرمایا ’ ’ وان شئتم فاقرؤا’ وان من اھل الکتاب الا لیومنن بہ‘ ……الخ ‘‘ حضرت ابوہریرہ ؓ صحابی رسول نے حدیث رسول بیان کرنے کے بعد یہ آیت بطور استشہاد پیش کی جس سے آیت کی تفسیر واضح ہوگئی صحابی رسول ﷺ کی اس تفسیر کے بعد کسی انسان کی تفسیر جو اس کے خلاف ہو اس کی کوئی وقعت نہیں اور درحقیقت یہ تفسیر حضرت ابوہریرہؓ کی نہیں بلکہ یہ حضور ﷺ کی تفسیر ہے کیونکہ ایسے مقامات میں ابوہریرہ ؓ اپنے قیاس سے کچھ نہیں کہہ سکتے ان کی اکثر عادت شریفہ یہ تھی کہ کسی حدیث کے بیان کرنے کے بعد وہ استشہاد کے طور پر کبھی تو فرماتے ’ ’قال رسول اﷲ ﷺ وان شئتم فاقرؤا ‘ ‘ او رکبھی ’’ قال رسول اﷲ ‘‘ نہیں کہتے تھے صرف ’’ ان شئتم ‘‘ کہہ دیتے تھے ۔نیز دیکھئے اکابرین سلف نے نزول عیسیٰ علیہ السلام پر آیت مذکورہ کو ہی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے ۔
حوالہ نمبر ۱
’’ فان قیل فما الدلیل علی نزول عیسیٰ علیہ السلام من القرآن فالجواب الدلیل علی نزولہ قولہ تعالیٰ ’وان من اھل الکتاب الالیومنن بہ قبل موتہ‘ ۔ ‘‘ (الیواقیت والجواہر ج۲ ص۱۴۶ للعلامہ شعرانی مطبوعہ مصر)
حوالہ نمبر ۲
’’ ونزول عیسیٰ من السماء کماقال اﷲ تعالیٰ وانہ ای عیسیٰ لعلم للساعۃ ای علامۃ القیامۃ وقال اﷲ تعالیٰ وان من اھل الکتاب الا لیومنن بہ قبل موتہ ای قبل موت عیسیٰ بعد نزولہ عند قیام الساعۃ فیصر الملل ملۃ واحدۃ‘‘ (شرح فقہ اکبر ص۱۳۶ ملا علی قاری )
مرزائی اعتراض
بعض مفسرین نے قبل موتہ کی ضمیر کا مرجع اہل کتاب کو بنایا ہے اور یہ قرا ء ۃ شاذہ کے موافق بھی ہے ۔ قراء ۃ شاذہ’ قبل موتھم ‘ ہے ۔
جواب نمبر ۱
حضرت ابوہریرہ ؓ کی تفسیر کے بعد کسی اور تفسیر کی کوئی حاجت نہیں اور نہ کسی پر اعتما دہے ۔
جواب نمبر ۲
جن حضرات نے ضمیر کا مرجع اہل کتاب کو بنا یا ہے وہ اس کے باوجود عیسیٰ علیہ السلام کے رفع جسمانی اور آمد ثانی کے تمام امت کیطرح قائل ہیں لہذا ان کا اہل کتاب کو مرجع بنانا ہمیں مضر نہیں ہے ۔
جواب نمبر ۳
حکیم نورالدین بھیروی نے متنازعہ فیہ آیت کا ترجمہ اپنی کتاب’فصل الخطاب بمقدمہ اہل الکتاب‘ حصہ دوم ص۳۱۴ میں یوں کیا ہے : ’’ اور نہیں کوئی اہل کتاب سے مگر البتہ ایمان لائے گا ساتھ اس کے پہلے موت اس کی کے اور دن قیامت کے ہوگا اوپر ان کے گواہ ۔‘‘ ملاحظہ فرمایئے ان دونوں جگہوں میں کس صراحت کے ساتھ مرجع حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بنایا گیا ہے ۔
(کتاب فصل الخطاب کی تعریف و توثیق مرزا صاحب کی زبانی مرز اصاحب کی کتاب آئینہ کمالات اسلام ص۵۸۴ میں ملاحظہ فرمائیں نیز کتاب فصل الخطاب کے مقدمہ ص۶ میں بھی ملاحظہ فرمائیں۔)
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
﴾آیت نمبر۷
’’ وانہ لعلم للساعۃ فلا تمترن بہا……الخ ‘‘ او ربے شک وہ قیامت کی نشانی ہے پس اس میں شک مت کرو ۔ ﴿پارہ۲۵ زخرف ۶۱ ع۶﴾
یہ آیت بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قرب قیامت کے وقت نازل ہونے کی صریح دلیل ہے جیسا کہ تمام مفسرین نے انہ کی ضمیر کا مرجع عیسیٰ علیہ السلام بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ قیامت کی نشانیوں میں سے عیسیٰ علیہ السلام کا دوبارہ آنا ہے اور اسطرح شاہ عبدالقادر صاحب نے جو مرزا کے نزدیک تیرھویں صدی کے مجدد ہیں یہ ترجمہ کیا کہ حضرت عیسیٰ کاآنا نشان قیامت ہے اور اسطرح ملا علی قاری نے فقہ اکبر ص۱۴۶ پر اس آیت کو نزول عیسیٰ علیہ السلام پر بطور دلیل پیش کیا ہے اور مرزا قادیانی نے بھی اپنی کتاب اعجاز احمدی میں ضمیر کا مرجع عیسیٰ علیہ السلام کو بنایا ہے۔(اعجاز احمدی بنام ضمیمہ نزول مسیح ص۲۱ روحانی خزائن ج۱۹ ص۱۳۰)
﴾آیت نمبر ۸
’ ویکلم الناس فی المہد وکہلا……الخ ‘‘ اور وہ (عیسیٰ) لوگوں سے کلام کریں گے گود میں بھی اور بڑھاپے میں بھی ۔ ﴿سورہ مریم ﴾
واقعہ رفع یا صلیب یا قتل بالاتفاق قبل الکہولت عالم جوانی میں ہوا ہے پس ضروری ہے کہ وہ دوبارہ نازل ہوں تاکہ زمانہ کہولت کی گفتگو بھی صحیح ہو جائے اب مہد میں کلا م کرنا خارق عادت ہے جیسا کہ مرزا صاحب نے تریاق القلوب ص۸۰ حاشیہ ص ۴۱ روحانی خزائن ص ۲۱۷ ،۲۱۸ ج ۱۵ میں تسلیم کیاہے اور کہاہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے مہد میں کلام کی تو میرے بیٹے نے دو مرتبہ ماں کے پیٹ میں باتیں کیں تو مہد کی طرح ز مانہ کہولت کی کلام بھی خار ق عادت ہونی چاہیے اور وہ تب ہی ہوسکتا ہے جب ان کا دوبارہ نزول مانا جائے ورنہ زمانہ کہولت میں ہر ایک بات کرتا ہے تو پھر احسان کیسے ہوا ۔’ ’ ھو قول الحسین بن الفضل البجلی ان المراد بقولہ وکھلاان یکون کھلا بعد ان ینزل من السماء فی آخر الزمان ویکلم الناس ویقتل الدجال قال الحسین بن الفضل وفی ھذہ الآیۃ نص فی انہ علیہ السلام سنزل الی الارض۔ ‘‘(رازی۲ص۴۵۶،خازن ج۱ص۲۹۳)
کماقیل دندان تو جملہ در د ہانند
چشمان تو زیر آبرو ہا نند

یہ کلام کسی نے اپنے محبوب کی تعریف میں کہا تھا کہ تیرے سارے دانت منہ کہ اندر ہیں اور تیری آنکھیں ابروؤں کے نیچے ہیں تو یہ کوئی خاص تعریف کی بات نہیں ہے اور جس طرح یہ کلام تعریف نہیں بن سکتا اسی طرح اگر ویکلم الناس فی المہد وکہلا کو خار ق عادت نہ مانا جائے تو وہ بھی اسی طرح بے معنی ہوجائے گا کیونکہ کہولت اگر پہلے کی مراد لی جائے تو پھر توہر ایک کہولت کے زمانہ میں کلام کرتا ہے پھر یہ احسان خدا نے کاہے کو جتلایا احسان تب ہی بنتا ہے جبکہ اسے خارق عادت مانا جائے اور خارق عادت تب ہی ہوسکتا ہے جبکہ دوبارہ نزول کے بعد کہولت کے زمانہ میں ان کا کلام مانا جائے جیسا کہ مفسرین نے صراحت کردی ہے ۔
﴾آیت نمبر۹
’’ اذکففت بنی اسرئیل عنک ……الخ ‘‘ او رجب ہم نے بنی اسرائیل کو تجھے( نقصان پہنچانے ) سے روک دیا ۔ ﴿پارہ ۷ اَلمائدہ ۱۱۰ع۱۵﴾
یہ بھی قیامت کے روز اﷲ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کو اپنے احسانات گنواتے ہوئے فرمائیں گے اگر رفع اور نزول نہ مانا جائے تو کف نہیں ہوسکتا کیا کف ایسا ہوا کہ ان کو اتنامارا کہ وہ بے ہوش ہوگئے پسلی چھیدی گئی ، کانٹوں کا تاج پہنایاگیا حتیٰ کہ سولی پر چڑہادیا گیا لہذا ماننا پڑے گا کہ ان کو بالکل دشمنوں سے محفوظ رکھ کر آسمانوں پر اٹھاکر بنی اسرائیل سے بچالیا۔
﴾آیت نمبر ۱۰
’’ واذعلمتک الکتاب والحکمۃ……الخ ‘‘ اور جب (اے عیسیٰ) میں نے تجھے کتاب اور حکمت کی تعلیم دی ۔ ﴿پارہ ۷ اَلمائدہ ۱۱۰ ع۱۵﴾
یہاں بھی اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن احسان جتلاتے ہوئے یہ احسان یا د دلائیں گے کہ میں نے تجھے قرآن کریم اور سنت کی تعلیم د ی بلکہ عیسیٰ علیہ السلام سے پیدا ہونے سے پہلے ہی ان کی والدہ کو بطور بشارت یہ بات فرما دی تھی کہ تیرے بیٹے کو قرآن کریم کی تعلیم دوں گا اگرانہوں نے دوبارہ اس وقت میں نہیں آنا تھا تو انہیں قرآن سکھانے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا انبیاء سابقین میں سے کسی او رنبی کو بھی قرآن کی تعلیم دی گئی ہے ؟ لہذا اس سے صاف واضح طور پر معلوم ہوگیا کہ عیسیٰ علیہ السلام نے دوبارہ اس امت محمدیہ میں تشریف لانی ہے اور حضور ﷺ کی شریعت کی تابعداری کرنی ہے اس لئے خصوصیت سے آپ کو قرآن کی تعلیم دی او رپھر قیامت کے روز بطور احسان کے ذکر فرمائیں گے بلکہ پیدا ہونے سے پہلے بھی اس احسان عظیم کو ان کی والدہ کے سامنے بطور پیش گوئی بیان فرمایا۔
٭فائدہ عظیمہ
اس آیت سے قادیانیوں کے ایک وسوسہ اورشبہ کا ازالہ ہوگیا جو وہ کہا کرتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام بقول تمہارے اس امت میں دوبارہ تشریف لائیں گے تو کیا وہ کسی مولوی کے پا س قرآن پڑھنے بیٹھیں گے یا ان کیلئے جبرائیل امین نازل ہوں گے کیونکہ انہوں نے زمین پر تو قرآن پڑھا نہیں تو یہ آیت مذکورہ میں اس شبہ کا ازالہ ہو گیا کہ اﷲ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلا م کو قرآن مجید کی تعلیم دیں گے جیسا کہ تورات وانجیل کی خود اﷲ تعالیٰ نے تعلیم دی ۔
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
﴿رفع و نزول کا اثبات احادیث نبویہ سے ﴾

﴾حدیث نمبر ۱
’’ عن عبداﷲ بن عمر قال قال رسول اﷲ ﷺ ینزل عیسیٰ ابن مریم الی الارض فیتزوج ویولد لہ ویمکث خمسا واربعین سنۃ ثم یموت فیدفن معی فی قبری۔ ‘‘ (باب نزول عیسیٰ فصل ثالث مشکوٰۃ شریف ص۴۸۰)
مرزا اس کی تائید میں لکھتا ہے کہ ظاہر حدیث پر عمل کریں تو ممکن ہے کہ کوئی مثیل مسیح ایسا بھی ہو جو حضور ﷺ کے روضہ کے پا س مدفون ہو۔(ازالہ اوہام حصہ دوم حاشیہ ۴۷۰،روحانی خزائن ص۳۵۲ ج۳)
مرزا کی اس عبارت سے واضح ہوگیا کہ قبر سے مراد یہاں پر روضہ ہے لہذا مرزائیوں کا اعتراض رفع ہوگیا دوسری بات یہ بھی واضح ہوگئی کہ مرزا نے اس حدیث کو صحیح بھی تسلیم کرلیا ہے ۔
نیز دیکھو اس میں یتزوج ویولد لہ کو صحیح تسلیم کررہا ہے ۔ ’’ اس پیش گوئی کی تصدیق کیلئے جناب رسول ﷺ نے بھی پہلے سے ایک پیش گوئی فرمائی ہے کہ یتزوج ویولد لہ یعنی وہ مسیح موعود بیوی کرے گا اور نیز وہ صاحب اولاد ہوگا۔(ضمیمہ انجام آتھم ص۵۳،روحانی خزائن ص۳۳ج۱۱ ، بر حاشیہ )
۔﴾حدیث نمبر ۲
’’ اذا بعث اﷲ عیسیٰ ابن مریم فینزل عند المنارۃ البیضاء الشرقی دمشق بین مھز ودتین واضعاکفیہ علی اجنحۃ ملکین ……فیطلبہ حتی یدرکہ بباب لد فیقتلہ ۔ ‘‘ (مشکوٰۃ باب علامات بین یدی الساعہ فصل اول)
مرزائی لد کا مطلب لدھیانہ لیتے ہیں یہاں پر مرزا صاحب نے خود لد سے مراد بیت المقدس کے دیہات سے ایک گاؤں تسلیم کیا ہے ۔(بحوالہ حمامۃ البشریٰ ص۲۴،ازالہ اوہام ۲۲۰ روحانی خزائن ص۲۰۹ ج۳)
۔﴾حدیث نمبر ۳
’’ عن جابر رضی اﷲ عنہ قال……فینزل عیسیٰ بن مریم فیقول امیرھم تعال صل لنا فیقول لا ان بعضکم علی بعض امراء تکرمۃ اﷲ ھذہ الامۃ ۔ ‘‘ (مشکوٰۃ باب نزول عیسیٰ علیہ السلام)
ترجمہ : عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے تو مسلمانوں کے امیر اُن سے کہیں گے کہ آئیے نماز پڑھائیے وہ فرمائیں گے نہیں تم میں سے بعض بعض پر امیر ہیں یہ اﷲ کا اس امت کیلئے اعزاز ہے ۔‘‘
اس حدیث نے مرزائیوں کی تمام تاویلات واہیہ اور خیالات باطلہ کا بخوبی قلع قمع کردیا اور روز روشن کی مانند واضح کردیا کہ مسیح آنے والاوہی اسرائیلی نبی ہے نہ کہ اس امت کا کوئی اور شخص نیز مہدی اور عیسیٰ دونوں علیحدہ علیحدہ شخصیتیں ہیں نہ کہ ایک جس طرح قادیانی کہتے ہیں ،مسیح او رمہدی ایک ہی شخص کے نام ہیں جو مرزا ہے اور دلیل یہ دیتے ہیں ’’ لامہدی الا عیسیٰ ‘‘ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ابن ماجہ کی روایت ہے جو سندکے اعتبار بالکل ساقط اور غیرمعتبر ہے ۔
علاوہ ازیں خود مرزا نے لکھا ہے ’’ اس لیے ماننا پڑا کہ مسیح موعود اور مہدی اور دجال تینوں مشرق میں ہی ظاہر ہوں گے ۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۴۷ روحانی خزائن ص۱۶۷ج۱۷) لفظ تینوں سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں علیحدہ علیحدہ شخصیات ہیں اور سابقہ حدیث بذات خود اس با ت کا علیحدہ ثبوت ہے کہ یہ دونوں الگ الگ شخصیات ہیں ۔
 
Top