چھٹی جھوٹی پیش گوئی
محمدی بیگم کے متعلق
اس پیش گوئی کے بارے میں دو باتیں پیش نظر رکھیں۔
۱) محمدی بیگم کی مرزا قادیانی سے رشتہ دار ی
(۱) محمدی بیگم کا والد’’احمد بیگ ‘‘مرزا قادیانی کا ماموں زاد بھائی تھا اور اسکی والدہ مرزا کی چچا زاد بہن تھی ۔
(۲) مرزا کی پہلی بیوی (پھجے کی ماں) کے چچا زاد بھائی کی بیٹی تھی(۳) مرزا کے لڑکے فصل احمد کی بیوی کی ماموں زاد بہن تھی۔
۲) اس پیش گوئی کا پس منظر
مرز اقادیانی نے محمد ی بیگم کو زبر دستی اپنے نکاح میں لانے کا ارادہ کیا اتفاق ایسا ہو ا کہ ایک زمین کے ہبہ نامہ کے سلسلہ میں مرزا احمد بیگ کو مرزا قادیانی کے دستخط کی ضرورت پڑی چنانچہ وہ مرزا قادیانی کے پاس گیا او ر اس سے کاغذات پر دستخط کرنے کی درخواست کی مرزا قادیانی نے اپنی مطلب براری کیلئے اس موقع کو غنیمت جانا اور احمد بیگ سے کہا کہ استخارہ کرنے کے بعد دستخط کروں گا جب کچھ دن بعد دوبارہ احمد بیگ نے دستخط کرنے کی بات کی تو مرزا نے جواب دیا کہ دستخط اس شرط پر ہوں گے کہ اپنی لڑکی محمدی بیگم کا نکاح میرے ساتھ کردو۔
مرزا لکھتا ہے کہ محمدی بیگم ابھی چھوکری ہے اور میری عمر پچاس سال سے متجاوز ہے ۔
(آئینہ کمالات اسلام ص۵۷۴،روحانی خزائن ص۵۷۴ج۵)
مرزا کی پیش گوئی کے الفاظ یہ ہیں :’’ پھر ان دونوں میں جو زیادہ تصریح اور تفصیل کیلئے بار بار توجہ کی گئی تو معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ نے یہ مقررکر رکھا ہے کہ وہ مکتوب الیہ کی دختر کلاں کو جس کی نسبت درخواست کی گئی تھی ہر ایک روک دورکرنیکے بعد انجام کار اس عاجز کے نکاح میں لادے گا اور بے دینوں کو مسلمان بنادے گا اور گمراہوں میں ہدایت پھیلائے گا۔چنانچہ عربی الہام اس بارے میں یہ ہے :
’’
کذبوا بایتنا وکانوا بہا یستھزؤن فسیکفیکہم اﷲ ویردھا الیک لا تبدیل لکلمات اﷲ ان ربک فعال لما یرید انت معی وانا معک عسی ان یبعثک ربک مقامامحمودا۔
‘‘
یعنی انہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا اور پہلے سے ہنسی کررہے تھے سو خدا تعالیٰ ان سے سب کے تدارک کے لئے جو اس کام کو روک رہے ہیں تمہارا مددگا ر ہوگا اور انجام کا ر اس کی اس لڑکی کو تمہاری طرف واپس لائے گا کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو ٹال سکے تیرا رب وہ قادر ہے کہ جو کچھ چاہے وہی ہو جاتا ہے ……الخ۔‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۲۸۶تا ۲۸۸ ، روحانی خزائن ج۵ص ۲۸۷؍۲۸۶)
’’میری اس پیش گوئی میں ایک نہیں بلکہ چھ دعوے ہیں
(اول) نکاح کے وقت تک میرز زندہ رہنا
(دوم) نکاح کے وقت تک اس لڑکی کے باپ کا یقینی زندہ رہنا
(سوم) پھر نکاح کے بعد لڑکی کے باپ کا جلدی مرجانا جو تین برس تک نہیں پہنچے گا
(چہارم) اس کے خاوند کااڑھائی برس کے عرصہ تک مرجانا
(پنجم) اس وقت تک کہ میں اس سے نکاح کروں اس لڑکی کا زندہ رہنا
(ششم) پھر آخر یہ بیوہ ہونے کی تمام رسموں کو توڑ کرباوجود سخت مخالفت اس کے اقارب کے میرے نکاح میں آجانا۔
اب آپ ایمان سے کہیں کہ کیا یہ باتیں کسی انسان کے اختیار میں ہیں اور ذرا اپنے د ل کو تھام کر سوچ لیں کہ کیا ایسی پیش گوئی سچ ہونے کی حالت میں انسان کا فعل ہوسکتی ہیں ۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ج۵ ص۳۲۵ ،روحانی خزائن ج۵ص۳۲۵)
’’ میں با ربار کہتا ہوں کہ نفس پیش گوئی داماد احمد بیگ کی تقدیر مبرم ہے اس کی انتظار کرو اور اگر میں جھوٹا ہو ں تو یہ پیش گوئی پوری نہیں ہوگی اور میری موت آ جا و ے گی اور اگر میں سچا ہوں تو خدا تعالیٰ ضرور اس کو بھی ایسے ہی پوری کردیگا جیسا کہ احمد بیگ اور آتھم کی پیش گوئی پوری ہوگئی اصل ہی مدعا تو نفس مفہوم ہے اور وقتوں میں تو کبھی استعارات کا بھی دخل ہوجاتا ہے ۔‘‘
(انجام آتھم حاشیہ روحانی خزائن ص۳۱ج۱۱)
اس پیش گوئی کے بارے میں چند اہم معلومات
۱) مرزا نے ۲۰ ؍فروری ۱۸۸۸ ء میں محمدی بیگم سے نکاح کی پیش گوئی کی ۔
۲) محمدی بیگم کا نکاح ،سلطان احمد سے ۷ ؍ اپریل ۱۸۹۲ء کو ہوا۔
۳) احمد بیگ ۳۰ ستمبر ۱۸۹۲ء کو فوت ہوا ۔
(آئینہ کمالات الاسلام روحانی خزائن ج۵ ص۲۸۶)
مرز اکا دجل و فریب
مرزا کو اصل الہام یہ ہوا تھاکہ و ہ لڑکی اس عاجز کے نکاح میں آئے گی خواہ پہلے ہی باکرہ ہونے کی حالت میں آجائے یا خداتعالیٰ بیوہ کرکے اس کولے آئے ۔
(مجموعہ اشتہارات ج۱ص۲۱۹)
جب محمدی بیگم کا نکاح سلطان بیگ سے ہوا تو مرزا نے پیش گوئی کے الفاظ بدل دیے چنانچہ لکھتا ہے :
’’
۱) مرز ا احمد بیگ ہوشیار پوری تین سال کی میعاد کے اندر فوت ہو
۲) اور پھر داماد اسکا جو اس کی دختر کلاں کا شوہر ہے اڑھائی سال کے اندر فوت ہو
۳) اور پھر یہ کہ مرزا احمد بیگ تاروز شادی دختر کلاں فوت نہ ہو
۴) اور پھر یہ کہ وہ دختربھی تا نکاح اور تا ایام بیوہ ہونے اورنکاح ثانی کے فوت نہ ہو
۵)اور پھر عاجز ان تمام واقعات کے پورے ہونے تک فوت نہ ہو
۶)اور پھر اس عاجز سے نکاح ہوجائے اور ظاہر ہے کہ یہ تمام واقعات انسان کے اختیار میں نہیں ۔‘‘
(شہادۃ القرآن ص۸۰روحانی خزائن ص۳۷۶ ج۶)
محمدی بیگم کے متعلق چند مزید الہامات
’’
انازوجناکھا (تذکرہ ص۲۴۸)
یعنی ہم نے تیرا نکاح اس سے کردیا‘‘
اور یہی عبارت مرزائیوں کے قرآن یعنی
تذکرہ کے صفحہ ۲۸۳ پر بھی موجود ہے ان میں صاف آگیا کہ خدا تعالیٰ نے مرزا صاحب کا نکاح محمدی بیگم سے کردیا۔
انا مھلکوا بعلھا کما اھلکنا اباھا ورادوھا الیک (تذکرہ قدیم ص۲۲۶)
یعنی ہم محمدی بیگم کے خاوند کو ہلاک کریں گے جس طرح اس کے باپ کو ہلاک کیا اور اس کو تیری طرف لوٹائیں گے۔
تبصرہ
مرزا قادیانی اپنی اس پیش گوئی میں دوسری پیش گوئیوں کی طرح جھوٹا نکلا اور یہ پیش گوئی جس کو اپنی صداقت کا نشان ٹہرایا تھا وہ اس کے جھوٹے ہونے کا واضح اور کھلا نشان ثابت ہو ا مرز اغلام احمد قادیانی اور اس کی امت اس میں ذلیل ورسوا ہو کرپریشانی کے عالم میں اس کی مختلف تاویلات کرتی ہیں ۔امر واقع یہ ہے کہ مرزا قادیانی اپنے ان دعووں میں پورے طور پر جھوٹا ثابت ہوا کوئی ایک دعویٰ بھی اس کا سچا ثابت نہیں ہوا اور مرزا سلطان محمد جس کو بمطابق پیش گوئی مرز ا ، اڑھائی سال میں مرنا تھا یا کم از کم مرزا کی زندگی میں مرنا تھا وہ بقید حیات رہا اور مرزا کے مرنے کے چالیس سال بعد تک زندہ رہا یعنی ۱۹۴۸ ء میں فوت ہوا، اور محمدی بیگم جو مرزا قادیانی کے کذب کا کھلا نشان اور منہ بولتا ثبوت تھی ۱۹۶۶ء میں بحالت اسلام ۱۹ نومبر بروز ہفتہ بمقام لاہو ر فوت ہوئیں ۔ حالانکہ مرز اقادیانی نے اپنی اس پیش گوئی کی تائید میں وہ حدیث بھی پیش کی جسمیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں آتا ہے کہ حضر ت عیسیٰ علیہ السلا دنیا میں تشریف لانے کے بعد شادی بھی کریں گے اور ان کی اولاد بھی ہوگی ۔ ’’
یتزوج ویولد لہ
‘‘ کے الفاظ ہیں مرز اقادیانی نے اس حدیث کو اپنے متعلق قرار دیتے ہوئے اس سے محمدی بیگم سے شادی ہونا مراد لی ۔
(ضمیمہ انجام آتھم ص۵۳ ،روحانی خزائن ج ۱۱حاشیہ ص۳۳۷)
خدا کو منظو ر ہی یہ تھا کہ اس دجال کو ذلیل ورسوا کیا جائے اور مرزا قادیانی باوجود اتنے دعووں اور اتنے زور وشور سے پراپیگنڈہ کرنے کے باوجود خائب وحاسر ہوا۔
فالحمدﷲ علی ذلک
۔
نوٹ﴾
مرزا فضل احمد کی سا س یعنی مرزا صاحب کی سمدھن محمدی بیگم کی پھوپھی لگتی تھی یعنی احمد بیگ کی بھانجی لگتی ہے اسکا نا م عزت بی بی تھا ۔مرزا نے
تریاق القلوب مطبوعہ ۱۹۰۱ء ص۷۰ پر لکھا ہے کہ ’’ عرصہ ۲۱ برس کے قریب یہ الہام بھی ہوا کہ’ بکروثیب‘ یعنی ایک کنواری اور ایک بیوہ تمہارے نکاح میں آئے گی ۔‘‘
مرزا کو ۲۱ برس بعد یہ الہام یاد آیا اور امید تھی کہ محمدی بیگم اگر کنواری نہیں تو بیوہ ہوکر عقد میں آئے گی مگر مرزا کی وفا ت تک وہ مرزا سلطان محمد کی سہاگن ہی رہی اور یہی عرصہ نہیں بلکہ مرز اکے بعد چالیس بر س تک وہ سلطان محمد کے بستر راحت کی زینت رہی اور بہر حال مرزا کی اس نامراد عاشقی کے ایام مستعار میں نہ وہ بیوہ ہوئی اور نہ ہی مرزا کا یہ الہام شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔
تذکرہ( مجموعہ الہامات مرزا)کے مصنف نے اس کی یہ تاویل کی ہے کہ یہ الہام اپنے دونوں پہلوؤں سے مرزا کی بیوی نصرت جہاں کی ذات میں ہی پورا ہوا جو کہ باکرہ آئی اور ثیبہ ہوکررہ گئی ۔
(تذکرہ حاشیہ ص۳۹)
یہ تاویل قادیانی تاویلات کی ایک ادنیٰ سی جھلک اور نمونہ ہے کہ اگر مرزا کی بیوی بیوہ ہوگئی توگویا مرزا کا بیوہ سے نکاح ہوگیا اور یہ پیش گوئی اس طرح پوری ہوگئی۔مرزائی عقل کا عمدہ نشان!
مرزا کی اکثر پیش گوئیاں اسی انداز سے پوری ہوئیں اور درحقیقت اسی طرح کی تاویلات سے قادیانیت کا قصر ارتداد کھڑا ہے اگر ان تاویلات کا سہارا ہٹادیاجائے تو ایک لحظہ میں قادیانی کا قصر ارتداد زمین بوس ہوجائے۔