• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

روحانی سفر از ریاض احمد گوہر شاہی یونیکوڈ

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
جسم میں ارش ای روشنی والی رات ہی سے شروع تھی اور دل کی دوران سخی سلطان باھو کے دربار سے ہی نمایاں ہوئی تھی اور آج وہی دھرین النگو میں تبدیل ہوئی تھی میں اپنی نعمت پر بہت خوش تھا اور جس رازکو بچپن ہی سے درباروں غاروں اور جنگلوں میں ڈھونڈ رہا تھا اپنے قلب میں پایا تین دن تک شرابی کی طرح پہاڑی پر لطف اندوز ہوتار پا نگری کی پرواہ اور نہ ہی جھوک پیاس کی چاہ رہی ۔ رمضان کا مہین تھا روزوں کا خیال آیا۔ سری کوالیشن پالا جاتا اور افطاری کے لئے سامان خرید کر لے آنا شروع شروع میں اس پہاڑی پرڈراتا تھالیکن کچھ ماہ بعد خون بالکل ختم ہو چکا تھا میری آنکھیں اندھیرے کی عادی ہوئی تھیں ۔ رات کو دور تک ہر چیز دیکھ سکتا تھا بھی کبھی قری در یا پرنہانے کے لئے چلا جاتا اور واپسی پر ایشن سے چنے وغیر خریدلاتا۔ رات ہر حالت میں اس پہاڑی پر گزارتا۔ ہر رات کچھ نہ چھیکشن ض رور ہوتا اور دل کی دھرکن بھی اس الہ کے ساتھ تیز ہوتی تھی۔ ایک رات میرے قریب کافی کتے بچ گئے اور جھونکنا شروع کر دیا۔ کاٹنے کے لئے دوڑتے لیکن قریب آ کر رک جاتے پر گھنگھروئی آواز چاروں طرف سے آنے لگی اور پھر میرے اوپر پتھر برسنا شروع ہو گئے اور میں چپ چاپ د کار ا کچھ پتھر گئے اور کچھ اوپر سے گزر گئے۔ آج سارادن انیش پر بیٹھار پائین رات کو پہاڑی پر جانے سے ڈر لگ رہا تھا۔ چھوسو چالو کرنا اور موت سے ڈرتایر و توکل کے خلاف ہے اور پہاڑی پر چلا گیا۔ آج کی شب جب سورہ مزمل کی تلاوت کر رہا تھا میں نے دیکھا محرک سماں پیدا ہوگیا اور پہاڑی کے اردگرد بے شمار کرسیاں پھر میں اور پھر ان کرسیوں پر بے شمار بزرگ عربی لباس میں ملبوس رونت افروز ہوئے ۔ تیرہ آدی میرے قریب کھڑے کردیئے گئے اور ایک صدا آئی آج چناؤ ہونے والا ہے ۔ وہ آدمی مجھ سے عمر میں کافی بڑے تھے کسی نے صرف کپڑے کی دعوتی اور کسی نے درختوں کے پتوں سے اپنا جسم ڈھانپا ہوا تھا معلوم ہوتا تھا کہ عرصہ سے جنگلوں میں چلے اورویے کر رہے ہیں ۔ میں اپنے آپ کو ان کے سامنے تھی کی مانت جھ رہا تھا اور ان نورانی شکلوں میں کھڑا ہونے سے بھی شرم آرہی تھی۔ اتنے میں آسمان سے گلی کی مانند ایک بھی روائی اور میرے جسم پر آن گری حاضرین حیران تھے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کل کا کیا ہوا پرانوں پر سبقت لے جائے ان تیرہ آدمیوں کے منہ سے نکلا شاید کچھ بھول ہوئی اتنے میں دو بار رو آئی اور میرے جسم پر آن گری۔ ان تیرا آدمیوں میں سے کسی نے غصہ سے کسی نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور چلے گئے اس واقعہ کے بعد میرا جسم سخت بھاری ہوگیا اور میں بغیرشت کئے لیٹ گیا۔ بال بال سے الہ ھوئی آواز سنائی دے رہی تھی حتی کہ دل سے ایسی سریلی آواز آرہی تھی جیسے کوئی بچہ النحو پڑھ رہا ہے میں جس سمت بیت القط الئ کھا نظر آتا اور اب دل پر بھی خوشخبری لفظوں میں لفظ الله نظر آیا۔ بے اختیار زبان سے بیان این کا آج کے بعد قسم کی مخلوق اور بزرگوں کی ارواح مجھے دیکھنے کے لئے آتے۔

ایک مبیح جب رفع حاجت کے لئے پہاڑی سے نیچے اترنے کا دیکھا ہے شمارموٹے موٹے سیاہ رنگ کے چھو نے میرے ارد گرد دائرہ بنائے بیٹھے ہیں میں حیران تھا کہ ان سے کس طرح گذر کے جاؤں یہ پاؤں کو کائیں گے اتنے میں ایک موٹا سا مکوڑ اپنی جگہ سے بلا اور میری طرف مخاطب ہوا۔ آواز آئی ڈر نہیں ہم تمہاری حفاظت

کے لئے مامور کئے گئے ہیں ۔ میں نے کہا ت کی تھی انہیں میری کی حفاظت کرو گے۔ اس نے کہا ہاں سانپ بچھو اور زہریلے کیڑے بہت زیادہ ہیں ہم ان سے کولی نپٹ سکتے ہیں اس کے بعد انھوں نے میرے گزرنے کا راستہ چھوڑ دیا کی کسی دن یہ کوڑے بھی میرا حصار کرتے۔

مر

شروع میں پہاڑی پر جب اسم ذات کی مشقت کرتا تو مجھے کئی بزرگ اپنے پاس کھڑے بائیٹھے نظر آتے کچھ بہت ہی خوبصورت قسم کی عورتیں آتیں اور ان کو جھک کر سلام کرتیں ۔ ان کے ہاتھوں میں گول قسم کے پٹھے ہوتے اور وہ ان بزرگوں کو ملتی ہیں لیکن جب وہ عورتیں میرے سامنے آئیں تو اکڑ کے مسکرا کے گزر جاتیں اور مجھے اپنی کمتری کا سخت احساس ہوتا۔ اس برقی رو کے بعد دوسری رات بھی وہ عورتیں آئیں جب قریب سے اترا کر گزر رہی ہیں تو آواز آئی اس کو اللہ نے عوت دی ہے تم بھی اس کی تنظیم کرو اور اس آواز کے ساتھ وہ کم تک جھک گئیں اور شرمندہ ہو کر چلی گئیں جب کبھی دل پریشان ہو تایبل بچوں کی یاد ستاتی تو وہی عورتیں ایک دمظاہرہو جاتیں ۔ دھمال کرتیں اور پھر کوئی نعت پڑھتیں اور وہ پریشانی کالیہ گزر جاتا اور بھی جسم میں درد ہوتا تو وہ آ کر دبا دیں جس سے مجھے کافی سکون ملتا۔ یاد رہے یہ سب تاسوتی واقعات پیش کئے جارہے ہیں حالات بالا اور راز بالا کی اجازت نہیں ہے۔
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
اب سردیوں کا موسم آ چکا تھا اس وجہ سے لعل باغ کا اشارہ ہوا عصر کے وقت لعل باغ بینا حالات اور ایک بار ایک ایک گول سامٹی کا چور تھا اس کے اوپر ایک درخت بھی ہوا تھ اور اشارہ بھی اسی درخت کے نیچے بیٹے کا تھا۔ باغ کے کونے میں ایک جھونپڑی تھی جہاں ایک ادھیڑ عمری عورت کچھی رہی تھی۔ دوسری طرف ایک اور بزرگ عم تقریبا 100 سال بیٹھے ہوئے تھے میں نے ان سے باغ کے حالات معلوم کئے اور کہا چھ دن اس پل گاہ میں عبادت کرنا چاہتا ہوں۔ بزرگ

نے کہا میں چالیس سال سے چلے کاٹ رہا ہوں ،گھر بار چھوڑا، اناج چھوڑ مٹی کھائی معدہ کو خراب کیالیکن فقیری نہیں ملی تمہارے لئے بہتر یہی ہے کہ اپنی جوانی بر باد کرو جا کے ماں باپ کی خدمت کرو اور بچوں کی پرورش کرو بس میں فقیری ہے۔ ہنخفض قند نہیں بن سکتا اور اس نے یہ بھی بتایا کہ پہ گاہ بہت سخت ہے یہاں کئی لوگ عبادت کی غرض سے آئے ایک بات بھی کردار میں پیشہ سے کی جانی نقصان ہوا۔

آدھی رات کا وقت تھا۔ چلہ گاہ میں داخل ہونا چاہا لیکن سنت اندھیرا اور بزرگ کی باتوں کا خون رکاوٹ بن گیا پہ گاہ سے دور بیت پر بیٹھ کر آنکھیں بند کر کے الٹ ھوئی مشق شروع کر دی جب دوزانوں بیٹھے تھک گیا کاتی پاتی بیٹھ گیا۔ ایسامحسوس ہوا کہ کوئی چیز رانوں پر رینگ رہی ہے انھیں کھولیں دیکھا ایک لمبا موٹا سیاہ رنگ کا سانپ رانوں سے گز ر پا تھا آدھا گزر چکا تھا اور باقی میرے دیکھتے دیکھتے گزرگیا۔ مجھے لرزہ طاری تھا کہ یہ اگر کاٹ لیتا تو کیا ہوتا آواز آئی بچانے والا جب یہاں بچا سکتا ہے تو پدگاه میں بھی بچا سکتا ہے۔ میں فورا اٹھا اور پہ گاہ میں اس درخت کے نیچے بیٹھ کر پورشت شروع کر دی میرے پاس پانی صد روپے بچے ہوئے تھے کچھ اس عورت کو اور کچھ دوسرے فقیروں کو بانٹ دیئے بھی کوئی چائے کی پیالی پلادیت اور بھی کوئی کھانا کھلادیتا۔

آج بھوک بہت ستارہی ہے پیٹ میں بل پڑ چکے ہیں اور پیٹ سے آواز آتی ہے بائے بھوک بائے بھوک اور سر میں بھی بھوک کی وجہ سے درد ہورہا ہے ۔ دوپہر کو کچھ زیارتی ایک بس پر باغ میں آئے انہوں نے کسی مراد کے پورا ہونے پر پیاز کی دیگ خیرات کرنی تھی میرے سامنے بکر اکٹا چاول بھگے ۔ آگ

لی اور پلاؤ تیار ہوگیا۔ اب وہ لوگ اپنے آدمیوں کوٹی کی پلیٹوں میں ڈال کر دینے لگے اتنے میں ایک کٹورا اٹھائے ہوئے میں بھی بن گیا۔ میرا خیال تھا کہ خیرات غریبوں مسکینوں کے لئے ہوتی ہے اور اس وقت میں بھی کسی سین سے کم نہیں تھا۔ جوخص دیگ پر کھڑا تھا مجھے سے ڈانٹ دیا اور کہا ہاں بھی جاؤ یہ مانگنے والے اس باتے ہیں میری صورت حال دیکھ کر ایک شخص کو ترس آگیا اور بڑی ہی سے کہنے کا کہ سامنے بیٹھ جاؤ ہمارے آدھی کھائیں اگر کچھ بچ گیا توتمہیں دے دیں گے اور میں اپنےنفس کو برا بھلا کہتا وہاں سے چل دیا لیکن اتنی ہے عورت کے بعدبھی بھوک مٹ رہی تھی تب میں نے پیلو کے پتے کھانے شروع کر دیئے وہ کڑوے تھے لیکن پھر بھی کافی مقدار میں کھا گیا۔ اب پتوں کی وجہ سے زبان پر چھالے پڑ گئے تیسرے دن متانی نے کچھ سوکھے ٹکڑے دیئے لیکن چائے نہ جا سکے۔ متان کا حال بھی میری ہی طرح تھا، اگرکوئی زیارتی دو چار روپے دے جاتا تو دوکان سے آنا پانی لے آئی اور جب کہیں سے کچھ ملتا تو بھوک ستائی۔ دو تین دن تک تو برداشت کرتی تزرگدڑی اٹھائی اور کسی بھی گاؤں سے نکھرے ما نگ لاتی جس سے میرا کام بھی چل پڑتا۔ میں نے وہ کھڑے ایک درخت کی جڑ میں رکھ دیئے اور رات کو چلہ گاہ میں چلا گیا۔ آج بھوک کی وجہ سے ذکر القاسمی طور پر نہ ہو ان زبان قدرے بہتر نظر آئی جب درخت کی طرفن کیا تو مجھے کوئی کتا لے گیا تھا۔ بڑا افسوس ہوا۔ اب متان کی جھونپڑی کی طرف گیا مستانی عید منانے کے لئے کی ایک ہی جھٹ شاہ پگل گئی تھی جھونپڑی میں تلاش کیا کہ شاید کچھ کھانے کو مل جائے لیکن کچھ بھی نہ ملا۔ آج عید کا دن تھائی شہباز قلندر کے پروانے عید منانے کے لئے باغ میں جمع ہورہے تھے اور رنگ برنگے کھانے تیل کے چوہوں پر پینا شروع ہو گئے۔ میں ایک کونے میں بیٹھا تماشا دیکھ رہا تھافس کہتا عید کا دن

ہے کچھ تو مانگ کرکھلا دے اور مجھے دیگ والوں کی بات یاد آگئی نفس کو کہا ان کو غیرت پند ہے صبر کر سامنے ایک جوان کی عورت سو یاں پارہی تھی اور میری نظروں کا جائز م بھی لے رہی تھی۔ کہتے ہیں عورت کی پھٹی حس بہت تیز ہوتی ہے ۔ وہ بھائی اور اپنی پانچ چھ سالہ بچی کو ایک پلیٹ میں سویاں ڈال کر مجھے نہیں میں کھا بھی رہا تھا اور ر ب کا شکر بھی ادا کر رہاتھا کیونکہ دو سال میں پہلی دفعہ چھے سو یاں نصیب ہوئی میں ان سویوں کے ذائقہ کے بس میں دو بار جان آگئی اور اب بھوک کی طلب پہلے سے بڑھ گئی تھوڑے بہت پتے چبائے جاتے کیونکہ مستانی ایک ہفتے تک واپس نہ آئی ھی جھوک کی وجہ سے آج مفت کمزوری محسوس کر رہا ہوں، سرکادردبھی زوروں پر ہے۔
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
سو پچاس سے بہتر ہے کہ مری جاؤں سرو پتھر مارنا شروع کر دیا کسی طریقہ سے چھوٹ جائے لین د سر پھٹ اور دہی میں مرا ہوا تیز چل رہی تھی اور میں پڑ سنبھل سنبھل کر چلہ گاہ کی طرف جارہاتھا کمزوری کی وجہ سے ہیں آگڑ جاؤں ۔ چلہ گاہ میں بیٹھا حسب معمول فاتحہ پڑھ رہا تھا کہ ایک شخص آ کر قریب ہی بیٹھ گیا۔ اس کے ہاتھ میں کئے ہوئے سیبوں کی پلیٹ تھی ۔ میں نے پلیٹ پہچان لی، یہ وہی پلیٹ تھی جسمیں سیب کاٹ کر میں راولپنڈی میں فاتحہ دیا کرتا تھا۔ اس نے پلیٹ میرے

ہاتھوں میں دی اورکہایہ سیب حضرت فاطمة الزہرہ نے پیچھے ہیں اور کہا ہے کرتم حالت خوشی میں ہم کو یاد کیا کرتے تھے اور آج حالت کی میں ہم نے تم کو یاد کیا ہے۔ میں نے وہ سیب کھائے اورکئی سال ایسے لگا جیسے پیٹ بھرا ہوا ہے۔ کھانا ملتا تو کھالی اور بھوک لگتی۔ ایک دن پھر ریلی جگہ پر پیشاب کر رہا تھا پیشاب کا پانی پتھروں پر جمع ہوگیا اور ویرا ہی سایہ چھے پیشاب کے پانی میں ہوتا ہوا نظر آیا جس سائے سے مجھے ہدایت کی تھی میری اس وقت کیا حالت تھی میں بیان نہیں کر سکتا۔ میں جس کو ایک روحانی چی بجھتا تھا ج س کے حکم کے مطابت

گھر بار چھوڑا، ماں باپ ، بیوی بچوں کی محبت کو گرایا، آج میں اس سے بدگمان ہو چکا تھا۔ گردو سایر مانی ہوتا تو اپاک جگہ کیوں نظر آتا۔ یہی خیال اوریقین تھا کہ کوئی شیطانی روح ہے جو تیرے ساتھ لگ گئی اور مجھے بالکل بر باد کر کے اپناسل دکھایا۔ اس الٹ بھی رگ رگ میں بس چکا تھا اور اس کو بھی چھوڑنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔ جب دل کی طرف دیکھا تو سوچتا اسی سائے کی وجہ اور مدد سے میں اس قابل ہو لیکن پھر وہ بات سامنے آجاتی مجھ میں نہ آتا کیا کروں آخر اپنی سابق زندگی کا بغور مطالعہ کیا معلوم ہوا کہ اس سایہ کے لگنے سے پہلے تیرا ہر قدم گناہوں میں تھا۔ رب کو کھولا ہو اتھارب اور اس کے حبیب سلائی ایم سے مجھے کوئی محبت تھی اب الله اور اس کے حبیب سائٹی کے عشق میں روتا ہوں گناہوں سے نفرت ہے ،نماز تلاوت اور ذکر وفکر میں دل میں ہے گویا سایہ شیطانی ہی ہی لیکن اس کی وجہ سے مجھے بدایت ہوئی اب اس سایہ سے کوئی مطلب نہ رکھ بلکہ ہدایت سے مقصد ہے عبادت کے لئے نماز روزہ نوافل تلاوت اور ان کا کافی ہیں ہدایت کے لئے نور الہدی کافی ہے ۔ یہ خیال آنے کے بعد میں دوبارہ مضبوط ہو گیا اسکے بعد وہ سایہ چلہ گاہ میں نظر آیا لیکن میں نے اس کی طرف کوئی توجہ نہ دی اور پھر وہ بھی نظر آنا بند ہو گیا اب یہی خواہش ہے کی طرح سے حضور پاک سلام کا دیدار ہو جائے ،رات کا پہلا ہی حصہ تھا دیکھا کہ ایک سانولے رنگ کا آدی سر سے بنا میرے سامنے موجود ہے گلے میں ایک تخت پر بغیر زیروز بر کے رکھا ہوا ہے آواز آئی میں رسول الہ میں محمد عظیمی کر لو میرے

ذہن میں سوال ابھرارسول الله سلگایا تو نوری ہیں ، یہ سانولے کیوں ہیں جواب آیا تیرا دل ابھی سیاہ ہے ۔ سیاه آئینے میں سفید بھی سیاہ ہی نظر آتا ہے بات مجھ میں آئی اٹھنا چاہا لیکن معلوم ہوا کہ جسم پرینت گرفت ہے اور وہی سایہ سر پر مسلط ہے ۔ قدم بوی کا لمحہ گزرگیا دل میں سخت ملال ہے اور اس سایہ پر بڑا غصہ آرہا ہے۔ جی چاہتا ہے کہ ایک کو

خوب گالیاں بکوں لیکن یہ بھی خیال آتا ہے کہ اس سے ہدایت بھی ہوئی اور خون جگر پی کر رہ جاتا ہوں وقت گزرتا گیا اسم ذات کے ذکوبی روی سری وغیرہ ہوتے رہے۔ ایک دن ذکر جہری ضربیں لگا رہا تھا دیکھا کہ ایک سیاہ رنگ کا موٹا تاز و کت سانس کے ذریعے باہر نکلا اور بڑی تیزی سے بھاگ کر دور پہاڑی پر بیٹھ کر مجھے گھورنے لگا اور جب ذکر کی مشق بند کی تو دو بار جسم میں داخل ہوگیا۔ اب دوران ذ کر گاہے بنا ہے میں اس کتے کو دیکھتا۔ کچھ عرصہ کے بعد میں نے دیکھا کہ وہ کافی کمزور ہو چکا تھا۔ ایک دن ایبابھی آیا کہ وہ جسم سے کتا لیکن کمزور ہونے کی وجہ سے بھاگ ن سکتا۔ الٹو کی ضربوں سے اس طرح چیتا پلاتا جیسے اسے کوئی ڈنڈوں سے مار رہا ہو۔ اب کئی دنوں سے اس کا جسم

سے نکلنابند ہوگیا تھا لیکن دوران کر ان کی جگہ چھے کی طرح رونے کی آواز آئی کہ بائے میں مر گیا ہوئے میں جل گیا تقریبا تین سال بعد جہاں سے رونے کی آواز آتی اب کلمہ کی آواز آنا شروع ہوئی اور دن بدن یہ آواز بڑھتی گئی نات کی جگہ ہر وقت دھڑکن بہتی جیا عاملہ کے پیٹ میں بچہ ہو۔ ایک دن ذکر میں مشغول تھا جسم سے پھر کوئی چیز باہری دیکھا تو ایک بکرا میرے سامنے ذکر سے جھول رہا تھا بھی وہ بکرا میرے جسم میں داخل ہو جاتا اور بھی میرے ساتھ ساتھ رہتا۔

کچھ ماہ بعد اس بکرے کی شکل بدلنا شروع ہوئی تھی تو وہ مجھے بکرا دکھائی دیتا اور بھی میری شکل بن جاتا۔ اب وہ میری شکل بن چکا تھا۔ فرق صرف آنکھوں میں تھا اس کی آنکھیں گول اور بڑی میں میرے ساتھ ذکر میں بیٹھا میرے ساتھ نماز پڑھتا اور بھی بھی مجھ سے باتیں بھی کرتا اور ایک دن اس نے اپنا سر ق دموں میں رکھ دیا اور کہا اے باہمت شخص جانتا ہے میں کون ہوں میں نے کہا خبر ہیں کہے کہ میں تیر انس ہوں میں اور میرے

مرشد نے مجھے دھوکہ دینے کی بہت کوشش کی لیکن تیرا مرشد کامل تھا جس نے مجھے بچالیا میں نے کہا میر امرش کون ۔ اس نے کہا جس سایہ سے مجھے ہدایت ہوئی وہ تیرا رش تھا اور کی وجہ سے مجھے بدگمانی ہوئی وہ میرا مرشد نہیں تھا جو تیرے مرشد کے روپ میں پیشاب میں نظر آیا جو مصنوعی ۔۔۔ رسول ۔۔۔۔ جان کر آیا تھا وہ بھی میرا مرشد یہی تھا اور اس وقت جس نے مجھے بده ابلیس سے
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
بچالیا وہی تیرا مرشد تھا۔

آج آدھی رات ہو چکی ہے میں حسب معمول ذ کر انفاس میں مشغول ہوں چلہ گاہ کے باہب سنیوں کی آواز میں آنا شروع ہوئیں اور آہستہ آہستہ میوزک کی طرح بلند ہونے لگیں ۔ میں نے چلہ گاہ سے اٹھ کر دیکھا پیر ہیں لڑکیاں گول دائرے کی شکل میں قص کر رہی تھیں جسم پتے اور قد درمیانہ تھے پشت پر پرندوں کی طرح پر لئے ہوئے

تھے جن کے اوپر بال تھے قص بھی انوکھا اورخلوق بھی عجیب تھی سماں بھی دن کی طرح ہوگیاتھا میں نے مجھ پر یاں ہیں اور ان کاقص دیکھنے میں تو ہو گیا آواز آئی نہیں چھوڑ اور ذ کر کر میں نے کہا کرتوروز ہی کرتے ہیں اور روز ہی کریں گے لیکن یہ قص تو کبھی نہیں دیکھا اور شاید آیند بھی نہ دیکھ پائیں۔ میں چاہتا تھا کہ ان کی شکل بھی صافن صان نظر آئے میں دو قدم آگے بڑھتا ان کا دائرہ بھی دو قدم پیچھے ہٹ جاتا اور اسی طرح پڑھتے پڑے ہوئے اور ان کے چہرے کا بس لئے ہوئے میں باغ سے باہرنکل گیا اور پھر وہ مخلوق نظروں سے غائب ہوگئی ۔ بڑے

بڑے قد کے کالے آدمی میرے اوپر جھپٹے خوب مارا اتنا مارا کہ میں بے ہوش ہو گیا جب سورج کی روشنی منہ پڑی تو ہوش آیا جسم سخت دکھ رہا تھا ہر ہڈی در دظاہر کر رہی تھی سو چا اگر مر جاتا تو کیا ہوتا، وہ سائے جو اردگردمنڈلاتے رہتے تھے آج وہ بھی کام نہ آ ئے ان پر تو قع پیکار ہے میں اپنے آ پ کو ایک ولی

مجھنا شروع ہوگیا تھا لیکن آج پتہ چلا کہ میں کچھ بھی نہیں خوامخواہ اتنا عرصہ ضائع کیا پھر وہی خیالات شروع ہو گئے دھوبی کا کتا گھر کا گھاٹ کا۔ اگر تیرا م ر شد کامل ہوتا تو ضرور مرد کو جانتا اور اس بزرگ کی بات بھی یاد آئی کہ بتخص قند نہیں بن سکتا، اب ماں باپ اور چھ یاد آنا شروع ہو گئے۔ سوچا کسی سے کچھ ت م مانگ کر نواب شاه چلا جاؤں گا۔ وہاں رشتہ دار ہیں ان سے کرایہ لے کر پنجاب چلا جاؤں گا، چلہ گاہ میں ایک خادم بنام صالح محمد تھا وہ مجھ سے بہت عقیدت رکھتا اور ڈیوٹی والا فقیر محتا میری نظر اس

تھی آج وہ پہ گاہ میں آیا۔ درد اور بدگمانی کی وجہ سے آج مجھ سے کوئی نماز ادا نہ ہوئی سارا دن منانی کی جھونپڑی میں پڑا رباتی کہ مغرب کی نماز کا وقت ختم ہوگیا اور پھر فاتہ کا وقت بھی ختم ہونے لگا۔ آسمان پر اندھیرا چھا چکا تھا اچانک میری نظر شمال کی طرف آسمان پر پڑی تو کچھ عربی الفاظ نظر آ ئے غور سے دیکھا تو الا ان اولیاء الله لاخوف عليهم ولا هم يحزنون لکھا ہوا تھا۔ میرے دل میں خیال آیا کہ جو آیت آسمان پر دکھائی گی اللہ کے حکم سے ہوئی یعنی الله کی رضا ہے جب الله کی رضا ہے تو پھر درس کا امت کی اور پله گاہ میں بچ گیا۔ اب میرا تو کل بجائے بزرگوں کے اللہ پر قائم ہو چکا تھا۔ ایک دن باغ میں لیٹ کر مراقبے کی کوشش کر رہا تھا، ش کاری آواز سنائی دی آنکھیں کھول کر دیکھ تقریبا ایک گز کا سانپ مجھے گھور رہا تھا اب وہ میری طرف بڑھا مجھے وہ آیت یاد آئی سو پچاس کی حقیقت کا تھا کیا جائے وہ بالکل میرے منہ کے قریب بن گیاجونہی وہ ماتھے کاٹنے کے لئے ایک میں نے آنکھیں بند کرلیں ، ماتھے پر زبان لگ گئی اور پیچھے ہٹ گیا اور اس طرح تین دفعہ اس نے کاٹنے کی کوش ی آ پلاگیاس واقعہ کے بعد میرا یقین بہت ہی پختہ ہوگیا تھا۔

رات کے تقریبا تین بجے ہوں گے ذکر کی مشقت کے بعد کھڑے ہو کر درود شریف کا ورد کر رہا تھا جبر کا سماں ہوگیا چشموں کی طرف سے بے شما ر

داور بے شمارعورتیں قطار در قطارکھڑی ہیں سوچتا ہوں کہ شاید آج کوئی مرتبہ ملنے والا ہے لوگ مجھے دیکھنے کے لئے آئے ہیں لیکن خیال آتا ہے کہ ان کی پشت میری طرت ہے یہی اور کا انتظار کر رہے ہیں مغرب کی طرف سے ایک سبز رنگ کا روضہ اڑ تا آرہا ہے اور جہاں وہ لوگ جمع ہیں میں اتر گیا۔ روضے میں سے ایک نورانی صورت نمودار ہوئی عورتوں نے دیکھ کر جھومنا شروع کر دیا ان کی زبان پر یہ الفاظ تھے ۔ یانبی الاسلام عليك يارسول الا سلام عليك مردبھی جھوم رہے تھے اور الصلوة والسلام عليك یارسول اللہ پڑھ رہے تھے اب وہ بزرگ مجمع سے گزر کر میری طرف بڑھے جوں جوں قریب آرہے تھے خوشی سے آنسو جاری ہو گئے دیکھنے کی خواہش ہے لیکن نظر و پیرو ہیں انستی نور ہے جسے آنکھوں کو دیکھنے کی تاب نہیں دیکھوں تو ارمان رہے اور دیکھوں تو جان جائے۔

جب تقریب دس بارہ فٹ کے فاصلے پر پانچ تو جسم جھومتے جھومتے بے قابو ہوگیا اور زمین سے تین پافٹ آٹھ گیا یعنی ہوا میں جھوم جھوم کر درود شریف پڑھا جارہا تھا۔ ستی کا عالم بڑ ھا بے ہوشی طاری ہونے لگی اور پھر جسم کے زمین پر گرنے کی آواز سنائی دی جب ہوش آیا تو وہ پورا ع لاقه ستوری بھی خوشبو سے مہک
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
رہاتھا۔ دوسری شب روضہ مبارک کی حاضری ہوئی جب دروازے سے اندر داخل ہوا تو دیواروں سے انا نور برس رہا تھا کہ میں اوپر اٹھائی جاسکتی تھیں کچھ قدم آگے بڑھا لیکن تاب دلا سکنے کی وجہ سے واپس آنا پڑ ا تین دن بعد پھر روضہ مبارک کا دیدار ہوا۔ اب بھی دیواروں کی وہی حالت تھی لیکن آنکھوں میں کچھ تاب آگئی تھی اس وجہ سے نظر حضور پاک ملتان کے قدموں تک پانی کی لیکن چہرہ مبارک کو دیکھا جاسک اور چھرئی دنوں کے بعد آننظر

پر م بارک پرنک ہی گی پھر اسی گئی کہ بیٹے کانام بھی نہ سیتی مجبور او ایسی ہوتی اور یشعر دل میں گونجتا رہتا۔

ہم مدینے سے اللہ کیوں آگئے

قلب میراں کی تسکیں وہیں رہ گئی اس وقت پر کام پرکوئی چھت نہیں تھی رات کو بارش ہوتی رہی اور میں بھیتار باسی مطلع حصان ہوگیال پاہتا ہے کوئی ان کا بندہ ایک کپ پا ئے ہی پلادے۔ سامنے رمضان کا ہوٹل ہے چائے بن رہی ہے لوگ پی رہے ہیں اور میں خیالات میں غرق ہوں کہ میرے ماں باپ بہن ، بھائی اولاد کارو بار سب کچھ ہے لیکن آج تیرے پاس ایک اتنی بھی ہیں کہ چائے کی پیالی پی سے مجھے اپنی بے بسی پر خیال آیا اور ساتھ دو چار آنسو بہہ گئے۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور زبان پر ہاتھ رکھ کر دعا کے

لئے اشارہ کیا رمضان بھی بن گیا۔ اس نے بتایا کہ ایک سال سے اس کی زبان بند ہے ہر علاج کیا ہر دربار پر گئے مگر زبان محل سکی میں نے ویسے ہی کان بل منگوا کر آیت الکرسی لکھ دی کہ اسے پل دو رو شخص پانی پیتے ہی بولنا شروع ہوگیا۔ اس وقت لال باغ میں نعرے لگے اور چائے بسکٹوں کا ڈھیر لگ گیا اور میرے آنسو پھر جاری ہو گئے کہ اے مالک تیرا شکر ہے کہ ایک تاچی بندہ کو اس قابل بنا دیا اس واقعہ کے بعدلوگ میری بہت عزت کرتے اور ضرورت کی ہر چیز بغیرطلب کے ملنا شروع ہوئی پارسال پھٹا پرانا جوڑ اتر اور زیارت اور پاجامد زیب تن ہوا ہر ہوٹل والے کی خواہش ہوتی کہ چائے اور کھانا یہیں سے کھائے لوگ بھی دور دور سے دیکھنے کے لئے آتے گھرکادیسی گھی مکھن اور مٹھائی وغیرہ لے آتے۔

ایک رات چشموں کی طرف سے ایڈو کی آواز آنے لگی مجھ کوئی طالب الہ ہونے جا کر دیکھتے ہیں چاندنی رات تھی ایک ادھیڑ عمرکا آدمی ادھر ادھر سے بے خبر ذکر میں مشغول تھا، جب الله کہتا تو آسمان کی طرف ہاتھ پھیلا تھا۔ جب خو کرتا تو دونوں ہاتھوں کو اپنے منہ کی طرف لے آتا جیسے منہ میں کوئی چیز ڈال رہاہور میں کافی دیر تک ا س انوکھے طریقے کو دیکھتا رہا اور پھر واپس چلہ گاہ میں آگیا تھوڑی دیر میں قریبی مسجد سے فجر کی اذان بلند ہوئی مسجد میں گیاوہی رات و الا ذاکر نماز پڑھ رہا تھا میں نے بھی جلدی جلدی نماز پڑھی تا کہ اس سے کچھ راز معلوم کرسکوں اس سے پوچھا آپ رات کو ذکر کر رہے تھے اس نے کہا جی ہاں میں نے کہایہ ذکر کتنے عرصے سے کر رہے ہیں ۔ کہنے کی بارہ تیرہ سال ہو چکے ہیں پوچھایٹر بیت کونسا ہے کہنے لگا جب ہاتھ اوپر اٹھایا تو تصور یہ ہوتا ہے کہ ان کو پھر رہا ہوں جب ہاتھ منہ کی طرف لایا تو تصور یہ ہوتا کہ الله میرے منہ میں چلا گیا ہے ۔ پو چھائی طریقوں نے سکھایا اس نے کہا ایک ملنگ ملا تھا اس نے اس طرح بتایا پوچھا کوئی کامیابی ہوئی کہنے لگا دل تک تو ابھی ذکرنہیں پہن ایکن اتنا ضرور ہوا کہ جب خ انہ

کعبہ میں اذان ہوتی ہے تو مجھے یہاں سنائی دیتی اس نے بتایا کہ مچھیرا ہوں ۔ ماہی گوٹھے کے سامنے میری جھونپڑی ہے جس میں میرے بیوی نے موجود ہیں میں دن کو مچھلیاں پکر تا ہوں اور رات کا اکثر حصہ اسی طرح ذکر میں گزارتا ہوں تین ماہ کی بات ہے میری کشتی میں ایک خوبصورت عورت اکیلے میں بیٹھگی میں نے بے خودی سے اس کی اگلی پھولی اس واقعہ کے بعد وہ اذان کی آواز نہ ہوئی ہیں تو یہ تھا کہ بارہ سال کی محنت ایک پل میں نمائع ہوئی اس کی آنکھوں میں آنسوآئے اور ایک طرف چل دیا۔

لال باغ میں دن کو زائرین آتے اور رات کو طالب اپنی قسمت آزماتے۔ ایک رات جب کہ میں اپنے ذکر میں مشغول تھا چہ گاہ سے باہرقت الد کی صدا بلند ہوئی تھوڑی دیر تک حق ال ہوتا رہا پھر ایسے لگا جیسے کوئی کسی کو ڈنڈے مار رہا ہواور پھر گالیاں بکنے کی آواز آنے لگی ساری رات بلاطینی میں گزری مسج جب پارگاہ سے باہر نکا دیکھا کافی ضعیف آدمی لیٹا ہوا تھا۔ مجھے دیکھ کربیٹھ گیا اور اپنی طرف بلالیا اور کہنے کا تو ساری رات ذکر کرتا ہے کیا تجھے رکاوٹ نہیں ہوتی میں نے کہا پہلے تو بھی نہیں ہوئی لیکن آج آپ کے آنے سے ہوئی کیون کی بھی زمین پر ڈٹے مارتے اور بھی گالیاں دیتے تھے کہنے کے بعد میں نہیں گالیاں نہیں دے رہا تھا بلکہ جب میں ذکر کرتا چھ آدمی
 
Top