ڈنڈے لے کر آتے اور مجھے مارتے اور پھر میں ان کو اپنے ڈنڈے سے مارتا پھر وہ مجھے گالیاں بکتے اور میں ان کو بتا۔۔۔ غصہ چھ سال سے یہی حال ہے سو چا ک چلہ گاہ پر قسمت آزماؤں لیکن کم بخت یہاں بھی بن گئے۔ میں نے کہا کوئی مرشد پیر و جوان سے نئے کہنے کا ظاہر میں تو کوئی ایسا نظرنہیں آتا جو اس راستے پر چلا سکے۔ ایک دن میں مرید ہونے کے لئے غار کے پاس والے مزار پر گیا۔ راستے میں آواز آئی میں ہی تمہارے لئے کافی ہوں ۔ میں نے جھالله تعالی کی آواز ہے اور پھر میں نے کبھی بھی مرشد کے بارے میں دو پا تقریبا ایک ماہ تک بڑے میاں اسی طرح شور شرابا کرتے رہے ایک نے دیکھا کہ بڑے میاں آسمان کی طرف ٹکٹکی باندھے ہوئے ہیں نہ تک اسی حال میں رہے لوگوں کا خیال تھا کہ دیدار الہی میں پانچ گئے ہیں عصر کے وقت کچھ سائے نظر آئے جوڑے میاں کو باندھ کر دریا کی طرف لے جارہے تھے اور بڑے
میاں کو دریامیں گرادیا۔
لوگوں نے ان کو دریا سے نکالا ان کی زبان پر یہ الفاظ تھے مجھے فور در بارشریف لے چلو۔ یہاں شیطانوں نے پریشان کر دیا ہے لوگ انہیں ٹانگے میں ڈال کرسہون شریف لے گئے اور بڑے دروازے کے نزدیک ہی ان کو لٹادیا وہاں ان کی حالت کچھ بھی میں شناخت کا ماد ختم ہو گی اور کچھ دنوں کے بعد ان کا انتقال ہوگیا۔
ایک دن باغ میں ایک لمبا ر نا مرید شخص آیا اور مجھے گھورنے کا اور پھر پیموں کی طرتن پلاگیا تقریبا تین بجے شب وہ دوبارہ آیا اندھیرے میں اس کی آنکھیں آگ کے انگاروں کی طرح چمک رہی تھیں جوں جوں قریب آتا جسم میں سنسنی پھیل جاتی حتی کہ بالکل ہی دو تین فٹ کے فاصلے پر آگیامیں نے دیکھاکہ میرے سینے کے ذکر بہت ہی تیز ہو گئے اور سینے سے ایک سفید رنگ کا شعل نگا جو اس کے جسم پر پڑا اور وہ اس شعلے کی تکلیف سے چند قدم پیچھے ہٹ گیا۔ اب اس نے پتھر اٹھا کر مجھے مارنے شروع کر دیئے۔ اب میری شکل کا ایک اور آدمی اس کے سامنے آگیا اور میں اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ وہ میرا کوئی نہ تھا وہ آدمی کچھ پڑھ کر ے پر پھونکتا تو آگ
کے شعلے نکلتے اور جس کو تین ہوتی اور نہ کچھ پڑھ کر اس پر پھونکتا تو اس کو کھیت ہوتی تقریبا آدھ گھنٹہ ایسا ہوتا اور پھر اس کے منہ سے لگاتار آگ نکلنا شروع ہوئی اور جنه فورا کھجور کے درخت پر پرندے کی طرح اڑ کر بیٹھ گیا اس کے منہ کی آگ وہاں تک پہنچ سکتی تھی اس لئے اس نے درخت پر پتھر برسانا شروع کر دیئے اورکوئی بھی پتھر کے کو رد یا حتی کہ غصے میں آ کر اس نے درخت پر چڑھنا شروع کیا اور جب وہ جے کے قریب پہنچا توہ شاہین کی طرح آسمان کی طرف پرواز کر گیا اور وہ دیکھتا ہی رہ گیا وہ ہی مجھ رہا تھا کہ سارا کمال میرے ظاہری جسم کا ہے اور پھر حیران و پریشانی کی حالت میں وہ باغ سے باہر چلا گیا۔ اس واقعہ کے بعد میراجہ کئی لوگوں کو ظاہر میں ملنا شروع ہوگیا لوگ مجھے سہون دیکھتے جب لال باغ آتے تو یہاں بھی موجود پاتے اور پھر میری شکل
کے نو(۹) انسان ظاہر ہوئے جب ذکر کرتا حلقہ بنا کر بیٹھ جاتے اور جب نماز پڑھتا تو مقتدی بن جاتے ۔ جب میں سوتا میری حفاظت کرتے اور نماز کے لئے جگا دیتے اور بعد میں ان ہی جنوں نے خدمت خلق کا کام انجام دیا یعنی جنات
کے مریضوں کے جنات پکڑتے کشن والوں کی رہبری کرتے اور میرے عقیدت مندوں کو خواب یا ظاہر میں میرا کوئی پیغام پہنچاتے ۔ جن لوگوں کا اسم ذات کار کر دیا جاتا ان کے دل کی دھڑکن کے ساتھ الله ال ملانے کی کوشش کرتے۔ اس طرح ہزاروں کے قلب اسم ذات سے منور ہوئے۔
ایک دو پیرو میں چشموں کی طرف چلاگیا راستے میں ایک نوجوان عورت لیٹی ہوئی تھی۔ اس نے مجھے بڑی عاجزی سے پیار کی سائیں بابا ادھر آو میں ا س کے قریب چلاگیا اور پوچھا کرتم اس ویرانے میں ایل کیوں اور کیسے آئی ہو وہ رونے لگی اور کہا میری کوئی اولاد نہیں ہے دعا کرو الله تعالی مجھے ایک فرزند دے د ے میں نے کہا میں ابھی دعاؤں کے قابل کہاں ہوا۔ پھر کہنےلگی اچھا ترک کر دیکھو کہ پیٹ میں بچہ ہے یا نہیں۔ میں نے کہ کسی عورت کو کھانا کہنے لگی ا س
وقت تم ہی سب کچھ ہو اور پھر انہوں سے لپٹ گئی اس کی آنکھیں بلور کی طرح چمک رہی تھیں اور میں بانہوں سے چھڑانے کی کوشش کرتا لیکن اس کی گرفت سخت تھی۔ آخر میں نے عاحبزی سے کہا اے محترمہ مجھے چھوڑ دے۔ میں اس وقت چل میں ہوں اور جلالی اور جمالی پر ہی کی وجہ سے دنیا کو چھوڑے ہوئے ہوں کہنے لگی مجھے اس سے کیا اور پھر گریبان بھی پکڑ لیا۔ اتنے میں تین چار آدمی چشموں کی طرف سے آتے ہوئے دکھائی دینے اور اس نے مجھے چھوڑ دیا اور میں باغ میں واپس پہنچ گیا۔ اب اس عورت نے بھی باغ میں ڈیرا کالیادان کو میرے آگے پیچھے ہوتی رہتی لیکن رات کو ہمیں نظر آئی ایک ہفتہ اسی طرح گزرگیا ایک رات وہ چلہ گاہ میں لے گئی اور مجھے چھیڑنے کیا۔ پاس ہی قرآن مجید پڑا ہوا
میاں کو دریامیں گرادیا۔
لوگوں نے ان کو دریا سے نکالا ان کی زبان پر یہ الفاظ تھے مجھے فور در بارشریف لے چلو۔ یہاں شیطانوں نے پریشان کر دیا ہے لوگ انہیں ٹانگے میں ڈال کرسہون شریف لے گئے اور بڑے دروازے کے نزدیک ہی ان کو لٹادیا وہاں ان کی حالت کچھ بھی میں شناخت کا ماد ختم ہو گی اور کچھ دنوں کے بعد ان کا انتقال ہوگیا۔
ایک دن باغ میں ایک لمبا ر نا مرید شخص آیا اور مجھے گھورنے کا اور پھر پیموں کی طرتن پلاگیا تقریبا تین بجے شب وہ دوبارہ آیا اندھیرے میں اس کی آنکھیں آگ کے انگاروں کی طرح چمک رہی تھیں جوں جوں قریب آتا جسم میں سنسنی پھیل جاتی حتی کہ بالکل ہی دو تین فٹ کے فاصلے پر آگیامیں نے دیکھاکہ میرے سینے کے ذکر بہت ہی تیز ہو گئے اور سینے سے ایک سفید رنگ کا شعل نگا جو اس کے جسم پر پڑا اور وہ اس شعلے کی تکلیف سے چند قدم پیچھے ہٹ گیا۔ اب اس نے پتھر اٹھا کر مجھے مارنے شروع کر دیئے۔ اب میری شکل کا ایک اور آدمی اس کے سامنے آگیا اور میں اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ وہ میرا کوئی نہ تھا وہ آدمی کچھ پڑھ کر ے پر پھونکتا تو آگ
کے شعلے نکلتے اور جس کو تین ہوتی اور نہ کچھ پڑھ کر اس پر پھونکتا تو اس کو کھیت ہوتی تقریبا آدھ گھنٹہ ایسا ہوتا اور پھر اس کے منہ سے لگاتار آگ نکلنا شروع ہوئی اور جنه فورا کھجور کے درخت پر پرندے کی طرح اڑ کر بیٹھ گیا اس کے منہ کی آگ وہاں تک پہنچ سکتی تھی اس لئے اس نے درخت پر پتھر برسانا شروع کر دیئے اورکوئی بھی پتھر کے کو رد یا حتی کہ غصے میں آ کر اس نے درخت پر چڑھنا شروع کیا اور جب وہ جے کے قریب پہنچا توہ شاہین کی طرح آسمان کی طرف پرواز کر گیا اور وہ دیکھتا ہی رہ گیا وہ ہی مجھ رہا تھا کہ سارا کمال میرے ظاہری جسم کا ہے اور پھر حیران و پریشانی کی حالت میں وہ باغ سے باہر چلا گیا۔ اس واقعہ کے بعد میراجہ کئی لوگوں کو ظاہر میں ملنا شروع ہوگیا لوگ مجھے سہون دیکھتے جب لال باغ آتے تو یہاں بھی موجود پاتے اور پھر میری شکل
کے نو(۹) انسان ظاہر ہوئے جب ذکر کرتا حلقہ بنا کر بیٹھ جاتے اور جب نماز پڑھتا تو مقتدی بن جاتے ۔ جب میں سوتا میری حفاظت کرتے اور نماز کے لئے جگا دیتے اور بعد میں ان ہی جنوں نے خدمت خلق کا کام انجام دیا یعنی جنات
کے مریضوں کے جنات پکڑتے کشن والوں کی رہبری کرتے اور میرے عقیدت مندوں کو خواب یا ظاہر میں میرا کوئی پیغام پہنچاتے ۔ جن لوگوں کا اسم ذات کار کر دیا جاتا ان کے دل کی دھڑکن کے ساتھ الله ال ملانے کی کوشش کرتے۔ اس طرح ہزاروں کے قلب اسم ذات سے منور ہوئے۔
ایک دو پیرو میں چشموں کی طرف چلاگیا راستے میں ایک نوجوان عورت لیٹی ہوئی تھی۔ اس نے مجھے بڑی عاجزی سے پیار کی سائیں بابا ادھر آو میں ا س کے قریب چلاگیا اور پوچھا کرتم اس ویرانے میں ایل کیوں اور کیسے آئی ہو وہ رونے لگی اور کہا میری کوئی اولاد نہیں ہے دعا کرو الله تعالی مجھے ایک فرزند دے د ے میں نے کہا میں ابھی دعاؤں کے قابل کہاں ہوا۔ پھر کہنےلگی اچھا ترک کر دیکھو کہ پیٹ میں بچہ ہے یا نہیں۔ میں نے کہ کسی عورت کو کھانا کہنے لگی ا س
وقت تم ہی سب کچھ ہو اور پھر انہوں سے لپٹ گئی اس کی آنکھیں بلور کی طرح چمک رہی تھیں اور میں بانہوں سے چھڑانے کی کوشش کرتا لیکن اس کی گرفت سخت تھی۔ آخر میں نے عاحبزی سے کہا اے محترمہ مجھے چھوڑ دے۔ میں اس وقت چل میں ہوں اور جلالی اور جمالی پر ہی کی وجہ سے دنیا کو چھوڑے ہوئے ہوں کہنے لگی مجھے اس سے کیا اور پھر گریبان بھی پکڑ لیا۔ اتنے میں تین چار آدمی چشموں کی طرف سے آتے ہوئے دکھائی دینے اور اس نے مجھے چھوڑ دیا اور میں باغ میں واپس پہنچ گیا۔ اب اس عورت نے بھی باغ میں ڈیرا کالیادان کو میرے آگے پیچھے ہوتی رہتی لیکن رات کو ہمیں نظر آئی ایک ہفتہ اسی طرح گزرگیا ایک رات وہ چلہ گاہ میں لے گئی اور مجھے چھیڑنے کیا۔ پاس ہی قرآن مجید پڑا ہوا