• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

سیرت المہدی

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 1001} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولوی ذوالفقار علی خاں صاحب رام پوری حال قادیان نے مجھ سے بیان کیاکہ۱۸۸۴ء میں جب کہ میں سکول میں پڑھتا تھا ۔ ایک رات کو تاروں کے ٹوٹنے کا غیر معمولی نظارہ دیکھنے میں آیا، رات کے ایک لمبے حصہ میں تارے ٹوٹتے رہے اور اس کثرت سے ٹوٹے کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ تیروں کی بارش ہورہی ہے ۔ ایک حصہ تاروں کا ٹوٹ کر ایک طرف جاتا اور دوسر ا دوسری طرف۔ اور ایسا نظر آتا کہ گویا فضا میں تاروں کی ایک جنگ جاری ہے ۔ یہ سلسلہ ۱۰بجے شب سے لے کر۴بجے شب تک جاری رہا۔ مَیں نے اس واقعہ کا ذکر ایک مجلس میں غالباً۱۹۱۰ء میں کیا تھا تو ایک بہت شریف اور عابد وزاہد معمر انسان نے کہا کہ مجھے بھی وہ رات یاد ہے ۔ میرے پیرو مرشد حضرت قبلہ علامہ مولوی ارشاد حسین صاحب نور اللہ مرقدہٗ نے یہ عالَم دیکھ کرفرمایا تھا کہ ظہور حضرت امام مہدی علیہ السلام ہوگیا ہے ۔ یہ اسی کی علامت ہے ۔ مولوی ارشاد حسین صاحب زبرست علماء میں سے تھے۔ انصار الحق وغیرہ آپ کی مشہور تصانیف ہے اور یہ مولوی احمد رضا خاں بریلوی کے پیر تھے ۔ لیکن جب میں نے بعد میں اُن مولوی صاحب کے ایک دوست سے جس نے یہ روایت بیان کی تھی یہ کہا کہ شہادت لکھ دو تو اُس نے لکھنے سے انکار کردیا ۔ مگر زبانی مانتا تھا کہ اُن مولوی صاحب نے ایسا کہا تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ستاروں کا گرنا بہت سے نبیوں کے لئے بطور علامت واقع ہوچکا ہے اور حضرت صاحب نے لکھا ہے کہ یہ جو حضور کی بعثت کے وقت غیر معمولی طور پر ستارے گرتے نظر آئے۔ یہ حضور کے لئے بطور علامت تھا اور اس سے مراد یہ تھی کہ اب گویا کواکب یعنی علماء کے گرنے کا وقت آگیا ہے جس کے بعد سورج کا طلوع ہوگا۔
{ 1002} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ قادیان نے مجھ سے بیان کیا کہ جب میں قریباً آٹھ دس سال کی عمر کا تھا۔ (اس وقت میری عمر پچپن سال کی ہے ) ایک دفعہ میرے حقیقی چچا مرحوم حافظ حکیم خد ابخش صاحب احمدی جو اوائل سے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مصدّق تھے اور بیعت میں صرف اس خیال سے دیر کرتے چلے گئے کہ میں بہت ہی گنہگار اور آلودہ دامن ہوں۔ میرا وجو دسلسلہ حقہ کے لئے ایک بدنما داغ ہوگا اور اس کی بدنامی کا باعث ہوگااور آخر حضور کی رحلت کے بعد اوائل۱۹۰۹ء میں انہوں نے تحریری طور پر حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ کسی لمبے سفر سے واپس آئے ۔ جب مجھے معلوم ہواتو میں اُن سے ملنے کے لئے ان کے پاس گیا۔ انہوںنے مجھے ایک کتاب دی ۔ جسے لے کر میں بہت خوش ہوا۔ اس کتاب کے مجھے دینے سے اُن کا مقصد یہ تھا کہ میرے والد صاحب اسے دیکھ لیں ۔ دوسرے روز میں شوق سے وہ کتاب ہاتھ میں لئے مسجد کی طرف قرآن کریم کا سبق پڑھنے کے لئے جارہا تھا ۔ اتفاق سے میرے والد صاحب راستہ میں ہی ایک چھوٹی سی مجلس میں بیٹھے تھے۔ میرے ہاتھ میں وہ کتاب دیکھ کر انہوںنے لے لی اور دیکھنے لگے ۔ کسی نے پوچھا کہ یہ کیا کتاب ہے ۔ میرے والد صاحب نے کہا کہ یہ ایک بزرگ ولی اللہ کی کتاب ہے ۔ جن کی دعائیں بہت قبول ہوتی ہیں اور ساتھ ہی بیان کیا کہ میں ایک دفعہ فساد خون کے عارضہ سے دیر تک بیمار رہاتھا۔ ان ایام میں مجھے ان بزرگ ولی اللہ کے متعلق اطلاع ملی اور یہ بھی کہ ان کی دعائیں بہت قبول ہوتی ہیں ۔ میں اس وقت بغرض علاج لاہور (یا امرتسر اس وقت خاکسار کو صحیح یاد نہیں رہا کہ کس شہر کانام لیا تھا) گیا ہوا تھا ۔ وہیں یہ بات مجھے معلوم ہوئی تھی ۔ جس پر میں نے ان کی خدمت میں (حاضر ہو کر نہیں بلکہ تحریراً یا کسی صاحب کی زبانی جس کی تفصیل اب خاکسار کو یاد نہیں رہی )اپنی صحت یابی کے لئے دعا کے واسطے عرض کیا تھا۔ سو اللہ تعالیٰ نے مجھے صحت بخشی ۔ یہ واقعہ بچپن میں میں نے غالباً متعدد دفعہ اپنے والد صاحب (مولوی محمد بخش صاحب) سے سنا تھا۔ اس کے بعد وہ کتاب میرے والد صاحب نے مجھے واپس دے دی اور وہ مدت تک میری پاس رہی ۔ جب میں بڑ اہوا تو اس کے نام وغیرہ کی شناخت ہوئی۔ یہ کتاب سرمہ چشم آریہ تھی جو ۱۸۸۶ء کی تصنیف ہے ۔
{ 1003} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں حیات محمد صاحب پنشنر ہیڈ کانسٹیبل پولیس نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کرم دین کے مقدمہ میں جہلم تشریف لائے تو سردار ہری سنگھ کی درخواست پر آپ اُن کی کوٹھی میں مقیم ہوئے ۔ کھانا وغیرہ کا انتظام جماعت کے ذمہ تھا۔ کوٹھی نہایت خوبصورت اور سجائی گئی تھی۔ باورچی نے کارکنوں سے حضور کے لئے ایک چوزہ مرغ طلب کیا تو وہ لوگ حیران ہوئے کہ اب کہاں سے ملے گا۔ مجھے علم تھا کہ حضور کچھ عرصہ سے چوزہ مرغ بطور دوائی استعمال فرماتے ہیں اس لئے میں نے چار چوزے اپنے پاس اسی غرض سے رکھے ہوئے تھے ۔ میں فورًا گیااور چاروں لے آیا اور وہ چوزے تین دن تک کام آگئے ۔ چونکہ میں نے تین دن کی رخصت لی ہوئی تھی اس لئے میں دن رات حضور کے پاس رہتا اورحضور کے جسم مبارک کو دباتا تھا۔ میں۹۴ء سے حضور کا عاشق تھا۔ رات بھر حضور کے بدن کو دباتا۔ جب حضور کروٹ بدلتے تو کھانسی کی تکلیف کے وقت منہ مبارک سے معصوم بچوں کی سی آواز نکلتی ’’اللہ‘‘ ۔ حضور فرماتے تھے کہ خشک کھانسی بھی ایک وبا کی طرح ہے ۔ پیشاب کی بار بار حاجت ہوتی۔ حمام میں گرم اور سرد دونوں پانی موجو دتھے۔ آپ لوٹے میں دونوں کو ملا کر استعمال فرماتے۔ میرے دباتے ہوئے جب حضور انور کروٹ لیتے تو فرماتے کہ ’’ آپ بس کیجئے ‘‘۔ مگر مجھے ان الفا ظ کے سننے سے از حد خوشی ہوتی اور میں حضور کو دباتا چلا جاتا تھا۔
{ 1004} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں حیات محمد صاحب پنشنر ہیڈ کانسٹیبل پولیس نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیا ن کیا کہ جس دن عدالت میں مقدمہ کی پیشی تھی۔ صبح نو بجے تک بیعت ختم نہ ہوئی تھی پھر کچہری کے لئے تیاری شروع ہوئی ورنہ لوگ تو بس نہ کرتے تھے۔ رات کو عورتوں کی بیعت کی باری آیا کرتی تھی۔ اُن کے خاوند دروازوں پر کھڑے ہوتے تھے ۔ حضور اقدس کرسی پر اونچی جگہ تشریف رکھے ہوتے ،بلندآواز سے اپنی جگہ پر ہی اللہ اور اس کے رسول کے احکام حسب ضرورت عورتوں کو سناتے تھے اور حضرت صاحب نے میاں بیوی کے حقوق اور تعلقات کو خوب واضح طور پر بیان کیا تھا ۔ حضور عورتوں کی بیعت لیتے وقت ہاتھ یا کپڑا وغیرہ نہ پکڑتے تھے بلکہ آپ اونچی جگہ پر بیٹھ کر اپنی تعلیم سنا دیتے تھے اور پھر لمبی دعا فرما کے اپنے کمرہ میں چلے جاتے تھے ۔ اُن دنوں سخت سردی پڑتی تھی۔ جس دن پیشی تھی اُسی رات مجھ کو خواب آیا اور وہ میں نے حضرت کو سنا دیا تھا کہ دہکتے ہوئے انگاروں سے ایک چولہا بھرا ہو اہے ۔ اُس پر حضور کی آرام کرسی رکھی گئی ہے، اُس پر آپ بیٹھے ہیں ۔ آگ کی بھاپ شعلے مار مار کر تمام بدن سے نکلتی جاتی ہے۔ اسی طرح کپڑوں اور بالوں سے اور ہم لوگ خوش ہورہے ہیں کہ دھواں تو نہیں ہے بلکہ بھاپ ہے۔ بالوں میں سے پانی کے قطرے نیچے گر رہے ہیں ۔ تو میں کہہ رہاہوں کہ سبحان اللہ! ابراہیم علیہ السلام والی پوری مثال ہے ۔ اس موقعہ پر قُلْنَا یَا نَارُ کُوْنِیْ بَرْدًاوَّسَلَامًا عَلٰی اِبْرَاہِیْم (الانبیائ:۷۰) کی مثال صادق آرہی ہے ۔ جب میں نے یہ خواب حضور کو سنائی تو حضور اقدس علیہ السلام نے ہنس کو فرمایا کہ دشمن نے آگ بھڑکائی مگر اللہ نے ٹھنڈی کر دی ہے۔ تمام دشمنوں نے زور لگایا۔ ایک طرف تمام مخالف تھے اور ایک طرف خدا کا مرسل تھا۔ ایک طرف حکومت کے لوگ اور بڑے بڑے رئیس ،مجسٹریٹ اور وکیل اور چھوٹے چھوٹے ملازم تھے۔ یہ سب لوگ کرم دین پر خوش تھے کہ اُس نے دعویٰ کیا ہے مگر خدا نے اُن کو ناکام کردیا ۔
{ 1005} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں حیات محمد صاحب پنشنر ہیڈ کانسٹیبل پولیس نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مقدمہ کی تاریخ سے ایک ماہ قبل میری بیوی کو خواب آئی تھی کہ حضرت سلمان فارسی جن کی قبر ۹گز لمبی دریائے جہلم کے کنارے پر ہے ۔ وہ چوک میں کھڑے ہوکر بآواز بلند یہ کہتے ہیں ۔ سنو لوگو!یہ جو دو فریق آپس میں جھگڑا کر رہے ہیں ۔ ان میں سے ایک سیّد ہے جو مرزا صاحب ہیں اور دوسرا مولوی جو ہے وہ ڈوم ہے ۔ جب حضور کو یہ خواب سنائی گئی۔ تو حضور نے ’’ہیں‘‘ کہہ کر فرمایا کہ ڈوم کیسے ہوتے ہیں۔ اس پر دوستوں نے بتایا کہ ڈوم میراثی ہوتے ہیں ۔ تحصیل دار نواب خان نے بھی کہا کہ حضور میراثی لوگ ڈوم ہوتے ہیں ۔ اسی طرح ایک روز مفتی محمد صادق صاحب نے بھی اپنی خواب سنائی ۔ خواب مجھے یاد نہیں رہی۔ میں اپنی بیوی کے اکثر خواب حضور علیہ السلام کی خدمت میں تحر یر کر کے تعبیر منگواتا رہتا تھا ۔
{ 1006} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں حیات محمدصاحب پنشنر ہیڈ کانسٹیبل پولیس نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ۔ کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام عدالت میں گئے تو بہت ہجوم حضور کے ساتھ اندر چلا گیا۔ آخر کھلے میدان میںحضور کی کرسی سرکاری جمعدار نے رکھی ۔چار پانچ کرم کے فاصلہ پر مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی نے اپنا وعظ شروع کیا تو محمد دین کمپونڈر نے کہا ۔ حضور! مولوی ابراہیم نے یہاں آکر ہی وعظ شروع کردیا ہے۔ اس وقت میں بھی حضور کے پاس تھا تو حضور نے اپنے ہاتھ سے اپنی جیب سے ایک رسالہ ’’مواہب الرحمن‘‘ نکال کر دیا کہ میری یہ کتاب اُسے دے دو۔ ابھی اُس نے وعظ شروع ہی کیا تھا کہ ڈپٹی صاحب نے حکم دیا کہ اس کو یہاں سے نکال دو۔ اگر وعظ کرنا ہے تو شہر میں جاکر کرے ۔سپاہیوں نے اسی وقت اسے کچہری سے باہر نکال دیا۔ جب اُس نے جلدی سے کتاب پر نظر ماری تو صفحہ۲۵پر نظر پڑی ۔ جہاں لکھا تھا ’’کرم دین کذّاب‘‘ فوراً کرم دین کو جاکر دیا کہ دیکھو تم کو یہ لکھا گیا ہے ۔اُس نے اپنے وکیل شیخ محمد دین کو دکھایا ۔ وکیل نے کہا کہ اس کا بھی دعویٰ کردو۔ اُسی وقت مولوی ابراہیم اور کرم دین اور شیخ محمددین وکیل میاں نظام دین سب جج کی کچہری میں چلے گئے اور اُس کو دکھا کر کہا کہ یہ وہ کتاب ہے اور اب موقعہ ہے۔ ہم دعویٰ آپ کی عدالت میں کرتے ہیں۔ اُس جج نے جواب دیا کہ میرے پاس دعویٰ کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا کیونکہ کرم دین بھی سنی مسلمان ہے اور میں بھی سنی مسلمان ہوں ۔ جب جج مذکور نے یہ جواب دیا وہ اپنا سا منہ لے کر واپس آگئے ۔ بندہ اچانک اُسی وقت اس جج کی کچہری میں ان تینوں کے پیچھے کھڑا یہ کارروائی دیکھ رہا تھا ۔ ہاں البتہ اُس نے ان کو یہ کہا کہ یہ دعویٰ بھی اُسی ڈپٹی کمشنر کے پاس کرو جس کے پاس پہلا دعویٰ ہے۔ ڈپٹی نے خوب دونوں دعووں کو اڑایا اور کرم دین کو کہا کہ تم نے خود اپنے لئے یہ ثابت کردیا ہے کہ ضرور میں جھوٹااور کمینہ ہوں ۔ کیونکہ تعزیرات ہند میں یا سرکاری قانون میں تو یہ جرم نہیں ہے کیونکہ مرزا صاحب تو کہتے ہیں کہ خدا نے الہام سے مجھے یہ کہا ہے ۔ قانون سے جرم تب ہوتا اگر یہاں کرم دین کی ولدیت وسکونت کتاب میں درج ہوتی۔ کیادنیا میں اور کوئی کرم دین نہیں ہے صرف تُو ہی کرم دین ہے ؟
{ 1007} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ میاں حیات محمد صاحب پنشنر ہیڈ کانسٹیبل پولیس نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ کرم دین نے ڈپٹی کی عدالت میں یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ مرزا صاحب نے میرے بھائی محمدحسین کے متعلق کہا ہے کہ مرتے وقت اس کا منہ سیاہ ہوگیا ہے اس طرح اس کی ہتک کی ہے ۔ ڈپٹی نے پوچھا کہ کیا تمہارے بھائی محمدحسین کا کوئی لڑکا ہے ۔ اس نے کہا کہ ’’ہے‘‘ پوچھا کہ بالغ ہے یا نابالغ ہے ؟ کرم دین نے جواب دیا کہ بالغ ہے۔ اس پر ڈپٹی صاحب نے کہا کہ وہ دعویٰ کرسکتا ہے ۔ تمہارا دعویٰ نہیں چل سکتا ۔ واپسی پردیوی دیال صاحب سب انسپکٹر نے حضور کو بڑی محبت اور احترام سے بڑے بازار شہر سے گزار کر اسٹیشن پر لاکر گاڑی پر سوار کرایا تھا۔ بازار میں سے لانے کی غرض یہ تھی کہ تمام لوگ حضور کی زیارت کر لیں۔ لوگ کھڑے ہوہوکر حضور کو دیکھتے تھے۔ حضور باعزت طورپر گاڑی میں سوار ہوئے اور واپس قادیان روانہ ہوئے ۔
{ 1008} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت اُم المومنین نے ایک روز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی اور شیرینی کا ایک خوان اُسی وقت پیش کیا اور شام کی دعوت کی ۔
{ 1009} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیا ن کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ شہتیر والا مکان خطرناک ہوتا ہے۔ بعض دفعہ شہتیر ٹوٹ جاتا ہے تو ساری چھت یکدم آپڑتی ہے ۔ یعنی صرف کڑیاں یعنی بالے پڑے ہوئے ہوں۔ اور فرمایا ایک دفعہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھی ایسے حادثہ سے بچایا تھا۔
{1010} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ اس وقت یعنی۱۹۳۸ء میں میری عمر۷۴سال کے قریب ہے ۔ ہمارا اصل وطن بڈھانہ ضلع مظفر نگر۔ یوپی ہے گو میری زیادہ سکونت باغپت ضلع میرٹھ میں رہی ہے یعنی میں نے اپنی اوائل عمر زیادہ تر اپنے وطن باغپت ضلع میرٹھ میں گزاری تھی اور سنہ ۱۹۴۱ء بکرمی میں کپور تھلہ میں آیا جب کہ میری عمر۲۱؍۲۰سا ل کی تھی۔ میرے کپور تھلہ آنے سے قبل کی بات ہے کہ حاجی ولی اللہ صاحب جو کپور تھلہ میں سیشن جج تھے وہ رخصت پر اپنے وطن سراوہ ضلع میرٹھ میں گئے ۔ اس وقت میرے والدصاحب اور مَیں بوجہ تعلق رشتہ داری اُن سے ملنے کے لئے گئے ۔ حاجی ولی اللہ صاحب کے پاس براہین احمدیہ کے چاروں حصے تھے۔ اور حاجی صاحب موصوف مجھ سے براہین احمدیہ سنا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ مجھے یہ کتاب حضرت مرزا صاحب نے بھیجی ہے ۔ اُن کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خط وکتابت تھی۔ جب میں حاجی صاحب کو براہین احمدیہ سنایا کرتا تھا تو اس دوران میں مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عقیدت ہوگئی ۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت جب کہ میں براہین احمدیہ سنایا کرتا تھا تو سامعین کہا کرتے تھے کہ اس کتاب کا مصنف ایک بے بدل انشاء پرداز ہے ۔
{ 1011} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حاجی ولی اللہ جوہمارے قریبی رشتہ دار تھے اور کپور تھلہ میں سیشن جج تھے ۔اُن کے ایک ماموں منشی عبدالواحد صاحب ایک زمانہ میں بٹالہ میں تحصیلدار ہوتے تھے ۔ منشی عبد الواحد صاحب بٹالہ سے اکثر اوقات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والدحضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کو ملنے کے لئے جایا کرتے تھے اور وہ بیان کرتے تھے کہ اس وقت حضرت صاحب کی عمر۱۵؍۱۴سال کی ہوگی۔ اور بیان کرتے تھے کہ اس عمر میں حضرت صاحب سارا دن قرآن شریف پڑھتے رہتے اور حاشیہ پر نوٹ لکھتے رہتے تھے ۔ اور مرزا غلام مرتضیٰ صاحب حضرت صاحب کے متعلق اکثر فرماتے تھے کہ میرا یہ بیٹا کسی سے غرض نہیں رکھتا۔ سارا دن مسجد میں رہتا ہے اور قرآن شریف پڑھتا رہتا ہے ۔ منشی عبد الواحد صاحب قادیان بہت دفعہ آتے جاتے تھے ۔ اُن کا بیان تھا کہ میںنے حضرت صاحب کو ہمیشہ قرآن شریف پڑھتے دیکھا ہے ۔
{ 1012} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپو رتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب نے ایک دفعہ ایک مرض کے متعلق عبد الواحد صاحب کو اپنے صرف سے دوسو روپیہ کی معجون تیار کر کے دی جس سے مرض جاتا رہا ۔ عبد الواحد صاحب نے بعدش قیمت اد اکرنی چاہی ۔ جو مرزا صاحب نے قبول نہ فرمائی ۔
{ 1013} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیا ن کیا کہ عبدالواحدصاحب احمدی نہیں ہوئے ۔ میں نے اپنی بیعت کے بعداُن سے پوچھا کہ آپ تو سب حالات جانتے ہیں بیعت کیوں نہیں کر لیتے۔ انہوںنے کہا مجھے الہام ہوا ہے کہ مرزا صاحب کے پاس دو جن سکھ دیو اور ہر دیو ہیں اور اُن پر اُن کا دارومدار ہے ۔ اور گویامیں اس الہام کے ذریعہ سے بیعت سے روکا گیا ہوں ۔ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ ذکر کیا کہ یہ اُن کا الہام غالباً شیطانی ہے ۔ حضور نے فرمایا ۔ نہیں ۔یہ رحمانی الہام ہے ۔ جس زبان میں الہام ہو اس کے مطابق معنے کرنے چاہئیں۔ دیو سنسکرت میں فرشتے کو کہتے ہیں ۔ گویا راحت کے فرشتے اور ملائکۃ اللّٰہ ہمارے مددگار ہیں ۔ تم انہیں لکھو ۔ چنانچہ میں نے انہیں گڑگانواں میں جہاں وہ منصف تھے خط لکھا۔ جواب نہ آیا۔ تھوڑے عرصہ کے بعد عبد الواحد صاحب کا انتقال ہوگیا۔ عبد الواحد صاحب مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کے مرید تھے۔
{ 1014} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ہمارے رشتہ دار منشی عبد اللہ صاحب جالندھر میں صدر واصل باقی نویس تھے۔ جو حاجی صاحب کے بہنوئی تھے۔ اُن سے ملنے میں جالندھرجا یا کرتا تھا۔ جالندھر میں اسی طرح ایک مرتبہ گیا ہوا تھا کہ معلوم ہوا کہ ایک بزرگ کہیں سے جالندھرآرہے ہیں ۔ یہ سرمہ چشمہ آریہ کی طباعت سے پیشتر کا واقعہ ہے ۔ جالندھر سٹیشن پر میں اور میرا ایک رشتہ دار گئے ۔ وہاں دو تین سو آدمی حضور کی پیشوائی کے لئے موجو دتھے اور کنور بکرماں سنگھ صاحب نے اپنا وزیر اور سواری حضور کو لانے کے لئے بھیجے ہوئے تھے۔ حضرت صاحب ریل سے اُترے ۔ یہ صحیح یا د نہیں کہ حضور کہاں سے تشریف لارہے تھے۔ لوگوں نے مصافحہ کرنا شروع کیا اور وزیر مذکور نے حضور کو بکرماں سنگھ صاحب کے ہاں لے جانے کوکہا ۔ اس دوران میں میں نے بھی مصافحہ کیا تو حضور نے دریافت فرمایا کہ آپ کہاں رہتے ہیں ۔ میں نے کہا ’’کپور تھلہ‘‘ لیکن یہاں میرے ایک رشتہ دار منشی عبد اللہ صاحب بوچڑ خانہ کے قریب رہتے ہیں ۔ حضور نے فرمایا ہم آپ کے ساتھ چلیں گے ۔ چنانچہ بکرماں سنگھ کی گاڑی میں حضور ، مولوی عبد اللہ صاحب سنوری ، حافظ حامد علی صاحب اورخاکسار سوار ہو کر منشی عبد اللہ صاحب کے مکان پر آگئے ۔ جب حضور گاڑی سے اُترنے لگے تو بہت ہجوم لوگوں کا ہوگیا ۔ عورتیں اپنے بچے حضرت صاحب کی طرف کرتی تھیں کہ حضور کے کپڑوں کی ہوا لگ جائے ۔ اُس وقت اعتقاد کایہ عالم تھا ۔ غرض حضور منشی عبد اللہ صاحب کی بیٹھک میں فرو کش ہوئے ۔
{ 1015} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ۔ کہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام جالندھر میں منشی عبد اللہ صاحب کی بیٹھک میں فروکش تھے تو ایک شخص نے سوال کیا کہ آپ سرسیّد کو کیا سمجھتے ہیں؟ فرمایا!میں تو ایک طرح دیا نند کی بھی اس لحاظ سے قدر کرتا ہوں کہ بت پرستی کے خلاف ہے اور سرسیّد تو مسلمان ہے اور انہوںنے تعلیمی کام مسلمانوں کے لئے کیا ہے ۔ اُن کا ممنون ہونا چاہئے۔سرسیّد کو مسلمان کہنا بہت سے لوگوں کو ناگوار معلوم ہوا ۔
{ 1016} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام جالندھر میں ہی تھے تو اُس زمانہ کے اعتقاد کے بموجب کہ دل کی بات اہل اللہ بتا دیا کرتے ہیں ۔ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ نماز میں وساوس کس طرح دور ہوسکتے ہیں ۔ تقریر کرتے کرتے حضور نے میری طرف مخاطب ہوکر فرمایا !’’اِیَّاکَ نَعْبُدُ کے تکرار سے ‘‘ اور پھر تقریر جاری رکھی ۔میرا اس وقت آپ پر ایمان ہوگیا ۔
منشی عبد اللہ صاحب کچھ انڈوں کا حلوا بنوا کر لائے ۔ حضور نے فرمایا ! مجھے بھوک نہیں ہے۔ لیکن منشی صاحب کے اصرار پر تھوڑا سا کھا لیا۔ ظہر کی نماز حضور نے قریب کی مسجد میں پڑھی ۔ آٹھ نو بجے صبح آپ سٹیشن پر اُترے تھے ۔ اور بعد نما زظہر آپ واپس سٹیشن پر تشریف لے گئے ۔ آپ گاڑی میں بیٹھ گئے اور میرے مصافحہ کرنے پر فرمایا۔ ہم سے خط وکتابت رکھا کرو۔ یہ غالباً۱۹۴۲بکرمی کا واقعہ ہے ۔
{ 1017} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں نے کپور تھلہ آکر اپنے دوستوں منشی اروڑا صاحب اور محمد خاں سے اِیَّاکَ نَعْبُدُ والی بات سنائی اور حضور کی تعریف کی ۔ اس ملاقات سے دو ڈیڑھ ماہ بعد مَیں قادیان گیا۔ حضور بہت محبت سے پیش آئے۔ خود اندر سے کھانا لا کر کھلاتے ۔ میں دس بارہ دن قادیان میں رہا ۔ اُس وقت حافظ حامد علی خادم ہوتا تھا اور کوئی نہ تھا ۔ جہاں اب مہمان خانہ اور مفتی محمد صادق صاحب کا مکان ہے ۔ اس کے پاس بڑی چوڑی کچی فصیل ہوتی تھی ۔
{ 1018} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضور علیہ السلام کی جالندھر کی ملاقات اول کے بعد دو ماہ کے قریب گزرنے پر مَیں قادیان گیا۔ اس کے بعد مہینے ڈیڑھ مہینے بعد اکثر جایا کرتا تھا۔ ایک دفعہ چار ماہ بعد گیا تو حضور نے فرمایا ’’ کیا کوئی معصیت ہوگئی ہے جو اتنی دیر لگائی‘‘ میں رونے لگا ۔ اس کے بعد میں جلدی جلدی قادیان جایا کرتا تھا۔
{ 1019} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ملاقات کے بعد میں قادیان جاتا رہا۔ بہت دفعہ ایسا ہوتا رہا کہ جمعہ کی نماز میں پڑھاتااور حضرت صاحب اور حافظ حامد علی صرف مقتدی ہوتے ۔ میں نے کہا مجھے خطبہ پڑھنا نہیں آتا۔ حضور نے فرمایا ۔ کوئی رکوع پڑھ کر اور بیٹھ کر کچھ درود شریف پڑھ دو۔ انہی دنوں الٰہی بخش اکونٹنٹ، عبدالحق اکونٹنٹ اور حافظ محمد یوسف سب اورسیر تینوں مولوی عبد الحق صاحب غزنوی کے مرید تھے ۔ یہ بہت آیا کرتے تھے ۔ اکثر ایسا موقعہ ہواہے کہ میں قادیان گیا ہوں تو یہ بھی وہاں ہوتے۔
{ 1020} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حافظ محمد یوسف اور محمد یعقوب برادرش نے عبد اللہ صاحب غزنوی کا ایک کشف بیان کیا تھا کہ ’’قادیان سے ایک روشنی نمودار ہوگی۔ وہ ساری جہاں میں پھیلے گی مگر میری اولاد اُس سے محروم رہے گی‘‘ اور اُن تینوں میں سے کسی نے یہ بھی کہا کہ مرزا غلام احمد صاحب سے ممکن ہے یہ مراد ہو۔
مہدویت کے دعویٰ کے بعد اس واقعہ سے محمد یوسف صاحب انکاری ہوگئے ۔ تو حضرت صاحب نے مجھے حلفیہ شہادت کے لئے خط لکھا۔ کہ تمہارے سامنے محمد یوسف نے یہ واقعہ بیان کیا تھا ۔ میں نے محمدیوسف اور محمد یعقوب کو خط لکھا کہ یہاںمیرا اور محمد خاں صاحب کا جھگڑا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ نے ان الفاظ میں بیان کیا تھا اور میں کہتا ہوں کہ ان الفاظ میں بیان کیا تھا۔محمد یعقوب کا جواب امرتسر سے آیا ۔ جس میں میرے بیان کردہ الفاظ کی اُس نے تائید کی ۔ میں محمدیعقوب کا خط لے کر قادیان پہنچا۔ حضور بہت خوش ہوئے اور وہ خط شائع کردیا جس سے یہ لوگ بہت شرمندہ ہوئے ۔
محمد یوسف صاحب میرے ہم وطن تھے ۔ میرا اصل وطن قصبہ بڈھانہ ضلع مظفر نگر۔ یوپی ہے اور محمدیوسف صاحب بڈھانہ سے اڑھائی میل پر حسین پور کے رہنے والے تھے ۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 1021} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب سرمہ چشم آریہ طبع ہوئی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چار نسخے مجھے اور چار منشی چراغ محمد صاحب کو کپور تھلہ بھیجے ۔ چراغ محمد صاحب دینا نگر گورداسپور کے رہنے والے تھے ۔ محمد خاں صاحب ، منشی اروڑا صاحب ، منشی عبد الرحمن صاحب اور خاکسار سرمہ چشمہ آریہ مسجد میں پڑھا کرتے تھے ۔ پھر محمد خاں صاحب ، منشی اروڑاصاحب بعد میں قادیان گئے ۔ منشی اروڑا صاحب نے کہا کہ بزرگوں کے پاس خالی ہاتھ نہیں جایا کرتے ۔ چنانچہ تین چار روپیہ کی مٹھائی ہم نے پیش کی ۔ حضور نے فرمایا۔یہ تکلفّات ہیں ۔ آپ ہمارے مہمان ہیں ۔ ہمیں آپ کی تواضع کرنی چاہئے ۔ ہم تینوں نے بیعت کے لئے کہا کیونکہ سرمہ چشم آریہ پڑھ کر ہم تینوں بیعت کا ارادہ کر کے گئے تھے۔ آپ نے فرمایا۔مجھے بیعت کا حکم نہیں ۔ لیکن ہم سے ملتے رہا کرو۔ پھر ہم تینوں بہت دفعہ قادیان گئے اور لدھیانہ میں بھی کئی دفعہ حضور کے پاس گئے ۔
{ 1022} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جو فقرات عربی کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے لکھوائے تھے ۔ اُن میں بعض اشیاء کے نام جمع کرکے آپ نے اشعار میں منظوم کردیا تھا۔ تاکہ یاد کرنے میں سہولت رہے ۔ چنانچہ سونے ، اونٹ اور نیزوں کے نام حسب ذیل اشعار میں تھے ۔
(سونے کے آٹھ نام )
نُضَارٌ ، عَسْجُدٌ ، عَیْنٌ وََّدَجَّالٌ وَّعِقْیَانٗ
تِبْرٌ ، زُخْرُفٌ ، ذَھَبٌ بِہٖ فِسْقٌ وَّعِصْیَانٗ

(اونٹوں کے۳۷نام)
عَنْس،قَعُوْدٌ،نَاقَۃٌ ۔کَوْمَائُ
وَقَعَیِّدٌ،عُسْبُوْرَۃٌ وَجْنَآئٗ
جَمَلٌ ، قَلُوْصٌ، عَیْدَھُوْدٌ، عَسْبُرَۃٌ
اِبِلٌ وَسِرْدَاحٌ حَکَی الْاِمْلَآئٗ
مَہْرِیٌّ ، عِرْبَاضٌ ، بَعِیْرٌ ،خَتْثَعَۃٌ
ثُمَّ الْھَجَانُ وَذِعْلَبٌ دَفْوَآئٗ
عَرْسٌ مَعَ الْعَزْھُوْلِ ، عَسْبُوْرٌ مَعًا
وَالْعَیْسَجُوْرُ کَمَا رَوَی الْاُدَبَآئٗ
ثُمَّ الْجَزُوْرُ وَلِقْحَۃٌ حِدْبَارٌ
وَکَذَا اللَّبُوْنُ وَمِثْلَہٗ ، عَشْوَآئٗ
ھَبْرٌ ، مَھُوْبرَۃٌ ، لَقُوْحٌ ، شَائِلَۃٌ
بِکْرٌ، ھَبْرَوٌ، عَنْکُوْہٌ عَصْبَآئٌ

(نیزوں کے۱۲ نام)
رُمْحٌ ، قَنَاۃٌ ، سَعَدَۃٌ ، مُرَّانٌ
اَسْلٌ وَعَسَّالٌ حَکَوْا وَاَبَانُوْا
خِطِّیٌّ، رُدَیْنٰی ، سَمْھَرِیٌّ ، سَمْھَرِیَّۃٌ
زَابِلٌ وَاَسْمَرُ اَیُّھَاالْاِخْوَانٗ

{ 1023} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیا ن کہ کہ جب میں لاہور میڈیکل کالج میں ففتھ ائیر کا سٹوڈنٹ تھاتوحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے مندرجہ ذیل خط تحریر فرمایا
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی
عزیزی اخویم میر محمد اسماعیل صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ۔ چونکہ بار بار خوف ناک الہام ہوتا ہے اور کسی دوسرے سخت زلزلہ ہونے کی اور آفت کے لئے خبر دی گئی ہے ۔ اس لئے مناسب ہے کہ فی الفور بلا توقف وہ مکان چھوڑ دو۔ اور کسی باغ میں جا رہو۔ اور بہتر ہے کہ تین دن کے لئے قادیان میں آکر مل جاؤ۔ والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۱۱۔اپریل۱۹۰۵ء

{ 1024} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بیعت اولیٰ سے پیشتر میں نے سر سید احمد صاحب کی کتابیں پڑھی تھیں ۔ اور میں اور محمد خاں صاحب وفات عیسیٰ کے قائل تھے۔ چنانچہ میں نے مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کو خط لکھا کہ حیات عیسیٰ علیہ السلام کہاں سے ثابت ہے ؟ انہوںنے جواب دیا کہ جس طرح خضر علیہ السلام کی حیات ضعیف احادیث سے ثابت ہے اور ضعیف احادیث کا مجموعہ اقسام حدیث میں سے حدیث حسن کو پہنچتا ہے ۔ میںنے جواب دیاکہ موضوع احادیث کا مجموعہ ضعیف ہوااور ضعیف احادیث کا مجموعہ حسن ۔ پس کوئی حدیث موضوع نہ رہے گی ۔ انہوںنے جواب دیا کہ ہم اہل ھویٰ کاجواب نہیں دیا کرتے ۔ لیکن چونکہ تمہارا تعلق مرزا صاحب سے ہے ۔ اس لئے جواب لکھتا ہوں اور مرزا صاحب وہ ہیں کہ معقولی باتیں پیش کرتے ہیں اور پھر قرآن سے دکھا دیتے ہیں اور ان کا دعویٰ مجددیت’’قریب بہ اذعان‘‘ ہے (یہ مولوی رشید احمد صاحب کے الفاظ ہیں) قرآن پر جو کوئی اعتراض کرتا ہے ۔ مرزا صاحب معقولی جواب اس کا دیتے ہیں اور قرآن سے نکال کر وہی دکھا دیتے ہیں ۔
مراد اس ذکر سے یہ ہے کہ رشید احمد صاحب گنگوہی حضرت صاحب کو مجدد ہونے والا اپنے اندازے میں سمجھتے تھے ۔ وہ خطوط رشید احمد صاحب کے مجھ سے مولوی اشرف علی نے، جو رشید احمد صاحب کا مرید تھا اور سلطان پور ریاست کپور تھلہ میں رہتا تھا ،لے کر دبا لئے اور پھر باوجود مطالبہ کے نہ دئیے۔
{ 1025} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ سبز کاغذ پر جب اشتہار حضور نے جاری کیا تو میرے پاس بھی چھ سات اشتہار حضور نے بھیجے ۔ منشی اروڑا صاحب فوراً لدھیانہ کو روانہ ہوگئے ۔ دوسرے دن محمد خاں صاحب اور میں گئے اور بیعت کر لی ۔ منشی عبدالرحمن صاحب تیسرے دن پہنچے ۔ کیونکہ انہوںنے استخارہ کیا اور آوازآئی’’عبد الرحمن آجا‘‘ ہم سے پہلے آٹھ نو کس بیعت کر چکے تھے ۔ بیعت حضور اکیلے اکیلے کو بٹھا کر لیتے تھے۔ اشتہار پہنچنے کے دوسرے دن چل کر تیسرے دن صبح ہم نے بیعت کی ۔ پہلے منشی اروڑاصاحب نے، پھر میں نے ۔ میں جب بیعت کرنے لگا تو حضور نے فرمایا۔تمہارے رفیق کہاں ہیں ؟ میں نے عرض کی ۔ منشی اروڑا صاحب نے تو بیعت کر لی ہے اور محمد خاں صاحب تیار ہی ہیں کہ بیعت کر لیں۔ چنانچہ محمد خاں صاحب نے بیعت کر لی۔ اس کے ایک دن بعد منشی عبدالرحمن صاحب نے بیعت کی ۔ منشی عبد الرحمن صاحب ، منشی اروڑا صاحب اور محمد خاں صاحب تو بیعت کرکے واپس آگئے ۔ کیونکہ یہ تینوں ملازم تھے ۔ میں پندرہ بیس روز لدھیانہ ٹھہرا رہا اور بہت سے لوگ بیعت کرتے رہے ۔
حضور تنہائی میں بیعت لیتے تھے اور کواڑ بھی قدرے بند ہوتے تھے ۔ بیعت کرتے وقت جسم پر ایک لرزہ اور رقّت طاری ہوجاتی تھی۔ اور دعا اور بیعت بہت لمبی فرماتے تھے ۔ اس لئے ایک دن میں بیس پچیس آدمی کے قریب بیعت ہوتے تھے ۔
{ 1026} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بیعت کے بعد جب میں لدھیانہ میں ٹھہرا ہو اتھا تو ایک صوفی طبع شخص نے چند سوالا ت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کیا کہ آیا آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بھی کراسکتے ہیں ؟ آپ نے جواب دیا کہ اس کے لئے مناسبت شرط ہے اور میری طرف منہ کر کے فرمایا کہ یا جس پر خد اکا فضل ہوجائے ۔ اسی رات میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو خواب میں دیکھا۔
{ 1027} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ایک دفعہ میرے دو تین خواب ازالہ اوہام کی جلد کے ساتھ جو کورے کاغذ تھے ۔اُن پر اپنی قلم سے درج فرمائے ۔ اسی طرح الٰہی بخش اکونٹنٹ نے جب حضرت صاحب کے خلاف کچھ خواب شائع کئے تو حضور نے مجھے لکھا کہ اپنے خواب لکھ کر بھیجو ۔ میںنے بھیج دئیے ۔ حضور نے وہ خواب اشتہار میں چھپوا دئیے ۔ خواب سے پیشتر میں نے یہ شعر بھی لکھا تھا ۔ ؎
الا اے بلبل نالاں چہ چندیں ماجرا داری
بیا د اغے کہ من درسینہ دارم تو کجا داری

عسل مصفّٰی میں وہ اشتہارا ور خواب چھپے ہوئے موجود ہیں ۔
{ 1028} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ منشی اروڑا صاحب مرحوم اور میں نے لدھیانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ کبھی حضور کپور تھلہ بھی تشریف لائیں۔ اُن دنوں کپور تھلہ میں ریل نہ آئی تھی۔ حضور نے وعدہ فرمایا کہ ہم ضرور کبھی آئیں گے۔ اس کے بعد جلد ہی حضور بغیر اطلاع دئیے ایک دن کپور تھلہ تشریف لے آئے ۔ اور یکہ خانہ سے اتر کر مسجد فتح والی نزد یکّہ خانہ واقع کپورتھلہ میں تشریف لے گئے ۔حافظ حامد علی صاحب ساتھ تھے۔ مسجد سے حضور نے ملاں کو بھیجا کہ منشی صاحب یا منشی ظفر احمد صاحب کو ہمارے آنے کی اطلاع کردو ۔ میں اور منشی اروڑا صاحب کچہری میں تھے کہ ملاں نے آکر اطلاع دی کہ مرز اصاحب مسجد میں تشریف فرما ہیں۔ اور انہوںنے مجھے بھیجا ہے کہ اطلا ع کردو۔ منشی اروڑا صاحب نے بڑی تعجب آمیز ناراضگی کے لہجے میں پنجابی میں کہا ’’دیکھو ناں تیری مسیت وچ آکے مرزاصاحب نے ٹھہرنا سی؟ ‘‘ ۔ میں نے کہا کہ چل کر دیکھنا تو چاہئے ۔ پھر منشی صاحب جلد ی سے صافہ باندھ کر میرے ساتھ چل پڑے ۔ مسجد میں جاکر دیکھا کہ حضور فرش پر لیٹے ہوئے تھے اور حافظ حامد علی صاحب پاؤں دبا رہے تھے اور پاس ایک پیالہ اور چمچہ رکھا ہوا تھا۔ جس سے معلوم ہو اکہ شاید آپ نے دودھ ڈبل روٹی کھائی تھی ۔ منشی اروڑا صاحب نے عرض کیا کہ حضور نے اس طرح تشریف لانی تھی ؟ ہمیں اطلاع فرماتے ۔ہم کرتار پور سٹیشن پر حاضر ہوتے۔ حضور نے جواب دیا۔ اطلاع دینے کی کیا ضرورت تھی۔ ہم نے آپ سے وعدہ کیا تھا وہ پورا کرنا تھا۔ پھر حضور کو ہم اپنے ہمراہ لے آئے ۔ اور محلہ قائم پورہ کپور تھلہ میں جس مکان میں پرانا ڈاکخانہ بعد میں رہا ہے، وہاں حضور کو ٹھہرایا ۔ وہاں بہت سے لوگ حضور کے پاس جمع ہوگئے ۔ کرنیل محمد علی خاں صاحب ، مولوی غلام محمد صاحب وغیرہ ۔ حضور تقریر فرماتے رہے ۔ کچھ تصوف کے رنگ میں کرنیل صاحب نے سوال کیا تھا جس کے جواب میں یہ تقریر تھی۔ حاضرین بہت متاثر ہوئے ۔ مولوی غلام محمد صاحب جو کپور تھلہ کے علماء میں سے تھے آبدیدہ ہوگئے اور انہوںنے ہاتھ بڑھائے کہ میری آپ بیعت لے لیں ۔ مگر حضور نے بیعت لینے سے انکار کردیا۔ بعد میں مولوی مذکور سخت مخالف رہا۔
{ 1029} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام لدھیانہ سے کپور تھلہ تشریف لائے تو صرف ایک دن قیام فرماکر قادیان کو تشریف لے گئے ۔ ہم کرتارپور کے اسٹیشن پر پہنچانے گئے ۔ یعنی منشی اروڑا صاحب، محمد خاں صاحب اور میں ۔ اگر کوئی اور بھی ساتھ کرتارپور گیا ہوتو مجھے یاد نہیں ۔
کرتارپور کے اسٹیشن پر ہم نے حضرت صاحب کے ساتھ ظہر وعصر کی نماز جمع کی ۔ نماز کے بعد میں نے عرض کی کہ کس قدر مسافت پر نماز جمع کرسکتے ہیںاور قصر کرسکتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا۔انسان کی حالت کے اوپر یہ بات ہے ۔ ایک شخص ناطاقت اور ضعیف العمر ہو تو وہ پانچ چھ میل پر بھی قصر کرسکتا ہے اور مثال دی کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مزدلفہ میں نماز قصر کی ۔ حالانکہ وہ مکہ شریف سے قریب جگہ ہے ۔
{ 1030} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خاں صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میری نظر سے پہلے موٹا اشتہار بابت براہین احمدیہ۱۸۸۵ء میں گزرا۔ مگر کوئی التفات پید انہ ہوا۔ ۸۸۔۱۸۸۷ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کاشہرہ سنتا رہا۔ ۱۸۹۰ء میں آپ نے مولوی عبد اللہ صاحب فخری کی تحریک پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے دعاکی استدعا کی ۔ اس طرح خط وکتابت کا سلسلہ شروع ہوا۔ غالباًستمبر۱۸۹۰ء میں مَیں بمقام لدھیانہ حضرت صاحب سے ملا اور چند معمولی باتیں ہوئیں۔ وہاں سے واپسی پر میںنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لکھا کہ میں تفضیلی شیعہ ہوں ۔ یعنی حضرت علی ؓ کودوسرے خلفاء پر فضیلت دیتا ہوں ۔ کیا آپ ایسی حالت میں میری بیعت لے سکتے ہیں یا نہیں ؟ آپ نے لکھا کہ ہاں ایسی حالت میں آپ بیعت کر سکتے ہیں ۔ باقی اگر ہم ان خدمات کی قدر نہ کریں جو خلفائے راشدین نے کیں تو ہمیں یہ بھی معلوم نہیں ہوسکتا کہ یہ قرآن وہی قرآن ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوا کیونکہ انہی کے ذریعہ قرآن واسلام ، حدیث واعمال ہم تک پہنچتے ہیں ۔ چنانچہ میں نے غالباًستمبر یاا کتوبر۱۸۹۰ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر لی اور بعد بیعت تین سال تک شیعہ کہلاتا رہا۔
{ 1031} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خاں صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ابتدائے خط وکتابت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو میں نے ایک خط میں لکھا تھا کہ میں شیعہ ہوں اور شیعوں کے ہاں ولایت ختم ہوگئی ہے ۔ اس لئے جب ہم کسی کو ولی نہیں مانتے تو بیعت کس طرح کر سکتے ہیں ؟ آپ نے لکھا ’’ ہم جو ہر نما زمیں اھدنا الصراط المستقیم ، صراط الذین انعمت علیھم کی دعا مانگتے ہیں ۔ اس کا کیافائدہ ہے ؟ کیونکہ مے تو پی گئے اب تو دُرد رہ گیا۔ پھر کیا ہم مٹی کھانے کے لئے رہ گئے؟ اور جب ہمیں انعام ملنا نہیں تو یہ دعا عبث ہے ۔ مگر اصل واقعہ یہ ہے کہ انعامات کا سلسلہ اب تک جاری ہے ۔۱۸۹۳ء میں مَیں نے خاص طور پر سے شیعیت کی بابت تحقیقات کی اور شیعیت کو ترک کردیا۔
{ 1032} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ منشی ظفر احمد کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیا ن کیا کہ ایک دفعہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام لدھیانہ میں قیام پذیر تھے میں اور محمد خان مرحوم ڈاکٹر صادق علی صاحب کو لے کر لدھیانہ گئے ۔ (ڈاکٹر صاحب کپور تھلہ کے رئیس اور علماء میں سے شمار ہوتے تھے)کچھ عرصہ کے بعد حضور مہندی لگوانے لگے۔ اس وقت ایک آریہ آگیا۔ جوایم ۔ اے تھا۔ اس نے کوئی اعتراض اسلام پر کیا ۔ حضرت صاحب نے ڈاکٹر صاحب سے فرمایا۔ آپ ان سے ذرا گفتگو کریں تو میں مہندی لگوالوں ۔ ڈاکٹر صاحب جواب دینے لگے۔ مگر اُس آریہ نے جوجوابی تقریر کی تو ڈاکٹرصاحب خاموش ہوگئے ۔ حضرت صاحب نے یہ دیکھ کر فوراً مہندی لگوانی چھوڑ دی اور اسے جواب دینا شروع کیا اور وہی تقریر کی جو ڈاکٹر صاحب نے کی تھی مگر ا س تقریر کو ایسے رنگ میں بیان فرمایا کہ وہ آریہ حضور کے آگے سجدہ میں گر پڑا۔ حضور نے ہاتھ سے اُسے اٹھایا۔ پھروہ دونوں ہاتھوں سے سلام کر کے پچھلے پیروں ہٹتا ہوا واپس چلا گیا۔ پھر شام کے چار پانچ بجے ہوں گے تو ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے کہا کہ میں تخلیہ چاہتاہوں میں نے حضور سے عرض کی ۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب حضرت صاحب کے پاس تنہائی میں چلے گئے اور میں اور مولوی عبد اللہ سنوری اور محمدخان صاحب ایک کوٹھڑی میں چلے گئے ۔ بعد میں ڈاکٹر صاحب نے ذکر کیا کہ میں نے بہت اصرار کیا کہ مجھے بیعت میں لے لیں مگر آپ نے فرمایا۔ آپ جلدی نہ کریں۔ سوچ سمجھ لیں۔ دو دن رہ کر ہم واپس آگئے ۔
{ 1033} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیا ن کیا کہ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ کسی شخص نے بیعت کرنی چاہی مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی بیعت نہ لی اور انکار کردیا۔
{ 1034} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیا ن کیا کہ ایک شخص نے ایک کتاب لکھی۔ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور وہ کتاب پیش کی ۔ حضور نے ہاتھ سے کتاب پرے کر دی ۔ کہ جب مسلمانوں کے سینکڑوں بچے عیسائی ہوگئے ۔ اس وقت یہ کتاب نہ لکھی۔ اب جو مصنف کا اپنا لڑکا عیسائی ہوگیا تو یہ کتاب لکھی ۔ اس میں برکت نہیں ہوسکتی ۔
{ 1035} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ آنریبل چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ شروع ستمبر۱۹۰۴ء میں میرے والد صاحب مجھے اپنے ہمراہ لاہورلے گئے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اُن دنوں لاہور ہی میں تشریف رکھتے تھے۔۳؍ستمبر کو آپ کا لیکچر میلارام کے منڈوے میں ہوا۔ والد صاحب بھی مجھے اپنے ہمراہ وہاں لے گئے ۔ میری عمر اس وقت ساڑھے گیارہ سال کی تھی لیکن وہ منظر مجھے خوب یاد ہے کہ مجھے سٹیج پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کرسی کے قریب ہی جگہ مل گئی اور میں قریباً تمام وقت آپ ہی کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھتا رہا۔ گو معلوم ہوتا تھا کہ میں نے لیکچر بھی توجہ سے سنا ہوگا یاکم سے کم بعد میں توجہ سے پڑھا ہوگا ۔ کیونکہ اس لیکچر کے بعض حصے اس وقت سے مجھے اب تک یاد ہیں ۔ لیکن میری توجہ زیادہ تر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چہرہ مبارک کی طرف رہی ۔ آپ ایک آرام کرسی پر تشریف فرماتھے۔ اور ایک سفید رومال آپ کے ہاتھ میں تھا جو اکثر وقت آپ کے چہرہ مبارک کے نچلے حصہ پر رکھا رہا۔
{ 1036} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔آنربیل چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب میں نے پہلی بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لاہور میں زیارت کی تو میرے دل میں اس وقت کسی قسم کے عقائد کی تنقید نہیں تھی۔ جو اثر بھی میرے دل میں اس وقت ہوا۔ وہ یہی تھا کہ یہ شخص صادق ہے اور جو کچھ کہتا ہے کہ وہ سچ ہے اور ایک ایسی محبت میرے دل میں آپ کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈال دی گئی کہ وہی میرے لئے حضور علیہ السلام کی صداقت کی اصل دلیل ہے ۔ میں گو اس وقت بچہ ہی تھا لیکن اس وقت سے لے کر اب تک مجھے کسی وقت بھی کسی دلیل کی ضرورت نہیں پڑی۔ بعد میں متواتر ایسے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں جو میرے ایمان کی مضبوطی کا باعث ہوئے ۔ لیکن میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کا چہرہ مبارک دیکھ کر ہی مانا تھا اور وہی اثر اب تک میرے لئے حضور کے دعاوی کی صداقت کا سب سے بڑا ثبوت ہے ۔ اس لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ میں۳؍ستمبر ۱۹۰۴ء کے دن سے ہی احمدی ہوں۔
{ 1037} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیا ن کیا کہ ایک دفعہ مَیں قادیان میں تقریباً ایک ماہ تک ٹھہرا رہا۔ مولوی عبد اللہ صاحب سنوری بھی وہاں تھے ۔ مولوی صاحب نے میرے لئے جانے کی اجازت چاہی اور میں نے اُن کے لئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایاکہ ابھی نہ جائیں۔ اس عرصہ میں مولوی صاحب کو ان کے گھر سے لڑکے کی ولادت کا خط آیا۔ جس پر مولوی صاحب نے عقیقہ کی غرض سے جانے کی اجازت چاہی ۔ حضور نے فرمایا۔ اس غرض کے لئے جانا لازمی نہیں۔ آپ ساتویں دن ہمیں یاد دلادیں اور گھر خط لکھدیں کہ ساتویں دن اس کے بال منڈوادیں ۔ چنانچہ ساتویں روز حضور نے دو بکرے منگوا کر ذبح کرادئیے اور فرمایا گھر خط لکھ دو۔
{ 1038} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیا ن کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دورانِ سر کا عارضہ تھا ۔ ایک طبیب کے متعلق سنا گیا کہ وہ اس میں خاص ملکہ رکھتا ہے اُسے بلوایاگیا، کرایہ بھیج کر اور کہیں دور سے ۔ اس نے حضور کو دیکھا اور کہا کہ دودن میں آپ کو آرام کردوں گا۔ یہ سن کر حضرت صاحب اندر چلے گئے اور حضرت مولوی نور الدین صاحب کو رقعہ لکھا کہ اس شخص سے میں علاج ہر گز نہیں کرانا چاہتا۔ یہ کیا خدائی دعویٰ کرتا ہے۔ اس کو واپسی کرایہ کے روپیہ اور مزید بیس پچیس روپے بھیج دئیے کہ یہ دے کر اُسے رخصت کردو۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا ۔
{ 1039} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیا ن کیا کہ لدھیانہ کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ سردرد کا دورہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو اس قدر سخت ہوا کہ ہاتھ پیر برف کی مانندسرد ہوگئے ۔ میں نے ہاتھ لگا کر دیکھا تو نبض بہت کمزور ہوگئی تھی ۔ آپ نے مجھے ارشاد فرمایا کہ اسلام پر کوئی اعتراض یاد ہوتو اس کا جواب دینے سے میرے بدن میں گرمائی آجائے گی اور دورہ موقوف ہوجائے گا۔ میں نے عرض کی کہ حضور اس وقت تو مجھے کوئی اعتراض یاد نہیں آتا۔ فرمایا ! کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نعت میں کچھ اشعار آپ کو یاد ہوں تو پڑھیں ۔میںنے براہین احمدیہ کی نظم ’’اے خدا! اے چارۂ آزارما‘‘ خوش الحانی سے پڑھنی شروع کردی اور آپ کے بدن میں گرمائی آنی شروع ہوگئی۔ پھر آپ لیٹے رہے اور سنتے رہے۔ پھر مجھے ایک اعتراض یاد آگیاکہ آیت واذقال ربک للملئکۃ انی جاعل فی الارض خلیفۃ (البقرۃ:۳۱)پر یہ اعتراض ہے کہ جو مشورہ کا محتاج ہے ۔ وہ خدائی کے لائق نہیں ۔ قالوا ا تجعل فیھا من یفسد فیھا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس کا علم بھی کامل نہیں۔کیونکہ اُسے معلوم نہ تھا کہ یہ آئندہ فساد اور خون ریزی کرے گا ۔ ونحن نسبح بحمدک ونقدس لک ۔ اُس سے معلوم ہو اکہ وہ پاکوں سے دشمنی اور ناپاکوں سے پیار کرتا ہے ۔کیونکہ انہوں نے اپنے آپ کو اس خلافت کے لئے پیش کیا تھا۔ قال انی اعلم مالا تعلمون ۔ بھلا یہ بھی کوئی جواب ہے جس سے عجز ظاہر ہوتا ہے ۔ پھر یہ کہا کہ علّم اٰدم الاسماء کلھا۔ ایک آدمی کو الگ لے جاکر کچھ باتیں چپکے سے سمجھادیںاور پھر کہا کہ تم بتاؤ اگر سچے ہو۔ اس میں فریب پایا جاتا ہے ۔ جب میں نے یہ اعتراضات سنائے تو حضور کو جوش آگیا اور فوراً آپ بیٹھ گئے اور بڑے زورکی تقریر جواباً کی اور بہت سے لوگ بھی آگئے ۔ اور دورہ ہٹ گیا۔ بہت لمبی تقریر فرمائی کہ کہیں آدم کا خونریزی وغیرہ کرناثابت نہیں ۔ وغیرہ
{ 1040} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیا ن کیا کہ خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم اور عبد الحکیم مرتد جس زمانے میں لاہور پڑھتے تھے۔ وہاں پر ایک شخص جو برہموسماج کا سیکرٹری اور ایم اے تھا، آیا ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور میں تھے۔ اُس نے آکر کہا کہ تقدیر کے مسئلہ کو میں نے ایسا سمجھا ہوا ہے کہ شاید کسی اور نے نہ سمجھا ہو۔ وہ دلائل میں آپ کو سنانا چاہتا ہوں اس پرحضور نے خود ہی تقدیر پر تقریر شروع فرمادی اور یہ تقریر مسلسل دو گھنٹے جاری رہی ۔ حضرت مولوی نورالدین صاحب اور مولوی عبدالحکیم صاحب بھی اس میں موجود تھے اور نواب فتح علی خان صاحب قزلباش بھی موجود تھے ، تقریر کے ختم ہونے پر جب سب چلے گئے تو نواب صاحب بیٹھے رہے اور نواب صاحب نے کہا کہ آپ تو اسلام کی روح بیان فرماتے ہیں اور اسلام کی صداقت آفتاب کی طرح سامنے نظر آتی ہے ۔ وہ لوگ بڑے ظالم ہیں جو آپ کے متعلق سخت کلامی کرتے ہیں۔ ظالم کا لفظ سن کر حضور نے شیعہ مذہب کی تردید شروع کردی۔ گویا ثابت کیا کہ شیعہ ظلم کرتے ہیں جو صحابہ کا فیض یافتہ صحبتِ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہونا نہیں مانتے۔ اور صحابہ کا تقدس ظاہر کرکے بڑے جوش میں فرمایا کہ کیا کوئی شیعہ اس بات کو گوارا کر سکتا ہے کہ ا س کی ماں کی قبر دو نابکاروں کے درمیان ہو۔ مولوی عبد الکریم صاحب کا چہرہ اُترا ہوا ساتھا ۔ پھر نواب صاحب نہایت ادب سے اجازت لے کر چلے گئے ۔ ان کے جانے کے بعد مولوی عبد الکریم صاحب نے حضور سے دریافت کیا کہ کیا حضور کو یہ علم نہیں تھا کہ یہ شیعہ مذہب رکھتے ہیں ۔ حضور نے فرمایا۔ ان کے ہمارے بزرگوں سے تعلقات چلے آتے ہیں ۔ ہم خوب جانتے ہیں۔ میں نے سمجھا کہ یہ بڑے آدمی کہاں کسی کے پاس چل کر آتے ہیں اس لئے میں نے چاہا کہ حق اُن کے گوش گزار کردوں۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 1041} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ پہلی دفعہ غالباًفروری۱۸۹۱ء میں مَیں قادیان آیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سادگی نے مجھ پر خاص اثر کیا ۔ دسمبر۱۸۹۲ء میں پہلے جلسہ میں شریک ہوا۔ ایک دفعہ میںنے حضرت صاحب سے علیحدہ بات کرنی چاہی گوبہت تنہائی نہ تھی مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بہت پریشان پایا ۔ یعنی آپ کو علیحدگی میں اور خفیہ طور سے بات کرنی پسند نہ تھی۔ آپ کی خلوت اور جلوت میں ایک ہی بات ہوتی تھی۔ اسی جلسہ۱۸۹۲ء میں حضرت بعد نماز مغرب میرے مکان پر ہی تشریف لے آتے تھے۔ اور مختلف امور پر تقریر ہوتی رہتی تھی۔ احباب وہاں جمع ہوجاتے تھے۔ اور کھانا بھی وہاں ہی کھاتے تھے۔ نما زعشاء تک یہ سلسلہ جاری رہتا تھا۔میں علماء اور بزرگان خاندان کے سامنے دو زانوبیٹھنے کاعادی تھا۔ بسااوقات گھٹنے دکھنے لگتے۔ مگر یہاں مجلس کی حالت نہایت بے تکلفانہ ہوتی۔ جس کو جس طرح آرام ہوتابیٹھتا۔ بعض پچھلی طرف لیٹ بھی جاتے مگر سب کے دل میں عظمت وادب اور محبت ہوتی تھی۔ چونکہ کوئی تکلّف نہ ہوتا تھا ۔ اس لئے یہی جی چاہتا تھا۔ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تقریرفرماتے رہیں اور ہم میں موجود رہیں ۔ مگر عشاء کی اذان سے جلسہ برخاست ہوجاتا۔
{ 1042} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ہے کہ جب سورج گرہن اور چاند گرہن رمضان میں واقع ہوئے تو غالباً۱۸۹۴ء تھا ۔ میں قادیان میں سورج گرہن کے دن نماز میں موجود تھا۔ مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے نماز پڑھائی تھی۔ اور نماز میں شریک ہونے والے بے حد رو رہے تھے۔ اس رمضان میں یہ حالت تھی کہ صبح دو بجے سے چوک احمدیہ میں چہل پہل ہوجاتی ۔ اکثر گھروں میں اور بعض مسجد مبارک میں آموجود ہوتے ۔ جہاں تہجد کی نماز ہوتی۔ سحری کھائی جاتی اور اول وقت صبح کی نماز ہوتی۔ اس کے بعد کچھ عرصہ تلاوت قرآن شریف ہوتی اور کوئی آٹھ بجے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیر کو تشریف لے جاتے ۔ سب خدام ساتھ ہوتے۔ یہ سلسلہ کوئی گیارہ بارہ بجے ختم ہوتا۔ اس کے بعد ظہر کی اذان ہوتی اور ایک بجے سے پہلے نماز ظہر ختم ہوجاتی اور پھر نماز عصر بھی اپنے اول وقت میں پڑھی جاتی ۔ بس عصر اور مغرب کے درمیان فرصت کا وقت ملتا تھا۔ مغرب کے بعد کھانے وغیرہ سے فارغ ہوکر آٹھ ساڑھے آٹھ بجے نماز عشاء ختم ہوجاتی اور ایسا ہُو کا عالم ہوتا کہ گویا کوئی آباد نہیں ۔ مگر دو بجے سب بیدار ہوتے اور چہل پہل ہوجاتی۔
{ 1043} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ امرتسر میں جب آتھم کے ساتھ مباحثہ قرار پایا تو بیس بیس یا پچیس پچیس آدمی فریقین کے شامل ہوتے تھے۔ ہماری طرف سے علاوہ غیر احمدیوں کے مولوی عبد الکریم صاحب ، سید محمد احسن صاحب بھی شامل ہوتے تھے۔ اور ایک شخص اللہ دیا لدھیانوی جلد ساز تھاجس کو توریت وانجیل خوب یا دتھی اور کرنیل الطاف علی خاں صاحب رئیس کپور تھلہ عیسائیوں کی طرف بیٹھا کرتے تھے ۔ ایک طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ایک طرف عبد اللہ آتھم بیٹھتے تھے ۔ دونوں فریق کے درمیان خلیفہ نور الدین صاحب جمونی اور خاکسار مباحثہ لکھنے والے بیٹھا کرتے تھے۔ اور دو کس عیسائیوں میں سے اسی طرح لکھنے کے لئے بیٹھا کرتے تھے۔ بحث تقریری ہوتی تھی اور ہم لکھتے جاتے تھے اور عیسائیوں کے آدمی بھی لکھتے تھے۔ اور بعد میں تحریروں کا مقابلہ کر لیتے تھے۔ حضرت صاحب اختصار کے طور پر غ سے مراد غلام احمد اور ع سے مراد عبداللہ لکھاتے تھے۔ آتھم بہت ادب سے پیش آتا تھا۔ جب عیسائیوں کے لکھنے والے زیادہ نہ لکھ سکتے۔ آتھم خاکسار کو مخاطب کر کے کہا کرتا کہ عیسائی ہمارے لکھنے والے ٹٹو ہیں۔ ان کی کمریں لگی ہوئی ہیں۔ انہیں بھی ساتھ لینا کیونکہ میں اور خلیفہ نور الدین صاحب بہت زُود نویس تھے۔ آتھم کی طبیعت میں تمسخر تھا۔
ایک دن آتھم مقابلہ پر نہ آیا۔ اس کی جگہ مارٹن کلارک بیٹھا ۔ یہ بہت بے ادب اور گستاخ آدمی تھا ۔ اُس نے ایک دن چند لولے لنگڑے اندھے اکٹھے کر لئے اور لاکر بٹھا دئیے۔ اور کہا کہ آپ کو مسیح ہونے کا دعویٰ ہے ۔ ان پر ہاتھ پھیر کر اچھا کردیں اور اگر ایسا ہوگیا تو ہم اپنی کچھ اصلاح کرلیں گے۔ اس وقت جماعت میں ایک سناٹا پیدا ہوگیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جواباً ارشاد فرمایا۔ کہ ہمارے ایمان کی علامت جو قرآن شریف نے بیان فرمائی ہے ۔ یعنی استجابت دعا اور تین اور علامتیں حضور نے بیان فرمائیں ۔ یعنی فصاحت وبلاغت اور فہم قرآن اور امور غیبیہ کی پیشگوئیاں ۔ اس میں ہماری تم آزمائش کر سکتے ہو اور اس جلسہ میں کر سکتے ہو۔ لیکن مسیح نے تمہارے ایمان کی علامت یہ قراردی ہے کہ اگر تم میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گاتو لنگڑوں لُولوں کو چنگا کر دو گے اور پہاڑ وں کو اپنی جگہ سے ہلا سکو گے۔ لیکن میںتم سے اتنے بڑے نشان تو نہیں مانگتا۔ میں ایک جوتی الٹی ڈالتا ہوں اگر وہ تمہارے اشارے سے سیدھی ہو جائے تو میں سمجھوں گا کہ تم میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہے۔ اس وقت جس قدر مسلمان تھے۔ خوش ہو گئے اور فریق ثانی مارٹن کلارک کے ہوش گم ہو گئے۔
{1044} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ آتھم کے مناظرہ میں آخری دن جب آتھم کو پیشگوئی سنائی گئی تو اس کا رنگ بالکل زرد ہو گیا اور دانتوں میں زبان دے کر گردن ہلا کر کہنے لگا کہ میں نے حضرت محمد صاحب کو دجّال نہیں کہا۔ حالانکہ اپنی کتاب ’’اندرونہ بائیبل‘‘ میں اس نے یہ لفظ لکھا تھا۔ پھر آتھم اٹھا اور گر پڑا۔ حالانکہ وہ بہت قوی آدمی تھا۔ پھر دو عیسائیوں نے اس کی بغلوں میں ہاتھ دے کر اسے اٹھایا۔ ایک شخص جگن ناتھ عیسائی تھا۔ وہ مجھ سے اکثر باتیں کیا کرتا تھا۔میں نے اسے کہا کہ یہ کیا ہو گیا؟ وہ کہنے لگا کہ آتھم بے ایمان ہو گیا ہے اور ڈر گیا ہے۔ پھر جب ہم اپنی جگہ واپس آئے ۔ غالباً کریم بخش ایک رئیس کی کوٹھی پر ہم ٹھہرے ہوئے تھے تو کرنیل الطاف علی خاں ہمارے ساتھ ہو لئے اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں حضرت صاحب سے تخلیہ میں ملنا چاہتا ہوں۔ کرنیل صاحب کوٹ پتلون پہنے اور ڈاڑھی مونچھ منڈائے ہوئے تھے۔ میں نے کہا کہ آپ اندر چلے جائیں۔ باہر سے ہم کسی کو آنے نہ دیں گے۔ چنانچہ کرنیل صاحب اندر چلے گئے اور آدھ گھنٹہ کے قریب حضرت صاحب کے پاس تخلیہ میں رہے۔ کرنیل صاحب جب باہر آئے تو چشم پُر آب تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے کیا باتیں کیں جو ایسی حالت ہے۔ وہ کہنے لگے کہ جب میں اندر گیا تو حضرت صاحب اپنے خیال میں بوریے پر بیٹھے ہوئے تھے حالانکہ بوریہ پر صرف آپ کا گھٹنا ہی تھا اور باقی حصہ زمین پر تھا۔ میں نے کہا حضور زمین پر بیٹھے ہیں! اور حضور نے یہ سمجھا کہ غالباً میں (کرنیل صاحب) بوریے پر بیٹھنا پسند نہیں کرتا اس لئے حضور نے اپنا صافہ بوریے پر بچھا دیا کہ آپ یہاں بیٹھیں۔ یہ حالت دیکھ کر میرے آنسو نکل پڑے۔ اور میں نے عرض کی کہ اگرچہ میں ولایت میں Baptize ہو چکا ہوں (یعنی عیسائیت قبول کر چکا ہوں) مگر اتنا بے ایمان نہیں ہوں کہ حضور کے صافے پر بیٹھ جائوں ۔ حضور فرمانے لگے کہ کچھ مضائقہ نہیں ۔ آپ بلا تکلف بیٹھ جائیں ۔ میں نے صافے کو ہاتھ سے ہٹا کر بوریہ پر بیٹھ گیا۔ اور میں نے اپنا حال سنانا شروع کیا۔ کہ میں شراب بہت پیتا ہوں اور دیگرگناہ بھی کرتا ہوں ، خدا ،رسول کا نام نہیں جانتا ۔ لیکن میں آپ کے سامنے اس وقت عیسائیت سے توبہ کر کے مسلمان ہوتا ہوں۔ مگر جو عیوب مجھے لگ گئے ہیں ان کو چھوڑنا مشکل معلوم ہوتا ہے ۔ حضور نے فرمایا ۔استغفار پڑھا کرو۔ اور پنجگانہ نماز پڑھنے کی عادت ڈالو۔ جب تک میں حضور کے پاس بیٹھا رہا۔میری حالت دگرگوں ہوتی رہی اور میں روتا رہا۔ اور اسی حالت میں اقرار کر کے کہ میں استغفار اور نماز ضرور پڑھا کروں گا،آپ کی اجازت لے کر آگیا۔ وہ اثر میرے دل پر اب تک ہے ۔
چونکہ کرنیل صاحب بہت آزاد طبع آدمی تھے ۔ اس واقعہ سے دو تین سال بعد ایک دفعہ مجھ سے ملے اور انہوںنے کہا کہ استغفار اور نماز میں نے اب تک نہیں چھوڑی ۔یہ ضرور ہے کہ باہر اگر میں سیر کو چلا گیا اور نماز کا وقت آگیا تو میں چلتے چلتے نماز پڑھ لیتا ہوں۔ ورنہ مقام پر نما زاور قرآن شریف پڑھتا ہوں ۔ ہاں دو وقت کی نمازیں ملا لیتا ہوں۔ اور کرنیل صاحب نے یہ بھی کہا کہ میں نے ایک دفعہ پچاس روپے حضور کو بھیجے اور مجھے اس کی خوشی ہوئی کہ حضور نے قبول فرمالئے ۔
{ 1045} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ عبداللہ آتھم کی پیشگوئی کی میعاد کے جب دو تین دن رہ گئے تو محمد خان صاحب مرحوم اور منشی اروڑاصاحب مرحوم اور میں قادیان چلے گئے اور بہت سے دوست بھی آئے ہوئے تھے۔ سب کو حکم تھا کہ پیشگوئی کے پورا ہونے کے لئے دعائیں مانگیں۔ مرز ایوب بیگ مرحوم برادر ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب اس قدر گریہ وزاری سے دعا مانگتا تھا کہ بعض دفعہ گر پڑتا تھا۔ گرمیوں کا موسم تھا۔ محمد خان اور منشی اروڑا صاحب اور میں مسجد مبارک کی چھت پر سویا کرتے تھے ۔ آخری دن میعاد کا تھا کہ رات کے ایک بجے کے قریب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمارے پاس تشریف لائے کہ ابھی الہام ہوا ہے کہ اس نے رجوع الی الحق کر کے اپنے آپ کو بچا لیا ہے ۔ منشی اروڑا صاحب مرحوم نے مجھ سے ، محمد خان صاحب سے اور اپنے پاس سے کچھ روپے لے کر جو تیس پنتیس کے قریب تھے، حضور کی خدمت میں پیش کئے کہ حضور اس کے متعلق جو اشتہار چھپے وہ اس سے صرف ہوں ۔حضور بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ ہم تمہارے روپے سے ہی اشتہارات چھپوائیں گے ۔ ہم نے عرض کی کہ ہم اور بھی روپے بھیجیں گے ۔ ہم نے اسی وقت رات کو اُتر کر بہت سے آدمیوں سے ذکر کیا کہ وہ رجوع بحق ہو کر بچ گیا۔ اور صبح کو پھر یہ بات عام ہوگئی ۔ صبح کو ہندو مسلمانوں کا ایک بہت بڑ امجمع ہوگیا کہ معلوم کریں کہ آتھم مر گیا یا نہیں ۔ پھراُن لوگوں کو یہ الہام سنایا گیا۔ اس کے بعد ہم اجازت لے کر قادیان سے امرتسر آئے اور امرتسر میں آکر دیکھا کہ عیسائیوںنے آتھم کا جلوس نکالا ہوا ہے ۔ ایک ڈولا سا تھا جس میں آتھم بیٹھا ہوا تھا اور اس ڈولہ کو اُٹھایا ہوا تھا اور وہ چپ چاپ ایک طرف گردن ڈالے بیٹھا تھا۔ پھر ہم کپور تھلہ چلے آئے ۔ بہت سے آدمیوں نے مجھ سے چھیڑچھاڑ بھی کی ۔ ہم جب امرتسر قادیان سے گئے تھے تو شائع شدہ اشتہار لوگوں کو دئیے کیونکہ ہم تین دن قادیان ٹھہرے تھے اور یہ اشتہار چھپ گئے تھے۔
{ 1046} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں پہلی دفعہ۱۸۹۱ء میں قادیان گیا ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک فینس میرے لئے اور ایک بہلی بھیجی تھی۔ سابقہ اڈا خانہ سے نکل کرجو راستہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکان کو جاتا تھا جو اب بھی ہے جہاں محمد اسماعیل صاحب جلد ساز کا مکان ہے اور پھر مفتی محمد صادق صاحب کے مکان کے پاس احمدیہ چوک کی طرف مڑتا ہے ۔ جس کے شرقی طرف مدرسہ احمدیہ ہے اور غربی طرف دکانیں ہیں اس تمام راستہ میں ایک پہیہ خشکی میں اور دوسرا پانی میں یعنی جوہڑ میں سے گزرتا تھااور یہ حد آبادی تھی۔ اور میرے مکان کے آگے ایک ویرانہ تھا۔ اور گلی چھت کر بنا ہوا کمرہ میری فرووگاہ تھی اور یہ ادھر حد آبادی تھی۔ دسمبر۱۸۹۲ء میں میں قادیان گیا تو مدرسہ احمدیہ ۔ مہمان خانہ اور حضرت خلیفۃ المسیح اول ؓ کے مکان کی بنیادیں رکھی ہوئی تھیں ۔ اور یہ ایک لمبا سا چبوترا بنا ہو اتھا۔ اسی پر جلسہ ہوا تھا۔ اور کسی وقت گول کمرہ کے سامنے جلسہ ہوتا تھا۔ (یہ چبوترہ ڈھاب میں بھرتی ڈال کر بنایا گیا تھا) اور اس کے بعد جتنے مکان بنے ہیں ڈھاب میں بھرتی ڈال کر بنائے گئے ہیں ۔
{ 1047} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خاں صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ غالباً پہلی یادوسری دفعہ میرے قادیان آنے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام مغرب کے بعد میرے ہاں تشریف لائے تو آپ موم بتی لے کر اس کی روشنی میں آئے ۔ میرے ملازم صفدر علی نے چاہا کہ بتی کو بجھا دیا جائے تاکہ بے فائدہ نہ جلتی رہی ۔ اس پر آپ نے فرمایا۔ جلنے دو روشنی کی کمی ہے ۔ دنیا میں تاریکی تو بہت ہے (قریب قریب الفاظ یہ تھے)
{ 1048} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ آتھم کے واقعہ کے چھ ماہ بعد میں قادیان گیا تو وہاں پر شمس الدین صاحب سیکرٹری انجمن حمایت اسلام بھی ٹھہرے ہوئے تھے ۔وہ احمدی نہ تھے۔ قادیان سے میں اور شمس الدین صاحب امرتسر آئے ۔ میاں قطب الدین صاحب امرتسری جو بہت مخلص آدمی تھے ۔ اُن سے ملنے گئے تو انہوںنے کہا کہ یہاں پرایک عیسائی ہے اس کے پاس عبد اللہ آتھم کی تحریر موجود ہے جس میں آتھم نے اقرار کیا ہے کہ اس نے ضرور رجوع بحق کیا ہے اور وہ خائف رہااور وہ اُن لوگوں کے ساتھ ہر گز نہیں جو مرزا صاحب کی ہتک کرتے ہیں ۔ آپ کوبزرگ جانتا ہے ۔ یہ سن کر ہم تینوں اس عیسائی کے پاس گئے ۔ اور اُس سے وہ تحریر مانگی۔ اس نے دور سے دکھائی اور پڑھ کر سنائی ۔ اور یہ کہا کہ یہ خاص آتھم کے قلم کی تحریر ہے جو چھپوانے کی غرض سے اس نے بھیجی تھی مگر عیسائیوں نے اجازت نہیں دی کہ اس کو چھاپا جائے ۔ میرے پاس امانتاً رکھی ہوئی ہے ۔ عیسائی مذکور نے چند شرائط پر وہ تحریر دینے کا اقرار کیا کہ اس کی نوکری جاتی رہے گی۔ اس کا انتظام اگر ہم کریں۔ پانچ سو روپیہ دیں اور اس کی دو لڑکیوں کی شادی کا بندوبست کریں ۔ شمس الدین صاحب نے اس کا انتظام کیا۔ اور پھر ہم تینوں اس کے پاس گئے تو معلوم ہوا کہ یہ راز افشاء ہوگیا ہے اور اسے عیسائیوں نے کوہاٹ یا کسی اور جگہ تبدیل کردیا ہے ۔
{ 1049} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں اپنے وطن بڈھانہ ضلع مظفر نگر جارہا تھا تو انبالہ سٹیشن پر ایک بڑا پادری فیروز پور سے آرہا تھا۔ جبکہ آتھم فیروز پور میں تھا ۔ پادری مذکور کے استقبال کے لئے بہت سے پادری موجود تھے۔ وہ جب اُترا تو پادریوں نے انگریزی میں اس سے آتھم کا حال پوچھا ۔ اس نے کہا ۔ وہ تو بے ایمان ہوگیا ۔ نمازیں بھی پڑھتا ہے ۔ بابو محمد بخش صاحب ہیڈ کلرک جو احمدی تھے۔ اور میرے ملنے کے لئے اسٹیشن پر آئے ہوئے تھے کیونکہ میں نے اُن کو اطلاع دے دی تھی۔ انہوںنے مجھے بتایا کہ یہ انہوںنے پوچھا ہے اور یہ اس نے جواب دیا ہے میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں واقعہ تحریر آتھم والااور انبالہ سٹیشن والا عرض کیا۔ آپ نے ہنس کر فرمایا کہ گواہ تو سب احمدی ہیں۔ حضور کا مطلب یہ تھا کہ غیر کب اس شہادت کو مانیں گے۔
شیخ محمد احمد صاحب وکیل پسر منشی ظفر احمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے والد صاحب سے پوچھا کہ شمس الدین صاحب تو احمدی نہ تھے ۔ جس کا جواب والد صاحب نے یہ دیا کہ دراصل حضور نے اس امر کو قابل توجہ نہیں سمجھا اور درخور اعتنا خیال نہ فرمایا۔
{ 1050} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا۔ میں۱۹۰۱ء میں معہ اہل وعیال قادیان آگیا اور پھر مستقل رہائش اختیار کر لی ۔ اُن دنوں میں ایک رسالہ ابتدائی جماعت کے لئے نماز کے متعلق لکھ رہا تھا۔ اُس میں میں نے ارکان نماز کا مختصر ذکر کیا تو میں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے دریافت کیا کہ پانچ ارکان ایمان یعنی(۱)اللہ تعالیٰ(۲) فرشتے(۳)اللہ کی کتابیں(۴) اللہ کے رسول(۵)آخرت کے ساتھ ’’قدر خیرہ وشر ہ ‘‘کا مفہوم بھی درج کیا جائے یا نہیں ۔ یہ میں نے حضرت مولانا مولوی نور الدین خلیفۃ المسیح الاول کے ذریعہ دریافت کیا اور مغرب کے بعد عشاء تک جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک میں تشریف رکھا کرتے تھے ۔ اُس وقت دریافت کیا تھا ۔ ا س وقت مسجد مبارک وسیع نہ ہوئی تھی۔ اور اس کی شکل یہ تھی ۔

۱۔ امام کے کھڑے ہونے کی جگہ ۲۔مسجد مبارک ۳۔ یہ کوٹھڑی بھی شامل مسجد ہو گئی تھی۔
۴۔ دفتر ریویو۔ مولوی محمد علی صاحب یہاں بیٹھا کرتے تھے ۔ ابتداء میں یہ غسل خانہ تھااور گہرا تھا ۔ تخت بچھا کر مسجد کے برابر کر لیا تھا۔ زیادہ لوگ ہوتے تو امام کے پاس بھی دو آدمی کھڑے ہوجاتے تھے۔ اور مولوی محمد علی صاحب کے دفتر میں بھی چند آدمی کھڑے ہوجاتے تھے۔ مگر جس وقت کا میں ذکر کرتا ہوں ۔ اس وقت یہ دفتر نہ بنا تھا۔ اس لئے صرف نمبر ۱،نمبر۲،نمبر ۳ میں ہی نما زہوتی تھی۔
میں مولوی عبد الکریم صاحب کے پاس بیٹھا تھا جو امام نما زتھے اور حضرت خلیفہ المسیح اول بھی وہاں بیٹھے ہوتھے ۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام مقام (الف) پر بیٹھا کرتے تھے اور دریچہ (ب) میں سے ہو کر مسجد میں آتے تھے۔ میرے دریافت کرنے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سمجھا کہ میں تقدیر کا قائل نہیں۔ اس پر لمبی تقریر فرمائی جو غالباً الحکم میں درج ہوگی۔ میں نے پھر بذریعہ مولانا صاحب عرض کیا کہ میں تقدیر کا قائل ہوں اور اللہ تعالیٰ پر مع جمیع صفات ایمان رکھتا ہوں ۔ اور اسے قادر وقدیر مانتا ہوں مگر میری عرض یہ ہے کہ باقی ماندہ صفات کو چھوڑ کر قدر خیر وشر کو کیوں الگ طور سے لکھا جائے ۔ یا تو تمام صفات کو لکھا جائے یا یہ بھی نہ ہو۔ توآپ نے فرمایا۔ یہ الگ طور پر نہ لکھی جائے ۔
{ 1051} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے پردہ کے متعلق دریافت کیا ۔ اس وقت میں ایک کام کے لئے حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہو اتھا ۔ اس وقت صرف میں اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ہی تھے۔ اور یہ اس مکان کا صحن تھا جو حضرت صاحبزادہ مرز ا شریف احمد صاحب کے رہائشی مکان کا صحن تھا۔ اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے جنوبی جانب بڑے کمرے کی چھت پر تھا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اس وقت وہاں تشریف رکھتے تھے۔ حضور نے اپنی دستار کے شملہ سے مجھے ناک کے نیچے کا حصہ اور منہ چھپا کر بتایا کہ ماتھے کو ڈھانک کر اس طرح ہونا چاہئے ۔ گویا آنکھیں کھلی رہیں اور باقی حصہ ڈھکا رہے ۔ اس سے قبل حضرت مولانا نور الدین صاحب ؓ سے میں نے ایک دفعہ دریافت کیا تھا تو آپ نے گھونگھٹ نکال کر دکھلایا تھا۔
{ 1052} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مباحثہ آتھم میں فریقین کی تقاریر جو قلمبند ہوتی تھیں۔ دونوں فریق کے کاتبان تحریر آپس میں اُن کا مقابلہ کرلیتے تھے ۔ کبھی اُن کے کاتب آجاتے، کبھی میں جاتا۔ ایک دفعہ میں مضمون کا مقابلہ کرانے کے لئے آتھم کے مکان پر گیا۔ جاکر بیٹھا ہی تھا کہ آتھم نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کہاں کے رہنے والے ہیں ۔ میں نے کہا قصبہ بڈھانہ ضلع مظفر نگر کا۔ اس نے کہا !وہاں کے منشی عبد الواحد صاحب منصف ایک میرے دوست تھے ۔ میں نے کہا کہ وہ میرے چچا تھے۔ پھر کسی جگہ کا آتھم نے ذکر کیا کہ میں وہاں کا ڈپٹی تھااور منشی عبدالواحد صاحب بھی وہاں منصف یا تحصیلدار تھے اور میرااُن کا بڑا تعلق تھا۔ اور وہ بھی اپنے آپ کو ملہم سمجھتے تھے۔ تم تو میرے بھتیجے ہوئے ۔ اور وہ اپنی مستورات کو لے آیا اور اُن سے ذکر کیا کہ یہ میرے بھتیجے ہیں ۔ ان کی خاطر کرنی چاہئے ۔ چنانچہ اُسی وقت مٹھائی وغیرہ لائی گئی۔ میںنے کہا کہ میں یہ نہیں کھاسکتا۔ کیونکہ ہمارے حضرت صاحب نے بعض عیسائیوں کی دعوت کو قبول نہیں کیا تھا اور فرمایا تھا کہ تم ہمارے آقا اور مولا کی ہتک کرتے ہو تو ہم تمہاری دعوت کیسے قبول کر سکتے ہیں ۔ اسی وجہ سے میںبھی چائے نہیں پی سکتا۔ وہ کہتا رہا کہ احمدی ہونے کی وجہ سے نہیںبلکہ بھتیجا ہونے کی وجہ سے دعوت کرتے ہیں۔ اس کے بعد میں مضمون کا مقابلہ کرائے بغیر وہاں سے چلا آیا اور حضور کی خدمت میں یہ واقعہ عرض کیا ۔ حضور نے فرمایا! کہ آپ نے بہت اچھاکیا۔ اب تمہیں وہاں جاکر مقابلہ کرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ انہیں خواہش ہوتو خود آجایا کریں ۔
{ 1053} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بیعت اولیٰ سے پہلے کا ذکر ہے کہ میں قادیان میں تھا۔ فیض اللہ چک میں کوئی تقریب شادی یا ختنہ تھی۔ جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مع چند خدام کے مدعو کیا گیا ۔ ان کے اصرار پر حضرت صاحب نے دعوت قبول فرمائی۔ ہم دس بارہ آدمی حضور کے ہمراہ فیض اللہ چک گئے ۔ گاؤں کے قریب ہی پہنچے تھے کہ گانے بجانے کی آوازسنائی دی جواس تقریب پر ہورہا تھا۔ یہ آواز سنتے ہی حضور لوٹ پڑے ۔ فیض اللہ چک والوں کو معلوم ہوا تو انہوںنے آکر بہت التجاء کی مگر حضور نے منظور نہ فرمایا۔ اور واپس ہی چلے آئے ۔ راستہ میں ایک گاؤں تھا مجھے اس کا نام اس وقت یاد نہیں۔ وہاں ایک معزز سکھ سردارنی تھی ۔ اُس نے بمنّت حضور کی دعوت کی ۔ حضور نے فرمایا۔قادیان قریب ہی ہے ۔ مگر اس کے اصرار پر حضور نے اس کی دعوت قبول فرمالی اور اس کے ہاں جاکر سب نے کھانا کھایا۔ اور تھوڑی دیر آرام کر کے حضور قادیان واپس تشریف لے آئے۔ہمراہیان کے نام جہاں تک یاد ہے یہ ہیں ۔ مرزااسماعیل صاحب شیر فروش، حافظ حامد علی ، علی بخش حجام جس نے عطاری کی دکان کی ہوئی تھی۔ اور بھی چند آدمی تھے۔
{ 1054} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ پٹیالہ کے بعض عیسائیوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور یہ بات پیش کی کہ ہم ایک لفافے میں مضمون لکھ کر میز پر رکھ دیتے ہیں۔ آپ اسے دیکھے بغیر اس کا مضمون بتادیں۔ حضرت صاحب نے فرمایا ! ہم بتادیں گے۔ آپ وہ مضمون لکھ کر رکھیں۔ اس پر انہوںنے جرأت نہ کی۔ اس قدر واقعہ میرا چشم دید نہیں ۔ البتہ اس واقعہ کے بعد حضرت صاحب نے ایک اشتہار شائع فرمایا تھا جو حنائی کاغذ پر تھا ۔وہ اشتہار میں نے پڑھا تھا جس میں یہ واقعہ درج تھا اور حضور نے یہ شرط پیش کی تھی کہ اگر ہم لفافے کا مضمون بتادیں تو مسلمان ہونا ہوگا۔ یہ واقعہ ابتدائی ایام کا اور بیعت اولیٰ سے پہلے کا ہے ۔
{ 1055} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میری دوسری بیوی کے انتقال پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بتوسل حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب راولپنڈی کے ایک تاجر صاحب کی سالی سے میرا رشتہ کرنا چاہا۔ مجھے یہ رشتہ پسند نہ تھا کیونکہ مجھے اُن کے اقرباء اچھے معلوم نہ ہوتے تھے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ رشتہ بہت پسند تھا۔ بلکہ یہاں تک زور دیا ، خو دتو نہیں فرمایا مگر پیغامبر کی معرفت فرمایا کہ اگریہ رشتہ میں منظور نہ کروں گا تو آپ میرے رشتہ کے متعلق کبھی دخل نہ دیں گے۔ مگر اُن تاجر صاحب نے خو دیہ بات اُٹھائی کہ ان کی سالی بہنویوں سے پردہ نہ کرے گی اور سخت پردہ کی پابندنہ ہوگی(میرے متعلق یہ کہا کہ )سنا جاتا ہے کہ نواب صاحب پردہ میں سختی کرتے ہیں ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام میرے پاس میرے مکان پر خود تشریف لائے اور فرمایاکہ وہ یہ کہتے ہیں ۔ میں نے عرض کی کہ قرآن شریف میں جو فہرست دی گئی ہے میں اس سے تجاوز نہیں چاہتا۔ فرمانے لگے کہ کیا بہنوئی سے بھی پردہ ہے ۔ میںنے عرض کی کہ حضور مجھ سے زیادہ جانتے ہیں ۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے ۔ قرآن شریف کی فہرست میں بہنوئی داخل نہیں ۔ آپ خاموش ہوگئے اور پھر اس رشتہ کے متعلق کچھ نہیں فرمایا۔ اور وہ تاجر صاحب بھی چلے گئے ۔
{ 1056} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جالندھر میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام تقریباً ایک ماہ قیام پذیر رہے ۔ بیعت اولیٰ سے تھوڑے عرصہ بعد کا یہ ذکر ہے ۔ ایک شخص جو ہندو تھا اور بڑا ساہوکار تھا وہ جالندھر حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور عرض کی کہ میں حضور کی مع تمام رفقاء کے دعوت کرنا چاہتاہوں ۔ آپ نے فوراً دعوت قبول فرمالی۔ اُس نے کھانے کا انتظام بستی بابا خیل میں کیا اور بہت پرتکلف کھانے پکوائے ۔ جالندھر سے پیدل چل کر حضور مع رفقاء گئے ۔ اُس ساہوکار نے اپنے ہاتھ سے سب کے آگے دستر خوان بچھایا۔ اور لوٹااور سلاپچی لے کر خود ہاتھ دُھلانے لگا ۔ ہم میں سے کسی نے کہا کہ آپ تکلیف نہ کریں تو اُس نے کہا کہ میں نے اپنی نجات کا ذریعہ محض یہ سمجھا ہے کہ میری یہ ناچیز خدمت خد اقبول کر لے ۔ غرض بڑے اخلاص اور محبت سے وہ کھانا کھلاتا رہا۔ کھانا کھانے کے بعد اُس نے حضرت صاحب سے عرض کی کہ کیا خدا میرے اس عمل کوقبول کرے گا، مجھے نجات دے گا؟ حضور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ذرہ نواز ہے ۔ تم خدا کو وحدہ لاشریک یقین کرو اور بتوں کی طرف بالکل توجہ نہ کرو اور اپنی ہدایت کے لئے خدا سے اپنی زبان میں ہی دعا مانگتے رہا کرو۔ اُس نے کہا کہ میں ضرور ایسا کروں گا۔ حضور بھی میرے لئے دعا مانگتے رہیں۔ پھر ہم واپس جالندھر آگئے اور وہ ساہوکار دوسرے تیسرے دن آتا اور بڑے ادب کے ساتھ حضور کے سامنے بیٹھ جاتا۔
{ 1057} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سیبذریعہ تحریر بیان کیا کہ جالندھر میں قیام کے ایام میں ایک دن ایک ضعیف العمر مسلمان غالباً وہ بیعت میں داخل تھا اور اس کا بیٹا نائب تحصیلدار تھا ،اس بیٹے کو لے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اُس نے شکایت کی کہ یہ میرا بیٹا میری یا اپنی ماں کی خبر گیری نہیں کرتا اور ہم تکلیف سے گزارا کرتے ہیں ۔ حضور نے مسکرا کر اُس کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ خد اتعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے ویُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِینًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا (الدھر:۹) ۔ اور اس میں کیا شک ہے کہ جب کوئی شخص اپنے ماں باپ ، اولاد اور بیوی کی خبر نہ لے ۔ تو وہ بھی اس حکم کے نیچے مساکین(ماں باپ) یتامیٰ (بچے) اسیر (بیوی) میں داخل ہوجاتے ہیں ۔ تم خدا تعالیٰ کا یہ حکم مان کر ہی آئندہ خدمت کرو۔ تمہیں ثواب بھی ہوگا اور ان کی خبرگیری بھی ہوجائے گی ۔ اُس نے عہد کیا کہ آج سے میں اپنی کل تنخواہ ان کو بھیج دیا کروں گا۔ یہ خود مجھے میرا خرچ جو چاہیں بھیج دیا کریں پھر معلوم ہوا کہ وہ ایسا ہی کرتا رہا۔
{ 1058} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ دوران قیام جالندھر میں ایک شخص جو مولوی کہلاتا تھا ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بحث کرنے کی غرض سے آیا۔ حضور نے فرمایا کہ آپ صبح کے وقت آجائیں ۔ اُس نے کہا کہ صبح کو مجھے فرصت نہیں ہوتی۔ میں بھی اُس شخص کو جانتا تھا۔ میںنے کہا ۔یہ شخص واقعی صبح کو مشغول ہوتا ہے کیونکہ شراب نوشی کا عادی ہے ۔ اس پر حاضرین تو مسکرا پڑے۔ لیکن حضور نے صرف اس قدر فرمایا کہ آپ اپنے شکوک رفع کرنے کے لئے کوئی اور وقت مقرر کر لیں۔
{ 1059} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جالندھر میں زیادہ عرصہ قیام جب رکھا تو دوست احباب ٹھہر کر چلے جاتے تھے ۔ لیکن مولوی عبداللہ صاحب سنوری اور خاکسار برابر ٹھہرے رہے ۔ ایک دن میں نے اور مولوی صاحب مرحوم نے ارادہ کیا کہ وہ میرے لئے اور میں اُن کے رخصت ہونے کی اجازت حاصل کریں۔ صبح کو حضور سیر کے لئے تشریف لائے اور آتے ہی فرمایا۔ لوجی میاں عبد اللہ صاحب اور منشی صاحب! اب تو ہم اور آپ ہی رہیں گے اور دوست تو چلے گئے ۔ نئے نودن پرانے سو دن۔ بس پھر ہم خاموش ہوگئے اور ٹھہرے رہے ۔
{ 1060} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ابتداء میں جب میں قادیان مستقل طور پر رہنے لگا تو مرزا نظام الدین صاحب کے ہاں باہرسے برات آئی تھی ۔ اس کے ساتھ کنچنی بھی تھی اور ناچ وغیرہ ہوتا تھا ۔ میں ایسی شادی کی رسوم میں نہ خود شریک ہوتا ہوں اور نہ اپنی کوئی چیز دیتا ہوں ۔ مرزا نظام الدین نے مجھ سے غالباً کچھ دریاں اور چکیں مانگی تھیں ۔ میں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے دریافت کیا ۔ آپ نے فرمایا۔ دے دو کیونکہ اس شادی سے اغلب ہے کہ دولہا کی اصلاح ہوگی۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 1061} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مرزا خدابخش صاحب کے ہاں بچہ پیدا ہوا۔ انہوںنے لڈومیرے ہاں بھیجے ۔ میں نے واپس کر دئیے کہ عقیقہ کا کھانا تو میں لے لوں گا مگر یہ میں نہیں لیتا ۔ تھوڑے عرصہ بعد حضرت مسیح موعودعلیہ السلام وہ رکابی خود لئے تشریف لائے اور فرمایا کہ بات ٹھیک ہے جو تم نے کہی ۔ یہ بچہ کی پیدائش کے لڈو نہیں ۔ بلکہ اس شکریہ کے ہیں کہ ماں کی جان بچ گئی ۔ میں نے نہایت تکریم سے وہ رکابی لے لی ۔ اُس وقت میرے مکان زنانہ کے صحن میں ایک دروازہ تھا اس پر کھڑے کھڑے یہ باتیں ہوئیں ۔
{ 1062} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جالندھر میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ایک دفعہ خد اتعالیٰ کی وحدانیت پر تقریر فرمارہے تھے ۔ اس وقت ایک انگریز جو بعد میں معلوم ہوا کہ سپرنٹنڈنٹ پولیس تھا ،آگیا اور ٹوپی اتار کر سلام کیااور حضور کی تقریر سننے کے لئے کھڑا رہا اور باوجود یکہ اس کے بیٹھنے کے لئے کرسی وغیرہ بھی منگوائی گئی مگر وہ نہ بیٹھا۔ عجیب بات تھی کہ وہ تقریر سنتا ہوا۔ سبحان اللہ سبحان اللہ کہتا تھا ۔ تھوڑا عرصہ تقریر سن کر سلام کر کے وہ چلا گیا۔ اس کے بعد قریباً دوسرے تیسرے دن جب حضور سیر کو تشریف لے جاتے تو ایسا اتفاق ہوتا کہ وہ راستہ میں گھوڑے پر سوار مل جاتا اور گھوڑے کو ٹھہرا کر ٹوپی اتار کر سلام کرتا ۔یہ اس کا معمول تھا۔
{ 1063} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جالندھر میں مولوی عبد الکریم صاحب نے ایک دفعہ مجھے فرمایا ۔ یا ظفر المظفر (وہ دوستانہ بے تکلفی میں مجھے اس نام سے مخاطب فرمایا کرتے تھے) ذرا جالندھر کی سیر تو کراؤ۔ چنانچہ ہم چل پڑے۔ راستہ میںدیکھا کہ گویا ایک برات آرہی ہے اور اس کے ساتھ دیسی اور انگریزی باجااور طوائف وغیرہ آرہے ہیں۔ اُن کے پیچھے ایک شخص گھوڑے پر سوار بٹیرے کا پنجرہ ہاتھ میں لئے آرہا تھا۔ معلوم ہوا کہ یہ تمام جلوس اسی بٹیرے کے لڑائی جیتنے کی خوشی میں ہے ۔ میںنے مولوی صاحب سے کہا کہ یہ برات ورات نہیں ۔ یہ تو بٹیرے کی کشتی جیتنے کی خوشی ہے ۔ مولوی عبد الکریم صاحب یہ دیکھ کر سڑک پر ہی سجدہ میں گر پڑے اور سخت مغموم ہوئے ۔ بوجہ مسلمانوں کی اس ابتر حالت کے۔ اور یہی فرماتے رہے کہ اوہو! مسلمانوں کی حالت اس درجہ پر پہنچ گئی ہے ۔ہم واپس آگئے ۔
{ 1064} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام جالندھر میں مقیم تھے تو انہیں دنوں میر عباس علی صاحب بھی اپنے کسی مرید کے ہاں آکر جالندھر میں ٹھہرے ہوئے تھے ۔ حضرت صاحب نے مجھے فرمایاکہ وہ آپ کے پرانے ملنے والے ہیں اُن کو جاکر کچھ سمجھاؤ۔ پیراں دتا جو کہ فاتر العقل سا شخص تھا اور حضرت صاحب کے پاس رہتا تھا ۔ اس نے کہا ’’ حجور میں وی جاکے سمجھاواں ‘‘ حضرت صاحب نے فرمایا ۔ہاں منشی صاحب کے ساتھ چلے جاؤ۔ میں میر عباس علی کی قیام گاہ پر گیا۔آٹھ دس آدمی فرش پر بیٹھے تھے اور میر صاحب چارپائی پر ۔ ایک تخت بھی وہاں تھا ۔ دَوروں میں پوست بھیگے ہوئے تھے۔ پیراں دتا کو دیکھ کر میر عبا س علی نے اُسے بے تکلفانہ پکارا ۔ اوپیراں دتا ، او پیراں دتا ، اور مجھ سے السلام علیکم کر کے ہنستے ہوئے ،آئیے آئیے کہہ کر بیٹھنے کو کہا ۔ پیراں دتا مجھ سے کہنے لگا ۔ میں پہلے سمجھا لوں ۔ میں نے کہا سمجھا لے ۔ پیراں دتا کہنے لگا ۔میر صاحب! میں تمہیں دونوں وقت کھانا پہنچاتا تھا یا نہیں ؟ اور تمہیں کبھی کبھی میں پیسے بھی دیا کرتا تھا یا نہیں؟ میر صاحب اب بڑے آدمی دور دور سے روٹی کھانے والے آتے ہیں ۔اب جو تم روٹیوں کی خاطر ادھر ادھر پھرتے ہو یہ وقت اچھا ہے یا وہ جب گھر بیٹھے میں تمہیں روٹی دے جایا کرتا تھا ۔ اب تم میرے ساتھ چلو۔ میں تمہیں روٹی دونوں وقت دے جایا کروں گا۔ میر عباس علی ہنستے رہے ۔ پھر میں نے اُن سے کہا کہ آپ کیوں برگشتہ ہوگئے ۔ وہ کہنے لگا کہ مرزاصاحب کہتے ہیں کہ یہ جسم آسمان پر نہیں جاسکتا۔ میں نے اپنے پیر کو خودد یکھا ہے (مولوی غوث علی پانی پتی ان کے پیر تھے) کہ ایک دفعہ انہوں نے الااللہ کا جونعرہ مارا تو زمین شق ہوگئی اور وہ اس میں سما گئے ۔ میںنے کہا کہ اوپر تو پھر بھی نہ گئے ۔ اور وہاں قرآن شریف رکھا تھا ۔ میں نے اُٹھا کر میر صاحب کے سر پر رکھ دیا کہ آپ خدا کو حاضر وناظر جان کربتائیں کہ آ پ نے یہ واقعہ خود دیکھا ہے ۔ وہ کہنے لگا کہ ہمارے پیر نے جب یہ بیان کیا کہ انہوںنے ایک دفعہ ایسا کیا۔ اور ہم انہیں سچا سمجھتے ہیں ۔ تو یہ چشم دید ماجرا ہی ہوا ۔ غرضیکہ جہاں تک ہوسکا ۔میں نے اُن کو سمجھایا ۔ مگر اس وقت ان کی حالت بہت بگڑ چکی تھی۔ وہ اقراری نہ ہوئے ۔
{ 1065} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ پہلے جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سیر کو تشریف لے جاتے تو میرا انتظار فرماتے۔ بعض دفعہ بہت دیر بھی ہوجاتی مگر جب سے مبارکہ بیگم صاحبہ کا نکاح مجھ سے ہوا تو آ پ نے پھر میرا انتظار نہیں کیا۔ (یا توحیا فرماتے۔ اور اس کی وجہ سے ایسا نہیں کیا یا مجھے فرزندی میں لینے کے بعد فرزند سمجھ کر انتظار نہیں کیا)
{ 1066} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام جس مکان میں رہا کرتے تھے اب اس میں حضرت اماں جان علیہا السلام رہتی ہیں ۔ اس کے صحن اور میرے مکان کے صحن میں صرف ایک دروازہ حائل تھا ۔ گویا اس وقت نقشہ یہ تھا۔

کمرہ نمبر۱، نمبر۲، نمبر۳میں میری رہائش تھی ۔ نمبر۴میں مولوی محمد احسن صاحب رہا کرتے تھے۔ نمبر۵میرا صحن تھا، نمبر۶حضرت صاحب کا صحن تھا۔ اور نمبر۷آپ کا رہائشی کمرہ تھااور نمبر۸بیت الفکر تھا۔ اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب کوئی بات کرتے ہمیں سنائی دیتی۔ جب بھی کوئی بات ہو یا عورتوں میں تقریر ہو۔ رات دن میں جب بھی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ذکر آتا تو آپ کے منہ سے یہی نکلتا تھا’’ہمارے رسول کریم ، ہمارے نبی کریم ‘‘
{ 1067} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مغرب کے بعد مسجد مبارک کی دوسری چھت پر مع چند احباب کھانا کھانے کے لئے تشریف فرماتھے۔ ایک احمدی میاں نظام الدین ساکن لدھیانہ جو بہت غریب آدمی تھے اور ان کے کپڑے بھی دریدہ تھے۔ حضور سے چار پانچ آدمیوں کے فاصلہ پر بیٹھے تھے۔ اتنے میں کئی دیگر اشخاص خصوصاً وہ لوگ جو بعد میں لاہوری کہلائے ،آتے گئے اور حضور کے قریب بیٹھتے گئے ۔ جس کی وجہ سے میاں نظام الدین کو پرے ہٹنا پڑتا رہا ۔ حتّٰی کہ وہ جوتیوں کی جگہ تک پہنچ گیا۔ اتنے میں کھاناآیا۔ تو حضور نے ایک سالن کا پیالہ اور کچھ روٹیاں ہاتھ میں اٹھالیں اور میاں نظام الدین کو مخاطب کر کے فرمایا ۔ آؤ میاں نظام الدین !آپ اور ہم اندر بیٹھ کر کھانا کھائیں ۔ اور یہ فرما کر مسجد کے صحن کے ساتھ جو کوٹھڑی ہے اس میں تشریف لے گئے اور حضور نے اور میاں نظام الدین نے کوٹھڑی کے اندر ایک ہی پیالہ میں کھانا کھایا۔ اور کوئی اندر نہ گیا۔ جو لوگ قریب آکر بیٹھتے گئے تھے ان کے چہروں پر شرمندگی ظاہر تھی۔
{ 1068} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک صاحب مولوی عبد الرحیم ساکن میرٹھ قادیان آئے ہوئے تھے۔ حضرت مسیح موعوعلیہ السلام سے تین دن تک اُن کی ملاقات نہ ہوسکی۔ وجہ یہ تھی کہ جب حضور مسجد مبارک میں بیٹھتے تو عبد الرحیم صاحب تکلف اور آداب کے خیال سے لوگوں کو ہٹا کر اور گزر کر قریب جانا ناپسند کرتے تھے۔ میری یہ عادت تھی کہ بہرحال وبہرکیف قریب پہنچ کر حضور کے پاس جابیٹھتا تھا۔ عبد الرحیم صاحب نے مجھ سے ظاہر کیاکہ تین دن سے ملاقات نہیں ہوسکی ۔ چنانچہ میں نے حضرت صاحب سے یہ بات عرض کی ۔ حضور ہنس کرفرمانے لگے کہ کیا یہ آپ سے سبق نہیں سیکھتے ۔ اور پھر انہیں فرمایا کہ آجائیے ۔ چنانچہ ان کی ملاقات ہوگئی۔
{ 1069} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ دو شخص منی پور آسام سے قادیان آئے اور مہمان خانہ میں آکر انہوں نے خادمان مہمان خانہ سے کہا کہ ہمارے بستر اُتارے جائیں اور سامان لایا جائے ۔ چارپائی بچھائی جائے ۔ خادمان نے کہا کہ آپ خود اپنا اسباب اتروائیں ۔ چارپائیاں بھی مل جائیں گی۔ دونوں مہمان اس بات پر رنجیدہ ہوگئے اور فوراً یکّہ میں سوار ہوکر واپس روانہ ہوگئے ۔ میں نے مولوی عبد الکریم صاحب سے یہ ذکر کیا تو مولوی صاحب فرمانے لگے ۔ جانے بھی دو ایسے جلد بازوں کو۔حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو اس واقعہ کا علم ہوا تو نہایت جلدی سے ایسی حالت میں کہ جوتا پہننا مشکل ہوگیا ۔ حضور ان کے پیچھے نہایت تیز قدم چل پڑے ۔ چند خدام بھی ہمراہ تھے۔ میں بھی ساتھ تھا۔ نہر کے قریب پہنچ کر اُن کا یکّہ مل گیا۔ اور حضور کو آتا دیکھ کر وہ یکّہ سے اُتر پڑے اور حضور نے انہیں واپس چلنے کے لئے فرمایاکہ آپ کے واپس ہونے کا مجھے بہت درد پہنچا۔ چنانچہ وہ واپس آئے۔ حضور نے یکہ میں سوار ہونے کے لئے انہیں فرمایا کہ میں ساتھ ساتھ چلتا ہوں مگر وہ شرمندہ تھے اور وہ سوار نہ ہوئے ۔ اس کے بعد مہمان خانہ میں پہنچے ۔ حضور نے خود اُن کے بستر اُتارنے کے لئے ہاتھ بڑھایامگر خدام نے اُتار لیا۔ حضور نے اُسی وقت دو نواڑی پلنگ منگوائے اور اُن پر ان کے بستر کروائے اوراُن سے پوچھا کہ آپ کیا کھائیں گے۔ اور خود ہی فرمایا کیونکہ اس طرف چاول کھائے جاتے ہیں۔ اور رات کو دودھ کے لئے پوچھا۔ غرضیکہ اُن کی تمام ضروریات اپنے سامنے پیش فرمائیں اور جب تک کھانا آیا وہیں ٹھہرے رہے ۔ اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ ایک شخص جو اتنی دور سے آتا ہے ۔ راستہ کی تکالیف اور صعوبتیں برداشت کرتا ہوا یہاں پہنچ کر سمجھتا ہے کہ اب میں منزل پر پہنچ گیا ۔ اگر یہاں آکر بھی اس کو وہی تکلیف ہو تو یقینا اس کی دل شکنی ہوگی۔ ہمارے دوستوں کو اس کا خیال رکھنا چاہئے ۔ اس کے بعد جب تک وہ مہمان ٹھہرے رہے ۔ حضور کا یہ معمول تھا کہ روزانہ ایک گھنٹہ کے قریب اُن کے پاس آکر بیٹھتے اور تقریر وغیرہ فرماتے۔ جب وہ واپس ہوئے تو صبح کا وقت تھا ۔ حضور نے دو گلاس دودھ کے منگوائے اور انہیں فرمایا۔یہ پی لیجئے ۔ اور نہر تک انہیں چھوڑنے کے لئے ساتھ گئے ۔ راستہ میں گھڑی گھڑی اُن سے فرماتے رہے کہ آپ تو مسافر ہیں۔ آپ یکے میں سوار ہولیں ۔ مگر وہ سوار نہ ہوئے ۔ نہر پر پہنچ کر انہیں سوار کرا کے حضور واپس تشریف لائے ۔
{ 1070} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سیبذریعہ تحریر بیان کیا ۔ کہ ایک دفعہ منشی اروڑاصاحب، محمد خاں صاحب اور خاکسار قادیان سے رخصت ہونے لگے۔ گرمیوں کا موسم تھا اور گرمی بہت سخت تھی ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے اجازت اور مصافحہ کے بعد منشی اروڑا صاحب نے کہا کہ حضور گرمی بہت ہے ہمارے لئے دعا فرمائیں کہ پانی ہمارے اوپر اور نیچے ہو۔ حضور نے فرمایا ۔ خداقادر ہے ۔ میں نے عرض کی کہ حضور یہ دعا انہیں کے لئے فرمانا کہ ان کے اوپر نیچے پانی ہو۔ قادیان سے یکہ میں سوار ہوکر ہم تینوں چلے توخاکروبوں کے مکانات سے ذرا آگے نکلے تھے کہ یکدم بادل آکر سخت بارش شروع ہوگئی۔ اس وقت سڑک کے گرد کھائیاں بہت گہری تھیں ۔تھوڑی دور آگے جاکر یکہ الٹ گیا ۔ منشی اروڑا صاحب بدن کے بھاری تھے وہ نالی میں گر گئے اور محمد خاں صاحب اور میں کودپڑے۔ منشی اروڑا صاحب کے اوپر نیچے پانی ہوگیااور وہ ہنستے جاتے تھے۔
{ 1071} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن دوپہر کے وقت ہم مسجد مبارک میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کہ کسی نے اُس کھڑکی کو کھٹکھٹایا جو کوٹھڑی سے مسجد مبارک میں کھلتی تھی ۔ میںنے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام خود تشریف لائے ہیں ۔ آپ کے ہاتھ میں ایک طشتری ہے جس میں ایک ران بھنے ہوئے گوشت کی ہے ۔ وہ حضور نے مجھے دے دی اور حضور خود واپس اندر تشریف لے گئے ۔ اور ہم سب نے بہت خوشی سے اُسے کھایا۔ اس شفقت اور محبت کااثر اب تک میرے دل میں ہے اور جب بھی اس واقعہ کو یاد کرتاہوں تو میرا دل خوشی اور فخر کے جذبات سے لبریز ہوجاتا ہے ۔
{ 1072} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ہے کہ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب مرحوم کی بیماری کے دوران میں بھی قادیان ہی میں حاضر تھا اور اُن کی وفات کے وقت بھی یہیں موجود تھا۔ چنانچہ ان کے جنازہ کو مقبرہ بہشتی میں لے جانے کے لئے ڈھاب کے ایک حصہ پر عارضی پل بنانا پڑاتھا۔ اس پل کے بنانے میں زیادہ تر تعلیم الاسلام ہائی سکول کے لڑکوں کا حصہ تھا اور مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں بھی اُن کے ساتھ شامل ہوا تھا اور بعد میں صاحبزادہ صاحب کے جنازہ میں بھی شامل ہوا۔ جنازہ کے بعد حضرت مسیح موعودعلیہ السلام قبر سے تھوڑے فاصلہ پر بیٹھ گئے اور صاحبزادہ صاحب مرحوم کے متعلق اپنے الہامات اور پیشگوئیوں کا ذکر فرماتے رہے ۔ میں اگرچہ اُس وقت بچہ ہی تھا لیکن یہ احساس اس وقت تک میرے دل میں قائم ہے کہ حضور باوجود اس قدر سخت صدمہ کے جوآپ کوصاحبزادہ صاحب کی وفات سے لازماًپہنچا ہوگا نہایت بشاشت سے کلام فرماتے رہے ۔
{ 1073} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام دہلی سے واپسی پر امرتسر اُترے ۔ حضرت ام المومنین بھی ہمراہ تھیں ۔ حضور نے ایک صاحبزادے کو جو غالباً میاں بشیر احمد صاحب (خاکسار مؤلف) تھے گود میں لیا۔ اور ایک وزنی بیگ دوسری بغل میں لیا اور مجھے فرمایا آپ پاندان لے لیں ۔ میں نے کہا حضور مجھے یہ بیگ دے دیں ۔ آپ نے فرمایا۔ نہیں۔ ایک دو دفعہ میرے کہنے پر حضور نے یہی فرمایا۔ تو میںنے پاندان اٹھا لیا اور ہم چل پڑے ۔ اتنے میں دو تین جوان عمر انگریز جو اسٹیشن پر تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ حضور سے کہو ذرا کھڑے ہوجائیں ۔ چنانچہ میں نے عرض کی کہ حضور یہ چاہتے ہیں کہ حضور ذرا کھڑے ہوجائیں۔ حضور کھڑے ہوگئے اور انہوںنے اُسی حالت میں حضور کا فوٹو لے لیا۔
{ 1074} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ہے کہ مقدمہ کرم دین میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا تار میرے نام آیا۔ کہ آپ شہادت کے لئے گورداسپور پہنچیں۔ میں فوراً گورداسپور روانہ ہوگیا۔ کرم دین نے لمبی چوڑی جرح تیار کی ہوئی تھی۔ ہر ایک گواہ کے لئے ۔ خصوصاً پرانے خدام کے لئے لمبی جرح اُس نے تیار کی تھی ۔ چنانچہ مجھ پر اُس نے حسب ذیل سوالات کئے۔
س : قادیان میں کتنے پریس ہیں ۔
ج : میں کیا جانوں کس قدر پریس ہیں ۔
س : مرز اصاحب کی کس قدر تصانیف ہیں
ج : اسّی کے قریب ہوں گی۔
س : کتابوں کے کیا کیا نام ہیں ۔
ج : مجھے یاد نہیں۔ میں کوئی کتب فروش نہیں ہوں ۔
س : کس قدر سنگ ساز ہیں اور ان کے کیا کیا نام ہیں
ج : ایک شخص کرم الٰہی کو میں جانتا ہوں اور پتہ نہیں
س : کاتب کس قدر ہیں اور ان کے کیا کیا نام ہیں
ج : مجھے علم نہیں ۔
س : آپ قادیان میں کتنی دفعہ آئے ہیں ۔
ج : سینکڑوں دفعہ
س : تعداد بتائیں
ج : میں نے گنتی نہیں کی
اسی طرح چند اور سوال کئے ۔ جن کے جواب میں میں لاعلمی ظاہر کرتا رہا ۔ آخر مجسٹریٹ نے اسے اس قسم کے سوالات کرنے سے روک دیا۔ اور میں کمرہ عدالت سے باہر چلا آیا۔ جس پراُس نے عدالت سے کہا کہ یہ دیگر گواہوں کو باہر جاکر بتادے گا۔ مگرحاکم نے اس کی بات نہ مانی کہ گواہ معزز آدمی ہے اور میں باہر چلا آیا۔
اسی درمیان میں مجسٹریٹ نے مجھ سے سوال کیا تھا کہ آپ مرزاصاحب کے مرید ہیں۔ میں نے کہا ۔ہاں ۔پھر اس نے پوچھا کہ آپ جان ومال اُن پر فدا کرسکتے ہیں ۔ میں نے جواب دیا کہ جان ومال کی حفاظت کے لئے ہم نے بیعت کی ہے ۔ وہ مجھے سوال میں پھانسنا چاہتا تھا ۔ مگر یہ جواب سن کر رہ گیا۔
گواہوں کے بیانات نوٹ کرنے کے لئے حضرت صاحب مجھے تقریباً ہر مقدمہ میں اندر بلا لیا کرتے تھے ۔ ایک دفعہ حضرت مولوی نور الدین صاحب نے میری اس خوش قسمتی بوجہ زود نویسی پر رشک کا اظہار فرمایا ۔
{1075} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ سب سے پہلے مجھے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے شرف نیاز کا موقعہ اُس روز ہوا جب کہ حضور مولوی عبد اللہ صاحب سنوری کی اس درخواست پر کہ حضور ایک دفعہ ان کے گھر واقعہ قصبہ سنور متصل پٹیالہ میں قدم رنجہ فرمائیں۔ پٹیالہ تشریف لائے ۔ دس بجے صبح کے قریب پہنچنے والی ٹرین سے حضور کے راجپورہ کی جانب سے تشریف لانے کی اطلاع تھی۔ خاکسار پہلی ٹرین سے راجپورہ پہنچ گیا۔ آگے پٹیالہ آنے والی ٹرین تیار تھی۔ حضور گاڑی کے آگے معہ دو ہمراہیاں حکیم فضل الدین صاحب بھیروی مرحوم وحاجی عبد الرحیم صاحب المعروف ’’پیسہ والے سوداگر‘‘ گاڑی کے آگے پلیٹ فارم پر کھڑے تھے ۔ چونکہ ہم لوگ اس سے قبل کسی کی صورت سے بھی آشنا نہ تھے ۔ اس لئے حاجی عبد الرحیم صاحب کی طرف مصافحہ کے لئے بڑھے۔ کیونکہ حاجی صاحب لحیم وشحیم اور قدآور آدمی تھے۔ اور لباس ظاہری بھی اُن کا شاندار تھا۔ حاجی صاحب نے ہمارا مقصد محسوس کرتے ہوئے حضرت صاحب کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ اگر آپ لوگ حضرت صاحب کی زیارت کے لئے آئے ہیں تو حضرت صاحب یہ ہیں۔ اس پر ہم دو تین آدمیوں نے حضرت صاحب سے مصافحہ کیا۔ حضرت صاحب نے حاجی صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا۔کہ حاجی صاحب! بہت تھوڑے لوگ ہیں جو صرف خد اکے لئے آتے ہیں ۔ دراصل دنیاعجائب پسند ہے ۔اگر یہ شہرت ہوجائے کہ انبالہ میں ایک چار آنکھوں والا آدمی ہے ۔ تو ا س کے دیکھنے کے لئے دنیا ٹوٹ پڑے۔ ایسا ہی لفظ الہام سے دنیا اجنبی ہوچکی تھی۔ اب جو وہ سنتے ہیں کہ ایک شخص کو خد اکی طرف سے الہام ہوتا ہے تو اُسی طرح تعجب سے وہ چاہتے ہیں کہ دیکھیں وہ آدمی جس کو الہام ہوتا ہے وہ کیسا ہے ۔ اس کے بعد گاڑی پٹیالہ کو روانہ ہوئی۔ پٹیالہ اسٹیشن پر معلوم ہوا کہ حضرت صاحب جناب وزیر محمد حسین صاحب کی گاڑی میں سوار ہو کر جو اسی غرض سے خود گاڑی لے کر آئے تھے۔ جانب شہر روانہ ہوگئے ۔ اور اُس کوٹھی میں جو اسٹیشن سے دو میل کے فاصلہ پر (جانب شرق پٹیالہ سے )واقع ہے موجود ہیں ۔ جب خاکسار بھی پتہ لگا کر وہاں پہنچ گیاتو حضور کوٹھی کے بڑے کمرے میں تقریر فرمارہے تھے اور بیس تیس مردماں کا مجمع تھا۔ تقریر کا مفہوم ’’ضرورت الہام‘‘ معلوم ہوتا تھا۔ کیونکہ خاکسار کے حاضر ہونے کے بعد جو الفاظ حضرت صاحب سے سنے تھے وہ یہ تھے۔ عقل صرف ہستی باری تعالی کے بارہ میں ’’ہونا چاہئے ‘‘۔ تک جاسکتی ہے ۔ لیکن یہ بات کہ ایسی ہستی ضرور ہے ۔ اس کی دسترس سے باہر ہے ۔ یہ صرف الہام ہی کے ذریعہ سے معلوم ہوسکتا ہے کہ ایسی ہستی ضرور موجود ہے ۔ تقریر والے کمرہ سے ملحقہ کمرہ کی طرف جو بند تھا۔ اشارہ کر کے فرمایا کہ فرض کرو کہ اس کمرہ میں کسی شخص کے بند ہونے کا کوئی دعویٰ کرے اور کوئی دوسرا شخص اس کے شوق زیارت میں ہر روز بڑے الحاح اور عاجزی سے اس کو پکارے ۔ اگر سالہا سال بعد بکثرت لوگ ایسا ہی کریں اور کسی کو اُس شخص کی آواز تک نہ سنائی دے تو وہ سب تھک کر آخر اس کے ہونے سے انکار ی ہوجائیں گے۔ پس دہریہ تو عدم جہد وعدم معرفت کی وجہ سے دہریہ ہیں ۔ لیکن یہ خدا کے پرستار الہام سے تشفی یاب نہ ہونے کی صورت میں ایک تجربہ کار دہریہ ہوتے۔ پس یقینی ایمان الہا م کے بغیر میسر نہیں ہوسکتا۔ یقینی ایمان کے لئے الہام از بس ضروری ہے ۔ اس تقریر کے ختم کرنے کے بعد حضور بسواری گاڑی وزیر صاحب سنور تشریف لے گئے ۔

{1076} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سنور سے شام کو پٹیالہ واپس تشریف لائے تو پھر وزیر محمد حسین صاحب کی کوٹھی پر حضور نے تقریر فرمائی۔ لیکن خاکسار اس کو سن نہ سکا۔ کیونکہ تقریر اوپر کے حصہ مکان میں ہورہی تھی۔ اور مجمع اس قدر کثیر تھا کہ چھتوں کے گرجانے کے خوف سے پہرہ قائم کردیا گیا تاکہ اور آدمی اندر نہ آنے پائیں۔ واپسی پر اسٹیشن پٹیالہ پر بھی ایسی ہی لوگوں کی کثرت تھی ۔
{ 1077} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام واپسی پر پٹیالہ کے اسٹیشن پر تشریف لائے تو حضور نے نماز مغرب خود پڑھائی۔ اس وقت ایک ناگوار واقعہ یہ ہوا کہ حضور وضو فرمانے لگے تو ہاتھ میں ایک رومال تھا جس میںقریباً یکصد روپیہ تھا تو حضور نے لوٹا ہاتھ میں لیتے وقت بے خیال کسی اجنبی شخص کو وہ رومال پکڑا دیا۔ اور نما زاد اکرنے کے بعد جب حضور نے رومال کے متعلق دریافت کیا تو کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔ جب اس امر کا چرچا ہونے لگا تو حضور نے منع فرمایا کہ زیادہ تجسس نہ کرو۔ شاید کسی ضرورت مند کے لئے خدا نے اپنے رحم سے ایسا کیا ہو۔ اس کے بعد گاڑی میںسوار کر راجپورہ پہنچ گئے ۔ خاکسار بھی راجپورہ تک ساتھ گیا۔ اور جب حضور ریل گاڑی میں جو پنجاب کی طرف جانے والی تھی تشریف فرما ہوئے تو خاکسار نے ایک روپیہ بطور نذرانہ پیش کیا کہ حضور اسے قبول فرمائیں ۔ حضور نے فرمایا کہ آپ تو طالب علم معلوم ہوتے ہیں اس لئے یہ تکلیف نہ کریں ۔ خاکسار نے عرض کی کہ میری آرزو یہ ہے کہ میرا یہ روپیہ اُس کتاب کی اشاعت کے مصارف میں شامل ہوجائے جو حضور نے تصنیف فرمائی ہے (یعنی براہین احمدیہ) اس پر حضور نے وہ روپیہ بخوشی قبول فرما کر جزائے خیر کی دعا کی ۔
{ 1078} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ چندولعل مجسٹریٹ آریہ تھا اور اُس زمانہ میں ہی وہ کھدر پوش تھا۔ ایک دن دوران مقدمہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا بیان ہورہا تھا اور اس دن آدمیوں کی بہت کثرت تھی ۔ اس لئے چند ولعل نے باہر میدان میں کچہری لگائی۔ اور بیان کے دوران میں حضرت صاحب سے دریافت کیا کہ کیا آپ کو نشان نمائی کا بھی دعویٰ ہے ؟ آپ نے فرمایا ۔ہاں ۔ اور تھوڑی دیر میں آپ نے فرمایا۔ جو نشان آپ چاہیں میں اس وقت دکھا سکتا ہوں اور یہ بڑے جوش میں آپ نے فرمایا۔ اس وقت وہ سناٹے میں آگیا اور لوگوں پر اس کا بڑا اثر ہوا۔
{ 1079} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ چند ولعل مجسٹریٹ نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے الہام ’’اِنِّی مُھِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِھَانَتَک ‘‘ کے متعلق سوال کیا کہ یہ خد انے آپ کو بتایا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ یہ اللہ کا کلام ہے اور اس کا مجھ سے وعدہ ہے۔ وہ کہنے لگا جو آپ کی ہتک کرے وہ ذلیل وخوار ہوگا ؟ آپ نے فرمایا۔ بے شک ۔ اس نے کہا ’’اگر میں کروں؟‘‘ آپ نے فرمایا’’چاہے کوئی کرے‘‘ تو اس نے دو تین دفعہ کہا ’’اگر میں کروں؟‘‘ آپ یہی فرماتے رہے ’’چاہے کوئی کرے‘‘ پھر وہ خامو ش ہو گیا۔
{ 1080} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک مقدمہ کے تعلق سے میں گورداسپور میں ہی رہ گیا تھا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا پیغام پہنچا کہ واپسی پر مل کر جائیں۔ چنانچہ میں اور شیخ نیا ز احمد صاحب اور مفتی فضل الرحمن صاحب یکے میں قادیان کو روانہ ہوئے ۔ بارش سخت تھی ۔ اس لئے یکے کو واپس کرنا پڑااور ہم بھیگتے ہوئے رات کے دو بجے کے قریب قادیان پہنچے ۔ حضور اُسی وقت باہر تشریف لے آئے ۔ ہمیں چائے پلوائی اور بیٹھے باتیں پوچھتے رہے ۔ ہمارے سفر کی تمام کوفت جاتی رہی ۔ پھر حضور تشریف لے گئے ۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 1081} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیا ن کیا کہ جب ستمبر۱۹۰۷ء میں مَیں والدصاحب کے ساتھ قادیان آیاتو حضرت خلیفۃ المسیح اول ؓ کے ارشا دکی تعمیل میں مَیں نے خود ہی ایک دن حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور یہ۱۶؍ستمبر۱۹۰۷ء کا دن تھا۔ اسی سال میں نے انٹرنس کا امتحان پاس کیا تھااور گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوچکا تھا۔ چنانچہ مئی۱۹۰۸ء میں جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام آخری دفعہ لاہور تشریف لے گئے تو میں اُن دنوں لاہور میں ہی تھا۔ اُن ایام میں بھی مجھے حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف حاصل ہوتا تھا۔۲۶؍مئی۱۹۰۸ء کو دوپہر کے وقت میں اپنے کمرہ ہوسٹل میں سویا ہو ا تھا کہ شیخ تیمور صاحب بڑی جلدی اور گھبراہٹ کے ساتھ تشریف لائے اور میرے پاؤں کو ہلا کر کہا کہ جلدی اٹھو اور میرے کمرہ میں آؤ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں ۔ چنانچہ میں فوراً اُٹھ کر اُن کے کمرہ میں گیا اور ہم نے کالج اور ہوسٹل سے چھٹی وغیرہ لینے کا انتظام کیا تاکہ حضور کے جنازہ کے ساتھ قادیان جاسکیں ۔ یہ انتظام کر کے ہم احمدیہ بلڈنگس پہنچ گئے اور پھر حضور کے جنازہ کے ساتھ قادیان آئے ۔ اس موقعہ پر مَیں غالباً دو دن قادیان ٹھہرا اور حضرت خلیفۃ المسیح اول ؓ کی بیعت کرنے کے بعد واپس لاہور چلا گیا۔ ان ایام کے احساسات اور قلبی کیفیات کا سپرد قلم کرنا میرے جیسے انسان کے لئے مشکل ہے ۔
{ 1082} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کہ ستمبر۱۹۰۵ء میں میں اپنے والد صاحب کے ہمراہ پہلی دفعہ قادیان آیااور ہم اس کوٹھڑی میں ٹھہرے جو صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب(یعنی خاکسارمؤلف) کے مکان کے جنوب مشرقی کو نہ میں بیت المال کے دفاتر کے بالمقابل ہے ۔ ان ایام میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ظہراور عصر کی نمازوں کے بعد کچھ وقت کے لئے مسجد مبارک کی چھوٹی کوٹھڑی میں جس میں حضور علیہ السلام خود نما زادا فرمایا کرتے تھے تشریف رکھا کرتے تھے اور کچھ عرصہ سلسلہ کلام جاری رہا کرتا تھا۔ میں ان مواقع پر ہمیشہ موجود رہتا تھا۔ صبح آٹھ نو بجے کے قریب حضور باہر سیر کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے۔ اکثر اوقات میںبھی دیگر احباب کے ساتھ حضور کے پیچھے پیچھے چلا جایا کرتا تھا۔
{ 1083} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جن ایام میں حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم انبالہ چھاؤنی میں دفتر سپرنٹنڈنگ انجینئر انہار میں ڈرافٹسمین تھے ۔ ہم کو مولوی عبد اللہ صاحب سنوری کی زبانی معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آج کل انبالہ چھاؤنی میں اسٹیشن کے قریب والے بنگلہ میں تشریف فرماہیں۔ ہم دس اشخاص کی تعداد میں پٹیالہ سے روانہ ہوئے ۔ چھاؤنی پہنچ کر سرائے متصل اسٹیشن کی مسجد میں شب باش ہوئے ۔ صبح آٹھ بجے کے قریب قیام گاہ حضور پر پہنچے ۔ اطلا ع ہونے پر حضور نے شرف باریابی بخشا۔ ہمارے ہمراہیوں میں سے ایک شخص نے حضور سے دریافت کیا کہ مجھ کو ایک درویش نے ایک درود شریف بتایا ہو اہے۔ اس کی تاثیر یہ بتائی تھی کہ کیسی ہی کوئی مشکل درپیش ہویا کوئی بیماری ہو یا کوئی ملازمت وغیرہ کی خواہش ہو ۔ عشاء کی نماز کے بعد اس درودشریف کا ورد کرنے سے یہ مشکل اور تکلیف دور اور مقصد حاصل ہوجاتا ہے ۔ اس شخص نے یہ بھی بیان کیا کہ چنانچہ اس وقت سے میرا تجربہ ہے کہ جب کوئی ضرورت پیش آتی ہے تو میں اس درود شریف کا ورد شروع کرتا ہوں ۔ چندروز میں ہی وہ مقصد حاصل ہوجاتا ہے ۔ حضور نے سن کر یہ نہیں دریافت فرمایا کہ وہ کون سا درود شریف ہے بلکہ فرمایا۔ کہ ہروہ کلام جس میں سرورکائنات پر صلوٰۃ وسلام بھیجنا مقصود ہو۔ خواہ کسی زبان میں ہو ۔ درود شریف ہے ۔ لیکن جو درود شریف نما زکے آخر میں متداول ہے وہ زیادہ صحیح روایات سے ثابت ہے ۔ اور درود شریف کے فضائل اور تاثیرات اس قدر ہیں کہ بیان سے باہر ہیں ۔ اس کاعامل نہ صرف ثواب عظیم کا مستحق ہوتا ہے بلکہ دنیا میںبھی معزز اور مؤقر ہوتا ہے ۔ میں خود اس کاصاحب تجربہ ہوں ۔ آپ اس دورد کو پڑھتے جائیں جو درویش صاحب نے بتایا ہے لیکن میں یہ بتا دینا ضروری خیال کرتا ہوں کہ میں کسی ایسے درود شریف کا قائل نہیں ہوں کہ جس پر یہ بھروسہ کیا جائے کہ گویا قضا وقدر کی کلید اب ذات باری تعالیٰ کے ہاتھ میں نہیں بلکہ اس درود خواں کے قبضہ میں آگئی ہے ۔ ذات باری کی صفت غنااور قدیر کو سامنے رکھ کر جس قدر درود شریف پڑھو گے بابرکت ہوگا۔ لیکن اس قادر مطلق کی بعض قضایا تو ایسی بھی ہونی تھیں جن کے سامنے ،جس پر تم درود بھیجتے ہو، اس کو تسلیم اور رضا کے سوا چارہ نہ تھا۔ اس کے بعد حضور نے یہ معلوم کر کے کہ ہم لوگ رات سے آئے ہوئے ہیں اور بخیال تکلیف و بے وقت ہونے کے حاضر خدمت نہ ہوسکے ۔ حضور نے افسوس کرتے ہوئے یہ الفاظ فرمائے کہ جب آپ صرف میری ملاقات کے ارادہ سے آئے تھے تو چھاؤنی پہنچ کر آپ ہمارے مہمان تھے۔ آپ کے رات کو مسجد میں سونے سے اور خوردونوش میں بھی جو تکلیف ہوئی ہوگی اس کے خیال سے مجھے تکلیف ہوئی ۔ یہاں چار پائیاں وغیرہ سب سامان موجود رہتا ہے ۔ آپ کو کوئی تکلیف نہ ہوتی۔ اس کے بعد حضور نے کھانا منگوا کر ہم لوگوں کے ساتھ شامل ہو کر تناول فرمایا۔ بعد فراغت طعام سب اصحاب باہر کوٹھی کے احاطہ میں درختوں کے نیچے آرام کرنے کے لئے آگئے جہاں کہ ضرورت کے موافق چار پائیاں بچھی ہوئی تھیں ۔
{ 1084} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جاڑے کا موسم تھا اور مولوی عبد اللہ صاحب سنوری حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پاؤں داب رہے تھے ۔ حضور کو غنودگی کا عالم طاری ہوگیا۔ اور میں نے دیکھا کہ حضور کو پیشانی پر پسینہ آیا ۔ میں اس وقت آپ سے لپٹ گیا۔ آپ کی آنکھ کھل گئی تو مسکرانے لگے۔ میںنے کہا ۔ حضور اس موسم میں پیشانی پر پسینہ دیکھ کر میں نے خیال کیا کہ اس وقت آپ خد اتعالیٰ سے ہم کلام ہورہے ہیں۔ آپ نے فرمایا ! مجھے اس وقت ایک ہیبت ناک الہام ہوا۔ اور یہ عادت ہے کہ جب ایسا الہام ہو تو پسینہ آجاتا ہے ۔ وہ الہام بھی حضور نے مجھے بتایا تھا مگر اب مجھے وہ یاد نہیں رہا۔
{ 1085} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ۔ کہ لدھیانہ کا واقعہ ہے کہ ایک شخص جو بظاہر فاتر العقل معلوم ہوتا تھا ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پاس خاکی وردی اور بوٹ پہنے ہوئے آیااور سر پر کلاہ اور پگڑی تھی۔ وہ آکر حضرت صاحب کے سامنے جھک گیا ۔ سر زمین سے لگا دیا ۔ حضور نے اس کی کمر پر تین تھاپیاں ماریں اور وہ اٹھ کر ہنستا ہوا چلا گیا۔ مولوی عبدالکریم صاحب نے دریافت بھی کیا مگر حضور مسکراتے رہے اور کچھ نہ بتایا۔
{ 1086} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریربیان کیا کہ ایک دن مسجد اقصیٰ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام تقریر فرمارہے تھے کہ میرے درد گردہ شروع ہوگیا۔ اور باوجود بہت برداشت کرنے کی کوشش کے میںبرداشت نہ کرسکا اور چلاآیا۔ میں اس کوٹھے پر جس میں پیر سراج الحق صاحب مرحوم رہتے تھے ، ٹھہرا ہوا تھا ۔ حضرت صاحب نے تقریر میں سے ہی حضرت مولوی نور الدین صاحب کو بھیجا ۔ انہوںنے درد گردہ معلوم کر کے دوا بھیجی مگر ا س کا کچھ اثر نہ ہوا۔ تکلیف بڑھتی گئی ۔ پھر حضور جلدی تقریر ختم کر کے میرے پاس آگئے اور مولوی عبد اللہ صاحب سنوری سے جو آپ کے ساتھ تھے فرمایا کہ آپ پرانے دوست ہیں، منشی صاحب کے پاس ہرو قت رہیں اور حضور پھر گھر سے دوا لے کر آئے اور اس طرح تین دفعہ یکے بعد دیگرے دوا بدل کر خود لائے ۔ تیسری دفعہ جب تشریف لائے تو فرمایا ۔ زینے پر چڑھنے اُترنے میں دقت ہے ۔ آپ میرے پاس آجائیں ۔ آپ تشریف لے گئے اور مولوی عبداللہ صاحب سنوری مجھے سہارا دے کر حضرت صاحب کے پاس لے گئے۔ راستہ میں دو دفعہ میں نے دعا مانگی۔ مولوی صاحب پہچان گئے اور کہنے لگے کہ تم یہ دعا مانگتے ہوگے کہ مجھے جلدی آرام نہ ہو تاکہ دیر تک حضرت صاحب کے پا س ٹھہرا رہوں ۔ میںنے کہا ہاں یہی بات ہے ۔ جب میں آپ کے پاس پہنچا تو آپ کھانا کھا رہے تھے۔ دال ، مولیاں سرکہ اس قسم کی چیزیں تھیں۔ جب آپ کھانا کھا چکے تو آپ کا پس خوردہ ہم دونوں نے اٹھا لیا اور باوجود یکہ کے مجھے مسہل آور دوائیں دی ہوئیں تھیں اور ابھی کوئی اسہال نہ آیا تھا۔ میں نے وہ چیزیں روٹی سے کھالیں اور حضور نے منع نہیں فرمایا۔ چند منٹ کے بعد درد کو آرام آگیا۔ کچھ دیر بعد ظہر کی اذان ہوگئی۔ ہم دونوں مسجد میں آپ کے ساتھ نما زپڑھنے آگئے ۔ فرضوں کا سلام پھیر کر حضور نے میری نبض دیکھ کر فرمایا۔ آپ کو تو اب بالکل آرام آگیا۔ میرا بخار بھی اُتر گیا تھا۔ میںنے کہا حضور بخار اندر ہے ۔ اس پرآپ ہنس کر فرمانے لگے ۔ اچھا آپ اندر ہی آجائیں۔ عصر کے وقت تک میں اندر رہا۔ بعد عصر میں نے خود ساتھ جانے کی جرأت نہ کی ۔ میں بالکل تندرست ہوچکا تھا۔
{ 1087} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب ہم انبالہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ایک کوٹھی میں مقیم تھے توایک امر کے متعلق جو کہ دینی معاملہ نہ تھا بلکہ ایک دوائی کے متعلق تھا ۔ حضور سے استفسار کی ضرورت پیش آئی ۔ احباب نے خاکسار کو اس کام کے لئے انتخاب کیا۔ چنانچہ میں اجازت لے کر اندر حاضر ہوا۔ حضور اپنے کمرہ میں صرف تنہا تشریف فرماتھے۔ خاکسار نے اس امر کے جواب سے فارغ ہوکر موقعہ کو غنیمت خیال کرتے ہوئے اپنے متعلق ایک واقعہ عرض کرنے کی اجازت چاہی ۔ حضور نے بڑی خندہ پیشانی سے اجازت دی ۔ خاکسار نے عرض کیا کہ میں اس سے قبل نقش بندیہ خاندان میں بیعت ہوں اور ان کے طریقہ کے مطابق ذکر واذکار بھی کرتاہوں ۔ ایک رات میں ذکر نفی اثبات میں حسب طریقہ نقشبندیہ اس طرح مشغول تھا کہ لفظ لاکو وسط سینہ سے اُٹھا کر پیشانی تک لے جاتا تھا ۔ وہاں سے لفظ اِلٰہَ کو دائیں شانہ پر سے گزار کر دیگر اطراف سے گذارتے ہوئے لفظ الّااللّٰہ کی ضرب قلب پر لگاتا ۔ کافی وقت اس عمل کو جاری رکھنے کے بعد قلب سے بجلی کی رَو کی طرح ایک لذت افزا کیفیت شروع ہوکر سر سے پاؤں تک اس طرح معلوم ہوئی کہ جسم کا ذرہ ذرہ اس کے زیر اثر تھا۔ آخر وہ کیفیت اس قدر بڑھی اور ناقابل برداشت معلوم ہونے لگی کہ میںنے خیال کیا ۔ اگر یہ کیفیت اس سے زیادہ رہی تو اغلب ہے کہ میں بے ہوش ہوکر چارپائی سے نیچے گر جاؤں ۔ چونکہ تنہا تھا اس لئے خیال ہوا کہ صبح اگر گھر کے لوگوں نے اس طرح گرا ہوا دیکھا تو شاید وہ کسی نشہ وغیرہ کا نتیجہ خیال کریں۔ میں نے ذکر کو قصداً بند کر دیا ۔ چونکہ رات کافی گذر چکی تھی ا سلئے تھوڑی دیر میں ہی نیند آگئی ۔ صبح بیدار ہونے پر حالت حسب معمول تھی۔ اس کے بعد میں نے بارہا اس طرح عمل کیا مگر وہ کیفیت پید انہ ہوئی۔ حضور نے سن کر فرمایا۔ کہ اب آپ یہ چاہتے ہیں کہ وہ کیفیت پھر پید اہو۔ میں نے عرض کیا کہ میری خواہش تو یہی ہے ۔ حضور نے فرمایا۔ کس غرض سے آپ ایسا چاہتے ہیں ؟ میںنے عرض کیا کہ اس میں ایک عالَم سرور اور ایک قسم کی لذت تھی۔ اس جیسی لذت میں نے کسی اور شے میں نہیں دیکھی۔ اس کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ خدا کی عبادت لذت کے لئے نہیں کرنی چاہئے۔ بلکہ حکم کی تعمیل اور اپنا فرض سمجھ کر کرنی چاہئے ۔ خداچاہے تو اس میں بھی اس سے بہتر لذت پید اہوسکتی ہے ۔ اگر لذت کو مدنظر رکھ کر عبادت کی جائے تو لذت نفس کی ایک کیفیت ہے ۔ اس کے حصول کے لئے عبادت نفس کے زیر اتباع ہے ۔ خد اکی عبادت ہر حال میں کرنی چاہئے ۔ خواہ لذت ہو یا نہ ہو ۔وہ اس کی مرضی پر ہے ۔ پھر فرمایا۔ یہ حالت جو آپ نے دیکھی یہ ایک سالک کے لئے راستہ کے عجائبات اور غول راہ کے طور پر ہوتے ہیں اور عارضی ہوتے ہیں۔ اس کے عارضی ہونے کا اس سے زیادہ اور کیا ثبوت ہوگاکہ آپ اس کو پھر چاہتے ہیں ۔ اسی طرح ذکر کرنے پر بھی وہ لذت حاصل نہ ہوئی۔ ہم آپ کو ایسی بات بتاتے ہیں جس میں مستقل لذت پید اہوگی جو پھر جد انہیں ہوگی ۔ وہ اتباع سنت اور اسوۂ حسنہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے جس کی غرض خداتعالیٰ کی رضا اور خوشنودی ہے۔ ان فانی لذتوں کے پیچھے نہ پڑو۔ پھرفرمایا۔ نماز خشوع وخضوع سے پڑھنی چاہئے ۔ منہیات سے پرہیز ضروری ہے ۔
{ 1088} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ماہ رمضان جوکہ سخت سردیوں کے ایام میں آیا ۔ اس کے گذارنے کے لئے دارالامان آیا۔ حضرت حکیم فضل الدین صاحب بھیروی اُن دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کتب خانہ کے انچارج اور مہتمم تھے اور کمرہ متصل مسجد مبارک میں کتب خانہ تھااور وہیں حکیم صاحب کا قیام تھا۔ خاکسار کے پہنچنے پر حکیم صاحب نے مجھے بھی اُسی کمرہ میں ٹھہرنے کی اجازت دے دی ۔ خاکسار نے شکریہ ادا کرتے ہوئے ایک گوشہ میں بستر لگا لیا۔ اور بہت آرام ولطف سے وقت گزرنے لگا ۔ حضرت صاحب ہر نماز کے لئے اسی کمرہ سے گزر کر مسجد میں تشریف لے جاتے تھے۔ ایک دفعہ سحری کے وقت دروازہ کھلا ۔ خاکسار سامنے بیٹھا تھا۔ یہ دیکھ کر کہ حضرت صاحب دروازہ میں کھڑے ہیں ۔ تعظیماً کھڑا ہوگیا ۔ حضور نے اشارہ سے اپنی طرف بلایا۔ میں جب آگے بڑھا (تو دیکھا) کہ حضور کے دونوں ہاتھوں میں دو چینی کے پیالے ہیں ۔ جن میں کھیر تھی۔ حضور نے وہ دونوں پیالے خاکسار کو دیتے ہوئے فرمایا کہ جن احباب کے نام ان پر لکھے ہوئے ہیں دیکھ کر اُن کو پہنچادو، میں نے وہ حکیم صاحب کے پیش کئے ۔ انہوںنے مسجد میں سے کسی کو طلب کر کے وہ پیالے اُن احباب کو پہنچا دئیے جن کے نام سیاہی سے لکھے ہوئے تھے۔ اس کے بعد پھر دروازہ کھلا۔ پھر حضرت صاحب دو پیالے پکڑا گئے ۔ وہ بھی جن کے نام کے تھے ان کو پہنچا دئیے گئے ۔ اس طرح حضرت صاحب خود دس گیارہ دفعہ پیالے لاتے رہے اور ہم اُن اشخاص کو مہمان خانہ میں پہنچاتے رہے ۔ اخیر دفعہ میں جو دو پیالے حضور نے دئیے ۔ اُن میں سے ایک پر حکیم صاحب کانام اور دوسرے پر میرا نام تحریر تھا۔ حکیم صاحب نے کھیر کھا کر کہا کہ آج تو مسیح کا من وسلویٰ اُتر آیا۔
{ 1089} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ خاکسار کے قیام قادیان کے دنوں میں عشاء کی نماز کے وقت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مسجد مبارک میں تشریف فرما تھے۔ مسجد بھری ہوئی تھی ۔ ایک پنجابی مولوی صاحب نے کھڑے ہوکر حضور سے عرض کیا کہ صوفیوں کے فرقہ نقش بندیہ وغیرہ میں جو کلمہ نفی اثبات کو پیشانی تک لے جاکر اور اطراف پر گذارتے ہوئے قلب پر الااللہ کی ضرب مارنے کا طریق مروج ہے ۔ اس کے متعلق حضور کا کیا حکم ہے ؟ حضور نے فرمایا کہ چونکہ شریعت سے اس کی کوئی سند نہیں اور نہ اسوۂ حسنہ سے اس کا کچھ پتہ چلتا ہے اس لئے ہم ایسے طریقوں کی ضرورت نہیں خیال کرتے۔ اس مولوی نے پھر کہا کہ اگر یہ امور خلاف شرع ہیں تو بڑے بڑے مسلمہ اور مشاہیر جن میں حضرت احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ جیسے اولیاء بھی ہیں جنہوںنے مجددالف ثانی ہونے کا دعویٰ بھی کیا ہے ۔ یہ سب لوگ بدعت کے مرتکب ہوئے اور لوگوں کو اس کی ترغیب وتعلیم دینے والے ہوئے۔ حضور نے فرمایا۔ اسلام پر ایک زمانہ ایسا بھی آیا ہے کہ فتوحات کے بڑھ جانے اور دنیاوی دولت اور سامان تعیش کی فراوانی سے لوگوں کے دلوں سے خد اکے نام کی گرمی سرد پڑتی جارہی تھی۔ اس وقت اگر ان بزرگوں نے بعض ایسے اعمال اختیار کئے ہوں جو اُن کے خیال میں اس وقت اس روحانی وبائی مرض میں مفید تھے تو وہ ایک وقتی ضرورت تھی اور بوجہ ان کی نیک نیتی کے اس کو خدا کے حوالہ کردینامناسب ہے ۔ حضور نے فرمایا! اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی قافلہ راستہ بھول کر ایسے جنگل میں جانکلے جہاں پانی کا نشان نہ ہو۔ اور ان میں سے بعض پیاس کی شدت سے زبان خشک ہوکر جان بلب ہوں ۔ اور ان کے ہمراہی درختوں کے پتے پتھروں سے کوٹ کر ان کا پانی نکالیں۔ اور تشنہ دہانوں کے حلق میں ڈالیں تاکسی طرح پانی ملنے تک ان کا حلق بالکل خشک ہو کر ہلاکت کا موجب نہ ہوجائے ۔ یا دامن کوہ میں پتھروں کو توڑ کر اور بڑی مشکلوں سے کاٹ کاٹ کر کنواں کھودا جاتا ہے یا ریگستان میں بڑی مصیبت سے اگر سو سو ہاتھ کھودا جائے تو کنواں برآمد ہوتا ہے ۔ لیکن جہاں دریا جاری ہو ۔کیا وہاں بھی ان تکالیف کو اٹھانے کی ضرورت ہے ؟ فرمایا ۔ پس شکرکرنا چاہئے کہ اس وقت خد انے پہاڑ کی چوٹی پر سے مصفّٰی اور شیریں پانی کا چشمہ جاری فرمایا ہے جس کے ہوتے ہوئے ان تکالیف میں پڑنا خد اکی ناشکری اور جہالت ہے ۔
حضور کے اس ارشاد کے بعد جو ایک پرسرور کیفیت خاکسار نے محسوس کی وہ یہ تھی اُن امور سے جن کا اسوہ حسنہ سے ثبوت نہ تھا ۔ حضور نے اتفاق نہ فرمانے کے باوجود اُن متوفّٰی بزرگوں کے متعلق کوئی کلمہ رکیک نہ فرمایا۔ بلکہ ایک وقتی ضرورت کے ماتحت اُن کی نیک نیتی پر محمول فرما کر اُن کا معاملہ خدا پر چھوڑ دیا۔
{ 1090} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے بیٹھنے کی جگہ کھلے کواڑ کبھی نہ بیٹھتے تھے۔ حضرت صاحبزادہ محمود احمد صاحب (حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز)تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد آکر کہتے’’ابا کنڈا کھول‘‘ اور حضور اٹھ کر کھول دیتے۔ میں ایک دفعہ حاضر خدمت ہوا۔ حضور بوریے پر بیٹھے تھے۔ مجھے دیکھ کر حضور نے پلنگ اٹھایااور اندر لے گئے ۔میں نے کہا۔حضور میں اٹھا لیتا ہوں ۔ آپ فرمانے لگے بھاری زیادہ ہے آپ سے نہیں اٹھے گا۔ اور فرمایا آپ پلنگ پر بیٹھ جائیں ۔ مجھے یہاں نیچے آرام معلوم ہوتا ہے ۔ پہلے میں نے انکار کیا ۔ لیکن آپ نے فرمایا ۔ نہیں آپ بلاتکلف بیٹھ جائیں ۔ پھر میں بیٹھ گیا۔ مجھے پیاس لگی تھی ۔ میں نے گھڑوں کی طرف نظر اُٹھائی۔ وہاں کوئی پانی پینے کا برتن نہ تھا۔ آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا ۔ کیا آپ کو پیاس لگ رہی ہے ۔ میں لاتاہوں ۔ نیچے زنانے سے جاکر آپ گلاس لے آئے ۔ پھر فرمایا ۔ ذرا ٹھہریے اور پھر نیچے گئے اور وہاں سے دو بوتلیں شربت کی لے آئے ۔ جو منی پور سے کسی نے بھیجی تھیں۔ بہت لذیذ شربت تھا۔ فرمایا ان بوتلوں کو رکھے ہوئے کئی دن ہوگئے کہ ہم نے نیت کی تھی کہ پہلے کسی دوست کو پلا کر پھر خود پئیں گے ۔ آج مجھے یاد آگیا۔ چنانچہ آپ نے گلاس میں شربت بنا کر مجھے دیا ۔ میں نے کہا پہلے حضور اس میں سے تھوڑا سا پی لیں تو پھر میں پیوں گا ۔ آپ نے ایک گھونٹ پی کر مجھے دے دیا۔ اور میں نے پی لیا۔ میں نے شربت کی تعریف کی ۔ آپ نے فرمایا کہ ایک بوتل آپ لے جائیں اور ایک باہر دوستوں کو پلادیں ۔ آپ نے اُن دوبوتلوں سے وہی ایک گھونٹ پیا ہوگا۔ میں آپ کے حکم کے مطابق بوتلیں لے کر چلا آیا۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 1091} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام لیٹے ہوئے تھے اور سید فضل شاہ صاحب مرحوم حضور کے پاؤں دبا رہے تھے ۔ اور حضرت صاحب کسی قدر سو گئے ۔ فضل شاہ صاحب نے اشارہ کر کے مجھے کہا کہ یہاں پر جیب میں کچھ سخت چیز پڑی ہے ۔ میں نے ہاتھ ڈال کر نکال لی تو حضور کی آنکھ کھل گئی۔ آدھی ٹوٹی ہوئی گھڑے کی چپنی اور ایک دو ٹھیکرے تھے۔ میں پھینکنے لگا تو حضور نے فرمایا کہ یہ میاں محمود نے کھیلتے کھیلتے میری جیب میں ڈال دئیے۔ آپ پھینکیں نہیں ۔ میری جیب میں ہی ڈال دیں ۔ کیونکہ انہوںنے ہمیں امین سمجھ کر اپنے کھیلنے کی چیز رکھی ہے ۔ وہ مانگیں گے تو ہم کہاں سے دیں گے۔ پھروہ جیب میں ہی ڈال لئے ۔ یہ واقعہ میرے سامنے کا ہے۔ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے بھی اس کو حضور کی سوانح میں لکھا ہے ۔
{ 1092} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں اور محمد خان صاحب مرحوم قادیان گئے ۔ اور حضرت اُم المومنین بہت سخت بیمار تھیں ۔ مسجد مبارک کے زینے کے قریب والی کوٹھڑی میں مولوی عبد الکریم صاحب کے پاس ہم تین چار آدمی بیٹھے تھے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا ’’تار برقی کی طرح‘‘ ’’ اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ ۔ اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ‘‘ گھڑی گھڑی الہام ہوتا ہے ۔ اور میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کی یہ عادت ہے کہ جب کوئی بات جلد وقوع میں آنے والی ہوتی ہے تو اس کا بار بار تکرار ہوتا ہے ۔ تھوڑی دیر بیٹھ کر جب آپ تشریف لے گئے تو پھر واپس آئے اور فرمایا کہ وہی سلسلہ پھر جاری ہوگیا۔ ’’ اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ ۔ اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ ‘‘ ان دنوں میرناصر نواب صاحب کا کنبہ پٹیالہ میں تھا۔ اگلے دن پٹیالہ سے خط آیا۔ کہ اسحاق کا انتقال ہوگیااور دوسرے بیمار پڑے ہیں اور والدہ صاحبہ بھی قریب الموت ہیں ۔ یہ خط حضرت ام المومنین کی خدمت میں لکھا ۔ کہ صورت دیکھنی ہو تو جلد آجاؤ۔ حضور وہ خط لے کر ہمارے پاس آئے۔ مولوی عبد الکریم صاحب ، محمد خان صاحب اور خاکسار ہم تینوں بیٹھے تھے ۔ جب حضور تشریف لائے ۔ فرمانے لگے کہ یہ خط ایسا آیا ہے اور حضرت اُم المومنین کے متعلق فرمایا کہ وہ سخت بیمار ہیں ۔ اگر ان کو دکھایاجائے تو ان کو سخت صدمہ ہوگا اور نہ دکھائیں تو یہ بھی ٹھیک نہیں۔ ہم نے مشورہ دیا کہ حضور انہیں خط نہ دکھائیں۔ نہ کوئی ذکر اُن سے کریں ۔ کسی کو وہاں بھیجیں ۔ چنانچہ حافظ حامد علی صاحب مرحوم کو اُسی وقت روانہ کردیا گیا۔ اور انہوںنے جاکرخط لکھا کہ سب سے پہلے مجھے اسحاق ملا اور گھر جاکر معلوم ہوا کہ سب خیریت ہے ۔ حافظ حامد علی صاحب پھر واپس آگئے ۔ اور سارا حال بیان کیا۔ اس وقت معلوم ہوا کہ اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ کا یہ مطلب تھا ۔ یہ واقعہ میرے سامنے کا ہے ۔
{ 1093} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک شخص شملے میں رہتا تھا۔ اور اس کی بہن احمدی تھی ۔ وہ شخص بڑ اعیاش تھا۔ اس کی بہن حاملہ تھی اور حالات سے وہ سمجھتی تھی کہ اس دفعہ میں ایام حمل میں بچنے کی نہیں۔ کیونکہ اسے تکلیف زیادہ تھی۔ اس نے اپنے بھائی کو مجبور کیا کہ اسے قادیان پہنچادے۔ چنانچہ وہ اسے قادیان لے آیا ،اور کچھ دنوں کے بعد جب بچہ پیدا ہونے لگا تو پیروں کی طرف سے تھوڑا نکل کر اندر ہی مرگیا۔ یہ حالت دیکھ کر حضرت ام المومنین روتی ہوئی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پاس آئیں۔ اور فرمایا عورت مرنے والی ہے اور یہ حالت ہے ۔ آپ نے فرمایا ہم ابھی دعا کرتے ہیں۔ اور آپ بیت الدعا میں تشریف لے گئے۔ دو چار ہی منٹ کے بعد وہ بچہ خود بخود اندر کو جاناشروع ہوگیا۔ اور پھر پلٹا کھا کرسر کی طرف سے باہر نکل آیااور مرا ہوا تھا۔ وہ عورت بچ گئی۔ اور اس کا بھائی توبہ کر کے اسی وقت احمدی ہوگیا۔ اور بعد میں صوفی کے نام سے مشہور ہوا۔
{ 1094} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں ایک دفعہ دارالامان گیا ہوا تھا۔ گرمی کا موسم تھا۔ نماز ظہر سے فارغ ہوکر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مسجدمبارک میں تشریف فرما تھے ۔ دس گیارہ اور احباب بھی حاضر تھے ۔اُس وقت ایک زمیندار نے جو کہ قریباًپچاس سالہ عمراور اَپر پنجاب کا رہنے والا معلوم ہوتا تھا ۔ بڑی عاجزی سے حضور کی طرف مخاطب ہو کر عرض کی کہ حضور میں کسی معاملہ میں ایک شخص کے یکصد روپیہ کا ضامن ہوگیا ۔ وہ بھاگ گیا ہے۔ ہر چند گردونواح میں تلاش کیا مگر ابھی تک کچھ پتہ نہیں چلا۔ مجھ سے اس کی حاضری کا یا زرضمانت کامطالبہ ہے ۔ ہر روز چپراسی آکر تنگ کرتے ہیں ۔ میں تنگ آکر نکل آیا ہوں ۔ وہ میرے گھروالوں کو تنگ کرتے ہوں گے۔ مجھ کو معلوم ہو اتھا کہ حضور کی دعا خد اقبول فرماتا ہے ۔ اس لئے میں اتنی دور سے چل کر آیاہوں کہ حضور دعا فرمائیں کہ خدا جلد سے جلد مجھ کو اس مشکل سے نجات دلائے ۔ حضور نے اس کا یہ دردناک حال سن کر مع حاضرین دعا فرمائی۔ اس کے بعد حضور حسب معمول براستہ دریچہ اندرون خانہ تشریف لے گئے ۔ وہ شخص بھی نیچے اُتر گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر دریچہ کھلا۔ دیکھا تو حضرت صاحب کھڑے ہیں۔ خاکسار بھی قریب ہی کھڑا تھا۔ حضور کے دونوں ہاتھوں میں روپے تھے۔ حضور نے مجھے بلا کر میرے دونوں ہاتھوں میں وہ روپے ڈال دئیے اور فرمایا کہ یہ سب اُس شخص کو دے دو جس نے ابھی دعا کروائی تھی۔ میں نے عرض کیا کہ وہ تو مسجد سے چلا گیا ہے ۔ حضور نے فرمایا کہ کسی آدمی کو بھیج کر اُسے بلوالو۔ وہ ابھی ایسی جلدی میں کہاںگیاہوگا۔ یہ کہہ کر کھڑکی بند کرلی۔ خاکسار نے وہ سارا روپیہ حکیم فضل الدین صاحب اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کے آگے ڈھیر ی کردیا۔ یہ دو اصحاب اور دو تین اور دوست بھی اس وقت مسجد میں موجو دتھے ۔ حکیم صاحب نے اُسی وقت چند آدمی اس شخص کی تلاش میں دوڑائے ۔ اور مولوی صاحب روپیہ گن کر بیس بیس کی بیڑیاں لگانے لگے ۔ غالباً اس لئے کہ اُس شخص کو دیتے وقت آسانی ہو۔ جب گن چکے تو ایک قہقہہ مار کر ہنستے ہوئے فرمایاکہ لودیکھولو کہ اس سائل نے تو سو روپیہ کا ذکر کیا تھا۔ لیکن حضرت صاحب جو روپیہ لائے ہیں وہ تو ایک سو بیس ہے ۔ اور مجھ کو فرمایا کہ کھڑکی کی کنڈی ہلا کر حضرت صاحب سے ذکر کردو کہ ان میں بیس روپیہ زائد آگئے ہیں ۔ لیکن خاکسار سے مولوی صاحب کے اس ارشاد کی تعمیل کرنے کی جرأت نہ ہوئی ۔ پھر مولوی صاحب نے حکیم صاحب کو کہا ۔ مگر حکیم صاحب نے جواب دیا کہ مولوی صاحب یہ تجویز آپ کی ہے ۔ آپ ہی اب ہمت بھی کریں ۔ آخر مولوی صاحب نے خود اٹھ کر زنجیر ہلائی۔ اندر سے ایک خادمہ کے آنے پر حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کرو کہ عبد الکریم ایک ضروری بات عرض کرنا چاہتا ہے ۔ خادمہ کے جانے کے تھوڑی بعد حضور دریچہ پر آکر کھڑے ہوگئے ۔ مولوی صاحب نے سارا ماجرہ بیان کیا۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ مولوی صاحب خدا جانے وہ بیچارہ یہاں کیسے آیا ہے۔ اور اب اس کو جلد پہنچنے کے لئے کرایہ کی بھی ضرورت ہوگی ۔ مولوی صاحب نے عرض کی کہ حضور کرایہ کے لئے چار پانچ روپیہ کافی ہے ۔ حضور نے فرمایا کہ مولوی صاحب جس مصیبت میں وہ ہے ایسی حالت میں اس کی مشکل معاش کا بھی کیا حال ہوگا۔ آخر پانچ سات روز کا خرچ تو اس کے پاس ہو۔ اور فرمایا یہ جو کچھ ہم لائے ہیں ٹھیک سوچ کر لائے ہیں۔ یہ سب اُس شخص کو دے دو۔ یہ فرما کر کھڑکی بند کر لی ۔ اتنے میں وہ شخص بھی آگیا ۔ اُس کو روپیہ دیتے ہوئے مولوی صاحب نے فرمایا کہ’’ایڈی چھیتی دعا قبول ہوندی کسے نے گھٹ ہی ڈٹھی ہوگی اور پھر وہ بھی سوائی‘‘یعنی اس قدر جلدی کسی کی دعا قبول ہوتی بہت کم دیکھی ہے اور پھر وہ بھی سوائی۔
{ 1095} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں قادیان جاتے ہوئے اخبار چودھویں صدی راولپنڈی کا ایک پرچہ ساتھ لے گیا۔ جو سراج الدین صاحب بیرسٹر کی ایڈیٹری میں شائع ہوتا تھا اور اس وقت کے اردو اخبارات میں مشہور تھا۔ اس کے ساتھ لے جانے کی غرض یہ تھی کہ ایک شخص جو سید محمو دصاحب خلف سرسید مرحوم کا دوست تھا۔ اس نے ان سے علی گڑھ میں ملاقات کی اور ایک دو روز ان کے ہاں ٹھہرا۔ اور واپسی پر اس نے سید محمود کی قابل عبرت حالت کا نقشہ ایک مضمون میں کھینچ کر اس اخبار میں درج کروایا تھا۔ راقم مضمون نے لکھا تھا کہ مجھے اس دفعہ مسٹر محمود کو دیکھ کر سخت رنج وافسوس ہوا کہ وہ عالی دماغ شخص جس کی قابلیت قابل رشک اور قانون دانی انگریز ججوں تک مسلّمہ تھی ۔ اس کو میںنے ایسی حالت میں پایا کہ ان کی جسمانی صحت ناقابل تلافی درجہ تک پہنچ چکی ہے۔ مگر باوجود اس کے وہ شراب کے بغیر ایک لمحہ بھی نہیں رہ سکتے تھے۔ گویا شراب ہی اُن کی روح رواں تھی۔ اور دن بھر جُگت ، پھبتی بازی ، تمسخر اور استہزاء کے سوا ان کا کوئی علمی مشغلہ نہیں رہا۔ اور وہ بھی صحت کے لحاظ سے چراغ سحری ہے۔ مضمون مذکور میں اس لئے ساتھ لے گیا تھا کہ حضرت مولوی صاحب کو ایسے حالات سے دلچسپی ہے ۔ چنانچہ میں نے وہ مضمون حضرت مولوی صاحب کے پیش کیا۔ مولوی صاحب نے مضمون پڑھ کر اخبار خاکسار کو واپس دیتے ہوئے فرمایا کہ اس پرچہ کو بحفاظت جیب میں رکھنا ۔ اگر موقعہ میسر آیاتو حضرت صاحب کے پیش کریں گے۔ حضرت صاحب ایسے حالات بڑی توجہ سے سنتے ہیں ۔ خاکسار نے وہ اخبار کوٹ کی جیب میںرکھ لیا۔ ظہر کی نماز کے بعد حضرت صاحب مسجد اقصیٰ میں تشریف فرما تھے کہ مولوی صاحب نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ یہ ایک اخبار لائے ہیں جس کا ایک مضمون حضور کے سننے کے قابل ہے ۔ حضرت صاحب کے اشارہ پر میں نے وہ مضمون سنانا شروع کردیا ۔ حضور بڑی توجہ سے سنتے رہے ۔ غالباً دو تین صفحات کا وہ مضمون تھا۔جب مضمون ختم ہوچکا تو حضور نے مولوی صاحب کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ مولوی صاحب! اگر آج سید صاحب زندہ ہوتے تو میں اُن سے پوچھتا کہ جن دنوں مسٹر محمود ولایت میں تعلیم بیرسٹری پارہے تھے آپ کے دل سے بارہا یہ دعا نکلی ہوگی کہ وہ ایسی قابلیت کا اہل ہو کہ انگریز بھی اس کی قابلیت کا سکہ مانیں۔ اور ایسے اعلیٰ عہدہ پر فائز ہو جس کے ماتحت انگریز ہوں لیکن یہ کبھی آپ کی آرزو دعاؤں کے وقت نہیں ہوگی کہ وہ خد ااور اس کے رسول کا فرمانبردار اور احکام شریعت کا دل سے پابند اور اسلام کا سچا خادم اور نمونہ ہو۔ پس جو کچھ آپ نے مانگا وہ مل گیا۔ اور خدا سے جس چیز کے مانگنے میں بے پرواہی کی جائے وہ نہیں ملتی۔
{ 1096} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ قادیان میں آریوں نے ایک اخبار نکالا تھا اور اس میں سلسلہ کے خلاف سخت کلامی اختیار کی ۔ پھر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ’’قادیان کے آریہ اور ہم‘‘ایک کتاب لکھی۔ اور حضور نے فرمایا تھا کہ خدا ایسا نہیں کرسکتا کہ یہ ہمارے ہمسائے میں رہ کربدزبانی کریں اور بچ جائیں۔ پھر آریوں میں طاعون ہوئی ۔ جس کو طاعون ہوتی، میں اور شیخ یعقوب علی صاحب اُسے دیکھنے جاتے اور سب آریہ کارکن اخبار مذکور کے جوتھے مر گئے ۔ صرف مالک اخبار بچ رہا۔ پھر اُسے بھی طاعون ہوئی۔ میں اور شیخ صاحب اسے دیکھنے جاتے۔ پھر اسے پلنگ سے نیچے اتار لیا گیا۔ جیسا کہ ہندو مرتے وقت کرتے ہیں مگر وہ پھر ذرا اچھا ہوگیا اور اسے دوبارہ پلنگ پر لٹادیا گیا اور وہ باتیں کرنے لگ گیا۔ بعض آریہ جو ہمیں جانتے تھے ہم سے کہنے لگے کہ تمہاری یہ مراد پوری نہیں ہوگی کہ یہ مرے۔ جب میں اور شیخ صاحب اس کے گھر سے واپس آئے تو ہمارے آنے سے پہلے کسی نے حضرت صاحب کی خدمت میں شکایت کردی کہ یہ دونوں اس طرح آریوں کو مرنے دیکھنے جاتے ہیں ۔ حضور بالائی نشست گاہ میں تشریف فرما تھے اور ہمیں وہیں بلوایا۔ کیونکہ ہمیں معلوم ہوگیا تھا کہ کسی نے ہماری شکایت کردی ہے ۔ شیخ صاحب نے مجھے بھیجا ۔ جب میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ آپ کیوں وہاں جاتے ہیں ؟ اور اسی وقت حضور نے فرمایا کہ مجھے ابھی الہام ہوا ہے جس کے معنے یہ تھے کہ مر اے خائن! ۱ ؎ اس الہام پر حضور نے فرمایا کہ اب جاکر دیکھو۔ میں اور شیخ صاحب اسی وقت گئے تو چیخ وپکار ہورہی تھی اور وہ مرچکا تھا۔ ہم وہاں بیٹھے اور پھر چلے آئے ۔ رات کو مفتی فضل الرحمن صاحب کی بیٹھک میں اس کے مرنے پر ہم نے ایک قسم کی خوشی کی۔ حضرت صاحب پر یہ بھی کسی نے ظاہر کردیا۔ صبح کو جب آپ سیر کے لئے تشریف لے گئے تو ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ میرا ایک آدمی مر گیا ہے اور تم خوشی کرتے ہو(مطلب یہ تھا کہ میں تو اس کے اسلام لانے کا خواہاں تھا) اور فرمایا مجھے خوف ہے کہ ہم میں ایسا واقعہ نہ ہوجائے ۔ ہمیں اس پر بہت شرمندگی ہوئی۔ راستہ میں لاہور سے تار آیا کہ الٰہی بخش اکونٹنٹ پلیگ سے مرگیا۔ جس نے حضور کے خلاف ایک کتاب میں اپنے آپ کو موسیٰ اور حضرت صاحب کو فرعون اپنے الہام کی روسے لکھا تھا۔ میں اس تار کو سن کر بے اختیار ہنس پڑا۔ حضرت صاحب میری طرف ذرا دیکھنے لگے تو میں نے عرض کی
کہ حضور مجھے ہنسی اس لئے آگئی۔ کہ یہ اپنے آپ کو موسیٰ کہتا تھا اور موسیٰ صاحب پہلے ہی پلیگ سے چل دئے ۔ آپ نے فرمایا ! اس کی کتاب میں سے تمام وہ الہامات جو اس کو ہمارے خلاف ہوئے ہیں مجھے نکال کردو۔ چنانچہ میں نے وہ نوٹ کر کے دے دئیے۔
{ 1097} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب میں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو الٰہی بخش اکونٹنٹ کی کتاب سے الہامات نکال کر دئیے۔ تو اس

۱؎ الہام کے عربی الفاظ ہیں ۔ مُتْ اَیُّھَا الخوّان ۔ تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ ۶۰۱ (ناشر)
دوران میں ایک طالب علم محمد حیات کو پلیگ ہوگیا ۔ اس کو فوراً باغ میں بھیج کر علیحدہ کر دیا گیا۔ اور حضور نے مولوی نور الدین صاحب کو بھیجا کہ اس کو جاکر دیکھو۔ اس کے چھ گلٹیاں نکلی ہوئی تھیں اور بخار بہت سخت تھا۔ اور پیشاب کے راستہ خون آتا تھا۔ حضرت مولوی صاحب نے ظاہر کیا کہ رات رات میں اس کا مرجانا اغلب ہے ۔ اس کے بعد ہم چند احباب حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ محمد حیات کی تکلیف اور مولوی صاحب کی رائے کا اظہار کر کے دعا کے لئے عرض کی ۔ حضرت صاحب نے فرمایا ۔ میں دعا کرتاہوں اور ہم سب روتے تھے۔ میں نے روتے روتے عرض کی کہ حضور دعا کا وقت نہیں رہا۔ سفارش فرمائیں۔ میری طرف مڑ کر دیکھ کر فرمایا ۔ بہت اچھا۔ مسجد کی چھت پر میں ، منشی اروڑا صاحب اور محمد خاں صاحب سوتے تھے۔ دو بجے رات کے حضرت صاحب اوپر تشریف لائے اور فرمایا کہ حیات خاں کا کیا حال ہے ؟ ہم میں سے کسی نے کہا کہ شاید مرگیا ہو۔ فرمایا کہ جاکر دیکھو ۔ اسی وقت ہم تینوں یااور کوئی بھی ساتھ تھا۔ باغ میں گئے ۔ توحیات خاں قرآن شریف پڑھتا اور ٹہلتا پھرتا تھا ۔ اور اُس نے کہا میرے پاس آجاؤ۔ میرے گلٹی اور بخار نہیں رہا۔ میں اچھا ہوں ۔ چنانچہ ہم اس کے پاس گئے توکوئی شکایت اس کو باقی نہ تھی۔ ہم نے عرض کی کہ حضور اسکو تو بالکل آرام ہے ۔ غالباً صبح کو آگیا۔ چونکہ اس کے باپ کو بھی تاردیا گیاتھا۔ اور ہم تینوں یہ عظیم الشان معجزہ دیکھ کر اجازت لے کر قادیان سے روانہ ہوگئے۔ نہر پر اس کا باپ ملا جو یکہ دوڑائے آرہا تھا۔ اس نے ہمیں دیکھ کر پوچھا کہ حیات کاکیا حال ہے؟ ہم نے یہ سارا واقعہ سنایا ۔ وہ یہ سن کر گر پڑا ۔ دیر میں اُسے ہوش آیا۔ اور پھر وہ وضو کر کے نوافل پڑھنے لگ گیااورہم چلے آئے ۔
{ 1098} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ کلکتہ کا ایک برہمن مجسٹریٹ خدا تعالیٰ کی ہستی کا قائل نہ تھا۔ وہ قادیان آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ میں خدا کا قائل نہیں ہوں اور سنی سنائی باتوں پر یقین نہیں رکھتا۔ کیا آپ خدا مجھے دکھا دیں گے؟ آپ نے فرمایا کہ اگر کچھ عرصہ آپ ہمارے پاس ٹھہریں گے تو ہم آپ کو دکھا دیں گے اور یہ دریافت فرمایا کہ آپ کچھ عرصہ ٹھہر سکتے ہیں؟ اس نے کہا کہ میں چھ ماہ کی رخصت پر ہوں۔ اور میں یہ سارا عرصہ ٹھہر سکتا ہوں ۔ بشرطیکہ آپ خدا مجھے دکھا دیں۔ حضور نے فرمایا کہ آپ لندن گئے ہیں۔ اس نے کہا نہیں ۔ فرمایا لندن کوئی شہر ہے ۔ اس نے کہا ہاں ہے ۔ سب جانتے ہیں ۔ فرمایاآپ لاہور تشریف لے گئے ہیں اس نے کہا کہ میں لاہور بھی نہیں گیا۔فرمایا ۔قادیان آپ کبھی پہلے بھی تشریف لائے تھے۔ اس نے کہا نہیں ۔ فرمایا! آپ کو کس طرح معلوم ہوا کہ قادیان کوئی جگہ ہے اور وہاں پر کوئی ایسا شخص ہے جو تسلی کرسکتا ہے ۔ اس نے کہا سنا تھا ۔ آپ نے ہنس کر فرمایا۔ آپ کا تو سارا دارومدار سماعت پر ہی ہے اور اُس پر پورا یقین رکھتے ہیں۔ پھر آپ نے ہستی باری تعالیٰ پر تقریر فرمائی اور سامعین پر اس کا ایسا اثر ہوا کہ ایک کیفیت طاری ہوگئی۔ اور اس شخص کی دماغی حالت کی یہ کیفیت تھی کہ وہ اقلیدس کی شکلوں کا ذکر کرنے لگا۔ اور حضرت مولوی صاحب نے اسے دوا منگوا کر دی ۔ جب اس کی حالت درست ہوئی تو وہ حضرت صاحب کے پیروں کو ہاتھ لگا کرمسجد سے نیچے اُتر آیا اور حضرت مولوی صاحب اس کے ساتھ ہی اتر آئے۔ اس نے یکہ منگوایا اور سوار ہوگیا۔ حضرت مولوی صاحب نے فرمایا ۔ کہ آپ ایسی جلدی کیوں کرتے ہیں۔ اس نے کہا کہ میں مسلمان ہونے کی تیاری نہیں کر کے آیا تھا اور مجھے پورا یقین ہے کہ اگر رات کو میں یہاں رہا تو صبح ہی مجھے مسلمان ہونا پڑے گا۔ مجھے خدا پر ایسا یقین آگیا ہے کہ گویا میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے ۔ میرے بیوی اور بچے ہیں اُن سے مشورہ کر لوں ۔ اگر وہ متفق ہوئے تو پھر آؤں گا۔ اس کے بعد وہ چلا گیا۔
{ 1099} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک شخص یہودی تھا۔ اور وہ مسلمان ہوکر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی بیعت میں شامل ہوگیا تھا۔ ایک دن میں حضور کی محفل میں بیٹھا تھا۔ کسی دوست نے حضور سے اس کے متعلق پوچھا ۔ آپ کی تعریف! تو حضور نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ یہودی ہیں ۔ بلکہ یہ فرمایا ’’آپ بنی اسرائیل صاحبان میں سے ہیں ۔‘‘
{ 1100} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا ہے کہ اخیر سنین بعثت حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں مَیں قادیان جانے کے لئے تیار ہوا۔ اُس وقت کے امیر جماعت مولوی عبد اللہ خان صاحب مرحوم نے مجھ سے فرمایا۔ کہ ہمارے ایک پیغام کا یاد سے جواب لانا۔ پیغام دریافت طلب یہ تھا کہ جس طرح حضرت صاحب کی نسبت نبی یارسول کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ کیا دیگر مجددین امت واولیاء کبار مثلاً حضرت مجددالف ثانی ؒکی نسبت ایسے الفاظ استعمال ہوسکتے ہیں؟ اور یہ تاکید فرمائی کہ اس کا جواب اگر ہوسکے تو خود حضرت صاحب سے حاصل کیا جائے ۔ اگر ایسا موقعہ نہ میسر ہو تو پھر حضرت مولوی نور الدین صاحب سے دریافت کیا جائے ۔ خاکسار کئی روز کوشش میں رہا۔ مگر مناسب موقعہ نہ ملنے کے سبب حضور سے دریافت کرنے کی جرأت نہ ہوئی ۔ آخر جب میں نے واپس جانے کاارادہ کیا تو میںنے حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں عرض کیا اور وہ شرط بھی ظاہر کردی جو سائل صاحب نے لگائی تھی۔ حضرت مولوی صاحب نے ہنس کر فرمایا۔ کہ ابھی رخصت کے دو تین دن ہوں گے۔ ہم موقع نکال دیں گے ۔ چنانچہ اُسی روز یا اگلے روز حضرت صاحب بعد نماز مغرب اوپر تشریف فرما تھے کہ حضرت مولوی صاحب نے میرے حوالہ سے یہ سوال حضور کے گوش گذار کیا۔ حضور نے سن کر جوش بھرے لہجہ میں فرمایا۔ کہ مولوی صاحب! میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ سوال پیدا ہی کیسے ہوتا ہے ۔ جس شخص کو خدا نے اپنی وحی میں نبی کے لفظ سے نامزد نہ کیا ہو اور جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبی کے لفظ سے یاد نہ فرمایا ہو۔ اور نہ اس شخص نے خود نبوت کا دعویٰ کیا ہو۔ پھر سر پھرا ہے کہ اس کو نبی کے لفظ سے پکارا جائے یا اس کو نبی کہا جائے ؟
{ 1101} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ خاکسار چند روز کے لئے قادیان میں مقیم تھا ۔ ایک دفعہ صبح آٹھ بجے کے قریب اطلاع ملی کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سیر کو تشریف لے جارہے ہیں۔ خاکسار بھی ساتھ ہولیا۔ حضور ایسے تیز قدم جارہے تھے کہ کوشش کر کے شامل رہا جاتا تھا۔ پند رہ بیس کے قریب افراد حضور کے ساتھ ہوں گے۔ حضور بوہڑکے درخت کے قریب پہنچ کر واپس ہوئے۔ واپسی پر جو گفتگو ہورہی تھی اس کو ختم کرنے کے لئے چوک زیریں مسجد مبارک میں اُس مقام پر جہاں نواب صاحب کا مکان ہے ۔ کھڑے ہوکر سلسلہ کلام کو جاری رکھا۔ خلیفہ رجب دین صاحب لاہوری مرحوم زیادہ بات چیت میں حصہ لیتے تھے اور وہی حضور کے قریب کھڑے تھے۔ یہ مجھے یاد نہیں کہ کیا سلسلہ کلام تھا۔ کیونکہ پیچھے سے گفتگو ہوتی آرہی تھی اور بہت حصہ خاکسار سن بھی نہ سکا ۔ سلسلہ کلام جب ختم ہوا تو حضور کی نظر فیض اثر خاکسار پر پڑ گئی اور بڑی شفقت سے میری طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ آپ کی رخصت کتنے دن کی تھی۔ خاکسار نے عرض کی کہ رخصت تو پندرہ روز کی تھی مگر اب صرف دو روز باقی رہ گئے ہیں ۔ کل واپسی کا ارادہ ہے ۔ حضور نے فرمایا۔ دوروز پیشتر کیوں جاتے ہو۔ میںنے عرض کی کہ ایک روز تو راستہ میں صرف ہوجاتا ہے ۔ اور ایک دن میں امرتسر میں اس لئے ٹھہرا کرتا ہوں کہ گھر کی فرمائشات اور بچوں کے لئے پھل وغیرہ خرید سکوں ۔ اس پر حضور نے فرمایا۔ کہ وہ دو روز جو رخصت کے باقی ہیں وہ بھی یہیں ٹھہر کر ختم کرو۔ پٹیالہ تک راستہ کے لئے رات کافی ہے ۔ پٹیالہ بڑا شہر ہے وہاں سب اشیاء مل سکتی ہیں۔ وہیں سے خرید کر بچوں کو دے دینے میں کیا حرج ہے ۔ پھر خلیفہ رجب دین صاحب کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا۔ کہ میں اس نوجوان (یعنی خاکسار کرم الٰہی) کو دیکھ کر بہت تعجب کرتا ہوں۔ یہ عمر کھیل تماشہ کی ہوتی ہے۔ اس کو جب وقت ملتا ہے یہ لاہور اور امرتسر جیسے شہروں کی تفریحات اور تھیٹروں کو چھوڑتا ہوا یہاں آجاتا ہے ۔ آخر اس نے کچھ تو دیکھا ہے ۔ پھر خاکسار کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا۔ کہ کبھی تین ماہ کی رخصت لے کر آنا چاہئے ۔ خاکسار نے عرض کی کہ سال میں ایک ماہ کا حق رخصت ہے ۔ تین ماہ کی رخصت تب مل سکتی ہے کہ جب تین سال تک کوئی رخصت نہ لوں ۔ خاکسار اس ایک ماہ کی رخصت کو دو دفعہ کر کے پندرہ پندرہ روز کے لئے اور کرسمس کی تعطیلات میں تین دفعہ حاضر ہوجاتا ہے ۔ حضور نے فرمایا زیادہ دفعہ آؤ۔ اور زیادہ وقت کے لئے آؤ۔ آپ لوگ دفتروں کے ملازم ہیں ۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ احکام ہیڈ کوارٹرز میں آتے ہیں۔ بہت کم اُن میں سے مفصلات تک پہنچتے ہیں اور وہ بھی دیر کے بعد ۔ یہ خد اکی شان اور اس کی مرضی ہے کہ اس روڑیوں والے گاؤں کو خد انے اپنا ہیڈ کوارٹر چن لیا ہے ۔ (اس وقت وہاں تک روڑیوں یعنی کوڑا کرکٹ کے ڈھیر تھے جہاں آج احمد یہ بازار ہے) پھر خلیفہ صاحب سے مخاطب ہوکر فرمایا۔ کہ بعض لوگوں کویہ بھی وسوسہ ہوتا ہے کہ مل لیا ہے۔ اب زیادہ دیر ٹھہر کر لنگر خانہ پر کیوں بار ہوں۔ یہ بھی صحیح نہیں بلکہ اس کے برعکس مہمانوں کے آنے اور قیام سے ہم کو راحت ہوتی ہے ۔ تکلیف کی نوبت تو تب آئے کہ جب لوگوں کے دلوں میں تحریک کرنے اور ان کی رہائش اور خورونوش کا انتظام دوجداگانہ ہاتھوں میںہو۔ لیکن یہاں تو دونوں امور ایک ہی خد اکے ہاتھ میں ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ خدا آدمیوں کو بھیجے اور اُن کے لئے سامان آسائش مہیا نہ کرے ۔ پس یہ خیال دل سے نکال دینا چاہئے ۔ چنانچہ اس دفعہ دو روز بقیہ رخصت کے دن بھی خاکسار نے دارالامان میں ہی گذارے ۔
{ 1102} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ایک دن سیر کو تشریف لے جارہے تھے اور میرے پاس ڈبیا میں پان تھے۔ چلتے چلتے میںنے ایک پان نکال کر کھایا۔ آپ نے فرمایا ۔ ہمیں بھی دو۔ میں نے ایک پان پیش کردیا ۔ بغیر اس خیال کے کہ پان میں زردہ ہے۔ میںنے وہ دے دیا اور آ پ نے کھالیا۔ کھاتے ہی چکر آیا ہوگا۔ کیونکہ حافظ حامد علی صاحب سے حضور نے فرمایا کہ ذرا پانی کا لوٹا لے کر ہمارے ساتھ چلو۔ وہاں قریب کے کنوئیں سے پانی لیا گیا۔ اور آپ دور تشریف لے گئے ۔ حافظ صاحب بھی ساتھ تھے ۔آپ کی عادت شریفہ تھی کہ راستہ میں اگر پیشاب کرنے کی حاجت ہوتی تو اتنی دور چلے جاتے تھے جتنا کہ قضائے حاجت کے لئے جاتے ہیں۔ اس لئے میں نے سمجھا کہ پیشاب کرنے تشریف لے گئے ہیں ۔وہاں جاکر آپ کو استفراغ ہوا۔ اور پانی سے منہ صاف کر کے تشریف لے آئے ۔ مجھے جب خیال آیا کہ پان میں زردہ تھا تو میں سخت نادم تھا۔ آپ نے مجھے دیکھ کر ہنستے ہوئے فرمایا۔ منشی صاحب آپ کے پان نے تو دوا کاکام کیا ۔ مجھے کچھ گرانی سی تھی بالکل رفع ہوگئی۔
{ 1103} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مولوی محمد احسن صاحب امروہی ، مولوی عبد الرحیم صاحب میرٹھی ، چند اور احباب اور خا کسار حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پاس بیٹھے تھے۔ حضور نے ایک اردو عبارت سنا کر فرمایا کہ اس مضمون کی مجھے یاد ہے کہ ترمذی شریف میں ایک حدیث ہے اور ترمذی شریف جو عربی میں تھی منگوا کر مولوی محمد احسن صاحب کودی کہ اس میں سے نکالیں۔ مولوی صاحب موصوف علم حدیث میں بہت کامل سمجھے جاتے تھے۔ انہوںنے بہت دیر تک دیکھ کرفرمایا کہ حضور اس میں تو یہ حدیث نہیں ہے ۔ آپ نے فرمایا۔ مولوی عبدالرحیم صاحب کو کتاب دے دو۔ ان کو بھی وہ حدیث نہ ملی۔ پھر آپ نے فرمایا۔ منشی صاحب یعنی خاکسار کو دے دو۔ میںنے کتاب کھول کر دو تین ورق ہی الٹے تھے کہ وہ حدیث نکل آئی اور میںنے حضور کی خدمت میں پیش کردی کہ حدیث تو یہ موجو دہے آپ اسے پڑھتے رہے اور مولوی محمد احسن صاحب بہت حیران ہوکر مجھ سے کہنے لگے کہ آپ بڑے فقیہ ہیں ۔ میں نے کہا کہ میری فقاہت اس میں کیا ہے ۔ یہ حضور کا تصرّف ہے ۔ مجھے تو اچھی طرح عربی بھی نہیں آتی۔
{ 1104} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بعض دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سیر کو تشریف لے جاتے تو کنوئیں سے پانی نکلوا کر ڈول کو منہ لگا کر ہی پانی پی لیتے۔ اور لوگ منتظر رہتے کہ آپ کا چھوڑا ہوا پانی پئیں۔ مگر حضور عموماً وہ ڈول مجھے عطا فرماتے ۔ بعض دفعہ کسی اور کو بھی دے دیتے۔
{ 1105} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک شخص محمد سعید صاحب عرب تھے اور وہ ڈاڑھی منڈوایا کرتے تھے۔ جب وہ قادیان میں زیادہ عرصہ رہے تو لوگوںنے انہیں داڑھی رکھنے کے لئے مجبور کیا۔ آخر انہوںنے داڑھی رکھ لی۔ ایک دفعہ میرے سامنے عرب صاحب نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ حضور میری داڑھی دیکھیں ٹھیک ہے ۔ آپ نے فرمایااچھی ہے اور پہلے کیسی تھی ۔ گویا آپ کو یہ خیال ہی نہ تھا کہ پہلے یہ داڑھی منڈایا کرتے تھے۔
{ 1106} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن محمد سعید صاحب عرب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اپنی داڑھی کے متعلق پوچھا ۔ اُس وقت ایک شخص نے عرض کی کہ حضور داڑھی کتنی لمبی رکھنی چاہئے ۔ آپ نے فرمایا کہ میں داڑھیوں کی اصلاح کے لئے نہیں آیا۔ اس پر سب چپ ہوگئے ۔
{ 1107} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ۔ غالباً۱۸۸۸ء کے آخر یا۱۸۸۹ء کے شروع میں خاکسار ریاست پٹیالہ کی طرف سے ریلوے میل سروس میں ریکارڈ کلرک ملازم ہو کر راجپورہ میںمقیم تھا کہ ایک روز شام کی گاڑی سے حاجی عبد الرحیم صاحب انبالوی پنجاب کی طرف لے جانے والی گاڑی میں سوار ہوئے ۔خاکسار پلیٹ فارم پر پھرتا ہوا ان سے ملا تو انہوںنے فرمایا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام آج کل لدھیانہ میںتشریف رکھتے ہیں۔ تُو بھی چل ، قریب ہیں، زیارت کا موقعہ ہے ۔ میں نے بلا اجازت ہیڈ کوارٹر چھوڑنے کی معذوری ظاہر کی۔ اور وعدہ کیا کہ اگر اجازت مل گئی تو حاضر ہوجاؤں گا۔ اتفاق سے اُسی روز اجازت مل گئی۔ اور خاکسار اگلے دن صبح ہی لدھیانہ پہنچ گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب قبلہ میر ناصر نواب صاحب مرحوم انبالہ سے لدھیانہ تبدیل ہوچکے تھے۔ بمشکل پتہ لے کر قریب نما زعصر یا بعد نماز عصر جائے قیام حضرت صاحب پر پہنچا۔ جمعہ کا دن تھا۔ نماز جمعہ خاکسار نے جامع مسجد میں پڑھی۔ وہیں سے حضور کے جائے قیام کا پتہ بھی چلا تھا۔ مکان مذکور کا بیرونی دروازہ شرقی رویہ تھا۔ اندرصحن میں چبوترہ بنا ہوا تھا۔ اسی پر حضرت صاحب مع چند رفقاء کے تشریف فرما تھے اور تقریر فرما رہے تھے۔ جو حصہ میںنے تقریر کا سنا اس سے معلوم ہوا کہ موضوع تقریر یہ ہے کہ مسلمان حضور کے اعلان بیعت کے خلاف کیا کیا عذرات کر رہے ہیں ۔ حضور نے فرمایا کہ علماء کا گروہ اول تو یہ کہتا ہے کہ یہ کوئی جید عالم نہیں۔ نیز فرقہ اہل حدیث والے یہ کہتے ہیں کہ یہ آمین اور رفع یدین جیسی سنت کا تارک ہے اور حنفی کہتے ہیں یہ فاتحہ خلف الامام کا عامل ہے ۔ اس لئے مجدد کیسے ہوسکتا ہے ۔ صوفی کہتے ہیں کہ ہمارے بزرگوں کے ۱۴خاندان اور۳۲خانوادہ جو وہ بناتے ہیں۔ اُن میں سے یہ کسی میں داخل نہیں۔ پھر ہم اس کی بیعت کیسے کر سکتے ہیں۔ حضور نے فرمایا کہ کوئی ان سے پوچھے کہ تم نے جو۱۴اور۳۲کی تعداد مقرر کی ہے ۔ کوئی وقت ایسا بھی تھا۔ کہ وہ ایک نمبر سے شروع ہوئے تھے۔ خدا نے اب سب کو مٹا کر اب پھر از سر نو نمبر۱ سے شروع کیا ہے ۔ اسی سلسلہ میں فرمایا کہ ایک گروہ ایسا بھی ہے کہ باوجودہمارے ساتھ حسن ظن رکھنے کے بیعت سے رکا ہوا ہے۔ جس طرح چور کسی مکان میں نقب لگانے کے لئے مکان کے کسی کمزور حصہ کو منتخب کرتا ہے ۔ اسی طرح شیطان نے بھی جب دیکھا کہ ایسے لوگ کسر نفسی کے تحت ہی شکار ہوسکتے ہیں ان کے دل میں یہ وسوسہ پید اکیا کہ یہ بات تو بے شک درست ہے مگر شرائط بیعت ایسی نازک اور مشکل ہیں کہ دنیادارانہ زندگی میں اُن کی پابندی ناممکن ہے ۔ جب کلام اس مرحلہ پر پہنچا تو حاجی عبد الرحیم صاحب نے جو اس مجمع میں مجھ سے آگے بیٹھے ہوئے تھے اور جو اس سے قبل ہر ملاقات میں مجھے بیعت کے لئے کہتے تھے اور میں ایسا ہی عذر کر کے ٹلا دیتا تھا انہوں نے حضرت صاحب سے کچھ عرض کرنے کی اجازت طلب کی۔ اجازت ملنے پر میرا ہاتھ پکڑ کر حضرت صاحب کے سامنے کر دیا اور کہا حضور جس گروہ کا حضور نے آخر نمبر پر ذکر فرمایا ہے اُن میں سے ایک یہ شخص بھی ہے ۔ حضور نے خاکسار کی طرف نظر کر کے فرمایاکہ ہمارے بہت دیرینہ ملنے والے ہیں ان کو توایسا خیال نہیں ہونا چاہئے ۔ پھر میری طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ آپ کو اس میں کیا مشکل نظر آتی ہے ؟ میں نے عرض کیا ۔ حضور ایک ہی شرط جو دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی ہے کیا کم ہے ۔ اور دوسری شرائط بھی ایسی ہی ہیں ۔ اس پر حضور نے فرمایا!کہ اچھا اگر یہ شرائط سخت اور ناقابل عمل ہیں تو کیا آپ کا یہ منشا ہے کہ یہ شرط ہوتی کہ بیعت کر کے جو منہیات چاہو کروکوئی روک ٹوک نہیں ۔ تو کیا آپ لوگ نہ کہتے کہ یہ ایک جرائم پیشہ کا گروہ ہے اس میں کسی شریف آدمی کا شمول کیسے ہوسکتا ہے ۔ فرمایا! اس بارہ میں لوگوں کو دھوکا لگا ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بیعت وہی کرے جو پہلے سے ولی اللہ ہو۔ حالانکہ ایسا نہیں بلکہ ایسے بننے کا ارادہ اور دلی خواہش ضرور ہونی چاہئے ۔ جس کا ارادہ ہی طلب حق نہ ہواس کو ہم کھلے الفاظ میں کہتے ہیں کہ وہ ہر گز ہماری بیعت میں شامل نہ ہو۔ فرمایا اس کی مثال یہ ہے کہ اس شہر میں کالج ہوگا۔ اگر کوئی طالب علم پرنسپل سے جاکر کہے کہ مجھ کو کالج میں تو داخل کر لو مگر میں نے پڑھنا وغیرہ نہیں تو پرنسپل اُس کو یہی جواب دے گا۔ کہ مہربانی رکھو تم ہمارے دوسرے طلباء کو بھی کھلنڈرا بنا کر خراب کر دوگے۔ بات یہ ہے کہ ایک طالب نیک نیتی سے خدا کی رضا جوئی کے لئے بیعت کرتا ہے گویا وہ معاہدہ کرتا ہے ۔ خدانخواستہ اگر اس کو کسی منکر یا برائی کا موقعہ پیش آجائے تو اس کو اپنے عہد کا خیال آکر اس سے روک کا موجب ہوگا۔ علاوہ ازیں خود بیعت لینے والے کی ہمدردانہ دعاؤں کی برکت بھی شامل حال ہوتی ہے ۔ اور اگر نیت نیک اور عزم راسخ ہو توہر شخص اپنے عزم واستقلال اور استعداد کے مطابق فیض یاب ہوتا ہے ۔ خدا رحیم کسی کے نیک عمل کو ضائع نہیں کرتا۔ خاکسار نے عرض کیا کہ اگرایسا ہے تو مجھ کو بیعت کرنے میں کوئی عذر نہیں ۔ لیکن میں اس سے قبل طریقہ نقش بندیہ میں بیعت ہوں ۔ حضور نے فرمایا!کوئی مضائقہ نہیں ۔یہ بھی ایک وسوسہ ہے۔ کیا علم میں ایک سے زیادہ استاد نہیں ہوتے اور بیعت تو بعض اوقات ایک ایک امر کے متعلق بھی ہوسکتی ہے ۔
{1108} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ اپنی بیعت سے قبل میں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تقریرلدھیانہ میں سنی ۔ جب وہ تقریر ختم ہوئی تو نماز مغرب اد اکی گئی ۔ امامت حضرت صاحب نے خود فرمائی۔ اور پہلی رکعت میں فاتحہ کے بعد سورۃ اخلاص اور فلق تلاوت فرمائی۔ اور دوسری رکعت میں فاتحہ کے بعد سورۃ اخلاص اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ پڑھی ۔ اس کے بعد حضور نے بیعت لی۔ اس روز ہم دو آدمیوںنے بیعت کی تھی۔ پہلے جب وہ صاحب بیعت کر کے کمرے سے باہر آگئے تو حضور کے طلب فرمانے پر عاجز داخل ہوا۔ حضور نے دروازہ بند کر کے کنڈی لگادی اور بیعت لی ۔ بیعت سے قبل خاکسار نے عرض کیا کہ جب میں نے اس سے قبل نقشبندی میں بیعت کی تھی تو کچھ شیرینی تقسیم کی تھی۔ اگر اجازت ہوتو اب بھی منگو الی جائے ۔ فرمایالازمی تو نہیں اگر آپ کا دل چاہئے تو ہم منع نہیں کرتے۔ اور فرمایا۔ایسی باتیں جو آج کل لوگ بطور رسم اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ ان کے ماخذ بھی سنت نبوی سے تلاش اور غور کرنے سے مل سکتے ہیں۔ مثلاً یہی شیرینی وغیرہ تقسیم کرنے کا معاملہ ہے ۔ حدیث سے ثابت ہے کہ ایک موقعہ پر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ جس گھر پر کچھ آدمیوں کا مجمع ہو اور وہ تمام کی دعوت کی توفیق نہ رکھتا ہو تو اگر حاضرین کو ایک ایک کھجور بھی تقسیم کردے تو خد اتعالیٰ اس کو دعوت کا ثواب عطا فرمائے گا۔ یہاں سے مجالس میں تبرک وغیرہ کی بنیاد پڑی ہے ۔ اگر کوئی اس نیت سے ایسا کرے تو وہ علاوہ ثواب دعوت کے عامل سنت ہونے کا اجر بھی پائے گا۔ لیکن اب اس کے برعکس تبرک تقسیم کرنے والوں کا تو یہ حال ہے کہ وہ صرف نام نمود کے لئے ایسا کرتے ہیں کہ فلاں شخص نے اپنی مجلس میں دال داکھ وغیرہ تقسیم کی ہے ہم جلیبی یا قلاقند تقسیم کریں گے اور دوسری طرف تبرک لینے والوں کا یہ حال ہے کہ اُن کو اس وعظ وپند سے فائدہ اُٹھانے کا مطلب ہی نہیں ہوتا۔ جس کے لئے مجلس کا انعقاد ہوا ہو۔ بلکہ ان کی ٹولیوں میں دن سے ہی مشورہ ہوتے ہیں کہ فلاں مجلس میں زردہ پلاؤ یا کوئی عمدہ مٹھائی تقسیم ہوگی اس لئے وہاں چلیں گے اور مجلس میں جاکر باہر بیٹھے اونگھتے یا سوتے رہیں گے۔ جب تقسیم کا وقت آتا ہے تو سب سے پیش اور سب سے بیش لینے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اگر موقعہ ملے تو ایک سے زیادہ دفعہ بدل کر یادوسری طرف کی صفوں میں بیٹھ کر حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
{1109} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ایک دن مسجد مبارک میں ریاؔپر تقریر فرما رہے تھے۔ کہ ریا شرک ہے ۔ تھوڑی سی دیر میں ایک دوست نے پوچھا کہ حضور کو بھی کبھی ریا کا خیال آیا ہے۔ فرمایاکہ ریا ہم جنس سے ہوا کرتی ہے ۔
{1110} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب میں قادیان میں ہوتا تو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی ڈاک میرے سپرد ہوتی۔ میں ڈاک سنایا کرتا تھا۔ ایک خط پر لکھا ہو اتھا کہ کوئی دوسرا نہ کھولے۔ باقی خطوط تو میں نے سنائے لیکن وہ خط حضور کے پیش کردیا۔ آپ نے فرمایا۔ کھول کر سنائیں ۔ دوسرے کے لئے ممانعت ہے ۔ ہم اور آپ تو ایک وجود کا حکم رکھتے ہیں۔ میں نے وہ خط پڑھ کر سنا دیا ۔ نویسندہ نے اپنے گناہوںکا ذکر کرکے دعا کی درخواست کی تھی۔ اور بڑی عاجزی اور انکساری سے خط لکھا تھا۔ اس کی تحریر سے معلوم ہوتا تھا کہ گویا وہ ایک آگ میں پڑا ہوا ہے ۔ اور حضور اُسے جلدی کھینچ کر نکالیں۔ آپ نے فرمایا۔یہ خط مجھے دے دیں۔ میں خود اس کا جواب لکھوں گا۔ جس طرح واشگاف حال اس نے لکھا ہے مجھے اس کی خوشی ہوئی۔ ایسے لوگ کم دیکھے گئے ہیں ۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{1111} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت اُم المومنین نے مجھے ارشاد فرمایا کہ میرے لئے ایک سبک اور عمدہ دیسی جوتا بنو ا کر لائیں۔ میں پیر کا ماپ بھی لایا۔ اور پھگواڑہ کے ایک معروف موچی سے جوتا بنوایا۔ بنو اکر لے گیا ۔ حضرت ام المومنین کے پیر میں وہ ڈھیلا آیا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اندر سے خود پہن کر باہر تشریف لائے اور فرمایا۔ کہ اُن کے پیر میں تو ڈھیلا ہے مگر ہم پہنا کریں گے میں نے پھر دوبارہ اور جوتابنوا کر بھیجا۔
{1112} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ لدھیانہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سیر کو تشریف لے جارہے تھے۔ پیر میں جو جو تا تھا ۔ اُس کو پیوندلگے ہوئے تھے اور بدزیب معلوم ہوتا تھا۔میں آپ کی ہمراہی سے ہٹ کر ایک دوکان پر گیااور آپ کے پیر کا بہت ٹھیک جوتا خرید کر لایا۔ آپ مجھے سیر سے واپسی پر ملے ۔ میں جوتا لئے ساتھ چلا آیااور مکان پر آکر پیش کیا کہ حضور وہ جوتا تو بُرا لگتا ہے۔ آپ نے جزاکم اللہ فرما کر نیا جوتا رکھ لیا۔ اور پہن کر بھی دیکھا تو بہت ٹھیک تھا۔ اگلے دن جب حضور سیر کو تشریف لے گئے تو وہی پرانا جوتا پیوند کیا ہو اپہنے ہوئے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ حضور نے تو پھر وہی جوتا پہن لیا۔ آپ نے فرمایااس میں مجھے آرام معلوم ہوتا ہے اور اس کو پیر سے موافقت ہوگئی ہے ۔
{1113} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں ایک دفعہ بوٹ پہنے ہوئے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے سا تھ تھا۔ میرا بوٹ ذرا تنگ تھا۔ اس لئے میں تکلیف سے چلتا تھا کیونکہ حضور بہت تیز چلتے تھے۔ آپ نے مجھے دیکھ کر اپنے پرانے جوتے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ ہم تو ایسا جوتا پہنتے ہیں یعنی آپ کیوں تکلیف اُٹھاتے ہیں ۔
{1114} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں نے جب لدھیانہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی بیعت کی تو میں نے اُس خلوت کو غنیمت جان کر حضور سے دو تین امور کے متعلق استفسار کیا۔ وہ سوالات اور جوابات جو حضور نے ازرہ شفقت فرمائے ،یہ ہیں ۔
سوال نمبر۱: خاکسار نقش بندیہ طریق میں بیعت ہونے سے قبل فرقہ اہل حدیث جس کو عام لوگ وہابی کے لفظ سے یاد کرتے ہیں ۔ میں بھی شامل رہا ہے ۔ اُس وقت سے نمازوں کو جمع کرنے کی عادت پڑ گئی ہے ۔ اس بارہ میں حضور کا کیا ارشاد ہے ۔
جواب: حضور نے فرمایا کہ جمع صلاتین کے بارہ میں میرے نزدیک مخالف وموافق ہر دو فریق نے افراط وتفریط سے کام لیا ہے ۔ ایک طرف اس پر عاملین کا تو یہ حال ہے کہ بلا عذر شرعی یا جائز ضرورت کے نمازیں جمع کر لیتے ہیں ۔ یہاں تک کے حقہ ذرا اچھا چل رہا ہے یا تاش وغیرہ کھیل رہے ہیں ۔اذان ہوئی تو ان کو چھوڑ کر کون جائے۔ جھٹ نماز جمع کرنے کی ٹھان لیتے ہیں، چاہے دوسری نماز بھی ادا ہوجائے یا دونوں ضائع ہوجائیں ۔ فرمایا!یہ بہت بُری بات ہے ۔ نما زجیسے ضروری فرض میں کوتاہی اور غفلت ایمان کی کمزوری پر دال ہے اور دوسری طرف حنفی صاحبان کا یہ حال ہے کہ کیسی ہی ضرورت اور عذر جائز ہو نماز قضاء تو کردیں گے مگر اہل حدیث کی ضد اور مخالفت میں جمع نہ کریں گے ۔ فرمایا۔کہ کوئی ان لوگوں سے پوچھے کہ حج کے موقعہ پر ایک نماز ہر حاجی کو ٹھیک ادائے رسوم حج کے وقت لازمی طور پر جمع کرنی پڑتی ہے ۔ اگر یہ فعل ایسا ہی ممنوع ہوتا ۔ جیسا آپ لوگوں کے عمل سے ہویدا ہے تو ایسے مقدس مقام پر ا س کی اجازت کیسے ہوتی۔ دراصل ضرورت اور عدم ضرورت کا سوال ہے اور یہی اس بارہ میں معیار ہے ۔
سوال نمبر۲: خاکسار نے عرض کیا کہ میں نے بار ہا صوفیاء کی مجلس حال وقال میں اور شیعہ وغیرہ کی مجالس محرم وغیرہ میں قصداً اس غرض سے شامل ہو کر دیکھا ہے کہ یہ اس قدر گریہ وبکا اور چیخ وپکار جو کرتے ہیں مجھ پربھی کوئی حالت کم ازکم رقت وغیرہ ہی طاری ہو مگر مجھے کبھی رقت نہیں ہوئی۔
جواب: حضور نے فرمایا کہ ان مجالس میں جوشور وشغب ہوتا ہے اس کا بہت حصہ تو محض دکھاوے یا بانی مجلس کے خوش کرنے کے لئے ہوتا ہے اور باقی رسم اور عادت کے طور پر بھی وہ ایسا کرتے ہیں کیونکہ اُن کا خیال ہوتا ہے کہ اس موقعہ پر ایسا کرنا موجب ثواب ہے ۔ لیکن مومن کے لئے رقیق القلب ہونا ضروری ہے ۔ اس کے لئے نمازیں وقت پر اور خشوع خضوع سے اد اکرنااور کثرت استغفار ودرود شریف اور نمازوں میں سورہ فاتحہ کی تلاوت کے وقت اھدنا الصراط المستقیم کا تکرار بطور علاج فرمایا۔
سوال نمبر۳: خاکسار نے بطور ورد ووظائف کچھ پڑھنے کے واسطے دریافت کیا ۔
توحضور نے فرمایا کہ آپ کی ملازمت بھی نازک اور ذمہ واری کی ہے۔ بس نمازوں کو سنوار کر وقت پر ادا کرنااور اتباع سنت اور چلتے پھرتے درود شریف ،استغفار پڑھئے اور وقت فرصت قرآن مجید کی سمجھ کر تلاوت کو کافی فرمایا۔ خاکسار کے مکرر اصرار پر نماز فرض کے بعد اُسی نشست میں گیارہ دفعہ لاحول ولاقوۃ پڑھنے کے لئے ارشاد فرمایا۔
{1115} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے جب دہلی پہنچ کر مولوی نذیر حسین صاحب اور مولوی بشیر احمد بھوپالوی سے مباحثہ فرمایا تھا۔ اُس سفر سے واپسی پر جماعت پٹیالہ کی درخواست پر ایک دو روز کے لئے حضور نے پٹیالہ میں قیام فرمایا۔ حضرت مولانا مولوی نور الدین صاحب اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب ہمراہ تھے۔ ان دنوں میری شادی ونکاح کا مرحلہ درپیش تھا اور میرے والد مرحوم اپنی دنیادارانہ وضع کے پابند اور نام ونمود کے خوگر تھے اور اپنے احباب اور مشیروں کے زیر اثرشادی کے اہتمام میں باوجود مالی حالت اچھی نہ ہونے کے قرض لے کر بھی جلوس اور خلاف شرع رسوم کی تیاروں میں مصروف تھے۔ خاکسار نے اُن سے ان رسوم کی مخالفت اور اپنی بیزاری کا اظہار کیا مگر اُن پر کچھ اثر نہ ہوا۔ میں نے اپنی جائے ملازمت راجپورہ سے ان رسومات کے خلاف شرع اور خلاف اخلاق وتمدن ہونے کے متعلق تین چار صفحات کا ایک مضمون لکھ کر دہلی کے ایک ہفتہ وار اخبار میں شائع کرایا اور چند کاپیاں منگوا کر اپنے والد صاحب کی خدمت میں اور دیگر بزرگان کے نام بھجوادیں۔ اس کے بعد میں پٹیالہ آکر اپنے والد صاحب سے ملا۔ والد صاحب نے مضمون کی تعریف کی اوراُن خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے فرمایا کہ اس مضمون کے مطابق تم اپنے وقت پر عمل کر لینا۔ میں نے تو صرف یہی ایک شادی کرنی ہے ۔ میں تو اسی طرح کروںگا جیسا میرا دل چاہتا ہے۔ تم کو وہ باتیں پسند ہوں یا نہ ہوں۔ اس کا جواب خاموش رہنے کے سوااور میرے پاس کیا تھا۔ آخر میں نے ایک اہل حدیث مولوی سے جن کے ہمارے خاندان سے بہت تعلقات تھے اور خاکسار پر وہ بہت شفقت فرماتے تھے۔ اپنی یہ مشکل پیش کی ۔ انہوںنے سن کر میرے والد صاحب کی طبیعت سے واقف ہونے کی وجہ سے اُن کو تو کچھ کہنے کی جرأت نہ کی بلکہ مجھے بڑی سختی سے تلقین کی کہ اگر تمہارے والد صاحب ان خلاف شرع رسومات کے اد اکرنے سے نہ رکیں تو تم شادی کرانے سے انکار کردو۔ چونکہ میں اپنے والد صاحب کی طبیعت سے واقف تھا اور میرا کوئی دوسرا بہن بھائی بھی نہ تھا۔ اس لئے میں نے خیال کیا کہ ایسا جواب اُن کو سخت ناگوار معلوم ہوگا اور میرے اُن کے تعلقات ہمیشہ کے لئے خراب ہوکر خانگی زندگی کے لئے تباہ کن ہوں گے۔ اس لئے ان حالات میں میں سخت پریشانی اور تردّد میں تھا کہ انہی دنوں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پٹیالہ تشریف لے آئے۔ ایام قیام پٹیالہ میں حضرت مولوی نور الدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب نماز عشاء کے بعد شب باش ہونے کے لئے ہمارے مکان پر تشریف لاتے اور صبح کی نماز کے بعد پھر حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوجاتے ۔ ایک دن موقعہ پاکر میں نے اپنی مشکل کو حضرت مولوی نور الدین صاحب کی خدمت میں عرض کیا۔ حضرت مولوی صاحب نے اس داستان کو بڑے غور سے سنااور فرمایاکہ چونکہ حضرت صاحب تشریف فرماہیں ۔ اس لئے اس معاملہ کو حضور کے پیش کردو۔ میںنے عرض کیا کہ لوگو ں کی ہر وقت آمدورفت اور حضرت صاحب کی مصروفیت کے سبب شاید حضرت صاحب سے عرض کرنے کا موقعہ نہ ملے ۔ مولوی صاحب نے فرمایا ۔ موقعہ نکالنے کی ہم کوشش کریں گے۔ خاکسار تو رخصت نہ ہونے کے سبب ایک روز قبل ہی راجپورہ اپنی جائے ملازمت پر چلا گیا۔ حضرت صاحب اُس سے ایک روز بعد یا دوسرے روز بغرض واپسی راجپورہ صبح آٹھ بجے والی گاڑی سے پہنچے اور کھانے وغیرہ سے فارغ ہوکر جب ٹرین پر سوار ہونے کے لئے پلیٹ فارم راجپورہ پر تشریف لائے تو مولوی صاحب نے خاکسار کو قریب طلب فرماکر یہ سارا واقعہ حضور کے گوش گزار کردیا ۔ حضور نے تمام حالات سن کر خاکسار سے دریافت کیا کہ کیا آپ کے والد صاحب کو یہ علم ہے کہ آپ کو ایسی رسوم جو کہ خلاف شرع ہیں دل سے پسند نہیں ۔ میں نے عرض کیا کہ میں نے اُن سے زبانی عرض کرنے کے علاوہ ایک مدلل مضمون ان رسومات کے خلاف لکھ کر ایک اخبار میں اپنے نام سے شائع کرا کر اس کی کاپیاں اپنے والد صاحب کے پاس پہنچائیں ۔ مگر وہ مضمون کو پسند کرنے اور اس سے متفق ہونے کے باوجود عملاًاس کے خلاف او ر اپنی مرضی کے موافق کرنے پر آمادہ ہیں۔ اس پر حضور نے فرمایا کہ اگرتم اُن اہل حدیث مولوی صاحب کے کہنے کے موافق شادی سے انکار کردو تو اس کا کیا نتیجہ ہوگا ۔ میں نے عرض کیا کہ ہمیشہ کے لئے میر ااُن سے انقطاع انجام ہوگا۔ اس کے بعد فرمایا۔ آخر نکاح وغیرہ کی رسم تو اسلامی شریعت کے مطابق ہی ہوگی ۔ خاکسار کے اثبات پر جواب عرض کرتے ہوئے فرمایاکہ جو رسوم شرع اور سنت کے موافق ہیں اُن کو تم اپنی طرف سے سمجھو اور جوخلاف شرع امور ہیں اُن کو اُن کی مرضی پر چھوڑ دو۔ دل سے ناپسند کرنے کے باوجو دکچھ تعرض نہ کرو ۔اس طرح یہ مرحلہ بغیر فساد اور نزاع کے گزر جائے گا ۔ پھر مولوی صاحب کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا۔میرے نزدیک کسی لڑکے کو کسی خلاف شرع امر میں باپ کو منع کرنے کا اس سے زیادہ حق نہیں کہ وہ اس امر کا خلاف شرع ہونا اور اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کر دے ۔ سختی سے روکنے یا جبر کرنے کا کوئی حق نہیں۔ کیونکہ خد اتعالیٰ نے والدین کے سامنے ادب کے ساتھ اپنا شانہ جھکانے کااور اُن کے آگے اُف تک نہ کرنے کا حکم فرمایا ہے ۔ اتنے میں گاڑی آگئی ۔ خاکسار نے حضرت صاحب سے مصافحہ کیا اور نیچے اُتر کر حضرت مولوی صاحب سے جب مصافحہ کیا تو مولوی صاحب نے فرمایا! کہ حضرت صاحب کے فتویٰ نے آپ کی مشکل کا حل کردیا ۔ میں نے اسی لئے کہا تھا کہ حضرت صاحب سے عرض کرنا چاہئے ۔ دراصل ہم مولوی صاحبان کی نظریں اُن گہرائیوں تک نہیں جاتیں جہاں حضرت صاحب کا نقطہ نگاہ ہوتا ہے ۔ چنانچہ یہ معاملہ بلامخالفت گزر گیا۔
{1116} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام لدھیانہ میں تھے تو وہاں ہیضہ بہت پھیلا ہوا تھا۔ اور منادی ہورہی تھی ۔ تو چراغ خادم نے آکر کہا کہ پوریاں اور حلوا خوب کھایا جائے اس سے ہیضہ نہیں ہوگا۔ اُس نے زنانہ میں آکر یہ ذکر کیا تھا۔ دراصل اُس نے مذاق کیا تھا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پانچ چھ روپے لے کر باہر تشریف لائے اور مولوی عبد الکریم صاحب سے فرمایا کہ دوستوں کو کھلایا جائے کیونکہ چراغ کہتا تھا کہ ایسی منادی ہورہی ہے ۔ مولوی عبد الکریم صاحب نے عرض کیا کہ چراغ توشریر ہے ۔ یہ چیز تو ہیضہ کے لئے مضر ہے ۔ چراغ نے تو ویسے ہی کہہ دہا ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ ہم نے تو یہ سمجھا تھا کہ اسے جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ہے ۔ شاید کوئی نئی تحقیق ہوئی ہو۔ آپ پھر گھر میں تشریف لے گئے ۔ آپ کے جانے کے بعد میں نے چراغ کو ڈانٹا کہ تم نے یہ کیا بات کی تھی۔ اُس نے کہا کہ مجھے کیا معلوم تھا کہ حضرت جی اندر بیٹھے ہیں ۔
{1117} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو خارش ہوگئی۔ اور انگلیوں کی گھائیوں میں پھنسیاں تھیں اور تر تھیں۔ دس بجے دن کے میں نے دیکھا تو آپ کو بہت تکلیف تھی ۔ میں تھوڑی دیر بیٹھ کر چلا آیا۔ عصر کے بعد جب میں پھر گیا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے ۔ میں نے عرض کیا کہ خلاف معمول آج حضور کیوں چشم پُر نم ہیں ؟آپ نے فرمایا کہ میرے دل میں ایک خیال آیا کہ اے اللہ! اس قدر عظیم الشان کام میرے سپرد ہے اور صحت کا میری یہ حال ہے کہ اس پر مجھے پُر ہیبت الہام ہوا کہ تیری صحت کاہم نے ٹھیکہ لیا ہوا ہے ؟ فرمایا کہ اس الہام نے میرے وجود کا ذرہ ذرہ ہلادیا ۔ اور میں نہایت گریہ وزاری کے ساتھ سجدہ میں گر گیا ۔ خدا جانے کس قدر عرصہ مجھے سجدہ میں لگا۔ جب میں نے سر اُٹھایا تو خارش بالکل نہ تھی اور مجھے اپنے دونوں ہاتھ حضور نے دکھائے کہ دیکھو کہیں پھنسی ہے ؟ میں نے دیکھا تو ہاتھ بالکل صاف تھے۔ اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کوئی پھنسی بالکل نکلی ہی نہیں ۔
{1118} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جلسہ سالانہ پر بہت سے آدمی جمع تھے۔ جن کے پاس کوئی پارچہ سرمائی نہ تھا۔ ایک شخص نبی بخش نمبردار ساکن بٹالہ نے اندر سے لحاف بچھونے منگانے شروع کئے اور مہمانوں کو دیتا رہا ۔ میں عشاء کے بعد حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ بغلوں میں ہاتھ دئیے ہوئے بیٹھے تھے۔ اور ایک صاحبزادہ جو غالباً حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز تھے پاس لیٹے تھے۔ اور ایک شتری چوغہ انہیں اُڑھا رکھا تھا۔ معلوم ہوا کہ آپ نے بھی اپنا لحاف اور بچھونا طلب کرنے پر مہمانوں کے لئے بھیج دیا ۔ میںنے عرض کی کہ حضور کے پاس کوئی پارچہ نہیں رہااور سردی بہت ہے ۔ فرمانے لگے کہ مہمانوں کو تکلیف نہیں ہونی چاہئے اور ہمارا کیا ہے، رات گزر ہی جائے گی۔ نیچے آکر میں نے نبی بخش نمبردار کو بہت بر ابھلا کہا کہ تم حضرت صاحب کا لحاف بچھونا بھی لے آئے۔ وہ شرمندہ ہوا۔ اور کہنے لگا کہ جس کو دے چکا ہوں اس سے کس طرح واپس لوں ۔ پھر میں مفتی فضل الرحمن صاحب یاکسی اور سے ٹھیک یا دنہیں رہا۔ لحاف بچھونا مانگ کراوپر لے گیا۔ آپ نے فرمایاکسی اور مہمان کو دے دو۔ مجھے تو اکثر نیند بھی نہیں آیا کرتی۔ اور میرے اصرار پر بھی آپ نے نہ لیا۔ اور فرمایا کسی مہمان کو دے دو ۔ پھر میں لے آیا۔
{1119} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ چوہدری رستم علی خاں صاحب مرحوم انسپکٹر ریلوے تھے۔ ایک سو پچاس روپیہ ماہوار تنخواہ پاتے تھے۔ بڑے مخلص اور ہماری جماعت میں قابل ذکر آدمی تھے۔ وہ بیس روپیہ ماہوار اپنے پاس رکھ کر باقی کل تنخواہ حضرت صاحب کو بھیج دیتے تھے۔ ہمیشہ اُن کا یہ قاعدہ تھا ۔ ان کے محض ایک لڑکا تھا۔ وہ بیمار ہوا تو وہ اُسے قادیان لے آئے مع اپنی اہلیہ کے ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے مکان میں قیام پذیر ہوئے۔ حضرت اقدس نے ایک دن فرمایا کہ رات میں نے رویاء دیکھا۔ کہ میرے خدا کو کوئی گالیاں دیتا ہے ۔ مجھے اس کا بڑا صدمہ ہوا۔ جب آپ نے رویاء کا ذکر فرمایا تو اُس سے اگلے روز چوہدری صاحب کا لڑکا فوت ہوگیا۔ کیونکہ ایک ہی لڑکا تھا ۔ اس کی والدہ نے بہت جزع فزع کی اور اس حالت میں اس کے منہ سے نکلا۔ ارے ظالم! تو نے مجھ پر بڑا ظلم کیا۔ ایسے الفاظ وہ کہتی رہی۔ جو حضرت صاحب نے سن لئے۔ اُسی وقت آپ باہر تشریف لائے اور آپ کو بڑا رنج معلوم ہوتا تھا۔ اور بڑے جوش سے آپ نے فرمایا۔ کہ اسی وقت وہ مردود عورت میرے گھر سے نکل جائے۔ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کی والدہ جو بڑی دانشمند اور فہمیدہ تھیں۔ انہوںنے چوہدری صاحب کی بیوی کو سمجھایا اور کہا کہ حضرت صاحب سخت ناراض ہیں ۔ اُس نے توبہ کی اور معافی مانگی اور کہا کہ اب میں رونے کی بھی نہیں۔ میر صاحب کی والدہ نے حضرت صاحب سے آکر ذکر کیا۔ کہ اب معافی دیں ۔ وہ توبہ کرتی ہے ۔ اور اُس نے رونا بھی بند کردیا ہے ۔حضرت صاحب نے فرمایا کہ اچھا اُسے رہنے دو اور تجہیز وتکفین کا انتظام کرو۔
{1120} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ صاحبزادہ مبارک احمد صاحب کا جب انتقال ہوا ہے تو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام باہر تشریف لائے ۔ میںموجو دتھا۔ فرمایا کہ لڑکے کی حالت نازک تھی۔ اس کی والدہ نے مجھ سے کہا کہ آپ ذرا اس کے پاس بیٹھ جائیں۔ میں نے نماز نہیں پڑھی۔ میں نما زپڑھ لوں ۔ فرمایا کہ وہ نماز میںمشغول تھیں کہ لڑکے کا انتقال ہوگیا۔ میں ان خیالات میں پڑ گیا کہ جب اس کی والدہ لڑکے کے فوت ہونے کی خبر سنے گی تو بڑا صدمہ ہوگا۔ چنانچہ انہوںنے سلام پھیرتے ہی مجھ سے پوچھا کہ لڑکے کاکیاحال ہے ؟ میں نے کہا کہ لڑکا تو فوت ہوگیا۔ انہوںنے بڑے انشراح صدر سے کہا کہ الحمدللہ! میں تیری رضا پر راضی ہوں۔ ان کے ایسا کہنے پر میرا غم خوشی سے بدل گیا اور میں نے کہا اللہ تعالیٰ تیری اولاد پر بڑے بڑے فضل کرے گا۔ باہر جب آپ تشریف لائے ہیں تو اس وقت آپ کا چہرہ بشاش تھا۔ کئی دفعہ میںنے حضرت صاحب کودیکھا ہے کہ کسی کی بیماری کی حالت میں بہت گھبراتے تھے اور مریض کوگھڑی گھڑی دیکھتے اور دوائیں بدلتے رہتے تھے۔ مگر جب مریض فوت ہوجاتا تو پھر گویاحضور کو خبر بھی نہیں ہوتی تھی۔ چنانچہ میاں مبارک احمد صاحب کی بیماری میں بھی بہت گھبراہٹ حضور کو تھی اور گھڑی گھڑی باہر آتے تھے۔ پھر دوا دیتے۔ لیکن اس کی وفات پر حضرت ام المومنین کے حد درجہ صبر کا ذکر کر کے حضور بڑی دیر تک تقریر فرماتے رہے۔ فرمایا کہ جب قرآن شریف میں اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْن کہ جب صابر وں کے ساتھ اللہ کی معیت ہے تو اس سے زیادہ اور کیا چاہئے ۔ لڑکے کا فوت ہونا اور حضور کا تقریر کرنا ایک عجیب رنگ تھا۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{1121} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ محکمہ ریلوے سروس میں ریکارڈ کلرک رہنے کے بعد چونکہ اس پوسٹ میں آیندہ ترقی کی کوئی امید نہ تھی۔ اس لئے میرے والد صاحب نے میرا تبادلہ صیغہ پولیس میں کروادیا۔ اور سب انسپکٹری بٹھنڈہ پر میری ماموری ہوگئی ۔ لیکن یہ تبادلہ میری خلاف مرضی ہو اتھا۔ ورنہ میں صیغہ پولیس کو اپنی طبیعت کے خلاف محسوس کرتا تھا۔ ماموری کے بعد بڑے تأمل سے اپنے والد صاحب کے اس وعدہ کرنے پر کہ عنقریب تبادلہ ہو جائے گا۔ بادِلِ ناخواستہ حاضر ہوا۔ اور میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں پے درپے تبادلہ کے لئے لکھتا رہا۔ کافی عرصہ کے بعد جب تبادلہ سے ناامیدی سی ہوگئی تو میں نے ارادہ کیا کہ خواہ کچھ ہو۔ اپنے والد صاحب سے اجازت لئے بغیر استعفیٰ پیش کردوں گا۔ خدا رازق ہے کوئی اور سبیل معاش پیدا کردے گا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی طر ف سے مولوی عبد الکریم صاحب کے ہاتھ کاخط لکھا ہوا موصول ہوا ۔ اس میں تحریر تھا کہ حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ خط میں جو تکالیف آپ نے اپنی ملازمت میں لکھی ہیں۔ اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ مخلوق خدا آپ کے طرز عمل سے بہت آسائش اور اطمینان کی حالت میں ہے ۔ اور آپ کو خدا نے خدمت خلق کا بہترین موقعہ عطا فرمایا ہے جس کو باسلوب انجام دیتے ہوئے خدا کا شکر بجالاؤ۔ رہا تکالیف کا معاملہ سو کوئی نیکی نہیں جو بلا تکلیف حاصل ہوسکے۔ دعائیں کرتے رہو۔ خدا اس سے کوئی بہتر صورت پید اکر دے گا۔ اور جب تک کوئی دوسری صورت پیدا نہ ہو۔ استعفیٰ کا خیال تک دل میں نہ لاؤ۔ کیونکہ دنیا دارالابتلاء ہے اور انسان یہاں بطور امتحان بھیجا گیا ہے ۔ جو شخص ملازمت کو چھوڑتا اور اس کے بعد کسی دوسری سبیل کی تلاش میںہوتا ہے ۔ اکثر اوقات ابتلاء میںپڑجاتا ہے ۔ کیونکہ وہ اپنی آزمائش میں پورا اُترنے کی بجائے خدا کو آزمانا چاہتا ہے کہ ہم نے ملازمت چھوڑی ہے ۔ دیکھیں اس کے بعد اب خدا اس سے بہتر صورت ہمارے واسطے کیا کرتا ہے ۔ یہ طریق گستاخانہ ہے ۔ اس لئے بنے ہوئے روزگار کو اس سے قبل چھوڑنا کہ جب خدا اس کے لئے کوئی اُس سے بہتر سامان مہیا فرمائے ۔ ہمارے مسلک کے خلاف ہے ۔ اس جواب کے موصول ہونے پر خاکسار نے وہ ارادہ ترک کردیا۔ اور صیغہ پولیس ہی سے پنشن یاب ہوا۔

{1122} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرے گھر میں بوجہ کمزوری قویٰ وغیرہ دیرینہ مرض اٹھرا تھا۔ تقریباً دس بچے صغیر سنی ، شیر خوارگی میں ضائع ہوگئے ہوں گے۔ ہمیشہ حضرت مولوی (نورالدین) صاحب کا معالجہ جاری رہتا مگر کامیابی کی صورت نہ پیدا ہوئی۔مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ حالات سن کر مولوی صاحب نے ازراہ شفقت نکاح ثانی کا اشارہ بھی کیا۔ لیکن میں اپنی مالی حالت اور دیگر مصالح کی بناء پر اس کی جرأ ت نہ کرسکا۔ آخر مولوی صاحب نے معالجہ تجویز کرتے ہوئے فرمایا کہ اس دفعہ ان ادویات کا استعمال صورت حمل کے شروع دو ماہ سے کر کے ساری مدت حمل میںکراتے رہو۔ چنانچہ اس کے مطابق عمل شروع کردیا گیا۔ جب چھ سات ماہ کا عرصہ گزر گیا اور میری اہلیہ کو مرض بخار اور اسہال وغیرہ نے آگھیرا جو خرابی جگر وغیرہ کا نتیجہ تھا۔ خاکسار نے حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں مفصل حال عرض کیا۔ مولوی صاحب نے حالات سن کر بڑی تشویش کا اظہار کیا اور فرمایا ایسی صورت میں نہ صرف بچہ کی طرف سے اندیشہ ہے بلکہ ایسی کمزوری اور دیرینہ مرض میں مولود کی ماں کے لئے بھی سخت خطرہ ہے ۔ اورخاکسار سے فرمایا کہ نسخہ تو ہم تجویز کریںگے لیکن میری رائے میں ایسے موقعہ پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے خاص موقعہ لے کر دعا بھی کرائی جائے۔ اس پر میں نے عرض کیاکہ خاص وقت ملنا بھی تو مشکل ہے ۔ مولوی صاحب نے فرمایا کہ اس کے حصول کی تجویز یہ ہے کہ آپ ایک رقعہ اس مضمون کا لکھ کر دیں کہ میں ایک بات عرض کرنے لئے چند منٹ خلوت چاہتا ہوں ۔ حضرت صاحب کے پاس اندر بھیجو۔ حضرت صاحب اندر بلالیں گے۔ اُس وقت یہ استدعا اور ضرورت خاص عرض کردینا تو حضرت فوراً دعا فرمائیںگے۔ چنانچہ خاکسار نے اس مضمون کا رقعہ لکھ کر پیراں دتا جو کہ حضرت صاحب کا خادم تھا، کے ہاتھ بھجوا دیا کہ وہ حضور کے پیش کردے۔ اُس نے تھوڑی دیر کے بعد واپس آکر بتلایا کہ حضرت اقدس نے رقعہ پڑھ کر فرمایا کہ ہم کوئی ضروری مضمون تحریر کر رہے ہیں۔ درمیان میں مضمون کا چھوڑنامناسب نہیں ۔ اس لئے فرصت نہیں پھر فرصت کے وقت دیکھا جائے گا۔ خاکسار نے مولوی صاحب سے اس کا ذکر کیا تو مولوی صاحب نے فرمایا کہ اب تو وقت نہیں ملے گا۔ کیونکہ کل پٹیالہ کو واپس جانا چاہتے ہو۔ پٹیالہ جاکر مفصل خط حضرت صاحب کے نام لکھ دینا۔ حضرت صاحب خطوط پر دعا فرمادیتے ہیں اور جواب بھی دیتے ہیں ۔ اس لئے ایک ہی بات ہے ۔ اگلے دن صبح خاکسار کا روانگی کا ارادہ تھا۔ صبح کی نماز سے فارغ ہو کر حضرت صاحب مسجد مبار ک کی چھت پر تشریف فرماتھے اور خاکسار اس انتظار میں تھا کہ موقعہ ملے تو حضرت صاحب سے رخصتی مصافحہ کیا جائے ۔ کہ حضرت صاحب کی نظر مبارک مجھ پر پڑی تو میرے کچھ عرض کرنے کے بغیر حضور نے فرمایا! کل آپ کا رقعہ پیراں دتا لایا تھا ہم اس وقت ایک خاص مضمون کی تحریر میں مصروف تھے۔ اس لئے وقت نہیں مل سکا۔ وہ کیا کام تھا۔ خاکسار نے عرض کیا کہ کچھ ایسی ضروری بات نہ تھی اگر ضرورت ہوئی تو میں پٹیالہ سے بذریعہ خط عرض کردوں گا۔ حضرت صاحب نے فرمایا اگر کوئی خاص بات ہے تو اب بھی کہی جاسکتی ہے کیونکہ اس وقت اپنے ہی احبا ب بیٹھے ہیں میں بوجہ حجاب سا محسوس ہونے کے خاموش رہا کہ حضرت مولوی صاحب نے بوجہ اس حال کے واقفیت کے فرمایا وہ رقعہ میرے مشورہ سے ہی تحریر میں آیا تھا۔ مرض کے مفصل حالات بیان کر کے فرمایا کہ چونکہ خطرہ ڈبل ہے اس لئے میں نے ہی ان کو یہ دعا کرانے کا مشورہ دیا تھا۔حضور نے یہ سن کر ہنستے ہوئے فرمایا کہ اگر یہی کام ہے تو دعا کے لئے ایسا اچھا وقت اور کون سا ہوگا اور اسی وقت مجمع سمیت دعا فرمائی۔ دعا سے فارغ ہوکر میری طرف مخاطب ہوکر فرمایا کہ بس اتنی ہی بات تھی یا کچھ اور بھی۔ میںنے عرض کیا کہ بس حضور دعا ہی کے لئے عرض کرناتھا۔اُسی حالت مرض وکمزوری میں بچہ پید اہوا۔ جس کا کمزور ہونا ضرور ی تھا۔ بذریعہ خطوط حضرت مولوی صاحب کے مشورہ سے معالجہ وغیرہ ہوتا رہا۔ رفتہ رفتہ ہر دو (یعنی زچہ وبچہ)کو افاقہ اور صحت حاصل ہوئی۔ میری اولاد میں صرف وہی بچہ زندہ سلامت ہے ۔ بشیر احمد نام ہے ۔ اور ایم اے علیگ ایل ایل بی ہے ۔ دوبچوں کا باپ ہے (جن کے نام سلیم احمد اور جمیل احمد ہیں) دفتر ریونیومنسٹر صاحب پٹیالہ میں آفس سپرنٹنڈنٹ ہے ۔ اس کی تعلیم بھی بالکل مخالف حالات ماحول میں محض خدا کے فضل سے ہوتی رہی ۔ میرا ایمان ہے کہ یہ سب حضرت اقدس کی اس خاص دعااور اس کی استجابت کا ظہور ہے اورظہور بھی ایک خاص معجزانہ رنگ میں ۔
{1123} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ منشی علی گوہر صاحب کپور تھلہ میں ڈاک خانہ میں ملاز م تھے۔ اڑھائی روپیہ ان کی پنشن ہوئی ۔ گزارہ اُن کا بہت تنگ تھا۔ وہ جالندھر اپنے مسکن پر چلے گئے ۔انہوںنے مجھے خط لکھا کہ جب تم قادیان جاؤ تو مجھے ساتھ لے جانا۔ وہ بڑے مخلص احمدی تھے۔ چنانچہ میں جب قادیان جانے لگاتو اُن کو ساتھ لینے کے لئے جالندھر چلا گیا۔ وہ بہت متواضع آدمی تھی۔ میرے لئے انہوں نے پُر تکلف کھانا پکوایا اور مجھے یہ پتہ لگا کہ انہوںنے کوئی برتن وغیرہ بیچ کر دعوت کا سامان کیا ہے ۔ میں نے رات کو خواب میں دیکھا کہ ہم حج کو جاتے ہیں اور جہاز راستے سے اُتر گیا ۔ اگلے دن گاڑی میں سوار ہوکر جب ہم دونوں چلے ہیں تو مانانوالہ سٹیشن پر گاڑی کاپہیہ پٹڑی سے اُتر گیا۔ گاڑی اسی وقت کھڑی ہوگئی۔ دیر بعد پہیہ سڑک پر چڑھایاگیا۔ کئی گھنٹے لگے۔ پھر ہم قادیان پہنچ گئے۔ میں نے منشی علی گوہر صاحب کاٹکٹ خود ہی خریدلیا تھا۔ وہ اپنا کرایہ دینے پر اصرار کرنے لگے۔ میںنے کہایہ آپ حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کردیں ۔ چنانچہ دو روپے انہوںنے حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کر دئیے۔ آٹھ دس دن رہ کرجب ہم واپسی کے لئے اجازت لینے گئے تو حضور نے اجازت فرمائی۔ اورمنشی صاحب کو کہا ذرا آپ ٹھہرئیے۔پھر آپ نے دس یاپندرہ روپیہ منشی صاحب کو لاکر دئیے۔ منشی صاحب رونے لگے اورعرض کی کہ حضور مجھے خدمت کرنی چاہئے یا میں حضور سے لوں ۔ حضرت صاحب نے مجھے ارشاد فرمایا کہ یہ آپ کے دوست ہیں ۔ آپ انہیں سمجھائیں۔ پھر میرے سمجھانے پر کہ ان میں برکت ہے ۔ انہوںنے لے لئے اور ہم چلے آئے حالانکہ حضرت صاحب کو منشی صاحب کی حالت کا بالکل علم نہ تھا۔
{1124} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقعہ پر خرچ نہ رہا۔ ان دنوں جلسہ سالانہ کے لئے چندہ ہوکر نہیں جاتا تھا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اپنے پاس سے ہی صرف فرماتے تھے۔ میر ناصر نواب صاحب مرحوم نے آکر عرض کی کہ رات کومہمانوںکے لئے کوئی سامان نہیں ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ بیوی صاحبہ سے کوئی زیور لے کر جو کفایت کرسکے فروخت کر کے سامان کر لیں۔ چنانچہ زیور فروخت یارہن کر کے میر صاحب روپیہ لے آئے اور مہمانوں کے لئے سامان بہم پہنچا دیا۔ دو دن کے بعد پھر میر صاحب نے رات کے وقت میری موجودگی میں کہا کہ کل کے لئے پھر کچھ نہیں ۔ فرمایا کہ ہم نے برعایت ظاہری اسباب کے انتظام کردیا تھا۔ اب ہمیں ضرورت نہیں۔ جس کے مہمان ہیں وہ خود کرے گا۔ اگلے دن آٹھ یا نو بجے صبح جب چٹھی رسان آیا تو حضور نے میر صاحب کو اور مجھے بلایا۔ چٹھی رساں کے ہاتھ میں دس پندرہ کے قریب منی آرڈر ہوںگے۔ جو مختلف جگہوں سے آئے ہوئے تھے۔ سو سو پچا س پچاس روپیہ کے۔ اور اُن پر لکھا تھا کہ ہم حاضر ی سے معذور ہیں ۔ مہمانوں کے صرف کے لئے یہ روپے بھیجے جاتے ہیں ۔وہ آپ نے وصول فرما کر توکل پرتقریر فرمائی۔ اور بھی چند آدمی تھے۔ جہاں آپ کی نشست تھی۔ وہاں کا یہ ذکر ہے ۔ فرمایا کہ جیسا کہ ایک دنیا دار کو اپنے صندوق میں رکھے ہوئے روپوںپر بھروسہ ہوتا ہے کہ جب چاہو ں گا نکال لوں گا۔ اس سے زیادہ اُن لوگوں کو جو اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ پر یقین ہوتا ہے اور ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب ضرورت ہوتی ہے ۔ فوراً خد اتعالیٰ بھیج دیتا ہے ۔
{1125} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی عادت تھی۔ کہ مہمانوں کے لئے دوستوں سے پوچھ پوچھ کرعمدہ عمدہ کھانے پکواتے تھے کہ کوئی عمدہ کھانا بتاؤ جو دوستوں کے لیے پکوایا جائے ۔ حکیم حسام الدین صاحب سیالکوٹی ، میر حامد شاہ صاحب مرحوم کے والد تھے۔ ضعیف العمر آدمی تھے ۔اُن کو بلالیا ۔ اور فرمایا کہ میر صاحب کوئی عمدہ کھانا بتلائیے۔ جو مہمانوں کے لئے پکوایا جائے ۔ انہوںنے کہا کہ میں شب دیگ بہت عمدہ پکوانی جانتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا بہت اچھا۔ اور ایک مٹھی روپوں کی نکال کر ان کے آگے رکھ دی ۔ انہوں نے بقدر ضرورت روپے اُٹھا لئے اور آخر انہوںنے بہت سے شلجم منگوائے ۔ اور چالیس پچاس کے قریب کھونٹیاں لکڑی کی بنوائیں۔ شلجم چھلو اکر کھونٹیوں سے کوچے لگوانے شروع کئے ۔ اور ان میں مصالحہ اور زعفران وغیرہ ایسی چیزیں بھروائیں۔ پھر وہ دیگ پکوائی۔ جو واقعہ میں بہت لذیذ تھی اور حضرت صاحب نے بھی بہت تعریف فرمائی اور مہمانوں کو کھلائی گئی۔
{1126} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک انسپکٹر جنرل پولیس کا ایک باورچی قادیان میں آیا۔ بوڑھا آدمی تھا اور بیعت میں داخل تھا۔ اس سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا کہ آپ ایک بڑے آدمی کا کھانا پکاتے رہے ہیں کوئی بہت عمدہ چیز دوستوں کے لئے پکائیں۔ انہوںنے کہا پہلے حضور نمونہ ملاحظہ فرمائیں۔ پھر اس نے بکرے کی ران اور گھی منگا کر روسٹ کیا مگر وہ گوشت بالکل نہ گلا ۔ حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کیا۔ میں اور مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم بیٹھے ہوئے تھے ۔ گوشت چاقو سے بمشکل کٹتا تھا۔ بڑی مشکل سے تھوڑا سا ٹکڑا کاٹ کر اس نے حضرت صاحب کو دیا۔ آپ نے منہ میں ڈال لیا۔ اور چبانے کی کوشش فرماتے رہے ۔ وہ چبایا نہ جاسکا۔ مگر اس باورچی کی تعریف فرمائی کہ آپ نے بہت عمدہ پکایا ۔ میں نے کہا کہ یہ نہ تو کاٹا جاتا ہے اور نہ ہی چبایا جاتا ہے ۔ گھی بھی ضائع کردیا۔ فرمانے لگے منشی صاحب! آپ کو علم نہیں۔ انگریز ایسا ہی کھاتے ہیں اور ان کے نقطہ خیال سے بہت اعلیٰ درجہ کا پکاہوا ہے ۔ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم ہنسنے لگے۔ اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ٹھیک نہیں پکایا ۔ فرمانے لگے کہ نہیں نہیں آپ نے نہیں جانتے۔ فرمایا کہ آپ کوئی اور چیز مہمانوں کے لئے تیار کریں۔ باورچی موجود ہیں۔ ان کو آپ بتلاتے جائیں۔ اس نے توشرم کے مارے کوئی چیز تیار کروائی نہیں ۔کوئی اور صاحب تھے جن کانام مجھے یاد نہیں رہا۔ انہوںنے بریانی مہمانوں کے لئے پکوائی اور میں نے بہت محظوظ ہو کر کھائی ۔ حضرت صاحب کی خدمت میں بھی پہنچائی گئی۔ آپ نے مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کو اور مجھے بلوایا۔ اور فرمایا کہ دیکھو کیسی عمدہ پکوائی ہے ۔ وہ انگریزی قسم کا کھانا تھا۔ جس سے آپ واقف نہ تھے۔ یہ دیسی قسم کا کھانا کیسا عمدہ ہے ۔ حضرت صاحب نے یہی سمجھا کہ اُسی باورچی نے پکوائی ہے ۔پھر ہم دونوںنے ظاہر نہیں کیا۔ کہ اس نے نہیں پکوائی۔ غرض کوئی ناقص شے بھی آپ کی خدمت میں کوئی پیش کرتا تو آپ کی اس کی تعریف فرماتے۔
{1127} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مسجد اقصیٰ سے ظہر کی نماز پڑھ کرآرہے تھے تو آپ نے میراں بخش سودائی کے متعلق ایک واقعہ بیان کیا کہ وہ گول کمرے کے آگے زمین پر بیٹھا ہوا تھا۔ ایک ہندو مست بڑا موٹا ڈنڈا لئے آیا۔ میراں بخش اس سے کہنے لگا کہ پڑھ کلمہ اور اس کے ہاتھ سے ڈنڈا لے کر مارا کہ پڑھ کلمہ لاالہ الااللہ ۔ اس نے جس طرح میراں بخش نے کہلوایا تھا۔ کلمہ پڑھ دیا۔ تو اس کو میراں بخش نے ایک دونی دے دی۔ فرمایا کہ میں بہت خوش ہوا کہ ایک مسلمان پاگل نے ایک ہند وپاگل کو مسلما ن کر لیا۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں تبلیغی مادہ ضرور ہے ۔
{1128} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جن ایام میںخاکسار کا تبادلہ صیغہ پولیس میں ہوا اور ماموری تھانہ بٹھنڈہ میں ہوئی ۔ علاقہ بٹھنڈہ ریاست پٹیالہ میں جنگل کاعلاقہ ہے اور ضلع فیروز پور اور ریاست فرید کوٹ سے سرحدات ملتی ہیں۔ ان دنوں ان علاقوں میں ڈکیتیوں کا بڑا زور تھا اور اسی قسم کی وارداتوں کی کثرت تھی۔ دن رات اونٹوں پر سفر کرنا پڑتا تھا۔ چونکہ وہ علاقہ تو سخت گرم اور ریگستان ہے اس لئے سفر میں پانی بھی زیادہ پیا جاتا تھا۔ اور بعض اوقات اونٹ کے سفر میں یہ بے احتیاطی بھی ہوجاتی کہ تعجیل کی وجہ سے اگر اونٹ کو بٹھانے میں دیر لگی تو جھٹ اوپر سے ہی چھلانگ دی ۔ اس وقت کی عمر کا تقاضا بھی یہی تھا۔ ہمچوں قسم کی بے احتیاطی سے خاکسار کو مرض ہر نیا لاحق ہوگیا تھا۔ اور شروع میں تو اسے ریحی تکلیف خیال کیا گیا کیونکہ جب سواری سے اُترتے اور لیٹتے تو افاقہ معلوم ہوتا تھا۔ مگر ایک ڈاکٹر صاحب کو دکھانے کا موقعہ ملا ۔ تو انہوں نے کمپلیٹ ہرنیا تجویز اور تشخیص کیا ۔ اور جلد سے جلدآپریشن بطور علاج تجویز کیا ۔ خاکسار نے حضرت مولانا مولوی نور الدین صاحب کی خدمت میں ایک عریضہ بھیج کر استصواب کیا۔مولوی صاحب موصوف نے ایک کارڈ پر یہ جواب تحریر فرمایا کہ اگر مرض ہرنیا تحقیق ہوا ہے تو پھر آپریشن کے سوا اس کا کوئی علاج نہیں۔ لیکن ہماری رائے یہ ہے کہ آپریشن سے پہلے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب سے معائنہ کروالیا جائے ۔ ڈاکٹر صاحب اول تو تم سے واقف ہوں گے اگر تعارفی تحریر کی ضرورت ہو تو یہی ہمارا کارڈ ان کودکھا دیں ۔ چنانچہ حسب رائے حضرت مولوی صاحب میں لاہور میں ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب کے پاس حاضر ہوا۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم نے بڑے اخلاق اور توجہ سے معائنہ فرمایااور مکمل مرض ہرنیا تشخیص کر کے آپریشن کے سوا کوئی اور علاج نہ تجویز فرمایا۔ چونکہ خاکسار اس دوران میں ٹرس پیٹی اس مرض میں احتیاط کے لئے استعمال کرنے لگ گیا تھا ڈاکٹر صاحب نے تاکید فرمائی ۔کہ رات کے سونے کے وقت کے علاوہ ٹرس کا استعمال ہر وقت چلتے پھرتے ضروری ہے ۔ اور آپریشن جلد کرایا جائے ورنہ بعض الجھنیں پڑ جانے پر آپریشن ناکامیاب ہوگا اور یہ چنداں خطر ناک بھی نہیں ہے ۔ گھوڑے کی سواری ، چھلانگ مارنے اور دوڑکر چلنے ، بلندی سے کودنے کی ممانعت فرمائی ۔ اس سے قبل خاکسار کا تبادلہ سب انسپکٹری بٹھنڈہ سے کورٹ انسپکٹری بسی پر ہوچکا تھا۔ اس لئے کوئی فوری اندیشہ نہ تھا۔ خاکسار نے ڈاکٹر صاحب سے فیس وغیرہ مصارف آپریشن دریافت کر کے بعد انتظام آپریشن کا ارادہ کر کے لاہور سے واپس ہوا۔ واپسی کے موقعہ پر قادیان آیا اور حضرت مولوی صاحب سے کل کیفیت اور ڈاکٹر صاحب کے مشورہ کا ذکر کیا۔ جس کو سن کر مولوی صاحب نے فرمایا کہ ہم نے تو پہلے ہی یہ مشورہ دیا تھا۔ کہ آپریشن کرایاجائے۔پھر خاکسار سے دریافت کیا کہ آپریشن کاارادہ ہے ؟ میںنے عرض کی کہ ایک دو ماہ میں موسم بھی آپریشن کے قابل ہوجائے گا۔ اور سامان سفر بھی ہوسکے گا۔ حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ آپریشن سے قبل حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے ذکر کر کے ضرور دُعا کروائی جائے ۔ اب چونکہ آئے ہوئے ہو کیوں نہ حضرت صاحب سے ذکر کر لیا جائے ۔ میں نے عرض کیا کہ اگر موقعہ میسر آیا تو عرض کرنے کی کوشش کروں گا۔ اُسی روز شام کے وقت بعد نماز مغرب حضرت صاحب بالائی حصہ مسجد پر تشریف فرما تھے۔ پانچ دیگر اصحاب بھی حاضرتھے۔ حضرت مولوی صاحب نے میری طرف اشارہ کر کے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ اس کو مرض ہر نیا ہوگیاہے ۔ اطمینان کے لئے میں نے اس کو ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب کے پاس بھیجا تھا ۔ انہوںنے جلد سے جلد آپریشن کیا جانا ضروری تجویز فرمایا ہے ۔ یہ سن کر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب! وہ ہرنیا مرض کیا ہوتا ہے ۔ مولوی صاحب کے اس توضیح فرمانے پر کہ یونانی والے اس مرض کو فتق کہتے ہیں۔ حضور نے میری طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ ہم نے کبھی آپ کو اس مرض کی وجہ سے تکلیف کی حالت میںنہیں دیکھا۔ آپ ہمیشہ تندرست آدمی کی طرح چلتے پھرتے ہیں ۔ حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ آپریشن سے قبل ایک قسم کی پیٹی اس مرض کے لئے خاص طور پر بنی ہوئی ہوتی ہے ۔ اس کو یہ ہر وقت لگائے رہتے ہیں۔ اس سے مرض کو تو کوئی افاقہ نہیں ہوتا۔ البتہ چلنے پھرنے میں سہولت اور ایک طرح کا سہارا رہتا ہے ۔ حضور نے یہ سن کر فرمایا! کہ جب کام چل رہا ہے اور کوئی تکلیف نہیں۔ پھر آپریشن کی کیا حاجت ہے ۔ حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ پیٹی کوئی علاج تو نہیں ایک سہارا ہے ۔ اور بعض حالات ایسے بھی ہوتے ہیں کہ اس پیٹی کے استعمال سے الٹا مرض کو ترقی ہوتی ہے اور پھر کسی خرابی کے رونما ہونے پر آپریشن بھی کامیاب نہیں ہوتا ۔ اور اخیر عمر میں آپریشن کو بغیر اشد ضرورت کے ممنوع بھی قرار دیتے ہیں۔ اس موقعہ پر مرز ایعقوب بیگ صاحب بھی وہاں موجو دہیں اور عمر کے لحاظ سے بھی مناسب وقت ہے ۔ اور ویسے بھی یہ آپریشن زیادہ خطرے والا نہیں ہوتا۔ اس پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا ۔کہ میں تو اندرونی آپریشنوں کے بارہ میں جو خطرے کاپہلو رکھتے ہوں ۔ یہی رائے رکھتا ہوں کہ وہ اشد ضرورت کے وقت کرانے چاہئیں۔ یعنی جب تک بغیر آپریشن کے بھی جان کا خطرہ ہو۔ پھر خاکسار کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا کہ جن امور سے ڈاکٹر لوگ منع کرتے ہیں ان کی پابندی کرو۔ اور خد اپر بھروسہ رکھتے ہوئے جب تک بغیر آپریشن کے کام چلتا ہے چلاتے جاؤ۔ بات یہیں ختم ہوگئی۔ حضرت مولوی صاحب نے مسجد سے آنے پر خاکسار سے فرمایا کہ جب حضرت صاحب نے آپریشن کی مخالفت فرمائی ہے اس لئے اب آپریشن کاارادہ ترک کردو۔ اور جیسا حضرت صاحب نے فرمایاہے ۔ اس پر عمل پیرا ہوجاؤ۔ اس بات کو۴۵سال سے متجاوز عرصہ ہوتا ہے ۔خاکسار کو خطرہ کی کوئی حالت لاحق نہیں ہوئی۔ اور اب تو عمر کی آخری سٹیج ہے ۔ اس وقت بھی جب تک کسی شخص کو خاص طور پر علم نہ ہو۔ کوئی جانتا بھی نہیں کہ مجھے ایسا دیرینہ مرض لاحق ہے ۔ میرا ایمان ہے کہ بعض اوقات ان مقدس اور مبارک زبانوں سے جو الفاظ شفقت اور ہمدردی کا رنگ لئے ہوئے ہوتے ہیں۔ تو وہ بھی ایک دُعائی کیفیت اختیار کر کے مقرون اجابت ہوجاتے ہیں ۔
{1129} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے مرزا نظام دین کے متعلق یہ پیشگوئی کی کہ اُن کے گھرفلاں تاریخ کو کوئی ماتم ہوگا۔ لیکن جب تاریخ آئی اور شام کا وقت قریب ہوگیا او ر کچھ بات ظہور میں نہ آئی تو تمام مخالفین حضرت صاحب کے گھر کے ارد گرد ٹھٹھا اور مخول کے لئے جمع ہوگئے۔ سورج غروب ہونے لگا یا ہوگیا تھا۔ کہ اچانک مرز انظام الدین کے گھر سے چیخوں کی آواز شروع ہوگئی۔ معلوم کرنے پر پتہ لگا۔ کہ الفت بیگم والدہ مرزا ارشد بیگ فوت ہوگئی ہیں۔ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے گھر اس وقت سے ہوں جب کہ ابھی بشیر اول پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔
{1130} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ بعض دفعہ مرزا نظام الدین کی طرف سے کوئی رذیل آدمی اس بات پر مقرر کردیا جاتا تھا کہ وہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو گالیاں دے ۔ چنانچہ بعض دفعہ ایسا آدمی ساری رات گالیاں نکالتا رہتا تھا۔ آخرجب سحری کا وقت ہوتا تو حضرت جی دادی صاحبہ کو کہتے کہ اب اس کو کھانے کو کچھ دو۔ یہ تھک گیا ہوگا۔ اس کا گلا خشک ہوگیا ہوگا۔ میں حضرت جی کو کہتی کہ ایسے کم بخت کو کچھ نہیں دینا چاہئے ۔ تو آپ فرماتے ۔ ہم اگر کوئی بدی کریں گے تو خدا دیکھتا ہے۔ ہماری طرف سے کوئی بات نہیں ہونی چاہئے ۔
{1131} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ دہلی سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ایک خط بھیجا ۔ لفافہ پر محمدخان صاحب ،منشی اروڑا صاحب اور خاکسار تینوں کا نام تھا۔ خط میں یہ لکھا ہوا تھا ۔ کہ یہاں کے لوگ اینٹ پتھر بہت پھینکتے ہیں۔ اور علانیہ گالیاں دیتے ہیں۔ میں بعض دوستوں کو اس ثواب میں شامل کرنا چاہتا ہوں ۔ اس لئے تینوں صاحب فوراً آجائیں۔ ہم تینوں کچہری سے اُٹھ کر چلے گئے۔ گھر بھی نہیں آئے۔ کرتار پور جب پہنچے تو محمد خان اور منشی اروڑا صاحب نے مجھے ٹکٹ لانے کے لئے کہا۔ میرے پاس کچھ نہیں تھا۔ مجھے یہ خیال ہوا کہ اپنے کرایہ کے لئے بھی اُن سے لے لوں انہوںنے اپنے ٹکٹوں کاکرایہ مجھے دے دیا تھا۔ میں نے اُن دونوں کے ٹکٹ لے لئے اور گاڑی آگئی۔ چوہدری رستم علی خان صاحب مرحوم گاڑی میں کھڑے آوازدے رہے تھے کہ ایک ٹکٹ نہ لینا میرے ساتھ سوار ہوجانا۔ میں چوہدری صاحب مرحوم کے ساتھ بیٹھ گیا۔ اور ہم دہلی پہنچ گئے۔ دہلی میں حضرت صاحب نے ایک بڑا دو منزلہ مکان کرایہ پر لیا ہو اتھا۔ اوپر زنانہ تھا اور نیچے مردانہ رہائش تھی۔ واقعہ میں روز صبح وشام لوگ گالی گلوچ کرتے تھے اور ہجوم اینٹ پتھر پھینکتا تھا۔ انسپکٹر پولیس جو احمدی تو نہ تھا ۔ لیکن احمدیوں کی امداد کرتا تھا اورہجوم کو ہٹا دیتا تھا ۔ ایک دن مرزا حیرت آیا۔ میں اس وقت کہیں گیا ہو اتھا۔ اس نے آکر حضرت صاحب کو بلوایا۔ اور کہا کہ میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس ہوں اور مجھے ہدایت ہوئی ہے کہ میں آپ سے دریافت کروں کہ آپ کس غرض کے لئے آئے ہیں اور کس قدر عرصہ ٹھہریں گے اور اگر کوئی فساد ہوا تو اس کاذمہ وار کون ہوگا۔ آپ مجھے اپنا بیان لکھا دیں۔ اسی اثناء میں میں آگیا۔ میں ا س کو جانتا تھا ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بیان لکھا رہے تھے اور میں یہ دیکھ کر زینے سے نیچے اُتر آیا۔ اس نے مجھے دیکھ لیا اور اُتر کر بھاگ گیا۔ میں دراصل پولیس میں اطلاع دینے کے لئے اُتر ا تھا اس کو اُترتے ہوئے دیکھ کر ایک عورت نے جو اوپر تھی اسے برا بھلا کہا۔
{1132} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مولوی بشیر احمد صاحب بھوپالوی دہلی آگئے ۔ جن کو علی جان والوں نے مباحثہ کے لئے بلایا تھا۔ علی جان والے ٹوپیوں کے بڑے سوداگر اور وہابی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آکرانہوںنے عرض کی کہ مولوی صاحب کو بھوپال سے آپ کے ساتھ مباحثہ کرنے کے لئے بلایا ہے ۔ شرائط مناظرہ طے کر لیجئے۔ حضور نے فرمایا کہ کسی شرط کی ضرورت نہیں۔ احقاقِ حق کے لئے یہ بحث ہے ۔ وہ آجائیں اور جو دریافت فرمانا چاہیں دریافت فرمالیں ۔ پھر ایک تاریخ مقرر ہوگئی۔ مجھ کو اور پیر سراج الحق صاحب مرحوم کو حضور نے حکم دیا کہ آپ کچھ کتابیں اپنے واقفوں سے لے آئیں ۔ ہمیں تو ضرورت نہیں مگر انہی کے مسلمات سے ان کو ساکت کیا جاسکتا ہے ۔ ہم دونوں بہت جگہ پھرے لیکن کسی نے کتابیں دینے کا اقرار نہ کیا۔ امام کی گلی میں مولوی محمد حسین صاحب فقیر رہتے تھے ۔ انہوںنے وعدہ کیا کہ جس قدر کتابوں کی ضرورت ہو کل لے جانا ۔ اگلے روز جب ہم گئے تو وہ نہ ملے اور ان کے بیٹوں نے ہمیں گالیاں دینی شروع کر دیں کہ جو ملحدوں کی مدد کرے وہ بھی ملحد ہے ۔ ہم دونوں ان کے پاس سے اُٹھ کر چلے آئے ۔ پیر سراج الحق تو مجھ سے علیحدہ ہوکر کہیں چلے گئے ۔ میں تھوڑی دور کھڑا ہو کر اُن سے سخت کلامی کرنے لگ گیا ۔وہاں آدمی جمع ہوگئے اور مجھ سے پوچھنے لگے کہ کیا بات ہے ۔ میں نے عرض کیا کہ امام اعظم کو یہ بُرا کہتے ہیں۔ وہ کہنے لگے ہمیں معلوم ہے کہ یہ بڑے بے ایمان ہیں ۔یہ چھپے ہوئے وہابی ہیں۔ وہابیوں کی مسجد میںنماز پڑھنے جایا کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ لوگ میرے ساتھ ہو کر ان کے خلاف ہوگئے ۔ پھر میں وہاں سے چلا آیا۔ جب امام صاحب کے مکان کے آگے سے گزرا۔ تو انہوںنے مجھے اشارہ کر کے اپنی بیٹھک میں بلا لیا اور کہنے لگے کہ آپ کسی سے ذکر نہ کریں تو جس قدر کتابیں مطلوب ہیں۔ میں دے سکتا ہوں ۔ میںنے کہا آپ اتنا بڑا احسان فرمائیں تو میں کیوں ذکر کرنے لگا۔ کہنے لگا کہ جب مرزا صاحب مولوی نذیر حسین سے قسم لینے کے لئے جامع مسجد میں بیچ کے دروازے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس وقت میں دیکھتا تھا کہ انوار الٰہی آپ پر نازل ہوتے ہیں اور آپ کی پیشانی سے شان نبوت عیاں تھی مگر میں اپنی عقیدت کو ظاہر نہیں کر سکا۔ خیرمیں یہ کتابیں لے کر چلاآیا۔ اور حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کردیں آپ بہت خوش ہوئے ۔ اس پر دہلی والوںنے کہا تھا (ہولی ہے بھئی ہولی ہے پاس کتابوںکی جھولی ہے) تفسیر مظہری اور صحیح بخاری دستیاب نہ ہوئی تھی۔ اُس زمانے میں مولوی رحیم بخش صاحب فتح پور ی مسجد کے متولی تھے۔ وہ سیدامام علی شاہ رتڑ چھتڑ والوں کے خلیفہ تھے اور ان سے میرے والد صاحب مرحوم کے ،جبکہ والد صاحب گجرات میں بندوبست میں ملازم تھے ، سید امام علی شاہ صاحب سے بہت عمدہ تعلقات قائم ہوگئے تھے۔ رحیم بخش صاحب سے جب میں نے اس تعلق کا اظہار کیا تو وہ بہت خوش ہوئے۔ میں نے اُن سے کتابیں طلب کیں۔ انہوںنے مجھ سے پوچھا کہ آپ ہمارے ہوکر مرزا صاحب کے ساتھ کس طرح ہیں۔ میںنے کہا کہ ان وہابیوں کی شکست ہماری فتح ہے ۔ کہنے لگے یہ بات تو ٹھیک ہے ۔ چنانچہ انہوںنے کتابیں دے دیں۔ وہ بھی لاکر میںنے حضور کو دے دیں۔ صحیح بخاری ابھی تک نہ ملی تھی۔ پھر حبیب الرحمن صاحب مرحوم جو اسی اثناء میں حاجی پور سے دہلی آگئے تھے۔تو وہ اور میں مدرسہ شاہ عبد العزیز میں گئے۔ اور اس مدرسہ کے پاس میرے ماموں حافظ محمد صالح صاحب صدر قانون گودہلی کامکان تھا۔ وہاں جاکر ہم نے بخاری شریف کا آخری حصہ دیکھنے کے لئے مانگا۔ انہوںنے دے دیااور ہم لے آئے ۔مولوی بشیر احمد صاحب مباحثہ کے لئے آگئے۔ ایک بڑا لمبا دالان تھا جس میں ایک کوٹھڑی تھی ۔ اس کوٹھڑی میں مولوی عبد الکریم صاحب اورعبد القدوس غیر احمدی ایڈیٹر صحیفہ قدسی اور ہم لوگ بیٹھے تھے ۔مولوی بشیر احمد آگئے ۔ ظاہراً بڑے خضرصورت تھے اور حضرت صاحب سے بڑے ادب اور تعظیم سے ملے اور معانقہ کیااور بیٹھ گئے ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا کہ یہ کوئی ہار جیت کا معاملہ نہیں ۔ یہیں بیٹھے ہوئے آپ سوال کریں۔ میں جواب دوں ۔ بات طے ہوجائے۔ مگر اس کو یہ حوصلہ نہ ہوا کہ حضور کے سامنے بیٹھ کر سوال وجواب کرسکتا۔ اُس نے اجازت چاہی کہ دالان میں ایک گوشہ میں بیٹھ کر لکھ لے ۔ دالا ن میں بہت سے آدمی مع علی جان والوں کے بیٹھے تھے ۔ حضور نے فرمایا ۔ بہت اچھا۔ سو وہ سوالات جو اپنے گھر سے لکھ کر لایا تھا ایک شخص سے نقل کرانے لگا۔ وہ بھی میرا واقف تھا ۔ مجدد علی خان اس کا نام تھا۔ میںنے ان سے کہا کہ حضرت صاحب خالی بیٹھے ہوئے ہیں ۔ جب آپ سوال لکھ کر لائے ہیں تو دے دیں تاکہ حضور جواب لکھیں۔ وہ کہنے لگے کہ یہ تونوٹ ہیں۔ حالانکہ وہ حرف بحرف نقل کر ا رہے تھے۔ دہلی والوںنے میرے خلاف شور کیا کہ آپ کیوں اس بارہ میں دخل دیتے ہیں ۔ مجھے مولوی عبد الکریم صاحب نے آواز دی کہ آپ یہاں آجائیں ۔ میں چلا گیا۔ لیکن تھوڑی دیر میں اٹھ کر میں مولوی بشیر احمد صاحب کے پاس چلا گیا کہ دیکھوں انہوںنے ختم کیا ہے یا نہیں ۔ میںنے کہا مولوی صاحب پسے ہوئے کو پیسنایہ کوئی دانائی ہے؟ پھر مجھے مولوی عبد الکریم صاحب نے آوازیں دیں کہ تم یہاں آجاؤ۔ میں پھرچلا گیا۔ حضرت صاحب نے فرمایا آپ کیوں جاتے ہیں۔ تیسری دفعہ میں پھر اُٹھ کر چلا گیا۔ پھر حضرت صاحب اوپراُٹھ کر چلے گئے ۔ اور میرے متعلق کہا کہ یہ بہت جوش میںہیں۔ جب وہ لکھ چکیں تو مجھے بھیج دینا۔ پھر جب وہ اپنا مضمون تیار کر چکے تو ہم نے حضرت صاحب کے پاس پہنچادیا۔ آپ نے مجھے فرمایا کہ تم یہیں کھڑے رہو ۔ دو ورقہ جب تیار ہوجائے ۔تو نقل کرنے کے لئے دوستوں کو دے دینا ۔
میں نے دیکھا کہ حضور نے اس مضمون پر صفحہ وار ایک اُچٹتی نظر ڈالی ۔ انگلی پھیرتے رہے اور پھرورق الٹ کر اُس پر بھی انگلی پھیرتے ہوئے نظر ڈال لی ۔ اسے علیحدہ رکھ دیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پڑھا نہیں ۔ محض ایک سرسری نگاہ سے دیکھا ہے اور جواب لکھنا شروع کیا۔ جب دو ورقہ تیار ہوگیا۔ تو میں نیچے نقل کرنے کے لئے دے آیا۔ دو ورقہ کو ایک ایک ورق کر کے ایک مولوی عبد الکریم صاحب نے نقل کرنا شروع کیااور ایک عبد القدوس نے ۔ اس طرح میں اوپر سے جب دو ورقہ تیار ہوتا لے آتا اور یہ نقل کرتے رہتے۔ حضرت صاحب اس قدر جلدی لکھ رہے تھے کہ ایک دو ورقہ نقل کرنے والوں کے ذمہ فاضل رہتا تھا۔ عبد القدوس جو خود بہت زود نویس تھا حیران ہوگیا۔ اور ہاتھ لگا کر سیاہی کو دیکھنے لگا کہ پہلے کا تو لکھا ہوا نہیں۔ میں نے کہا کہ اگر ایسا ہو تو یہ ایک عظیم الشان معجزہ ہے کہ جواب پہلے سے لکھا ہو۔
غرض اس طرح جھٹ پٹ آپ نے جواب لکھ دیا اور ساتھ ہی اس کی نقل بھی ہوتی گئی۔ میںنے مولوی بشیر احمد کو وہ جواب دے دیا کہ آپ اس کا جواب لکھیں۔ اس نے کہا کہ میں حضرت صاحب سے ملنا چاہتا ہوں ۔ ہم نے تو نہیں مگر کسی نے حضرت صاحب کو اطلاع کر دی کہ مولوی بشیر احمد صاحب ملنا چاہتے ہیں ۔ حضور فوراً تشریف لے آئے اور مولوی بشیر احمد صاحب نے کہا کہ اگر آپ اجازت فرمائیں تو میں کل کو جواب لکھ لاؤ ں گا۔ آپ نے خوشی سے اجازت دے دی ۔ حضرت صاحب تو اوپر تشریف لے گئے ۔ مگر ہم ان کے پیچھے پڑ گئے کہ یہ کوئی بحث ہے ۔ اس طرح تو آپ بھوپال میں بھی کر سکتے تھے۔ جب بہت کش مکش اس بارہ میں ہوئی تو دہلی والوں نے کہا کہ جب مرز اصاحب اجازت دے گئے ہیں تو آپ کو روکنے کاکیا حق ہے ۔ ہم تو خود سمجھ گئے ہیں کہ یہ بالمقابل بیٹھ کر بحث نہیں کر سکتے۔ پھر ہم نے مولوی صاحب کوچھوڑ دیا۔ آخری مباحثہ تک مولوی بشیر احمد صاحب کا یہی رویہ رہا۔کبھی انہوں نے سامنے بیٹھ کر نہیں لکھا۔ اجازت لے کر چلے جاتے۔ ایک مولوی نے مولوی بشیر احمد صاحب کو کہا کہ بڑی بات آپ کی بحث میں نونِ ثقیلہ کی تھی مگر مرز اصاحب نے تو نون ثقیلہ کے پل باندھ دئیے۔
بحث ختم ہونے پر چلتے چلتے مولوی بشیر احمد ملنے آئے اور حضرت صاحب سے کہا میرے دل میں آپ کی بڑی عزت ہے ۔ آپ کو جو اس بحث کے لئے تکلیف دی ہے میں معافی چاہتا ہوں ۔ غرض کہ وہ حضرت صاحب کا بڑا ادب کرتے تھے۔
{1133} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ دہلی سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام واپس تشریف لے گئے ۔ میں کتابیں واپس کرنے کے لئے ایک روز ٹھہر گیا۔ جسے کتابیں دینے جاتا وہ گالیاں نکالتا۔ مگر میں ہنس پڑتا۔ اس پر وہ اور کوستے۔ چونکہ ہمیں کامیابی ہوئی تھی اس لئے ان کی گالیوں پر بجائے غصے کے ہنسی آتی تھی اور وہ بھی بے اختیار ۔
{1134} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ دہلی میں جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام تشریف فرما تھے۔تو ایک دن حضور شاہ ولی اللہ صاحب کے مزار پر تشریف لے گئے ۔ فاتحہ پڑھی اور فرمایا کہ یہ اپنے زمانے کے مجدد تھے۔
{1135} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں قادیان سے رخصت ہونے لگا اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اجازت بھی دے دی ۔ پھر فرمایا کہ ٹھہر جائیں ۔ آپ دودھ کا گلاس لے آئے اور فرمایا یہ پی لیں ۔ شیخ رحمت اللہ صاحب بھی آگئے۔ پھر اُن کے لئے حضور دودھ کا گلاس لائے اور پھر نہر تک ہمیں چھوڑنے کے لئے تشریف لائے۔ اور بہت دفعہ حضور نہر تک ہمیں چھوڑنے کے لئے تشریف لاتے تھے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{1136} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ عادت تھی کہ جب کوئی آدمی آپ سے ملنے آتا اور آواز دیتا تو میں یا کوئی اور دوسرا آپ کو اطلاع دیتا کہ کوئی آپ کو ملنا چاہتا ہے۔ تو آپ کی یہ حالت ہوتی کہ آپ فوراً باہر تشریف لے آتے۔
{1137} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ خاکسار نے پٹیالہ میں خواب دیکھا کہ میں قادیان میں ہوں۔ دن کا وقت ہے۔ حضرت مولوی صاحب والے کمرے سے باہر نکلا ہوں کہ میرے دل میں آیا کہ اب کی دفعہ جو پٹیالہ جاؤں تو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے لئے ایک چوغہ تیار کروا کر ارسال کروں۔ جب چوک میں پہنچا تو کسی شخص نے کہاکہ حضرت صاحب مسجد اقصیٰ کی چھت پر تشریف فرماہیں ۔ میری خواہش ہوئی کہ حضرت صاحب سے کیوں نہ دریافت کر لیا جائے کہ حضور کیسا چوغہ پسند فرماتے ہیں تاکہ ویسا ہی تیار کروا کر بھیج دیا جائے ۔ یہ بات دریافت کرنے کے لئے خاکسارمسجد کی چھت پر چڑھ گیا۔ دیکھا حضرت صاحب تشریف فرماہیں۔ اور آپ کے ایک طرف خواجہ کمال الدین صاحب بیٹھے ہیں۔ اور دوسری طرف ایک اور شخص بیٹھا تھا جس کو میںنہیں جانتا تھا۔ خاکسار سامنے جاکر بیٹھ گیا۔ ابھی میں کچھ عرض کرنے نہ پایا تھا کہ حضور نے میری طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ اب کی دفعہ جو تم پٹیالہ جاؤ۔توہمارے لئے ایک چوغہ تیار کروا کر ارسال کرنااور جو چوغہ اس وقت حضور نے پہنا ہوا تھا۔ اس کے گریبان کے نیچے سے دونوں اطراف دونوں ہاتھوں سے پکڑے اور اُن کو ملا کر فرمایا کہ ایسا ہو کہ جو سردی سے محفوظ رکھے۔ خاکسار نے حیرت زدہ ہوکر عرض کی کہ حضورابھی تھوڑا عرصہ ہوا کہ نیچے چوک میں مجھ کو یہی خیال آیا تھا کہ اس دفعہ پٹیالہ جانے پرایک چوغہ حضورکے لئے بنو اکر روانہ کروں اور حضور کے تشریف فرما ہونے کی اطلاع پر اس ارادہ سے حاضر ہو اتھا کہ حضور سے دریافت کروں کہ حضور کیسا چوغہ پسند فرماتے ہیں۔ تعجب ہے کہ ابھی میں عرض بھی کرنے نہ پایا تھا کہ حضور نے خود ہی فرمادیا۔ یہ سن کر حضور نے فرمایاکہ یہ درست ہے ۔ خد اتعالیٰ اپنے فضل سے بعض اوقات اپنے بندوں کی بعض ضروریات دوسرے اشخاص کے قلوب پر القا کرتا ہے ۔ اس کے بعد آنکھ کھل گئی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ میں پٹیالہ میں ہی ہوں ۔ چونکہ سرما کا موسم تھا۔ خاکسار نے اسی خیال سے کہ اس خواب کی جوکوئی اور تعبیر خد اکے علم میں ہو وہ ہو۔ لیکن ظاہری الفاظ کے مطابق مجھے ایک چوغہ تیار کروا کر روانہ کرنا چاہئے ۔ چنانچہ ہفتہ عشرہ کے اندر ایک گرم کشمیر کا چوغہ قطع کرا کر اور اس کے ہر چہار طرف اُسی رنگ کی ریشمی ڈوری کاکام نکلوا کر جسم مبارک کا اندازہ درزی کو بتا کر ایک چوغہ تیار کروا کر بذریعہ پارسل ڈاک حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کو روانہ کردیا۔ اور خط میں مفصل لکھ دیا کہ ایک خواب کی ظاہری تعبیر پورا کرنے کے خیال سے ایسا کیا گیاہے ۔ آپ پارسل پہنچنے پر یہ چوغہ میری طرف سے حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کردیں۔ اس کے جواب میں مولوی صاحب مرحوم نے مجھے تحریر فرمایا کہ پارسل پہنچنے پر فوراً حضرت صاحب کی خدمت میں وہ پارسل خود لے جاکر پیش کیا۔ حضور نے فرمایا اسے کھولو ۔ جب چوغہ نکالا گیا تو حضور نے فوراً کھڑے ہوکر اپنا پہلا چوغہ اُتار کر اس مرسلہ چوغہ کو زیب تن کیا۔ اورمولوی صاحب سے فرمایاکہ خد ا کی کیا شان ہے کہ اپنے بندوں کی بعض ضروریات دوسرے لوگوں کے قلوب پرالقا فرمادیتا ہے ۔ فی الواقعہ ہمارا یہ چوغہ اس قدر میلا ہوگیا تھا کہ جب کپڑے بدلتے تو چوغہ پہننے کو دل نہ چاہتا۔ اور اردہ کرتے کہ جلدکوئی چوغہ نیا تیار کروائیں گے۔ مگر پھر سلسلہ کی ضروریات اور مصروفیات کی وجہ سے سہو ہوجاتا۔ پھر بٹنوں کو دیکھ کرفرمایا۔ کہ مولوی صاحب اس نے یہ کیسی عقل کی بات کی ہے کہ باوجود چوغہ کی طرح لمبا ہونے کے آگے بٹن لگوا دئیے ہیں۔ تاسردی سے بچاؤ ہو۔پرانی قسم کے چوغوں میںمجھے یہ بات نا پسند ہے کہ سب سے اوپر کا کپڑاآگے سے کھلا ہوا ہوتاہے۔ جس سے سردی سے حفاظت نہیں ہوسکتی۔ پھر فرمایا کہ مولوی صاحب تعجب تو یہ ہے کہ بدن پر ایسا درست آیا ہے کہ جیسے کسی نے ناپ لے کر بنوایا ہو۔ مولوی صاحب نے آخر میں خاکسار کو یہ بھی لکھا کہ آپ کاخواب صحیح اور تعبیر بھی ٹھیک ثابت ہوئی۔ کیونکہ جو الفاظ اس بارہ میں حضور نے فرمائے تھے۔ بالکل وہی الفاظ چوغہ پیش کرنے پر فرمائے ۔ خد اتعالیٰ نے آپ کی سعی کو مشکور فرمایا ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ شیخ کرم الٰہی صاحب نے مجھ سے یہ بھی بیان کیا کہ جہاں تک میرا خیال ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا جو فوٹو ولایت روانہ کرنے کے لئے حکیم محمدکاظم فوٹو گرافر انار کلی لاہور کا تیار کردہ ہے جس میں حضور نے بٹن والا چوغہ نما لمبا کوٹ پہنا ہوا ہے وہ وہی ہے ۔
{1138} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو ایک دفعہ الہام ہوا کہ تمہارا اور تمہارے ساتھی کا کچھ نقصان ہوگا۔ تو حضرت صاحب نے حافظ حامد علی صاحب سے فرمایا کہ مجھے اس طرح الہام ہوا ہے دعا کرنا۔ چند دن بعد آپ حافظ حامد علی صاحب کو ہمراہ لے کر پیدل ہی گاؤں کے راستہ سے گورداسپور تشریف لے گئے تو راستہ میں کسی بیری کے نیچے سے حافظ صاحب نے کچھ بیر اُٹھا کر کھانے شروع کر دئیے۔ تو حضرت جی نے فرمایا کہ یہ کس کی بیری ہے ۔ حافظ صاحب نے کہا کہ پتہ نہیں۔ جس پر حضرت جی نے فرمایا کہ پھر بغیر اجازت کے کس طرح کھانا شروع کردیا جس پر حافظ صاحب نے وہ سب بیر پھینک دئیے اور آگے چل دئیے ۔ اس سفر میں حضرت صاحب کا روپوں والا رومال اور حافظ صاحب کی چادر گم ہوگئی۔
{1139} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ لدھیانہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام باہر تشریف لے جارہے تھے ۔ کرنا کھلا ہوا تھا اور بہت مہک رہا تھا ۔ آپ نے فرمایا ! کہ دیکھو کرنا اور کہنا اس میں بڑا فرق ہے ۔ حضور نے فرمایا ۔پنجاب میں کہنا مکڑی کو کہتے ہیں (یعنی کرنا خوشبودار چیز ہے اور کہنا ایک مکروہ چیز ہے )
{1140} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ لدھیانہ کا واقعہ ہے کہ بارش ہوکر تھمی تھی ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام باہر سیر کو جارہے تھے ۔ میاں چراغ جو اس وقت لڑکا تھا اور بہت شوخ تھا۔ چلتے چلتے گر پڑا ۔ میں نے کہا اچھا ہوا۔ یہ بڑا شریر ہے ۔ حضرت صاحب نے چپکے سے فرمایا کہ بڑے بھی گر جاتے ہیں ۔یہ سن کر میرے تو ہوش گم ہوگئے اور بمشکل وہ سیر طے کر کے واپسی پر اُسی وقت اندر گیا جبکہ حضورواپس آکر بیٹھے ہی تھے ۔ میں نے کہاحضور میرا قصور معاف فرمائیں ۔ میرے آنسو جاری تھے ۔ حضور فرمانے لگے کہ آپ کو تو ہم نے نہیں کہا ۔ آپ تو ہمارے ساتھ ہیں ۔
{1141} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرعباس علی صاحب لدھیانوی بہت پرانے معتقد تھے ۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اصطلاح صوفیاء میں معنے دریافت کرتے رہتے تھے۔ اور تصوف کے مسائل پوچھتے تھے۔ اس بارہ میں حضرت صاحب نے کئی مبسوط خطوط انہیں لکھے تھے جو ایک کتاب میں انہوںنے نقل کر رکھے تھے۔ اور بہت سی معلومات ان خطوط میں تھی گویا تصوف کا نچوڑ تھا۔ میر عباس علی صاحب کا قول تھا کہ انہوںنے بے وضو کوئی خط نقل نہیں کیا۔ حضرت صاحب نے براہین احمدیہ کے بہت سے نسخے میر صاحب کو بھیجے تھے اور لکھا تھا کہ یہ کوئی خریدوفروخت کا معاملہ نہیں ۔ آپ اپنے دوستوں کو دے سکتے ہیں ۔ چونکہ میرا ا ُن سے پرا نا تعلق تھا۔ میں اُن سے وہ خطوط والی کتاب دیکھنے کو لے آیا۔ ابھی وہ کتاب میرے پاس ہی تھی کہ میر صاحب مرتد ہوگئے۔ اس کے بعد کتاب مذکور کا انہوں نے مجھ سے مطالبہ کیا۔ میں نے نہ بھیجی ۔ پھر انہوںنے حضرت صاحب سے میری شکایت کی کہ کتاب نہیں دیتا۔ حضرت صاحب نے مجھے لکھا کہ آپ ان کی کتاب ان کو واپس کر دیں ۔ میں خاموش ہوگیا۔ پھر دوبارہ میر صاحب نے شکایت کی۔ اور مجھے دوبارہ حضور نے لکھا۔ اُن دنوں ان کے ارتداد کی وجہ سے الہام ’’ اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَفَرْعُھَا فِی السَّمَآئِ ‘‘ پر مخالفین بہت اعتراض کرتے تھے۔ میں قادیان گیا ۔ مولوی عبد اللہ سنوری صاحب کی موجودگی میں حضور نے مجھے فرمایا کہ آپ اُن کی کتاب کیوں نہیں دیتے۔ مولوی عبد اللہ صاحب مرحوم نے عرض کی کہ حضور کی ضمانت پر تو اُس نے کتاب نہیں دی تھی(بعض دفعہ عبد اللہ سنوری صاحب اور میں حضرت صاحب سے اس طرح بے تکلف باتیں کر لیا کرتے تھے ۔ جس طرح دوست دوست سے کر لیتا ہے اور حضور ہنستے رہتے) اور میں نے عرض کی کہ اتنا ذخیرہ عرفان ومعرفت کا اس کتاب کے اندر ہے، میں کس طرح اسے واپس کردوں ۔ حضور نے فرمایا واپس کرنی چاہئے ۔ آپ جانیں وہ جانیں۔ اس کے بعد میں کپور تھلہ آیا ۔ ایک دن وہ کتاب میں دیکھ رہا تھاتو اس میں ایک خط عبا س علی کے نام حضرت صاحب کا ،عباس علی کے قلم سے نقل کردہ موجود تھا۔ جس میں لکھا تھا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ کسی وقت مرتد ہوجائیں گے ۔ آپ کثرت سے توبہ واستغفار کریں اور مجھ سے ملاقات کریں۔ جب یہ خط میں نے پڑھاتو میں فوراً قادیان چلاگیا۔ اور حضور کے سامنے وہ عبارت نقل کردہ عباس علی پیش کی ۔ فرمایا !یہی سِرّتھا جو آپ کتاب واپس نہیں کرتے تھے۔ پھر وہ کتاب شیخ یعقوب علی صاحب نے مجھ سے لے لی ۔
{1142} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام دہلی میں قیام فرماتھے ۔ اور وہاں کے لوگوں نے تجویزکی کہ مولوی نذیر حسین صاحب حضرت صاحب سے بحث کریں ۔ تو مولوی نذیر حسین نے بحث کرنے سے انکار کردیا۔حضور نے مولوی نذیر حسین صاحب کو خط لکھا تھا۔ کہ میں جامع مسجد میں عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پر دلائل بیان کروںگا۔ آپ اگر قسم کھا کرکہہ دیں کہ یہ صحیح نہیں ہیں تو پھر ایک سال کے اندر اگر آپ پر عذاب نہ آئے تو میں خد اکی طرف سے نہیں۔ اس کا جواب مولوی نذیر حسین نے کوئی نہ دیا ۔ جواب نہ آنے پر حضور نے ایک دوسرا خط لکھا جو محمد خان صاحب اور خاکسار لے کر مولوی نذیر حسین کے پاس گئے ۔ اس میں حضور نے لکھا تھا کہ کل ہم جامع مسجد میں پہنچ جائیں گے۔ اگر تم نہ آئے تو خدا کی *** ہوگی۔ یہ خط جب ہم لے کر گئے تو مولوی نذیر حسین نے ہمیں کہا کہ تم باہر مولوی محمد حسین بٹالوی کے پاس چل کر بیٹھو ۔ خط انہیں دے دو۔ میں آتاہوں۔ مولوی محمد حسین نے وہ خط کھول لیا۔ پھر مولوی نذیر حسین صاحب آگئے۔ اور انہوںنے مولوی محمد حسین سے پوچھا کہ خط میں کیا لکھا ہے ۔ مولوی محمد حسین نے کہا میں سنا نہیں سکتا۔ آپ کو بہت گالیاں دی ہیں۔ اس وقت ایک دہلی کا رئیس وہاں بیٹھا تھا ۔ اور اس نے بھی مولوی محمد حسین کے پاس بیٹھے وہ خط پڑھ لیا تھا۔ اس نے کہا ۔ خط میں تو کوئی گالی نہیں ۔ مولوی نذیر حسین نے اسے کہا۔ تو بھی مرزائی ہوگیا ہے ۔ وہ پھرچپ ہوگیا۔ پھر ہم نے مولوی نذیر حسین سے کہا۔ آپ نے جو کچھ جواب دینا ہو دے دیں۔ مولوی محمد حسین نے کہا ہم کوئی جواب نہیں دیتے۔ تم چلے جائو۔ تم ایلچی ہو۔ خط تم نے پہنچادیا ہے ۔ ہم نے کہا ہم جواب لے کر جائیں گے۔ پھر لوگوں نے کہا۔ جانے دو۔ غرض انہوںنے جواب نہیں دیا۔ اور ہم نے سارا واقعہ حضرت صاحب کے پاس آکر عرض کردیا۔ اگلے دن ہم سب جامع مسجد میں چلے گئے۔ ہم بارہ آدمی حضرت صاحب کے ساتھ تھے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے ۔ محمد خان صاحب ، شیخ رحمت اللہ صاحب ، منشی اروڑا صاحب ، حافظ حامد علی صاحب ، مولوی عبد الکریم صاحب ۔ محمد سعید صاحب جو میر ناصر نواب صاحب کے بھانجے تھے اور خاکسار ۔ باقیوں کے نام یاد نہیں رہے ۔ جامع مسجد کے بیچ کے دروازہ میں ہم جاکر بیٹھ گئے۔ حضرت صاحب بھی بیٹھ گئے۔ یہ یاد پڑتا ہے کہ سید امیرعلی اور سید فضیلت علی سیالکوٹی بھی تھے۔ دروازے کے دائیں طرف یعنی دریچے کی طرف ہم تھے۔ اور فرش کے ایک طرف مولوی نذیر حسین اور مولوی محمد حسین آٹھ سات آدمی تھے۔ تمام صحن مسجد کا لوگوں سے پُر تھا۔ ہزاروں آدمی تھے۔ انگریز کپتان پولیس آیا۔ کثرت ہجوم کی وجہ سے وہ گھبرایا ہو اتھا۔ اس نے حضرت صاحب سے آکر پوچھا کہ آپ کا یہاں آنے کا کیا مقصد ہے ؟ شیخ رحمت اللہ صاحب نے انگریزی میں اس سے ذکر کیا کہ یہ غرض ہے کہ حضرت صاحب دلائل وفات عیسیٰ بیان کریں گے اور نذیر حسین قسم کھا کر کہہ دے کہ یہ صحیح نہیں ۔ وہ پھر نذیر حسین کے پاس گیا۔ اور اُن سے پوچھا کہ تمہیں ایسی قسم منظور ہے ۔ اس نے کہا کہ میں قسم نہیں کھاتا۔ اس نے آکر حضرت صاحب سے بیان کیاکہ وہ آپ کے دلائل سن کر قسم کھانے پر آمادہ نہیں۔اس لئے آ پ چلے جائیں۔ حضرت صاحب چلنے کے لئے کھڑے ہوگئے۔ میں نے حضور کا ہاتھ پکڑ کر عرض کی کہ حضور ذرا ابھی ٹھہر جائیںاور میں نے شیخ رحمت اللہ صاحب سے کہا کہ آپ کپتان پولیس سے کہیں کہ پہلے فریق ثانی جائے پھر ہم جائیں گے۔ پھر اس نے انہیں کہا۔اس پر وہ مصر ہوئے کہ پہلے ہم جائیں۔ غرض اس بارہ میں کچھ قیل قال ہوتی رہی۔ پھر کپتان پولیس نے قرار دیا کہ دونوں ایک ساتھ اُٹھ جائیں اور ایک دروازے سے وہ اور دوسرے سے ہم چلے جائیں۔ غرض اس طرح ہم اُٹھے ۔ ہم بارہ آدمیوںنے حضرت صاحب کے گردحلقہ باندھ لیا۔ اور ہمارے گرد پولیس نے ۔ اس وقت دہلی والوںنے اینٹ پتھر بہت پھینکے ۔ نذیر حسین پر بھی اور ہم پر بھی۔ ہم دریچے کی جانب والے دروازے سے باہر نکلے ۔ تو ہماری گاڑی جس میں ہم آئے تھے دہلی والوں نے کہیں ہٹا دی تھی۔ کپتان پولیس نے ایک شکرم میں ہمیں سوار کرادیا۔ کوچ یکس پر انسپکٹر پولیس ، دونوں پائیدانوں پر دو سب انسپکٹر اور پیچھے سپاہی گاڑی پر تھے۔ گاڑی میں حضرت صاحب ، محمد خان صاحب ، منشی اروڑا صاحب ،خاکسار اور حافظ حامدعلی صاحب تھے۔ پھر بھی گاڑی پراینٹ پتھر برستے رہے ۔ جب ہم چلے تو مولوی عبد الکریم صاحب پیچھے رہ گئے۔ محمد خان صاحب گاڑی سے کود پڑے اور مولوی صاحب کے گرد لوگ جمع ہوگئے تھے جو محمد خان صاحب کو دیکھ کر ہٹ گئے اور محمد خان صاحب مولوی صاحب کو لے آئے ۔
{1143} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ خاکسار دارالامان میں چند روز سے وارد تھا۔ کہ ایک شام کو نما زمغرب کے بعد حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مسجد مبارک کی چھت پر تشریف فرماتھے۔ پانچ سات خدام سامنے حلقہ بنائے بیٹھے تھے۔ حضرت مولوی صاحب عبد الکریم صاحب مرحوم اس چھت کی شرقی سمت ذرا فاصلہ پر کھڑے ٹہل رہے تھے۔ وہاں سے وہ حضرت صاحب کی طرف آئے ۔ ابھی بیٹھے نہ تھے کہ حضرت صاحب سے مخاطب ہوکر اور خاکسار کی طرف اشارہ کر کے فرمایاکہ یہ پٹیالہ والاشیخ جو حضور کے سامنے بیٹھا ہے ۔ ’’ایہہ ساتھوں گھٹ نیچری نہیں رہیاجے‘‘ یعنی یہ ہم سے کم نیچری نہیں رہااور اس نے سرسید کی بہت سی کتابیں دیکھی ہیں۔ یہ حضور کی کشش ہے جو اس کو یہاں کھینچ لائی ورنہ یہ لوگ کسی کے قابو نہیں آنے والے تھے۔ یہ سن کر میں حیران رہ گیا کہ مولوی صاحب کو اس وقت حضور سے ایسا کہنے کی کیا سوجھی۔ حضرت صاحب نے مولوی صاحب کا یہ کلام سن کر معاًخاکسارکی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ اگر آپ نے سید صاحب کی کتابیں دیکھی ہیں تو بتاؤ آپ کو تصانیف میں سے کون سی کتابیں زیادہ پسند اور مرغوب خاطر ہوئیں۔ خاکسار نے تھوڑے تأمل کے بعد عرض کیا کہ اپنی کم علمی اور استطاعت کے باعث خاکسار سید صاحب کی کل تصانیف تو نہیں دیکھ سکا البتہ کوئی کتاب کسی صاحب سے مل گئی تو دیکھ لی یا ان کے چھوٹے چھوٹے رسالے منگا کر بھی دیکھے ہیں۔ اخبار تہذیب الاخلاق جو ایک ماہواری رسالہ کی صورت میں علی گڑھ سے شائع ہوتا تھا جس میں سید صاحب مرحوم اور مولوی چراغ علی حیدر آباد ی مرحوم اور نواب مہدی علی خان صاحب مرحوم کے مضامین ہوتے تھے۔ اس کا کئی سال خاکسار خریدار بھی رہا ہے اور اس کی پچھلی جلدوں کے فائل منگوا کر بھی دیکھے ہیں۔ سید صاحب کی تصانیف میں خطبات احمدیہ اور تبیین الکلام مجھے زیادہ پسند آئیں ۔ پہلی کتاب میں سید صاحب نے اپنے قیام لندن کے وقت قرآن مجید کی بعض آیات پر جو عیسائیوں نے اعتراض کئے تھے وہاں میوزیم کے پرانے کتبے اور قدیم اسناد سے ان کے جوابات دئیے ہیںجو ایک اہم اسلامی خدمت ہے ۔ ایسا ہی دوسری کتاب میں صفحات کے تین کالم بنا کر ایک میں توریت ۔ دوسرے میں انجیل اور تیسرے میں قرآن مجید کی متحد المضامین آیات درج کی ہیں جس سے اُن کی غرض یہ ثابت کرنا ہے کہ جب وہی مضامین ان کی مسلمہ الہامی کتب میں ہیں تو قرآن مجید کے الہامی ہونے سے اُن کو انکار کا کیا حق حاصل ہے؟ خاکسار کی یہ گفتگو سن کر حضرت صاحب نے فرمایا۔ سید صاحب کی مصنفہ کتب آپ نے کیوں دیکھیں۔ خاکسار نے ذرا تأمل کے بعد عرض کیاکہ ایک پڑھا لکھا گھرانہ ہونے اور اکثر ذی علم اشخاص کی آمد ورفت اور علمی اور اخبار ی تذکروں کے ہمیشہ سنتے رہنے کی وجہ سے طبیعت کی افتاد ہی کچھ ایسی پڑ گئی تھی کہ سکول میں سیروغیرہ میں جو ہم جماعت ، ہم عمر لڑکے ملتے ۔ بعض اوقات ان کے کسی مذہبی عقیدہ پر اعتراض کیا جاتا اور وہ اگر کسی اسلامی عقیدہ پر اعتراض کر دیتے تو ان کو جواب دینے کی کوشش کرتے۔ وہ لوگ چونکہ اپنے بڑوں سے سنے ہوئے فلسفہ یا سائنس کے تحت میں اعتراض کرتے تو بعض اوقات اپنا جواب خود بہت پست اور عقل کے خلاف معلوم ہوتا۔ اگر پرانی قسم کے مولویوں سے اس کے متعلق استفسار کرتے تو وہ جواب دینے کی بجائے ایسے بحث ومباحثہ سے منع کر دیتے۔ یہ بات بس کی نہ تھی ۔ آخر جب سید صاحب کے اشخاص سے اس کا ذکر آتا تو وہ بحوالہ تصانیف سر سید ایسا جواب دیتے جو بظاہر معقول دکھائی دیتا۔ اس وجہ سے سید صاحب کی کتب کو دیکھنے کا شوق پیدا ہونا لازمی امر تھا۔ اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ اچھا یہ بتاؤ کہ ہماری تصانیف بھی کبھی آپ نے دیکھی ہیں ۔ خاکسار نے عرض کیا کہ حضور عربی کتب تو خاکسار نہیں دیکھ سکا البتہ جو کتابیں اردو میں شائع ہوتی ہیں ان کو میں اکثر منگا کر دیکھتا ہوں۔ اس پر حضور نے فرمایا۔ اچھا یہ بتاؤ کہ ہماری تعلیم اور سید صاحب کی تعلیم میں آپ نے کیا فرق اور امتیاز محسوس کیا ۔ حضور کے اس سوال پر ایک تردد سا پیدا ہوا اور دل میں خیال آیا۔ کہ مولوی صاحب نے آج امتحان کا پرچہ ہی دلا دیا۔ اور بعد تأمل کے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھ جیسا محدود العلم اس فرق کو کیا بیان کرسکتا ہے ۔ حضور نے فرمایا کہ ہماری غرض کوئی علمی فرق یا عالمانہ رائے دریافت کرنے کی نہیں بلکہ صرف یہ بات معلوم کرنی چاہتے ہیں کہ ہر دو تصانیف کے مطالعہ سے جو کیفیت آپ کے دل نے محسوس کی اس میں آپ کیا تمیز کرتے ہیں۔ کچھ دیر تأمل کرنے کے بعد خاکسار نے عرض کیا کہ فلسفیانہ اعتراضات کے جوابات جو سید صاحب نے دئیے ہیں ۔ ان کا نتیجہ بطور مثال ایسا ہے جیسے ایک پیاسے کو پانی کی تلاش میں جنگل میں کہیں تھوڑا ساپانی مل جائے جس کے دو چار گھونٹ پی کر صرف اس کی جان کنی کی مصیبت سے بچ جائے اور بس۔ لیکن حضور کے کلام کا یہ عالم ہے کہ جیسے پیاسے کے لئے دودھ کا گلاس جس میں برف اور کیوڑہ پڑا ہوا ہو۔ وہ مل جائے ۔ اور وہ سیر ہو کر مسرور اور شادماں ہوجائے ۔ یہ سن کر حضور نے فرمایا کہ اچھا کوئی مسئلہ بطور مثال بیان کرو ۔ اس کے جواب میں خاکسار کو زیادہ متردد اور پریشان دیکھ کر حضور نے فرمایا کہ جلدی نہیں۔ آپ سوچ کر جواب دیں۔ تھوڑی دیر سکوت کے بعد خاکسار نے عرض کیا کہ مثلاً معراج کا واقعہ ہے جب کوئی اس پر معترض ہوتا اور اس کے خلاف عقل ہونے کا ادعا کرتا تو جواب میں بڑی مشکل پیش آتی تھی کہ اس کو کیا سمجھائیں کہ براق کس اصطبل سے آیا تھا اور پھر وہ اب کہاں ہے اور وہ پرند۔ چرند اور ساتواں آسمان اور عرش معلیٰ کی سیر اور انبیاء سے مکالمات اور عرصہ واپسی اتنا کہ ابھی دروازہ کی زنجیر متحرک تھی۔ اور بستر جسم کی حرارت سے ابھی گرم تھا۔ لیکن سید صاحب کی تصانیف سے معلوم ہوا کہ وہ صرف ایک خواب تھا ۔ خواب میں خواہ کچھ سے کچھ عجائبات بلکہ ناممکنات بھی دیکھ لے تو ازروئے فلسفہ کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا۔ اس لئے معترض سے جان تو چھوٹ جاتی مگر اپنے دل میں معراج کی جو وقعت اور منزلت ہوتی وہ بھی ساتھ ساتھ اُٹھ جاتی بلکہ سائل اور مجیب ایک ہی رنگ میں ہوجاتے تھے۔ لیکن حضور کی تفہیم کے مطابق معراج ایک عالم کشف تھا جس کے مظاہر تعبیر طلب اور اعلیٰ پیشگوئیوںاور اخبار غیب کے حامل ہوتے ہیں۔ جس سے معراج کی توقیر اور قدرومنزلت میں بھی فرق نہیں آنے پاتا اور معترض کوعالم کشف اور روحانی تأثرات سے اپنی لاعلمی کا احساس کرنا پڑتا ہے ۔ ایسا جواب وہی دے سکتا ہے جو خود صاحب حال اور اس سے بہروَر ہو۔ اس پر حضور نے ایک بشاش انداز میں حضرت مولوی صاحب کو مخاطب فرمایاکہ مولوی صاحب یہ سب سوالات میں نے آپ کی خاطر کئے ہیں تاآپ کو معلوم ہوجائے کہ چونکہ ان کو ایک بات کی تلاش اور دل میں اس کے لئے تڑپ تھی اس لئے خدا نے آیت وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوا فِیْنَا لَنَھْدِ یَنَّھُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:۷۰) ‘‘کے مطابق ان کو اپنے مطلوب تک پہنچادیا۔ بڑی مشکل یہی ہے کہ لوگوں میں حق کی تلاش ہی نہیں رہی ۔ اور جب خواہش اور تلاش ہی کسی شخص کے دل میں نہ ہوتو اچھے اور برے کی تمیز کیسے ہو۔
{1144} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ہمارے گاؤں موضع کرالیاں میں تشریف لائے۔ میاں چراغ دین ساکن تھہ غلام نبی نے اپنی بیوی مسماۃ حسّو کو طلاق دے دی ہوئی تھی۔ حضرت جی وہاں صلح کرانے گئے تھے تو وہاں جاکر رات رہے اور دوبارہ نکاح کرادیا۔ اور رات کو دیر تک وعظ بھی کیا۔ اس کے بعد آپ ایک جگہ پیشاب کرنے لگے تو مہر علی ساکن کرالیاں کو کہا کہ مجھے کوئی ڈھیلا دو۔ تو اس نے کسی دیوار سے ایک روڑا توڑ کردے دیا تو آپ نے اس سے پوچھا کہ یہ ڈھیلا کہاں سے لیا۔ تو اس نے کہا کہ فلاں دیوار سے ۔ آپ نے فرمایا جہاں سے لیا ہے وہیں رکھ دو۔ بغیر اجازت دوسرے کی چیز نہیں لینی چاہئے ۔
{1145} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا ایک دفعہ قحط پڑا۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت اُم المومنین سے روپیہ قرض لیا اور گندم خرید کی اور گھر کا خرچ پورا کیا اس کے بعد آپ نے چوہدری رستم علی صاحب سے حافظ حامد علی صاحب کے ذریعہ سے ۵۰۰ روپیہ منگوایااور کچھ گھی کی چاٹیاں منگوائیں۔ روپیہ آنے پر آپ نے حضرت ام المومنین کا قرض ادا کر دیا اور میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ حافظ صاحب تھیلیوں کے تھیلے روپوں کے لایا کرتے تھے ۔ جن کی حفاظت رات کو مجھے کرنی پڑتی تھی۔
{1146} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ حضرت ام المومنین بعض دفعہ حافظ صاحب کے متعلق حضرت جی سے شکایت کرتیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ فلاں سودے میں حافظ صاحب نے کچھ پیسے رکھ لئے ہیں ۔ جس پر ہمیشہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ حافظ صاحب ایسے نہیں ۔ ہاں سودا مہنگا لائے ہوں گے ۔
{1147} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے عید الاضحی کے روز مسجد اقصیٰ میں کھڑے ہوکر فرمایا کہ میں الہاماًچند الفاظ بطور خطبہ عربی میں سنانا چاہتا ہوں ۔ مولوی نور الدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب دونوں صاحب تمام و کمال لکھنے کی کوشش کریں ۔ یہ فرما کر آپ نے خطبہ الہامیہ عربی میں فرمانا شروع کردیا۔ پھر آپ اس قدر جلدی بیان فرمارہے تھے کہ زبان کے ساتھ قلم کا چلنا مشکل ہورہا تھا اور ہم نے اس خطبہ کا خاص اثر یہ دیکھا کہ سب سامعین محویت کے عالم میں تھے اور خطبہ سمجھ میں آرہا تھا۔ ہر ایک اس سے متاثر تھا ۔ مولوی نور الدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب بعض دفعہ الفاظ کے متعلق پوچھ کر لکھتے تھے۔ ایک لفظ خناطیل مجھے یاد ہے کہ اس کے متعلق بھی پوچھا ۔ خطبہ ختم ہونے پر جب حضور مکان پرتشریف لائے تو مجھے اور مولوی عبد اللہ صاحب سنوری اور میر حامد شاہ صاحب ہم تینوں کو بلایااور فرمایا کہ خطبہ کا جو اثر ہوا ہے اور جو کیفیت لوگوں کی ہوئی ہے ۔ اپنے اپنے رنگ میں آپ لکھ کر مجھے دیں۔ مولوی عبد اللہ صاحب اور میر صاحب نے تو مہلت چاہی لیکن خاکسار نے اپنے تاثرات جو کچھ میرے خیال میں تھے اسی وقت لکھ کر پیش کر دئیے۔ میں نے اس میں یہ بھی لکھا کہ مولوی نور الدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب بعض الفاظ دوران خطبہ میں دریافت فرماتے رہے ۔ وغیرہ۔ حضور کو میرا یہ مضمون بہت پسند آیا اس میں لوگوں کی محویت کا عالم اور کیفیت کا ذکرتھاکہ باوجود بعض لوگوں کے عربی نہ جاننے کے وہ سمجھ میں آرہا تھا۔ حق بات یہ ہے کہ اس کا عجیب ہی اثر تھا جو ضبط تحریر میں نہیں آسکتا ۔ دوران خطبہ میں کوئی شخص کھانستا تک نہیں تھا۔ غرض حضرت صاحب کو وہ مضمون پسند آیا اور مولوی عبد الکریم صاحب کو بلا کر خود حضور نے وہ مضمون پڑھ کر سنایااور فرمایا کہ میں چاہتاہوں کہ خطبہ کے ساتھ اس مضمون کو شائع کردو۔ مولوی عبد الکریم صاحب نے فرمایا کہ حضور اس نے تو ہمیں زندہ ہی دفن کردیا ہے ۔ (مولوی عبد الکریم صاحب کی خاکسار سے حد درجہ دوستی اور بے تکلفی تھی) حضرت صاحب نے ہنس کر فرمایا۔اچھا ہم شائع نہیں کریںگے۔ پھر میں کئی روز قادیان میں رہا اور خطبہ الہامیہ کا ذکر اذکار ہوتا رہا۔ مولوی عبد الکریم صاحب عربی زبان سے بہت مذاق رکھتے تھے۔ اس لئے خطبہ کی بعض عبارتوں پر جھومتے اور وجد میں آجاتے تھے اور سناتے رہتے تھے اور اس خطبے کے بعض حصے لکھ کر دوستوں کو بھی بھیجتے رہتے تھے۔
{1148} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک مرتبہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سیالکوٹ میں ایک ماہ تک ٹھہرے رہے ۔ حضور کا وہاں لیکچر تھا ۔ عبدالحمید خاں صاحب ، مولوی عبد القادر صاحب لدھیانوی اور خاکسار لیکچر والے دن پہنچے ۔ تقریر کے ختم ہونے پر میں نے جاکر مصافحہ کیا۔ گاڑی کا وقت قریب تھا۔ اس لئے رخصت چاہی ۔ آپ نے فرمایا۔ اچھا اب آپ کو ایک ماہ کے قریب یہاں ٹھہرے ہوئے ہوگیا ہوگا۔ اچھا اب آپ گھر جائیں۔ جب میں اجازت لے کر نیچے اُترا تو سید حامد شاہ صاحب نے کہا کہ ایک مہینے کی خدمت کا ثواب آپ نے لے لیا۔ گویا حضور کے نزدیک آپ ایک مہینہ سے آئے ہوئے ہیں۔اور میر حامد شاہ صاحب نے یہ بھی ذکرکیا کہ ایک عورت خادمہ حضور کو کھاناکھلاتی رہتی اور اس کے اولاد نہ تھی۔ اس لئے دعا کے لئے عرض کرتی رہی ۔ ایک دفعہ پھر جو اس نے دعا کے لئے دس پندرہ دن بعد عرض کی ۔ تو حضور نے فرمایا تم کہاں رہی تھیں ۔ اس نے کہا میں تو حضور کو دونوں وقت کھانا کھلاتی ہوں ۔فرمانے لگے اچھاتم کھانا کھلانے آیا کرتی ہو۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضور کو ایسا انہماک کبھی کبھی خاص استغراق کے زمانہ میں ہوتا تھا۔ ہمیشہ یہ کیفیت نہ ہوتی تھی۔ گو ویسے حضرت صاحب کی یہ عام عادت تھی کہ آنکھیں اُٹھا اُٹھا کر ادھر ادھر زیادہ نہیں دیکھا کرتے تھے ۔
{1149} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے عہد مبارک میںایک دفعہ قادیان میں زیادہ عرصہ تک نمازیں جمع ہوتی رہیں۔ مولوی محمد احسن صاحب نے مولوی نور الدین صاحب کو خط لکھا کہ بہت دن نمازیں جمع کرتے ہوگئے ہیں۔ لوگ اعتراض کریں گے تو ہم اس کا کیاجواب دیں گے۔ حضرت مولوی صاحب نے جواب دیا کہ اُسی سے پوچھو(یعنی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے) ۔ مولوی انوار حسین صاحب شاہ آبادی اس خط وکتابت میں قاصد تھے۔ اُن سے مجھے اس کا حال معلوم ہوا ۔ تو میںنے حضرت صاحب سے جاکر عرض کر دی ۔ اس وقت تو حضور نے کچھ نہ فرمایا لیکن بعد عصرجب حضور معمولاً مسجد کی چھت پر تشریف فرماتھے تو آپ نے ناراضگی کااظہار فرمایا کہ ایسے اعتراض دل میں کیوں اُٹھتے ہیں ۔ کیا حدیثوں میں نہیں آیا کہ وہ نماز جمع کرے گا۔ ویسے تو نماز جمع کا حکم عام ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے کاموں میں اس قدر منہمک ہوگا کہ اس کو نمازیں جمع کرنی پڑیں گی۔ اس وقت سید محمد احسن صاحب زار زار رو رہے تھے اور توبہ کر رہے تھے۔
{1150} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا۔ کہ میں اکثر دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو کھانا پکا کر کھلاتی تھی ۔ جس دن کوئی اچھا کھانا ہوتا تو آپ اس پر بہت خوش ہوتے۔ اور اُس دن مجھے اس میں سے ضرور کچھ نہ کچھ دے دیتے۔ اور میں وہ کھانا بعض دفعہ خود کھا لیتی اور اکثر دفعہ حافظ حامد علی صاحب کو دے دیتی ۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{1151} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں رحمت اللہ صاحب ولد میاں عبد اللہ صاحب سنوری مرحوم مختارعام سنور ریاست پٹیالہ نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ اس وقت میری عمر قریباً۵۴سال کی ہے ۔ میں گو بہت چھوٹی عمر کا بچہ تھا اور ابھی بولنے نہیں لگاتھا۔ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ہمارے گھر سنور تشریف لائے تھے۔ مجھے اس وقت کا نظارہ صرف اتنا یاد ہے کہ ہمارے گھر میں کوئی شخص آیا تھا۔ لوگوں کا بہت ہجوم تھا اور مجھے گودمیں لیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا میں ہزار ہزار شکر اد اکرتاہوں کہ یہ نعمت مجھے ملی ۔ شاذ کے طور پر جماعت میں کوئی اور بھی ہوگا جس کو حضور علیہ السلام کی گود میں کھیلنے کا فخر حاصل ہو۔
والد صاحب مرحوم نے کئی بار مجھ سے ذکر کیا۔ کہ اپنے مکان میں جس جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیٹھے تھے اس جگہ پر بیٹھ کر دعا کرنے کے لئے احمدیوں کے خطوط آتے رہتے تھے ۔ مگر میںنے کسی کو اجازت نہیں دی کہ کہیں رفتہ رفتہ رسم نہ ہوجائے۔ یا شاید کچھ اور فرمایا تھا مجھے یاد نہیں ۔
پھر جب میں کچھ بڑا ہوگیا اور سکول میں جانا شروع کردیا تو میرے طالب علمی کے زمانہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پھر پٹیالہ تشریف لائے ۔ لوگ زیارت کے لئے جانے شروع ہوئے اور آپس میں باتیں کرتے تھے کہ چلو پٹیالہ میں مرزا صاحب آئے ہوئے ہیں ۔ اُن کو دیکھنا ہے ۔ میں نے بڑے تعجب کے ساتھ اُن کو کہا کہ وہ مرز اکیسا ہے جن کو دیکھنے پٹیالہ جانا ہے ۔ ہمارے محلہ میں بھی تومرزے رہتے ہیں اُن کو تو دیکھنے کوئی نہیں جاتا( ہمارے محلہ میں چند مغل رہتے ہیں جن کو مرز اکہتے ہیں) لیکن تھوڑی دیر بعد مجھے بھی شوق پید اہوا۔ میں بھی پٹیالہ پہنچ گیا۔ جہاں حضور ٹھہرے ہوئے تھے اور آپ کی زیارت کی ۔
پھر جب میں کچھ اور بڑا ہوگیا اور پانچویں چھٹی جماعت میں تعلیم حاصل کرنے لگا تو لوگوں میں عام چرچا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کا ہونے لگا۔ کوئی اعتراض کرتا ہے،کوئی کچھ کہتا ہے اور کوئی کچھ۔ سب کو اپنی اپنی بولیاں بولتے سنا کرتا تھا۔ مجھے اس وقت اتنی بھی خبر نہ تھی کہ حضور کا دعویٰ کیا ہے ۔ اور نہ ہی میں اُن دنوں احمدی ہی ہوا تھا(اُس زمانہ میں ہم حضرت صاحب کے ماننے والوں کو مرزائی کہا کرتے تھے) میری طبیعت بہت ڈگمگاتی رہتی تھی۔ کبھی مخالفین کی باتوں کا دل پر اثر اور کبھی موافقین کی باتوں کا اثر ہوتا تھا۔ غرضیکہ دل ایک طرف قائم نہ رہتا تھا۔ ایک رات کو سوتے سوتے بڑے زور کے ساتھ متواتر دو تین دفعہ یہ آوازآئی۔’’کیا کوئی مرکر بھی زندہ ہوا ہے۔ لامہدی الا عیسٰی یہی ہے۔‘‘ اس آواز کے بند ہونے کے معاً بعد دیکھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام آمنے سامنے دوزانو بیٹھے ہیں۔ اور میرے والد صاحب مرحوم قریب کھڑے ہیں۔تھوڑی دیر کے بعد تینوں آسمان کی طرف پرواز کرنے لگ گئے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اوپر ہیں اور نیچے نیچے والد صاحب ہیں۔ جب آسمان کے قریب پہنچے تو آسمان پھٹ گیا اورتینوں داخل ہوگئے۔ میری آنکھ کھل گئی۔ یہ آواز اور نظارہ بچپن سے ہی میرے دل میں میخ کی طرح گڑا ہوا ہے میں اُسی وقت سے آپ پر ایمان لے آیا کہ یہ نبی ہیں۔ اور اس کا اتنا گہرا اثر خد اکے فضل سے آج تک ہے کہ کبھی ظلی بروزی کی بحث میں نہیں پڑا۔
{1152} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پیر میں نقرس کا درد تھا۔ میں بھی وہیں بیٹھا تھا ۔ فرمانے لگے کہ ایک بزرگ کے پیر میں نقرس کا درد تھا ۔ انہیں الہام ہوا کہ کدو کھاؤ۔ میں نے عرض کیا کہ حضور اس سے معلوم ہوا کہ خد اتعالیٰ سبب کے ذریعہ ہی کام کرتا ہے ۔ فرمایا نہیں۔ بے سبب بھی کرتا ہے ۔
{1153}بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک روز میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ بمقام سرہند مجدد الف ثانی کے عرس میں ایک مولوی وعظ کررہا تھا کہ ایک عیسائی نے کہا کہ دیکھو ہمارا یسوع آسمان پر ہے اور تمہارا پیغمبر زمین میں ۔ تو اس عیسائی کو جواب دیا گیا کہ۔
ع حُباب برسر آب و گہر تہ دریا است
حضور نے مجھ سے یہ قصہ سن کر فرمایا ’’ طفل تسلیاں ہیں ‘‘
{1154} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مولوی نور الدین صاحب نے ایک دفعہ مجھے فرمایا کہ ہم نے ایک باغیچہ لگا یا ہے ۔ آؤ آپ کو دکھاتے ہیں ۔ آپ مجھے اپنے زنانہ مکان میں لے گئے اور وہاں اپنے کتب خانہ میں بٹھا دیا کہ یہ باغیچہ ہے ۔ تمام عربی کتب تھیں ۔ ایک جگہ میں نے دیکھا کہ متکلمین کی کتابیں اوپر نیچے رکھی تھیں۔ سب سے اوپر براہین احمدیہ تھی۔ اس کے نیچے حجتہ اللہ البالغہ شاہ ولی اللہ صاحب اور اس کے نیچے اور کتابیں تھیں۔ میں نے آپ سے دریافت کیا کہ آیا یہ ترتیب اتفاقی ہے یا آپ نے مدارج کے لحاظ سے لگائی ہے ۔ آپ نے فرمایا میں نے اپنے خیال میں درجہ وار لگائی ہے ۔ پھر مجھے الماری کے نیچے مولوی صاحب کے دستخطی کچھ عربی میں لکھے ہوئے کاغذ ملے جو پھٹے ہوئے تھے ، میں وہ نکال کر پڑھنے لگا۔ آپ نے منع فرمایا ۔ میںنے کہا کہ قرآن شریف کی تفسیر معلوم ہوتی ہے ۔ فرمانے لگے۔ کیا پوچھتے ہو۔ میں نے منطق الطیر کی تفسیر کی تھی۔ نہایت ذوق وشوق میں۔ اور میں سمجھتا تھا کہ میں اس مسئلے کو خوب سمجھاہوں ۔ لیکن کل حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے منطق الطیر پر تقریر فرمائی ۔ تو میں بہت شرمندہ ہوا اور میں نے آکر یہ مضمون پھاڑ ڈالا اور اپنے آپ کو کہا کہ تُو کیا جانتا ہے ۔
{1155} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام جالندھر میں قیام پذیر تھے۔ تو میں اوپر کوٹھے پر گیا ۔ حضور تنہائی میں بہت لمبی نما زپڑھتے تھے اور رکوع سجود لمبے کرتے تھے۔ ایک خادمہ غالباً مائی تابی اس کا نام تھا جو بہت بڑھیا تھی ۔ حضور کے برابر مصلیٰ پر کھڑے ہوکر نماز پڑھ کر چلی گئی۔ میں دیر تک بیٹھا رہا۔ جب حضور نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے یہ مسئلہ پوچھا۔ کہ عورت مرد کے ساتھ کھڑی ہوکر نماز پڑھ سکتی ہے یا پیچھے۔ حضور نے فرمایا ۔ اُسے پیچھے کھڑا ہونا چاہئے ۔ میں نے کہا حضور تابی تو ابھی حضور کے برابر نماز پڑھ کر چلی گئی ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ ہمیں تو خبر نہیں ۔وہ کب کھڑی ہوئی اور کب چلی گئی۔
{1156} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ منشی اروڑا صاحب کے پاس کپور تھلہ میں خط آیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پر مقدمہ قتل بن گیا ہے ۔ وہ فوراً روانہ بٹالہ ہوگئے اور ہمیں اطلاع تک نہ کی ۔ میں اور محمد خان صاحب تعجب کرتے رہے کہ منشی صاحب کہاں اور کیوں چلے گئے ہیں۔ ہمیں کچھ گھبراہٹ سی تھی ۔ خیر اگلے دن میں قادیان جانے کے ارادہ سے روانہ ہوگیا۔ بٹالہ جاکر معلوم ہوا کہ حضرت صاحب یہاں تشریف رکھتے ہیں۔ اور مارٹن کلارک والا مقدمہ بن گیا ہے ۔ ابھی میں حضور کی قیام گاہ پر جاکر کھڑا ہی ہوا تھا کہ حضور نے مجھے دیکھا بھی نہ تھا اور نہ میں نے حضور کو دیکھا تھا کہ آپ نے فرمایا۔ منشی ظفر احمد صاحب کو بلا لو ۔میں حاضر ہوگیا ۔ منشی اروڑا صاحب کی عادت تھی کہ حضرت صاحب کے پاس ہمیشہ بیٹھے پیر دابتے رہتے تھے۔ اُس وقت منشی اروڑا صاحب کسی ضرورت کے لئے اُٹھ کر گئے ہوئے تھے۔ آپ نے مجھے فرمایا کہ مقدمہ کے متعلق میں کچھ لکھانا چاہتا ہوں آپ لکھتے جائیں اور اس بات کا خیال رکھنا کہ کوئی لفظ خلاف قانون میری زبان سے نہ نکل جائے۔ گو میں نے سینکڑوں فیصلے ہائی کورٹوں کے پڑھے ہیں۔ لیکن پھر بھی اگر تمہارے خیال میں کوئی ایسا لفظ ہو تو روک دینا۔ غرض آپ لکھاتے رہے اور میں لکھتا رہا اور میں نے عرض کی کہ منشی اروڑا صاحب کو قانون کی زیادہ واقفیت ہے ۔ انہیں بھی بلا لیا جائے ۔ حضور نے فرمایا کہ وہ مخلص آدمی ہیں اگر ان کو رخصت ملتی تو بھلا ممکن تھا کہ وہ نہ آتے۔ میںنے ذکر نہ کیا کہ وہ آئے ہوئے ہیں۔ منشی اروڑا صاحب کو جب علم ہوا تو وہ کہنے لگے کہ تم نے کیوں نہ بتایا کہ وہ تو کل کا آیا ہوا ہے ۔ میں نے کہا ۔ تم ہمیں اطلاع کر کے کیوں نہ آئے تھے۔ اب دیکھ لو۔ ہم حاضر ہیں اور آپ غائب ہیں ۔ غرض ہم اس طرح ہنستے رہتے ۔
{1157} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جماعت علی شاہ صاحب نے منشی فاضل کا امتحان محمد خان صاحب مرحوم کے ساتھ دیا تھا۔ اس تعلق کی وجہ سے وہ کپور تھلہ آگئے ۔ محمد خان صاحب نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا اُن سے ذکر کیا اور کچھ اشعار کا بھی ذکر ہوگیا۔ جماعت علی شاہ صاحب نے کہا کہ نظامی سے بڑھ کر فارسی میں کوئی اور لکھنے والا نہیں ہوا۔ میں نے کہا کہ کوئی شعر نظامی کا نعت میں سناؤ۔ انہوںنے یہ شعر پڑھا
فرستادہ خاص پروردگار
رسانندۂ حجتِ اُستوار
میں نے حضرت صاحب کا یہ شعر انہیں سنایا
صدر بزم آسمان وحجۃ اللہ بر زمیں
ذات خالق را نشان بس بزرگ اُستوار
وہ کہنے لگا کہ کوئی اردو کا شعر بھی آپ کو یاد ہے میںنے اس کو قرآن شریف کی تعریف میں حضور کے اشعار سنائے ۔
اس کے منکر جو بات کہتے ہیں
یونہی اک واہیات کہتے ہیں
بات جب ہو کہ میرے پاس آئیں
میرے منہ پر وہ بات کر جائیں
مجھ سے اس دلستاں کا حال سنیں
مجھ سے وہ صورت و جمال سنیں
آنکھ پھوٹی تو خیر کان سہی
نہ سہی یونہی امتحان سہی
وہ کہنے لگا ۔ اہل زبان اس سے زیادہ اور کیا کہہ سکتے ہیں ۔ جماعت علی شاہ صاحب کے پاس ایک مسمریزم کی کتاب تھی اور وہ کہنے لگے کہ یہ ہمارے کھانے کمانے کا شغل ہے ۔
{1158} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں رحمت اللہ صاحب ولد میاں عبد اللہ صاحب سنوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا ایک دفعہ لاہور میں لیکچر تھا تو اس موقعہ پر مولوی عبدالکریم صاحب نے قرآن مجید کی تلاوت کی تھی۔ اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اس مکان کے بالا خانہ میں تشریف فرما تھے جو مسجد احمدیہ کے سامنے ہے ۔ میں بھی سکول سے رخصت لے کر لاہور پہنچ گیا ۔ لیکچر کے موقعہ پر ایک عجیب نظارہ تھا۔ جگہ بجگہ ملاں لوگ لڑکوں کو ہمراہ لئے شور مچاتے پھرتے تھے اور گلا پھاڑ پھاڑ کر کہتے تھے کہ لیکچر میں کوئی نہ جائے مگر وہاں یہ حالت تھی کہ لوگوں کی کثرت کی وجہ سے جگہ ہی نہ ملتی تھی۔ حضور کے نورانی چہرہ میں ایک عجیب کشش تھی۔ جب حضور تقریر کے لئے کھڑے ہوئے تو بہت شور مچ گیا۔ ہر ایک دوسرے کو منع کرتا ۔ اس پر مولوی عبد الکریم صاحب نے تلاوت شروع کی ۔ جھٹ خاموشی ہوگئی پھر حضور نے تقریر فرمائی جو آخر تک توجہ سے سنی گئی۔ لیکچر سننے کے بعد میں بھی اُس بالا خانہ میں چلا گیا۔ جہاں حضور فرش پر ہی بیٹھے ہوئے تھے یا لیٹے ہوئے تھے ۔ (یہ مجھے یاد نہیں) میں پاؤں دبانے لگ گیا۔ اس وقت ایک شخص نے سوال کیاکہ حضور میں گنڈے تعویذ کرتا ہوں۔ میرے لئے کیا حکم ہے ۔ میرا گذارہ اسی پر ہے مجھے اب یاد نہیں رہا ۔ کہ حضور نے اس کو کیا جواب دیا۔ البتہ ایک مثال حضور علیہ السلام نے جو اس وقت دی تھی وہ مجھے اب تک یاد ہے ۔ حضور نے فرمایا! کہ دیکھو ایک زمیندار اپنی زمین میں خوب ہل چلاتا ہے اور کھاد بھی خوب ڈالتا ہے اور پانی بھی خوب دیتا ہے اور بیج بھی عمدہ ہوتا ہے ۔ یہ سب اس کے اپنے اختیار کی باتیں ہیں۔ بیج کا اگنا، بڑھنا یہ اس کے اپنے اختیار میں نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے خواہ وہ اُگنے ہی نہ دے ۔
{1159} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں رحمت اللہ صاحب ولد میاں عبد اللہ صاحب سنوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ایک دفعہ لدھیانہ میں تشریف لائے ۔ رمضان شریف کامہینہ تھا ۔ یہ اُس وقت کا واقعہ ہے جب حضور دہلی سے تشریف لائے تھے۔ شاید۱۹۰۵ء کا ذکر ہے یاا س سے پہلے کا۔ میں بھی والد صاحب مرحوم کے ساتھ لدھیانہ پہنچ گیا۔ گاڑی کے آنے پر وہ نظارہ بھی عجیب تھا۔ باوجود مولوی ملانوں کے شور مچانے کے کہ کوئی نہ جائے ۔ وہ خود ہی زیارت کے لئے دوڑے بھاگے پھرتے تھے ۔ اسٹیشن کے باہر بڑی مشکل سے حضور علیہ السلام کو بگھی میں سوار کرایا گیا۔ کیونکہ آدمیوں کا ہجوم بہت زیادہ تھا۔ جائے قیام پر حضور علیہ السلام مع خدام ایک کمرہ میں فرش پر ہی تشریف فرما تھے۔ ایک مولوی صاحب نے عرض کی کہ لوگ زیارت کے لئے بہت کثرت سے آرہے ہیں۔ حضور کرسی پر بیٹھ جائیں تو اچھا ہے ۔ حضور نے منظور فرمالیا۔ کرسی لائی گئی۔ اور اس پر آپ بیٹھ گئے ۔ دہلی کے علماء کا ذکر فرماتے رہے۔ جو مجھے یاد نہیں۔ چونکہ رمضان کا مہینہ تھا ۔ ہم سب غوث گڑھ سے ہی روزہ رکھ کر لدھیانہ گئے تھے۔ حضور نے والد صاحب مرحوم سے خود دریافت فرمایا یا کسی اور سے معلوم ہوا(یہ مجھے یاد نہیں) غرض خود کو معلوم ہوگیا کہ یہ سب غوث گڑھ سے آنے والے روزہ دار ہیں۔ حضور نے فرمایا میاں عبداللہ! خداکا حکم جیسا روزہ رکھنے کا ہے ویسا ہی سفر میں نہ رکھنے کا ہے ۔ آپ سب روزے افطار کر دیں ۔ ظہر کے بعد کا یہ ذکر ہے ۔ اگلے روز حضور کا لیکچر ہوا۔ دوران تقریر حضورباربار عصا پر ہاتھ مارتے تھے۔ تقریر کے بعد ایک فقیر نے حضور علیہ السلام کی صداقت کے متعلق ایک خواب بیان کی۔ حضور نے قادیان سے حضرت خلیفۃ المسیح اول کو بلانے کا حکم دیا۔ چنانچہ وہ بھی جلدی ہی لدھیانہ پہنچ گئے ۔حکیم صاحب نے فرمایا۔ ہم تو حکم ملتے ہی چلے آئے ،گھر تک بھی نہیں گئے ۔
{1160} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں رحمت اللہ صاحب ولد میاں عبد اللہ صاحب سنوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرے نکاح کا خطبہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے پڑھا تھا۔ لیکن حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے خود میری اہلیہ کی طرف سے اپنی زبان مبارک سے ایجاب قبول کیا تھا۔ کیونکہ حضور ولی تھے۔ میں اس کو اپنی نہایت ہی خوش قسمتی سمجھتا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ کا شکر یہ اد اکرتا ہوں ۔ نکاح تو حضور نے کئی ایک کے پڑھائے ہوں گے لیکن ا س طرح کا معاملہ شاید ہی کسی اور سے ہوا ہو۔ سب کچھ والد صاحب مرحوم ومغفور پر حضرت اقدس کی خاص شفقت کا نتیجہ تھا۔ اس کا مفصل ذکر حضرت خلیفہ اولؓ کے خطبہ نکاح میں درج ہے جو اخبار بدر میں شائع ہوچکا ہے ۔
{1161} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میری اہلیہ تو میرٹھ گئی ہوئی تھی۔ گھر خالی تھا ۔ تین دن کی تعطیل ہوگئی۔ دیوانی مقدمات کی مسلیں صندوق میں بند کر کے قادیان چلا گیا۔ وہاں پر جب تیسرا دن ہوا تو میںنے حضور کی خدمت میں عرض کی ۔ کہ حضور تعطیلیں ختم ہوگئی ہیں۔ اجازت فرمائیں ۔ آپ نے فرمایا۔ ابھی ٹھہرو۔ تھوڑے دنوں کے بعد منشی اروڑے صاحب کا خط آیا کہ مجسٹریٹ بہت ناراض ہے۔ مسلیں ندارد ہیں تم فوراً چلے آؤ۔ مجھے بہت کچھ تاکید کی تھی۔ میںنے وہ خط حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کردیا ۔ آپ نے فرمایا ۔ لکھ دو ۔ابھی ہمارا آنا نہیں ہوتا۔ میں نے یہی الفاظ لکھ دئیے کہ انہی میں برکت ہے۔ پھر میں ایک مہینہ قادیان رہا۔ اور کپورتھلہ سے جو خط آتا۔ میں بغیر پڑھے پھاڑ دیتا۔ ایک مہینہ کے بعد جب آپ سیر کو تشریف لے جانے لگے تو مجھے فرمانے لگے کہ آپ کو کتنے دن ہوگئے ۔ میںنے کہا حضور ایک ماہ کے قریب ہوگیا ہے ۔ تو آپ اس طرح گننے لگے ۔ ہفتہ ہفتہ آٹھ اور فرمانے لگے ۔ہاں ٹھیک ہے ۔ پھر فرمایا۔ اچھا اب آپ جائیں ۔ میں کپورتھلہ آیااور عملہ والوں نے بتایا کہ مجسٹریٹ بہت ناراض ہے ۔ میں شام کو مجسٹریٹ کے مکان پر گیا کہ وہاں جو کچھ اس نے کہنا ہوگا وہ کہہ لے گا۔ اس نے کہا آپ نے بڑے دن لگائے اور اس کے سوا کوئی بات نہ کہی ۔ میںنے کہا کہ حضرت صاحب نے آنے نہیں دیا۔ وہ کہنے لگا ان کا حکم تو مقدم ہے ۔ تاریخیں ڈالتا رہاہوں ۔ مسلوں کو اچھی طرح دیکھ لینا اور بس ۔ میں ان دنوں ایک سر رشتہ دار کے عوض کام کرتا تھا۔
{1162} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں اور منشی اروڑا صاحب مرحوم قادیان گئے ۔ منشی اروڑا صاحب اس وقت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے سررشتہ دار تھے۔ اور میں اپیل نویس تھا۔ باتوں باتوں میں مَیں نے عرض کی کہ حضور مجھے اپیل نویس ہی رہنے دینا ہے؟ فرمایا کہ اس میں آزادی ہے ۔آپ ایک ایک دو ماہ ٹھہر جاتے ہیں۔ پھر خود بخود ہی فرمایا کہ ایسا ہو کہ منشی اروڑا صاحب کہیں اور چلے جائیں (مطلب یہ کہ کسی اور آسامی پر) اور آپ اُن کی جگہ سر رشتہ دار ہوجائیں ۔ اس سے کچھ مدت بعد جبکہ حضور علیہ السلام کا وصال ہوچکا تھا۔ منشی اروڑا صاحب تو نائب تحصیلدار ہو کر تحصیل بھونگہ میں تعینات ہوگئے اور میں ان کی جگہ سررشتہ دار ہوگیا۔ پھر منشی صاحب مرحوم نائب تحصیلداری سے پنشن پاکر قادیان جا رہے ۔ اور میں سر رشتہ داری سے رجسٹراری ہائی کورٹ تک پہنچا اور اب پنشن پاتاہوں ۔ بہت دفعہ ہم نے دیکھا کہ حضور نے بغیر دعا کے کوئی بات فرمادی ہے اور پھر وہ اُسی طرح وقوع میں آگئی ہے ۔
{1163} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں قادیان میں مسجد مبارک سے ملحق کمرے میں ٹھہرا کرتا تھا ۔ میں ایک دفعہ سحری کھا رہا تھا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام تشریف لے آئے ۔ دیکھ کر فرمایا۔ آپ دال سے روٹی کھاتے ہیں؟اور اسی وقت منتظم کو بلوایااور فرمانے لگے کہ آپ سحری کے وقت دوستوں کو ایسا کھانا دیتے ہیں؟یہاں ہمارے جس قدر احباب ہیں وہ سفر میںنہیں۔ ہر ایک سے معلوم کرو کہ اُن کو کیا کیا کھانے کی عادت ہے اور وہ سحری کو کیا کیا چیز پسند کرتے ہیں۔ ویسا ہی کھانا ان کے لئے تیارکیاجائے۔ پھر منتظم میرے لئے اور کھانا لایا مگر میں کھاناکھا چکا تھا اور اذان بھی ہوگئی تھی ۔ حضور نے فرمایا کھالو۔ اذان جلد دی گئی ہے اس کا خیال نہ کرو۔
{1164} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں رحمت اللہ صاحب ولد میاں عبد اللہ صاحب مرحوم سنوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیاکہ ماموں قادر بخش صاحب مرحوم(والد مکرم مولوی عبد الرحیم صاحب درد) نے والد صاحب مرحوم سے بہت خواہش کی کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو ہمارے گھر لائیں۔ والد صاحب نے جواب دیا کہ حضرت صاحب نے مکان پر جانے سے کئی ایک کو جواب دے دیا ہے۔ ماموں صاحب نے پھر کہا ۔ والد صاحب نے جواب دیا کہ اچھا ہم لے آتے ہیں۔ مگر۔؍۲۵ روپیہ لوں گا۔ ماموں صاحب نے خوشی سے۔؍۲۵ روپے دینے منظور کر لئے۔ والد صاحب مرحوم نے فرمایا کہ اچھا۔ حضور کے بیٹھنے کی جگہ کا انتظام کرو۔ میں جاتا ہوں۔ چنانچہ میں اور والد صاحب ماموں صاحب کے مکان سے اُٹھ کر شہر کی طرف آئے۔ والد صاحب راستے میں ہی بگھی کا انتظام کر کے اس کو ساتھ لے گئے۔ حضور اس وقت اندر تشریف فرما تھے۔ والد صاحب نے ڈیوڑھی کے دروازے پر دستک دی اور حضور باہر تشریف لے آئے اور مسکرا کر فرمانے لگے۔ میاں عبد اللہ کیا ہے ۔ والد صاحب نے عرض کی۔ حضور مکان تک تشریف لے چلیں۔ حضور نے فرمایا اچھا سواری کا انتظام کرو۔ والد صاحب نے عرض کی کہ سواری تیار ہے ۔ چنانچہ حضور بگھی میں بیٹھ گئے۔ اور ہم سب ماموں صاحب کے مکان پر پہنچ گئے ۔ ماموں صاحب نے کچھ پھل پیش کئے ۔ والد صاحب نے ماموں صاحب سے وہ۔؍۲۵ روپیہ لے کر پھلوں میں رکھ دئیے۔ اس وقت کئی مستورات نے بیعت کی۔ دعا کے بعد حضور اپنی قیام گاہ پر واپس تشریف لے گئے۔ اس وقت لوگوں کو معلوم ہوا کہ حضرت صاحب میاں عبد اللہ سنوری کے ساتھ مکان پر گئے تھے۔ اور حضور کے تشریف لے جانے میں تعجب کرتے رہے ۔ کیونکہ تشریف لے جاتے وقت کسی کو بھی خبر نہ تھی۔ زمانہ گذر گیا۔ لیکن جس سادگی کے ساتھ حضور دستک دینے پر تشریف لائے تھے۔ اس کا ایک گہرا اثر اس وقت میرے دل پر ہے ۔
{1165} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں رحمت اللہ صاحب ولدمیاں عبد اللہ صاحب سنوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیاکہ میں ایک دفعہ بہت سخت بیمار ہوگیا۔ ڈاکٹروں اور حکیموں نے جواب دے دیا کہ اب یہ صرف چند دن کا مہمان ہے کسی دوائی کے بدلنے کی ضرورت نہیں۔ والد صاحب مرحوم نے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں ایک عریضہ لکھا کہ اگر خدانخواستہ کوئی ایسی ویسی بات ہوگئی تو مجھے نصیحت فرمائیں کہ میں اس وقت اپنی حالت کیسی رکھوں حضور کے دست مبارک سے لکھا ہوا جواب پہنچ گیا۔ کہ اگر یہ موت نہ ہوئی تو میری دعا قبولیت کو پہنچ گئی۔ کیونکہ دعا کرنے کے بعد یہ خط لکھا ہے ۔ حضور کا یہ خط ابھی سنور پہنچا نہ تھا کہ رات کو مجھے آرام سے نیند آگئی کہ گویامیں بیمار ہی نہ تھا۔ صبح کو والد صاحب نے میری حالت کی بابت دریافت کیا ۔ میں نے کہا کہ میری حالت بہت اچھی ہے ۔ کوئی تکلیف نہیں ۔ والد صاحب مرحوم نے جوش کے ساتھ فرمایا۔ کہ رحمت اللہ گواہ رہنا ۔ آج کا دن یاد رکھنا۔ حضرت صاحب نے تمہارے لئے دعا کر دی ہے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے ۔ ڈاکٹر وحکیم نے قارورہ دیکھ کر کہا کہ یہ کسی مریض کا نہیں بلکہ یہ تو بالکل تندرست آدمی کا قارورہ ہے اور وہ بہت حیران تھے۔ کہ ایک دن میں ایسی حالت کا تغیر کیسے ہوگیا۔ حضور کا جب خط آیا تو ہفتہ کے روز کی تاریخ کا تھا۔ اور مجھے ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب کو کلی طور پر صحت ہوگئی تھی۔ میں حضور کی دعا کی قبولیت کا زندہ نشان ہوں۔ افسوس حضرت اقدس کا یہ خط اور واسکٹ کا ٹکڑا جو میں نے تبرکًا رکھے ہوئے تھے ،گم ہوگئے ہیں ۔
 
Top