محمد اسامہ حفیظ
رکن ختم نبوت فورم
{ 1001} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولوی ذوالفقار علی خاں صاحب رام پوری حال قادیان نے مجھ سے بیان کیاکہ۱۸۸۴ء میں جب کہ میں سکول میں پڑھتا تھا ۔ ایک رات کو تاروں کے ٹوٹنے کا غیر معمولی نظارہ دیکھنے میں آیا، رات کے ایک لمبے حصہ میں تارے ٹوٹتے رہے اور اس کثرت سے ٹوٹے کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ تیروں کی بارش ہورہی ہے ۔ ایک حصہ تاروں کا ٹوٹ کر ایک طرف جاتا اور دوسر ا دوسری طرف۔ اور ایسا نظر آتا کہ گویا فضا میں تاروں کی ایک جنگ جاری ہے ۔ یہ سلسلہ ۱۰بجے شب سے لے کر۴بجے شب تک جاری رہا۔ مَیں نے اس واقعہ کا ذکر ایک مجلس میں غالباً۱۹۱۰ء میں کیا تھا تو ایک بہت شریف اور عابد وزاہد معمر انسان نے کہا کہ مجھے بھی وہ رات یاد ہے ۔ میرے پیرو مرشد حضرت قبلہ علامہ مولوی ارشاد حسین صاحب نور اللہ مرقدہٗ نے یہ عالَم دیکھ کرفرمایا تھا کہ ظہور حضرت امام مہدی علیہ السلام ہوگیا ہے ۔ یہ اسی کی علامت ہے ۔ مولوی ارشاد حسین صاحب زبرست علماء میں سے تھے۔ انصار الحق وغیرہ آپ کی مشہور تصانیف ہے اور یہ مولوی احمد رضا خاں بریلوی کے پیر تھے ۔ لیکن جب میں نے بعد میں اُن مولوی صاحب کے ایک دوست سے جس نے یہ روایت بیان کی تھی یہ کہا کہ شہادت لکھ دو تو اُس نے لکھنے سے انکار کردیا ۔ مگر زبانی مانتا تھا کہ اُن مولوی صاحب نے ایسا کہا تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ستاروں کا گرنا بہت سے نبیوں کے لئے بطور علامت واقع ہوچکا ہے اور حضرت صاحب نے لکھا ہے کہ یہ جو حضور کی بعثت کے وقت غیر معمولی طور پر ستارے گرتے نظر آئے۔ یہ حضور کے لئے بطور علامت تھا اور اس سے مراد یہ تھی کہ اب گویا کواکب یعنی علماء کے گرنے کا وقت آگیا ہے جس کے بعد سورج کا طلوع ہوگا۔
{ 1002} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ قادیان نے مجھ سے بیان کیا کہ جب میں قریباً آٹھ دس سال کی عمر کا تھا۔ (اس وقت میری عمر پچپن سال کی ہے ) ایک دفعہ میرے حقیقی چچا مرحوم حافظ حکیم خد ابخش صاحب احمدی جو اوائل سے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مصدّق تھے اور بیعت میں صرف اس خیال سے دیر کرتے چلے گئے کہ میں بہت ہی گنہگار اور آلودہ دامن ہوں۔ میرا وجو دسلسلہ حقہ کے لئے ایک بدنما داغ ہوگا اور اس کی بدنامی کا باعث ہوگااور آخر حضور کی رحلت کے بعد اوائل۱۹۰۹ء میں انہوں نے تحریری طور پر حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ کسی لمبے سفر سے واپس آئے ۔ جب مجھے معلوم ہواتو میں اُن سے ملنے کے لئے ان کے پاس گیا۔ انہوںنے مجھے ایک کتاب دی ۔ جسے لے کر میں بہت خوش ہوا۔ اس کتاب کے مجھے دینے سے اُن کا مقصد یہ تھا کہ میرے والد صاحب اسے دیکھ لیں ۔ دوسرے روز میں شوق سے وہ کتاب ہاتھ میں لئے مسجد کی طرف قرآن کریم کا سبق پڑھنے کے لئے جارہا تھا ۔ اتفاق سے میرے والد صاحب راستہ میں ہی ایک چھوٹی سی مجلس میں بیٹھے تھے۔ میرے ہاتھ میں وہ کتاب دیکھ کر انہوںنے لے لی اور دیکھنے لگے ۔ کسی نے پوچھا کہ یہ کیا کتاب ہے ۔ میرے والد صاحب نے کہا کہ یہ ایک بزرگ ولی اللہ کی کتاب ہے ۔ جن کی دعائیں بہت قبول ہوتی ہیں اور ساتھ ہی بیان کیا کہ میں ایک دفعہ فساد خون کے عارضہ سے دیر تک بیمار رہاتھا۔ ان ایام میں مجھے ان بزرگ ولی اللہ کے متعلق اطلاع ملی اور یہ بھی کہ ان کی دعائیں بہت قبول ہوتی ہیں ۔ میں اس وقت بغرض علاج لاہور (یا امرتسر اس وقت خاکسار کو صحیح یاد نہیں رہا کہ کس شہر کانام لیا تھا) گیا ہوا تھا ۔ وہیں یہ بات مجھے معلوم ہوئی تھی ۔ جس پر میں نے ان کی خدمت میں (حاضر ہو کر نہیں بلکہ تحریراً یا کسی صاحب کی زبانی جس کی تفصیل اب خاکسار کو یاد نہیں رہی )اپنی صحت یابی کے لئے دعا کے واسطے عرض کیا تھا۔ سو اللہ تعالیٰ نے مجھے صحت بخشی ۔ یہ واقعہ بچپن میں میں نے غالباً متعدد دفعہ اپنے والد صاحب (مولوی محمد بخش صاحب) سے سنا تھا۔ اس کے بعد وہ کتاب میرے والد صاحب نے مجھے واپس دے دی اور وہ مدت تک میری پاس رہی ۔ جب میں بڑ اہوا تو اس کے نام وغیرہ کی شناخت ہوئی۔ یہ کتاب سرمہ چشم آریہ تھی جو ۱۸۸۶ء کی تصنیف ہے ۔
{ 1003} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں حیات محمد صاحب پنشنر ہیڈ کانسٹیبل پولیس نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کرم دین کے مقدمہ میں جہلم تشریف لائے تو سردار ہری سنگھ کی درخواست پر آپ اُن کی کوٹھی میں مقیم ہوئے ۔ کھانا وغیرہ کا انتظام جماعت کے ذمہ تھا۔ کوٹھی نہایت خوبصورت اور سجائی گئی تھی۔ باورچی نے کارکنوں سے حضور کے لئے ایک چوزہ مرغ طلب کیا تو وہ لوگ حیران ہوئے کہ اب کہاں سے ملے گا۔ مجھے علم تھا کہ حضور کچھ عرصہ سے چوزہ مرغ بطور دوائی استعمال فرماتے ہیں اس لئے میں نے چار چوزے اپنے پاس اسی غرض سے رکھے ہوئے تھے ۔ میں فورًا گیااور چاروں لے آیا اور وہ چوزے تین دن تک کام آگئے ۔ چونکہ میں نے تین دن کی رخصت لی ہوئی تھی اس لئے میں دن رات حضور کے پاس رہتا اورحضور کے جسم مبارک کو دباتا تھا۔ میں۹۴ء سے حضور کا عاشق تھا۔ رات بھر حضور کے بدن کو دباتا۔ جب حضور کروٹ بدلتے تو کھانسی کی تکلیف کے وقت منہ مبارک سے معصوم بچوں کی سی آواز نکلتی ’’اللہ‘‘ ۔ حضور فرماتے تھے کہ خشک کھانسی بھی ایک وبا کی طرح ہے ۔ پیشاب کی بار بار حاجت ہوتی۔ حمام میں گرم اور سرد دونوں پانی موجو دتھے۔ آپ لوٹے میں دونوں کو ملا کر استعمال فرماتے۔ میرے دباتے ہوئے جب حضور انور کروٹ لیتے تو فرماتے کہ ’’ آپ بس کیجئے ‘‘۔ مگر مجھے ان الفا ظ کے سننے سے از حد خوشی ہوتی اور میں حضور کو دباتا چلا جاتا تھا۔
{ 1004} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں حیات محمد صاحب پنشنر ہیڈ کانسٹیبل پولیس نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیا ن کیا کہ جس دن عدالت میں مقدمہ کی پیشی تھی۔ صبح نو بجے تک بیعت ختم نہ ہوئی تھی پھر کچہری کے لئے تیاری شروع ہوئی ورنہ لوگ تو بس نہ کرتے تھے۔ رات کو عورتوں کی بیعت کی باری آیا کرتی تھی۔ اُن کے خاوند دروازوں پر کھڑے ہوتے تھے ۔ حضور اقدس کرسی پر اونچی جگہ تشریف رکھے ہوتے ،بلندآواز سے اپنی جگہ پر ہی اللہ اور اس کے رسول کے احکام حسب ضرورت عورتوں کو سناتے تھے اور حضرت صاحب نے میاں بیوی کے حقوق اور تعلقات کو خوب واضح طور پر بیان کیا تھا ۔ حضور عورتوں کی بیعت لیتے وقت ہاتھ یا کپڑا وغیرہ نہ پکڑتے تھے بلکہ آپ اونچی جگہ پر بیٹھ کر اپنی تعلیم سنا دیتے تھے اور پھر لمبی دعا فرما کے اپنے کمرہ میں چلے جاتے تھے ۔ اُن دنوں سخت سردی پڑتی تھی۔ جس دن پیشی تھی اُسی رات مجھ کو خواب آیا اور وہ میں نے حضرت کو سنا دیا تھا کہ دہکتے ہوئے انگاروں سے ایک چولہا بھرا ہو اہے ۔ اُس پر حضور کی آرام کرسی رکھی گئی ہے، اُس پر آپ بیٹھے ہیں ۔ آگ کی بھاپ شعلے مار مار کر تمام بدن سے نکلتی جاتی ہے۔ اسی طرح کپڑوں اور بالوں سے اور ہم لوگ خوش ہورہے ہیں کہ دھواں تو نہیں ہے بلکہ بھاپ ہے۔ بالوں میں سے پانی کے قطرے نیچے گر رہے ہیں ۔ تو میں کہہ رہاہوں کہ سبحان اللہ! ابراہیم علیہ السلام والی پوری مثال ہے ۔ اس موقعہ پر قُلْنَا یَا نَارُ کُوْنِیْ بَرْدًاوَّسَلَامًا عَلٰی اِبْرَاہِیْم (الانبیائ:۷۰) کی مثال صادق آرہی ہے ۔ جب میں نے یہ خواب حضور کو سنائی تو حضور اقدس علیہ السلام نے ہنس کو فرمایا کہ دشمن نے آگ بھڑکائی مگر اللہ نے ٹھنڈی کر دی ہے۔ تمام دشمنوں نے زور لگایا۔ ایک طرف تمام مخالف تھے اور ایک طرف خدا کا مرسل تھا۔ ایک طرف حکومت کے لوگ اور بڑے بڑے رئیس ،مجسٹریٹ اور وکیل اور چھوٹے چھوٹے ملازم تھے۔ یہ سب لوگ کرم دین پر خوش تھے کہ اُس نے دعویٰ کیا ہے مگر خدا نے اُن کو ناکام کردیا ۔
{ 1005} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں حیات محمد صاحب پنشنر ہیڈ کانسٹیبل پولیس نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مقدمہ کی تاریخ سے ایک ماہ قبل میری بیوی کو خواب آئی تھی کہ حضرت سلمان فارسی جن کی قبر ۹گز لمبی دریائے جہلم کے کنارے پر ہے ۔ وہ چوک میں کھڑے ہوکر بآواز بلند یہ کہتے ہیں ۔ سنو لوگو!یہ جو دو فریق آپس میں جھگڑا کر رہے ہیں ۔ ان میں سے ایک سیّد ہے جو مرزا صاحب ہیں اور دوسرا مولوی جو ہے وہ ڈوم ہے ۔ جب حضور کو یہ خواب سنائی گئی۔ تو حضور نے ’’ہیں‘‘ کہہ کر فرمایا کہ ڈوم کیسے ہوتے ہیں۔ اس پر دوستوں نے بتایا کہ ڈوم میراثی ہوتے ہیں ۔ تحصیل دار نواب خان نے بھی کہا کہ حضور میراثی لوگ ڈوم ہوتے ہیں ۔ اسی طرح ایک روز مفتی محمد صادق صاحب نے بھی اپنی خواب سنائی ۔ خواب مجھے یاد نہیں رہی۔ میں اپنی بیوی کے اکثر خواب حضور علیہ السلام کی خدمت میں تحر یر کر کے تعبیر منگواتا رہتا تھا ۔
{ 1006} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں حیات محمدصاحب پنشنر ہیڈ کانسٹیبل پولیس نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ۔ کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام عدالت میں گئے تو بہت ہجوم حضور کے ساتھ اندر چلا گیا۔ آخر کھلے میدان میںحضور کی کرسی سرکاری جمعدار نے رکھی ۔چار پانچ کرم کے فاصلہ پر مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی نے اپنا وعظ شروع کیا تو محمد دین کمپونڈر نے کہا ۔ حضور! مولوی ابراہیم نے یہاں آکر ہی وعظ شروع کردیا ہے۔ اس وقت میں بھی حضور کے پاس تھا تو حضور نے اپنے ہاتھ سے اپنی جیب سے ایک رسالہ ’’مواہب الرحمن‘‘ نکال کر دیا کہ میری یہ کتاب اُسے دے دو۔ ابھی اُس نے وعظ شروع ہی کیا تھا کہ ڈپٹی صاحب نے حکم دیا کہ اس کو یہاں سے نکال دو۔ اگر وعظ کرنا ہے تو شہر میں جاکر کرے ۔سپاہیوں نے اسی وقت اسے کچہری سے باہر نکال دیا۔ جب اُس نے جلدی سے کتاب پر نظر ماری تو صفحہ۲۵پر نظر پڑی ۔ جہاں لکھا تھا ’’کرم دین کذّاب‘‘ فوراً کرم دین کو جاکر دیا کہ دیکھو تم کو یہ لکھا گیا ہے ۔اُس نے اپنے وکیل شیخ محمد دین کو دکھایا ۔ وکیل نے کہا کہ اس کا بھی دعویٰ کردو۔ اُسی وقت مولوی ابراہیم اور کرم دین اور شیخ محمددین وکیل میاں نظام دین سب جج کی کچہری میں چلے گئے اور اُس کو دکھا کر کہا کہ یہ وہ کتاب ہے اور اب موقعہ ہے۔ ہم دعویٰ آپ کی عدالت میں کرتے ہیں۔ اُس جج نے جواب دیا کہ میرے پاس دعویٰ کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا کیونکہ کرم دین بھی سنی مسلمان ہے اور میں بھی سنی مسلمان ہوں ۔ جب جج مذکور نے یہ جواب دیا وہ اپنا سا منہ لے کر واپس آگئے ۔ بندہ اچانک اُسی وقت اس جج کی کچہری میں ان تینوں کے پیچھے کھڑا یہ کارروائی دیکھ رہا تھا ۔ ہاں البتہ اُس نے ان کو یہ کہا کہ یہ دعویٰ بھی اُسی ڈپٹی کمشنر کے پاس کرو جس کے پاس پہلا دعویٰ ہے۔ ڈپٹی نے خوب دونوں دعووں کو اڑایا اور کرم دین کو کہا کہ تم نے خود اپنے لئے یہ ثابت کردیا ہے کہ ضرور میں جھوٹااور کمینہ ہوں ۔ کیونکہ تعزیرات ہند میں یا سرکاری قانون میں تو یہ جرم نہیں ہے کیونکہ مرزا صاحب تو کہتے ہیں کہ خدا نے الہام سے مجھے یہ کہا ہے ۔ قانون سے جرم تب ہوتا اگر یہاں کرم دین کی ولدیت وسکونت کتاب میں درج ہوتی۔ کیادنیا میں اور کوئی کرم دین نہیں ہے صرف تُو ہی کرم دین ہے ؟
{ 1007} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ میاں حیات محمد صاحب پنشنر ہیڈ کانسٹیبل پولیس نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ کرم دین نے ڈپٹی کی عدالت میں یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ مرزا صاحب نے میرے بھائی محمدحسین کے متعلق کہا ہے کہ مرتے وقت اس کا منہ سیاہ ہوگیا ہے اس طرح اس کی ہتک کی ہے ۔ ڈپٹی نے پوچھا کہ کیا تمہارے بھائی محمدحسین کا کوئی لڑکا ہے ۔ اس نے کہا کہ ’’ہے‘‘ پوچھا کہ بالغ ہے یا نابالغ ہے ؟ کرم دین نے جواب دیا کہ بالغ ہے۔ اس پر ڈپٹی صاحب نے کہا کہ وہ دعویٰ کرسکتا ہے ۔ تمہارا دعویٰ نہیں چل سکتا ۔ واپسی پردیوی دیال صاحب سب انسپکٹر نے حضور کو بڑی محبت اور احترام سے بڑے بازار شہر سے گزار کر اسٹیشن پر لاکر گاڑی پر سوار کرایا تھا۔ بازار میں سے لانے کی غرض یہ تھی کہ تمام لوگ حضور کی زیارت کر لیں۔ لوگ کھڑے ہوہوکر حضور کو دیکھتے تھے۔ حضور باعزت طورپر گاڑی میں سوار ہوئے اور واپس قادیان روانہ ہوئے ۔
{ 1008} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت اُم المومنین نے ایک روز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی اور شیرینی کا ایک خوان اُسی وقت پیش کیا اور شام کی دعوت کی ۔
{ 1009} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیا ن کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ شہتیر والا مکان خطرناک ہوتا ہے۔ بعض دفعہ شہتیر ٹوٹ جاتا ہے تو ساری چھت یکدم آپڑتی ہے ۔ یعنی صرف کڑیاں یعنی بالے پڑے ہوئے ہوں۔ اور فرمایا ایک دفعہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھی ایسے حادثہ سے بچایا تھا۔
{1010} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ اس وقت یعنی۱۹۳۸ء میں میری عمر۷۴سال کے قریب ہے ۔ ہمارا اصل وطن بڈھانہ ضلع مظفر نگر۔ یوپی ہے گو میری زیادہ سکونت باغپت ضلع میرٹھ میں رہی ہے یعنی میں نے اپنی اوائل عمر زیادہ تر اپنے وطن باغپت ضلع میرٹھ میں گزاری تھی اور سنہ ۱۹۴۱ء بکرمی میں کپور تھلہ میں آیا جب کہ میری عمر۲۱؍۲۰سا ل کی تھی۔ میرے کپور تھلہ آنے سے قبل کی بات ہے کہ حاجی ولی اللہ صاحب جو کپور تھلہ میں سیشن جج تھے وہ رخصت پر اپنے وطن سراوہ ضلع میرٹھ میں گئے ۔ اس وقت میرے والدصاحب اور مَیں بوجہ تعلق رشتہ داری اُن سے ملنے کے لئے گئے ۔ حاجی ولی اللہ صاحب کے پاس براہین احمدیہ کے چاروں حصے تھے۔ اور حاجی صاحب موصوف مجھ سے براہین احمدیہ سنا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ مجھے یہ کتاب حضرت مرزا صاحب نے بھیجی ہے ۔ اُن کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خط وکتابت تھی۔ جب میں حاجی صاحب کو براہین احمدیہ سنایا کرتا تھا تو اس دوران میں مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عقیدت ہوگئی ۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت جب کہ میں براہین احمدیہ سنایا کرتا تھا تو سامعین کہا کرتے تھے کہ اس کتاب کا مصنف ایک بے بدل انشاء پرداز ہے ۔
{ 1011} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حاجی ولی اللہ جوہمارے قریبی رشتہ دار تھے اور کپور تھلہ میں سیشن جج تھے ۔اُن کے ایک ماموں منشی عبدالواحد صاحب ایک زمانہ میں بٹالہ میں تحصیلدار ہوتے تھے ۔ منشی عبد الواحد صاحب بٹالہ سے اکثر اوقات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والدحضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کو ملنے کے لئے جایا کرتے تھے اور وہ بیان کرتے تھے کہ اس وقت حضرت صاحب کی عمر۱۵؍۱۴سال کی ہوگی۔ اور بیان کرتے تھے کہ اس عمر میں حضرت صاحب سارا دن قرآن شریف پڑھتے رہتے اور حاشیہ پر نوٹ لکھتے رہتے تھے ۔ اور مرزا غلام مرتضیٰ صاحب حضرت صاحب کے متعلق اکثر فرماتے تھے کہ میرا یہ بیٹا کسی سے غرض نہیں رکھتا۔ سارا دن مسجد میں رہتا ہے اور قرآن شریف پڑھتا رہتا ہے ۔ منشی عبد الواحد صاحب قادیان بہت دفعہ آتے جاتے تھے ۔ اُن کا بیان تھا کہ میںنے حضرت صاحب کو ہمیشہ قرآن شریف پڑھتے دیکھا ہے ۔
{ 1012} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپو رتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب نے ایک دفعہ ایک مرض کے متعلق عبد الواحد صاحب کو اپنے صرف سے دوسو روپیہ کی معجون تیار کر کے دی جس سے مرض جاتا رہا ۔ عبد الواحد صاحب نے بعدش قیمت اد اکرنی چاہی ۔ جو مرزا صاحب نے قبول نہ فرمائی ۔
{ 1013} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیا ن کیا کہ عبدالواحدصاحب احمدی نہیں ہوئے ۔ میں نے اپنی بیعت کے بعداُن سے پوچھا کہ آپ تو سب حالات جانتے ہیں بیعت کیوں نہیں کر لیتے۔ انہوںنے کہا مجھے الہام ہوا ہے کہ مرزا صاحب کے پاس دو جن سکھ دیو اور ہر دیو ہیں اور اُن پر اُن کا دارومدار ہے ۔ اور گویامیں اس الہام کے ذریعہ سے بیعت سے روکا گیا ہوں ۔ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ ذکر کیا کہ یہ اُن کا الہام غالباً شیطانی ہے ۔ حضور نے فرمایا ۔ نہیں ۔یہ رحمانی الہام ہے ۔ جس زبان میں الہام ہو اس کے مطابق معنے کرنے چاہئیں۔ دیو سنسکرت میں فرشتے کو کہتے ہیں ۔ گویا راحت کے فرشتے اور ملائکۃ اللّٰہ ہمارے مددگار ہیں ۔ تم انہیں لکھو ۔ چنانچہ میں نے انہیں گڑگانواں میں جہاں وہ منصف تھے خط لکھا۔ جواب نہ آیا۔ تھوڑے عرصہ کے بعد عبد الواحد صاحب کا انتقال ہوگیا۔ عبد الواحد صاحب مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کے مرید تھے۔
{ 1014} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ہمارے رشتہ دار منشی عبد اللہ صاحب جالندھر میں صدر واصل باقی نویس تھے۔ جو حاجی صاحب کے بہنوئی تھے۔ اُن سے ملنے میں جالندھرجا یا کرتا تھا۔ جالندھر میں اسی طرح ایک مرتبہ گیا ہوا تھا کہ معلوم ہوا کہ ایک بزرگ کہیں سے جالندھرآرہے ہیں ۔ یہ سرمہ چشمہ آریہ کی طباعت سے پیشتر کا واقعہ ہے ۔ جالندھر سٹیشن پر میں اور میرا ایک رشتہ دار گئے ۔ وہاں دو تین سو آدمی حضور کی پیشوائی کے لئے موجو دتھے اور کنور بکرماں سنگھ صاحب نے اپنا وزیر اور سواری حضور کو لانے کے لئے بھیجے ہوئے تھے۔ حضرت صاحب ریل سے اُترے ۔ یہ صحیح یا د نہیں کہ حضور کہاں سے تشریف لارہے تھے۔ لوگوں نے مصافحہ کرنا شروع کیا اور وزیر مذکور نے حضور کو بکرماں سنگھ صاحب کے ہاں لے جانے کوکہا ۔ اس دوران میں میں نے بھی مصافحہ کیا تو حضور نے دریافت فرمایا کہ آپ کہاں رہتے ہیں ۔ میں نے کہا ’’کپور تھلہ‘‘ لیکن یہاں میرے ایک رشتہ دار منشی عبد اللہ صاحب بوچڑ خانہ کے قریب رہتے ہیں ۔ حضور نے فرمایا ہم آپ کے ساتھ چلیں گے ۔ چنانچہ بکرماں سنگھ کی گاڑی میں حضور ، مولوی عبد اللہ صاحب سنوری ، حافظ حامد علی صاحب اورخاکسار سوار ہو کر منشی عبد اللہ صاحب کے مکان پر آگئے ۔ جب حضور گاڑی سے اُترنے لگے تو بہت ہجوم لوگوں کا ہوگیا ۔ عورتیں اپنے بچے حضرت صاحب کی طرف کرتی تھیں کہ حضور کے کپڑوں کی ہوا لگ جائے ۔ اُس وقت اعتقاد کایہ عالم تھا ۔ غرض حضور منشی عبد اللہ صاحب کی بیٹھک میں فرو کش ہوئے ۔
{ 1015} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ۔ کہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام جالندھر میں منشی عبد اللہ صاحب کی بیٹھک میں فروکش تھے تو ایک شخص نے سوال کیا کہ آپ سرسیّد کو کیا سمجھتے ہیں؟ فرمایا!میں تو ایک طرح دیا نند کی بھی اس لحاظ سے قدر کرتا ہوں کہ بت پرستی کے خلاف ہے اور سرسیّد تو مسلمان ہے اور انہوںنے تعلیمی کام مسلمانوں کے لئے کیا ہے ۔ اُن کا ممنون ہونا چاہئے۔سرسیّد کو مسلمان کہنا بہت سے لوگوں کو ناگوار معلوم ہوا ۔
{ 1016} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام جالندھر میں ہی تھے تو اُس زمانہ کے اعتقاد کے بموجب کہ دل کی بات اہل اللہ بتا دیا کرتے ہیں ۔ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ نماز میں وساوس کس طرح دور ہوسکتے ہیں ۔ تقریر کرتے کرتے حضور نے میری طرف مخاطب ہوکر فرمایا !’’اِیَّاکَ نَعْبُدُ کے تکرار سے ‘‘ اور پھر تقریر جاری رکھی ۔میرا اس وقت آپ پر ایمان ہوگیا ۔
منشی عبد اللہ صاحب کچھ انڈوں کا حلوا بنوا کر لائے ۔ حضور نے فرمایا ! مجھے بھوک نہیں ہے۔ لیکن منشی صاحب کے اصرار پر تھوڑا سا کھا لیا۔ ظہر کی نماز حضور نے قریب کی مسجد میں پڑھی ۔ آٹھ نو بجے صبح آپ سٹیشن پر اُترے تھے ۔ اور بعد نما زظہر آپ واپس سٹیشن پر تشریف لے گئے ۔ آپ گاڑی میں بیٹھ گئے اور میرے مصافحہ کرنے پر فرمایا۔ ہم سے خط وکتابت رکھا کرو۔ یہ غالباً۱۹۴۲بکرمی کا واقعہ ہے ۔
{ 1017} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں نے کپور تھلہ آکر اپنے دوستوں منشی اروڑا صاحب اور محمد خاں سے اِیَّاکَ نَعْبُدُ والی بات سنائی اور حضور کی تعریف کی ۔ اس ملاقات سے دو ڈیڑھ ماہ بعد مَیں قادیان گیا۔ حضور بہت محبت سے پیش آئے۔ خود اندر سے کھانا لا کر کھلاتے ۔ میں دس بارہ دن قادیان میں رہا ۔ اُس وقت حافظ حامد علی خادم ہوتا تھا اور کوئی نہ تھا ۔ جہاں اب مہمان خانہ اور مفتی محمد صادق صاحب کا مکان ہے ۔ اس کے پاس بڑی چوڑی کچی فصیل ہوتی تھی ۔
{ 1018} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضور علیہ السلام کی جالندھر کی ملاقات اول کے بعد دو ماہ کے قریب گزرنے پر مَیں قادیان گیا۔ اس کے بعد مہینے ڈیڑھ مہینے بعد اکثر جایا کرتا تھا۔ ایک دفعہ چار ماہ بعد گیا تو حضور نے فرمایا ’’ کیا کوئی معصیت ہوگئی ہے جو اتنی دیر لگائی‘‘ میں رونے لگا ۔ اس کے بعد میں جلدی جلدی قادیان جایا کرتا تھا۔
{ 1019} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ملاقات کے بعد میں قادیان جاتا رہا۔ بہت دفعہ ایسا ہوتا رہا کہ جمعہ کی نماز میں پڑھاتااور حضرت صاحب اور حافظ حامد علی صرف مقتدی ہوتے ۔ میں نے کہا مجھے خطبہ پڑھنا نہیں آتا۔ حضور نے فرمایا ۔ کوئی رکوع پڑھ کر اور بیٹھ کر کچھ درود شریف پڑھ دو۔ انہی دنوں الٰہی بخش اکونٹنٹ، عبدالحق اکونٹنٹ اور حافظ محمد یوسف سب اورسیر تینوں مولوی عبد الحق صاحب غزنوی کے مرید تھے ۔ یہ بہت آیا کرتے تھے ۔ اکثر ایسا موقعہ ہواہے کہ میں قادیان گیا ہوں تو یہ بھی وہاں ہوتے۔
{ 1020} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حافظ محمد یوسف اور محمد یعقوب برادرش نے عبد اللہ صاحب غزنوی کا ایک کشف بیان کیا تھا کہ ’’قادیان سے ایک روشنی نمودار ہوگی۔ وہ ساری جہاں میں پھیلے گی مگر میری اولاد اُس سے محروم رہے گی‘‘ اور اُن تینوں میں سے کسی نے یہ بھی کہا کہ مرزا غلام احمد صاحب سے ممکن ہے یہ مراد ہو۔
مہدویت کے دعویٰ کے بعد اس واقعہ سے محمد یوسف صاحب انکاری ہوگئے ۔ تو حضرت صاحب نے مجھے حلفیہ شہادت کے لئے خط لکھا۔ کہ تمہارے سامنے محمد یوسف نے یہ واقعہ بیان کیا تھا ۔ میں نے محمدیوسف اور محمد یعقوب کو خط لکھا کہ یہاںمیرا اور محمد خاں صاحب کا جھگڑا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ نے ان الفاظ میں بیان کیا تھا اور میں کہتا ہوں کہ ان الفاظ میں بیان کیا تھا۔محمد یعقوب کا جواب امرتسر سے آیا ۔ جس میں میرے بیان کردہ الفاظ کی اُس نے تائید کی ۔ میں محمدیعقوب کا خط لے کر قادیان پہنچا۔ حضور بہت خوش ہوئے اور وہ خط شائع کردیا جس سے یہ لوگ بہت شرمندہ ہوئے ۔
محمد یوسف صاحب میرے ہم وطن تھے ۔ میرا اصل وطن قصبہ بڈھانہ ضلع مظفر نگر۔ یوپی ہے اور محمدیوسف صاحب بڈھانہ سے اڑھائی میل پر حسین پور کے رہنے والے تھے ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ستاروں کا گرنا بہت سے نبیوں کے لئے بطور علامت واقع ہوچکا ہے اور حضرت صاحب نے لکھا ہے کہ یہ جو حضور کی بعثت کے وقت غیر معمولی طور پر ستارے گرتے نظر آئے۔ یہ حضور کے لئے بطور علامت تھا اور اس سے مراد یہ تھی کہ اب گویا کواکب یعنی علماء کے گرنے کا وقت آگیا ہے جس کے بعد سورج کا طلوع ہوگا۔
{ 1002} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ قادیان نے مجھ سے بیان کیا کہ جب میں قریباً آٹھ دس سال کی عمر کا تھا۔ (اس وقت میری عمر پچپن سال کی ہے ) ایک دفعہ میرے حقیقی چچا مرحوم حافظ حکیم خد ابخش صاحب احمدی جو اوائل سے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مصدّق تھے اور بیعت میں صرف اس خیال سے دیر کرتے چلے گئے کہ میں بہت ہی گنہگار اور آلودہ دامن ہوں۔ میرا وجو دسلسلہ حقہ کے لئے ایک بدنما داغ ہوگا اور اس کی بدنامی کا باعث ہوگااور آخر حضور کی رحلت کے بعد اوائل۱۹۰۹ء میں انہوں نے تحریری طور پر حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ کسی لمبے سفر سے واپس آئے ۔ جب مجھے معلوم ہواتو میں اُن سے ملنے کے لئے ان کے پاس گیا۔ انہوںنے مجھے ایک کتاب دی ۔ جسے لے کر میں بہت خوش ہوا۔ اس کتاب کے مجھے دینے سے اُن کا مقصد یہ تھا کہ میرے والد صاحب اسے دیکھ لیں ۔ دوسرے روز میں شوق سے وہ کتاب ہاتھ میں لئے مسجد کی طرف قرآن کریم کا سبق پڑھنے کے لئے جارہا تھا ۔ اتفاق سے میرے والد صاحب راستہ میں ہی ایک چھوٹی سی مجلس میں بیٹھے تھے۔ میرے ہاتھ میں وہ کتاب دیکھ کر انہوںنے لے لی اور دیکھنے لگے ۔ کسی نے پوچھا کہ یہ کیا کتاب ہے ۔ میرے والد صاحب نے کہا کہ یہ ایک بزرگ ولی اللہ کی کتاب ہے ۔ جن کی دعائیں بہت قبول ہوتی ہیں اور ساتھ ہی بیان کیا کہ میں ایک دفعہ فساد خون کے عارضہ سے دیر تک بیمار رہاتھا۔ ان ایام میں مجھے ان بزرگ ولی اللہ کے متعلق اطلاع ملی اور یہ بھی کہ ان کی دعائیں بہت قبول ہوتی ہیں ۔ میں اس وقت بغرض علاج لاہور (یا امرتسر اس وقت خاکسار کو صحیح یاد نہیں رہا کہ کس شہر کانام لیا تھا) گیا ہوا تھا ۔ وہیں یہ بات مجھے معلوم ہوئی تھی ۔ جس پر میں نے ان کی خدمت میں (حاضر ہو کر نہیں بلکہ تحریراً یا کسی صاحب کی زبانی جس کی تفصیل اب خاکسار کو یاد نہیں رہی )اپنی صحت یابی کے لئے دعا کے واسطے عرض کیا تھا۔ سو اللہ تعالیٰ نے مجھے صحت بخشی ۔ یہ واقعہ بچپن میں میں نے غالباً متعدد دفعہ اپنے والد صاحب (مولوی محمد بخش صاحب) سے سنا تھا۔ اس کے بعد وہ کتاب میرے والد صاحب نے مجھے واپس دے دی اور وہ مدت تک میری پاس رہی ۔ جب میں بڑ اہوا تو اس کے نام وغیرہ کی شناخت ہوئی۔ یہ کتاب سرمہ چشم آریہ تھی جو ۱۸۸۶ء کی تصنیف ہے ۔
{ 1003} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں حیات محمد صاحب پنشنر ہیڈ کانسٹیبل پولیس نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کرم دین کے مقدمہ میں جہلم تشریف لائے تو سردار ہری سنگھ کی درخواست پر آپ اُن کی کوٹھی میں مقیم ہوئے ۔ کھانا وغیرہ کا انتظام جماعت کے ذمہ تھا۔ کوٹھی نہایت خوبصورت اور سجائی گئی تھی۔ باورچی نے کارکنوں سے حضور کے لئے ایک چوزہ مرغ طلب کیا تو وہ لوگ حیران ہوئے کہ اب کہاں سے ملے گا۔ مجھے علم تھا کہ حضور کچھ عرصہ سے چوزہ مرغ بطور دوائی استعمال فرماتے ہیں اس لئے میں نے چار چوزے اپنے پاس اسی غرض سے رکھے ہوئے تھے ۔ میں فورًا گیااور چاروں لے آیا اور وہ چوزے تین دن تک کام آگئے ۔ چونکہ میں نے تین دن کی رخصت لی ہوئی تھی اس لئے میں دن رات حضور کے پاس رہتا اورحضور کے جسم مبارک کو دباتا تھا۔ میں۹۴ء سے حضور کا عاشق تھا۔ رات بھر حضور کے بدن کو دباتا۔ جب حضور کروٹ بدلتے تو کھانسی کی تکلیف کے وقت منہ مبارک سے معصوم بچوں کی سی آواز نکلتی ’’اللہ‘‘ ۔ حضور فرماتے تھے کہ خشک کھانسی بھی ایک وبا کی طرح ہے ۔ پیشاب کی بار بار حاجت ہوتی۔ حمام میں گرم اور سرد دونوں پانی موجو دتھے۔ آپ لوٹے میں دونوں کو ملا کر استعمال فرماتے۔ میرے دباتے ہوئے جب حضور انور کروٹ لیتے تو فرماتے کہ ’’ آپ بس کیجئے ‘‘۔ مگر مجھے ان الفا ظ کے سننے سے از حد خوشی ہوتی اور میں حضور کو دباتا چلا جاتا تھا۔
{ 1004} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں حیات محمد صاحب پنشنر ہیڈ کانسٹیبل پولیس نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیا ن کیا کہ جس دن عدالت میں مقدمہ کی پیشی تھی۔ صبح نو بجے تک بیعت ختم نہ ہوئی تھی پھر کچہری کے لئے تیاری شروع ہوئی ورنہ لوگ تو بس نہ کرتے تھے۔ رات کو عورتوں کی بیعت کی باری آیا کرتی تھی۔ اُن کے خاوند دروازوں پر کھڑے ہوتے تھے ۔ حضور اقدس کرسی پر اونچی جگہ تشریف رکھے ہوتے ،بلندآواز سے اپنی جگہ پر ہی اللہ اور اس کے رسول کے احکام حسب ضرورت عورتوں کو سناتے تھے اور حضرت صاحب نے میاں بیوی کے حقوق اور تعلقات کو خوب واضح طور پر بیان کیا تھا ۔ حضور عورتوں کی بیعت لیتے وقت ہاتھ یا کپڑا وغیرہ نہ پکڑتے تھے بلکہ آپ اونچی جگہ پر بیٹھ کر اپنی تعلیم سنا دیتے تھے اور پھر لمبی دعا فرما کے اپنے کمرہ میں چلے جاتے تھے ۔ اُن دنوں سخت سردی پڑتی تھی۔ جس دن پیشی تھی اُسی رات مجھ کو خواب آیا اور وہ میں نے حضرت کو سنا دیا تھا کہ دہکتے ہوئے انگاروں سے ایک چولہا بھرا ہو اہے ۔ اُس پر حضور کی آرام کرسی رکھی گئی ہے، اُس پر آپ بیٹھے ہیں ۔ آگ کی بھاپ شعلے مار مار کر تمام بدن سے نکلتی جاتی ہے۔ اسی طرح کپڑوں اور بالوں سے اور ہم لوگ خوش ہورہے ہیں کہ دھواں تو نہیں ہے بلکہ بھاپ ہے۔ بالوں میں سے پانی کے قطرے نیچے گر رہے ہیں ۔ تو میں کہہ رہاہوں کہ سبحان اللہ! ابراہیم علیہ السلام والی پوری مثال ہے ۔ اس موقعہ پر قُلْنَا یَا نَارُ کُوْنِیْ بَرْدًاوَّسَلَامًا عَلٰی اِبْرَاہِیْم (الانبیائ:۷۰) کی مثال صادق آرہی ہے ۔ جب میں نے یہ خواب حضور کو سنائی تو حضور اقدس علیہ السلام نے ہنس کو فرمایا کہ دشمن نے آگ بھڑکائی مگر اللہ نے ٹھنڈی کر دی ہے۔ تمام دشمنوں نے زور لگایا۔ ایک طرف تمام مخالف تھے اور ایک طرف خدا کا مرسل تھا۔ ایک طرف حکومت کے لوگ اور بڑے بڑے رئیس ،مجسٹریٹ اور وکیل اور چھوٹے چھوٹے ملازم تھے۔ یہ سب لوگ کرم دین پر خوش تھے کہ اُس نے دعویٰ کیا ہے مگر خدا نے اُن کو ناکام کردیا ۔
{ 1005} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں حیات محمد صاحب پنشنر ہیڈ کانسٹیبل پولیس نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مقدمہ کی تاریخ سے ایک ماہ قبل میری بیوی کو خواب آئی تھی کہ حضرت سلمان فارسی جن کی قبر ۹گز لمبی دریائے جہلم کے کنارے پر ہے ۔ وہ چوک میں کھڑے ہوکر بآواز بلند یہ کہتے ہیں ۔ سنو لوگو!یہ جو دو فریق آپس میں جھگڑا کر رہے ہیں ۔ ان میں سے ایک سیّد ہے جو مرزا صاحب ہیں اور دوسرا مولوی جو ہے وہ ڈوم ہے ۔ جب حضور کو یہ خواب سنائی گئی۔ تو حضور نے ’’ہیں‘‘ کہہ کر فرمایا کہ ڈوم کیسے ہوتے ہیں۔ اس پر دوستوں نے بتایا کہ ڈوم میراثی ہوتے ہیں ۔ تحصیل دار نواب خان نے بھی کہا کہ حضور میراثی لوگ ڈوم ہوتے ہیں ۔ اسی طرح ایک روز مفتی محمد صادق صاحب نے بھی اپنی خواب سنائی ۔ خواب مجھے یاد نہیں رہی۔ میں اپنی بیوی کے اکثر خواب حضور علیہ السلام کی خدمت میں تحر یر کر کے تعبیر منگواتا رہتا تھا ۔
{ 1006} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں حیات محمدصاحب پنشنر ہیڈ کانسٹیبل پولیس نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ۔ کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام عدالت میں گئے تو بہت ہجوم حضور کے ساتھ اندر چلا گیا۔ آخر کھلے میدان میںحضور کی کرسی سرکاری جمعدار نے رکھی ۔چار پانچ کرم کے فاصلہ پر مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی نے اپنا وعظ شروع کیا تو محمد دین کمپونڈر نے کہا ۔ حضور! مولوی ابراہیم نے یہاں آکر ہی وعظ شروع کردیا ہے۔ اس وقت میں بھی حضور کے پاس تھا تو حضور نے اپنے ہاتھ سے اپنی جیب سے ایک رسالہ ’’مواہب الرحمن‘‘ نکال کر دیا کہ میری یہ کتاب اُسے دے دو۔ ابھی اُس نے وعظ شروع ہی کیا تھا کہ ڈپٹی صاحب نے حکم دیا کہ اس کو یہاں سے نکال دو۔ اگر وعظ کرنا ہے تو شہر میں جاکر کرے ۔سپاہیوں نے اسی وقت اسے کچہری سے باہر نکال دیا۔ جب اُس نے جلدی سے کتاب پر نظر ماری تو صفحہ۲۵پر نظر پڑی ۔ جہاں لکھا تھا ’’کرم دین کذّاب‘‘ فوراً کرم دین کو جاکر دیا کہ دیکھو تم کو یہ لکھا گیا ہے ۔اُس نے اپنے وکیل شیخ محمد دین کو دکھایا ۔ وکیل نے کہا کہ اس کا بھی دعویٰ کردو۔ اُسی وقت مولوی ابراہیم اور کرم دین اور شیخ محمددین وکیل میاں نظام دین سب جج کی کچہری میں چلے گئے اور اُس کو دکھا کر کہا کہ یہ وہ کتاب ہے اور اب موقعہ ہے۔ ہم دعویٰ آپ کی عدالت میں کرتے ہیں۔ اُس جج نے جواب دیا کہ میرے پاس دعویٰ کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا کیونکہ کرم دین بھی سنی مسلمان ہے اور میں بھی سنی مسلمان ہوں ۔ جب جج مذکور نے یہ جواب دیا وہ اپنا سا منہ لے کر واپس آگئے ۔ بندہ اچانک اُسی وقت اس جج کی کچہری میں ان تینوں کے پیچھے کھڑا یہ کارروائی دیکھ رہا تھا ۔ ہاں البتہ اُس نے ان کو یہ کہا کہ یہ دعویٰ بھی اُسی ڈپٹی کمشنر کے پاس کرو جس کے پاس پہلا دعویٰ ہے۔ ڈپٹی نے خوب دونوں دعووں کو اڑایا اور کرم دین کو کہا کہ تم نے خود اپنے لئے یہ ثابت کردیا ہے کہ ضرور میں جھوٹااور کمینہ ہوں ۔ کیونکہ تعزیرات ہند میں یا سرکاری قانون میں تو یہ جرم نہیں ہے کیونکہ مرزا صاحب تو کہتے ہیں کہ خدا نے الہام سے مجھے یہ کہا ہے ۔ قانون سے جرم تب ہوتا اگر یہاں کرم دین کی ولدیت وسکونت کتاب میں درج ہوتی۔ کیادنیا میں اور کوئی کرم دین نہیں ہے صرف تُو ہی کرم دین ہے ؟
{ 1007} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ میاں حیات محمد صاحب پنشنر ہیڈ کانسٹیبل پولیس نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ کرم دین نے ڈپٹی کی عدالت میں یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ مرزا صاحب نے میرے بھائی محمدحسین کے متعلق کہا ہے کہ مرتے وقت اس کا منہ سیاہ ہوگیا ہے اس طرح اس کی ہتک کی ہے ۔ ڈپٹی نے پوچھا کہ کیا تمہارے بھائی محمدحسین کا کوئی لڑکا ہے ۔ اس نے کہا کہ ’’ہے‘‘ پوچھا کہ بالغ ہے یا نابالغ ہے ؟ کرم دین نے جواب دیا کہ بالغ ہے۔ اس پر ڈپٹی صاحب نے کہا کہ وہ دعویٰ کرسکتا ہے ۔ تمہارا دعویٰ نہیں چل سکتا ۔ واپسی پردیوی دیال صاحب سب انسپکٹر نے حضور کو بڑی محبت اور احترام سے بڑے بازار شہر سے گزار کر اسٹیشن پر لاکر گاڑی پر سوار کرایا تھا۔ بازار میں سے لانے کی غرض یہ تھی کہ تمام لوگ حضور کی زیارت کر لیں۔ لوگ کھڑے ہوہوکر حضور کو دیکھتے تھے۔ حضور باعزت طورپر گاڑی میں سوار ہوئے اور واپس قادیان روانہ ہوئے ۔
{ 1008} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت اُم المومنین نے ایک روز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی اور شیرینی کا ایک خوان اُسی وقت پیش کیا اور شام کی دعوت کی ۔
{ 1009} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیا ن کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ شہتیر والا مکان خطرناک ہوتا ہے۔ بعض دفعہ شہتیر ٹوٹ جاتا ہے تو ساری چھت یکدم آپڑتی ہے ۔ یعنی صرف کڑیاں یعنی بالے پڑے ہوئے ہوں۔ اور فرمایا ایک دفعہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھی ایسے حادثہ سے بچایا تھا۔
{1010} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ اس وقت یعنی۱۹۳۸ء میں میری عمر۷۴سال کے قریب ہے ۔ ہمارا اصل وطن بڈھانہ ضلع مظفر نگر۔ یوپی ہے گو میری زیادہ سکونت باغپت ضلع میرٹھ میں رہی ہے یعنی میں نے اپنی اوائل عمر زیادہ تر اپنے وطن باغپت ضلع میرٹھ میں گزاری تھی اور سنہ ۱۹۴۱ء بکرمی میں کپور تھلہ میں آیا جب کہ میری عمر۲۱؍۲۰سا ل کی تھی۔ میرے کپور تھلہ آنے سے قبل کی بات ہے کہ حاجی ولی اللہ صاحب جو کپور تھلہ میں سیشن جج تھے وہ رخصت پر اپنے وطن سراوہ ضلع میرٹھ میں گئے ۔ اس وقت میرے والدصاحب اور مَیں بوجہ تعلق رشتہ داری اُن سے ملنے کے لئے گئے ۔ حاجی ولی اللہ صاحب کے پاس براہین احمدیہ کے چاروں حصے تھے۔ اور حاجی صاحب موصوف مجھ سے براہین احمدیہ سنا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ مجھے یہ کتاب حضرت مرزا صاحب نے بھیجی ہے ۔ اُن کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خط وکتابت تھی۔ جب میں حاجی صاحب کو براہین احمدیہ سنایا کرتا تھا تو اس دوران میں مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عقیدت ہوگئی ۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت جب کہ میں براہین احمدیہ سنایا کرتا تھا تو سامعین کہا کرتے تھے کہ اس کتاب کا مصنف ایک بے بدل انشاء پرداز ہے ۔
{ 1011} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حاجی ولی اللہ جوہمارے قریبی رشتہ دار تھے اور کپور تھلہ میں سیشن جج تھے ۔اُن کے ایک ماموں منشی عبدالواحد صاحب ایک زمانہ میں بٹالہ میں تحصیلدار ہوتے تھے ۔ منشی عبد الواحد صاحب بٹالہ سے اکثر اوقات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والدحضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کو ملنے کے لئے جایا کرتے تھے اور وہ بیان کرتے تھے کہ اس وقت حضرت صاحب کی عمر۱۵؍۱۴سال کی ہوگی۔ اور بیان کرتے تھے کہ اس عمر میں حضرت صاحب سارا دن قرآن شریف پڑھتے رہتے اور حاشیہ پر نوٹ لکھتے رہتے تھے ۔ اور مرزا غلام مرتضیٰ صاحب حضرت صاحب کے متعلق اکثر فرماتے تھے کہ میرا یہ بیٹا کسی سے غرض نہیں رکھتا۔ سارا دن مسجد میں رہتا ہے اور قرآن شریف پڑھتا رہتا ہے ۔ منشی عبد الواحد صاحب قادیان بہت دفعہ آتے جاتے تھے ۔ اُن کا بیان تھا کہ میںنے حضرت صاحب کو ہمیشہ قرآن شریف پڑھتے دیکھا ہے ۔
{ 1012} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپو رتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب نے ایک دفعہ ایک مرض کے متعلق عبد الواحد صاحب کو اپنے صرف سے دوسو روپیہ کی معجون تیار کر کے دی جس سے مرض جاتا رہا ۔ عبد الواحد صاحب نے بعدش قیمت اد اکرنی چاہی ۔ جو مرزا صاحب نے قبول نہ فرمائی ۔
{ 1013} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیا ن کیا کہ عبدالواحدصاحب احمدی نہیں ہوئے ۔ میں نے اپنی بیعت کے بعداُن سے پوچھا کہ آپ تو سب حالات جانتے ہیں بیعت کیوں نہیں کر لیتے۔ انہوںنے کہا مجھے الہام ہوا ہے کہ مرزا صاحب کے پاس دو جن سکھ دیو اور ہر دیو ہیں اور اُن پر اُن کا دارومدار ہے ۔ اور گویامیں اس الہام کے ذریعہ سے بیعت سے روکا گیا ہوں ۔ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ ذکر کیا کہ یہ اُن کا الہام غالباً شیطانی ہے ۔ حضور نے فرمایا ۔ نہیں ۔یہ رحمانی الہام ہے ۔ جس زبان میں الہام ہو اس کے مطابق معنے کرنے چاہئیں۔ دیو سنسکرت میں فرشتے کو کہتے ہیں ۔ گویا راحت کے فرشتے اور ملائکۃ اللّٰہ ہمارے مددگار ہیں ۔ تم انہیں لکھو ۔ چنانچہ میں نے انہیں گڑگانواں میں جہاں وہ منصف تھے خط لکھا۔ جواب نہ آیا۔ تھوڑے عرصہ کے بعد عبد الواحد صاحب کا انتقال ہوگیا۔ عبد الواحد صاحب مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کے مرید تھے۔
{ 1014} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ہمارے رشتہ دار منشی عبد اللہ صاحب جالندھر میں صدر واصل باقی نویس تھے۔ جو حاجی صاحب کے بہنوئی تھے۔ اُن سے ملنے میں جالندھرجا یا کرتا تھا۔ جالندھر میں اسی طرح ایک مرتبہ گیا ہوا تھا کہ معلوم ہوا کہ ایک بزرگ کہیں سے جالندھرآرہے ہیں ۔ یہ سرمہ چشمہ آریہ کی طباعت سے پیشتر کا واقعہ ہے ۔ جالندھر سٹیشن پر میں اور میرا ایک رشتہ دار گئے ۔ وہاں دو تین سو آدمی حضور کی پیشوائی کے لئے موجو دتھے اور کنور بکرماں سنگھ صاحب نے اپنا وزیر اور سواری حضور کو لانے کے لئے بھیجے ہوئے تھے۔ حضرت صاحب ریل سے اُترے ۔ یہ صحیح یا د نہیں کہ حضور کہاں سے تشریف لارہے تھے۔ لوگوں نے مصافحہ کرنا شروع کیا اور وزیر مذکور نے حضور کو بکرماں سنگھ صاحب کے ہاں لے جانے کوکہا ۔ اس دوران میں میں نے بھی مصافحہ کیا تو حضور نے دریافت فرمایا کہ آپ کہاں رہتے ہیں ۔ میں نے کہا ’’کپور تھلہ‘‘ لیکن یہاں میرے ایک رشتہ دار منشی عبد اللہ صاحب بوچڑ خانہ کے قریب رہتے ہیں ۔ حضور نے فرمایا ہم آپ کے ساتھ چلیں گے ۔ چنانچہ بکرماں سنگھ کی گاڑی میں حضور ، مولوی عبد اللہ صاحب سنوری ، حافظ حامد علی صاحب اورخاکسار سوار ہو کر منشی عبد اللہ صاحب کے مکان پر آگئے ۔ جب حضور گاڑی سے اُترنے لگے تو بہت ہجوم لوگوں کا ہوگیا ۔ عورتیں اپنے بچے حضرت صاحب کی طرف کرتی تھیں کہ حضور کے کپڑوں کی ہوا لگ جائے ۔ اُس وقت اعتقاد کایہ عالم تھا ۔ غرض حضور منشی عبد اللہ صاحب کی بیٹھک میں فرو کش ہوئے ۔
{ 1015} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ۔ کہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام جالندھر میں منشی عبد اللہ صاحب کی بیٹھک میں فروکش تھے تو ایک شخص نے سوال کیا کہ آپ سرسیّد کو کیا سمجھتے ہیں؟ فرمایا!میں تو ایک طرح دیا نند کی بھی اس لحاظ سے قدر کرتا ہوں کہ بت پرستی کے خلاف ہے اور سرسیّد تو مسلمان ہے اور انہوںنے تعلیمی کام مسلمانوں کے لئے کیا ہے ۔ اُن کا ممنون ہونا چاہئے۔سرسیّد کو مسلمان کہنا بہت سے لوگوں کو ناگوار معلوم ہوا ۔
{ 1016} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام جالندھر میں ہی تھے تو اُس زمانہ کے اعتقاد کے بموجب کہ دل کی بات اہل اللہ بتا دیا کرتے ہیں ۔ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ نماز میں وساوس کس طرح دور ہوسکتے ہیں ۔ تقریر کرتے کرتے حضور نے میری طرف مخاطب ہوکر فرمایا !’’اِیَّاکَ نَعْبُدُ کے تکرار سے ‘‘ اور پھر تقریر جاری رکھی ۔میرا اس وقت آپ پر ایمان ہوگیا ۔
منشی عبد اللہ صاحب کچھ انڈوں کا حلوا بنوا کر لائے ۔ حضور نے فرمایا ! مجھے بھوک نہیں ہے۔ لیکن منشی صاحب کے اصرار پر تھوڑا سا کھا لیا۔ ظہر کی نماز حضور نے قریب کی مسجد میں پڑھی ۔ آٹھ نو بجے صبح آپ سٹیشن پر اُترے تھے ۔ اور بعد نما زظہر آپ واپس سٹیشن پر تشریف لے گئے ۔ آپ گاڑی میں بیٹھ گئے اور میرے مصافحہ کرنے پر فرمایا۔ ہم سے خط وکتابت رکھا کرو۔ یہ غالباً۱۹۴۲بکرمی کا واقعہ ہے ۔
{ 1017} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں نے کپور تھلہ آکر اپنے دوستوں منشی اروڑا صاحب اور محمد خاں سے اِیَّاکَ نَعْبُدُ والی بات سنائی اور حضور کی تعریف کی ۔ اس ملاقات سے دو ڈیڑھ ماہ بعد مَیں قادیان گیا۔ حضور بہت محبت سے پیش آئے۔ خود اندر سے کھانا لا کر کھلاتے ۔ میں دس بارہ دن قادیان میں رہا ۔ اُس وقت حافظ حامد علی خادم ہوتا تھا اور کوئی نہ تھا ۔ جہاں اب مہمان خانہ اور مفتی محمد صادق صاحب کا مکان ہے ۔ اس کے پاس بڑی چوڑی کچی فصیل ہوتی تھی ۔
{ 1018} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضور علیہ السلام کی جالندھر کی ملاقات اول کے بعد دو ماہ کے قریب گزرنے پر مَیں قادیان گیا۔ اس کے بعد مہینے ڈیڑھ مہینے بعد اکثر جایا کرتا تھا۔ ایک دفعہ چار ماہ بعد گیا تو حضور نے فرمایا ’’ کیا کوئی معصیت ہوگئی ہے جو اتنی دیر لگائی‘‘ میں رونے لگا ۔ اس کے بعد میں جلدی جلدی قادیان جایا کرتا تھا۔
{ 1019} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ملاقات کے بعد میں قادیان جاتا رہا۔ بہت دفعہ ایسا ہوتا رہا کہ جمعہ کی نماز میں پڑھاتااور حضرت صاحب اور حافظ حامد علی صرف مقتدی ہوتے ۔ میں نے کہا مجھے خطبہ پڑھنا نہیں آتا۔ حضور نے فرمایا ۔ کوئی رکوع پڑھ کر اور بیٹھ کر کچھ درود شریف پڑھ دو۔ انہی دنوں الٰہی بخش اکونٹنٹ، عبدالحق اکونٹنٹ اور حافظ محمد یوسف سب اورسیر تینوں مولوی عبد الحق صاحب غزنوی کے مرید تھے ۔ یہ بہت آیا کرتے تھے ۔ اکثر ایسا موقعہ ہواہے کہ میں قادیان گیا ہوں تو یہ بھی وہاں ہوتے۔
{ 1020} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حافظ محمد یوسف اور محمد یعقوب برادرش نے عبد اللہ صاحب غزنوی کا ایک کشف بیان کیا تھا کہ ’’قادیان سے ایک روشنی نمودار ہوگی۔ وہ ساری جہاں میں پھیلے گی مگر میری اولاد اُس سے محروم رہے گی‘‘ اور اُن تینوں میں سے کسی نے یہ بھی کہا کہ مرزا غلام احمد صاحب سے ممکن ہے یہ مراد ہو۔
مہدویت کے دعویٰ کے بعد اس واقعہ سے محمد یوسف صاحب انکاری ہوگئے ۔ تو حضرت صاحب نے مجھے حلفیہ شہادت کے لئے خط لکھا۔ کہ تمہارے سامنے محمد یوسف نے یہ واقعہ بیان کیا تھا ۔ میں نے محمدیوسف اور محمد یعقوب کو خط لکھا کہ یہاںمیرا اور محمد خاں صاحب کا جھگڑا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ نے ان الفاظ میں بیان کیا تھا اور میں کہتا ہوں کہ ان الفاظ میں بیان کیا تھا۔محمد یعقوب کا جواب امرتسر سے آیا ۔ جس میں میرے بیان کردہ الفاظ کی اُس نے تائید کی ۔ میں محمدیعقوب کا خط لے کر قادیان پہنچا۔ حضور بہت خوش ہوئے اور وہ خط شائع کردیا جس سے یہ لوگ بہت شرمندہ ہوئے ۔
محمد یوسف صاحب میرے ہم وطن تھے ۔ میرا اصل وطن قصبہ بڈھانہ ضلع مظفر نگر۔ یوپی ہے اور محمدیوسف صاحب بڈھانہ سے اڑھائی میل پر حسین پور کے رہنے والے تھے ۔