• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قادیانی شبہات کے جوابات (کامل )

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
جواب۳:دراصل اس آیت میں یہ بتانا مقصود ہے کہ مومن کے ہاتھ میں صرف ایک بینہ یعنی کتاب یا روشنی ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کے لئے ایک کامل نمونہ بھی موجود ہے۔ جو اس بینہ پر عمل کرکے اس کے راستہ کو بالکل صاف کردیتا اور ان میں بھی اس کتاب پر عمل کرنے کی طاقت پیدا کردیتا ہے۔ اور اسی طرح کتابوں کا نازل کرنا اور انبیاء کو ان کتابوں کی عملی تعلیم کا نمونہ بنانا یہ اﷲ تعالیٰ کی قدیم سے سنت رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آگے جن انبیاء کا ذکر آتا ہے وہ سب اپنی امتوں سے یہی خطاب کرتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف سے ایک بینہ پر ہیں۔ کیونکہ ہر نبی کی وحی اس کے حق میں بینہ ہی ہے۔ مگر اس میں ایک دوسری غرض یہ بھی ہے کہ یہ بینہ یعنی قرآن ایسی صاف ہے کہ اس کی شہادت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب اور پہلی امتوں میں بھی ہے۔
جواب۴:اس آیت شریف میں :’’ یتلوہ شاھدمنہ‘‘ سے مراد رحمت عالم ﷺ کی ذات اقدس ہے۔
(۱)… ’’ وجئنابک علیٰ ھولأشہیدا۰ نساء ۴۱‘‘
(۲)… ’’ ویکون الرسول علیکم شہیدا۰ بقرہ ۱۴۳‘‘
’’ یتلوہ شاھدمنہ‘‘ سرور کائنات ﷺ قرآن مجید پڑھتے تھے۔ اگر اس سے مراد معاذاﷲ مرزا ہے تو کیا غلام احمد قادیانی تک قرآن نہیں پڑھا گیا؟۔
جواب۵:اگر شاہد سے مراد مرزا غلام احمد قادیانی ہے ۔ اور یہ قرآن کی آیت کا مصداق ہے تو کیا چودہ سو سال میں اہم امر جو مدار ایمان تھا اس کا کہیں کسی زمانہ میں تذکرہ ملتا ہے؟۔ جبکہ مرزا نے خود (تذکرۃالشھادتین ص ۲۰ روحانی خزائن ص ۶۲ ج ۲۰) پر لکھا ہے کہ:
’’ مگر وہ باتیں جو مدار ایمان ہیں اور جن کے قبول کرنے اور جاننے سے ایک شخص مسلمان کہلاسکتا ہے وہ ہر زمانہ میں برابر شائع ہوتی رہیں۔‘‘

اعتراض نمبر۲۴: حتیٰ یمیزالخبیث من الطیب

قادیانی: ’’ ماکان اﷲ لیذر المومنین علیٰ ماانتم علیہ حتیٰ یمیز الخبیث من الطیب وماکان اﷲ لیطلعکم علیٰ الغیب ولکن اﷲ یجتبی من رسلہ۰ آل عمران ۱۷۹‘‘
استدلال : خدا تعالیٰ ہر مومن کو اطلاع علی الغیب نہیں دیتے بلکہ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہے گا بھیجے گا۔(مرزائی پاکٹ بک ص ۴۵۰)
جواب۱:آیت مذکورہ بالا میں ’’ بھیجے گا ‘‘کس لفظ کا ترجمہ ہے۔ اس آیت میں یہ لفظ قطعا نہیں البتہ اطلاع علیٰ الغیب کی خبر ہے۔ جو غیر نبی کو بھی تمہارے نزدیک ہوتی رہتی ہے۔( بحوالہ براہین احمدیہ ہر چہار حصص حصہ اول ص ۳۱۵) پر لکھا ہے کہ :
’’ یہ بھی ان کو معلوم رہے کہ تحقیق وجود الہام ربانی کے لیے جو خاص خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتا ہے اورامور غیبیہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایک اور بھی راستہ کھلا ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ امت محمدیہ میں جو سچے دین پر ثابت اور قائم ہے۔ ہمیشہ ایسے لوگ پیدا کرتا ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملہم ہوکر ایسے امور غیبیہ بتلاتے ہیں۔ جن کا تبلانا بجز خدائے وحدہ لاشریک کے کسی کے اختیار میں نہیں۔‘‘
اور اسی کتاب کے صفحہ۸۰ پر مرزا قادیانی نے لکھا ہے کہ :
’’ وحی رسالت بوجہ عدم ضرورت منقطع ہے۔‘‘
نیز رسلا میں عموم ہے اور قادیانیوںکا دعویٰ خاص کا ہے۔ لہذا تقریب نام نہ ہونے کی وجہ سے ان کی دلیل باطل ٹھہری ۔نیز یجتبیمیں اﷲ فاعل ہے جس سے مستقل نبی کا چننا ثابت ہوتا ہے۔جبکہ قادیانی لوگ مستقل نبی کے آنے کے قائل نہیں۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
جواب۲:نیز حکیم نور الدین نے مرزا غلام احمد قادیانی کی وفات پر یہی آیت پڑھ کر بیان کیا کہ یہ مؤمنوںکا امتحان اور جانچنا ہے اور دوسرے امتیاز بین المخلصین والمنافقین ہے۔لہذا اس آیت سے صرف ابتلا مراد ہے۔ جیسا کہ مرزا قادیانی کی موت پر تم کو آزمائش میں ڈالا گیا۔‘‘(ریویو آف ریلیجنز بابت جون ‘ جولائی ۱۹۰۸ء ص ۲۲۵ ج ۷)
حکیم نور الدین نے اس آیت کو کسی نبی کے آنے پر استدلال کرکے نہیں پڑھا تھا تاکہ اجرائے نبوت ثابت ہو۔
جواب۳:تمہارا یہ کہنا کہ تمیز پہلے ہوچکی تھی بھی غلط ہے۔ کیونکہ سورۃ توبہ میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ جو نزول کے اعتبار سے آخری ہے:
’’ من اھل المدینۃ مردوا علی النفاق لاتعلمھم نحن نعلمھم سنعذبھم مرتین یردون الیٰ عذاب غلیظ ۰ توبہ ۱۰۲‘‘ آل عمران آیت ۱۱۹ میں ہے: ’’ واذا لقوکم قالوا آمنا واذا خلوا عضوا علیکم الانامل من الغیض۰‘‘ تو یہ تمیز مومنوں ومنافقوں میں ہوکررہے گی ۔ اﷲ تعالیٰ ہر ایک کو نہیں بتائے گا۔ اپنے نبی کو بتائے گا اور تمیز ہوگی۔
جواب۴:اجتباء کا معنی کسی لغت کی کتاب میں ’’ بھیجنا ‘‘ نہیں۔ آیت کا ترجمہ یہ ہے :
{اور اﷲ ایسا نہیں کہ مومنوں کو اس حالت پر چھوڑ دے جس پر (آئے گروہ کفار ومنافقین) تم ہو (بلکہ خدا انہیں اس حالت سے بلند کرنا چاہتا ہے) یہاں تک کہ ناپاک کو پاک سے الگ کردے۔ (اور مومنین سے ہر قسم کی ایمانی اور عملی کمزوریاں دور کردے) اور اﷲ ایسا بھی نہیں کہ تم کو (اپنی ہدایات وقوانین کے )غیب پر اطلاع دے لیکن اﷲ تعالیٰ اپنے رسولوں میں سے جسے چاہتا ہے (اس مرتبہ پر) فضیلت بخشتا ہے۔(جیسا کہ محمد رسول اﷲ ﷺ کو چنا) سو تم اﷲ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائو اگر تم ایمان لائو اور تقویٰ اختیار کرو تو تمہیں بڑا اجر ملے گا۔ }
گویا اس آیت میں رسولوں کے سلسلہ کو جاری رکھنے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
جواب۵: سوال کرنے والوں نے کہا تھا کہ ہمیں فردا فردا غیب پر کیوں اطلاع نہیں دی جاتی؟۔ جواب میں فرمایا‘ یہ رسول کا کام ہے۔ آئندہ بعثت رسل کے متعلق نہ کسی نے سوال کیا نہ جواب دیا گیا۔
جواب۶:یہ کہنا کہ آئندہ رسول آئے گا یہ مطلب رکھتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے ذریعہ خبیث وطیب میں امتیاز نہیں ہوا۔ حالانکہ قرآن مجید فرماتا ہے : یحل لھم الطیبات ویحرم علیہم الخبائث۰ الاعراف ۱۵۷‘‘ ’’جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا۰ بنی اسرائیل ۸۱‘‘ حق آگیا اور باطل ہلاک ہوگیا ۔ بے شک باطل ہلاک ہونے والا ہی تھا۔ پس حق وباطل میں حضور ﷺ کے ذریعہ امتیاز قائم ہوچکا ہے۔ اس لئے اب کسی اور رسول کی ضرورت نہیں رہی۔
اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ ایسا نہیں کہ وہ مدعیان ایمان کو اسی طرح (منافق ومخلص مومن ملے جلے) ہی رہنے دے۔ حتیٰ کہ وہ بدباطن منافق اور مخلص مومن کے درمیان بالکل تمیز قائم کردے گا۔ چنانچہ تمیز کلی تبوک تک مکمل ہوگئی۔ مخلص مومن لوگ باقی رہ گئے اور منافق چھٹ گئے۔ حتیٰ کہ منافقین کے نام لے لے کر مسجد نبوی سے اٹھادیاگیا تھا۔

اعتراض نمبر۲۵: اھدناالصراط المستقیم

قادیانی: ’’ اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم ۰ فاتحہ‘‘
قادیانی استدلال : اے اﷲ ہم کو سیدھا راستہ دکھا ان لوگوں کا راستہ جن پر تونے اپنی نعمت نازل کی۔ گویا ہم کو بھی وہ نعمتیں عطا فرما۔ جو پہلے لوگوں کو تونے عطا فرمائیں۔ اب سوال یہ ہوتا ہے کہ وہ نعمتیں کیا تھیں۔ قرآن مجید میں ہے: یاقوم اذکرو انعمۃ اﷲ علیکم اذجعل فیکم انبیاء وجعلکم ملوکا۰ مائدہ ۳۰‘‘موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ اے قوم تم اپنے خدا کی نعمت کو یاد کرو جب اس نے تم میں سے نبی بنائے اور تم کو بادشاہ بنایا تو ثابت ہوا کہ نبوت اورباد شاہی دونوں نعمتیں ہیں۔ جو خدا تعالیٰ کسی قوم کو دیا کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں دعا سکھائی ہے اور خود ہی نبوت کو نعمت قرار دیا ہے اور دعا کا سکھانا بتاتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کی قبولیت کا فیصلہ فرماچکا ہے۔ لہذا امت محمدیہ میں نبوت ثابت ہوئی۔(احمدیہ پاکٹ بک ص ۴۶۷‘۴۶۶ مصنف عبدالرحمن خادم ۱۹۴۵ء آخری ایڈیشن )
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
جواب۱:اس آیت میں منعم علیہم کی راہ پر چلنے اور قائم رہنے کی دعا ہے نہ کہ نبی بننے کی۔ جس کے یہ معنی ہیں کہ ان کے طریق عمل کو نمونہ بنائیں۔ جیسا کہ ارشاد خدا وندی ہے : ’’ لقد کان لکم فی رسول اﷲ اسوۃ حسنۃ۰ احزاب ۲۱‘‘
جواب۲:اگر انبیاء کی پیروی سے آدمی نبی بن سکتا ہے تو خدا کی پیروی سے خدا بن جائے گا۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’ ان ھذا صراطی مستقیما فاتبعوں۰ انعام ۱۵۳‘‘ کیا گورنر کے راستہ پر چلنے والا گورنر بن جاتا ہے۔ یا چپڑاسی کے راستہ پر چلنے والا چپڑاسی بن جاتا ہے؟۔
جواب۳:نبوت دعائوں سے نہیں ملا کرتی ۔ اگر نبوت دعائوں سے ملے تو پھر نبوت کسبی ہوجائے گی۔ حالانکہ نبوت وہبی ہے۔ جیسے : ’’ اﷲ اعلم حیث یجعل رسالۃ۰ انعام ۱۲۴‘‘
جواب۴:حضور ﷺ نے بھی یہ دعا مانگی حالانکہ آپ ﷺ اس سے پہلے نبی بن چکے تھے۔ آپ ﷺ کا ہر نماز میں اھدنا الصراط المستقیم کے الفاظ سے دعا کرنا اس امر کی واضح دلیل ہے کہ اس سے حصول نبوت مراد نہیں۔
جواب۵:تیرہ سو برس میں کوئی نبی نہ ہوا تو کیا کسی کی بھی دعا قبول نہ ہوئی۔ جس مذہب میں کروڑوں آدمیوں کی دعا قبول نہ ہو تو اس کو پھر خیر امت کہلانے کا حق نہیں۔
جواب۶:اھدنا صیغہ جمع ہے۔ یعنی اﷲ تعالیٰ ہم سب کو نبی بنائے۔ اﷲ تعالیٰ نے مرزا قایانی کی بھی دعا قبول نہ کی۔ اگر مرزا قادیانی کے سب پیروکار نبی بن جاتے تو امت کہاں سے آتی؟۔
جواب۷:عورتیں بھی یہ دعا کرتی ہیں۔ کیا وہ بھی منصب نبوت پر فائز ہوسکتی ہیں۔ اگر جواب نفی میں ہے تو پھر انہیں یہ دعا کیوں سکھلائی جاتی ہے؟۔ اگر جواب ہاں میں ہے تو یہ تمہارے خلاف ہے۔
جواب۸:نبوت اور بادشاہت اﷲ تعالیٰ کی نعمت ہے۔ جیسا کہ سوال میں آیت ذکر کی گئی ۔ اب فرمائیے آپ کے قول کے مطابق مرزا نبی تو بنا مگر بادشاہ نہ بنا تو کیا آدھی دعا قبول ہوئی؟۔
جواب۹:شریعت اور کتاب بھی اﷲ تعالیٰ کی نعمت ہے بلکہ نعمت عظمیٰ ۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ واذکروا نعمت اﷲ علیکم وما انزل علیکم من الکتاب والحکمۃ۰ بقرہ ۲۳۱‘‘ تو پھر قادیانیو! تمہارے ہاں اس پر کیوں پابندی ہے۔ اگر دعا سے نبوت لینی ہے تو پھر نعمت تامہ یعنی تشریعی نبوت لینی چاہئیے۔ تاکہ ڈبل نعمت حاصل ہو۔ حالانکہ اس کے تم بھی قائل نہیں ہو۔
جواب۱۰:یہ کہ مرزا غلام احمد قادیانی شہادت القران ص ۵۶ روحانی خزائن ص ۳۵۲ ج ۶ میں آیت : ’’ اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم۰‘‘ کے تحت لکھتا ہے:
’’ پس اس آیت سے بھی کھلے کھلے طور پر یہی ثابت ہوا کہ خدا تعالیٰ اس امت کو ظلی طور پر تمام انبیاء کا وارث ٹھہراتا ہے ۔ تاکہ انبیاء کا وجود ظلی طور پر ہمیشہ باقی رہے اور دنیا ان کے وجود سے کبھی خالی نہ ہو۔‘‘
اس آیت سے مراد مرزا غلام احمد قادیانی وہ نبی ظلی لیتا ہے جو ہمیشہ ہمیشہ دنیا میں چلے آتے ہیں۔ جن سے دنیا کبھی بھی خالی نہیں رہی۔ (علماء ومجددین ) مگر امت مرزائیہ مرزا قادیانی سے پہلے آنحضرت ﷺکے بعد کسی نبی کو تسلیم نہیں کرتی۔ سو مرزا قادیانی کا مطلب اس کی امت کے مطلب سے بالکل جدا ہے۔ اب وہ خودفیصلہ کریں کہ امت درست کہتی ہے یا ان کا متنبی؟۔
جواب۱۱:نزول نعمت سے مراد نبوت کا ملنا نہیں۔ کیونکہ یہ نعمت مریم علیہ السلام پر بھی نازل ہوئی۔ فرمایا : ’’ واذکروا نعمتی علیک وعلیٰ والدتک۰ المائدہ ۱۱۰‘‘ {یعنی (اے عیسیٰ علیہ السلام)میری نعمت کو یاد کر (جو میں نے)تجھ پر اور تیری ماں پر کی۔}
ایساہی زید بن حارثہ ؓ پر انعام ہوا۔ فرمایا : ’’ واذتقول للذی انعم اﷲ علیہ۰ الاحزاب۳۷‘‘ {یعنی جب تو اسے جس پر اﷲ تعالیٰ نے انعام کیا کہتا تھا۔}
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
اسی طرح سب مسلمانوں پر انعام الٰہی ہوا کہ بھائی بھائی بن گئے: ’’وذکرو نعمۃ اﷲ علیکم ۔۔۔۔۔۔ فاصبحتم بنعمتہ اخوانا۰ آل عمران ۱۰۲‘‘ پس اس سے نبوت لازم نہیں آتی۔
جواب۱۲: ’’ اھدنا الصراط المستقیم۔۔۔۔۔۔ الخ‘‘ کی دعا منعم علیہ گروہ کی طرح استقامت کی راہ پر گامزن رہنے کی تمنا ہے۔ کیونکہ جو ممکن انعامات ہیں اسی راہ پر ملیں گے۔ مثلا ہر قسم کے انوار وبرکات اور محبت ویقین کامل اور تائیدات سماویہ اور قبولیت ومعرفت تامہ عزیمت واستقامت کے انعام جو امت محمدیہ ﷺ کے لئے مقرر ہیں۔
جواب۱۳:اگر نبوت طلب کرنے کی دعا ہے تو غلام احمد قادیانی نبی بن جانے کے بعد یہ دعا کیوں مانگتا تھا۔ کیا اسے اپنی نبوت پر یقین نہ تھا؟۔
جواب۱۴:مرزا قادیانی نے لکھا: ’’اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم۰‘‘ تو دل میں یہی ملحوظ رکھوکہ میں صحابہ اور مسیح موعود کی جماعت کی راہ طلب کرتا ہوں۔(تحفہ گولڑویہ ص ۱۲۴روحانی خزائن ص ۲۱۸ ج ۱۷)
مسیح موعود کی پچر تو خردجال (مرزا قادیانی)نے خود لگائی ہے۔ لیکن : ’’ اھدنا الصراط المستقیم‘‘ کا معنی مرزا کی راہ طلب کرنا نہ کہ مرزا (مسیح موعود )بننا۔ پس مرزا کے اس اقرارسے مرزائیوں کی دلیل کا مرزائیوں کے دلوں کی طرح خانہ خراب ہوگیا۔ اس آیت میں منعم علیہم کی نعمت طلب کرنے کی تعلیم نہیں دی گئی۔بلکہ ان کے راستہ پر چلنے کی دعا سکھلائی گئی ہے۔ انبیاء کا راستہ شریعت ومذہب ہے کہ وہ اس کی پابندی اور اتباع کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے ہیں۔ اگر نبوت طلب کرنے کی تعلیم دینی مقصود ہوتی تو : ’’ صراط الذین انعمت علیہم ‘‘ کی بجائے : ’’ اعطانا ماانعمت علیہم‘‘ ہوتا۔
جواب۱۵: ’’ اھدنا الصراط المستقیم۰‘‘ یہ دعا نبی کریم ﷺ نے بھی مانگی بلکہ یہ دعا مانگنا آپ ﷺ نے امت کو سکھلایا۔ لیکن یہ دعا آپ ﷺ نے اس وقت مانگی جب آپ ﷺ نبی منتخب ہوچکے تھے۔ قرآن مجید آپﷺ پر اترنا شروع ہوچکا تھا۔ ظاہر ہے کہ آ پ ﷺ اس دعا سے نبی نہیں بنے تو پھر اس دعا کا فائدہ؟۔چودہ سو سال میں امت میں سے کسی ایک کی یہ دعا قبول ہوئی یا نہ ۔ اگر ہوئی تو وہ کون ہے جو نبی بنا؟۔ اگردعا قبول نہیں ہوئی تو پھر امت خیر امت نہ ہوئی۔اگر صرف مرزا کی دعا قبول ہوئی تو وہ بھی تیسرا حصہ اس لئے کہ نبوت کے علاوہ بادشاہت بھی نعمت ہے۔ بادشاہت نہ ملی اور نبوت مستقلہ تشریعی وہ بھی نہ ملی۔ صرف غیر تشریعی ملی ۔ تو دعا کا صرف تیسرا حصہ قبول ہوا۔ جب سے آیت نازل ہوئی اس وقت سے لے کر آج تک اربوں لوگوں نے دعا مانگی مگر صرف ایک بار قبولیت ہوئی وہ بھی تیسرا حصہ۔(معاذاﷲ)
قابل غور
مرزائیوں کے لاہوری گروپ کے گرو محمد علی نے اپنی نام نہاد تفسیر بیان القرآن ص۵ج۱ میں اس نکتہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’ یہاں (منعم علیہم میں) نبی کا لفظ آجانے سے بعض لوگوں کو یہ ٹھوکر لگی ہے کہ خود مقام نبوت بھی اس دعا کے ذریعے سے مل سکتا ہے۔ اور گویا ہرمسلمان ہر روز بار بار مقام نبوت کو ہی اس دعا کے ذریعہ سے طلب کرتا ہے۔یہ ایک اصولی غلطی ہے اس لئے کہ نبوت محض موہبت ہے اور نبوت میں انسان کی جدوجہد اور اس کی سعی کو کوئی دخل نہیں۔ ایک وہ چیزیں ہیں جو موہبت سے ملتی ہیں اور ایک وہ جو انسان کی جدوجہد سے ملتی ہیں۔ نبوت اول میں سے ہے۔‘‘
محمد علی لاہوری کا کہنا ہے کہ :’’ بعض لوگوں کو ٹھوکر لگی ۔ یہ اصولی غلطی ہے۔‘‘ یہ ٹھوکر بعض لوگوں کو نہیں بلکہ محمد علی لاہوری کے چیف گرو مرزا غلام احمد قادیانی کو لگی اور پس اصولی غلطی کا وہ (مرزا قادیانی) ہی مرتکب ہوا ہے۔ چنانچہ ذیل کی عبارت ملاحظہ ہو۔ حقیقت الوحی ص ۱۰۰ خزائن ص ۱۰۴ ج ۲۲ پر مرزا قادیانی نے لکھا ہے:
’’افسوس کہ حال کے بعض نادان مسلمانوں نے اپنے اس نبی کریم کا کچھ قدر نہیں کیا۔ اور ہر ایک بات میں ٹھوکر کھائی۔ وہ ختم نبوت کے ایسے معنی کرتے ہیں جس سے آنحضرت ﷺ کی ہجونکلتی ہے نہ کہ تعریف ۔ آنحضرت ﷺ کے نفس پاک میں افاضہ اور تکمیل نفوس کے لئے کوئی قوت نہ تھی۔ اور وہ صرف خشک شریعت کو سکھلانے آئے تھے۔ حالانکہ اﷲ تعالیٰ اس امت کو یہ دعا سکھلاتا ہے: ’’ اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم۰‘‘ پس اگر یہ امت پہلے نبیوں کی وارث نہیں اور اس انعام میں سے ان کو کچھ حصہ نہیں تو پھر یہ دعا کیوں سکھلائی گئی۔‘‘
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
اور متضاد بات کو دونوں (گرواور چیلہ) ٹھوکر قرار دے رہے ہیں۔ کون سچا ہے ؟۔ یہ فیصلہ قارئین پر چھوڑتا ہوں۔

اعتراض نمبر۲۶: اﷲیصطفی من الملائکۃ

قادیانی: ’’اﷲ یصطفی من الملائکۃ رسلا ومن الناس۰ حج ۷۵‘‘
مرزائی استدلال: یصطفی مضارع ہے جو حال اور استقبال اور استمرار کے لئے ہے۔ مراد یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ فرشتوں اور انسانوں سے رسول چنتا ہے۔ اور چنتارہے گا۔ یہ آیت حضور ﷺ پر نازل ہوئی ثابت ہوا کہ حضور ﷺ کے بعد بھی نبی آئیں گے۔ حضور ﷺ واحد ہیں اور رسل جمع ہے۔ واحد پر جمع کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔
جواب۱:اس آیت میں کوئی ایسا لفظ نہیں جس سے ثابت ہو کہ حضور ﷺ کے بعد نبی معبوث ہوسکتے ہیں۔بلکہ اﷲ تعالیٰ نے اپنا قانون بیان فرمایا ہے کہ وہ فرشتوں میں سے رسول چنتا ہے۔ جو اﷲ تعالیٰ کا پیغام انبیاء علیہم السلا م پر لاتے ہیں اور انسانوں میں سے رسول چنتا ہے جو انسانوں میں اس کلام الٰہی کی تبلیغ کرتے تھے۔ اس سنت قدیم کی رو سے اب بھی یہ رسول بھیجا ہے۔ اس آیت سے پہلے معبود ان باطلہ کی تردید ہے کہ اگر وہ معبود حقیقی ہوتے تو وہ بھی اپنے رسول مخلوق کی طرف بھیجتے ۔
جواب۲:یہ کسی جاہل کا ہی عقیدہ ہے کہ ہر مضارع استمرار کے لئے ہوتا ہے۔ اس آیت میں صیغہ مضارع فعل کے اثبات کے لئے ہے نہ کہ استمرار وتجدد کے لئے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ’’ ھوالذی ینزل علیٰ عبدہ آیات بینت۰ الحدید ۹‘‘ یہاں بھی مضارع ہے کیا اس سے بھی لازم آتا ہے کہ اس میں استمرار ہو اور ہمیشہ قیامت تک کے لئے قرآن نازل ہوتا رہے ؟۔
مرزا جی کا الہام
’’یریدون ان یروا طمشک ‘‘ کہ بابو الٰہی بخش چاہتا ہے کہ تیسرا حیض دیکھے یا کسی پلیدی یا ناپاکی پر اطلاع پائے مگر خدا تعالیٰ تجھے اپنے انعامات دکھلائے گا جو متواتر ہوں گے۔ اور تجھ میں حیض نہیں بلکہ وہ بچہ ہوگیا ہے جو بمنزلہ اطفال اﷲ کے ہے۔ (تمتہ حقیقت الوحی ص ۱۴۳ روحانی خزائن ص ۵۸۱ ج ۲۲) یہاں بھی مضارع ہے کیا مرزا کا حیض قیامت تک چلتا رہے گا۔ اور بابو الٰہی بخش اسے ہمیشہ قیامت تک دیکھتے رہیں گے؟۔
درحقیقت اس آیت میں یصطفی زمانہ استقبال کے لئے نہیں بلکہ حکایت ہے حال ماضیہ کی۔ جیسے باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: فریقا کذبتم وفریقا تقتلون۰ بقرہ ۸۷‘‘ اس کے یہ معنی نہیں کہ اے یہود یو! حضرت محمد ﷺ کے بعد جو نبی آئیں گے تم ان کو قتل کرو گے بلکہ حکایت ہے حال ماضیہ کی یا جیسے :’’اذ یرفع ابراھیم القواعد‘‘ میں بھی حکایت ہے حال ماضیہ کی ۔(دیکھو تفسیر بیضاوی)
جواب۳:فرمایا : ’’ اﷲ یصطفی من الملائکۃ رسلا ومن الناس‘‘ فرشتوں میںیا انسانوں سے رسول ہوں گے۔ مرزا قادیانی نہ تو فرشتے ہیں اور نہ انسان ہیں۔ کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ:
کرم خاکی ہوں میرے پیارے نہ آدم زاد ہوں
مرزا جی تو کسی حالت میں نبی نہیں بنتے۔ خود مرزا صاحب ہماری تائید کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’ ایک عام لفظ کو کسی خاص معنے میں محدود کرنا صریح شرارت ہے۔‘‘(نورالقران نمبر۲ص۶۹ روحانی خزائن ص ۴۴۴ ج ۹)
جواب۴:آیت بالا کا قادیانی ترجمہ ملاحظہ ہو: لکھتے ہیں اﷲ یصطفی کا مطلب یہ ہے کہ عندالضرورت خدا تعالیٰ رسول بھیجتارہے گا۔(مرزائی تبلیغی باکٹ بک ص ۴۵۰) پہلی بات تو یہ ہے کہ ’’ عندالضرورت ‘‘ آیت کے کس لفظ کا ترجمہ ہے؟۔ حالانکہ مرزا قادیانی نے لکھا کہ:’’ اب رسولوں کی ضرورت نہیں۔وحی رسالت بوجہ عدم ضرورت منقطع ہے۔‘‘ (براہین احمدیہ ہرچہار حصص حصہ اول حاشیہ ص ۲۱۵ خزائن ص ۲۳۸ ج ۱)
اور اسی طرح ازالہ اوہام ص ۲۵۳ خزائن ص۴۳۲ ج ۳ میں بھی لکھا ہے کہ:’’ وحی رسالت تابقیامت منقطع ہے۔‘‘
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
جواب۵:بایں وجہ استدلال مرزائیہ باطل ہے کہ لفظ ’’رسلا‘‘ کے اندر عموم ہے جس میں نبی اور رسول ومجدد ومحدث سب شامل ہیں۔ جیسا کہ مرزانے آئینہ کمالات ص ۳۲۲ خزائن ص ۳۲۲ ج ۵ پر لکھا ہے :’’ رسول کا لفظ عام ہے جس میں رسول اور نبی اور محدث داخل ہیں۔‘‘
ایسے ہی ایام الصلح ص ۱۹۵ خزائن ص ۴۱۹ ج ۱۴ حاشیہ پر لکھا ہے کہ :’’رسولوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجے جاتے ہیں۔ خواہ وہ نبی ہوں یا رسول یا محدث یا مجدد ہوں۔‘‘
اسی طرح شہادت القرآن ص ۲۸ خزائن ص ۳۲۳ ج ۶ پر ہے :’’رسل سے مراد مرسل ہیں خواہ وہ رسول ہوں یا نبی ہوں یا مجدد ہوں۔‘‘
سو ظاہر ہے کہ مرزائیوں کا دعویٰ فرد خاص کا ہے۔ دلیل میں عموم ہے لہذا تقریب تام نہ ہونے کی وجہ سے استدلال باطل ہے تو دلیل ‘ دلیل نہ ٹھہری۔
جواب۶:نیز چننے والے نبیوں کے اﷲ تعالیٰ ہی ہیں۔ اصطفی فعل خدا وندی ہے اور اﷲ تعالیٰ کا چنا ہوا مستقل نبی ہوتا ہے جیسا کہ آل عمران آیت نمبر۳۳میںالفاظ قرآن ہیں: ’’ان اﷲ اصطفی آدم ونوحا وآل ابراھیم وآل عمران علی العالمین۰‘‘ اس آیت میں مستقل نبیوں کا ہونا مسلم ہے تو ویسے اﷲ تعالیٰ کا چننا آپ کے عقیدہ کے خلاف ہے۔ (مباحثہ راولپنڈی ص ۱۷۵)
جواب۷:خدا تعالیٰ کی مشیت پر ہے ۔ جس طرح اس نے ایک وقت تک کتابیں بھیجیں اسی طرح رسول بھیجے ۔ اب اگر وہ کتابیں نہ بھیجے یا رسول نہ بھیجے اور نبوت ختم کردے تو اس پر کوئی الزام نہیں آتا۔سیاق کلام بتاتا ہے کہ آیت میں ان لوگوں کے خیال کی تردید ہے جو انسانوں کو الوہیت کا مقام دیتے ہیں۔ فرمایا معززترین گروہ تو انبیاء ورسل کا ہے۔ مگر وہ بھی الوہیت کے اہل نہیں یا بطور اصول فرمایا گیا کہ اﷲ تعالیٰ انسانوں اور ملائکہ کو رسالت کا منصب تو دیتا ہے مگر خدائی نہیں دیتا۔ تم کیوں ان کی طرف خدائی منسوب کرتے ہو؟۔ سیاق کلام کے ساتھ مذکورہ ترجمہ پر غور کرلیا جائے تو قایانی استدلال باطل ہوجائے گا۔ : ’’یا ایھا الناس ضرب مثل۔۔۔۔۔۔۔ ترجع الامور۰ الحج ۷۳‘۷۴‘‘ {اے لوگو ایک مثال بیان کی جاتی ہے اسے غور سے سنو۔ وہ جنہیں تم اﷲ کے سوا پکارتے ہو ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے۔ گو وہ سب اس کے لئے اکھٹے ہوجائیں۔ اور اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین کر لے جائے تو اسے اس سے چھڑا نہیں سکتے۔ طالب اور مطلوب دونوں کمزور ہیں۔ انہوں نے اﷲ تعالیٰ کو نہیں پہچانا جیسا کہ پہچاننے کا حق ہے۔ یقینا اﷲ طاقتور غالب ہے۔ اﷲ فرشتوں اور انسانوں میں سے رسولوں کا اصطفاء کرتا ہے ۔ اﷲ سمیع وبصیر ہے۔ وہ جانتا ہے کہ جو ان کے آگے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے اور اﷲ ہی کی طرف سب کام لوٹائے جائیں گے۔}
جواب۸:اگر اس طرح استمرارتجددی مراد لینا جائز ہے تو ذیل کی آیات میں کیسے استمرار لیا جائے گا:
(۱)… ’’ کذالک یوحی الیک والی الذین من قبلک اﷲ العزیز الحکیم۰ شوریٰ ۲‘‘ {اﷲ جو عزیزو حکیم ہے اسی طرح تیری طرف اور ان کی طرف جو تجھ سے پہلے ہوئے وحی کرتا ہے۔}
(۲)… ’’ان اﷲ یامٔرکم ان تؤدوا الامانات الیٰ اھلھا۰نساء ۵۸‘‘ {اﷲ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ اپنی امانتیں ان کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں۔}
(۳)… ’’ یحکم بھا النبیون الذین اسلموا۰ المائدہ ۴۴‘‘ {یعنی اسی کے مطابق نبی جو فرمانبردار تھے فیصلہ کرتے تھے۔}
اب کیا آنحضرت ﷺ کی طرف وحی آئندہ بھی نازل ہوگی۔ کیا آمانات کے متعلق آئندہ بھی احکام نازل ہوں گے۔ کیا تورات کے مطابق آئندہ بھی نبی فیصلے کیا کریں گے؟۔
جواب۹: استمرارتجددی کے لئے اصول حسب ذیل ہے: ’’ وقد تفید الاستمرار التجددی بالقرائن اذا کان الفعل مضارعا‘‘ (قواعداللغۃ العربیہ) یعنی استمرار تجددی کا اندازہ قرائن سے لگایا جاتا ہے۔ اور بعد خاتم النبیین ‘ارسال رسل کے لئے توکوئی قرینہ نہیں۔ البتہ اس کے خلاف تمام قرآن مجید قرینہ ہے۔
جواب۱۰:ضرورت نبوت کے مقتضیکون کون سے اسباب ہیں؟۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
(۱)… جبکہ کتاب اﷲ اصلا مفقود ہوجائے۔
(۲)… جبکہ کتاب اﷲ محرف ومبدل ہوجائے۔
(۳)… جبکہ احکام الٰہی میں سے کوئی حکم بوجہ مختص باالقوم ہونے یا مختص باالزمان ہونے سے قابل تنسیخ ہو یا کوئی نیا حکم آنا ہو۔
(۴)… جبکہ شریعت میں ابھی تکمیل کی ضرورت ہو۔
(۵)…جبکہ الگ الگ امتوں اور الگ الگ ملکوں کے لئے الگ الگ نبی ہوں اور ساری دنیا کے لئے ابھی ایک نبی نہ آیا ہو۔
(۶)… جبکہ اس کتاب کے ہمیشہ تک محفوظ رہنے کا وعدہ الٰہی نہ ہو۔
(۷)… جبکہ اس نبی کا فیض روحانی بندہو جائے اور اس دین میں کامل انسان بنانے کی طاقت نہ رہے۔
قارئین پر واضح ہوچکا ہوگا کہ اجرائے نبوت کے مذکورہ تقاضوں میں سے کوئی بھی ایسا تقاضا باقی نہیں رہ گیا ہے جس کی تکمیل کے لئے کسی اور نبی کی بعثت کی ضرورت ہو۔ لہذا ختم نبوت میں کوئی شبہ باقی نہیں رہ جاتا۔
جواب۱۱: اگر رسل جمع ہے تو ملائکہ بھی جمع ہے۔ کیا بہت سے فرشتے وحی لایا کرتے ہیں؟ نہیں ہر گز نہیں۔ بلکہ صرف حضرت جبرائیل علیہ السلام۔ مرزا قادیانی نے لکھا ہے۔
(الف)…’’ رسولوں کی تعلیم اور اسلام کے لئے یہی سنۃ اﷲ قدیم سے جاری ہے۔ وہ جو بواسطہ جبرائیل علیہ السلام کے اور بذریعہ نزول آیات ربانی کلام رحمانی کے سکھلائے جاتے ہیں۔‘‘(ازالہ ص ۵۸۴ خزائن ص ۴۱۵ ج ۳)
(ب)… ’’ کیونکہ حسب تصریح قرآن کریم رسول اسی کو کہتے ہیں جس نے احکام وعقائد دین جبرائیل کے ذریعہ حاصل کئے ہوں۔‘‘(ازالہ ص ۵۳۴ خزائن ص ۳۸۷ ج ۳)
پس جب پیغام رساں فرشتہ کو باوجود واحد ہونے کے جمع کے صیغہ سے ذکر کیا گیا ہے تو پھر حضرت نبی کریم ﷺ (واحد) پر اس کا اطلاق کیوں ناجائز ہے؟۔

اعتراض نمبر۲۷: فلایظھرعلیٰ غیبہ احدا

قادیانی: اس آیت : ’’ فلایظھر علیٰ غیبہ احدا ۰ جن ۲۶‘‘ کو پیش کرکے کہتے ہیں کہ چونکہ مرزاصاحب پر اظہار غیب ہوا یعنی آپ کو پیشگوئیاں دی گئیں۔ لہذا وہ نبی ہیں اور نبوت جاری ہے۔
جواب۱:خود مرزا صاحب نے اس آیت کا جو معنی ومفہوم بیان کیا ہے ملاحظہ ہو: ’’ فلایظھر علیٰ غیبہ احدا الا من ارتضی من رسول‘‘ یعنی کامل طور پر غیب کا بیان کرنا صرف رسولوں کا کام ہے۔ دوسرے کو یہ مرتبہ عطا نہیں ہوتا۔ رسولوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجے جاتے ہیں۔ خواہ وہ نبی ہوں یا رسول یا محدث اور مجدد ہوں۔(ایام الصلح ص ۱۷۱ خزائن ص ۴۱۹ ج ۱۴)
اسی طرح ایک اور جگہ لکھتے ہیں: ’’ فلا یظھر علیٰ غیبہ احدا الامن ارتضی من رسول ‘‘ رسول کا لفظ عام ہے۔ جس میں میں رسول اور نبی اور محدث داخل ہیں۔(آئینہ کمالات اسلام ص ۳۲۳ روحانی خزائن ص ۳۲۲ ج ۵)
پھر ایک اور جگہ مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ : ’’ الیوم اکملت لکم دینکم ‘‘ اور آیت : ’’ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین‘‘ میں صریح نبوت کو آنحضرت ﷺپر ختم کرچکا ہے۔(تحفہ گولڑویہ ص ۵۱ خزائن ص ۱۷۴ ج ۱۷)
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
مذکورہ حوالہ جات اور لم یبق من النبوۃ الا المبشرات جیسی احادیث کی روشنی میں زیر بحث آیت کا صرف یہ مفہوم ہے کہ علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل کے مطابق امت محمدیہ ﷺ میں بڑے بڑے بزرگ اولیاء اﷲ‘ مجدد ومحدث‘ غوث وقطب وابدال پیدا ہوتے رہیں گے۔ جو اﷲ تعالیٰ سے ہمکلامی کا شرف پائیں گے۔ یہ لوگ اگرچہ نبی اور رسول نہ ہوں گے اﷲ تعالیٰ ان سے وہی کام لے گا جوا نبیاء سے لیا کرتا تھا۔ جن میں سے ایک اظہار واطلاع غیب بھی ہے۔
جواب۲: مرزا صاحب نے یوں تو بہت سی پیشگوئیوں کو خدا کی طرف منسوب کیا ہے۔ مگر خود ان پیشگوئیوں کا نہ مطلب سمجھ سکے نہ مصداق۔ کاش ! قادیانی حضرات مرزا صاحب کی ان پیشگوئیوں پر ہی سرسری نظر ڈال لیں جن کو انہوں نے اپنے صدق وکذب کا معیار قرار دیا ہے۔ تو ان کے دعویٰ کی حقیقت بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے۔ مرزا کی پیشگوئیوں کا حال تو نجومی اور رسال سے بھی برا ہے۔ ان میں دس جھوٹ تو ایک سچ ہوتا ہے۔ مگر مرزا میں تو جھوٹ ہی جھوٹ تھا۔
جواب۳:غیب سے مراد صرف پیشگوئیاں ہی نہیں ماضی حال اور مستقبل کی ہر چیز جومحسوسات سے غائب ہو ’’ غیب ‘‘ ہے۔ ذرا ’’یؤمنون بالغیب‘‘ پر غور کیا جائے۔
حضرت نوح علیہ السلام کے واقعات کا ذکر کرکے فرمایا : ’’ تلک من انبآء الغیب نوحیھا الیک ماکنت تعلمھا انت ولا قومک من قبل ھذا۰ ھود ۴۹‘‘ کہ یہ غیب کی خبریں ہیں جن سے تو اور تیری قوم دونوں بے خبر تھے۔
کائنات کے متعلق علم کس قدر ہی کیوں نہ بڑھ جائے ایک حصہ غیب کا ضرور رہتا ہے۔ اسی لئے فرمایا : ’’ عالم الغیب والشھادۃ۰ حشر ‘‘ خدا غیب کو بھی جانتا ہے اور موجود کو بھی۔ اﷲ تعالیٰ کے لئے کوئی چیز غائب نہیں البتہ تمہارے لئے ایک حصہ غیب کا ہے او دوسرا موجود کا۔ ہم غیب کے ایک حصہ کا علم حاصل کرتے چلے جاتے ہیں اور وہ ہمارے لئے موجود بنتا چلا جاتا ہے۔مگر غیب کی بعض قسمیں ایسی ہیں جن پر ہم اپنی کوشش سے غالب نہیں آسکتے۔ مثلا خدا کی ذات وصفات ‘ احکام وشرائع اور مابعد الموت۔ یہ صرف نبی کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے بتایا جاتا ہے اور اسی کے توسط سے انسانوں کو ملتا ہے۔ پیشگوئیوں والا غیب تو اولیاء اور محدثین کو بھی حاصل ہوتا ہے۔ مگر حقیقی غیب صرف انبیاء سے مخصوص ہے۔ اس قسم کا ہرغیب رسول اﷲ ﷺ کے ذریعہ امت کو دیا جاچکا ہے۔ اس لئے مزید کسی نبوت کی گنجائش نہیں۔
جواب۴:اے کاش ! اس اعتراض سے قبل قادیانی کچھ خوف خدا کرتے کیا ان کو نہیں معلوم کہ اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ جس کو رسول بنانا چاہتا ہے اس کو غیب کی خبریں دے کر رسالت عطا کردیتا ہے۔ مغیبات کی خبریں دے کر رسول بنانا آیت کا مفہوم نہیں بلکہ رسول بناکر مغیبات پر مطلع کرناآیت کا مفاد ہے۔ چنانچہ قاضی بیضاوی اس آیت کے معنی بیان کرتے ہیں:
’’ ولکن اﷲ یجتبی الرسالتہ من یشاء فیوحی الیہ ویخبرہ ببعض المغیبات‘‘ {یعنی اﷲ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اپنا رسول بنالیتا ہے۔ اور پھر اس کے ذریعہ سے مغیبات کی خبریں دیتا ہے۔}
غرض رسول کو غیب کی خبریں دی جاتی ہیں۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ جو غیب کی خبردے وہ رسول ہوجائے۔ ورنہ تو خود مرزا کو بھی تسلیم ہے کہ فاسق فاجر فاحشہ عورتیں بھی سچے خواب کے ذریعہ نجومی کاہن اپنے اٹکل پچو سے غیب کی خبریں دیتے ہیں۔ کیا وہ رسول ہیں؟ ہر گز نہیں۔ غرض آیت سے اتنا ثابت ہے کہ رسول کو غیب کی خبر دی جاتی ہے۔ یہ نہیں کہ جو غیب کی خبر دے دے وہ رسول ثابت ہوجائے۔
جواب۵: ’’ وماکان اﷲ لیطلعکم علی الغیب ولکن یجتبی من رسلہ من یشائ۰‘‘ دوسری آیت شریفہ میں ہے : ’’ فلا یظھر علیٰ غیبہ احدا الا من ارتضی من رسول ۰‘‘ دونوں آیتوں کی مراد یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ غیب کی خبریں رسولوں میں سے کسی ایک رسول کے ذریعہ سے دیتا ہے۔اس صورت میں من رسلہ میں لفظ من تبعیضیہ ہوگا۔ اور اگر من بیانیہ لیں تو غیب سے مراد وحی (وحی رسالت) لینی پڑے گی۔ پھر آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ اﷲ تعالیٰ وحی پر سوائے رسولوں کے کسی کو مطلع نہیں کرتا۔ غرض یہ کہ اﷲ جسے رسول بناتا ہے ۔ تو ان کو وحی رسالت ‘غیب کی خبریں عنایت کرتا ہے۔اس آیت سے قادیانی استدلال قادیانی دعویٰ کے بھی خلاف ہے۔ اس لئے کہ ان کے دعویٰ کے مطابق اب خدا کی عنایت سے کوئی نبی نہیں ہوسکتا۔ بلکہ اطاعت سے بنتا ہے۔ اگر اس آیت میں قادیانیوں کا تحریف شدہ مفہوم بھی معاذاﷲ مان لیں تب بھی قادیانی دعویٰ کے مطابق نہیں۔

اعتراض نمبر۲۸: یلقی الروح من امرہ

 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
قادیانی: ’’یلقی الروح من امرہ علی من یشائ۰ مومن ۱۵‘‘ اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اپنی روح ڈالتا ہے۔ یعنی منصب نبوت اس کو بخشتا ہے۔لہذا ثابت ہوا کہ نبی آتے رہیں گے۔
جواب۱:آیت مذکورہ میں روح کے معنی نبوت کے نہیں ہیں۔بلکہ اس کے یہی معنی ہیں جیسا کہ حدیث نبوی ﷺ میں آیا ہے کہ : ’’لھم البشریٰ فی الحیٰوۃ الدنیا۰‘‘ یعنی مومنوں کے لئے مبشرات باقی رہ گئے ہیں۔ یا فرمایا : ’’ لم یبق من النبوۃ الا المبشرات۰‘‘ کہ خداکا کلام مبشرات کے رنگ میں امت محمدیہ ﷺ کے لئے باقی رکھا گیا ہے۔ چنانچہ اسی کے تحت گذشتہ چودہ سو سال میں ہزار ہا اولیائے امت اور علماء حق کو انوار نبوت ملے اور آثار نبوت بھی ان کے اندر موجزن تھے مگر وہ نبی نہ تھے۔
جواب۲: روح کا لفظ محض کلام کے معنی میں آتا ہے۔ اور اﷲ تعالیٰ کا کلام غیر نبی سے بھی ہوتا ہے۔ جیسا کہ حدیث صحیح : ’’ رجال یکلمون من غیر ان یکونوا انبیاء ۰‘‘ سے ظاہر ہے۔ پس اﷲ تعالیٰ کا اپنے بندوں سے کلام کرنا اجرائے نبوت کی دلیل نہیں بن سکتی۔

اعتراض نمبر۲۹: ولا تنکحوا ازواجہ

قادیانی: ’’ ولا تنکحوا ازواجہ من بعدہ ابدا۰ احزاب ۵۳‘‘ {اور نہ نکاح کرو اس نبی ﷺ کی بیویوں سے اس کی وفات کے بعد کبھی۔}
قادیانیوں کی طرف سے سب سے زیادہ مضحکہ خیز استدلال اس آیت کی بنا پر کیا گیا ہے۔ کہ اب اگر آنحضرت ﷺ کے بعد سلسلہ نبوت ختم ہوگیا ہے تو کوئی نبی نہ آئے گا۔ نہ اس کی وفات کے بعد اس کی بیویاں زندہ رہیں گی۔ اور نہ ان کے نکاح کا سوال ہی زیر بحث آئے گا۔ اب اگر اس آیت کو قرآن سے نکال دیا جائے تو کونسا نقص لازم آتا ہے۔۔۔ ورنہ ماننا پڑتا ہے ۔۔۔کہ آنحضرت ﷺ کے بعد سلسلہ نبوت جاری ہے۔ اور قیامت تک انبیاء کی ازواج مطہرات ان کی وفات کے بعد بیوگی ہی کی حالت میں رہیں گی۔ کیونکہ رسول اﷲکا لفظ نکرہ ہے جس میں ہر رسول داخل ہے۔
جواب۱:رسول اﷲکا لفظ معرفہ ہے اور یہاں بھی وہی رسول اﷲ مراد ہے جس کا اس سورۃ میں کئی بار ذکر آچکا ہے۔ جیسے :
’’لقد کان لکم فی رسول اﷲ اسوۃ حسنۃ ۰ احزاب ۲۲‘‘ {تمہارے لئے رسول اﷲ ﷺ میں اسوئہ حسنہ ہے۔}
’’ قالو ھذا ماوعدنا اﷲ ورسولہ۰ احزاب۲۱‘‘ {مومنوں نے کہا یہی ہے جس کا اﷲ نے اور اس کے رسول ﷺ نے وعدہ دیا تھا۔}
’’ ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین۰ احزاب ۴۰‘‘ {مگر اﷲ کا رسول اور آخری نبی ہے۔}
’’ ان کنتن تردنا اﷲ ورسولہ ۰ احزاب ۲۹‘‘ {اگر تم اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کوچاہتی ہو۔}
اور وہی رسول اﷲ مراد ہے جس کے متعلق کتب حدیث میں ہزار ہا مرتبہ یہ الفاظ آتے ہیں:’’ قال رسول اﷲ ﷺ‘‘ کیا کوئی بندہ جاہل یہ کہہ سکتا ہے کہ قال رسول اﷲ ﷺ نکرہ ہے۔ تو اس سے مراد مرزا قادیانی ہے۔ معاذاﷲ
جواب۲:نحو کا مسلمہ قاعدہ ہے کہ اضافت معنوی نکرہ کو معرفہ بنادیتی ہے۔ جیسے عندہ زید ‘ لفظ رسول ‘ اﷲ کی طرف مضاف ہوکر معرفہ ہوگیا ۔ فرمایا : ’’ محمد رسول اﷲ والذین معہ۰ فتح ‘‘
جواب۳: یہ کہنا کہ اب کوئی نبی نہ آئے گا تو اس آیت کی کیا ضرورت ہے ایسا ہی ہے جیسے کوئی یہ کہہ دے کہ :
(۱)… آدم علیہ السلام کے بے ماں باپ یا عیسیٰ علیہ السلام کے بے باپ ہونے کا ذکر قرآن سے نکال دئیے جانے کے قابل ہے۔ کیونکہ اب کوئی اس طرح پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہوگا۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
(۲)… یا یہ کہے کہ : ’’ فلما قضی زید منھا وطرا زوجنکھا۰‘‘ سے ظاہر ہے کہ آئندہ رسول بھی منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے شادی کیا کریں گے۔ ورنہ اس آیت کو نکال دیا جائے۔
جواب۴: قرآن مجید میں اس آیت کے باقی رکھنے کی ضرورت یہ تھی کہ امراء وفات پر عرب معاشرت میں ان کی ازواج سے شادی کرنا فضیلت میں شمار ہوتا تھا۔ اور قرآن نے سورۃ نور میں بیوائوں سے نکاح کا حکم دیا ہے۔ قرآن نے صریح حکم دیا کہ حضور ﷺ کی ازواج سے نکاح نہ کیا جائے۔ وہ آخری امہات المومنین ہیں اور آپ ﷺ بوجہ خاتم النبیین ہونے کے آخری ’’باپ‘‘ ہیں۔اگر یہ حکم مذکور نہ ہوتا تو اس فضیلت کے حصول کے لئے کوشش کرتے۔ اس سے امت میں فتنہ وفساد پیدا ہوتا اور ازواج مطہرات کی پوزیشن بجائے امت کی معلمات دین ہونے کی معمولی بھی نہ رہتی۔ اس لئے اس تاریخی حکم کا تا قیامت باقی رکھنا ضروری تھا۔ تاکہ معلوم ہوکہ یہ خواتین مقدسہ آخری مائیں ہیں اور حضور اقدس ﷺ آخری باپ ہیں۔
جواب۵: یہ آیت مبارکہ حضور سرورکائنات ﷺ کی شان وفضیلت کا اظہار کرتی ہے جو کہے کہ اسے نکال دو۔ وہ حضور ﷺ کی فضیلت کو مٹانے والا ہے ۔ اس لئے ملعون کافر وجہنمی ہے۔ وہ یہود کا مثیل ہے کل ایسے خبیث کہیں گے کہ قرآن مجید سے گذشتہ انبیاء علیہ السلام کے قصص نکال دینے چاہئیں۔ کیونکہ وہ انبیاء گزر چکے ہیں۔ جیسا کہ لعین قادیانی نے کہا :
ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو
اس سے بہتر غلام احمد ہے​
(درثمین اردوص۵۳‘خزائن ص۲۴۰ج۱۸‘رافع البلاء ص۲۴)​
جو ایسی بیہودہ تحریف کرے اس سے متعلق لعین قادیانی نے کہا :
’’ تحریف ‘تغیر کرنا بندروں اور سؤ روں کا کام ہے۔‘‘ (اتمام الحجۃ ص ۱۵‘۱۴‘ روحانی خزائن ص ۲۹۱ج ۸)

اعتراض نمبر۳۰: ان رحمۃ اﷲ

قادیانی: ’’ ان رحمۃ اﷲ قریب من المحسنین ۰ اعراف ۵۶‘‘ نبوت بھی ایک رحمت ہے وہ بھی نیکوں کو ملنی چاہئیے۔
جواب۱:مال ‘ دولت‘ جاہ وسطلنت‘ ایمان ‘ بارش ‘ نبوت یہ سب باری تعالیٰ کی رحمتیں ہیں۔ اس آیت میں جملہ رحمتیں مراد نہیں۔ ورنہ مال وجاہ سلطنت اکثرمحسنین خصوصا انبیاء علیہم السلام ان رحمتوں سے خالی تھے۔ پس ثابت ہوا کہ ہر رحمت ہر ایک کے لئے ضروری نہیں۔ نہ ہر امت کے ہر فرد کے لئے۔بلکہ باری تعالیٰ کی مرضی پر ہے جب چاہیں جس کو چاہیں جتنا چاہیں جو چاہیں دے دیں۔ اور جس کی چاہیں بندش فرمادیں۔
جواب۲: ’’ وماارسلناک اﷲ رحمۃ العالمین۰‘‘ رب کریم کی اس امت کے لئے ‘تمام جہانوں کے لئے اس وقت سب سے بڑی رحمت‘ رحمت دو عالم ﷺ کی ذات اقدس ہے۔ جوشخص اب آنحضرت ﷺ کے بعد کسی اور نبوت کو تلاش کرتا ہے یا جاری مانتا ہے۔ وہ رب کریم کی سب سے بڑی نعمت (محمد عربی ﷺ) سے منہ موڑتا ہے۔ اس سے بڑھ کر بدنصیب کون ہوگا۔ جسے حضور ﷺ جیسی سراپا رحمت ربی ملے اور وہ پھر کسی اور طرف کا سوچے۔ اس کو حضور ﷺ نے یوں بیان فرمایا :
’’ انا حضکم من الانبیاء وانتم حضی من الامم۰‘‘ {نبیوں میںسے میں محمد ﷺ تمہارے حصہ میں آیا ہوں اور امتوں میں سے تم (امت محمدیہ) میرے حصہ میں آئے ہو۔}
نبی کے بدلنے سے امت بدل جایا کرتی ہے۔ حضور ﷺ کے بعد جو شخص کسی اور کو نبی مانے گا وہ حضور ﷺ کی امت میں نہیں رہے گا۔ گویا وہ رب کریم کی سب سے بڑی نعمت (محمد عربی ﷺ) سے محروم ہوجائے گا۔ خود مرزا نے بھی لکھا ہے : ’’ فلا حاجۃ لنا الیٰ نبی بعد محمد۰ حمامۃ البشریٰ ص ۶۰ خزائن ص ۲۴۴ ج ۷‘‘
 
Top