محمد اسامہ حفیظ
رکن ختم نبوت فورم
بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ کی تفسیر
یعنی یہودی حضرت مسیح کو نہ قتل کر سکے اور نہ صلیب دے سکے بلکہ اﷲتعالیٰ نے حضرت جبرائیل کے ذریعہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی طرف یعنی آسمان پر اٹھا لیا جیساکہ امام رازی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ’’ وَاَیَّدْنَاہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ ‘‘ کی تفسیر میں ذکر کیا ہے کہ حضرت جبرائیل کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ خاص خصوصیت تھی کہ انہیں کے نفخہ سے پیدا ہوئے۔ انہیں کی ترتیب میں رہے اور وہی ان کو آسمان پر چڑھا کر لے گئے۔ (تفسیر کبیر ج۱ ص۴۳۶)جیسا کہ شب معراج میں حضرت جبرائیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر آسمان پر لے گئے۔ (صحیح البخاری ج۱ ص۴۷۱، باب ذکر ادریس علیہ السلام) میں ہے ’’ ثم اخذ بیدی فعرج بی الی السماء ‘‘
یہ آیت رفع جسمی کے بارے میں نص صریح ہے کہ حق جل شانہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اسی جسد عنصری کے ساتھ زندہ اور صحیح اور سالم آسمان پر اٹھا لیا۔ اب ہم اس کے دلائل اور براہین ہدیۂ ناظرین کرتے ہیں۔ غور سے پڑھیں۔
۱… یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہے کہ: ’’بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ‘‘ کی ضمیر اسی طرف راجع ہے کہ جس طرف ’’ مَا قَتَلُوْہُ ‘‘ اور ’’ مَا صَلَبُوْہُ ‘‘ کی ضمیریں راجع ہیں اور ظاہر ہے کہ ’’ مَا قَتَلُوْہُ ‘‘ اور ’’ مَا صَلَبُوْہُ ‘‘ کی ضمیریں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم مبارک اور جسد مطہر کی طرف راجع ہیں۔ روح بلا جسم کی طرف راجع نہیں۔ اس لئے کہ قتل کرنا اور صلیب پر چڑھانا جسم ہی کا ممکن ہے۔ روح کا قتل اور صلیب قطعاً ناممکن ہے۔ لہٰذا بل رفعہ کی ضمیر اسی جسم کی طرف راجع ہوگی جس جسم کی طرف ’’ مَاقَتَلُوْہُ ‘‘ اور ’’ مَا صَلَبُوْہُ ‘‘ کی ضمیریں راجع ہیں۔
۲… دوم یہ کہ یہود روح کے قتل کے مدعی نہ تھے بلکہ جسم کے قتل کے مدعی تھے اور ’’ بل رفعہ اﷲ ‘‘ میں اس کی تردید کی گئی لہٰذا ’’ بل رفعہ ‘‘ سے جسم ہی مراد ہوگا۔
بل کی بحث
اس لئے کہ کلمہ بل کلام عرب میں ما قبل کے ابطال کے لئے آتا ہے۔ لہٰذا بل کے ’’ماقبل‘‘ اور ’’مابعد‘‘ میں منافات اور تضاد کا ہونا ضروری ہے۔ جیسا کہ ’’ وَقَالُوْا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا سُبْحٰنَہٗ بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَ (الانبیاء:۲۶) ‘‘ ولدیت اور عبودیت میں منافات ہے دونوں جمع نہیں ہوسکتے۔ ’’ اَمْ یَقُوْلُوْنَ بِہٖ جِنَّۃٌ بَلْ جَآئَ ہُمْ بِالْحَقِّ (مؤمنون:۷۰) ‘‘ {یا کہتے ہیں اس کو سودا ہے کوئی نہیں وہ تو لایا ہے ان کے پاس سچی بات۔} مجنونیت اور اتیان بالحق (یعنی منجانب اﷲ حق کو لے کر آنا) یہ دونوں متضاد اور متنافی ہیں۔ یکجا جمع نہیں ہوسکتے۔ یہ ناممکن ہے کہ شریعت حقہ کا لانے والا مجنون ہو۔ اسی طرح اس آیت میں یہ ضروری ہے کہ مقتولیت اور مصلوبیت جو بل کا ماقبل ہے وہ مرفوعیت الی اﷲ کے منافی ہو جو بل کا مابعد ہے اور ان دونوں کا وجود اور تحقق میں جمع ہونا ناممکن ہے اور ظاہرہے کہ مقتولیت اور روحانی رفع بمعنی موت میں کوئی منافات نہیں۔ محض روح کا آسمان کی طرف اٹھایا جانا قتل جسمانی کے ساتھ جمع ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ شہداء کا جسم تو قتل ہو جاتا ہے اور روح آسمان پر اٹھالی جاتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہوا کہ ’’ بل رفعہ اﷲ ‘‘ میں رفع جسمانی مراد ہو کہ جو قتل اور صلب کے منافی ہے۔ اس لئے کہ رفع روحانی اور رفع عزت اور رفعت شان قتل اور صلب کے منافی نہیں۔ بلکہ جس قدر قتل اور صلب ظلماً ہوگا اسی قدر عزت اور رفعت شان میں اضافہ ہوگا اور درجات اور زیادہ بلند ہوں گے۔ رفع درجات کے لئے تو موت اور قتل کچھ بھی شرط نہیں۔ رفع درجات زندہ کو بھی حاصل ہوسکتے ہیں۔ ’’ کما قال تعالٰی وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ (الم نشرح:۴) ‘‘ {اور بلند کیا ہم نے ذکر تیرا۔} اور ’’ یَرْفَعِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ (المجادلہ:۱۱) ‘‘ {اﷲ بلند کرے تگا ان کے لئے جو کہ ایمان رکھتے ہیں تم میں سے اور علم ان کے درجے۔} یہود حضرت مسیح علیہ السلام کے جسم کے قتل اور صلب کے مدعی تھے۔ اﷲتعالیٰ نے اس کے ابطال کے لئے ’’ بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰ ہُ‘‘ فرمایا۔ یعنی تم غلط کہتے ہو کہ تم نے اس کے جسم کو قتل کیا، یا صلیب پر چڑھایا۔ بلکہ اﷲتعالیٰ نے ان کے جسم کو صحیح وسالم آسمان پر اٹھا لیا۔قتل سے قبل رفع جسمانی
اگر رفع سے رفع روح بمعنی موت مراد ہے تو قتل اور صلب کی نفی سے کیا فائدہ؟ قتل اور صلب سے غرض موت ہی ہوتی ہے اور بل اضرابیہ کے بعد رفعہ کو بصیغہ ماضی لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ ’’ رفع الی السماء ‘‘ باعتبار ماقبل کے امر ماضی ہے۔ یعنی تمہارے قتل اور صلب سے پہلے ہی ہم نے ان کو آسمان پر اٹھا لیا۔ جیسا کہ ’’بل جآء ہم بالحق‘‘ میں صیغہ ماضی اس لئے لایا گیا کہ یہ بتلا دیا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حق کو لے کر آنا کفار کے مجنون کہنے سے پہلے ہی واقع ہو چکا ہے۔ اسی طرح ’’بل رفعہ اللّٰہ‘‘ بصیغہ ماضی لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ رفع الی السماء ان کے مزعوم اور خیالی قتل اور صلب سے پہلے ہی واقع ہوچکا ہے۔۳… جس جگہ لفظ رفع کا مفعول یا متعلق جسمانی شے ہو گی تو اس جگہ یقینا جسم کا رفع مراد ہوگا اور اگر رفع کا مفعول اور متعلق درجہ یا منزلہ یا مرتبہ یا امر معنوی ہو تو اس وقت رفع مرتبت اور بلندیٔ رتبہ کے معنی مراد ہوں گے۔ ’’ کما قال تعالیٰ وَرَفَعْنَا فَوْقَکُمُ الطُّوْرَ (البقرہ:۶۳) ‘‘ {اور بلند کیا تمہارے اوپر کوہ طور کو۔} ’’ اَللّٰہُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَہَا (الرعد:۲) ‘‘ {اﷲ وہ ہے جس نے اونچے بنائے آسمان بغیر ستون دیکھتے ہو۔} ’’ وَاِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰہِیْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَاِسْمٰعِیْلُ (البقرہ:۱۲۷) ‘‘ {اور یاد کر جب اٹھاتے تھے ابراہیم بنیادیں خانہ کعبہ کی اور اسماعیل۔} ’’ وَرَفَعَ اَبَوَیْہِ عَلَی الْعَرْشِ (یوسف:۱۰۰) ‘‘ {اور اونچا بٹھایا اپنے ماں باپ کو تخت پر۔} ان تمام مواقع میں لفظ رفع اجسام میں مستعمل ہوا ہے اور ہر جگہ رفع جسمانی مراد ہے اور ’’ وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ ‘‘ ہم نے آپ علیہ السلام کا ذکر بلند کیا اور ’’ وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ (الزخرف:۳۲) ‘‘ {اور بلند کر دئیے درجے بعض کے بعض پر۔} اس قسم کے مواقع میں رفعت شان اور بلندی رتبہ مراد ہے۔ اس لئے کہ رفع کے ساتھ خود ذکر اور درجہ کی قید مذکور ہے۔
خلاصۂ کلام
یہ کہ رفع کے معنی اٹھانے اور اوپر لے جانے کے ہیں۔ لیکن وہ رفع کبھی اجسام کا ہوتا ہے اور کبھی معانی اور اعراض کا ہوتا ہے اور کبھی اقوال اور افعال کا اور کبھی مرتبہ اور درجہ کا۔ جہاں رفع اجسام کا ذکر ہوگا وہاں رفع جسمی مراد ہوگا اور جہاں رفع اعمال اور رفع درجات کا ذکر ہوگا وہاں رفع معنوی مراد ہوگا۔ رفع کے معنی تو اٹھانے اور بلند کرنے ہی کے ہیں۔ باقی جیسی شے ہوگی اس کا رفع بھی اس کے مناسب ہوگا۔۴… اس آیت کا صریح مفہوم اور مدلول یہ ہے کہ جس وقت یہود نے حضرت مسیح کے قتل اور صلب کا ارادہ کیا تو اس وقت قتل اور صلب نہ ہوسکا کہ اس وقت حضرت مسیح علیہ السلام کا اﷲ کی طرف رفع ہوگیا۔ معلوم ہوا کہ یہ رفع جس کا ’’ بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہ ‘‘ میں ذکر ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پہلے سے حاصل نہ تھا بلکہ یہ رفع اس وقت ظہور میں آیا کہ جس وقت یہود ان کے قتل کا ارادہ کر رہے تھے اور رفع جو ان کو اس وقت حاصل ہوا وہ یہ تھا کہ اس وقت بجسدہ العنصری صحیح وسالم آسمان پر اٹھا لئے گئے۔ رفعت شان اور بلندی مرتبہ تو ان کو پہلے ہی سے حاصل تھا اور ’’ وَجِیْہًا فِی الدُّنْیَا وَالاْٰخِرَۃِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ (آل عمران:۴۵) ‘‘ {مرتبہ والا دنیا میں اور آخرت میں اور اﷲ کے مقربوں میں۔} کے لقب سے پہلے ہی سرفراز ہوچکے تھے۔ لہٰذا اس آیت میں وہی رفع مراد ہوسکتا ہے کہ جو ان کو یہود کے ارادہ قتل کے وقت حاصل ہوا یعنی رفع جسمی اور رفع عزت ومنزلت اس سے پہلے ہی ان کو حاصل تھا اس مقام پر اس کا ذکر بالکل بے محل ہے۔
۵… یہ کہ رفع کا لفظ قرآن کریم میں صرف دو پیغمبروں کے لئے آیا ہے۔ ایک عیسیٰ علیہ السلام اور دوسرے ادریس علیہ السلام کے لئے۔ ’’ کما قال تعالٰی وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِدْرِیْسَ اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا وَّرَفَعْنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا (مریم:۵۶،۵۷) ‘‘ {اور مذکور تذکرہ کتاب میں ادریس کا وہ تھا سچا نبی اور اٹھا لیا ہم نے اس کو ایک اونچے مکان پر۔} ادریس علیہ السلام کا رفع جسمانی کا مفصل تذکرہ تفاسیر میں مذکور ہے۔ ( روح المعانی ج۵ ص۱۸۷، خصائص کبریٰ ج۱ ص۱۶۷،۱۶۸، ج۱ ص۱۷۴، تفسیر کبیر ج۵ ص۵۴۵، ارشاد الساری ج۵ ص۳۷۰، فتح الباری ج۱۳ ص۲۲۵، مرقات ج۵ ص۲۲۴، معالم التنزیل ج۳ ص۷، فی عمدۃ القاری ج۷ ص۳۲۷، القول الصحیح بانہ رفع وہوحی ودرمنثور ج۴ ص۲۴۶، وفی التفسیر ابن جریر ج۱۶ ص۶۳) ان اللّٰہ رفعہ وہو حی الٰی السماء۔ الرابعۃ وفی الفتوحات المکیۃ (ج۳ ص۳۴۱) والیواقیت الجواہر (ج۲ ص۲۴) فاذا انا بادریس بجسمہ فانہ مامات الٰی الآن بل رفعہ اللّٰہ مکانا علیا وفی الفتوحات (ج۲ ص۵) ادریس علیہ السلام بقی حیا بجسدہٖ واسکنہ اللّٰہ الٰی السماء الرابعۃ ) لہٰذا تمام انبیاء کرام میں انہیں دو پیغمبروں کو رفع کے ساتھ کیوں خاص کیاگیا؟ رفع درجات میں تمام انبیاء شریک ہیں۔
۶… ’’ وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ ‘‘ اور ’’ وَمَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا ‘‘ اور ’’ بَلْ رَّفَعَہُ ‘‘ میں تمام ضمائر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہیں جن کو مسیح اور ابن مریم اور رسول اﷲ کہا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ عیسیٰ اور مسیح اور ابن مریم اور رسول یہ جسم معین اور جسد خاص کے نام اور لقب ہیں۔ روح کے اسماء اور القاب نہیں۔ اس لئے کہ جب تک روح کا تعلق کسی بدن اور جسم کے ساتھ نہ ہو اس وقت تک وہ روح کسی اسم کے ساتھ موسوم اور کسی لقب کے ساتھ ملقب نہیں ہوتی۔ ’’ وَاِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْ اٰدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ ذُرِّیَتَہُمْ (الاعراف:۱۷۲) ‘‘ {اور جب نکالا تیرے رب نے بنی آدم کی پیٹھوں سے ان کی اولاد کو۔} ’’ وقولہ صلی اللہ علیہ وسلم الارواح جنود مجندۃ الحدیث ‘‘
(بخاری ج۱ ص۴۶۹، باب الارواح جنود مجندۃ کنزالعمال ج۹ ص۲۳، حدیث:۲۴۷۴۱)
۷… یہ کہ یہود کی ذلت ورسوائی اور حسرت اور ناکامی اور عیسیٰ علیہ السلام کی کمال عزت ورفعت بجسدہ العنصری صحیح وسالم آسمان پر اٹھائے جانے ہی میں زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔
۸… یہ کہ رفعت شان اور علو مرتبت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مخصوص نہیں۔ زندہ اہل ایمان اور زندہ اہل علم کو بھی حاصل ہے۔ ’’ کما قال تعالٰی یَرْفَعِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ (مجادلہ:۱۱) ‘‘ {بلند کرتا ہے اﷲتعالیٰ اہل ایمان اور اہل علم کو باعتبار درجات کے۔}
۹… یہ کہ اگر آیت میں رفع روحانی بمعنی موت مراد ہو تو یہ ماننا پڑے گا کہ وہ رفع روحانی بمعنی موت یہود کے قتل اور صلب سے پہلے واقع ہوا جیسا کہ: ’’ اَمْ یَقُوْلُوْنَ بِہٖ جِنَّۃٌ بَلْ جَآئَ ہُمْ بِالْحَقِّ (المؤمنون:۷۰) وَیَقُوْلُوْنَ اَئِنَّا لَتَارِکُوْا اٰلِہَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُوْنٍP بَلْ جَآئَ بِالْحَقِّ (الصافات:۳۶،۳۷) ‘‘ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حق کو لے کر آنا ان کے شاعر اور مجنون کہنے سے پہلے واقع ہوا۔ اسی طرح رفع روحانی بمعنی موت کو ان کے قتل اور صلب سے مقدم ماننا پڑے گا۔ حالانکہ مرزاقادیانی اس کے قائل نہیں۔ مرزاقادیانی تو (العیاذ باﷲ) یہ کہتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام یہود سے خلاص ہوکر فلسطین سے کشمیر پہنچے اور عرصہ دراز تک بقید حیات رہے اور اسی عرصہ میں اپنے زخموں کا علاج کرایا اور پھر طویل مدت کے بعد یعنی ستاسی سال زندہ رہ کر وفات پائی اور سری نگر کے محلہ خان یار میں مدفون ہوئے اور وہیں آپ کا مزار ہے۔ لہٰذا مرزاقادیانی کے زعم کے مطابق عبارت اس طرح ہونی چاہئے تھی۔ ’’ وما قتلوہ بالصلیب بل تخلص منہم وذہب الٰی کشمیر واقام فیہم مدۃ طویلۃ ثم اماتہ اللّٰہ ورفع الیہ ‘‘ کیا کہیں قرآن مجید اور ذخیرہ احادیث میں ایسی کوئی عبارت ہے؟ نہیں اور ہر گز نہیں۔
۱۰… یہ کہ رفع روحانی بمعنی موت لینے سے ’’ وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا ‘‘ کے ساتھ مناسبت نہیں رہتی۔ اس لئے کہ عزیز اور حکیم اور اس قسم کی ترکیب اس موقعہ پر استعمال کی جاتی ہے کہ جہاں کوئی عجیب وغریب اور خارق العادات امر پیش آیا ہو اور وہ عجیب وغریب امر جو اس مقام پر پیش آیا وہ رفع جسمانی ہے۔ اس مقام پر ’’ عَزِیْزًا حَکِیْمًا ‘‘ کو خاص طور پر اس لئے ذکر فرمایا کہ کوئی شخص یہ خیال نہ کرے کہ جسم عنصری کا آسمان پر جانا محال ہے۔ وہ عزت والا اور غلبہ والا اور قدرت والا ہے اور نہ یہ خیال کرے کہ جسم عنصری کا آسمان پر اٹھایا جانا خلاف حکمت اور خلاف مصلحت ہے۔ وہ حکیم ہے اس کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں۔ دشمنوں نے جب حضرت مسیح پر ہجوم کیا تو اس نے اپنی قدرت کا کرشمہ دکھلا دیا کہ اپنے نبی کو آسمان پر اٹھا لیا اور جو دشمن قتل کے ارادہ سے آئے تھے انہی میں سے ایک کو اپنے نبی کا ہم شکل اور شبیہ بنا کر انہیں کے ہاتھ سے اس کو قتل کرادیا اور پھر اس شبیہ کے قتل کے بعد ان سب کو شبہ اور اشتباہ میں ڈال دیا۔