• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قادیانی شبہات کے جوابات (کامل )

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ کی تفسیر​

یعنی یہودی حضرت مسیح کو نہ قتل کر سکے اور نہ صلیب دے سکے بلکہ اﷲتعالیٰ نے حضرت جبرائیل کے ذریعہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی طرف یعنی آسمان پر اٹھا لیا جیساکہ امام رازی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ’’ وَاَیَّدْنَاہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ ‘‘ کی تفسیر میں ذکر کیا ہے کہ حضرت جبرائیل کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ خاص خصوصیت تھی کہ انہیں کے نفخہ سے پیدا ہوئے۔ انہیں کی ترتیب میں رہے اور وہی ان کو آسمان پر چڑھا کر لے گئے۔ (تفسیر کبیر ج۱ ص۴۳۶)
جیسا کہ شب معراج میں حضرت جبرائیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر آسمان پر لے گئے۔ (صحیح البخاری ج۱ ص۴۷۱، باب ذکر ادریس علیہ السلام) میں ہے ’’ ثم اخذ بیدی فعرج بی الی السماء ‘‘
یہ آیت رفع جسمی کے بارے میں نص صریح ہے کہ حق جل شانہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اسی جسد عنصری کے ساتھ زندہ اور صحیح اور سالم آسمان پر اٹھا لیا۔ اب ہم اس کے دلائل اور براہین ہدیۂ ناظرین کرتے ہیں۔ غور سے پڑھیں۔
۱… یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہے کہ: ’’بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ‘‘ کی ضمیر اسی طرف راجع ہے کہ جس طرف ’’ مَا قَتَلُوْہُ ‘‘ اور ’’ مَا صَلَبُوْہُ ‘‘ کی ضمیریں راجع ہیں اور ظاہر ہے کہ ’’ مَا قَتَلُوْہُ ‘‘ اور ’’ مَا صَلَبُوْہُ ‘‘ کی ضمیریں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم مبارک اور جسد مطہر کی طرف راجع ہیں۔ روح بلا جسم کی طرف راجع نہیں۔ اس لئے کہ قتل کرنا اور صلیب پر چڑھانا جسم ہی کا ممکن ہے۔ روح کا قتل اور صلیب قطعاً ناممکن ہے۔ لہٰذا بل رفعہ کی ضمیر اسی جسم کی طرف راجع ہوگی جس جسم کی طرف ’’ مَاقَتَلُوْہُ ‘‘ اور ’’ مَا صَلَبُوْہُ ‘‘ کی ضمیریں راجع ہیں۔
۲… دوم یہ کہ یہود روح کے قتل کے مدعی نہ تھے بلکہ جسم کے قتل کے مدعی تھے اور ’’ بل رفعہ اﷲ ‘‘ میں اس کی تردید کی گئی لہٰذا ’’ بل رفعہ ‘‘ سے جسم ہی مراد ہوگا۔

بل کی بحث​

اس لئے کہ کلمہ بل کلام عرب میں ما قبل کے ابطال کے لئے آتا ہے۔ لہٰذا بل کے ’’ماقبل‘‘ اور ’’مابعد‘‘ میں منافات اور تضاد کا ہونا ضروری ہے۔ جیسا کہ ’’ وَقَالُوْا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا سُبْحٰنَہٗ بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَ (الانبیاء:۲۶) ‘‘ ولدیت اور عبودیت میں منافات ہے دونوں جمع نہیں ہوسکتے۔ ’’ اَمْ یَقُوْلُوْنَ بِہٖ جِنَّۃٌ بَلْ جَآئَ ہُمْ بِالْحَقِّ (مؤمنون:۷۰) ‘‘ {یا کہتے ہیں اس کو سودا ہے کوئی نہیں وہ تو لایا ہے ان کے پاس سچی بات۔} مجنونیت اور اتیان بالحق (یعنی منجانب اﷲ حق کو لے کر آنا) یہ دونوں متضاد اور متنافی ہیں۔ یکجا جمع نہیں ہوسکتے۔ یہ ناممکن ہے کہ شریعت حقہ کا لانے والا مجنون ہو۔ اسی طرح اس آیت میں یہ ضروری ہے کہ مقتولیت اور مصلوبیت جو بل کا ماقبل ہے وہ مرفوعیت الی اﷲ کے منافی ہو جو بل کا مابعد ہے اور ان دونوں کا وجود اور تحقق میں جمع ہونا ناممکن ہے اور ظاہرہے کہ مقتولیت اور روحانی رفع بمعنی موت میں کوئی منافات نہیں۔ محض روح کا آسمان کی طرف اٹھایا جانا قتل جسمانی کے ساتھ جمع ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ شہداء کا جسم تو قتل ہو جاتا ہے اور روح آسمان پر اٹھالی جاتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہوا کہ ’’ بل رفعہ اﷲ ‘‘ میں رفع جسمانی مراد ہو کہ جو قتل اور صلب کے منافی ہے۔ اس لئے کہ رفع روحانی اور رفع عزت اور رفعت شان قتل اور صلب کے منافی نہیں۔ بلکہ جس قدر قتل اور صلب ظلماً ہوگا اسی قدر عزت اور رفعت شان میں اضافہ ہوگا اور درجات اور زیادہ بلند ہوں گے۔ رفع درجات کے لئے تو موت اور قتل کچھ بھی شرط نہیں۔ رفع درجات زندہ کو بھی حاصل ہوسکتے ہیں۔ ’’ کما قال تعالٰی وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ (الم نشرح:۴) ‘‘ {اور بلند کیا ہم نے ذکر تیرا۔} اور ’’ یَرْفَعِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ (المجادلہ:۱۱) ‘‘ {اﷲ بلند کرے تگا ان کے لئے جو کہ ایمان رکھتے ہیں تم میں سے اور علم ان کے درجے۔} یہود حضرت مسیح علیہ السلام کے جسم کے قتل اور صلب کے مدعی تھے۔ اﷲتعالیٰ نے اس کے ابطال کے لئے ’’ بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰ ہُ‘‘ فرمایا۔ یعنی تم غلط کہتے ہو کہ تم نے اس کے جسم کو قتل کیا، یا صلیب پر چڑھایا۔ بلکہ اﷲتعالیٰ نے ان کے جسم کو صحیح وسالم آسمان پر اٹھا لیا۔

قتل سے قبل رفع جسمانی​

اگر رفع سے رفع روح بمعنی موت مراد ہے تو قتل اور صلب کی نفی سے کیا فائدہ؟ قتل اور صلب سے غرض موت ہی ہوتی ہے اور بل اضرابیہ کے بعد رفعہ کو بصیغہ ماضی لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ ’’ رفع الی السماء ‘‘ باعتبار ماقبل کے امر ماضی ہے۔ یعنی تمہارے قتل اور صلب سے پہلے ہی ہم نے ان کو آسمان پر اٹھا لیا۔ جیسا کہ ’’بل جآء ہم بالحق‘‘ میں صیغہ ماضی اس لئے لایا گیا کہ یہ بتلا دیا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حق کو لے کر آنا کفار کے مجنون کہنے سے پہلے ہی واقع ہو چکا ہے۔ اسی طرح ’’بل رفعہ اللّٰہ‘‘ بصیغہ ماضی لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ رفع الی السماء ان کے مزعوم اور خیالی قتل اور صلب سے پہلے ہی واقع ہوچکا ہے۔
۳… جس جگہ لفظ رفع کا مفعول یا متعلق جسمانی شے ہو گی تو اس جگہ یقینا جسم کا رفع مراد ہوگا اور اگر رفع کا مفعول اور متعلق درجہ یا منزلہ یا مرتبہ یا امر معنوی ہو تو اس وقت رفع مرتبت اور بلندیٔ رتبہ کے معنی مراد ہوں گے۔ ’’ کما قال تعالیٰ وَرَفَعْنَا فَوْقَکُمُ الطُّوْرَ (البقرہ:۶۳) ‘‘ {اور بلند کیا تمہارے اوپر کوہ طور کو۔} ’’ اَللّٰہُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَہَا (الرعد:۲) ‘‘ {اﷲ وہ ہے جس نے اونچے بنائے آسمان بغیر ستون دیکھتے ہو۔} ’’ وَاِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰہِیْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَاِسْمٰعِیْلُ (البقرہ:۱۲۷) ‘‘ {اور یاد کر جب اٹھاتے تھے ابراہیم بنیادیں خانہ کعبہ کی اور اسماعیل۔} ’’ وَرَفَعَ اَبَوَیْہِ عَلَی الْعَرْشِ (یوسف:۱۰۰) ‘‘ {اور اونچا بٹھایا اپنے ماں باپ کو تخت پر۔} ان تمام مواقع میں لفظ رفع اجسام میں مستعمل ہوا ہے اور ہر جگہ رفع جسمانی مراد ہے اور ’’ وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ ‘‘ ہم نے آپ علیہ السلام کا ذکر بلند کیا اور ’’ وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ (الزخرف:۳۲) ‘‘ {اور بلند کر دئیے درجے بعض کے بعض پر۔} اس قسم کے مواقع میں رفعت شان اور بلندی رتبہ مراد ہے۔ اس لئے کہ رفع کے ساتھ خود ذکر اور درجہ کی قید مذکور ہے۔

خلاصۂ کلام​

یہ کہ رفع کے معنی اٹھانے اور اوپر لے جانے کے ہیں۔ لیکن وہ رفع کبھی اجسام کا ہوتا ہے اور کبھی معانی اور اعراض کا ہوتا ہے اور کبھی اقوال اور افعال کا اور کبھی مرتبہ اور درجہ کا۔ جہاں رفع اجسام کا ذکر ہوگا وہاں رفع جسمی مراد ہوگا اور جہاں رفع اعمال اور رفع درجات کا ذکر ہوگا وہاں رفع معنوی مراد ہوگا۔ رفع کے معنی تو اٹھانے اور بلند کرنے ہی کے ہیں۔ باقی جیسی شے ہوگی اس کا رفع بھی اس کے مناسب ہوگا۔
۴… اس آیت کا صریح مفہوم اور مدلول یہ ہے کہ جس وقت یہود نے حضرت مسیح کے قتل اور صلب کا ارادہ کیا تو اس وقت قتل اور صلب نہ ہوسکا کہ اس وقت حضرت مسیح علیہ السلام کا اﷲ کی طرف رفع ہوگیا۔ معلوم ہوا کہ یہ رفع جس کا ’’ بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہ ‘‘ میں ذکر ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پہلے سے حاصل نہ تھا بلکہ یہ رفع اس وقت ظہور میں آیا کہ جس وقت یہود ان کے قتل کا ارادہ کر رہے تھے اور رفع جو ان کو اس وقت حاصل ہوا وہ یہ تھا کہ اس وقت بجسدہ العنصری صحیح وسالم آسمان پر اٹھا لئے گئے۔ رفعت شان اور بلندی مرتبہ تو ان کو پہلے ہی سے حاصل تھا اور ’’ وَجِیْہًا فِی الدُّنْیَا وَالاْٰخِرَۃِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ (آل عمران:۴۵) ‘‘ {مرتبہ والا دنیا میں اور آخرت میں اور اﷲ کے مقربوں میں۔} کے لقب سے پہلے ہی سرفراز ہوچکے تھے۔ لہٰذا اس آیت میں وہی رفع مراد ہوسکتا ہے کہ جو ان کو یہود کے ارادہ قتل کے وقت حاصل ہوا یعنی رفع جسمی اور رفع عزت ومنزلت اس سے پہلے ہی ان کو حاصل تھا اس مقام پر اس کا ذکر بالکل بے محل ہے۔
۵… یہ کہ رفع کا لفظ قرآن کریم میں صرف دو پیغمبروں کے لئے آیا ہے۔ ایک عیسیٰ علیہ السلام اور دوسرے ادریس علیہ السلام کے لئے۔ ’’ کما قال تعالٰی وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِدْرِیْسَ اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا وَّرَفَعْنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا (مریم:۵۶،۵۷) ‘‘ {اور مذکور تذکرہ کتاب میں ادریس کا وہ تھا سچا نبی اور اٹھا لیا ہم نے اس کو ایک اونچے مکان پر۔} ادریس علیہ السلام کا رفع جسمانی کا مفصل تذکرہ تفاسیر میں مذکور ہے۔ ( روح المعانی ج۵ ص۱۸۷، خصائص کبریٰ ج۱ ص۱۶۷،۱۶۸، ج۱ ص۱۷۴، تفسیر کبیر ج۵ ص۵۴۵، ارشاد الساری ج۵ ص۳۷۰، فتح الباری ج۱۳ ص۲۲۵، مرقات ج۵ ص۲۲۴، معالم التنزیل ج۳ ص۷، فی عمدۃ القاری ج۷ ص۳۲۷، القول الصحیح بانہ رفع وہوحی ودرمنثور ج۴ ص۲۴۶، وفی التفسیر ابن جریر ج۱۶ ص۶۳) ان اللّٰہ رفعہ وہو حی الٰی السماء۔ الرابعۃ وفی الفتوحات المکیۃ (ج۳ ص۳۴۱) والیواقیت الجواہر (ج۲ ص۲۴) فاذا انا بادریس بجسمہ فانہ مامات الٰی الآن بل رفعہ اللّٰہ مکانا علیا وفی الفتوحات (ج۲ ص۵) ادریس علیہ السلام بقی حیا بجسدہٖ واسکنہ اللّٰہ الٰی السماء الرابعۃ ) لہٰذا تمام انبیاء کرام میں انہیں دو پیغمبروں کو رفع کے ساتھ کیوں خاص کیاگیا؟ رفع درجات میں تمام انبیاء شریک ہیں۔
۶… ’’ وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ ‘‘ اور ’’ وَمَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا ‘‘ اور ’’ بَلْ رَّفَعَہُ ‘‘ میں تمام ضمائر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہیں جن کو مسیح اور ابن مریم اور رسول اﷲ کہا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ عیسیٰ اور مسیح اور ابن مریم اور رسول یہ جسم معین اور جسد خاص کے نام اور لقب ہیں۔ روح کے اسماء اور القاب نہیں۔ اس لئے کہ جب تک روح کا تعلق کسی بدن اور جسم کے ساتھ نہ ہو اس وقت تک وہ روح کسی اسم کے ساتھ موسوم اور کسی لقب کے ساتھ ملقب نہیں ہوتی۔ ’’ وَاِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْ اٰدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ ذُرِّیَتَہُمْ (الاعراف:۱۷۲) ‘‘ {اور جب نکالا تیرے رب نے بنی آدم کی پیٹھوں سے ان کی اولاد کو۔} ’’ وقولہ صلی اللہ علیہ وسلم الارواح جنود مجندۃ الحدیث ‘‘
(بخاری ج۱ ص۴۶۹، باب الارواح جنود مجندۃ کنزالعمال ج۹ ص۲۳، حدیث:۲۴۷۴۱)
۷… یہ کہ یہود کی ذلت ورسوائی اور حسرت اور ناکامی اور عیسیٰ علیہ السلام کی کمال عزت ورفعت بجسدہ العنصری صحیح وسالم آسمان پر اٹھائے جانے ہی میں زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔
۸… یہ کہ رفعت شان اور علو مرتبت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مخصوص نہیں۔ زندہ اہل ایمان اور زندہ اہل علم کو بھی حاصل ہے۔ ’’ کما قال تعالٰی یَرْفَعِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ (مجادلہ:۱۱) ‘‘ {بلند کرتا ہے اﷲتعالیٰ اہل ایمان اور اہل علم کو باعتبار درجات کے۔}
۹… یہ کہ اگر آیت میں رفع روحانی بمعنی موت مراد ہو تو یہ ماننا پڑے گا کہ وہ رفع روحانی بمعنی موت یہود کے قتل اور صلب سے پہلے واقع ہوا جیسا کہ: ’’ اَمْ یَقُوْلُوْنَ بِہٖ جِنَّۃٌ بَلْ جَآئَ ہُمْ بِالْحَقِّ (المؤمنون:۷۰) وَیَقُوْلُوْنَ اَئِنَّا لَتَارِکُوْا اٰلِہَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُوْنٍP بَلْ جَآئَ بِالْحَقِّ (الصافات:۳۶،۳۷) ‘‘ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حق کو لے کر آنا ان کے شاعر اور مجنون کہنے سے پہلے واقع ہوا۔ اسی طرح رفع روحانی بمعنی موت کو ان کے قتل اور صلب سے مقدم ماننا پڑے گا۔ حالانکہ مرزاقادیانی اس کے قائل نہیں۔ مرزاقادیانی تو (العیاذ باﷲ) یہ کہتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام یہود سے خلاص ہوکر فلسطین سے کشمیر پہنچے اور عرصہ دراز تک بقید حیات رہے اور اسی عرصہ میں اپنے زخموں کا علاج کرایا اور پھر طویل مدت کے بعد یعنی ستاسی سال زندہ رہ کر وفات پائی اور سری نگر کے محلہ خان یار میں مدفون ہوئے اور وہیں آپ کا مزار ہے۔ لہٰذا مرزاقادیانی کے زعم کے مطابق عبارت اس طرح ہونی چاہئے تھی۔ ’’ وما قتلوہ بالصلیب بل تخلص منہم وذہب الٰی کشمیر واقام فیہم مدۃ طویلۃ ثم اماتہ اللّٰہ ورفع الیہ ‘‘ کیا کہیں قرآن مجید اور ذخیرہ احادیث میں ایسی کوئی عبارت ہے؟ نہیں اور ہر گز نہیں۔
۱۰… یہ کہ رفع روحانی بمعنی موت لینے سے ’’ وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا ‘‘ کے ساتھ مناسبت نہیں رہتی۔ اس لئے کہ عزیز اور حکیم اور اس قسم کی ترکیب اس موقعہ پر استعمال کی جاتی ہے کہ جہاں کوئی عجیب وغریب اور خارق العادات امر پیش آیا ہو اور وہ عجیب وغریب امر جو اس مقام پر پیش آیا وہ رفع جسمانی ہے۔ اس مقام پر ’’ عَزِیْزًا حَکِیْمًا ‘‘ کو خاص طور پر اس لئے ذکر فرمایا کہ کوئی شخص یہ خیال نہ کرے کہ جسم عنصری کا آسمان پر جانا محال ہے۔ وہ عزت والا اور غلبہ والا اور قدرت والا ہے اور نہ یہ خیال کرے کہ جسم عنصری کا آسمان پر اٹھایا جانا خلاف حکمت اور خلاف مصلحت ہے۔ وہ حکیم ہے اس کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں۔ دشمنوں نے جب حضرت مسیح پر ہجوم کیا تو اس نے اپنی قدرت کا کرشمہ دکھلا دیا کہ اپنے نبی کو آسمان پر اٹھا لیا اور جو دشمن قتل کے ارادہ سے آئے تھے انہی میں سے ایک کو اپنے نبی کا ہم شکل اور شبیہ بنا کر انہیں کے ہاتھ سے اس کو قتل کرادیا اور پھر اس شبیہ کے قتل کے بعد ان سب کو شبہ اور اشتباہ میں ڈال دیا۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

رفع کا معنی عزت کی موت​

مرزاغلام احمد قادیانی نے لکھا ہے کہ: ’’جاننا چاہئے کہ اس جگہ رفع سے مراد وہ موت ہے جو عزت کے ساتھ ہو۔ جیسا کہ دوسری آیت اس پر دلالت کرتی ہے۔ وَرَفَعْنَہُ مَکَانًا عَلِیًا ‘‘ (ازالہ اوہام ص۵۹۹، خزائن ج۳ ص۴۲۳)
پھر تحریر کرتے ہیں کہ: ’’لہٰذا یہ امر ثابت ہے کہ رفع سے مراد اس جگہ موت ہے۔ مگر ایسی موت جو عزت کے ساتھ ہو جیسا کہ مقربین کے لئے ہوتی ہے کہ بعد موت کے ان کی روحیں علیین تک پہنچائی جاتی ہیں۔ فِیْ مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ ملیکٍ مُّقْتَدِرٍ ‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۰۵، خزائن ج۳ ص۴۲۴)
رفع کے معنی عزت کی موت نہ کسی لغت سے ثابت ہیں اور نہ کسی محاورہ سے اور نہ کسی فن کی اصطلاح ہے۔ محض مرزاقادیانی کی اختراع اور گھڑت ہے۔ البتہ رفع کا لفظ محض اعزاز کے معنی میں مستعمل ہوتا ہے مگر اعزاز رفع جسمانی کے منافی نہیں اعزاز اور رفع جسمانی دونوں جمع ہوسکتے ہیں نیز اگر رفع سے عزت کی موت مراد ہو تو نزول سے ذلت کی پیدائش مراد ہونی چاہئے اس لئے کہ حدیث میں نزول کو رفع کا مقابل قرار دیا ہے اور ظاہرہے کہ نزول کے یہ معنی مرزاقادیانی کے ہی مناسب ہیں۔

تفسیری شواہد​

اب ہم ذیل میں مفسرین حضرات کے چند تفسیری شواہد نقل کرتے ہیں۔
۱… تفسیر روح المعانی میں علامہ سید محمود آلوسی (و:۱۲۷۰ھ) اس آیت کے تحت جزء سادس ص۹ پر فرماتے ہیں کہ سیدنا عبداﷲ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے مروی کہ جب یہود مسیح علیہ السلام کے قتل کے لئے جمع ہوکر ان کی طرف گئے تاکہ ان کو قتل کر دیں تو سیدنا جبرائیل علیہ السلام مسیح علیہ السلام کے گھر میں داخل ہوئے۔ مسیح علیہ السلام کو آسمان کی طرف اٹھاکر لے گئے۔
(ص۱۱) پر فرماتے ہیں کہ: ’’سیدنا عیسیٰ علیہ السلام دوسرے آسمان پر زندہ تشریف فرماہیں۔ واپس دنیا میں تشریف لائیں گے اور دنیا میں ان کا انتقال ہوگا۔‘‘
۲… علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی (تفسیر درمنثور ج۲ ص۲۳۸) پر بھی سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی مذکورہ روایت کو نقل فرمایا ہے۔
۳… علامہ ابن جریر طبری رحمہ اللہ تعالیٰ (و:۳۱۰ھ) اپنی (تفسیر جامع البیان ج۶ ص۱۴) اس آیت کے تحت حضرت سدی رحمہ اللہ تعالیٰ سے روایت کرتے ہیں۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو آسمانوں پر اٹھا لیا گیا۔ ص۱۵ پر حضرت مجاہد رحمہ اللہ تعالیٰ سے روایت کرتے ہیں کہ: ’’سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو اﷲتعالیٰ نے زندہ اٹھا لیا۔‘‘
۴… علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی (تفسیر ابن کثیر ج۳ ص۱۲) پر حضرت مجاہد رحمہ اللہ تعالیٰ کی روایت کو یوں نقل فرمایا: ’’صلبوا رجلاً شبہًا بعیسٰی ورفع اللّٰہ عزوجل عیسٰی الٰی السماء حیاً یہود نے ایک شخص کو جو مسیح کا شبیہ تھا صلیب پر لٹکایا جب کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو اﷲتعالیٰ نے زندہ آسمانوں پر اٹھالیا۔‘‘
۵… (تنویر المقیاس من تفسیر ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم ج۱ ص۶۸) میں ابی طاہر محمد بن یعقوب فیروز آبادی فرماتے ہیں: ’’انہوں (یہود) نے یقینا عیسیٰ علیہ السلام کو قتل نہیں کیا بلکہ اﷲتعالیٰ نے ان کو آسمانوں پر اٹھالیا۔‘‘
۶… تفسیر کشاف میں علامہ جار اﷲ محمود بن عمر الزمخشری (و:۵۲۸ھ) اس آیت کے تحت (ج۱ ص۵۷۸ طبع بیروت) پر فرماتے ہیں: ’’جب یہود عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کے لئے جمع ہوئے تو اﷲتعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو خبر دی کہ ہم آپ کو آسمانوں پر اٹھاتے ہیں اور یہود کی ناپاک صحبت سے پاک کرتے ہیں۔‘‘
۷… تفسیر مظہری میں علامہ ثناء اﷲ مظہری رحمہ اللہ تعالیٰ (و:۱۳۲۵ھ) اس آیت کے تحت (ج۳ ص۲۷۱) پر فرماتے ہیں کہ ’’ بل رفعہ اللّٰہ الیہ ‘‘ میں ردقتل (مسیح علیہ السلام) اور اثبات رفع (مسیح علیہ السلام) ہے۔
۸… تفسیر کبیر میں علامہ فخرالدین رازیv اس آیت کے تحت (جز۱۱ ص۱۰۳) پر فرماتے ہیں کہ: ’’اس آیت (بل رفعہ اﷲ) سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع الی السماء ثابت ہے جیسا کہ آیت آل عمران ’’ انی متوفیک ورافعک ومطہرک ‘‘ اس کی نظیر ہے۔ جان کہ عیسیٰ علیہ السلام کو مصیبت ومشقت (یہود سے) پیش آئیں تو اﷲتعالیٰ نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا اور ان کے لئے ثواب جنت کے دروازے وا کر دئیے۔ ان کے جسم کو (رفع سے) تمام راحتیں نصیب ہوگئیں۔ (جن کے جسم کی رفعتوں کا یہ عالم ہے جو اس آیت میں مذکور ہیں) تو اس آیت سے ان کی روحانی ترقیوں کی معرفت کا بھی خود بخود اندازہ کر لو (یعنی رفع جسمانی کو رفع روحانی خود بخود لازم ہے) اس صفحہ پر آیت ’’ کان اللّٰہ عزیزًا حکیما ‘‘ کے تحت تحریر فرماتے ہیں۔
عزت سے مراد کمال قدرت اور حکمت سے مراد کمال علم (ان الفاظ عزیزًا حکیمًا) سے یہ جتلانا مقصود ہے کہ رفع عیسیٰ علیہ السلام کا دنیا سے آسمانوں کی طرف انسان کے لئے ایسا کرنا تو مشکل ہے۔ لیکن میری (اﷲتعالیٰ) قدرت وحکمت کے لئے تو کوئی مشکل نہیں۔ جیسا کہ اﷲتعالیٰ سبحانہ ’’ اسرٰی بعبدہٖ لیلاً ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ معراج (سماوی) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خود بخود تو مشکل تھا۔ لیکن قدرت حق (تعالیٰ سبحانہ) کے لئے تو آسان ہے۔‘‘
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

قادیانی سوال:۱​

ایک شخص کی شکل ہو بہو عیسیٰ علیہ السلام جیسی کیسے ہوگئی؟
جواب: ۱… جس طرح فرشتوں کا بشکل بشر متمثل ہونا۔
۲… اور موسیٰ علیہ السلام کے عصا کا اژدہا بن جانا قرآن کریم میں منصوص ہے۔
۳… انبیاء کرام کے لئے پانی کا شراب اور زیتون بن جانا نصاریٰ کے نزدیک مسلم ہے۔ پس اسی طرح اگر کسی شخص کو عیسیٰ علیہ السلام کے مشابہ اور ہم شکل بنادیا جائے تو کیا استبعاد ہے؟
۴… احیاء موتیٰ کا معجزہ القاء شبیہ کے معجزہ سے کہیں زیادہ بلند تھا۔ لہٰذا احیاء موتیٰ کی طرح القاء شبیہ کے معجزہ کو بھی بلاشبہ اور بلاتردد تسلیم کرنا چاہئے۔
۵… نیز موجودہ سائنس کے دور میں پلاسٹک سرجری سے چہروں کی شباہت تبدیل کی جاتی ہے۔ یہ انسان اپنے ذرائع سے کر رہا ہے۔ اگر حق تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے ایک شخص کی شباہت دوسرے شخص پر ڈال دی تو وجہ استعجاب کیا ہے؟

قادیانی سوال:۲​

جس شخص پر عیسیٰ علیہ السلام کی شباہت ڈالی گئی وہ آپ کا دشمن تھا۔ یا حواری، اگر دشمن پر ڈالی گئی تو اسے مسیح بنا کر عزت دی گئی۔ کافر کو عزت دی گئی۔ اگر حواری تھا تو اس پر ظلم ہوا اور یہ اﷲتعالیٰ کی شان سے بعید ہے۔
جواب: اس آیت کی تفسیر میں پہلے نقل ہو چکا ہے کہ اس میں مفسرین کے دو قول ہیں۔ کیونکہ قرآن مجید تاریخی کتاب نہیں بلکہ ہدایت کا منبع ہے۔ یہ تاریخ کا موضوع ہے کہ وہ شخص جو پھانسی دیاگیا وہ کون ہے؟ قرآن مجید صرف اتنا بتلانا چاہتا ہے کہ مسیح علیہ السلام نہ قتل ہوئے نہ پھانسی دئیے گئے۔ یہود کا قول قتل مسیح کا دعویٰ غلط ہے۔ اب وہ شخص کون تھا؟ تو اس میں سابقہ کتب میں دو اقوال ہیں (۱)کہ وہ دشمن تھا، (۲)وہ حواری تھا۔ اس لئے مفسرین نے دونوں اقوال نقل کئے۔ اب کہ وہ دشمن تھا تو نبی کی شکل دے کر اسے اعزاز دیاگیا؟ یہ قادیانیوں کی نادانی ہے۔ اس دشمن کو مسیح کی شکل دے کر اعزاز نہیں دیاگیا بلکہ عذاب دیاگیا کہ وہ پھانسی پر لٹکایا گیا۔ کیوں؟ اس کا جواب قرآن نے دیا۔ ’’شبہ لہم‘‘ اور دوسرا قول کہ مسیح علیہ السلام کا حواری تھا اس پر اشکال کہ بے قصور تھا۔ اس پر ظلم ہوا۔ اس کا جواب بھی تفسیروں اور کتب سابقہ میں موجود ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ کون شخص ہے جو میری جگہ پھانسی پر چڑھے اور قیامت کے دن جنت میں میرا رفیق بنے۔ یہ سوال تین بار کیا تو تینوں دفعہ مخلص حواری اٹھا جو اپنے نبی کی جگہ قربانی کے لئے آمادہ ہوا۔ یہ ایثار وقربانی کی بے مثال روایت ہے کہ اپنے نبی کے لئے جان قربان کر کے رفیق جنت بننے پر آمادہ ہوا اور ایسے کر کے وہ اعزاز کا مستحق ہوا نہ کہ اعتراض کا۔ وہ درجہ شہادت پر فائز ہوا۔ قادیانی، مخلص حواری مسیح کی شہادت کو ظلم سے تعبیر کریں تو جو لوگ اپنے دین وایمان، اسلام وقرآن انبیاء کرام کی عزتوں کے تحفظ کے لئے شہید ہوئے تو کیا ان سب پر ظلم ہوا؟ معاذ اﷲ!

قادیانی سوال:۳​

آیت: ’’ بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ ‘‘ میں لفظ ’’بل‘‘ ابطالیہ نہیں، نحویوں نے لکھا ہے کہ لفظ ’’بل‘‘ قرآن میں نہیں آسکتا۔
(مرزائی پاکٹ بک)
جواب: ۱… پھر تو یہ مطلب ہوا کہ کافر یہود سچے ہیں جو کہتے تھے ہم نے مسیح کو قتل وغیرہ کر دیا۔ اے جناب! تم نے خود بحوالہ کتب نحو لکھا ہے کہ: ’’جب خدا کفار کا قول نقل کرے تو بغرض تردید، اس میں ’’بل‘‘ آسکتا ہے۔‘‘
(احمدیہ پاکٹ بک ص۲۲۴)
یہی معاملہ اس جگہ ہے۔ خود مرزاقادیانی مانتے ہیں کہ اس جگہ لفظ ’’بل‘‘ تردید قول کفار کے لئے ہے۔
’’مسیح مصلوب مقتول ہوکر نہیں مرا… بلکہ خداتعالیٰ نے عزت کے ساتھ اس کو اپنی طرف اٹھالیا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۵۹۸، خزائن ج۳ ص۴۲۳)
جواب: ۲… قرآن مجید میں قول کفار کی تردید کے لئے متعدد بار بل ابطالیہ استعمال ہوا ہے: (۱)’’ وَقَالُوْا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا سُبْحٰنَہٗ بَلْ لَّہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (بقرہ:۱۱۶) ‘‘ {اور کہتے ہیں کہ اﷲ رکھتا ہے اولاد وہ تو سب باتوں سے پاک ہے بلکہ اسی کا ہے جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے۔} (۲)’’ وَقَالُوْا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا سُبْحٰنَہٗ بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَ (الانبیاء:۲۶ )‘‘ {اور کہتے ہیں رحمان نے کر لیا کسی کو بیٹا وہ ہرگز اس لائق نہیں۔ لیکن وہ بندے ہیں جن کو عزت دی ہے۔} (۳)’’ اَمْ یَقُوْلُوْنَ بِہٖ جِنَّۃٌ بَلْ جَآئَ ہُمْ بِالْحَقِّ (مؤمنون:۷۰) ‘‘ {یا کہتے ہیں اس کو سودا ہے کوئی نہیں وہ تو لایا ہے ان کے پاس سچی بات۔} (۴)’’ اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰہُ بَلْ ہُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ (السجدۃ:۳) ‘‘ {کیا کہتے ہیں کہ یہ جھوٹ باندھ لیا ہے کوئی نہیں وہ ٹھیک ہے تیرے رب کی طرف سے۔}

قادیانی سوال:۴​

رفع سے مراد وہ موت ہے جو عزت کے ساتھ ہو۔ (مرزائی پاکٹ بک)
جواب: ۱… وعدہ بلا توقف اور جلد رفع کا تھا۔ اگر آپ کے معنی صحیح ہوں تو مطلب یہ ہواکہ مسیح اسی وقت عزت کے ساتھ مرگیا تھا اور کون نہیں جانتا کہ یہ یہود کی تائید ہے۔ چونکہ یقینا حضرت مسیح علیہ السلام اس زمانے میں فوت نہیں ہوئے۔ جیسا کہ مرزاقادیانی کو بھی اقرار ہے۔ لہٰذا اس وقت جو رفع ہوا وہ یقینا زندہ آسمان پر اٹھایا جانا تھا۔
اس کے علاوہ رفع کے معنی عزت کی موت لینے نہ صرف بوجہ تمام کتب لغت کے خلاف ہونے کے مردود ہیں۔ بلکہ اس میں یہ نقص ہے کہ کلام ربانی درجۂ فصاحت سے گرجاتا ہے۔ کیونکہ دوسری آیت میں’’رافعک‘‘ سے پہلے ’’متوفیک‘‘ کا وعدہ موجود ہے اور توفی کے معنی جیسا کہ کتب عربیہ اور تحریرات مرزا سے کسی چیز کو پورا لینے کے ہیں۔ پس یہ کہنا کہ زندہ اٹھالیا۔ پھر ساتھ ہی یہ کہنا کہ عزت کی موت دے کر اٹھا لیا۔ یہ متضاد کلام خدا کی شان سے بعید ہے۔ اگر کہا جائے کہ ’’متوفیک‘‘ کے معنی بھی موت ہیں تو بھی خلاف فصاحت ہے۔ کیونکہ جو بات ایک لفظ (موت) سے ادا ہوسکتی تھی اس کو دو فقروں میں بیان کرنا بھی شان بلاغت پر دھبہ ہے۔ حاصل یہ کہ یہود کہتے تھے کہ ہم نے مسیح علیہ السلام کو ماردیا۔ ان کے جواب میں یہ کہنا کہ ہاں مارتو دیا تھا مگر یہ عزت کی موت ہے۔ یہود کی تردید نہیں بلکہ تصدیق ہے۔ حالانکہ خداوند تعالیٰ اس عقیدہ کو لعنتی قرار دیتا ہے جو قادیانیوں کو مبارک ہے۔
۲… ’’ بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْ ہِ‘‘ کی تفسیر میں تیرہ سو سال کے کسی ایک مفسر یا محدث یا امام لغت نے رفع درجات یا رفع روحانی مراد نہیں لیا۔ یہ خالصتاً قادیانی تحریف کا شاخسانہ ہے جس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ وہ اپنے دعویٰ رفع درجات یا روحانی رفع کے لئے اس آیت کی تفسیر میں سلف کا ایک قول پیش نہیں کر سکتے۔

قادیانی سوال:۵​

یہود صلیب کی موت کو لعنتی قرار دیتے ہیں۔ اس لئے ’’ بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰ ہُ‘‘ فرمایا گیا کہ ان کا رفع روحانی ہوا۔
جواب: ۱… قرآن مجید نے ’’ماقتلوہ‘‘ سے یہود کے عقیدہ کی تردید کی۔ جس کے لئے وہ ’’اِنَّا قَتَلْنَا‘‘ سے قطعی دعویٰ کرتے تھے۔ ’’ وَمَا صَلَبُوْہٗ ‘‘ سے نصاریٰ کے عقیدہ کفارہ کی تردید کی جو یہ کہتے ہیں کہ پھانسی پر چڑھ کر ہمارے گناہوں کا کفارہ ہوگئے۔ ’’ بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰ ہُ‘‘ سے مسیح علیہ السلام کے رفع جسمانی کو جو قتل کے منافی ہے بیان کر کے حقیقت کو واضح کیا۔ ورنہ ’’ یقتلون الانبیاء بغیر حق ‘‘ میں دیگر انبیاء کے قتل میں یہود کے فعل بد کی نشاندہی فرمائی۔ اگر قتل اور صلیب لعنتی موت سے رفع روحانی مراد ہوتا تو کیا باقی انبیاء علیہم السلام کا رفع روحانی نہیں ہوا۔ ان کے لئے ’’ بَلْ رَفَعَہُمُ اللّٰہُ ‘‘ کا ذکر کیوں نہیں کیاگیا؟ پس ثابت ہوا کہ یہ رفع روحانی نہیں ہوا، ان کے لئے ’’ بَلْ رَفَعَہُمُ اللّٰہُ ‘‘ کا ذکر کیوں نہیں کیاگیا۔ پس ثابت ہوا کہ یہ رفع روحانی کا تذکرہ نہیں بلکہ رفع جسمانی کا اثبات وبیان ہے۔
۲… درجات کی بلندی اور رفع روحانی کی انتہاء تو نبوت ہے۔ نبوت سے بڑھ کر اور کیا رفع درجات ہوسکتا ہے؟ وہ تو یہود کے قول قتل سے قبل مسیح علیہ السلام کو حاصل تھا۔ اس کا یہاں بیان ایک بے مقصد بات اور فضول دعویٰ ہے۔ جس کے قادیانی مرتکب ہورہے ہیں۔
۳… کیا ہر مصلوب لعنتی ہوتا ہے اگرچہ وہ بے گناہ ہی کیوں نہ ہو۔ کیا بے گناہ مقتول شہید نہیں ہوتا؟ کیا ’’ وَیَقْتُلُوْنَ النَّبِیِّیْنَ بِغَیْرِ الْحَقِّ ‘‘ قرآن میں نہیں ہے؟
۴… کیا تیرہ سو سالہ مفسرین کی تفسیری آراء کو یکسر نظرانداز کر کے ان کے مقابلہ میں محرف ومبدل تورات وکتب سابقہ سے اپنے اختراعی مؤقف کو ثابت کرنا کسی طرح جائز ہے؟ بَیِّنُوْا تَوَجِرُوْا!
۵… مرزاقادیانی کا یہ کہنا کہ ہر مصلوب ملعون ہوتا ہے، جھوٹ ہے۔ ذیل میں حوالہ ملاحظہ ہو۔ ’’اگر کسی نے کچھ ایسا گناہ کیا ہو جس سے اس کا قتل واجب ہو اور وہ مارا جائے اور تو اسے درخت پر لٹکائے تو اس کی لاش رات بھر لٹکی نہ رہے بلکہ تو اس دن اسے گاڑھ دے۔ کیونکہ وہ جو پھانسی دیا جاتا ہے خدا کا ملعون ہے۔ اس لئے چاہئے کہ تیری زمین جس کا وارث خداوند تیرا خدا تجھ کو کرتا ہے ناپاک نہ کی جائے۔‘‘ (استثناء باب:۲۱، آیت:۲۲،۲۳، کتاب مقدس مطبوعہ ۱۹۲۷ء ص۱۷۹)
اس حوالہ سے ثابت ہوا کہ صلیب دئیے جانے والا وہی شخص ملعون ہے جو کسی گناہ اور جرم کی پاداش میں صلیب دیا گیا ہو۔ ہر مصلوب لعنت کا مستحق نہیں حوالہ میں ’’وہ جو پھانسی دیا جاتا ہے۔‘‘ میں لفظ ’’وہ‘‘ کا اشارہ اس مجرم گنہگار کی طرف ہے۔ اگر ہر مصلوب کی ملعونیت ثابت کرنا مقصود ہوتی تو آیت کا یہ فقرہ یوں نہ ہوتا۔ بلکہ آیت میں ’’وہ جو‘‘ موصول ہے۔ وہ پھانسی دیا جانا اس کا صلہ ہے۔ چونکہ موصول پر حکم لگانے سے پہلے صلہ کا جاننا ضروری ہے۔ اس لئے مصلوب ہونے کے متعلق وہی علم ہوگا جو بائیسویں آیت سے حاصل ہورہا ہے۔ بائیسویں آیت میں مجرم کا اپنے گناہ کی سزا میں مصلوب ہونا مذکور ہے۔ اس لئے یہاں بھی ’’وہ جو‘‘ پھانسی دیا جاتا ہے اس سے مجرم ہی مراد ہے۔
۶… (سورۃ طٰہٰ:۷۱) میں ہے: ’’ وَلَا اُصَلِّبَنَّکُمْ فِیْ جُذُوْعِ النَّخْلِ ‘‘ فرعون نے کہا کہ میں سب کو کھجور کے تنوں کے ساتھ پھانسی دوں گا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے والے ساحروں کو فرعون نے صلیب پر لٹکایا۔وہ سب کے سب مقبول بارگاہ الٰہی تھے۔ ایک بھی ملعون نہ تھا۔ فرعون نے اپنا ارادہ پورا کیا اور سب کو دار پر لٹکا دیا۔ (تفسیر کبیر ج۶ ص۵۶) پر ہے: ’’ قال ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کانوا فی اوّل النہار سحرۃ ‘‘ اور ’’ فی آخرہا شہداء ‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم فرماتے ہیں کہ وہ دن کے پہلے وقت میں ساحر تھے۔ دن کے آخری وقت میں شہداء میں شامل ہوئے۔ اسی طرح بخاری ومسلم میں حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کا جو ایک جلیل القدر صحابی ہیں سولی پر مارا جانا مذکور ہے۔ چونکہ عیسیٰ علیہ السلام فی الواقعہ غیرمجرم تھے۔ اس لئے ان کا سولی دیا جانا لعنت کا باعث کیسے ہوسکتا تھا؟ پس عدم قتل کے مقابلہ میں رفع۔ رفع جسمانی ہے۔
۷… اگر یہودی مسیح علیہ السلام کو لعنتی ثابت کرنا چاہتے اور ہر مصلوب ان کے نزدیک ملعون ہوتا جیسا کہ مرزاقادیانی کا دعویٰ ہے تو یہودی بجائے ’’ اِنَّا قَتَلْنَا ‘‘ کے ’’ اِنَّا صَلَبْنَا ‘‘ کہتے اور ان کے جواب میں ’’وما قتلوہ‘‘ کی بجائے صرف ’’ وما صلبوہ ‘‘ ہوتا تاکہ ان کی پوری تردید ہو جاتی۔ ’’ یا ماہو بملعون بل رفعہ ‘‘ کہہ کر صاف لفظوں میں یہود کا رد کیا جاتا۔ لہٰذا یہودیوں کا قتل مسیح کا زوردار دعویٰ کرنا اور اﷲتعالیٰ کا ان کی تردید میں قتل ہی کی تردید کرنے سے ظاہر ہے کہ یہودیوں نے نہ کبھی ان کے لعنتی ہونے کا دعویٰ کیا اور نہ اس کے رد میں کوئی آیت نازل ہوئی۔ بلکہ ’’ ماقتلوہ ‘‘ سے یہود کی تردید اور ’’ وما صلبوہ ‘‘ سے نصاریٰ کی تردید مقصود ہے۔ پس عیسیٰ علیہ السلام کا زندہ ہونا۔ عدم قتل اور رفع الی السماء سب باتیں صادق ہیں۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

قادیانی سوال:۶​

رَفَعَہُ اللّٰ ہُ میں خدا کی طرف اٹھانا مرقوم ہے۔ آسمان کاکہاں ذکر ہے؟
جواب: ۱… خدا کے لئے فوق وعلو ہے۔ انہی معنوں سے قرآن میں کہاگیا ہے۔ ’’ ئَ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَآئِ اَنْ یَّخْسِفَ بِکُمُ الْاَرْضَ (الملک:۱۶) ‘‘ {کیا تم نڈر ہوگئے اس ذات سے جو آسمان میں ہے اس سے کہ دھنسا دے تم کو زمین میں۔} ’’ اَمْ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَآئِ اَنْ یُّرْسِلَ عَلَیْکُمْ حَاصِبًا (الملک:۱۷) ‘‘ {کیا نڈر ہو گئے ہو اس ذات سے جو آسمان میں ہے اس بات سے کہ برسا دے تم پر مینہ پتھروں کا۔}
ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انتظار وحی کے وقت آسمان کی طرف دیکھا کرتے تھے۔ ’’قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَآئِ (البقرہ:۱۴۴)‘‘ {بے شک ہم دیکھتے ہیں باربار اٹھنا تیرے منہ کا آسمان کی طرف۔}
اسی طرح خود مرزاقادیانی نے ’’رفعہ اﷲ‘‘ کے معنی آسمان کی طرف اٹھایا جانا لکھے ہیں۔ ’’رافعک کے یہی معنی ہیں کہ جب عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے تو ان کی روح آسمان کی طرف اٹھائی گئی۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۲۶۶، خزائن ج۳ ص۲۳۴)
’’مرنے کے بعد ہر مومن کی روح خدا کی طرف اٹھائی جاتی ہے۔ رب کی طرف واپس چلی جاتی ہے اور بہشت میں داخل ہو جاتی ہے۔‘‘ (ملخص ضمیمہ براہین احمدیہ پنجم ص۷۱، خزائن ج۲۱ ص۳۴۱)
’’حضرت مسیح علیہ السلام تو انجیل کو ناقص کی ناقص ہی چھوڑ کر آسمانوں پر جا بیٹھے۔‘‘
(حاشیہ براہین احمدیہ ص۳۶۱، خزائن ج۱ ص۴۳۱)
تین قرآنی آیات اور تین مرزا کے حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بابت یہ اختلاف نہیں کہ کس طرف اٹھائے گئے۔ قادیانیوں کو بھی مسلم ہے کہ مرفوع چیز آسمانوں کی طرف اٹھائی گئی۔ مرفوع میں اختلاف ہے جہت رفع میں نہیں۔ فافہم!
۲… ’ ’بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ ‘‘ {اﷲتعالیٰ نے عیسیٰ کو اپنی طرف اٹھا لیا۔} اسی کلام کے معنی ہی یہ ہیں کہ اﷲ نے آسمان پر اٹھا لیا جیسا کہ ’’ تَعْرُجُ الْمَلٰئِکَۃُ وَالرُّوْحُ اِلَیْہِ (المعارج:۴) ‘‘ {چڑھیں گے اس کی طرف فرشتے اور روح۔} کے معنی یہ ہیں کہ اﷲ نے آسمان پر اٹھا لیا جیسا کہ فرشتے اور روح الامین اﷲ کی طرف چڑھتے ہیں یعنی آسمان پر۔ ’’ وقال تعالیٰ اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ (فاطر:۱۰) ‘‘ {اس کی طرف چڑھتا ہے کلام ستھرا اور کام نیک اس کو اٹھالیتا ہے۔} یعنی آسمان کی طرف چڑھتے ہیں۔ اسی طرح ’’ بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ ‘‘ میں آسمان پر اٹھایا جانا مراد ہوگا اور جس کو خدائے تعالیٰ نے ذرا بھی عقل دی ہے وہ سمجھ سکتا ہے۔ ’’ بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ ‘‘ کے یہ معنی کہ خدا نے ان کو عزت کی موت دی۔ یہ معنی جس طرح لغت کے خلاف ہیں اسی طرح سیاق وسباق کے بھی خلاف ہیں۔
۳… اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے باسناد صحیح یہ منقول ہے: ’’لما اراد اللّٰہ ان یرفع عیسٰی الی السماء‘‘ {جب اﷲتعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان کی طرف اٹھانے کا ارادہ فرمایا الیٰ آخر القصہ۔} (تفسیر ابن کثیر ج۳ ص۹)
۴… مرزاقادیانی کا یہ کہنا کہ رفع سے ایسی موت مراد ہے جو عزت کے ساتھ ہو۔ جیسے مقربین کی موت ہوتی ہے کہ ان کی روحیں مرنے کے بعد علیین تک پہنچائی جاتی ہیں۔ (حوالہ مذکور)
اس عبارت سے خود واضح ہے کہ: ’’ بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ ‘‘ سے آسمان پر جانا مراد ہے۔ اس لئے کہ ’’ علیین ‘‘ اور ’’ مقعد صدق ‘‘ تو آسمان ہی میں ہیں۔ بہرحال آسمان پر جانا تو مرزاقادیانی کو بھی تسلیم ہے۔ اختلاف اس میں ہے کہ آسمان پر حضرت مسیح بن مریم کی فقط روح گئی یا روح اور جسد دونوں گئے؟ سو یہ ہم پہلے ثابت کر چکے ہیں کہ آیت میں بجسدہ العنصری رفع مراد ہے۔ ذیل میں خود مرزاقادیانی کے ہم تین حوالے پیش کرتے ہیں جن سے اﷲتعالیٰ کے آسمان پر ہونے اور رفع الی السماء کا ثبوت ہوتا ہے۔ دیکھئے:
حوالہ:۱ ’’ فرزند دلبند گرامی ارجمند مظہر الحق والعلا کان اللّٰہ نزل من السماء ‘‘ (تذکرہ ص۱۸۵)
معلوم ہوا کہ مرزاقادیانی کے نزدیک بھی اﷲتعالیٰ آسمان میں ہے۔
حوالہ:۲ ’’ الا یعلمون ان المسیح ینزل من السماء بجمیع علومہ ‘‘ (آئینہ کمالات اسلام، خزائن ج۵ ص۴۰۹)
’’کیا لوگ نہیں جانتے کہ مسیح آسمان سے تمام علوم کے ساتھ اتریں گے۔‘‘
پتہ چلا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پہلے ہی آسمان پر اٹھائے گئے ہیں جبھی تو وہاں سے نازل ہوں گے۔
حوالہ:۳ ’’ہر ایک اپنے درجہ کے موافق آسمانوں کی طرف اٹھایا جاتا ہے اور اپنے قرب کے انداز کے موافق رفع سے حصہ لیتا ہے اور انبیاء اور اولیاء کی روح اگرچہ دنیوی حیات کے زمانہ میں زمین پر ہو مگر پھر بھی اس آسمان سے اس کا تعلق ہوتا ہے، جو اس کی روح کے لئے حد رفع ٹھہرایا گیا ہے اور موت کے بعد وہ روح اس آسمان میں جا ٹھہرتی ہے جو اس کے لئے حد رفع مقرر کیاگیا ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۳۴۵، خزائن ج۳ ص۲۷۶)
اس حوالہ سے ثابت ہوا کہ الیہ سے مراد آسمان ہی ہے اور جہت رفع میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ بلکہ اختلاف مرفوع شی میں ہے کہ آیا صرف روح اٹھائی گئی، یا اس کے ساتھ جسم بھی تھا؟

قادیانی سوال:۷​

’’صلب کا معنی صلیب پر مارنا ہے۔‘‘
جواب: لغت میں صلب کا معنی صرف سولی پر چڑھانا ہے۔ اسے موت لازم نہیں۔
۱… صراح میں ہے صلب بردار کردن۔ صلیب پر چڑھانا۔
۲… (غیاث اللغات ص۳۰۹، مطبوعہ مجیدی کانپور) میں صلیب کے لفظ کے تحت لکھا ہے: ’’بمعنی بردار کردن وجہش آنکہ چوں عیسیٰ علیہ السلام رابر آسمان بردند۔ طرطوس نام شخصے را کہ بشکل عیسیٰ علیہ السلام بود۔ بردار کشیدند‘‘ صلیب پر چڑھایا اس کی وجہ یہ تھی کہ جب عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا گیا تو طرطوس نامی شخص جو عیسیٰ علیہ السلام کا ہم شکل تھا صلیب پر چڑھا دیا۔
۳… حضرت شاہ ولی اﷲ رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ’’ ونہ کشتند اورا وبردار نکردند اورا۔ ‘‘ نہ انہوں (یہود ) نے ان (عیسیٰ) کو قتل کیا اور نہ ان کو چڑھایا (صلیب پر)
۴… حضرت شاہ رفیع الدین رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ’’اور نہیں مارا اس کو نہ سولی دی۔‘‘
۵… حضرت شاہ عبدالقادر رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ’’اور نہ اس کو مارا اور نہ سولی پر چڑھایا۔‘‘ ان تصریحات سے یہ بات ثابت ہوئی کہ صلبوہ کا معنی اسے صلیب پر چڑھانا۔ ’’ وما صلبوہ ‘‘ کا معنی اس کو صلیب پر نہیں چڑھایا۔

قادیانیوں سے سوال:۳​

اگر صلب کا معنی صلیب پر چڑھا کر مارنا ہے اور مصلوب کا معنی صلیب پر چڑھا کر مارا ہوا، تو صرف سولی پر چڑھانے اور سولی پر چڑھائے ہوئے، کے لئے کون سا لفظ ہے؟ پوری دنیا کے قادیانی مل کر مطلق صلب کے لئے کوئی لفظ بتاسکتے ہیں؟

قادیانی سوال:۸​

مرزائی کہتے ہیں کہ بھلا حضرت عیسیٰ علیہ السلام انسان ہوتے ہوئے آسمان پر کیسے جاسکتے ہیں؟ آسمان وزمین کے بیچ کئی (ناری کرے) ہیں جن سے گزرنے کی تاب انسان نہیں رکھتا۔ اسی وجہ سے جب مشرکین مکہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آسمان پر جائیں تو ہم ایمان لائیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا تھا کہ: ’’ ہل کنت الا بشراً رسولا ‘‘ معلوم ہوا انسان یہ کام نہیں کرسکتا۔
جواب: ۱… ایک انتہائی ضروری حوالہ
یہ حوالہ نہیں بلکہ ایسا کیمیاوی ایٹم بم ہے جو صرف مذکورہ سوال ہی نہیں بلکہ وفات عیسیٰ کے بارے میں مرزائیوں کے تمام اشکالات کو بھسم کر دیتا ہے اور جگہ جگہ کام آئے گا۔ دل پر ہاتھ رکھ کر ملاحظہ کریں۔ جواب کے الفاظ یہ ہیں: ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام ناری کروں سے گزر کر آسمان پر ایسے ہی چلے گئے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام چلے گئے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں۔ ویسے ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں۔‘‘ اور یہ کوئی ہماری ایجاد نہیں بلکہ خود مرزائیوں کے حضرت صاحب نے لکھا ہے۔ دیکھئے حوالہ:۱ ’’ بل حیاۃ کلیم اللّٰہ ثابت بنص القرآن الکریم الاتقرء فی القرآن ماقال اللّٰہ تعالٰی عزوجل، فلا تکن فی مریۃ من لقائہ وانت تعلم ان ہذہٖ الایۃ نزلت فی موسٰی فہی دلیل صریح علٰی حیاۃ موسٰی علیہ السلام لانہ لقی رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم والاموات لا یلاقون الاحیاء ولا تجد مثل ہذہ الایات فی شان عیسٰی علیہ السلام نعم جاء ذکر وفاتہ فی مقامات شتی ‘‘ (حمامتہ البشریٰ ص۵۵، خزائن ج۷ ص۲۲۱)
بلکہ حیات کلیم اﷲ (موسیٰ علیہ السلام) نص قرآن کریم سے ثابت ہے کیا تو نے قرآن کریم میں نہیں پڑھا۔ اﷲتعالیٰ کا قول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شک نہ کریں ان کی ملاقات سے یہ آیت موسیٰ علیہ السلام کی ملاقات کے بارے میں نازل ہوئی۔ یہ آیت دلیل صریح ہے موسیٰ علیہ السلام کی حیات پر۔ اس لئے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی موسیٰ علیہ السلام سے (معراج میں) ملاقات ہوئی اور (اگر موسیٰ علیہ السلام فوت شدہ ہوتے) مردے زندوں سے نہیں ملا کرتے۔ ایسی آیات تو عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں نہیں بلکہ مختلف مقامات پر ان کی وفات کا ذکر ہے۔
حوالہ:۲ ’’ ہذا ہو موسٰی فتی اللّٰہ الذی اشار اللّٰہ فی کتابہ الی حیاتہ وفرض علینا ان نؤمن بانہ حی فی السماء ولم یمت ولیس من المیتین ‘‘ یہ وہی موسیٰ مرد خدا ہے جس کی نسبت قرآن میں اشارہ ہے کہ وہ زندہ ہے اور ہم پر فرض ہوگیا کہ ہم اس بات پر ایمان لائیں کہ وہ زندہ آسمان میں موجود ہے اور مردوں میں سے نہیں۔ (نورالحق ص۵۰، خزائن ج۸ ص۶۹)
جواب: ۲… مذکورہ بالا اعتراض وعذر کا جواب یہ ہے کہ… یہاں بحث خود جانے کی نہیں بلکہ خدا کے لے جانے کی ہے۔ کیا کوئی شخص یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ نعوذ باﷲ، اﷲتعالیٰ بھی کسی کو آسمان پر لے جانے کی قدرت نہیں رکھتا؟ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بشریت کا اقرار کر کے مطالبہ پورا کرنے سے جو عذر کیا ہے اس میں خود جانے کی نفی ہے۔ اﷲتعالیٰ کے لئے جانے کی نفی نہیں ہے۔ چنانچہ معراج میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم منجانب خداوندی آسمان پر لے جائے گئے نہ کہ خود گئے۔
۳… مرزاقادیانی خود تسلیم کرتے ہیں کہ آسمان پر بجسم عنصری جانا ناممکن نہیں بلکہ ممکن ہے۔ مرزاقادیانی کی اپنی عبارت ملاحظہ فرمائیں: ’’ہماری طرف سے یہ جواب ہی کافی ہے کہ اوّل تو خداتعالیٰ کی قدرت سے کچھ بعید نہیں کہ انسان مع جسم عنصری آسمان پر چڑھ جائے۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۲۱۹، خزائن ج۲۳ ص۲۲۸)
۴… مرزائیوں پر تعجب ہے کہ بابا گرونانک کے چولہ کا آسمان پر سے اترنا تو مرزاقادیانی کے نزدیک تسلیم ہوسکتا ہے اور اس کو آگ نہیں جلاتی، لیکن حضرت مسیح کے جانے یا آنے سے کرۂ زمہریر یا کرۂ ناریہ مانع ہے؟
مرزاقادیانی کا یہ اقرار (ست بچن ص۳۷، خزائن ج۱۰ ص۱۵۷) پر ملاحظہ فرمائیں: ’’بعض لوگ انگد کے جنم ساکھی کے اس بیان پر تعجب کریں گے کہ یہ چولہ آسمان سے نازل ہوا ہے اور خدا نے اس کو اپنے ہاتھ سے لکھا ہے۔ مگر خداتعالیٰ کی بے انتہاء قدرتوں پر نظر کر کے کچھ تعجب کی بات نہیں۔ کیونکہ اس کی قدرتوں کی کسی نے حد بست نہیں کی۔‘‘
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان پر جانا اور پھر نازل ہونا مرزاقادیانی خود انجیل کے حوالہ سے تسلیم کرتا ہے۔ مرزاقادیانی کی اپنی عبارت ملاحظہ فرمائیں: ’’اور منجملہ انجیلی شہادتوں کے جو ہم کو ملی ہیں انجیل متی کی مندرجہ ذیل آیت ہے اور اس وقت انسان کے بیٹے کا نشان آسمان پر ظاہر ہوگا اور اس وقت زمین کی ساری قومیں چھاتی پیٹیں گی اور انسان کے بیٹے کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آسمانوں کے بادلوں پر آتے دیکھیں گے۔ دیکھو متی باب:۲۴، آیت:۳۰‘‘
(مسیح ہندوستان میں ص۳۸، خزائن ج۱۵ ص۳۸)
حاصل کلام یہ ہوا کہ قرآن وحدیث وبائبل سب مسیح کے حیات ونزول جسمانی ورفع جسمانی کے قائل ہیں۔ لہٰذا اب کوئی آیت یا حدیث یا بائبل پیش کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔
۵… اﷲتعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ بجسد عنصری آسمانوں پر لے گئے اور ناری کرہ ان کے لئے رکاوٹ نہ بنا۔ اﷲتعالیٰ نے اس ناری کرہ کو اسی طرح ٹھنڈا کر دیا جس طرح حضرت آدم علیہ السلام اور حواء کے لئے ٹھنڈا کیا اور انہیں جنت سے زمین پر اتارا اور جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے اﷲتعالیٰ نے آگ کو ٹھنڈا کر دیا۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے بھی ناری کرہ کو ٹھنڈا کر دیا۔ مرزاقادیانی خود اعتراف کرتا ہے، وہ لکھتا ہے:
۱… ’’حضرت ابراہیم علیہ السلام چونکہ صادق اور خداتعالیٰ کا وفادر بندہ تھا اس لئے ہر ایک ابتلاء کے وقت خدا نے اس کی مدد کی۔ جب کہ وہ ظلم سے آگ میں ڈالا گیا۔ خدا نے آگ کو اس کے لئے سرد کر دیا۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۵۰، خزائن ج۲۲ ص۵۲)
۲… اسی کا تھا معجزانہ اثر
کہ نانک بچا جس سے وقت خطر
بچا آگ سے اور بچا آب سے
اسی کے اثر سے نہ اسباب سے​
(ست بچن ص۴۲، خزائن ج۱۰ ص۱۶۲)​
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

خلاصۂ بحث​

اﷲ رب العزت عام قوانین فطرت کے خلاف بھی کبھی کام کرتے ہیں۔ یہ اس کے خاص نوامیس فطرت ہیں یہ بات مرزاقادیانی کے ہاں بھی مسلم ہے۔ اگر مرزاقادیانی کی پیش کردہ مثالیں درست ہیں تو پھر ناری کروں کی موجودگی کے باوجود حضرت آدم علیہ السلام کا اترنا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع ونزول بھی عام قانون قدرت کے خلاف ممکن ہے۔ اگر قادیانیوں نے یہی کہنا ہے کہ کوّا سفید ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ناری کرہ سے کیسے گزر گئے؟ تو مرزائی ہم سے سوال کرنے سے قبل یہ اعلان کریں کہ مذکورہ حوالوں میں مرزاقادیانی نے یکے بعد دیگرے کئی جھوٹ بولے ہیں۔
الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا​

قادیانی اشکال برحوالہ مذکورہ​

مرزائی عموماً حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس رفع کو بھی رفع روحانی پر محمول کر کے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ مگر جان چھوٹ جانا اتنا آسان تھوڑا ہی ہے۔ اس تاویل کا تحقیقی جواب یہ ہے:
حوالہ بالا میں خود مرزاقادیانی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تقابل کیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام تو زندہ ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں۔ یہ تقابل اسی وقت درست ہوسکتا ہے جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جسمانی موت اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جسمانی حیات مراد لی جائے۔ مذہب قادیانی میں یہی ہے۔ قادیانی اس عبارت کی تاویل کرتے ہیں کہ ’’حی فی السماء‘‘ سے مراد روحانی حیات ہے اور آگے ’’لم یمت‘‘ سے نفی بھی روحانی موت کی ہی ہورہی ہے۔ یہ تاویل چند وجوہ سے باطل ہے۔
اوّلاً… کوئی شخص حضرت موسیٰ علیہ السلام کی روحانی موت کا قائل نہیں ہے کہ ان کی روحانی حیات ثابت کرنے کی ضرورت پیش آئی تھی۔
ثانیاً… ’’نورالحق‘‘ میں مذکورہ عبارت کی چند سطروں کے بعد مرزاقادیانی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تقابل کیا ہے، کہتا ہے: ’’ ولا تجد مثل ہذہ الایات فی شان عیسٰی ‘‘ اگر یہ تقابل مانا جائے اور مرزائیوں کی تاویل بھی مانی جائے تو اس عبارت سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روحانی موت کا اقرار کرنا پڑے گا اور یہ کفر ہے۔ لہٰذا دونوں جگہ جسمانی حیات ہی مراد لی جانی چاہئے۔

قادیانی سوال:۹​

مرزائی یہ کہتے ہیں کہ ’’رفعہ‘‘ میں ضمیر کے مرجع کا فرق صنعت استخدام کے قبیل سے ہے… اس کا جواب یہ ہے کہ صنعت استخدام اس وقت ہوسکتی ہے جب کہ عیسیٰ ابن مریم کے دو معنی ہوں، جس کا دنیا میں کوئی قائل نہیں ہے اور اس کے باوصف اسے استخدام کی صنعت قرار دینا مرزائیوں کی جہالت پر بین دلیل ہے۔ اس لئے کہ:
صنعت استخدام کی تعریف یہ ہے کہ ایک لفظ کے دو معنی ہوں اور لفظ بول کر اس کا ایک معنی مراد لیا جائے اور جب اس لفظ کی طرف ضمیر لوٹے تو دوسرے معنی مراد ہوں یا دو ضمیریں ہوں ایک ضمیر لوٹا کر ایک معنی اور دوسری ضمیر لوٹا کر دوسرا معنی مراد لیا جائے۔ (از تلخیص المفتاح ص۷۱)
اذا نزل السماء بارض قوم
رعیناہ وان کانوا خضابا​
سماء کا معنی بارش ہے اور دوسرا معنی جس کی طرف ’’رعیناہ‘‘ کی ضمیر لوٹتی ہے۔ سبزہ ہے جو اس بارش سے اگا۔

قادیانیوں کا سوال:۱۰​

تھک ہار کر مرزائی ایک بہت دور کی کوڑی لائے کہ آیت بالا سے اثبات رفع اسی وقت ہوسکتا ہے جب کہ ’’ وما قتلوہ ‘‘ اور ’’ رفعہ ‘‘ دونوں کی ضمیر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ایک ہی کیفیت جسد مع الروح کی طرف راجع ہو۔ ہم اس کو نہیں مانتے۔ بلکہ ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ رفعہ کی ضمیر کا مرجع صرف روح عیسوی ہے نہ کہ جسد اور اس کی نظیر قرآن کریم کی یہ آیت ہے: ’’ ثم اماتہ فاقبرہ ‘‘ جس میں بالاتفاق پہلی ضمیر کا مرجع جسد مع الروح اور دوسری ضمیر کا مرجع صرف روح یا صرف جسد ہے۔
جواب: ۱… مرزائی اس خوش فہمی میں نہ رہیں کہ ہم نے یہ اعتراض کر کے کوئی بڑا تیر مار لیا ہے۔ کیونکہ جس آیت سے مرزائیوں نے استدلال کیا ہے وہ آیت مبحوث عنہا کی نظیر ہرگز نہیں بن سکتی۔ کیونکہ اماتہ کہنے کے بعد لامحالہ روح اور جسد میں انفصال ہوگیا تو اب ’’اقبرہ‘‘ کی ضمیر دونوں کی طرف راجع نہیں ہوسکتی ہے۔ ایک ہی کی طرف راجع ہوگی اور ہماری ذکر کردہ آیت: ’’ وما قتلوہ یقینًا بل رفعہ اللّٰ ہ‘‘ میں قتل کی نفی کے بعد رفع کا اثبات کیا جارہا ہے۔ گویا کہ صراحتاً جسد وروح کے انفصال کی نفی کی جارہی ہے۔ اس لئے یہاں جسد مع الروح ہی مرجع قرار دیا جاسکتا ہے۔ کسی ایک کو لینا اور دوسرے کو چھوڑنا درست نہ ہوگا۔
۲… مندرجہ بالا آیت میں موت واقع ہونے کے بعد جب کہ جسد اور روح میں انفصال ہو گیا تو لامحالہ دوسری ضمیر کا مرجع یا صرف جسد ہوگا یا صرف روح۔ دونوں نہیں بن سکتے بخلاف متنازعہ فیہ آیت کے کہ اس میں قتل اور صلیب (یعنی موت کی نفی) کے بعد رفع کے ساتھ ضمیر آرہی ہے تو لامحالہ یہاں رفع جسد مع الروح کا ہوگا نہ کہ فقط روح کا۔ لہٰذااس آیت پر قیاس، قیاس مع الفارق کے قبیل سے ہے جو درست نہیں۔
۳… یہ ہے کہ ’’اماتہ فاقبرہ‘‘ میں بھی دونوں جگہ مرجع جسد مع الروح ہی ہے اور اس میں انسان کے متعدد احوال ذکر ہورہے ہیں جو انسان ’’ معہود فی الذہن ‘‘ ہے۔
یہاں رفع روحانی اس لئے بھی نہیں ہوسکتا کہ یہاں پر چار جگہ واحد مذکر غائب کی ضمیر آئی ہے جن میں تین ضمیروں کا مرجع بالاتفاق عیسیٰ بن مریم جسد مع الروح ہے۔ ان ضمیروں کا مرجع نہ صرف جسد ہے اور نہ صرف روح ہے۔ کیونکہ قتل اور صلیب کا فعل تب ہی واقع ہوسکتا ہے جب جسد اور روح اکٹھے ہوں تو لامحالہ یہاں پر رفع کی ضمیر کا مرجع بھی جسد مع الروح ہی ہوگا، نہ کہ فقط روح۔ نیز یہاں پر ’’ کان اللّٰہ عزیزًا حکیما ‘‘ کا جملہ اس بات کی قوی دلیل ہے کہ یہاں رفع جسمانی ہی ہے۔ ورنہ رفع روحانی کے لئے ان صفات کے لانے کی ضرورت نہیں تھی اور یہ اﷲتعالیٰ کے کلام میں زائد جملہ ہو جائے گا اور یہ ہو نہیں سکتا۔ قرآن کا ہر جملہ معنی خیز ہے۔

قادیانی اعتراض:۱۱​

ایک حدیث میں ہے: ’’ اذا تواضع العبد رفعہ اللّٰہ الی السماء السابعۃ رواہ الخرائطی فی مکارم الاخلاق ‘‘ جب بندہ تواضع کرتا ہے تو اﷲتعالیٰ اس کو ساتویں آسمان پر اٹھا لیتے ہیں۔ اس حدیث کو خرائطی نے اپنی کتاب مکارم الاخلاق میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے روایت کیا ہے۔ (کنزالعمال ج۳ ص۱۱۰، حدیث ۵۷۲۰، باب التواضع)
اس روایت کو مرزائی بہت خوش ہوکر بطور اعتراض پیش کیا کرتے ہیں کہ رفع کا مفعول جسمانی شئے ہے اور الی السماء کی بھی تصریح ہے مگر باوجود اس کے رفع سے رفع جسمی مراد نہیں بلکہ رفع معنوی مراد ہے۔
جواب: یہاں مجاز کے لئے قرینہ عقلیہ قطعیہ موجود ہے کہ یہ اس زندہ کے حق میں ہے۔ یعنی جو بندہ لوگوں کے سامنے زمین پر چلتا ہے اور تواضع کرتا ہے تو اس کا مرتبہ اور درجہ اﷲ کے یہاں ساتویں آسمان کے برابر بلند اور اونچا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہاں رفع جسم مراد نہیں بلکہ رفع درجات مراد ہے۔ غرض یہ کہ رفع کے معنی بلندی رتبہ مجازًا بوجہ قرینہ عقلیہ لئے گئے اور اگر کسی کم عقل کی سمجھ میں یہ قرینہ عقلیہ نہ آئے تو اس کے لئے قرینہ لفظیہ بھی موجود ہے۔ وہ یہ کہ (کنزالعمال ج۳ ص۱۱۰، حدیث ۵۷۲۱) میں روایت مذکورہ کے بعد ہی علی الاتصال یہ روایت مذکور ہے۔ ’’ من تواضع للّٰہ درجۃً یرفعہ اللّٰہ درجۃً حتی یجعلہ فی علیین ‘‘ یعنی جس درجہ کی تواضع کرے گا اسی کے مناسب اﷲ اس کا درجہ بلند فرمائیں گے۔ یہاں تک کہ جب وہ تواضع کے آخری درجہ پر پہنچ جائے گا تو اﷲتعالیٰ اس کو علیین میں جگہ دیں گے جو علو اور رفعت کا آخری مقام ہے۔ اس حدیث میں صراحتاً لفظ درجہ کا مذکور ہے اور قاعدہ مسلمہ ہے۔ ’’ الحدیث یفسر بعضہ بعضًا ‘‘ ایک حدیث دوسری حدیث کی تفسیر اور شرح کرتی ہے۔ غرض قرآن وحدیث میں جہاں کہیں رفع کو درجات کی بلندی میں استعمال کیاگیا وہاں کوئی نہ کوئی قرینہ صارفہ موجود ہے۔ جوادنیٰ تأمل سے معلوم ہوسکتا ہے کہ یہ مجازی معنی میں اس وجہ سے استعمال ہورہا ہے۔ فافہم!
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

حیات عیسیٰ علیہ السلام کی دوسری دلیل​

’’ قال اللّٰہ عزوجل وَاِنْ مِّنْ اَہْلِ الکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکُوْنُ عَلَیْہِمْ شَہِیْدًا (نساء:۱۵۹) ‘‘ {اور جتنے فرقے ہیں اہل کتاب کے سو عیسیٰ پر یقین لائیں گے اس کی موت سے پہلے اور قیامت کے دن ہو گا ان پر گواہ۔}
ف… حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ موجود ہیں آسمان پر، جب دجال پیدا ہوگا تب اس جہان میں تشریف لاکر اسے قتل کریں گے یہود اور نصاریٰ ان پر ایمان لائیں گے کہ بے شک عیسیٰ زندہ ہیں مرے نہ تھے اور قیامت کے دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کے حالات اور اعمال کو ظاہر کریں گے کہ یہود نے میری تکذیب اور مخالفت کی اور نصاریٰ نے مجھ کو خدا کا بیٹا کہا۔ (تفسیر عثمانی)
ربط: یہ آیت گزشتہ آیت ہی کے سلسلہ کی ہے۔ گزشتہ آیات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع الی السماء کا ذکر تھا۔ جس سے طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ اب رفع الی السماء کے بعد کیا ہوگا؟ اس آیت میں اس کا جواب مذکور ہے کہ وہ اس وقت تو آسمان پر زندہ ہیں۔ مگر قیامت کے قریب آسمان سے نازل ہوں گے اور اس وقت تمام اہل کتاب ان کی موت سے پہلے ان پر ایمان لے آئیں گے اور چند روز دنیا میں رہ کر انتقال فرمائیں گے اور روضۂ اقدس میں مدفون ہوں گے جیسا کہ احادیث میں مذکور ہے اور یہود بے بہبود جو ان کے قتل کے مدعی ہیں ان کو اپنی آنکھوں سے زندہ دیکھ کر اپنی غلطی پر ذلیل اور نادم ہوں گے۔

بیان ربط بعنوان دیگر​

گزشتہ آیات میں حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھ یہود کے کفر اور عداوت کا ذکر تھا۔ اس آیت میں ان کے ایمان کا ذکر ہے کہ رفع الی السماء سے پہلے اگرچہ یہود حضرت مسیح علیہ السلام کی نبوت سے منکر تھے۔ مگر نزول من السماء کے بعد تمام اہل کتاب ان پر ایمان لے آئیں گے اور ان کی نبوت کی تصدیق کریں گے۔ چنانچہ ارشاد فرماتے ہیں کہ آئندہ زمانے میں کوئی شخص اہل کتاب میں سے باقی نہ رہے گا۔ مگر عیسیٰ علیہ السلام کے مرنے سے پہلے ان کی نبوت ورسالت پر ضرور بالضرور ایمان لے آئے گا۔ (لام تاکیدونون تاکید) رفع الی السماء سے پہلے تکذیب اور عداوت تھی۔ نزول کے بعد تصدیق وتکذیب اور محبت اور عداوت کی شہادت دیں گے تاکہ شہادت کے بعد فیصلہ سنادیا جائے۔
اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام ابھی زندہ ہیں۔ قیامت کے قریب آسمان سے نازل ہوں گے اور ان کی وفات سے پہلے تمام اہل کتاب ان پر ایمان لے آئیں گے اس کے بعد ان کی وفات ہوگی۔
تفسیر آیت: اس آیت کی تفسیر میں صحابہi وتابعین رحمہ اللہ تعالیٰ وعلماء مفسرین کے دو قول ہیں۔
قول اوّل: مشہور اور جمہور کے نزدیک مقبول اور راجح یہ ہے کہ: ’’ لَیُؤْمِنَنَّ ‘‘ کی ضمیر کتابی کی طرف راجع ہے اور ’ ’بِہٖ ‘‘ اور ’’ قَبْلَ مَوْتِہٖ ‘‘ کی دونوں ضمیریں عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہیں اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ: ’’نہیں رہے گا کوئی شخص اہل کتاب میں مگر البتہ ضرور ایمان لے آئے گا (زمانہ آئندہ یعنی زمانہ نزول میں) عیسیٰ علیہ السلام ان پر گواہ ہوں گے۔‘‘ چنانچہ حضرت شاہ ولی اﷲ قدس اﷲ سرہ اس آیت کا ترجمہ اس طرح فرماتے ہیں۔
’’ نباشد ہیچ کس از اہل کتاب الا البتہ ایمان آرد بعیسیٰ پیش از مردن۔ وروز قیامت عیسیٰ گواہ باشد برایشاں۔ ‘‘
ف… مترجم می گوید یعنی یہودی کہ حاضر شوند، نزول عیسیٰ را البتہ ایمان آرند۔ انتہی!
حضرت شاہ ولی اﷲ رحمہ اللہ تعالیٰ کے اس ترجمہ اور فائدہ تفسیریہ سے صاف ظاہر ہے کہ ’ ’بِ ہٖ‘‘ اور ’ ’مَوْتِہٖ ‘‘ کی دونوں ضمیریں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہیں۔ جیسا کہ آیت کے سیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے۔ اس لئے کہ ’’ وَمَا قَتَلُوْہُ ‘‘ اور ’’ وَمَا صَلَبُوْہُ ‘‘ اور ’’ وَمَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا ‘‘ اور ’’ بَلْ رَّفَعَہُ ‘‘ کی تمام ضمائر مفعول حضرت مسیح بن مریم علیہ السلام ہی کی طرف راجع ہیں اور پھر آئندہ آیت ’’ وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکُوْنُ عَلَیْہِمْ شَہِیْدًا ‘‘ میں ’ ’یَکُوْنُ ‘‘ کی ضمیر بھی حضرت مسیح علیہ السلام ہی کی طرف راجع ہو گی تاکہ سیاق اور سباق کے خلاف نہ ہو۔
حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے باسناد صحیح منقول ہے کہ: ’ ’بِہٖ ‘‘ اور ’’ مَوْتِ ہٖ‘‘ کی ضمیریں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہیں۔ دیکھئے: (فتح الباری ج۶ ص۳۵۷)
اور قتادہ رحمہ اللہ تعالیٰ اور ابومالک رحمہ اللہ تعالیٰ سے بھی یہی منقول ہے کہ ’’قَبْلَ مَوْتِہٖ‘‘ کی ضمیر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہے۔ (تفسیر ابن جریر ج۶ ص۱۴)

تفسیر ازروئے حدیث​

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی ایک روایت میں ہے جس کو امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ اور امام مسلم رحمہ اللہ تعالیٰ نے روایت کیا ہے اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ: ’’بہ‘‘ اور ’’موتہ‘‘ کی ضمیریں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہیں۔
’’ عن ابی ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم قال قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم والذی نفسی بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم حکما عدلاً فیکسر الصلیب ویقتل الخنزیر ویضع الحرب ویفیض المال حتی لا یقبلہ احد حتی تکون السجدۃ الواحدۃ خیر الہ من الدنیا وما فیہا ثم یقول ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم واقروا ان شئتم وان من اہل الکتٰب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ویوم القیمۃ یکون علیہم شہیدا ‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ بے شک عنقریب تم میں عیسیٰ بن مریم نازل ہوں گے۔ درآنحالیکہ وہ فیصلہ کرنے والے اور انصاف کرنے والے ہوں گے۔ صلیب کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے اور لڑائی کو ختم کردیں گے۔ مال کو بہادیں گے۔ یہاں تک کہ مال کو قبول کرنے والا کوئی نہ ملے گا اور ایک سجدہ دنیا اور مافیہا سے بہتر ہوگا۔ پھر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم یہ فرماتے ہیں کہ اگر چاہو تو اس حدیث کی تصدیق کے لئے یہ آیت پڑھو: ’’ وَاِنْ مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکُوْنُ عَلَیْہِمْ شَہِیْدًا ‘‘ (بخاری شریف کتاب الانبیاء باب نزول عیسیٰ بن مریم ص۴۹۰، ج۱ طبع مجتبائی، مسلم شریف ج۱ ص۲۹۹تا۳۰۱، طبع بجنور بفتح الملہم باب نزول عیسیٰ بن مریم)
حافظ عسقلانی رحمہ اللہ تعالیٰ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: ’’ وہذا مصیر من ابی ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم الی ان الضمیر فی قولہ بہ وموتہ یعود علی عیسیٰ علیہ السلام ای الا لیؤمنن بعیسٰی قبل موت عیسٰی ‘‘ (فتح الباری ج۶ ص۳۵۷)
یعنی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کا اس طرح آیت کا پڑھنا اس کی دلیل ہے کہ ’’بہٖ‘‘ اور ’’موتہٖ‘‘ کی ضمیریں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہیں۔ یعنی ہر شخص زمانہ آئندہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ضرور ایمان لے آئے گا۔
حافظ عسقلانی رحمہ اللہ تعالیٰ فتح الباری میں فرماتے ہیں: ’’ وقد اختار کون الضمیر لعیسٰی، ابن جریر، وبہ قال جماعۃ من السلف وہو الظاہر لا نہ تقدم ذکر عیسٰی وذہب کثیر من التابعین فمن بعدہم الی ان المراد قبل موت عیسٰی کما روی عن ابن عباس قبل ہذا ‘‘ (فتح الباری)
دونوں ضمیروں کا یعنی ’’بہ‘‘ اور ’’موتہ‘‘ کی ضمیروں کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہونا اس کو امام بن جریر اور سلف کی ایک جماعت نے راجح قرار دیا ہے اور قرآن کریم کا سیاق بھی اس کو مقتضی ہے۔ کیونکہ گزشتہ کلام میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی کا ذکر ہے اور تابعین اور تبع تابعین کثرت سے اسی طرف ہیں کہ آیت کی مراد یہ ہے کہ ’’قبل موت عیسٰی‘‘ یعنی عیسیٰ علیہ السلام کے مرنے سے پہلے جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے مروی ہے۔
قول ثانی: آیت کی تفسیر میں دوسرا قول یہ ہے کہ: ’’بہٖ‘‘ کی ضمیر تو عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہے اور ’’قَبْلَ مَوْتِہٖ‘‘ کی ضمیر کتابی کی طرف راجع ہے اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ ہر کتابی اپنے مرنے سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت ورسالت اور ان کی عبدیت پر ایمان لے آتا ہے۔ جیسا کہ ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی قرأت ’’ وَاِنْ مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہِمْ ‘‘ اسی معنی کی صریح مؤید ہے یعنی نہیں ہے کوئی اہل کتاب میں سے مگر وہ ضرور ایمان لے آئیں گے اپنے مرنے سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت ورسالت پر۔ یعنی اس بات پر کہ وہ اﷲ کے بندے اور رسول تھے۔ خدا اور خدا کے بیٹے نہیں تھے۔ مگر یہ ایمان چونکہ خروج روح کے وقت ہوتا ہے۔ اس لئے شرعاً معتبر نہیں اور نہ آخرت میں نجات کے لئے کافی ہے۔ اس قرأت میں بجائے ’’قَبْلَ مَوْتِہٖ‘‘ کے ’ ’قَبْلَ مَوْتِہِمْ ‘‘ بصیغہ جمع آیا ہے۔ جو صراحۃً اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ’’ قَبْلَ مَوْتِہِمْ ‘‘ کی ضمیر اہل کتاب کی طرف راجع ہے۔ لہٰذا اسی طرح دوسری قرأت میں بھی ’ ’قَبْلَ مَوْتِہٖ ‘‘ کی ضمیر کتابی کی طرف راجع ہونی چاہئے تاکہ دونوں قرأتیں متفق ہو جائیں۔ حافظ عسقلانی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ ورجح جماعۃ ہذا المذہب بقرأۃ ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم الا لیومنن بالضم بہ قبل موتہم ای اہل الکتٰب قال النووی معنی الایۃ علی ہذا لیس من اہل الکتٰب اذا یحضرہ الموت الا آمن عند المعانیۃ قبل خروج روحہ بعیسٰی علیہ السلام انہ عبداللّٰہ ولٰکن لا ینفعہ ہذا الایمان فی تلک الحالۃ کما قال اللّٰہ عزوجل ولیست التوبۃ للذین یعملون السیأت حتی اذا حضر احدہم الموت قال انی تبت الاٰن ‘‘ (فتح الباری ج۶ ص۳۵۷)
’’علماء کی ایک جماعت نے ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی قرأت کی بناء پر اس قول کو راجح قراردیا ہے کہ ’’موتہ‘‘ کی ضمیر کتابی کی طرف راجع ہے اور اس قول کی بناء پر آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ ہر کتابی اپنی روح نکلنے سے پہلے اس بات پر ایمان لے آتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اﷲ کے بندے اور رسول تھے۔ مگر ایسی حالت میں ایمان اس کو نافع اور مفید نہیں ہوتا جیسا کہ اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’وَلَیْسَتِ التَّوْبَۃ الخ‘‘ یعنی جب موت آجائے تو اس وقت توبہ مقبول نہیں۔‘‘
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

ترجیح ارجح وتصحیح اصح​

جمہور سلف اور خلف کے نزدیک آیت کی تفسیر میں راجح اور مختار قول اوّل ہے اور دوسرا قول ضعیف ہے۔ اس لئے کہ اس قول کا دارومدار ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی قرأت پر ہے اور یہ قرأت شاذ ہے۔ کسی صحیح یا حسن سند سے بھی ثابت نہیں۔
سند کے راوی ضعیف اور مجروح ہیں۔ تفسیر ابن جریر میں اس قرأت کی اسانید مذکور ہیں اور علیٰ ہذا اس بات میں جس قدر روایتیں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے مروی ہیں وہ بھی ضعیف ہیں۔ امام جلیل وکبیر حافظ عمادالدین ابن کثیر رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں۔
’’ واولٰی ہذہ الا قوال بالصحۃ القول الاوّل وہو انہ لا یبقی احد من اہل الکتاب بعد نزول عیسٰی علیہ السلام الا اٰمن بہ قبل موتہ ای قبل موت عیسٰی علیہ السلام ولاشک ان ہذا الذی قالہ ابن جریر ہو الصحیح لانہ مقصود من سیاق الاٰیۃ وہذا القول ہو الحق کما سنبینہ بالدلیل القاطع ان شاء اللّٰہ تعالٰی وبہ الثقۃ وعلیہ التکلان آہ ‘‘ (تفسیر ابن کثیر ج۳ ص۲۳۳)
’’حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ صحیح قول فقط یہی ہے کہ دونوں ضمیریں عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہیں اور آیت کی تفسیر اس طرح کی جائے گی کہ آئندہ ایک زمانہ آنے والا ہے کہ جس میں تمام اہل کتاب عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بعد ایمان لے آئیں گے کہ عیسیٰ علیہ السلام بے شک رسول ہیں اور یہی ابن جریر طبری رحمہ اللہ تعالیٰ نے اختیار فرمایا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہی صحیح اور درست ہے۔ کیونکہ سیاق آیت سے عیسیٰ علیہ السلام ہی کا ذکر مقصود ہے اور یہی قول حق ہے جیسا کہ ہم اس کو دلیل قطعی سے ثابت کریں گے۔ اﷲتعالیٰ ہی پر اعتماد ہے اور اسی پر بھروسہ ہے۔‘‘
اور دلیل قطعی سے وہ احادیث متواترہ مراد ہیں کہ جن میں صراحۃً یہ مروی ہے کہ قیامت کے قریب عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے اور اس وقت کوئی شخص ایسا باقی نہ رہے گا کہ جو عیسیٰ علیہ السلام پر عیسیٰ علیہ السلام کی وفات سے پہلے ایمان نہ لے آئے۔
(یاد رہے کہ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالیٰ قادیانیوں کے ہاں بھی مسلمہ مجدد ہیں)

تطبیق وتوفیق​

جاننا چاہئے کہ دو قرأتین دو مستقل آیتوں کا حکم رکھتی ہیں۔ ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی قرأت سے ہر کتابی کا اپنے مرنے سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت پر ایمان لانا معلوم ہوتا ہے اور قرأت متواترہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ آئندہ میں تمام اہل کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ضرور ایمان لے آئیں گے۔ ان دونوں قرأتوں میں کوئی تعارض نہیں، دونوں حق ہیں۔ ہر ایک قرأت بمنزلہ مستقل آیت کے ہے جو حجت ہے۔ ہر کتابی اپنے مرنے کے وقت بھی حضرت مسیح علیہ السلام کی نبوت پر ایمان لاتا ہے اور جب قیامت کے قریب حضرت مسیح علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے اس وقت بھی موجود ہر کتابی حضرت مسیح علیہ السلام کی موت سے پہلے حضرت مسیح علیہ السلام پر ضرور ایمان لے آئے گا۔ قرأت متواترہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور نزول اور اہل کتاب کے اس ایمان کا ذکر ہے جو نزول کے بعد لائیں۔
اور ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی قرأت شاذہ میں حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات اور نزول کا ذکر نہیں۔ نہ حیات کا ذکر ہے نہ وفات کا۔ فقط اہل کتاب کے اس ایمان کا ذکر ہے کہ جو اہل کتاب اپنی روح نکلتے وقت لاتے ہیں۔ غرض یہ کہ ہر قرأت میں ایک جدا واقعہ کا ذکر ہے جیسا کہ: ’’ الٓم غُلِبَتِ الرُّوْمُ ‘‘ میں دو قرأتیں ہیں۔ ایک معروف اور ایک مجہول اور ہر قرأت میں علیحدہ علیحدہ واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن حضرات صحابہi اور تابعین رحمہ اللہ تعالیٰ سے یہ قرأت شاذہ منقول ہے وہ سب کے سب بالاتفاق حضرت مسیح علیہ السلام کے بجسدہ النعصری آسمان پر اٹھائے جانے اور قیامت کے قریب آسمان سے اترنے کے بھی قائل ہیں۔ چنانچہ تفسیر ’’درمنثور‘‘ میں ام المؤمنین ام سلمہt اور محمد بن الحنفیہ سے مروی ہے کہ جو لوگ حضرت مسیح علیہ السلام کے نزول سے پہلے مریں گے وہ اپنی موت کے وقت حضرت مسیح علیہ السلام پر ایمان لاتے ہیں اور جو اہل کتاب حضرت مسیح علیہ السلام کے زمانہ نزول کو پائیں گے وہ تمام حضرت مسیح علیہ السلام پر حضرت مسیح علیہ السلام کی موت سے پہلے ایمان لائیں گے۔ لہٰذا ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی قرأت نزول عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے مرنے والوں کے حق میں ہے اور قرأت متواترہ ان لوگوں کے حق میں ہے کہ جو نزول کے بعد حضرت مسیح علیہ السلام کی موت سے پہلے ایمان لائیں گے۔
پھر یہ کہ اہل کتاب جو اپنے مرنے سے پہلے ایمان لاتے ہیں وہ بھی یہی ایمان لاتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام ابھی فوت نہیں ہوئے۔ بلکہ زندہ صحیح وسالم آسمان پر اٹھا لئے گئے جیسا کہ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے۔
’’ اخرج عبد بن حمید وابن المنذر عن شہر بن حوشب فی قولہ تعالٰی وان من اہل الکتٰب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ عن محمد بن علی بن ابی طالب وہو ابن الحنفیۃ قال قال لیس من اہل الکتٰب احد الا اتتہ الملئکۃ یضربون وجہہ ودبرہ ثم یقال یا عدو اﷲ ان عیسٰی روح اللّٰہ وکلمتہ کذبت علی اللّٰہ وزعمت انہ اللّٰہ ان عیسٰی لم یمت وانہ رفع الی السماء وہو نازل قبل ان تقوم الساعۃ فلا یبقی یہودی ولا نصرانی الا اٰمن بہ ‘‘ (تفسیر درمنثور ج۲ ص۳۴۱)
’’عبد بن حمید اور ابن منذر نے بروایت شہر بن حوشب محمد (بن علی ابن الحنفیہ) سے آیت: ’’ وَاِنْ مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ الخ ‘‘ کی تفسیر اس طرح روایت کی ہے کہ نہیں ہے کوئی اہل کتاب میں سے مگر آتے ہیں فرشتے اس کی موت کے وقت اور خوب مارتے ہیں اس کے چہرے اور سرین پر اور کہتے ہیں کہ اے اﷲ کے دشمن! بے شک عیسیٰ اﷲ کی خاص روح ہیں اس کا کلمہ ہیں۔ تو نے اﷲ پر جھوٹ بولا اور گمان کیا کہ عیسیٰ، اﷲ ہیں تحقیق عیسیٰ ابھی نہیں مرے اور تحقیق آسمان کی طرف اٹھا لئے گئے اور وہ قیامت سے پہلے نازل ہوں گے پس اس وقت کوئی یہودی اور نصرانی باقی نہ رہے گا مگر حضرت مسیح علیہ السلام پر ضرور ایمان لائے گا۔‘‘
عجب نہیں کہ جس طرح مشرکین کو مرنے کے وقت عقیدۂ فاسدہ پر توبیخ اور سرزنش کی جاتی ہے۔ اسی طرح اہل کتاب کو بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں غلط عقیدہ کی بناء پر توبیخ کی جاتی ہو۔ ’’ کما قال تعالٰی اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰہُمُ الْمَلٰئِکَۃُ ظَالِمِیْ اَنْفُسِہِمْ فَاَلْقَوُ السَّلَمَ مَا کُنَّا نَعْمَلُ مِنْ سُوْئٍ (نساء:۹۷) ‘‘
امام ابن جریر رحمہ اللہ تعالیٰ اور ابن کثیر رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب موت کا وقت ہوتا ہے تو حق اور باطل کا فرق واضح ہو جاتا ہے جب تک دین حق اور دین باطل کا امتیاز نہ ہو جائے۔ اس وقت تک روح نہیں نکلتی۔ اسی طرح ہر کتابی اپنے مرنے سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت ورسالت پر ایمان لے آتا ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اس پر حق واضح ہو جاتا ہے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

تفسیری شواہد​

۱… حضرت شاہ ولی اﷲ رحمہ اللہ تعالیٰ ۔ ۲… فتح الباری۔
۳… ابن جریر طبری۔ ۴… ابن کثیر۔
۵… درمنثور کے حوالہ جات پہلے نقل ہوچکے۔ مزید تفسیری حوالہ جات اس آیت کے ذیل میں ملاحظہ ہوں۔
۶… تفسیر کشاف میں زیر آیت ہذا (ج۱ ص۵۸۹) پر حضرت علامہ زمخشری فرماتے ہیں: ’’ وان منہم احد الا لیؤمنن بعیسٰی قبل موت عیسٰی وہم اہل الکتاب والذین یکونون فی زمان نزولہٖ روی انہ ینزل من السماء فی آخرالزمان فلا یبقی احد من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ حتی تکون الملۃ واحدۃ وہی ملۃ الاسلام ویہلک اللّٰہ فی زمانہ المسیح الدجال ‘‘ ان (اہل کتاب) میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہ ہوگا مگر وہ ضرور عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے ان پر ایمان لائے گا۔ (اس سے وہ اہل کتاب مراد ہیں) جو عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے زمانہ میں موجود ہوں گے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام آخری زمانہ میں آسمان سے نازل ہوں گے تو ایک بھی اہل کتاب سے ایسا باقی نہ بچے گا جو عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان نہ لائے۔ اس وقت ایک ملت ہو جائے گی اور وہ ملت اسلام ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے زمانہ میں اﷲتعالیٰ مسیح دجال کو ہلاک کریں گے۔
۷… اس کی تفسیر میں علامہ عثمانی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ موجود ہیں آسمان پر۔ جب دجال خارج ہوگا تب اس جہان میں تشریف لا کر اسے قتل کریں گے۔ اور یہود ونصاریٰ (وغیرہم کفار) ان پر ایمان لائیں گے کہ بے شک عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں، مرے نہ تھے اور قیامت کے دن حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام ان کے حالات اور اعمال کو ظاہر کریں گے۔ یہود نے میری تکذیب اور مخالفت کی اور نصاریٰ نے مجھ کو خداتعالیٰ کا بیٹا کہا۔‘‘
(فوائد عثمانیہ ص۱۳۳)
۸… حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالیٰ بطریق ابی رجاء رحمہ اللہ تعالیٰ یہ تفسیر نقل کرتے ہیں کہ: ’’ عن الحسن وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ قبل موت عیسٰی علیہ السلام واللّٰہ انہ لحی الاٰن عند اللّٰہ تعالٰی ولٰکن اذا نزل آمنوا بہ اجمعون الخ ‘‘ (تفسیر ابن کثیر ج۱ ص۵۷۶)
حضرت حسن رحمہ اللہ تعالیٰ (بصری) نے ’’ وَاِنْ مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ (الآیہ) ‘‘ کی تفسیر یہ کی ہے کہ اہل کتاب میں سے کوئی بھی ایسا نہ رہے گا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ان کی وفات سے پہلے ایمان نہ لائے۔ بخدا حضرت عیسیٰ علیہ السلام اب اﷲتعالیٰ کے پاس زندہ ہیں اور جب نازل ہوں گے تو سبھی ہی ان پر ایمان لائیں گے۔
اور دوسرے طریق سے تفسیریوں نقل کرتے ہیں کہ: ’’ ان رجلاً قال للحسن رحمہ اللہ تعالیٰ یا ابا سعید قول اللّٰہ عزوجل وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ قال قبل موت عیسٰی علیہ السلام ان اللّٰہ تعالیٰ رفع الیہ عیسٰی علیہ السلام وہو باعثہ قبل یوم القیمۃ مقاما یؤمن بہ البر والفاجر وکذا قال قتادۃ وعبدالرحمٰن بن زید بن اسلم وغیرہ واحد وہذا القول ہو الحق کما سنبینہ بعدہ بالدلیل القاطع ان شاء اللّٰہ تعالٰی الخ ‘‘ (تفسیر ابن کثیر ج۱ ص۵۷۶)
’’ایک شخص نے حضرت حسن رحمہ اللہ تعالیٰ (بصری) سے دریافت کیا کہ اے ابوسعید رحمہ اللہ تعالیٰ (یہ ان کی کنیت تھی) اﷲتعالیٰ کے اس ارشاد کا کہ اہل کتاب میں سے کوئی بھی نہ رہے گا جو اس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے گا، کیا معنی ہے؟ حسن بصری رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بے شک اﷲتعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایسی جگہ بھیجے گا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات سے پہلے تمام نیک وبدان پر ایمان لائیں گے اور یہی تفسیر حضرت قتادہ رحمہ اللہ تعالیٰ ، عبدالرحمن بن زید بن اسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم اور بے شمار مفسرین نے کی ہے اور یہی تفسیر حق ہے۔ ہم آگے دلیل قاطع سے اسے بیان کریں گے۔ ان شاء اﷲ العزیز۔‘‘
اس کے بعد حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالیٰ نے نصوص قرآنیہ، احادیث متواترہ اور اجماع امت کے حوالہ سے اسے مبرہن کیا ہے۔ قرآن کریم کے اس روشن بیان سے حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیات اور ان کی وفات سے قبل یہود ونصاریٰ وغیرہم کفار کا ان پر ایمان لانا ثابت ہے۔ ’’لاریب فیہ‘‘ اور ان کی آمدونزول سے پہلے ساری دنیا کفر ظلم وجور اور قتل وغارت اور بے حیائی سے بھری ہوئی ہوگی۔ مگر ؎
نہ گھبرا کفر کی ظلمت سے تو اے نور کے طالب
وہی پیدا کرے گا دن بھی، کی ہے جس نے شب پیدا​
کتب تفاسیر میں ’’ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ ‘‘ کی دو تفسیریں نقل کی گئی ہیں ایک یہ کہ ’’بہٖ‘‘ کی ضمیر حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف راجع ہے اور ’ ’قَبْلَ مَوْتِہٖ ‘‘ میں ضمیر کتابی یعنی یہود ونصاریٰ کے ہر ہر فرد کی طرف راجع ہے اور مطلب یہ ہے کہ ہر یہودی اور نصرانی اپنی موت سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لائے گا وہ یوں کہ نزع اور جان کنی کے وقت انہیں اپنے باطل عقیدے پر بخوبی اطلاع ہو جائے گی اور وہ مجبور ہوکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائیں گے۔ اگرچہ کتب تفسیر میں یہ تفسیر بھی موجود ومذکور ہے۔ مگر دلائل اور سیاق وسباق سے اس کی تائید نہیں ہوتی…
اوّل… اس لئے کہ نزع کی حالت کا ایمان، ایمان نہیں اور نہ عند اﷲ تعالیٰ اس کی قبولیت ہے۔ حالانکہ آیت کریمہ میں لام تاکید اوّل میں اور نون تاکید ثقلیہ آخر میں ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ضرور بالضرور ایمان لائیں گے اور اس ایمان سے ایسا ایمان مراد ہے جو عند اﷲ ایمان ہو اور مقبول بھی ہو اور مرتے وقت یہودی اور نصرانی کا ایمان، ایمان ہی نہیں تو وہ اس ’’لیؤمنن‘‘ کا مصداق کیسے ہوسکتا ہے؟
ثانیاً… اس لئے کہ اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ فَمَنْ شَائَ فَلْیُؤْ مِنْ ‘‘ یعنی ہر مکلف سے وہ ایمان مطلوب ہے جو اس کی مرضی اور مشیت سے ہو اور نزع کے وقت جب فرشتے سامنے ہوں تو اس وقت کا ایمان مجبوری کا ایمان ہوگا جس کا شرعاً کوئی اعتبار نہیں ہے۔
ثالثاً… اس لئے کہ قرآن کریم سے زیادہ فصاحت اور بلاغت والی کتاب دنیا میں موجود نہیں ہے۔ اگر ’’موتہ‘‘ کی ضمیر کتابی کی طرف راجع ہو تو آگے ’’ویوم القیمۃ یکون علیہم شہیدا‘‘ میں ’’یکون‘‘ میں ’’ہو‘‘ ضمیر یقینا حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف راجع ہے تو انتشار ضمائر لازم آئے گا کہ ایک ضمیر تو کتابی کی طرف راجع ہو اور دوسری ضمیر حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف جو فصاحت وبلاغت کے خلاف ہے۔ اس لئے یہی بات راجح اور متعین ہے کہ ’’قبل موتہ‘‘ میں ضمیر حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف راجع ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام آسمان سے نازل ہوں گے اور یہود ونصاریٰ کو جب اپنی غلطی کا اقرار واحساس ہوگا تو اپنے نزع سے پہلے ہی حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لائیں گے اور وہ ایمان، ایمان ہوگا اور مقبول ہوگا۔
۹… علامہ اندلسی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ والظاہر ان الضمیرین فی بہ وموتہ عائدان علی عیسٰی علیہ السلام وہو سیاق الکلام والمعنی ان من اہل الکتاب الذین یکونون فی زمان نزولہ روی انہ ینزل من السماء فی آخرالزمان فلا یبقی احد من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ حتی تکون الملۃ واحدۃ وہی ملۃ الاسلام قالہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم والحسن رحمہ اللہ تعالیٰ وابومالک رحمہ اللہ تعالیٰ الخ ‘‘
(البحر المحیط ج۳ ص۵۵۴،۵۵۵، طبع بیروت)
اور ظاہر یہی ہے کہ ’’بہ‘‘ اور ’’موتہ‘‘ میں دونوں ضمیریں حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف راجع ہیں اور سیاق کلام بھی اسی کو چاہتا ہے اور معنی یہ ہے کہ جو اہل کتاب حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نزول کے وقت ہوں گے۔ ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہ رہے گا جو ان پر ایمان نہ لائے اور احادیث میں مروی ہے کہ وہ آخر زمانہ میں نازل ہوں گے اور اہل کتاب میں سے کوئی بھی ان پر ایمان لائے بغیر نہیں رہے گا۔ حتیٰ کہ اس وقت ایک ہی ملت باقی رہے گی اور وہ صرف ملت اسلام ہی ہوگی۔ یہی بات حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم حضرت حسن رحمہ اللہ تعالیٰ (بصری) اور ابومالک رحمہ اللہ تعالیٰ نے بیان کی ہے۔
علامہ موصوف کی تفسیر سے واضح ہوگیا کہ آیت کریمہ کاظاہر اور سیاق وسباق اسی کو چاہتا ہے کہ ’’بہ‘‘ کی طرح ’’قبل موتہ‘‘ کی ضمیر بھی حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف راجع ہے۔
۱۰… قاضی بیضاوی رحمہ اللہ تعالیٰ (عبداﷲ بن عمر بیضاوی المتوفی ۶۴۸ھ) نے بھی یہ تفسیر نقل کی ہے۔ ’’ وقیل الضمیر ان لعیسٰی علیہ افضل الصلوٰۃ والسلام والمعنی انہ اذا نزل من السماء آمن بہ اہل الملل کلہا روی انہ علیہ الصلوٰۃ والسلام ینزل من السماء ‘‘ (تفسیر بیضاوی ج۱ ص۲۵۵)
’’اور یہ کہا گیا ہے (اور یہی صحیح اور راجح ہے) کہ دونوں ضمیریں حضرت عیسیٰ ان پر افضل صلوٰۃ وسلام ہوں، کی طرف راجع ہیں اور معنی یہ ہے کہ جب وہ آسمان سے نازل ہوں گے تو تمام ملتوں والے ان پر ایمان لائیں گے اور احادیث میں مروی ہے کہ وہ آسمان سے نازل ہوں گے۔‘‘
قاضی بیضاوی رحمہ اللہ تعالیٰ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس تفسیر کی جس میں دونوں ضمیریں حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف راجع ہیں، اس کی وہ احادیث بھی تائید کرتی ہیں (جو متواتر ہیں) جن میں ان کے آسمان سے نازل ہونے اور تمام اہل ملل کے ان پر ایمان لانے کا واضح ذکر ہے۔
۱۱… اور حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں کہ: ’’ والقول الصحیح الذی علیہ الجمہور قبل موت المسیح ‘‘ (الجواب الصحیح ج۱ ص۳۴۱، ج۲ ص۱۱۳)
’’اس آیت کریمہ کی تفسیر میں صحیح قول (اور تفسیر) وہی ہے جس پر جمہور اہل اسلام ہیں کہ ’’موتہ‘‘ میں ضمیر حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف راجع ہے۔‘‘
پہلی آیت کریمہ اور اس میں نقل کردہ تفاسیر کی طرح اس دوسری آیت کریمہ اور اس کی تفسیر میں نقل کردہ ٹھوس اور مضبوط حوالوں سے یہ بات بالکل عیاں ہوگئی ہے کہ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما الصلوٰۃ والسلام کا رفع الی السماء ان کی حیات اور قیامت سے پہلے ان کا زمین پر نازل ہونا نصوص قطعیہ قرآنی آیات سے ثابت ہے جس کا انکار کافر ملحد اور زندیق کے سوا اور کوئی نہیں کر سکتا۔ مگر باطل پرستوں پر براہین قاطعہ اور ادلّۂ ساطعہ کا کچھ اثر نہیں ہوتا۔ وہ اپنی انا اور ضد پر قائم رہتے ہیں۔ بھلا شیطان کی ہدایت کس کے بس میں ہے۔
بدلنا ہے تو مے بدلو یا طریق مے کشی بدلو
وگرنہ ساغر و مینا بدل جانے سے کیا ہو گا​
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

قادیانی اعتراض:۱​

’’اگر ہم فرض کے طور پر تسلیم کر لیں کہ آیت موصوفہ بالا کے یہی معنی ہیں جیسا کہ سائل (اہل اسلام) نے سمجھا ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ زمانہ صعود مسیح سے اس زمانہ تک کہ مسیح نازل ہو۔ جس قدر اہل کتاب دنیا میں گزرے ہیں یا اب موجود ہیں یا آئندہ ہوں گے وہ سب مسیح پر ایمان لانے والے ہوں۔ حالانکہ یہ خیال بالبداہت باطل ہے ہر شخص خوب جانتا ہے کہ بے شمار اہل کتاب مسیح کی نبوت سے کافر رہ کر اب تک واصل جہنم ہوچکے ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۶۷، خزائن ج۳ ص۲۸۸)
جواب: ۱… اس آیت میں ان اہل کتاب کا ذکر ہے جو نزول مسیح کے بعد ان پر ایمان لائیں گے۔ چنانچہ الفاظ ’’بِہٖ‘‘ اس پر دلیل ہیں۔ فقرہ ’’لَیُؤْمِنَنَّ‘‘ مضارع موکد بہ نون تاکید ثقیلہ ہے جو مضارع میں تاکید مع خصوصیت زمانہ مستقبل کرتا ہے۔ (مرزائی پاکٹ بک ص۵۰۲،۴۲۶)
چنانچہ حضرت شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ جن کو خود مرزائی مجدد صدی مانتے ہیں اس کا ترجمہ یہ کرتے ہیں: ’’ ونباشد، ہیچ کس از اہل کتاب البتہ ایمان آورد بعیسیٰ پیش از مردن عیسیٰ وروز قیامت باشد عیسیٰ گواہ برایشاں (حاشیہ میں اس کا حاصل مطلب یہ لکھتے ہیں) یعنی یہودی کہ حاضر شوند نزول عیسیٰ علیہ السلام را البتہ ایمان آرند۔ ‘‘
۲… ’’نہیں کوئی اہل کتاب میں سے اگر البتہ ایمان لائے گا، ساتھ اس کے پہلے موت اس کی کے اور دن قیامت کے ہوگا اوپر اس کے گواہ۔‘‘ (فصل الخطاب مصنفہ نورالدین خلیفہ اوّل قادیانی ج۲ ص۸۰)
۳… ’’ وان من اہل الکتاب احد الا لیؤمنن بعیسٰی قبل موت عیسٰی وہم اہل الکتاب الذین یکونون فی زمانہ فتکون ملۃ واحدۃ وہی ملۃ الاسلام وبہذا جزم ابن عباس فیما رواہ ابن جریر من طریق سعید بن جریر عنہ باسناد صحیح (ارشاد الساری شرح صحیح بخاری ج۵ ص۵۱۸،۵۱۹)‘‘ ابن جریر جو نہایت معتبر اور ائمہ حدیث میں سے ہے۔ (حاشیہ چشمہ معرفت ص۲۵۰، خزائن ج۲۳ ص۲۶۱) بلکہ ’’رئیس المفسرین‘‘ ہے۔ (آئینہ کمالات اسلام ص۱۶۸، خزائن ج۵ ص ایضاً)
اپنی تفسیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے جو قرآن کریم کے سمجھنے میں اوّل نمبر والوں میں ہیں اس بارے میں ان کے حق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا بھی ہے۔ (ازالہ اوہام ص۲۴۷، خزائن ج۳ ص۲۲۵) باسناد صحیح روایت لائے ہیں کہ آیت: ’’ان من اہل الکتاب‘‘ میں وہ اہل کتاب مراد ہیں جو اس زمانہ میں ہوں گے پس وہ ایک ہی مذہب اسلام پر آجائیں گے۔
۴… اب سنئے مرزاقادیانی کا ترجمہ:
’’کوئی اہل کتاب میں سے ایسا نہیں جو اپنی موت سے پہلے مسیح پر ایمان نہیں لائے گا۔ دیکھو یہ بھی تو خالص استقبال ہی ہے کیونکہ آیت اپنے نزول کے بعد کے زمانہ کی خبر دیتی ہے۔ بلکہ ان معنوں پر آیت کی دلالت صریحہ ہے۔‘‘
(الحق دہلی ص۲۲، خزائن ج۴ ص۳۲)
مرزاقادیانی نے آدھا ترجمہ صحیح کیا ہے آدھا غلط۔ بہرحال ان تراجم اربعہ سے یہ امر صاف اور واضح ہے کہ آیت کا مطلب بلکہ ’’دلالت صریحہ‘‘ یہی ہے کہ آئندہ زمانہ میں اہل کتاب مسیح پر ایمان لائیں گے۔ فہذا مرادنا!
جواب: ۲… معترض کا پہلا اعتراض جہالت محضہ پر مبنی ہے۔ تمام اہل کتاب مراد نہیں ہوسکتے۔ا س آیت کا مضمون بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ مثلاً اس فقرہ کا کہ ۳۰۰۰ سے پہلے تمام مرزائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور رفع جسمانی پر ایمان لے آئیں گے۔ مطلب بالکل صاف ہے کہ ۳۰۰۰ کے بعد کوئی مرزائی حیات عیسیٰ علیہ السلام کا منکر نہیں پایا جائے گا۔ اس سے پہلے کے مرزائی بعض کفر کی حالت پر مریں گے اور بعض اسلام لے آئیں گے۔ لیکن ۳۰۰۰ کے بعد مرزائی کا نام ونشان نہیں رہے گا۔

دوسری مثال​

’’مولانا فضل الرحمن دسمبر ۲۰۰۳ء کو لاہور تشریف لائیں گے آپ کی تشریف آوری سے پیشتر تمام اہل لاہور اسٹیشن پر ان کے استقبال کے لئے حاضر ہو جائیں گے۔‘‘
کون بے وقوف ہے جو اس کا مطلب یہ لے گا کہ تمام اہل لاہور سے مراد آج (۱۰؍فروری ۲۰۰۳ء) کے اہل لاہور مراد ہیں۔ ممکن ہے بعض مر جائیں۔ بعض باہر سفر کو چلے جائیں۔ بعض باہر سے لاہور میں آجائیں۔ بعض ابھی پیدا ہوں گے۔
پس ثابت ہوا کہ کلام ہمیں خود مجبور کر رہی ہے کہ اہل الکتاب سے وہ لوگ مراد ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے وقت موجود ہوں گے اور وہ بھی تمام کے تمام نہیں بلکہ جو موت اور قتل سے بچ جائیں گے وہ ضرور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئیں گے۔ ہاں! حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت کے بعد کوئی اہل الکتاب نہیں رہے گا۔ سوائے اہل اسلام کے۔

قادیانی اعتراض:۲​

۱… دوسری قرأت اس آیت میں بجائے ’’قبل موتہ قبل موتہم‘‘ موجود ہے۔
(حقیقت الوحی ص۳۴، خزائن ج۲۲ ص۳۶)
۲… ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی قرأت سے ثابت ہوا کہ موتہ کی ضمیر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف نہیں پھرتی بلکہ اہل الکتاب کی طرف راجع ہے۔ (حمامتہ البشریٰ ص۴۸، خزائن ج۷ ص۲۴۱)
جواب: ۱… قرآن پاک میں ’’قبل موتہ‘‘ مذکور ہے۔ حضرت ابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی یہ قرأت بوجہ شاذ ہونے کے متروک ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم ودیگر صحابہi حضرت ابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی اس قسم کی قرأتوں کو نہیں مانتے تھے۔ جیسا کہ (صحیح بخاری ج۲ ص۶۴۴، ۷۴۸) میں ہے: ’’ قال عمر ابی اقرء نا وانا لندع من لحن ابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم ‘‘ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم نے فرمایا کہ ابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم بڑے قاری ہیں تو بھی ہم صحابہi لوگ ان کی قرأتوں کو چھوڑ دیتے ہیں اور یہی حق ہے۔ ترجمہ حضرت شاہ ولی اﷲ صاحب ونور الدین قادیانی بغور ملاحظہ ہو۔ نیز ’’ قبل موتہم ‘‘ والی قرأت جو ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے مروی ہے کذب محض ہے کیونکہ اس میں دو راوی مجروح ہیں۔ اوّل خصیف دوم عتاب ابن بشیر، تقریب ص۱۴۲ میں خصیف کے متعلق مندرج ہے۔ ’’ سَیِّیُٔ الْحِفْظِ خَلَطَ بَاٰخِرِہٖ رُمِیَ بِالْاَرْجَائِ ‘‘ (مرزاقادیانی کی طرح) خراب حافظہ والا۔ اس پر مرجیہ ہونے کا الزام دھرا گیا۔ میزان الاعتدال میں ہے: ’’ ضَعَّفَہٗ اَحْمَدُ وَقَالَ اَبُوْحَاتِمِ تَتَکَلم فِیْ سُوْئِ حِفْظِہٖ وقال احمد ایضًا تُکَلِّمُ فِی الْاَرْجَائِ وقال عثمان بن عبدالرحمٰن رأیت علی خصیف ثیابا سودًا کَانَ عَلٰی بیت المال ‘‘ (میزان الاعتدال ج۲ ص۴۴۲، حرف الخاء)
یعنی ضعیف الحدیث اور سییٔ الحافظہ اور مرجیہ ہونے کے علاوہ چور بھی تھا۔ بیت المال سے اس نے چادر اڑ کر امیرانہ ٹھاٹھ بنانے کو مونڈھوں پر لٹکالی چہ خوش!
اب سنئے! دوسرے صاحب ’’عتاب‘‘ کا حال، وہ بھی ضعیف ہیں۔ چنانچہ میزان میں ہے۔ ’’ قال النسائی لیس بذاک فی الحدیث وقال ابن المدینی کان اصحابنا یضعفونہ وقال علی ضربنا علی حدیثہ انتہی ملخصًا ‘‘ (میزان ج۵۳ ص۳۲، حرف العین)
اس روایت کے جھوٹی اور بناوٹی ہونے پر یہ دلیل ہے کہ ہم ارشاد الساری شرح صحیح بخاری سے بحوالہ روایت ابن جریر انہیں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی صحیح السند روایت درج کر آئے ہیں جس میں صاف الفاظ ہیں: ’’ لیومنن بعیسٰی قبل موت عیسٰی ‘‘ پس ’’ موتہم ‘‘ والی روایت مردود ہے۔
۲… قرأت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم ’’قبل موتہم‘‘ شاذ ہے اور ’’قبل موتہ‘‘ قرأت متواترہ ہے۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی قرأت شاذہ قرأت متواترہ کے تابع ہوگی۔ ’’ لابالعکس ‘‘
۳… یہ روایت ضعیف ہے اور اس کے ضعیف ٹھہرانے والا وہ بزرگ ہے جو مرزاقادیانی کے نزدیک نہایت معتبر اور ائمہ حدیث میں سے ہے یعنی مفسر ومحدث ابن جریر۔ (دیکھو چشمہ معرفت ص۲۵۰ حاشیہ، خزائن ج۲۳ ص۲۶۱)
نیز اسی مفسر ابن جریر رحمہ اللہ تعالیٰ کے متعلق مرزاقادیانی کے مسلمہ مجدد صدی نہم امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ تعالیٰ کا فتوی ہے۔ ’’ اجمع العلماء المعتبرون علی انہ لم یؤلف فی التفسیر مثلہ (اتقان ج۲ ص۳۲۵ النوع الثمانون فی طبقات المفسرین)‘‘ معتبر علماء امت کا اجماع ہے اس بات پر کہ امام ابن جریر کی تفسیر کی مثل کوئی تفسیر نہیں لکھی گئی۔
اس روایت کو ضعیف ٹھہرا کر مفسر ابن جریر رحمہ اللہ تعالیٰ نے صحیح سند سے روایت کیا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کا مذہب بھی یہی ہے کہ ’’قبل موتہ‘‘ سے مراد ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے‘‘ ہے۔ نہ کہ کتابی کی موت سے پہلے۔ دیکھو تفسیر ابن جریر۔
۴… خود مرزاقادیانی نے ’’موتہ‘‘ کی ضمیر کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہونا تسلیم کیاہے۔
(دیکھو ازالہ اوہام ص۳۷۲، خزائن ج۳ ص۲۹۱)
ہاں! کلام اﷲکے الفاظ کو نعوذ باﷲ ناکافی بتلا کر ایسے ایسے محذوفات نکالے ہیں کہ تحریف میں یہودیوں سے بھی گوئے سبقت لے گیا ہے۔ بہرحال ہمارا دعویٰ سچا رہا کہ ’’ہٖ‘‘ کی ضمیر کا مرجع حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔
۵… نورالدین خلیفہ اوّل مرزاقادیانی نے اپنی کتاب (فصل الخطاب حصہ دوم ص۸۰) میں اس آیت کا ترجمہ یوں کرتے ہیں: ’’اور نہیں کوئی اہل کتاب سے مگر البتہ ایمان لائے گا ساتھ اس (حضرت مسیح کے) پہلے موت کی (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) کے اور دن قیامت کے ہوگا اوپر ان کے گواہ۔‘‘ اس سے بھی ظاہر ہے کہ مرزاقادیانی کا دعویٰ بے ثبوت ہے۔ کیونکہ ہم نے اس کے خلاف اس کے اپنے مسلمات اور معتبر ائمہ تفسیر کے اقوال پیش کئے ہیں۔
۶… جمہور علماء اسلام ہمیشہ ’’قبل موتہ‘‘ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات پر استدلال کرتے رہے ہیں۔ جیسا کہ سابق میں ہم بیان کر آئے ہیں۔
۷… بخاری شریف کی صحیح حدیث اس روایت کی تردید کر رہی ہے جیسا کہ پہلے ہم بیان کر آئے ہیں۔
۸… ’’ لَیُؤْمِنَنَّ ‘‘ میں لام قسم اور نون ثقلیہ موجود ہے جو ہمیشہ فعل کو آئندہ زمانہ سے خاص کر دیتے ہیں۔ پس معنی اس کے یہ ہوں گے۔ ’’البتہ ضرور ایمان لے آئے گا۔‘‘ اگر ہر کتابی کا اپنی موت سے پہلے ایمان مقصود ہوتا تو پھر عبارت یوں ہونا چاہئے تھی۔ ’’ من یؤمن بہٖ قبل موتہٖ ‘‘ جس کے معنی قادیانیوں کے حسب منشاء ٹھیک بیٹھتے ہیں۔ یعنی ہر ایک اہل کتاب ایمان لے آتا ہے اپنی موت سے پہلے۔ ان شاء اﷲ! قیامت تک کسی معتبر کتاب سے اس طرح کے الفاظ نہ دکھا سکیں گے۔
۹… آیت کا آخری حصہ ’’ ویوم القیامۃ یکون علیہم شہیدا ‘‘ {اور قیامت کے دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان پر شہادت دیں گے۔} قادیانی بھی اس حصۂ آیت کے معنی کرنے میں ہم سے متفق ہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہود ونصاریٰ کے کس حال کی گواہی دیں گے۔ اگر آیت کے معنی قادیانی تفسیر کے مطابق کریں۔ یعنی یہ کہ ’’تمام اہل کتاب اپنی موت سے پہلے ایمان لے آتے ہیں۔‘‘ تو وہ ہمیں بتلائیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کیسے شہادت دیں گے اور کیا دیں گے؟ ہاں! اگر اسلامی تفسیر کے مطابق مطلب بیان کیا جائے یعنی ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے زمانہ میں تمام یہود ایمان لے آئیں گے اور کوئی منکر باقی نہ رہے گا۔‘‘ تو پھر واقعی قیامت کے دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کے ایمان لانے کی شہادت دے سکیں گے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے دن عرض کریں گے۔ ’’ کُنْتُ عَلَیْہِمْ شہیدا مادمت فیہم ‘‘ جب تک میں ان میں موجود رہا میں ان پر نگہبان تھا۔
۱۰… ’’قبل موتہ‘‘ میں قبل کا لفظ بڑا ہی قابل غور ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ اہل کتاب اپنی موت سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان نہیں لاتے۔ بعض کا خیال ہے (اور انہیں میں مرزاغلام احمد قادیانی بھی ہے) کہ اس ایمان سے مراد ایمان اضطراری ہے جو غرغرہ (نزع) کے وقت ہر ایک کتابی کو حاصل ہوتا ہے۔ یہ اس لئے باطل ہے۔ اگر ایمان اضطراری مراد ہوتا تو اﷲتعالیٰ اپنی فصیح وبلیغ کلام میں ’’قبل‘‘ کی بجائے ’’عند موتہٖ‘‘ فرماتے۔ یعنی موت کے وقت ایمان لاتے ہیں اور وہ ایمان واقعی قابل قبول نہیں ہوتا۔ لیکن جس ایمان کا اﷲتعالیٰ بیان فرمارہے ہیں۔ وہ ایمان کتاب کو اپنی موت سے پہلے حاصل ہونا ضروری ہے۔ مگر وہ واقعات کے خلاف ہے۔ لہٰذا یہی معنی صحیح ہوں گے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے وقت تمام اہل کتاب ان پر ایمان لے آئیں گے۔
۱۱… مرزاغلام احمد قادیانی کی مضحکہ خیز تفسیر سے بھی ہم اپنے ناظرین کو محظوظ کرنا چاہتے ہیں۔ مرزاقادیانی لکھتے ہیں کہ: ’’کوئی اہل کتاب میں سے ایسا نہیں جو ہمارے اس بیان مذکورہ بالا پر جو ہم نے (خدا نے) اہل کتاب کے خیالات کی نسبت ظاہر کئے ہیں۔ ایمان نہ رکھتا ہو۔ قبل اس کے جو وہ اس حقیقت پر ایمان لائے جو مسیح اپنی طبعی موت سے مر گیا۔ یعنی تمام یہودی اور عیسائی اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ فی الحقیقت انہوں نے مسیح کو صلیب نہیں دیا یہ ہمارا ایک اعجازی بیان ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۳۷۲، خزائن ج۳ ص۲۹۱)
مجھے یقین ہے کہ ناظرین اوّل تو مرزاقادیانی کی پیچیدہ عبارت کا مطلب ہی نہ سمجھ سکیں گے اور اگر سمجھ جائیں تو سوچیں کہ یہ عبارت کلام اﷲ کے کون سے الفاظ کا ترجمہ ہے؟
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

چیلنج​

مرزاقادیانی اپنی کتاب (شہادۃ القرآن ص۵۵، خزائن ج۶ ص۳۵۱) پر صاف اقرار کرتے ہیں: ’’جس طرح روز اوّل سے اس (قرآن مجید) کا پودا دلوں میں جمایا گیا یہی سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔‘‘
نیز مرزاقادیانی (ایام الصلح ص۵۵، خزائن ج۱۴ ص۲۸۸) پر لکھتے ہیں: ’’ انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون ‘‘ خداتعالیٰ نے اپنے کلام کی حفاظت ایسے ائمہ واکابر کے ذریعہ سے کی ہے جن کو ہر ایک صدی میں فہم قرآن عطاء ہوتا ہے۔ ہمارا چیلنج یہ ہے کہ اگر مرزاقادیانی میں کچھ بھی صداقت کا شائبہ ہے تو وہ یا ان کی جماعت اس آیت کی یہ تفسیر جو اس نے ازالہ حوالہ بالا میں کی ہے یہ تفسیر حدیث سے یا ۱۴۰۰سال کے مجددین امت وعلماء مفسرین کے اقوال سے پیش کریں۔ ورنہ بمطابق ’’ من قال فی القرآن بغیر علم فلیتبوا مقعدہ من النار ‘‘
(کنزالعمال ج۲ ص۱۶، حدیث:۲۹۵۷، جامع المسانید ج۳ ص۲۹۴،۲۹۵، حدیث:۵۸۷تا۵۹۰)
یعنی فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کسی نے اپنی رائے سے تفسیر کی۔ اس نے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالیا۔
پس یا تو مرزائی جماعت مرزاقادیانی کے بیان کردہ معنی کسی سابق مجدد یا مفسر امت کی کتاب سے ثابت کرے یا مرزاقادیانی کا اور اپنا ملحد اور محرف ہونا تسلیم کرے۔

قادیانی اعتراض:۳​

’’بعض لوگ کچھ شرمندہ سے ہوکر دبی زبان یہ تاویل پیش کرتے ہیں کہ اہل کتاب سے مراد وہ لوگ ہیں جو مسیح کے دوبارہ آنے کے وقت دنیا میں موجود ہوں گے اور وہ سب مسیح کو دیکھتے ہی ایمان لے آئیں گے اور قبل اس کے جو مسیح فوت ہو وہ سب مومنوں کی فوج میں داخل ہو جائیں گے۔ لیکن یہ خیال بھی ایسا باطل ہے کہ زیادہ لکھنے کی حاجت نہیں۔ اوّل تو آیت موصوفہ بالا صاف طور پر فائدہ تعمیم کا دے رہی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل کتاب کے لفظ سے تمام وہ اہل کتاب مراد ہیں جو مسیح کے وقت میں یا مسیح کے بعد برابر ہوتے رہیں گے اور آیت میں ایک بھی ایسا لفظ نہیں جو آیت کو کسی خاص محدود زمانہ سے متعلق اور وابستہ کرتا ہو۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۳۶۸، خزائن ج۳ ص۲۸۹)
جواب: مرزاقادیانی نے (گستاخی معاف) بہت دجل وفریب سے کام لیا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’بعض لوگ دبی زبان سے کہتے ہیں کہ اہل کتاب سے وہ مراد ہیں۔ جو مسیح کے دوبارہ آنے کے وقت دنیا میں موجود ہوں گے۔‘‘
اجی کیوں جھوٹ بولتے ہو۔ جن کے پاس قرآن کی گواہی، حدیث رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت۔ صحابہi کی تائید اور مجددین امت کا متفقہ فیصلہ ہو۔ وہ بھلا دبی زبان سے کہے گا یہ محض آپ کی چالاکی ہے۔ جس کے متعلق رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے سے پیش گوئی فرمائی ہوئی ہے۔ دجالون، کذابون۔ یعنی بہت سے فریب بنانے والے اور بہت جھوٹ بولنے والے ہوں گے۔ پھر مرزاقادیانی لکھتے ہیں: ’’کہ آیت تعمیم کا فائدہ دے رہی ہے۔ یعنی اہل کتاب کے لفظ سے مراد تمام وہ لوگ مراد ہیں جو حضرت مسیح کے وقت میں ان کے بعد برابر ہوتے رہے ہیں۔‘‘
کیوں مرزاقادیانی! جناب نے تعمیم کا لفظ استعمال کر کے پھر اہل کتاب کو ’’حضرت مسیح علیہ السلام کے وقت میں اور بعد میں۔‘‘ کے ساتھ کیوں مقیدومحدود کردیا؟ اگر آپ کے قول کے مطابق آیت تعمیم کا فائدہ دے رہی ہے۔ یعنی سارے اہل کتاب اس سے مراد ہیں۔ تو پھر حضرت مسیح علیہ السلام سے پہلے کے اہل کتاب کیوں شمار نہیں ہوں گے؟ جس دلیل سے آپ حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے کے اہل کتاب کو اس سے الگ کریں گے۔ اسی دلیل سے ہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے پہلے کے یہودی ونصرانی کو الگ کر دیں گے۔
علاوہ ازیں بمطابق ’’ دروغگورا حافظہ نباشد ‘‘ خود مرزاقادیانی اگلے ہی فقرہ میں لکھتے ہیں: ’’آیت میں ایک بھی ایسا لفظ نہیں جو آیت کو کسی خاص زمانہ سے متعلق اور وابستہ کرتا ہو۔‘‘ باوجود اس کے خود آیت کو ’’حضرت مسیح علیہ السلام کو وقت اور ان کے بعد‘‘ سے وابستہ کر رہے ہیں۔ شاید مرزاقادیانی کے نزدیک زمانے صرف دوہی ہوتے ہوں۔ (حال ومستقبل) زمانہ ماضی۔ مضی ما مضی کا شکار ہوکر رہ گیا ہو؟ جب آیت کی ’’زد‘‘ میں تمام اہل کتاب آتے ہیں تو حضرت مسیح علیہ السلام سے پہلے کے یہودی کیوں اس میں شامل نہ کئے جائیں؟ مرزاقادیانی ان اہل کتاب کو اس کا مخاطب سمجھتے۔ جو جواب قادیانی اس سوال کا دیں گے۔ وہی جواب اہل اسلام ان کے اس اعتراض کا دیں گے۔ ناظرین حقیقت یہ ہے کہ قادیانی اعتراضات کلہم جہالت پر مبنی ہیں۔ اگر ان کو علم عربی اور ان کے اصولوں سے ذرا بھی واقفیت ہوتی تو واﷲ ان اعتراضات کا نام بھی نہ لیتے۔

قادیانی اعتراض:۴​

’’یؤمنن بہٖ کی ضمیر میں بھی اختلاف ہے کوئی عیسیٰ علیہ السلام کی طرف پھیرتا ہے۔ کوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی طرف۔‘‘ (پاکٹ بک ص۳۴۳)
جواب: قرآن پاک میں تو مسیح کی طرف ہی ہے اس طرح ترجمہ شاہ ولی اﷲ رحمہ اللہ تعالیٰ اور ترجمہ نور دین اور روایت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم اور تحریر مرزاقادیانی مندرجہ ’’الحق دہلی ص۳۲‘‘ جو سب نقل کر آئے ہیں صاف شاہد ہیں کہ: ’’ لیؤمنن عیسٰی قبل موت عیسٰی ‘‘ خود تم نے اسی صفحہ پاکٹ بک پر ’’بہٖ‘‘ کی ضمیر بطرف مسیح علیہ السلام پھیری ہے۔ ’’یہود کا ہر فرد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مصلوب ہونے پر ایمان لائے گا۔‘‘ کہو کیا کہتے ہو؟

قادیانی اعتراض نمبر:۵​

’’مگر افسوس کہ وہ (اہل اسلام) اپنے خود تراشیدہ معنوں سے قرآن میں اختلاف ڈالنا چاہتے ہیں۔ جس حالت میں اﷲتعالیٰ فرماتا ہے: ’’ وَاَلْقَیْنَا بَیْنَہُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآئَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃ ‘‘ جس کے یہ معنی ہیں کہ یہود اور نصاریٰ میں قیامت تک بغض اور دشمنی رہے گی تو اب بتلاؤ کہ جب تمام یہودی قیامت سے پہلے ہی حضرت مسیح علیہ السلام پر ایمان لے آئیں گے تو پھر بغض اور دشمنی قیامت تک کون لوگ کریں گے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۲۰۸، خزائن ج۱۷ ص۳۰۹)
جواب: عداوت یہود ونصاریٰ کے وجود تک ہے جب وہ سب اسلام لاکر مسلمان ہو جائیں گے۔ اس وقت سب عداوتیں مٹ جائیں گی۔ جلدی میں یہ نہ کہہ دینا کہ عداوت ’’ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ‘‘ ہے اور ’’الٰی‘‘ کا لفظ چمٹ جانے کے معنی میں آتا ہے۔ ’’الٰی‘‘ کے معنی قریب ہوتے ہیں یعنی ’’الٰی یوم القیامۃ‘‘ سے مراد ’’قرب لیوم القیامۃ‘‘ ہے۔ کیونکہ فنائے عالم کے بہت عرصہ کے بعد قیامت کا دن ہوگا۔ جیسا کہ حدیثوں سے ثابت ہے۔ جب کوئی آدمی ہی نہ زندہ ہوگا تو دشمنی، کس میں ہوگی؟ پس لامحالہ الیٰ کے معنی قرب کے کرنے ہوں گے۔
۲… مرزاقادیانی کو نہ علم ظاہری نصیب ہوا اور نہ باطنی آنکھیں ہی نصیب ہوئیں۔ موافقت کا نام وہ اختلاف رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں اہل اسلام کی تفسیر ماننے سے قرآن میں اختلاف ہو جاتا ہے۔ سبحان اﷲ! مرزاقادیانی جیسے بے استاد اور بے پیر سمجھنے والے ہوں تو اختلاف اور تضاد ہی نظر آنا چاہئے۔ باقی رہا ان کا یہ اعتراض کہ یہود اور نصاریٰ کے
درمیان بعض اور عناد کا قیامت تک رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہود اور نصاریٰ دونوںمذاہب قیامت تک زندہ رہیں گے تو اس کا جواب بھی آنکھیں کھول کر پڑھئے۔
اوّل… تو یہ سمجھنا چاہئے کہ یہود ونصاریٰ سے مراد دو قومیں ہیں۔ اگر وہ مسلمان بھی ہو جائیں تو بھی ان کے درمیان بغض وعناد کا رہنا کون سا محال ہے۔ کیا اس وقت روئے زمین کے مسلمانوں میں بعض وعناد معدوم ہے؟ کیا تمام مرزائی بالخصوص لاہوری وقادیانی جماعتوں میں بعض وعناد نہیں ہے؟ ہے اور ضرور ہے۔ کیا اس صورت میں وہ اپنے آپ کو مسلمان نہیں سمجھتے۔ دوسرے! ’’ الیٰ یوم القیامۃ ‘‘ سے مراد یقینا طوالت زمانہ ہے اور یہ محاورہ تمام اہل زبان استعمال کرتے ہیں۔ دیکھئے! جب ہم یوں کہیں کہ قادیانی ہمارے دلائل کا جواب قیامت تک نہیں دے سکیں گے تو مراد اس سے ہمیشہ ہمیشہ ہے۔ یعنی جب تک مرزائی دنیا میں رہیں۔ اگرچہ وہ قیامت تک ہی کیوں نہ رہیں۔ ہمارے دلائل کا جواب نہیں دے سکیں گے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مرزائی لوگ کے قیامت تک رہنے کی میں پیش گوئی کر رہا ہوں۔ یا جب یوں کہا جاتا ہے کہ زید تو قیامت تک اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا۔ کون بے وقوف ہے جو اس کا مطلب یہ سمجھے گا کہ کہنے والے کامطلب یہ ہے کہ زید قیامت تک زندہ رہے گا۔ مطلب صاف ہے کہ جب تک زید زندہ رہے گا وہ اس کا جواب نہیں دے سکتا۔ اسی طرح آیات پیش کردہ کا مطلب ہے۔ آیت اوّل یہ ہے: ’’ وَاَغْوَیْنَا بَیْنَہُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآئَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ‘‘ اور مطلب اس کا بمطابق محاورہ یہی ہے کہ جب تک بھی یہود ونصاریٰ رہیں گے۔ ان کے درمیان باہمی عداوت اور دشمنی رہے گی۔
آیت ثانی یہ ہے: ’’ وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ‘‘ اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تابعدار قیامت تک ہمیشہ یہود پر غالب رہیں گے۔ اب غلبہ کئی قسم کا ہے۔ اس کی دو صورتیں بہت ہی اہم ہیں۔
اوّل… یہود کا نصاریٰ ومسلمانوں کا غلام ہوکر رہنا۔ مگر اپنے مذہب پر برابر قائم رہنا۔ یہ صورت اب موجود ہے۔
دوم… یہود کا نہ صرف مسلمانوں اور نصاریٰ کے ماتحت ہی رہنا بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مخالفت چھوڑ کر ان کا روحانی غلام بھی ہو جانا اور یہی حقیقی ماتحتی اور غلامی ہے۔ اس کا ظہور نزول مسیح کے وقت ہوگا۔ یہی مطلب ہے تمام آیات کلام اﷲ کا، جس کو مرزاقادیانی اور ان کی جماعت بڑے طمطراق سے سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لئے پیش کیا کرتے ہیں۔ ہم اپنے اس دعویٰ کے ثبوت میں احادیث نبوی اور خود اقوال مرزاقادیانی سے شہادت پیش کرتے ہیں۔
حدیث نبوی ’’ یہلک اللّٰہ فی زمانہ (عیسٰی) الملل کلہا الا الاسلام ‘‘
(رواہ ابوداؤد باب خروج الدجال ج۲ ص۱۳۵، مسند احمد ج۲ ص۴۰۶، ابن جریر ج۶ ص۲۲، درمنثور ج۲ ص۲۴۲)
’’ہلاک کر دے گا اﷲتعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں تمام مذاہب کو سوائے اسلام کے۔‘‘ علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ تعالیٰ کو قادیانی مجدد مانتے ہیں۔ درمنثور ان کی تفسیر ہے انہوں نے اس روایت کو نقل کیا۔ مجدد کا قول جن کا منکر مرزاقادیانی کے نزدیک کافر وفاسق ہوجاتا ہے۔ (شہادت القرآن ص۴۸، خزائن ج۶ ص۳۴۴)
 
Top