ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
باب پنجم … مرزاقادیانی اور عقیدہ حیات عیسیٰ علیہ السلام
(تین ادوار) تیس قادیانی تحریفات کے جوابات
مرزاغلام احمد قادیانی ملعون نے اپنی کتاب ازالہ اوہام میں تیس آیات قرآنی میں تحریف معنوی کر کے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ثابت کرنے کی سعی نامراد کی ہے۔ ذیل میں ان کے ترتیب وار جوابات عرض کئے جاتے ہیں۔ حضرت مولانا قاضی محمد سلمان منصور پوری رحمہ اللہ تعالیٰ ، حضرت مولانا عبداللطیف مسعود رحمہ اللہ تعالیٰ ، مولانا انواراﷲ خان حیدرآبادی رحمہ اللہ تعالیٰ اور دیگر حضرات کے رشحات قلم سے اس باب میں استفادہ کیاگیا ہے۔ لیکن اس باب میں سب سے پہلے مرزاقادیانی کا مؤقف معلوم ہونا چاہئے کہ وہ حیات مسیح علیہ السلام پر کیا مؤقف رکھتے تھے؟ مرزاقادیانی کی کتب گواہ ہیں کہ مرزاقادیانی (۱)حیات مسیح علیہ السلام کا قائل رہا۔ (یہ اس زمانہ کی بات ہے جب وہ خود مدعی مسیحیت نہ تھا) (۲)پھر جب مدعی مسیحیت ہوا تو حیات مسیح علیہ السلام کو اپنے راستہ میں رکاوٹ خیال کر کے دلائل تراشنے لگا۔ اپنی کتاب ’’توضیح المرام‘‘ میں لکھا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی وفات تین آیات سے ثابت ہے۔ جب ’’ازالہ اوہام‘‘ لکھی تو کہا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی وفات تیس آیات سے ثابت ہے۔ (۳)پھر حیات مسیح کو شرکیہ عقیدہ قرار دے کر پوری امت مسلمہ کو مشرک بنادیا۔ ذیل میں اس کے تینوں ادوار کے حوالہ جات اور ان کے نتائج پیش خدمت ہیں۔
مرزاقادیانی اور حیات عیسیٰ علیہ السلام (تین ادوار)
مرزاغلام احمد قادیانی اپنی پہلی الہامی کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ میں لکھتا ہے:
حوالہ:۱ ’’
ہُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ
‘‘ یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح علیہ السلام کے حق میں پیش گوئی ہے اور جس غلبہ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیاگیا ہے کہ وہ غلبہ حضرت مسیح علیہ السلام کے ذریعے ظہور میں آئے گا اور جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق اور اقطار میں پھیل جائے گا… حضرت مسیح علیہ السلام پیش گوئی متذکرہ بالا کا ظاہری اور جسمانی طور پر مصداق ہے۔ (براہین احمدیہ حصہ چہارم ص۴۹۸،۴۹۹، خزائن ج۱ ص۵۹۳)
نتائج: اس بیان میں صاف اقرار کرتا ہے:
۱… حضرت مسیح علیہ السلام اس دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے۔
۲… ان کی آمد سے دین اسلام تمام عالم میں پھیل جائے گا اور ان کے ذریعہ دین اسلام کو غلبہ کاملہ نصیب ہوگا۔
۳… یہ بھی صاف صاف اقرار کرتا ہے کہ قرآن کی مندرجہ بالا آیت کریمہ میں اﷲتعالیٰ نے حضرت مسیح علیہ السلام کی تشریف آوری کی پیش گوئی فرمائی ہے اور وہی اس پیش گوئی کا ظاہری اور جسمانی طور پر مصداق ہیں اور مرزاغلام احمد قادیانی اپنی آخری تصنیف ’’چشمہ معرفت‘‘ میں، جو اس کی وفات سے دس دن پہلے شائع ہوئی، لکھتا ہے:
حوالہ:۲ ’’
ہُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ
‘‘ یعنی خدا وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول کو ایک کامل ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کو ہر ایک قسم کے دین پر غالب کر دے۔ یعنی ایک عالمگیر غلبہ اس کو عطاء کرے اور چونکہ وہ عالمگیر غلبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ظہور میں نہیں آیا اور ممکن نہیں کہ خدا کی پیش گوئی میں کچھ تخلف ہو اس لئے اس آیت کی نسبت ان سب متقدمین کا اتفاق ہے جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں کہ یہ عالمگیر غلبہ مسیح موعود کے وقت میں ظہور میں آئے گا۔ (چشمہ معرفت ص۸۳، خزائن ج۲۳ ص۹۱)
مرزاقادیانی نے اپنی آخری کتاب میں بھی وہی بات لکھی ہے جو سب سے پہلی کتاب میں لکھی تھی کہ اس آیت شریفہ میں جس عالمگیر غلبۂ اسلام کی پیش گوئی کی گئی وہ حضرت مسیح علیہ السلام کے وقت میں ہوگا۔ مگر یہاں مرزاقادیانی کی اس تحریر میں دوفرق نظر آتے ہیں۔
اوّل… یہ کہ وہ حضرت مسیح علیہ السلام کا نام لکھنے سے شرماتا ہے اور اس کی جگہ ’’مسیح موعود‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتا ہے۔حالانکہ مرزاقادیانی سے پہلے ’’مسیح موعود‘‘ کی اصطلاح کسی نے استعمال نہیں کی۔
دوم… یہ کہ وہ تیرہ صدیوں کے تمام بزرگان دین اور اکابر امت کا اجماع نقل کرتا ہے کہ اس آیت میں جو پیش گوئی کی گئی ہے وہ حضرت مسیح علیہ السلام کے وقت میں پوری ہوگی۔ اس عبارت سے دو باتیں صاف طور پر ثابت ہو جاتی ہیں۔
۴… تیرہ صدیوں کے سب اکابر اس پر متفق ہیں کہ آخری زمانے میں حضرت مسیح علیہ السلام تشریف لائیں گے جن کے ہاتھ سے اسلام تمام آفاق واقطار میں پھیل جائے گا اور اسلام کے سوا تمام مذاہب ختم ہو جائیں گے اور یہ کہ اس آیت شریفہ میں حضرت مسیح علیہ السلام کی تشریف آوری کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
۵… مرزاغلام احمد قادیانی کے ہاتھ سے اسلام کا یہ عالمگیر غلبہ نہیں ہوا، اس کو مرے ہوئے بھی ایک صدی گزر رہی ہے لیکن غلبہ اسلام کے دور ونزدیک کوئی آثار نہیں بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے کہ جب سے مرزاقادیانی نے ’’مسیح‘‘ ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ اسلام کمزور سے کمزور تر ہورہا ہے اور کفر ترقی پذیر ہے۔ لہٰذا مرزاقادیانی کا ’’مسیح موعود‘‘ ہونے کا دعویٰ غلط اور جھوٹ ہے اور واقعات کا مشاہدہ گواہی دیتا ہے کہ مرزا ’’مسیح موعود‘‘ نہیں، بلکہ ’’مسیح کذاب‘‘ ہے۔
مرزاغلام احمد قادیانی یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار مرویہ سے حیات عیسیٰ علیہ السلام کا عقیدہ ثابت ہے۔ اس لئے اپنے نبی کے آثار مرویہ کی پیروی کرتے ہوئے وہ بھی ایک زمانے میں یہی عقیدہ رکھتا تھا۔ مرزاقادیانی کا مندرجہ ذیل بیان بغور ملاحظہ فرمائیے:
حوالہ:۳ ’’میں نے براہین میں جو کچھ مسیح بن مریم کے دوبارہ دنیا میں آنے کا ذکر لکھا ہے وہ ذکر صرف ایک مشہور عقیدہ کے لحاظ سے ہے جس کی طرف آج کل ہمارے مسلمان بھائیوں کے خیالات جھکے ہوئے ہیں، سواسی ظاہری اعتقاد کے لحاظ سے میں نے لکھ دیا تھا کہ میں صرف مثیل موعود ہوں اور میری خلافت صرف روحانی خلافت ہے۔ لیکن جب مسیح آئے گا تو اس کی ظاہری اور جسمانی طور پر خلافت صرف روحانی خلافت ہے۔ لیکن جب مسیح آئے گا تو اس کی ظاہری اور جسمانی طور پر خلافت ہوگی یہ بیان جو براہین میں درج ہوچکا ہے۔ صرف اس سرسری پیروی کی وجہ سے ہے، جو ملہم کو قبل از انکشاف اصل حقیقت اپنے نبی کے آثار مرویہ کے لحاظ سے لازم ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۱۹۷، خزائن ج۳ ص۱۹۶)
مرزاقادیانی کے مندرجہ بالا اقتباس سے چند باتیں معلوم ہوئیں:
۶… مسلمانوں کا مشہور عقیدہ یہی چلا آتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں اور وہ بنفس نفیس تشریف لائیں گے۔
۷… مرزاقادیانی اقرار کرتا ہے کہ میں نے براہین میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تشریف لانے اور ظاہری وجسمانی خلافت پر فائز ہونے کا عقیدہ درج کیا ہے۔
۸… جب تک مرزاقادیانی پر بذریعہ الہام براہ راست الہامی انکشاف نہیں ہوا تھا تب تک اس کا عقیدہ بھی اپنے نبی کے آثار مرویہ کی ’’سرسری پیروی‘‘ میں یہی تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں اور وہی بنفس نفیس تشریف لاکر خلافت پر فائز ہوں گے۔
اس عبارت سے واضح ہے کہ مرزاقادیانی جس شخصیت کو اس وقت اپنا نبی سمجھتا تھا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، ان کے آثار مرویہ اور احادیث طیبہ میں حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات ونزول کا مسئلہ ذکر فرمایا گیا ہے، جس کی پیروی ہر اس شخص پر لازم ہے جو اپنے کو نبی کا امتی مانتا ہو۔ چنانچہ مرزاقادیانی بھی جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو واجب الاتباع سمجھتا رہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات ونزول کا معتقد رہا۔
مرزاقادیانی یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ تیرہ صدیوں سے نسلاً بعد نسل اور قرنا بعد قرن مسلمانوں کا یہی عقیدہ چلا آتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں اور کسی زمانہ میں وہ خود دوبارہ تشریف لائیں گے۔ گویا مرزاغلام احمد قادیانی کو اقرار ہے کہ ہمیشہ سے مسلمانوں کا اجماعی اور متواتر عقیدہ یہی رہا ہے جو عقیدہ آج امت اسلامیہ کا ہے۔ حسب ذیل تصریحات بغور ملاحظہ فرمائیے۔
حوالہ:۴ ’’ایک دفعہ ہم دہلی میں گئے تھے ہم نے وہاں کے لوگوں سے کہا کہ تم نے تیرہ سو برس سے یہ نسخہ استعمال کیا کہ… حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمان پربٹھایا۔ مگر اب دوسرا نسخہ ہم بتاتے ہیں وہ استعمال کر کے دیکھو اور وہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو… وفات شدہ مان لو۔‘‘ (ملفوظات ج۱۰ ص۳۰۰ مطبوعہ ربوہ)
حوالہ:۵ ’’مسیح ابن مریم (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) کے آنے کی پیش گوئی ایک اوّل درجہ کی پیش گوئی ہے جس کو سب نے بالاتفاق قبول کر لیا ہے اور جس قدر صحاح ستہ میں پیش گوئیاں لکھی گئی ہیں کوئی پیش گوئی اس کے ہم پہلو اور ہم وزن ثابت نہیں ہوتی، تواتر کا اوّل درجہ اس کو حاصل ہے، انجیل بھی اس کی مصدق ہے، اب اس قدر ثبوت پر پانی پھیرنا اور یہ کہنا کہ یہ تمام حدیثیں موضوع ہیں، درحقیقت ان لوگوں کا کام ہے جن کو خداتعالیٰ نے بصیرت دینی اور حق شناسی سے کچھ بھی بخرہ اور حصہ نہیں دیا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۵۵۷، خزائن ج۳ ص۴۰۰)
حوالہ:۶ ’’مسیح موعود (عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری) کے بارے میں جو احادیث میں پیش گوئی ہے وہ ایسی نہیں کہ جس کو صرف ائمہ حدیث نے چند روایتوں کی بنا پر لکھا ہو بس۔ بلکہ یہ ثابت ہوگیا ہے کہ یہ پیش گوئی عقیدہ کے طور پر ابتداء سے مسلمانوں کے رگ وریشہ میں داخل چلی آتی ہے، گویا جس قدر اس وقت روئے زمین پر مسلمان تھے اسی قدر اس پیش گوئی کی صحت پر شہادتیں موجود تھیں، کیونکہ عقیدہ کے طور پر وہ اس کو ابتداء سے یاد کرتے چلے آتے تھے۔‘‘
(شہادت القرآن ص۸، خزائن ج۶ ص۳۰۴)
حوالہ:۷ ’’اس امر سے کسی کو بھی انکار نہیں کہ احادیث میں مسیح موعود (عیسیٰ بن مریم کے دوبارہ آنے) کی کھلی کھلی پیش گوئی موجود ہے بلکہ قریباً تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ احادیث کی رو سے ضرور ایک شخص آنے والا ہے جس کا نام عیسیٰ بن مریم ہوگا۔‘‘ (شہادت القرآن ص۲، خزائن ج۶ ص۲۹۸)
حوالہ:۸ ’’یہ خبر مسیح موعود (عیسیٰ علیہ السلام) کے آنے کی اس قدر زور کے ساتھ ہر ایک زمانہ میں پھیلی ہوئی معلوم ہوتی ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی جہالت نہیں ہوگی کہ اس کے تواتر سے انکار کیا جائے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر اسلام کی وہ کتابیں جن کی رو سے یہ خبر سلسلہ وار شائع ہوتی چلی آئی ہے۔ صدی وار مرتب کر کے اکٹھی کی جائیں تو ایسی کتابیں ہزارہا سے کچھ کم نہیں ہوں گے۔‘‘ (شہادت القرآن ص۲، خزائن ج۶ ص۲۹۸)
مرزاغلام احمد قادیانی کی ان تصریحات سے واضح ہوا کہ:
۹… تیرہ سو سال سے مسلمانوں کا یہی عقیدہ چلا آتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں۔ واضح رہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے مرزاغلام احمد قادیانی کے دعویٰ مسیحیت تک تیرہ صدیاں ہی گزری تھیں۔
۱۰… مسلمان ابًا عن جد یہی عقیدہ سکھاتے چلے آئے ہیں اور یہ عقیدہ ہمیشہ سے ان کے رگ وریشہ میں داخل رہا ہے۔
۱۱… مسلمانوں کا یہ عقیدہ ان ارشادات نبویہ پر مبنی ہے جن کو تواتر کا اوّل درجہ حاصل ہے۔
۱۲… تیرہ صدیوں کے کل مسلمان اور ان کا ہر ہر فرد اس عقیدے کی صحت کا گواہ رہا ہے۔
۱۳… یہ عقیدہ علم عقائد وغیرہ کی ہزارہا اسلامی کتابوں میں صدی وار اشاعت پذیر ہوتا رہا ہے۔
۱۴… ایسے متواتر عقیدہ سے انکار کر دینا یا اس میں شک وشبہ کااظہار کرنا سب سے بڑھ کر جہالت اور بصیرت دینی اور حق شناسی سے یکسر محرومی کی علامت ہے۔
حوالہ:۹ یہاں مرزاقادیانی کے الہامی فرزند اور اس کے خلیفہ دوم مرزامحمود کی شہادت بھی پیش کرنا چاہتا ہوں، وہ لکھتے ہیں: ’’پچھلی صدیوں میں قریباً سب دنیا کے مسلمانوں میں مسیح کے زندہ ہونے پر ایمان رکھا جاتا ہے اور بڑے بڑے بزرگ اس عقیدہ پر فوت ہوئے… حضرت مسیح موعود (غلام احمد قادیانی) سے پہلے جس قدر اولیاء صلحاء گزرے ان میں ایک بڑا گروہ عام عقیدہ کے ماتحت حضرت مسیح علیہ السلام کوزندہ خیال کرتا تھا۔‘‘
(صرف بڑا گروہ نہیں بلکہ بلااستثناء امت اسلامیہ کے ہر ایک فرد کا یہی عقیدہ رہا ہے۔ ناقل)
(حقیقت النبوۃ مصنفہ مرزامحمود ص۱۴۲)
حوالہ:۱۰ نیز اس ضمن میں لاہوری گروپ کے امیر اور مرزاغلام احمد قادیانی کے پرجوش مرید مسٹر محمد علی ایم۔اے کی شہادت بھی ملاحظہ فرمائی جائے: ’’بانی فرقہ احمدیہ (مرزاغلام احمد قادیانی) نے پچاس یا اس سے بھی زیادہ کتابیں پبلک میں شائع کی ہیں، جن تمام میں یا ان میں سے بہت سی کتابوں میں اس نے جہاد کے قطعاً حرام ہونے اور خونی مہدی کے عقائد کے جھوٹے ہونے پر زور دیا ہے۔ اگر کوئی خاص اصول احمدیہ فرقہ کا سب سے بڑا قرار دیا جاسکتا ہے تو وہ دو متذکرہ بالا خطرناک اصولوں کی، جو تیرہ صدیوں سے مسلمانوں میں چلے آتے تھے۔ بیخ کنی کرنا ہے۔‘‘
(ریویو آف ریلیجنز ج۳ ش۳ ص۹۰، بابت ماہ مارچ۱۹۰۴ء)
مندرجہ بالا حوالوں میں مرزاقادیانی اور اس کے حواریوں کے اعتراف سے ثابت ہو چکا ہے کہ تیرہ سو سال سے ابًاعن جد مسلمانوں کا یہی عقیدہ چلا آتا ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں اور آخری زمانے میں وہی دوبارہ تشریف لائیں گے۔ لیکن مرزاقادیانی تیرہ سو سال بعد امت اسلامیہ کو مشورہ دیتا ہے کہ وہ ایک متواتر اسلامی عقیدہ کو خیرباد کہہ کر ایک نیا نسخہ آزمائے، جو خود مرزاقادیانی نے تجویز کیا ہے، یا بقول اس کے اس پر منکشف ہوا ہے۔
یہاں ہم مسلمانوں کو اس نکتہ کی طرف متوجہ کرنا چاہیں گے کہ کیا کسی مسلمان کو اس کا حق حاصل ہے کہ وہ کوئی نیا عقیدہ اختیار کر لے؟ مسلمانوں کو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی پہلی تقریر کا یہ فقرہ یاد ہوگا: ’’لوگو! میں تو صرف پیروی کرنے والا ہوں نئی بات ایجاد کرنے والا نہیں ہوں۔‘‘
اس اصول کی روشنی میں ایک مسلمان کو سوبار یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی عقیدے کے بارے میں پوری طرح یہ اطمینان کر لے کہ آیا یہ عقیدہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرامi کے دور سے چلا آتا ہے؟ یا خیرالقرون کے بعد کی پیداوار ہے؟ لیکن جب یہ اطمینان ہو جائے کہ فلاں عقیدہ خیرالقرون سے متواتر چلا آتا ہے تو اس کے بعد کسی مسلمان کو اس پر اعتراض کرنے یا اس سے انحراف کرنے کا حق حاصل نہیں، جس شخص کو اسلام کے کسی متواتر عقیدے پر نکتہ چینی کا شوق ہو اس کا فرض ہے کہ مسلمانوں کی صف سے نکل کر غیرمسلموں کی صف میں کھڑا ہو جائے، اس کے بعد بصد شوق اسلام کے متواترات ومسلمات کو ہدف اعتراض بنائے۔
مرزاغلام احمد قادیانی کی یہ منطق ناقابل فہم ہے کہ وہ حیات عیسیٰ علیہ السلام کے عقیدے کو تیرہ صدیوں سے متواتر بھی تسلیم کرتا ہے اور پھر اسے تبدیل کر کے ایک نیا نسخہ استعمال کرنے کا بھی مشورہ دیتا ہے، حالانکہ وہ یہ اصول تسلیم کرتا ہے کہ:
حوالہ:۱۱ ’’حدیثوں کا وہ دوسرا حصہ جو تعامل کے سلسلہ میں آگیا اور کروڑہا مخلوقات ابتداء سے اس پر اپنے عملی طریق سے محافظ اور قائم چلی آئی ہے اس کو ظنی اور شکی کیوں کر کہا جائے؟ ایک دنیا کا مسلسل تعامل جو بیٹوں سے باپوں تک، اورباپوں سے دادوں تک، اور دادوں سے پڑدادوں تک بدیہی طور پر مشہور ہوگیا اور اپنے اصل مبداء تک اس کے آثار اور انوار نظر آگئے اس میں تو ایک ذرہ گنجائش نہیں رہ سکتی اور بغیر اس کے انسان کو کچھ نہیں بن پڑتا کہ ایسے مسلسل عملدرآمد کو اوّل درجے کے یقینیات میں سے یقین کرے، پھر جب کہ آئمہ حدیث نے اس سلسلہ تعامل کے ساتھ ایک اور سلسلہ قائم کیا اور امور تعاملی کا اسناد راست گو اور متدین راویوں کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیا تو پھر بھی اس پر جرح کرنا درحقیقت ان لوگوں کا کام ہے جن کو بصیرت ایمانی اور عقل انسانی کا کچھ بھی حصہ نہیں ملا۔‘‘
(شہادت القرآن ص۸، خزائن ج۶ ص۳۰۴)
آپ مرزاقادیانی کی زبان سے سن چکے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان پر زندہ ہونا اور پھر دوبارہ کسی وقت دنیا میں تشریف لانا امت اسلامیہ کا تیرہ سو سال سے متواتر عقیدہ رہا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متواتر ارشادات میں، جن کو تواتر کا اوّل درجہ حاصل ہے، یہی عقیدہ بیان ہوا ہے اور خیرالقرون میں یہ عقیدہ وہاں وہاں تک پہنچا ہوا تھا جہاں کہیں ایک مسلمان بھی آباد تھا۔ انصاف فرمائیے کہ اس سے بڑھ کر اس عقیدہ کی حقانیت کا اور کیا ثبوت پیش کیا جاسکتا ہے؟
اس کے بعد بھی جو شخص اس عقیدے پر زبان طعن دراز کرتا ہے، اسلام کی مسلسل اور متواتر تاریخ کی تکذیب کرتا ہے، اسلام کے متواترات وقطعیات کو، جن کی پشت پر تیرہ سو سالہ امت کا تعامل موجود ہے، جھٹلانے کی جرأت کرتا ہے۔ انصاف کیجئے کہ کیا ایسا شخص مسلمان کہلانے کا مستحق ہے؟ بہرحال مرزاغلام احمد قادیانی کا یہ مشورہ کہ: ’’تم نے تیرہ سو برس سے یہ نسخہ استعمال کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمان پر بٹھایا مگر اب دوسرا نسخہ ہم بتاتے ہیں وہ استعمال کر کے دیکھو اور وہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وفات شدہ مان لو۔‘‘ (ملفوظات ج۱۰ ص۳۰۰)
کسی مسلمان کے لئے لائق التفات نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ کسی مسلمان کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ اسلام کے متواتر ومسلسل عقیدہ کو بدل ڈالنے کی جرأت کرے اور جو شخص ایسی جرأت کرے وہ مسلمان نہیں، بلکہ اسلام کا دشمن ہے۔
اس باب میں ہم نے مرزاقادیانی اور اس کے متبعین کے گیارہ حوالے پیش کر کے چودہ نتائج اخذ کئے۔ مرزاقادیانی نے حوالہ نمبر۱ اور نمبر۲ میں قرآنی آیات سے استدلال کیا کہ سیدنا مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے اور ان کے ہاتھ سے غلبہ اسلام ہوگا۔ مرزاقادیانی اقراری ہے کہ قرآن کی رو سے سیدنا مسیح علیہ السلام تشریف لائیں گے۔ اب یہاں ایک اہم حوالہ پیش خدمت ہے۔ مرزاقادیانی کا بڑا بیٹا اور قادیانی جماعت کا دوسرا خلیفہ مرزامحمود لکھتا ہے۔
حوالہ:۱۲ ’’لیکن ۱۸۹۱ء میں ایک اور تغیر عظیم ہوا یعنی حضرت مرزاقادیانی کو الہام کے ذریعہ بتایا گیا کہ حضرت مسیح ناصری (عیسیٰ علیہ السلام) جن کے دوبارہ آنے کے مسلمان اور مسیحی دونوں قائل ہیں، فوت ہوچکے ہیں اور ایسے فوت ہوئے ہیں کہ پھر واپس نہیں آسکیں گے اور یہ مسیح کی بعثت ثانیہ سے مراد ایک ایسا شخص ہے جو ان کی خوبو پر آوے اور وہ آپ (مرزاقادیانی) ہی ہیں۔ جب اس بات پر آپ کو شرح صدر ہوگیا اور باربار الہام سے آپ کو مجبور کیاگیا کہ آپ اس بات کااعلان کریں تو آپ کو مجبوراً اس کام کے لئے اٹھناپڑا قادیان میں ہی آپ کو یہ الہام ہوا تھا۔ آپ نے گھر میں فرمایا کہ اب ایک ایسی بات میرے سپرد کی گئی ہے کہ اس سے سخت مخالفت ہوگی۔ اس کے بعد آپ لدھیانہ چلے گئے اور مسیح موعود ہونے کا اعلان ۱۸۹۱ء میں بذریعہ ایک اشتہار کے شائع کیاگیا۔ اس اعلان کا شائع ہونا تھا کہ ہندوستان بھر میں ایک شور پڑ گیا۔‘‘ (سیرت مسیح موعود ص۳۰ بارسوم مطبوعہ قادیان دسمبر ۱۹۴۶ء)
اس حوالہ نمبر۱۲ سے جو نتائج نکلتے ہیں اس کو ہم علیحدہ نمبردے کر لکھتے ہیں:
نمبر:۱… ۱۸۹۱ء تک مرزاقادیانی حیات مسیح علیہ السلام کا قائل تھا۔
نمبر:۲… الہام کے ذریعہ بتایا گیا کہ مسیح فوت ہوگئے (اب یہاں سوال یہ ہے کہ حوالہ نمبر۱ میں قرآن کی رو سے مرزا اقراری ہے کہ مسیح زندہ ہے۔ حوالہ نمبر۱۲ سے الہام کے ذریعہ معلوم ہوا کہ مسیح فوت ہوگئے کیامرزاقادیانی کا الہام قرآن کے لئے ناسخ تھا؟ اس شخص سے بڑھ کر کون کافر ہوسکتا ہے جو اپنے الہام سے قرآن کو منسوخ قرار دے)
نمبر:۳… تمام مسلمان ومسیحی سیدنا مسیح علیہ السلام کے دوبارہ آنے کے قائل تھے۔
نمبر:۴… مسیح علیہ السلام کی بعثت ثانیہ سے مراد مرزاقادیانی کی آمد ہے۔
نمبر:۵… باربار الہام سے آپ کو مجبور کیاگیا تب مرزاقادیانی نے اعلان کیا۔
اب دیکھئے کہ مرزاقادیانی کو مسیح بننے کا شوق الہام سے ہوا؟ سوال یہ ہے کہ یہ الہام شیطانی تھا یا رحمانی۔ اگر رحمانی ہوتا تو قرآن کے خلاف کیوں کر ہوسکتا تھا؟ پس ثابت ہوا کہ الہام شیطانی تھا۔ اس لئے تو باربار شیطان نے مرزاقادیانی کو مجبور کیا کہ تم یہ اعلان کرو۔ شیطان کا الہام اور حکیم نورالدین کی انگیخت سے مرزاقادیانی نے مسیح ہوے کا اعلان کیا۔ شیطان، نورالدین اور مرزاقادیانی کی تثلیث نے مل کر امت مسلمہ میں فتنہ کا بیج بویا۔ قارئین حیران ہوں گے کہ ہم نورالدین کو کہاں سے گھسیٹ لائے۔ حوالہ ملاحظہ ہو۔
حوالہ:۱۳ مرزاقادیانی حکیم نورالدین کے ایک خط کے جواب میں تحریر کرتا ہے: ’’جو کچھ آں مخدوم (نورالدین) نے تحریر کیا ہے کہ اگر دمشقی حدیث کے مصداق کو علیحدہ چھوڑ کر الگ مثیل مسیح کا دعویٰ ظاہر کیا جائے تو اس میں کیا حرج ہے۔‘‘
(مکتوبات احمدیہ مکتوب نمبر۶، بنام حکیم نورالدین ج۵ نمبر۲ ص۸۵)
قارئین اس خط پر ۲۴؍جنوری ۱۸۹۱ء کی تاریخ درج ہے۔ مرزامحمود کا حوالہ نمبر۱۲ آپ نے پڑھا کہ ۱۸۹۱ء میں مرزاقادیانی نے مسیح ہونے کا دعویٰ کیا۔ اب یہ تثلیث مل کر ابلیس کا ناٹک رچانے کے درپے ہے کہ کس طرح مرزاقادیانی کو مسیح بنایا جائے۔ فرمائیے الہام سے ہورہا ہے یا مشاورت سے؟ اس پر بس نہیں بلکہ نورالدین قادیان آیا اور مرزاقادیانی کو سبق پڑھایا۔ چنانچہ مرزاقادیانی لکھتا ہے:
حوالہ:۱۴ ’’محب واثق مولوی حکیم نورالدین اس جگہ قادیان میں تشریف لائے۔ انہوں نے اس بات کے لئے درخواست کی کہ جو مسلم کی حدیث میں لفظ دمشق ہے… اس کے انکشاف کے لئے جناب الٰہی میں توجہ کی جائے… پس واضح ہو کہ دمشق کے لفظ کی تعبیر میرے پر منجانب اﷲ یہ ظاہر کیاگیا کہ اس جگہ ایسے قصبہ (قادیان) کا نام دمشق رکھاگیا ہے۔ جس میں ایسے لوگ رہتے ہیں جو یزیدی الطبع ہیں اور یزید پلید کی عادات اور خیالات کے پیرو ہیں… خداتعالیٰ نے مسیح کے اترنے کی جگہ جو دمشق کو بیان کیا ہے تو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مسیح سے مراد وہ اصلی مسیح نہیں (بلکہ نقلی مسیح مرزا) ہے جس پر انجیل نازل ہوئی تھی بلکہ مسلمانوں میں سے کوئی ایسا شخص مراد ہے… دمشق کا لفظ محض استعارہ کے طور پر استعمال کیاگیا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۵تا۶۷، خزائن ج۳ ص۱۳۵،۱۳۶ حاشیہ)
لیجئے صاحب! دمشق کی حدیث کا مسئلہ حل ہوگیا۔ دمشق سے مراد قادیان اور مسیح سے مراد مرزاقادیان، فرمائیے کہ یہ الہام ربانی ہے یا کھیل شیطانی ہے؟
لیکن بایں ہمہ جھوٹ جھوٹ ہوتا ہے۔ ’’مرزامحمود ۱۹۲۴ء میں دمشق گیا۔ ایک ہوٹل میں نماز پڑھی۔ سامنے سفید مینار تھا۔ کہنے لگا کہ لو حدیث دمشق پوری ہوگئی۔‘‘ (سوانح فضل عمر ج۳ ص۷۱، تاریخ احمدیت ج۵ ص۴۱۳)
گویا مرزاقادیانی کا جھوٹ کہ قادیان دمشق ہے۔ مرزامحمودکو ہضم نہ ہوا۔ لیکن کیا کیا جائے اس حماقت کا کہ مرزاقادیانی نے صرف قادیان کو دمشق نہیں بنایا بلکہ مینارہ بھی بنوانا شروع کیا۔ لیکن اس دجل کا قدرت نے پردہ یوں چاک کیاکہ مرزاقادیانی (فرضی مسیح) مرگیا مینارہ بعد میں بنا۔ سچے مسیح کے لئے مینارہ پہلے مسیح پھر، لیکن یہاں قادیان میں الٹی گنگا کہ مسیح پہلے مینارہ بعد میں۔ بہرحال مرزاقادیانی نے جب مسیح بننے کا تانابانا تیار کیا تو ابتداء میں کہا کہ:
حوالہ:۱۵ ’’کہ قرآن میں تین آیات سے وفات مسیح ثابت ہے۔‘‘ (توضیح المرام ص۸، خزائن ج۳ ص۵۴)
حوالہ:۱۶ جب یہ جھوٹ اپنے احمق مریدوں کو منوا چکے تو اگلی کتاب میں کچھ دنوں بعد کہا کہ: ’’قرآن مجید کی تیس آیتوں سے وفات مسیح ثابت ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۵۹۸، خزائن ج۳ ص۴۲۳)
آخر میں تو عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا جو قائل نہ ہو ان کو مشرک تک قرار دے دیا۔
حوالہ:۱۷ ’’
فمن سوء الادب ان یقال ان عیسٰی مامات ان ہو الاشرک عظیم
‘‘
(الاستفتاء ص۳۹، خزائن ج۲۲ ص۶۶۰)
علاوہ ازیں اپنی کتابوں میں یہ بھی لکھا کہ مسئلہ حیات اور نزول مسیح مرزاقادیانی سے پہلے کسی کو معلوم نہ تھا۔ اس کی حقیقت صرف اور صرف مرزاقادیانی پر ہی منکشف ہوئی۔ بلکہ خودخداتعالیٰ نے بھی اس کو لوگوں سے پوشیدہ اور مخفی رکھا۔ چنانچہ مرزاقادیانی لکھتے ہیں:
حوالہ:۱۸ ’’ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ابن مریم اور دجال کی حقیقت کاملہ بوجوہ نہ موجود ہونے کسی نمونہ کے موبمومنکشف نہ ہوئی ہو… تو کچھ تعجب کی بات نہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۹۱، خزائن ج۳ ص۴۷۳)
حوالہ:۱۹ مرزاقادیانی کے نزدیک خود سیدنا مسیح علیہ السلام کو بھی اپنے نزول کا مطلب سمجھ میں نہ آیا۔ چنانچہ لکھا: ’’یہ امر بھی ناممکن نہیں کہ مسیح کو اپنی آمد ثانی کے معنی سمجھنے میں غلطی لگی ہو اور بجائے روحانی آمد سمجھنے کے اس نے جسمانی آمد اس سے سمجھ لی ہو۔‘‘ (ریویو آف ریلیجنز ج۳ نمبر۸ بابت ماہ اگست ۱۹۰۴ء ص۲۸۱)
حوالہ:۲۰ یہ بھی لکھا کہ صحابہ کرامi کو بھی اس مسئلہ کی حقیقت معلوم نہ ہوئی: ’’
یا اخوان! ہذا ہو الامر الذی اخفاہ اللّٰہ عن اعین القرون الاولٰی
‘‘ اے بھائیو! یہ وہ بات ہے جس کو اﷲتعالیٰ نے پہلی صدی کے مسلمانوں (یعنی صحابہ کرامi) سے چھپا رکھا تھا۔ (آئینہ کمالات اسلام ص۴۲۶، خزائن ج۵ ص ایضاً)
حوالہ:۲۱ اس طرح اپنی کتاب ’’تحفہ بغداد‘‘ میں لکھا: ’’
وما کان ایمان الاخیار من الصحابۃ والتابعین بنزول المسیح علیہ السلام الا اجمالیا وکانوا یؤمنون بالنزول مجملاً
‘‘ مسیح علیہ السلام کے نزول کے بارہ میں اخیار صحابہ اور تابعین کا ایمان اجمالی تھا اور وہ اس عقیدہ نزول مسیح پر مجمل ایمان رکھتے تھے۔ (یعنی تفصیل کا انہیں علم نہیں تھا) (تحفہ بغداد ص۷، خزائن ج۷ ص۸)
حوالہ:۲۲ مرزاقادیانی کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ان سے پہلے کسی شخص کو اس مسئلہ کی حقیقت معلوم نہیں ہوئی۔ چنانچہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ: ’’
علم من لدنہ ان النزول فی اصل مفہومہ حق ولکن مافہم المسلمون حقیقۃ لان اﷲ تعالیٰ ارادہ اخفاہ فغلب قضاء ہ ومکرہ وابتلاء ہ علٰی الافہام، فصرف وجوہہم عن الحقیقۃ الروحانیۃ الٰی الخیالات الجسمانیۃ، فکانوا بہامن القانعین، وبقی ہذا الخبر مکتومًا مستورًا کالحب فی السنبلۃ قرنًا بعدقرن حتی زماننا… فکشف اللّٰہ الحقیقۃ علینا
‘‘(آئینہ کمالات اسلام ص۵۵۲، خزائن ج۵ ص ایضاً)
یعنی مجھے اﷲتعالیٰ کی طرف سے بتایا گیا کہ نزول اپنے اصل مفہوم کے لحاظ سے حق ہے لیکن مسلمان اس کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکے۔ کیونکہ اﷲتعالیٰ کا ارادہ اس کو پردہ اخفاء میں رکھنے کا تھا۔ پس اﷲ کا فیصلہ غالب آیا اور لوگوں کے ذہنوں کو اس مسئلہ کی حقیقت روحانیہ سے خیالات جسمانیہ کی طرف پھیر دیا گیا اور وہ اسی پر قانع ہوگئے اور یہ مسئلہ پردہ اخفا ہی میں رہا جیسے کہ دانہ خوشے میں چھپا ہوتا ہے کئی صدیوں تک حتیٰ کہ ہمارا زمانہ آگیا… پس اﷲتعالیٰ نے اس بات کی حقیقت کو ہم پر منکشف کیا۔
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی کے دعویٰ مسیحیت تک نزول مسیح کا مسئلہ کلی طور پر پردہ اخفاء میں رہا اور سوائے مرزاغلام احمد قادیانی کے اس کی حقیقت کا کسی اور پر انکشاف نہ ہوا۔ چنانچہ مرزاقادیانی لکھتے ہیں کہ:
حوالہ:۲۳ ’’مگر باوجود اس قدر آشکارا ہونے کے خداتعالیٰ نے اس کو مخفی کر لیا اور آنے والے موعود کے لئے اس کو مخفی رکھا۔‘‘ (اخبار الحکم قادیان ص۶ ج۱۰ کالم۳، مورخہ ۱۷؍فروری ۱۹۰۶ء)
یہی وجہ ہے کہ مرزاقادیانی نے اپنے عقیدہ حیات مسیح میں ۵۲سال کے بعد جو تبدیلی کی وہ قرآن وحدیث کے دلائل کی وجہ سے نہ تھی بلکہ اپنی وحی کی وجہ سے کی جو موسلادھار بارش کی طرح ان پر ہوئی اور بقول ان کے اس نے ان کو مجبور کر دیا کہ وہ اپنے باون سالہ عقیدہ میں تبدیلی کریں۔ چنانچہ اس عقیدہ میں تبدیلی انہوں نے اپنی وحی کی وجہ سے کی جس نے اس عقیدہ کے اخفاء کو ان پر منکشف کیا۔ اقبال رحمہ اللہ تعالیٰ نے سچ کہا ؎
ولے تاویل شاں در حیرت انداخت
خدا و جبرئیل و مصطفیٰ را
اعتراض: مسیح علیہ السلام کو آسمان پر زندہ ماننا شرکیہ عقیدہ ہے اور مرزاقادیانی کا عقیدہ حیات مسیح قبل از الہام تھا۔ الہام کے بعد وہ عقیدہ منسوخ ہوگیا۔ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پہلے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے لیکن جب وحی آئی بیت اﷲ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے لگے۔ نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے فرمایا کہ مجھے یونس بن متی پر فضیلت نہ دو بعد میں فرمایا کہ میں تمام نبیوں سے افضل ہوں۔ پس جب آپ کو وحی ہوئی تو آپ نے فضیلت کا اظہار فرمایا۔ اسی طرح جب مرزاقادیانی کو الہام ہوا کہ (مسیح فوت ہوگئے ہیں اور میں مسیح موعود ہوں) تو انہوں نے بھی دعویٰ کر دیا۔ نیز مرزاقادیانی کا عقیدہ حیات مسیح ایک رسمی عقیدہ تھا۔
الجواب: ۱… مرزاقادیانی کو بارہ برس تک خدائے تعالیٰ سے الہام ہوتے رہے۔ مگر وہ برابر شرک میں مبتلا رہے۔ ہمیں اس کی نظیر انبیاء میں نہیں ملتی اور بیت المقدس کی مثال بالکل مہمل ہے۔ اوّل تو اس لئے کہ بیت المقدس کو قبلہ بنانا حسب ہدایت آیت: ’’
فَبِہُدٰہُمُ اقْتَدِہ (انعام:۹۰)
‘‘ انبیائے سابقین کی سنت پر عمل ہے اور شرک نہیں تو وہ اس کی مثال کیسے بن سکتا ہے۔ بلکہ ’’انبیاء جو شرک کو مٹانے آئے ہیں خود شرک میں مبتلا ہیں؟‘‘ دیگر اس وجہ سے بے محل ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کا مسئلہ عقائد میں سے ہے اور عقائد میں تنسیخ وتبدیلی نہیں ہوسکتی اور بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا عملیات میں سے ہے جن میں تبدیلی وتنسیخ ہوسکتی ہے پس یہ اس کی نظیر نہیں۔
۲… مرزائیوں کا یہ کہنا کہ محض رسمی عقیدہ کی بناء پر مرزاقادیانی حیات مسیح کے قائل تھے بالکل لغو ہے۔ کیونکہ براہین احمدیہ وہ کتاب ہے جو بقول مرزاقادیانی دربار رسالت مآب میں رجسٹرڈ ہوچکی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قبولیت حاصل کر رہی تھی کیا اس وقت یہ تمام بیانات جن میں حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات اور رفع آسمانی اور نزول ثانی مرقوم تھے، براہین سے نکال کر پیش ہوئے تھے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں نہ چڑھے تھے اور آپ نے یونہی بلاتحقیق مطالعہ اس کو شہد کی صورت میں ٹپکا دیا۔
۳… اور حضرت یونس بن متی والی مثال بھی بے محل ہے۔ کیونکہ مرزاقادیانی فرماتے ہیں کہ ’’یا تو یہ حدیث ضعیف ہے یا بطور تواضع وانکساری کے ایسا کہا گیا ہے۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۱۶۳، خزائن ج۵ ص ایضاً)
عذر مرزائیہ
مرزاقادیانی نے براہین احمدیہ میں محض رسمی طور پر عقیدہ حیات مسیح لکھا تھا۔
الجواب: اوّل تو ہمیں یہ مضر نہیں کیونکہ ہم نے بآیت قرآن وحدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ثابت کر دیا ہے کہ یہاں حضرت مسیح علیہ السلام کا بھی ذکر ہے۔ دوم مرزائیوں کا عذر یوں بھی غلط ومردود ہے کہ مرزاقادیانی بقول خود ’’براہین احمدیہ کے وقت رسول اﷲ تھے۔‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ ص۲، خزائن ج۱۸ ص۲۰۶، ایام الصلح اردو ص۷۵، خزائن ج۱۴ ص۳۰۹)
پھر اور سنو! براہین احمدیہ وہ کتاب ہے جو بقول مرزاقادیانی: ’’مولف نے ملہم ہوکر بغرض اصلاح تالیف کی۔‘‘ (اشتہار براہین احمدیہ ملحقہ کتاب آئینہ کمالات وسرمہ چشم آریہ) اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں رجسٹرڈ ہوچکی ہے آپ نے اس کا نام قطبی رکھا یعنی قطب ستارہ کی طرح غیرمتزلزل ومستحکم اور یہ کتاب خدا کے الہام اور امر سے لکھی گئی ہے۔
(براہین احمدیہ ص۲۴۸،۲۴۹، خزائن ج۱ ص۲۷۵)
پہلی آیت: ’’
یٰعِیْسٰی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ
(آل عمران:۵۴)‘‘ اے عیسیٰ علیہ السلام میں لے لوں گا تجھ کو اور اٹھالوں گا اپنی طرف اور پاک کردوں گا تجھ کو کافروں سے اور رکھوں گا ان کو جو تیرے تابع ہیں۔ غالب ان لوگوں سے جو انکار کرتے ہیں قیامت کے دن تک۔
قادیانی استدلال: ’’یعنی اے عیسیٰ علیہ السلام میں تجھے وفات دینے والا ہوں اور پھر عزت کے ساتھ اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور کافروں کی تہمتوں سے (تجھے) پاک کرنے والا ہوں اور تیرے متبعین کو تیرے منکروں پر قیامت تک غلبہ دینے والا ہوں۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۵۹۸، خزائن ج۳ ص۴۲۳)
جواب: ۱… اس آیت میں ’
’مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ
‘‘ کی نسبت مرزاقادیانی (ازالہ اوہام ص۳۹۴، خزائن ج۳ ص۳۰۳) پریہ اقرار کر لیا ہے کہ یہ آیت وعدۂ وفات ہے (یعنی دلیل وخبر وفات نہیں) حیرانگی ہے کہ وعدۂ وفات دینے میں کیا مصلحت الٰہی ہوسکتی ہے؟ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کبھی یہ خیال کر بیٹھے تھے کہ ان پر موت وارد نہ ہوگی؟ حالانکہ ہر شخص خواہ مومن ہو یا کافر ’’
کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ
‘‘ کو مانتا ہے۔ مرزاقادیانی کا بیان ہے کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب یہود نے حضرت مسیح کو پکڑ کر صلیب پر کھینچنا چاہا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ جو صلیب پر لٹکایا گیا وہ لعنتی ہے۔ رب کریم نےیہود کے اس ارادۂ فاسد کے مقابلہ میں حضرت مسیح علیہ السلام کا اطمینان فرمایا کہ تم صلیب پر نہیں مرو گے بلکہ اپنی موت سے، مرزاقادیانی کی اس وجہ اور سبب وعدۂ وفات کے غلط ہونے کی یہ دلیل بھی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہ تو اپنی پیدائش کے دن ہی معلوم ہوگیا تھا کہ وہ نہ قتل کئے جائیں گے اور نہ صلیب پر لٹکائے جائیں گے بلکہ سلامتی کی موت کے ساتھ اپنی انفاس حیات پوری کریں گے۔ پڑھو یہ آیت: ’’
وَسَلَامٌ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ وَیَوْمَ اُمُوْتُ وَیَوْمَ اُبْعَثُ حَیَّا (مریم:۲۳)
‘‘ پس یہ آیت بھی صاف دلالت کر رہی ہے کہ ’’اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ‘‘ کے معنی موت دوں گا ہرگز صحیح نہیں، مرو گے۔ عزت پاؤ گے ان کافروں کے ارادۂ فاسد سے پاک وصاف رہو گے۔ مرزاقادیانی کی یہ خودتراشیدہ وجہ بھی وعدۂ وفات کی مصلحت کو ظاہر کرنے میں بودی اور کمزور ہے۔ مرزاقادیانی مانتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر لٹکائے گئے۔ صلیب کی سختیوں سے ایسے قریب بہ مرگ ہوگئے کہ یہود نے مرجانے کا خیال کر لیا۔ سبت بھی قریب تھا۔ جلدی سے اتار کر دفن کر گئے۔ حضرت مسیح علیہ السلام کے یارواحباب نے آکر ان کو نکال لیا۔ پھر وہ خفیہ زندہ رہے اور اپنی موت سے مر گئے۔
اہم استنباط: یہ وجہ اس لئے کمزور اور بودی ہے کہ مرزاقادیانی مانتے ہیں کہ صلیب پر لٹکائے جانے کے بعد پھر زندہ رہے اور مدتوں جئے تو اندریں صورت اقتضائے مقام یہ تھا کہ اﷲتعالیٰ ان کو وعدۂ نجات دیتا کہ یہود تو تجھے صلیب پر لٹکانا چاہتے اور بے عزتی کے ساتھ ہلاک کرنا چاہتے ہیں۔ مگر میں تجھے ان کے ہاتھوں سے نجات دوں گا اور تو اپنی زندگی اور عمر کا بقیہ حصہ خاموشی اور امن کے ساتھ پورا کرے گا نہ کہ برخلاف اس کے کہ ایک شخص جو موت کے سامان اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہا ہے اور اپنے مرنے کا یقین کر رہا ہے اس کی تسلی اور تشفی ان الفاظ میں کی جائے کہ میں تجھے ماروں گا اور وفات دوں گا۔ درآنحالیکہ مارنے اور وفات دینے میں ہنوز عرصۂ دراز باقی ہے۔ ایسے موقعہ دل دہی اور اطمینان پر ایسے الفاظ کا استعمال دنیا کی کسی زبان میں بھی نہ ہوتا ہوگا۔ چہ جائیکہ رب کریم کے کلام میں ہو۔ جس کی بلاغت بدرجہ غایت پہنچی ہوئی ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ مرزاقادیانی نے اس آیت کا جو ترجمہ کیا ہے وہی اپنی غلطی اور اندرونی شہادت رکھتا ہے اور بآواز بلند پکار رہا ہے کہ الفاظ ربانی کے ایسے معانی کرنا جس کے ایک پہلو سے اﷲتعالیٰ پر فعل عبث اور کلام بے محل کا الزام آتا ہو اور دوسرے پہلو سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر غلط فہمی کا اعتراض قائم ہوتا ہو بالکل بے بصیرتی ہے اور اﷲتعالیٰ کے کلام پاک کو اس کے درجہ اعلیٰ سے ’’
متنزل
‘‘ کر دینا ہے اور ’’
مُتَوَفِّیْکَ
‘‘ کا ترجمہ تجھے ماروں گا کرنے سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا ترجمہ ’’
وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا
‘‘ پہلے الفاظ سے کچھ مناسبت نہیں رکھتا۔ یعنی عدم مطابقت کلام الٰہی ہے اور وہ محال ہے کیونکہ جس عزت کی موت کا وعدہ تھا یا تو وہ عزت جسمانی ہوسکتی ہے۔ جو بقول آپ کے حضرت مسیح علیہ السلام کو نصیب نہیں ہوئی۔ کیونکہ وہ تادم زیست یہودیوں کے خوف سے چھپے ہی رہے۔ گمنامی کے ساتھ زندگی بسر کرنا اور معمولی طور پر مر جانا جسمانی لحاظ سے باعزت موت نہیں ہوسکتی۔ جب کہ اس کا وعدہ بھی منجانب اﷲ دیاگیا ہو اور یا وہ عزت روحانی ہوسکتی ہے یعنی اعلیٰ علیین میں روح کا جاگزین ہونا وغیرہ وغیرہ تو یہ سب امور تو انبیاء علیہم السلام کو یقینا حاصل ہوتے ہیں اور کوئی نبی بھی ایسا نہیں گزرا۔ جس کو سوء خاتمہ کا خوف ہو۔ یا سلب ایمان کا ڈر۔ پس اس اعتبار سے بھی یہ وعدہ ایک فعل لا یعنی ہوا اور جس کے یہ معنی ہیں کہ یہود کی مخالفت دیکھ کر خود حضرت مسیح علیہ السلام کو بھی اپنی صداقت اور نبوت میں شک ہوگیا تھا۔ (معاذ اﷲ) جس کا دفعیہ خداتعالیٰ کو کرنا پڑا کہ نہیں تو شک نہ کر۔ تو سچا ہے اور اس لئے تو عزت کے ساتھ ہمارے پاس آئے گا۔ ’’
مُتَوَفِّیْکَ
‘‘ کے ترجمہ ماروں گا کی غلطی تو لفظ ’’
مُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا
‘‘ بھی ظاہر کرتا ہے۔ جب مرزاقادیانی کا اقرار ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام یہود کے ہاتھوں صلیب پر لٹکائے گئے (گو ان کو صلیب پر وفات پانے کا انکار ہے) اور توریت کے خاص الفاظ یہی ہیں کہ جو صلیب پر لٹکایا گیا (دیکھو صلیب پر لٹک کر مر گیا توریت بھی نہیں کہتی) وہ لعنتی ہے، تو معلوم ہوا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو یہود کی آنکھوں میں تطہیر حاصل نہیں ہوئی۔ حالانکہ وعدہ تطہیر کا تھا۔
اب ناظرین یہ بھی خیال فرمائیں کہ مرزاقادیانی نے ان ہرچہار فعلوں میں ترتیب طبعی کو تسلیم کر لیا ہے۔ حالانکہ ان کی بتلائی ہوئی وجہ سے جس کا ذکر اوپر ہوا ’’
مُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا
‘‘ کو ’’
مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ
‘‘ پر تقدم زمانی حاصل ہے۔ کیونکہ تطہیر کے معنی ان کے نزدیک صلیب پر لٹکے ہوئے وفات نہ پانا ہے۔ جو واقعہ تصلیب سے اگلے روز ہی ان کو حاصل ہوگئی تھی اور جب یہ تقدم زمانی ثابت ہوئی تو پھر ان کا یہ مذہب کہ تقدیم وتاخیر الفاظ قرآنی صریح الحاد ہے۔ انہی پر لوٹ چلے گا۔ غرض یہ ترجمہ ہی اپنی بطلان پر خود شاہد ہے۔
اس جگہ تقدیم وتاخیر الفاظ کی نسبت بھی کچھ گزارش کرنا ضروری ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کا مذہب یہ ہے کہ: ’’
مُتَوَفِّیْکَ
‘‘ کے معنی ’’مُمِیْتُکَ‘‘ ہیں۔ اس پر وہی اعتراضات وارد ہوتے جو مرزاقادیانی کے ترجمہ پر ہوئے ہیں۔ مگر ساتھ ہی ان کا یہ مذہب بھی ہے کہ الفاظ ’’
مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ
‘‘ میں تقدیم وتاخیر ہے۔ مرزاقادیانی اس مقام پر آکر ایسے غضب میں بھر جاتے ہیں کہ تقدیم وتاخیر الفاظ کا نام الحاد قرار دیتے ہیں اور ان کے خوش فہم مرید بھی بحق صحابی رسول۔ مفسر قرآن فقیہ فی الدین، برادر عم زاد نبی ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم اس فتوے الحاد پر بڑے نازاں ہورہے ہیں۔ اگر ان کو نظم قرآنی پر ذرا غور کا موقع بھی ملا ہوتا تو یہ حرف کبھی زبان پر نہ لاتے۔
نوٹ: آیت: ’’
اِنِّی مُتَوَفِّیْکَ اِلَیَّ
‘‘ کے جو معنی مرزاقادیانی نے کئے ہیں اور اس معنی پر جو اعتراض ہم نے کیا ہے کہ آپ اس آیت کو حضرت مسیح علیہ السلام کے لئے اطمینان دہ اور تسلی بخش مانتے ہیں۔ مگر آپ کا ترجمہ اس آیت کو ان کے حق میں ایک پروحشت خبر اور پیام مرگ بتارہا ہے اور ایک مقید واسیر کو جو اپنی آنکھوں سے صلیب کو اپنے لئے تیاراور قوم کو اپنے قتل پر آمادہ دیکھے۔ موت فوری اور قتل ذلت کا یقین دلا رہا ہے۔ ہمارے اس اعتراض کا صحیح ہونا مرزاقادیانی نے خود تسلیم کر لیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’واضح ہو کہ مسیح کو بہشت میں داخل ہونے اور خداتعالیٰ کی طرف اٹھائے جانے کا وعدہ دیاگیا تھا۔ مگر وہ کسی اور وقت پر موقوف تھا جو مسیح پر ظاہر نہیں کیاگیا تھا جیسا کہ قرآن کریم میں ’’اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ‘‘ وارد ہے۔ سو اس سخت گھبراہٹ کے وقت میں مسیح نے خیال کیا کہ شاید آج ہی وہ وعدہ پورا ہوگا چونکہ مسیح ایک انسان تھا اور اس نے دیکھا کہ تمام سامان میرے مرنے کے موجود ہوگئے ہیں۔ لہٰذااس لئے برعایت اسباب گمان کیا کہ شاید آج میں مرجاؤں گا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۳۹۴، خزائن ج۳ ص۳۰۳)
مرزاقادیانی ’’مسیح ایک انسان تھا‘‘ کہہ کر اپنے معنی کا نقص چھپانا چاہتے ہیں۔ مگر مسیح علیہ السلام ایک رسول تھا جس کے پاس یہود کے ہاتھوں سے نجات پا جانے کا وعدہ حتمی اﷲتعالیٰ کے پاس سے آچکا تھا۔ اس لئے لازمہ نبوت تھا کہ وہ ان کمزور ہیچ کاربندوں کے اسباب کو بیت العنکبوت سے زیادہ کمزور خیال کرتا اور ذرا گھبراہٹ اس کے لاحق حال نہ ہوتی۔ بے شک ہم یقین رکھتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے استقلال واستقامت وصبر میں کبھی لغزش ظاہر نہیں ہوئی۔ یہود اور سلطنت کے مخالفوں کے سامنے ان کا بھروسہ خدائے کریم پر تھا اور اس نے اس کو بچا بھی لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے استقامت احوال پر یہ جو اعتراض ہوتا ہے وہ بھی مرزاقادیانی کے ترجمہ کی خرابی کا موجب ہے ورنہ نبی کی شان اس سے اعلیٰ وبرتر ہے۔
جواب: ۲… ناظرین! مرزاقادیانی کے الفاظ ترجمہ پر مکرر غور فرمائیں کہ اگر ان کے ترجمہ کے موافق ’’مُتَوَفِّیْکَ‘‘ سے وفات جسمی اور رفع سے عروج روحی مراد لی جائے تو لامحالہ عبارت میں یہ تقدیر ماننی پڑے گی۔ ’’
اِنِّیْ مُتَوَفِّیْ جَسَدَکَ رَافِعُ روحک
‘‘ حالانکہ معنی بنانے کے لئے قرآن شریف کی عبارت میں الفاظ کی تقدیر مرزاقادیانی کے مذہب میں الحاد اور کفر ہے۔
خیال کرنا چاہئے کہ اس جگہ چار فعل ہیں اور ان چاروں فعلوں کا فاعل باری تعالیٰ ہے اور ان چاروں فعلوں میں مخاطب یا عیسیٰ ہیں۔ جن پر ان افعال کا اثر مرتب ہوتا ہے۔ اب یہ طے کر لینا چاہئے کہ لفظ عیسیٰ جو اسم ہے۔ یہ مسمی کے صرف جسم یا صرف روح پر دلالت کرتا ہے یا جسم وروح دونوں پر۔ مرزاقادیانی کا مذہب بہت ہی عجیب ہے۔ وہ ’’
اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ
‘‘ میں ک کا مرجع یا عیسیٰ سے صرف جسم مراد لیتے ہیں۔ کیونکہ توفی کے معنی وہ روح کو قبض کر کے جسم کو بیکار چھوڑ دینا بتلاتے ہیں اور ’’
رَافِعُکَ اِلَیَّ
‘‘ میں ’’ک‘‘ کا مرجع یا عیسیٰ سے صرف روح عیسیٰ لیتے ہیں اور ’’
مُطَہِّرُکَ
‘‘ اور ’’
اتَّبَعُوْکَ
‘‘ میں یا عیسیٰ کا مرجع جسم وروح دونوں کو اور اس طرح پر وہ آیت کا ترجمہ کر سکنے کے قابل ہوتے ہیں جو سراسر نظم قرآنی کے خلاف اور شان کلام ربانی سے بعید ہے۔
جواب: ۳… ناظرین یہ بھی یاد رکھیں کہ ’’براہین احمدیہ‘‘ میں جس کو خدا کے حکم والہام سے مرزاقادیانی نے لکھا اور جس کو کشف میں حضرت سیدہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے مرزاقادیانی کو یہ کہہ کر دیا کہ یہ تفسیر علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی ہے۔ مرزاقادیانی نے آیت: ’’یَاعِیْسٰی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ‘‘ کا اپنے اوپر الہام ہونا لکھا ہے اور پھر اس کا ترجمہ یہ کیا ہے۔ ’’اے عیسیٰ میں تجھے پوری نعمت دوں گا۔‘‘ حوالہ ظاہر ہے کہ اگر ’’مُتَوَفِّیْکَ‘‘ کے معنی حقیقی تجھے ماروں گا ہوتے تو الہامی کتاب اور کشفی تفسیر میں یہ ترجمہ اس کا نہ کیا جاتا۔ مرزاقادیانی اس وقت بھی کچھ جاہل نہ تھے۔ جو توفی کے معنی نہ جانتے ہوں۔ پس اگر یہ ترجمہ ان کے لئے جائز اور صحیح ترجمہ تھا تو حضرت مسیح علیہ السلام کے لئے کیوں یہ ترجمہ صحیح نہیں؟ اگر مرزاقادیانی فرمائیں کہ اﷲتعالیٰ کے الہام میں تو اس وقت بھی ’’
مُتَوَفِّیْکَ
‘‘ کے معنی ماروں گا۔ مراد تھی مگر ترجمہ کرنے میں غلطی ہوئی تو خیر یہ بھی سہی مگر ظاہر ہے کہ براہین میں اس الہام کو چھپے ہوئے یعنی مرزاقادیانی کو خبر وفات منجانب باری تعالیٰ ملتے ہی مرزا کو پندرہ سال کا عرصہ ہوچکا اور مرزاقادیانی کو فوری موت نہیں آئی تو اس سے واضح ہوا کہ جس طرح مرزاقادیانی کے لئے بعد از خبر وفات پندرہ سال کا عرصہ اوپر گزر جانا جائز ہے۔ اسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام کے لئے صدیوں کا عرصہ گزر جانا بھی جائز ہے اور اس صورت میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کا مذہب ماننا پڑے گا۔
جواب: ۴… ’’
اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ
‘‘ پر تدبر فرمائیے۔ ’’
تَوَفّٰی
‘‘ کے معنی قبض تام ہیں اور چونکہ یہ قبض تام عیسیٰ علیہ السلام کے لئے ہے جس کے مفہوم میں روح اور جسم دونوں شامل تھے۔ لہٰذا توفی بجسدہ العنصری ثابت ہوا۔ ’’
رَافِعُکَ اِلَیَّ
‘‘ پر تفکر کیجئے۔ ’’رفع‘‘ کے معنی بلند کرنا ہیں جس کی ضد ’’وضع‘‘ ہے جو نیچے رکھ دینے کے معنی میں آتا ہے۔ پس قبض تام کے بعد رفع۔ رفع جسمی ہی ہے۔
چیلنج:
لفظ عیسیٰ کے مفہوم اور توفی کے معنی نے حضرت مسیح علیہ السلام کا بجسدہ العنصری قبض کیا جانا اورلفظ ’’رفع‘‘ کے معنی نے اسی جسم کے ساتھ آسمان پر جانا ثابت کر دیا۔ وﷲ الحمد! یہ وہ معنی ہیں۔ جس میں نہ لغت سے عدول ہوا۔ نہ عرف سے، نہ کہیں مرادی معنی لئے گئے۔ نہ مجازی ڈھکوسلہ لگایا گیا۔ مرزاقادیانی جو اس آیت کے معنی کرتے ہیں۔ وہ ’’
یَا عِیْسٰی
‘‘ کے لفظ پر تو کچھ غور کرنا ہی نہیں چاہتے۔ ’’
اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ
‘‘ میں توفی کے معنی صرف قبض روح کرتے ہیں۔ مگر ہم حیران ہیں کہ توفی کے معنی صرف قبض روح کس لغت میں ہیں؟ اگر براہ عنایت مرزاقادیانی کسی مستند کتاب لغت میں یہ الفاظ لکھے دکھائیں: ’’کہ توفی کے معنی صرف قبض روح اور جسم کو بیکار چھوڑ دینے کے ہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۰۰، خزائن ج۳ ص۴۲۴) تو وہ ایک ہزار روپیہ کا انعام پانے کے مستحق ہوں گے۔
’’
وَرَافِعُکَ اِلَیَّ
‘‘ کے معنی وہ لغوی نہیں لیتے بلکہ مرادی معنی لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’رافعک الی‘‘ سے قرب الٰہی مراد ہے۔ مسلمانوں کا اعتقاد ہے اور لغت ان کا شاہد ہے کہ رفع کسی جسم کے بلند کرنے، نیچے سے اٹھا کر اوپر لے جانے کو کہتے ہیں۔ وہ جسم خواہ محسوس ہو یا غیرمحسوس۔ واضح ہو کہ جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے محسوس۔ جسم کے اٹھا لینے پر رب کریم نے اس لفظ کا استعمال فرمایا ہے۔ اسی طرح رسول خدا نے بھی ایک محسوس جسم کے زمین سے اوپر اٹھائے جانے پر اسی لفظ کا استعمال فرمایا ہے۔
’’
وقریش تسالْنِیْ عن مسرٰی فَسَاَلتنی عن اشیائٍ مِنْ بیت المقدس لم اثبتہا فَکْرِبْتُ کربۃً مَا کُرِبْتَ مِثْلہ قَطُّ قَالَ فَرَفَعَہٗ اللّٰہُ لَیَّ انظر الیہ مَایَسَألُوْنی عن اشیاء الا انبأتہم
‘‘
(مسلم ج۱ ص۹۶، باب الاسراء برسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم الیٰ السموات عن ابی ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم )
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں شب معراج کے بعد (جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے اپنا بیت المقدس تشریف لے جانا اور وہاں سے افلاک پر جانا بیان فرمایا) قریش میرے اس سفر کے متعلق سوال کرنے لگے۔ انہوں نے بیت المقدس کے متعلق چند ایسی چیزیں دریافت کیں۔ جن کا میں نے دھیان نہ رکھا تھا۔ مجھے اس وقت نہایت ہی شاق گزرا (کیونکہ جواب نہ دینے سے کفار کو احتمال کذب کایارا تھا) رب کریم نے میرے لئے بیت المقدس کواٹھا کر بلند کر دیا کہ میں اسے بخوبی دیکھتا تھا۔ پھر قریش نے جو کچھ مجھ سے پوچھا۔ میں نے جواب دے دیا۔
مسرای کا لفظ غور طلب ہے کہ اس سے معراج جسمانی ثابت ہوتا ہے (جو جمہور اہل السنت والجماعت کا مذہب ہے) یا کشفی ومنامی ہے؟ جو مرزاقادیانی کا مذہب ہے پھر دیکھنا چاہئے کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا خواب یا کشف بیان کیا ہوتا تو کفار کو اس سے سخت انکار کرنے اور امتحان کی غرض سے مختلف سوالات پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیونکہ سب جانتے ہیں کہ خواب میں کسی دور دراز مکان کا دیکھ لینا کچھ بھی مستبعد نہیں۔ علیٰ ہذا خواب میں مرئیات کو واقع کے مطابق دیکھنا بھی ضروری نہیں۔ کفار کے سوال اور ان کے اعتراض سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گھبراہٹ اور اﷲتعالیٰ کا اس گھبراہٹ کو دور فرمانا تو تب ہی ٹھیک ہوتا ہے جب یہ تسلیم کر لیا جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے معراج کو جسمانی بتلایا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ سے صحابہ اور مشرکین نے یہی سمجھا تھا۔
جناب مرزاقادیانی ’’
رَفَعَہُ اللّٰہُ لِ
یْ‘‘ پر کم سے کم تین بار غور فرمائیں۔
’’
رَفَعَ
‘‘ کے جو معنی ’’
وَرَافِعُکَ اِلَیَّ
‘‘ میں ہم نے کئے ہیں۔ ’’
بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْ
ہِ‘‘ کا منطوق ہے۔ کیونکہ مرزاقادیانی نے جب ’’
مُتَوَفِّیْکَ
‘‘ میں صرف قبض روح کے معنی لئے تو ’’
رَافِعُکَ
‘‘ میں معزز موت مراد لی۔ ان دونوں فعلوں کا مرجع بہرحال عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ مگر جب وہ ’
’بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْ
ہِ‘‘ کے معنی کرتے ہیں تو ان کے بیان میں لغزش آجاتی ہے کیونکہ ’’
مَاقَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ
‘‘ کی ضمیر کا مرجع جسم اور روح دونوں ہیں۔ جس کو مرزاقادیانی بھی مانتے ہیں لیکن ’
’بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ
‘‘ میں آکر وہ ضمیر کا مرجع صرف روح کوقرار دے بیٹھے ہیں۔ جس کے واسطے ان کے پاس کوئی دلیل نہیں بلکہ یہ تو کلام میں نہایت بھونڈی اور بدنما تعقید ہے۔ جس کا وجود کسی فصیح انسان کے کلام میں بھی نہیں ملتا۔ چہ جائیکہ ایسے معجز کلام الٰہی میں ہو۔ اس وقت مرزاقادیانی کو اپنے وہ الفاظ جو توضیح میں لکھے ہیں۔ یاد کرنے چاہئیں۔
’’خوبصورت اور دلچسپ طریقے تفسیر کے وہ ہوتے ہیں۔ جن میں متکلم کی اعلیٰ شان بلاغت اور اس کے روحانی ارادوں کا خیال بھی رہے۔ نہ یہ کہ غایت درجہ کے سفلی اور بدنما اور بے طرح موٹے معنی جو ہجو ملیح کے حکم میں ہوں۔ اپنی طرف سے گھڑے جائیں اور خداتعالیٰ کی پاک کلام کو جو پاک اور نازک دقائق پر مشتمل ہے۔ صرف دہقانی لفظوں تک محدود خیال کیا جائے۔‘‘ (توضیح مرام ص۱۴،۱۵، خزائن ج۳ ص۵۸)
اب مرزاقادیانی کو دیکھنا چاہئے کہ متکلم کی اعلیٰ شان بلاغت کا خیال نہ کر کے غایت درجہ کے سفلی بدنما اور بے طرح موٹے معنی آپ کرتے ہیں۔ یا ہم؟ ایسے معنی کہ اس میں ضمائر بھی ٹھیک نہیں بیٹھتی ہیں۔
مرزاقادیانی نے ازالہ کے خاتمہ پر پھر آیت: ’’
یَا عِیْسٰی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃَ
‘‘ کو لکھا ہے (ازالہ اوہام ص۹۲۲، خزائن ج۳ ص۶۰۶) اور بیان کیا ہے کہ خداتعالیٰ نے ترتیب وار چار فعل بیان کر کے اپنے تئیں ان کا فاعل بیان کیا ہے میں کہتا ہوں کہ ہمارا مذہب بھی یہی ہے اور آیت کے جو معنی ہم نے لکھے ہیں۔ اس میں بھی ترتیب ان فعلوں کی اسی طرح قائم رہتی ہے۔ البتہ ترتیب توڑنے کا جو الزام بڑے زوروشور سے مرزاقادیانی نے قائم کیا ہے اور ترتیب توڑنے والوں کو پیٹ بھر گالیاں دی ہیں۔ وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کا مذہب ہے۔ وہی ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم جن کا مذہب امام بخاری نے ’’
مُتَوَفِّیْکَ
‘‘ بمعنی ’’
مُمِیْتُُکَ
‘‘ بیان کیا ہے اور وہی ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم جن کا مذہب (ازالہ اوہام ص۸۹۲، خزائن ج۳ ص۵۸۷) پر آپ نے اپنے لئے سند سمجھا ہے۔
بڑی حیف کی بات ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کے مقولہ کا آدھا حصہ تو آپ قبول کرتے ہیں اور آدھا قبول نہیں کرتے۔ ایمان بعض اور کفر بعض کی۔ اگر کوئی اور مثال ہے تو فرمائیں؟
دوسری آیت: ’’
وَقَوْلِہِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسٰی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَہُمْ وَاِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مَا لَہُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا وَاِنْ مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکُوْنُ عَلَیْہِمْ شَہِیْدًا (نساء:۱۵۸،۱۵۹)
‘‘ {اور ان کے اس کہنے پر کہ ہم نے قتل کیا مسیح عیسیٰ مریم کے بیٹے کو جو رسول تھا اﷲ کا اور انہوں نے نہ اس کو مارا نہ سولی پر چڑھایا۔ لیکن وہی صورت بن گئی ان کے آگے اور جو لوگ اس میں مختلف باتیں کرتے ہیں تو وہ لوگ اس جگہ شبہ میں پڑے ہوئے ہیں۔ کچھ نہیں ان کو اس کی خبر صرف اٹکل پر چل رہے ہیں اور اس کو قتل نہیں کیا۔ بے شک اس کو اٹھا لیا اﷲ نے اپنی طرف اور اﷲ ہے زبردست حکمت والا اور جتنے فرقے ہیں اہل کتاب کے سو عیسیٰ علیہ السلام پر یقین لائیں گے اس کی موت سے پہلے اور قیامت کے دن ہوگا ان پر گواہ۔}
قادیانی استدلال: ’’دوسری آیت جو مسیح ابن مریم کی موت پر دلالت کرتی ہے یہ ہے یعنی مسیح ابن مریم مقتول اور مصلوب ہوکر مردود اور ملعون لوگوں کی موت نہیں مرا۔ جیسا کہ عیسائیوں اور یہودیوں کا خیال ہے بلکہ خداتعالیٰ نے عزت کے ساتھ اس کو اپنی طرف اٹھالیا۔ جاننا چاہئے کہ اس جگہ رفع سے مراد وہ موت ہے جو عزت کے ساتھ ہو جیسا کہ دوسری آیت اس پر دلالت کرتی ہے۔
وَرَفَعْنَاہُ مَکَانًا عَلِیَّا
‘‘ (ازالہ اوہام ص۵۹۹، خزائن ج۳ ص۴۲۳)
جواب: ۱… یہ دوسری آیت مرزاقادیانی نے وفات عیسیٰ علیہ السلام پر ’’
بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْ
ہِ‘‘ پیش کی ہے۔
انہوں نے اس کا ترجمہ ان الفاظ میں کیا ہے۔ ’’بلکہ خداتعالیٰ نے عزت کے ساتھ اس کو اپنی طرف اٹھالیا۔‘‘ ترجمہ کے بعد پھر لکھا ہے: ’’اس جگہ رفع سے مراد موت ہے جو عزت کے ساتھ ہو جیسا کہ دوسری آیت اس پر دلالت کرتی ہے۔ ’’
وَرَفَعْنَاہُ مَکَانًا عَلِیَّا
‘‘ مرزاقادیانی نے مراد کا لفظ لکھ کر ثابت کر دیا کہ وہ اس جگہ مرادی ترجمہ کرتے ہیں اور ترجمہ آیت میں حسب مراد خود جو چاہتے ہیں تصرف کرتے ہیں۔ نیز ثابت کر دیا کہ اس جگہ رفع کے لغوی معنی مرزاقادیانی کے مذہب کو دفع کر رہے ہیں۔ آیت: ’’
وَرَفَعْنَاہُ مَکَانًا عَلِیَّا
‘‘ جو حضرت ادریس علیہ السلام کی شان میں ہے۔ وہ نہ ان مرادی معنی پر دلالت کرتی ہے اور نہ ہی مرزاقادیانی کے کچھ مفید ہے۔ کیونکہ یہاں رفع کا لفظ ’’
مَکَانًا عَلِیَّا
‘‘ سے مضاف ہے اور جس کے یہ معنی ہیں کہ رب کریم نے حضرت ادریس علیہ السلام کو رتبہ علیا پر فائز کیا اور منصب برتر پر ممتاز فرمایا۔ ایسا ہی دوسرے مقام پر اﷲتعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’
تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ مَنْہُمْ مَّنْ کَلَّمَ اللّٰہُ وَرَفَعَ بَعْضَہُمْ دَرَجٰتٍ (البقرۃ:۲۵۳)
‘‘ یہ رسول ہیں جن میں سے بعض کو بعض پر ہم نے فضیلت دی ہے اور بعض کے درجے ہم نے بلند کئے ہیں۔ اس میں رفع کو درجات کی طرف مضاف کیا ہے پس واضح ہوا کہ مرزاقادیانی نے یہ مرادی معنی تو اﷲتعالیٰ کے مقصود ومطلوب کلام کے خلاف کئے ہیں۔ لہٰذا روشن ہوا کہ رفع کے معنی یہاں بھی وہی ہیں۔ جو لغت میں ہیں اور جو ہر جگہ لئے اور سمجھے سمجھائے بولے جاتے ہیں یعنی بلند کرنا۔ اب چونکہ یہاں رفع کا لفظ ہے اور وہ ’’
اِلَیَّ
‘‘ کی طرف مضاف ہے تو صاف اور سیدھے معنی جن کو لغت کی امان حاصل ہے یہ ہیں کہ ہم نے عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی طرف اوپر اٹھالیا۔ ’’
اِلَیَّ
‘‘ کے معنی میں فوق، جہت، علو کی بحث (جو مسئلۂ صفات کا حصہ ہے) شامل کی جاسکتی ہے مگر میں امید کرتا ہوں کہ آپ ان صفات الٰہی سے منکر نہ ہوں گے اور مسئلۂ صفات میں اہل سنت والجماعت کا مذہب چھوڑ نہ بیٹھے ہوں گے۔ ناظرین بجائے اس کے کہ مرزاقادیانی اس آیت سے وفات عیسیٰ علیہ السلام ثابت کر سکتے۔ ان کو شروع تقریر میں ہی اپنے ضعف استدلال کا خود اقرار کرنا پڑا اور یہ ماننا لازمی ہوا کہ جو معنی ہم نے کئے ہیں وہ مرادی معنی ہیں۔ مجھے نہایت تعجب آتا ہے کہ توفی کے لفظ پر تو مرزاقادیانی نے اتنا زور دیا ہے کہ گویا تمام بحث کا لب لباب اور کل دلائل کا عطر مجموعہ یہی لفظ ہے اور وہ سارا زور صرف اس بات پر ہے کہ توفی کے لغوی اور اصلی معنی وفات کے ہیں مگر رفع میں آکر اس تمام جوش وخروش کو سینہ میں دبا کر چاہتے ہیں کہ اس کے لغوی اور اصلی معنی کو چھوڑ کر مرادی معنی لے لئے۔‘‘
جواب: ۲… مرزاقادیانی کے نزدیک رفع کا اٹھانا اور الیہ کا معنی آسمان کی طرف مسلم ہیں۔ کیونکہ جب وہ ارواح کے اٹھائے جانے کے قائل ہیں تو اس صورت میں رفع کے حقیقی معنی اٹھانا ثابت ہیں اور چونکہ ارواح کا اٹھایا جانا آسمان کی طرف ہوتا ہے جو قرآنی آیت: ’’فی مقعد صدق عند ملیک مقتدر‘‘ سے ثابت ہے۔ اس لئے آیت: ’’
بل رفعہ اللّٰ
ہ‘‘ میں آسمان کی طرف حقیقی طور پر اٹھایا جانا مرزاقادیانی کے نزدیک مسلم ٹھہرا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا چیز اٹھائی گئی؟ اس کا جواب خود قرآن مجید میں مذکور ہے کہ جس کو قتل نہیں کر سکے وہی اٹھایا گیا۔ ظاہر ہے کہ وہ جسم ہی تھا۔
تیسری آیت: ’’
فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْہِمْ (مائدہ:۱۱۷)
‘‘ {پھر جب تو نے مجھ کو اٹھالیا تو تو ہی تھا خبر رکھنے والا ان کی۔}
قادیانی استدلال:
’’یعنی جب تو نے مجھے وفات دے دی تو تو ہی ان پر نگہبان تھا… تمام قرآن شریف میں ’’
تَوَفّٰی
‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ روح کو قبض کرنا اور جسم کو بیکار چھوڑ دینا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۰۰، خزائن ج۳ ص۴۲۴)
تیسری آیت وفات عیسیٰ علیہ السلام پر مرزاقادیانی نے ’’
فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ
‘‘ پیش کی ہے۔ اس آیت کے ضمن میں لفظ توفی پر نہایت پرجوش اور زوردار لفظوں میں بحث کی ہے۔ لکھا ہے۔ ’’توفی کے معنی اماتت اور قبض روح ہیں۔ بعض علماء نے الحاد اور تحریف سے اس جگہ ’’
تَوَفَّیْتَنِیْ
‘‘ سے ’’
رَفَعْتَنِیْ
‘‘ مراد لیا ہے اور اس طرف ذرا خیال نہیں کیا کہ یہ معنی نہ صرف لغت کے مخالف بلکہ سارے قرآن کے مخالف ہیں۔ پس یہی تو الحاد ہے۔ قرآن شریف میں اوّل سے آخر تک بلکہ صحاح ستہ میں بھی انہی معنی کا التزام کیاگیا ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۰۱، خزائن ج۳ ص۴۲۴)
مرزاقادیانی دیکھیں کہ جب آپ نے محض ایک لفظ ’’
تَوَفَّیْتَنِیْ
‘‘ کے معنی ’’رَفَعْتَنِیْ‘‘ لینے سے سینکڑوں سال کے مرے ہوئے ہزاروں علماء پر فتویٰ الحاد جاری کر دیا اور ملحد کہنے میں ان کے ایمان واسلام، اقرار شہادتین وغیرہ کا کچھ خیال نہ کیا۔ کیا آپ کو حال کے علماء سے اپنے فتویٰ تکفیر کے بارہ میں کیا شکایت ہوسکتی ہے۔
الجواب: اب مجھے لازم ہے کہ توفی کے لفظ پر بحث کروں اور لغت نیز قرآن مجید سے اس کے معنی اماتت اور قبض روح کے سوا اور بھی ثابت کر دوں۔
پہلے لغت کی کتابوں کو لیجئے۔
۱… صحاح میں ہے: ’’
اوفاہ حقہ
‘‘ (باب افعال سے) اور ’’
وفاہ حقہ
‘‘ (باب تفعیل سے) اور ’’
استوفٰی حقہ
‘‘ (باب استفعال سے) اور ’’
توفاہ
‘‘ (باب تفعل سے جو زیر بحث ہے) سب ایک ہی معنی رکھتے ہیں کہ اس کا حق پورا دے دیا۔ ’’
توفاہ اﷲ
‘‘ کے معنی قبض روح کے ہیں اور ’’
توفی
‘‘ کے معنی نیند بھی ہیں۔
۲… ’’
ایفاء
‘‘ گزار دن حق کسے بہ تمام۔ ’’
ویقال منہ واوفاہ حقہ ووفاہ واستیفاہ توفی تمام گرفتن حق توفاہ اﷲ ای قبض روحہ وفاۃ مردن موافاۃ رسیدن وآمدن وتوافی القوم ہی تناموا
‘‘
۳… قاموس میں ہے ’’ا
وفی فلانا حقہ
‘‘ کے یہ معنی ہیں کہ اس کو پورا حق دے دیا۔ جیسے ’’
وفاہ
‘‘ اور ’’
اوفاہ، استوفاہ
‘‘ اور ’’
توفاہ
‘‘ کے یہی معنی ہیں۔ وفات بمعنی موت بھی ہے۔ ’’
توفاہ اﷲ
‘‘ کے معنی قبض روح ہیں۔ مرزاقادیانی کا دعویٰ تھا کہ کتب مذکور بالا سے ان کو کوئی ایسی مثال یا محاورہ دکھلا دیا جائے جس میں لفظ توفی بمعنی قبض جسم بولا گیا ہو۔ اب وہ ’’
توفاہ حقہ
‘‘ کے محاورہ پر غور کریں۔ جس سے درہم ودینار وغیرہ اجسام کا قبض کرنا ثابت ہے۔
اب تفاسیر کی طرف آئیے۔ ’’تفسیر بیضاوی‘‘ میں ہے۔ توفی کسی چیز کے پورا لینے کو کہتے ہیں۔ بیضاوی جیسے متبحر وماہر نے لکھا ہے: ’’
التوفی اخذاً وافیًا
‘‘ مارنا اس کی ایک قسم ہے (اور نیند اس کی دوسری قسم) ان دونوں قسموں کا اس قول ربانی میں ذکر ہے۔ خدائے تعالیٰ جانوں کو موت کے وقت پورا لیتا ہے۔ (یعنی مارتا ہے) اور جو نہیں مرتے ان کو نیند میں پورا لیتا ہے۔ (یعنی ان کوسلا دیتا ہے)
’’تفسیر کبیر‘‘ میں ہے توفی کے معنی قبض کرنا ہے۔ اس لفظ سے عرب کے محاورات یہ ہیں: ’’
وفانی فلان دراہمی واوفانی وتوفیتہا منہ
‘‘ یعنی فلاں شخص نے میرے درہم میرے قبضہ میں دے دئیے اور میں نے اس سے پورے کر لئے۔ خیال فرمائیے یہ محاورہ قبض جسم کی مثال ہے۔ (جس کے مرزاقادیانی منکر ہیں) جیسے یہ محاورات ہیں ’’
سلم فلان درہمی الی وتسلمتہا منہ
‘‘ یعنی فلاں شخص نے میرے درہم مجھے سپرد کر دئیے اور میں نے اس سے لے لئے اور کبھی توفی بمعنی ’’استوفی‘‘ آتا ہے جس کے معنی پورا لینے کے ہیں۔ ان دونوں معنی کے اعتبار سے (کہ خود توفی کے معنی بھی قبض کرنا ہے اور ’’
توفی
‘‘ کے معنی ’’استوفی‘‘ بھی ہیں) حضرت مسیح علیہ السلام کو زمین سے اٹھا کر آسمان پر چڑھالے جانا ان کی توفی ہے۔ اس پر اگر کوئی اعتراض کرے کہ جب توفی بعینہٖ رفع جسم ہوا تو ’’
متوفیک
‘‘ کے بعد ’’رافعک الی‘‘ کہنا تکرار بلا فائدہ ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ’’
متوفیک
‘‘ فرمانے سے صرف قبض کرنا معلوم ہوا جو ایک جنس اور عام مفہوم ہے اور اس کے تحت میں کئی انواع واقسام پائے جاتے ہیں۔ (۱)موت (جس میں صرف روح کو قبض کرنا ہوتا ہے)، (۲)جسم کو آسمان پر لے جانا (جس میں روح کی شمولیت بھی پائی جاتی ہے)، (۳)نوم جس میں ایک قسم کا قبض روح ہوتا ہے۔ پس جب ’’متوفیک‘‘ فرمانے کے بعد ’’ورافعک الی‘‘ بھی فرمادیا تو اس سے اس جنس کی ایک نوع کاتقرر ہوگیا اور تکرار لازم نہ آیا۔
اسی تفسیر میں آیات زیربحث کی تفسیر میں ہے: ’’
یَتَوَفَّاکُمْ بَاللَّیْلِ
‘‘ کے معنی ہیں۔ خداتعالیٰ تم کو رات کو سلادیتا ہے اور تمہاری ان ارواح کو قبض کر لیتا ہے۔ جن سے تم ادراک اور تمیز کر سکتے ہو۔ جیسا کہ دوسری آیت میں ہے کہ خداتعالیٰ ارواح کو نیند کے ساتھ قبض کرتا ہے جیسا کہ موت کے ساتھ قبض کرتا ہے۔
لغات اور تفاسیر کے بعد آپ قرآن مجید کی آیات ذیل پر غور فرمائیے۔ ’’
وَہُوَ الَّذِیْ یَتَوَفَّاکُمْ بِاللَّیْلِ وَیَعْلَمُ مَاجَرَحْتُمْ بِالنَّہَارِ ثُمَّ یَبْعَثُکُمْ فِیْہِ لِیُقْضٰی اَجَلٌ مُسَمّٰی (الانعام:۶۰)
‘‘ {خدا وہ ہے جو تم کو رات کے وقت پورا قبض کر لیتا ہے اور جو تم دن کو کیا کرتے ہو اس کو جانتا ہے پھر تم کو دن میں اٹھاتا ہے تاکہ تمہاری میعاد حیات پوری کرے۔}
مرزاقادیانی جو (ازالہ اوہام ص۶۰۰، خزائن ج۳ ص۴۲۴) پر توفی کے معنی صرف اماتت یعنی ماردینا اور روح کو قبض کر کے جسم کو بیکار چھوڑ دینا بتاتے تھے۔ اپنے ان معنی کو ملحوظ رکھ کر ذرا اس آیت کا ترجمہ تو کر دیں! مگر یاد رکھیں کہ اگر اس شبانہ روزی موت کا آپ نے اقرار کر لیا تو آپ کے بیسیوں دلائل پر پانی پھر جائے گا۔ ’’
اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِہَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِہَا فَیُمْسِکُ الَّتِیْ قَضٰی عَلَیْہَا الْمَوْتَ وَیُرْسِلُ الْاُخْرٰی اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًّی (الزمر:۴۲)
‘‘ {خداتعالیٰ موت کے وقت جانوں کو پورا قبض کر لیتا ہے اور جو نہیں مرتے ان کی تو فی نیند میں ہوتی ہے یعنی نیند میں ان کو پورا قبض کر لیا جاتا ہے پھر ان میں جس پر موت کا حکم لگا چکتا ہے اس کو روک لیتا ہے اور دوسری کو (جس کی موت کا حکم نہیں دیا…نیند میں توفی کے بعد) ایک وقت تک چھوڑ دیتا ہے۔}
مرزاقادیانی کو لازم بلکہ واجب ہے کہ اس آیت میں توفی کے معنی ضرور ہی اماتت کے لیں۔ کیونکہ یہاں نفس انسانی مفعول اور خدا فاعل بھی ہے۔ لیکن اگر ان کو اس جگہ توفی کے معنی اماتت لینے میں کچھ پس وپیش ہو (جیسا کہ (ازالہ اوہام ص۳۳۲، خزائن ج۳ ص۲۶۹) پر اس تذبذب اور اندرونی بے چینی کو ان الفاظ میں ظاہر کیا ہے کہ: ’’یہ دو موخرالذکر آیتیں اگرچہ بظاہر نیند سے متعلق ہیں۔ مگر درحقیقت ان دونوں آیتوں میں نیند نہیں مراد لی گئی‘‘) تو ان کو (ازالہ اوہام ص۶۰۱، خزائن ج۳ ص۴۲۴) پر لکھے ہوئے الفاظ سے ذرا شرم فرمانی چاہئے کہ: ’’قرآن شریف میں اوّل سے آخر تک توفی کے معنی اماتت کا ہی التزام کیاگیا ہے۔‘‘ حوالہ کتب لغت اور نقل محاورات اور ثبوت آیات قرآنیہ کے بعد میں بہتر سمجھتا ہوں کہ (ازالہ اوہام ص۶۰۱) کے جواب میں اسی کا (ص۳۳۲، خزائن ج۳ ص۲۶۹) پیش کر دوں۔ جس میں آپ نے توفی کے معنی اس جگہ بظاہر نیند ہونا قبول کر لئے ہیں، اور پھر لکھا ہے کہ اس جگہ توفی سے حقیقی موت نہیں بلکہ مجازی موت مراد ہے جو نیند ہے۔ ہم کو آپ کا اس قدر اقرار بس ہے کیونکہ خواہ آپ نے لفظ بظاہر کی قید لگائی یا مجاز کی۔ بہرحال آپ کا وہ دعویٰ (ازالہ اوہام ص۹۱۸، خزائن ج۳ ص۶۰۳) قرآن مجید میں لفظ توفی بجز معنی اماتت کے دوسرے معنی میں مستعمل ہی نہیں ہوا۔ غلط ثابت ہوگیا۔
لفظ توفی پر اس قدر بحث وتحقیق کے بعد اب میں مرزاقادیانی کی وجہ استدلال کی طرف توجہ کرتا ہوں۔ جس سے آپ نے اس آیت کو تیسری دلیل وفات مسیح علیہ السلام پر قرار دیا ہے۔
مرزاقادیانی لکھتے ہیں: ’’
فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ
‘‘ سے پہلے یہ آیت ہے: ’’اِذْ قَالَ اللّٰہُ یَا عِیْسٰی۔ الخ‘‘
’’قَالَ‘‘ ماضی کا صیغہ ہے اور ’’
اِذْ
‘‘ جو خاص ماضی کے واسطے آتا ہے اس سے پہلے موجود ثابت ہوا۔ یہ قصہ نزول آیت کے وقت ایک ماضی کا قصہ تھا نہ زمانہ استقبال کا۔ پھر جو جواب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف سے ہے۔ یعنی ’’
فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ
‘‘ وہ بھی صیغہ ماضی ہے۔ غرض اس سے ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مرچکے اور اس مرنے کا اقرار خود ان کی زبان کا موجود ہے۔ (ازالہ اوہام ص۶۰۲، خزائن ج۳ ص۴۲۵)
ناظرین سمجھ سکتے ہیں کہ اگر ہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور رب العالمین کے اس سوال وجواب کو زمانہ مستقبل کا سوال وجواب ثابت کر دیں اور پھر ’’
تَوَفَّیْتَنِیْ
‘‘ کے جو معنی ’’
رَفَعَتَنِیْ اِلَی السَّمَاء
‘‘ عام مفسرین نے لئے ہیں۔ اس کا قرینہ اسی آیت میں سے نکال دیں تو کچھ شک نہیں کہ مرزاقادیانی کی یہ دلیل بھی ان کے حق میں بالکل بودی اور ضعیف ثابت ہو جائے گی۔ واضح ہو کہ ’’
قَالَ
‘‘ کے ماضی ہونے میں کچھ شبہ نہیں۔ مگر یہ غلط ہے کہ ’’
اِذْ
‘‘ صرف ماضی کے واسطے آتا ہے یا جب ماضی پر آتا ہے تو اس جگہ زمان مستقبل مراد ہونا ممتنع ہوتا ہے۔ دیکھو ’’
وَلَوْ تَرَا اِذْ فَزِعُوْا
‘‘ اور ’’
اِذْ تَبَرَّ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا
‘‘ میں ماضی پر ’’
اِذْ
‘‘ آیا ہے۔ مگر وہی حال قیامت کے لئے۔ علیٰ ہذا مضارع پر بھی ’’
اِذْ
‘‘ آیا ہے۔ پڑھو یہ آیت: ’’
وَاِذْ یَرْفَعُ اِبْرَاہِیْمُ الْقَوَاعِ
دَ‘‘ اور ’’
وَاِذْ تَقُوْلُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ
‘‘ مگر ہاں سنت اﷲ یہ ہے کہ زمان مستقبل کے جن امور کا ہونا یقینی اور ضروری ہے۔ ان کو بصیغۂ ماضی بیان کیا جایا کرتا ہے۔ جس شخص کو نظم قرآنی کے سمجھنے میں ذرا بھی مناسبت ہوگی۔ جس نے معمولی توجہ سے بھی قرآن مجید کے ایک پارہ کی تلاوت کی ہوگی۔ وہ ہمارے بیان کی صداقت سے بخوبی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ قیامت کا ذکر خصوصیت سے ایسا ذکر ہے جس کو جابجا بصیغۂ ماضی سے بیان کیاگیا ہے۔ جس کے یہ معنی ہیں کہ جس طرح واقعات گزشتہ کا کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا۔ اسی طرح احوال قیامت میں کسی کو مجال انکار ومقام شبہ باقی نہ رہ جائے۔ مثلاً حدیث صحیح میں آیا ہے: ’’
جَائَ تُ الراجفۃ تَتْبَعُہَا الرادفہ
‘‘ پہلا نفخ صور آگیا۔ اس کے ساتھ دوسرا بھی ہے۔ قرآن میں ہے: ’’اتی امر اللّٰہ‘‘ قیامت آگئی۔ گو ’’جاء ت‘‘ اور ’’اتی‘‘ صیغہ ماضی ہیں۔ مگر زبان مستقبل کی خبر دیتے ہیں۔ اس طرز کلام میں یہ سمجھانا مقصود ہوتا ہے کہ ان امور کا واقع ہونا ذرا بھی غیریقینی نہیں۔
اب یہ معلوم کرنے کے لئے کہ یہ پرسش وگزارش یہ سوال اور جواب زمانہ ماضی کا ایک قصہ نہیں بلکہ ’’
یَوْمِ الدِّیْن
‘‘ کے وقوعی امر کا اخبار ہے۔ آپ قرآن مجید کی طرف توجہ فرمائیے کہ شروع قصۂ مسیح ابن مریم علیہما السلام سے پہلے اﷲتعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’
یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰہُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَاذَا اُجِبْتُمْ قَالُوْا لَاعِلْمَ لَنَا اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبَ (المائدہ:۱۰۹)
‘‘
{جس دن خداتعالیٰ رسولوں کو اکٹھا کر کے فرمائے گا تم کو تمہاری امتوں نے کیا جواب دیا۔ عرض کریں گے ہم کو اس کی خبر نہیں تو علام الغیوب ہے۔} الرسل لانے کے بعد ایک اولوالعزم رسول کے ساتھ جو سوال وجواب ہوں گے، ان کی خصوصیت سے تصریح بھی فرمادی اور اس سوال وجواب کے لکھنے سے پہلے مسئول عنہ کی قدرومنزلت دکھلانے کے واسطے ان نعمتوں وعزتوں کا شمار بھی فرمایا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو عطاء کی گئی تھیں تاکہ معلوم ہو جائے کہ اس ہولناک دن میں کیسے کیسے ممتاز رسولوں کو اپنی اپنی پڑی ہوگی اور مشرکین کو ان کے معبود ذرا بھی فائدہ نہ پہنچا سکیں گے۔
پھر دیکھو کہ اس جواب وسوال کے ختم ہونے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بے گناہی کو تسلیم کر لینے کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے الفاظ ’’
اِنْ تَغْفِرْلَہُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (مائدہ:۱۱۸)
‘‘ کا اﷲتعالیٰ نے یہ جواب دیا ہے: ’’
قَالَ اللّٰہُ ہٰذَا یَوْمُ یَنْفَعُ الصَّادِقِیْنَ صِدْقُہُمْ (مائدہ:۱۱۹)
‘‘ {آج تو وہ دن ہے کہ صادقین کو ان کا صدق نفع پہنچائے گا۔} اب اس میں تو شک نہیں کہ ’’
ہٰذَا یَوْمُ
‘‘ اس سوال وجواب کے دن ہی کو کہاگیا ہے اور اس میں بھی شک نہیں کہ ’’
یَنْفَعُ الصَّادِقِیْنَ صِدْقُہُمْ
‘‘ کا ظہور قیامت کے روز ہی ہونا ہے۔ لہٰذا مرزاقادیانی کو چاہئے کہ اب ’’
اذ قال
‘‘ کی کوئی اور توجیہ پیش کریں۔
اب ناظرین آیت ومعنی آیت ملاحظہ فرمائیں: ’’
وَکُنْتُ عَلَیْہِمْ شَہِیْدًا مَادُمْتُ فِیْہِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْہِمْ (مائدہ:۱۱۷)
‘‘ میں ان کی نگہبانی کرتا رہا۔ جب تک ان کے درمیان موجود رہا پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ان کا نگہبان اور رکھوالا تھا۔‘‘ واضح ہو کہ اﷲتعالیٰ نے خبر دینے کے وقت ’’اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ‘‘ فرمایا تھا۔ توفی کے معنی ہیں کسی چیز کو پورا پورا لے لینا۔ یہ ایک جنس ہے جس کے تحت میں بہت انواع ہیں۔ رفع بھی اس کی ایک نوع ہے۔ اس لئے اﷲتعالیٰ نے ’’بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ‘‘ کے لفظ سے خبر دی ہے تاکہ تعین ہو جائے، اور اسی لئے جب مفسرین نے دیکھا کہ اﷲتعالیٰ خود اس جنس سے تعین ایک نوع کی فرماچکا ہے تو انہوں نے ’’
فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ
‘‘ کے معین بھی مراد سبحانی وتعین ربانی کے موافق کئے۔ جس کو مرزاقادیانی نے خود نہیں سمجھا اور اس غلط فہمی کی وجہ سے سب مفسرین پر الحاد اور تحریف کرنے کا فتویٰ جاری کر دیا۔حضرت! اس میں مفسرین کا کچھ قصور نہیں۔ اگر تحریف اسی کا نام ہے تو وہ خود اس کلام پاک اور قدیم کے متکلم کی طرف سے وقوع میں آئی ہے جو فتوے لگانا ہو اس پر لگائے۔
جواب: ۲… خارجی دلائل کو تائید میں لانے سے پہلے خود اس آیت کے اندر دلائل کے تلاش کرنے سے بہت کچھ ملتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یوں عرض کیا ہے: ’
’کُنْتُ عَلَیْہِمْ شَہِیْدًا مَا دُمْتُ فِیْہِمْ
‘‘ یعنی جب تک میں ان کے درمیان موجود رہا تب تک ان کانگہبان تھا۔ یہ الفاظ بآواز بلند پکار رہے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رہنے یعنی زندگی بسر کرنے کا کوئی ایسا زمانہ بھی ہے جب کہ وہ اپنی امت میں موجود نہیں رہے اور ان کو منصب رسالت وتبلیغ ووعظ وانداز سے کوئی علاقہ بھی نہیں رہا اور کچھ شک نہیں کہ وہی زمانہ صعود برسماء کا ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قول ’’مَادُمْتُ فِیْہِمْ‘‘ کے معنی سمجھنے کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوسرے قول ’’
مَادُمْتُ حَیَّا
‘‘ پر بھی نظر ڈالنی چاہئے کہ پہلے قول میں آپ نے فرمایا ہے: ’’جب تک میں ان کے درمیان رہا۔‘‘ اور دوسرے قول میں ہے: ’’جب تک میں زندہ رہوں۔‘‘ پہلے میں ان کے درمیان رہنے کی قید اور دوسرے قول میں ’’نماز وزکوٰۃ کے لئے حیات کی قید۔‘‘ کیا معنی رکھتی ہے۔ اگر ’’
فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ
‘‘ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی موت کا بیان کرنا تھا تو اس کے لئے نہایت واضح لفظ یہ تھے کہ یوں فرماتے: ’’
کُنْتُ عَلَیْہِمْ شَہِیْدًا مَا دُمْتُ حَیَّا فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ
‘‘ جب کہ ایسا نہیں فرمایا تو ثابت ہوا کہ آپ کی یہ تیسری مستدلہ آیت بھی آپ کے دعویٰ کا کچھ ثبوت نہیں۔ بلکہ روشن ہوگیا کہ حیات مسیح علیہ السلام کے لئے ہماری دلیل ہے۔ ناظرین کو یہ بھی واضح ہو کہ مرزاقادیانی نے اپنی دیگر مستدلہ آیات کی نسبت تو دلالت کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یعنی یہ آیت دلالت کرتی ہے اور وہ آیت دلالت کرتی ہے۔ مگر اس تیسرے نمبر کی آیت کی نسبت یہ الفاظ لکھے تھے کہ یہ حضرت عیسیٰ ابن مریم کے مرنے پر کھلی کھلی گواہی دے رہی ہے، اور جو آیت ان کے زعم میں کھلی کھلی گواہی دیتی تھی اسی میں ان کا ضعف استدلال اس قدر ہے۔
اعتراض: امت کے بگڑنے کا علم مسیح علیہ السلام کو قیامت کے دن دیا جائے گا۔
جواب: یہ کسی آیت سے بھی ثابت نہیں۔ قطعاً بے بنیاد ہے خود مرزاقادیانی مانتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام کو قیامت سے پیشتر امت بگڑنے کی اطلاع ہے۔
’’میرے پر یہ کشفاً ظاہر کیاگیا کہ یہ زہرناک ہوا جو عیسائی قوم میں پھیل گئی ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اس کی خبر دی گئی۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۲۵۴، خزائن ج۵ ص ایضاً)
’’خدائے تعالیٰ نے اس عیسائی فتنہ کے وقت میں یہ فتنہ حضرت مسیح علیہ السلام کو دکھایا گیا یعنی اس کو آسمان پر اس فتنہ کی اطلاع دی گئی۔‘‘ (آئینہ کمالات ص۲۶۸، خزائن ج۵ ص ایضاً)
حضرات! ہمارے پاس قرآن پاک کی نص صریحہ اور احادیث نبویہ صحیحہ ہیں جو اس بات پر شاہد ہیں کہ مسیح دنیا میں آئیں گے اور آکر اپنی امت کا حال زبوں ملاحظہ کر کے قیامت کو ان پر گواہ ہوںگے۔ بخلاف اس کے مرزاقادیانی اپنا کشف بتاتے ہیں۔ اوّل تو خلاف قرآن وحدیث کسی کا کشف خود عند المرزا قابل حجت نہیں۔
(ازالہ اوہام ص۵۶۷، خزائن ج۳ ص۴۰۵)
دوم: یہ کہ کشف ہمارے مخالف نہیں بلکہ ہمارے بیان کے ساتھ جمع ہوسکتا ہے۔ یعنی مسیح علیہ السلام کو قبل از نزول آسمان پر اس کی خبردی گئی اور بعد از نزول بموجب آیت قرآن واحادیث نبی علیہ السلام بچشم خود ملاحظہ فرمالیں گے۔ بہرحال یہ متعین ہوگیا کہ مسیح کو قیامت سے پیشتر امت بگڑنے کا پتہ ہے۔ فہو المطلوب!
ہماری اس تقریر سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ مرزائی جو کہا کرتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام قیامت کے دن اپنی لاعلمی کا اظہار کریں گے۔ یہ ازسرتاپا جھوٹ فریب اور بہتان وافتراء ہے۔
ایک اور طرز سے
مرزائیوں کو مسلّم ہے کہ عیسائی بعد توفی مسیح کے بگڑے ہیں اور یہ بھی ان کا مذہب ہے کہ واقعہ صلیب کے بعد آپ کشمیر چلے آئے۔ ایک سوبیس برس زندہ رہے۔ (تذکرۃ الشہادتین ص۲۷، خزائن ج۲۰ ص۲۹)
’’حالانکہ انجیل پر ابھی پورے تیس برس نہیں گزرے تھے کہ بجائے خدا کی پرستش کے ایک عاجز انسان کی پرستش نے جگہ لے لی۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۲۵۴، خزائن ج۲۳ ص۲۶۶)
مذکورہ بالا بیان سے بلاتاویل ثابت ہے کہ مسیح علیہ السلام کی ہجرت کشمیر کے بعد فوراً تثلیث پھیل گئی تھی۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ توفی کے معنی موت نہیں ہیں۔
اعتراض:
بخاری کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن کہیں گے کہ میری توفی کے بعد میری امت بگڑی ہے اور حضرت مسیح علیہ السلام کی مثال دیں گے۔ پس ثابت ہوا کہ توفی کے معنی موت ہیں۔
الجواب: ایک ہی لفظ جب دو مختلف اشخاص پر بولا جائے تو حسب حیثیت وشخصیت اس کے جداجدا معنی ہوسکتے ہیں۔ دیکھئے حضرت مسیح علیہ السلام اپنے حق میں نفس کا لفظ بولتے ہیں اور خدائے پاک کے لئے بھی ’’
تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَلَا اَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِکَ (مائدہ:۱۱۶)
‘‘ اب کیاخدا کا نفس اور مسیح علیہ السلام کا نفس ایک جیسا ہے؟ ہرگز نہیں۔ ٹھیک اسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام کی توفی بمعنی ’’
اخذ الشیٔ وافیا
‘‘ پورا لینے کے ہے۔ کیونکہ اگر موت مراد لی جائے تو علاوہ نصوص صریحہ جن میں حیات مسیح علیہ السلام کا ذکر ہے کے خلاف ہونے کے یہود پلید کی تائید وتصدیق ہوتی ہے کیونکہ وعدہ توفی کا رفع کا۔ بلاتوقف وبجلد ’’پورا ہوا ہے جو سوائے رفع جسمانی کے اور کچھ نہیں ہوسکتا۔‘‘
چوتھی آیت:
جس کا موت مسیح علیہ السلام پر دلالت کرنا مرزاقادیانی نے تحریر کیا ہے۔ وہ یہ ہے: ’’
وَاِنْ مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ اِلَّا لَیُوْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِ
ہٖ‘‘ اس کی وجہ استدلال مرزاقادیانی نے اس جگہ کچھ نہیں لکھی۔ صرف یہ تحریر کیا ہے کہ اس کی تفسیر اسی رسالہ میں ہم بیان کر چکے ہیں۔
ناظرین واضح ہو کہ اس آیت میں غور طلب تین الفاظ ہیں۔ اوّل: ’’
لیُؤْمِنَنَّ
‘‘ دوم:’’بہٖ‘‘ سوم:’’
قَبْلَ مَوْتِ
ہٖ‘‘ مرزاقادیانی نے ’’
لیُؤْمِنَنَّ
‘‘ کو صیغہ ماضی بناکر ترجمہ کیا ہے اور یہ الفاظ لکھے ہیں کہ ’’کوئی اہل کتاب نہیں جو اس بیان پر ایمان نہ رکھتا ہو۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۳۷۲، خزائن ج۳ ص۲۹۱)
حالانکہ تمام روئے زمین کے علماء علم نحو کا اس قاعدے پر اتفاق ہے کہ جب مضارع پر لام تاکید اور نون ثقیلہ واقع ہوتے ہیں تو فعل مضارع اس جگہ خالص مستقبل کے لئے ہو جاتا ہے۔ یہ ایسا قاعدہ ہے جس کو مرزاقادیانی آج تک غلط ثابت نہیں کر سکے اور نہ کر سکیں گے۔ بلکہ جب یہاں آکر نہایت بے دست وپا ہوگئے تو یہ جواب بنایا۔ ’’ہمارے پر اﷲ اور رسول نے یہ فرض نہیں کیا کہ ہم انسانوں کے خود تراشیدہ قواعد صرف ونحو کو اپنے لئے ایسا رہبر قرار دے دیں کہ باوجودیکہ ہم پر کافی اور کامل طور پر کئی معنی آیت کھل جائیں اور اس پر اکابر مومنین اہل زبان کی شہادت بھی مل جائے۔ تو پھر بھی ہم اسی قاعدہ یا نحو کو ترک نہ کریں۔ اس بدعت کے التزام کی ہمیں حاجت ہی کیا ہے۔‘‘
(مباحثہ دہلی ص۵۳، خزائن ج۴ ص۱۸۳)
(صرف ونحو کو بدعت کہنا یہی مرزاقادیانی کی بدعت ہے۔ شاہ اسماعیل صاحب شہید رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے رسالہ ’’ایضاح الحق الصریح‘‘ میں فرماتے ہیں ’’جمع قرآن وترتیب سور، نماز تراویح، اذان اوّل برائے نماز جمعہ واعراب قرآن مجید، ومناظرہ اہل بدعت بدلائل نقلیہ، وتصنیف کتب حدیث۔ تبیین قواعد نحو، وتنقید رواۃ حدیث، واشتغال یا استنباط احکام فقہ بقدر حاجت، ہمہ از قبیل ملحق بالسنۃ ست کہ درقرون مشہود لہا بالخیر مروج گردیدہ، وبآں تعامل بلانکیر در آں قرون جاری شدہ، چنانچہ برماہر فن مخفی نیست۔‘‘ مرزاقادیانی دیکھیں کہ قواعد نحو کو کن علوم ہمایوں کے پہلو میں جگہ دی گئی ہے۔ پھر اس کا ملحق بالسنۃ ہونا، قرون مشہود لہا بالخیر میں بلا انکار احد سے مروج ہونا اور تعامل کے زبردست سلسلہ میں (جس کی اوٹ آپ اکثر لیا کرتے ہیں) آجانا یہ سب امور کس وضاحت سے بیان کئے گئے ہیں اور آخر فقرہ میں یہ بھی ظاہر فرمادیا ہے کہ ان سے انکار کرنے والا تاریخ اسلامی سے ناواقف محض ہے)
اس جواب سے جو علمیت وقابلیت اور پھر اس پر زبان دانی اور الہام یابی کا افتخار ظاہر ہورہا ہے۔ وہ اہل علم سے پوشیدہ نہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تیسری آیت کی وجہ استدلال میں جب مرزاقادیانی نے حرف ’’
اِذْ
‘‘ اور ’’
قَالَ
‘‘ پر نحوی بحث کی تھی۔ اس وقت تو اس بدعت کے التزام کی ان کو حاجت تھی۔ اب کہ اس التزام سے دعویٰ ٹوٹتا ہے اور بے شمار وساوس ودورازکار خیالات (جن کو بڑی آب وتاب کے ساتھ مجموعہ اوہام میں جلوہ دیاگیا ہے) ’’ہَبَآئً مَنْثُوْرًا‘‘ کی طرح اڑے جاتے ہیں تو اس میں کچھ شک نہیں کہ آپ کو اس التزام بدعت کی کچھ حاجت نہیں رہی۔ مگر اس لئے کہ آپ کو اس کی حاجت نہیں رہی۔ لازم نہیں آتا کہ قاعدہ نحوی کی صحت بھی باقی نہیں رہی۔ ناظرین یادرکھیں کہ ’’لِیُؤْمِنَنَّ‘‘ خالص مستقبل کے لئے ہے۔
(ایک دوسری آیت میں ہے: ’’
ثُمَّ جَائَ کُمْ رَسُوْلٌ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرَنہ (آل عمران:۸۱)
‘‘ صرف حاضر وغائب کا فرق ہے۔ مرزاقادیانی اس کو بھی ماضی بناکر ترجمہ کر دکھلائیں)
دوسری بحث ’’بہ‘‘ کی ضمیر پر ہے کہ اس کا مرجع کون ہے۔ مرزاقادیانی ’’بہ‘‘ کا مرجع بیان مذکورہ بالا کو بتاتے ہیں۔ دیکھو (ازالہ اوہام ص۳۷۲، خزائن ج۳ ص۲۹۱) اور ہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو۔ لیکن بیان مذکورہ کو مرجع قرار دینے سے ہمارا کچھ حرج نہیں۔ یعنی محض ’’بہ‘‘ کا مرجع بیان مذکورہ قرار دینے سے مرزاقادیانی کا مذہب ثابت ہونا ممکن نہیں۔ تیسری بحث ’’
قَبْلَ مَوْتِہٖ
‘‘ کی ضمیر پر ہے اور یہ بھی ’’لیُؤْمِنَنَّ‘‘ کی طرح ضروری بحث ہے کیونکہ جو کوئی ’
’قَبْلَ مَوْتِہٖ
‘‘ کی ضمیر کا مرجع قرار دیا جائے گا۔ اسی کی حیات بالفعل ثابت ہو جائے گی۔ بعض مفسرین نے ’
’قَبْلَ مَوْتِ
ہٖ‘‘ کے مرجع قرار دینے میں مختلف اقوال لکھے ہیں۔ مگر اہل سنت والجماعت کے جمہور کا مختار مذہب یہ ہے کہ ’’
قَبْلَ مَوْتِ
ہٖ‘‘ کی ضمیر کا مرجع عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ مرزاقادیانی نے بھی مسلمانوں کے حال پر رحم فرما کر (ازالہ اوہام ص۳۷۲، خزائن ج۳ ص۲۹۱) پر ’
’قَبْلَ مَوْتِ
ہٖ‘‘ کی ضمیر کا مرجع عیسیٰ علیہ السلام کو قرار دیا ہے اور گو آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے بڑے بڑے لمبے لمبے جملہ ہائے معترضہ بیچ میں ڈال کر معنی کچھ کے کچھ کر گئے ہیں مگر ہم اس کو لاکھ غنیمت سمجھتے ہیں کہ ’
’قَبْلَ مَوْتِہٖ
‘‘ کے مرجع میں وہ ہم سے خلاف نہیں۔ (ازالہ اوہام ص۳۸۵، خزائن ج۳ ص۲۹۸)
(مرزاقادیانی نے ’’
بِہٖ
‘‘ کی ضمیر کا مرجع بیان مذکورہ اور ’
’قَبْلَ مَوْتِہٖ
‘‘ کا مرجع کتابی ہی کو بتایا ہے مگر معلوم نہیں کہ: ’’
یوم القیامۃ یکون علیہم شہیدا
‘‘ میں ’’
یکون
‘‘ کا فاعل کس کو قراردیں گے۔ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ہی قراردیں گے تو ان کو معلوم ہو جائے گا کہ ضمائر میں اس قدر بعد وانفصال اور تعقید کلام میں داخل ہے جو فصاحت وبلاغت سے سخت مخالف ہے۔ پھر ’’
قَبْلَ مَوْتِہٖ
‘‘ کی ضمیر کا مرجع کتابی کو کہنا اس لئے غلط ہے کہ اس صورت میں ’
’قَبْلَ مَوْتِہٖ
‘‘ کا جملہ کلام میں ذرا بھی فائدہ نہیں دیتا۔ کیونکہ ’’
لیُؤْمِنَنَّ
‘‘ میں جو ایمان لانے کی خبرہے۔ وہ خود حیات کتابی کی متقاضی ہے۔ ورنہ ماننا پڑے گا کہ بعد از موت یقین کرنے کا نام بھی شرع میں ایمان رکھاگیا ہے اور یہ بالبداہت باطل ہے۔ واضح رہے کہ شرع میں حالت نزع بھی بعد از موت میں داخل اور زمانۂ حیات سے خارج ہے۔ دیکھو جب فرعون نے اپنے غرق ہونے کو یقینی معلوم کرکے ’’
اٰمَنْتُ اَنَّہٗ لَا اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیْ اٰمَنَتْ بِہٖ بَنُوْ اِسْرَائِیْ
ل‘‘ کہا تو اس کے جواب میں اس کو یہی کہاگیا: ’’
اٰلان وقد عَصَیْتَ قَبْ
لُ‘‘ غرض مرزاقادیانی کے معنی ہر طرح سے نظم قرآنی کے خلاف ہیں۔ اگرچہ ان کے وہ معنی بھی کسی طرح سے مفید مطلب نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ ’’
لیُؤْمِنَنَّ
‘‘ صیغہ ماضی نہیں بن سکتا)
پھر قندمکرر کے طور پر اس شہادت کو ادا کیاہے اور تسلیم کر لیا کہ: ’’قَبْلَ مَوْتِہٖ‘‘ کا مرجع عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ: ’’
قَبْلَ مَوْتِہٖ
‘‘ کی تفسیر یہ ہے کہ ’
’قَبْلَ ایمانہ بموتہ
‘‘ ہم کو ان معنی سے کچھ سروکار نہیں۔ ضمیر کا مرجع جس کو ہم نے قرار دیا تھا اسی کو مرزاقادیانی نے تسلیم بھی کر لیا۔ ’’
وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ
‘‘ اب اس تسلیم کے بعد مرزاقادیانی اور ان کے تمام اعیان وانصار کے لئے محال کلی ہے کہ اس آیت سے وفات عیسیٰ علیہ السلام کی (صراحت تو کیا) دلالت بھی ثابت کر سکیں۔ اب اس آیت کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔
۱… اور نہیں کوئی اہل کتاب سے۔ مگر البتہ ایمان لائے گا ساتھ اس کے پہلے موت اس کی کے۔ (شاہ رفیع الدین رحمہ اللہ تعالیٰ )
۲… اور جو فرقہ کتاب والوں میں سے ہے۔ سو اس پر یقین لائیں گے اس کی موت سے پہلے۔ (شاہ عبدالقادر رحمہ اللہ تعالیٰ )
۳… ونباشد ہیچ کس از اہل کتاب الایمان آوردبہ عیسیٰ پیش از مردن عیسیٰ۔ (شاہ ولی اﷲ رحمہ اللہ تعالیٰ )
ان ہرسہ تراجم میں ’’
بِہٖ
‘‘ اور ’’
قَبْلَ مَوْتِہٖ‘
‘ دونوں کی ضمیروں کا مرجع حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ یہی مذہب جمہور ہے۔
۴… اور نہیں کوئی اہل کتاب سے مگر البتہ ایمان لائے گا وہ قرآن کے بیان مذکورہ بالا پر پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت کے۔ (مرزاغلام احمد قادیانی)
یہ معنی مرزاقادیانی کے مذہب پر ہیں جو ’’
بِہٖ
‘‘ کا مرجع بیان کو اور ’’
مَوْتِہٖ
‘‘ کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کہتے ہیں۔
اور ان سب صورتوں میں حیات مسیح علیہ السلام ثابت ہوتی ہے۔ وفات کا کیا ذکر ہے اور اس آیت سے مرزاقادیانی کو استدلال کرنے کی کیا وجہ ہے؟
یاد رکھو کہ جب تک مرزاقادیانی ’’
لیُؤْمِنَنَّ
‘‘ کو مفید معنی ماضی ثابت نہ کر سکیں۔ تب تک وہ اس آیت سے استدلال کا نام بھی نہیں لے سکتے اور وہ ثابت کرنا اس وقت تک ان پر محال ہے جب کہ موجودہ علم نحو کی تمام کتابوں کو ڈبو کر اور تمام عرب اہل زبان کو دریابرد کر کے ازسرنو ملک عرب آباد نہ کریں اور اس میں اپنا نوایجاد کردہ صرف ونحو جاری نہ فرمائیں۔
پانچویں آیت:
مرزاقادیانی نے وفات مسیح کے ثبوت میں تحریر کی ہے: ’’
مَا الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ اِلَّا رَسُوْل قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہٖ الرُّسُلِ وَاُمُّہٗ صِدِیْقَہُ کَانَا یَا کُلَانِ الطَّعَامِ
‘‘ آیت مذکورہ کو مرزاقادیانی نے موت مسیح علیہ السلام پر نص صریح لکھ کر بتایا ہے کہ وجہ استدلال یہ ہے کہ ’’
کَانَا
‘‘ حال کو چھوڑ کر گزشتہ کی خبر دیا کرتا ہے… اس جگہ ’’
کَانَا تثنیہ
‘‘ ہے۔ دونوں اس ایک ہی حکم میں شامل ہیں۔ یہ نہیں بیان کیاگیا کہ حضرت مریم علیہا السلام تو بوجہ موت طعام کھانے سے روکی گئیں لیکن حضرت ابن مریم کسی اور وجہ سے۔ اس کے بعد مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ: ’’اگر اس آیت کو ’’
مَاجَعَلْنَاہُمْ جَسَدًا لَا یَاکُلُوْنَ الطَّعَامُ
‘‘ کے ساتھ ملا کر پڑھیں تو یقینی وقطعی نتیجہ یہ ہے کہ فی الواقع حضرت مسیح علیہ السلام فوت ہوگئے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۰۳، خزائن ج۳ ص۴۲۶)
ناظرین! یہ غلط ہے کہ ’’کان‘‘ ہمیشہ حال کو چھوڑ کر گزشتہ زمانہ کی خبر دیاکرتا ہے۔ اگر یہی صحیح ہے تو ’
’کَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ (فتح:۲۱)
‘‘ کا ترجمہ مرزاقادیانی کر کے دکھلائیں۔ کیا خدا پہلے قادر تھا اب نہیں؟
معاذ اﷲ! یا ’’مَاکَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِیّنَ اٰمَنُوْا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ (توبہ:۱۱۳)
‘‘ کیا مشرکین کے گزشتہ زمانہ میں استغفار ناجائز تھا۔ اب جائز ہے؟ نہیں ہرگز نہیں۔ تو ثابت ہوا کہ کان صرف ماضی کے لئے نہیں بلکہ حال ومستقبل کو بھی شامل ہوتا ہے۔
اب حقیقت حال سنئے۔ اس رکوع میں اﷲتعالیٰ نے عیسائیوں کے دو فرقوں کی تردید وتکذیب دلائل عقلی سے فرمائی ہے اور ان کے کفر کا ثبوت دیا ہے۔
۱… ’
’لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْا اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ وَقَالَ الْمَسِیْحُ یٰبَنِیْ اِسْرَائِیْلَ اعْبُدُوْا اللّٰہَ رَبِّیْ وَرَبَّکُمْ (مائدہ:۱۷)
‘‘ {البتہ وہ کافر ہوئے۔ جن کا یہ قول ہے کہ مسیح ابن مریم ہی خدا ہے کیونکہ مسیح نے تو خود کہا ہے۔ لوگو میرے اور اپنے خدا کی عبادت کرو۔}
۲… ’’
لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْا اِنَّ اللّٰہَ ثَالِثُ ثَلْثَہٗ (مائدہ:۷۳)
‘‘ {البتہ وہ بھی کافر ہوئے جو خدا کو تثلیث کا ایک اقنوم کہتے ہیں۔}
۳… ’’
مَا الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ وَاُمُّہٗ صِدِّیْقَہٌ کَانَا یَاْ کُلٰنِ الطَّعَامَ (مائدہ:۷۵)
‘‘ {اور مسیح بن مریم تثلیث کے دوسرے دو اقنوم جیسا کہ رومن کیتھولک کا اعتقاد ہے بھی خدا نہیں کیونکہ مسیح بن مریم تو رسول ہے اس سے پہلے بھی رسول ہوچکے ہیں اوراس کی ماں صحابیہ وصدیقہ ہے۔ دونوں طعام کھایا کرتے تھے۔}
صاف ظاہر ہے کہ اس رکوع میں اﷲتعالیٰ کو عیسائیوں کی غلطی ثابت کرنا اور ان کے کفر پر دلیل قائم کرنا منظور تھا جو مسیح علیہ السلام ہی کو خدا قرار دیتے تھے۔ ان پر یوں دلیل قائم کی کہ مسیح علیہ السلام خودلوگوں کو یوں کہا کرتا تھا کہ میرے رب اور اپنے رب کی عبادت کرو اگر وہ خود خدا ہوتا تو وہ یوں کہا کرتا۔ لوگو میں جو تمہارا رب ہوں۔ میری عبادت کرو۔ لیکن جب مسیح علیہ السلام نے خدا کی ربوبیت کا اقرار کیا ہے تو اس تربیت یافتہ کو رب کہنا کفر ہے۔
جو لوگ ایک خدا کوتین خدا اور تین خدا کو ایک خدا کہتے اور خدا، مسیح۔ مریم کو اقانیم ثلثہ قرار دیتے تھے۔ خداوند کریم نے ان پر دلیل قائم کی کہ جب ہزاروں، لاکھوں شخصوں نے ان دونوں ماں بیٹا کو لوازم بشری کے محتاج اپنی طرح پایا اور دیکھا ہے اور بایں ہمہ پھر ان کو خدا کہنے کی جرأت کی ہے۔ یہ بھی ان کا کفر ہے۔ اب ہر شخص خیال کر سکتا ہے کہ اس میں موت وحیات کی کیا بحث ہے؟ جب اﷲتعالیٰ نے ان الفاظ سے وہ مراد ہی نہیں لی تو مرزاقادیانی متکلم کے خلاف ان الفاظ سے معانی نکالنے کے کیا مجاز ہیں۔ کیا ان کو معلوم نہیں کہ تفسیر بالرائے کا کیا حکم ہے؟
علاوہ اس کے مرزاقادیانی کو خود قرار ہے کہ ’’حضرت مریم علیہا السلام کے طعام نہ کھانے کی وجہ موت اور ابن مریم کے طعام نہ کھانے کی کوئی دوسری وجہ بیان نہیں کی گئی۔ صرف ’’کانا‘‘ کہاگیا ہے۔‘‘ تو اس صورت میں مرزاقادیانی کا کیا حق ہے کہ جس امر کی وجہ اس آیت میں بیان نہیں ہوئی۔ اس کو آپ خود بیان کریں بلکہ اس پر جزم بھی کر دیں۔ کیا ممکن نہیں کہ دو شخصوں کا ایک مشترکہ فعل سے جدا ہونا مختلف اسباب سے ہو۔ مثلاً زید اور عمر وپارسال دونوں لاہور رہتے تھے۔ زید نے تعلیم چھوڑ دی اور عمرو ولایت چلا گیا۔ اس مثال میں دیکھو۔ لاہور میں رہائش دونوں کا مشترکہ فعل ہے مگر اس سے جدا ہونے کے مختلف اسباب ہیں۔
مرزاقادیانی! اگر ایسے دلائل ہی آپ کے مذہب کے مؤید ہیں تو اس کے مقابلہ میں کوئی شخص یہ آیت پیش کر سکتا ہے: ’’
قُلْ فَمَنْ یَمْلِکُ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا اِنْ اَرَادَ اَنْ یُہْلِکَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ وَاُمَّہٗ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا (مائدہ:۱۷)
‘‘ {یہ کہہ دے کون سی چیز خدا کی روک بن سکتی ہے۔ اگر وہ یہ چاہے کہ مسیح علیہ السلام اور اس کی ماں کو نیز تمام مخلوق کو جو کل صفحۂ زمین پر ہے، ہلاک کر دے۔ اگر ہلاک کر دے بتا رہا ہے کہ اب تک اﷲتعالیٰ نے ہلاک نہیں کیا۔} اور کہہ سکتا ہے کہ نہ کبھی ’’
جَمِیْعَ مَنْ فِی الْاَرْضِ
‘‘ ہلاک ہوئے اور نہ مسیح علیہ السلام اور نہ ان کی مادر صدیقہ ہی کو ہلاکت نے اپنا اثر پہنچایا۔ جس طرح آج ’’
جَمِیْعَ مَنْ فِی الْاَرْضِ
‘‘ زندہ ہیں۔ مسیح اور اس کی ماں بھی زندہ ہے۔ اگر آپ اس کو صحیح نہیں مان سکتے تو وہ آپ کا استدلال باولیٰ غیرصحیح اور سراپا غلط ہے۔
اس آیت کو آپ نے نص صریح کہہ کر پھر استدلال کے وقت اس کے ساتھ دوسری آیت کو ملانے اور پھر یقینی نتیجہ پر پہنچنے کی نسبت جو لکھا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ کے نزدیک بھی یہ آیت نص صریح ’’
لذاتِہْا
‘‘ نہیں اور نہ ہوسکتی ہے۔ دوسری آیت جس کو ملا کر آپ نے اس دلیل کو کامل بنایا ہے اس کی بحث ذیل میں آتی ہے۔
چھٹی آیت:
’’
وَمَا جَعَلْنٰہُمْ جَسَدًا لَّا یَاْکُلُوْنَ الطَّعَامَ (الانبیاء:۸)
‘‘ {اور نہیں بنائے تھے ہم نے ان کے ایسے بدن کہ وہ کھانا نہ کھائیں۔}
قادیانی استدلال:
’’درحقیقت یہی اکیلی آیت کافی طور پر مسیح علیہ السلام کی موت پر دلالت کر رہی ہے۔ کیونکہ جب کوئی جسم خاکی بغیر طعام کے نہیں رہ سکتا، یہی سنت اﷲ ہے تو پھر حضرت مسیح علیہ السلام کیوں اب تک بغیرطعام کے زندہ موجود ہیں اور اﷲ جل شانہ فرماتا ہے: ’’
ولن تجد لسنۃ اللّٰہ تبدیلا
‘‘ اور اگر کوئی کہے کہ اصحاب کہف بھی تو بغیر طعام کے زندہ موجود ہیں تو میں کہتا ہوں کہ ان کی زندگی بھی اس جہان کی زندگی نہیں۔ مسلم کی حدیث سو برس والی ان کو بھی مارچکی ہے۔ بے شک ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ اصحاب کہف بھی شہداء کی طرح زندہ ہیں، ان کی بھی کامل زندگی ہے۔ مگر وہ دنیا کی ایک ناقصہ کثیفہ زندگی سے نجات پاگئے ہیں۔ دنیا کی زندگی کیا چیز ہے اور کیا حقیقت؟ ایک جاہل اس کو بڑی چیز سمجھتا ہے اور ہر ایک قسم کی زندگی جو قرآن شریف میں مذکور ومندرج ہے اسی کی طرف گھسیٹتا چلا جاتا ہے، وہ یہ خیال نہیں کرتا کہ دنیوی زندگی تو ایک ادنیٰ درجہ کی زندگی ہے جس کے ارزل حصہ سے حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پناہ مانگی ہے اور جس کے ساتھ نہایت غلیظ اور مکروہ لوازم لگے ہوئے ہیں۔ اگر انسان کو اس سفلی زندگی سے ایک بہتر زندگی حاصل ہو جائے اور سنت اﷲ میں فرق نہ آئے تو اس سے زیادہ کون سی خوبی ہے؟‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۰۵، خزائن ج۳ ص۴۲۶،۴۲۷)
جواب: (۱)یہ آیت مشرکین مکہ کا جواب ہے جو کہا کرتے تھے: ’’مالہذا الرسول یا کل الطعام ویمشی فی الاسواق‘‘ یہ کیا رسول ہے جو کھانا کھاتا اور بازاروں میں چلتا ہے۔‘‘ قرآن مجید نے جواب میں فرمایا: ’’
وما جعلنٰہم جسدا لا یاکلون الطعام
‘‘ کوئی ایسا انسان نہیں جو کھانا نہ کھاتا ہو۔‘‘ پہلے انبیاء بھی کھانا کھاتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی کھانا کھاتے ہیں۔ اجسام کے لئے طعام ضروری ہے۔ لیکن آسمان والوں کے لئے آسمانی کھانا، زمین والوں کے لئے زمینی کھانا، لیکن اﷲتعالیٰ کبھی ایسا بھی فرماتے ہیں کہ زمین والوں کے لئے آسمانی کھانا زمینی کھانے جیسا بھیج دیا۔ جیسے نزول مائدہ، یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اس سے بھی اعلیٰ کھانا ’’
یطمعنی ربی ویسقینی
‘‘ صوم وصال میں دیکھئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں زمین پر مگر کھانا آسمان والوں کا کھا رہے ہیں۔ عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر آسمانی کھانا کھاتے ہیں تو اس میں کیا اشکال؟ (تفصیل آگے آئے گی)
جواب: ۲… وفات مسیح پر یہ چھٹی آیت مرزاقادیانی نے لکھی ہے: ’’
وَمَا جَعَلْنٰہُمْ جَسَدًا لَا یَا کُلُوْنَ الطَّعَامَ
‘‘ اور تحریر کیا ہے کہ درحقیقت یہی اکیلی آیت کافی طور پر مسیح علیہ السلام کی موت پر دلالت کرتی ہے۔
(ازالہ اوہام ص۶۰۵، خزائن ج۳ ص۴۳)
اس فقرہ کے الفاظ درحقیقت یہی اکیلے، کافی طور پر ناظرین کی توجہ کے لائق ہیں۔ جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اس اکیلی کے سوا مرزاقادیانی کی دیگر مستدلہ آیات درحقیقت مسیح علیہ السلام کی موت پر دلالت نہیں کرتیں اور اگر ان کو حقیقت کے خلاف اس مسئلہ کی دلیل بنایا بھی جائے تو وہ کافی طور پر دلیل نہیں کہلا سکیں۔ ناظرین یہ کیسا صاف اقرار ہے کہ مرزاقادیانی کے دل میں بھی باقی ۲۹آیتیں ان کے مذہب کی تائید پر نہیں: ’’قضی الرجل علی نفسہ‘‘ یاد رکھو کہ ’’یہی‘‘ حصر کے لئے آتا ہے۔ ’’اکیلی‘‘ نے اس کو اور بھی پرزور کر دیا۔ مرزاقادیانی کی وجہ استدلال یہ ہے کہ جب کوئی جسم خاکی بغیر طعام کے نہیں رہ سکتا تو پھر حضرت مسیح علیہ السلام کیونکر اب تک بغیر طعام کے زندہ موجود ہیں؟ ناظرین اس آیت کا صرف یہ مطلب ہے کہ کوئی جسم ایسا نہیں جسے طعام (غذا) کی حاجت نہ ہو مگر آیت میں یہ کہاں ہے کہ کوئی جسم ایسا نہیں جو فلاں مدت تک بغیر طعام کے زندہ نہ رہ سکے اور جب یہ نہیں تو مرزاقادیانی کے لئے یہ دلیل بھی نہیں۔ مرزاقادیانی کا خیال ہے کہ جو شخص ان کی طرح ہر روز دو وقت کھانا نہ کھاتا ہو۔ وہ مردہ ہے۔ اگر یہی صحیح ہے تو فرنچ قوم کے نزدیک جو دن میں آٹھ دفعہ کھاتے ہیں۔ کل ہندوستان مردہ ہے اور جو چینی پورے پچاس پچاس روز کا برت رکھتے ہیں وہ مردہ درگور ہیں۔ ناظرین آپ خیال فرما سکتے ہیں کہ کسی جسم کا ایک خاص مدت معین تک اکل وشرب سے جدا رہنا نہ تو اس جسم کے مردہ ہونے کی دلیل ہوسکتا ہے اورنہ اس جسم کے لوازم جسمانی سے بے نیاز ہونے کی حجت بن سکتا ہے۔
قرآن مجید اس امر کا گواہ ہے کہ: ’’
وَلَبِثُوْا فِیْ کَہْفِہِمْ ثَلٰثَ مِائَۃٍ سِنِیْنَ وَازْ دَادُوْا تِسْعًا (کہف:۲۵)
‘‘ اصحاب کہف ۳۰۹ برس تک اسی معمورہ دنیا کے ایک پہاڑ میں اکل وشرب کے بغیر زندہ رہے اور ۳۰۹برس بعد ان کو طعام کی ضرورت محسوس ہوئی۔ چنانچہ ان میں سے ایک اس وقت طعام لینے کو پہاڑ سے نکلا۔ مرزاقادیانی غور کریں کہ جس طرح پر تحقیقات حکماء کو جن کا یہ قول ہے کہ زیادہ سے زیادہ ابن آدم ۷۰دن تک بلاطعام کے زندہ رہ سکتا ہے۔ ۳۰۹ برس نے غلط ثابت کر دیا۔
جواب: ۳… دوسری دلیل کو سماعت فرمائیے۔ شاید آپ یہ جانتے ہیں کہ طعام کا لفظ زبان شرع میں صرف نباتات اور زمین کی روئیدگی یا حیوانی غذا کے لئے آتا ہے اور یہی بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ آپ یاد رکھیں کہ زبان شرع میں ان انواروبرکات کو بھی طعام کہا گیا ہے۔ جو خواص بشر کی جسمانی اور روحانی تربیت ایسی ہی کرتے ہیں جیسے دیگر ماکولات اور روئیدگی زمینی عوام کی تربیت جسمانی کا کام آتی ہیں۔ ذیل میں مثالیں ملاحظہ ہوں۔
بغیر کھائے پئے زندہ رہنا
۱… اسی طرح کسی جسم عنصری کا بغیر کھائے اور پئے زندگی بسر کرنا بھی محال نہیں۔ اصحاب کہف کا تین سو سال تک بغیر کھائے پئے زندہ رہنا قرآن کریم میں مذکور ہے۔ ’’
وَلَبِثُوْا فِیْ کَہْفِہِمْ ثَلٰثَ مِائَۃٍ سِنِیْنَ وَازْدَادُوْا تِسْعًا (کہف:۲۵)
‘‘ اس سے مرزاقادیانی کا یہ وسوسہ بھی زائل ہوگیا کہ جو شخص اسّی یا نوے سال کو پہنچ جاتا ہے۔ وہ محض نادان ہو جاتا ہے۔ ’’
کَمَا قَالَ تَعَالٰی وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّرَدَّ اِلٰی اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِکَیْلَا یَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَیْئًا (النحل:۷۰)
‘‘ اس لئے کہ ارذل العمر کی تفسیر میں اسّی یا نوے سال کی قید مرزاقادیانی نے اپنی طرف سے لگائی ہے۔ قرآن وحدیث میں کہیں قید نہیں۔ اصحاب کہف تین سو سال تک کہیں نادان نہیں ہوگئے اور علیٰ ہذا حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام صدہا سال زندہ رہے اور ظاہر ہے کہ نبی کے علم اور عقل کا زائل ہونا ناممکن اور محال ہے۔
۲… حدیث میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب دجال ظاہر ہوگا تو شدید قحط ہوگا اور اہل ایمان کو کھانا میسر نہ آئے گا۔ اس پر صحابہi نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اہل ایمان کا کیا حال ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’
یُجْزِئُہُمْ مَایُجْزِیُٔ اَہْلَ السَّمَائِ مِنَ التَّسْبِیْحِ وَالتَّقْدِیْسِ
‘‘
(مشکوٰۃ ص۴۷۷، باب علامات بین یدی الساعۃ)
یعنی اس وقت اہل ایمان کو فرشتوں کی طرح تسبیح وتقدیس ہی غذا کا کام دے گی۔
۳… اور حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کئی کئی دن کا صوم وصال رکھتے اور یہ فرماتے: ’’
اَیُّکُمْ مِثْلِیْ اِنِّیْ اَبِیْتُ یُطْعِمُنِیْ رَبِّیْ وَیَسْقِیْنِیْ
‘‘ (بخاری ج۲ ص۱۰۱۲، باب کم التعزیر والادب)
’’تم میں کون شخص میری مثل ہے کہ جو صوم وصال میں میری برابری کرے۔ میرا پروردگار مجھے غیب سے کھلاتا ہے اور پلاتا ہے۔‘‘ یہ غیبی طعام میری غذا ہے معلوم ہوا کہ طعام وشراب عام ہے۔ خواہ حسی ہو یا غیبی ہو۔ لہٰذا ’’
وَمَا جَعَلْنٰہُمْ جَسَدًا لَّا یَأْکُلُوْنَ الطَّعَامَ (الانبیاء:۸)
‘‘ سے یہ استدلال کرنا کہ جسم عنصری کا بغیر طعام وشراب کے زندہ رہنا ناممکن ہے غلط ہے۔ اس لئے کہ طعام وشراب عام ہے کہ خواہ حسی ہو یا معنوی۔ حضرت آدم علیہ السلام اکل شجرہ سے پہلے جنت میں ملائکہ کی طرح زندگی بسر فرماتے تھے۔ تسبیح وتہلیل ہی ان کا ذکر تھا۔ پس کیا حضرت مسیح علیہ السلام جو نفخۂ جبرائیل سے پیداہونے کی وجہ سے جبرائیل امین کی طرح تسبیح وتہلیل سے زندگی بسر نہیں فرما سکتے۔
۴… ’’
اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ (آل عمران:۵۹)
‘‘ جو آسمانوں پر سیدنا آدم علیہ السلام کی غذا تھی وہی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام کا شکم ماہی میں بغیر کھائے پئے زندہ رہنا قرآن کریم میں صراحۃً مذکور ہے اور حضرت یونس علیہ السلام کے بارے میں حق تعالیٰ کا یہ ارشاد: ’’
فَلَوْلَا اَنَّہٗ کَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِیْنَ لَلَبِثَ فِیْ بَطْنِہٖ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ (الصافات: ۱۴۳،۱۴۴)
‘‘ اس پر صاف دلالت کرتا ہے کہ یونس علیہ السلام اگر مسبحین میں سے نہ ہوتے تو اس طرح قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں ٹھہرے رہتے اور بغیر کھائے اور پئے زندہ رہتے۔
۵… حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر آسمان سے مائدہ کا نازل ہونا قرآن کریم میں صراحۃً مذکور ہے: ’
’کَمَا قَالَ تَعَالٰی اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ ھَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّکَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآئِ (المائدہ:۱۱۲) الٰی قولہ تعالیٰ قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ اللّٰہُمَّ رَبَّنَا اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآئِ تَکُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّاَ وَّلِنَا وَاٰخِرِنَا وَاٰیَۃً مِّنْکَ وَارْزُقْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰازِقِیْنَ قَالَ اللّٰہُ اِنِّیْ مُنَزِّلُہَا عَلَیْکُمْ (المائدہ:۱۱۴،۱۱۵)
‘‘ جو خدا سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی دعا پر ان کی قوم کو آسمانوں کا کھانا زمین پر بھیج سکتا ہے کیا وہ مسیح علیہ السلام کو آسمانوں پر رکھ کر آسمانی کھانا نہیں دے سکتا؟
ساتویں آیت:
’’
وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَائِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰی اَعْقَابِکُمْ (آل عمران:۱۴۴)
‘‘ {اور محمد تو ایک رسول ہے ہو چکے اس سے پہلے بہت رسول۔ پھر کیا اگر وہ مر گیا یا مارا گیا تو تم پھر جاؤ گے الٹے پاؤں۔}
قادیانی استدلال: یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک نبی ہیں ان سے پہلے سب نبی فوت ہوگئے ہیں۔ اب کیا اگریہ بھی فوت ہو جائیں یا مارے جائیں تو ان کی نبوت میں کوئی نقص لازم آئے گا جس کی وجہ سے تم دین سے پھر جاؤ؟ اس آیت کا ماحصل یہ ہے کہ اگر نبی کے لئے ہمیشہ زندہ رہنا ضروری ہے تو کوئی ایسا ہی پہلے نبیوں میں سے پیش کرو جو اب تک زندہ موجود ہے اور ظاہر ہے کہ اگر مسیح ابن مریم علیہ السلام زندہ ہے تو پھر یہ دلیل جو خدا تعالیٰ نے پیش کی صحیح نہیں ہوگی۔
(ازالہ اوہام ص۶۰۶، خزائن ج۳ ص۴۲۷)
جواب: ۱… ناظرین قابل غور یہ ہے کہ ترجمہ میں یہ الفاظ ’’ان سے پہلے سب نبی فوت ہو گئے ہیں۔‘‘ قرآن مجید کے کن الفاظ کا ترجمہ ہیں۔ ظاہراً معلوم ہوتا ہے کہ ’’
قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُل
‘‘ کا یہ ترجمہ کیا گیا ہے۔ مگر مرزاقادیانی براہ نوازش کسی لغت کی کتاب میں یہ تو دکھلائیں کہ ’’
خَلَتْ
‘‘ یا ’’
خَلَا
‘‘ بمعنی موت زبان عرب میں آیا بھی ہے؟ آپ اس جگہ صرف اپنے دعویٰ کی تائید میں ایسے مصروف ہوئے ہیں کہ خواہ لغت اورمحاورہ آپ کے ترجمہ کی غلطی کو صاف ظاہر کر رہا ہو۔ مگر آپ کو اس کی ذرہ پرواہ نہیں۔ اچھا صاحب اگر خلت کے معنی فوت ہو جانا ہی ہیں تو آپ اس آیت: ’’سُنَّۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ (الفتح:۲۳)‘‘ کا کیا ترجمہ کرتے ہیں؟ کیا یہی کہ وہ سنت الٰہی ہے جو تم سے پہلے فوت ہوچکی ہو؟ اگر آپ ایسا ترجمہ کریں گے تو آیت ہذا کے ساتھ ملے ہوئے الفاظ ’’
وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلً
ا‘‘ آپ کے اس ترجمہ کی سخت تکذیب کریں گے۔
پس جب آیت مستدلہ میں مرزاقادیانی کا ترجمہ ہی غلط ہے تو استدلال کی صحت کہاں رہی؟ مرزاقادیانی کے ترجمہ میں اتنے الفاظ سینہ وا ہیں تو ’’ان کی نبوت میں کوئی نقص لازم آئے گا۔‘‘ حالانکہ نہ ان الفاظ کی کچھ ضرورت تھی اور نہ کسی الفاظ قرآنی کا ترجمہ ہیں۔
ناظرین کو یہ بھی واضح ہو کہ آیت کا نزول جنگ احد میں ہوا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس جنگ میں زخمی ہوکر کشمکش کے اندر ایک غار میں گر گئے تھے۔ شیطان نے پکار دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم مارے گئے۔ یہ سنتے ہی مسلمانوں کا تمام لشکر (بجز خواص اصحاب کے) بھاگ نکلا اﷲتعالیٰ نے مسلمانوں کو سمجھایا ہے کہ تم کیا سمجھتے ہو کہ احکام شریعت کی تعمیل صرف اس وقت تک کی جاتی ہے جب تک نبی اپنی امت میں بہ نفس نفیس موجود رہے؟ یہ تمہارا خیال غلط ہے۔ ذرا خیال کرو کہ کس قدر نبی اور رسول ہوچکے ہیں۔ کیا وہ سب اپنی امت میں موجود ہیں ان کے متبعین نے اپنا دین محض اسی وجہ سے ترک کر دیا ہے؟ اور جب کسی نے بھی ایسا نہیں کیا تو کیا تم ایسا کرو گے؟ پہلے حکمت سے سمجھایا پھر تنبیہ کے لئے زجر آمیز کلمات فرمائے۔ خیال کرو اس میں وفات مسیح کی کون سی دلیل ہے؟
واضح ہو کہ ’’خلت‘‘ کا مصدر ’’
خَلَوْا
‘‘ ہے اور چند معنی میں مستعمل ہے۔ ’’جدا ہونا یا تنہا ہونا۔‘‘ چنانچہ اس آیت میں ہے۔ (۱)’’
وَاِذَا خَلَا بَعْضُہُمْ اِلٰی بَعْضٍ (البقرہ:۷۶)
‘‘ جب ایک دوسرے کے پاس سے تنہا ہوتے ہیں، یا ہوتے رہنا چنانچہ اس آیت میں ہے۔ (۲)’’
وَاِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَافِیْہَا نَذِیْرٌ (فاطر:۲۴)
‘‘ کوئی امت نہیں مگر اس میں ڈرانے والا ہوا ہے۔ (۳)’’
قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ سُنَنٌ (آل عمران:۱۳۷)
‘‘ تم سے پہلے کئی دستور ہوتے رہے ہیں۔ چلے آنا۔ چنانچہ اس آیت میں ہے۔ (۴)’’
سُنَّۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ (الفتح:۲۳)
‘‘ یہ سنت الٰہی ہے جو پہلے سے چلی آتی ہے۔ (۵)’’
وَاِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیٰطِیْنِہِمْ (البقرہ:۱۴)
‘‘ (۶)’’
وَاِذَا خَلَوْا عَضُّوْا عَلَیْکُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الْغَیْظِ (آل عمران:۱۱۹)
‘‘ (۷)’’
وَقَدْ خَلَتِ الْقُرُوْنُ مِنْ قَبْلِیْ (الاحقاف:۱۷)
‘‘ (۸)’’
تلک امۃ قد خلت (البقرۃ)
‘‘ (۹)’’
فی امم قد خلت (الاعراف:۳۸)
‘‘ (۱۰)’’
قد خلت من قبلہا امم (الرعد:۳۰)
‘‘ پس ’’
قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ
‘‘ کا صحیح ترجمہ یہ ہے۔ ’’ہوتے رہے ہیں ان سے پہلے رسول۔‘‘
یہ یاد رکھو! کہ ’’
خَلَا
‘‘ اور ’’
خَلَتْ
‘‘ لغت میں زمانہ کی صفت کے لئے آتا ہے۔ دیکھو قرون خالیہ مثلاً عرب بولتے ہیں۔ ’’
خَلَتْ یَاخَلُوْنَ مِنْ شَہْرِ رَمَضَانِ
‘‘ (رمضان کی فلاں تاریخ گزر گئی) اور اہل زمانہ کے لئے مجازاً، اور اس سے بخوبی معلوم ہوسکتا ہے کہ ’’خَلَتْ‘‘ کا سیدھا اثر رسالت پر ہے نہ رسولوں کے وجود پر لہٰذا آیت: ’’
قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ
‘‘ کا مفہوم یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی بہت رسول رسالت کر چکے ہیں۔ تبلیغ احکام رسالت کر چکنا متضمن اس امر کا نہیں کہ سب کے سب مر بھی چکے ہیں۔ گو ان میں سے اکثر مر بھی چکے ہوں۔ مثلاً (بلا تشبیہ) کوئی پرویز مشرف کو مخاطب کر کے کہے کہ آپ سے پہلے بھی جسٹس رفیق تارڑ حکومت کر چکے ہیں تو کیا اس سے یہ لازم آتا ہے کہ جسٹس رفیق تارڑ جو اب تک زندہ صحیح سالم حالت میں موجود ہیں۔ یہ سب مر بھی گئے۔
ناظرین بلاغت قرآنی سمجھنے کے لئے یہ غور کرنا چاہئے کہ ’’
خَلَتْ
‘‘ کا لفظ کیوں استعمال کیاگیا ہے۔ مقتضائے مقام اور بظاہر تناسب کلام تو یہ تھا کہ اﷲتعالیٰ یوں فرماتا: ’’
قَدْ مَاتُوْا اَوْ قُتِلُوْا مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلَ اَفَاِنْ مَاتَ اَوْقُتِلَ
‘‘ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) سے پہلے جتنے رسول تھے یا وہ مر گئے یا قتل ہوگئے۔ پھر اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی قتل ہو جائیں یا مر جائیں۔ مگر ایسا نہیں فرمایا: ’’
وللّٰہ الحجۃ البالغۃ
‘‘ وجہ یہ ہے کہ مفرورین پر حجت بھی قائم ہو جائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے رسولوں اور نبیوں کے زمان رسالت کے منقطع ہونے کی خبر بھی دی جائے اور حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام کی حیات پر دلیل بھی قائم رہی۔ ’’
اَیُّہَا النَّاس تَفَکَّرُوْا
‘‘
اس تمام بیان سے ناظرین کو معلوم ہوگیا ہوگا کہ اﷲتعالیٰ نے لشکر مسلمین پر جو دلیل قائم کی ہے۔ وہ صحیح ودرست ہے مگر جو مطلب مرزاقادیانی ان الفاظ میں ڈھونڈھتے ہیں۔ اسے پاش پاش کرنے کے لئے عرب کا لغت اور قرآن کریم کا اسلوب شمشیر بکف کھڑے ہیں۔ تعالٰی اللّٰہ عن ذلک!
جواب: ۲… پوری دنیا کے قادیانی مل کر اپنے مسلمہ تیرہ صدیوں کے مجددین کا ایک حوالہ دکھا سکتے ہیں کہ انہوں نے اس آیت سے یہی استدلال کیا ہو جو مرزا کا ہے قیامت کی صبح تک نہیں؟
کیا ’’خلت‘‘ کے معنی موت ہیں؟ اور سنو! اسی سورت میں ایک مقام پر ارشاد ہے: ’
’کَذَالِکَ اَرْسَلْنٰکَ فِیْ اُمَّۃٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہَا اُمَمٌ (الرعد:۳۰)
‘‘ {اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح بھیجا ہم نے تم کو ایک امت میں۔ ہو چکی ہیں اس سے پیشتر امتیں۔} کیا اس جگہ خلت کے معنی یہ ہیں کہ پہلی امتیں سب کی سب صفحۂ زمین سے مٹ چکی تھیں؟ ہرگز نہیں۔ یہود ونصاریٰ وغیرہ موجود تھے۔ خود قرآن میں یا اہل الکتاب اہل انجیل اہل تورات کہہ کر ان کو یاد کیاگیا ہے۔ الغرض خلت کے معنی موت لے کر وفات مسیح کو ثابت کرنا مقصود خداوندی ومنشاء محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہے ایسا ہی ’’الرسول‘‘ سے تمام رسول مراد لینا بھی تحکم ہے۔
ہاں! ہاں!! اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے سب کے سب فوت ہوچکے تھے تو مرزاقادیانی نے (نورالحق حصہ اوّل ص۵۰، خزائن ج۳ ص۶۹) پر جناب موسیٰ علیہ السلام کا آسمانوں پر زندہ ہونا اور اس پر ایمان لانا ضروری ولازمی کیسے لکھا؟
’’عیسیٰ صرف اور نبیوں کی طرح ایک نبی خدا کا ہے اور وہ اس نبی معصوم کی شریعت کا ایک خادم ہے جس پر تمام دودھ پلانے والی حرام کی گئی تھیں۔ یہاں تک کہ اپنی ماں کی چھاتیوں تک پہنچایا گیا اور اس کا خدا کوہ سینا میں اس سے ہم کلام ہوا اور اس کو پیارا بنایا۔ یہ وہی موسیٰ مرد خدا ہے جس کی نسبت قرآن میں اشارہ ہے کہ وہ زندہ ہے اور ہم پر فرض ہوگیا کہ ہم اس بات پر ایمان لائیں کہ وہ زندہ آسمان میں موجود ہے۔ ’’
ولم یمت ولیس من المیتین
‘‘ وہ مردوں میں سے نہیں۔ مگر یہ بات کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے سو ہم نے اس خیال کا باطل ہونا ثابت کر دیا ہم قرآن میں بغیر وفات عیسیٰ علیہ السلام کے کچھ ذکرنہیں پاتے۔‘‘
قادیانیو! جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے انبیاء سے موسیٰ علیہ السلام کو علیحدہ کر دیا گیا ہے وہاں مہربانی کر کے مسیح کی مسند بھی بچھی ہوئی سمجھ لیجئے۔
اعتراض:
اس جگہ موسیٰ علیہ السلام کی روحانی زندگی مراد ہے۔
الجواب: یہ کہنا کہ یہ روحانی زندگی ہے بالکل غلط ہے اور مرزاقادیانی کی تقریر کے بالکل خلاف ہے روحانی زندگی تو بعد وفات سب انبیاء کو حاصل ہے اس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کیا خصوصیت حاصل ہے۔ نیز اس کے بعد مرزاقادیانی نے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مردہ کہا تو یہ تفریق بتلارہی ہے کہ مرزاقادیانی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جسمانی زندگی سے زندہ سمجھتے تھے۔
آٹھویں آیت:
’’
وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ اَفَائِنْ مِّتَّ فَہُمُ الْخٰلِدُوْنَ (الانبیاء:۳۴)
‘‘ {اور نہیں دیا ہم نے تجھ سے پہلے کسی آدمی کو ہمیشہ کے لئے زندہ رہنا، پھر کیااگر تو مرگیا تو وہ رہ جائیں گے۔}
قادیانی استدلال: ’’اس آیت کا مدعا یہ ہے کہ تمام لوگ ایک ہی سنت اﷲ کے نیچے داخل ہیں اور کوئی موت سے نہیں بچا نہ آئندہ بچے گا اور لغت کی رو سے خلود کے مفہوم میں یہ بات داخل ہے کہ ہمیشہ ایک ہی حالت میں رہے۔ کیونکہ تغیر موت اور زوال کی تمہید ہے۔ پس نفی خلود سے ثابت ہوا کہ زمانہ کی تاثیر سے ہر ایک شخص کی موت کی طرف حرکت ہے اور پیرانہ سالی کی طرف رجوع اور اس سے مسیح ابن مریم علیہ السلام کا بوجہ امتداد زمانہ اور شیخ فانی ہو جانے کے باعث فوت ہو جانا ثابت ہوتاہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۰۷، خزائن ج۳ ص۴۲۷،۴۲۸)
جواب: ۱… مرزاقادیانی نے آٹھویں آیت یہ پیش کی ہے: ’’
وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ اَفَائِنْ مِّتَّ فَہُمُ الْخٰلِدُوْنَ
‘‘ اور بہت صحیح لکھا ہے کہ آیت کا مدعا یہ ہے کہ تمام لوگ ایک ہی سنت اﷲ کے نیچے داخل ہیں۔ نہ کوئی موت سے بچا ہے اور نہ آئندہ بچے گا۔ مگر ناظرین غور کریں ہ اس کو وفات مسیح سے کیا علاقہ ہے؟ اب رہی اس آیت سے مرزاقادیانی کی یہ وجہ استدلال کہ خلود کے مفہوم میں داخل ہے۔ ہمیشہ ایک ہی حالت میں رہنا اور نفی خلود سے ثابت ہے کہ ہر شخص کی حرکت موت کی طرف ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسیح ابن مریم علیہما السلام بوجہ امتداد زمانہ اور شیخ فانی ہو جانے کے فوت ہوگیا۔ یہ بالکل مرزاقادیانی کے مذہب کے خلاف ہے۔ امتداد زمانہ اور شیخ فانی ہو جانے کا نام وہ شخص لے سکتا ہے جس کا یہ مذہب ہو کہ مسیح علیہ السلام آسمان پر تو گئے تھے۔ مگر شیخ فانی ہوکر اور امتداد زمانہ سے ضعف ہرم وغیرہ میں آکر پھر فوت ہوگئے۔ جب آپ کا مذہب ہی یہ ہے کہ مسیح علیہ السلام آسمان پر نہیں گئے تو یہ آپ کے سینہ زار شاعرانہ الفاظ بھی آپ کی دلیل نہیں بن سکتے۔ بسم اﷲ! آپ مسیح علیہ السلام کا آسمان پر جانا تسلیم فرمائیے اور پھر یہ وجہ استدلال پیش کیجئے۔ ’’
وَاِذْ لَیْسَ فَلَیْسَ
‘‘ اب میں مرزاقادیانی سے یہ بھی دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ کوئی ایسی حد بطور کلیہ قاعدہ کے آپ کو معلوم ہے؟ کہ جب کوئی بنی آدم اس حد کو پہنچ جائے تو وہ شیخ فانی بھی ضرور ہی ہو جائے۔ شیخ فانی کے لئے حد اگر معلوم ہو تو براہ مہربانی بیان فرمائیں تاکہ درایۃً وروایۃً اس کی جانچ پڑتال کر لی جائے۔ ناظرین خوب یاد رکھیں کہ اس کا جواب مرزاقادیانی کچھ نہیں دے سکتے اور اسی لئے نہ وہ اس آیت سے استدلال ہی کرسکتے ہیں اور نہ ان کی وجہ استدلال درست ہی ہوسکتی ہے۔
جواب: ۲… قارئین زمین وآسمان کے رہنے والوں پر اثرات جداجدا مرتب ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ دونوں کے ماحول کے اثرات جدا جدا ہیں۔ زمین پر رہنے والوں کی نسبت آسمانوں پر رہنے والوں (ملائکہ) کی زندگی لمبی ہے۔ پس آسمان پر ہونے کے باعث مسیح علیہ السلام زمینی اثرات سے محفوظ ہونے کے باعث لمبی زندگی پائیں تو اس میں کوئی امرمانع نہیں۔
جواب: ۳… مسیح کے خلود کے تو مسلمان بھی قائل نہیں۔ اﷲتعالیٰ کی طرف مسیح علیہ السلام کے خلود کے مسلمان قائل ہوتے تب تو یہ آیت مانع ہوتی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے یا بعد کے کسی بھی مخلوق کے خلود کے مسلمان قائل نہیں۔ اس آیت میں خلود کی نفی ہے وجود کی نفی نہیں۔
نویں آیت:
’’
تِلْکَ اُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ لَہَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُمْ مَّا کَسَبْتُمْ وَلَا تُسْئَلُوْنَ عَمَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (البقرۃ:۱۴۱)
‘‘ {وہ ایک جماعت تھی جو گزر چکی ان کے واسطے ہے جو انہوں نے کیا اور تمہارے واسطے ہے جو تم نے کیا اور تم سے کچھ پوچھ نہیں ان کے کاموں کی۔}
قادیانی استدلال:
’’یعنی اس وقت سے پہلے جتنے پیغمبر ہوئے ہیں یہ ایک گروہ تھا جو فوت ہوگیا، ان کے اعمال ان کے لئے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لئے اور ان کے کاموں میں تم نہیں پوچھے جاؤ گے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۲۰۷، خزائن ج۳ ص۴۲۸)
جواب: ۱… نویں آیت وفات مسیح پر مرزاقادیانی نے یہ پیش کی ہے: ’’
تِلْکَ اُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ
‘‘ اس آیت کا صرف ترجمہ ہی کر گئے ہیں اور وجہ استدلال وغیرہ کچھ تحریر نہیں کی۔ ہاں! ترجمہ میں یہ الفاظ ضرور لکھ دئیے ہیں۔ یعنی اس وقت سے پہلے جتنے پیغمبر ہوئے ہیں یہ ایک گروہ تھا جو فوت ہوگیا۔
ناظرین! آپ بخوبی اور بآسانی معلوم کر سکتے ہیں کہ مرزاقادیانی کے یہ الفاظ ’’اس وقت سے پہلے جتنے پیغمبر ہوئے ہیں۔‘‘ کن الفاظ کا ترجمہ ہے۔ غالباً ’’تِلْکَ‘‘ کا ترجمہ ہے یہ جو اسم اشارہ ہے اب اگر تم اس کا مشار الیہ معلوم کرنا چاہتے ہو تو قرآن شریف کھول کر دیکھ لیجئے کہ کون کون سے نام اس سے پہلے آیت میں آچکے ہیں۔ (اس سے پہلی آیت کی تخصیص ہم نے اس لئے کر دی ہے کہ ’’تِلْکَ‘‘ اشارہ قریب کے لئے ہے) ناظرین دیکھیں کہ اس سے پہلی آیت یہ ہے: ’’
اَمْ تَقُوْلُوْنَ اِنَّ اِبْرَاہِیْمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطَ کَانُوْا ہُوْدًا اَوْ نَصٰرٰی قُلْ ئَ اَنْتُمْ اَعْلَمُ اَمِ اللّٰہ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَتَمَ شَہَادَۃً عِنْدَہٗ مِنَ اللّٰہِ وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ تِلْکَ اُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ (البقرہ:۱۴۰،۱۴۱)
‘‘ تم کیا کہتے ہو کہ ابراہیم اور اسماعیل اور اسحق ویعقوب اور ان کی اولاد یہودی یا نصاریٰ تھے۔ کہہ دیجئے تم زیادہ جانتے ہو یا خدا، اور اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو شہادت کو چھپاتا ہے جو اس کے پاس اﷲ کی طرف سے ہے اور اﷲ تمہارے عملوں سے بے خبر نہیں۔ یہ ایک امت تھی جو گزر چکی۔ خلت کے لفظ پر بحث ساتویں آیت میں ہوچکی ہے۔ اعجاز قرآن ہے کہ آیت میں عیسیٰ کا نام نہیں۔
جواب: ۲… سیدنا مسیح علیہ السلام کے رفع کے لئے چونکہ تخصیص منقولی ثابت ہوچکی ہے اس لئے اب عموم کی آیت سے استدلال قادیانی دجل کا شاہکار ہے۔ وہ مسیح علیہ السلام کے نام کے ساتھ واضح صریح موت کا لفظ وہ بھی بصیغۂ ماضی جب تک نہ دکھائیں ان کا مدعا ہرگز ثابت نہیں ہوتا۔
دسویں آیت:
’’
وَاَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِ مَا دُمْتُ حَیًّا وَّبَرًّا بِوَالِدَتِیْ (مریم:۳۱،۳۲)
‘‘ {اور تاکید کی مجھ کو نماز کی اور زکوٰۃ کی جب تک میں رہوں زندہ اور سلوک کرنے والا اپنی ماں سے۔}
قادیانی استدلال: ’’اب ظاہر ہے کہ ان تمام تکلیفات شرعیہ کا آسمان پر بجالانا محال ہے اور جو شخص مسیح علیہ السلام کی نسبت یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ وہ زندہ مع جسدہٖ آسمان کی طرف اٹھایا گیا۔ اس کو اسی آیت موصوفہ بالا کے منشاء کے مطابق یہ بھی ماننا پڑے گا کہ تمام احکام شرعی جو انجیل اور توریت کی رو سے انسان پر واجب العمل ہوتے ہیں وہ حضرت مسیح علیہ السلام پر اب بھی واجب ہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۴۳۶، خزائن ج۳ ص۳۳۱)
الجواب: ۱… کسی نے سچ کہا ہے کہ ’’خوئے بدرا بہانہ ہائے بسیار۔‘‘ کسی بھوکے سے پوچھا گیا دو اور دو کتنے ہوتے ہیں۔ وہ جھٹ بولا چار روٹیاں۔ ٹھیک یہی مثال مرزائیوں کی ہے۔ کہاں صاف وصریح آیات قرآنیہ جن میں بالفاظ صریح حیات مسیح کا مذکور ہے اور کہاں مرزائیوں کی یہ یہودیانہ کھینچ تان۔
اے جناب! اگر یہ ضروری ہے کہ اس آیت کی رو سے مسیح تمام زندگی بھر زکوٰۃ وغیرہ دیتے رہیں اور ضرور ہی اس کام کے لئے ان کی جیب روپوں سے بھری رہے تو جب یہ الفاظ مسیح نے کہے تھے یعنی پیدائش کے پہلے دن (ص۲۸ پاکٹ بک مرزائی) اس وقت بھی تو وہ زندہ تھے۔ فرمائیے ان کی جیب میں کتنے سوپونڈ موجود تھے اور کون کون شخص زکوٰۃ ان سے وصول کیاکرتے تھے۔ نیز یہ بھی فرمائیے کہ وہ ان دنوں کتنی نمازیں روزانہ ادا کیا کرتے تھے اور گواہ کون ہے۔
فما جوابکم فہو جوابنا!
ناظرین شروع میں کسی کام کا حکم ہونا یہ معنی نہیں رکھتا کہ ہر وقت، دن رات، سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے اس پر عمل کرتے رہیں بلکہ ہر نکتہ مکانے دارد کے تحت ہر کام کا وقت اور اس کی حدود قائم ہیں۔ نماز بعد بلوغت فرض ہوتی ہے اور زکوٰۃ بعد مال۔ جب تک مسیح بچے تھے، نماز فرض نہ تھی۔ بالغ ہوئے حکم بجالائے جب مال ہوتا زکوٰۃ دیتے۔ اب آسمان پر مال دنیاوی ہے ہی نہیں۔ زکوٰۃ کیونکر دیں۔ پھر اور سنو! حدیث میں آیا ہے کہ نبیوں کا دین واحد ہے۔ بدیں لحاظ موسیٰ علیہ السلام پر بھی زکوٰۃ فرض ہے۔ بتلائیے آسمانوں پر جب وہ زندہ ہیں تو زکوٰۃ کسے دیتے ہیں اور روپیہ ان کے پاس کس قدر ہے؟
جواب: ۲… مرزاقادیانی کا یہ بیان سقم اور غلطیوں سے بھرا ہوا ہے۔ اس آیت سے وفات مسیح پر مرزاقادیانی کی وجہ استدلال ’’ازالہ اوہام‘‘ میں یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے تاحیات خود صلوٰۃ اور زکوٰۃ کا ادا کرنا فرائض میں شمار کیا ہے۔ اگر وہ زندہ ہیں تو ان کا زکوٰۃ دینا ثابت کرو۔ ورنہ وہ مردہ ہیں۔ اس تقریر میں متانت مثیلیت اور وقار مہدویت کو بالائے نفاق رکھ کر مرزاقادیانی نے شوخانہ استہزاء بھی کیا ہے اور دریافت کیا ہے کہ آسمان پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام زکوٰۃ کہاں سے دیتے ہوں گے اور کون لیتا ہوگا؟
واضح ہو! کہ کل نبیوں پر جیسا کہ زکوٰۃ کا لینا حرام ہے۔ ویسا ہی دینا بھی حرام ہے۔ ’’
فقال لہم عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم انشدکم باللّٰہ الم تعلموا ان رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ان کل مال النبی صدقۃ الاما اطعمہ اہلہ اوکساہم
‘‘ (کنزالعمال ج۱۲ ص۴۵۱، حدیث نمبر:۳۵۵۴۲)
’’یعنی عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم نے کہا تمہیں اﷲ کی قسم کیا تم نہیں جانتے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ نبی کا مال سب صدقہ ہوتا ہے مگر جس قدر اپنے اہل کو کھلائے پہنائے۔‘‘ کیونکہ ان کا کل مال خدا کی راہ میں وقف ہوتا ہے۔ اب رہا یہ امر کہ ’’
اَوْصَانِیْ
‘‘ کیوں کہا یہ بطور تعلیم ارکان شریعت کے ہے۔ کیونکہ جب فرمایا: ’’
اتٰنِیَ الْکِتٰبَ وَجَعَلْنِیْ نَبِیًّا
‘‘ خدا نے مجھے کتاب دی اور نبی بنایا تو ساتھ ہی اپنی شریعت کے ارکان بھی ظاہر کردئیے۔ (۲)زکوٰۃ سے مراد اس جگہ زکوٰۃ مال نہ ہو بلکہ زکوٰۃ نفس ہو۔ قرینہ اس پر روح القدس کا حضرت مریم کو کہنا ہے ’’
لِاَہَبَ لَکِ غُلَامًا زَکِیًّ
ا‘‘ ظاہر ہے کہ اس جگہ ’’
زکیّا
‘‘ کے معنی زکوٰۃ مال نکالنے والا نہیں بلکہ صاف زکوٰۃ وطہارت ہیں۔
بیضاوی میں ہے: ’’
وَاَوْصَانِیْ وامرنی بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِ زَکٰوۃ الْمَالِ اِنْ ہَلَکَتْہُ اَوْتَطْہِیْرُ النفس عن الرزائل
‘‘ زکوٰۃ سے زکوٰۃ مال مراد ہے کہ جب صاحب نصاب ہوں ورنہ نفس کو رزائل سے پاک صاف رکھنا بھی زکوٰۃ ہے۔
اﷲتعالیٰ نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کے حق میں فرمایا ہے: ’’
وَاٰتَیْنٰہُ الْحُکْمَ صَبِیًّا وَّحَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَزَکٰوۃً (مریم:۱۲،۱۳)
‘‘ {ہم نے اس کو لڑکپن ہی میں حکم، نرم دلی اور پاکیزگی عنایت کی۔} یہاں لفظ زکوٰۃ خصوصیت سے بمعنی پاکیزگی ہے۔
جواب: ۳… زکوٰۃ تو اہل نصاب پر فرض ہے۔ اگر مرزاقادیانی حضرت مسیح علیہ السلام کا اس دنیا پر زکوٰۃ دینا ثابت کردیں تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ مسیح علیہ السلام کا آسمان پر زکوٰۃ دینابھی ثابت کردوں گا۔
جواب: ۴… مرزاقادیانی کی اس بیان میں دوسری غلطی یہ ہے کہ ان کو انجیلی طریق پر نماز پڑھنے کی وصیت کی گئی تھی۔ ’’وہ عیسائیوں کی طرح نماز پڑھتے ہیں۔‘‘ اس غلطی کا منشاء یہ ہے کہ ان کو معنی نبوت معلوم نہیں۔ امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ (جن کی قرآن دانی اور اسرار فہمی کی توصیف مرزاقادیانی نے ازالہ میں کی ہے) کا مذہب یہ ہے کہ قاضی کا فیصلہ ظاہر اور باطن پر یکساں ہوتا ہے۔ مگر آپ تو نبوت کو بھی ظاہر اور باطن کے لئے نہیں سمجھتے۔ ہمارے سید ومولیٰ حضرت محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح تمام کافہ ناس کی طرف مبعوث ہوئے ہیں۔ اسی طرح جن وملک کی طرف بھی۔ کوئی ذوی العقول متنفس ایسا نہیں۔ خواہ وہ نبی ہو یا غیر نبی۔ جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام اور شرائع ومناہج کی پیروی واطاعت فرض نہ ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے بعد سابقہ شرائع واحکام پر چلنا حرام نہ ہوگیا ہو۔ پس جب حالت یہ ہے تو آپ کا یہ خیال کرنا کہ اب وہ انجیلی طریق پر نماز پڑھتے ہیں اور نزول کے بعد برخلاف وصیت مسلمانوں کی طرح پڑھیں گے۔ معنی رسالت کے نہ سمجھنے ہی پر محمول ہو سکتا ہے۔ مرزاقادیانی… دیکھئے! اﷲتعالیٰ کیا فرماتا ہے: ’’
وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیِّیْنَ لَمَا اٰتَیْتُکُمْ مِنْ کِتَابٍ وَحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَائَ کُمْ رَسُوْلٌ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ (آل عمران:۸۰)
‘‘ {جب خدا نے نبیوں سے اقرار لیا کہ جو کچھ میں نے تم کو کتاب اور حکمت دی ہے۔ پھر جب تمہاری طرف رسول موعود آئے جو تمہاری سچائی ظاہر کرے گا تو تم ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور اس کی مدد کرنا۔}
اب سمجھ لو کہ مسلمانوں کی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نماز پڑھنا برخلاف وصیت نہیں بلکہ موافق میثاق ازلی ہے۔ اس معنی کی طرف ’’صحیح مسلم‘‘ کی حدیث عن ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم میں اشارہ ودلالت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے موسیٰ، عیسیٰ، ابراہیم علیہم السلام کا امام بن کر نماز پڑھائی۔
جواب: ۵… تیسری غلطی اس بیان میں مرزاقادیانی کی یہ ہے کہ: ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام نماز پڑھتے ہوں گے اور حضرت یحییٰ علیہ السلام پاس پڑے رہتے ہوں گے۔ مردہ جو ہوئے۔‘‘ یہ غلطی بھی درجۂ انبیاء سے عدم معرفت کی وجہ سے ناشی ہوئی ہے۔ شاید آپ کو معلوم نہیں کہ گو مر جانے کے بعد تکلیف احکام سے انسان سبکدوش ہو جاتا ہے۔ مگر انبیاء علیہم السلام جن کے جسم میں عبادت الٰہی بمنزلہ روح کے ہے۔ جن کے دل میں محبت ربانی بجائے حرارت غریزی کے ہے۔ وہ مر جانے کے بعد بھی طاعات میں مشغول رہا کرتے ہیں۔ (صحیح مسلم ج۱ ص۹۵، باب الاسراء) کی حدیث عن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم میں ہے۔ جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ اور مدینہ کے درمیان وادی ازرق میں پہنچے تو فرمایا میں نے اس وادی میں موسیٰ علیہ السلام کو کانوں میں انگلیاں دئیے۔ لبیک لبیک پکارتے۔ گزرتے دیکھا ہے جب ہر شی میں پہنچے تو فرمایا میں نے یونس علیہ السلام کو جبہ صوف (لباس احرام) پہنے، اونٹنی پر سوار اس وادی سے گزرتے دیکھا ہے۔ (صحیح مسلم ج۱ ص۹۶، باب الاسراء) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی حدیث میں حضرت ابراہیم وحضرت موسیٰ علیہما السلام کا نماز پڑھنا ثابت ہے۔ اس سے واضح ہوا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام بھی پڑے ہی نہیں رہتے بلکہ وہ بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح نماز پڑھا کرتے ہیں۔ مگر سیدنا یحییٰ علیہ السلام پر موت کا عمل واقع ہوچکا۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام پر موت کا عمل نزول کے بعد ہوگا۔
ناظرین! بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہ آیت بھی مرزاقادیانی کے دعویٰ کے لئے کچھ مفید نہیں اور آیت کو وفات مسیح سے ذرا تعلق نہیں۔ نیز دعویٰ اثبات وفات مسیح کے علاوہ دیگر زوائد جو مرزاقادیانی نے لکھے تھے ان کا ایک حرف بھی صحیح نہیں۔
گیارھویں آیت:
’’
وَالسَّلٰمُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُ وَیَوْمَ اَمُوْتُ وَیَوْمَ اُبْعَثُ حَیًّا (مریم:۳۳)
‘‘ {اور سلام ہے مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں اور جس دن اٹھ کھڑا ہوں زندہ ہوکر۔}
قادیانی استدلال:
’’اس آیت میں واقعات عظیمہ جو حضرت مسیح علیہ السلام کے وجود سے متعلق تھے۔ صرف تین بیان کئے گئے ہیں۔ حالانکہ اگر رفع اور نزول واقعات صحیحہ میں سے ہیں تو ان کا بیان بھی ہونا چاہئے تھا۔ کیا نعوذ باﷲ رفع اور نزول حضرت مسیح علیہ السلام کا مورد اور محل سلام الٰہی نہیں ہونا چاہئے تھا؟ سو اس جگہ پر خداتعالیٰ کا اس رفع اور نزول کو ترک کرنا جو مسیح ابن مریم علیہ السلام کی نسبت مسلمانوں کے دلوں میں بسا ہوا ہے۔ صاف اس بات پر دلیل ہے کہ وہ خیال ہیچ اور خلاف واقعہ ہے بلکہ وہ ’’رفع یوم اموت‘‘ میں داخل ہے اور نزول سراسر باطل ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۶۰۸، خزائن ج۳ ص۴۲۸)
تنقیح اشکال:
مرزاقادیانی لکھتے ہیں: اس آیت میں واقعات عظیمہ جو حضرت مسیح علیہ السلام کے وجود کے متعلق تھے صرف تین بیان کئے گئے ہیں۔ حالانکہ اگر رفع اور نزول واقعات صحیحہ میں سے ہیں تو ان کا بیان بھی ضروری تھا۔ کیا نعوذ باﷲ رفع اور نزول حضرت مسیح کا مورد اور محل سلام الٰہی کا نہیں ہونا چاہئے تھا۔
الجواب: ۱… مرزاقادیانی کے ان فقرات کو باربار حیرت اور تعجب سے دیکھئے کہ وہ اسرار دانی اور قرآن فہمی کہاں ہے؟ کیا کسی شئے کا کسی جگہ مذکور نہ ہونا اس کے عدم وجود کی بھی دلیل ہوسکتی ہے؟ صحیحین بلکہ صحاح ستہ میں بیسیوں ایسی احادیث ملیں گی کہ سائل نے آکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام کا سوال کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان ارکان میں کبھی کلمہ شہادت، کبھی زکوٰۃ کبھی حج کو بیان نہیں فرمایا تو کیا مرزاقادیانی مجرد ان احادیث پر اکتفاء کر کے ان ارکان اسلام کے رکن ہونے سے انکار کر جائیں گے؟ اگر نہیں تو یہاں بھی وہی عمل کریں۔
جواب: ۲… مرزاقادیانی کو یاد کرنا چاہئے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا یہ کلام اس وقت کا تھا۔ جب مریم صدیقہ علیہا السلام ان کو جن کر گود میں لے کر قوم میں آئی تو کیا ضرور ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام اسی وقت اپنی زندگی کے مفصلانہ کل واقعات عظیمہ سے واقف بھی کئے گئے ہوں بلکہ قرآن کریم اس امر کا شاہد صادق ہے کہ ’’
رَفَعَ
‘‘ کی خبر حضرت کو حالت نبوت میں دی گئی تھی۔ ’’
یَا عِیْسٰی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ
‘‘ مرزاقادیانی کو بھی تسلیم ہے کہ مسیح علیہ السلام کو جب یہود نے گھیرا تو اس وقت یہ آیت: ’’
رافعک
‘‘ اتری۔ (سراج منیر ص۴۱، خزائن ج۱۲ ص۴۳)
’’والسلام علی یوم ولدت ویوم اموت‘‘ عیسیٰ علیہ السلام والدہ مریم کی گود میں تھے،۔ اس وقت کی کلام ہے۔ پس رفع کا وعدہ بعد میں ہوا۔ اس لئے اس وقت اس کا ذکر کیسے فرماتے؟
جواب: ۳… حقیقت یہ ہے کہ: ’’
سَلَامٌ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُ وَیَوْمَ اَمُوْتُ
‘‘ اسی قبیل کا جملہ ہے جیسے ’’
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ اولہ واخرہ یا بِسْمِ اللّٰہ اولہ واخرہ
‘‘ جو ابتداء سے لے کر آخر تک کی تمام حالتوں پر شامل ہے اب اگر ان فقرات پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاتا تو ’’
سَلَامٌ عَلَیَّ
‘‘ پر کیوں ہے؟ ہمارے نزدیک رفع اور نزول حضرت مسیح علیہ السلام دونوں مورد اور محل سلام الٰہی کے ہیں اور اسی لئے دو سلامتیوں کے اندر اور وسط میں واقع ہوئے ہیں۔ ہاں! مرزاقادیانی جو ان الفاظ کا درمیانی واقعات پر اثر انداز نہ ہونا تسلیم کرتے ہیں ان کو اس امر کا ضرور جواب دینا چاہئے کہ جب بقول ان کے مسیح علیہ السلام پر سولی لٹکائے گئے۔ ان کے ہاتھوں اور پاؤں میں میخیں ٹھونکی گئیں اور ان اذیتوں اور تکلیفوں کے بعد دروازۂ مرگ پر پہنچ کر پھر وہ بیچ رہے تو کیا ان کی یہ جان بری مورد اور محل سلام الٰہی کا نہ تھی؟ کیا مسیح علیہ السلام کا صحیح وسلامت رہنا ربانی سلامتی کے بغیر تھا؟ اگر ایسے دشمنوں کے نرغہ میں سے ایسے برصلیب کشیدہ کے سلامت رہنے کو تم سلام الٰہی تسلیم نہیں کرتے تو اور کسے کرو گے؟ لیکن اگر تسلیم کرتے ہو تو بتاؤ کہ آیت میں ایسی نہایت ہی حیرت بخش جان بری اور ایسی آفت کے بعد سلامتی کا ذکر کیوں نہیں؟
جواب: ۴… واقعتا اگر تمام اہم واقعات کا تذکرہ اسی آیت میں منحصر قرار دے کر قادیانی استدلال (بروفات مسیح) ہو رہا ہے تو پھر ان واقعات بے مثل کا ذکر ہونا یعنی واقع رفع ونزول سے بھی اہم تھا۔ کیونکہ رفع الیٰ السماء کی مثال تو بعض سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج جسمانی اور نیز آمدورفت ملائکہ معہود تھی۔ مگر تمہاری مزعومہ صلیب وہجرت الیٰ دیار الغریبہ بلا اظہار عظمت وشان نبی کی مثال تاریخ رسالت میں موجود نہیں۔ لہٰذا ان واقعات کا ذکر ہونا لازم تھا تو جب تمہارے واقعات غیرمعہودہ کا تذکرہ تمہارے ہاں باعث اشکال نہیں تو ہمارے مسلمہ اور معہودہ واقعات (رفع ونزول) کا عدم ذکر کیسے محل استعجاب ہے؟ حالانکہ ہمارے اعتقاد کی جملہ تفصیلات بے شمار نصوص وحدیثہ اور اجماع امت کے تحت مذکور بھی ہیں۔ بلکہ خود نص میں اس آیت سے ذرا قبل بھی معہود ہے۔ ’’کما قال حاکیا عن المسیح وجعلنی مبارکًا اینما کنت‘‘ گویا جس امر کو تم طلب کر رہے ہو کہ یہ بھی ہونا چاہئے تھا وہ ان امور ثلاثہ سے پہلے بیان کر دیا گیا ہے۔ ’’فللّٰہ الحمد‘‘
بارھویں آیت:
’’
وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰی وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰی اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِکَیْلَا یَعْلَمَ مِنْ بَعْدِ عِلْمٍ شَیْئًا (الحج:۵)
‘‘ {اور کوئی تم میں سے قبضہ کر لیا جاتا ہے اور کوئی تم میں سے پھر چلایا جاتا ہے نکمی عمر تک۔ تانکہ سمجھنے کے پیچھے کچھ نہ سمجھنے لگے۔}
قادیانی استدلال:
’’اس آیت میں خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ سنت اﷲ دو ہی طرح سے تم پر جاری ہے بعض تم میں سے عمر طبعی سے پہلے ہی فوت ہو جاتے ہیں اور بعض عمر طبعی کو پہنچتے ہیں۔ یہاں تک کہ ارذل عمر کی طرف رد کئے جاتے ہیں اور اس حد تک نوبت پہنچتی ہے کہ بعد علم کے نادان محض ہو جاتے ہیں۔ یہ آیت بھی مسیح ابن مریم علیہ السلام کی موت پر دلالت کرتی ہے۔ کیونکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان اگر زیادہ عمر پائے تو دن بدن ارذل عمر کی طرف حرکت کرتا ہے۔ یہاں تک کہ بچے کی طرح نادان محض ہوجاتا ہے اور پھر مر جاتا ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۰۸،۶۰۹، خزائن ج۳ ص۴۲۹)
الجواب: ۱… ناظرین کو واضح ہو کہ یہ آیت مرزاقادیانی کی تب دلیل ہے۔ جب وہ مسیح علیہ السلام کا زیادہ عمر پانا تسلیم کر لیں۔ مگر اس کے ساتھ ’’
رَفَعَ اِلَی السَّمَاء
‘‘ بھی ملا ہوا ہے۔ لہٰذا یہ بھی مرزاقادیانی کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ مرزاقادیانی کو لازم ہے کہ وہ ایک حد قراردیں کہ جب عمر کے فلاں سال تک کوئی انسان پہنچے گا تو وہ ضرور ہی ارذل عمر میں داخل ہو جائے گا۔ قرآن کریم تو اس امر پر شاہد ناطق ہے کہ:
الف… حضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو برس تک دعوت کی۔ نبوت حاصل ہونے سے پہلے کی عمر اور دعوت کے بعد طوفان آنے اور بعد از طوفان آپ کے زندہ رہنے کی عمر ان ساڑھے نو صدیوں کے علاوہ ہے۔ پھر رب کریم کا یہ کلام پاک ہم کو یہ بھی بتاتا ہے کہ سینکڑوں سالوں کے وہ تغیرات وانقلابات (جن سے قومیں مفقود ہو جاتی ہیں۔ خرابہ آباد اور آباد خرابہ بن جاتے ہیں۔ سلطنتیں بدل جاتی ہیں۔ بولیاں تبدیل ہو جاتی ہیں) بعض جسموں پر اسی طبقۂ ارض کی موجودگی کی حالت میں اتنا اثر بھی نہیں ڈال سکتے کہ وہ اتنا بھی معلوم کر لیں کہ اس طبقۂ ارض پر اور اس حصہ ملک میں کبھی کوئی تغیر آیا بھی تھا؟ اور کسی قسم کا انقلاب ہوا بھی تھا یا نہیں؟ وہ سینکڑوں برسوں کا ممتد زمانہ اور دراز عرصہ ان کی نگاہ میں ایسا قلیل نظر آیا کرتا ہے کہ یہ خاصان خدا اسے ’’
یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ
‘‘ سے تعبیر کیا کرتے ہیں۔ کیا مرزاقادیانی کے نزدیک یہ بیانات ہدایت اور نور نہیں ہیں؟ کیا انسان ضعیف البنیان کو اختیار دیاگیا ہے کہ وہ تحکم کی راہ سے یہ قرار دے کہ جو کچھ آج کل ہورہا ہے رب کریم نے نہ کبھی اس سے تجاوز فرمایا ہے اور نہ فرمائے گا۔ کیا:
ب… ان کو لقمان ذوالنثور کا حال معلوم نہیں۔ جس کی عمر دوہزار سال کی تھی۔ کیا:
ج… ان کو عمر معدیکرب کی تاریخ پر نظر ہے۔ جو دوسو پچاس سال کی عمر میں ایرانیوں کے بیسیوں جنگ آزما، عربدہ جو فیلوں کو تلوار سے کاٹ کاٹ کر پھر شہید ہوا تھا؟ کیا مرزاقادیانی کا حق ہے کہ وہ ارزل عمر کی بھی حد سنین کا تعین کر کے اپنی طرف سے خود ہی مقرر کر دیں۔ ’’
اِتَّقُوْا اللّٰہَ اَیُّہَا النَّاس
‘‘
جواب: ۲… زمین پر مرور زمانہ کے اثرات جدا ہوتے ہیں۔ آسمانوں پر ان کو قیاس کرنا حماقت ہے۔ انسانوں سے ملائکہ اور ابلیس کی زندگی کا موازنہ کرنا حماقت ہے تو زمین والوں اور آسمان والوں کی زندگی کا موازنہ کرنا بھی درست نہیں۔ اس لئے بھی استدلال باطل ہے۔
جواب: ۳… دوسرے نطفہ انسان کی یہ صفت ہے کہ وہ عمر کی درازی سے ضعیف ہو جاتا ہے۔ یعنی مادی ہونے کے باعث زمین کی تاثیرات سے متاثر ہوکر ضعیف ہو جاتا ہے۔ مگر آسمان کی تاثیرات ایسی ہیں کہ اجرام فلکی کا بدل ماتجل ساتھ ہی ساتھ ہوتا جاتا ہے اور وہ ضعیف نہیں ہوتے۔ پس مسیح علیہ السلام بھی تاثیرات فلکی سے ارذل عمر کے ضعف سے بچے ہوئے ہیں۔ جیسا کہ مشاہدہ ہے کہ فرشتے، ستارے، آفتاب، مہتاب وغیرہ ایک ہی حالت پر رہتے ہیں۔ لہٰذا حضرت مسیح علیہ السلام بھی آسمان پر درازی عمر سے نکمے نہیں ہوسکتے اور نہ زمین کی آب وہوا کی طرح آسمان کی آب وہوا ہے کہ مسیح علیہ السلام کو ارذل عمر ملے اور چونکہ مسیح علیہ السلام کی پیدائش نفخ روح سے تھی اور روح درازی عمر سے ضعیف اور ارذل نہیں ہوتی۔ اس لئے مسیح علیہ السلام کے واسطے ارذل عمر کا ضعف لازم بھی نہیں۔ کیونکہ وہ روح مجسم تھے۔ صرف وہ جسم ضعیف وارذل ہوتا ہے جو نطفہ امشاج وغیرہ کی ترکیب سے بنایا جاتا ہے۔
جواب: ۴… حدیث شریف میں ہے کہ: ’’
رأیت عیسٰی بن مریم علیہ السلام شابا
‘‘
(مسند احمد ج۱ ص۳۷۴، کنزالعمال ج۵ ص۳۲۲، ج۶ ص۳۰۷، الخصائص ج۲ ص۸)
یعنی حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو جوان دیکھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں کہ مسیح علیہ السلام جوان ہیں مگر مرزاقادیانی کہتا ہے کہ بوڑھے ہوگئے۔ قادیانی بتائیں ان دو اقوال سے کن کا قول سچا؟
جواب: ۵… جب خداتعالیٰ قرآن مجید میں حضرت مسیح علیہ السلام کے حق میں فرماتے ہیں کہ وہ نہ صلیب دئیے گئے اور نہ قتل کئے گئے۔ بلکہ اﷲ نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا تو کیا وہ قادر مطلق ان کو انسانی ارذل عمر اور ضعف پیری سے ایسا ہی مستغنی نہیں کر سکتا جیسا کہ ان کو ان کی ولادت میں قانون فطرۃ عامہ سے مستثنیٰ کر دیا تھا کہ بغیر نطفۂ مرد کے پیدا کیا۔ دیکھو اصحاب کہف کا قصہ کہ ۳۰۹برس سوتے رہے۔ نہ بھوک لگی نہ پیاس جب خود بیدار ہوئے تب بھوک محسوس ہوئی اور ان کے جسم میں کسی طرح کا تغیر بھی پیدا نہ ہوا تھا اور حضرت عزیر علیہ السلام کا قصہ پڑھو کہ سو برس کے بعد زندہ کئے گئے۔ بیضاوی شریف میں لکھا ہے کہ جب اپنے گھر لوٹ کر آئے تو آپ جوان تھے اور ان کی اولاد بوڑھی تھی۔ ’’
اذا رجع الٰی منزلہ کان شابا واولادہ شیوخًا
‘‘ (بیضاوی ج۱ طبع مجتبائی ص۱۶۸)
اور (مستدرک ج۲ ص۲۸۲) میںحدیث علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم میں ہے کہ سب سے پہلے ان کی آنکھیں پیدا کی گئیں۔ وہ اپنی ہڈیوں کو گوشت پہناتے اور پیدا ہوتے ہوئے دیکھتے تھے اور اسی قصہ میں خداتعالیٰ فرماتے ہیں: ’’
فَانْظُرْ اِلٰی طَعَامِکَ وَشَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہ (البقرۃ:۲۵۹)
‘‘ یعنی {دیکھ اپنے کھانے اور پانی کو کہ وہ سو برس کی مدت تک سڑے نہیں۔} افسوس جب اسی جگہ یہ قدرت کے کرشمے دکھلائے گئے اور ہم کو قرآن میں سنائے گئے تو مومن قرآن کے دل میں تو یہ شبہ ہی نہیں آسکتا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اتنی عمر پاکر بالکل نکمے ہو جائیں گے۔ وہ آکر کیا خدمت کریں گے۔ الٹا ہم سے خدمت لیں گے۔ معاذ اﷲ! حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی درازی عمر سے کیوں گھبراتے ہو ’’عوج بن عنق‘‘ کی عمر ۳ہزار کے قریب تھی۔ (مطلع العلوم ص۳۰۸)
جواب: ۶… ایک مناظرہ میں قادیانی کو ایک مسلمان مناظر نے جواب دیا کہ مسیح کے بوڑھے ہونے کی بات وہ کرے جس نے مسیح علیہ السلام کو رشتہ دینا ہو۔ اس پر مرزائی بہت سٹ پٹائے تو مولوی صاحب نے فوراً کہا کہ رشتہ کے چکر میں نہ پڑنا۔ ورنہ ’’یتزوج ویولد‘‘ شادی کریں گے اولاد ہوگی۔ اس میں بھی پھنس جاؤ گے۔ اس پر قادیانیوں کے اوسان خطا ہو گئے۔
’’
وَلَکُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰی حِیْنٍ قال فیہا تحیون وفیہا تموتون (البقرۃ:۳۶)
‘‘ {اور تمہارے واسطے زمین میں ٹھکانہ ہے اور نفع اٹھانا ہے ایک وقت تک۔}
قادیانی استدلال:
’’یعنی تم اپنے خاکی جسم کے ساتھ زمین پر ہی رہو گے۔ یہاں تک کہ اپنے تمتع کے دن پورے کر کے مر جاؤ گے۔ یہ آیت جسم خاکی کو آسمان پر جانے سے روکتی ہے۔ کیونکہ ’’
لَکُمْ
‘‘ جو اس جگہ فائدہ تخصیص کا دیتا ہے اس بات پر بصراحت دلالت کر رہا ہے کہ جسم خاکی آسمان پر نہیں جاسکتا بلکہ زمین سے ہی نکلا اور زمین میں ہی رہے گا اور زمین میں ہی داخل ہوگا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۰۹، خزائن ج۳ ص۴۲۹)
الجواب: ۱… خاص دلائل سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات ثابت ہوچکی ہے اور علم اصول میں مقرر ومسلم ہے کہ خاص دلیل عام پر مقدم ہوتی ہے اور ان دونوں کے مقابلے میں دلیل خاص کا اعتبار کیا جاتا ہے۔ اس کے نظائر قرآن مجید میں بکثرت موجود ہیں۔ مثلاً عام انسانوں کی پیدائش کی نسبت فرمایا: ’’
اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُطْفَۃٍ اَمْشَاج (الدھر:۲)
‘‘ یعنی {انسانوں کو ملے ہوئے نطفے سے پیداکیا۔} اور اس کے برخلاف حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوّا علیہا السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت خاص دلائل سے معلوم ہے کہ ان کی پیدائش بایں طور نہیں ہوئی۔ پس ان کے متعلق دلیل خاص کا اعتبار کیا گیا ہے اور دلیل عام کو ان کی نسبت چھوڑ دیا گیا ہے۔
جواب: ۲… فرشتوں کی جائے قرار اصلی اور طبعی طور سے آسمان ہیں۔ مگر وہ عارضی طور پر کچھ مدت کے لئے زمین پر بھی رہتے ہیں۔ مسیح علیہ السلام عارضی طور پر اب آسمانوں پر ہیں۔
ناظرین دیکھیں! ترجمہ میں جسم خاکی اور ’’مرجاؤ گے‘‘ کن الفاظ کا ترجمہ ہے۔ مرزاقادیانی ’’
لکم
‘‘ کو مفید تخصیص جانتے ہیں اور قرآن مجید کا سیاق کلام شاہد ہے کہ آیت کے مخاطب ابلیس وآدم وحوّا ہیں۔ چنانچہ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے: ’’
فَاَزَلَّہُمَا الشَّیْطٰنُ عَنْہَا فَاَخْرَجَہُمَا مِمَّا کَانَا فِیْہِ وَقُلْنَا اہْبِطُوْا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدَوٌّ وَلَکُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ اِلٰی حِیْن (البقرہ:۳۶)
‘‘ {پس شیطان نے آدم وحوّا دونوں کو پھسلا دیا اور بہشت سے جہاں وہ رہتے تھے ان دونوں کو نکال دیا اور ہم نے کہا تم اترو۔ بعض تمہارے بعض کے دشمن ہیں اور تمہارے لئے زمین میں ٹھکانا اور فائدہ ہے ایک وقت تک۔} ’’
اَزَلَّہُمَا
‘‘ میں تثنیہ ہے اور ذکر شیطان کے بعد ضمائر جمع ’’
لَکُمْ
‘‘ کو جو ضمیر خطاب ہے۔ جب مفید تخصیص مرزاقادیانی تسلیم کر چکے تو پھر ان کا مخاطبین کے سوا اوروں سے مراد لینا ان کی تسلیم کے خلاف ہے۔
جواب: ۳… بالفرض اگر آیت کے یہ معنی ہیں کہ مخاطبین زمین سے اٹھ کر آسمان پر نہ جاسکیں تو یہ کہاں سے مرزاقادیانی نے نکال لیا کہ جو لوگ خطاب کے وقت ہنوز کتم عدم میں مستور تھے۔ وہ بھی اسی حکم میں شامل وداخل ہیں۔ اس کی دلیل انہوں نے کچھ نہیں دی بلکہ ’’
لَکُمْ
‘‘ مفید تخصیص مان کر اپنے دعویٰ کو ضعف پہنچایا۔
جواب: ۴… اگر بلا کسی دلیل کے مان لیا جائے کہ ’’لَکُمْ‘‘ میں ابلیس اور آدم کے سوا ان کی ذریات بھی شامل ہیں۔ تب بھی آیت بالا مفید معنی ومقصود مرزاقادیانی نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ جب ثابت ہوچکا کہ ’’
لَکُمْ
‘‘ میں ابلیس وآدم وحوّا کی طرف خطاب ہے تو قرآن مجید کے بیسیوں مقامات سے یہ ثابت اور واضح ہے کہ شیاطین آسمان کی طرف چڑھ جاتے ہیں اور ملائکہ سے قریب ہو جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ شہاب ثاقب ان کے پیچھے لگ کر ان کو خاک کر دیتا ہے۔ بقول مرزاقادیانی آیت کا اثر مخاطبین پر یہ ہونا چاہئے تھا کہ یہ سب زمین سے اونچے اٹھ نہ سکیں۔ فضا میں جا نہ سکیں۔ مگر شیاطین کاچڑھ جانا دیگر آیات سے معلوم ہوگیااور آیت مستدلہ ان کے لئے مانع نہ ہوئی۔ اب مرزاقادیانی فرمائیں کہ یہ ایت انبیاء، خدا کے لئے آسمان پر جانے سے کیوں مانع ہے؟
جواب: ۵… ’’
مستقر
‘‘ کا ترجمہ ٹھیک ٹھیک ہیڈکوارٹر ہے۔ جس کو صدر مقام بھی بولتے ہیں۔ عربی زبان کی تاریخوں میں اسی لئے تخت گاہ کو مستقر الخلافہ لکھا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی شخص کا اپنے ہیڈکوارٹر میں موجود ہونا یہ معنی نہیں رکھتا کہ وہ دوسری جگہ جا نہیں سکتا۔ علیٰ ہذا اس کا ہیڈ کوارٹر سے علیحدہ ہونا بھی اس امر کا ثبوت نہیں کہ اس کو اپنے صدر مقام سے اب کوئی مناسبت نہیں رہی۔ سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بھی بشر تھے۔ جو شب معراج کو بالائے سدۃ المنتہیٰ تشریف لے گئے تھے۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ آیت مانع نہ ہوئی تو حضرت مسیح علیہ السلام کے لئے بھی نہیں ہوسکتی۔ معراج جسمانی کا ثبوت اس مضمون میں آگے آئے گا۔
جواب: ۶… مرزاقادیانی نے ’’
اِلٰی حِیْنَ
‘‘ کا ترجمہ ’’یہاں تک کہ مر جاؤ گے۔‘‘ کیا ہے مگر وہ کسی لغت کی کتاب سے ’’
حِیْنَ
‘‘ کے معنی موت ثابت نہ کر سکیں گے۔ ’’حین‘‘ کے معنی وقت کے ہیں اور اسی لئے ’’اِلٰی حِیْنَ‘‘ کا ترجمہ ایک وقت تک ہے۔ ہر شخص کے لئے ’’استقرار فی الارض‘‘ کا ایک معین عرصہ رب کریم نے مقرر کر رکھا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ایک وقت تک زمین پر رہے اور جب ’
’مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ الی
‘‘ کا وعدہ پورا ہونے کو آیا تو وہ آسمان پر تشریف لے گئے۔ ظاہر ہے کہ ’’اِلٰی حِیْنَ‘‘ کے یہ معنی ہیں کہ اگر ایک وقت زمین پر ہے تو دوسرے وقت زمین پر سے اٹھ کر چلا بھی جائے۔ اس سے ثابت ہوا کہ کسی جسم کا بھی بوجہ جسم ہونے کے آسمان پر جانا محال نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ رب کریم اس جسم کو آسمان پر لے جانا چاہے یا نہ چاہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے آسمان پر لے جانے کا اظہار اس نے خود فرمایا اور خود ہی اپنے منشاء کو پورا فرمایا۔
بالفرض مرزاقادیانی نے زور لگا کر ’’
حِیْنَ
‘‘ بمعنی موت ثابت بھی کر دیا تب اور بھی زیادہ ان کے معنی قابل اعتراض ہو جائیں گے۔ یعنی اس وقت ترجمہ آیت یہ ہوگا اور تمہارے لئے زمین میں استقرار اور فائدہ (اگر یہ جواب ہو کہ موت کے بعد جسم تو زمین میں ہی رہتے ہیں۔ مگر ان کو زمین سے کچھ فائدہ نہیں ملتا تو اس کے رد میں آیت ’’
ثم اقبرہ
‘‘ اور آیت: ’’
اَلَمْ نَجْعَلَ الْاَرْضَ کفاتًا احیاء وامواتً
ا‘‘ پر نظر کرو) موت تک ہے۔ جس سے یہ نکلا کہ موت کے بعد اموات کی لاشیں زمین سے اٹھائی جاتی ہیں۔ قبروں میں نہیں دبائی جاتیں۔ بلکہ وہ فضا میں چلی جاتی ہیں۔ اس معنی کا غلط ہونا ظاہر ہے۔ اس وقت آپ کو ’’حِیْنَ‘‘ کا ترجمہ مجبوراً ’’وقت‘‘ کرنا پڑے گا۔ جیسا کہ شاہ رفیع الدین رحمہ اللہ تعالیٰ وشاہ عبدالقادر رحمہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔ غرض بہرصورت آپ کے استدلال کا بودا اور کمزور اور غلط ہونا ظاہر ہوگیا اور کھل گیا کہ گو آپ نے آیت کا ترجمہ بھی غلط کیا اور اپنی طرف سے الفاظ بھی زیادہ کئے مگر بایں ہمہ مساعی پھر بھی مرزاقادیانی حصول مرام میں ناکامیاب ہی رہے۔
جواب: ۷… ہم اس پاگل مخبوط الحواس جس سے مخاطب ہیں۔ اس سے پوچھئے کیا ایک مستقر میں رہتے ہوئے عارضی طور پر کوئی دوسری جگہ نہیں جاسکتا۔ کیا ملائکہ کا مستقر آسمان ہونا ان کے نزول الیٰ الارض سے مانع ہے۔ کیا آج تمام انسانوں مع مرزائی ٹولے کا مستقر زمین ہونا ان کے خلائی پرواز کر کے اپنے جنم بھومی (انگلینڈ جرمنی) پہنچنا غیرمعقول اور محال ہے۔ کیا امریکی اور روس چاند گاڑیوں کا زمینی مخلوق کو لے کر دورارض سے نکلنا محال تھا؟ کیا یہ واقع نہیں ہو چکا؟ اب تو مخلوق خدا مریخ، زحل اور اس سے بھی اوپر پرواز کرنے کے منصوبے بنارہے ہیں بلکہ ارض قمر میں خلائی اسٹیشن اور بستیاں قائم کر کے مستقر انسانی ارض کو ترک کرنے کا اعلان کر کے تاحیات کی قبر پر تعزیت کے ڈونگرے برسارہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان دوجزء سے مرکب ہے۔ بدن اور روح، اور دونوں کا مزاج اور تقاضے اور تاثیرات الگ الگ ہیں۔ بدن توثقل ارض میں جکڑا ہوا ہے۔ مگر روح ثقل جسمانی کی گرفت میں ہے تو ظاہر ہے کہ مزاحمت وتقابل میں ہر دو فریقین کا غلبہ ممکن ہوتا ہے۔ لہٰذا جیسے عموماً ثقل ارضی غالب رہتا ہے تو کبھی کشش سمائی کا غلبہ بھی ممکن ومحتمل تسلیم کرنا پڑے گا یہ کوئی بعید از عقل بات نہیں۔ لہٰذا جب رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل ترین روحانیت کے تحت اسراء کا واقعہ عین ممکن اور واقع ہوچکا ہے تو بسلسلہ مسیح علیہ السلام بضمن روحانیت وہ کشش سمائی کے دائرہ میں کیوں نہیں جاسکتے؟ بالخصوص جب کہ ان کی روحانیت ابتداء سے ہی غالب رکھی گئی ہے۔
جواب: ۸… کلمۂ طیبہ: ’’محمد رسول اﷲ‘‘ اس کا ترجمہ ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اﷲ کے رسول ہیں تو کیا حضرت موسیٰ وعیسیٰ علیہم السلام اﷲتعالیٰ کے رسول نہیں؟ پس جس طرح محمد رسول اﷲ کہنے سے دیگر انبیاء کی رسالت کی نفی نہیں ہوتی۔ اسی طرح ’’ولکم فی الارض مستقر‘‘ کہنے سے ’’فی السماء مستقر‘‘ کی نفی نہیں ہوتی۔
جواب: ۹… ’’
ولکم فی الارض
‘‘ کے مخاطب تمام بنی آدم ہیں۔ تب بھی مسیح علیہ السلام کا مستقر آسمان نہیں بلکہ عارضی قیام ہے۔
جواب: ۱۰… ’
’مامن عام الا وقد خص عنہ البعض
‘‘ کے تحت مستقر فی الارض کی بجائے ’’مستقر فی السماء للمسیح‘‘ ہوگیا تو بھی سو فیصد ہوا۔
چودھویں آیت:
’’
وَمَنْ نُّعَمِّرْہُ نُنَکِّسْہُ فِی الْخَلْقِ (یٰسین:۶۸)
‘‘ {اور جس کو ہم بوڑھا کریں، اوندھا کریں اس کی پیدائش میں۔}
قادیانی استدلال:
تشریح: ’’یعنی انسانیت کی طاقتیں اور قوتیں اس سے دور ہو جاتی ہیں۔ حواس میں اس کے فرق آجاتا ہے۔ عقل اس کی زائل ہو جاتی ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۱۰، خزائن ج۳ ص۴۲۹)
(اور یہ وہ کیفیت ہے جو دنیا میں بڑھاپے کی حالت میں عام مشاہدہ میں آتی ہے)
مرزاقادیانی لکھتے ہیں: ’’اگر مسیح ابن مریم کی نسبت فرض کیا جائے کہ اب تک جسم خاکی کے ساتھ زندہ ہیں تو یہ ماننا پڑے گا کہ ایک مدت دراز سے ان کی انسانیت کے قویٰ میں بکلی فرق آگیا ہوگا اور یہ حالت خود موت کو چاہتی ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۶۱۰، خزائن ج۳ ص۴۲۹)
الجواب: ۱… مرزاقادیانی کے اس وجہ استدلال کا جواب آٹھویں اور بارھویں آیت کے تحت ہوگیا ہے۔ ناظرین ملاحظہ فرمائیں باربار یہی عرض ہے کہ مرزاقادیانی بطور کلیہ قاعدہ کے عمر کے وہ مقدار قرار دیں۔ جس کو ارذل عمر کہہ سکیں اور جس پر تنکیس فی الخلق صحیح ثابت ہوسکے۔ ہم توریت وغیرہ کتابوں میں لکھا دیکھتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کی ۹۳۰ برس، حضرت شیث علیہ السلام کی ۹۱۲، حضرت نوح علیہ السلام کی ۱۰۰۰، حضرت ادریس علیہ السلام کی ۳۶۵، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ۱۲۰، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ۱۷۵ سال کی عمریں تھیں اور بایں ہمہ ان کے انسانیت کے قویٰ میں کچھ فرق نہ آیا تھا۔ اصحاب کہف کا قصہ پڑھنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعض انسانی جسموں کو صدیوں کے زمانہ کا اثر محض اتنا ہوتا ہے۔ جتنا ہم لوگوں پر ۶؍گھنٹے یا ۱۲؍گھنٹے یا ۲۴؍گھنٹے یا ۴۸؍گھنٹے گزر جانے سے، اگر ناظرین اور مرزاقادیانی کے نزدیک ایک ۳۳سال کا جوان شخص ایسا پیر ہرم اور شیخ فانی ہوسکتا ہے کہ اس کی قوت جسمانی اور قویٰ بشری بالکل ہی اسے جواب دے جائیں تو حضرت مسیح علیہ السلام کی نسبت بھی مرزاقادیانی کو ایسا خیال باندھ لینے کا حق ہے۔ لیکن اگر یہ ایک قابل تمسخر بات سمجھی جائے کہ کوئی نوجوان شخص معمولی قاعدہ انحطاط بدنی کے لحاظ سے ۴۸؍گھنٹہ میں شیخ فانی ہوسکے تو یقینا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا پیر ضعیف ہو جانا بھی غلط ہے۔
حوالہ: حکیم نورالدین جو ’’فصل الخطاب‘‘ میں مان چکے ہیں کہ الہامی زبان میں ایک یوم ایک سال کو کہتے ہیں۔ وہ اس بیان سے زیادہ تر فائدہ حاصل کر سکتے ہیں کہ وحی ربانی میں ۳۰۹برس کو ایک یوم یا ایک یوم کا حصہ کہاگیا ہے۔ ان کواربعہ لگا لینا چاہئے کہ جب الہامی زبان میں ۳۰۹برس برابر ہیں ایک دن کے، تو دوہزار برس کتنے دن کے برابر ہوتے ہیں۔ یہ سوال حل کرنے سے پہلے یہ بھی غور فرمالینا چاہئے کہ (اصحاب کہف) ۳۰۹برس کا بعض یوم کے برابر ہونا تو اسی طبقۂ ارض پر ثابت ہے۔ مملکت آسمانی کا حساب اس سے نرالا ہے۔ رب کریم قرآن مجید میں فرماتا ہے: ’’
اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِمَّا تَعُدُّوْنَ (الحج:۴۷)
‘‘ جس کو تم ہزارسال شمار کرتے ہو۔ وہ پروردگار کے ہاں ایک یوم ہے۔ اس اعتبار سے مسیح علیہ السلام کو آسمان پر گئے ہوئے چند دن ہوتے ہیں۔
واضح ہو ’’
اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ
‘‘ کو مرزاقادیانی نے (ازالہ اوہام ص۶۹۶، خزائن ج۳ ص۴۷۵) پر درج کیا ہے اور اس حساب سے روز ششم کو الف ششم کا قائم مقام بتا کر اپنی پیدائش اس میں ثابت کی ہے اس لئے اب مرزاقادیانی اس حساب سے انکار نہیں کر سکتے۔
جواب: ۲… مندرجہ بالا امور کے علاوہ ایک ضابطہ یہ بھی قابل توجہ ہے کہ ہر جہاں کی آب وہوا اور تغیر وتبدل کے ضوابط الگ الگ ہیں تو اس ضابطہ کے تحت یہ سطح ارض ہے جہاں ہر چیز بزود یا بدیر (کلی مشکک کے طور پر) تغیر پذیر ہو رہی ہے۔ مگر عالم بالا (آسمان) ایک غیرمتغیر ماحول ہے وہاں کوئی چیز بھی تغیرپذیر نہیں ہوتی۔ دیکھئے وہ ارواح وملائکہ کا جہاں اور ماحول ہے وہاں یہ نوع مخلوق لاکھوں سال سے غیر متغیر حالت میں موجود ہیں۔ آج تک کبھی نہیں سنا گیا کہ کوئی ایک فرشتہ عمررسیدہ ہوکر فوت ہوگیا۔ یا وہ نہایت بوڑھا ہوگیا۔ یا کم ازکم اس کی سروس پوری ہوکر وہ اپنی ڈیوٹی سے پنشن یافتہ ہوگیا ہو۔
جواب: ۳… عالم بالا خداتعالیٰ کی تجلی گاہ ہے تو جیسے اس کی ذات عالیہ ازل ابدی ہے۔ وہ تغیروتبدل سے بکلی منزہ ہے۔ ایسے ہی اس کا ماحول، آسمان بھی غیرمتغیر ہے اگرچہ اس کے سوا سب مخلوق ہے اور ایک دن وہ لقمۂ فنا بنیں گے مگر وہاں عالم دنیا اور ناسوت کی طرح، تدریج وتسلسل نہیں ہے۔ تغیر وتنزل کا کوئی وجود نہیں۔ لہٰذا جب حضرت مسیح علیہ السلام بقدرت الٰہی وہاں پہنچ گئے تو وہاں کا ٹائم ٹیبل ہے۔ وہاں کی آب وہوا ہے جس کے تحت وہ لاکھ سال بھی بلاتغیر وتبدل رہ سکتے ہیں۔ مرزاقادیانی چونکہ سفل الطبع تھے۔ ان کی ذہنی اور روحانی پرواز نکتہ انجماد سے بھی ڈاؤن تھی۔ اس لئے یہ عام اور موٹی بات بھی ذہن میں نہ آسکی جس کی بناء پر وہ معراج جسمانی کے انکار پر اترے ہوئے ہیں اور رفع ونزول مسیح علیہ السلام بھی ان کے اس سفل ادراک سے ماورا ہے۔ وہ اس میدان کے فرد ہی نہیں یہ مسئلہ بمع دیگر ایسے مسائل کے تو عقول صافیہ کا مسئلہ ہے۔ مرزاقادیانی کے سامنے ایسے حقائق تو ایسے ہیں جیسے کوئی بھینس کے سامنے بین بجا کر اس سے اپنی بہترین موسیقی پر داد تحسین وصول کرنا چاہے۔ یہ صاحب تو احمق علی الارض کا نمونہ ہے۔ لہٰذا ’’
وضع العلم عند غیر اہلہ کمقلد الخنازیر اللؤلؤ
‘‘ والا مسئلہ ہے۔
پندرھویں آیت:
’’
اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ ضُعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ ضُعْفٍ قُوَّۃً ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ قُوَّۃٍ ضُعْفًا وَّشَیْبَۃً (الروم:۵۴)
‘‘ {اﷲ ہے جس نے بنایا تم کو کمزوری سے پھر دیا کمزوری کے پیچھے زور پھر دے گا زور کے پیچھے کمزوری اور سفید بال (بڑھاپا)۔}
قادیانی استدلال:
تشریح: ’’یہ آیت بھی صریح طور پر اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ کوئی انسان اس قانون قدرت سے باہر نہیں اور ہر ایک مخلوق اس محیط قانون میں داخل ہے کہ زمانہ اس کی عمر پر اثر کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ تاثیر زمانہ سے وہ پیر فرتوت ہو جاتا ہے اور پھر مرجاتا ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۱۰، خزائن ج۳ ص۴۲۹)
الجواب: یہ سچ ہے مگر آیت میں مسیح علیہ السلام کے مرچکنے کی دلیل اور مرزاقادیانی کے بیان میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وفات کر جانے کی وجہ استدلال ذرا بھی موجود نہیں۔ اچھا اگر کوئی شخص مشہور کر دے کہ مرزامسرور قادیانی کا انتقال ہوگیا اور جب کوئی اس سے پوچھے کہ تم کو کیونکر معلوم ہوا تو وہ یہی آیت پڑھ دے تو آپ اس کی وجہ استدلال کو کیا کہیں گے؟ ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ اس وقت مسیح علیہ السلام ’’
ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ ضُعُفٍ قُوَّۃ
‘‘ کے مصداق حال ہیں۔ نزول برزمین کے بعد ’’ثُ
مَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ قُوَّۃٍ ضُعْفًا وشَیْبَ
ہ‘‘ کی حالت ان پر طاری ہوگی۔
جواب: پہلے کمزور پھر طاقتور پھر کمزور سفید بال! اگر قادیانیوں کے نزدیک قاعدہ کلیہ ہے تو پھر جو بچہ نوعمری میں مرگیا وہ کلیہ میں شامل ہے؟ سیدنا نوح علیہ السلام ہزار برس کے ہوکر بھی پیرفرتوت نہ ہوئے۔ حالانکہ مرزاقادیانی ۶۰سال کے ہوکر پیرفرتوت ہو گئے تھے کہ دائیں بائیں جوتے کی تمیز نہ تھی تو ایک بچہ کے لئے چند دن کی زندگی، نوح علیہ السلام کے لئے ہزاربرس کی زندگی، اس آیت کے منافی نہیں۔ بلکہ مستثنیات ہیں تو مسیح علیہ السلام کے لئے کیوں نہیں؟ جب کہ وہ اس عالم میں ہی نہیں ہیں بلکہ عالم بالا میں ہیں۔
سولہویں آیت:
’’
اِنَّمَا مَثَلُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا کَمَآئٍ اَنْزَلْنَہُ مِنَ السَّمَآئِ فَاخْتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ مِمَّا یَاْکُلُ النَّاسُ وَالْاَنْعَامُ (یونس:۲۴)
‘‘ {دنیا کی وہی مثل ہے جیسے ہم نے پانی اتارا آسمان سے پھر رلا ملا نکلا اس سے سبزہ زمین کا جو کہ کھائیں آدمی اور جانور۔}
قادیانی استدلال:
’’یعنی اس زندگی دنیا کی مثال یہ ہے جیسے اس پانی کی مثال ہے جس کو ہم آسمان سے اتارتے ہیں۔ پھر زمین کی روئیدگی اس سے مل جاتی ہے پھر وہ روئیدگی بڑھتی اور پھولتی ہے۔ آخرکاٹی جاتی ہے۔ یعنی کھیتی کی طرح انسان پیدا ہوتا ہے۔ اوّل کمال کی طرف رخ کرتا ہے پھر اس کا زوال ہوتا جاتا ہے۔ کیا اس قانون قدرت سے مسیح علیہ السلام باہر رکھاگیا ہے؟‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۱۱، خزائن ج۳ ص۴۳۰)
جواب: ۱… کاش مرزاقادیانی اس مثال سے ہی فائدہ اٹھاتے اور سمجھتے کہ سب روئیدگی کی قسمیں زمین سے اگنے، کمال تک پہنچنے اور بڑھنے اور پھر زوال کی جانب مائل ہوکر خشک ہونے میں درجہ مساوی نہیں رکھتیں۔ چنا ان ہرسہ مراتب کو دو ماہ میں طے کر لیتا ہے اور نیشکر (کماد) کو کمال تک پہنچنے کے لئے دس ماہ کا عرصہ درکار ہے۔ سن اور ہالوں کا بیج چند پہر میں زمین سے اگ آتا ہے اور گنوارے اور کھنڈی کا بیج سال بھر تک زمین میں جوں کا توں پڑا رہتا ہے۔ افسوس کہ آپ حارث وحراث ہونے کے دعویدار ہوکر بھی ان مثالوں سے بہت کم مستفید ہوتے ہیں۔ ہم مانتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام اس قانون قدرت سے باہر نہیں۔ مگر اس قانون میں مساوات شخصی نکال کر آپ دکھا دیجئے۔
جواب: ۲… مرزاقادیانی کے لئے یہ نمونہ میں کافی ہے کہ اگر یہ ضابطہ عام مانا جائے تو پھر تمام انبیاء حیوان، جماد ایک ہی رفتار سے سفر کریں۔ یہ انسان ایک ہی طرح کے حالات وتغیرات سے دوچار ہو۔ فعلی اور پودے ایک ہی رفتار سے پیداہوں۔ بڑھیں اور قابل استفادہ ہوں۔ حالانکہ ان امور میں ناقابل فہم تفاوت سامنے ہے ایک پودہ چند دن میں اپنا سفر طے کر رہا ہے اور ایک پودہ صدیوں تک اپنا سفر حیات طے کرتا ہے۔ ایک جانور چند لمحات کا مسافر ہوتا ہے (جیسے کئی قسم کے جراثیم) اور کئی حیوان انسان سے بھی بڑھ کر عمر پاتے ہیں اور دیکھئے یہ قانون خود مرزاقادیانی کے گھر میں بھی نافذ رہا ہے کہ اس کا کوئی بچہ پیٹ ہی سے چل بسا۔ کوئی چند دن زندہ رہ کر کوئی چند سال کے بعد اور کوئی لمبی عمر پا کر فوت ہوئے تو جب رفتار حیات کسی کی بھی مساوی نہیں تو مرزاقادیانی صرف مسیح علیہ السلام کو قانون مساوی کے کیوں پابند کرنے کے درپے ہیں؟ جب اس متغیر سطح ارضی پر کئی صدیاں انسان زندہ رہ چکے ہیں۔ (اصحاب کہف سیدنا نوح علیہ السلام) تو اس غیرمتغیر جہان میں جہاں کا ٹائم ٹیبل بھی اس جہاں سے کہیں متفرق ہے۔ وہاں باذن الٰہی مسیح علیہ السلام چند صدیاں زندگی نہیں گزار سکتے۔ آخر سارے جہاں سے صرف مرزاقادیانی کو ہی کیوں اتنا فکر ہورہا ہے۔ حالانکہ مرزاقادیانی خود بھی جسمانی حیات مسیح علیہ السلام کا مشاہدہ کر چکے ہیں۔ چنانچہ کئی جگہ لکھ چکے ہیں کہ میں نے مسیح علیہ السلام کے ہمراہ کئی دفعہ ایک دسترخوان پر کھانا بھی کھایا اور ایک جگہ لکھا کہ میں نے مسیح علیہ السلام کے ساتھ ایک ہی پیالہ میں گائے کا گوشت بھی کھایا۔ (تذکرہ ص۴۴۷) معلوم ہوا کہ وہ جوان ہیں زندہ ہیں کھاتے پیتے بھی ہیں۔
سترھویں آیت:
’’
ثُمَّ اِنَّکُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ لَمَیِّتُوْنَ (المؤمنون:۱۵)
‘‘ {پھر تم اس کے بعد مرو گے۔}
قادیانی استدلال:
’’یعنی اوّل رفتہ رفتہ خداتعالیٰ تم کو کمال تک پہنچاتا ہے اور پھر تم اپنا کمال پورا کرنے کے بعد زوال کی طرف میل کرتے ہو یہاں تک کہ مر جاتے ہو۔ یعنی تمہارے لئے خداتعالیٰ کی طرف سے یہی قانون قدرت ہے کوئی بشر اس سے باہر نہیں۔ اے خداوند قدیر! اپنے اس قانون قدرت کو سمجھنے کے لئے ان لوگوں کو بھی آنکھ بخش جو مسیح ابن مریم علیہ السلام کو اس سے باہر سمجھتے ہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۱۱، خزائن ج۳ ص۴۳۰)
جواب: ۱… ناظرین زبان عرب میں حرف ثُمَّ، تراخی اور ترتیب کے لئے آتا ہے اور اسی لئے ہم نہایت صدق دل سے گواہی دیتے ہیں۔ ’’
وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَیُوْشَکَنَّ اَنْ ینزل فِیْنَا ابْنُ مَرْیَمَ حَکَمَا عَدَلًا ثُمَّ اِنَّہُ بَعْدَ ذٰلِکَ لیموت
‘‘ مرزاقادیانی قانون قدرت کے موٹے موٹے حروف تو پڑھ لیتے ہیں۔ مگر کیا اچھا ہو کہ اس کی تشریحات بھی ملاحظہ کر لیا کریں۔
جواب: ۲… رفتہ رفتہ کمال سیدنا مسیح علیہ السلام کا دور چل رہا ہے۔ اس کے بعد: ’’
بعد ذالک لمیتون
‘‘ میں داخل ہوں گے کیا یہی آیت پڑھ کر اس وقت تمام زندہ لوگوں کی وفات پر استدلال کیا جاسکتا ہے؟ نہیں اور ہرگز نہیں تو پھر مسیح علیہ السلام کی وفات پر استدلال کیسے صحیح ہوگا؟
اٹھارویں آیت:
’’
اَلَمْ تَرَا اَنَّ اللّٰہَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مآئً فَسَلَکَہٗ یَنَابِیْعَ فِی الْاَرْضِ ثُمَّ یُخْرِجُ بِہٖ زَرْعًا مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُہٗ ثُمَّ یَہِیْجُ فَتَرٰہُ مُصْفَرَّا ثُمَّ یَجْعَلُہٗ حُطَامًا اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِاُوْلِی الْاَلْبَابِ (الزمر:۲۱)
‘‘ {تو نے نہیں دیکھا کہ اﷲ نے اتار آسمان سے پانی، پھر چلایا وہ پانی چشموں میں زمین کے، پھر نکالتا ہے اس سے کھیتی کئی کئی رنگ بدلتے اس پر، پھر آئے تیاری پر تو دیکھے اس کا رنگ زرد پھر کر ڈالتا ہے اس کو چورا چور، بے شک اس میں نصیحت ہے عقل مندوں کے واسطے۔}
قادیانی استدلال:
’’ان آیات میں بھی مثال کے طور پر یہ ظاہر کیا ہے کہ انسان کھیتی کی طرح رفتہ رفتہ اپنی عمر کو پورا کر لیتا ہے اور پھر مر جاتا ہے۔‘‘ (اور حضرت مسیح علیہ السلام بھی بحیثیت انسان اس قاعدہ کلیہ اور قانون قدرت سے باہر نہیں رہ سکتے۔ مرتب) (ازالہ اوہام ص۶۱۲، خزائن ج۳ ص۴۳۰)
جواب: مرزاقادیانی وفات مسیح علیہ السلام پر اس آیت سے استدلال کی وجہ کچھ نہیں لکھ سکے۔ کھیتی کی مثال سچ ہے مگراس مثال میں مرزاقادیانی کی غلط فہمی کا اظہار سولہویں آیت کے تحت میں ہم کر چکے ہیں۔ رفتہ رفتہ عمر پوری کرتا ہے لیکن عمریں مختلف ہیں۔ بچہ کی اور بوڑھے کی اور نوح علیہ السلام کی اور اصحاب کہف کی اور مسیح علیہ السلام کی اور اس تدرج طبعی کو سوفیصد تسلیم کرتے ہیں کہ ہر انسان ہی نہیں بلکہ ہر فرد مخلوق آہستہ آہستہ موت تک ہی سفر طے کر رہا ہے۔ ہر فرد مخلوق ’’کل من علیہا فان‘‘ سے مستثنیٰ نہیں مگر یہ بات کہ مسیح علیہ السلام پر موت آگئی کہاں ثابت ہوا۔ کیا امکان اور وقوع میں فرق نہیں؟
’’
وَمَا اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا اِنَّہُمْ لَیَاکُلُوْنَ الطَّعَامَ وَیَمْشُوْنَ فِیْ الْاَسْوَاقِ (الفرقان:۲۰)
‘‘ {اور جتنے بھیجے ہم نے تجھ سے پہلے رسول سب کھاتے تھے کھانا اور پھرتے تھے بازاروں میں۔}
قادیانی استدلال:
’’یعنی ہم نے تجھ سے پہلے جس قدر رسول بھیجے ہیں وہ سب کھانا کھایا کرتے تھے اور بازاروںمیں پھرتے تھے۔ اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اب تمام نبی نہ کھانا کھاتے ہیں نہ بازاوں میں پھرتے ہیں اور ہم پہلے بنص قرآنی ثابت کر چکے ہیں کہ دنیوی حیات کے لوازم میں سے طعام کا کھانا ہے۔ لہٰذا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ سب فوت ہوچکے ہیں جن میں بوجہ کلمہ حصر مسیح بھی داخل ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۱۲،۶۱۳، خزائن ج۳ ص۴۳۱)
الجواب: ۱… ناظرین اﷲتعالیٰ نے یہ آیت ان منکرین نبوت کے جواب میں نازل فرمائی ہے جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کرتے اور رسالت کو بنظر حقارت دیکھتے اور یوں کہا کرتے تھے۔ ’’
مَا لِہٰذَ الرَّسُوْلِ یَأْکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِ (الفرقان:۷)
‘‘ یہ رسول کیسا ہے، جو کھانا بھی کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا بھی ہے۔ اﷲتعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی اس بیہودہ گفتگو کے جواب میں بطور تشفی وتسکین قلب فرمایا ہے۔ کہ بازاروں میں پھرنا اور طعام کھانا اگر رسالت کے منافی ہے تو سارے کے سارے پیغمبر ایسے ہی گزرے ہیں۔ جن میں یہ صفات لوگوں نے دیکھے اور معلوم کئے اور بایں ہمہ یہ معترض ان میں سے بعض کی نبوت کا یقین بھی رکھتے ہیں۔ مثلاً نصاریٰ اور یہود اور عرب کے اکثر قبیلے اب آپ خیال فرمائیں کہ اس میں کون سی دلیل وفات مسیح کی ہے۔
حضرت مسیح علیہ السلام کے طعام کھانے یا نہ کھانے کی بحث ساتویں آیت کے تحت میں ہوچکی۔ مرزاقادیانی آپ نے ان تین آیتوں کو دلیل وفات مسیح بنانے میں حصر اور تعمیم سے بہت ہی کام لیا ہے اور یہ دل میں ٹھان لی ہے کہ اگر ایک تعمیم کی دوسری نص تخصیص کر دیتی ہو تو اس تخصیص کا ہرگز اعتبار نہیں کریں گے۔ مگر یہ کاغذکی ناؤ چلتی نظر نہیں آتی۔ ’’
اَوَلَمْ یَرَالْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنَاہُ مِنْ نُطْفَۃٍ فَاِذَا ہُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٍ (یٰسین:۷۷)
‘‘ {کیا انسان نے نہیں دیکھا اور غور کیا کہ ہم نے اس کو نطفہ سے پیدا کیا اور وہ جھٹ کھلم کھلا خصومت رکھنے والا بن گیا۔}
آیت میں ’’
اَلْاِنْسَانُ
‘‘ کل انسانوں پر شامل ہے۔جس سے کوئی باہر نہیں۔ حالانکہ اسی آیت میں دو جگہ آپ کو تخصیص ماننی پڑے گی۔ اوّل ’’
مِنْ نُطْفَۃ
‘‘ میں کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام انسان تھے مگر نطفہ سے پیدا نہ ہوئے تھے۔ دوم ’’
خَصِیْمٌ مُّبِیْن
‘‘ میں کیونکہ ہم یقینا اور ایماناً جانتے ہیں کہ انبیاء اور صدیقین نہایت فرمانبردار بندے ہوتے ہیں اور کبھی اپنے پروردگار سے خصومت نہیں کرتے۔
جواب: ۲… مرزاقادیانی یہ فرمائیں کہ طعام کھانا اور بازاروں میں پھرنا یہ مرسلین کا لازم حال تھا یا منجملہ صفات بشری کے ایک صفت، اگر لازمۂ حال تھا تو لازم آتا ہے کہ ہر ایک نبی اور مرسل نے وقت پیدائش سے لے کر زندگی کی آخری ساعت تک، غرض اپنی تمام تر عمر کا کوئی لمحہ کوئی لحظہ کوئی منٹ کوئی سیکنڈ ایسا گزرنے نہ دیا ہو کہ وہ بازار میں نہ پھرتے ہوئے اور کچھ نہ کچھ کھاتے ہوئے نظر نہ آئے ہوں۔ غرض کہ ان کا منہ اور ان کے پاؤں ہر وقت چلتے ہی رہتے تھے۔ کیوں مرزاقادیانی آپ کے مذہب میں یہی معنی اس آیت کے ہیں؟ اگر یہی معنی ہیں تو اس کا بطلان نہایت صریح ہے لیکن اگر باوجود آیت کے الفاظ بالا کے یہ معنی آپ نہیں کرتے۔ بلکہ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ ان کے کھانے اور بازاروں میں پھرنے کے خاص اوقات ہوں اور دیگر اوقات میں اکل طعام اور ’’مَشِیْ فِی السُّوْقِ‘‘ ان میں پایا بھی نہ جاتا ہو تب آیت بالا آپ کے کیا مفید ہے؟ اگر کسی معتکف وصائم کو دیکھ کر کوئی شخص یہ حکم لگا سکتا ہے کہ طعام کھانے اور بازاروں میں پھرنے کی صفت اس سے جاتی رہی تو اس کے دانشمند ہونے میں کسی کو شک ہوسکتا ہے؟ مرزاقادیانی ان نمونوں سے بھی مستفید نہیں ہوتے۔
جواب: ۳… ممکن ہے کہ مرزاقادیانی یا کوئی انکا مرید کبھی یہ استدلال بھی کرنے لگے کہ روزہ رکھنا اس آیت کے خلاف ہے۔ ’’
ماجعلناہم جسدًا لا یاکلون
‘‘ اور آیت ہذا: ’’
انہم لیاکلون الطعام ویمشون فی الارض
‘‘ اگر اس کو راز نبوت قرار دے لیاجائے تو پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مراقبات حرا اور وصال کا انکار لازم آتا ہے۔
بیسویں آیت:
’’
وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَا یَخْلُقُوْنَ شَیْئًا وَّہُمْ یُخْلَقُوْنَ اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآئٍ وَمَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ (النحل:۲۰،۲۱)
‘‘ {اور جن کو پکارتے ہیں اﷲ کے سوا کچھ پیدا نہیں کرتے اور وہ خود پیداکئے ہوئے ہیں۔ مردے ہیں جن میں جان نہیں اور نہیں جانتے کب اٹھائے جائیں گے۔}
قادیانی استدلال:
’’دیکھو یہ آیتیں کس قدر صراحت سے مسیح علیہ السلام اور ان سب انسانوں کی وفات پر دلالت کر رہی ہیں جن کو یہود اور نصاریٰ اور بعض فرقے عرب کے اپنے معبود ٹھہراتے تھے اور ان سے دعائیں مانگتے تھے۔ اگر اب بھی آپ لوگ مسیح ابن مریم علیہ السلام کی وفات کے قائل نہیں ہوتے تو سیدھے یہ کیوں نہیں کہہ دیتے کہ ہمیں قرآن کریم کے ماننے میں کلام ہے۔ قرآن کریم کی آیتیں سن کر پھر وہیں نہ ٹھہر جانا کیا یہ ایمان داروں کا کام ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۶۱۳،۶۱۴، خزائن ج۳ ص۴۳۱)
جواب: ۱… ’’
الذین
‘‘ کا ترجمہ ’’جن لوگوں کو‘‘ صحیح نہیں کیونکہ ’’
الذین
‘‘ سے مراد اصنام (بت) بھی ہیں۔ لہٰذا صحیح ترجمہ یوں ہے۔ ’’اور جن کو پکارتے ہیں۔‘‘ اور چونکہ کفار میں زیادہ تربت پرستی ہی پائی جاتی تھی۔ (چنانچہ کعبہ کے ۳۶۰ بت جو فتح مکہ کے دن توڑے گئے اس پر شاہد ہیں) اس لئے۔
جواب: ۲… اموات کے بعد غیراحیاء کا ذکر کیاگیا تاکہ اصنام کی حقیقت اصلیہ ظاہر ہو جائے کہ وہ علی الاطلاق مردہ ہیں۔ ان کو حیات کی ہوا بھی نہیں لگی نہ پہلے کبھی نہ اب۔
جواب: ۳… ’’
وَمَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ (النحل:۲۱)
‘‘ کا مطلب تو یہ ہے کہ ان معبودوں کو اس کا بھی شعور (علم) نہیں کہ ان کے پوجنے والے کب اٹھائے جائیں گے۔ (جلالین وفتح البیان) بلکہ ان سے بہتر تو ان کے عابد ہیں کہ ان کو علم وشعور اور حیات تو حاصل ہے۔ (دوسری طرز سے)
جواب: ۴… آیت کا یہ مطلب نہیں کہ معبود ان مصنوعی مرچکے ہیں بلکہ یہ مطلب ہے کہ ان سب کو موت آنے والی ہے۔ صرف لفظ اموات کو دیکھ کر یہ نتیجہ نکال لینا کہ وہ سب کے سب مرچکے ہیں غلط ہے۔ ’’
اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّاِنَّہُمْ مَّیِّتُوْنَ (الزمر:۳۰)
‘‘ اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو بھی میت ہے اور وہ بھی، مطلب یہ ہوا کہ بالآخر موت آنے والی ہے۔ لہٰذا آیت کا صحیح ترجمہ یہ ہوا کہ تمام وہ لوگ جو اﷲ کے سوا پوجے جاتے ہیں۔ آخر کارمرنے والے ہیں گو ان میں کئی مرچکے ہوں اور ہم بھی مانتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام بعد نزول فوت ہوجائیں گے۔
جواب: ۵… نیز مشرکین جنوں اور فرشتوں کو بھی پوجتے تھے کیا وہ سب مرچکے ہیں؟ کیونکہ وہ بھی ’’
من دون اللّٰ
ہ‘‘ میں شامل ہیں۔ نیز آج بھی کئی ایسے ملنگ پیر معبود ہیں جنکو جاہل لوگ سجدے کرتے ہیں ان کی عبادت کرتے ہیں تو کیا وہ اب مرے ہوئے ہیں؟ اصل مفہوم یہی ہے کہ جن کی لوگ پوجا کرتے ہیں وہ معرض فنا میں ہیں۔ بقا صرف ذات واحد کو ہے۔ ’’
الحی القیوم
‘‘ صرف ایک ہی ہے لہٰذا عبادت کا مستحق بھی یہی ہے۔ بلکہ تمام کے تمام ’’
کل شی ہالک
‘‘ اور ’’
کل من علیہا فان
‘‘ کے زیر تصرف ہیں۔ کیونکہ ماسوی اﷲ ہرچیز پردہ فنا میں تھی پھر عالم موجود میں آئی اس کے بعد پھر پردہ فنا سے دوچار ہونے والی ہے۔
ناظرین! مرزاقادیانی نے اپنی عبارت میں انسانوں کی قید اپنی طرف سے لگا دی ہے۔ آیت میں ہے اور اس لئے ایسے تین صفات بیان ہوئے جن سے کوئی خلوق جن وملک اور انسان وغیرہ اس تعمیم سے باہر نہیں رہ سکتے۔ (۱)’’
مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ
‘‘ اس میں کل مخلوق شامل ہے۔ (۲)کسی کا خالق نہ ہونا۔ یہ بھی سب پر محیط ہے۔ (۳)مخلوق ہونا۔ یہ بھی بجز خدا کے سب کو گھیرے ہوئے ہیں۔ پس ان صفتوں والا اگر کسی قوم اور قبیلہ کا معبود سمجھایا مانا گیا ہے تو وہ مردہ ہے۔
جب ہم نصاریٰ کے مذہب پر نظر ڈالتے ہیں جو خدا کو ’’ثالث ثلثہ‘‘ جانتے ہیں اور اس کے علاوہ اقنوم قائم کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ خدا کے سوا ایک تو مسیح کو معبود جانتے ہیں دوسرے روح القدس کو۔ ان دونوں کی پرستش بھی کرتے ہیں اور ان دونوں کو پکارتے بھی۔
مرزاقادیانی اس آیت پر تمسک کر کے حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات ثابت کرتے ہیں۔ میں ان سے دریافت کر لینا چاہتا ہوں کہ وہ روح القدس کو بھی مردہ جانتے ہیں، یا نہیں۔ اگر نہیں تو کیوں؟ کیا وہ ’’مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ‘‘ نہیں۔ یا وہ کسی شئے کا خالق بھی ہے یا وہ خود مخلوق نہیں یا نصاریٰ اس کو اسی طرح نہیں پکارتے۔ جس طرح مسیح کو پکارتے ہیں؟ اگر یہ سب صفات اس میں موجود ہیں تو پھر… روح القدس کو آیت کی تعمیم سے جدا رکھنے کی کیا وجہ ہے؟ اگر مرزاقادیانی کے پاس روح القدس کو اس عمومیت سے جدا رکھنے اور جدا باور کرنے کی کوئی وجہ ہے۔ تو یقین رکھئے کہ ہمارے پاس بھی ہے اور اگر وہ روح القدس کو بھی مردہ سمجھتے ہیں تو بسم اﷲ اس کا اقرار فرمائیں تاکہ ان کے بیسیوں دلائل پر پانی پھر جائے اور میں پھر معنی آیت گزارش کروں۔
ناظرین! (۱)ایک لطیف قصہ یاد رکھنے کے قابل ہے۔ جب قرآن مجید میں ’’
اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ (الانبیاء:۹۸)
‘‘ نازل ہوا۔ تو مشرکین نے اس تعمیم کو دیکھ کر خوب تالیاں لگائیں اور خوش ہوکر کہا کہ اگر ہم اور ہمارے بت جہنم میں ڈالے جائیں گے تو ہم کو کچھ غم نہیں۔ کیونکہ اسی قاعدہ ’’
وَمَا تَعْبُدُوْنَ
‘‘ کے بموجب نصاریٰ کے ساتھ مسیح کو بھی جہنم میں ڈالا جائے گا اور ہم اس پر خوش ہیں کہ جب مسیح جہنم میں جائے تو ہم اور ہمارے بت بھی وہیں ڈالے جائیں۔ اس پر اﷲتعالیٰ نے یہ نازل فرمایا۔ ’
’مَاضَرَبُوْہُ لَکَ اِلَّا جَدَلًا بَلْ ہُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ (الزخرف:۵۸)
‘‘ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نظیر جوان کفار نے پیش کی ہے۔ یہ ان کا مجادلہ ہے یہ لوگ محض خصومت سے ایسی باتیں کرتے ہیں: ’’
اِنْ ہُوَ اِلَّا عَبْدٌ اَنْعَمْنَا عَلَیْہِ (الزخرف:۵۹)
‘‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو خدا کے ایسے بندہ ہیں جن پر خدا نے نعمت کی ہے۔ پس آیت کریمہ کی اس تعمیم میں وہ منعم علیہ جس کی تخصیص واستثناء دیگر آیات سے ہوچکی ہے۔ کیونکر شامل ہوسکتا ہے۔ فرمایا: ’’
اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَہُمْ مِنَّا الْحُسْنٰی اُوْلٰئِکَ عَنْہَا مُبْعَدُوْنَ
‘‘ گویا مرزاقادیانی نے فطرت کے لوگوں کو واضح کیا کہ عدم سے استدلال صحیح نہیں ہوتا۔
مرزاقادیانی ملاحظہ فرمائیں کہ ایسی تعمیمات سے تمسک واستدلال کرنا اور دیگر آیات پر نظر نہ ڈالنا وہ شیوہ اور وہ مسلک ہے جس پر مشرکین مکہ گامزن ہوچکے ہیں اور جن کی تکذیب قرآن مجید فرما چکا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ مرزاقادیانی کا استدلال نہ شرعی ہے نہ عالمانہ بلکہ آیت مذکورہ ایسے استدلال کا نام مجادلہ رکھتی اور مستدل کو ’’قوم خصمون‘‘ میں شامل کرتی ہے۔ ’’
فَاعْتَبِرُوْا یَا اُوْلِی الْاَبْصَارِ
‘‘
۲… ’’
اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَائٍ
‘‘ پر بھی غور فرمائیے۔ غور طلب امر یہ ہے کہ یہ ’’
من دون اللّٰ
ہ‘‘ جن کو پکارا جاتا ہے۔ یہ ’’
اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَائٍ
‘‘ حَالاً ہیں یا مآلاً ہیں۔ یعنی کیا آیت کے یہ معنی مرزاقادیانی کرتے ہیں کہ جب چند شخصوں نے کسی ’
’مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ
‘‘ کو پکارنا شروع کیا تو وہ فوراً مربھی جاتا ہے اور اس کی حیات بھی منقطع ہو جاتی ہے۔ اگر وہ یہی معنی کرتے ہیں۔ تب کچھ شک نہیں کہ یہ معنی خلاف واقع ہیں اور کلام ربانی کی شان عظیم اس سے برتر واعلیٰ ہے۔ ہم نے خود سینکڑوں ایسے شخص دیکھے ہیں اور مرزاقادیانی نے نیز ناظرین نے بھی دیکھے ہوں گے کہ ان کے بیوقوف معتقد اور مرید ان کو خدائے حاضر وناظر کی طرح ہر وقت ہر جگہ موجود جانتے ہیں اور اٹھتے بیٹھتے، جاگتے سوتے، یا پیر یا پیر ہی پکارا کرتے ہیں۔ ان کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ خدا روٹھ جائے تو پیر ملادیتا ہے اور پیر روٹھ جائے تو خدا نہیں ملا سکتا۔ اس لئے وہ ہمیشہ پیر کا درجہ رسول اور خدا سے برتر وافضل جانا کرتے ہیں اور بایں ہمہ طغیانی کفر وشرک یہ ’’
مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ
‘‘ معبود اپنی تمتع اور کامرانی کے دن بڑی عیش وشادمانی سے پورے کیا کرتے ہیں۔ یہ واقعات جن کا ظہور ہر شخص ہر روز دیکھ سکتا ہے۔ بتلا رہے ہیں کہ مرزاقادیانی کے معنی غلط اور خلاف واقع ہیں۔
اب رہا ان کا مآلا اموات اور غیراحیاء ہونا یعنی بالآخر ان مشرکین کے معبودوں نے ایک روز مرنا ہے۔ یہ بے شک صحیح ہے مگر اب آیت میں مسیح علیہ السلام کی وفات بالفعل پرذرا بھی اشارت باقی نہ رہے گا اور مرزاقادیانی کا ہم پر کچھ اعتراض نہ رہ گیا۔ کیونکہ حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات بزمانہ آئندہ کو ہم بھی تسلیم کرتے ہیں اور ’’کل نفس فان‘‘ کا اثر ونفاذ مسیح پر بھی تسلیم کرتے ہیں۔
(جوابات بالا مرزاقادیانی کی تفہیم کے لئے عرض کئے گئے ہیں۔ ورنہ مفسرین نے آیت کو بحق اصنام یعنی بتوں کے لئے لکھا ہے اور اموات غیراحیاء کے یہ معنی کئے ہیں کہ ان بنائے ہوئے معبودوں کو تو کبھی بھی حیات حاصل نہیں ہوئی۔ ان میں کبھی بھی لوازم زندگی پائے نہیں گئے اور اس لئے عدم محض ہیں اس معنی پر کوئی اعتراض مرزاقادیانی کا وارد نہیں ہوتا اور وفات مسیح کی دلیل کا تو اس میں ہونا ذرا بھی تعلق نہیں رکھتا)
اکیسویں آیت:
’
’مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحْدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ (الاحزاب:۴۰)
‘‘ {محمد باپ نہیں کسی کا تمہارے مردوں میں سے لیکن رسول ہے اﷲ کا اور مہر سب نبیوں پر۔}
قادیانی استدلال:
’’یہ آیت بھی صاف دلالت کر رہی ہے کہ بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی رسول دنیا میں نہیں آئے گا پس اس سے بھی بکمال وضاحت ثابت ہے کہ مسیح ابن مریم رسول اﷲ دنیا میں نہیں آسکتا، کیونکہ مسیح ابن مریم رسول ہے… اور یہ امر خود مستلزم اس بات کو ہے کہ وہ مرگیا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۱۴، خزائن ج۳ ص۴۳۱)
الجواب: ۱… ناظرین یہاں مرزاقادیانی سے سخت غلط فہمی ہوئی ہے اور منشاء غلطی یہ ہے کہ سید الانبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان رفیعہ کے سمجھنے میں قصور ہوا ہے۔ قرآن مجید میں یہ آیت صریح اور نص قطعی موجود ہے: ’’
وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیِّیْنَ لَمَا اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتَابٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَائَ کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقَ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ (آل عمران:۸۱)
‘‘ {جب خدا نے نبیوں سے اقرار لیا کہ جو کچھ میں نے تم کو کتاب اور حکمت دی ہے پھر جب تمہاری طرف رسول موعود آئے جو تمہاری سچائی ظاہر کرے گا تو تم ضرور اس پر ایمان لاؤ گے اور ضرور اس کی مدد کرو گے۔}
اس کا مفہوم ومنطوق یہ ہے کہ جس قدر انبیاء ورسل حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک گزرے ہیں۔ یہ سب وعدہ کر چکے ہیں کہ ہم محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے شمار میں اپنے آپ کو داخل وشامل سمجھیں گے اور امتیوں کی طرح آپ کا کلمہ پڑھیں گے۔ اسی آیت کی عملی تفسیر اس حدیث معراج میں ہے۔ جو صحیح مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے مروی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے امام بن کر نماز پڑھائی اور حضرت موسیٰ وحضرت عیسیٰ وحضرت ابراہیم علیہم السلام وغیرہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے مقتدی بن کر پڑھی۔ پس جب انبیاء گزشتہ کا شمار پہلے ہی سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے بعد ہوتا ہے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اس میثاق ازلی کے ایفاء کے طورپر دنیا میں آنا اور خلیفۂ مسلمین بننارسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ درجہ رسالت کا مظہر ہے نہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درجہ خاتمیت کے منافی۔ یہ امر کہ مسیح علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں شمار ہوتے ہیں۔ مرزاقادیانی نے انیسویں آیت کے تحت میں (ازالہ اوہام ص۶۲۳، خزائن ج۳ ص۴۳۶) پر ان الفاظ میں مان لیا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم اس امت کے شمار میں ہی آگئے ہیں۔ یہ اقرار کرنے کے بعد مرزاقادیانی سے نہایت مستبعد معلوم ہوتا ہے کہ مسیح بن مریم کے آنے کا انکار اس آیت کے تمسک سے کریں اور تعجب پر تعجب یہ ہے کہ انبیاء گزشتہ میں سے اگر کوئی نبی اس میثاق ازلی کے موافق جس کی خبر قرآن مجید میں دی گئی۔ ہمارے سید حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت وخدمت کے لئے دنیا میں تشریف لائے تو مرزاقادیانی اس آیت کو اس کے لئے مانع خیال کرتے ہیں۔ مگر خود اپنے لئے ایک پہلو نکال کر یوں تحریر کرتے ہیں: ’’
خاتم النّبیین
‘‘ ہونا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی دوسرے نبی کے آنے سے مانع ہے۔ ہاں! ایسا نبی جو مشکوٰۃ نبوت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نور حاصل کرتا ہے اور نبوت تامہ نہیں رکھتا۔ جس کو دوسرے لفظوں میں محدث بھی کہتے ہیں۔ وہ اس تحریر سے باہر ہے۔ کیونکہ وہ بباعث اتباع اور فنا فی الرسول ہونے کے جناب ختم المرسلین کے وجود میں ہی داخل ہے۔ جیسے کل میں جزو داخل ہوتی ہے۔
(ازالہ اوہام ص۵۷۵، خزائن ج۳ ص۴۱۱)
دیکھو کیسے صاف لفظوں میں لکھ گئے کہ میں نبی ہوں اور یہ آیت میرے لئے مانع نہیں کیونکہ فنا فی الرسول ہوکر میں بھی محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا جزو بن گیا ہوں۔
اچھا مرزاقادیانی اگر بباعث اتباع اور فنا فی الرسول ہونے کے کوئی نبی ختم المرسلین کے وجود میں ہی داخل ہو جاتا ہے اور اس کی نبوت جداگانہ شمار نہیں ہوتی۔ تب بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آنا اور نزول فرمانا ثابت ہوگیا۔ کیونکہ صحیح مسلم کی حدیث معراج عن ابی ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے ثابت ہوچکا ہے کہ مسیح علیہ السلام نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کیا ہے اور فنا فی الرسول ہونے کی شہادت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اس وعظ سے ملتی ہے۔ جس میں انہوں نے اپنی امت کو وجود باوجود محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت سنا سنا کر فرمایا تھا۔ ’’آگے کو تم سے بہت باتیں نہ کروں گا کیونکہ اس دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کی کوئی چیز نہیں۔‘‘ یوحنا:۱۵، باب:۲۰ دنیا کا سردار اور مجھ میں اس کی کوئی چیز نہیں۔ خیال تو کرو کیسے الفاظ ہیں اور کس سچے دل اور صادق زبان سے نکلے ہیں۔ اگر فنا فی الرسول کا درجہ اس قول کے قائل کوبھی حاصل نہیں۔ (جس کا اپنے قول میں صادق ہونا سب کے نزدیک مسلم ہے) تو اور کس شخص کو ہوسکتا ہے؟ اس کے بعد مرزاقادیانی اس حدیث پر نظر فرمائیں۔ جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیاء کو علاتی بھائی فرماکر آخر میں فرمایا ہے: ’’
وَاَنَا اَوْلَی النَّاسِ بِعِیْسٰی ابْنِ مَرْیَمَ
‘‘ یہاں آپ ذرا غور سے دیکھیں کہ آپ کی اصطلاح کے موافق عیسیٰ بن مریم تو محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم میں اور محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مسیح علیہ السلام میں کس طرح داخل ہیں۔ غرض ثابت ہوا کہ آپ کی مستدلہ آیت آپ کے مفید نہیں ہوسکتی۔ بچند وجوہ!
۱… قرآن مجید شہادت دیتا ہے کہ سابقہ حملہ انبیاء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں ہیں۔ لہٰذا اس میں سے کسی ایک کا آنا اور خلیفہ بننا بعینہٖ صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم اور فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم جیسا خلیفہ بننا ہے۔
۲… مرزاقادیانی نے مان لیا کہ مسیح علیہ السلام بھی اسی امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شمار میں آچکا ہے۔
۳… مرزاقادیانی کہتے ہیں۔ میں نبی ہوں اور میرے لئے آیت خاتم النّبیین مانع نہیں کیونکہ مجھے درجہ فنافی الرسول حاصل ہے اور میں رسول خدا سے کچھ جدا نہیں ہوں۔
۴… فنا فی الرسول کا قاعدہ کلیہ حضرت مسیح پر زیادہ ثابت ہوتا ہے۔ انجیل اور صحیح مسلم اس کے گواہ ہیں۔
پس ثابت ہوگیا۔ مرزاقادیانی نے اس آیت سے استدلال میں بڑی غلطی کھائی ہے یا صریح مغالطہ دیا ہے۔
ناظرین! یہ بھی یاد رکھیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام جو خدا کے نبی ہیں۔ وہ ہمارے سید ومولا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی بھی ہیں۔ صحابی کی تعریف یہ ہے کہ اس نے ایمان کے ساتھ اس زندگی میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت مسیح علیہ السلام سے شب معراج کو ملاقات کرنا ثابت ہے۔ پس نتیجہ یہ ہے کہ اگر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم وفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی خلافت کے لئے آیت خاتم النّبیین مانع ہے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خلافت کے لئے بھی ہے اور اگر ان کے لئے مانع نہیں تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے بھی مانع نہیں۔ ایک نبی کا نبی ہوکر پھر صحابی ہونا بھی بعید نہیں۔ حضرت ہارون علیہ السلام اور یحییٰ علیہ السلام کی مثالیں موجود ہیں۔ ہارون علیہ السلام تو موسیٰ علیہ السلام کے صحابی تھے۔ یحییٰ زکریا علیہ السلام کے۔
المختصر مرزاقادیانی کا یہ استدلال اور مفہوم اجماع امت کے بھی خلاف اور خود مرزاقادیانی کے مسلمہ اقرار واعتراف کے خلاف ہے۔ ملاحظہ فرمائیے کہ اس آیت کریمہ کے متعلق سابقہ تمام صحابہi اور بعد کے ائمۂ ہدیٰ، مجددین، ملہمین، مفسرین ومحدثین تمام متکلمین اور متصوفین نے اس آیت کا مفہوم خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر نص صریح تسلیم کیا ہے اور اس کو آمد مسیح علیہ السلام کے رتی بھر منافی نہیں رکھا۔ یہ صحیح مفہوم تھا جو ہر زمانہ اور ہر دور میں مسلم تھا۔ اب مرزاقادیانی نے لکھا اجماعی مسئلہ کے منکر پر خدا ورسول اور تمام کائنات کی لعنت ہے۔ (ازالہ) پھر لکھا کہ سلف، خلف کے لئے بطور وکیل کے ہوتے ہیں ان کی شہادات ماننا ہی پڑتی ہیں۔ (ازالہ ص۴۷۴،۴۷۵)
جواب: ۲… سیدنا مسیح علیہ السلام کا آنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے منافی نہیں۔ مرزاقادیانی سے صدیوں پہلے علامہ آلوسی نے روح المعانی میں اس اعتراض کا جواب دے دیا ہے۔ ’’
ای لاینباء احد بعدہ اما عیسٰی ممن نبی قبلہ
‘‘ خاتم النّبیین کا معنی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو منصب نبوت پر فائز نہیں کیا جائے گا۔ باقی رہے عیسیٰ علیہ السلام تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے نبی بن چکے ہیں۔ اس لئے عیسیٰ علیہ السلام کی آمد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے منافی نہیں۔
جواب: ۳… معراج کی رات تمام انبیاء علیہم السلام موجود تھے تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النّبیین تھے۔ قیامت کے دن تمام انبیاء علیہم السلام موجود ہوں گے تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النّبیین ہوں گے۔ اس لئے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے نبی بنائے جاچکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی بنے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے منافی ہے۔
جواب: ۴… سیدنا مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبی نہیں بنا رہی۔ نہ شمار انبیاء میں اضافہ ہورہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نیا نبی نہیں بن رہا۔ بلکہ نبی ماقبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں شامل ہورہا ہے۔ وہ ایک نہیں بلکہ سب (شب معراج، یوم قیامت) شامل ہوں تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے خلاف نہ ہوگا۔ بخلاف اس کے کہ کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے جیسے مسیلمہ کذاب یا کذاب قادیان وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے باغی ومنحرف کہلائیں اور کافر، کذاب ودجال۔
’’
فَاسْئَلُوْا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَاتَعْلَمُوْنَ (النحل:۴۴)
‘‘ {سو پوچھو یاد رکھنے والوں سے اگر تم کو معلوم نہیں۔}
قادیانی استدلال:
’’یعنی اگر تمہیں ان بعض امور کا علم نہ ہو جو تم میں پیداہوں تو اہل کتاب کی طرف رجوع کرو اور ان کی کتابوں پر نظر ڈالو تااصل حقیقت تم پر منکشف ہو جائے۔ سو جب ہم نے موافق حکم اس آیت کے اہل کتاب یعنی یہود اور نصاریٰ کی کتابوں کی طرف رجوع کیا اور معلوم کرنا چاہا کہ کیا اگر کسی نبی گزشتہ کے آنے کاوعدہ دیاگیا ہو تو وہی آجاتا ہے یا ایسی عبارتوں کے کچھ اور معنی ہوتے ہیں تو معلوم ہوا کہ اسی امر متنازعہ فیہ کا ہم شکل ایک مقدمہ حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام آپ ہی فیصل کر چکے ہیں اور ان کے فیصلہ کا ہمارے فیصلہ کے ساتھ اتفاق ہے۔ دیکھو کتاب سلاطین وملا کی نبی اورانجیل جو ایلیاہ علیہ السلام نبی کا دوبارہ آسمان سے اترنا کس طور سے حضرت مسیح علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۶۱۵،۶۱۶، خزائن ج۳ ص۳۴۲)
آئیے مرزاقادیانی! اگر آپ ’’
فَاسْئَلُوْا اَہْلَ الذِّکْرِ
‘‘ پر ہی فیصلہ کرنا چاہتے ہیں تو یوں ہی فیصلہ کر لیں آپ نے الفاظ ’’
ایلیاہ کا دوبارہ آسمان سے اترنا
‘‘ لکھ کر یہ تسلیم کر لیا ہے کہ ایلیاہ آسمان پر چڑھایا گیا۔ آپ یہ دریافت کرتے ہیں کہ اس کا اترنا کس طور کا بیان کیاگیاہے تو پہلے یہ دریافت کر لیجئے کہ ’’ایلیاہ کا آسمان پر چڑھ جانا کس طرح بیان کیا گیا ہے۔‘‘ اور یوں ہوا کہ جب خداوند نے چاہا کہ ایلیاہ کو ایک بگولے میں اڑا کے آسمان پر لے جائے۔ تب ایلیاہ الیسع کے ساتھ جل جلال سے چلا اور ایلیاہ نے الیسع کو کہا تو یہاں ٹھہریو اس لئے کہ خداوند نے مجھے بیت ایل کو بھیجا ہے۔ سو الیسع بولا۔ خداوند کی حیات اور تیری جان کی سوگند میں تجھے نہ چھوڑوں گا۔ سو وہ بیت ایل کو اتر گئے اور انبیاء زادے جو بیت ایل میں تھے نکل کر الیسع پاس آئے اور اس کو کہا تجھے آگاہی ہے کہ خداوند آج تیرے سر پر سے تیرے آقا کو اٹھا لے جائے گا۔ وہ بولا ہاں میں جانتا ہوں تم چپ رہو۔ تب ایلیاہ نے اس کو کہا۔ اے الیسع تو یہاں ٹھہریو کہ خداوند نے مجھے یریحو کو بھیجا ہے۔ اس نے کہا خداوند کی حیات اور تیری جان کی قسم میں تجھ سے جدا نہ ہوں۔ چنانچہ وہ یریحو میں آئے اور انبیاء زادے جو یریحو میں تھے۔ الیسع پاس آئے اور اس سے کہا تو اس سے آگاہ ہے کہ خداوند آج تیرے آقا کو تیرے سر پر سے اٹھالے جائے گا۔ وہ بولا میں تو جانتا ہوں۔ تم چپ رہو اور پھر ایلیاہ نے اس کو کہا تو یہاں درنگ کیجیو کہ خداوند نے مجھ کو یردن بھیجا ہے۔ وہ بولا خداوند کی حیات اور تیری جان کی قسم میں تجھ کو نہ چھوڑوں گا۔ چنانچہ وہ دونوں آگے چلے اور ان کے پیچھ پیچھے پچاس آدمی انبیاء زادوں میں سے روانہ ہوئے اور سامنے کی طرف دور کھڑے ہو رہے اور وہ دونوں لب یردن (نام ریا) کھڑے ہوئے اور ایلیاہ نے اپنی چادر کو لیا اورلپیٹ کر پانی پر مارا کہ پانی دو حصے ہوکے ادھر ادھر ہوگیا اور وہ دونوں خشک زمین پر ہوکے پار گئے اور ایسا ہوا کہ جب پار ہوئے تب ایلیاہ نے الیسع کو کہا کہ اس سے آگے کہ میں تجھ سے جدا کیا جاؤں۔ مانگ کہ میں تجھے کیا دوں۔ تب الیسع بولا مہربانی کر کے ایسا کیجئے کہ اس روح کا جو تجھ پرہے مجھ پر دوہرا حصہ ہو۔ تب وہ بولا تو نے بھاری سوال کیا۔ سو اگر مجھے آپ سے جدا ہوتے ہوئے دیکھے گا تو تیرے لئے ایسا ہوگا اور اگر نہیں تو ایسا نہ ہوگا اور ایسا ہوا کہ جوں ہی وہ دونوں بڑھتے اور باتیں کرتے چلے جاتے تھے تو دیکھ کہ ایک آتشی رتھ اور آتشی گھوڑوں کے درمیان آکے ان دونوں کو جدا کر دیا اور ایلیاہ بگولے میں ہوکے آسمان پر جاتا رہا اور الیسع نے یہ دیکھا اور چلایا۔ اے میرے باپ میرے باپ اسرائیل کی رتھ اور اس کے ساتھی۔ سو اس نے پھر نہ دیکھا اور اس نے اپنے کپڑوں پر ہاتھ مارا اور انہیں دو حصے کیا اور اس نے ایلیاہ کی چادر کو بھی جو اوپر سے گر پڑی تھی۔ اٹھا لیا اور الٹا پھرا اور یردن کے کنارے پر کھڑا ہوا اور وہاں اس نے ایلیاہ کی چادر کو جو اس پر سے گر پڑی تھی لے کر پانی پر مارا اور کہا کہ خداوند ایلیاہ کا خدا کہاں ہے اور اس نے بھی اس چادر کو جب پانی پر مارا تو پانی ادھر ادھر ہوگیا اور الیسع پار ہوگیا۔ مرزاقادیانی ایلیاہ کے آسمان پر چڑھ جانے کی یہ کیفیت مفصل پڑھ کر اب اپنے اس فقرہ کو یاد کریں کہ ’’جب جسم خاکی کے ساتھ آسمان پر چلے جانا ثابت ہو جائے تو پھر اسی جسم کے ساتھ اترنا کچھ مشکل نہیں۔‘‘ نیز یہ فقرہ (کتاب مقدس سلاطین:۲، باب۲، آیت:۱تا۴ ص۳۵۰، مطبوعہ ۱۹۲۷ء) ’’مسیح کا جسم کے ساتھ آسمان سے اترنا اس کے جسم کے ساتھ چڑھنے کی فرع ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۲۷۰، خزائن ج۳ ص۲۳۶) اور ملاحظہ کیجئے کہ ایلیاہ کا جسم کے ساتھ آسمان پر چڑھنا کس وضاحت سے اہل کتاب کے صحف سماوی میں مندرج ہے۔ آپ کا یہ کہنا کہ ایلیاہ کی جس چادر کے گرنے کا ذکر ہے وہ اس کا جسم ہی تو تھا بالکل غلط ہے۔ کیونکہ اوّل تو شروع باب میں یہ فقرہ ہے یہ خدا نے چاہا کہ ایلیاہ کو ایک بگولے میں اڑا کے آسمان پر لے جائے۔ بگولے میں اڑا کر لے جانا روح سے کچھ تعلق نہیں رکھتا۔ دوم: یہ فقرہ ایلیاہ نے اپنی چادر کو لپیٹ کر دریا پر پھینک کر مارا۔ پانی ادھر ادھر ہوگیا۔ اگر چادر سے مراد جسم ہے تو ایلیاہ نے خود اپنے جسم کو کس طرح لپیٹ کر دریا پر مارا تھا۔ سوم: یہ فقرہ الیسع نے بھی اس چادر کو جب پانی پر مارا۔ کیا الیسع نے اپنے پیرومرشد کی لاش کو پھینک کر مارا تھا۔ غرض یہ تاویل فضول ہے اور سلاطین باب:۲ سے ایک جسم کا آسمان پر جانا ثابت ہے۔ اگر مرزاقادیانی کو ’’
فَاسْئَلُوْا اَہْلَ الذِّکْرِ
‘‘ پر ایمان ہے تو پہلے اس صعود جسمی کو تو مان لیں۔
ناظرین اس بیان میں مرزاقادیانی نے چند غلطیاں کی ہیں۔ اوّل معنی آیت کے سمجھنے میں۔ آیت کے صاف معنی یہ ہیں کہ اگر تم کو معلوم نہ ہو تب اہل کتاب سے پوچھو۔ خدا کے فضل سے نزول مسیح علیہ السلام کا مسئلہ ایسا نہیں جو ہم کو معلوم نہ ہو۔ قرآن مجید سے لے کر صحاح ستہ اور دیگر تمام دوا وین حدیث میں نزول مسیح علیہ السلام کی مفصل خبریں درج ہیں۔ بلکہ میں دعویٰ کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ احادیث نزول مسیح میں اس قدر تفصیل اور تشریح ہے کہ آج تک کسی پیش گوئی کو تو کیا گزشتہ واقعہ کو بھی کسی مورخ نے ایسی خوبی اور صفائی سے شاید ہی بیان کیا ہو۔ میرا یہ کہنا تو مرزاقادیانی کو ناگوار خاطر ہوگا کہ انہوں نے ان احادیث پر نظر نہیں ڈالی۔ مگر اس میں شک نہیں کہ ان کی تحریر میں ان احادیث کا علم ہونے کی ذرا بھی دلالت نہیں۔
الف… مرزاقادیانی!!! جغرافیائی طور پر اس پیش گوئی کے متعلقہ احادیث اس طرح ہیں۔
۱… مدینہ کی آبادی اہاب تک پہنچ جائے گی۔ (صحیحین مسلم ج۲ ص۳۹۳، کتاب الفتن)
ناظرین آج ہمارے زمانہ میں اس حد تک آبادی نہیں پہنچی۔
۲… اسلامی شہروں میں سے سب سے آخر میں مدینہ ویران ہوگا۔ (ترمذی ج۲ ص۲۲۹، باب فضل المدینہ)
خدا کے فضل سے آج مدینہ آباد وبارونق ہے۔
۳… بیت المقدس کی کامل آبادی سبب ہے مدینہ کی خرابی کا۔ مدینہ کاخراب ہونا سبب ہے جنگ عظیم کا۔ جنگ عظیم کا واقع ہونا سبب ہے قسطنطنیہ کی فتح کا۔ قسطنطنیہ کا فتح ہو جانا وقت ہے خروج دجال کا (ابوداؤد ج۲ ص۱۳۲، باب امارت الملاحم) یہ فقرہ یا دو رجانے کی ضرورت نہیں کہ خروج الدجال سبب ہے نزول مسیح کا۔
۴… حضرت مسیح شہر بیت المقدس میں اور مسلمانوں کے لشکر میں نازل ہوں گے۔
(ابوداؤد ج۲ ص۱۳۵، باب خروج الدجال وابن ماجہ ص۲۹۷، باب فتنۃ الدجال)
ب… اس کے بعد ملکی انقلابات سے متعلقہ احادیث پر نظر ڈالئے۔
۱… مسلمانوں کا لشکر جو نصاریٰ کی طلب میں نکلا ہوگا۔ اس فوج کے مقابل ہوں گے جس نے قسطنطنیہ فتح کر لیا ہوگا۔ تین روز تک مسلمانوں کو شکست ہوتی رہے گی۔ چوتھے روز مسلمانوں کو فتح کامل حاصل ہوگی۔ اس جنگ سہ روزہ میں ۹۹فیصدی مقتول ہوں گے۔ اس فتح کے بعد مسلمان قسطنطنیہ کو فتح کر لیں گے۔ فتح کے بعد جب ملک شام میں پہنچیں گے تب دجال خروج کرے گا اور پھر نماز صبح کے وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام نزول فرمائیں گے۔
(مسلم ج۲ ص۳۹۱،۳۹۲، کتاب الفتن عن ابی ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم وابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم )
۲… دجال زمین مشرق، خراسان سے نکلے گا۔
(ترمذی ج۲ ص۴۷، باب ماجاء فی الدجال عن ابی بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم )
وہ بجز مکہ ومدینہ سب جگہ پھر جائے گا۔ (مسلم ج۲ ص۴۰۵، باب فی بقیۃ احادیث الدجال)
۳… حضرت عیسیٰ علیہ السلام باب لد پر دجال کو قتل کریں گے۔ (مسلم ج۲ ص۴۰۱، باب ذکر الدجال)
ج… تعین زمانہ اور سنین کے اعتبار سے ملاحظہ فرمائیے۔
۱… جنگ عظیم اور فتح قسطنطنیہ میں ۶سال کا فاصلہ ہے اور دجال کا خروج ساتویں سال میں ہے۔
(ابوداؤد ج۲ ص۱۳۲، باب فی تواتر الملاحم)
گو میں نے ان احادیث کی طرف نہایت مختصر لفظوں میں اشارہ کیا ہے۔ مگر حق کے طالب اور صداقت کے جویا ان بیانات سے بہت کچھ فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ میری غرض ان احادیث کودکھانے سے یہ ہے کہ جب اسلام نے اپنی تعلیم کو خود مکمل کر دیا ہے اور اﷲتعالیٰ نے اپنے ناچیز بندوں پر اپنی نعمت کو تمام فرمادیا ہے اور مبحث فیہ مسئلہ میں بھی ایسی صراحت سے مسلمانوں کو آگاہ فرمایا ہے تو ان نعمتوں کی قدر نہ کرنا اس پاک اور آخری تعلیم پر اعتبار نہ کرنا اور پھر اہل کتاب سے پرسش کا اپنے آپ کو محتاج جاننا کیا ہی لغو فعل ہے؟ جس طرح بہت سے شوم طبع بھکیاری (جن کے اندوختہ سے ان کے نفس کو بھی منفعت حاصل نہیں ہوتی) سینکڑوں اشرفیاں اپنی سڑی بسی گڈری میں چھپا رکھتے ہیں اور پیسہ پیسہ کے لئے دربدر بھٹکتے پھرا کرتے ہیں۔ بس اس جگہ بھی ٹھیک وہی مثال ہے۔ دوسری غلطی مرزاقادیانی کی یہ رائے ہے کہ نصاریٰ کی کتابوں سے یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ جب کسی نبی کے آنے کا وعدہ دیاگیا ہو تو اس کے کیا معنی ہوتے ہیں۔ مرزاقادیانی کیوں یہ دیکھنا نہیں چاہتے کہ ان کتابوں میں خاص حضرت مسیح علیہ السلام کے آنے کے بارہ میں کیا لکھا ہے۔ کیونکہ اس جگہ عمومیت کا سوال نہیں بلکہ خصوصیت کا ہے۔
میں معزز ناظرین کی نزہت طبع کے لئے مسیح کے آنے کے بارہ میں جو کچھ انجیل میں لکھا ہے پیش کرتا ہوں۔ متی ۲۴ باب میں یہی بیان ہے۔
(۱)یسوع ہیکل سے نکل کر چلا گیا اور اس کے شاگرد اس کے پاس آئے کہ اسے ہیکل کی عمارتیں دکھلائیں۔ (۲)پریسوع نے کیا کیا تم یہ سب چیزیں دیکھتے ہو۔ میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ یہاں پتھر پتھر پر نہ چھوٹے گا جو گرایا نہ جائے گا۔ (۳)جب وہ زیتون کے پہاڑ پر بیٹھا تھا اس کے شاگرد اس کے پاس آئے اور بولے کہ یہ کب ہوگا اور تیرے آنے کا اور دنیا کے اخیر کا نشان کیا ہے۔ (۴)اور یسوع نے جواب دے کے انہیں کہا خبردار ہو کہ کوئی تمہیں گمراہ نہ کرے۔ (۵)کیونکہ بہتیرے میرے نام پر آئیں گے اور کہیں گے کہ میں مسیح ہوں اور بہتوں کو گمراہ کریں گے۔ (۶)اور تم لڑائیاں اور لڑائیوں کی افواہ سنو گے۔ خبردار مت گھبراؤ کیونکہ ان سب باتوں کا واقع ہونا ضرور ہے۔ پر اب تک اخیر نہیں ہے (یعنی قیامت نہیں) (۷)کیونکہ قوم قوم پر اور بادشاہت بادشاہت پر چڑھے گی اور کال وبائیں اور جگہ جگہ زلزلے ہوں گے۔ (۸)پھر یہ سب باتیںمصیبتوں کا شروع ہیں۔ تب وہ تمہیں دکھ میں حوالے کریں گے اور میرے نام کے سبب سب قومیں تم سے کینہ رکھیں گی۔ (۹)اور اس وقت بہتیرے ٹھوکر کھائیں گے اور ایک دوسرے سے کینہ رکھے گا۔ (۱۰)اور بہت جھوٹے نبی اٹھیں گے اور بہتوں کو گمراہ کریں گے۔ (۱۱)اور بے دینی پھیل جانے سے بہتوں کی محبت ٹھنڈی ہو جائے گی۔ (۱۲)پر جو آخر تک سہے گا وہی نجات پائے گا۔ (۱۳)اور بادشاہت کی یہ خوشخبری ساری دنیا میں سنائی جائیگی۔ تاکہ سب قوموں پر گواہی ہو اور اس وقت آخر آئے گا۔ (۱۴)پس جب ویرانی کی مکروہ چیز کو جس کا دانیال نبی کی معرفت ذکر ہوا ہے مقدس مکان میں کھڑے دیکھو گے۔ (یعنی جب دجال بیت المقدس پہنچے) (۱۵)تب جو یہودیہ میں ہوں پہاڑوں پر بھاگ جائیں۔ (۱۶)جو کوٹھے کے اوپر ہو اپنے گھر سے کچھ نکالنے کو نہ اترے۔ (۱۷)اور جو کھیت میں ہو اپنا کپڑا اٹھا لینے کو پیچھے نہ پھرے۔ (۱۸)پر ان پر افسوس جو ان دنوں میں حاملہ اور دودھ پلانے والیاں ہوں (کیونکہ جب بچہ پیٹ یا گود میں ہوتا ہے بھاگا نہیں جاتا) (۱۹)سو دعا مانگو کہ تمہارا بھاگنا جاڑے میں باڑ کے دن نہ ہو (اس سے ظاہر ہے کہ دجال بیت المقدس میں موسم سرما اور یوم شنبہ کو پہنچے گا۔ بھاگنا نہ ہو سے مطلب یہ ہے کہ خدا تم کو وہ دن نہ دکھلائے) (۲۰)کیونکہ اس وقت ایسی بڑی مصیبت ہوگی جیسی دنیا کے شروع سے اب تک نہ ہوئی ہو اور نہ کبھی ہوگی۔ (۲۱)اور اگروے (دن) گھٹائے نہ جاتے تو ایک تن بھی نجات نہ پاتا۔ پر برگزیدوں کی خاطروے دن گھٹائے جائیں گے۔ (۲۲)تب اگر کوئی کہے کہ دیکھو مسیح یہاں ہے یا وہاں تو یقین مت لاؤ۔ (۲۳)کیونکہ جھوٹے مسیح اور جھوٹے نبی اٹھیں گے اور بڑے نشان اور کرامتیں دکھائیں گے یہاں تک کہ اگر ممکن ہوتا تو برگزیدوں کو بھی گمراہ کرتے۔ (۲۴)دیکھو میں پہلے سے ہی کہہ چکا ہوں۔ (۲۵)پس اگر وہ (لوگ) تمہیں کہیں دیکھو وہ ( مسیح) جنگل میں ہے تو باہر مت جاؤ۔ دیکھو وہ کوٹھڑی میں ہے (جس کا نام مرزاقادیانی نے بیت الذکررکھا ہے) تو باور مت کرو۔ (۲۶)کیونکہ جیسے بجلی پورب سے کوندتی ہے اور پچھم تک چمکتی ہے ویسا ہی انسان کے بیٹے کا آنا بھی ہوگا۔ (۲۷)اور فی الفور ان دنوں کی مصیبت کے بعد سورج اندھیرا ہو جائے گا اور چاند اپنی روشنی نہ دے گا اور ستارے آسمان سے گریں گے اور آسمان کی قوتیں ہلائی جائیں گی۔
(ناظرین تیرے آنے کا اور دنیا کے اخیر کا نشان کیا ہے۔ یہ الفاظ ’’
انہ لعلم للساعۃ
‘‘ کا ترجمہ ہیں۔ مرزاقادیانی نے ’’
انہ
‘‘ کی ضمیر میں جو مختلف وجوہ پیش کئے ہیں احادیث نبوی کے الفاظ اور انجیل کے الفاظ اس کا تصفیہ کرتے ہیں۔ حواریوں کے الفاظ سوال سے یہ بھی معلوم ہے کہ اس سوال سے پہلے بھی ان کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر جانے اور پھر قرب قیامت میں بار دوم آنے کا حال معلوم ہوچکا تھا۔ یعنی وہ یہ وقت تھا جب اﷲتعالیٰ ’’اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ‘‘ کا وعدہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دے چکا تھا اور ان الفاظ کے معنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نیز ان کے حواری وہی سمجھتے تھے جو آج جمہور مسلمانوں نے سمجھے ہیں۔ ورنہ تیرے آنے کا اور دنیا کے اخیر کا کیا نشان ہے۔ بالکل بے معنی ہو جاتا ہے کیونکہ حضرت مسیح تو خود ان میں موجود تھے اور آنے میں کیا کسر رہ گئی تھی)
(حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ پیش گوئی کیسے صاف اور واضح الفاظ میں حتمی طور پر فرمائی ہے اور اطلاع دی ہے کہ بہت سے لوگ ایسے پیدا ہوں گے جو مسیح کا نام اور درجہ اپنے لئے ثابت کریں گے۔ پھر علامت اورنشانی کے طور پر فرمادیا کہ جھوٹے مسیح اس زمانہ میں پیدا ہوں گے جب لڑائیاں شروع ہوں گی۔ یا لڑائیوں کی افواہ، قوم قوم پر بادشاہت بادشاہت پر چڑھے گی۔ کال، وبائیں، زلزلے آئیں گے۔ اب ان علامات پر نظر غور سے دیکھو۔ پہلے مرزاقادیانی کا وہ دعویٰ یاد کرو۔ ’’جَعَلْنٰکَ مَسِیْحَ ابْنِ مَرْیَمَ‘‘ یعنی میں مسیح ہوں پھر فرانس کا جنگ۔ سیام سے سوڈانیوں کا، مصر سے انگریزوں کا۔ افریقہ میں وحشی لوگوں سے، ہندوستان میں برہما اور شمالی پیاڑی والوں سے وغیرہ وغیرہ پر نگاہ ڈالو۔ پھر روس اور انگلستان کی اور جرمن وفرانس کی اور یونان وروم کی جنگ کی افواہیں یاد رکھو اور پھر اس نتیجہ کو جو مسیح علیہ السلام نے نکالا ہے انصاف سے دیکھو کہ وہ جھوٹے مسیح بہتیروں کو گمراہ کرنے والے ہوں گے)
یوحنا کی انجیل میں دیکھئے۔ (۲۸)تم سن چکے ہو کہ میں نے تم کو کہا کہ جاتا ہوں اورتمہارے پاس پھر آتا ہوں۔ اگر تم مجھے پیار کرتے تو میرے اس کہنے سے کہ میں باپ کے پاس جاتا ہوں خوش ہوتے۔ کیونکہ میرا باپ مجھ سے بڑا ہے۔ (۲۹)اور اب میں نے تمہیں اس کے واقع ہونے سے پیشتر کہا ہے تاکہ جب ہو جائے تم ایمان لاؤ۔ (۱۵ باب مرقس کے ۱۳باب اور لوقا کے ۱۷باب) میں بھی اسی طرح ہے۔
اب مرزاقادیانی انصاف اور حق پسندی کی راہ سے فرمائیں کہ آپ حضرت مسیح علیہ السلام کا بیان ان کے نزول کے بارہ میں جو اس قدر مفصل ہے اور اناجیل اربعہ میں منقول ہے کیوں منظور نہیں فرماتے۔ انجیل یوحنا کا یہ فقرہ میں نے تم کو کہا کہ جاتا ہوں اور تمہارے پاس پھر آتا ہوں۔ زیادہ تر تدبر اور غور کے قابل ہے۔ ظاہر ہے: ’’پھر آتا ہوں۔‘‘ وہی شخص کہا کرتا ہے جو پہلے جایا کرتا ہے۔ پہلے جانا حضرت مسیح علیہ السلام کا ہمارے اور مرزاقادیانی کے نزدیک مسلم ہے (گو اس کی کیفیت میں اختلاف ہو) مگر ’’پھر آتا ہوں۔‘‘ کی مرزاقادیانی بڑے زور سے تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا پھر آنا محال اور قدرت کے خلاف ہے۔ اندریں حالت کہ مرزاقادیانی ’’فاسئلوا اہل الذکر‘‘ پکار رہے ہیں اور انجیل حضرت مسیح علیہ السلام کا بذات خود دنیا پر مکرر آنا بآواز بلند پکار رہی ہے۔ پھر معلوم نہیں کہ مرزاقادیانی نے کیوں اور کیونکر اس آیت کو وفات مسیح علیہ السلام کی دلیل بنایا ہے اور نہ صرف خوش اعتقاد مریدوں کو بلکہ کل مسلمانوں کو کیسی صریح غلطی میں ڈالنا چاہا ہے۔
یہ ثابت کرنے کے بعد کہ اہل کتاب کی آسمانی کتاب میں نزول مسیح علیہ السلام کی کیفیت کیا لکھی ہے؟ اب میں ایلیاہ کے اس قصہ پر توجہ کرتا ہوں۔ جس کا حوالہ اس آیت مستدلہ کے تحت میں مرزاقادیانی نے دیا ہے۔ جس کا ماحصل یہ ہے کہ یہود حضرت ایلیاہ کی آمد کے منتظر تھے۔ جب حضرت مسیح علیہ السلام نے نبوت کا اظہار کیا تو یہود نے یہ اعتراض کیا کہ پہلے ایلیاہ آنا چاہئے تھا۔ اگر تو مسیح ہے۔ بتا ایلیاہ کہاں ہے؟ حضرت مسیح علیہ السلام کا جواب اس بارہ میں انجیل میں یوں تحریر ہے کہ حضرت یوحنا کی طرف اشارہ کر کے آپ نے فرمایا۔ آنے والا ایلیاہ یہی ہے۔ چاہو تو قبول کرو۔ اس جواب کا وہی مطلب ہے جو مرزاقادیانی نے سمجھا ہے۔ مگر ناظرین انجیل کو ذرا تامل سے ملاحظہ فرمائیے۔ اسی انجیل میں یہ بھی ہے کہ جب علماء یہود کے فرستادوں نے خود حضرت یوحنا سے سوال کیا کہ آپ کون ہیں۔ آیا مسیح ہیں؟ کہا میں نہیں ہوں۔ پوچھا: کیا آپ ایلیاہ ہیں؟ فرمایا میں نہیں ہوں۔ آیا وہ نبی ہیں (وہ نبی ترجمہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا)؟ کہا میں نہیں ہوں۔ انہوں نے پھر دریافت کیا کہ اگر آپ نہ مسیح ہیں نہ ایلیاہ ہیں نہ وہ نبی ہیں تو پھر کون ہیں۔ حضرت یوحنا یحییٰ علیہ السلام نے جواب دیا میں وہ ہوں۔ جس کی یسعیاہ نبی نے خبر دی تھی۔
اب دیکھو کہ اگر انجیل کا یہ بیان ہے کہ مسیح نے یوحنا کو ایلیاہ بتایا تو انجیل ہی کا یہ بیان ہے کہ یوحنا نے ایلیاہ ہونے سے انکار کیا۔
فرمائیے! مسیح جو دوسرے کے بارہ میں کہہ رہا ہے وہ سچا ہے یا یوحنا جو خود اپنے حال کی خبر دیتا ہے۔ وہ صادق ہے۔ نبی دونوں ہیں۔ نتیجہ کیا نکالو گے؟ یہی کہ نبی تو دونوں سچے ہیں۔ ہاں! مسیح کے قول میں تحریف ہوگئی ہے۔ اس قدر لکھنے کے بعد جس سے ایلیاہ کا یوحنا ہونا غلط محض ثابت ہو چکا۔ یہ بھی درج کر دینا چاہتا ہوں کہ یہودی اگر حضرت ایلیاہ کے آنے کے قائل بھی تھے تو ان کے اعتقاد میں یہ ہرگز نہ تھا کہ وہ خود آسمان پر سے اترے گا۔ دیکھو علماء یہود نے حضرت یوحنا سے آکر یہ پوچھا ہے کہ تومسیح ہے یا ایلیا یا وہ نبی، اگر ایلیا کے آسمان سے نزول فرمانے کے وہ قائل ہوتے تو حضرت یوحنا پر مسیح اور وہ نبی ہونے کا شبہ نہ کرتے اور جب انہوں نے شبہ کیا تو اس کے صرف دو معنی ہیں یا تو یہود مسیح اور وہ نبی اور ایلیا تینوں کے نزول من السماء کے قائل تھے اور یہ بداہت باطل ہے۔ کیونکہ مسیح اور وہ نبی تو ہنوز بار اوّل بھی دنیا میں پیدا نہ ہوئے تھے یا یہ کہ وہ ایلیاہ کے بجسدہ آسمان سے نازل ہونے کے قائل نہ تھے اور یہی فقرہ کا مطلب ہے۔ بدیں صورت مرزاقادیانی کی وجہ استدلال کچھ بھی نہ رہی اور ثابت ہوگیا کہ مرزاقادیانی نے اس آیت سے استدلال کرنے میں چند درچند غلطیاں کیں اور مغالطے دئیے ہیں۔