باب ششم … حیات عیسیٰ علیہ السلام اور بزرگان امت
قرآن وسنت کی طرح پوری امت کے اکابر بھی حضرت سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کی حیات، رفع الیٰ السماء، نزول من السماء عند قرب الساعۃ کے قائل ہیں۔ اس پر ہمارے حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ تعالیٰ کی مستقل تصنیف ہے۔ ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات ونزول کا عقیدہ چودہ صدیوں کے مجددین واکابر امت کی نظر میں‘‘ اس تصنیف میں ترتیب وار چودہ صدیوں کے سینکڑوں اکابر کی تحریرات وتصریحات کو یکجا کر دیا ہے۔ یہ تصنیف (تحفہ قادیانیت ج۳ ص۱تا۲۶۴) پر طبع شدہ ہے۔ قادیانی دجال جس طرح قرآن وحدیث میں تحریف کے تیر چلاتے ہیں۔ اسی طرح اکابرین امت کی عبارات کو سیاق وسباق سے کاٹ کر یہودیوں کے کان کترتے ہیں۔ جن اکابر پر قادیانی وفات مسیح کا الزام دیتے ہیں۔ ذیل میں ہم فقط ان کی تحریفات کے جوابات عرض کرتے ہیں۔
حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم
ایسا ہی حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم پر قادیانیوں نے بہتان باندھا ہے کہ انہوں نے وفات حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کے خطبہ میں کہا: ’’
لقد قبض الیلۃ عرج فیہا بروح عیسٰی ابن مریم
‘‘ (طبقات کبریٰ ج۳ ص۲۸، مرزائی پاکٹ بک ص۲۰۵)
جواب: ۱… ’’طبقات ابن سعد‘‘ کا ایک قول نقل کرنا ہی دلیل صداقت سمجھا جائے؟ قرآنی وتفسیری، حدیثی ہزاروں اقوال کے مقابلہ میں ایک قول کو عقیدہ کے لئے بنیاد بنانا قادیانی الحاد کی دلیل ہے۔
جواب: ۲… چونکہ خود اسی کتاب کا مصنف قائل حیات مسیح علیہ السلام ہے جیسا کہ (ج۱ ص۴۵) پر حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کا قول دربارہ مثبت حیات مسیح نقل کر کے مصنف نے اس پر کوئی جرح نہیں کی۔ وہو ہذا!
’’
وان اللّٰہ رفع بجسدہ وانہ حی الان وسیرجع الی الدنیا فیکون فیہا ملکا ثم یموت کما یموت الناس
‘‘ یعنی تحقیق مسیح بمع جسم کے اٹھایا گیا ہے۔ ولا ریب وہ اس وقت زندہ ہے۔ دنیا کی طرف آئے گا اور بحالت شاہانہ زندگی بسر کرے گا پھر دیگر انسانوں کی طرح فوت ہوگا۔
اس روایت نے فیصلہ کردیا کہ رفع سے مراد رفع جسمی ہے اور اگر حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم والی روایت درست ہے تو اس کا بھی یہی مطلب ہے۔ جس سے مراد یہ ہوگی کہ ’’
عرج فیہا بروح اللّٰہ عیسٰی ابن مریم
‘‘ یعنی عیسیٰ بن مریم روح اﷲ اٹھایا گیا۔
ایسا ہونا کوئی بڑی بات نہیں۔ عموماً روایات میں الفاظ مقدم ومؤخر، ملفوظ ومقدر اور قدرے مختلف ہوجایا کرتےہیں اور تو اور خود صحیح بخاری کی احادیث میں بھی ایسا موجود ہے۔ چنانچہ ہم حدیث ’’
حدیث لا تفضلونی علی موسٰی
‘‘ کسی نے ’’
لاتفضلونی
‘‘ کہا کسی راوی نے ’’
لاتخیرونی
‘‘ کہا۔ کسی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے علاوہ دیگر انبیاء کو بھی شامل کیا۔ ’’
تخیروا بین انبیاء اللّٰ
ہ‘‘ وغیرہ۔
خود یہی زیر تنقید روایت مختلف طریقوں سے کتابوں میں مرقوم ہے۔ درمنثور والے نے ’’
لیلۃ قبض موسٰ
ی‘‘ درج کیا ہے۔ (درمنثور ج۲ ص۳۶) اور یہ صاحب درمنثور قادیانیوں کے مسلمہ مجدد ہیں۔
الغرض ایسی غیرمعتبر روایات میں فیصلہ کا صحیح طریق یہی ہے کہ جو بات احادیث صحیحہ وقرآن کے مطابق ہووہی صحیح سمجھی جائے۔ باقی کو غلط ومردود قرار دیا جائے۔
جواب: ۳… اب اسی بارے میں ایک اور روایت (مستدرک حاکم ج۴ ص۱۲۱، باب ۱۸۴۴ قتل علی لیلۃ انزل القرآن، روایت نمبر۴۷۴۲) پر روایت ہے۔ جسے درمنثور نے بھی نقل کیا ہے: ’’
عن الحریث سمعت الحسن بن علی یقول قتل لیلۃ انزل القراٰن ولیلۃ اسری بعیسٰی ولیلۃ قبض موسٰی
‘‘ (درمنثور ج۲ ص۳۶) حریث رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کہتے ہیں میں نے حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے سنا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم اس رات قتل کئے گئے جس رات قرآن اترا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سیر کرائے گئے اور موسیٰ علیہ السلام قبض کئے گئے۔
حضرات! غور فرمائیے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم جو شہید ہوگئے تھے۔ قتل کا لفظ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جو وفات پوگئے ہوئے تھے قبض کا استعمال ہوا۔ مگر مسیح علیہ السلام چونکہ زندہ جسم اٹھائے گئے تھے اس لئے ان کے حق میں اسری فرمایا گیا۔ ’’
السّرایۃ اذا قطعۃ بالسیر
‘‘ جب کوئی شخص چل کر مسافت طے کرے اس کو سرایت بولتے ہیں۔ خود قرآن پاک میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بمع مومنین کے راتوں رات مصر سے نکلے یہ خروج بحکم خدا تھا۔ ’’
فَاَسْرِ بِعِبَادِیْ لَیْلاً اِنَّکُمْ مُتَّبَعُوْنَ (دخان:۲۳)
‘‘ {لے چل میرے بندوں کو راتوں رات تحقیق تمہارا تعاقب کیا جائے گا۔}
اسی طرح حضرت لوط علیہ السلام کے متعلق وارد ہے کہ: ’’
فَاَسْرِ بِاَہْلِکَ بِقِطْعٍ مِّنَ اللَّیْلِ (سورۂ الحجر:۶۵)
‘‘ {لے نکل اپنے اہل کو ایک حصہ رات میں۔}
حاصل یہ کہ اگر حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کا خطبہ امرواقع ہے تو یقینا اس کا یہی مطلب ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بمعہ جسم اٹھائے گئے اور یہی حق ہے جو قرآن وحدیث کے مطابق ہے۔
عجیب تائید الٰہی
مرزائیوں نے اس روایت کو وفات مسیح کی دلیل ٹھہرایا تھا۔ خدا کی قدرت کہ یہی حیات مسیح کی مثبت ہوگئی۔ نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ مرزاقادیانی کاذب تھے۔ دلیل یہ کہ اس روایت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات صاف مذکور ہے۔ حالانکہ مرزاقادیانی انہیں زندہ مانتے ہیں۔ (نورالحق حصہ اوّل ص۵۰، خزائن ج۸ ص۶۹)
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ
ایسا ہی حضرت امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ پر قادیانیوں نے افتراء کیا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بھی وفات مسیح علیہ السلام کے قائل تھے۔ دلیل یہ کہ انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کا خطبہ جس میں وفات مسیح علیہ السلام مذکور ہے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی روایت متوفیک، ممیتک کو بخاری میں نقل کیا ہے۔
جواب: ۱… ہم ثابت کر آئے ہیں کہ صحابہ کرامi خاص کر ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کو قائلین وفات مسیح قرار دینا قطعاً جھوٹ ہے۔ ان کی روایت سے وفات ثابت نہیں ہوتی۔ بلکہ دیگر بیسیوں روایات سے حیات ثابت ہے۔ پس اس بودی دلیل پر بنیاد قائم کر کے امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ کو قائل وفات کہنا یقینا پرلے سرے کی جہالت ہے۔ سنو! امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی روایت جس میں نزول مسیح کا ذکر اور ان کے ابھی تک زندہ ہونے کا تذکرہ اور آخر زمانہ میں نازل ہونے کا اظہار موجود ہے۔ یعنی وہ روایت جس میں آیت: ’’
اِنْ مِّنْ اَہْلِ الْکِتَابِ اِلَّا لَیُؤْمِنُنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ
‘‘ سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم نے مسیح علیہ السلام کے حیات ہونے پر دلیل بنایا ہے (اور مرزاقادیانی نے غصہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کو غبی فہم قرآن میں ناقص درایت سے حصہ نہ رکھنے والا قرار دیا ہے۔ (اعجاز احمدی ص۱۸، خزائن ج۱۹ ص۱۲۷) کو نقل کر کے اور اسی طرح دیگر صحابہ کی روایات جن میں نزول مسیح علیہ السلام کا ذکر ہے۔ بخاری شریف میں نقل کر کے ان پر کوئی جرح یا انکار نہ کرتے ہوئے ثابت کر دیا ہے کہ وہ بھی حیات مسیح علیہ السلام کے قائل تھے اور کیوں نہ ہوتے جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی قسم کھاکر نزول مسیح علیہ السلام کا اظہار فرماتے ہیں اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم آیت قرآن کے ساتھ اس پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں اور امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ خود اس روایت کو بخاری شریف میں درج فرماتے ہیں۔
جواب: ۲… امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدائش سے لے کر نزول تک کے واقعات کو صحیح بخاری میں نقل کیا ہے اور مختلف باب باندھے ہیں۔ ناظرین ملاحظہ فرمائیں:
(۱)’’باب قول اللّٰہ تعالٰی وَاذْکُرْ فِی الْکِتَابِ مَرْیَمَ‘‘ (۲)’’باب وَاِذْ قَالَتِ الْمَلٰئِکَۃُ‘‘ (۳)’’باب وَاِذْ قَالَتِ الْمَلٰئِکَۃُ یَامَرْیَمُ اِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَۃٍ مِّنْہُ اسْمُہٗ الْمَسِیْحُ عِیْسٰی ابْنُ مَرْیَمَ‘‘ (۴)’’باب قولہ یَا اَہْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ‘‘ (۵)’’باب وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ مَرْیَمَ‘‘ (۶)’’باب نزول عیسٰی ابن مریم علیہما السلام‘‘
پھر ہر ایک باب کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث لائے ہیں۔ آخری باب کے شروع پر کوئی آیت قرآن نہیں لکھی کیونکہ اس باب میں جو حدیث لائے اس کے اندر خود آیت: ’’وَاِنْ مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ‘‘ سے تمسک کیا ہوا ہے۔
حضرات! غور فرمائیے کہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ اسی مسیح ابن مریم علیہ السلام کی آمد کے قائل ہیں جس کا ذکر مختلف ابواب میں کیا ہے یا کسی اور شخص کے لئے؟
جواب: ۳… نیز بخاری شریف میں نزول عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کا باب تو ہم نے دیکھا ساری دنیا کے مرزائی مل کر امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں وفات مسیح بن مریم کا باب دکھا سکتے ہیں؟ نہیں اور قیامت تک نہیں تو پھر قادیانی چیف گرو لاٹ پادری مرزااور قادیانیوں کو امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ پر کذب بیانی کرتے شرم آنا چاہئے۔ لیکن شرم اور قادیانیت آپس میں ضد ہیں۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ تو کیا ان کے فرشتوں کو بھی معلوم نہ تھا کہ ان احادیث نبویہ میں سوائے مسیح ابن مریم علیہما السلام کے کسی آئندہ پیدا ہونے والے پنجابی شخص مریض مراقی کی آمد کا تذکرہ ہے۔ حاصل یہ کہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ حیات مسیح علیہ السلام کے قائل تھے۔
جواب: ۴… اس پر مزید تشفی کے لئے ہم ان کی تاریخ سے ان کا فرمان نقل کرتے ہیں: ’’
یُدْفَنُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَصَاحِبَیْہِ فَیَکُوْنُ قَبْرُہٗ رَابِعً
ا‘‘ (درمنثور ج۲ ص۲۴۵)
۵… ’’
لیدفن عیسٰی بن مریم مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی بیتہ
‘‘ عیسیٰ بن مریم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ شریف میں دفن ہوں گے۔ (تاریخ الکبیر للبخاری ج۱ ص۲۶۳ نمبر۸۳۹)
امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ
ایسا ہی امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ پر قادیانیوں نے جھوٹ باندھا ہے کہ وہ بھی وفات کے قائل تھے۔ اس پر مجمع البحار وشرح اکمال الاکمال سے نقل کیا ہے کہ: ’’
قال مالک مات عیسٰی
‘‘
جواب: ۱… اوّل تو یہ قول بے سند ہے کوئی سند اس کی بیان نہیں کی گئی۔ پس کیسے سمجھا جائے کہ اس جگہ مالک سے مراد امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ ہیں اور یہ روایت صحیح ہے؟
جواب: ۲… بعض سلف کا یہ بھی مذہب ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اٹھائے جانے سے قبل سلائے گئے تھے۔ چنانچہ لفظ توفی کے یہ بھی ایک معنی ہیں۔ ’’
وَہُوَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰکُمْ بِاللَّیْلِ وَیَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّہَارِ (انعام:۶۰)
‘‘ اﷲ وہ ذات ہے جو رات کو تمہیں سلا دیتا ہے اور جانتا ہے جو تم دن میں کماتے ہو۔ پس اگر یہ فی الواقع امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے تو اس سے مراد سلانا ہے۔ ’’کیونکہ مات کے معنی لغت میں ’’نَامَ‘‘ بھی ہیں۔ دیکھو قاموس‘‘
(ازالہ اوہام ص۶۳۹، خزائن ج۳ ص۴۴۵)
جواب: ۳… ’’
وفی العتبیۃ قال مالک بین الناس قیام یستمعون لاقامۃ الصلٰوۃ فتغشاہم غمامۃ فاذا انزل عیسٰی
‘‘ (شرح اکمال الاکمال ج۱ ص۴۴۶)
’’عتبیہ میں ہے کہ کہا مالک رحمہ اللہ تعالیٰ نے لوگ نماز کے لئے تکبیر کہہ رہے ہوں گے کہ ایک بدلی چھا جائے گی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے۔‘‘ اس تصریح کے اسی کتاب میں ہوتے ہوئے بھی کوئی دجال حضرت امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ کو وفات مسیح علیہ السلام کا قائل قرار دے تو دلائل کی دنیا میں اسے کون قائل کر سکتا ہے؟ الغرض امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ حیات مسیح ونزول فی آخرالزمان کے قائل تھے۔ چنانچہ آپ کے مقلدین معتقد ہیں۔ حیات مسیح علیہ السلام کے۔ علامہ زرقانی مالکی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ’
’رفع عیسٰی وہو حی علی الصحیح
‘‘
(شرح مواہب لدنیہ ج۵ ص۳۵۱، یہاں ص۳۴۶سے۳۵۴تک حیات مسیح کی تفصیل درج ہے)
نیز علامہ زرقانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے (شرح مواہب ج۱ ص۱۱۶، نزول مسیح ج۶ ص۱۶۳، حیات مسیح ج۸ ص۲۹۶) پر مسیح علیہ السلام کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تدفین کا ذکر کیا ہے۔
نوٹ: اور واضح ہو کہ کتاب عتبیہ امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ کی نہیں ہے بلکہ امام عبدالعزیز اندلسی قرطبی رحمہ اللہ تعالیٰ کی ہے۔ جس کی وفات ۲۵۴ میں ہوئی۔ (کشف الظنون ج۱ ص۱۰۶،۱۰۷)
حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ وحضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ
مذکورہ بالا ائمہ کرام کے متعلق بھی قادیانیوں نے بلاثبوت افتراء کیا ہے کہ یہ سب اس مسئلہ میں خاموش تھے لہٰذا وفات مسیح کے قائل تھے۔
جواب: ۱… ’’
نزول عیسٰی علیہ السلام من المساء حق کائن
‘‘
(فقہ اکبر مؤلفہ امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ ص۵۴، مطبوعہ گوجرانوالہ)
جواب: ۲… امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ کی مسند میں تو بیسیوں احادیث حیات مسیح کی موجود ہیں۔ لہٰذا ان کو قائل وفات گرداننا انتہائی ڈھٹائی اس کے لئے (مسند احمد ج۱ ص۳۷۵، ج۲ ص۲۲، ۳۹، ۶۸، ۸۳، ۱۲۲، ۱۲۶، ۱۴۴، ۱۵۴، ۱۶۶، ۲۴۵، ۲۷۲، ۲۹۰، ۲۹۸، ۲۹۹، ۳۳۶، ۳۹۴، ۴۰۶، ۴۱۱، ۴۳۷، ۴۸۲، ۴۹۴، ۵۱۳، ۵۳۸، ۵۴۰، ج۳ ص۳۴۵، ۳۶۸، ۳۸۴، ۴۲۰ ج۴ ص۱۸۱، ۱۸۲، ۲۱۶، ۲۱۷، ۳۹۰، ۴۲۹، ج۵ ص۱۳،۱۶، ۲۷۴، ج۶ ص۷۵) پر نظرکی جائے تو چمکتی دمکتی ۳۹روایات نظر آجائیں گی۔ امام احمد رحمہ اللہ تعالیٰ کی مسند کی کوئی جلد حیات مسیح کی روایات سے خالی نہیں۔ لہٰذا ان کو قائل وفات گرداننا انتہائی ڈھٹائی ہے۔
علامہ ابن حزم رحمہ اللہ تعالیٰ
امام ابن حزم رحمہ اللہ تعالیٰ کے خلاف بھی غیروں کی کتابوں کی بناء پر قادیانیوں نے اتہام باندھا ہے۔ حالانکہ وہ برابر حیات مسیح علیہ السلام کے قائل ہیں۔
۱… ’’
ان عیسٰی ابن مریم سینزل
‘‘ (المحلی ج۱ ص۹۴) اس مقام پر اس صراحت کے بعد وہ ’’
نزول عیسیٰ بن مریم الیٰ الارض
‘‘ کی احادیث لائے ہیں۔
۲… ’’
فکیف یستجیز مسلم ابن یثبت بعدہ علیہ السلام نبیا فی الارض حاشا ما استثناہ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الاثار المسندۃ الثابتۃ عن نزول عیسٰی ابن مریم فی اخر الزمان
‘‘
(کتاب الفصل ج۳ ص۱۱۴)
یعنی کسی مسلمان سے کس طرح جائز ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زمین میں کسی نبی کو ثابت کرے۔ الّٰا اسے جسے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث صحیحہ ثابتہ میں مستثنیٰ کر دیا ہو۔ عیسیٰ بن مریم کے آخری زمانہ میں نازل ہونے کے بارے میں۔
۳… ’’
واما من قال ان بعد محمدٍ صلی اللہ علیہ وسلم نبیا غیر عیسٰی ابن مریم فانہ لا یختلف اثنان فی تکفیرہ (الفصل فی الملل والاہوا والنحل ج۲ ص۲۶۹، باب فیمن یکفر)
‘‘ جو شخص اس بات کا قائل ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سوائے عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کے کوئی اور نبی ہے۔ (مثلاً غلام احمد قادیانی) اس شخص کے کفر میں امت محمدیہ میں سے دو کس بھی مخالف نہیں۔
(الفصل ج۱ ص۱۰۱) پر امام حزم رحمہ اللہ تعالیٰ نے وفاۃ کی دو قسمیں بیان کیں۔ ایک نیند اور دوسری موت۔ ’’
فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ
‘‘ میں موت کے معنی کو متعین کر کے ان کے رفع جسمی کے قائل ہیں کہ ان پر چند ساعتوں کے لئے موت واقع ہوئی۔ اس وقت وہ زندہ ہیں۔ آسمانوں پر موجود ہیں۔ نازل ہوں گے پوری امت کی طرح وہ اس کے قائل ہیں۔
۴… ’’
ان عیسٰی علیہ السلام لم یقتل ولم یصلب ولٰکن توفاہ اللّٰہ عزوجل ثم رفعہ الیہ… ومن قال انہ علیہ السلام قتل او صلب فہو کافر مرتد حلال دمہ ومالہ لتکذیبہ القرآن وخلافہ الاجماع (المحلی ج۱ ص۱۰۱)
‘‘ عیسیٰ علیہ السلام نہ قتل ہوئے نہ صلیب پر چڑھائے گئے۔ بلکہ اﷲتعالیٰ نے ان کو وفات دے کر پھر زندہ کیا اور اپنی طرف اٹھالیا اور جو ان کے قتل یا صلیب پر چڑھائے جانے کا قائل ہو (جیسے مرزاقادیانی) وہ کافر ومرتد ہے۔ واجب القتل ہے۔ اس لئے وہ قرآن کی تکذیب اور اجماع (امت) کے خلاف کرنے والا ہے۔
۵… احادیث صحیحہ سے نزول مسیح کے قائل ہیں۔ (الفصل ج۱ ص۹۵)
۶… تورات وانجیل عیسیٰ علیہ السلام کے رفع کے بعد باطل ہوگئیں۔ (الفصل ج۱ ص۲۳۶)
۷… مسیح علیہ السلام کے حواری ان کے رفع کے بعد تین سو سال بے خانماں رہے۔
(الفصل ج۱ ص۲۵۳)
۸… (الفصل ج۱ ص۳۳۹) پر ہے کہ قسطنطنیہ عیسیٰ علیہ السلام کے رفع کے تین سو سال بعد فتح ہوا۔
۹… (الفصل ج۳ ص۱۹۱) پر ہے کہ جو لوگ (جیسے مرزائی) کہتے ہیں کہ اس امت میں کوئی عیسیٰ علیہ السلام سے افضل ہوسکتا ہے۔ وہ بے حیاء ہے جو غیر نبی کو نبی پر فضیلت دے (جیسے مرزاقادیانی، ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو۔ اس سے بہتر غلام احمد ہے۔ معاذ اﷲ) ان تصریحات کے بعد ابن حزم کو وفات کا قائل قرار دینا صریحاً ڈھٹائی ہے۔
مولانا عبدالحق محدث دہلوی اور نواب صدیق حسن خان
ایسا ہی مولانا عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ اور مولانا نواب صدیق حسن خاں قنوجی رحمہ اللہ تعالیٰ پر قادیانیوں نے افتراء کیا کہ انہوں نے عمر مسیح ۱۲۰ برس لکھی ہے۔ لہٰذا وہ وفات کے اقراری ہیں۔
الجواب: یہ بزرگ حیات کے قائل ہیں۔ البتہ ان کا یہ خیال ہے کہ مسیح علیہ السلام کا ۳۳برس کی عمر میں رفع نہیں ہوا۔ ایک سو بیس کی عمر میں وہ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں اور زندہ اٹھائے گئے ہیں۔
’’
ونزول عیسیٰ بن مریم ویاد کرد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرود آمدن عیسیٰ را از آسمان برزمین۔
‘‘
(کتاب اشعۃ اللمعات ج۴ ص۳۴۴، مصنفہ شیخ عبدالحق دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ )
ایسا ہی (ج۴ ص۳۷۳) پر مسیح کا آسمان سے نازل ہونا لکھا ہے۔ ایسا ہی تفسیر حقانی میں لکھا ہے: ’’اور یہ حق ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام جب قیامت کے قریب نازل ہوں گے سو اس وقت سوا دین حق کے اور کوئی دنیا پر غالب نہ ہوگا۔ اس وقت یہود بھی اس جلال وشوکت کو دیکھ کرایمان لائیں گے اور یہ معنی اس حدیث سے ثابت ہیں کہ جس کو بخاری ومسلم نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے نقل کیا کہ قیامت کے قریب عیسیٰ بن مریم نازل ہوں گے۔ صلیب کو توڑ ڈالیں گے۔ خنزیر کو قتل کریں گے جزیہ موقوف کردیں گے۔‘‘ (تفسیر حقانی سورۃ نساء زیر آیت ’’وان من اہل الکتاب‘‘)
اور نواب صدیق حسن خاں نے تو اپنی کتاب (حجج الکرامہ) میں نزول وحیات مسیح علیہ السلام پر ایک مستقل باب باندھا۔ جس میں آیت: ’’
وان من اہل الکتاب الا لیومنن بہ قبل موتہ
‘‘ سے استدلال کیا ہے۔ یہ بات (حجج الکرامہ ص۴۲۲تا۴۳۴) پر محیط ہے۔ اس سے بیسویں آیات واحادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم واقوال صحابہi سے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر زندہ ہونے اور آسمانوں سے قرب قیامت نزول اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ طیبہ میں تدفین کی روز روشن کی طرح صراحتیں ہیں۔ اس کے باوجود بھی کوئی بدنصیب قادیانی، مولانا نواب صدیق حسن خان کو وفات مسیح کا قائل قرار دیتا ہے تو اس کا علاج ’’ویقتل الخنزیر‘‘ ہی ہے۔ فافہم!
امام ابن قیم رحمہ اللہ تعالیٰ
اس بزرگ امام پر قادیانیوں نے بھی ہاتھ صاف کیا ہے کہ وہ مسیح علیہ السلام کو وفات شدہ خیال کرتے تھے۔ کیونکہ انہوں نے ’’مدارج السالکین‘‘ میں ’’
لَوْکَانَ مُوْسٰی وَعِیْسٰی حَیَّیْنِ
‘‘ اگر موسیٰ علیہ السلام وعیسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے، حدیث نقل کی ہے۔
الجواب: امام ابن قیم رحمہ اللہ تعالیٰ نے ہرگز اس قول کو حدیث نہیں کہا بلکہ یہ ان کا اپنا قول ہے۔ مطلب ان کا اس قول سے نہ ثبوت حیات دینا مطلب ہے نہ وفات کا تذکرہ، بلکہ مقصود ان کا یہ ہے کہ اگر آج زمین پر موسیٰ علیہ السلام وعیسیٰ علیہ السلام موجود ہوتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے۔ یعنی زمین کی زندگی کو فرض کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بزرگی ثابت کرنا چاہی ہے نہ کہ وفات کا اظہار۔ چنانچہ وہ اسی عبارت میں جسے مرزائی خیانت سے نقل نہیں کرتے۔ آگے چل کر نزول مسیح علیہ السلام کا اقرار فرماتے ہیں۔ ’’
ومحمد صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث الی جمیع الثقلین فرسالتہ عامۃ لجمیع الجن والانس فی کل زمان ولوکان موسٰی وعیسٰی حیین لکانا من اتباعہ واذا نزل عیسٰی ابن مریم فانما یحکم بشریعۃ محمد صلی اللہ علیہ وسلم
‘‘ (مدارج السالکین ج۲ ص۳۱۳، مطبوعہ مصر ج۲ ص۲۴۳)
’’یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت تمام کافہ جن وانس کے لئے اورہر زمانے کے لئے ہے۔ بالفرض اگر موسیٰ علیہ السلام وعیسیٰ علیہ السلام (آج زمین پر) زندہ ہوتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے اور جب عیسیٰ بن مریم نازل ہوگا تو وہ شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی عمل کرے گا۔‘‘
مرزائیو! اپنی اغراض کو پورا کرنے کے لئے کسی کے اصل مفہوم کو بگاڑنا بعید از شرافت ہے۔ سنو! اگر اس قول سے ضرور وفات ہی ثابت کرنا چاہو گے تو ساتھ ہی مرزاقادیانی کی رسالت بھی چھوڑنی پڑے گی۔ کیونکہ وہ حیات موسیٰ علیہ السلام کے قائل ہیں۔ حالانکہ اس قول میں موسیٰ علیہ السلام کی وفات مذکور ہے۔ ’’
فما جوابکم فہو جوابنا
‘‘
بالآخر ہم امام ابن قیم رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتب سے بعبارۃ النص حیات مسیح کا ثبوت پیش کرتے ہیں جس سے ہر ایک دانا جان لے گا کہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ تعالیٰ کا وہی مطلب ہے جو ہم نے اوپر لکھا ہے وفات مقصود نہیں۔
۱… ’’
وہذا المسیح ابن مریم حی لم یمت وغذاؤہ من جنس غذا الملٰئکۃ
‘‘
(کتاب التبیان مصنفہ ابن قیم رحمہ اللہ تعالیٰ ص۱۳۹)
مسیح علیہ السلام زندہ ہیں۔ ابھی فوت نہیں ہوئے اور ان کی غذا فرشتوں کی غذا جیسی ہے۔
۲… ’’
وانہ رفع المسیح الیہ
‘‘ (ص۲۲ کتاب مذکورہ)
تحقیق اﷲتعالیٰ نے مسیح علیہ السلام کو اپنی طرف اٹھالیا۔
۳… ’’
وہو نازل من السماء فیحکم بکتاب اللّٰ
ہ‘‘ اور وہ آسمان سے نازل ہوکر قرآن پر عمل کرے گا۔ (ہدایۃ المحیاریٰ مع ذیل الفاروق ص۴۳، مطبوعہ مصر)
حافظ محمد لکھوی رحمہ اللہ تعالیٰ
اس بزرگ پر بھی قادیانیوں نے الزام لگایا ہے کہ یہ وفات مسیح کا قائل تھا۔ حالانکہ یہ سراسر جھوٹ اور افتراء بلکہ بے ایمانی ہے۔ وہ اپنی تفسیر (موسومہ محمدی ج۱ ص۲۹۱، زیر آیت: ’’
وَمَکَرُوْا وَمَکَرَاللّٰ
ہ‘‘) پر لکھتے ہیں کہ جب یہود نے مسیح کو پکڑنا چاہا۔
تاں جبرائیل گھلیا رب لے گیا وچہ چوبارے
اس چھت اندر ہک باری اوتھوں ول آسماں سدھارے
سردار تنہاندے طیطیانوس نوں کیتا حکم زبانوں
جو چڑھے چبارے قتل کریں عیسیٰ نوں ماریں جانوں
جاں چڑھ ڈٹھس وچہ چبارے عیسیٰ نظر نہ آیا
شکل شباہت عیسیٰ دی رب طیطیانوس بنایا
انہاں ظن عیسیٰ نوں کیتا سولی فیر چڑھایا
ہک کہن جو مرد حواریاں تھیں ہک سولی مار دیوایا
یعنی خدا نے اس وقت جبرائیل بھیجا جو عیسیٰ علیہ السلام کو اٹھا کر آسمان پر لے گیا۔ جب طیطیانوس انہیں قتل کرنے کے ارادہ سے اندر گیا تو خدا نے اسے عیسیٰ علیہ السلام کی شکل بنادیا جسے سولی دیا گیا۔ اسی طرح اگلے صفحہ پر آیت ’’
انی متوفیک ورافعک
‘‘ کی تفسیر کرتے ہیں۔
جا کہیا خدا اے عیسیٰ ٹھیک میں تینوں پورا لیساں
تے اپنی طرف تینوں کنوں کفاراں پاک کریساں
توفی معنی قبض کرن شے صحیح سلامت پوری
تے عیسیٰ نوں رب صحیح سلامت لے گیا آپ حضوری
یعنی جب کہا اﷲتعالیٰ نے اے عیسیٰ میں تجھے پورا پورا لے کر اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔ توفی کے معنی کسی چیز کو صحیح وسلامت پورا لینے کے ہیں۔ سو ایسا خدانے مسیح کو اپنے حضور میں بلالیا۔
ابن عربی رحمہ اللہ تعالیٰ
اگرچہ مرزاقادیانی نے مسئلہ وحدۃ الوجود کے رد میں حضرت ابن العربی رحمہ اللہ تعالیٰ کو سب سے پہلا وجودی قرار دیا۔ (ملفوظات ج۳ ص۳۰۶)
پھر ان وجودیوں کو دہریہ قابل نفرت اور قابل کراہت قرار دیا۔ (ملفوظات ج۸ ص۵۳)
مگر جہاں ضرورت پڑی انہیں صاحب مکاشفات ولی اﷲ ظاہر کر کے اپنی اغراض نفسانیہ کو پورا بھی کیا ہے۔
کہا گیا ہے کہ یہ بزرگ بھی وفات مسیح علیہ السلام کے قائل تھے۔ اس پر تفسیر ’’عرائس البیان‘‘ کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ حالانکہ خود یہی بات مشکوک ہے کہ یہ تفسیر ان کی ہے بھی یا نہیں پھر جو عبارت پیش کی جاتی ہے اس میں بھی وفات مسیح کا کوئی لفظ نہیں صرف یہ ہے کہ مسیح دوسرے بدن کے ساتھ اترے گا۔ اب دوسرے بدن کا مطلب ظاہر ہے جب تک حضرت مسیح علیہ السلام زمین پر رہے۔ بوجہ طعام ارضی ان میں کثاد ہے۔ مگر اب صدہا برس کے بعد جب نازل ہوں گے تو یقینا روحانیت کا غلبہ تام ہوگا۔
حضرت ابن عربی رحمہ اللہ تعالیٰ تو حیات مسیح علیہ السلام کے اس قدر قائل ہیں کہ کوتاہ نظر انسان انہیں غلوتک پہنچا ہوا قرار دے گا۔ تفصیل کے لئے فتوحات مکیہ دیکھیں۔ اس جگہ صرف اختصار کے طور پر ایک دو عبارات پیش کرتا ہوں۔
’’
ان عیسٰی علیہ السلام ینزل فی ہذہ الامۃ فی اٰخرالزمان ویحکم بشریعۃ محمد صلی اللہ علیہ وسلم
‘‘ (فتوحات مکیہ ج۲ ص۱۲۵، سوال:۱۴۵)
’’
انہ لم یمت الی الان بل رفعہ اللّٰہ الی ہذہ السماء واسکنہ فیہا
‘‘ (ج۳ ص۳۴۱، باب:۳۶۷)
ایسا ہی (ج۱ ص۱۳۵تا۱۴۴، ص۱۸۵تا۲۲۴، ج۲ ص۳تا۴۹، ص۱۲۵، ج۳ ص۵۱۳) وغیرہ میں حیات مسیح علیہ السلام کا ذکر کیا ہے۔
ابن جریر رحمہ اللہ تعالیٰ
امام ابن جریر رحمہ اللہ تعالیٰ نے جا بجا اپنی تفسیر میں حیات مسیح کا ثبوت دیا ہے۔ چونکہ تفاسیر میں مختلف لوگوں کے اقوال نقل ہوا کرتے ہیں۔ اسی طرح انہوں نے کسی کا قول نقل کر دیا ہے کہ ’’
قدمات عیسیٰ
‘‘ مرزائیوں نے جھٹ اسے ابن جریر کا قول قرار دے دیا۔ حالانکہ ہم اس کتاب میں کئی ایک عبارتیں امام ابن جریر رحمہ اللہ تعالیٰ کی لکھ آئے ہیں۔ اس جگہ ایک اور تحریر نقل کی جاتی ہے۔ جس میں امام موصوف نے جمیع اقوال متعلقہ توفی مسیح لکھ کر بعد میں اپنا فیصلہ دیا ہے۔
’’
واولی ہذہ الاقوال بالصحۃ عندنا قول من قال معنی انی قابضک من الارض ورافعک علی التواتر الاخبار عن رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم
‘‘ توفی کے متعلق جو بحث ہے کوئی کہتا ہے کہ توفی بمعنی نیند ہے اور کوئی کہتا ہے کہ توفی بمعنی موت ہے جو آخری زمانہ میں ہوگی۔ ان سب اقوال میں ہمارے نزدیک صحیح وہ قول ہے جو کہاگیا ہے کہ میں ’’زمین سے پورا پورا لینے والا ہوں۔‘‘ یہ معنی اس لئے اقرب الی الصواب ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متواتر احادیث میں آیا کہ: ’’
انہ ینزل عیسٰی ابن مریم فیقتل الدجال ثم یمکث فی الارض ثم یموت
‘‘
(ج۳ ص۲۹۱، زیر آیت انی متوفیک)
بے شک وہ عیسیٰ بن مریم نازل ہوگا۔ پھر قتل کرے گا دجال کو پھر رہے گا زمین پر پھر وفات پائے گا۔
اس تحریر میں امام موصوف نے صاف فیصلہ کر دیا ہے کہ جس مسیح ابن مریم علیہما السلام کے بارے میں آیت ’’
انی متوفیک ورافعک
‘‘ وارد ہوئی، جس میں اختلاف کیا جاتا ہے وہی زمین سے اٹھایاگیا ہے اور وہی نازل ہوگا۔
مرزائیو! تمہارے نبی نے اس امام ہمام کو ’’رئیس المفسرین‘‘ اور ’’معتبر از ائمہ محدثین‘‘ لکھا ہے۔ آؤ اسی کی تحریرات پر فیصلہ کر لو۔ تم تو صرف دھوکا دینا چاہتے ہو، تمہیں ایمان وانصاف سے کیا کام؟
مصنف الیواقیت والجواہر
قادیانیوں نے کہا ہے کہ یہ بھی وفات مسیح کے قائل ہیں۔ کیونکہ انہوں نے ’’حدیث موسیٰ علیہ السلام وعیسیٰ علیہ السلام‘‘ حیین نقل کی ہے۔
الجواب: پھر تو مرزاقادیانی کاذب ہیں۔ کیونکہ انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو زندہ لکھا ہے۔ ادھر ادھر کے یہودیانہ تصرف کی بجائے اگر صداقت مطلوب ہے تو آؤ ہم اس بارے میں اس بزرگ کی کتابوں پر تمہارے ساتھ شرط باندھتے ہیں جو کچھ ان میں ہو، ہمیں منظور۔ مگر ؎
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار تم سے
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں
یہ بزرگ اپنی کتاب میں خود ہی یہ سوال کر کے کہ مسیح کے نازل ہونے پر کیا دلیل ہے۔ جواب دیتے ہیں: ’’
الدلیل علٰی نزولہ قولہ تعالٰی وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ای حین ینزل ویجتمعون علیہ انکرت المعتزلۃ والفلاسفۃ والیہود والنصاریٰ (والمیرزائیہ۔ ناقل) عروجہ بجسدہ الی السماء وقال تعالٰی فی عیسٰی علیہ السلام وانہ لعلم للساعۃ والضمیر فی انہ راجع الٰی عیسٰی والحق انہ رفع بجسدہ الٰی السماء والایمان بذالک واجب قال اللّٰہ تعالٰی بل رفعہ اللّٰہ الیہ
‘‘ (الیواقیت والجواہر ج۲ ص۱۴۶)
’’دلیل نزول مسیح پر اﷲتعالیٰ کا قول ہے کہ نہیں ہوگا کوئی اہل کتاب مگر ایمان لائے گا ساتھ عیسیٰ علیہ السلام کے پیشتر اس کے مرنے کے یعنی وہ اہل کتاب جو نزول کے وقت جمع ہوں گے اور منکر ہیں معتزلی اور فلاسفہ ویہود ونصاریٰ (اور ہمارے زمانہ میں قادیانی متنبی وذریۃً۔ ناقل) مسیح کے آسمان پر اٹھائے جانے کے۔ فرمایا اﷲتعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق کہ وہ نشانی ہے قیامت کی اور ضمیر ’’انہ‘‘ کی مسیح علیہ السلام کی طرف پھرتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ وہ بمعہ جسم کے آسمان پر اٹھایا گیا ہے اور واجب ہے اس پر ایمان لانا کیونکہ خدا نے قرآن میں فرمایا کہ بلکہ اٹھالیا اﷲ نے اس کو۔‘‘
قادیانی دوستو! اس تحریر کو بغور پڑھو۔ دیکھو یہ تمہارا مسلمہ ومقبولہ امام اور ولی اﷲ ہے۔ کیا اب بھی ان پر افتراء ہوگا کہ وہ حیات مسیح علیہ السلام اور رفع ونزول کے قائل نہیں؟ شرم باید کرد۔
حیات مسیح، قادیانی اور مولانا عبیداﷲ سندھی رحمہ اللہ تعالیٰ
قادیانی: ’’
الہام الرحمن
‘‘ میں حضرت مولانا عبیداﷲ سندھی رحمہ اللہ تعالیٰ کے حوالہ سے حیات عیسیٰ علیہ السلام کا انکار لکھا ہے۔
جواب: ۱… حضرت مولانا عبیداﷲ سندھی رحمہ اللہ تعالیٰ مرد مجاہد تھے۔ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمہ اللہ تعالیٰ کے شاگرد اور شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھی اور امام الہند حضرت شاہ ولی اﷲ رحمہ اللہ تعالیٰ کے نظریات کے علمبردار تھے۔ ان کی طرف وفات مسیح کی نسبت کرنا زبردست زیادتی اور غلط بیانی ہے۔ بات کا تجزیہ کرنے سے قبل چند امور لائق توجہ ہیں۔
الف… مولانا صوفی عبدالحمید سواتی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ’’مولانا عبیداﷲ سندھی رحمہ اللہ تعالیٰ کے علوم وافکار‘‘ کے ص۷۸ پر تحریر کیا ہے کہ: ’’مولانا عبیداﷲ سندھی کی طرف منسوب تحریریں اکثر وہ ہیں جو املائی شکل میں ان کے تلامذہ نے جمع کی ہیں۔ مولانا کے اپنے قلم سے لکھی ہوئی تحریرات اور بعض کتب بہت دقیق، عمیق اور فکر انگیز ہیں اور مستند بھی ہیں۔ لیکن املائی تحریروں پر پورا اعتماد نہیں کیا جاسکتا اور بعض باتیں ان میں غلط بھی ہیں جن کو ہم املا کرنے والوں کی غلطی پر محمول کرتے ہیں۔ مولانا کی طرف ان کی نسبت درست نہ ہوگی۔‘‘
ب… مولانا عبیداﷲ سندھی رحمہ اللہ تعالیٰ اور ان کے علوم وافکار ص۸۴ پر ہے کہ: ’’مولانا عبیداﷲ سندھی رحمہ اللہ تعالیٰ ، مولانا شاہ ولی اﷲ رحمہ اللہ تعالیٰ اور مولانا شیخ الہند رحمہ اللہ تعالیٰ کے طریقہ سے باہر نہیں نکلے۔ یہ باتیں ایسی ہیں کہ املاء کرنے والوں نے مولانا سندھی رحمہ اللہ تعالیٰ کی تقریر کو یا تو سمجھا نہیں یا اپنے ذہن کے مطابق کشید کیا ہے۔ یہ قابل اعتبار نہیں اور نہ لائق اعتناء ہیں۔‘‘
ج… مولانا محمد منظور نعمانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ’’الفرقان شاہ ولی اﷲ رحمہ اللہ تعالیٰ نمبر‘‘ کے اداریہ ص۴ پر نگاہ اوّلین کے تحت حضرت سندھی رحمہ اللہ تعالیٰ سے نقل فرماتے ہیں کہ: ’’جو بات میں ایسی کہوں جس کو حضرت شاہ ولی اﷲ رحمہ اللہ تعالیٰ ، شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالیٰ اور ان کے مستفیضین یا مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ تعالیٰ کے یہاں نہ دکھا سکوں تو میں اس کو ہر وقت واپس لینے کو تیار ہوں۔ میں ان اکابر کے علوم سے باہر نہیں جاتا۔ اگر فرق ہوتا ہے تو صرف تعبیر کا۔‘‘
ان وضاحتوں کے بعد اب ’’الہام الرحمن‘‘ کی ان عبارتوں کو دیکھا جائے جو وفات مسیح علیہ السلام کے متعلق ہیں تو بات واضح ہو جاتی ہے کہ وفات مسیح کے عقیدہ کی مولانا عبیداﷲ سندھی رحمہ اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت سو فیصد نہیں ہزارفیصد غلط ہے۔ اس لئے کہ مولانا عبیداﷲ سندھی رحمہ اللہ تعالیٰ ، حضرت شاہ ولی اﷲ رحمہ اللہ تعالیٰ کے پیروکار اور حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ تعالیٰ کے شاگرد تھے۔ یہ تمام حضرات، حیات عیسیٰ علیہ السلام کے قائل ہیں۔ مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ تعالیٰ ایسے بیسیوں علماء حضرت سندھی رحمہ اللہ تعالیٰ کے شاگرد ہیں جو سب حیات مسیح علیہ السلام کے قائل تھے تو ثابت ہوا کہ مولانا کے اساتذہ ومشائخ وشاگرد جب سب حیات مسیح علیہ السلام کے قائل ہیں، اور خود مولانا سندھی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں ان کی رائے کے خلاف نہیں جاتا تو وہ پھر کیسے وفات مسیح کے قائل تھے؟
جواب: ۲… مولانا عبیداﷲ سندھی رحمہ اللہ تعالیٰ کی طرف جن کتب میں وفات مسیح کی نسبت کی گئی ہے ان میں سے ایک کتاب بھی مولانا سندھی رحمہ اللہ تعالیٰ کی اپنی تحریر کردہ نہیں۔ دوسرے لوگوں نے لکھ کر ان کی طرف نسبت کر دی ہے۔ دو کتابیں اس وقت میرے سامنے ہیں۔ ایک ان کے اپنے ہاتھ کی ہے دوسری انہوں نے مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی رحمہ اللہ تعالیٰ کو پڑھائی اور تحریر کرائی۔ ان میں حیات عیسیٰ علیہ السلام کا عقیدہ بیان کیاگیا ہے۔ جب ان کے ہاتھ سے تحریر کردہ کتاب میں حیات عیسیٰ علیہ السلام کا عقیدہ موجود ہے تو پھر دوسروں کی کسی بات کا کیا اعتبار ہے؟
چنانچہ شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ کے افکار پر مشتمل ’’رسالہ محمودیہ‘‘ حضرت مولانا عبیداﷲ سندھی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ’’ترجمہ عبیدیہ‘‘ کے نام سے تحریر کیا ہے۔ جس کے ص۲۶،۲۷ پر مولانا سندھی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’
فعسی ان تکون سارًا لافق الکمال غاشیًا لأقلیم القرب فلن یوجد بعدک الاولک دخل فی تربیتہ ظاہرًا وباطنًا حتی ینزل عیسٰی علیہ السلام
‘‘ تو عنقریب کمال کے افق کا سردار بن جائے گا اور قرب الٰہی کی اقلیم پر حاوی ہو جائے گا۔ تیرے بعد کوئی مقرب الٰہی ایسا نہیں ہوسکتا جس کی ظاہری وباطنی تربیت میں تیرا ہاتھ نہ ہو۔ یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں۔
اسی طرح ’’الخیر الکثیر‘‘ جو حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ کی تصنیف ہے جس کا ترجمہ حضرت مولانا عبیداﷲ سندھی رحمہ اللہ تعالیٰ نے املا کرایا ہے۔ تحقیق وترجمہ لکھنے والے مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی رحمہ اللہ تعالیٰ ہیں۔ حیدرآباد سندھ کی شاہ ولی اﷲ اکیڈمی سے سے شائع ہوا ہے۔ اس کے (ص۱۰۶) پر ہے: ’’اسی نوع کے امام عیسیٰ علیہ السلام ہیں اور یہ چیز ان کو جبرائیل علیہ السلام کی پھونک سے حاصل ہوئی ہے اور اس لئے معین ہوا ہے کہ نازل ہوکر دجال کو قتل کرے۔‘‘
اس کے (ص۱۱۷) پر ہے: ’’عیسیٰ علیہ السلام جب زمین پر نازل ہوں گے۔‘‘
ان تصریحات کے ہوتے ہوئے کوئی حضرت سندھی رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات مسیح کے عقیدہ کی طرف نسبت کرے اس سے بڑا اور کوئی ظلم نہیں ہوسکتا۔
جواب: ۳… ’’الہام الرحمن‘‘ جو موسیٰ جار اﷲ وغیرہ کی تحریر کردہ ہے غلط طور پر حضرت سندھی رحمہ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کی گئی ہے۔ اس کی ثقاہت کا یہ عالم ہے کہ محمد نور مرشد نے اس کے حاشیہ پر لکھا ہے کہ: ’’مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ تعالیٰ نے بعض تابعین کے حوالے سے لکھا ہے کہ مسیح علیہ السلام وفات پاگئے ہیں۔‘‘
اب جس کتاب میں مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ تعالیٰ کی طرف یہ روایت کی گئی ہواس کتاب کے غیر مستند ہونے کے لئے اتنی بات کافی ہے۔ اس لئے کہ مولانا سید انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ تعالیٰ کی ’’عقیدۃ الاسلام فی حیات عیسیٰ علیہ السلام، التصریح بما تواتر فی نزول المسیح‘‘ حیات عیسیٰ علیہ السلام پر مستند کتابیں ہیں۔ ان کتابوں کے ہوتے ہوئے حیات عیسیٰ علیہ السلام کے عقیدہ کے شارح، قرآن وسنت کی روشنی میں اس مسئلہ کے علمبردار،حضرت مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ تعالیٰ کے متعلق جس کتاب میں ایسی بے سروپا، غلط ومن گھڑت روایت درج کی جاسکتی ہے تو ناممکن نہیں کہ اس میں مولانا سندھی رحمہ اللہ تعالیٰ کی طرف غلط روایت منسوب کر دی گئی ہو۔
جواب: ۴… مولانا عبدالحمید سواتی رحمہ اللہ تعالیٰ پاکستان میں حضرت سندھی رحمہ اللہ تعالیٰ کے نظریات کے شارح اور ترجمان سمجھے جاتے ہیں۔ آپ نے اپنی کتاب ’’مولانا عبیداﷲ سندھی رحمہ اللہ تعالیٰ کے علوم وافکار‘‘ کے (ص۷۴،۷۵) پر اس مسئلہ کے متعلق تحریر فرمایا ہے: ’’مولوی محمدمعاویہ مرحوم آف کبیروالا بھی مولانا سندھی رحمہ اللہ تعالیٰ کے مشن اور کتب سے دلچسپی رکھتے تھے۔
انہوں نے الہام الرحمن ج۱،۲ کا اردو میں ترجمہ بھی شائع کرایا تھا۔ اس کی اشاعت کے وقت میں نے ان سے عرض کیا تھا کہ مولانا سندھی رحمہ اللہ تعالیٰ کی طرف مسئلہ وفات المسیح کی نسبت درست نہیں۔ اس کی کچھ وضاحت ہونی چاہئے۔ چنانچہ انہوں نے اس کی طبع دوم کے وقت ایک مختصر سا مضمون شائع کرایا تھا۔ اصل میں وفات مسیح کا مسئلہ مرزائیوں، قادیانیوں اورلاہوریوں نے زیادہ اٹھایا تھا تاکہ وفات مسیح کو ثابت کرنے کے بعد ان تمام احادیث کی تاویل اپنے زعم فاسد کے مطابق مرزاقادیانی پر چسپاں کر سکیں اور یہ لوگ اسی عقیدہ فاسدہ کی بناء پر اور اجرائے نبوت کے قائل ہونے کی وجہ سے تمام طبقات امت کے نزدیک مرتد، کافر، زندیق اور خارج از اسلام ہیں۔ آج تک اہل اسلام میں سے کسی نے اس (حیات عیسیٰ علیہ السلام) کا انکار نہیں کیا اور قرب قیامت میں مسیح علیہ السلام کا نزول اجماعی عقیدہ ہے اور پھر یہ کہہ کر مغالطہ دینا کہ علم کلام کی کتابوں ’’شرح مواقف اور عضدیہ‘‘ وغیرہ میں اس کا ذکر نہیں کیاگیا۔ بہت غلط بات ہے جب کہ امام اعظم امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ ، کی فقہ اکبر میں اور ’’بیان السنۃ‘‘ یا ’’عقیدۃ الطحاوی‘‘ میں اس کا ذکر موجود ہے جو علم کلام کا سب سے قدیم اور صحیح ماخذ ہے۔ پھر اس کا انکار کس طرح روا ہوسکتا ہے۔ اس کو بجز گمراہی اور کجروی کے اور کیا تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ مولانا عبیداﷲ سندھی رحمہ اللہ تعالیٰ اور اس طرح مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ تعالیٰ اور بعض دیگر علماء کرام ایک اور بات کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دین کو اﷲتعالیٰ نے مکمل کر دیا ہے۔ حضور خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم پر دین کی تکمیل ہوچکی ہے اور تکمیل دین کی آیت قرآن کریم میں نازل ہوچکی ہے۔ اب دین کی تکمیل کسی نئے ظہور پر موقوف نہیں۔ مسیح علیہ السلام اگر دوبارہ زمین پر آئیں گے یا مہدی علیہ الرضوان کا ظہور ہوگا تو یہ تکمیل دین کے لئے نہیں ہوگا بلکہ یہ قیامت کی علامات کے طور پر ہوگا۔ مسیح علیہ السلام کوئی نیا حکم جاری نہیں کریں گے۔ قرآن وسنت کے مطابق ہی عمل کریں گے اور اسی پر لوگوں کو کاربند بنائیں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد قرآن وسنت پر عمل کرنا اور عمل کرانا یہ امت کا فریضہ ہے۔ یہ نہیں کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہیں اور انتظار کریں کہ مسیح علیہ السلام اور مہدی علیہ الرضوان کا ظہور ہوگا تو اس پر عمل مکمل ہوگا۔ یہ نظریہ باطل اور گمراہ کن ہے۔ یہ روافض اور اس قسم کے گمراہ لوگوں کا اعتقاد ہوسکتا ہے نہ کہ اہل ایمان کا۔‘‘ (ص۷۴،۷۵)
امام جبائی معتزلی
مرزائی قائلین وفات میں امام جبائی کا نام بھی پیش کرتے ہیں۔ مگر باوجود معتزلی ہونے کے حیات مسیح اور رفع الی السماء کے قائل ہیں۔ سنو! ’’
قال الجبائی انہ لما رفع عیسٰی علیہ السلام
‘‘
(کشف الاسرار مطبوعہ مصر وعقیدۃ الاسلام ص۱۲۴)
صاحب کشف الاسرار علامہ جبائی سے ناقل ہیں کہ جبائی نے فرمایا کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع الی السماء ہوا تو یہود نے ایک شخص کو عیسیٰ علیہ السلام کے تابعداروں سے قتل کر دیا۔ لیجئے! جبائی معتزلی بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے قائل نہیں ہیں بلکہ وہ صاف صاف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زندہ آسمان پر اٹھایا جانا مانتے ہیں۔
قادیانیوں نے ’’تاریخ طبری‘‘ سے لکھا ہے کہ کسی پہاڑ پر ایک قبر دیکھی گئی جس پر لکھا تھا کہ یہ مسیح رسول اﷲ کی قبر ہے۔
جواب: ۱… کیا کہنے ہیں اس دلیل بازی کے۔ کہاں قرآن وحدیث کی تصریحات اور کہاں اس قسم کی تفریحات۔ ہاں! جناب ایسی قبریں سینکڑوں بنی ہوئی ہیں۔ تمہارے نبی کے عقیدہ کی رو سے تو کشمیر میں بھی ہے اور وہی اصلی قبر ہے۔ پس اگر طبری والی روایت کو صحیح سمجھتے ہو تو پہلے کشمیر کے ڈھکوسلہ کا اعلان کردو۔ پھر ہم اس پر غور کریں گے۔
جواب: ۲… تفسیر ابن جریر کے متعدد حوالے گزر چکے ہیں کہ وہ حیات، رفع ونزول من السماء سیدنا مسیح ابن مریم کے قائل ہیں۔ ان حوالہ جات کے ہوتے ہوئے ابن جریر کو تاریخی روایت کی بناء پر ملزم گرداننا قادیانی سرشت کا خاصہ ہے۔
جواب: ۳… (عسل مصفٰی حصہ اوّل ص۴۶۸) مرزا خدابخش نے لکھا کہ: ’’گویہ قبر فرضی ہے اور بلاشک فرضی ہے۔‘‘
جواب: ۴… تاریخ طبری کی اس روایت میں ایک راوی محمد بن اسحاق ہے جو کذاب ہے۔ یہ موضوع ہے اور تاریخ میں موضوع روایات سے عقیدہ کا بت تراشنا قادیانی علم کلام کا شاہکار کارنامہ ہے۔
محمد بن اسحاق کے کذب کی بابت (القول المعمور فی شان الموعود ص۱۲۲،۱۲۳، ۱۷۳،۱۷۴) پر قادیانی سرور شاہ کی تصریحات ملاحظہ ہوں۔