ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
سب سے پہلے تو میں مرزاغلام احمد کو ماننے والی اس نسل کے نوجوانوں کا بڑا مشکور ہوں کہ انہوں نے ربوہ میں ہمارے طلبہ پر حملہ کر کے اس مسئلے کو جو مسائل کے انبار میں دفن ہوگیا تھا، ایک بار پھر زندہ کر کے قوم کے سامنے پیش کر دیا ہے، اور قوم اس مسئلے پر اتنی منظم ہوکر سامنے آئی کہ یہ ایوان بھی اس بات پر مجبور ہوا کہ اس پر صحیح سمت میں کوئی قدم اٹھائے اور میں اس بات پر بھی ان کا مشکور ہوں کہ اس مسئلے کو زندہ کر کے انہوں نے اس ایوان میں ایک یک جہتی کی فضا پیدا کر دی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پچھلے ڈھائی سال کے عرصے میں جب سے کہ یہ اسمبلی معرض وجود میں آئی ہے۔ یہ پہلا مسئلہ ہے جس میں 2944ایوان کے دونوں طرف کے لوگ زبانی نہیں دل سے متفق ہوئے۔ ہم پہلے بھی کئی باتوں پر اتفاق کر چکے ہیں۔ لیکن کبھی مصلحتیں پیش نظر تھیں، کبھی کوئی دوسری چیزیں پیش نظر تھیں۔ لیکن یہ وہ مسئلہ ہے جس میں کہ ہم دونوں طرف کے بیٹھنے والے ساتھی شرح صدر کے ساتھ زبان سے بھی اور دل سے بھی اس مسئلے پر متفق ہیں، اور اس اتفاق کا جو اظہار پچھلے دنوں میں ہوتا رہا ہے، میں یقین رکھتا ہوں کہ اس کے نتیجے میں انشاء اﷲ! یہ اسمبلی اس مسئلے کا ایسا فیصلہ کرے گی جو خدا کے نزدیک بھی مقبول ہو اور عوام کے نزدیک بھی قابل قبول ہوگا۔
جناب والا! میں ایک بہت اہم بات آپ کے توسط سے اپنے بائیں طرف بیٹھنے والے ساتھیوں کی اور بالخصوص حکومت کی خدمت میں عرض کرنا چاہوں گا اور وہ یہ ہے کہ اس مسئلے کے دو پہلو ہیں۔ ایک قانونی پہلو ہے دوسرا انتظامی پہلو۔ قانونی پہلو یہ کہ اسمبلی دستور میں ترمیم کر کے یا قوانین نئے لاکر رسول کریم ﷺ کی نبوت کو آخری نبوت نہ ماننے والوں کو غیرمسلم قرار دے دے اور اس کے نتیجے میں غلام احمد کے متبعین غیرمسلم قرار پا جائیں۔ یہ ایک قانونی حیثیت ہے اس کی۔ لیکن اس سے ایک بڑا مسئلہ اس کی انتظامی حیثیت ہے۔ جیسا کہ تارڑ صاحب نے صحیح فرمایا کہ گذشتہ حکومتوں کی چشم پوشی کے نتیجے میں پچھلے ۲۵سال میں یہ لوگ مختلف محکموں میں داخل ہوئے، مسلمانوںکا لبادہ اوڑھ کر، مسلمانوں کے نام سے، اور اپنے فرقے کے دوسرے افراد کے تعاون سے اور اپنے بڑے بڑے افسران کی مدد سے یہ کلیدی مناصب پر پہنچتے رہے۔ آپ اچھی طرح جانتی ہیں اس بات کو، کہ اس وقت فوج میں اور سول سروسز میں بہت اہم مناصب پر یہ لوگ پہنچ چکے ہیں۔ جب یہ بات طے ہوگئی کہ یہ نہ مسلمان ہیں اور نہ محب وطن تو ان کو کلیدی مناصب پر رکھنا صرف مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے والی بات ہی نہیں ہے بلکہ خود اس ملک کی سلامتی کے منافی ہے، اور میں یہ کہوں گا کہ پیپلزپارٹی کی 2945حکومت کے حق میں بھی یہ بات ضروری ہے کہ وہ ان لوگوں کو ان مناصب سے ہٹائے۔ ان مناصب سے ہٹانے کا مسئلہ خالصتاً انتظامی مسئلہ ہے، ایوان اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ اس لئے میں غالباً ایوان کے جذبات کی نمائندگی کروں گا اگر میں حکومت سے یہ مطالبہ کروں کہ وہ ان کو ان انتظامی مناصب سے، کلیدی مناصب سے ہٹانے کے لئے فوری اقدامات کرے۔ میں یہ بات جانتا ہوں اور یہ میں محسوس کرتا ہوں کہ اس سارے لوگوں کو سارے کلیدی مناصب سے بیک وقت نہیں ہٹایا جاسکتا۔ اس سے انتظامی خلا بھی پیدا ہوسکتا ہے اور ملک کے دوسرے مسائل بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ لیکن اگر حکومت کے سامنے یہ مسئلہ موجود ہو کہ ان کو ہٹانا ہے تو وہ ہٹائے جاسکتے ہیں۔
اسی سلسلے میں ایک اور بات ہے بلکہ ایک مشکل یہ سامنے آنے کا امکان ہے کہ اس انتظامیہ کے بہت سے وہ لوگ اور بہت سے وہ افراد جو کہ کلیدی مناصب پر ہیں اور وہ جو غلام احمد کے متبعین میں سے بھی ہیں، وہ شاید یہ کہنا شروع کر دیں کہ ہم تو مسلمان ہیں اور ہم ختم نبوت کے عقیدے کو مانتے ہیں۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ حکومت کے پاس انٹیلی جنس اور دوسری بھی ایسی مشینری موجود ہے کہ جو ان کو یہ صحیح اطلاع دے سکتی ہے کہ کون سے وہ لوگ ہیں جو اس فرقے سے تعلق رکھتے ہیں اور ملک وملت کے لئے جن کا طرز عمل منافی ہوسکتا ہے، ان کو ہٹایا جانا چاہئے۔ اس لئے اس مشینری کو عمل میں لائے۔ اس کو حرکت میں لائے اور ایسے لوگوں کا پتہ لگائے اور ان کو مناسب طور پر ان کی تعداد کے لحاظ سے صحیح مقام پر رکھے۔
پھر دوسری بات میں اس سلسلے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر ہم نے یہ فیصلہ اسمبلی میں کر دیا، انشاء اﷲ! عوام کے مطالبے کے مطابق، تو اس کا امکان میں پوری شدت سے محسوس کرتا ہوں کہ ملک میں خود یہ حضرات کوئی گڑبڑ پیدا کرنے کی کوشش کریں گے، یعنی وہ جو کہ غلام احمد کے ماننے والے لوگ ہیں، تاکہ پاکستان دنیا کی نظروں میں بدنام ہو 2946اور لوگ یہ سمجھیں کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں ایک فرقے کے لوگوں کو یا جو مسلمان نہیں ہیں ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا جاتا۔ دلیل کی بنیاد پر یہ بات جانتا ہوں کہ اس بات کی تیاریاں ہورہی ہیں کہ مسلمانوں کو مشتعل کرنے کے لئے کہیں اکے دکے حملے کر کے، کہیں اور ایسی حرکت کرکے مسلمانوں کو مشتعل کیا جائے تاکہ کوئی اس قسم کے فسادات کی صورت پیدا ہوسکے۔ میں جانتا ہوں کہ حکومت اس سلسلے میں بے شک چوکس ہے اور وہ ایسے اقدامات کر رہی ہے کہ ایسی صورت پیدا نہ ہو، لیکن اس ایوان کے لوگوں کی زیادہ ذمہ داری ہے۔ ہم سب کی جو کہ اپوزیشن میں ہیں یا حزب اقتدار میں ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ اگر خدانخواستہ ایسی صورت پیدا ہو تو ہمیں خود میدان میں آنا چاہئے اور غلام احمد کے متبعین کے جان ومال کے تحفظ کے لئے ہم خود جدوجہد کریں، کیونکہ ایک دفعہ ان کو اقلیت قرار دے دینے کے بعد یہ مسلمان حکومت اور مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے جان ومال کا تحفظ کریں اور یہ فیصلہ ہو جائے گا۔ انشاء اﷲ! ملک میں ہماری یہ ذمہ داری ہوگی کہ ہم کسی فساد کو یا کسی ناخوشگوار صورتحال کو پیدا ہونے سے روکنے کے لئے جدوجہد کریں۔
آخری بات میں یہ عرض کروں گا کہ اٹارنی جنرل صاحب نے اپنی کل کی تقریر میں اس قرارداد پر ایک تبصرہ کیا تھا جو ہم نے تجویز کی تھی۔ یہاں ۳۷ حزب اختلاف کے ممبران نے جو قرارداد پیش کی تھی اس پر انہوں نے تبصرہ کرتے ہوئے ایک بات کی طرف اشارہ کیا تھا جو میں سمجھتا ہوں کہ غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ لیکن اس کی وضاحت ہو جانی چاہئے۔ تاکہ اس کمیٹی کا ریکارڈ صاف رہے۔ انہوں نے یہ کہا تھا کہ اس قرارداد میں متضاد باتیں کی گئی ہیں۔ یعنی ایک طرف اس قرارداد میں یہ کہاگیا ہے قادیانیوں کو کہ وہ ملک دشمن کارروائیوں میں ملوث ہیں اور دوسری طرف یہ کہاگیا ہے کہ ان کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ تو اگر وہ ملک دشمن کارروائیوں میں ملوث ہیں تو ان کے حقوق کے تحفظ کے 2947معنی انہوں نے یہ لئے کہ ہم ان کو کھلی چھٹی دے دیں کہ وہ ملک دشمن کارروائیوں کو جاری رکھیں۔ میں یہ بتانا چاہوں گا کہ ہم نے جب یہ قرارداد پیش کی تو ہم نے ان دونوں حقائق کو سامنے رکھا تھا۔ ایک حقیقت یہ ہے اور ہم اپنے علم کی بناء پر یہ جانتے ہیں کہ غلام احمد قادیانی کو ماننے والے لوگ اس ملک وملت اسلامیہ کے خلاف تگ ودو کر رہے ہیں اور وہ اس قسم کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ایک مجرم کو بھی یہ حق ہے کہ وہ زندہ رہے۔ اس کے جان ومال کا تحفظ کیا جائے۔ اس لئے میں یہ کہتا ہوں کہ انہیں ان کارروائیوں کو جاری رکھنے کی اجازت تو نہیں دی جائے گی، مسلمان تو نہیں سمجھا جائے گا، لیکن ان کو اس ملک کے شہری ہونے کی حیثیت سے جو جان ومال کے تحفظ کا حق ہے، وہ حق ان کو دینا قانون کے ذریعے سے بھی اور انتظامیہ کے ذریعے سے بھی ہماری ذمہ داری ہے تو اس لئے اس قرارداد میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ بالکل ایک حقیقت کو بیان کر کے یہ کہاگیا ہے کہ ان کو ان کاروائیوں سے روک کر ان کے جائز حقوق کا ہمیں تحفظ کرنا چاہئے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے تو یہ چند باتیں تھیں جو میں آپ کے توسط سے عرض کرنا چاہتا تھا۔
محترمہ قائم مقام چیئرمین: مولانا محمد علی!
مولانا سید محمد علی رضوی: پہلے مولانا محمد ذاکر صاحب کو موقع دے دیجئے۔
محترمہ قائمقام چیئرمین: اچھا، مولانا محمد ذاکر!
(جناب مولانا محمد ذاکر کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)
مولانا محمد ذاکر: جناب والا! ایوان کا کافی وقت اس پر صرف ہوچکا ہے، اس میں مزید وضاحت کی حاجت نہیں۔ لیکن مجھے تعجب ہے کہ اس مسئلے کو اس رنگ میں کیسے زیر بحث لایا گیا، حالانکہ یہ مسئلہ اتنا واضح ہے، اتنی مسلمہ حقیقت ہے کہ اس پر کسی اظہار خیال کی حاجت نہیں تھی۔ اس میں مخالفین کو موقع دیاگیا اور اس کا جواب الجواب شائع کیاگیا۔ 2948اور اس پر بحثیں ہوئیں اور اٹارنی جنرل کو تکلیف دی گئی۔ یہ سب باتیں ہوئیں۔ لیکن ایک اسلامی مملکت میں اس مسئلے کو اس وقت زیربحث لانے کی حاجت ہی کیاتھی؟ یہ اتنی واضح چیز ہے جیسے دن چڑھا ہوا ہو، جیسے اظہر من الشمس کہتے ہیں۔ اس پر بحث ہوئی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس میں مزید بولنا، مزید وضاحت کرنا، میں تو اس کو سوء ادب سمجھتا ہوں، یہ بے ادبی ہے۔ کوئی یہ ایسی غیراسلامی حکومت نہ تھی کہ جس میں اس وضاحت کی ضرورت ہوتی۔ جب یہ ہمارا دعویٰ ہے اور ہمارا اعلان ہے کہ یہ اسلامی حکومت ہے، پھر اسلامی حکومت میں ایک ایسے مسئلے کو جو مسلمہ حقیقت ہے، اس کو اس طرح زیربحث لانا ایک تعجب کی بات ہے۔ کیونکر تعجب ہوا کہ اس کو زیربحث لایا گیا۔ میں سمجھتا ہوں اس کو زیربحث لانا نہایت بے ادبی ہے۔ یہ نبی کریم ﷺ کی شان باعظمت میں گستاخی ہے۔ ہم کون ہیں، ہماری کیا حقیقت ہے کہ ہم اس پر بحث کریں۔ جب خالق کائنات نے اس کا فیصلہ فرمادیا۔ اس بارے میں واضح احکامات پہلے سے موجود ہیں۔ اس میں اب کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں تھی کہ پھر ہم اس کو ازسرنوزیر بحث لائیں۔ یہ ایک بڑا تعجب خیز معاملہ ہے جو ایک حد تک ٹھیک ہے، ہوگیا۔ لیکن مزید اس میں کسی قسم کے انتظار کی گنجائش نہیں ہونی چاہئے۔ دنیا کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ پاکستان کے اندرون سواداعظم نہایت بے تابی سے آپ کا انتظار کر رہا ہے، اور بیرونی ممالک میں بھی دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کی غیرت، ملی غیرت، ایمانی غیرت کیا ہے۔ اس لئے اس مسئلے میں مزید بحث کی حاجت نہیں پھر اٹارنی جنرل کی بحث کے دوران کافی کارروائی ہو چکی ہے اور اب اس میں دوٹوک فیصلہ ہونا چاہئے۔ دوٹوک فیصلہ کے سوا اور کوئی صورت کار نہیں۔ اگر ہمارا حسب اقتدار مزید شک وشبہ میں پڑا رہے تو یہ مزید نقصان کا باعث ہوگا۔
2949میں اس مسئلے میں مزید کچھ کہنا سوء ادبی سمجھتا ہوں۔ میں پھر توجہ دلاؤں گا کہ اس کی اہمیت کے مطابق، اس کی حیثیت کے مطابق، اس کی شایان شان ہمارا ایک انداز فکر ہونا چاہئے اور اسی میں ہماری نجات ہے۔
آپ کو یہ علم ہی ہے اور سب پر واضح ہے کہ یہ فتنہ برطانوی سامراج کی یادگار ہے اور برطانوی سامراج نے اس کو پروان چڑھنے کے مواقع دئیے، ورنہ کب کا ختم ہوچکا ہوتا۔ پھر کسی اسلامی ملک میں ایسی کوئی چیز برداشت نہیں ہوتی۔ جب سے یہ پاکستان بنا، اس کے بننے کے بعد کافی وقت ضائع ہوا، کئی تحریکیں اٹھیں جو نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکیں اور جن لوگوں نے اس مسئلہ کو اٹھایا اور لاپرواہی سے کام لیا وہ پچک گئے اور وہ آج تک مارے مارے پھرتے ہیں۔ میرے دوست چوہدری غلام رسول تارڑ صاحب نے خوب کہا کہ موجودہ حکومت کی خوش قسمتی ہوگی کہ اگر اس میں واضح طور پر اپنی جرأت ایمانی سے کام لیں۔ میں قومی توقعات کے ساتھ عوام کے ترجمان کی حیثیت سے کہتا ہوں کہ اس فیصلہ کے لئے مزید شک وشبہ میں نہیں پڑے رہنا چاہئے۔ مزید انتظار نہیں کرنا چاہئے۔ اس میں کسی بحث کی ضرورت نہیں۔ یہ ایک بالکل اٹل چیز ہے۔ اسلام کا فیصلہ کن معاملہ ہے۔ اس میں جرأت ایمانی سے کام لینا چاہئے۔ اگر حکومت نے ذرا سستی کی، ذرا لاپرواہی کی اور کسی سیاسی مسئلے میں گرفتار ہوکر اس میں واضح پالیسی اختیار نہیں کر سکے گی تو اس کے نتائج نہایت خطرناک ہوں گے۔ وہ نتائج ظاہر ہیں۔ تمام کے ذہن نہایت بے تابی کے ساتھ تڑپ تڑپ کر پوچھ رہے ہیں، دریافت کر رہے ہیں۔ خاص طور پر یہ کام قومی اسمبلی کے ذمے کیاگیا۔ قومی اسمبلی کی بڑی ذمہ داری ہے۔ کیونکہ یہ ملک کی نمائندہ جماعت ہے۔ میرے خیال میں جہاں تک میں اس وقت پہنچا ہوں، مجھے یاد نہیں کہ شاید ہی کسی ممبر نے اس کے خلاف تقریر کی ہو تقریباً سبھی نے تائید کی ہے تو پھر کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ مسئلہ سواداعظم کی خواہشات کے مطابق حل نہ ہو۔ کیونکہ 2950قومی اسمبلی تقریباً اپنا صحیح فرض ادا کر چکی ہے۔ اس میں اب حکومت کی جرأت کی ضرورت ہے۔ حکومت نے اگر اندرونی اور بیرونی حمایت کا صحیح جائزہ لیتے ہوئے، صحیح جرأت ایمانی سے کام لے لیا تو یقینا کامیابی ہوگی۔
صرف یہ نہ سمجھئے کہ یہ فتنہ صرف داخلی ہے، بلکہ یہ فتنہ بیرونی ممالک میں بھی ہے۔ یہ بھارت کے وفادار ہیں۔ قادیان میں اس قسم کے آدمی بیٹھے ہیں، ۳۱۳آدمیوں کی یعنی کافروں کو وہاں بٹھایا ہوا ہے۔ وہ دو کشتیوں پر پاؤں لٹکائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں بھی نظریہ پاکستان کے خلاف کام شروع کر رکھا ہے اور بھارت میں بھی۔ اس کے علاوہ اسلامی ممالک اور خاص طور پر عرب ممالک کو انہوں نے بڑا پریشان کر رکھا ہے۔ اسرائیل سے ان کی سازباز ہے۔ اسرائیل اور ان کا پروپیگنڈا ایک ہے۔ ایک ہی پروگرام ہے اسرائیل کا اور ان کا۔ یہودیوں کے نظریات اور ان کے نظریات بالکل ملتے جلتے ہیں۔ ایک ہی ان کا پروگرام ہے۔ بہرحال پاکستان کے اندر اور پاکستان سے باہر اسلام کے پردے میں اسلام کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں، اور ان سب سازشوں سے بچنا چاہئے۔ ہم پہلے بڑا وقت انتظار کر چکے ہیں۔ پھر ہماری خارجہ پالیسی کمزور رہی ہے۔ صرف چوہدری ظفر اﷲ کی وجہ سے خارجہ پالیسی کو اتنا بڑا نقصان پہنچا جو ناقابل تلافی نقصان ہے۔ جہاں بھی یہ لوگ رہے۔ انہوں نے پاکستان کی جڑیںکھوکھلی کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان سے ہوشیار رہنا چاہئے۔
جیسا کہ فاروقی صاحب نے کہا ہے کہ ان کی تشخیص کے لئے ایک بورڈ قائم ہونا چاہئے تاکہ پتہ چل سکے کہ یہ قادیانی ہے اور یہ غیرقادیانی ہے۔ جب تک ہم اس قسم کی تشخیص نہیں کر سکیں گے یہ طبقہ نقصان پہنچاتا رہے گا۔ فوج میں جہاں کہیں یہ بڑے عہدوں پر ہیں یا چھوٹی ملازمتوں میں ہیں، ان کی تشخیص کے لئے کمیٹی ہونی چاہئے اور خاص طور پر مردم شماری میں ان کی وضاحت ہونی چاہئے۔ ہمیں اس میں کوئی اعتراض 2951نہیں۔ ان کے غیرمسلم اقلیت ہونے کی پاکستان پر ذمہ داری آجاتی ہے کہ ان کے مال وجان کی حفاظت کی جائے۔ یہ درست ہے۔ اسلام میں تنگ نظری نہیں ہے۔ اسلام میں بڑی فراخ دلی ہے۔ اسلام نے صرف رواداری کو فروغ دیا ہے۔ مگر یہ رواداری ایسی نہیں ہے جو برداشت کی جاسکتی ہو کہ وہ اپنی سازشیں بحال رکھیں اور اسلام کو نقصان پہنچائیں۔ اس لئے مردم شماری میں بھی ان کی خاص طور پر وضاحت ہونی چاہئے اور تمام ملازمتوں میں، تجارت میں، ہر معاملہ میں اپنے تناسب آبادی سے بڑی خوشی سے ان کو حقوق دئے جائیں۔ لیکن یہ دھوکہ نہیں دیا جاسکتا، یہ برداشت نہیں ہوسکتا کہ یہ اسلام کے پردے میں پاکستان کے اندر رہ کر یہ عرب ممالک میں، نائیجیریا میں، امریکہ میں،مختلف ممالک میں رہ کرپاکستان کو نقصان پہنچائیں۔ اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
میں دوبارہ یہ عرض کروں گا کہ اس کارروائی کو مزید طول دینے کی قطعاً حاجت نہیں۔ یہ واضح مسئلہ ہے بلکہ یہ ایک اظہر من الشمس چیز ہے۔ اس میں صرف جرأت ایمانی کی ضرورت ہے۔ اگر آپ نے اس نازک موقع پر صحیح طریقہ اختیار کیا تو یقینا نجات ہوگی۔ شکریہ!
محترمہ قائمقام چیئرمین: مولانا محمد علی رضوی! آپ نے دس منٹ تک تقریر کرنی ہے۔
(جناب مولانا سید محمد علی رضوی کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)
مولانا سید محمد علی رضوی: نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم! آج ہمارے ہاں اس ایوان میں تین مہینے سے جس مسئلہ پر گفتگو ہورہی ہے، ویسے تو یہ مسئلہ ایسا نہیںہے کہ جس میں کسی کو کوئی اختلاف ہو، البتہ معلومات کی کمی ضرور تھی، علم کی کمی ضرور تھی۔ بہت سے لوگ تھے جنہیں یہ پتہ نہیں کہ مرزائیت کیا چیز ہے، قادیانیت کیا چیز ہے، ان کے عزائم کیا ہیں، ان کے ارادے کیا ہیں، یہ چاہتے کیا ہیں۔ یہ مذہبی فرقہ ہے یا کوئی سیاسی فرقہ ہے۔ اب ہر اعتبار سے ہمارے سامنے اس جماعت کو واضح کر دیا گیا کہ ان کے عزائم کیا ہیں۔ یہ کوئی مذہبی فرقہ نہیں ہے، یہ تو اسلام دشمنوں کا آلہ کار فرقہ ہے۔
2952دراصل اٹھارویںصدی جہاں سے مسلمانوں کا انحطاط شروع ہوتا ہے، اس وقت ہندوستان میں بھی انگریز آئے اور ایشیاء میں دوسرے مقامات پر بھی انگریز کا تسلط ہوا۔ اس وقت یہ تین شخص ہیں۔ ایک تو مہدی سوڈانی، دوسرے شیخ سیناسی اور تیسرے فضل حق خیر آبادی اور مولوی عنایت احمد کا کاروی، مفتی صدرالدین صاحب! ان حضرات نے جہاد کا فتویٰ دیا۔ انگریزوں کے خلاف، اور جگہ جگہ مقابلے میں ہوئے۔ چنانچہ فضل خیر آبادیؒ اور مولانا عنایت احمد کاکاروی کو، ان کے ساتھ بھی پانچ سو علماء کے قریب تھے، جنہیں تمام کو دریائے شور کی سزا دی گئی، کالے پانی بھیجا گیا اور ان حضرات کا انتقال بھی وہیں ہوا۔
اس جہاد کے فتوے کے اثر کو ختم کرنے کے لئے مرزا غلام احمد قادیانی کو آلہ کار بنایا گیا۔ اس نے شروع میں تو مسلمانوں کے دلوں میں جگہ کرنے کا ایک طریقہ اختیار کیا۔ وہ مناظر بن گیا اسلام کا۔ عیسائیوں سے مناظرہ کرتا ہے، کہیں آریوں سے مناظرہ کرتا ہے۔ جب اس نے مسلمانوں میں اپنی جگہ اور اپنا مقام حاصل کر لیا، اس کے بعد اس نے دعویٰ نبوت کیا۔ ہمیں اب یہ چیز تو پوری طرح واضح ہوگئی ہے۔ لیکن علمائے کرام شروع ہی سے اس کے خلاف تھے۔ علماء حق نے شروع ہی سے اس کو غیرمسلم قرار دیا تھا۔ لیکن چونکہ مسلمانوں کے پاس یا علماء کے پاس نہ تو اختیار تھا نہ اقتدار نہ کسی طاقت کی سرپرستی تھی۔ اس کے ساتھ تو جناب! پوری حکومت تھی قادیان میں۔ مرزاغلام احمد قادیانی کے بعد بھی اور اس کے زمانے میں بھی، جو بھی اس کے خلاف ہوتا تھا وہیں اس کو قتل بھی کیاگیا۔ چنانچہ ایک مشہور واقعہ ہے محمد حسین کو قتل کیاگیا۔ سلطان احمد ملتانی۱؎ کو قتل کیاگیا، عبدالرحمن مصری کے ساتھ انہوں نے جو کچھ کیا اس کا مکان جلایا گیا، اس کو قادیان سے باہر نکلوایا۔ لیکن چونکہ حکومت کی سرپرستی، انگریزوں کی سرپرستی تھی، برطانیہ کی حمایت حاصل تھی، اس لئے مقدمے بھی چلے تو کچھ نہیں ہوا۔ قادیان میں تو کسی کو ان کے خلاف 2953آواز اٹھانے کی ہمت ہی نہیں تھی۔ ذرا بھی اگر کوئی شخص بولتا تھا تو اس کے ساتھ وہ زیادتیاں کی جاتی تھیں کہ کتابیں بھری پڑی ہیں اس کی زیادتیوں کی۔
اس کے بعد پاکستان بن گیا۔ پاکستان میں آپ دیکھتے ہیں انہوں نے ربوہ (اب چناب نگر) میں زمین حاصل کر کے پاکستان کے قلب میں اپنی ایک متوازی حکومت قائم کی اور وہاں بھی وہ اپنے مقدمات، چاہے وہ دیوانی کے ہوں، فوجداری کے ہوں، خود ہی طے کرتے تھے اور یہاں ہم کہتے تھے کہ یہ مرزائی کسی وقت اس ملک کو ختم کرانے والے ہوں گے۔ ہم نے دیکھا کہ اس مرزائی نے جس کو آپ نے وزیرخارجہ بنایا، اس نے ہمارے ملک کی دوستی، ہماری دوستی ہر ایک سے کرائی، لیکن ایک ملک ایسا تھا جس سے نہ کروائی۔ لیکن کیا وہ کافر تھا؟ کیا وہ بے دین تھا؟ کیا اختلاف تھا؟ کیونکہ شروع سے بنیاد ہی ایسی رکھی گئی تھی اس لئے افغانستان سے جس سے ہمارے عقائد میں اتحاد، ہمارے معاشرے میں بھی اتحاد، ہمارے دین میں بھی اتحاد تھا۔ وہاں اس نے دوستی نہ ہونے دی۔ کیونکہ یہ وزیرخارجہ قادیانی تھا۔ افغانستان میں جو بھی قادیانی گیا ہے وہاں مارا گیا ہے۔ قتل کیاگیا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ۱؎ یہ سلطان احمد ملتانی نہ تھے بلکہ فخرالدین ملتانی تھے۔ قادیانی جماعت سے تعلق رکھتے تھے۔ اختلاف رائے کی بنیاد پر مرزامحمود نے ان کو قادیان میں قتل کرادیا۔ مرتب!
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ان کے عزائم اب آپ کے سامنے آچکے ہیں۔ ان کے پاس فوجی قوت بھی ہے۔ کہیں الفرقان فورس ہے، کہیں احمدی فورس ہے۔ آخر کوئی ایسی مذہبی جماعت ہمارے ہاں پاکستان میں نہیں جس کے پاس فورسز ہوں، جس کے پاس طاقت ہو جس کے پاس لڑنے والے رضاکار ہوں۔ یہ ایسی جماعت ہے جس کے پاس لڑنے والے، جنگ کرنے والے رضاکار بھی موجود ہیں۔ یہ جماعت مذہبی نہیں ہے۔ مگر یہ جماعت تو چاہتی ہے کہ جب بھی موقع ملے اس پورے ملک پر قبضہ کیا جائے اور پھر ان کے عزائم کتابوں سے واضح ہو گئے کہ وہ غیراحمدی کو دیکھنا نہیں چاہتے، غیراحمدی کو زندہ دیکھنا نہیں چاہتے۔ وہ انہیں قطعاً اس ملک میں ایک لمحہ کے لئے نہیں دیکھنا چاہتے۔ مگر بیوقوفی ان سے ہوگئی ربوہ اسٹیشن پر۔ اﷲتعالیٰ کو منظور یہ تھا ابھی ہی فرقے کو ختم کر دیا جائے جو 2954اس کے محبوب محمد رسول اﷲ ﷺ کی نبوت کے ڈاکو ہوں۔ یہ ایک مسلمہ بات ہے، تیرہ سو برسوں سے یہ چیز ہے، مسلمانوں کا اعتقاد ہے کہ حضور ﷺ کے بعد اور کوئی نبی پیدا نہیں ہوسکتا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری جو ہے وہ نبوت کی حیثیت سے نہیں ہے۔ وہ آکر ہم سے یہ نہیں کہیں گے کہ میں نبی ہوں، مجھ پر ایمان لاؤ۔ وہ وقت تھا جو ان کا گیا۔ وہ آئے، انہوں نے اعلان کیا میں نبی ہوں۔ ایمان لائے لوگ۔ اب وہ آئیں گے تو صرف مبشرات کی صورت میں آئیں گے، بشارت کو پورا کرنے کے لئے آئیں گے۔ اسی بشارت کو مٹانے کے لئے مرزاغلام احمد نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر کشمیر میں بنائی۔ چونکہ انگریزوں کی سرپرستی تھی اس لئے انہیں کوئی روکنے والا نہیں تھا۔
لہٰذا میں عرض کروں گا کہ ان کی ہر چیز پر پابندی لگنی چاہئے۔ ان کو تبلیغ کی بھی اجازت نہیں ہونی چاہئے اور اس جماعت کو مذہبی جماعت نہیں بلکہ سیاسی جماعت قرار دیا جائے تاکہ اس کے حساب وکتاب پر بھی پوری طرح سے نظر رکھ سکیں اور محدود طریقے سے وہ رہیں۔ ان کے حقوق جو ذمیوں کے اسلام میں ہیں ان سے انکار نہیں۔ ہم ان کے جان ومال کی حفاظت کریں گے اس وقت جب کہ وہ قانون کے دائرے میں آجائیں۔ قانون کے دائرے میں آنے سے پہلے ہم ذمہ دار نہیں ہیں۔ اگر اقلیت ان کو قرار دے دیا گیا جس طرح سے عوام کا مطالبہ ہے اور اگراس میں ذرا بھی کسی قسم کی ہچر مچر کی گئی، ذرا بھی کوئی کمزوری یا لچک رکھی گئی تو اس وقت جو عوام میں جوش پھیلا ہوا ہے اس جوش کو فرو کرنے کی، اس جوش وخروش کو دور کرنے کی کسی میں طاقت نہیں ہے۔
لہٰذا میں پھر عرض کرتا ہوں کہ اس جماعت کو غیرمسلم قرار دیتے ہوئے ان کے لئے ان کو تبلیغ کی آزادی، آمدورفت کی آزادی، ہر چیز پر پوری پوری نظر کی جائے اور اس کے بعد مسلمان قطعاً مطمئن ہوں گے۔
2955محترمہ قائمقام چیئرمین: راؤ ہاشم خان! صرف دس منٹ۔
(جناب راؤ ہاشم کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)
جناب ایم ہاشم خان: جناب والا! جس مسئلہ سے یہ اسپیشل کمیٹی گذشتہ تین ماہ سے دوچار ہے، یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ اس ملک کے مسلمانوں کو یہ مسئلہ گذشتہ تقریباً ایک صدی سے درپیش ہے۔ مختلف موقعوں پر اسلامیان ہند نے یہ کوشش کی کہ ان کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ ۱۹۴۷ء تک تو وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکے، اس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں ایک بہت بڑی عظیم طاقت کی سرپرستی حاصل رہی اور ۱۹۴۷ء کے بعد پہلی مرتبہ ۱۹۵۳ء میں جب یہ جدوجہد شروع ہوئی کہ احمدیوں کو غیرمسلم قرار دیا جائے، اس وقت تو میں یہ کہوں گا کہ ہر تحریک جو تشدد اختیار کر جائے اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ ۱۹۵۳ء میں چونکہ تشدد شروع ہوگیا اور تشدد کا ہمیشہ جواب تشدد سے دیا جاتا ہے اور جب تشدد ناکام ہو جائے تو پھروہ تحریک بھی ساتھ ہی ختم ہو جاتی ہے۔ یہی صورتحال ۱۹۵۳ء میں ہوئی۔ اس وقت کے جو زعماء لیڈران اس تحریک کے تھے انہوں نے تشدد کا طریقہ اختیار کیا۱؎۔ عدم تشدد کا رستہ چھوڑ دیااس لئے سارے ملک کے سامنے اور ساری قوم کے دیکھتے دیکھتے ایک ایسا مسئلہ جو تھا یہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا، اب یہ کبھی سر نہ اٹھا سکے گا۔ تو اب بھی وہی بات تھی۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ایک قسم کی تائید غیبی تھی کہ ۱۹۵۳ء کے بعد اس مسئلہ پر کبھی کسی نے سنجیدگی سے غور نہیں کیا کہ کس طریقے سے اس جماعت کے لوگ منظم ہوتے جارہے ہیں اور کس طریقے سے وہ اپنے آپ کو اس ملک میں اہم عہدوں پر فائز کر کے ہرچیز پر قابض ہو گئے ہیں جن کا سیاست میں اور دنیاوی کاموں میں کافی اثر ہوتا ہے۔
جناب والا! آپ یہ دیکھیں گے کہ اس فرقہ کے لوگوں نے سب سے پہلے یہ کوشش کی کہ Open Competition (آزاد مقابلہ) میں تو چونکہ بہت ساری چیزیں آجاتی ہیں،
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ۱؎ تحریک کے زعماء نے پرامن تحریک چلائی۔ حکومت نے ان کو گرفتار کر لیا۔ ایجنسیوں نے تشدد کے راستہ پر تحریک کو ڈال دیا۔ حکومت نے بدترین تشدد سے تحریک کو کچل دیا۔ اس میں زعماء تحریک کا کوئی قصور نہیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ہمارے ہاں سی۔ایس۔پی، پی۔سی۔ایس کے امتحانات ہوتے تھے۔ اس میں Open Competition (آزاد مقابلہ) ہوتے 2956تھے، وہاں پر زیادہ کارگر نہیں ہوسکے۔ وہاں تو یہ تھا کہ سو(۱۰۰) میں سے ایک آدمی آگیا تو Open Competition (آزاد مقابلہ) میں تو چلے گئے۔ ان لوگوں کے جو سینئر آفیسر تھے انہوں نے اس ملک میں کارپوریشنوں پر قبضہ کرنے کی سب سے زیادہ کوشش کی۔ آپ دیکھیں گے کہ اس ملک میں جتنی بھی کارپوریشنیں موجود ہیں ان میں اہم ترین عہدے ان کے پاس ہیں۔ اس کا طریقہ کار یہ رہا ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو پی۔آئی۔ڈی۔سی کا چیئرمین مقرر کرادیا۔ فرض کیجئے مجھے انہوں نے چیئرمین بنوادیا۔ اب میں چونکہ چیئرمین ہوگیا ہوں، میں ایک بڑے افسر کا ممنون احسان ہوگیا۔ وہ افسر احمدی تھا۔ انہوں نے دو چار دن کے بعد مجھے کہا کہ میں نے آپ کو چیئرمین مقرر کرایا ہے، آپ پرسانل آفیسر فلاں آدمی کو لگادیں۔ میں اس احسان تلے دبا ہوا تھا، لہٰذا میں نے ان کی مرضی کے مطابق ایک ایسے آدمی کو آفیسر بھرتی کرادیا۔ جس کا کام یہ تھا کہ وہ بھرتی کرے۔ لہٰذا اس آدمی نے اس ادارے میں ۹۹فیصد احمدیوں کو ملازمت دی۔ پی۔آئی۔ڈی۔سی بینک اور انشورنس کمپنیاں، جہاں بھی یہ لوگ گئے ان کی اکثریت رہی۔ اس طریقہ سے یہ ہماری اقتصادیات پر حاوی ہوتے چلے گئے۔ جس کے پاس پیسہ ہو آواز بھی اس کی ہوتی ہے۔ آج یہ لوگ منظم اس لئے ہیں کہ ان کے پاس پیسے اور وسائل ہیں۔ یہ ایک دو فیصد ہوتے ہوئے بھی اسی لئے ہمارا مقابلہ بڑی سختی کے ساتھ کرتے ہیں۔
----------
[At this stage Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi vacated the Chair which was occupied by Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali).]
(اس مرحلے پر ڈاکٹر بیگم اشرف خاتون عباسی نے کرسی صدارت کو چھوڑا جسے جناب چیئرمین (صاحبزادہ فاروق علی) نے سنبھالا)
----------
جناب ایم ہاشم خان: تو میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ ۱۹۵۳ء کے بعد پہلی مرتبہ انہوں نے اس مسئلے کو جگادیا۔ اگر ربوہ کا واقعہ نہ ہوتا تو پھر میں سمجھتا ہوں کہ یہ قوم اس طرف دھیان دینے کے لئے تیار نہیں تھی۔
2957جناب والا! میں ایک بات ضرور عرض کروں گا کہ اس موجودہ حکومت کو بہت سے مسائل درپیش ہیں۔ اس قسم کے مسائل ہیں کہ آج تک اس قوم کو اس قسم کے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ۲۵سال سے آج تک ہم ایسے وسائل سے دوچار نہیں ہوئے۔ سب سے بڑا مسئلہ جو آج تک حل نہیں ہوسکا وہ میں سمجھتا ہوں کہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم نے اس چیز کو جو کہ گزشتہ سو(۱۰۰) سو سال سے حل نہیں کی جاسکی اس کو ہم نے بڑی خوش اسلوبی سے حل کرنے کی کوشش کی ہے۔
جناب والا! یہاں پر ناصر احمد نے یہ کہا کہ یہ ہمارا اختیار نہیں ہے۔ اس اسمبلی کو انہوں نے چیلنج کیا ہے کہ اسمبلی کو کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ اس پر فیصلہ (Adjudicate) دے سکے اور کسی کو غیرمسلم قرار دے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایوان اس ملک میں ایک بااختیار ایوان ہے۔ اس سے بڑی طاقت کوئی نہیں ہے۔ اگر یہ ایوان کسی کے بارے میں فیصلہ نہیں دے سکتا تو پھر وہ کون ساایوان ہے جو یہ فیصلہ کر سکتا ہے؟ ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس ایوان کو اس الجھن میں نہ ڈالا جائے۔ بہرحال یہ کہنا کہ اس ایوان کو اس مسئلے کو حل کرنے کا اختیار نہیں ہے یہ غلط ہے۔ اس ایوان کو کلی طور پر اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی جماعت اور کسی فرقے کے بارے میں یہ کہہ سکے کہ یہ صحیح ہے یا غلط۔ ہم یہاںہر قسم کی قانون سازی کر سکتے ہیں۔ ہمارے اوپر ایک حق ضرور عائد ہوتا ہے کہ ہم کوئی ایسا کام نہیں کر سکتے جو اسلام کی روح کے خلاف ہو، جو آئین کے خلاف ہو اور ہم اس قسم کی قانون سازی کے مجاز نہیں ہیں۔ دنیا کی بہت سی پارلیمنٹس ہیں جن میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ وہ ہرچیز کر سکتی ہیں لیکن اس ملک میں پارلیمنٹ کو یہ اختیار نہیں کہ وہ حلال اور جائز کو ناجائز قرار دے۔ اس کے علاوہ تمام قسم کی دنیاوی قانون سازی کر سکتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ مذہب ایک ذاتی مسئلہ ہے، اس پر ہم Finding (فیصلہ) نہیں دے سکتے ہیں۔ میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ مذہب صرف اس وقت تک ذاتی 2958مسئلہ رہتا ہے۔ جب تک وہ کسی شخص کی ذات تک محدود رہے۔ اگر میں دل میں کوئی خیال رکھتا ہوں اور اپنی عبادت میں مشغول رہتا ہوں تو یہ ذاتی مسئلہ ہوگا۔ لیکن جب باہر آکر علی الاعلان ہم ایسی باتیں کریں جن سے دوسرے لوگ بھی متاثر ہوں، ان کے جذبات مجروح ہوں، تو پھر یہ ذاتی مسئلہ نہیں رہتا۔ اس ملک کے اندر جو اسلام کے نام پر حاصل کیاگیا ہے۔ یہاں یہ کہنا کہ نعوذ باﷲ رسول کریم ﷺ کے بعد بھی نبی آسکتا ہے تو یہ ہمارے جذبات کے ساتھ بہت زیادتی ہوگی۔
ایک بات دیکھنے میں آئی ہے اور مجھے ذاتی تجربہ ہے کہ کالج سے لے کر اب تک جو احمدی بھی میرے ساتھ رہے ہیں، ہم ان کے ساتھ جرح کرتے تھے اور بڑے سخت الفاظ استعمال کر جاتے تھے، لیکن وہ ہنس کر ٹال دیتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد پہلی بار انہوں نے تشدد شروع کر دیا جو ملک خداداد اور رسول اﷲ ﷺ کے نام پر معرض وجود میں آیا۔ اس میں اقلیت کو تشدد کی جرأت کیسے ہوئی؟ میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کو اس سے باخبر رہنا چاہئے۔ ان کو یہ جرأت کیسے ہوئی کہ انہوں نے ٹرین پر حملہ کیا اور مسلمانوں پر تشدد کیا، ان لوگوں پر زیادتی کی جو کل آبادی کا ۹۹فیصد ہیں۔
جناب والا! میں یہ عرض کروں گا کہ اس اسمبلی کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے کہ وہ یا ہمیں یعنی اکثریت کو (خدانخواستہ) غیرمسلم قرار دے یا انہیں غیرمسلم قرار دے۔ انہوں نے واضح الفاظ میں آپ کے سامنے کہا کہ وہ ان کو مسلمان نہیں سمجھتے۔ جو مرزاغلام احمد کو نبی نہیں مانتے۔ اس ملک کی ۹۹فیصد آبادی ہرگز مرزاغلام احمد کو نبی تسلیم نہیں کرتی۔
جناب والا! یہ ضروری ہے اور لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بڑا اہم مسئلہ ہے۔ اس پر بڑا پریشر ہے۔ یہ بین الاقوامی معاملہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا مفاد اور عوام کا مفاد اور بھلائی بھی اسی میں ہے کہ عوام کے نمائندے اس مسئلے کا حل تلاش کریں۔ عوام ان کو 2959غیرمسلم سمجھتے ہیں اور میرا اپنا ایمان بھی یہی ہے۔ انہیں غیرمسلم قرار دینے کے بعد میں یہ عرض کروں گا کہ اگر یہ تحریک تشدد کی طرف گئی، اگر آپ نے ان کے اوپر اور کچھ کرنے کی کوشش کی تو میں متنبہ کرتا ہوں کہ وہ تشدد ہمیشہ ناکام رہے گا۔ اس تحریک کو آج تک جس طریقہ سے پر امن رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگر اس کی بجائے تشدد آگیا تو اس سے ہمیں نقصان ہوگا اور ان کو فائدہ پہنچے گا۔ وہ کوشش کریں گے کہ کہیں نہ کہیں تشدد پیداکر کے اس تحریک کو تشدد کی طرف لے جایا جائے۔ یہ ہمارا سب کا فرض ہے کہ اسمبلی ان کے بارے میں فیصلہ کرے۔ ان کو غیرمسلم قرار دینا چاہئے، اور پھر اس کے بعد ان کی جان ومال کی حفاظت کرنا ہمارا اولین فرض ہوگا۔ ان کے ساتھ تشدد کرنا ایسا ہی ہے جیسے ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ تشدد ہوتا ہے اور ہم چیخ پڑتے ہیں۔ ہم اگر اپنی اقلیت کی حفاظت نہ کریں گے تو دوسروں سے کیا امید رکھیں گے۔ اس لئے کسی فیصلہ کے بعد ان کا تحفظ کرنا ہمارا فرض ہے۔ ہمارے نوجوانوں، بچوں اور بوڑھوں، سب کو اس مسئلے کا حل اور علاج تشدد سے نہیں کرنا چاہئے۔
Mr. Chairman: Thank you.
(جناب چیئرمین: شکریہ!)
جناب ایم ہاشم خان: ایک منٹ! میں یہ عرض کروں گا کہ مجھے بنگلہ دیش جانے کا اتفاق ہوا۔ بازار میں ایک احمدی نمائندہ مجھے ملا اور مجھے ایک پمفلٹ دیا اور کہنے لگا کہ یہاں مجیب نے اس ملک کو سیکولر اسٹیٹ قرار دیا ہے۔ آپ بھی ویسا ہی کر دیں۔ یہ لوگ سیکولر ازم کے حامی ہیں۔ اگر یہ مسلمان ہوتے تو ایسی باتیں نہ کرتے۔ میں آخر میں یہ عرض کروں گا کہ ہمیں انہیں غیرمسلم قرار دینا چاہئے اور اس تحریک کے کامیاب ہونے کے بعد یہ ہمارا فرض ہوگا کہ اس مسئلے کو کامیابی کے ساتھ حل کریں۔
2960جناب چیئرمین: صاحبزادہ صفی اﷲ! بعد میں دوسروں کی باری آئے گی۔ ایک منٹ کے لئے اٹھتے ہیں اور پھر پندرہ منٹ لگاتے ہیں۔ لیکن جب کہتے ہیں کہ پندرہ منٹ تو دس منٹ ہی میں ختم کر دیتے ہیں۔
(جناب صاحبزادہ صفی اﷲ کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)
صاحبزادہ صفی اﷲ: جناب والا! جو قراردادیں اس وقت اسپیشل کمیٹی کے سامنے ہیں ان کے حق میں ہماری طرف سے ایک مفصل بیان ’’ملت اسلامیہ‘‘ کے نام سے آچکا ہے۔ جس کو مولانا مفتی محمود صاحب نے ہم سب کی طرف سے پڑھا ہے اور اس کے بعد اور بھی معزز اراکین نے اپنے زریں خیالات کا اظہار کیا ہے اور اس میں اب کوئی گوشہ ایسا نہیں رہا جو تشنۂ گفتگو ہو۔ جناب والا! ہم نے مرزاناصر احمد کو اور لاہوری جماعت کے سربراہ کو یہ موقع دیا تھا کہ وہ اسپیشل کمیٹی کے سامنے اپنے مؤقف کو پیش کریں۔ اس میں یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ ہم اپنا اطمینان کرنا چاہتے تھے یا یہ کوئی متنازعہ فیہ مسئلہ تھا۔ جس کا تصفیہ نہیں ہوا تھا اور ہم اب تصفیہ کرنے بیٹھے تھے۔ اس کا فیصلہ چودہ سو سال پہلے اﷲتعالیٰ نے کیا ہے اور احادیث صحیحہ اور اجماع امت کے علاوہ قرآن کریم کی بے شمار آیات اس سلسلہ میں وارد ہیں اور ان میں سے ایک جو اس بارے میں اجماع امت ہے اس پر کہ وہ ختم نبوت کے بارے میں قطعی ہے وہ سورۃ احزاب کے پانچویں رکوع کی آیت ہے اور اس کو میں پڑھتا ہوں:
’’
اعوذ باﷲ من الشیطان الرجیم۰ بسم اﷲ الرحمن الرحیم۰ ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النّبیین۰ وکان اﷲ بکل شیٔ علیما
‘‘
یعنی اے لوگو! محمد ﷺ آپ مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں۔ مگر وہ اﷲ کے رسول ہیں اور خاتم النّبیین ہیں اور اﷲتعالیٰ کو ان سب چیزوں کا علم ہے کہ اس کے بعد کسی نبی کو نہیں بھیجنا ہے اور یہ آخری نبی ہیں اور اس پر امت کا فیصلہ ہے، امت کا 2961اجماع ہے کہ یہ اس بارے میں قطعی ہے۔ یعنی ہم یہاں اس لئے نہیں بیٹھتے تھے کہ ہم یہ فیصلہ کریں یا اس کے لئے کوئی اور دلیل طلب کریں۔ اپنے اطمینان کے لئے، بلکہ انہوں نے درخواست کی تھی کہ ہم اپنا مؤقف پیش کرنا چاہتے ہیں تو ہم نے ان کو موقع دیا۔
جناب والا! آپ کی ہدایت تھی کہ ہم بڑے صبر اور تحمل کا مظاہرہ کریں اور ہم نے جس صبر اور تحمل کا مظاہرہ کیا ہے، یہ تو اﷲ شاہد ہے کہ ان کی ان دل آزار باتوں سے اور ان کی کفریات سے ہم کو کتنا صدمہ پہنچا تھا۔ لیکن ہم نے باوجود اس کے نظم وضبط کو بحال رکھا اور ان سب باتوں کو سنا اور اس جرح کے دوران میں اٹارنی جنرل صاحب نے ان خفیہ باتوں کو ان کے دلوں سے نکلوایا جو کہ وہ ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے۔ ان کے بیانات سے یہ بات روز روشن کی طرح اب عیاں ہے اور ہاؤس کا ہر ایک معزز رکن اپنے اطمینان کے ساتھ اب انشاء اﷲ فیصلہ دے گا اور ان سب پر عیاں ہوچکا ہے کہ مرزاغلام احمد نے کتنی ڈھٹائی کے ساتھ اپنی جعلی نبوت کا کیس دنیا کے سامنے پیش کیا۔
جناب والا! یہ بات بھی سامنے آگئی ہے کہ انگریزوں نے اپنے اس خود کاشتہ پودے کو کس طرح پھلنے پھولنے کا موقع دیا اور تناآور کیا۔ لیکن ہمیں انگریزوں سے شکایت نہیں ہے، وہ تو ملت اسلامیہ کو پارہ پارہ کرنے کے لئے ہمیشہ یہی حربے استعمال کرتے رہتے تھے۔ ہمیں جو شکایت ہے تو اپنے حکمرانوں سے ہے۔ جناب والا! پاکستان بن جانے کے بعد چاہئے تو یہ تھا کہ ان کو بلاتے، سمجھاتے کہ بھائی! اب یہ جعلی نبوت نہیں چلے گی، اب اس قصے کو چھوڑ دو، اور اگر نہیں چھوڑتے ہو تو پاکستان کی سرزمین میں ایک غیرمسلم اقلیت بن کر رہو۔ لیکن ہوا کیا کہ انگریزوں سے زیادہ ہمارے حکمرانوں نے ان کو موقع دیا اور مسلمانوں کے سروں پر سوار کیا اور اب پاکستان میں زندگی کے کسی شعبے میں اگر آپ تلاش کریں تو وہاں ایک قادیانی آفیسر بن کر بیٹھا ہو گا اور پاکستانی حکومت کا کوئی راز ان سے اب چھپا ہوا نہیں ہے۔
2962جناب والا! اس میں کوئی شک نہیں ہے اور یہ بات اب عیاں ہے کہ ان لوگوں کی وجہ سے سارے عالم اسلام کے ساتھ ہمارے تعلقات خراب ہوگئے ہیں، سارے برادر ملکوں سے ہمارے تعلقات خراب ہوگئے ہیں۔ افغانستان سے تعلقات خراب کرنے میں ان ہی لوگوں کا ہاتھ ہے۔مجھے یاد ہے کہ ۱۹۵۶ء میں عرب اسرائیل جنگ کے دوران ہماری حکومت کے ایک قادیانی آفیسر نے ایک بیان دیا عربوں کے خلاف، اور اس کا ردعمل یہ ہوا کہ سارا عالم عرب ابھی تک پاکستان کو مشکوک نگاہوں سے دیکھتا ہے اور جس وقت کشمیر کا مسئلہ سلامتی کونسل میں پیش ہوا تو بہت سے عرب ممالک نے صرف اس ایک بیان کی وجہ سے ہمارے حق میں رائے نہیں دی۔ بلکہ ہندوستان کے مؤقف کی حمایت کی۔ یہ ان لوگوں کے کرتوتوں کا نتیجہ ہم بھگت رہے ہیں۔