• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قومی اسمبلی میں ہونے والی اکیس دن کی مکمل کاروائی

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(قادیانی قیادت کی ستم رانیاں)
جناب والا! اس قصے کو اب میں مختصر کرتا ہوں اور کیونکہ جو وقت مجھے دیاگیا ہے وہ بہت کم ہے۔ ایک بات کی طرف میں آپ کی وساطت سے اس معزز ایوان کے معزز اراکین کی توجہ دلانا چاہتا ہوں اور وہ بڑی حیران کن بات ہے کہ پاکستان بن جانے کے بعد پاکستان کے اندر جتنی بھی ریاستیں تھیں ان کو حکومت پاکستان نے ختم کر دیا۔ مثلاً ریاست بہاولپور جو ایک علم دوست ریاست تھی اور سب سے پہلے وہاں سے قادیانیوں کے خلاف فیصلہ سنایا گیا تھا۔ لیکن بہاولپور کو ختم کیا جاتا ہے۔ دیر، سوات اور چترال کو ختم کیا جاتا ہے، اور ربوہ جو ریاست کے اندر ایک ریاست ہے اور جس کا ہیڈ مرزاناصر ہے وہ ابھی تک قائم ہے اور اب ہمیں معلوم ہوا ہے اور ہمارے علم میں یہ بات لائی گئی ہے کہ مرزاناصر جو خود ساختہ خلیفہ ہے، اس کے خاندان کے لوگوں سے قادیانیوں کی خواتین کی عصمتیں محفوظ نہیں ہیں اور ان کی فریاد کی شنوائی نہیں ہوتی ہے اور وہ بے چارے مجبور ہیں۔ وہ جو وہاں کرنا چاہیں کر سکتے ہیں۔ تو اس سلسلہ میں میں عرض کروں گا کہ ربوہ کو بالکل ختم کرنا چاہئے، اس کی ریاست اندر ریاست کی حیثیت کو ختم 2963کرنا چاہئے اور اس کو ایک کھلا شہر قرار دینا چاہئے اور وہاں سرکاری عمارات کی تعمیر ہونی چاہئے۔ مثلاً تحصیل، تھانہ وغیرہ۔
دوسری بات جناب! یہ ہے کہ دستور کی دفعہ ۲۵۶ کے تحت ان کی جو فوجی تنظیمیں ہیں ان کو ختم کرنا چاہئے اور ان پر پابندی لگانی چاہئے، ورنہ یہ خطرہ ہمیشہ کے لئے رہے گا اور پاکستان کی سلامتی اور بقاء کی کوئی مؤثر ضمانت بغیر ان کو ختم کئے نہیں ہوگی۔
جناب والا! یہ بات بہت عجیب ہے کہ اس ملک کے اندر ایک آدمی پولیس کی وردی کا استعمال نہیں کر سکتا، ڈی۔ایس۔پی کی وردی کا استعمال نہیں کر سکتا۔ اس ملک میں ایک آدمی کے متعلق اگر یہ معلوم ہو جائے کہ وہ کرنسی نوٹ چھاپتا ہے اور اس کا کاروبار کرتا ہے تو اس کو حکومت پکڑتی ہے اور سزادیتی ہے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اس ملک کے اندر ۲۷سال سے اب تک جعلی نبوت کا کاروبار ہوتا رہتا ہے اور ان کو کھلی چھٹی ہے کہ جس طرح چاہیں وہ کریں اور اس پر ان کو کوئی سزا نہیں ہے۔ یہ بڑی حیران کن بات ہے اور یہ اسلامیان پاکستان کی غیرت کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے اور اگر اس موقع کو بھی ضائع کیا گیا تو پھر مسلمانان پاکستان کو اﷲتعالیٰ کے قہر وغضب سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔
جناب والا! آپ مجھے باربار دیکھتے ہیں۔ میں نے تو ابھی پا نچ منٹ لئے ہیں۔
جناب چیئرمین: دس منٹ ہوگئے ہیں۔
صاحبزادہ صفی اﷲ: میں تو صرف پوائنٹس تک اپنی تقریر محدود رکھنا چاہتا ہوں۔
جناب چیئرمین: پانچ منٹ اور لے لیں۔ آپ نے 11:20 پر تقریر شروع کی ہے۔
صاحبزادہ صفی اﷲ: دو،چار منٹ اور۔
جناب چیئرمین: یہ سارا ہاؤس گواہ ہے میں نے اپنی زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا۔
2964صاحبزادہ صفی اﷲ: دو،چار منٹ اور۔
جناب چیئرمین: آپ پانچ منٹ لے لیں۔
صاحبزادہ صفی اﷲ: اچھا جی، جناب والا!
جناب چیئرمین: ریکارڈ کے مطابق 11:17 ہے، میرے خیال کے مطابق 11:20 ہے۔ باقی رہ جائیں گے بیچارے۔
صاحبزادہ صفی اﷲ: میں عرض کر رہا تھا کہ اس ملک میں جب جعلی نبوت کا کاروبار ہوتا ہے تو ہم کس طرح دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ہم آزاد ہیں اور ہمیں آزادی ملی ہے اور ہم اس آزادی پر کس طرح فخرکر سکتے ہیں۔ جب ہم اپنے رسول اﷲ ﷺ کے ناموس کی حفاظت کرنے میں اب تک ناکام رہے ہیں تو ہم کس طرح دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ہم آزاد ہیں اور ہمیں ایک آزاد ملک ملا ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزا کا ناپسندیدہ نام)
جناب والا! میں نے بہت سے پوائنٹ چھوڑ دئیے ہیں۔ میں یہ گزارش کرتا ہوں کہ اس وقت ملک کی جو حالت ہے وہ یہ ہے کہ عوام کی نگاہیں اس کمیٹی پر مرکوز ہیں۔ ڈھائی مہینہ ہم نے مسلسل کام کیا ہے اور اب لوگ دیکھتے ہیں کہ کیا ہونے والا ہے۔ لیکن ہماری ساری تگ ودو اور جدوجہد کا ثمرہ ہمیں اس وقت مل سکتا ہے جب کہ ہم دستور میں ایسی ترامیم لانے میں کامیاب ہو جائیں، جو اﷲتعالیٰ جل شانہ اور اس کے رسول ﷺ اور امت مسلمہ کے لئے قابل قبول ہوں۔ ہم ڈرتے کیوں ہیں، یعنی ہم کیوں اس طرح احساس کمتری کا شکار ہیں۔ میں نے بہت سے دانشور صاحبان سے سنا ہے کہ یہ مرزاغلام احمد کا ناپسندیدہ نام ہمارے دستور میں نہ آئے۔ جناب والا! ٹھیک ہے، لیکن میں ایک عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے دستور سے جو مقدس کتاب ہے وہ اﷲتعالیٰ کی کتاب ہے، لیکن ضرورت کے مطابق جہاں یہ باتیں ناگزیر تھیں تو اس میں بھی ہامان اور قارون اور ابی لہب کے نام لئے گئے ہیں اور ابلیس کا نام لیاگیا ہے۔ تو اگر ہمارے 2965دستور میں مرزاغلام احمد کا نام آیا تو اس میں کیا قباحت ہے؟ یعنی ہم جب اپنے مسائل کو دوسروں کے زاویہ نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس پر پرکھتے ہیں اور اس سے اندازہ لگاتے ہیں تو یہ اچھی بات نہیں۔ یہ تو ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ کیا کریں، ہم اس سے دوچار ہیں، ہم اس میں پھنس گئے ہیں۔ اب اگر دستور میں اس کا یعنی مرزاغلام احمد کا نام، ناپاک نام نہ لیں تو ہم مجبور ہیں۔
جناب چیئرمین: نہیں، نہیں، ہم نہیں پھنسے۔ ہم انشاء اﷲ! نکلیں گے اس سے۔
صاحبزادہ صفی اﷲ: جناب والا! میں نے بہت سی باتیں چھوڑ دی ہیں۔ میری عرض یہ ہے کہ ہمارے دستور میں جو کچھ…
جناب چیئرمین: آپ فرمائیں، میں ’’میں مودودی شاہ پارے‘‘ تلاش کر رہا ہوں۔
صاحبزادہ صفی اﷲ: انہوں نے اﷲتعالیٰ جل شانہ کے کلام سے اور رسول اﷲ ﷺ کی احادیث مقدسہ کے ساتھ اور اس کے بعد ابن عربی اور امام غزالی اور حضرت عبدالقادر جیلانیؒ اور سب کے کلام کے ساتھ جو کچھ کیا ہے تو اگر مولانا مودودی کے کلام کے ساتھ کریں تو پھر کیا حیرانی ہے۔ خداتعالیٰ جل شانہ کے کلام کے ساتھ انہوں نے کیا ہے۔ جناب والا! میں عرض کر رہا تھا کہ اگر دستور…
جناب چیئرمین: ’’چڑیا گھر، جو موجودہ مسلمانوں کی نام نہاد سوسائٹی جس میں چیل، گدھ، بٹیر، تیتر اور ہزاروں قسم کے جانور جمع ہیں۔‘‘ سیاسی کشمکش، حصہ سوم۔
صاحبزادہ صفی اﷲ: میں نے تو پہلے عرض کیا ہے کہ اﷲتعالیٰ جل شانہ کے کلام کے ساتھ انہوں نے کیا ہے۔ میں عرض کر رہا تھا کہ اگر دستور کی دفعہ۱۰۶ جہاں وہ دوسری اقلیتیں ہیں، ان میں مرزاغلام احمد اور اس کے متبعین اور پیروکار جو ہیں ان کا نام ہم شامل کریں اور ان کو ایک غیرمسلم اقلیت شمار کریں تو اس میں کیا قباحت ہے؟ اور اس 2966کے بعد جو قانون سازی ہوگی تو اور بھی اس پر علماء کرام کے مشوروں سے اضافہ ہو جائے گا۔
دوسری بات جو ہے وہ کلیدی اسامیوں کی بات ہے۔ میں اس میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جہاں تک ہمیں علم ہے یہ تو اس وقت کی بات ہوگی، یہ قانونی بات ہو گی کہ اسلام دارالسلطنت میں غیرمسلم اقلیتیں جو ہیں، ذمی وغیرہ، وہ کن کن عہدوں پر فائز رہ سکتے ہیں اور کن پر نہیں رہ سکتے۔ میں واضح طور پر کہتا ہوں کہ اسلامی قانون کی رو سے یہ دفاع کا محکمہ جو ہے فوجوں وغیرہ کا، تو غیرمسلموں کو فوجی خدمات سے اسلام نے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ یعنی وہ کسی ایسے عہدے پر نہیں رہ سکتے جس سے ملکی دفاع مقصود ہو اور یہ ٹھیک بھی ہے۔ جناب والا! کہ ایک اصولی ریاست ہے۔ جس اصول پر وہ ریاست قائم ہے تو اس ریاست کی حفاظت، اس ملک کی حفاظت اور اسے دشمنوں سے بچانے کے طریقے اور اس کے لئے لڑنا اور مرنا ان لوگوں کے ذمہ ہے جو اس اصول پر یقین رکھتے ہیں۔ لیکن وہ افراد کس طرح لڑیں گے جن کے دماغ پر ہمیشہ اپنے نبی کی وحی سوار ہو کہ:

اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال
دین کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال
دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد
منکر ہے نبی کا جو یہ رکھتا ہے اعتقاد
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۲۷، خزائن ج۷ ص۷۷)
تو وہ ملک کی حفاظت کس طرح کر سکیں گے؟ اور ہم نے دیکھ نہیں لیا کہ ۱۹۷۱ء میں کیا ہوا ہمارے ساتھ۔
جناب چیئرمین: چھوڑیں جی!
صاحبزادہ صفی اﷲ: جناب والا! آخر میں معزز ممبران کی خدمت میں آپ کی وساطت سے گزارش کروں گا کہ اس وقت اﷲتعالیٰ کی طرف سے ہم پر ایک بہت بڑی 2967آزمائش ہے اور ہم اس وقت صرف اپنے حلقۂ انتخاب کی نمائندگی نہیں کرتے ہیں، نہ پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں، بلکہ اس وقت ہم پورے عالم اسلام اور امت مسلمہ کی نمائندگی کرنے یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں جو بھی ہم سے کوتاہی ہوئی اس سے عالم اسلام اور امت مسلمہ کو نقصان پہنچائیں گے اور اگر ہم نے صحیح فیصلہ کیا تو اﷲتعالیٰ جل شانہ اور اس کے رسول محمد ﷺ کے لئے قابل قبول ہوا تو ہم سرخرو ہوکر اﷲ تعالیٰ جل شانہ کے حضور بھی اپنے گناہوں کی معافی چاہیں گے اور رسول اﷲ ﷺ کی خدمت میں بھی اپنی شفاعت کی امید رکھ سکیں گے۔ شکریہ!
جناب چیئرمین: اس کا جواب انہوں نے ابھی نہیں دیا۔ اس کا جواب محمود اعظم فاروقی صاحب دیں گے۔ یہ ’’انتخابی مہم میں شکاری کتوں کی دوڑ۔ جمہوری اسمبلیاں، ان کی رکنیت بھی حرام، ان کو ووٹ دینا بھی حرام۔‘‘
جناب محمود اعظم فاروقی: میں اور بھی بہت سے جواب دے سکتا ہوں، آپ سننے کے لئے تیار ہو جائیں۔
جناب چیئرمین: نہیں، نہیں، اس کا۔
جناب محمود اعظم فاروقی: آپ اس کا جواب سننے کے لئے تیار ہو جائیں۔
جناب چیئرمین: صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
( صاحبزادہ احمد رضا قصوری کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)
صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری: جناب سپیکر! گرامی قدر! رسول عربی محمد مصطفیٰ ﷺ کی محبت اور عقیدت کا اندازہ آپ حضرت علامہ اقبال کے اس شعر سے لگاسکتے ہیں ؎
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
2968جناب سپیکر! رسول عربی حضرت محمد ﷺ کی محبت ایک مسلمان کے لئے اس کے ایمان کا ایک دریا ہے، اس کی عقیدت کا دریا ہے، اس کی محبت کا دریا ہے، اور ایک مسلمان اس دریا کا ایک حقیر قطرہ ہے اور اسی لئے کہا جاتا ہے ؎
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
ایک مسلمان کے لئے رسول عربی ﷺ کی محبت میں فنا ہو جانا، رسول عربی ﷺ کی محبت میں اپنے آپ کو ختم کر دینا اس کی عشرت کی انتہاء ہے، اس کے لئے اس کی عقیدت کی ایک معراج ہے، اس کے لئے محبت کا ایک بہترین جذبہ ہے۔ میں آپ سے عرض کروں گا کہ اس اسمبلی نے پاکستان کے مسلمانوں کی عقیدت کے مطابق اور عاشقان رسول ﷺ کی محبت کے مطابق اس کا فیصلہ نہ کیا تو میں یہاں رجسٹر کرانا چاہتا ہوں یہ الفاظ کہ پاکستان کے مسلمان رسول عربی ﷺ کی محبت میں پروانوں کی طرح مر جائیں گے۔ شاید جو آپ فیصلہ کریں گے وہ فیصلہ شاید قلم اور سیاہی سے لکھا جائے۔ اگر آپ نے قلم اور سیاہی سے فیصلہ پاکستان کے عوام کی خواہشات، جذبات، ان کی عاشقانہ محبت رسول کے ساتھ نہ کیا تو پھر پاکستان کے مسلمان تلوار اور خون سے فیصلہ لکھیں گے۔ یہ فیصلہ رسول عربی ﷺ کی محبت کے اندر ڈوبا ہوا ہوگا۔لیکن میں آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں آپ نے ایسا فیصلہ کرنا ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ پاکستان کے عوام کو غلط فیصلہ کر کے فیڈرل سیکورٹی فورس یا فوج سے ڈرایا دھمکا کر ختم کر سکتے ہیں تو یہ بالکل جھوٹ ہے۔ لوگوں نے رسول عربی ﷺ کی محبت کے لئے…
Mr. Chairman: Decision has not yet come. If the decision is as you are arguing, then you can argue like this. We have kept the atmosphere calm for 2-1/2 months in the Government Benches and the opposition. I will not allow this speech come what may. I am grateful to honourable members for their cooperation. Till the decision is taken, you will please not speak in this way.
(جناب چیئرمین: ابھی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ اگر ایسا فیصلہ ہوچکا ہے جو آپ کہہ رہے ہیں تو پھر آپ اس طرح کی باتیں کر سکتے ہیں۔ ہم نے حکومت اور حزب اختلاف کے مابین ماحول اڑھائی ماہ سے پرامن بنا رکھا ہے۔ میں کسی بھی قیمت پر اس طرح کی تقریر کی اجازت نہیں دے سکتا۔ میں معزز اراکین کا ان کے تعاون کے لئے شکرگزار ہوں۔ جب تک فیصلہ نہ ہو جائے آپ براہ کرم اس انداز میں بات نہ کیجئے)
2969چوہدری جہانگیر علی: جناب والا! ان کے یہ الفاظ کہ کمیٹی کے ممبروں کو دھمکا کر فیصلہ اسٹارٹ کیا جائے، کیا مطلب ہے ایسی تقریر کا؟
جناب چیئرمین: نہیں، یہ غلط ہے۔ میں نے کہا ہے۔ آپ بالکل بے فکر رہیں۔
I have taken note of it and I have warned the speaker.
صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری: جناب والا! میں عرض کرتا ہوں…
جناب چیئرمین: لال مسجد کے لئے یہ بڑی اچھی تقریر ہے۔
صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری: جناب والا! یہ تقریر تو سارے ملک میں چلے گی۔
جناب چیئرمین: نہیں جی چلے گی۔ لیکن خدا کے لئے ایک دن تو ہمیں دے دیں۔
صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری: جناب والا! ہماری سیاست کا منبع مسجدیں ہیں۔ (قہقہے) رسول عربی ﷺ کی سیاست مسجد سے تھی۔ حضرت عمرؓ نے اپنی تمام جنگیں مسجدوں میں لڑی ہیں۔ آپ نے مسجد کی بے حرمتی کی ہے۔
جناب چیئرمین: نہیں، نہیں۔
You do not know the context as you have come after 20 days or a month; all the Maulanas in this House can understand very well.
(چونکہ آپ بیس روز یا ایک ماہ کے بعد آئے ہیں اس لئے آپ کو سیاق وسباق کا اندازہ نہیں ہے۔ اس ایوان میں تمام مولانا حضرات اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں) ان سے پوچھ لیں۔
صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری: جناب! آپ کے مذاق کا مجھے پتہ نہیں تھا۔ میں معذرت چاہتا ہوں۔
جناب چیئرمین: نہیں، ہم تو روز کرتے ہیں۔
If you come after a month and make a firex public speech, we cannot be a party. The entire House is not a party to it.
(اگر آپ ایک مہینے کے بعد آئیں اور ایک پرجوش عوامی خطاب فرمائیں تو ہم اس میں شریک نہیں ہو سکتے۔ یہ ایوان اس میں شریک نہیں ہوسکتا)
صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری: اس لئے میں عرض کرتا ہوں میں اس مسئلے پر آرہا ہوں۔ اب جناب والا! میں عرض کروں گا کہ میں سمجھتا ہوں کہ حقیقتاً اس مسئلے کو اسمبلی میں نہیں آنا چاہئے تھا۔ کیونکہ جب ہم کسی چیز کو کہتے ہیں مسئلہ تو مسئلے کا مطلب یہ ہے کہ اس پر دو رائیں ہوں۔ آپ کسی چیز کو عدالت میں لے کر جاتے ہیں جب دو رائیں ہوں۔ 2970آپ کسی چیز کو اسمبلی میں لے کر آتے ہیں جب دو رائیں ہوں۔ یہ تو مسئلہ ہی نہیں ہے۔ یہ تو ایمان ہے۔ یہ ہماری عقیدت ہے۔ جس چیزکو اﷲتعالیٰ نے آج سے ۱۴سوسال پہلے طے کر دیا تھا، جس کو قرآن مجید، فرقان حمید نے اپنی آیات کے ساتھ ۱۴سوسال پہلے ختم کر دیا، ہم اس کو مسئلے کا رنگ رکھا ہی نہیں، اور ہم کس افلاطون کی اولاد ہیں جو آج ۱۴سوسال بعد آج اس زمانے میں بیٹھیں اور فیصلہ کریں کہ آیا رسول عربی ﷺ آخری نبی تھے۔
جناب چیئرمین: یہ بھی فیصلہ اسمبلی کے پاس نہیں ہے۔ یہ بھی نہیں ہے۔
صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری: تو جناب والا…
جناب چیئرمین: یہ بھی نہیں ہے۔
صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری: اس مسئلے کو…
جناب چیئرمین: اس پر اسمبلی کا ایمان آپ سے زیادہ مضبوط ہے۔ (قہقہے) اس پر فیصلہ ہوچکا ہے۔ وہ ریلیونٹ نہیں ہے۔ اس پر کسی کو گنجائش ہی نہیں بات کرنے کی۔ آپ یہاں تک بات کرتے ہیں۔ یہاں تک بھی کسی ممبر کو گنجائش نہیں ہے۔
صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری: جی۔
جناب چیئرمین: بات یہاں یہ ہے کہ ان لوگوں کا اسٹیٹس ڈیٹرمن کیا جائے۔
(چوہدری ممتاز احمد کی طرف سے مداخلت)
جناب چیئرمین: آپ خواہ مخواہ ایسی بات کر دیتے ہیں۔
صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری: میں جناب! اس کا جواب دوں؟
جناب چیئرمین: نہیں، کوئی ضرورت نہیں۔ آپ تقریر میں کیوں ایسی باتیں کرتے ہیں؟
صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری: یا اسے حذف کرادیں یا میرا جواب آنے والا ہے۔
2971جناب چیئرمین: آپ ایسی بات کیوں کرتے ہیں؟
You are provoking the entire House.
(آپ پورے ایوان کو اشتعال دلا رہے ہیں؟)
صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری: یہ جناب! اپنے لیڈر کی بے عزتی کرانا چاہتے ہیں مجھ سے۔ میں دو،چار جملے کہہ دوں گا۔ جناب والا! انگریزوں نے ہندوستان میں دو فرقے انٹروڈیوس کئے۔ کیونکہ انگریزوں کی پالیسی ہندوستان میں ’’تقسیم کرو، راج کرو‘‘ کی تھی۔ ہندوؤں کے اندر انگریزوں نے آریہ سماج کا فرقہ انٹروڈیوس کیا اور مسلمانوں کے اندر قادیانیت کا فرقہ۔ آپ دیکھئے! ان کا کتنا خوبصورت انداز فکر تھا۔ انہوں نے دیکھا کہ ہندو بہت سارے خداؤں پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کے اندر ایک ایسا فرقہ انٹروڈیوس کیاگیا جو کہ وحدت پر یقین رکھتا تھا… آریہ سماج اور مسلمان جن کا یہ ایمان تھا کہ رسول عربی ﷺ آخری نبی ہیں۔ ان کے اندر ایک ایسا فرقہ انٹروڈیوس کیا گیا جو کہتے ہیں کہ نبی آئے گا اور یہ انگریزوں کی چالاکی اور شاطرانہ پالیسی تھی۔ ہندوستان میں ۲کمیونٹیز جو کہ متحد ہوکر جدوجہد کر رہے تھے آزادی کے لئے، انگریزوں کو نکالنے کے لئے، ان کے اندر تفرقہ پیدا کرنے کے لئے ہندوؤں میں آریہ سماج اور مسلمانوں کے اندر قادیانیوں کا فرقہ انٹروڈیوس کیاگیا۔
Mr. Chairman: This has been thoroughly discussed in this House.
(جناب چیئرمین: اس پر ایوان میں تفصیل سے بات ہوچکی ہے)
صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری: مجھے آپ سے شکایت ہے، مجھے آپ سے یہ اعتراض ہے کہ مجھ سے آپ کو یا تو بغض ہے…
جناب چیئرمین: آپ اسٹارٹ ہی غلط لیتے ہیں۔
صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری: بغض معاویہؓ تو نہیں مجھ سے؟
جناب چیئرمین: نہیں، نہیں۔
2972صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری: حب علیؓ بھی رکھا کریں۔
جناب چیئرمین: دیکھئے ناں! یہ پوائنٹ دس دفعہ آیا ہے ہاؤس میں، اور بیشتر ممبران نے…
صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری: نئے پوائنٹ تو کسی نے بھی نہیں کہے۔ محراب ومنبر پر ساری باتیں ہوچکی ہیں۔ نوے برسوں سے یہی باتیں ہورہی ہیں۔ نئی باتیں تو کسی نے بھی نہیں کیں۔ یہ مجھ پر اتنی قدغن لگادی ہے۔ کچھ تو رحم کیجئے۔
جناب چیئرمین: میں ہاؤس سے پوچھ رہا ہوں۔
صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری: آپ نے دوسروں کے بارے میں ہاؤس سے پوچھا نہیں۔
جناب چیئرمین: ہاؤس سے اگر میں پوچھوں تو میں آپ کو ایک بات نہ کرنے دوں۔
صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری: دیکھئے ناں! آپ نے کہا کہ یہ غلط بات ہے، میں نے کہا کہ میں نے اسے چھوڑ دیا ہے۔
جناب چیئرمین: اب ٹائم Proposals (تجاویز) کے متعلق ہے، Suggestions (تجاویز) کے متعلق ہے۔ These Points have been sufficiently dealt with for two months. (ان نکات پر دو ماہ میں اچھی طرح بات ہوچکی ہے)
صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری: میں تجویز پیش کرتا ہوں اگر مجھے بولنے دیں۔
جناب چیئرمین: بولیں، تجویز پیش کریں۔
صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری: میں ایک Thesis (تھیسس) لا رہا ہوں علیحدہ قسم کا۔ میں بحث کر رہا ہوں بالکل تاریخی محرکات پر۔ میں سمجھتا ہوں اس مسئلے کو محراب ومنبر سے چھیڑا ہوا ہے۔ میں افلاطون یا کوئی مفتی نہیںہوں، میں اس مسئلے کا سیاسی رخ دے رہا ہوں۔
2973جناب چیئرمین: Just a minute صرف دو آدمیوں نے اس پر اعتراض کیا ہے کہ اس اسمبلی کو اختیار نہیں ہے۔ ایک مرزاناصر احمد اور ایک آپ کر رہے ہیں۔
Only two persons. No body else has objected. And I can tell with all the authority that this Assembly is not only competent but the only forum to determine the status of Ahmedis. Now the Assembly is getting into it.
(صرف دو آدمیوں نے۔ کسی اور نے یہ اعتراض نہیں کیا اور میں پوری ذمہ داری سے یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ یہ اسمبلی نہ صرف یہ کہ مسئلے کے حل کی اتھارٹی رکھتی ہے بلکہ یہ احمدیوں کی حیثیت کے تعین کا واحد فورم ہے۔ اب یہ معاملہ اسمبلی میں ہے)
صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری: مرزاصاحب کی جان بچ رہی ہے۔ آپ اس کی جان نہ بچائیں۔ میں نے یہ اعتراض کیا ہے۔ جناب والا! میں عرض کر رہا تھا کہ پاکستان بن گیا۔ جناب والا! پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کی بنیاد لسانی قومیت نہیں، جغرافیائی قومیت نہیں اور نہ اس کی بنیاد ثقافتی قومیت ہے۔ اس کی بنیاد لسانی، جغرافیائی یا ثقافتی ہوتی تو پھر پنجاب اور بنگال تقسیم نہ ہوتے۔ لیکن پاکستانی تاریخ میں پنجاب تقسیم ہوا، بنگال تقسیم ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی کچھ اور بنیاد ہے۔ پاکستان کی بنیاد مسلم قومیت ہے۔ جب پاکستان بن رہا تھا اس میں ہمارے لیڈران کرام تمام ہندوستان میں گلی گلی، قریہ قریہ، گاؤں گاؤں گئے اور بتایا کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ! جب ہمارا ملک لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ کے کلمہ سے ہے تو اس ملک کو صرف قرآن وحدیث کے مطابق ہی مضبوط کیا جاسکتا ہے، اس ملک کی عمارت کو مضبوط اور خوبصورت کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ہم نے دیکھا کیا ہے؟ پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے۔ نظریاتی ملک کو جناب! توپوں اور ٹینکوں سے نہیںتوڑا جاسکتا۔ توپوں اور ٹینکوں سے اس کی جغرافیائی حدوں کو توڑ سکتے ہیں۔ آپ کسی ملک کی ملوں کو تباہ کر سکتے ہیں۔ آپ کسی ملک کی آبادی کو تباہ کر سکتے ہیں۔ لیکن اس نظریے کو تباہ نہیں کر سکتے جو ان کے ذہنوں میں بھرا ہوا ہے۔ ہمارے ملک کا نظریہ مسلمانوں کے ذہنوں میں بھرا ہوا ہے۔ اس کی عمارت، اس کی بنیاد ہمارے ذہنوں میں ہے۔ ہمارے ایمان میں ہے، ہماری عقیدت میں ہے اور یہ ملک عاشقان رسول نے بنایا ہے۔ یہ ملک 2974رسول عربی ﷺ کی محبت میں بنایا گیا ہے۔ وہ ملک جو رسول اﷲ ﷺ کی محبت سے بنایا گیا ہو اس کے اندر ایک باطل نظریہ پیدا کیا جائے، کیونکہ جیسا کہ میں نے عرض کیا ایک نظریاتی ملک کو آپ باطل نظریے سے تباہ کر سکتے ہیں۔ کیونکہ باطل نظریہ جب اندر ذہنوں میں جاکر خلل پیدا کرتا ہے،انتشار پیدا کرتا ہے، اس انتشار سے بڑے بڑے حوادث پیدا ہوتے ہیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(قادیانیت باطل نظریہ)
میرے محترم صدر! میں آپ سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس ملک کو آپ نہیں برباد کر سکتے، لیکن انتشار سے برباد کر سکتے ہیں، اور اس انتشار کے لئے ایک باطل نظریہ پیداکیاگیا، اور وہ قادیانیت کا نظریہ تھا اور میرے صدر محترم! بات یہ ہے کہ ہم کو جیسے مکہ معظمہ اور مدینہ شریف سے محبت ہے،مدینہ منورہ سے ہمیں عقیدت ہے، اسی طرح نعوذ باﷲ، نعوذ باﷲ! قادیانیوں کا مکہ معظمہ اور مدینہ تو قادیان ہے، اور قادیان میں زیارت کے لئے اس وقت تک نہیں جاسکتے۔ جب تک پاکستان ہے اور پاکستان کی ہندوستان کے ساتھ جو Confrontation (تصادم) ہے، جو تصادم ہے نظریات کا، حقائق کا، وہ جب تک Resolve (حل) نہیں ہوتا وہ اپنے، نعوذ باﷲ! مکہ یعنی قادیان میں نہیں جاسکتے۔ لہٰذا ان کی تمام تھیوری یہ ہے کہ پاکستان کو ختم کر دیا جائے۔ اگر آپ ان کی کتابوں میں دیکھیں تو وہ اس چیز کی بشارت کرتے ہیں کہ نعوذ باﷲ! ایک زمانہ آئے گا جب پاکستان ختم ہو جائے گا۔ تو پھر ہم قادیان جائیں گے۔ تو جناب عالی! مشرقی پاکستان کو توڑنا بھی اسی سازش کا ایک ہاتھ تھا کہ پاکستان کو Brick by Brick (کی ہر ایک اینٹ کو) توڑا جائے، ایک ایک اینٹ اس کی بنیاد سے نکالی جائے۔ اس کی نظریاتی بنیادوں سے نظریاتی اینٹیں نکالی جائیں اور ا س میں وہ لگے ہوئے ہیں اور اس میں صرف وہی نہیں لگے ہوئے، سپیکر محترم! بلکہ باہر کی دنیا بھی ہے۔ میرے پاس بان گورین کا وہ خطبہ ہے جو اس نے ۱۹۶۷ء میں سوربان یونیورسٹی میں انٹرنیشنل جیوری کو ایڈریس کرتے ہوئے دیا۔ اس نے کہا کہ دنیا میں دو نظریاتی ملک 2975ہیں۔ ایک اسرائیل اور دوسرا پاکستان اور اگر کسی وقت اسرائیل کو خطرہ ہوا، بین الاقوامی دنیا میں اگر کسی ملک نے شدت سے اسرائیل کی مخالفت کی تو وہ پاکستان ہوگا۔ لہٰذا پاکستان کو تباہ کرنے کے لئے ہندوستان کا پلیٹ فارم استعمال کیا اور آپ نے دیکھا مشرقی پاکستان کے ٹوٹنے میں جو جیولیشن انٹرنیشنل پریس نے، ٹائم میگزین، نیوز ویک، ان اخبارات نے جورول پلے کیا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ جس طرح یہ پاکستان کو بدنام کیاگیا، جس طرح پاکستان کی افواج کا ستیاناس کیاگیا، یہ تمام آپ کے سامنے ہے اور آپ کو پتہ ہے کہ مرزائیوں کا سنٹر تل ابیب میں ہے۔ مرزائیوں کا تل ابیب میں سنٹر ہونا، بن گورین کی تقریر ۱۹۶۷ء میں سوربان میں کہ اسرائیل کو سب سے زیادہ خطرہ پاکستان سے ہوسکتا ہے اور پاکستان کو تباہ کرنے کے لئے ہندوستان کے پلیٹ فارم کو استعمال کیا جائے اور اس کے اندر پھر قادیانی جرنیلوں کی مغربی پاکستان کے فرنٹ پر پرفارمنس یہ سب آپ کے سامنے ہے۔
صدر محترم! ایک بہت بڑی سپرپاور جس کی پندرہ ریاستوں میں پانچ مسلمان ریاستیں ہیں، انہوں نے ان پانچ مسلمان ریاستوں کا زور توڑنے کے لئے وہاں کیا تھیوری انٹروڈیوس کی ہے؟ لسانیت قومیت، کلچرل قومیت تاکہ ازبک اور دوسرے آپس میں ملیں نہ، کیونکہ ان کا فوکل پوائنٹ اسلام ہے اور بڑی قوم اور بڑا ملک جانتا ہے کہ اسی ہندوستان سے ہم نے فلسفی پیدا کئے ہیں شاہ ولی اﷲ جیسے۔
Mr. Chairman: I will request you now to finish.
(جناب چیئرمین: میں آپ سے درخواست کروں گا کہ اب بس کریں)
صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری: میں جناب! پانچ منٹ لوں گا زیادہ سے زیادہ۔
جناب چیئرمین: نہیں، پانچ منٹ نہیں لیں گے۔
Sahibzada Ahmad Raza Khan Qasuri: Just five minutes.
(صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری: صرف پانچ منٹ)
2976جناب چیئرمین: نہیں، جناب! ساڑھے بارہ بجے تک۔ آج جمعہ ہے۔ آٹھ ممبر باقی ہیں۔ Do not be cruel to other members. (دوسرے ممبران پر ظلم نہ کریں)
Sahibzada Ahmad Raza Khan Qasuri: I will just take five minutes.
(صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری: میں صرف پانچ منٹ لوں گا) میں ختم کرنے والا ہوں۔ یہ میرا پوائنٹ ادھورا رہ جائے گا۔ میں اس کو ختم کر لوں۔
Mr. Chairman: This has absolutely no bearing on the point at issue.
(جناب چیئرمین: اس کا زیربحث مسئلے سے کوئی تعلق نہیں ہے)
صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری: تو جناب والا! میں عرض کر رہا ہوں کہ ہم نے شاہ ولی اﷲ پیدا کئے ہیں، یہاں سے ہم نے پیدا کئے ہیں محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی، یہاں سے ہم نے مولانا حسرت موہانی پیدا کیا ہے، یہاں سے ہم نے علامہ اقبال پیدا کئے ہیں جن کا فلسفہ یہ ہے کہ ؎
ہر ملک ملک ما است کہ ملک خدائے ما است
ان کا فلسفہ جغرافیائی قومیت کا نہیں، انکا فلسفہ لسانی قومیت کا نہیں، ان کا فلسفہ ثقافتی قومیت کا نہیں، ان کا فلسفہ یہ ہے کہ ہم عاشقان رسول ﷺ ہیں اور جہاں بھی عاشقان رسول ﷺ ہیں وہ ہمارا ملک ہے۔ اب اس بڑی قومیت کو، روس کو یہ ڈر ہے کہ ہمارے اندر یہ جو پانچ ریاستیں ہیں وہ مسلمان ریاستیں ہیں۔ یہ ان پانچ ریاستوں کی تلوار تھی جس نے ان کو آزادی زار سے دلوائی۔ لیکن آج اگر آپ روس میں دیکھیں ان کی جو سیاسی لیڈر شپ ہے، ان کی جو ملٹری لیڈر شپ ہے، ان کی جو سائنس کی لیڈر شپ ہے، ان کی جو انڈسٹری کی لیڈر شپ ہے، وہ ان پانچ ریاستوں کے ہاتھ میں نہیں بلکہ وائٹ رشینز کے پاس ہے۔
جناب والا! خیالات کے اوپر کسٹم بیریر نہیں۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ پاکستان 2977سے جو خیال نکلے گا طور خم کے اندر کسٹم بیریر پر رک جائے گا۔ خیالات کے لئے کوئی کسٹم بیریر نہیںہوتے۔ خیالات کی پرواز ہوتی ہے اور خیالات جنگ سے زیادہ جرنیٹ کرتے ہیں۔ ان کو پتہ ہے کہ ان لوگوں میں ایک فلاسفی ہے، ان لوگوں میں ایک تھیوری ہے، اور اگر ان میں صحیح قسم کی قیادت آگئی، ایسی قیادت جس کے اندر خدا کا خوف ہو اور رسول عربی ﷺ کی محبت سے ان کا دل سرشار ہو تو اس ملک سے ایک ایسی لیڈر شپ پیدا ہوسکتی ہے جو صرف اس ملک میں نہیں بلکہ مڈل ایسٹ Contiguous ایریا جو مسلمان علاقہ ہے، یہاں آئل انٹرنیشنل ڈپلومیسی نے یورپ کے بڑے بڑے رنگین شاندار چمکتے ہوئے شہروں کو اندھیرے میں تبدیل کر دیا، بڑی بڑی گورنمنٹیں گر گئیں۔ وہ لوگ وہاں سے صدر محترم! وہاں سیاستدان نہیں ہیں۔ وہاں مفکر بیٹھے ہیں ان کے فارن آفس میں۔ ان کو پتہ ہے کہ آئندہ سو سال میں کس قسم کے خیالات ابھر سکتے ہیں، کس قسم کے حالات پیدا ہو سکتے ہیں، کیونکہ جغرافیہ مستقل نہیں ہوتا۔ میں تاریخ کا طالب علم ہوں۔ میں نے بڑے بڑے ملکوں کا جغرافیہ بدلتے ہوئے دیکھا ہے۔ انکو پتہ ہے کہ یہاں سے اگر صحیح قسم کی قیادت اٹھ پڑی۔ ایسی قیادت جس کے اندر خدا کا خوف ہو، جس کے اندر رسول عربی ﷺ کی محبت ہو، تو یہ ملک ایک بہت بڑا ملک بن سکتا ہے، یہ ملک مڈل ایسٹ کی بھی قیادت لے سکتا ہے، لہٰذا ان تمام باتوں کا سدباب کرنے کے لئے…
Mr. Chairman: Thank you very much. Yes, Ch. Barkatullah, ten minutes.
(جناب چیئرمین: آپ کا بہت شکریہ! جی، چوہدری برکت اﷲ ۱۰منٹ)
صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری: انہوں نے آپ کے اندر انتشار پیدا کیا ہے۔ ثقافتی قومیت کا، لسانی قومیت کا…
جناب چیئرمین: چوہدری برکت اﷲ!
2978صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری: آخر میں ایک تجویز پیش کروں گا، جناب والا! اور میں آپ سے رخصت لوں گا۔
جناب چیئرمین: رخصت آپ بے شک نہ لیں۔
صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری: جناب! ہم اپنی پی۔پی۔سی میں ایک تجویز پیدا کریں، پاکستان پینل کوڈ میں۔
Mr. Chairman: Section 295-A.
(جناب چیئرمین: دفعہ ۲۹۵۔اے)
Sahibzada Ahmad Raza Khan Qasuri: Section 295-B: "Whoever professes to be a Muslim...."
(صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری: دفعہ ۲۹۵۔بی: ’’جو شخص مسلمان ہونے کا اظہار کرتا ہے…‘‘)
Mr. Chairman: ...Shall be guilty of high treason.
(جناب چیئرمین: …ملک سے بغاوت کا مرتکب ہوگا)
Sahibzada Ahmad Raza Khan Qasuri: .... and express by word of mouth derogating from the finality of the Prophethood of Muhammad (Peace be upon him)....
(صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری: … اور اپنے منہ سے ایسی بات کرتا ہے جو ختم نبوتؐ کے منافی ہے…)
Mr. Chairman: I know the source.
(جناب چیئرمین: میں اس کے مصدر سے واقف ہوں)
Sahibzada Ahmad Raza Khan Qasuri: ... as expressed in the Holy Quran and Sunnah, shall be punished with death.
Explanation: For the purpose of Section 295-B, finality of the Prophethood of Muhammad (peace be upon him) as expressed in the Holy Quran and Sunnah means that the door of the Prophethood has been closed after the Holy Prophet Mohammad (peace be upon him) and there will be no Prophet, Nabi, Rasul, Zilli or Ummati after the Prophet.
(صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری: … جیسا کہ قران مجید اور سنت میں صراحت ہے، کو سزائے موت دی جائے گی۔
وضاحت: دفعہ۲۹۵۔بی کے مقاصد کے لئے حضرت محمد ﷺ کی ختم نبوت جیسا کہ قرآن وسنت میں وضاحت کی گئی ہے، سے مراد کہ حضرت محمد ﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہوچکا ہے اور آپ ﷺ کے بعد کوئی پیغمبر، نبی، رسول، ظلی یا امتی نہیں آئے گا)
جناب چیئرمین: آپ ڈور کی فکر کر رہے ہیں، وہ کہہ رہے ہیں کہ کھڑکی کھلی ہے۔ چوہدری برکت اﷲ!
2979چوہدری برکت اﷲ: جناب چیئرمین! اس مسئلہ پر کافی کچھ کہا جاچکا ہے۔ میں صرف دو تین منٹ جناب کے لوں گا اور اس سے زیادہ میں کچھ اور نہیں کہنا چاہتا۔
Mr. Chairman: I will request the honourable members to be very brief because about eight members are left and the two Sahibzadas have taken 40 minutes.
(جناب چیئرمین: میں معزز اراکین سے درخواست کروں گا کہ مختصر بات کریں۔ کیونکہ ابھی آٹھ ارکان باقی ہیں اور دو صاحبزادوں نے چالیس منٹ لے لئے ہیں)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جناب چوہدری برکت اﷲکا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)
چوہدری برکت اﷲ: جناب والا! یہ بات جو اس ہاؤس میں پیش ہوئی ہے، ایک چیز تو بالکل ثابت ہوچکی ہے کہ یہ جو مرزائی یہاں آئے، جو قادیانی تھے، چاہے وہ لاہوری پارٹی تھی چاہے وہ دوسرے تھے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(قادیانیوں کے اپنے مؤقف سے ثابت ہوکہ وہ علیحدہ ہیں)
تو انہوں نے خود ہی ایسا مؤقف اختیار کیا کہ انہوں نے اپنے آپ کو سواد اعظم سے ایک دوسرا جو فرقہ ہے وہ انہوں نے قرار دیا۔ تو یہ کوئی لمبی چوڑی بحث نہیں۔ تو انشاء اﷲ تعالیٰ! دوسرے جو ممبر صاحبان ہیں ان کے بھی خیالات یہی ہیں، اور لازمی طور پر جو کچھ فیصلہ ہوگا وہ سواد اعظم کی خواہشات کے مطابق ہوگا، اور انشاء اﷲ وہ آج کل سارا ظاہر ہونے والا ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(قادیانیت انگریز کا خود کاشتہ پودا)

دوسری بات جو جناب! میں عرض کرنا چاہتا ہوں، یہ دوسری چیز بھی ثابت ہوچکی ہے کہ یہ جو قادیانی ہیں، ان کا فرقہ جیسے بنا، جن حالات میں بنا، تو یہ صاف ظاہر ہے کہ یہ بھی انگریزوں کا ایک خود کاشتہ پودا ہے۔ ان لوگوں کومذہب سے، اسلام سے کوئی پیار کوئی محبت نہیں، اور یہ یقینی طور پر انگریزوں کے ایجنٹ ہیں۔ ساری دنیا میں ان کا کام یہ ہے کہ جہاں بھی اسلام کو نقصان پہنچایا جاسکے، یہ کوئی اس میں اپنی کمی نہیں کریں گے۔
اب جناب والا! سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ اسپیشل کمیٹی جو ہے، ہماری اسمبلی ان کو اقلیت قرار دے دیتی ہے، غیرمسلم قرار دے دیتی ہے، تو اس وقت ہمیں یہ سوچنا پڑے گا کہ ان کا ردعمل کیا ہوگا۔ یہ ایک پاگل آدمی کی طرح ہم سے خاص کر پاکستانیوں سے، مسلمانوں سے انتقام لینے کی سوچیں گے اور جیسا کہ میرے دوسرے دوستوں نے کہا ہے اور یہ حقیقت ہے یہ جو قادیانی ہیں مرزائی، ان کی تعیناتی ہر محکمہ اور 2980ہر شعبے میں تقریباً کلیدی اسامیوں پر ہے اور خاص کر فوج میں۔ تو ہماری حکومت کے لئے اور ہم سب مسلمانوں کے لئے یہ نہایت ضروری ہوگا کہ ان لوگوں کو ان کلیدی اسامیوں سے، خاص کر ڈیفنس سے، فنانس سے اور فارن آفس سے ان لوگوں کو نکالا جائے۔ اگر ہم صرف ان کو اقلیت قرار دے دیتے ہیں تو ہم پر یہ ذمہ داری آجاتی ہے کہ ان کے حقوق کا ہم تحفظ کریں، ان کی جان ومال، یہ سارا کچھ کریں۔ لیکن جب تک ان لوگوں کو کلیدی اسامیوں سے علیحدہ نہیں کیا جاتا، یہ پاکستان کو خدانخواستہ بہت زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں اور اس میں سب سے بڑا خدشہ ایک یہ ہے کہ جس وقت یہ تحریک شروع ہوئی، ہر شہر میں ، ہر گاؤں میں، ہر محلے میں لوگوں کو پتہ ہوتا ہے کہ ہمارے محلے میں کون مرزائی ہے۔ گاؤں والوںکو پتہ ہوتا ہے کہ ہمارے گاؤں میں کون مرزائی ہے، لاہوری ہے یا قادیان کا ہے۔ لیکن جس وقت یہ تحریک شروع ہوئی، وہ مرزائی جو کہ بڑے مستند مرزائی تھے، دنیا ساری ان کو جانتی تھی، انہوں نے جھوٹ بول دیا کہ ہم تو مرزائی نہیں ہیں۔ یہاں اسمبلی میں بھی ہوا کہ ہمارا کوئی بڑا فسر تھا، یہاں ہمارے ایک معزز ممبر نے پوائنٹ آؤٹ کیا کہ وہ مرزائی ہے، تو ان کی طرف سے ان کے وزیر صاحب نے بھی صفائی دے دی کہ وہ مرزائی نہیں ہے۔
میں ایک واقعہ عرض کرتا ہوں۔ اس نے الیکشن میں ایک ایم۔این۔اے کو جس کو ہماری پارٹی کا ٹکٹ ملا ہوا تھا، وہ الیکشن لڑ رہا تھا۔ تو لوگوں نے کہا یہ تو مرزائی ہے۔ ہم اس کو ووٹ نہیں دیں گے۔ اس نے قرآن اٹھایا کہ میں مرزائی نہیں ہوں، میں بالکل مرزائی نہیں ہوں۔ بہرحال وہ الیکشن جیت گیا۔ اس کے بعد مرزاناصر کے پاس اس کی بات ہوئی تو اس نے کہا یا حضرت! اس طرح میں نے جھوٹا قرآن اٹھا لیا تھا۔ اس نے کہا جان بچانے کے لئے اور مقصد حاصل کرنے کے لئے جائز ہے۔ دوبارہ بیعت کر لو۔ تو ان حالات میں وہ سب قادیانی مرزائی مکر رہے ہیں، انکار کر رہے ہیں، اور جب آپ 2981ان کو غیرمسلم قرار دیں گے تو وہ کبھی آپ سے ہمدردی کی نہیں سوچیں گے۔ آپ کے وہ بدترین دشمن ہوں گے اور وہ مسلمان بن کے اور انکار کر کے کہ ہم مرزائی نہیں ہیں، آپ کی صفوں میں گھسیں گے، فوج میں، ڈیفنس میں، فارن افیئرز میں اور ہر قسم کی سازش کریں گے تاکہ یہ ختم ہو جائے تو اس طرح سے…
متعدد اراکین: نام بتائیں، نام بتائیں۔
چوہدری برکت اﷲ: چھوڑیں جی نام کو۔ تو جناب! میری گزارش یہ ہے کہ ان لوگوں کو سب کو پتہ ہے، گورنمنٹ کو بھی پتہ ہے، لوگوں کو پتہ ہے کہ کون کون مرزائی ہیں۔ انہیں کلیدی اسامیوں پر سے فوراً نکالا جائے، ورنہ ان کو اقلیت قرار دینے سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوگا۔ نمبر(۲)جناب! جیسا کہ آئین میں ہے…
ایک رکن: انہوں نے جو ممبر کی بات کی ہے وہ تو ضرور بتانا چاہئے، پھر تو یہ شبہ کی بات ہو جائے گی۔
میاں محمد عطاء اﷲ: یہ تو ہمارے استحقاق کی بات ہے، ایسے تو سب مشکوک ہو گئے ہیں۔ برکت اﷲ صاحب ان کا نام بتائیں۔
چوہدری برکت اﷲ: اس ہال میں سے کوئی بھی نہیں ہے۔ میرے خیال میں جتنے معزز ممبر صاحبان یہاں موجود ہیں ان میں سے کوئی نہیں ہے۔
ایک رکن: پھر جناب! اس کا نام بتادیجئے۔
چوہدری جہانگیر علی: یا تو ان کو واضح کرنا چاہئے یا یہ فقرے ایکسچینج کر دینے چاہئیں۔
Mr. Chairman: I will request the honourable members to refrain from this personal matter.
(جناب چیئرمین: میں معزز ممبران سے درخواست کروں گا کہ وہ اس ذاتی مسئلے سے اجتناب کریں)
چوہدری برکت اﷲ: دوسری بات جیسا کہ آئین میں ہے کہ جب ہم ان کو غیرمسلم اقلیت قرار دے دیں گے تو ان کو آزادی ہوگی اپنے مذہب کو پھیلانے کی۔ لیکن جناب! 2982میں یہ گزارش کروں گا کہ پاکستان جو اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے وہ نظریاتی ریاست ہے، اسلام کے نام پر لی گئی ہے۔ اس ملک میں عیسائی، سکھ، ہندو، بدھ ہیں۔ وہ اپنے مذہب کی تبلیغ کر سکتے ہیں۔ لیکن ایک ایسا فرقہ جو اپنے آپ کو مسلمان کہے اور پھر اسلام کے وہ متوازی تبلیغ کرے، اس پر یہ صادر نہیں ہوتا اور اس کی بھی ان کو ممانعت ہونی چاہئے کہ اس ملک میں اقلیت قرار دے جانے کے بعد یہ اس ملک میں مذہب کی بالکل تبلیغ نہ کر سکیں۔ تب جناب! اس سے کچھ حاصل ہوگا، ورنہ کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزاغلام احمد باالکل جھوٹا تھا)
اس کے ساتھ ساتھ باقی میرے بھائیوں نے سارا کچھ کہا ہے کہ ربوہ (اب چناب نگر) میں انہوں نے جو ریاست درریاست بنائی ہوئی ہے، میرے بھائی صفی اﷲ صاحب نے کہا تھا، بڑا ٹھیک انہوں نے کہا ہے واقعی وہ ریاست درریاست ہے۔ اس کو کھلا شہر قرار دیا جائے، ربوہ کو۔ جب وہ کھلا شہر قرار دیا گیا تو باقی جو ان کی تنظیمیں ہیں الفرقان وغیرہ، وہ بھی خود بخود ختم ہو جائیں گی۔
میں جناب! یہ تجویز پیش کرتا ہوں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ مرزاغلام احمد بالکل جھوٹا تھا۔ اس نے انگریز کی وجہ سے جھوٹ بولا تھا اسلام کو، جہاد کو ختم کرنے کے لئے۔ اب یہ کہا جائے، کئی میرے دوستوں نے کہا کہ وہ جی لاہوری ذرا اچھے ہیں، وہ اسے نبی نہیں مانتے۔ جب وہ خود ہی جھوٹا ہے تو ان کا جو پودا ہے، جو پیڑ ہے، اس کی شاخوں پر کس طرح جائیں۔ میری گزارش یہ ہے کہ دونوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ اگر لاہوری کو رہنے دیا گیا تو پھر یہ نیا شوشہ ہوگا، پھر وہ ادھر آجائیں گے۔ کوئی مقصد حاصل نہیں ہوگا۔ شکریہ، جناب والا!
جناب چیئرمین: جناب محمد خان چوہدری!
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جناب محمد خان چوہدری کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پرخطاب)

جناب محمد خان چوہدری: جناب چیئرمین! میرے معزز دوستوں نے بہت کچھ قادیانی مسئلے پر کہہ دیا ہے۔ میں زیادہ اور کچھ نہیں کہوں گا۔ لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ اب 2983ان کو عوام کی خواہشات کے مطابق فوری طور پر غیرمسلم اقلیت قرار دے دیا جائے۔
جناب چیئرمین: احمد رضا خان قصوری کو کیا قرار دیا جائے؟
جناب محمد خان چوہدری: ان کو بھی خدا ہدایت دے۔ (قہقہے) میں تو صرف دعا کر سکتا ہوں کہ خدا ان کو بھی ہدایت دے۔ باقی رہا قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کے بعد اگر ان کو ان اسامیوں پر رکھا جائے جو کہ کلیدی اسامیاں ہیں تو اور گڑ بڑ بڑھے گی۔ کیونکہ اسلام کو ان لوگوں نے بہت زک پہنچائی ہے اور جتنا نقصان اسلام کو انہوں نے پہنچایا ہے آج تک کسی نے نہیں پہنچایا اور میں یہ بھی کہوں گا کہ اگر ان کو غیرمسلم اقلیت قرار نہ دیا گیا تو ہم لوگ جو اس ہال میں موجود ہیں تو ہم بھی اسلام کو نقصان پہنچانے میں برابر کے حصہ دار ہوں گے۔ لہٰذا اب میں معزز ہاؤس کا زیادہ وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا اور یہ کہوں گا… (قہقہے) لیکن اتنی میں گزارش ضرور کروں گا کہ ان کو آئین میں جو کہ ہمارے کئی حضرات کہتے ہیں کہ مرزاغلام احمد کا نام لینا ٹھیک نہیں ہوگا، یہ کوئی عجب بات نہیں ہے۔ کیونکہ قرآن کریم میں شیطان کا نام بھی آیا ہے۔ اگر ان کا نام آئین میں دے دیا جائے اور ان کو اقلیت قرار دے دیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔
Mr. Chairman: Thank you very much.
(جناب چیئرمین: آپ کا بہت شکریہ!)
جناب محمد خان چوہدری: لہٰذا میری تجویز یہ ہے کہ ان کو فوری طور پر عوام (مسلمانوں) کی خواہشات کے مطابق اقلیت قرار دے دیا جائے۔
جناب چیئرمین: اسمبلی کے اختیار سماعت کو جو چیلنج کیا گیا ہے اس کے متعلق کیا خیال ہے؟
جناب محمد خان چوہدری: وہ تو کئی معزز ممبران نے پہلے ہی کہہ دیا ہے۔ میں تو ایک سچا مسلمان ہونے کی حیثیت سے یہ کہوں گا کہ رسول عربی ﷺ کو چودہ سو سال پہلے قرآن کریم نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ آپ خاتم النّبیین ہیں۔ قرآن کریم کے کہنے 2984کے مطابق ان کے بعدکوئی بھی نیا نبی یا کسی قسم کی بھی نبوت کاکوئی بھی دعویٰ کرتا ہے تو اس کو ہم نہیں مانیں گے اور انشاء اﷲ! مجھے امید ہے کہ قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دینے والا اسمبلی کا فیصلہ وقت آنے پر بتائے گا کہ یہ اس اسمبلی کا ایک ناطق فیصلہ تھا۔ میں اسی پر اکتفاء کرتاہوں۔ آمین!
جناب چیئرمین: ملک نعمت اﷲ خان شنواری!
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جناب ملک نعمت خان شنواری کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)

جناب نعمت اﷲ خان شنواری: جناب چیئرمین صاحب! موضوع زیربحث پر میرے بہت سے محترم دوستوں نے مجھ سے پہلے تقاریر کی ہیں۔ میں نے بہت سے دوستوں کی پوری تقاریر نہیں سنیں، اس لئے جو کچھ اب میں کہہ رہا ہوں ہوسکتا ہے کہ وہ بھی پہلے میرے دوست کہہ چکے ہوں۔ بہرحال قبائلی اراکین اسمبلی ستر لاکھ قبائلیوں کی طرف سے آپ کی وساطت سے میں بتانا چاہتا ہوں…
جناب چیئرمین: ستر لاکھ والے آج نہیں ہیں۔
جناب نعمت اﷲ خان شنواری: وہ آئے ہیں، ابھی چلے گئے ہیں۔ کیونکہ ان کو مایوسی ہوئی ہے کہ آپ ان کو موقع نہیں دے رہے۔ وہ واک آؤٹ کر گئے ہیں۔ بہرحال میں اور قومی اسمبلی کے قبائلی اراکین سترلاکھ قبائلیوں کی طرف سے آپ کی وساطت سے اس ایوان کے معزز ممبران کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ اس مسئلہ سے پورے پاکستان اور دنیا کے اسی کروڑ مسلمانوں کو جتنی تشویش ہے اتنی ہی قبائلی عوام کو اس مسئلہ سے تشویش ہے۔ بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ ہمیں اس مسئلہ سے ان سے زیادہ تشویش ہے تو بے جا نہ ہوگا۔
جناب چیئرمین صاحب! قادیانیوں کا مسئلہ پورے عالم اسلام کے لئے اور حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ کی ختم نبوت پر ایمان رکھنے والے تمام مسلمانوں کے لئے اس وقت ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے اور تمام دنیا کی آنکھیں اس وقت پاکستان کی قومی اسمبلی پر لگی ہوئی ہیں۔ جوں جوں بحث کے ختم ہونے کا وقت 2985قریب آرہا ہے اور میرا خیال ہے کہ آج بحث کا آخری دن ہے۔ توں توں لوگوں کی تشویش بڑھ رہی ہے۔ وہ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ اس سرزمین کے عوامی نمائندے، جس سرزمین پر ایک شخص نے جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا، اسی سرزمین پر رہنے والے غیور مسلمانوں کی عوامی نمائندہ اسمبلی اس مسئلہ کے لئے کیا حل نکالتی ہے اور کیا فیصلہ کرتی ہے۔
جناب چیئرمین صاحب! یہ مسئلہ اگرچہ نوے(۹۰) سال پرانا ہے۔ لیکن اس کی قدامت ہماری شرمندگی میں مزید اضافہ کر دے گی۔ اگر آج بھی ہم نے یہ موقع ضائع کر دیا جو کہ اﷲتعالیٰ نے ہمیں دیا ہے اور اگر آج ہم اپنی شرمندگی اور کلنک کا یہ ٹیکہ دھونے میں کامیاب ہو گئے اور پیشانی سے کلنک کا ٹیکہ دھو سکے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس خود مختار ادارے اور اس قومی حکومت کا یہ کارنامہ ان تمام کارناموں سے سرفہرست ہوگا۔ جو اس سے پہلے یہ قومی اسمبلی اور یہ حکومت کر چکی ہے۔
جناب چیئرمین صاحب! اگر آج بھی ہم نے یہ موقع کھودیا اور ہم اس مسئلہ کے متعلق کوئی واضح فیصلہ نہ کر سکے تو نہ صرف آنے والی نسلیں ہم پر ملامت کریں گی اور ہم ان کے قہر وعذاب سے محفوظ رہ سکیں گے۔ بلکہ ہم ایک بہت بڑے گناہ کے مرتکب بھی ہوں گے اور اگر ہم نے یہ فیصلہ نہ کیا تو آئندہ ایک سال میں اتنے لوگ قادیانی ہو جائیں گے جتنے ہمارے مسلمان سادہ لوح عوام پچھلے نوے(۹۰) برس میں نہیں ہوئے ہیں۔ کیونکہ وہ سمجھ جائیں گے کہ شاید قادیانی حق پر تھے اور قومی اسمبلی میں انہوں نے اپنا مؤقف جو بیان کیا وہ صداقت پر تھا، وہ صحیح مسلمان ہیں تو اس لحاظ سے پچھلے نوے (۹۰) سال میں اتنے مسلمان قادیانی نہیں ہوئے ہوں گے جتنے ایک برس میں ہو جائیں گے۔ اس لئے میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہماری اسمبلی کو اس مسئلہ پر بالکل واضح طور پر دوٹوک فیصلہ کرنا چاہئے۔
2986جناب والا! قبائلی عوام کی تین خصوصی روایات ہیں جنہیں تمام دنیا اچھی طرح جانتی ہے۔
۱… اسلام سے بے پناہ محبت، اسلام پر مر مٹنے کے لئے ہر وقت تیار رہنا۔
۲… انگریزوں سے کلی نفرت۔ قبائلی عوام نے ایک لمحے کے لئے بھی انگریزوں کی اطاعت قبول نہیں کی، جب کہ مرزاغلام احمد نے ہمیں باربار اپنی تحریروں میں انگریزوں کی اطاعت قبول کرنے کی تلقین کی ہے۔
۳… قبائلی جہاد سے والہانہ محبت کرتے ہیں۔ قبائلیوں نے ہمیشہ ہر دور میں اسلام کے لئے جہاد کیا ہے۔ سید احمد بریلوی، شاہ اسماعیل سکھوں کے خلاف جہاد اور قبائلیوں کی اکثریت ثابت ہوچکی ہے۔ ان کی مزاروں کے آس پاس کئی قبائلیوں کی قبریں ہیں جن پر ان کے کتبے لگے ہوئے ہیں۔
سو جناب چیئرمین صاحب! قبائلی جب مرزاغلام احمد کی تحریروں میں انگریز دوستی اور جہاد دشمنی کی تحریریں پڑھتے ہیں تو ان کا یہ مطالبہ بجا ہے کہ انہیں قادیانیوں کے خلاف جہاد کرنے کی اجازت دی جائے۔ قبائلیوں نے اس سے پہلے بھی ۱۹۵۳ء کے دوران یہ اعلان کیا تھا کہ ہمیں اجازت دی جائے کہ ہم ان کافروں کے خلاف جہاد کریں اور اب بھی ہمارے عوام کایہ مطالبہ ہے کہ قبائلیوں کو قادیانیوں کے خلاف جہاد کرنے کی اجازت دیجائے۔ کیونکہ انہوں نے اسلام اور قبائلیوں کی قومی خصوصیات کی توہین کی ہے۔
جناب والا! ویسے تو مرزاناصر احمد نے جرح کے دوران کلام پاک کی کئی آیات کا ترجمہ غلط پڑھا اور ہمیں سننا پڑا۔ بہرحال، لیکن میں دو باتوں کی طرف آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ کلام پاک میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق واضح طور پر اﷲتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں نے انہیں ہلاک نہیں کیا اور انہیں اپنے پاس بلالیا ہے۔ وہ پھر دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے۔ جس وقت دنیا میں دجال پیدا ہوگا۔ حالانکہ قادیانی حضرات ہمیں بتا رہے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں اور وہ کشمیر میں 2987دفن ہیں۔ یعنی دنیا بھر کے عیسائیوں کو معلوم نہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر کہاں ہے؟ لیکن مرزاغلام احمد اور مرزاناصر احمد کو معلوم ہے کہ وہ کشمیر میں دفن ہیں، فلاں جگہ پر دفن ہیں۔
دوسری واضح بات جو مرزاناصر احمد نے جرح کے جواب میں کی وہ ان کو کافر کرنے کے لئے کافی ہے۔ میں سمجھتا ہوں وہ شاید بحث کے آخری دن ہیں۔ میرے خیال میں مولانا ظفر احمد انصاری صاحب کے سوالات پر اٹارنی جنرل کے ضمنی سوال میں انہوں نے ثابت کر دیا کہ وہ بالکل کافر ہیں جب کہ مولانا صاحب نے قرآن پاک کی چند آیات پڑھ کر سنائیں اور بتایا کہ مرزاغلام احمد کہتا ہے کہ یہ آیات مجھ پر نازل ہوئی ہیں۔ میرے خیال میں جس طرح وہ باربار نبی کی دو تین تشریحی کر لیتے تھے اور ایک آیت کے قسم قسم کے ترجمے کرلیتے تھے، میرا خیال تھا کہ اس وقت بھی وہ اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کریں گے اور یہ کہہ دیں گے کہ انہوں نے اس طریقے سے نہیں کہا اور اس طریقے سے کہا۔ لیکن مرزاناصر احمد نے بالکل صاف طور پر کہہ دیا کہ ہاں، یہ آیتیں مرزاغلام احمد پر نازل ہوئی تھیں اور اس قسم کی دوسری آیات بھی اس پر نازل ہوئی ہیں۔
 
Top