• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قومی اسمبلی میں ہونے والی اکیس دن کی مکمل کاروائی

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(لاہوری وقادیانی دونوں گروہ خود کافر ثابت ہوگئے)

ہمیں اسمبلی سیکرٹریٹ سے جو کاغذات ملے ہیں ان میں صفحہ ۱۱۰تا۱۱۷ پر جو سوالات اور جوابات درج ہیں اگر آپ ان کو غور سے پڑھیں تو صاف ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ خود بھی یہ چاہتے ہیں کہ انہیں اقلیت قرار دیا جائے۔ جب ان کی یہ مرضی ہے تو کیوںنہ ہم ان کو اقلیت قرار دیں۔
اس کے علاوہ لاہوری پارٹی کے لئے اب میرا خیال ہے کچھ عرض کرنا بے کار ہے۔ ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ وہ بالکل اسی طرح مرزاغلام احمد کو مانتے ہیں۔ جس طرح دوسرے قادیانی لوگ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ان کے لیڈر محمد علی کو جب ۱۹۱۴ء میں خلیفہ نہ بنایا گیا تو انہوں نے اپنی ایک علیحدہ جماعت بنالی، بالکل اسی طرح جس طرح 2988سیاسی لیڈر کو کسی پارٹی کی صدارت نہیں ملتی اور وہ اپنی علیحدہ سیاسی پارٹی بنالیتا ہے۔ فرق اس میں بالکل نہیں ہے۔ وہ بھی مرزاغلام احمد کو مانتے ہیں۔ اگر ہم کسی شخض کو مسلمان ہی نہیں مانتے تو ظاہر ہے کہ جو شخص جھوٹی نبوت کا دعویٰ کرے وہ مسلمان تو نہیں ہوسکتا۔ تو پھر ہم اسے مجدد، بزرگ، ولی یا دوسرا درجہ کہاں سے دے سکتے ہیں۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ لاہوری پارٹی اور ربوہ قادیانی پارٹی میں کوئی خاص فرق نہیں؟ یہ سب اس شخص کے امتی ہیں جس کے متعلق حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ میری امت میں تیس کذاب پیدا ہوں گے۔ مرزاغلام احمد ان تیس کذابوں میں سے ایک ہے، اور کذاب کے امتی مسلمان نہیں ہوسکتے۔
اس طرح کی بہت سی چیزیں اس میں کچھ چیزیں میں چھوڑ دیتا ہوں۔ کیونکہ وقت کم ہے۔ میں کچھ تجاویز پیش کرتا ہوں۔ قادیانی مع لاہوری پارٹی کو غیرمسلم قرار دیا جائے۔ آئین میں واضح تشریح کی جائے اور ان کی جائیداد اوقاف کی تحویل میں دی جائے۔ ربوہ شہر کو کھلا شہر قرار دیا جائے۔ ربوہ شہر کے آس پاس کی آبادی میں دس ہزار قبائلیوں کو آباد کیاجائے۔ ہمیں وہاں پر زمین دی جائے۔ ہم یہ مفت نہیں مانگتے اور نہ ہی ہم اس قیمت پر خریدنے کے لئے تیار ہیں۔ جیسے سرظفر اﷲ خان اور ایم۔ایم۔احمد کی وجہ سے پانچ روپے فی ایکڑ کے حساب سے دی گئی ہے۔ ہمیں آپ مناسب قیمت پر وہ زمین دیں۔
جناب چیئرمین: اس کے ساتھ پہلی تجویز کہ جہاد کی اجازت دی جائے بھی مان لی جائے۔
جناب نعمت اﷲ خان شنواری: غیرمسلم قراردیں تو جہاد کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم وہاں پر رہنا چاہتے ہیں تاکہ آئندہ قادیانی کوئی شرارت نہ کر سکیں۔ اس لئے ربوہ شہر کو کھلا شہر قرار دیا جائے۔
جناب چیئرمین: مہر غلام حیدر بھروانہ!
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جناب مہر غلام حیدر بھروانہ کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)
2989مہر غلام حیدر بھروانہ: جناب والا! اس مسئلے پر بہت کافی دنوں سے بحث ہو رہی ہے اور شہادتیں بھی ہوئی ہیں۔ حالانکہ اس پر اتنی ضرورت نہیں تھی۔ ہر وہ مسئلہ جو قرآن شریف اور حدیث شریف میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے۔ اس پر مزید سوچنے کے لئے ایک مسلمان کو ضرورت نہیںہے۔ قرآن شریف اور حدیث شریف میں واضح طور پر حضور نبی کریم ﷺ آخری نبی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا۔ یہاں ان کی کتابوں سے صاف واضح ہے۔ مرزاغلام احمد کی کئی کتابوں میں لکھا ہے کہ وہ اپنے آپ کو نبی کہتا ہے۔ ہر وہ آدمی خواہ غلام احمد ہو یا کوئی اور جو ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے وہ کافر اور مرتد ہے۔ اس کے متعلق مزید سوچنے کی بھی ضرورت نہیں ہے؟ اس کے پیروکار اور ماننے والے بھی کافر ہیں، مرتد ہیں۔ لہٰذا اس پر مزید سوچنے کے علاوہ ہم ۳۷آدمیوں نے قرارداد پیش کی ہیں۔ میں اس ایوان سے پرزور التماس کرتا ہوں کہ وہ اسے متفقہ طور پر منظور کر لیں۔
جناب چیئرمین: مولوی نعمت اﷲ!
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جناب مولانا نعمت اﷲ کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پرخطاب)
مولوی نعمت اﷲ: جناب سپیکر صاحب! پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اور اسلامی نظریے کے ذریعے اس کی ایجاد ہوئی تھی۔ پاکستان کے تمام فرقے اس بات سے متفق ہیں کہ قیام پاکستان کا مطلب کیا۔ لا الہ الا اﷲ! آپ کے سامنے اور اس ایوان میں اس طرف بیٹھے ہوئے بھی اور اس طرف بیٹھے ہوئے بھی علماء پر اعتراضات ہوئے کہ یہ آپس میں مختلف ہیں، اسلام کے معنی صحیح طریقے سے پیش نہیں کرتے۔ خدا کے بندو! کیا کر رہے ہو۔ مسلمان متفق ہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے۔ جن حضرات نے پاکستان بنایا ان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ علیحدگی پسند ہیں، ان پر مقدمے چلائے جائیں۔ ان کے متعلق کوئی شخص کئے کہ کیا وہ علیحدگی پسند تھے تو لوگ جوش میں آجاتے ہیں۔
2990میں یہ پوچھتا ہوں اور معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ جن حضرات نے اسلام کے نام پر پاکستان بنایا انہوں نے پاکستان کے کیا یہ معنی لئے تھے یا نہیں۔ اسلام کے کیامعنی ہیں۔ اسلام کی تفسیر وہ کیا کر رہے ہیں۔ وہ تو سرکردہ لوگ تھے، وہ تو ایم۔اے اور قانون دان تھے۔ ان سرکردہ لوگوں نے اس کا کیا مطلب کیا تھا۔ بات یہ ہے کہ علماء عاجز ہیں، اس لئے ہر شخص اس پر اعتراض کرتا ہے۔ غلام رسول تارڑ صاحب نے کہا ہے کہ علماء تو پہلے سے کہہ رہے ہیں کہ یہ چور ہیں، ڈاکو ہیں، یہ مرتد ہیں، پاکستان کو خراب کرنے والے یہی ہیں، پاکستان کو تباہ کرنے والے یہی ہیں۔ لیکن یہ علماء کی بات نہیں سنتے تھے۔ اس ایوان میں صرف حاجی صاحب نے یہ بات کہی ہے اور حق کی بات کہی۔ اﷲتعالیٰ انہیں جزا دے۔ انہوں نے کہا ہے کہ علماء تو پہلے سے خلاف تھے اور کہتے تھے کہ یہ ڈاکو ہیں، یہ چور ہیں، یہ مرتد ہیں، یہ پاکستان کو تباہ کرنے والے ہیں۔ مشرقی پاکستان کو حقیقت میں انہوں نے تباہ کیا ہے۔ ان کی وجہ سے جنگ میں مغربی پاکستان کا پانچ ہزار مربع میل حصہ لیاگیا تھا۔ ہم تمام دنیا میں بدنام ہوگئے اور یہ کہا گیا کہ پاکستان نے شکست کھائی۔ ہم قادیانیوں کی وجہ سے بدنام کئے گئے۔ اگر ہم قادیانی افسروں کو نہیں ہٹائیں گے، جرنیلوں کو نہیں ہٹائیں گے، قادیانی بڑے جاسوس ہیں، تو میں بڑے وثوق سے کہتا ہوں، اگر آپ چاہیں تو میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ہندو پاکستان کو کبھی شکست نہیں دے سکتا تھا۔ اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو ہم بدنام نہ ہوتے۔ ہم افغان لوگ بدنام ہوگئے ہیں۔ مسلمان کو ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔ ڈرنے کی کیا بات ہے۔ یہاں بعض لوگ کہہ رہے ہیں کہ اگر ہم نے قادیانی لوگوں کو کافر بنادیا یا اقلیت قرار دے دیا تو جناب عالی! یہ مشکلات پیش آئیں گی، بہت سی تکالیف پیش آئیں گی۔ مسلمان کو ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ (فارسی اشعار پڑھے گئے)
2991اﷲتعالیٰ نے مسلمان کو زبردست طاقت دی ہے۔ وہ کسی سے نہیں ڈرتے سوائے اﷲتعالیٰ کے۔ برطانیہ ہمارے خلاف ہو جائے گا، روس خلاف ہو جائے گا۔ اس میں ڈرنے سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ اس ڈرنے نے تمہیں تباہ کر دیا۔ اس ڈرنے نے ہلاک کر دیا۔ خدا کے لئے یہ آخری موقع ہے۔
جناب والا! چوہدری فضل الٰہی جو سپیکر تھے انہوں نے کہا تھا کہ یہ آخری وارننگ ہے جو مسلمان کو دی ہے۔ اس کرسی پر ہمارے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ دیکھو، ہم اﷲتعالیٰ کے سامنے پیش ہوں گے، اﷲ کو منہ دکھانا ہے۔ یہ قانون الٰہی کی مخالفت ہے۔ کس طریقے سے خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ آج ہم اس اسمبلی میں دیکھ لیں چوہدری محمد اقبال نہیں ہیں، امیر محمد خان نہیں ہیں۔ وہ اﷲ کے پاس چلے گئے ہیں۔ اﷲتعالیٰ کے سامنے پیش ہوں گے۔ وہ وہاں جواب دہ ہوں گے کہ تم نے اپنی نمائندگی میں کیا کیا۔ آپ برانہ مانئے، آپ سے بھی پوچھا جائے گا کہ آپ نے اسلام کی کیا خدمت کی ہے۔
جناب والا! قادیانی کافر ہیں۔ اس نے خود کہا ہے، انہوں نے باقاعدہ غلام احمد کو بالکل رسول اور نبی کہا ہے اور غلام احمد کو باقاعدہ طور پر نبی مانتے ہیں۔ جو اس کی رسالت کے منکر ہیں۔ وہ ولد الحرام ہیں، حرامزادے ہیں۔
جناب چیئرمین: اسی واسطے ہم بیٹھے ہوئے ہیں۔ آپ ۹۰سال میں اس مسئلے کو حل نہ کر سکے، اب اسمبلی حل کرے گی۔
مولوی نعمت اﷲ: جناب والا! میرا مطلب یہ ہے کہ ۵۵ہزار کی آبادی اتنی بڑی بہادر ہے، اتنی طاقتور ہے، اتنی قوت والے ہیں کہ وہ چھ کروڑ والی آبادی پر فتویٰ لگا سکتے ہیں۔ ہم چھ کروڑ کی آبادی والے ان پر فتویٰ نہیں لگا سکتے کہ وہ اقلیت ہیں، وہ کافر ہیں اور پاکستان میں جو ان کے پاس اسامیاں ہیں ان کو ان اسامیوں پر سے ختم کیا 2992جائے۔ کیا ہم یہ نہیں کر سکتے۔ ان کو بڑی بڑی اسامیوں پر سے ختم کر دیں۔ ان کو بڑی بڑی اسامیوں پر سے ہٹا دیں۔ جناب عالیٰ! ایک بات عرض کروں گا۔ ہمارے وزیراعظم اور ہماری حکومت نے ۲۲سو افسران کو جن میں جرنیل اور کرنل اور بڑے بڑے افسران بھی تھے ان کو ہٹایا۔ انہوںنے پاکستان کا کیا بگاڑا ہے۔ کچھ بھی نہیں بگاڑا۔ اس طریقے سے سرکردہ لوگوں کو ہم ہٹادیں تو یہ ہمارا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔ جب اﷲتعالیٰ ہمارے ساتھ ہو اور جناب نبی کریم ﷺ کی رحمت کاملہ ہمارے ساتھ ہو۔
میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ میں اس قرارداد کی تائید کرتا ہوں۔ خدا کے لئے، رسول کے لئے، دین کے لئے، اسلام کے لئے، آخرت کے لئے، یہ آخری باری ہے، یہ آخری موقع ہے۔ اس کو مرتد قرار دو، اس کو اقلیت قرار دو، اور اس سے گھبراؤ نہیں کہ قادیانی کا نام ہم کس طریقے سے لائیں۔ جناب والا! جب سکھ کا نام آئین میں لے سکتے ہو، جب عیسائی کا نام آئین میں لے سکتے ہو، جب بدھ کا نام آئین میں لے سکتے ہو، اگر اس کے ساتھ چھوٹا سا قادیانی لکھ دیا جائے تو کیا حرج ہے؟ اس لئے میں اس قرارداد کی تائید کرتا ہوں اور میں جناب عالی! پرزور سفارش کرتا ہوں کہ اس قرارداد کو منظور کر لیا جائے اور ان کو اقلیت قرار دے دیا جائے۔
جناب چیئرمین: شکریہ، ملک محمد صادق!
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جناب ملک محمد صادق کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)
ملک محمد صادق: بسم اﷲ الرحمن الرحیم ! تمام تعریفیں اﷲ پاک کے لئے اور درود وسلام محمد عربی ﷺ پر جو زمین پر رحمتہ اللعالمین بن کر آئے۔ جناب والا! اس وقت جب کہ احمدی مسئلہ ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکا ہے، جو کچھ میں کہوں گا وہ اس لئے کہ یہ بات صحیح طور پر معلوم ہو جائے کہ مسلمان کیوں مطالبہ کرتے ہیں کہ احمدیوں کو اقلیت قرار دیا جائے۔ یہ مذہبی جنون کی بات نہیں بلکہ دلیل، منطق اور حالات کا یہ تقاضا ہے کہ ایسا کیا جائے۔ احمدی، لاہوری اور ربوہ جماعت کے نمائندوں نے نہایت عیاری 2993سے کام لیتے ہوئے سب ایوان کے سامنے گول مول بیان دے کر ٹالنے کی کوشش کی ہے۔ مگر میں مرزاغلام احمد کی تحریروں کی روشنی میں آپ سے گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ مرزاصاحب نے بارہا نبی ہونے کا دعویٰ کرنے سے پہلے اپنی تحریروں میں کیا کہا۔ اس کے پہلے کے خیالات سے آپ خود بھی اندازہ فرمالیں کہ مرزاصاحب حقیقت میں کیا تھے۔ وہ کہتے ہیں:
’’کیا ایسا بدبخت مفتری جو خود رسالت اور نبوت کا دعویٰ کرتا ہے، قرآن شریف پر ایمان رکھ سکتا ہے؟ اور کیا وہ شخص جو قرآن شریف پر ایمان رکھتا ہے، ولکن رسول اﷲ وخاتم النّبیین کو خدا کا کلام یقین کرتا ہے، وہ کہہ سکتا ہے کہ میں آنحضرت ﷺ کے بعد رسول اور نبی ہوں۔‘‘
(انجام آتھم ص۲۷ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۲۷)
دوسرے وہ فرماتے ہیں: ’’مجھے کب جائز ہے کہ میں نبوت کا دعویٰ کر کے اسلام سے خارج ہو جاؤں اور کافروں کی جماعت سے جاملوں۔‘‘
(حمامتہ البشریٰ ص۷۹، خزائن ج۷ ص۲۹۷)
نمبرتین: ’’اے لوگو! دشمن قرآن نہ بنو اور خاتم النّبیین کے بعد نئی نبوت کا دعویٰ نہ کرو۔ اس خدا سے شرم کرو، جس کے سامنے حاضر کئے جاؤ گے۔‘‘
(آسمانی فیصلہ ص۱۵، خزائن ج۵ ص۳۳۵)
ان مندرجہ بالا تحریروں کے بعد مرزاصاحب نبی بن بیٹھے اور بقول ان کے دائرہ اسلام سے خارج ہوئے۔
جناب چیئرمین: اسمبلی میں یہ سب فیصلہ ہوچکا ہے کہ وہ خود نبی بنے۔ آگے چلیں۔
ملک محمد صادق: بہرکیف Re-Incarnation (تناسخ) کا مسئلہ انہوں نے پیش کیا۔ وہ مجوسیوں اور ہندوؤں کا مسئلہ ہے۔
Mr. Chairman: All these matters have been decided. Almost the whole of the Assembly is of the unanimous view about all these matters.
(جناب چیئرمین: یہ سب معاملات طے ہوچکے ہیں۔ تقریباً پوری اسمبلی ان باتوں پر متفق ہے)
2994ملک محمد صادق: جناب! اگر میں مختصر عرض کروں، تو میری دو تین آراء ہیں۔ احمدیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا جائے، ان کے مذہب کا نام مرزائیت اور قادیانیت رکھا جائے تاکہ امت اسلامیہ سے ان کا کوئی تعلق نہ رہے اور دنیا کے مسلمان یہ جان سکیں کہ یہ ایک علیحدہ مذہب رکھتے ہیں۔ تیسرے، جماعت احمدیہ کے زیراہتمام تمام تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لیا جائے۔ چوتھے، مرزائیوں کے پاس کارڈوں، میں ترمیم کی جائے۔ انکو مذہب کے خانے میں مرزائی یا قادیانی لکھا جائے۔ ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو ان کے تمام لٹریچر کی چھان بین کرے۔ جہاں بھی اسلام کے مخالف عقیدے پائے جاتے ہیں ان کو حذف کرے اور آئندہ ایسی غیراسلامی اشاعت کو ممنوع قرار دے۔
جناب والا! میں مختصراً کچھ آئین کے بارے میں بھی عرض کرنا چاہتا ہوں۔ جس وقت آئین بن رہا تھا تو اس وقت پریذیڈنٹ اور پرائم منسٹر کی اوتھ کے بارے میں کچھ ترامیمات آئی تھیں۔ اس وقت کچھ حضرات نے پریذیڈنٹ اور پرائم منسٹر کی اوتھ کے بارے میں کہا تھا کہ:
"Muhammad (Peace be upon him) is the last Prophet"
(حضرت محمد ﷺ آخری پیغمبر ہیں) کے بعد خاتم النّبیین درج کیا جائے، مگر اس ایوان نے اس ترمیم کو Reject (رد) کر دیا تھا۔ مگر اردو کا Version (ترجمہ) دیکھنے سے پتا چلا ہے کہ وہ ترمیم صحیح موجود ہے اور آئین میں خاتم النّبیین درج ہے تو اس پر بھی غور فرمایا جائے تاکہ مسلمانوں کا یہ مذہبی مسئلہ حل کیا جائے اور مسلمانوں کو چین اور امن سے رہنے دیا جائے۔
جناب والا! میں ان الفاظ کے ساتھ ختم کرتا ہوں۔
جناب چیئرمین: مولانا صدرالشہید!
ایک رکن: اور کتنا بیٹھیں گے؟
جناب چیئرمین: دس منٹ اور بیٹھیں گے، باقی شام کو کریں گے۔
2995We will take it up in the evening. Those members who have accepted some invitation for going somewhere may go, if they like, and they can come to the House, if they like, because today is the last evening and we have to finalize it. Under no circumstances can I say that.
(ہم اس پر شام کو بات کریں گے۔ جو اراکین کہیں مدعو ہیں، اگر وہ چاہیں تو جاسکتے ہیں اور اگر وہ چاہیں تو ایوان آسکتے ہیں۔ کیونکہ آج آخری شام ہے اور ہم نے اسے حتمی شکل دینی ہے۔ کسی بھی صورتحال میں میں یہ نہیں کہہ سکتا)
جناب! ہم شام کو سیشن نہیں کریں گے، اور چند ممبر صاحبان کہیں کہ ہمیں بولنے کی اجازت نہیں ملی نیز شام کو اٹارنی جنرل بولیں گے۔
I am grateful to you. This the last night and the last day. (میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آج آخری رات ہے اور آخری دن ہے)
میاں محمد عطاء اﷲ: پانچ بجے سیشن کریں۔
جناب چیئرمین: آپ کہیں تو چار بجے کر لیتے ہیں۔ آپ کہیں تو جمعہ یہیں اسمبلی میں پڑھا جائے گا، آپ Lead (امامت) کریں۔ مولانا صدرالشہید!
ملک محمد اختر: Last Night (آخری رات) کر دیں، Last Dinner (آخری کھانا) نہ کریں۔ (قہقہے)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جناب مولانا صدر الشہید کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)
مولانا صدرالشہید: جناب چیئرمین! یہ مسئلہ جو کہ ایوان کے سامنے ہے اس کے اوپر تقریباً ڈیڑھ مہینہ گزر چکا ہے اور یہ مسئلہ ہر پہلو سے، سیاسی پہلو سے بھی اور مذہبی لحاظ سے بھی، بالکل واضح اور صاف ہوگیا ہے۔ میں کوشش کروں گا کہ کچھ ایسے واقعات ایوان کے سامنے آپ کی وساطت سے پیش کر سکوں کہ وہ میرے خیال میں غالباً نئے ہوں گے اور رب العالمین ایوان کو بھی یہ توفیق دے کہ وہ ذرا غور سے سن لے۔ میں کوشش کروں گا کہ مختصر وقت میں بہت سی معلومات لے آؤں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(اتحاد امت… شان محمد ﷺ کا ظہور)
میں یہ عرض کر رہا تھا کہ یہ مسئلہ ہر پہلو سے، سیاسی لحاظ سے بھی اور مذہبی لحاظ سے بھی صاف اور واضح ہوگیا ہے، اور کیونکر نہ ہو، جس مسئلے کے اوپر ڈیڑھ مہینے سے ہم نے یہاں بیانات اور جرح اور ہر قسم کے دلائل قائم کرنے اور سننے کی کوشش کی ہے۔ میں ایک چیز سے متحیر ہوں اور اس تحیر کو آپ کے سامنے ظاہر کر رہا ہوں اور اس تحیر کا جو 2996کچھ جواب میں نے اپنے ذہن سے تجویز کیا ہے وہ بھی پیش کر رہا ہوں۔ تحیر مجھے یہ ہو رہا ہے کہ ہم یہاں پر ایوان میں ڈیڑھ سال سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس ایوان میں مذہبی مسائل بھی آئے۔ سیاسی مسائل بھی، ملکی مسائل بھی، قوم کے اتحاد کے مسائل بھی اور ملک کی ترقی کے مسائل بھی آئے۔ لیکن جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، کسی مسئلے پر ایوان کے تمام ممبران کا، دونوں اطراف کے، دائیں اور بائیں کا اتفاق نہیں ہے، سوائے اس ایک مسئلے کے جو کہ اب حاضر ہے۔ اس اتفاق نے مجھے حیرت میں ڈالا ہے کہ اس طریقے سے اس مسئلے پر اس ایوان میں کیوں اتفاق ہوا؟ کسی نے بھی اس مسئلے کے خلاف آواز نہیں اٹھائی۔ یہ عوام کا مسئلہ ہے اور عوامی خواہشات کے خلاف کسی نے یہاں پر آواز اٹھائی ہو، یہ کسی نے نہیں کیا۔ یہ چیز میرے لئے تحیر کا باعث بن گئی ہے اور اس نے مجھے تحیر میں ڈالا ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں اس کا جواب بھی سمجھ چکا ہوں کہ یہ کیا وجہ ہے کہ کسی مسئلے کے اوپر ہم متفق نہیں ہوئے اور اس مسئلے کے اوپر تمام متفق ہیں۔ میں اس اتفاق کو صرف یہی سمجھتا ہوں کہ یہ شان محمد ﷺ ہے اور دین اسلام کا ایک معجزہ ہے جو تمام علوم میں وہ چکر لگا رہا ہے۔ حدیث میں بھی نبی کریم ﷺ نے فرمایا (عربی)۔ تمام بندوں کے قلوب، دل اﷲ رب العالمین ورحمن کی دو انگلیوں میں ہیں۔ وہ لوٹاتا ہے جس طرح وہ چاہتا ہے۔ اﷲرب العالمین کا فضل وکرم ہے۔ ہم بہت گنہگار ہیں۔ یہاں پر جو بیٹھے ہوئے ہیں، بہت بدکار، سیاہ کار ہیں، سب گنہگار ہیں۔ ہم مانتے ہیں، اقرار کرتے ہیں۔ لیکن اﷲ رب العالمین نے صرف ایک کلمے کی برکت سے جو ہم پڑھتے ہیں اور مانتے ہیں اور عقیدہ رکھتے ہیں کہ لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ! باوجودیکہ ہم کتنے گنہگار یہاں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ لیکن اﷲ رب العالمین نے صرف ایک کلمے کی برکت سے جو ہم کبھی کبھی پڑھتے ہیں کہ لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ! اور اس کے مطابق ہمارا عقیدہ ہے 2997اور ایمان ہے، اﷲ رب العالمین کے فضل وکرم نے جوش میں آکر ہم میں اس ایک کلمے کی برکت شان محمد ﷺ کے متعلق، ناموس محمد ﷺ کے متعلق، ہم تمام کو ایک جگہ کے اور ایک پلیٹ فارم کے اوپر جمع کر دیا ہے۔ میں جہاں تک سمجھا ہوں اس اتفاق کی وجہ یہی ہے اور میں اس ایوان کو مبارک باد دیتا ہوں کہ آپ لوگوں میں، میرا جہاں تک علم ہے، آپ لوگوں میں ایمان ہے۔ باوجود یہ کہ ہم گنہگار، سیاہ کار ہیں۔ لیکن انشاء اﷲ! ہمارا یہ عقیدہ اور ایمان ہے کہ اﷲ رب العالمین ہمیں اس مسئلے کے اتحاد کی وجہ سے ، میں یہ سمجھ چکا ہوں کہ ہم میں کچھ ایمان باقی ہے، ہم بے ایمان نہیں ہیں۔ الحمدﷲ! اﷲ اس ایمان کو محفوظ رکھے۔
اس کے ساتھ ساتھ میں تمام ایوان سے آپ کے توسط سے التجاء کرتا ہوں اور التماس کرتا ہوں کہ خدا کے لئے یہ اتفاق اپنے لئے اور بھی مسائل کے لئے کوئی ایک نظیر بنالیجئے۔ اس طرف سے بھی اپیل کرتا ہوں اور اس طرح سے بھی کہ قومی مسائل، ملک کے اتحاد، سالمیت اور ملک کی ترقی اور ملکی مسائل میں کم سے کم ہم کو اتفاق کے اسی طریقے سے مظاہرہ کرنا چاہئے جیسے ہم نے اس مسئلے میں کیا ہے۔
ایک مسئلے میں کچھ ایک شبہے کا میں جواب دینا چاہتا ہوں۔ ہم تمام ممبران کی خدمت میں میرے خیال میں کچھ رسائل آئے ہوئے ہیں، کچھ کتابچے پہلے آئے ہوئے ہیں۔ ایک کتاب میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ نے ایک فتویٰ لگایا ہے اور وہ فتویٰ یہ لگایا ہے امام ابوحنیفہؒ نے کہ کسی آدمی نے اگر جناب محمد ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا تو اگر کوئی دوسرا آدمی اس سے معجزہ طلب کر لے، دلائل طلب کر لے کہ اپنی نبوت کے بارے میں مجھے کوئی معجزہ دکھاؤ، تو یہ طالب جو ہے، طلب کرنے والا، یہ بھی گنہگار یا کافر بنتا ہے۔ خیر! یہ ایک مثال ہے، بالکل صحیح ہے۔ کتابوں میں یہاں پر آپ لوگوں نے پڑھا ہوگا۔ یہاں پر بھی بعض حضرات نے، بعض صاحبان نے اس سے 2998کچھ تاثر لے کر، جیسا کہ میں نے سنا ہے، اس طرف سے بھی اور اس طرف سے بھی یہ مسئلہ یہاں پر آیا ہے کہ یہ نہیں ہونا چاہئے تھا کہ ہم اس کو حاضر کرتے اور اس سے سوال پوچھتے، اس کا بیان لیتے، اس کے اوپر جرح کرتے، یہاں ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔ میں اپنے خیال سے اور اپنے علم کے مطابق جواب دے رہا ہوں کہ ہم نے ان سے دلائل نہیں پوچھے کہ آپ کی نبوت کے کیا دلائل ہیں۔ ہمارے سامنے تو نبی نہیں بیٹھا تھا۔ یہاں پر تو کسی نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا تھا۔ ہم تو اس مرے ہوئے جو خدا جانے بیت الخلاء میں سناگیا ہے مرا ہے، اس کے متعلق ہم نے ان کے عقائد معلوم کرنے تھے کہ آپ کا عقیدہ کیا ہے۔ اس کے بارے میں ان کا دعویٰ کیا ہے اور ان کا عقیدہ کیا ہے۔ ہم نے ان کے دعوے اور عقیدے کے سچ ہونے کے لئے دلائل اور معجزات طلب نہیں کئے یہاں پر۔ لہٰذا ہم اس مسئلے میں نہیں آتے۔ یہ لوگوں کی غلطی ہے۔ ہم نے ان سے یہ پوچھا تھا کہ انہوں نے دعویٰ نبوت کا کیا تھا۔ اس وقت انہوں نے تسلیم کیا کہ کیا تھا۔ اس کے بعد یہ پوچھا ان لوگوں سے کہ آپ کا ان کے متعلق عقیدہ ہے۔ بعض نے یہ کہا صاف الفاظ میں کہ ہم اس کو نبی مانتے ہیں، امتی ہو یا بروزی ہو یا ظلی ہو۔ یہ تو تاویلات ہیں۔ ہر آدمی جب مجبور ہو جاتا ہے کسی حالت میں تو وہ تاویلات کرتا ہے۔ لیکن تمام ایوان ان سے یہ اثر لے چکا ہے۔ میرے خیال میں کہ یہ غلط بول رہا ہے، وہ جھوٹ بول رہا ہے۔
اس کے بعد جب یہ ظاہر ہوا کہ انہوں نے خود تسلیم کیا، دونوں نے قریب قریب تسلیم کیا کہ انہوں نے دعویٰ نبوت کیا ہے، اور یہ ان لوگوں کے اپنے عقیدے کا اظہار ہوچکا ہے۔ یہاں پر ایوان میں کہ ان کے متعلق یعنی نبوت کا دعویٰ ہے، نبوت کا عقیدہ ہے، بروزی ہو یا لغوی ہو یا مجازی ہو یا امتی ہو، بہرحال عقیدہ نبوت کا ہے ان کے متعلق۔ تو ایوان کے سامنے یہ مسئلہ بالکل صاف ظاہر ہوگیا کہ انہوں نے نبوت کا دعویٰ 2999کیا تھا اور یہ ان کو نبی مانتے ہیں تو اس سے معلوم ہوا کہ مسئلہ تو صاف ظاہر ہے تو دنیا کو ہم اس کے بعدکوئی دلیل پیش نہیں کرتے کہ اس کو دلیل کر لیں کہ وہ کافر ہیں یا نہیں اور وہ تو مسئلہ بالکل صاف ہے۔ ہم تو ان کے عقیدے کے متعلق ان سے پوچھنا چاہتے تھے۔
دوسری بات میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہاں پر یہ بھی بعض حضرات سے سنا گیا کہ علماء نے بہت سستی کی ہے، کچھ کام نہیں کیا ہے۔
جناب چیئرمین: یہ چھوڑیں۔
مولانا صدرالشہید: نہیں، میرے کہنے کا مقصد یہ ہے…
جناب چیئرمین: بالکل سستی نہیں ہوئی ہے۔
مولانا صدرالشہید: سستی تو ہوتی ہے۔ بہرحال، لیکن میں تو یہ دعوے سے کہہ رہا ہوں کہ یہ علماء کی برکت ہے، یہ علماء کی برکت ہے، ان کی مساعی اور ان کی کوشش ہے کہ بغیرکسی پیسے کے، بغیر حکومت کے تعاون کے…
جناب چیئرمین: ورنہ ان میں رتی بھر ایمان نہیں ہے! (قہقہے)
مولانا صدرالشہید: نہیں، میں تو برادری کے ساتھ جواب دے رہا ہوں، یہ نہیں کہ کسی کو طعنہ دے رہا ہوں۔ انہوں نے محنت کی ہے اور محنت کا یہ نتیجہ انشاء اﷲ! نکلا ہے اور نکلے گا۔
اب اس کے بعد آخر میں… آپ کا وقت میں نے کچھ میرے خیال میں کافی لیا ہے… آخر میں میں ایک تجویز پیش کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اگر اس مسئلے کو ہم اب بھی گول مول کر کے فیصلہ کر لیں تو میرے خیال میں یہ مسئلہ ہمارے لئے بھی اور اسلام کے لئے بھی اور ہماری نسل کے لئے بھی خطرناک ثا بت ہوگا۔ اب مسئلہ جب ایوان میں، آپ کے بڑے ایوان میں اس عدالت میں پیش ہوا ہے، اب بھی اگر یہ مسئلہ بالکل صاف اور واضح نہ ہوا…
3000جناب چیئرمین: انشاء اﷲ! فیصلہ ہوگا۔
مولانا صدرالشہید: … تو یہ ہمارے ملک کے لئے بھی اور اسلام کے لئے بھی خطرناک ہوگا۔
اب میں ایک تجویز پیش کرنا چاہتا ہوں کہ میری یہ تجویز ہے اور میں ایوان سے پوچھ رہا ہوں کہ آئین میں ۱۰۶ جو دفعہ ہے، اس میں یہ ذکر ہے شق نمبر(۳) میں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے لئے صوبائی اسمبلیوں کے لئے جو نشستیں دی گئی ہیں، ایک صوبہ سرحد کے لئے، ایک بلوچستان کے لئے، تین پنجاب کے لئے، دو سندھ کے لئے، اس میں وہاں اقلیتوں کا ذکر ہے۔ ہندو ہے، سکھ ہے، پارسی ہے، بدھ ہے، فلاں فلاں! تو میری یہ تجویز ہے کہ اس اقلیت میں اس کا نام رکھا جائے کہ مرزاغلام احمد قادیانی یا لاہوری پارٹی والے جو ہیں، یہ میں آپ کی وساطت سے تمام ایوان سے اس تجویز کے متعلق یہ ایک مسئلہ صاف ہو جائے گا، ان کی فہرست میں یہ بھی آجائیں گے تو میں یہ تجویز پیش کرنا چاہتا ہوں اور ہاؤس سے منظوری لینا چاہتا ہوں کہ آپ کو میرے ساتھ اس میں اتفاق ہے یا نہیں ہے؟
آوازیں: ہاں!
مولانا صدرالشہید: اتفاق ہے، منظور ہے آپ کو؟
آوازیں: ہاں!
مولانا صدرالشہید: جزاک اﷲ، جزاک اﷲ!
جناب چیئرمین: یہ ووٹنگ کا طریقہ ہے جو ہے ناں، یہ نہیں ہے لکھا ہوا۔ (قہقہہ)
مولانا صدرالشہید: ہمیں تو اجر مل جائے گا۔
جناب چیئرمین: ووٹنگ بذریعہ سپیکر ہوتی ہے۔ (قہقہہ)
خود نہیں مجمع لگایا جاسکتا۔
3001مولانا صدرالشہید: شکریہ جی، شکریہ!
جناب چیئرمین: اچھا جی! ابھی تک لسٹ کے مطابق مسٹر محمود اعظم فاروقی اور مسٹر محمد سردار خان رہتے ہیں۔
ایک رکن: فاروقی صاحب بول چکے ہیں۔
جناب محمود اعظم فاروقی: اور بھی بولنا ہے، اگر آپ کہیں تو۔
جناب چیئرمین: اچھا، فاروقی صاحب بول چکے ہیں۔ باقی حکیم محمد سردار خان صاحب ہیں۔ (مداخلت)
جناب چیئرمین: میر صاحب! نہیں، اس مسئلے پر تو ظاہر ہے اور تو کوئی نہیں میرے خیال میں رہتا۔ شام کو اٹارنی جنرل صاحب کم ازکم دو گھنٹے بولیں گے اور پھر مولانا ظفر احمد انصاری صاحب بولیں گے اور پھر وزیر قانون صاحب بھی شام کو اس مسئلے پر بولیں گے تو ہم اب شام کو ساڑھے پانچ بجے دوبارہ ملیں گے اور نودس گیارہ بارہ بجے تک کام کریں گے تاکہ بحث بھی مکمل ہوسکے اور جو سفارشات ہیں وہ بھی مرتب ہو سکیں۔ اس لئے آپ روٹی ساتھ لے کر آئیے گا!
[The Special Committee adjourned for lunch break to be re-assembled at 5:30 pm.]
(خصوصی کمیٹی کا اجلاس لنچ بریک کے لئے ملتوی ہوا۔ دوبارہ اجلاس ساڑھے پانچ بجے شام کو ہوگا)
----------
[The Special Committee re-assembled after lunch break, Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali) in the Chair.]
(خصوصی کمیٹی کا اجلاس لنچ بریک کے بعد جناب چیئرمین (صاحبزادہ فاروق علی) کے زیرصدارت دوبارہ شروع ہوا)
----------
جناب چیئرمین: چوہدری شفاعت خان چوہان!
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
( چوہدری شفاعت خان چوہان کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)
چوہدری شفاعت خان چوہان: جناب چیئرمین! یہ مرزائیت کا مسئلہ ایک صدی پرانا مسئلہ ہے۔
3002جناب چیئرمین: آپ کو آج پتہ چلا ہے کہ ایک صدی پرانا مسئلہ ہے۔
چوہدری شفاعت خان چوہان: نہیں، مجھے بھی تقریباً پچاس سال سے اس کا پتہ ہے۔
پاکستان کا قیام اسلام کے نام پر واقع ہوا تھا، عمل میں آیا تھا۔ مسلمانان ہند نے ووٹ دئیے تو پاکستان قائم ہوا، حالانکہ مسلم لیگی حکومت جس نے پاکستان اسلام کے نام پر قائم کیا تھا، وہ بھی اس مسئلہ کو حل کرنے سے قاصر رہی تھی۔ اس کے بعد مختلف جماعتیں اس ملک پر حکمرانی کرتی رہیں۔ ۱۹۵۸ء تک، لیکن وہ بھی اس مسئلہ کو حل کرنے سے قاصر رہی ہیں، حالانکہ تمام کے تمام ایسے ہی مسلمان تھے جیسے اب پاکستان میں بستے ہیں۔ اس کے بعد جس وقت آمریت کا دور آیا تو ان کے پاس زیادہ اختیارات بھی تھے۔ باوجود اس کے مارشل لاء دور میں بھی اس مسئلہ کو حل نہیں کیاگیا۔ اس کے بعد ۱۹۷۱ء میں جس وقت قائد عوام کی قیادت میں پیپلزپارٹی کی حکومت اس ملک میں آئی تو بہت سے مسائل سامنے آئے جو ورثے میں ملے تھے۔ ان میں سے جو سب سے پہلا کام قائد عوام نے اپنی اکثریتی پارٹی کے تعاون اور باقی ملک کے تعاون کے ساتھ کیا وہ یہ تھا کہ مسلمانان عالم کے کھوئے ہوئے اس وقار کو حاصل کرنے کے لئے انہوں نے اسلامی ممالک میں اتحاد پیدا کرنے کے لئے Summit بلائی جو ایک بہت بڑا کارنامہ اسلامی اتحاد کے سلسلہ میں ہے۔ اس کے بعد یہ ایک صدی پرانا مسئلہ بھی قائدعوام، اس کی اکثریتی پارٹی، دوسری معاون پارٹیوں اور اس کے بعد عوام کے تعاون کے ساتھ اس مسئلہ کو بھی آج حل کیا جارہا ہے اور مجھے امید ہے کہ یہ مسئلہ ہمیشہ کے لئے عوام کی خواہشات اور مسلمانوں کی خواہشات کے مطابق حل ہوگا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزاقادیانی جھوٹا تھا)
اس سلسلہ میں میں ایک عرض کرنا یہاں ضروری سمجھتا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مرزاجھوٹا نبی تھا اور اس ایوان میں یہ ثابت ہوگیا ہے۔ اس کے ماننے والوں کو 3003اقلیت قرار دینے کے لئے میرا خیال ہے کہ ہم فیصلہ کر سکیں گے۔ لیکن میں اس سلسلہ میں ایک بات عرض کروں گا کہ وہ چند بلکہ ۱۱۳ نام نہاد فتوے جاری کرنے والے علماء جنہوںنے پیپلزپارٹی اور اس کے قائد کو ۱۹۷۰ء میں کافر قرار دیا تھا…
Mr. Chairman: Not allowed.
(جناب چیئرمین: اس کی اجازت نہیں ہے)
چوہدری شفاعت خان چوہان: وہ بھی جھوٹے ہیں۔
Mr. Chairman: Not allowed, not allowed. بالکل نہیں۔
(جناب چیئرمین: اس کی اجازت نہیں ہے)
چوہدری شفاعت خان چوہان: کم سے کم ایک بات میں عرض کروں گا۔
جناب چیئرمین: کم سے کم ایک دن ضرور خیال رکھیں۔ یہ سیاست چلتی رہے گی۔
چوہدری شفاعت خان چوہان: اس کے ساتھ ساتھ میں یہ عرض کروں گا کہ مسلمانوں میں جو آج اتحاد قائم ہے، کم سے کم فتوؤں کے سلسلے میں بھی آئین میں یہ پابندی لگا دی جائے کہ کوئی مسلمان کسی فرقے کو کافر قرار نہ دے۔
جناب چیئرمین: اگر ایسی تقریریں ہوئیں تو پھر اتحاد نہیں رہے گا۔
چوہدری شفاعت خان چوہان: جہاں تک اس موجودہ مسئلے کا تعلق ہے…
(مداخلت)
جناب چیئرمین: بہت بہت شکریہ! That's all (یہ مکمل ہوا) حکیم محمد سردار خان!
Not Present (موجود نہیں ہیں)
میاں محمد عطاء اﷲ: سر! اٹارنی جنرل…
جناب چیئرمین: جی ابھی آرہے ہیں۔ Attorney- General will complete his arguments. (اٹارنی جنرل اپنے دلائل مکمل کریں گے)
ایک رکن: کل کا پروگرام کیا ہے؟
3004جناب چیئرمین: کل کا پروگرام بھی بتاتے ہیں۔ آپ نے ریڈیو پر سنا ہے لیکن یہ ہے کہ جس وقت ہم نے ہاؤس ایڈجرن کیا، The parleys are going on between the Prime Minister and the others. The meeting is going on in the chamber even now. (وزیراعظم اور دوسرے لوگوں میں مذاکرات جاری ہیں۔ اس وقت بھی چیمبر میں میٹنگ جاری ہے)
ایک رکن: ریڈیو پر کیا تھا؟
جناب چیئرمین: ریڈیو پر یہ تھا کہ کل شام ڈھائی بجے اسپیشل کمیٹی Meet کرے گی، ساڑھے چار بجے اسمبلی ہوگی اور پھر سینٹ Meet کرے گی۔ But we have to finalize it and then we will announce it in the House. Now I will request the Attorney- General to resume the arguments which were left over yesterday. (لیکن پہلے ہم نے اسے حتمی شکل دینی ہے اور پھر ہم ایوان میں اس کا اعلان کریں گے۔ اب میں اٹارنی جنرل سے درخواست کروں گا کہ وہ اپنے دلائل شروع کریں جو وہ کل رہ گئے تھے) باقی تمام ممبر صاحبان بول چکے ہیں، صرف حکیم محمد سردار صاحب بولنا چاہتے تھے، وہ نہیں ہیں۔ I will request the honourable members to be attentive now. I request those members who want to talk, they can go to the lobby. (میں معزز اراکین سے گزارش کروں گا کہ اب متوجہ ہو جائیں۔ جو ممبران بات کرنا چاہتے ہیں میں ان سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ لابی میں چلے جائیں)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جناب یحییٰ بختیار کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پردوسرے دن خطاب)
Mr. Yahya Bakhtiar (Attorney- General of Pakistan): Mr. Chairman, Sir, when I was making submissions yesterday on the evidence that has come before the Special Committee, I submitted, while discussing the career of Mirza Ghulam Ahmad, that there were three stages in his religious career. The first stage was when he was like all other Muslim leaders, a propagandist of Islam. His views on the concept of 'Khatm-e-Nabuwwat' were similar to those held by others. Then comes the next stage when he changed his views and founded an organisation and started receiving oath of discipleship and so on.
It was in 1889 that the second stage comes. After that I was submitting that in the course of this stage what his views were, and why those views were expressed and a new interpretation of the concept of 'Khatm-e-Nabuwwat' was given, according to which many prophets will come from time to time as the world needs prophets to re-interpret the message of Allah given to Prophet Muhammad.
----------
3005(At this stage Mr. Chairman vacated the Chair which was occupied by Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi)
----------
Mr. Yahya Bakhtiar: Madam, at this stage, I submitted that the second Caliph of Ahmadis or Qadianis had given reasons for which this series of Prophets will not stop, and I have also submitted that although they ostensibly and apparently gave a very rational reason for this, but still when we ask them whether there was any other prophet before Mirza Ghulam Ahmad, they say 'No'; when questioned as to whether any other prophet is going to come after him, they say 'No'; and ultimately it comes to this that 'Khatimun Nabiyeen', according to them, is Mirza Ghulam Ahmad.
I will now go further and submit before the Committee as to what was the proof that Mirza Ghulam Ahmad was 'Masih-e-Mauood' according to the Ahmadis. They say that he was to appear in a period of history when the means of communications would change and there would be earthquakes, there would be wars, and so forth, the donkey and the camel would be replaced by more efficient means of communication, and they say all these signs which were mentioned in the old books, apply to the age of Mirza Ghulam Ahmad, and further they say, and I will read out from the book called "Ahmadiyyat or the True Islam" in support of their contention, that Mirza Ghulam Ahmad was that Promised Messiah. I quoted from this book, page:20
"Similarly, it was foretold that the Promised One would suffer from two maladies, one in the upper part of his body and the other in the lower, that the hair of his head would be straight, that he would be wheat coloured, that he would slightly stammer in his speech, that he would belong to a family of farmers, that, while talking, he would occasionally strike his hand against his thigh, that he would appear in a village named Kada, and that he would combine in himself the offices of the Messiah and the Mahdi. And so it has turned out be. Ahmad, the Promised Messiah, suffered from vertigo and diabetes; he had straight hair, was wheat- coloured, and occasionally faltered in his speech. He had the habit of striking his hand against his thigh while giving a discourse, 3006and belonged to a family of landowners. He was a native of Kadian or Kade as Qadian is popularly called. In short, when we consider all these prophecies collectively, we find that they apply to no age but to the present, and to no person but to person but to Ahmad (on whom be peace); and it appears that the present age is clearly the age of the advent of the Promised One whose apperance was foretold by the former prophets, and that Ahmad alone is the Promised One whose advent had been eagerly awaited for centuries."
This is the proof or the argument in support of his being a Messiah. I do not want to comment on this. The Committee can judge for itself whether, it applies only to him or could have applied to hundreds and thousands of people living in this age.
Now I come to the third stage of his religious career. Here he claims to be a full- fledged prophet, not a prophet of a subordinate or a temporary kind. Then we find gradually in this period that from a full fledged prophet, although he goes on saying that he is an 'Umati' prophet, he claims superiority first over Hazrat Essa then over all other prophets and then he claims epuality with the Holy Prophet of Islam, (Peace be upon him) and ulimately he claims, nauzubillah, superiority over the Holy prophet of Islam as well. This is in short his religious career. I will now just very briefly draw the attention of the Committee to some of those citations in support of what I hav said just now.
I have already cited yesterday when he said: "without prophets you cannot do; you have to have a prophet." ’’بغیر نبیوں اور رسولوں کے ذریعہ تم نعمتیں کیوں کر پاسکتے ہو۔‘‘
And then he says, and here also I think the basis for his claim to be there only Prophet after Prophet Mohammad (peace be upon him) is found:
’’جس قدر مجھ سے پہلے اولیائ، ابدال، اقطاب اس امت میں سے گزر چکے ہیں ان کو حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا۔ پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا ہوں اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں۔‘‘
3007So, this applies to past and future and this is again form "Haqiqatul Wahi" published in 'Roohani Khazain', volume:22, page:406 and 407. During this stage he also says:
’’میں رسول اور نبی ہوں یعنی بہ اعتبار فضیلت کاملہ کے میں وہ آئینہ ہوں جس میں محمدی شکل اور محمدی نبوت کا کامل انعکاس ہے۔‘‘
And then he says:
’’اﷲجل شانہ نے حضرت محمد ﷺ کو صاحب خاتم النّبیین بنایا۔ یعنی آپ کو افاضۂ کمال کے لئے مہر دی جو کسی اور نبی کو ہرگز نہیں دی گئی۔ اس وجہ سے آپ ﷺ کا نام خاتم النّبیین ٹھہرایا گیا۔ یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے اور یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی۔‘‘
This is also the stage when he, as I have already submitted said: ’’سچا خدا وہ ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔‘‘
Now, the interesting stage comes when he claims to have the attributes of all the prophets in him and here he says, and this I quote again from 'Brahin Panjum', 'Roohani Khazain', volume:21, page:117-118:
’’اس زمانے میں خدا نے چاہا کہ جس قدر نیک اور راست باز اور مقدس نبی گزر چکے ہیں ایک ہی شخص کے وجود میں ان کے نمونے ظاہر کئے جائیں تو وہ میں ہوں۔ اس طرح اس زمانے میں بدون کے نمونے بھی ظاہر ہوئے۔ فرعون ہوں یا یہود ہوں۔ جنہوں نے حضرت مسیح کو صلیب پر چڑھایا۔ ابوجہل ہوں، سب کی مثالیں اس وقت موجود ہیں۔‘‘
So, here he says that the best and the finest attributes of all the Prophets of Allah were combined and God wanted that they should be shown through one person and that he was that person. This is also the stage when he says:
’’میں خدا کی تیس برس کی متواتر وحی کو کیسے رد کر سکتا ہوں۔ میں اسی کی اس پاک وحی پر ایسا ہی ایمان لاتا ہوں جیسا کہ ان تمام وحیوں پر ایمان لاتا ہوں جو مجھ سے پہلے ہوچکی ہیں۔‘‘
3008Again, Sir, this is from 'Roohani Khazain', 'Haqiqatul Wahi' volume:22, page:154, again he says:
’’میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں ان الہامات پر اسی طرح ایمان لاتا ہوں جیسا کہ قرآن شریف پر اور خدا کی دوسری کتابوں پر اور جس طرح میں قرآن شریف کو یقینی اور قطعی طور پر خداتعالیٰ جل شانہ کا کلام جانتا ہوں، اسی طرح اس کلام کو بھی جو میرے پر نازل ہوتا ہے۔‘‘
Now, Sir, this is a very big claim that he puts forward at this stage. He says the revelation that he receives from Allah is of the same quality and purity as that which came to the Prophet of Islam. Whatever his revelations, they are similar in nature and character to those of the Holy Prophet of Islam. So whatever he has said is just as good, according to him, as has come in the Holy Quran. This is his claim. He starts claiming equality with the Prophet of Islam and at this stage he has composed those laudable verses in Persian in which he said:
’’انبیاء گرچہ بودہ اند بسے
من بہ عرفان نہ کم ترم زکسے‘‘
(I am better and Superior to all the prophets who have come:)
’’آنچہ داداست ہر نبی را جام
داد آن جام دا مرا بہ تمام‘‘
(He who gave the cup to every Nabi gave me the same cup to the fullest measure, brimful.)
Again he says he was better and superior to all the prophets that have come. But at the same time he does not claim superiority, till this stage over the Holy Prophet of Islam but only says that his Wahi and his status is similar because Vahi is similarly pure.
I pointed out, it was my duty to point it out to Mirza Nasir Ahmad, as to what this meant and he did not deny it. The Committee will remember when he said that they were equal in status because of the source. The source is Allah. They considered 3009them to be equal. Then, Sir, throughout this period, that we have covered so far, he says. "I am an 'Umati' Nabi; I am 'Ghair Sharai Nabi', but here he thought he has attained equality with the Prophet of Islam except that he was an 'Umati'. By this he naturally gets a subordinate position because he does not get revelation which brings new law. He said he has not got a law of his own, but here we find- now he further promotes himself and says, and I am again quoting from 'Roohani Khazain' volume:17, pages: 435 and 436.
’’ماسوا اس کے یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے۔ جس نے اپنی وحی کے ذریعہ چند امر اور نہی بیان کئے اور اپنی امت کے لئے ایک قانون مقرر کیا۔ وہی صاحب الشریعت ہوگیا۔ پس اس تعریف کی رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں۔ کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہے اور نہی بھی۔‘‘
Here he says that, well, "in my وحی there is also the law the do's and donts which Moses law contained." Sir, these are the three stages, very briefly, because I have to cover some more grounds and I will not go in any further details, but here I would submit that it is now for this Committee to judge whether he claimed to be a Prophet; Prophet of what nature and character and kind. Now, Sir, after he claimed this, the question arises as to what is the effect of this claim? Why this agitation? Why were there sharp reactions against this claim? And that will take us to the concept of خاتم النّبیین; as to what it means, Why there was sharp reaction throughout the Muslim society, why those who considered him as, a hero, for after all Musalmans are not ungrateful people, they respect their leaders, their ulema, and challenge a person as I submitted yesterday, who was their hero, and is attacked by them, as his own son says:
’’کہ اس کی بھیڑیں بھیڑیے بن گئیں۔‘‘
Why? To show that, Sir, I will seek leave to submit very humbly as to what is the meaning of the concept of ختم نبوت and I hope that the learned friends here and he the Ulema will correct me if I make any mistake in explaining this concept according to my own dim light.
3010Now, Sir, literally خاتم النّبیین means the Seal of the Prophets. By the Seal of the Prophets, the Muslims generaly, throughout 1400 years, have meant that the Prophet of Islam was the last of the Prophets, the Message of Allah was delivered, finalised compeletely, finalized, sealed and delivered, and therefore the Message was complete and he was the last prophet, and the wisdom that appeared is that as mankind had matured, as mankind has matured mentally as well as physically, Allah thought that the final Message should be given to them, the code of conduct should be given to them, which should be applicable to all ages because the basic human needs, problems, difficulties are the same although conditions change and their character changes. Allah delivered His final Message through His final Prophet. He said nobody can ever add anything to it or detract anything from it or modify it or change it now. This was the concept of خاتم النّبیین or ختم نبوت. It simply meant that, the doors of revelation are closed for future. Now, Sir, what is the philosophy, what is the wisdom of the concept, because we know what is meant when we say, خاتم النّبیین Muslims interpret it, but the authoritative interpretation for Muslims could only come from the Holy Prophet himself, he interpreted it by saying لا نبی بعدی (after me there shall be no Prophet) and that interpretation is binding on every Musalman, and no school of thought has disputed the authenticity of this Hadis that he was the last Prophet as he said himself. But, Sir, when you look at the wisdom, this becomes clearer when we find that during his last illness, the Holy Prophet told his followers that while he was with them, they should listen to him and obey him. After he was gone from this world, then they should, in his words, "Hold on fast to the Quran and whatever is forbidden there should be considered forbidden and whatever is permissible therein should be considered permissible for you". Sir, we have not appreciated the beauty and the wisdom of this lesson. As I submitted, mankind had matured, mentally man was mature, the Message was complete. Now, when the Holy Prophet uttered these words, what were the conditions in this world, what were the circumstances? Fourteen hundred years ago, we find rulers, kings, tribal chiefs, and that was the stage of society that whatever they said was law, the word of ruler was law, the word of king was law; there was no other law known to mankind. Here in this small Message, for the first time, mankind has been given the concept of rule of law and the Prophet said; after him you do not have to obey anybody. You only obey Allah and his Message, Allah and his 3011Prophet. Hold on fast to Quran, whatever is forbidden therein that is forbidden for you, whatever is permissible therein that is permissible for you; and there lies the beauty that the concept of rule of law appeared for the first time. This is, in my humble opinion, emancipation proclamation for mankind that you will no longer be governed by kings and their word, or by dictators or rulers. You will be governed by law, here is the law, and if you will carefully study the history, what do we find? We find that the moment Prophet passes away, حضرت ابوبکر is elected. What is his inaugural address? What does he say? Here is the message, he says, "Obey me so long as I obey Allah and his Prophet. If I revolt against Allah and his Prophet, you are not obliged to obey me." This is the rule of law; the concept of rule of law was there. That is why, I think, the Muslim society agitated when another person appeared and said that in future "I would give you rulings, I will receive divine messages and this shall be binding on you, my divine revelations". That was the main reason why Muslim society agitated.
Another aspect, I hope, I am correct in explaining it, this was emancipation of thought. Muslims were free to think for themselves and interpret the Holy Quran for themselves. Nobody can give them a binding ruling on any provision and say this is binding on you. As Allama Iqbal said, "After the Holy Prophet there shall be no surrender in spiritual matter to any other individual". So, this was meant to be a charter of freedom to think for your-self. There is no doubt, Sir, that we got the freedom of interpretation, of course, that freedom of interpretation was limited within the frontiers of the cardinal Principles of Islam. For instance, the first principle was of توحید that is, Unity and Oneness Allah. So, the interpretation cannot challenge that.
The second principle was the principle of finality of Prophet Muhammad (Peace be upon him). That could not be challenged; and so the other cardinal principles but within those forntiers you were free to interpret the way you like, the way you thought was correct. There was no doubt that because of this freedom of interpretation we go divided in many sects, in many 'Firqas' but that also leads to the synthetic character of Islam and that also shows the democratic process. In this regard I will respectfully draw your attention to what Allama Iqbal says about these 'Firqas' 3012and their calling each other 'Kafir'. Sir, I read; this comes from the controversy which was raised at the time when pandit Jawaharlal Nahru, who said something about Ahmadis and Allama Iqbal got into this controversy. So, I will read some passage from Allama Iqbal's reply and what he wrote to "The Statesman" paper. Here he says:
"The idea of finality should not be taken to suggest that the ultimate fate of life is complete displacement of emotion by reason. Such a thing is neither possible nor desirable. The intellectual value of the idea is that it tends to create an independent critical attitude towards mystic experience by generating the belief that personal authority claiming a super- natural origin, has come to an end in the history of mankind. This kind of belief is a psychological force which inhibits the growth of such authority. The function of the idea is to open up fresh vistas of knowledge in the domain of man's inner experience."
Then, again, with reference to Mirza Ghulam Ahmad, Allama Iqbal continues to say:
"The opening sentence clearly shows that a saint in the psycholigical sense of the word or men of saintly character will always appear; whether Mirza Sahib belonged to this category or not is a separate question. Indeed as long as this spiritual capacity of mankind endures, they will rise among all nations and countries in order to show better the ideal of life to man. To hold otherwise would be to fly in the face of human experience. The only difference is that the modern man has a right to critical examination of their mystic experiences. The finality of prophethood means among other things that all personal authority in religious life, denial of which involves damnation, has come to an end."
So, in future, Sir, no one individual will come and say, "I have received divine revelation and this is the message of God and naturally binding on you." The only thing binding is what has already come in the Holy Quran. Then he further says, I quote Allama Iqbal:
3013"The simple Faith of Muhammad (Peace be upon him) is based on two propositions that God is one and Muhammad is the last of the line of those holy men who have appeared from time to time in all countries and in all ages to guide mankind to the right ways of living. If, as some Christian writer thinks, a dogma must be defined as an ultra rational proposition which, for the purpose of securing religious solidarity must be assented to without any understanding of the meta- physical import, then these two simple propositions of Islam cannot be described even as dogmas; for both of them are supported by the experience of mankind and are fairly amenable to rational argument."

(جاری ہے)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جناب یحییٰ بختیار کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پردوسرے دن خطاب) بقیہ
Then Sir, as I submitted with regard to the allegations of 'Kufr' or heresy of different 'Firqas' against each other. He says: "The question of heresy which needs the verdict whether the author of it is within or without the fold, can arise in the case of religious society founded on such simple proposition, only when the heretic rejects both or either of these propositions."
One becomes a 'Kafir', according to Allama Iqbal, if he rejects either of these cardinal principles i.e. Tauheed or the concept of Khatm-i-Nabuwwat and "Since the phenomenon of the kind of heresy which affects the boundaries on Islam has been rare in the history of Islam, the feelings of every Muslim are naturally intense when revolt of this kind arises. This is why the feelings of Muslims in Iran were so intense against the 'Bahais'. That is why the feelings of Indian Muslims are so intense against the Qadianis." I was just explaning why there was sharp reaction against Mirza Sahib's claim. Now, Sir, I will cite one more quotation from Allama Iqbal on this point and then I will proceed with my submissions. On the question of heresy, on the question of calling each other 'Kafir',.....
A Member: It is time for Maghrib prayers.
Mr. Yahya BAkhtiar: I will just read this:
"It is true that mutual accusations of heresy for differences in minor points of law of theology among Muslim religious sects 3014have been rather common. In this indiscriminate use of the word 'Kufr' both for minor theological points of differences as well as for the extreme cases of heresy which involve ex-communication of the heretic, some present- day educated Muslims who possess practically no Knowledge of the history of Muslim theological dispute see a sign of social and political disintegration of the Muslim community. This, however, is entirely wrong notion. The history of Muslim theology shows that mutual accusation of heresy on minor points of differences has, far from working as a disruptive force, actually given impetus to synthetic theological thought."
Then he quotes some European professor Hurgrounje and he says and I quote:
"When we read the history of development of Muhammadan law, we find that, on the one hand the doctors of every age, on the slightest stimulus, condemn one another to the point of mutual accusations of heresy and, on the other hand, the very same people with greater and greater unity of purpose try to reconcile similar quarrels of their predecessors."
The Allama continues: "The student of Muslim theology Knows that among Muslim legalists this kind of heresy is technically known as 'heresy below heresy', i.e. the kind of heresy which does not involve ex-communication of the culprit."
While on this point, Sir, if I am not taxing the Committee too much, I think it will be relevant to read yet another passage of Iqbal because it was stated by Mirza Nasir Ahmad that if you start any action against the Qadianis or Ahmadis, then next you will take action against Shias or the Agha Khanis and other sects. Pandit Jawaharlal Nahru had raised a similar issue. He said, "If you condemn Qadianis that they are not Muslims then you will have to condemn the Agha Khanis also." No better reply can be given by me but to quote Allama Iqbal. On this point also, Sir, if you permit me I will read what he said. He says: 3015"One word about His Highness the Agha Khan. What has led Pandit Jawaharlal Nahru to attack the Agha Khan, it is difficult for me to discover. Perhaps he thinks that the Qadianis and Ismailis fall under the same category. He is obviously not aware that however the theological interpretation of the Ismailis may err, they believe in the basic principles of Islam. It is true that they believe in a perpetual Imamate, but the Imam according to them is not the recipient of divine revelation. He is only the expounder of law. It is only the other day (vide the "Star" of Allahabad, March 12, 1934) His Highness the Agha Khan addressed his followers as follows: "Bear witness that Allah is One, Mohammad is the Prophet of Allah, Quran is the Book of Allah, Ka'aba is the Qibla of all. You are Muslims, and should live with Muslims, Greet Muslims with 'Assalam-o-Alaikum', Give your children Islamic names, pray with Muslim congregations in mosques, keep fast regularly, solemnize your marriages under the Islamic rule of 'Nikah'. Treat all Muslims as your brothers."
Then Allama adds: "It is for Pandit Nehru now to decide whether the Aga Khan represents the solidarity of Islam or not."
Sir, I will conclude this part now because I understand that they want to say....
Madam Acting Chairman: Yes, it is time for Maghrib prayers.
Mr. Yahya Bakhtiar: So I will resume after that.
Madam Acting Chairman: So we will meet at 7:15 pm. The House Committee stands adjourned for Maghrib prayers.
----------
(The Special Committee adjourned for Maghrib prayers to meat at 7:15 pm.)
----------
3016(The Special Committee re-assembled after Maghrib Prayers. Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali) in the Chair.)
----------
Mr. Chairman: Just two minutes; let the members come. If we are able to conclude this debate, Attorney- Generals arguments plus any honourable Member who wants to speak, then we will finish this night, otherwise we will meet tomorrow morning. If something is left over this night then we will meet at 2:30 pm, as Committee of the Whole House, and then at 4:30 pm, we will meet as National Assembly. That has been agreed, and that tomorrow we will decide. Just wait for less than 24 hours. Tomorrow we will assemble at 4:30 pm. as National Assembly.
The passes shall be issued only to the family members of the MNA's because of the position. I hope the Members will not take it ill, and inside the Assembly premises the entry will be regulated strictly, even in cafeteria and everywhere else. Inside Gates No.3 and 4, nobody will be allowed to enter unless he holds a valid pass which will be issued only to the family members and nobody else for tomorrow at 4:30. (Pause)
Mr. Chairman: I am sorry for that. No authority has a right to regulate the entry of the members inside the premises. It was brought to my notice. I am sorry for that. The members will be allowed. Because of the precautionary measures we have to do it.
Yes Mr. Attorney- General. Now we should start.
Mr. Yahya Bakhtiar: Mr. Chairman Sir, ....
Mr. Chairman: I am sorry, I have been going there. I wanted to hear your arguments. For the first time I have closed my chamber also.
Mr. Yahya Bakhtiar: Well, Sir, I was making a submission about Muslim concept of Khatm-e-Nabuwwat or the meaning of Khatimun Nabiyean. And I was submitting that Mirza Ghulam Ahmad had claimed that he was a prophet first of the subordinate 3017kind, i.e. Ummati, then he claimed to be a prophet with his own law, and I submitted that he said that in his revelations there were commandments, there was "Amar-o-Nahi". It is not only that he said it. But even his son Mirza Bashiruddin Mahmood Ahmad also said in his book 'Ahmadiyyat or True Islam' that Mirza Sahib had left a complete code of instructions for his followers. He says, I may read from page:26 of the book: "As I shall presently show he has left us such a complete code of instructions and rules of conduct, that all sensible persons will be bound to admit that by acting on them the objects of his advent, as above stated, can be easily and fully achieved."
Now, Sir, this was the thing. Every Musalman thought that complete code of conduct for life was the Holy Quran for them. Here is another prophet who comes, who appears and claims to be an Ummati Nabi without his own laws and then he leaves the code of conduct for his followers. As I submitted, Sir, then he goes on to claim superiority. I do not want to go into detail. The honourable members heard the evidence. I want just to refer to one or two things from the record. He said that at the time of the Holy Prophet, during that period, the condition of Islam was like moon of the first day; but in the period of Masih-e- Mauood I would be Badr-e- Kamil (full moon). I gave full opportunity, I should say on behalf of the House, to the witness, Mirza Nasir Ahmad, to explain this and, in my humble opinion, he could not. First he said that during the life time of the Holy Prophet, during his period, Islam was confined to Arabia only. Then he changed the posotion. He said, "every period is his period. It will last throughout the history." Then he said that during the life- time of Mirza Ghulam Ahmad Islam had spread to various countries in Europe. But I said that in the time of Masih-e- Mauood it should spread all over the world and there should be no non- Muslims left and that is what Masih-e- Mauood's period was meant to be. On this, he said, "No, that period will last for two to three hundred years. As far as the period of the Holy Prophet is concerned, that is confined to life- time and to Arabia only." These were the contradictions. But such claims were made.
There are other references also. The members have heard them. But one part of the evidence which requires mention was the 3018incident when that 'Qasida' or poem was read in praise of Mirza Ghulam Ahmad, which included the following couplet:
’’محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں
اور آگے سے بھی بڑھ کر اپنی شان میں‘‘
This was, according to the author, read in the presence of Mirza Ghulam Ahmad. Mirza Nasir Ahmad first said it was not read. If he had heard it, he would have disapproved of it and he would have expelled the author of this poem from the Jamaat. Then it was pointed out to him that, in the Qadiani newspaper "Badar" of 1906, this poem had appeared and nobody would be live that Mirza Ghulam Ahmad did not read it. That was his own paper, and that none of his followers or close associates pointed it out to him. Mirza Nasir Ahmad said that in the book containing poems of Akmal, who wrote this, the said couplet was deleted when this book was published in 1910. The Committee may take that into consideration. But we were concerned with the period of Mirza Ghulam Ahmad. In that period, we have no evidence to the effect that he disapproved of it. On the contrary, it was pointed out to him, although he said that, that was contradicted in 1934 in "Al-Fazal" .... that, in 1944, the author himself said that he had recited this in the presence of Mirza Ghulam Ahmad, that he had approved of it, and that he took it with him inside his house. I do not want to say anything more on this, but it shows, although he has tried to explain in a different way that there is another couplet in the poem also wherein he does not claim superiority but I don't want to say anything more. These were the conditions, Sir, under which he claimed the prophethood and how he gradually end slowly promoted himself from one stage to another.
Now, Sir, I will briefly submit as to what Mirza Ghulam Ahmad's or the Qadianis concept of Khatm-e- Nabuwwat and the interpretation of 'Khatimun Nabiyyen' was. Generaly, Muslims thought that no more prophets would come after the holy Prophet of Islam but the Qadiani's concept is that Khatimun Nabiyyen means that no more prophets will come in any religion whatsoever except in Islam and the person who would be the prophet will be an 'Umati' and his authority of prophethood will bear the seal of the holy prophet of Islam. This is what they mean by "the seal of prophets." He will not bring his own law. But, at this stage, it 3019seems, they thought that not only one but many prophets would come and this is how the position is confused, because even Mirza Bashiruddin Mahmood Ahmad, when he speaks on this point, says, and I quote- I read it out to Mirza Nasir Ahmad- this is from the Review of Religion, page:110:
’’اگر میری گردن کے دونوں طرف تلوار رکھ دی جائے اور مجھے کہا جائے کہ تم کہو کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تو میں اسے ضرور کہوں گا کہ تو جھوٹا ہے، کذاب ہے۔ آپ کے بعد نبی آسکتے ہیں ضرور آسکتے ہیں۔‘‘
This is "Anwar-i-Khilafat', pages:62 to 65. Then again he says:
’’یہ بات بالکل روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ بند نہیں ہوا۔‘‘ (حقیقت النبوۃ ص۲۲۸)
Then, again, he says in Anwar-i-Khilafat:
’’انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ خدا کے خزانے ختم ہوگئے۔ ان کایہ سمجھنا خداتعالیٰ کی قدر کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے۔ ورنہ ایک نبی کیا، میں کہتا ہوں کہ ہزاروں نبی ہوں گے۔‘‘
On this, when it was pointed out to Mirza Nasir Ahmad, he said that this "is in the sense of possibilities that Allah can do anything." They did not mean that many Nabis would come, but only one Mirza Ghulam Ahmad. Another aspect which may not be directly relevant is that here is Mirza Ghulam Ahmad's son who says this and boldly says:
’’اگر میری گردن کے دونوں طرف تلوار بھی رکھ دی جائے اور مجھے کہا جائے کہ تم کہو کہ آنحضرت ﷺ کے بعد نبی نہیں آئے گا تو میں اسے ضرور کہوں گا کہ تم جھوٹے ہو، کذاب ہو۔ اس کے بعد نبی آسکتے ہیں اور ضرور آسکتے ہیں۔‘‘
----------
(At this stage Mr. Chairman vacated the Chair which was occupied by Mr. Mohammad Haneef Khan)
----------
3020Mr. Yahya Bakhtiar: Sir, This is a very bold statement, a very courageous statement, by the son of a person who claimed to be a prophet. But when you compare it with the conduct of the prophet himself, one is amazed. In the District court of Gurdaspur, a complaint was filed against him i.e. Mirza Ghulam Ahmad. He had porphesied or predicted something against somebody who told the court that this man should be stopped from making such predictions, and he gave it in writing to the court that in future he would not make predictions, or disclose such revelations that he might receive. Now here is the prophet of God! He stopped the relevation under the orders of the District Magistrate, and his son says this.
Now, Sir, we found the same thing in the annexure which was filed on behalf of Rabwa Jamaat, namely, that more prophets will come. And this is a book written by Maulvi Abu Ata Jalandhari, and I had read out page:8 from this end pointed out to Mirza Nasir Ahmad in which he said:
’’خاتمیت محمدیہ یا آنحضرت ﷺ کو خاتم النّبیین ماننے والوں کے دو نظریے ہیں۔ پہلا نظریہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی خاتمیت نے دیگر انبیاء کے فیوض کو بند کر کے فیضان محمدی کا دروازہ کھول دیا ہے۔ آپ ﷺ کی امت کو آپ ﷺ کی پیروی کے طفیل وہ تمام انعامات ممکن الحصول ہیں جو پہلے منعم علیہم کو ملتے رہے ہیں۔ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد خاتمیت فیضان محمدی کے بند ہونے کے مترادف ہے۔ آپ ﷺ کی امت ان تمام اعلیٰ انعامات سے محروم ہو گئی جو بنی اسرائیل اور پہلی امتوں کو ملتے رہے ہیں۔‘‘
I pointed out this writing to him and he said that it had thing do with the prophets or their coming, although the book was written on the subject. But, in any case, on the one hand this stand is taken that more prophets will come, and they try to rationalise this by saying that this is a sensible idea, but on the other hand they say that Mirza Ghulam Ahmad was the only prophet who would come.
Sir, as I submitted, the second issue was the effect of Mirza Ghulam Ahmad's claim as a prophet in Islam or in relation to 3021Muslims. After he made this claim, there were naturally the Muslim's feelings; the Muslims thought that any person who claims to be Prophet after the Holy Prophet of Islam is an impostor. That was a natural reaction, the natural understanding, that he wanted to subvert their social and religious system. According to the Muslims, he had revolted against the cardinal principles of Islam, one of the most cardinal principles, that of he had struck at the root of that principle end there was ختم نبوت naturally a very sharp reaction.
Now, Sir, before I go into the details of the effect, I will point out very briefly as to what happened when he claimed this and how he could go round and address meetings. This will also show, Sir, another aspect of Mirza Sahib's claim about Prophethood, because there is some confusion. I said there were three stages, one stage, second stage, third stage, but sometimes we find that a statement appeared in the third stage which is similar to that which should have been in the first stage when he denies completely that he never made such a claim and that he meant this and not that. The reason, I believe, was that wherever the opposition was very strong and hostile, whenever he found himself to be in a tight corner, he changed the position. Later on, again he tried to rectify it in a very diplomatic and tactful way of proclaiming his religion and the Prophethood. So, Sir, in 1891, he goes to Delhi after he claimed to be a Prophet, and here I read from his son's (Mirza Bashiruddin Mahmood Ahmad's) book "Ahmad or the Messenger of the Later Days", pages:32,33 and 34. I just want to show, Sir, I will try to be as brief as possible, but it is important to show what happened to explain what I would be submitting later on:
"The Juma Mosque was fixed as the place of discussion. But all these arrangements were settled by the opponents themselves, and no information was given to Ahmad. When the time fixed for the discussion arrived, Hakim Abdul Mejid Khan of Delhi came with a carriage and requested the Promised Messiah to proceed to the mosque where the discussion was to be held. The Latter answered that in the prevailing state of Public excitement there was likelihood of a breach of the peace, and that therefore he could not go unless police arrangements were made, and that more over he should have been previously consulted regarding the discussion, and 3022the conditions to be observed by the parties in the debate should have been previously settled. His non- appearance served to increase the public excitement. He, therefore, issued a declaration to the effect that if Moulvi Nazir Hussain of Delhi would take an oath publicly in the Juma Mosque stating that Jesus (peace be upon him), according to the version of the Holy
Quran, was still alive and had not met with his death, and if within one year of taking the oath Divine punishment should overtake him, then the claimant should be proved a liar and should burn all his books. He also fixed a date for the oath- taking. The disciples of Moulvi Nazir Hussain were much perturbed at the proposal and began to set up obstacles in its way. But the populace were insistent. What harm was there, they asked, if Moulvi Nazir Hussain should hear the proposition of the claimant and swear that the same was false. A great crowd assembled in the Juma Mosque. People advised the Promised Messiah not to go to the Mosque as there was likelihood of a serious riot. But nevertheless he went there and with him there went twelve of his disciples. (Jesus of Nazareth had also His twelve disciples. The conincidence of number was itself a sign.) (Now mark, Sir, in the brackets, he says). The spacious edifice of the Juma Mosque was full of men both inside and out, and even the stairs were crowded. Through this sea of men who were mad with rage and looked at him with bloody eyes, the Promised Messiah and his little band made their way to the Mehrab and took their seats. For the order there had come the Superintendent of Police with other police Officers and nearly one hundred constables. Many of the crowd had stones concealed in their skirts and were prepared at the slightest hint to cast them at Ahmad and his party. Thus would the Second Messiah have been a prey to the wickedness of the Pharisees and Scribes the like unto his prototype of Nazareth. Instead of crucifixion the people were bent upon stoning the Second Messiah. They failed to carry their point in the verbal discussion which followed. They did not agree to discuss the question of the death of Jesus. None of them were prepared to take the proposed oath nor would they allow Moulvi Nazir Hussain to do so. At this stage Khawaja Mohammad Yousuff, a Pleader of Aligarh, got from the Promised Messiah a written statement of the articles of his faith, and prepared to read out 3023the same. But since the Moulvis had given out to the public that the claimant did neither believe in the Holy Quran nor in the angels, nor in the Holy Prophet, they apprehended that the recital of the articles would expose their deceit. They therefore incited the people. Immediately a great row was set up and Khawaja Yusuff was prevented from reading the statement. The officers of police, when they saw the gravity of the situation, ordered the constables to disperse the crowd, and announced that no discussion would be held. The gathering thereupon dispersed. The police made a ring round the Promised Messiah and led him out of the Mosque."
Now, Sir, my object in reading this in detail is two- fold, and I will be reading some more citations. First of all, what he said, what he gave in writing at that time when he was faced with the hostile crowd is in the following words. It is on October 23, 1891. I quote:
’’ان تمام امور میں میرا وہی مذہب ہے جو دیگر اہل سنت والجماعت کا ہے۔ اب میں مفصلہ ذیل امور کا مسلمانوں کے سامنے صاف صاف اقرار اس خانہ خدا جامعہ مسجد دہلی میں کرتا ہوں اور میں خاتم الانبیاء کی ختم نبوت کا قائل ہوں اور جو شخص نبوت کا منکر ہو اس کو بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں۔‘‘
Now, Sir, the other aspect was that he could only preach or explain his stand as a Prophet under a heavy police guard and not otherwise. Again, Sir, I have been asking these questions. At one stage when with one abdul Hakim of Kalanor he discussed the matter about his claim and when he found that the Muslims were very much annoyed with him, he after that announced that he had through his simplicity (سادگی) written the word "Nabi" about himself. That actually he meant ’’محدث‘‘ and the Muslims, wherever they found this word in his writings, should amend it, cancel it and substitute the word ’’محدث‘‘ for ’’نبی‘‘ and yet we find that after that he again went on writing the word 'Nabi' for himself, and no plausible explanation was given. I asked certain questions on this point from the Lahori Group because that was more relevant in their case. In that context, first of all, it was said that because people misunderstood, he did not mean to be a Nabi, he did not say that he was a Nabi in the real sense, he was a "Mohdis", as the Lahori group says, therefore, he issued this order that the word 'Nabi' 3024about him should be deemed to have been cancelled. And when I asked as to why did he again write 'Nabi' for himself and why did he use this word, the spokesman of the group said, some people were confused and for their sake he amended this but some had no doubt and for their sake he continued to write the word. Again I asked him that when he himself says that he is a Nabi, in whatever sense it is, why don't you call him Nabi in that particular sense, in which you mean that "Nabi" means a "Chair Nabi", as the Rabwah Jamaat was calling Nabi in some sense? I was really shocked to hear that the Lahori Group did not use the word 'Nabi' for him because the people got annoyed. So, it was expediency more than anything else. Why did they not use the word "Nabi", the Lahori Group, the reason is given. So, Sir, I was just saying that sometimes within these three stages, he is changing statements depending on circumstances.
.
(جاری ہے)
 
Top