• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قومی اسمبلی میں ہونے والی اکیس دن کی مکمل کاروائی

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزا صاحب کا غرور اور تکبر)
1649جناب یحییٰ بختیار: ایک نبی ہے عیسیٰ، اور اُس کے متعلق کہہ رہے ہیں کہ:
’’عیسیٰ کجاست تا بنہد پابمنبرم‘‘
یعنی اتنا Arrogance (تکبر)، اتنا غرور کیا ایک بندہ کرتا ہے؟ آپ اس کا جواب دیجئے، آپ یہ کہیں گے کہ جی وہ تو فوت ہوچکے ہیں؟ کیا آنحضرت فوت نہیں ہوچکے؟
جناب عبدالمنان عمر: میں اُن کا عقیدہ پیش کر رہا ہوں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں جی، اُن کے عقیدے کی بات نہیں ہے۔
جناب عبدالمنان عمر: وہ تو اپنے عقیدے کے مطابق۔۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ہمارا تو عقیدہ ہے کہ وہ زندہ ہیں۔ آپ اپنا عقیدہ کہہ رہے ہیں کہ وہ فوت ہوچکے ہیں۔ میں یہ کہتا ہوں کہ آپ کے عقیدے کے مطابق آنحضرت (ﷺ) بھی فوت ہوچکے ہیں۔ مگر اُس کا یہ مطلب نہیں کہ اُن کا پیغام نہیں رہا، اُن کا Status (رُتبہ) نہیں رہا، وہ زندہ نبی نہیں ہیں۔
جناب عبدالمنان عمر: یہ فرق ہے۔ یہی ہمارا موقف ہے کہ محمد رسول اللہﷺ کو ہم زندہ نبی ان معنوں میں سمجھتے ہیں کہ اُن کا مقام اور اُن کا پیغام جو ہے وہ قیامت تک چلنے والا ہے۔ مسیح کے پیغام کو ہم یہ مقام نہیں دیتے باوجود اس کے کہ۔۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: جہاں تک آنحضرت (ﷺ) کے پیغام کا تعلق ہے، آپ دُرست فرماتے ہیں۔ جہاں تک مسیح کا تعلق ہے مرزا غلام احمد صاحب کے ساتھ، مرزا غلام احمد صاحب ایک انسان ہیں، نبی نہیں ہیں۔ بڑے نیک انسان ہوں گے آپ کے نقطئہ نگاہ سے، محدث ہیں، مجدد ہیں اور آپ خود کہتے ہیں کہ ایک نبی کے Status (رُتبہ) کا نہیں ہوتا
جناب عبدالمنان عمر: بالکل۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(وہ نبی کون جو میرے منبرپر قدم رکھ سکے؟)
جناب یحییٰ بختیار: اور وہ کہتا ہے کہ: ’’وہ نبی کون جو میرے منبر پر آکر قدم رکھ سکے‘‘ اس کی کیا وجہ ہے؟
1650جناب عبدالمنان عمر: وہ میں نے عرض کیا ناں کہ وہ بیان یہ کر رہے ہیں مضمون کہ: ’’میرے عقیدے کی رُو سے مسیح فوت ہوچکا ہے۔ اب یہ جو منبر محمد رسول اللہﷺ کی خدمت کے لئے اور آپ کے مقام کی اِشاعت کے لئے دُنیا میں قائم کیا گیا ہے، وہ اس جگہ نہیں آسکتا، فوت شدہ شخص نہیں آسکتا۔‘‘ یہ ہے مضمون اس کا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(میں عرفان میں کسی سے کم نہیں ہوں)
جناب یحییٰ بختیار: اچھاجی، یہ تو فوت ہوچکے ہیں۔ ابھی آگے سنئے آپ، آپ ذرا توجہ سے:
’’انبیاء گرچہ بود اند بسے
من بہ عرفان نہ کمترم زکسے‘‘

(نزول المسیح ص۹۹، خزائن ج۱۸ ص۴۷۷)
تو اَب جتنے بھی انبیاء ہیں، وہ کہتے ہیں، بہت گزرچکے ہیں، مگر ’’عرفان میں، میں کسی سے کم نہیں ہوں۔‘‘ کیا ایک محدث کہتا ہے یہ یا کوئی نبی کہہ رہا ہے یہ؟ اور مقابلہ کیوں وہ نبیوں سے کر رہا ہے؟ محدث جو ہے، مجھے یہ بتائیے کہ باربار …… میں حوالوں پر بعد میں آؤں گا، اس وقت تو آپ سے صرف یہ عرض کررہا ہوں کہ ایک شخص محدث ہے، ایک شخص آنحضرت (ﷺ) کی جوتیوں میں بیٹھنے والا ہے، خود ہی یہ کہتا ہے کہ: ’’میں ان کا غلام ہوں‘‘ انبیاء کو سب مانتا ہے، مگر جب بھی اپنا مقابلہ کرتا ہے تو کسی ایک نبی کو گھسیٹ لیتا ہے، یا کسی اور کو، یا سب کو اکٹھا کرکے۔ ’’یہ سب میرا مقابلہ نہیں کرسکتے!‘‘ تو یہ بتائیے کہ یہ Comparison (مقابلہ) جب تک کہ خود اس کا دعویٰ نبوّت کا نہ ہو، وہ کیونکر کرتا ہے؟
جناب عبدالمنان عمر: میں گزارش یہ کروں گا کہ کلام ہر شخص کے… اور خود قرآنِ مجید کا اندازِ بیان یہی ہے… کہ اُس میں کچھ محکمات ہوتے ہیں، کچھ متشابہات ہوتے ہیں، جو اُس شخص کا ایک ایسا… جب کسی شخص کے کلام کی آپ تشریح یا توضیح کرنا چاہتے ہیں تو اُس نے جو محکم باتیں کی ہوئی ہیں، مضبوط اُس کا موقف ہے، اُس سے ہٹ کر نہیں کرسکتے آپ بات۔ آپ نے ہماری گزارشات کو سنا ہوگا۔ ہم اِس کو بڑے 1651زور سے مرزا صاحب کے بیانات کو پیش کرتے ہیں کہ مرزا صاحب نے کہا ہے کہ:
’’میں ہرگز مدعیٔ نبوّت نہیں ہوں، میں مدعیٔ نبوّت کو کافر وکاذب جانتا ہوں۔ میرے نزدیک آنحضرتﷺ کے بعد اگر کوئی شخص ایک فقرہ کے متعلق یہ کہہ دے کہ جبرائیل وحی نبوّت لے کر میرے پاس آیا ہے، وہ کافر ہوجاتا ہے۔‘‘
اور مسجد میں کھڑے ہوکر، دو دفعہ خانۂ خدا میں کھڑے ہوکر، وہ شخص بڑے زور کی قسمیں کھاتا ہے کہ: ’’میں نبی نہیں ہوں!‘‘ اُس کے بعد اُس کے کچھ شعروں کو پیش کرکے، اُس کے کلام کے کچھ حصوں کو پیش کرکے، اُس کے کلام کے کچھ حصوں کو لے کر، جہاں اُس نے ہزارہا دفعہ اپنی نبوّت۔۔۔۔۔۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزا صاحب نے کہیں کچھ کہا، کہیں کچھ کہا)
جناب یحییٰ بختیار: دیکھیں مرزا صاحب! Sorry (مجھے افسوس ہے) صاحبزادہ صاحب! بات یہ ہے کہ اب اسمبلی کے لئے بڑا مشکل مسئلہ ہے۔ ایک جماعت ہے جو کہتی ہے کہ مرزا صاحب نبی تھے۔ اُمتی نبی ہوں، ناقص نبی سمجھیں، کسی خاص کیٹگری کا سمجھیں۔ آپ کہتے ہیں وہ نہیں تھے۔ حوالے اتنے ہی مرزا صاحب کے کہیں انہوں نے کچھ کہا ہے، کہیں کچھ کہا ہے۔ یہ پوزیشن ہم نے Clear (صاف) کرنی ہے۔ آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔ اُن کی بھی مدد کی ضرورت تھی۔ تو اِن حالات میں آپ کہہ رہے ہیں کہ وہ سو دفعہ کہہ چکا ہے کہ وہ نبی نہیں، ہزار دفعہ کہہ چکا ہے کہ: ’’میں نبی نہیں ہوں!‘‘ تو یہ مشکل آجاتی ہے۔ اس لئے ہم پوچھتے ہیں کہ جو آدمی اتنی دفعہ کہہ چکا ہے کہ وہ نبی ہے، اتنی دفعہ کہہ چکا ہے کہ وہ نبی نہیں ہے، تو اُن میں پھر یہ Evidence (شہادت) آتی ہے کہ جب وہ شعر کہتا ہے، باربار کہتا ہے، اور اپنے Status (رُتبے) کو سب سے بڑا کہتا ہے، تو اُس کے لئے میں آپ سے عرض کر رہا تھا کہ یہ جو وہ کہہ رہا ہے:
’’انبیاء گرچہ بود اند بسے
من بہ عرفاں نہ کمترم زکسے‘‘

1652یہ اتنا بڑا دعویٰ ہے کہ ایک محدث کیسے کرسکتا ہے؟ پھر آگے آپ سنئے:
’’آنچہ داد است ہر نبی را جام
داد آں جام را مرا بہ تمام‘‘

(نزول المسیح ص۹۹، خزائن ج۱۸ ص۴۷۷)
یعنی ’’سارے نبیوں کو جو جام ملا، مجھے اُن سب سے زیادہ بھر کے جام دیا گیا۔‘‘ یہ اگر دعویٰ دیکھیں، پھر یہ آپ کہتے ہیں کہ وہ محدث ہے۔
جناب عبدالمنان عمر: سوال یہ کیا گیا ہے کہ مرزاصاحب نے کسی جگہ کہہ دیا ہے کہ: ’’میں نبی ہوں‘‘ اور کسی جگہ کہہ دیا: ’’میں نبی نہیں ہوں‘‘ اِس کے متعلق ایک بڑا Simple (آسان)، سادہ سا ایک اُصول میں پیش کرتا ہوں، جس سے یہ ساری مشکل حل ہوجائے گی۔ میں نے عرض کیا تھا کہ ’’نبی‘‘ کا لفظ جو ہے، ایک اُس کا حقیقی اِستعمال ہے، ایک اُس کا مجازی اِستعمال ہے۔ مرزا صاحب کی تمام تر تحریرات کو آپ اِس فارمولے کی روشنی میں دیکھیں گے تو آپ کو کوئی اِختلاف نظر نہیں آئے گا۔ جس جس جگہ انہوں نے نبوّت یا رِسالت سے اِنکار کیا ہے، اِن معنوں میں کیا ہے کہ وہ گویا کوئی نئی شریعت لانے والے نہیں ہیں۔ ان معنوں میں کیا ہے کہ اُن کو جو کچھ بھی مقام ملا ہے وہ محمد مصطفیa کی غلامی میں نہیں ملا، بلکہ براہِ راست ملا ہے۔ یہ اِنکار کرتے ہیں بالکل۔ وہ کسی شریعتِ سابقہ یعنی قرآن مجید کے ایک شوشے کو بھی منسوخ نہیں کرسکتے۔ یہ ہے تمام تحریرات کا خلاصہ جس میں انہوں نے کہا ہے کہ: ’’میں نبی ہوں‘‘ کبھی وہ مجازی معنوں میں جو حقیقی نہیں ہوتے ہیں، جس طرح میں نے عرض کیا تھا کہ ’’شیر‘‘ ایک بہادر کو آپ ’’شیر‘‘ کہتے ہیں، اُسی طرح مرزا صاحب نے صرف مکاملہ مخاطبہ اِلٰہیہ کے لئے یہ لفظ اِستعمال کیا۔ اِنکار اِن معنوں میں ہے کہ: ’’میں کوئی شریعت نہیں لایا۔‘‘ اِنکار اِن معنوں میں ہے کہ گویا: ’’مجھے محمد رسول اللہa سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ اِنکار اِن معنوں میں ہے کہ: ’’میں قرآن کا کوئی شوشہ بھی منسوخ نہیں کرسکتا۔‘‘ لیکن اِقرار صرف اِن معنوں میں ہے کہ: ’’خداتعالیٰ مجھ سے بولتا ہے اور مجھ سے ہم کلام ہوتا ہے۔‘‘
1653جناب یحییٰ بختیار: اور ’’اُس معنی میں، میں نبی ہوں‘‘؟
جناب عبدالمنان عمر: نہیں، جناب! وہ معنی نہیں ہے، ’’نبی‘‘ کا کوئی، وہ اُس کا مجازی اِستعمال ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: مجازی اِستعمال سہی، بروزی سہی، ظلّی سہی۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: وہ قسم نہیں ہے نبوّت کی۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ قسم نہیں سہی۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ مگر وہ اُس طریقے سے ’’نبی‘‘ اُس کو کہتے ہیں آپ؟
جناب عبدالمنان عمر: بمعنی ۔۔۔۔۔۔ آپ اُس جگہ ’’نبی‘‘ کے لفظ کی بجائے لکھا دیں ’’مکالمہ مخاطبہ اِلٰہیہ‘‘ اور یہ خود مرزا صاحب نے کہا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزا صاحب نے کہا کہ مسلمان اس وقت سے ناراض ہیں جب میں نے اپنے لئے نبی کا لفظ استعمال کیا)
جناب یحییٰ بختیار: اچھا، یہ بتائیے کہ کیا مرزا صاحب نے کسی وقت یہ کہا تھا کہ: ’’بعض مسلمان اِس وقت سے ناراض ہیں کہ میرے متعلق ’’نبی‘‘ کا لفظ میں نے اپنے آپ کے متعلق اِستعمال کیا ہے‘‘؟
جناب عبدالمنان عمر: ہاںجی۔
جناب یحییٰ بختیار: جب عبدالحکیم کلانوری کی اس سے بحث ہوئی۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: فرمایا کہ: ’’اِس کو بے شک کاٹا ہوا سمجھیں۔‘‘
جناب یحییٰ بختیار: ’’کاٹا ہوا سمجھیں‘ تردید شدہ؟
جناب عبدالمنان عمر: جی۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزا صاحب نے کہا کہ نبی کا لفظ کاٹا ہوا سمجھیں، اس کے باوجود اپنے لئے نبی اور رسول کا لفظ کیوں استعمال کیا؟)
جناب یحییٰ بختیار: اُس کے بعد پھر مرزا صاحب نے یہ لفظ اِستعمال کیا کہ نہیں، اپنے متعلق، اور کیوں؟ آپ بتائیے یہ کہ ایک آدمی جو ہوتا ہے محدث، ایک اچھے آدمی 1654کی، ایک نیک آدمی کی، ایک پارسا آدمی کی، ایک بڑے آدمی کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ صاف بات کرتا ہے، Confuse (خلط ملط) نہیں کرتا کہ Confound (گڑبڑ) نہیں کرتا۔ آپ یہ دیکھئے کہ: ’’ہاں، مجھ سے غلطی ہوگئی، سادگی سے ہوا۔ اِس لئے اب یہ لفظ جو اِستعمال ہوا ہے، مسلمانوں کو دُکھ ہوا ہے، غلط فہمی پیدا ہوئی ہے، آئندہ کے لئے ترمیم شدہ سمجھیں۔‘‘
یہ بات ختم ہونے کے بعد پھر وہی ’’نبی‘‘ کا لفظ، پھر وہی ’’رسول‘‘ کا لفظ، یہ آپ بتائیے کیوں؟
جناب عبدالمنان عمر: جنابِ عالی! یہ مرزا صاحب نے یہ لکھا ہے کہ: ’’میں بوجہ مأمور ہونے کے اس لفظ کو چھپا نہیں سکتا ہوں۔‘‘ دیکھئے! اُس شخص کی عظمت دیکھئے، وہ کہتا ہے کہ:
’’میں بوجہ مأمور ہونے کے اس لفظ کو چھپا نہیں سکتا ہوں۔ مگر کیونکہ اب آپ لوگ اس کے کچھ اور معنی سمجھتے ہیں اور وہ معنی مجھ میں نہیں پائے جاتے اس لئے میں آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ آپ اس کو ترمیم شدہ سمجھ لیں۔ اس کو کاٹا ہوا سمجھ لیں۔ اُس کی بجائے ’’محدث‘‘ کا لفظ سمجھیں۔ مفہوم اُس کا جو ہے وہ محدثیت ہی کا رہے گا۔‘‘
یہ فرمائیے کہ اس کے بعد اگر کبھی مرزا صاحب نے اِستعمال کیا تو آیا محدثیت کے علاوہ کسی معنوں میں اِستعال کیا؟ ہرگز نہیں کیا، کبھی نہیں کیا۔
جناب یحییٰ بختیار: اب یہ فرمائیے، وہ کہتے ہیں کہ: ’’محدث ہوں، اور محدث کے معنوں میں ’’نبی‘‘ میں اپنے لئے لفظ اِستعمال کرتا رہا ہوں اور کرتا رہوں گا۔‘‘ جیسی بھی پوزیشن تھی۔ تو اگر کوئی آدمی اِنکار کرتا ہے اس لفظ کے اِستعمال سے کہ: ’’میں نبی نہیں ہوں‘‘ جس قسم کا نبی آپ اپنے آپ کو کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔
1655جناب عبدالمنان عمر: میں عرض کروں گا کہ کسی قسم کا نبی نہیں کہتے اپنے آپ کو۔
جناب یحییٰ بختیار: یعنی جو لفظ وہ اِستعمال کرتے ہیں۔
جناب عبدالمنان عمر: تمام پُرانے اولیاء اس لفظ کو اِستعمال کرتے ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: جب کسی اولیاء نے یہ لفظ اِستعمال کیا اور کسی نے کہا کہ ہم آپ کو نہیں مانتے، تو وہ کافر تو نہیں ہوجاتا؟
جناب عبدالمنان عمر: نہ مرزا صاحب کے نہ ماننے کی وجہ سے کوئی کافر ہوجاتا ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزا صاحب کو نہ ماننے والا کافر نہیں ہوتا)
جناب یحییٰ بختیار: اور کسی قسم کا بھی کافر نہیں ہوجاتا؟
جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں، یہ نہیں کہا۔
جناب یحییٰ بختیار: آپ تو دو قسم کے کافر کہتے ہیں۔
جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں؟ یہ نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: آپ تو دو قسم کے کافر کہتے ہیں۔ ایک گناہگار ’’کافر‘‘ کے معنوں میں۔ پکا گنہگار بھی ہوجاتا ہے وہ جو مرزا صاحب کو محدث نہ مانے؟
جناب عبدالمنان عمر: ہاں گنہگار ضرور ہوجاتا ہے وہ، مگر کافر نہیں ہوتا، دائرۂ اسلام سے خارج نہیں ہوجاتا، وہ اس قسم کے گناہ کا مرتکب نہیں ہوتا جس سے ہم اُس کو اُمتِ محمدیہ سے خارج کردیں۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ذرا ٹھہرئیے۔
جناب عبدالمنان عمر: ۔۔۔۔۔۔ یہ ایسا ہی گناہ ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جو مسیح موعود کو نہیں مانتا وہ کافر؟)
جناب یحییٰ بختیار: ’’کفر کی دو قسمیں ہیں۔ اوّل ایک یہ کفر کہ ایک شخص اسلام سے ہی اِنکار کرتا ہے۔۔۔۔۔۔‘‘
آپ ذرا سن لیجئے، میں ’’حقیقۃالوحی‘‘ سے پڑھ رہا ہوں، پھر آپ کو حوالہ دے دیتا ہوں:
1656’’۔۔۔۔۔۔اوّل، ایک یہ کفر کہ ایک شخص اِسلام سے ہی اِنکار کرتا ہے اور آنحضرتﷺ کو خدا کا سول نہیں مانتا۔ دوم، دُوسرے یہ کفر کہ مثلاً وہ مسیحِ موعود کو نہیں مانتا اور اس کو باوجود اِتمامِ حجت کے جھوٹا جانتا ہے، جس کے ماننے اور سچا جاننے کے بارے میں خدا اور رسول نے تاکید کی ہے، اور پہلے نبیوں کی کتابوں میں بھی تاکید پائی جاتی ہے۔ پس اس لئے کہ وہ خدا اور رسول کے فرمان کا منکر ہے، غور سے دیکھا جائے تو دونوں قسم کے کفر ایک ہی قسم کے کفر میں داخل ہیں۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۷۹، خزائن ج۲۲ ص۱۸۵)
جناب عبدالمنان عمر: آگے بھی ذرا اگر آپ کے پاس ہے تو پڑھ دیجئے۔
جناب یحییٰ بختیار: ’’۔۔۔۔۔۔ کیونکہ جو شخص باوجود شناخت کرلینے کے خدا اور۔۔۔۔۔۔‘‘
اور آگے تو نہیں ہے، مگر یہ بڑا Clear (صاف) ہے۔
جناب عبدالمنان عمر: آگے میں پڑھ دُوں گا تو آپ کو واضح ہوجائے گا۔
جناب یحییٰ بختیار: یعنی اس کے بعد، اس سے آگے کیا ضرورت ہے؟ صفحہ۱۸۵۔
جناب عبدالمنان عمر: یہ نکالتے ہیں حوالہ۔ میں عرض کرتا ہوں، اُسی جگہ، اُس کے آگے مرزا صاحب فرماتے ہیں، فرماتے ہیں: ’’میں اب بھی کسی کلمہ گو کو کافر نہیں کہتا ہوں۔‘‘
دیکھ لیا، اب واضح ہوگیا۔ شروع میں بھی کہتے ہیں کہ ’’کفر کی دو قسمیں ہیں‘‘ اَخیر میں بھی کہتے ہیں…
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ ’’دونوں میں فرق بھی نہیں ہے۔‘‘
جناب عبدالمنان عمر: جی؟
1657جناب یحییٰ بختیار: ابھی آپ دیکھ لیجئے۔ میں ذرا عرض کرتا ہوں۔ میں ذرا موٹے دماغ کا آدمی ہوں، اور میں نے یہ کتابیں پڑھی نہیں ہیں، اور مجھے سمجھ نہیں آتی اور میں آپ سے…
جناب عبدالمنان عمر: میں کوشش کروں گا کہ میں خدمت کرسکوں۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ میں Clarifications چاہتا ہوں۔ مرزا صاحب کہتے ہیں، جہاں تک میں سمجھ سکا، کہ:
’’کفر کی دو قسمیں ہیں۔ ایک تو وہ جو آنحضرتﷺ کو نہیں مانتا۔‘‘ ایک وہ کافر ہوا جو آنحضرتﷺ کو نہیں مانتا، وہ تو کافر ہوگیا۔ ’’دُوسرا وہ جو مسیحِ موعود کو نہیں مانتا۔‘‘
وہ بھی کافر ہے۔ کیوں کافر ہے؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اس کو مانو، خدا اور رسول نے کہا کہ اس کو مانو اور خدا اور رسول کے حکم سے اِنکار کر رہا ہے، وہ بھی کافر ہے۔ تو دراصل دونوں کفر ایک قسم کے ہوگئے۔
اور اس کے بعد پھر کہتے ہیں کہ نہیں، اس کو کچھ تھوڑا سا Concession دے دو، اب یہ کہہ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں، یہ نہیں ہم کہہ رہے، ہم یہ عرض کر رہے ہیں کہ مرزا صاحب کی اپنی عبارت کہہ رہی ہے کہ کفر کی دو قسمیں ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ بنیادی طور پر وہ کفر کی دو قسمیں بتارہے ہیں۔ اُس سے کوئی شخص اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ شاید دُوسری قسم کا جو کفر ہے اُس کے نتیجے میں کوئی مؤاخذہ نہیں ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں نہیں، یہ دیکھیں ناں، یہ جو ہے، پھر آگے فرماتے ہیں:
’’جو خدا اور رسول کے فرمان کا منکر ہے، کافر ہے۔‘‘ غور سے دیکھا جائے تو یہ دونوں قسم کے کفر ایک ہی قسم میں داخل ہیں۔
1658جناب عبدالمنان عمر: معلوم ہوا، ہیں تو دو ہیں، دونوں کو بھی قائم رکھنا پڑے گا۔
جناب یحییٰ بختیار: نتیجہ اُن کا ایک ہی ہوجائے گا۔
جناب عبدالمنان عمر: نتیجہ حصوں میں ایک ہوجائے گا۔ اب میں اُس کے متعلق عرض کرتا ہوں…
جناب یحییٰ بختیار: ’’چونکہ جو شخص باوجود شناخت کرلینے کے خدا اور رسول کے حکم کو نہیں مانتا اور بموجب قرآن اور حدیث کے خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا، اس میں شک نہیں کہ جس پر اللہ تعالیٰ کے نزدیک اوّل قسم کفر یا دُوسری قسم کفر کی نسبت اِتمامِ حجت ہوچکا ہے، وہ قیامت کے دن مؤاخذہ کے لائق ہوگا۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۸۰، خزائن ج۲۲ ص۱۸۶)
جناب عبدالمنان عمر: اب دیکھئے کہ وہاں شروع میں ہی آپ فرماتے ہیں کہ کفر کی دو قسمیں ہیں۔ یہ Stand جو میں پہلے آپ کی خدمت میں پیش کیا تھا کہ کفر کی دو قسمیں ہیں، مرزا صاحب اس کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔ اس کے بعد ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دُوسری قسم کے کفر کے نتیجے میں مؤاخذہ کوئی نہیں ہوگا؟ تو وہ ایک فضول سا کام ہے؟ بے شک کرتا رہے کوئی شخص؟ اُس کے لئے فرمایا کہ نہیں، اُس کے لئے مؤاخذہ ضرور ہوگا، اور مؤاخذہ کے لحاظ سے دونوں کفر جو ہیں وہ ایک کیٹگری میں آجائیں گے۔ یہ ہے نتیجہ جو اس سے نکالا ہے۔ چنانچہ عبارت میں عرض کردیتا ہوں: ’’ایک کفر یہ ہے کہ ایک شخص اسلام سے ہی اِنکار کرتا ہے اور آنحضرتﷺ کو خدا کا رسول نہیں مانتا۔‘‘
یہ ایک اصلی کفر ہے جس کے متعلق میں پہلے عرض کرچکا ہوں۔ دُوسرا یہ کفر جس کی پھر مثالیں دے رہے ہیں، مثلاً یعنی دُوسرا کفر ایک اُس سے Low (کم) درجہ کا ہے، اس کی ایک مثال دیتے ہیں:
1659’’دُوسرے یہ کفر کہ مثلاً وہ مسیحِ موعود کو نہیں مانتا، اور اُس کو باوجود اِتمامِ حجت کے، باوجود یہ سمجھ جائے کہ یہ شخص سچی بات کر رہا ہے، وہ پھر اُس کو جھوٹا جانتا ہے۔۔۔۔۔۔‘‘
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(اتمام حجت کا مطلب)

جناب یحییٰ بختیار: آپ، ایک منٹ، مرزا صاحب! ’’اِتمامِ حجت کے بعد‘‘ اُس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سچی بات کر رہا ہے؟
جناب عبدالمنان عمر: ’’اِتمامِ حجت‘‘ کا مطلب ہے کہ جو اُس نے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔بیان کیا۔
جناب عبدالمنان عمر: ۔۔۔۔۔۔ بیان کیا اور اُس اگلے شخص کو اتنا مواد دے دیا کہ وہ اُس کی صداقت کو سمجھ جائے۔ ورنہ نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: اُس کو یہ سارا Material دے دیا، اُس کو سارے Arguments (دلائل) دے دئیے۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: ۔۔۔۔۔۔ اور وہ اب یہ یقین کرلیا اُس نے کہ یہ سچا ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جب ایک وکیل ایک عدالت میں پوری بحث کرجاتا ہے، اُس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اُس نے سچ کہہ دیا؟
جناب عبدالمنان عمر: نہ ’’اِتمامِ حجت‘‘ کے یہ معنی نہیں ہیں جو آپ نے فرمایا۔ ’’اِتمامِ حجت‘‘ یہ ہے کہ اُس نے جو دلائل دئیے ہیں۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ وہ سب پورے دے دئیے ہیں۔
جناب عبدالمنان عمر: نہیں جی، پورے دے نہیں دئیے، اگلے شخص کے لئے قابلِ قبول ہیں، وہ پھر اِنکار کرتا ہے۔ یہ ہے ’’اِتمامِ حجت۔‘‘ قابلِ قبول صرف نہیں ہیں، بلکہ یہ کہ وہ اُس کو قبول کرلینے چاہئیں، مگر سمجھ لینے کے باوجود کہ یہ سچی بات کہہ رہا ہے، پھر اِنکار کرتا ہے، چلا جاتا ہے، اس کو کہتے ہیں ’’اِتمامِ حجت۔‘‘ 1660تو میں عرض یہ کر رہا تھا کہ: ’’جس کے ماننے اور سچا جاننے کے بارے میں خدا اور رسول نے تاکید کی ہے۔‘‘
اپنے نہ ماننے انکار کی وجہ سے کافر نہیں قرار دیا اُس کو، اُس کو خدا اور رسول کے نہ ماننے کی وجہ سے کافر قرار دِیا: ’’اور پہلے نبیوں کی کتابوں میں تحریر۔۔۔۔۔۔‘‘
۔۔۔۔۔۔ پس اس لئے کہ وہ خدا اور رسول کے فرمان کا منکر ہے، کافر ہے اور اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ دونوں قسم کے کفر ایک ہی قسم میں داخل ہیں، کیونکہ جو شخص ’’باوجود شناخت کرلینے کے خدا اور رسول کے حکم کو نہیں مانتا۔۔۔۔۔۔‘‘
’’باوجود شناخت کرلینے کے‘‘ … اب دیکھئے، کتنا بڑا جرم ہے، شناخت بھی کرتا ہے، پھر وہ اِنکار کرتا ہے۔ تو یہ خدا اور رسول کا اِنکار ہوگیا۔ مرزا صاحب کے اِنکار کی وجہ سے کہیں نہیں اُنہوں نے کہا کہ وہ شخص کافر ہوجاتا ہے:
’’وہ بموجب نصوصِ صریحہ قرآن اور حدیث کے خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا۔ اس میں شک نہیں کہ جس پر خدا کے نزدیک اوّل قسم یا دُوسری قسم کفر کی نسبت اِتمامِ حجت ہوچکا ہے، وہ قیامت کے دن مؤاخذہ کے لائق ہوگا اور جس پر خدا کے نزدیک اِتمامِ حجت نہیں ہوا اور وہ مکذب اور منکر ہے، تو وہ شریعت نے اُس کا نام بھی کافر ہی رکھا ہے۔ مگر ہم بھی اُس کو بہ اِتباعِ شریعت کافر کے نام سے پکارتے ہیں۔ مگر پھر بھی وہ خدا کے نزدیک بموجب آیۃ: ’’ لا یکلف اﷲ نفسًا الا وسعھا ‘‘ قابلِ مؤاخذہ نہیں ہوگا۔
پروفیسر غفور احمد: جناب! میری گزارش یہ ہے کہ گواہان کو بتادیا جائے کہ ہمارے پاس Earphones بھی ہیں۔ اگر وہ نارمل آواز سے بولیں تو آواز ہمیں بخوبی آجائے 1661گی۔ یہ لاؤڈاسپیکر جو اُن کے سامنے رکھا ہے، ہمارے پاس Earphones ہیں، یہ ہم اِستعمال کرتے ہیں۔
جناب عبدالمنان عمر: کون سی آواز؟
جناب یحییٰ بختیار: ذرا دُور رکھ لیجئے، آہستہ، آہستہ، کیونکہ وہ کانوں میں لگتے ہیں۔
جناب عبدالمنان عمر: جی، جی۔
اب مرزا صاحب بات یہ کہہ رہے ہیں کہ کفر خواہ کلمہ طیبہ کا ہو یا مسیحِ موعود کا، وہ خدا کے رسول کی وجہ سے کافر بنتا ہے نہ کہ مسیحِ موعود کے اِنکار کی وجہ سے۔ آپ نے اِن الفاظ پر غور نہیں فرمایا۔ اُس حوالے میں یہ امر غور طلب ہے کہ حضرت مرزا صاحب اپنے اِنکار کو کفر نہیں کہتے بلکہ محض گناہ قرار دے کر دادخواہ ہوتے ہیں، اور نہ ماننے والے کو کافر کی بجائے نافرمان کہتے ہیں۔ اُصولی طور پر آپ کے نہ ماننے والوں کے بارے میں آپ کا اِرشاد یہ ہے: ’’اِبتدا سے میرا یہی مذہب ہے۔۔۔۔۔۔‘‘ یہ مرزا صاحب کی عبارت میں سنا رہا ہوں، جناب: ’’ابتدا سے میرا یہی مذہب ہے کہ میرے دعوے کے اِنکار کی وجہ سے کوئی شخص کافر یا دجال نہیں ہوسکتا۔‘‘
یہ ہے اُصولی مرزا صاحب کا موقف کہ آپ کے اِنکار کی وجہ سے کوئی شخص کافر نہیں ہوتا۔ وہاں جو بات ہے وہ ’’قابلِ مؤاخذہ ہونی چاہئے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(اس کا حوالہ کہ مسیح موعود کے نہ ماننے والے کافر ہیں یا نہیں؟)
جناب یحییٰ بختیار: ایک حوالہ پڑھ کے سناتا ہوں:
’’مسیحِ موعود کے نہ ماننے والے کافر ہیں یا نہیں؟‘‘ یہ سوال آیا: ایک شخص نے سوال کیا کہ آپ کو نہ ماننے والے کافر ہیں یا نہیں؟ حضرتِ اقدس مسیحِ موعود نے فرمایا کہ: 1662مولویوں سے جاکے پوچھو کہ اُن کے نزدیک جو مسیح اور مہدی آنے والا ہے، جو اُس کو نہ مانے، اُس کا کیا حال ہے؟ پس میں وہی مسیح اور مہدی ہوں جو آنے والا تھا۔‘‘
جناب عبدالمنان عمر: تو یہ جواب تو اُن سے پوچھ لیجئے گا، کہ وہ کیا کہتے ہیں۔ مرزا صاحب نے تو کہا ہے جو مسلمانوں کاموقف ہے۔۔۔۔۔۔
 
Top