ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
(غیراحمدی کو لڑکی دینے پر خلیفہ وقت نے اسے امامت سے ہٹادیا)
جناب یحییٰ بختیار: تو ابھی آپ نے جو شادی کی بات کی ناں آپ نے، تو میں آپ سے یہ پوچھتا ہوں کہ کیا پہلے خلیفہ کے وقت اور مرزا صاحب کی وفات کے بعد ایک احمدی نے غیراحمدی کو لڑکی دی تو حضرت خلیفہ اوّل نے اس کو احمدیوں کی اِمامت سے ہٹادیا اور جماعت سے خارج کردیا، اور اپنی خلافت کے چھ سالوں میں اُس کی توبہ قبول نہ کی، باوجود اس کے کہ وہ باربار توبہ کرتا رہا۔ یہ ایک ’’انوارِخلافت‘‘ میں حوالہ آیا ہوا ہے۔ آپ نہیں مانتے ہوں گے اُسے، مگر یہ Fact ہوا ہے کہ نہیں، حقیقت ہے کہ نہیں؟
جناب عبدالمنان عمر: میں عرض کرتا ہوں کہ جنابِ والا! کہ یہ ’’انوارِخلافت‘‘ بھی مرزا محمود احمد صاحب…
1619جناب یحییٰ بختیار: نہیں جی، وہ ٹھیک ہے، میں کہتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: نہیں، جی، وہ واقعہ میرے سامنے آئے کہ کون شخص ہے جس کا یہ واقعہ بیان کیا جاتا ہے۔ کون شخص ہے جس کا کوئی واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ چھ سال اُس کی توبہ قبول نہیں ہوئی۔ چھ سال کے بعد پھر کیا ہوا؟ وہ کون شخص ہے؟ کیا واقعہ ہے؟
جناب یحییٰ بختیار: چھ سال تک تو وہ صرف خلیفہ تھے وہ۔
جناب عبدالمنان عمر: نہیں، وہ واقعہ کس شخص کا ہے؟
جناب یحییٰ بختیار: ایک شخص تھے، مسلمان تھے۔
جناب عبدالمنان عمر: اُس شخص کا پتا لگنا چاہئے ناںجی۔
جناب یحییٰ بختیار: مطلب یہ کہ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا؟ آپ کا یہ خیال ہے؟
جناب عبدالمنان عمر: نہیں، نہیں، جب میرے سامنے آئے گی نہیں بات۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، نہیں، آپ کے علم میں کوئی ایسا واقعہ ہے؟
جناب عبدالمنان عمر: میں نے عرض کیا جناب! کہ میرے سامنے جب تک کوئی واقعہ نہ پیش کیا جائے…
جناب یحییٰ بختیار: یہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ آپ کے علم میں نہیں ہے؟
جناب عبدالمنان عمر: نہیں۔۔۔۔۔۔
Madam Acting Chairman: The honourable member should......
جناب یحییٰ بختیار: دیکھئے ناںجی، اگر آپ تو یہ دیکھیں، ایک تو ہوتے ہیں کہ وکیلوں والی بحث، وہ تو ہم کرتے نہیں ہیں، کیس کا ثبوت پہلے میں یا پھر ہم بات کریں گے۔ میں ویسی بات…
Madam Acting Chairman: Mr. Attorney- General, don't you have the name of that person?
(محترمہ قائمقام چیئرمین: اٹارنی جنرل صاحب! کیا آپ کے پاس اس آدمی کا نام نہیں ہے؟)
1620Mr. Yahya Bakhtiar: Whatever I have got is given in "Anwar-i-Khilafat". They have not mentioned the name of the person. But may be given there in that. We can find it out.
(جناب یحییٰ بختیار: میرے پاس جو کچھ ہے، ’’انوارِ خلافت‘‘ میں دیا ہوا ہے، انہوں نے اس آدمی کا نام نہیں لکھا)
جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں، میرے علم میں ایسا کوئی نام نہیں آیا۔
جناب یحییٰ بختیار: ایسا کوئی واقعہ نہیں آیا؟
جناب عبدالمنان عمر: جی، میرے علم میں یہ نام کبھی آیا نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: اچھا، یہ آپ بتائیے، یہ تو سوشل۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جی، میں سوشل کی ۔۔۔۔۔۔۔ ذرا اِجازت دیجئے تو میں گفتگو کروں۔ میں نے علامہ اقبال کا نام اس لئے نہیں لیا تھا کہ وہ اُن کا کوئی فقرہ ایک آدھ میری نظر کے سامنے سے گزرگیا تھا۔ میں آپ کے سوشل تعلقات کے ذِکر میں اُس کو لایا کہ یہ علامہ اقبال صاحب، اتنی شدید مخالفت بعد میں اُنہوں نے کی ہے۔ اگر مرزا صاحب کی وجہ سے ان کی مخالفت ہوتی، مرزا صاحب کے معتقدات کی وجہ سے ہوتی تو وہ اتنا حکیم شخص تھا، اُس نے اتنا عرصہ… معتقدات اُن کے سامنے ہیں، بیعت وہ شخص کرتا ہے… معلوم ہوا وہ اُن معتقدات کے باوجود وہ بیعت کر رہا تھا۔ اُس کو اِختلاف پیدا ہوا۔ میں اُن اِختلافات کا ضرور ذِکر کرنا چاہتا ہوں۔ وہ اِختلافات پیدا ہوئے اور اتنے شدید پیدا ہوئے کہ اس پر کتابیں اُنہوں نے لکھیں۔ یہی میرا موقف ہے جناب! کہ لوگوں کو اِختلاف جو ہے مرزا صاحب کے وجود میں، مرزا صاحب کے زمانے میں، مرزا صاحب کے معتقدات کی وجہ سے نہیں پیدا ہوا، بلکہ بعد میں ایسے حالات پید ا ہوگئے اور ایسے نئے Factors جمع ہوگئے جن کی وجہ سے وہ لوگ جو پہلے مرزا صاحب کو مانتے تھے، اُنہوں نے بھی آپ کو چھوڑا۔ یہ تھا میرا موقف۔
اور دُوسری گزارش اس سلسلے میں جو کرنا چاہتا تھا کہ علامہ اقبال وہ ہیں، وہ خود جماعت کے بڑے سخت مخالف، مگر اُن کے بھتیجے جماعت میںشامل، اُن کے بھائی 1621جماعت میں شامل، اُن کے والد جماعت میں شامل۔ کوئی تعلق خراب نہیں تھے، وہی علامہ اقبال جن کے بھائی جماعت میں شامل تھے، وہ اُن کو باپ کی طرح سمجھتے تھے۔ تو محض یہ کہنا کہ اِختلافِ عقائد کی وجہ سے سوشل تعلقات خراب ہوگئے تھے، یہ صورت نہیں ہے۔ جو بُرے لوگ تھے وہ بُرے تعلقات رکھتے تھے۔ جو اچھے لوگ، فہمیدہ لوگ تھے، سلجھے ہوئے لوگ تھے، اُنہوں نے تعلقات خراب نہیں کئے۔ میں نے علامہ اقبال کی مثال اس لئے عرض کی ہے کہ اُسی ایک گھر کے اندر بھائی اور دُوسرا بھائی، اُن کے بھیجتے، اُن کے بیٹے کوئی تعلقات خراب نہیں، اُن کے تعلقات بڑے اچھے تھے۔ یہ تھی وجہ اس نام کے پیش کرنے کی۔
دُوسرا میں عرض یہ کر رہا تھا کہ اگر اُن کے تعلقات اُن کے معتقدات اتنے خراب تھے تو چاہئے یہ تھا کہ وہ شخص جب دعویٰ کرتا تھا، میں نے بتایا ہے کہ اُس وقت بھی اُس کے خلاف کوئی آواز نہیں اُٹھی۔ درمیان میں ایک دور آیا مخالفت کا اور وہ اِنفرادی طور پر جگہ بہ جگہ اُس مخالفت کا ظہور ہوتا رہا۔ جس بات کا میں نے اِنکار کیا تھا وہ یہ تھی کہ اس طرح ملک گیر پیمانے پر سوائے ۱۹۵۳ء کے اور سوائے موجودہ حالات کے، یہ اِختلافات نے اتنی شدید اور بھیانک صورت اِختیار نہیں کی تھی۔ یہ میں نے تقابل کے طور پر پیش کیا تھا۔ یہ میرا موقف بالکل نہیں تھا کہ بالکل جماعت کی مخالفت ہوئی نہیں۔ میں نے تو خود عرض کیا تھا کہ ان لوگوں کے بعض حصے ایسے تھے، بعض لوگ ایسے تھے، بعض محلے ایسے تھے کہ وہاں اُن کو مسجدوں میں نہیں جانے دیتے تھے، اُن کے جنازے خراب ہوجاتے تھے، تو یہ میں تسلیم کرتا ہوں، یہ حالات پیدا ہوئے، اور اس کی وجہ سے دقتیں بھی پیدا ہوئی تھیں۔ مگر میں عرض یہ کررہا تھا کہ معتقدات اپنی جگہ یا وہ دعوے ایسے نہیں تھے جن کی وجہ سے اتنا عالمگیر قسم کا اور اتنا ہمہ گیر قسم کا کوئی اِختلاف ہوتا۔ یہ میرے علم میں صرف دو مثالیں ہیں۔ پھر یہ کہ مرزا صاحب جب فوت ہوئے تو جماعت کا ذِکر میں نہیں کررہا، مسلمانوں کا ذِکر 1622کر رہا ہوں جو اُن کے ہم عقیدہ نہیں تھے، اُن میں سے یہ دیکھئے مولانا ابوالکلام آزاد، وہ فرماتے ہیں: ’’وہ شخص، بہت بڑا شخص جس کا قلم سحر تھا، زبان جادو، وہ شخص دماغی عجائبات کا مجموعہ تھا، جس کی نظر فتنہ اور آواز حشر تھی، جس کی اُنگلیوں سے اِنقلاب کے تار اُلجھے ہوئے تھے، جس کی دو مٹھیاں بجلی کی دو بیٹریاں تھیں۔ وہ شخص جو مذہبی دُنیا کے لئے تیس برس تک زلزلہ اور طوفان بنا رہا، جو شور قیامت ہوکر خفتگان خواب ہستی کو بیدار کرتا رہا، خالی ہاتھ دُنیا سے اُٹھ گیا۔ یہ تلخ موت، یہ زہر کا پیالہ جس نے مرنے والی کی ہستی تہِ خاک پنہاں کردی، ہزاروں لاکھوں زبانوں پر تلخ کامیاں بن کے رہیں گے اور قضاء کے حملے نے ایک جیتی جان کے ساتھ جن آرزوؤں اور تمناؤں کا قتلِ عام کیا ہے، صدائے ماتم مدّت تک اس کی یاد تازہ رکھے گی۔ مرزا غلام احمد قادیانی کی رحلت اس قابل نہیں کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جائے اور ایسے لوگ جن سے مذہبی یا اپنی دُنیا میں اِنقلاب پیدا ہوتا ہے، ہمیشہ دُنیا میں نہیں آتے۔ یہ نازشِ فرزندانِ تاریخ بہت کم منظرِعالم پر آتے ہیں اور جب آتے ہیں تو دُنیا میں اِنقلاب پیدا کرکے دِکھادیتے ہیں۔ مرزا صاحب کی اس رحلت نے اُن کے بعض دعاوی اور بعض معتقدات سے شدید اِختلاف کے باوجود ہمیشہ کی مفارقت پر مسلمانوں کو اُن تعلیم یافتہ اور روشن خیال مسلمانوں کو محسوس کرادیا کہ اُن کا ایک بہت بڑا شخص اُن سے جدا ہوگیا۔‘‘
یہ مولانا ابوالکلام آزاد، جو اِن کے ماننے والے نہیں تھے، یہ اُن کا تأثر ہے۔ اسی طرح۱؎…
جناب یحییٰ بختیار: یہ آپ کس سوال کا جواب دے رہے ہیں؟
1623جناب عبدالمنان عمر: یہ میں اس کا دے رہا ہوں جی کہ ان کے معتقدات ایسے نہیں تھے جس کے نتیجے میں ملک کی سوشل حالت خراب ہو یا جس سے پڑھا لکھا طبقہ جو ہے وہ یہ محسوس کرے کہ ہمارے اندر بڑا خطرناک اِشتعال پیدا ہوتا ہے اِس شخص کے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: یہ سوال ختم ہوچکا ہے، صاحبزادہ صاحب! میں اس کے بعد آپ سے پوچھ رہا ہوں Details (تفصیلات) میں نے عرض کیا کہ سوشل تعلقات کیسے تھے؟ آپ نے کہا: شادی کی اجازت دیتے تھے وہ۔ اب یہاں میں آپ کو پھر وہ بشیرالدین صاحب کا ایک حوالہ پڑھ کر سناتا ہوں، یہ اُسی کتاب سے ہے "Ahmad....." جو ان کی کتاب ہے۔ وہ ایک چیز کہہ رہے ہیں، وہ چیز غلط ہے تو آپ بتادیں گے کہ آپ نے اُس چیز کی تردید کی ہے اور یہ ۱۶-۱۹۱۵ء کی بات ہے۔ وہ کہتے ہیں:
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ۱؎ یہ تحریر مولانا ابوالکلام آزاد کی نہیں ہے۔ ان سے منسوب کی گئی۔ لیکن انہوں نے بہت واضح انداز میں اس کی تردید کر دی تھی۔ (مرتب)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
"The same year 1898......"
اٹھارہ سو اٹھانوے میں:
"The same year with a view to strengthen the bonds of the Community and to preserve its distinctive features he promulgated rules regarding marriage and social relations and forbade Ahmadis to give their daughters in marriage to non-Ahmadis."
(اسی سال یعنی ۱۸۹۸ء میں جماعت کے رشتوں کو اُستوار کرنے کے لئے اور جماعت کی نمایاں حیثیت کی خاطر اس سے شادی بیاہ اور معاشرتی اُمور کے بارے میں حکم جاری کیا اور احمدیوں کو اپنی بیٹیوں کی شادیاں غیراحمدیوں کے ساتھ کرنے سے روک دیا)
یہ ۱۸۹۸ء میں مرزا صاحب نے اپنے فرقے کے تعلقات کو مضبوط کرنے کے لئے یہ حکم دیا کہ احمدی لڑکیوں کی شادی غیراحمدیوں سے نہیں ہوگی۔ یہ کیا آپ اپنے لٹریچر میں بتاسکتے ہیں کہ اس بات کی آپ نے کبھی بھی تردید کی؟
جناب عبدالمنان عمر: جنابِ والا! میں گزارش کرتا ہوں کہ مرزا محمود احمد صاحب کی تحریرات، ان کی کتابیں، ان کے بیانات، ان کی بیان کردہ تاریخ، کسی قسم کی نہ صرف یہ کہ حجت نہیں ہے، بلکہ مجھے معاف کیجئے گا جب میں یہ کہوں کہ وہ خطرناک حد تک Misleading ہیں۔
1624جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں نے صرف ایک عرض کیا آپ سے کہ ایک آدمی مرزا صاحب کے بارے میں، جو اُن کا بیٹا ہے، خلیفہ وقت بیٹھا ہوا ہے، اور آپ اُن کے زہد ’’الفضل‘‘ اور آپ کے اخباروں میں Controversy چل رہی ہے، اور یہ پورے ۱۹۱۴ء سے آج تک ہم دیکھ رہے ہیں، یہ Controversy جاری ہے: مرزا صاحب نے یہ نہیں کہا، اُس نے کہا، یہ نہیں کہا۔ جب اتنی بڑی بات کہتے ہیں کہ غیراحمدی مسلمان سے لڑکی کی شادی نہیں ہوسکتی۔ یہ ۱۹۱۵ء میں یہ کہتے ہیں، ۱۹۱۶ء میں، اور اُس سے آج تک آپ کے کسی لٹریچر میں یہ ہے کہ یہ چیز غلط ہے؟
جناب عبدالمنان عمر: میں شاید پورا صحیح بیان نہیں کرسکتا۔ میں نے عرض کیا تھا اسی مرزا بشیرالدین کی سالی کی شادی جو ہے، انہی بشیرالدین کی۔۔۔۔۔۔
(غیر احمدی کو لڑکی نہ دو، یہ آرڈر مرزا صاحب کا تھا یا نہیں؟)
جناب یحییٰ بختیار: میں سمجھ گیا ہوں، نہیں، میں یہ سمجھ گیا ہوں، میں یہ پوچھ رہا ہوں کہ یہ مرزا صاحب کا آرڈر تھا یا نہیں؟
جناب عبدالمنان عمر: ظاہر ہے کہ Statement (بیان) غلط ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: یہ غلط ہے؟
جناب عبدالمنان عمر: بالکل غلط ہے۔ عمل بتا رہا ہے، اُن کے اپنے گھر کا واقعہ بتا رہا ہے کہ غلط ہے۔
(آپ کسی مسلمان امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں یا نہیں؟)
جناب یحییٰ بختیار: اچھا جی، یہ آپ بتائیے یہ جو نماز ہوتی ہے، باقی مسلمانوں سے مل کر پڑھتے ہیں آپ؟ نماز باقی مسلمانوں سے مل کر پڑھتے ہیں؟ کوئی مسلمان اِمام آپ کی جماعت کا اِمام نہ ہو تو آپ اُس کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں یا نہیں؟
جناب عبدالمنان عمر: جنابِ والا! میں نے گزارش کی تھی کہ ہم لوگ، مرزا صاحب کی ہمیں جو تلقین ہے، یہ ہے کہ کوئی شخص جب تک خود کافر نہیں بن جاتا وہ مسلمان ہے، اور اُس کے پیچھے ہمیں نماز پڑھنی چاہئے۔ لیکن نبی اکرمa کا یہ فرمان ہے 1625کہ جو کسی مسلمان کو کافر کہتا ہے، وہ کفر اُلٹ کر اُس پر پڑجاتا ہے اور آدمی کو چاہئے کہ اپنے اِمام مقتدیوں میں سے بنائے۔ جب وہ شخص ایک، ہماری رائے میں، وہ ایک ایسے شخص کو جو ہمارے نزدیک مؤمن مسلمان ہے، کافر قرار دیتا ہے تو نبی کریم کا فرمان یہ ہے کہ وہ کفر اُلٹ کر اُس پر پڑا۔ اگر علماء آج یہ فتوے واپس لے لیں کہ مرزا صاحب کافر نہیں ہیں تو ہم آج بھی کسی کلمہ گو کو کافر نہیں کہتے اور اُن کے پیچھے نماز پڑھنے کے لئے تیار ہیں۔
(کسی اپنے امام کے پیچھے قائداعظم کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی)
جناب یحییٰ بختیار: جزاک اللہ، بڑی اچھی بات آپ نے کی۔ میں آپ سے ایک اور سوال پوچھتا ہوں۔ یہ قائداعظم کی جب بات تھی کہ چودھری ظفراللہ خان نے ان کی نمازِ جنازہ میں شرکت نہیں کی، یہ اس سے بڑی Controversy ہوگئی ہے، حالانکہ آپ کا اُن سے کوئی تعلق نہیں ہے، چودھری صاحب اور دُوسرے جو ہیں۔ کیا آپ لوگوں نے کوئی قائداعظم کی غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھی کسی اپنے کسی اِمام کے پیچھے؟
جناب عبدالمنان عمر: جناب! پڑھی ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: پڑھی ہے، ٹھیک ہے۔
جناب عبدالمنان عمر: اور نہ صرف اُن کی بلکہ اور بھی بہت مثلاً سرآغاخان مرحوم کی اور بھی بہت سارے۔
جناب یحییٰ بختیار: مگر ربوہ والے نہیں کرتے وہ؟
جناب عبدالمنان عمر: جناب! اُن کے متعلق میں۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: انہوں نے کہا کہ… اچھا وہ یہ بتائیے کہ اگر اِمام نے یہ فتویٰ نہ دیا ہو تب تو آپ اُس کے پیچھے نماز پڑھیں گے؟
1626جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں۔ ہمارے اِمام مولانا نورالدین کا یہ شائع شدہ فتویٰ موجود ہے کہ انہوں نے کہا کہ جب آپ مکے وغیرہ میں جاتے ہیں یا دُوسری جگہ میں جاتے ہیں، یورپ میں جاتے ہیں، تو وہاں تو فتویٰ ہمارے خلاف نہیں تھا، وہ کہتے ہیں نماز پڑھو، اور پڑھتے ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: اور یہ بتائیے کہ اگر کوئی آدمی ہو جس نے کوئی فتویٰ نہ دیا ہو، یا اُس فرقے سے جس سے اُس کا تعلق ہو اُس فرقے نے فتویٰ نہ دیا ہو، وہ مرجائے تو جنازہ بھی پڑھتے ہیں آپ کے ہاں؟
جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں، بالکل۔
جناب یحییٰ بختیار: اور اگر فتویٰ دیا ہو تو پھر نہیں پڑھتے؟
جناب عبدالمنان عمر: وہ اس لئے کہ نبی اکرمﷺ کے فرمان کے خلاف ہوجاتا ہے۔ اُس میں ہم نہیں کوئی فتویٰ دیتے۔
جناب یحییٰ بختیار: یہ کہاں تک دُرست ہے کہ مرزا صاحب کے دو تین۔۔۔۔۔۔ دو لڑکے تھے جو ان پر بیعت نہیں لائے، احمدی نہیں ہوئے؟
جناب عبدالمنان عمر: پھر آگے فرمائیے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، یہ دُرست ہے کہ تھے مرزا صاحب کے کوئی ایسے لڑکے؟
جناب عبدالمنان عمر: مرزا صاحب کے پانچ بیٹے تھے جن میں سے سب سے بڑے کا نام مرزا سلطان احمد، مرزا سلطان احمد، وہ اپنی وفات سے پہلے احمدی ہوچکے تھے۔
جناب یحییٰ بختیار: کوئی اور لڑکا جو احمدی نہیں تھا؟
جناب عبدالمنان عمر: جی، ایک تھا جو فضل احمد صاحب تھے۔
جناب یحییٰ بختیار: وہ احمدی نہیں تھے؟
1627جناب عبدالمنان عمر: احمدی کا سوال نہیں ہے، بلکہ اُن کے اپنے باپ کے ساتھ اتنے خطرناک تعلقات۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: میں آپ سے ایک Simple (آسان) سوال پوچھتا ہوں، آپ کیوں بیچ میں اور باتیں لے آتے ہیں؟ وہ احمدی ہوئے یا نہیں ہوئے؟ جس وجہ سے نہیں ہوئے۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: احمدی نہیں ہوئے، مگر جنازے کی میں نے عرض۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: میں جنازے پر بھی آجاتا ہوں۔ میں نے ساری تفصیل نوٹ کی ہے۔ ہم یہی کام کرتے رہے ہیں، اور کچھ نہیں کیا۔ اُن کی وفات پر مرزا صاحب نے جنازے میں شرکت کی؟
جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں کی۔ مرزا صاحب نے یہ کہا کہ: ’’یہ میرا بڑا فرمانبردار بیٹا تھا‘‘؟
جناب عبدالمنان عمر: مگر ساتھ یہ کہا کہ اُس نے ایک دِین کے معاملے میں ایسے لوگوں کے ساتھ اِتحاد کیا تھا جو خداتعالیٰ کی منشاء کے خلاف تھا۔
جناب یحییٰ بختیار: اِتحاد کیا تھا؟
جناب عبدالمنان عمر: کہ ان کے خاندان میں، ایک مرزا صاحب کے خاندان میں پٹی کے ایک خاندان تھا وہ۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: میں آپ سے یہ پوچھتا ہوں کہ اُس نے کوئی فتویٰ دیا تھا مرزا صاحب کے خلاف؟
جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں، جناب! فتویٰ نہیں ہے۔ اُن کے تعلقات گھریلو جو ہیں…
1628جناب یحییٰ بختیار: بس جی، اور باتیں چھوڑ دیجئے۔ ہم بات کر رہے تھے فتویٰ کی۔ آپ نے کہا: اُنہوں نے فتویٰ دیا اس لئے اُن کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے۔ میں نے کہا: اُن کے گھر میں ایک لڑکا پیدا ہوا ہے، وہ لڑکا بڑا ہوا ہے، وہ بڑا فرمانبردار اور نیک لڑکا ہے، وہ احمدی نہیں ہوا، وہ مرتا ہے، اُس نے فتویٰ نہیں دیا، مرزا صاحب نے اُس کی نماز نہیں پڑھی۔
جناب عبدالمنان عمر: میں نے عرض کیا، جناب! وہ اس لئے نہیں کہ مرزا صاحب نے یہ کہا ہو۔ ایک لفظ مرزا صاحب کا یہ دِکھایا جائے کہ: ’’میں اس شخص کا اس لئے نمازِ جنازہ نہیں پڑھتا کہ اس نے مجھے نہیں مانا؟‘‘ ایک لفظ دِکھائیے سارے لٹریچر میں سے؟
جناب یحییٰ بختیار: اور وجہ کیا تھی؟
جناب عبدالمنان عمر: تعلقات کی خرابی۔
جناب یحییٰ بختیار: تعلقات؟ مُردے سے کیا تعلقات؟ اپنے بچے سے کیا تعلقات؟ انہوں نے کہا کہ یہ فرمانبردار ہے۔
جناب عبدالمنان عمر: یہ اِعتراض ہوسکتا ہے۔ مگر اس کا تعلق اس سے نہیں ہے کہ وہ دِین کی وجہ سے یا اُن کے نہ ماننے کی وجہ سے وہ جنازہ نہیں پڑھا۔ ایسی کوئی مثال نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: دیکھیں، دیکھیں، صاحبزادہ صاحب! ایک Simple (آسان) بات ہے۔ ایک طرف سے مرزا صاحب کا یہ بیان ہمارے سامنے ہے جو کہتا ہے کہ: ’’یہ میرا بیٹا نیک تھا اور فرمانبردار تھا۔۔۔۔۔۔‘‘
جناب عبدالمنان عمر: میرا خیال ہے یہ لفظ ’’نیک‘‘ وہاں نہیں ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: ’’فرمانبردار‘‘؟
جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: ’’فرمانبردار۔‘‘ فرمانبردار نیک ہی ہوتا ہے ناںجی۔
1629جناب عبدالمنان عمر: نہیں، اس میں اور چیز بھی آتی ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: تو فرمانبردار وہ خود کہتے ہیں کہ یہ تھا۔ پھر ان کی وفات ہوتی ہے اور اس کے بعد مرزا صاحب جنازے میں شرکت نہیں کرتے۔
جناب عبدالمنان عمر: یہ دیکھئے دو باتیں ہیں۔ میں بہت سے لوگوں کا جو لاہور میں یا راولپنڈی میں فوت ہوں، میں اُن کے جنازے میں شرکت نہیں کروں گا یا نہیں ہوا ہوں گا۔ اس سے کوئی شخص یہ نتیجہ نکالے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں جی، یہ بات اور ہے کہ لاہور میں۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: یہ دکھائیے کہ مرزا صاحب نے یہ کہا ہو کہ: ’’میں اس کا جنازہ اس لئے نہیں پڑھتا ہوں کہ یہ مجھے نہیں مانتا‘‘؟
جناب یحییٰ بختیار: بس چھوڑ دیجئے۔ میں نے یہ آپ کو بتادیا کہ وہ احمدی نہیں ہوا، میں نے یہ بتادیا کہ وہ فرمانبردار تھا، میں نے یہ بتادیا کہ مرزا صاحب نے وفات پر جنازہ نہیں پڑھا۔ اِس کے علاوہ کوئی زیادہ Evidence (شہادت) کی ہمیں ضرورت نہیں ہے۔ اگر آپ کوئی چیز ہے تو ہمیں بتائیے۔
جناب عبدالمنان عمر: وہ میں نے عرض کیا کہ اُن کے تعلقات اس قدر خراب تھے سوشل، اِس قدر خراب تھے سوشل کہ وہ اس وجہ سے شامل نہیں ہوسکتے تھے۔
(مرزا صاحب نے بیٹے کو کہا کہ تم اپنی بیوی کو طلاق دو)
جناب یحییٰ بختیار: میں پھر ایک اور بات کرلوں۔ مرزا صاحب نے اس کو کہا تھا کہ ’’تم اپنی بیوی کو طلاق دو۔‘‘ مرزا صاحب نے کہا کہ: ’’میں تمہاری ماں کو بھی طلاق دیتا ہوں کیونکہ تم کوشش نہیں کرتے کہ محمدی بیگم مجھ سے شادی کرے۔‘‘ یہ دُرست ہے یہی وجہ تھی؟
جناب عبدالمنان عمر: جناب! میں، کیونکہ محمدی بیگم کا واقعہ آگیا۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: آپ جو کہتے ہیں کہ اور وجوہات تھیں۔
1630جناب عبدالمنان عمر: ۔۔۔۔۔۔اس لئے اب مجھے عرض کرنے کی اِجازت ہوگئی ہے۔
مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی: نماز کا وقت ہوگیا ہے۔
جناب عبدالمنان عمر: پہلا یہ اِعتراض یہ فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ: ’’اپنی بیٹی کو ۔۔۔۔۔۔ بیوی کو طلاق دے دو!‘‘ جناب! یہ واقعہ بالکل اِس سے ملتاجلتا ہے۔۔۔۔۔۔
Mr. Yahya Bakhtiar: Still five minutes more......
ابھی پانچ منٹ ہیں۔
(جناب یحییٰ بختیار: صرف پانچ منٹ ہیں۔۔۔۔۔۔)
محترمہ قائم مقام چیئرمین: اچھا، Five (پانچ) منٹ ہیں۔
جناب عبدالمنان عمر: شکایت یہ کی گئی کہ انہوں نے کہا کہ: ’’اپنی بیوی کو طلاق دے دو!‘‘ یہ گھریلو معاملات ہوتے ہیں۔ ایک باپ زیادہ صحیح سمجھتا ہے کہ میری بہو جو ہے کن اوصاف کی مالک ہونی چاہئے۔ اُس کو اِتنا حق ضرور ملنا چاہئے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں میں اِس تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ یہی وجہ تھی یا اور کوئی وجہ تھی؟
جناب عبدالمنان عمر: نہیں، نہیں، یہ وجہ نہیں تھی۔
جناب یحییٰ بختیار: پھر اِس کو چھوڑ دیجئے۔ جو وجہ ہے وہ بتائیے آپ؟
جناب عبدالمنان عمر: میں عرض یہ کر رہا تھا کہ پٹی کا ایک خاندان تھا جو ان کا دُور کا رشتہ دار بھی تھا، مرزا صاحب کا۔ اِن لوگوں کی اخلاقی، دِینی اور مذہبی حالت بہت ہی بُری تھی، مرزا صاحب کی نظر میں۔ اِس لئے مرزا صاحب نے کوشش کی کہ اُن لوگوں کو، جس طرح کہ وہ باہر کے لوگوں کو دِین دار بنانے کی کوشش کرتے تھے، اِس لئے انہوں نے یہ کوشش کی کہ اُس خاندان میں بھی مذہب کو، اِسلام کو، نبی کریمﷺکو روشناس کرائیں۔ لیکن وہ لوگ قریب دہریت کے پہنچ گئے تھے اور وہ اِس قسم کی وعظ ونصیحت سے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: یہ وہ محمدی بیگم کے خاندان کی بات کر رہے ہیں یا کوئی اور ہے؟
1631جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: وہی Indirectly کہتے ہیں، یہ گھریلو معاملے پھر لے آتے ہیں آپ۔ مرزا احمد بیگ کا ذِکر کر رہے ہیں آپ؟
جناب عبدالمنان عمر: میں عرض کر رہا تھا کہ آپ نے پوچھا کہ محمدی بیگم۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، یہ مرزا احمد بیگ کا ذِکر رہے ہیں آپ۔۔۔۔۔۔؟
جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: بات وہی ہوگی جو میں کہتا ہوں تو کہتے ہیں: ’’نہیں، یہ نہیں ہے، یہ گھریلو معاملہ ہے۔‘‘
جناب عبدالمنان عمر: نہیں، میں نے تو عرض کیا کہ وہی بات ہے۔