• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قومی اسمبلی میں ہونے والی اکیس دن کی مکمل کاروائی

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزا بشیر الدین محمود کی گواہی)
جناب یحییٰ بختیار: یہ مرزا بشیرالدین محمود صاحب جو ہیں، اُنہوں نے اُن کی ایک بائیوگرافی لکھی تھی:
"Ahmad, the Messanger of the latter days" (احمد، آخری دنوں کا پیغمبر) یہ اُردو میں لکھی تھی۔ اُس کا یہ ترجمہ ہوا ہے۔ تو یہ تو میں نہیں کہتا کہ جو کہہ رہے ہیں، دُرست کہہ رہے ہیں، مگر وہ موقع پر موجود رہے ہیں اور وہ یہ لاہور میں جو لیکچر دیا، اُس وقت وہ سین Describe (پیش) کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں:
"Sinse it had been known by experience that wherever he went, people of every religion and sect displayed a keen animosity towards him....."
(یہ بات تجربے میں آئی تھی کہ وہ جہاں کہیں بھی گیا ہر طبقے اور مذہب کے لوگوں نے اس کی دُشمنی کا مظاہرہ کیا)
"...... especially the so-called Musalmans."
خاص طور پر وہ جو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
"The police authorities had on the occasion made very admirable arrangements for his safety."
(اس موقع پر پولیس حکام نے اس کی حفاظت کے لئے قابلِ تعریف اِنتظامات کئے تھے)
اب میں وہ Arrangements (اِنتظامات) آپ کو پڑھ کر سناتا ہوں، جب وہ جلسے سے خطاب کرکے نکل رہے ہیں، وہ کہتے ہیں:
"They had, therfore, taken special precaution to ensure the safety of the Promised Messiah on his return journey from the lecture hall. First rode a number of mounted plice. Then came the carriage bearing the Promised Messiah. This was followed by a member of policemen on foot. After them there rode a number of mounted men. Thereafter walked another party of the policemen. Thus was the Promised Messiah escorted back to his residence with the greatest possible care."
(۔۔۔۔۔ چنانچہ انہوں نے مسیحِ موعود کی لیکچر ہال سے واپسی پر اس کی حفاظت کے لئے خصوصی اِحتیاطی تدابیر اِختیار کی تھیں۔ سب سے آگے پولیس گھڑسواروں کا دستہ تھا، اس کے پیچھے مسیحِ موعود کی بگھی تھی، جس کے پیچھے بہت سارے پیدل پولیس والے تھے، پھر ان کے پیچھے گھڑسواروں کا ایک اور دستہ تھا، اور آخر میں پیدل پولیس کی ایک اور پارٹی تھی۔ اس طرح مسیحِ موعود کو اپنی جائے رہائش تک انتہائی اِحتیاط کے ساتھ واپس پہنچایا گیا)
1604تو آپ دیکھیں گے کہ جہاں بھی مرزا صاحب گئے ہیں، وہ دہلی ہو، امرتسر ہو، اُس میں یہی حالت رہی ہے کہ جہاں وہ لیکچر دیتے رہے ہیں، وہاں پر بہت ہی زیادہ پولیس والے ہوتے اور خاص طور پر اُن کو ایک شکوہ مرزا بشیرالدین صاحب کو ہے: ’’جہاں یوروپین پولیس والے نہیں ہوتے، باقی پولیس والے اتنا اِحتیاط نہیں کرتے تھے۔‘‘ تو میں یہ آپ سے پوچھ رہا تھا کہ کیا وجہ تھی کہ مسلمان اتنے زیادہ اُن کی مخالفت کررہے تھے؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ اُنہوں نے نبوّت کا دعویٰ نہیں کیا، ایک محدث تھے، اور یہ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ دعویٰ کرنے سے پیشتر مسلمان اُن کی عزت کرتے تھے اور انہوں نے کافی خدمت کی۔ مگر جب اُنہوں نے یہ دعویٰ کیا مہدی کا اور مسیحِ موعود کا، یا نبی کا، تو اتنی سخت مخالفت ہوئی، اور آپ کہتے ہیں وہ دعوے کی کوئی مخالفت نہیں ہوئی، نہ اُس پر کوئی جھگڑا تھا، نہ اُس پر کوئی شک تھی، یہ سب ۱۴-۱۹۱۳ء کے بعد شروع ہوا۔
جناب عبدالمنان عمر: میری گزارش یہ ہے، میں عرض یہ کر رہا تھا کہ جب کسی شخص کی مخالفت ہو تو ضروری نہیں ہوتا کہ اُس مخالفت کے اسباب اُس شخص کی طرف سے پیدا کئے گئے ہوں، اور یہ بھی ضروری نہیں ہوتا کہ وہ کوئی ایسا دعویٰ کر رہا ہو جو صحیح نہ ہو۔ اِس کے بعد میں نے یہ گزارش کی تھی کہ مرزا صاحب نے جب یہ دعویٰ کیا تو اس کی ایک ہسٹری ہے ہمارے پاس، اس کی ایک تاریخ ہے ہمارے سامنے۔ جنابِ والا! مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کی ایک کتاب کا حوالہ میرے سامنے رکھا ہے۔ میں بڑے ادب سے گزارش کروں گا کہ میں اُن کو کسی جہت سے بھی اس قابل نہیں سمجھتا ہوں کہ ان کی باتوں پر اِعتماد کیا جائے یا ان کی کسی کتاب کو بطور ریفرنس کے ایک مُسلّمہ……!
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، نہیں، دیکھیں ناں، مرزا صاحب! میرا یہ مطلب نہیں ہے۔ میں نے کہا ممکن ہے کہ یہ غلط ہوگیا ہو۔ میں نے یہ کہا اور میں یہ کہتا ہوں کہ ہمارے 1605پاس کوئی اس کے علاوہ اور شہادت نہیں ہے جس کو یہ رَدّ کرے۔ ایک شخص موجود رہا ہے، باپ کے ساتھ جاتا رہا ہے، یہ بھی اپنے باپ کی عزت کرتا تھا، اور ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ جہاں بھی میرا والد جاتا گیا، لوگ اُن کو گالیاں دیتے تھے۔
جناب عبدالمنان عمر: میں عرض کرتا ہوں کہ جب اُن کے والد فوت ہوئے، اُن کی عمر زیادہ سے زیادہ صرف اُنیس(۱۹) سال تھی اور جب کا یہ واقعہ بیان فرما رہے ہیں اُس وقت آپ اندازہ کرلیں کہ اُن کی عمر کیا ہوگی؟
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، مگر یہ کہ ایک بچہ اگر آٹھ سال کا بھی ہو، دس کا بھی ہو، جو پولیس ہوتی ہے، پولیس پارٹی ہوتی ہے، اور اس کی اور جگہ بھی Evidence (شہادت) مل جاتی ہے کہ مرزا صاحب جب لیکچر پر جاتے تھے تو بہت ہی زیادہ پولیس کی ضرورت پڑتی تھی۔
جناب عبدالمنان عمر: تو میں گزارش یہ کر رہا تھا کہ جس کا ہمارے سامنے حوالہ دیا گیا، وہ ایک حجت نہیں ہے۔
دُوسری گزارش میں یہ کر رہا ہوں کہ جنابِ والا! حضرت مرزا صاحب ۱۳؍فروری ۱۸۳۵ء کو پیدا ہوئے۱؎ اور اس کے بعد یہ ۱۸۶۶ء سے ۱۸۶۸ء تک سیالکوٹ میں مقیم رہے۔ اُس وقت اُن کی پوزیشن یہ تھی کہ ’’زمیندار‘‘ اخبار کے مولانا ظفرعلی خان کے والد مولانا سراج الدین صاحب بھی اُس زمانے میں وہاں تھے۔ اُس کی شہادت اس بارے میں یہ ہے کہ مرزا صاحب نے ایک متقی اور پارسا اور دِین دار اِنسان کی سی زندگی بسر کی۔ مجھے اِجازت دیجئے گا، میں ذرا تھوڑی سی ہسٹری… اُن کی بات آپ نے کی ہے اس لئے مجھے Quote (حوالہ دینا) کرنا پڑ رہا ہے… اور وہیں علامہ اقبال کے اُستاذ شمس العلماء مولانا میرحسن صاحب اُس زمانے میں وہاں تھے۔ اُنہوں نے بھی جو شہادت مرزا صاحب کے کام کے بارے میں دی، وہ یہ تھی کہ وہ نہ صرف یہ کہ متقی، بزرگ اور پاکباز اِنسان تھے، بلکہ یہ کہ انہوں نے، اسلام کی اِشاعت کا اُن کو اتنا درد تھا کہ وہ اپنے اوقات کا بہت بڑا حصہ یا قرآن مجید کے 1606مطالعے میں صَرف فرماتے تھے، اور یا پھر وہ عیسائیوں وغیرہ کے مقابلے میں مناظرے کرکے اور اِسلام کی حقانیت کو ثابت کرنے میں اپنے اوقات کو صَرف کرتے تھے۔ اِس کے بعد انہوں نے ۱۸۸۰ء سے لے کر ۱۸۸۴ء تک، یہ ان کی تصنیفی زندگی کا ایک باقاعدہ آغاز ہوتا ہے، اور انہوں نے اس میں وہ اپنی معرکۃالآرا کتاب لکھی جس میں سب سے زیادہ اُن کے اِلہامات اور پیش گوئیاں درج ہیں۔ یہ میں خاص طور پر جناب کی خدمت میں گزارش کرتا ہوں کہ یہ وہ کتاب ہے جس میں اُنہوں نے اپنے بہت سے اِلہامات اور اپنی وحی کو بیان کیا ہے۔ یہ ہے جہاں سے نقطئہ آغاز ہونا چاہئے اُس شخص کی مخالفت کا۔ لیکن اس کے مقابلے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ لاہوری اور قادیانی دونوں کا جھوٹ پر اِتفاق ہے، یہ تاریخِ پیدائش غلط بیان کر رہے ہیں۔ خود مرزاقادیانی کتاب البریہ میں لکھتا ہے کہ: ۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ء میں میری پیدائش ہوئی۔ خوب تماشا۔۔۔! ’’نبی صاحب‘‘ فرماتے ہیں کہ میں ۴۰-۱۸۳۹ء میں پیدا ہوا، ’’اُمت‘‘ کہتی ہے نہیںجی، آپ ۱۸۳۵ء میں پیدا ہوئے۔ اچھا تھا پیدا ہی نہ ہوتے نہ اختلاف پڑتا!
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
میں واقعہ کیا ہے کہ اُس زمانے میں بڑے مقتدر لیڈر مولانا محمد حسین صاحب بٹالوی، وہ بڑے زور سے… میں آپ کے اوقات کو زیادہ نہیں لوں گا اس میں… وہ اس کتاب کی اتنی تعریف کرتے ہیں اور اُس کو ایک تیرہ سو سال کا ایک کارنامہ بتاتے ہیں۔ اگر وحی اور اِلہام جس پر کہ مرزا صاحب نے، میں نے بتایا کہ اُن کا شروع سے لے کر آخر تک موقف جو رہا، اِس دعوے کا رہا، یہ دعویٰ ہے جو انہوں نے پہلے دِن پیش کیا، یہ دعویٰ ہے جو انہوں نے آخری دن تک پیش کیا۔ یہ دعویٰ اُس وقت موجود ہے، وحی اور اِلہام ہو رہا ہے اُن کے دعوے کے مطابق، اُس کو وہ شائع کر رہے ہیں، لیکن جو ایک بہت بڑا عالمِ دِین ہے، وہ اُس کی تعریف کرتا ہے…
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مولانا محمدحسین بٹالویؒ کے علاوہ کسی عالم دین کا ذکر کہیں سنا)
جناب یحییٰ بختیار: دیکھیں، سوائے اِس عالمِ دِین کے ہم نے کسی اور کا ذِکر نہیں سنا، کیا بات ہے؟
جناب عبدالمنان عمر: جی؟
جناب یحییٰ بختیار: پہلے جو ربوہ گروپ آیا تھا، انہوں نے بھی بٹالوی صاحب کا ہی حوالہ دیا ہمیں کہ ’’براہین احمدیہ‘‘ کی اتنی بڑی تعریف کی۔
جناب عبدالمنان عمر: میں ایک اور بہت بڑے انسان کا نام۔۔۔۔۔۔
1607جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں کہتا ہوں کہ اُس پر ہمیں کوئی شک نہیں ہے۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: نہیں، میں ایک اور بڑے انسان کا نام لے لیتا ہوں، شیخ الحدیث مولانا نذیر حسین۔
جناب یحییٰ بختیار: اِن کا بھی ذِکر کیا ہے، اِن کا بھی ذِکر کیا۔
جناب عبدالمنان عمر: یہ بھی شاید نام۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، انہوں نے ذِکر کیا۔
جناب عبدالمنان عمر: تو اِس لئے اُن لوگوں، انہوں نے بھی… میں اور شخص کا ذِکر…
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، نہیں، اس کی بات نہیں ہے۔ دیکھیں ناں۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: میرا پوائنٹ یہ ہے اگر وہ دعویٰ اِس قابل تھا کہ لوگ اُس سے بھڑک اُٹھتے اور شروع سے لے کر اَخیر تک جہاں تک ہمارا۔۔۔۔۔۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزا کے دعویٰ نبوت کی بناپر مسلمان ان کے مخالف ہوگئے)
جناب یحییٰ بختیار: دیکھیں، دیکھیں، صاحبزادہ صاحب! ایک معمولی سی بات ہے، ایک کتاب لکھتا ہے ایک شخص بڑی محنت سے، چار سال لگتے ہیں، چار پانچ ان کے Volume ہیں، عام ملک میں ہمارے جو مسلمان ہیں، وہ پڑھے لکھے لوگ نہیں ہوتے۔ بہت کم لوگ پڑھتے ہیں۔ ویسے بھی اتنی بڑی کتاب کون پڑھیں گے؟ پانچ پڑھیں گے، دس پڑھیں گے، سو پڑھیں گے۔ تو لوگوں کو علم نہیں ہوتا تمہارا۔ ایک شخص یہ اِشتہار جاری کردیتا ہے کہ: ’’میں نبی ہوں!‘‘ تب لوگوں کو خیال آجاتا ہے کہ بھئی! کیا بات ہوگئی؟ تو میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ کیا بات ہوگئی کہ ایک دم ۔۔۔۔۔۔ ایک شخص نے خدمت بھی کی، میں آپ سے اِتفاق کرتا ہوں کہ عیسائیوں کے خلاف، آریہ سماجیوں کے خلاف مناظرے کئے، پمفلٹ لکھے، اِشتہار لکھے، خدمت کی انہوں نے اور مسلمان ان کی بڑی قدر کررہے تھے اور اچانک ایک دَم اتنے ان کے مخالف ہوگئے کہ ہر جگہ اُن کو گالیاں 1608پڑرہی ہیں، پولیس کی Protection (حفاظت) کیوں؟ اگر اُس شخص نے نبی کا دعویٰ نہیں کیا، ایسی کون سی بات تھی کہ جس سے مسلمان اتنے سیخ پا ہوگئے؟
جناب عبدالمنان عمر: میں گزارش یہ۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: آپ یہ کہتے ہیں کہ مسلمان ناراض نہیں ہوئے، تو اور بات ہے۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کی مخالفت نہیں ہوئی تو اور بات ہے۔ اگر آپ مانتے ہیں کہ اُس زمانے سے شروع ہوگئی اور بڑے زور سے شروع ہے۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: میں جو گزارش کر رہا ہوں وہ یہ نہیں ہے کہ میں ان کی کتاب ’’براہینِ احمدیہ‘‘ کی کسی عظمت کا ذِکر کر رہا ہوں۔ میرا یہ موقف نہیں ہے۔ میرا موقف یہ ہے کہ مرزا صاحب کا دعویٰ شروع سے لے کر آخر تک ’ملہم من اللہ‘ ہونے کا تھا، مکالمہ مخاطبہ اِلٰہیہ کا تھا۔ اِس دعوے پر وہ پہلے دن آئے، اِس دعوے پر وہ ساری عمر رہے اور اِس دعوے پر انہوں نے اپنی زندگی کو ختم کیا۔ میرے گزارش کرنے کا منشا یہ ہے کہ اگر وہ معتقدات، اگر وہ دعوے، اگر وہ وحی، اگر وہ اِلہام، اگر وہ مکالمہ مخاطبہ اِلٰہیہ جس کا انہوں نے دعویٰ کیا تھا، اِس قدر اِشتعال انگیز تھا تو کم سے کم عوام نہ سہی… آپ کہتے ہیں کہ عوام نے نہیں پڑھا… میں تو اُس زمانے کے چوٹی کے علماء کا ذِکر کرتا ہوں، چوٹی کے لیڈروں کا ذِکر کرتا ہوں، اُس زمانے کی فعال جماعت کا ذِکر کرتا ہوں، کہ اُن لوگوں نے اُس کتاب کو دیکھا اور یہ نہیں کہ نظرانداز کردیا۔ اُس کتاب کو دیکھ کے انہوں نے اس پر تبصرے کئے، اُس کتاب کو دیکھ کر اپنے خیالات کا اِظہار کیا اور میں گزارش کروں کہ یہ وہ کتاب ہے جس کا ہزارہا کی تعداد میں اُس زمانے میں… اندازہ کیجئے ۱۸۸۰ء سے ۱۸۸۴ء تک کا زمانہ… اُس زمانے میں اِس کتاب کا ہزارہا کی تعداد میں انگریزی زبان میں اِشتہار شائع کیا گیا اور اُردو زبان میں شائع کیا گیا ہے اور اِس کے نسخے، مجھے پیچھے جب جانے کا اِتفاق ہوا، وہاں امریکا اور انگلینڈ 1609میں، تو وہاں کی لائبریریوں میں اُس زمانے کے بھی رکھے ہوئے نسخے موجود تھے۔ تو یہ چیزیں جو ہیں، یہ نہیں کہ یہ کتاب Unknown (غیرمعروف) رہی ہے، یہ نہیں کہ عوام کو اس کا علم نہیں ہوا ہے۔ یہ بڑے بڑے رُؤسا سے لے کر عام آدمی تک اور معمولی پڑھے لکھوں سے لے کر بہت بڑے علماء تک کی نظروں سے یہ کتاب گزری ہے، اور ان کا یہ دعویٰ، اور اِلہام اور وحی کا، اُس میں موجود ہے اور اس کو انہوں نے پڑھا ہے، اور اُس وقت اُن کو اِشتعال پیدا نہیں ہوا۔
اس کے بعد میں گزارش یہ کروں گا جناب! کہ ۱۸۹۳ء میں پنجاب کی سب سے بڑی دِینی جماعت انجمن حمایتِ اسلام اپنا ایک اِجلاس منعقد کرتی ہے، اور اس کی صدارت کے لئے کس کو چنتی ہے؟ انہی مرزا صاحب کے سب سے بڑے مرید مولانا نورالدین کو۔ وہ اُن کے جلسے کی صدارت کرتے ہیں، وہ اس میں قرآن مجید کی تفسیر بیان فرماتے ہیں۔ اُس میں وہ ایک بڑا تفصیلی لیکچر دیتے ہیں۔ اگر اُن کے خلاف یہی بات تھی کہ یہ لوگ کوئی جلسہ کرہی نہیں سکتے تھے یا عوام کو خطاب ہی نہیں کرسکتے تھے، اُن کی اتنی شدید مخالفت تھی کہ ان کے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: دیکھئے! میں مرزا صاحب کا کہہ رہا ہوں، آپ دُوسری طرف چلے جاتے ہیں۔
جناب عبدالمنان عمر: یعنی میں مرزا صاحب کی زندگی کی بات عرض کر رہا ہوں۔ اُن کے سب سے بڑے مرید کی بات کر رہا ہوں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزا صاحب پر ہی رہیں)
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، آپ مرید کی بات نہ کریں۔ آپ مرزا صاحب پر پہلے اگر رہیں تو بہتر ہے۔
جناب عبدالمنان عمر: تو اُس وقت بھی یہ جماعت جو ہے اپنے معتقدات، اور مرزا صاحب اپنے معتقدات کے باوجود اس قسم کے کشتنی اور گردن زدنی نہیں قرار دئیے 1610گئے تھے۔ اس کے بعد میں عرض کرتا ہوں کہ ۱۸۹۶ء میں جلسہ مذاہب عالم ہوا، جس میں مرزا صاحب کا ایک مضمون پڑھا گیا۔ تو دیکھئے اگر اُس شخص کے دعوے ایسے تھے، اگر اُس کے معتقدات ایسے تھے تو ٹھیک ہے، مرزا صاحب نہ ہوں، مگر مرزا صاحب ہی کا مضمون سنایا جارہا ہے، مرزا صاحب ہی کے خیالات کو پھیلایا جارہا ہے، مرزا صاحب ہی کی Representation (تعبیر) جو اِسلام کی وہ دیتے ہیں، وہ بیان کی جارہی ہے۔ تو اگر اس قدر ہی وہ خیالات ایسے تھے جو برداشت نہیں ہوسکتے تھے تو واقعہ کیا ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ اُس وقت وہ مضمون اس قدر دِلچسپی، اس قدر خاموشی کے ساتھ، اس قدر توجہ کے ساتھ سنا گیا کہ تمام لوگ جو ہیں وہ رطب اللسان تھے اُس کی خوبی کے۔ تو ایک شخص کافر ہو، بے اِیمان ہو، بہت بُرے عقائد رکھتا ہو، بہت بُرے خیالات اور دعوؤں کا اِظہار کر رہا ہو، مسلمان اُس کے خیالات کو اس طرح سنیں گے؟ یہ کہنا کہ اُن کو کسی جگہ Representation نہیں ہوتی تھی، اُن کے خیالات کو سننے کے لئے کوئی نہیں ہوتا تھا…
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزا کی مخالفت کیوں ہوئی)
جناب یحییٰ بختیار: میں نے یہ پوچھا آپ سے، دیکھیں، صاحبزادہ صاحب! کہ یہ اُن کی مخالفت کیوں ہوئی؟ آپ یہ بتادیجئے۔
جناب عبدالمنان عمر: میں وہیں حاضر ہو رہا ہوں، وہی بات عرض کرنے لگا ہوں۔ تو اُس کے بعد ۱۹۰۰ء کا زمانہ آتا ہے۔ انگلینڈ سے ایک پادری لفرائے آتے ہیں۔ وہ پنجاب میں ایک طوفان مچاتے ہیں عیسائیت کی تبلیغ کا، اور وہ ایک سلسلۂ تقاریر شروع کرتے ہیں، ’’زِندہ نبی‘‘، ’’معصوم نبی۔‘‘ اس قدر مشکلات پیدا ہوتی ہیں لوگوں کو کہ پھر مرزا صاحب ہی کی طرف رُجوع کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ آپ اِس کا مقابلہ کریں۔ چنانچہ اس شخص نے جو اپنا گڑھ بنایا تھا، وہ لاہور میں انارکلی کے لوہاری دروازے کی طرف کا جو گرجا ہے، وہاں انہوں نے شروع کیا اور اس کے بعد یہ شخص وہاں سے ایسا 1611بھاگا ہے اور مرزا صاحب نے اس کا اس قدر تعاقب کیا ہے کہ وہ وہاں سے کراچی گیا، بمبئی گیا، اور آخر وہ ملک چھوڑ کر چلا گیا اور دعویٰ وہ یہ لے کر آیا تھا کہ: ’’میں چند سال میں اس برصغیر کے مسلمانوں کو (نعوذباللہ) عیسائیت کی آغوش میں لے جاؤں گا۔‘‘ تو مرزا صاحب کو اُن لوگوں نے اپنا Representative بنایا۔ بعض لوگوں نے کہا، میں اِعتراف کرتا ہوں جنابِ والا! اس بات کا کہ بعض لوگوں نے کہا کہ یہ کافر ہے اور یہ چیز پادری لفرائے نے پیش کی کہ جناب۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: جی، میں مان گیا کہ اُن کی کسی نے مخالفت نہیں کی! ابھی مجھے اگلا سوال پوچھنے دیجئے۔ میں مان گیا کہ کسی نے مخالفت نہیں کی اُن کی!
جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں، میں نے یہ نہیں کہا کہ کسی نے اُن کی مخالفت نہیں کی۔
جناب یحییٰ بختیار: میں اگلا سوال پوچھتا ہوں۔ اگر آپ نے ہر سوال کا اسی طرح سوال کا جواب دینا ہے تو بڑا مشکل ہوجائے گا، کیونکہ یہ ساری باتیں صاحبزادہ صاحب! ہم سُن چکے ہیں، ایک ایک مناظرے کا ہم سُن چکے ہیں، ایک ایک بحث سُن چکے ہیں، ایک ایک حوالہ اُن کا ہم پڑھ چکے ہیں۔ یہ پندرہ دن اسی میں گزرے۔ اسی لئے ہم آپ کو تکلیف نہیں دینا چاہتے تھے۔
جناب عبدالمنان عمر: وہ چونکہ خفیہ تھا اس لئے ہمیں علم نہیں تھا۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں میں اس واسطے کہہ رہا ہوں کہ یہ اگر یہ۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: میں گزارش یہ کر رہا تھا کہ یہ میرا موقف نہیں تھا۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: لاہور کے لیکچر اُن کے آگئے، باقی لیکچر آگئے، ایک ایک پادری ایک ایک ’’انجامِ آتھم‘‘ سارے کے سارے جو وعدے تھے جو ’’عبداللہ آتھم‘‘ نے کہا، یہ قصے ہم سُن چکے ہیں۔
1612جناب عبدالمنان عمر: میں وہ قصے نہیں سنا رہا ہوں، میں Stand آپ کو اپنا یہ…
جناب یحییٰ بختیار: میں نے صرف یہ سوال پوچھا کہ آخر اگر وہ۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: ۔۔۔۔۔۔ کہ اُن کی مخالفت کیوں ہوئی؟
جناب یحییٰ بختیار: … اُس زمانے میں وہ ہیرو تھے، ایک دَم اُن کی مخالفت ہوتی ہے…
جناب عبدالمنان عمر: اسی کے متعلق میں عرض کرنے لگا ہوں کہ میں گزارش یہ کر رہا تھا جنابِ والا! کہ اُن کی مخالفت کے لئے ضروری نہیں تھا کہ وہ کوئی ایسا عقیدہ پیش کرتے جس سے کہ مخالفت ہوتی، جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ یہ عقیدہ اور یہ اپنا موقف اور یہ اپنا مقام اُنہوں نے ’’براہین‘‘ کے زمانے میں بھی پیش کیا تھا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزا صاحب کے زمانہ میں مسلمانوں سے سوشل تعلقات کیسے تھے؟)
جناب یحییٰ بختیار: بس ٹھیک ہے جی، ابھی میںایک اور سوال آپ سے یہ پوچھتا ہوں، میں پوچھ رہا تھا Actually کہ آپ کے سوشل تعلقات باقی مسلمانوں کے ساتھ… آپ نے کہا کہ احمدیہ فرقہ ایک علیحدہ فرقہ ہے اور ایسے ہی Census میں درج کیا گیا ۱۹۰۱ء میں۔ باقی مسلمان جو ہیں اُن کے ساتھ احمدی مسلمانوں کے کیا تعلقات رہے ہیں مرزا صاحب کے زمانے سے؟ آج کا میں نہیں کہتا کہ مرزا بشیرالدین۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: مرزا صاحب کے زمانے سے اُن کے تعلقات یہ رہے ہیں کہ مرزا صاحب کے سب سے بڑے بیٹے مرزا محمود احمد صاحب کی جو شادی ہوئی پہلی، وہ اپنے باپ کی دو بیٹیاں تھیں، اُن میں سے ایک بیٹی مرزا محمود احمد سے یعنی مرزا صاحب کے بڑے بیٹے سے بیاہی گئی، اور دُوسری بیٹی اُن کی خلیفہ اسداللہ صاحب، جو جماعت سے تعلق نہیں رکھتے تھے، اُن کے ساتھ بیاہی گئی اور یہ باپ جو تھا ان 1613بیٹیوں کا، وہ اس انجمن کے بانی ممبروں میں سے تھا، سب سے اِبتدائی جو چودہ ممبر اس انجمن کے مرزا صاحب نے قائم کئے تھے، وہ معمولی شخصیت کا آدمی نہیں تھا، بہت بڑی شخصیت کا آدمی تھا۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: وہ جماعت کا ممبر تھا؟
جناب عبدالمنان عمر: جماعت کا ممبر تھا، جماعت کا سرکردہ ممبر تھا۔ اُس کی ایک بیٹی ایک احمدی کے ساتھ بیاہی جاتی ہے، دُوسری بیٹی اُس کی دُوسرے احمدی کے ساتھ بیاہی جاتی ہے، غیراحمدی کے ساتھ جو جماعت میں شامل نہیں، اُس کا کوئی تعلق نہیں ہے، وہ اُس کے ساتھ بیاہی جاتی ہے۔ تو یہ کہنا۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں میں تو پوچھتا ہوں، میں نے ابھی آپ سے پوچھا، میں نے ابھی کچھ کہا نہیں۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: میں تو صرف گزارش کر رہا ہوں کہ واقعہ کیا ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(کسی احمدی لڑکی کی شادی غیراحمدی سے ہوسکتی ہے؟)
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، تو آپ کو اس پر کوئی اِعتراض نہیں ہے کہ اگر کسی احمدی لڑکی کی شادی کسی غیراحمدی مسلمان سے ہو؟
جناب عبدالمنان عمر: محض اس بنیاد پر، کیونکہ شادیوں میں آپ جانتے ہیں کہ بہت سے خیالات، بہت سی چیزیں کفو کے سلسلے میں دیکھنی پڑتی ہیں۔ اس لئے یہ کوئی مذہبی مسئلہ نہیں ہے، یہ کوئی دِینی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ایک سوشل مسئلہ ہے۔ جیسے ہم اور آپ شادیوں کے موقع پر اور بہت سی باتیں دیکھتے ہیں، اسی طرح ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کسی ایسی جگہ شادی نہ ہو کہ جس میں اُن کے گھریلو تعلقات، میاں اور بیوی کے، محض مذہبی عقائد کی وجہ سے خراب ہوجائیں۔ اس نقطئہ نگاہ سے تو ہم ضرور دیکھیں گے اور یہ ہر شخص کا اِنفرادی فعل ہوگا۔ لیکن اس لئے وہ مرزا صاحب کو نہیں مانتا، اور یہ اتنا بڑا جرم اُس کا ہوگیا، اُس وجہ سے شادی مت کرو، یہ Stand نہیں ہے ہمارا اور بہت سے 1614اس وقت بھی بہت سے ہمارے سرکردہ لوگ ہیں، اُن کی شادیاں جو ہیں وہ ایسے گھرانوں میں ہوئی ہیں جو مرزا صاحب کے ماننے والے نہیں ہیں، اُن کی لڑکیاں ایسے گھرانوں میں آئی ہیں، جو مرزا صاحب کو ماننے والے ہیں۔ تو یہ چیز مذہبی نقطئہ نگاہ سے نہیں ہے۔
اب لیجئے سوشل تعلقات میں سے جنازہ وغیرہ، اب رہ گیا جنازہ وغیرہ۔ یہ بھی ایک ٹھیک ہے، مذہبی حصہ ہے، لیکن اس کا بہت سا سوشل حصہ ہے۔ تو اس کے متعلق میں آپ کو گزارش کروں گا کہ مرزا صاحب کا اور ہماری جماعت کا موقف یہ ہے کہ ہم لوگ ۔۔۔۔۔۔ میں ایک خط کا فوٹواسٹیٹ آپ کے سامنے رکھتا ہوں اور یہ لکھنے والا شخص اس جماعت کا بہت بڑا اِنسان یعنی مولانا نورالدین ہے، اور وہ الفاظ اپنے نہیں لکھتا بلکہ مرزا صاحب کا لکھتا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’جو مخالف نہیں اور شرارت نہیں کرتے اور للہ الکریم نماز پڑھتے ہیں اُن کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے۔‘‘ یہ الفاظ حضرت مرزا صاحب کے ہیں۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: آپ۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: ۔۔۔۔۔۔ یہ میں نے مرزا صاحب کا ایک خط پیش کیا ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جومخالف نہیں اس سے کیا مراد ہے؟)
جناب یحییٰ بختیار: ’’جو مخالف نہیں‘‘ اس سے کیا مراد ہے؟
جناب عبدالمنان عمر: میں عرض کرتا ہوں، ’’مخالف نہیں ہے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اُس کو دنگاوفساد بھی نہیں کرتا، وہ گالی گلوچ بھی نہیں کرتا، وہ بُرا بھلا نہیں کہتا، اور وہ اس قسم کے رویہ اِختیار نہیں کرتا کہ مذہبی اِختلاف کی وجہ سے ان اِختلافات کو سوشل معاملات میں بڑھادے اور مشکلات پیدا کردے۔
جناب یحییٰ بختیار: تو مرزا صاحب کی مخالفت یا اُن کو بُرا بھلا کہنے والے تو وہی لوگ تھے جو اُس کو نبی نہیں مانتے تھے، یا اُن کے دعوے نہیں مانتے تھے۔
1615جناب عبدالمنان عمر: یہ ضروری نہیں ہے۔ بہت سے لوگ، بڑی تعداد ہے، مجھے آپ موقع دیں تو میں آپ کو عرض کروں گاکہ مسلمانوں کے بہت بڑے بڑے چوٹی کے لوگ مرزا صاحب کی تعریف کرتے تھے اور یہ کہنا کہ جی، جو مرزا صاحب کے عقیدے کو نہیں مانتا وہ مرزا صاحب ہی کا مخالف ہے، بُرا بولتا ہے، یہ صحیح نہیں ہے۔ میں اس کے لئے جنابِ والا! اگر آپ اِجازت دیجئے تو میں عرض کروں گا۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، بہت کچھ کہا آپ نے۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جنابِ والا! ڈاکٹر سر محمد اقبال بہت بڑے چوٹی کے انسان تھے۔ اُن کو بعد میں ہم سے اِختلاف بھی پیدا ہوگیا تھا۔ مولوی غلام محی الدین صاحب قصوری کا بیان اور یہ تحقیق جو ہے، منیر انکوائری میں پیش ہوچکی ہے۔ اُن کا یہ بیان ہوچکا ہے کہ اُنہوں نے مرزا صاحب کے دعوے کے پانچ سال بعد ۱۸۹۷ء میں مرزا صاحب کی بیعت کرلی تھی اور یہ چیز اخبار ’’نوائے وقت‘‘ ۱۵؍نومبر ۱۹۵۳ء میں بھی چھپ چکی ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(کس نے بیعت کرلی؟)
جناب یحییٰ بختیار: یہ کس نے بیعت کرلی تھی؟
جناب عبدالمنان عمر: سر محمد اقبال۔
جناب یحییٰ بختیار: سر اقبال نے؟
جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں۔ اچھا جی، پھر۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ایک بات آپ سے پوچھ سکتا ہوں میں؟
جناب عبدالمنان عمر: جنابِ والا!
جناب یحییٰ بختیار: کیونکہ آپ بات مجھے کرنے نہیں دیتے۔ اگر آپ ذرا میری…
جناب عبدالمنان عمر: معاف کیجئے گا، ابھی میری ذرا۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: اگر تھوڑی سی میری عرض سن لیں آپ، کہ آپ نے یہاں جو حوالے دئیے ہیں۔۔۔۔۔۔
1616Madam Acting Chairman: (To the witness) Please speak slowly.
(محترمہ قائمقام چیئرمین: (گواہوں سے) براہِ کرم آہستہ بولیں)
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ آپ نے مرزا صاحب کی نبوّت کے اِنکار کے حوالے دئیے ہیں کافی، ۱۹۰۱ء کے بعد، اُن کے بعد بھی۔ تو جب آپ یہ حوالے دیتے ہیں یا وہاں سے کچھ حوالے پڑھتے ہیں، صرف آپ وہی حوالے پڑھتے ہیں جو آپ کے حق میں ہوں یا آپ کی Stand کی جو Support کرتے ہوں۔ جو مخالف ہوں وہ تو آپ نہیں دیتے۔
جناب عبدالمنان عمر: نہیں، جنابِ والا! میرا موقف، میں نے شروع میں عرض کیا تھا…
جناب یحییٰ بختیار: میں یہ آپ سے پوچھتا ہوں کہ علامہ اقبال کا آپ ذِکر کرتے ہیں کہ ان کی وفات پر انہوں نے یہ کہا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ علامہ اقبال نے تیس سال کے بعد کیا کہا…
جناب عبدالمنان عمر: میں وہ عرض کروں گا۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، آپ کے اپنے جواب میں۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: نہیں جی، میں ضرور عرض کروں گا کہ علامہ صاحب۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: مولانا مودودی نے پوری کتاب لکھ دی، آپ اُس کا ذِکر نہیں کررہے۔
جناب عبدالمنان عمر: ضرور کروں گا جناب!
جناب یحییٰ بختیار: آپ نے ایک فقرہ لے لیا کہیں سے کہ مولانا مودودی نے یہ کہا ہے؟
جناب عبدالمنان عمر: نہیں جناب! میں اُن کا ضرور یہ موقف بیان کروں گا۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں نے یہ پوچھا کہ آپ نے۔۔۔۔۔۔
1617جناب عبدالمنان عمر: اگر وہ مجھے۔۔۔۔۔۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(علامہ اقبالؒ کا ایک فقرہ لے لیا)
جناب یحییٰ بختیار: آپ بات نہیں کرنے دیتے۔ آپ نے جو جواب داخل کیا ہے، میں اس کا پوچھ رہا ہوں کہ اس میں آپ نے ذِ کر کیا کہ علامہ اقبال نے یہ کہا، ایک فقرہ اُن کا لے لیا۔ مولانا مودودی نے یہ کہا، ایک فقرہ اُن کا لے لیا۔ بعد میں یہ ذِکر نہیں کرتے کہ انہوں نے بعد میں کیا کہا۔ علامہ اقبال نے ۱۸۹۵ء میں بیعت کی، علامہ اقبال نے ۱۹۱۱ء میں تعریف کی کہ بہت بڑے مفکر تھے اسلام کے۔ علامہ اقبال نے ۱۹۳۰ء میں جاکے پڑھی تھی کیا ظلم ہوا، اِس آدمی نے کہا کیا ہے۔ پھر ۱۹۳۴ء میں جاکے ان کو اور خبر پڑی۔ پھر انہوں نے کہا کہ نہیں، یہ تو معاملہ ہی اور ہے۔ تو آپ ایسا نہیں کہہ رہے کہ پہلے یہ کہا۔ میں وکیل ہوں، عدالت میں جاتا ہوں۔ میرا ایک کیس ہوتا ہے۔ تین نظیریں میرے خلاف ہیں۔ چار نظیریں میرے حق میں ہیں۔ اگر میں اپنے پیشے کو تھوڑا سا بھی جانتا ہوں گا اور جو بھی وکیل تھوڑا بھی اپنا پیشہ جانتا ہے تو جو نظیر خلاف ہووہ بھی سامنے لاکے رکھ دیتا ہے، جو حق میں ہو وہ بھی سامنے رکھ دیتا ہے… یہ ایک عدالت ہے… اور پھر کہتا ہے کہ جی! اس کا مطلب یہ ہے، یہ میرے کیس میں نہیں Apply کرتا، وہ اس سے یہ شک پیدا ہوسکتا ہے، اور یہ میرے کیس پر Apply کرتا ہے۔ تو آپ جو ہیں، علامہ اقبال کا ذِکر کردیتے ہیں کہ وہ بیعت لے آئے تھے، اور اس کا ذِکر نہیں کرتے کہ جب پنڈت نہرو حکومت اور اِقتدار میں آنے لگے تھے ۳۶-۱۹۳۵ء میں کتنے بڑے قادیان والوں نے اُس کے جلوس نکالے، جلسے نکالے۔ انہوں نے کہا کہ بھئی! یہ دیسی پیغمبر بن رہا ہے، بڑی اچھی بات ہے یہ۔ پھر علامہ اقبال کود پڑے، ان کی مخالفت کی۔ اِس کا آپ ذِکر نہیں کرتے۔ تو اِس لئے ایسے آدمی کا ذِکر نہ کریں کہ جنہوں نے آپ کی بہت زیادہ مخالفت کی ہے، اور آپ کہیں گے کہ ایک فقرہ میرے حق میں جا1618رہا ہے یا علامہ اقبال نے بیعت کیا، کیونکہ اس کا فائدہ نہیں۔ نہ ہی وہ حوالے ہمیں پیش کریں جو کہ آپ کے حق میں ہوں، وہ حوالے جو خلاف ہیں، آپ کہتے ہیں کہ جی ’’یہ ہم نہیں پیش کررہے۔‘‘ کیونکہ آپ نے ہماری مدد کرنی ہے یہاں کہ ہم صحیح فیصلے پر پہنچیں، اور یہی مطلب ہے کہ آپ کو Reques (درخواست) کی کہ آپ آئیے اور کچھ بتائیے، اس پہ آپ۔ اب جو میں آپ سے سوال پوچھتا ہوں، آپ اس پر ایک تقریر شروع کردیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ سوال وہیں کا وہیں رہ جاتا ہے۔
میں نے آپ سے معمولی سوال پوچھا کہ سوشل تعلقات کیا ہیں؟ آپ نے کہا کہ ہم شادی کی اِجازت دیتے ہیں کہ اگر احمدی لڑکی ہے تو وہ غیراحمدی مسلمان سے شادی کرسکتی ہے۔ ویسے تو یہ ٹھیک ہے۔ کوئی مسلمان بھی دیکھے کہ اچھے گھر میں شادی ہو، وہ تو اور Consideration (مقصد) ہے۔ آپ کو اس پر کوئی اِعتراض نہیں، یہ بات ہم نے نوٹ کرلی۔
جناب عبدالمنان عمر: میں گزارش۔۔۔۔۔۔ موقع مجھے نہیں ملا عرض کرنے کا۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں جی، آپ کو پورا موقع ملے گا۔ پہلے آپ میرے سوال کا جواب دے دیں۔
جناب عبدالمنان عمر: میں اس کی کوشش کروں گا۔
 
Top