• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قومی اسمبلی میں ہونے والی اکیس دن کی مکمل کاروائی

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(اصلی نبی اور جھوٹے مدعی نبوت میں فرق کس طرح ہوگا؟)
جناب یحییٰ بختیار: اب اصلی نبی اور ایسا شخص جو دعویٰ کرے۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں، نقلی شیر اور اصلی شیر نہیں، بلکہ ’’شیر‘‘ کے لفظ کا حقیقی استعمال اور اس کا مجازی استعمال۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، مطلب یہ کہ جیسے ’’شیرِ پنجاب‘‘ اور ’’شیرِ بنگال۔‘‘
جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں۔ بالکل بالکل۔
1586جناب یحییٰ بختیار: اور وہ جو ہوتے ہیں، وہ تو خیر چھوڑ دیجئے۔۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں، بالکل۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ان میں فرق نہیں ہوتا۔ ہاں، نہیں، وہ، وہ بات میں نہیں کر رہا۔ مگر ایک، ایک چیز کو آپ دیکھتے ہیں کہ بھائی یہ چیز کیسی ہے؟ کہ یہ چیز گلاس ہے۔ تو آپ کہتے ہیں کہ گلاس کی کیا خوبی ہے؟ اس قسم کا Shape ہوگا، جس میں پانی یا کوئی چیز آپ ڈال سکیں گے۔ ممکن ہے بڑا سائز ہو، چھوٹا سائز ہو، ایک Shape ہو، دُوسرا Shape ہو، شیشے کا ہو، کسی اور چیز کا ہو، گلاس ہوجاتا ہے۔ نبی بھی ایک انسان ہوتا ہے، محدث بھی ایک انسان ہوتا ہے۔ یہ دونوں Common Factor (مشترکہ امر) تو ان کے شروع میں آجاتے ہیں۔ اس کے بعد وہ کہتے ہیں جی کہ اللہ سے نبی پر وحی نازل ہوتی ہے، نبی پر اللہ کی طرف سے وحی نازل ہوتی ہے اور ایک شخص جس کو آپ محدث کہتے ہیں وہ کہتا ہے: ’’مجھ پر بھی اللہ کی طرف سے وحی نازل ہوتی ہے‘‘۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں، دونوں میں بڑا فرق ہے۔ مرزا صاحب نے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: میں، مرزا صاحب کی بات نہیں کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: ہیں جی؟
جناب یحییٰ بختیار: اس وقت میں مرزا صاحب کی بات نہیں کر رہا، میں جنرل بات کر رہا ہوں۔
جناب عبدالمنان عمر: میں سمجھتا ہوں کہ وحی، وحی کی بہت سی اقسام ہیں۔ ایک وحی ہوتی ہے جس کو ’’وحیٔ متلو‘‘ کہتے ہیں، جیسے ’’وحیٔ قرآن‘‘ کہتے ہیں۔ یہ نبی کریمa سے خاص ہے اور اس قسم کی وحی کا دروازہ تاقیامت بند ہے۔ نہ اس قسم کا اِلہام ہوسکتا ہے کسی کو، نہ وحی ہوسکتی ہے۔ جس کو وحیٔ نبوّت کہتے ہیں، یہ نہیں، یہ دروازہ بند ہے۔ ہم ہرگز نہیں سمجھتے کہ مرزا صاحب پر بھی وہی وحی نازل ہوتی تھی اور اس کی وہی کیفیت تھی اور اس کا وہی مقام تھا، اس کا وہی درجہ تھا جو نبی کریمa کا تھا، بالکل نہیں۔
1587جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں پہلے اس تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔
جناب عبدالمنان عمر: جی، جی۔
جناب یحییٰ بختیار: میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ جب آپ کہتے ہیں دو شخص ہیں۔ ایک ہے محدث، مجدد، اولیائ، نیک بندہ، انسان، اور ایک ہے اللہ کا نبی۔ آپ دیکھئے ناں، اس پر، دونوں پر وحی آسکتی ہے، آپ یہ کہتے ہیں؟
جناب عبدالمنان عمر: جی، وہی تو میں نے عرض کیا، وحیٔ نبوّت نہیں آسکتی۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(ایک شخص کہے کہ مجھ پر وحی نبوت آئی ہے؟)
جناب یحییٰ بختیار: وحیٔ نبوّت نہیں آسکتی؟
جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں، نہیں آسکتی، بالکل نہیں آسکتی۔ میں عرض کرتا ہوں…
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، نہیں، میں یہ پوچھ رہا تھا تاکہ اگر۔۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں، وحیٔ نبوّت نہیں آسکتی۔
جناب یحییٰ بختیار: اور اگر ایک شخص کہے کہ مجھ پر وحیٔ نبوّت آئی ہے۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں، بالکل۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ تو وہ ۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: تو وہ مدعیٔ نبوّت بن جائے گا۔
جناب یحییٰ بختیار: بن جائے گا۔ بس آگے پھر ابھی میں۔۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: بالکل نبی بن جائے گا۔ میں صرف ایک گزارش۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں،۔۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: ۔۔۔۔۔۔ کی اِجازت دیجئے گا مجھے۔۔۔۔۔۔ مرزا صاحب فرماتے ہیں:
’’اگرچہ ایک ہی دفعہ وحی کا نزول فرض کیا جائے اور صرف ایک فقرہ حضرت جبریل علیہ السلام لاویں اور پھر چُپ ہوجاویں یہ امر بھی ختمِ نبوّت کے 1588منافی ہے، کیونکہ جب ختمِ نبوّت کی مہر ٹوٹ گئی اور وحیٔ رِسالت پھر نازل ہونی شروع ہوگئی تو پھر تھوڑا یا بہت نازل ہونا برابر ہے۔ ہر ایک دانا سمجھ سکتا ہے کہ اگر خداتعالیٰ صادق الوعد ہے اور آیت خاتم النّبیین میں وعدہ دیا گیا ہے اور حدیثوں میں بالتشریح بیان کیا گیا ہے کہ اب جبریل علیہ السلام کو بعد وفات رسول اللہﷺ ہمیشہ کے لئے وحیٔ نبوّت لانے سے منع کیا گیا ہے۔‘‘ تو یہ تمام باتیں سچ اور صحیح ہیں۔ ہم وحیٔ نبوّت کا ایک فقرہ بھی نازل ہوجائے، اس کو بھی ختمِ نبوّت کے منافی سمجھتے ہیں۔ جبریل امین ایک فقرہ وحیٔ نبوّت کا لے کے کسی شخص پر نازل ہو اور وہ کہے: ’’مجھ پر نازل ہوتا ہے‘‘ ہم کہیں گے وہ شخص مدعیٔ نبوّت ہے اور ہم ایک فقرے کی آمد کے بھی قائل نہیں ہیں بعد نبی کریمa کے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزا صاحب کے جماعت بنانے اور ان سے بیعت لینے کا مقصد کیا تھا؟)
جناب یحییٰ بختیار: اچھا، اب آپ یہ فرمائیے کہ جو مرزا صاحب نے اپنی جماعت بنائی اور لوگوں سے کہا بیعت ان پر کریں، ان کا مقصد کیا تھا؟ ایک علیحدہ اُمت بنانا تھا یا ایک اور فرقہ مسلمانوں کا بنانا تھا، یا صرف ایک گروہ تھا جو خدمت کریں؟ کیا۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جنابِ والا! میری گزارش یہ ہے کہ مرزا صاحب نے یہ جو جماعت بنائی تھی اس سے قطعاً کوئی نئی اُمت بنانا مقصد نہیں تھا، اس سے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: اور فرقہ بنانا تھا۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: میں عرض کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔مسلمانوں کا؟
جناب عبدالمنان عمر: اس سے مسلمانوں کے اندر ایک ایسی چیز پیدا کرنا نہیں تھا جس سے اِفتراق بین المسلمین اور تکفیر بین المسلمین کا دروازہ کھلے۔ میں جناب کے سامنے وہ شرائط رکھ دُوں گا جس سے آپ خود اندازہ کرلیں گے کہ مرزا صاحب نے یہ جو جماعت بنائی تھی اس کی غرض کیا تھی۔ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ:
1589’’اس جماعت کے بنانے کی غرض دو(۲) ہیں۔ ایک غرض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق قائم ہوجائے۔ انسان نیک بن جائے۔ اِنسان محمد رسول اللہa کے اُسوہ پر چلنے کے قابل ہوجائے۔ قرآن کریم کی خدمات، قرآن مجید کی تعلیم کو کلیۃً اپنے اُوپر وہ شخص وارِد کرلے اور محمد رسول اللہﷺ کا حقیقی غلام اور حقیقی اُمتی اور حقیقی تابع دار بن جائے اور دُوسری غرض اس جماعت کے قائم کرنے کی میری یہ ہے کہ تادُنیا میں اسلام کی اِشاعت ہو، محمد رسول اللہﷺ کی چمکار سے دُنیا روشن ہوجائے اور وہ لوگ جو اَبھی دائرۂ اسلام میں نہیں آئے، محمد رسول اللہﷺ کی غلامی میں نہیں آتے، جو لا اِلٰہ اِلَّا اللہ سے ناواقف ہیں، جو توحید نہیں جانتے، جو رِسالت نہیں جانتے، جو قرآن نہیں جانتے، اُن لوگوں کو دائرۂ اسلام میں لایا جائے۔‘‘
چنانچہ میری بات کی تائید فرمائیں گے مولانا صاحب… یہ یورپ میں تشریف لے گئے۔ پہلے اِنگلستان تشریف لے گئے، پھر یہ جرمنی میں تشریف لے گئے… آپ ان کی شہادت لے سکتے ہیں کہ انہوں نے وہاں جاکر کبھی بھی نہ مرزا صاحب کی نبوّت کو پیش کیا، نہ مرزا صاحب کے وجود کو اس طرح پیش کیا کہ وہ ایک مستقل قسم کا انسان ہے جس کو محمد رسول اللہa کی غلامی سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم وہاں جاتے ہیں، مسلمان بنانے کے لئے جاتے ہیں۔
اور اس کے علاوہ یہ جناب! اب میں نے آپ کے سامنے یہ عرض کیا تھا کہ میں بیعت کی…
جناب یحییٰ بختیار: وہ جی ہم نے پڑھی ہے۔
جناب عبدالمنان عمر: جی دس (۱۰) شرائط ہیں بیعت۔۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: دس شرائط ہم نے دیکھی ہیں۔
1590جناب عبدالمنان عمر: ۔۔۔۔۔۔ کی طرف جناب کی توجہ دِلاؤں گا۔
جناب یحییٰ بختیار: وہ ہم نے دیکھی ہیں جی، وہ ہم نے دیکھی ہیں، ریکارڈ پر آچکی ہیں۔
جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں، میں صرف اس ایک بات کی طرف جناب کی توجہ دِلاؤں گا۔
مولانا صدرالدین: صاحبزادہ صاحب نے فرمایا تھا میرے متعلق۔ میں دو(۲) دفعہ اِنگلستان میں گیا ہوں، اور بہت سے انگریزوں کو مسلمان کیا ہے، لیکن میں نے کبھی کسی پرائیویٹ مجلس میں بھی حضرت مرزا صاحب کا ذِکر نہیں کیا، کیونکہ میں حضرت مرزا صاحب کو اسلام کا بانی نہیں سمجھتا۔ محمد رسول اللہﷺ اسلام لائے ہیں۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: مولانا۔۔۔۔۔۔
مولانا صدرالدین: ۔۔۔۔۔۔ میں اسلام کا وعظ کرتا تھا۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: مولانا! بہت سے۔۔۔۔۔۔
مولانا صدرالدین: ۔۔۔۔۔۔ مرزا صاحب کا نام بالکل نہیں لیتا تھا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(صدرالدین اپنے وعظ میں مرزا کا نام لیتے تو لوگ مسلمان نہ ہوتے)
جناب یحییٰ بختیار: آپ گستاخی معاف کریں، بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اگر آپ اُن کا ذِکر کرتے تو لوگ مسلمان نہ ہوتے۔ آپ اسلام کا نام لیتے جب ہی مسلمان ہوجاتے۔ ہم۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: میں گزارش یہ کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ مگر اُس بات کو چھوڑ دیجئے۔
جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں، میں اسی سلسلے میں ۔۔۔۔۔۔۔ کہ یہ سمجھنا کہ اگر وہاں اِسلام کا نام لینے کے علاوہ کوئی اور نام لیا جاتا تو اِسلام نہ پھیلتا اور اس وجہ سے ہم لوگوں نے اُس سے اِجتناب کیا، ایک مصلحت کے تحت اِجتناب کیا، میں بڑے ادب سے گزارش 1591کروں گا کہ یہ واقعہ صحیح نہیں ہے۔ ہم نے قطعاً… ہم تو پہلی دفعہ باہر گئے ہیں۔ ۱۹۱۳ء میں۔ سب سے پہلی دفعہ ہم نے پہلا مشن جو ہے ۱۹۱۳ء میں انگلینڈ میں قائم کیا، برمنگھم میں۔ خواجہ کمال الدین صاحب کی معتقدات، اُن کی تقریریں، کوئی چھپی ہوئی بات نہیں ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، یہ۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: کسی مصلحت کے تحت نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: یہ تو آپ دُرست فرما رہے ہیں۔ کیا خواجہ صاحب جب جارہے تھے ایک دفعہ، مرزا صاحب کی زندگی میں پروگرام بن رہا تھا ایک دفعہ کہ وہ جائیں۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں، یہ ۱۹۱۳ء کی میں نے گزارش کی ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: مجھے معلوم ہے۔
جناب عبدالمنان عمر: ۱۹۰۸ء میں مرزا صاحب فوت ہوگئے۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاںجی۔ اس سے پہلا پلان تھا کہ بھیجے جائیں آدمی پہلے مرزا صاحب کی زندگی میں۔
جناب عبدالمنان عمر: خواجہ صاحب نہیں بلکہ کچھ لوگ۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزا صاحب کا ذکر نہیں ہونا چاہئے)
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، تو اُس زمانے میں جب اُن کو کہا گیا کہ مرزا صاحب کا ذِکر نہیں ہونا چاہئے تو اُنہوں نے کہا: پھر تو وہ بات ہی نہیں ہوئی۔
جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں، میں عرض کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: کوئی ایسی بات ہوئی تھی کہ نہیں؟
جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں، وہ لاہور کے ایک مولوی انشاء اللہ صاحب تھے، اُنہوں نے کہا کہ: ’’ہم آپ کو روپے کی اِمداد دیتے ہیں، ہم آپ کو۔۔۔۔۔۔ آپ باہر مشن 1592قائم کیجئے، اور اس طرح ہم اور آپ مل کر اِشاعتِ دِین کا کام کرتے ہیں۔‘‘ اَب اگر وہ بات ہوتی، جیسا کہ آپ نے فرمایا ہے، تو ہمیں یہ Offer (پیشکش) اُس وقت قبول کرلینی چاہئے تھی۔ ہمیں مالی اِمداد بھی ملتی تھی، ہماری شہرت بھی ہوتی تھی، ہمارے لئے راستے بھی کھلتے تھے۔ ہم نے اُس سے اِنکار کردیا۔ کیا وجہ؟ معلوم ہوا کہ ہمارے سامنے نہ سستی شہرت حاصل کرنا مقصود تھا، نہ روپیہ لینا مقصود تھا۔ کیا وجہ ہوئی کہ ہم نے اس کا اِنکار کیا؟ وہ واقعہ یہ ہے… چھپا ہوا واقعہ ہے، خفیہ نہیں ہے۔ "Review" کی فائلوں میں وہ بحث موجود ہے… ہم نے اس لئے کہا، اُنہوں نے کہا کہ: ’’جناب آپ وہاں جاکے قرآن کی وہ تشریح نہ پیش کیجئے جو کہ مرزا صاحب نے آپ کو دِی۔ تشریح وہ پیش کیجئے جو ہم بتاتے ہیں۔‘‘ تو یہ تو عجیب بات تھی کہ ہم ایک شخص کو خدا کا ایک مقرب سمجھتے ہیں، اُس کے متعلق یہ سمجھتے ہیں کہ اُس کو خداتعالیٰ رہبری کرتا ہے، وہ قرآن مجید کے معارف جانتا ہے، وہ قرآن شریف کی ایسی تفصیلات اور تشریحات دیتا ہے جو دُوسروں کے ہاں نہیں ہیں، اور ہم یہ عہد کرکے چل پڑیں کہ ہم نے وہاں اُن کا نام پیش نہیں کرنا! میں نے جو گزارش کی ہے وہ یہ ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، آپ جو کہتے ہیں: ’’ہم۔۔۔۔۔۔‘‘ میں نے کہا کہ مرزا صاحب نے یہ اِعتراض کیا تھا، یا کسی اور نے اِعتراض کیا تھا۔
جناب عبدالمنان عمر: یہ مرزا صاحب کی زندگی ہی کا واقعہ ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: اُنہوں نے خود اِعتراض کیا تھا کہ۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: یہ اُن کے ساتھ تو یوں گفتگو نہیں چل رہی تھی، یہ گفتگو خواجہ صاحب، مولانا محمد علی صاحب اور مولوی انشاء اللہ خان صاحب کے درمیان تھی۔
جناب یحییٰ بختیار: اور خواجہ صاحب اور مولانا محمد علی راضی تھے اس بات پر کہ۔۔۔۔۔۔
1593جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں، مولانا صاحب کا چھپا ہوا بیان موجود ہے۔۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: ۔۔۔۔۔۔ کہ ہم اس کے لئے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ضمناً میں نے سوال پوچھا۔
جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں۔ تو میں گزارش جو کر رہا تھا یہ تھی کہ ہم لوگوں نے وہاں قرآن کی وہ تشریح جو ہم سمجھتے ہیں… مثال میں دیتا ہوں، کوئی راز نہیں ہے ہمارا… میں مثال یہ دیتا ہوں کہ ہم حضرت نبی کریمa کے بعد کسی قسم کے نئے یا پُرانے نبی کی آمد کے قائل نہیں ہیں۔ اب یہ تشریح ہے ہماری جو بعضے لوگوں کو پسند نہیں ہے۔ بعضے لوگ کہتے ہیں کہ پُرانا نبی آسکتا ہے، نیا نہیں آسکتا ہے۔ اب یہ تشریح میں ہمارا اور اُن کا اِختلاف ہے۔ ہم وہاں جاکر کبھی یہ نہیں کریں گے کہ جناب چار پیسے ادھر سے مل گئے ہیں، چلوجی! وہاں جاکے کہہ دوں پُرانا آسکتا ہے۔ ہم تشریح وہ کریں گے جو ہم سمجھتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ نبی کریمa کامل طور پر خاتم النّبیین تھے، اور کلیۃً ہر قسم کی نبوّت، کوئی شکل نہیں نبوّت کی جو نبی کریمa کے بعد جاری ہو۔ اس لئے ہم وہاں جاکے نئے اور پُرانے والی بات نہیں کرتے ہیں، ہم ہر قسم کی نبوّت کو ختم کرنے کا وہاں اِعلان کرتے ہیں۔
میں جو گزارش کر رہا تھا وہ یہ تھی کہ ہم لوگوں نے وہاں مرزا صاحب کو ایک مستقل شخصیت کے طور پر پیش نہیں کیا، ہم نے مرزا صاحب کو ایک ایسا انسان پیش نہیں کیا جس کے بعد کفر واِسلام کی نئی تشریحیں سامنے آجائیں، جس کے بعد ایک نیا معاشرہ قائم ہونے لگ جائے، جس کے بعد ایک نیا دِین اور ایک نیا مذہب اور ایک نئی ملت قائم ہونے لگ جائے۔ یہ چیز ہم نے کبھی وہاں پیش نہیں کی۔ میں گزارش کررہا تھا کہ آپ نے فرمایا کہ: ’’جناب! کاہے کے لئے آپ نے، مرزا صاحب نے یہ جماعت قائم کی؟‘‘ 1594میں نے عرض کیا کہ اُس کے دو(۲) مقاصد تھے۔ ایک یہ کہ انسان کو بدیوں سے نکالا جائے۔ دُوسرا یہ کہ اُس کی، اسلام کی دُنیا میں اِشاعت کی جائے اور اُس کے لئے اُنہوں نے کچھ شرائطِ بیعت مقرّر کئے تھے جو آپ کے ریکارڈ میں موجود ہیں، آپ ملاحظہ فرماچکے ہیں۔ میں صرف اُس کی دو(۲) چیزوں کی طرف توجہ دِلانا چاہتا ہوں۔ ایک اُس کا یہ ہے کہ مقصد کیا ہے؟ یہ کہ دِین اور دِین کی عزت اور ہمدردیاں۔ اسلام کو اپنی جان، اپنے مال اور اپنی عزت، اپنی اولاد اور اپنے ہر ایک عزیز سے زیادہ عزیز سمجھے گا۔ ایک مقصد یہ تھا اور یہ دس(۱۰) شرائطِ بیعت ہیں جن میں سے نو(۹) چیزیں وہ اسی قسم کی ہیں۔ صرف دسویں شرط جو ہے، جس سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ ہم نے مرزا صاحب کی بیعت کیوں کی؟ مرزا صاحب کے ساتھ ہم وابستہ کیوں ہوئے؟ ہم مرزا صاحب کے ساتھ کسی شکل میں وابستہ ہوئے؟ وہ میں آپ کے سامنے الفاظ عرض کردیتا ہوں۔ دسویں شرط یہ ہے کہ:
’’اس عاجز (یعنی حضرت مرزا غلام احمد صاحب) سے عقدِ اُخوّت محض للہ، بااِقرارِ تحت در معروف باندھ کر اس پر تاوقتِ مرگ قام رہے گا، اور اس عقدِ اُخوّت میں بھائی کا جو بھائی چارہ ہے، اس عقدِ اُخوّت میں ایسا اعلیٰ درجے کا ہوگا، اُس کی نظیر دُنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو۔‘‘
یہ ہے مرزا صاحب کی بیعت لینے کی غرض! یہ ہے مرزا صاحب کے جماعت بنانے کی غرض! یہ ہے مرزا صاحب کے وہ تنظیم قائم کرنے کی غرض جس کے لئے آپ نے اس جماعت کو قائم کیا! اور اس کے لئے، جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا، کسی قسم کی ڈکٹیٹرشپ کی طرف وہ نہیں جماعت کو لے کر گئے، بلکہ وہی جو مشاورت جس کو ہم کہتے ہیں، شوریٰ جس کو ہم کہتے ہیں، وأمرھم شورٰی بینھمکہ قرآن مجید کی تلقین ہے، اس کے مطابق انہوں نے ایک انجمن کی بنیاد رکھی اور اس انجمن کے قواعد وضوابط گورنمنٹ میں رجسٹرشدہ 1595ہیں، اور ان میں یہی مقاصد لکھے ہوئے ہیں، قرآن کی اِشاعت، دِین کی اِشاعت، محمد رسول اللہa کی اِشاعت، اور خدمتِ اسلام، خدمتِ بنی نوعِ انسان، خدمتِ تعلیم۔ یہ چیزیں ہیں جو ہمارے اغراض ومقاصد ہیں، اور یہ وہ چیزیں ہیں جس کے گرد، جس کی وجہ سے ہم مرزا صاحب کے گرد جمع ہوئے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزا کی جماعت بنانے کی عرض الگ امت بنانا تھا)
جناب یحییٰ بختیار: ذرا ایک، ایک سوال میں آپ سے پوچھ لوں، پھر آپ۔۔۔۔۔۔ اچھا جی، میں نے آپ سے پوچھا کہ آپ نے جو جماعت بنائی تھی اس کی یہ غرض نہیں تھی کہ وہ ایک علیحدہ اُمت بنائیں یا۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، یا فرقہ بنائیں مسلمانوں میں، یہ بھی نہیں تھا؟ فرقہ تو بن گیا۔
جناب عبدالمنان عمر: ’’فرقہ‘‘ کا لفظ تو جماعت کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے، تو یہ تو میں نہیں عرض کروں گا۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں۔
جناب عبدالمنان عمر: ۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ۱۹۰۱ء میں جو مردُم شماری گورنمنٹ نے کروائی تھی، اُس میں ایک خانہ اُن کا فرقوں کا بھی اُنہوں نے رکھا ہوا تھا، تو ہمارا جو اِصطلاحی نام ہے، جو قانونی نام ہے، جس پر ہم اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں، وہ میں عرض کردیتا ہوں، وہ ’’مسلمان فرقۂ احمدیہ‘‘ ہے۔ یہ وہ رجسٹرڈ نام ہے جو کہ ۱۹۰۱ء کی مردُم شماری سے ہمارے لئے اِختیار کیا گیا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزا صاحب کی ڈائریکشن)
جناب یحییٰ بختیار: یہ مرزا صاحب نے آپ کو ڈائریکشن دی تھی کہ آپ اپنا نام ایسے درج کروائیں؟
جناب عبدالمنان عمر: جی، جی ہاں، یہ مرزا صاحب کے لفظ ہیں۔۔۔۔۔۔
1596جناب یحییٰ بختیار: اب یہ بتائیے کہ۔۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: ۔۔۔۔۔۔ ’’مسلمان فرقہ احمدیہ۔‘‘
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ کہ مرزا صاحب کی ڈائریکشنز اور ہدایات کے مطابق آپ کے باقی مسلمانوں سے سوشل، Religious مذہبی تعلقات کیا کیا ہیں؟
جناب عبدالمنان عمر: مسلمانوں کے ساتھ، تو بات یہ ہے جی کہ جیسا میں نے عرض کیا، اگر ہم۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: اُن ہدایات کے مطابق۔
جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں، اگر ہم شروع سے اس بات کے قائل ہوتے جو مرزا صاحب نے کی، یعنی سارے مسلمان ملک کے، تو شاید یہ مصیبت جس سے ہم دوچار ہیں، یہ پیدا نہ ہوتی۔ مرزا صاحب کا نقطئہ نگاہ یہ تھا، جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں، کہ: ’’کسی شخص سے اِختلاف کی وجہ سے …… اگر وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے …… تو اس قسم کے اِختلافات نہ کرو جس کے نتیجے میں تمہیں مذہبی طور پر کوئی مصیبت پڑجائے۔‘‘ چنانچہ جب بہت اِختلافات بڑھ گئے تھے تو اُس زمانے کا میں، ایک واقعہ مجھے یاد آیا ہے، میں عرض کرتا ہوں۔ مولانا محمد حسین بٹالوی اُس وقت زندہ تھے، تو مرزا صاحب نے یہ تجویز پیش کی کہ:
’’دیکھو! تم لوگ گالیاں دیتے ہو، تم لوگ ہمیں مسجدوں میں جانے سے منع کرتے ہو، تم لوگ ہمارا کوئی فوت ہوجائے تو اُس کو قبرستان میں دفن نہیں ہونے دیتے ہو، کوئی شخص مسجد میں چلا جائے تو اُس کو مارمار کے نکال دیتے ہو، اس سے اِسلام کمزور ہوتا ہے، تم ہم سے سات سال کے لئے ایک معاہدہ کرلو، وہ معاہدہ کیا ہے؟ کہ تم ہمیں صرف خدمتِ اسلام کا موقع دے دو، اور پھر اُس کے نتائج پر نگاہ رکھو۔ اگر ہم دُنیا میں غیرمعمولی طور پر اِسلام کو فتح یاب نہ کردیں اور اُن علاقوں 1597میں جہاں کہ محمد رسول اللہa کا نام جو ہے نہیں پہنچا، خدا کا نام جہاں نہیں پہنچا، اگر ہم اُن علاقوں کو محمد رسول اللہa کے قدموں کے لاکے گرا نہ دیں اور ایک عظیم الشان تغیر دُنیا میں پیدا نہ کردیں، تو آپ پھر ہمارا گریبان پکڑلیجئے۔‘‘
یہ تھا مرزا صاحب نے جو اُس وقت بھی پیش کیا، یہ ہم آج بھی اُس کو پیش کرتے ہیں۔ ہم ہر وقت اس کے لئے تیار ہیں۔
آپ کا فرمان یہ تھا کہ اس جماعت کے بنانے کے نتیجے میں، میں نے عرض کیا، کہ اس کے بنانے کے نتیجے میں کسی قسم کا مذہبی اِفتراق یا مذہبی اِختلاف یا مذہبی لڑائی یا مذہبی دنگافساد کبھی بھی احمدیوں نے نہیں کیا، پوری ہسٹری میں یہ واقعہ دیکھ لیجئے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، نہیں، میں نے نہیں کہا، یہ دیکھیں، میں نے نہیں کہا کہ احمدیوں نے دنگافساد کیا۔ دیکھئے، مولانا! میں۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: آپ نے نہیں فرمایا۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں یہ عرض کررہا تھا کہ جب مرزا صاحب نے اپنی جماعت بنائی۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جی۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مسلمان مرزا صاحب کے مخالف کیوں ہوئے؟)
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔۔ پھر وہ فرقہ تھا یا جماعت تھی، وہ تبلیغ کا کام کررہے تھے یا اپنا فرض سمجھتے تھے، اس کے نتیجے میں مسلمان کا بڑا سخت Reaciton (ردعمل) ہوا ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ قبرستان میں نہیں دفن ہونے دیتے تھے، مسجدوں میں نہیں جانے دیتے تھے، احمدیوں کو ایک قسم کا Persecute (تشدد) کرنا شروع کیا اُنہوں نے، آپ کے نقطئہ نظر سے۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: ایک طبقے نے۔
1598جناب یحییٰ بختیار: جی ہاں، تو آخر کیوں۔۔۔؟
جناب عبدالمنان عمر: وہ اس لئے جی۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ کیا بات تھی جو مرزا صاحب نے کہی کہ جس پر وہ اتنے غصّے میں آگئے؟
جناب عبدالمنان عمر: وہ میں عرض کرتا ہوں جناب! کہ بات یہ ہے کہ کسی کا غصّے میں آنا، کسی کا ناراض ہونا، کسی کا اس قدر اِشتعال میں آجانا اور ایسے ایسے اقدام کرنا، اس کے لئے قطعاً قطعاً اس چیز کی ضرورت نہیں ہے کہ اُس شخص نے کوئی بڑا ہی بھیانک فعل کا اِرتکاب کیا ہے۔ ایسی ایسی لڑائیاں ہمارے اس ملک میں ہوئی ہیں کہ کسی شخص نے آمین بالجہر کہہ دی ہے، کسی شخص نے تشہد میں اُنگلی اُٹھادی ہے، اور اس قسم کے معمولی فروعی اِختلافات جو سب کے بیان ہیں۔۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: مولانا! یہ، یہ آپ دُرست فرما رہے ہیں، میں وہ نہیں کہہ رہا۔ ایک بات، ایک آدمی غصّے میں کوئی بھی بات کرجاتا ہے، بعد میں سوچتا ہے۔ مگر یہ ایک مسلسل ستر(۷۰)، اَسّی(۸۰) سال سے چیز آرہی ہے۔۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: ہاںجی۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔۔ کہ احمدیوں کے خلاف بڑا سخت Reaction (ردعمل) ہوتا ہے۔ باقی آپ نے دُرست فرمایا کہ سارے مسلمان فرقے ایک دُوسرے کو کافر کہتے رہتے ہیں۔ مگر یہ Reaction نہیں ہوا کبھی کہ نماز مت پڑھو اکٹھی، شادیاں مت کرو، کفن مت دو اِن کو، دفن مت ہونے دو۔ یہ Reaction کیوں ہوا اتنا؟
جناب عبدالمنان عمر: جنابِ والا! میں بڑے ادب سے عرض کروں گا کہ یہ دونوں باتیں مجھے تسلیم نہیں، نہ ۱۹۵۳ء سے پہلے اس قسم کا دنگا اور فساد کبھی بھی ہوا ہے۔ وہ واقعات ملک گیر نہیں تھے، وہ جیسا کہ اُس وقت کی منیر انکوائری کمیٹی میں تحقیق کے بعد۔۔۔۔۔۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(بغیر پولیس کے مرزاصاحب تقریر نہیں کرسکتے تھے کیوں؟)
1599جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں سمجھتا ہوں کہ مرزا صاحب کے زمانے میں… جہاں تک میں نے حالات پڑھے ہیں، اور میں آپ کو سناؤں گا، آپ کو ان سے اِتفاق ہو یا نہ ہو… جب تک کہ بہت زیادہ پولیس کی Protection نہیں ہوتی تھی، مرزا صاحب کسی جگہ تقریر نہیں کرسکتے تھے اور زیادہ مخالف عیسائی اور آریہ سماجی نہیں تھے، بلکہ مسلمان تھے۔ حالانکہ ایک ایسا اسٹیج تھا کہ مسلمانوں کے وہ ہیرو تھے، ایک ایسا اسٹیج تھا جب وہ آریہ سماجیوں سے بحث کرتے تھے، اُن کے جوابات دیتے تھے، عیسائیوں کے جوابات دیتے تھے۔ تو جب اُنہوں نے دعویٰ کیا، آپ سمجھتے ہیں اُنہوں نے نہیں کیا، بہرحال جو Impression (تأثر) پڑا مسلمانوں پر، پھر اُنہوں نے کہا کہ: ’’میں مہدی ہوں، میں مسیحِ موعود ہوں یا نبی ہوں یا اُمتی نبی ہوں۔‘‘ اُس کے بعد بڑا Sharp Reaction ہوا ہے۔
جناب عبدالمنان عمر: جنابِ عالی! میں پھر گزارش کروں گا، یہ جو مرزا صاحب کے الفاظ آپ نے بیان فرمائے ہیں، یہ ’’توضیح مرام‘‘ میں موجود ہیں، جو اُن کی بالکل اِبتدائی تصنیفات میں سے ہے، یعنی ’’براہینِ احمدیہ‘‘ کے بعد وہی کتاب ہے۔ یہ کہنا کہ اُس وقت مرزا صاحب نے ایسی باتیں نہیں کہی تھیں، یہ باتیں اُس وقت بھی کہی تھیں۔ دُوسرا آپ نے فرمایا کہ اُن کو کبھی بھی تقریر کی اِجازت نہ دی گئی، وہ پبلک میں نہ آسکے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، نہیں، اِجازت تھی مگر پولیس کی بہت زیادہ Protection (حفاظت) تھی۔
جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں، میں، میں اس سے اِختلاف کرنے کی جرأت کروں گا۔ میں آپ کو دو(۲) سفروں کے حالات آپ کے سامنے رکھوں گا۔ مرزا صاحب نے ۱۹۰۴ء میں غالباً جہلم کا سفر کیا ہے۔ کوئی فوج نہیں، کوئی پولیس نہیں، کوئی 1600Protection نہیں، مرزا صاحب کے مریدوں کا کوئی اِجتماع نہیں، کچھ بھی نہیں۔ مرزا صاحب آتے ہیں اور ہزاردرہزار انسان جو ہے اُن کے گرد جمع ہوگیا ہے، اور اُن کی باتیں سنتا ہے اور اُن کی پذیرائی کرتا ہے۔ تو یہ کہنا کہ جناب وہ کبھی بھی یہ نہیں ملا، یہ واقع نہیں ہے۔ میں نے جو کچھ گزارش کی۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: کبھی ہوا ہوگا، عام طور پر نہیں۔
جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں، میں تو ایک واقعہ عرض کرتا ہوں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں آپ سے۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: میں دُوسرا واقعہ سیالکوٹ کا عرض کرتا ہوں۔ تیسرا واقعہ میں آپ کو لاہور کا عرض کرتا ہوں۔ آپ کا ایک مضمون پڑھا گیا جس میں مرزا صاحب خود تشریف رکھتے تھے، جو دُنیا کی بہت سی زبانوں میں اِسلامی اُصول کی فلاسفی پر شائع ہوا۔ یہ پڑھا گیا اور اُس وقت کے جو اُس کے Moderator تھے، اُس وقت کے صدر تھے، جو لوگ اُس میں حاضر تھے، جو نمائندے اخبارات کے اُس وقت موجود تھے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: یہ دیکھیں ہمیں اس کا علم ہے جی۔ ۱۸۹۶ء کی بات کر رہے ہیں آپ۔ میں اُس وقت کی بات نہیں کر رہا، میں آپ کو یہ حوالے دُوں گا کہ جہاں جہاں، لاہور میں بھی، اس میٹنگ میں کتنی پولیس موجود تھی، جب اُن کو لے آئے وہاں سے، امرتسر میں کتنی موجود تھی، سیالکوٹ میں کتنی موجود تھی۔
جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں، یہ صرف دہلی کا ایک واقعہ ہے جس میں وہ۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: خیر، وہ بات اور ہوجاتی ہے۔ آپ مجھے۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: وہ اور بات ہے، وہ ایک مناظرے کا رنگ تھا۔
Mr. Yahya Bakhtiar: We will have ......
(جناب یحییٰ بختیار: ہم کریں گے۔۔۔۔۔۔)
1601جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں۔ تو۔۔۔۔۔۔
Mr. Yahya Bakhtiar: ...... break?
(جناب یحییٰ بختیار: وقفہ کریں گے۔۔۔۔۔۔)
جناب عبدالمنان عمر: میں عرض یہ کر رہا تھا کہ مرزا صاحب۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ابھی آپ۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: یہ ضروری نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: بعد میں، پھر بعد میں۔
محترمہ قائم مقام چیئرمین: ابھی ہم بریک کریں گے۔
جناب یحییٰ بختیار: لنچ کے لئے بریک کریں گے۔
محترمہ قائم مقام چیئرمین: پھر ساڑھے پانچ بجے آئیے گا۔
----------
The Delegation .......
----------
جناب یحییٰ بختیار: ساڑھے پانچ، ساڑھے پانچ۔
Madam Acting Chairman: The Delegation is allowed to leave. You will have to come at 5: 30 p.m.
(محترمہ قائمقام چیئرمین: وفد کو جانے کی اجازت ہے، وفد ۳۰:۵بجے شام واپس آئے)
کتاب؟ کیا آپ کی ہیں؟ ہوں۔ دروازے بند کردیں۔ ہاں، چھوڑ جائیے۔
Members are requested to keep sitting.
(ممبران تشریف رکھیں)
نہیں آپ جاسکتے ہیں۔
(The Delegation left the Chamber)
(وفد ہال سے باہر چلا گیا)
----------
Madam Acting Chairman: The Attorney-General has to say anything? Any member wants to say something?
(محترمہ قائمقام چیئرمین: اٹارنی جنرل صاحب نے کچھ کہنا ہے؟ یا کوئی رکن کچھ کہنا چاہتا ہے؟)
1602[The Special Committee adjourned for lunch break to meet at 5:30 p.m.]
(خصوصی کمیٹی کا اِجلاس دوپہر کھانے کے لئے ملتوی ہوا، پھر ساڑھے پانچ بجے شروع ہوگا)
----------
[The Special Committee re-assembled after lunch break. Madam Acting Chairman (Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi) in the Chair.]
(خصوصی کمیٹی کا اِجلاس دوپہر کھانے کے بعد میڈم چیئرمین کی صدارت میں ہوا)
----------
(The Delegation entered the Chamber)
(وفد ہال میں داخل ہوا)
----------
Madam Acting Chairman: Yes, Mr. Attorney-General.
(محترمہ قائمقام چیئرمین: جی اٹارنی جنرل صاحب)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزا صاحب کی ہر جگہ مخالفت کیوں ہوتی تھی؟)
جناب یحییٰ بختیار: میں آپ سے سوال پوچھ رہا تھا کہ جہاں بھی مرزا صاحب جاتے تھے لیکچر دینے کے لئے، تو بڑی سختی سے مخالفت ہوتی تھی اور جو شخص نبوّت کا دعویٰ نہ کرے اور اس بارے میں کوئی غلط فہمی نہ ہو تو کیوں اُن کی سخت مخالفت ہوتی تھی؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں، ایک دفعہ ہی مخالفت ہوئی تھی جب دہلی گئے تھے۔ باقی جگہ مخالفت نہیں ہوتی رہی اور صرف پولیس کی Protection (حفاظت) میں ہی جلسے سے خطاب کرسکتے تھے اور شاذ ونادر ہی اُنہوں نے جلسے سے خطاب کیا ہو جہاں پولیس کی Protection (حفاظت) نہ ہو۔ تو اُس پر آپ نے فرمایا کہ وہاں گئے تھے جہلم۔ جہلم میں کوئی جلسہ یا لیکچر دینے نہیں گئے تھے، مقدمے کے سلسلے میں گئے تھے۔ وہاں نہ کوئی اُنہوں نے لیکچر دیا۔ اُس کے علاوہ جہاں تک لاہور کا تعلق تھا، آپ نے کہا کہ اُنہوں نے ۱۸۹۶ء میں لیکچر دیا تھا۔ تو اس لیکچر میں وہ خود موجود نہیں تھے۔
جناب عبدالمنان عمر: موجود تھے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، یہاں جو میرے پاس ریکارڈ ہے، نہیں تھے، وہ نہیں تھے۔ اُدھر سے وہ لیکچر اُن کا پڑھ کر سنایا گیا تھا وہاں۔ ایک اور لیکچر میں موجود تھے، شاید آپ اس کی طرف۔۔۔۔۔۔
1603جناب عبدالمنان عمر: لاہور کا لیکچر ’’لیکچر لاہور‘‘ کے نام سے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، وہ ایک اور ہے، اُس میں وہ موجود تھے۔
جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں۔
 
Top