• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قومی اسمبلی کی کاروائی (بیسواں دن)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جناب یحییٰ بختیار کی تقریر کا اردو ترجمہ)
(جناب یحییٰ بختیار (اٹارنی جنرل آف پاکستان): جناب والا! مرزاغلام احمد کی زندگی کا ذکر کرتے ہوئے کل میں نے ایوان میں گزارش کیا تھا کہ اس کی مذہبی زندگی تین ادوار پر مشتمل تھی۔ اس کا پہلا دور عام مسلمانوں کی طرح ایک مبلغ جیسا تھا۔ ختم نبوت کے متعلق اس کا عقیدہ بھی عام مسلمانوں جیسا تھا۔ اس کے بعد دوسرا دور شروع ہوا۔ جب مرزاغلام احمد نے اپنے نظریات تبدیل کر لئے۔ اپنی تنظیم کی بنیاد رکھی اور بیعت لینا شروع کیا۔
دوسرے دور کا آغاز ۱۸۸۹ء سے ہوا۔ اس دور میں مرزاغلام احمد نے ’’ختم نبوت‘‘ کو نیا تصور دیا اور نئے معنی بہنائے۔ جس کے مطابق اﷲ نے جو پیغام حضرت محمد ﷺ کو دیا تھا اس کی وضاحت کرنے کے لئے وقتاً فوقتاً نئے نبی آتے رہیں گے)
----------
(مسٹر چیئرمین نے کرسی صدارت چھوڑ دی اور محترمہ ڈپٹی سپیکر نے کرسی صدارت سنبھالی)
----------
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزاغلام احمد خاتم النّبیین تھے؟)
(جناب یحییٰ بختیار: محترمہ! میں نے گزارش کیا تھا کہ احمدیوں اور قادیانیوں کے دوسرے خلیفہ نے انبیاء کا سلسلہ منقطع نہ ہونے کے بظاہر معقول دلائل دئیے تھے۔ لیکن جب ہم نے سوال کیا کہ کیا مرزاغلام احمد سے پہلے یامرزاغلام احمد سے بعد کوئی نبی ہوا یا ہوگا تو انہوں نے جواب نفی میں دیا۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ مرزاغلام احمد کو خاتم النّبیین مانتے ہیں۔
اب میں مزید آگے چلتا ہوں اور کمیٹی کی خدمت میں احمدیوں کے وہ ثبوت پیش کروں گا جس کے مطابق وہ مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ (مسیح موعود) تاریخ کے اس دور میں ظاہر ہوگا۔ جب رسل ورسائل کے ذرائع تبدیل ہو جائیں گے۔ زلزلے آئیں گے۔ جنگیں ہوں گی وغیرہ وغیرہ۔ گدھے اور اونٹ کی جگہ زیادہ مفید اور کارآمد ذرائع پیدا ہو جائیں گے۔ یہ تمام نشانیاں جن کا قدیم کتابوں میں ذکر ہے۔ مرزاغلام احمد کے زمانے پر صادق آتی ہیں اور مزید کہتے ہیں کہ مرزاغلام احمد ہی مسیح موعود تھا۔ اس سلسلہ میں میں ’’احمدیت اور سچا اسلام‘‘ کے ص۲۰ کا اقتباس پیش کرتا ہوں: ’’اسی طرح یہ پیش گوئی کی گئی تھی کہ مسیح موعود دو عارضوں میں مبتلا ہوگا۔ جن میں سے ایک جسم کے اوپر والے حصہ میں اور دوسرا نیچے والے حصہ میں ہوگا۔ اس کے سر کے بال کھڑے ہوں گے۔ رنگ گندمی ہوگا اور زبان میں قدرے لکنت ہوگی۔ اس کا تعلق زمیندار گھرانے سے ہوگا اور بات کرتے ہوئے وہ کبھی کبھی اپنا ہاتھ ران پر مارا کرے گا۔ اس کا ظہور ’’کدعہ‘‘ نامی گاؤں میں ہوگا اور اس کی ذات مسیح موعود اور مہدی دونوں پر مشتمل ہوگی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ احمد مسیح موعود کو ایک تو چکروں کا عارضہ تھا اور دوسرا ذیابیطس کا۔ اس کے بال کھڑے تھے۔ گندمی رنگ تھا اور گفتگو میں لکنت تھی۔ بات چیت کرتے ہوئے اپنا ہاتھ ران پر مارنے کی عادت تھی۔ زمیندار خاندان سے تعلق تھا۔ قادیان یا کدعہ جیسا کہ عام طور پر مشہور ہے، کا رہنے والا تھا۔ قصہ مختصر جب ہم ان سب پیش گوئیوں کو اجتماعی شکل میں دیکھتے ہیں، تو پتہ چلتا ہے کہ ان تمام کا تعلق اسی زمانے سے ہے اور مرزاغلام احمد کی ذات سے، یہی زمانہ مسیح موعود کے ظہور کا زمانہ ہے۔ جس کا ذکر گذشتہ انبیاء نے کیا تھا اور مرزاغلام احمد ہی وہ مسیح موعود ہے جس کا صدیوں سے انتظار تھا۔‘‘
مرزاغلام احمد کے مسیح موعود ہونے کا یہی ثبوت اور دلیل ہے۔ میں اس پر تبصرہ نہیں کروں گا۔ کمیٹی فیصلہ کر سکتی ہے۔ آیایہ ثبوت اور دلیل صرف مرزاغلام احمد پر ہی صادق آتی ہیں، یا اس زمانے کے سینکڑوں ہزاروں لوگوں پر۔
اب میں اس کے تیسرے مذہبی دور پر آتا ہوں۔ یہاں وہ مکمل نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ کسی ذیلی نبی یا عارضی نبی کا نہیں۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو امتی نبی کہتے ہوئے پورے طور پر نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر برتری کا دعویٰ کیا پھر تمام انبیاء پر برتری کا دعویٰ کیا اور اس کے بعد حضرت محمد ﷺ کے ساتھ برابری کا دعویٰ کیا اور آخر کار نبی آخر زمان ﷺ پر بھی (معاذ اﷲ) برتری کا دعویٰ کیا۔ مجمل طور پر یہ اس کی مذہبی زندگی کا، خاکہ ہے۔ اب میں مختصر طور پر آپ کی توجہ ان حوالہ جات کی طرف دلاؤں گا جن سے میری گزارشات کی تائید ہوتی ہے: کل میں نے حوالہ دیا تھا جس میں وہ (مرزاغلام احمد) کہتا ہے: ’’بغیر نبیوں اور رسولوں کے ذریعہ تم نعمتیں کیوں کر پاسکتے ہو۔‘‘
(تجلیات الٰہیہ ص۲۵، خزائن ج۲۰ ص۲۲۷)
پھر کہتا ہے: اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ اس کے دعویٰ کی بنیاد ہے کہ حضرت محمد ﷺ کے بعد صرف وہی (مرزاغلام احمد) نبی ہے: ’’جس قدر مجھ سے پہلے اولیائ، ابدال، اقطاب اس امت میں سے گزر چکے ہیں ان کو حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا۔ پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیاگیا ہوں اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں۔‘‘
یہ ماضی اور مستقبل پر یکساں لاگو ہے۔ یہ اقتباس ’’روحانی خزائن‘‘ میں شائع شدہ ’’حقیقت الوحی‘‘ جلد۲۲، ص۴۰۶،۴۰۷ سے ہے۔ اس زمانے میں وہ مزید کہتا ہے: ’’میں رسول اور نبی ہوں۔ یعنی بہ اعتبار ظلیّت کاملہ کے میں وہ آئینہ ہوں جس میں محمدی شکل اور محمدی نبوت کا کامل انعکاس ہے۔‘‘
(نزول المسیح ص۳، خزائن ج۱۸ ص۳۸۱)
اور پھر کہتا ہے: ’’اﷲجل شانہ نے آنحضرت ﷺ کو صاحب خاتم بنایا۔ یعنی آپ کو افاضۂ کمال کے لئے مہر دی جو کسی اور نبی کو ہرگز نہیں دی گئی۔ اسی وجہ سے آپ ﷺ کا نام خاتم النّبیین ٹھہرا۔ یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے اور یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۹۷ حاشیہ، خزائن ج۲۲ ص۱۰۰)
یہی وہی زمانہ ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے گزارش کی وہ کہتا ہے: ’’سچا خدا وہ ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔‘‘
(دافع البلاء ص۱۱، خزائن ج۱۸ ص۲۳۱)
پھر دلچسپ دور آتا ہے۔ جس میں وہ (مرزاغلام احمد) اپنے اندر تمام انبیاء کی صفات کا دعویٰ کرتا ہے۔ جس کے لئے میں ’’روحانی خزائن، براہین احمدیہ پنجم‘‘ جلد۲۱، ص۱۱۷،۱۱۸ کا حوالہ پیش کرتا ہوں: ’’اس زمانے میں خدا نے چاہا کہ جس قدر نیک اور راست باز اور مقدس نبی گزر چکے ہیں ایک ہی شخص کے وجود میں ان کے نمونے ظاہر کئے جائیں تو وہ میں ہوں۔ اس طرح اس زمانے میں بدون کے نمونے بھی ظاہر ہوئے۔ فرعون ہوں یہود ہوں۔ جنہوں نے حضرت مسیح کو صلیب پر چڑھایا۔ ابوجہل ہوں، سب کی مثالیں اس وقت موجود ہیں۔‘‘
چنانچہ وہ کہتا ہے کہ اﷲ اپنے تمام نبیوں کی عمدہ اور بہترین صفات کو ایک شخص میں یکجا کرنا چاہتا تھا اور وہ واحد شخص میں ہوں۔ یہ وہی دور ہے جب وہ کہتا ہے: ’’میں خدا کی تیس برس کی متواتر وحی کو کیسے رد کر سکتا ہوں۔ میں اس کی اس پاک وحی پر ایسا ہی ایمان لاتا ہوں جیسا کہ ان تمام وحیوں پر ایمان لاتا ہوں جو مجھ سے پہلے ہوچکی ہیں۔‘‘
جناب والا! یہ اقتباس بھی ’’روحانی خزائن، حقیقت الوحی‘‘ جلد۲۲، ص۲۲۰ سے ہے۔ وہ کہتا ہے: ’’میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں ان الہامات پر اسی طرح ایمان لاتا ہوں جیسا کہ قرآن شریف پر اور خدا کی دوسری کتابوں پر اور جس طرح میں قرآن شریف کو یقینی اور قطعی طور پر خداتعالیٰ جل شانہ کا کلام جانتا ہوں، اسی طرح اس کلام کو بھی جو میرے پر نازل ہوتا ہے۔‘‘
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزا کی وحی قرآن کے برابر)
جناب والا! یہ ایک بہت ہی بڑا دعویٰ ہے جو کہ اس (مرزاغلام احمد) نے اس دور میں کیا۔ وہ کہتا ہے کہ اﷲ کی طرف سے جو وحی اس کو آتی ہے وہ مرتبے اور تقدس میں پیغمبر اسلام ﷺ کی وحی کے برابر ہے۔ جیسی وحی اس پر آئی وہ پیغمبر اسلام کی وحی کے برابر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو کچھ مرزاغلام احمد نے کہا وہ (نعوذ باﷲ) قرآن کریم کے برابر ہے۔ یہ اس کا دعویٰ ہے۔ وہ پیغمبر اسلام ﷺ کے ساتھ برابری کا دعویٰ کرتا ہے اور اس زمانے میں اس نے مشہور زمانہ فارسی کے مشہور شعر کہے۔ جن میں کہتا ہے کہ:
’’انبیاء گرچہ بودہ اند بسے
من بہ عرفان نہ کم ترم زکسے‘‘
(اگرچہ بے شمار نبی آئے ہیں۔ مگر میں کسی سے کم تر نہیں ہوں)
آنچہ داد است ہر نبی را جام
داد آن جام دا مرا بہ تمام
(نزول المسیح ص۹۹، خزائن ج۱۸ ص۴۷۷)
(اس (خدا) نے ہر نبی کو جام دیا ہے۔ مگر وہی جام مجھے لبالب بھر کر دیا ہے)
یہاں وہ (مرزاغلام احمد) کہتا ہے کہ وہ تمام نبیوں سے اعلیٰ اور افضل ہے۔ لیکن اس زمانے تک اس نے حضرت محمد ﷺ پر برتری کا دعویٰ نہیں کیا تھا اور صرف یہ دعویٰ تھا کہ اس کی (مرزاغلام احمد کی) وحی اور جو وحی محمد ﷺ پر آتی تھی دونوں برابر ہیں۔ کیونکہ دونوں ہی مقدس ہیں۔
میں نے اپنا فرض ادا کرتے ہوئے مرزاناصر احمد کو (وحی کی برابری کے دعویٰ کی) نشاندہی کی اور اس نے انکار نہیں کیا۔ کمیٹی کو یاد ہوگا جب مرزاناصر احمد نے جواب دیا تھا کہ چونکہ دونوں وحیوں کا ماخذ ایک ہے۔ اس لئے دونوں کا مرتبہ برابر ہے۔ ماخذ اﷲ ہے۔ وہ دونوں کو برابر مانتے ہیں۔ جناب والا! اس تمام عرصے میں جس کا ذکر میں کر چکا ہوں مرزاغلام احمد کہتا ہے کہ ’’میں ایک امتی نبی ہوں۔ غیر شرعی نبی۔‘‘ لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ سمجھتا تھا کہ اس نے حضرت محمد ﷺ کی برابری حاصل کر لی ہے۔ ماسوائے اس بات کہ وہ امتی ہے۔ اس طرح اس نے ایک ذیلی حیثیت حاصل کر لی۔ کیونکہ اس کے پاس نئی شریعت نہیں تھی۔ اس نے کہا کہ اس کی اپنی کوئی شریعت نہیں۔ لیکن اپنا مرتبہ مزید بلند بھی کرتا ہے اور کہتا ہے۔ میں ایک بار پھر ’’روحانی خزائن‘‘ جلد۱۷، ص۴۳۵،۴۳۶ کا حوالہ دیتا ہوں: ’’ماسوا اس کے یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے۔ جس نے اپنی وحی کے ذریعہ چند امر اور نہی بیان کئے اور اپنی امت کے لئے ایک قانون مقرر کیا۔ وہی صاحب الشریعت ہوگیا۔ پس اس تعریف کی رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں۔ کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہے اور نہی بھی۔‘‘
یہاں وہ یہ کہتا ہے کہ اس کی وحی میں بھی احکام موجود ہیں۔ ’’یہ کرو یہ نا کرو۔‘‘ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قانون میں تھا۔ جناب والا! یہ تین دور ہیں۔ جن کا میں نے مختصر ذکر کیا ہے۔ چونکہ میں نے ابھی اور بہت سی باتوں کا ذکر کرنا ہے۔ اس لئے مزید تفصیل میں نہیں جاؤں گا۔ تاہم اتنا ضرور عرض کروں گا کہ اب یہ کمیٹی فیصلہ کرے کہ کیا مرزاغلام احمد نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا اور کسی قسم کے نبی ہونے کا۔
جناب والا! جب اس نے نبوت کا دعویٰ کیا تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس دعوے کے کیا اثرات مرتب ہوئے۔ یہ بے چینی اور اضطراب کیوں پیدا ہوا۔ اس دعوے کے خلاف اتنا شدید ردعمل کیوں ہوا۔ یہ سب حالات ہمیں ’’خاتم النّبیین‘‘ کے تصور کی طرف لے جاتے ہیں کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ تمام عالم اسلام میں پر شدید ردعمل کیوں؟ مسلمان احسان فراموش نہیں ہوتے۔ وہ اپنے لیڈروں اور علماء کی عزت کرتے ہیں۔ آخر وہ ایک شخص کے خلاف کیوں ہوگئے۔ جسے وہ اپنا ہیرو مانتے تھے۔ مرزاغلام احمد کا اپنا بیٹا کہتا ہے کہ: ’’کہ اس کی بھیڑیں بھیڑیے بن گئے۔‘‘
ایسا کیوں ہوا؟ اس کا جواب دینے کے لئے اپنے محدود علم کے مطابق ایوان کی اجازت سے میں ’’ختم نبوت‘‘ کے تصور کا مطلب پیش کروں گا۔ مجھے امید ہے کہ اگر میں کہیں غلطی کروں تو ایوان کے اندر موجود میرے فاضل دوست اور علماء میری تصحیح فرمائیں گے۔
جناب والا! ’’خاتم النّبیین‘‘ کا لفظی معنی ’’مہر نبوت‘‘ ہے۔ گذشتہ چودہ سو سال میں عام طور پر مسلمانوں کے نزدیک مہر نبوت کا مطلب آخری نبی ﷺ ہیں۔ جن پر اﷲ کا پیغام (وحی) نازل ہوا۔ بدرجہ اتم مکمل ہوا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔ وہی آخری نبی ہیں اور جیسے جیسے انسانیت نے ارتقاء کی منزلیں طے کیں یا ذہنی اور جسمانی طورپر طے کر رہی ہے۔ اﷲتعالیٰ اپنی حکمت کاملہ سے اپنا آخری پیغام انسانیت کے لئے اتارا جو تاقیامت نافذ العمل ہے۔ کیونکہ ہر دور میں بنیادی انسانی ضروریات، مسائل، دشواریاں اور تکالیف ایک جیسی ہوتی ہیں۔ البتہ حالات کے تحت ان کی نوعیت بدلتی رہتی ہے۔ اﷲ کریم نے اپنا آخری پیغام اپنے آخری نبی ﷺ کے توسط سے نازل فرمایا اور حکم فرمایا کہ قیامت تک اس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوسکتی اور نہ ہی کوئی اس میں کسی قسم کا ردوبدل کر سکتا ہے۔ یہی ’’خاتم النّبیین‘‘ یا ’’ختم نبوت‘‘ کا تصور ہے۔ عام الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’وحی‘‘ کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا گیا ہے۔
جناب والا! اب دیکھنا یہ ہے کہ اس تصور کی حکمت کیا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ جب مسلمان ’’خاتم النّبیین‘‘ کہتے ہیں تو اس کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ لیکن اس کی سب سے زیادہ محکم اور مستند تعبیر خود نبی کریم ﷺ نے فرمادی ہے۔ انہوں نے فرمایا ’’لا نبی بعدی‘‘ (میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا) اس کا ماننا تمام مسلمانوں پر فرض ہے۔ اس حدیث کی سند کو مسلمانوں کے کسی فرقہ نے کبھی بھی متنازعہ نہیں سمجھا۔ جناب والا! جب آپ اس حدیث میں پوشیدہ حکمت پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ حضور نبی کریم ﷺ نے اپنی آخری علالت کے دوران اپنے صحابہؓ سے فرمایا کہ جب تک وہ ان کے درمیان موجود ہیں وہ ان کی باتیں سنیں اور ان پر عمل کریں جب وہ اس دنیا سے پردہ پوشی فرمالیں تو پھر وہ نبی کریم ﷺ کے الفاظ کے مطابق ’’قرآن کو مضبوطی سے پکڑیں اور جس چیز سے قرآن نے منع کیا ہے اس سے باز رہیں اور جس چیز کی قرآن نے اجازت دی ہے اس کو جائز سمجھیں۔
جناب والا! ہم نے اس عالی شان سبق کی حکمت اور رعنائی کی قدر نہیں کی۔ جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں۔ انسانیت کی تکمیل ہوچکی تھی۔ اﷲتعالیٰ کا پیغام مکمل ہو چکا تھا۔ جب نبی کریم ﷺ نے یہ حدیث بیان فرمائی۔ اس وقت دنیا کے کیا حالات تھے۔ آج سے چودہ سو سال پہلے کے معاشرہ کا خیال کریں جب راجے، مہاراجے، بادشاہوں اور قبائلی سرداروں کا زمانہ تھا۔ ان کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ قانون کا درجہ رکھتا تھا۔ اس کے علاوہ معاشرہ کسی اور قانون سے واقف ہی نہ تھا۔ دنیا میں پہلی بار نبی کریم ﷺ کی مندرجہ بالا سادہ سی حدیث مقدس میں قانون کی بالادستی کا تصور پیش کیاگیا۔ نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں۔ ان کے بعد تم پر کسی کی اطاعت واجب نہیں۔ صرف اﷲ اور اس کے پیغام (قرآن کریم) اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو۔ قرآن پر سختی سے عمل پیرا رہو۔ جو وہ حکم دے، کرو۔ جس سے منع کرے رک جاؤ۔یہی اس حدیث مقدس کا حسن ہے کہ پہلی بار دنیا کو قانون کی بالادستی کا تصور دیاگیا۔ میری ناقص رائے میں پوری انسانیت کے لئے یہ اعلان آزادی تھا کہ آج کے بعد کوئی کسی بادشاہ، حاکم یا ڈکٹیٹر کا غلام نہیں۔ صرف قانون کی حکمرانی ہوگی اور وہ قانون (قرآن کریم) موجود ہے۔ تاریخ کے مطالعہ سے ہمیں کیا معلوم ہوتا ہے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ جو نہی نبی کریم ﷺ کا وصال شریف ہوتا ہے حضرت ابوبکر صدیقؓ خلیفہ منتخب ہوئے ہیں۔ انہوں نے سب سے پہلا خطبہ کیا دیا۔ وہ کیا فرماتے ہیں۔ ان کا پیغام ہے: ’’جب تک میں اﷲ اور اﷲ کے رسول ﷺ کی اطاعت کروں تم میری اطاعت کرو۔ اگر میں اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت واجب نہیں۔‘‘
یہ ہے قانون کی بالادستی اور اس کا صحیح تصور۔ میرے خیال میں یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص اٹھ کھڑا ہوا اور کہا کہ مجھے الہام ہوتا ہے وحی آتی ہے۔ میں حکم دوں گا جس کا ماننا تم پر فرض ہوگا تو عالم اسلام میں ہیجان پیدا ہوگیا۔ عالم اسلا م میں بے چینی کی سب سے بڑی یہی وجہ تھی۔
ایک اور پہلو جس کی میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔ یہ آزادی فکر کا پہلو ہے۔ تمام مسلمان قرآن میں تدبر کرنے اور معنی سمجھنے میں مکمل آزاد ہیں۔ کوئی کسی دوسرے پر اپنی تفسیر مسلط نہیں کر سکتا۔ علامہ اقبالؒ نے کہا ہے کہ ’’نبی کریم ﷺ کے سوائے کسی دوسرے کی بات حرف آخر نہیں ہوسکتی۔‘‘ چنانچہ یہ ایک طرح کا اعلان آزادی ہے کہ آپ کی سوچ پر کوئی قدغن نہیں۔ جناب والا! اس میں شک نہیں کہ یہ آزادی فکر اسلام کے بنیادی اصولوں کے دائرہ تک محدود ہے۔ مثال کے طور پر توحید اور اﷲ کی وحدا نیت کا اصول۔ کوئی کسی قسم کی آزادی فکر اس اصول کو چیلنج نہیں کر سکتی۔
دوسرا بنیادی اصول حضرت محمد ﷺ کے خاتم النّبیین یا ختم نبوت کا ہے۔ اس اصول کو بھی چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے علاوہ دیگر امور میں ان بنیادی اصولوں کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے آپ اپنی تعبیر کر سکتے ہیں اور جو راستہ آپ صحیح سمجھتے ہیں اختیار کر سکتے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس آزادی فکر کی وجہ سے ہم بہت سے فرقوں میں بٹ چکے ہیں۔ گو یہ فرقہ بندی اسلام کا ایک طرہ امتیاز ہے اور جمہوریت نوازی کا مظہر ہے۔ اب میں بڑے ادب کے ساتھ آپ کی توجہ اس بات کی طرف دلانا چاہتا ہوں کہ مختلف فرقوں اور ان کے آپس میں کفر کے فتوؤں کے متعلق علامہ اقبال کیا کہتے ہیں۔ یہ اقتباس اس مباحثہ سے ماخوذ ہے۔ جب پنڈت جواہر لعل نہرو نے احمدیوں کے بارے میں کچھ کہا تو علامہ اقبال بھی اس مباحثہ میں شامل ہوگئے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں: ’’ختمیت کے نظریہ سے یہ مطلب نہ اخذ کیا جائے کہ زندگی کے نوشتہ تقدیر کا انجام استدلال کے ہاتھوں جذباتیت کا مکمل انخلاء ہے۔ ایسا وقوع پذیر ہونا نہ تو ممکن ہی ہے اور نہ پسندیدہ ہے۔ کسی بھی نظریہ کی ذہنی قدر ومنزلت اس میں ہے کہ کہاں تک وہ نظریہ عارفانہ واردات کے لئے ایک خود مختارانہ اور ناقذانہ نوعیت کے تحقیقی نقطۂ نگاہ کو جنم دینے میں معاون ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے اندر اس اعتقاد کی تخلیق بھی کرے کہ اگر کوئی مقتدر شخص ان واردات کی وجوہ پر اپنے اندر کوئی مافوق الفطرت بنیاد کا داعیہ پاتا ہے تو وہ سمجھ لے کہ اس نوعیت کا داعیہ تاریخ انسانی کے لئے اب ختم ہوچکا ہے۔ اس طرح ہر یہ اعتقاد ایک نفسیاتی طاقت بن جاتا ہے جو مقتدر شخص کے اختیاری دعویٰ کو نشوونما پانے سے روکتا ہے۔ ساتھ ہی اس تصور کا فعل یہ ہے کہ انسان کے لئے اس کے واردات قلبیہ کے میدان میں اس کے لئے علم کے نئے مناظر کھول دے۔‘‘
پھر مرزاغلام احمد کے حوالے سے علامہ اقبال فرماتے ہیں: ’’افتتاحیہ جملے سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ ولی اور اولیاء حضرات نفسانی طریق پر دنیا میں ہمیشہ ظہور پذیر ہوتے رہیں گے۔ اب اس زمرہ میں مرزاصاحب شامل ہیں یا نہیں۔ یہ علیحدہ سوال ہے۔ مگر بات اصل یہی ہے کہ بنی نوع انسان میں جب تک روحانیت کی صلاحیت قائم ہے ایسے حضرات مثالی زندگی پیش کرکے لوگوں کی رہنمائی کے لئے تمام اقوام اور تمام ممالک میں پیدا ہوتے رہیں گے۔ اگر کوئی شخص اس کے خلاف رائے رکھتا ہے تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ اس نے بشری وقوعات سے روگردانی کی۔ فرق صرف یہ ہے کہ آدمی کو فی زمانہ یہ حق ہے کہ ان حضرات کے واردات قلبیہ کا ناقدانہ طور پر تجزیہ کرے۔ ختمیت انبیاء کا مطلب یہ ہے جہاں اور بھی کئی باتیں ہیں کہ دینی زندگی میں جس کا انکار عذاب اخروی کا ابتلاء ہے۔ اس زندگی میں ذاتی نوعیت کا تحکم واقتدار اب معدوم ہوچکا ہے۔ اس لئے جناب والا! آئندہ کوئی فرد یہ کہنے نہیں آئے گا کہ مجھے وحی الٰہی ہوتی ہے اور یہ اﷲ کا پیغام ہے۔ جس کو ماننا تم پر لازم ہے۔ لازم صرف وہی ہے جو قرآن پاک میں پہلے سے آچکا ہے۔‘‘ آگے علامہ اقبال کہتے ہیں: ’’محمد رسول اﷲ ﷺ کا سیدھا سادھا ایمان دو اصولوں پر مبنی ہے کہ خدا ایک ہے اور دوئم کہ محمد ﷺ ان مقدسات حضرات کے سلسلہ کی آخری ہستی ہیں جو تمام ممالک میں وقتاً فوقتاً بنی نوع انسان کو معاشرتی زندگی کا صحیح طریقہ گزارنے کی راہ بتلانے آتے رہے ہیں۔ کسی عیسائی مصنف نے عقیدے کی یہ تعریف کی ہے کہ عقیدہ ایک مسئلہ ہے جو عقلیت سے ماوراء ہے اور جس کے مابعد الطبیعاتی مفہوم کو سمجھے پوچھے بغیر ماننا مذہبی یک جہتی حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے۔ اگر یہ بات ہے تو اسلام کی ان دو سادہ سی تجاویز کو عقیدے کے نام نامی سے موسوم ہی نہیں کیا جانا چاہئے۔ کیونکہ ان دونوں کی واقفیت کی دلیل واردات باطنیہ بشریہ پر مؤید ہے اور بوقت بحث معقولیت کی صلاحیت کا فی حد تک رکھتی ہے۔‘‘
جناب والا! جیسے میں نے کفر کے بارے میں گزارشات کیں اور مختلف فرقوں کے ایک دوسرے پر کفر کی الزام تراشی کا ذکر کیا تو اس سلسلے میں محترم علامہ اقبالؒ کہتے ہیں: ’’کفر کے مسئلہ پر فیصلہ صادر کرنا کہ فلاں مخترع شخص دائرہ کے اندر ہے یا باہر اور وہ بھی ایسے مذہبی معاشرے کے اندر جو اتنے سادہ مسائل پر مبنی ہو جب ہی ممکن ہے جب کہ منکران دونوں سے یا ان میں سے ایک سے انکار کر دے۔‘‘
محترم جناب علامہ اقبال کے نقطۂ نظر سے آدمی کافر ہو جاتا ہے۔ اگر وہ ان دو اہم اصولوں میں سے کسی ایک کو بھی مسترد کرتا ہے۔ یعنی توحید اور ختم نبوت اور کفر کی قسم کا یہ مظہر چونکہ اسلام کی حدود پر خصوصیت سے اثرانداز ہوتا ہے۔ اس لئے اسلام کی تاریخ میں ایسا وقوعہ شاذونادر ہی ہوا ہے۔ یہ اس وجہ پر مسلمان کے جذبات قدرتی طور پر بھڑک اٹھتے ہیں۔ اگر اس نوعیت کی بغاوت رونما ہو جائے۔ یہی وجہ تھی کہ ایران کے اندر ’’بہائیوں‘‘ کے خلاف مسلمانوں کے احساسات شدید ہوگئے اور یہی وجہ ہے کہ قادیانیوں کے خلاف مسلمانوں کے جذبات اتنے زیادہ شدید ہوئے۔
ہاں! تو میں اس بات کی وضاحت کر رہا تھا کہ کس وجہ سے مرزاصاحب کے دعویٰ کے خلاف شدید ردعمل ہوا۔ اب میں اس نکتہ پر محترم علامہ اقبالؒ کے ایک اور قول کے اقتباس کا حوالہ دوں گا اور اس کے بعد اپنی معروضات کو جاری رکھوں گا۔ کفر کے سوال پر ایک دوسرے کو کافر…)
(ایک ممبر: مغرب کی نماز کا وقت ہوگیا ہے)
(جناب یحییٰ بختیار: بس میں صرف یہی پڑھ لوں گا۔ محترم علامہ محمد اقبالؒ فرماتے ہیں: ’’یہ بات درست ہے کہ مسلمان فرقوں کے مابین معمولی اختلافی نکات کی وجہ سے ایک دوسرے پر کفر کی الزام تراشی خاصی کچھ عام سی رہی ہے۔ لفظ کفر کے اس قدر بے شعوری استعمال پر خواہ وہ کوئی چھوٹا موٹا دینیاتی اختلافی مسئلہ ہو یا کوئی حد درجہ کا کفریہ معاملہ جو اس شخص کو حدود اسلام سے خارج کر دے۔ بہرحال اس صورتحال پر ہمارے کچھ تعلیم یافتہ مسلمان جنہیں اسلامی فقہی اختلاف کی سرگذشت سے قطعاً کوئی واقفیت نہیں وہ اس مابین اختلاف میں امت مسلمہ کی سماجی اور سیاسی تار وپود کی ریخت کے آثار دیکھتے ہیں۔ ان لوگوں کا یہ خیال سراسر غلط ہے۔ مسلم فقہ کی تاریخ شاید ہے کہ چھوٹے اختلافی نکات کی بناء پر کفر کا الزام دینا کسی انتشاری نہیں بلکہ اتحادی قوت کا سبب بنی ہے۔ دینی ادراک کو واقعتاً مرکب بنا کر زور رفتاری فراہم کر رہی ہے۔‘‘
پھر علامہ اقبال کسی یورپین پروفیسر ’’حرگراونجی‘‘ کا قول ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں کہ: ’’محمدی قانون کی ترقی ہے جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہر دوسرے فقہا انتہائی معمولی سی تحریک پر پرجوش ہوکر ایک دوسرے کو اتنا برا بھلا کہتے ہیں کہ کفر کے فتوے تک لگاتے ہیں۔ مگر دوسری طرف یہی لوگ اپنے مقاصد کے زیادہ سے زیادہ اتحاد کئے لئے اپنے پیشرؤں کے باہمی تنازعات میں ہم آہنگی کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔‘‘
اس سے آگے علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں: ’’فقہ کا طالبعلم جانتا ہے کہ آئمہ فقہ اس قسم کے کفر کو فنی اصطلاح میں کفر کمتراز کفر سے موسوم کرتے ہیں۔ کبھی اس طرح کا کفر مجرم کو دائرہ (اسلام) سے خارج نہیں کرتا۔‘‘
جناب والا! اگر میں کمیٹی کو زیادہ زیربار نہیں کر رہا تو اس مسئلہ کا ذکر کرتے ہوئے میں علامہ محمد اقبالؒ کا ایک اور حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ کیونکہ مرزاناصر احمد نے کہا تھا کہ اگر آپ احمدیوں یا قادیانیوں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں تو پھر اس کے بعد بیشتر حضرات، آغاخانیوں اور دیگر فرقے کے لوگوں کے خلاف بھی کاروائی کرنا پڑے گی۔ پنڈت جواہر لعل نہرو نے بھی ایسا ہی سوال اٹھایا تھا۔ا س نے کہا تھا: ’’اگر آپ قادیانیوں کی مذمت کرتے ہیں کہ وہ مسلمان نہیں ہیں تو پھر آپ کو ایسی ہی مذمت آغاخانیوں کی کرنا ہوگی۔‘‘
محترم ڈاکٹر علامہ اقبال کا حوالہ دینے کے علاوہ اس سوال کا میرے پاس بہتر جواب نہیں ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں جو کچھ ڈاکٹر علامہ اقبال نے کہا وہ پڑھتا ہوں: ’’ہر ہائی نس آغا خان کے متعلق ایک آدھ لفظ میں پنڈت جواہر لعل نہرو نے آغا خان پر جو حملہ کیا ہے اس کو سمجھنا میرے لئے مشکل ہے۔ شاید ان کا خیال ہے کہ قادیانی اور اسماعیلی دونوں ایک ہی زمرہ میں آتے ہیں۔ شاید وہ نہیں جانتے کہ اسماعیلی دینی مسائل کی خواہ کچھ بھی تعبیر کریں اسلام کے بنیادی اصولوں پر انکا ایمان ہے۔ یہ درست ہے کہ وہ عقیدہ ’’حاضر امام‘‘ کے ماننے والے ہیں۔ لیکن ان کے امام پر وحی کا نزول نہیں ہوتا۔ وہ صرف اسلامی قانون کی شرح کرنے والا ہوتا ہے۔ یہ صرف چند دنوں کی بات ہے۔ (حوالہ الہ آباد سے شائع ہونے والا ’’سٹار‘‘ مورخہ ۱۲؍مارچ ۱۹۳۹ئ) کہ ہزہائی نس آغا خان نے اپنے پیروکاروں کو خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’گواہ رہو کہ اﷲ ایک ہے۔ محمد ﷺ اﷲ کے رسول ہیں۔ قرآن اﷲ کی کتاب ہے۔ کعبہ تمام مسلمانوں کا قبلہ ہے۔ آپ مسلمان ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ مل کر رہیں۔ مسلمانوں کو السلام علیکم کہہ کر خوش آمدید کہیں۔ اپنے بچوں کے اسلامی نام رکھیں۔ مسلمانوں کے ساتھ مسجدوں میں باجماعت نماز ادا کریں۔ روزے باقاعدگی سے رکھیں۔ اپنی شادی نکاح اسلامی قانون کے مطابق کریں۔ تمام مسلمانوںکو اپنا بھائی سمجھیں۔‘‘
پھر علامہ اقبال فرماتے ہیں: ’’اب یہ پنڈت نہرو فیصلہ کریں کہ آغا خان اسلامی یک جہتی کی نمائندگی کرتے ہیں یا نہیں۔‘‘
جناب والا! اب اس قصہ بحث کو ختم کرتا ہوں۔ کیونکہ وہ (مغرب کی نماز) پڑھنا چاہتے ہیں)
(محترمہ قائمقام چیئرمین: جی ہاں! اب مغرب کی نماز کا وقت ہے)
(جناب یحییٰ بختیار: میں مغرب کی نماز کے بعد دوبارہ شروع کروں گا)
(محترمہ قائمقام چیئرمین: اجلاس سواسات بجے شام ہوگا۔ ہاؤس کمیٹی کا اجلاس مغرب کی نماز کے لئے ملتوی کیا جاتا ہے)
----------
(کمیٹی کا اجلاس سواسات بجے شام تک ملتوی ہوا)
----------
(کمیٹی کا اجلاس مغرب کی نماز کے بعد شروع ہوا)
----------
(جناب چیئرمین: صرف دو منٹ! اراکین کو آلینے دیں۔ اگر اٹارنی جنرل صاحب کی بحث اور دیگرکوئی ممبر جو خطاب کرنا چاہے آج ختم ہو جائے تو پھر آج رات کو ہم کارروائی مکمل کر لیں گے۔ ورنہ کل صبح اجلاس ہوگا۔ اگر آج رات کوئی کام باقی رہ گیا تب ہم بطور خصوصی کمیٹی اڑھائی بجے دن اجلاس کریں گے اور ساڑھے چار بجے بعد دوپہر بطور نیشنل اسمبلی اجلاس کریں گے۔ اس بات پر اتفاق ہوچکا ہے کہ کل فیصلہ کریں گے۔ بس صرف چوبیس گھنٹے انتظار کرلیں۔ کل ساڑھے چار بجے بعد دوپہر ہم بطور نیشنل اسمبلی اجلاس کریں گے۔
حالات کے مدنظر ایم۔این۔اے حضرات کے خاندان کے افراد ہی کو صرف پاس جاری کئے جائیں گے۔ مجھے امید ہے کہ ممبران کو ناگوار نہ ہوگا اور اسمبلی کے اندر داخلہ کے بارے میں قواعد پر سختی سے عمل ہو گا نہ صرف اسمبلی کے اندر بلکہ کیفے ٹیریا میں اور دوسری جگہوں پر بھی (ایسا ہی ہوگا) کل ساڑھے چار بجے بعد دوپہر گیٹ نمبر۳ اور ۴ سے کسی شخص کو جب تک کہ اس کے ساتھ پاس نہ ہو داخلہ کی قطعاً اجازت نہیں ہوگی) (وقفہ)
(جناب چیئرمین: مجھے افسوس ہے کسی شخص کو بھی ممبران کے داخلے کے بارے میں قدغن لگانے کا اختیار نہیں۔ ممبران کو اجازت ہوگی یہ بات میرے نوٹس میں لائی گئی ہے۔ مجھے افسوس ہے (کہ میں نے پہلے کچھ اور کہا) ممبران کو اجازت ہوگی۔ احتیاطی تدابیر کے طور پر ہمیں کچھ کرنا پڑتا ہے۔ اٹارنی جنرل صاحب ہمیں اب کاروائی شروع کرنا چاہئے)
(جناب یحییٰ بختیار: جناب والا! )
(جناب چیئرمین: مجھے افسوس ہے۔ مجھے وہاں جانا پڑا۔ میں تو آپ کے دلائل سننا چاہتا تھا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ مجھے اپنا چیمبر بھی بند کرنا پڑا)
(جناب یحییٰ بختیار: جناب والا! میں مسلمانوں کے ’’ختم نبوت‘‘یا ’’خاتم النّبیین‘‘ کے تصور کے بارے میں معروضات پیش کر رہا تھا۔ مرزاغلام احمد نے پہلے امتی نبی ہونے کا دعویٰ کیا پھر اس نے دعویٰ کیا کہ وہ ایسا نبی ہے جس کا اپنا قانون (شریعت) ہے۔ ایک وحی کا ذکر کرتے ہوئے اس نے کہا اس کے پاس خدائی احکامات ہیں۔ جن میں امرونہی شامل ہیں۔ یہ بات صرف مرزاغلام احمد نے ہی نہیں کہی۔ بلکہ اس کا بیٹا بشیرالدین محمود احمد اپنی کتاب ’’احمدیت یا سچا اسلام‘‘ میں لکھتا ہے کہ مرزاغلام احمد نے اپنے ماننے والوں کے لئے ضابطہ حیات کا مکمل ذخیرہ چھوڑا ہے۔ کتاب کے ص۵۶ سے اقتباس میں پڑھتاہوں: ’’میں ابھی ابھی بتاؤں گا کہ اس (مرزاغلام احمد) نے ہمارے لئے اخلاقیات اور ضابطہ حیات کا مکمل ذخیرہ چھوڑا ہے۔ تمام ذی عقل انسانوں کو یہ ماننا پڑے گا کہ ان پر عمل کرنے سے ہی مسیح موعود کی آمد کے مقاصد کی تکمیل ہو سکتی ہے۔‘‘
تو جناب والا! بات یہ تھی۔ ہر مسلمان کا ایمان ہے کہ صرف قرآن ہی مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ مگر ایک اور نبی آجاتا ہے۔ جو کہ بغیر شریعت امتی نبی ہونے کا دعویدار ہے اور اپنے پیروکاروں کے لئے مکمل ضابطہ حیات چھوڑ جاتا ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزاناصر ناکام رہا)

جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں۔ پھر وہ (مرزاغلام احمد) مزید بلندی اور بہتر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ معزز اراکین شہادت سماعت فرماچکے ہیں۔ بس میں ریکارڈ سے صرف ایک یا دو باتوں کا ذکر کروں گا۔ اس (مرزاغلام احمد) نے کہا نبی کریم ﷺ کے دور میں اسلام کی مثال پہلی کے، چاند کی مانند تھی۔ مگر مسیح موعود کے دور میں اس کی مثال بدر کامل جیسی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایوان کی جانب سے میں نے مرزاناصر احمد کو اس بات کی وضاحت کرنے کا پورا پورا موقع دیا۔ لیکن میری ناقص رائے میں وہ بالکل ناکام رہا۔ شروع میں اس نے جواب دیا کہ نبی کریم ﷺ کے دور میں اسلام صرف عرب تک محدود تھا۔ پھر اس نے پینترا بدلا اور کہا ہر دور نبی کریم ﷺ کا ہی دور ہے اور ابدالآباد تک رہے گا۔ اس کے بعد کہا کہ مرزاغلام احمد کے دور میں اسلام یورپ کے کئی ممالک تک پھیل گیا تھا۔ جب میں نے کہا کہ مسیح موعود کے زمانے میں تو اسلام کو تمام دنیا میں پھیلنا چاہئے تھا اور اس زمانے میں کوئی غیرمسلم نہیں ہونا چاہئے تھا۔ مسیح موعود کے زمانے کا تو یہ مطلب ہے۔ اس پر مرزاناصر احمد نے کہا کہ نہیں، یہ زمانہ دو تین سو سال تک حاوی ہے۔ جہاں تک حضور نبی کریم ﷺ کے زمانے کا تعلق ہے۔ وہ ان کی حیات طیبہ تک اور عرب تک محدود ہے۔ یہ واضح تضادات ہیں۔ لیکن اس قسم کے دعوے کئے گئے اور بھی حوالے ہیں۔ جن کو ممبران سماعت فرما چکے ہیں۔ مگر وہ قصیدہ یا نظم جو مرزاغلام احمد کی مدح یا تعریف میں پڑھی گئی۔ ضرور قابل ذکر ہے۔ اس قصیدہ یا نظم کا ایک شعر ہے:
’’محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں
اور آگے سے بھی بڑھ کر ہیں اپنی شان میں‘‘
یہ قصیدہ مصنف کے مطابق مرزاغلام احمد کی موجودگی میں پڑھا گیا۔ مرزاناصر احمد نے پہلے کہا کہ یہ (مرزاغلام احمد کی موجودگی میں) نہیں پڑھا گیا۔ اگر وہ (مرزاغلام احمد) یہ سن لیتا تو وہ اس قصیدے کو ناپسند کرتا اور اس کے مصنف کو جماعت سے خارج کر دیتا۔ پھر مرزاناصر احمد کو میں نے بتایا کہ ۱۹۰۶ء کے ’’بدر‘‘ نامی قادیانی اخبار میں یہ نظم شائع ہوئی تھی اور یہ بات ناقابل یقین ہے کہ مرزاغلام احمد نے اسے نہ پڑھا ہو۔ یہ اس کا اپنا اخبار تھا اور یہ ہو نہیں سکتا کہ مرزاغلام احمد کے پیروکاروں نے اسے اس نظم کے بارے میں نہ بتایا ہو۔ اس پر مرزاناصر احمد نے کہا کہ اکمل نے یہ نظم لکھی۔ اس کی نظموں کا مجموعہ کتاب کی شکل ۱۹۱۰ء میں شائع ہوا۔ تو مندرجہ بالا شعر اس سے حذف کر دیا گیا تھا۔ کمیٹی اس بات پر غور کر سکتی ہے۔ لیکن ہمارا تعلق مرزاغلام احمد کے وقت سے ہے۔ ہمارے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ مرزاغلام احمد نے اس وقت اس شعر کو ناپسند یا نامنظور کیا ہو۔ بلکہ اس کے برعکس ۱۹۴۴ء میں مصنف نے بذات خود کہا تھا کہ اس نے یہ نظم اور شعر مرزاغلام احمد کی موجودگی میں پڑھی تھی اور مرزاغلام احمد نے اسے پسند کیا تھا اور وہ (مرزاغلام احمد) اس نظم کو اپنے ساتھ گھر لے گیا تھا۔ تاہم مرزاناصر احمد نے اس بات کو تسلیم نہیں کیا اور کہا کہ اس کی تردید ۱۹۵۴ء اخبار الفضل میں کر دی گئی تھی۔ اس موضوع پر میں مزید کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ گو مرزاناصر احمد نے اس بات کو ایک دوسرے طریقے سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے اور کہا ہے کہ اسی نظم میں ایک اور شعر ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مرزاغلام احمد برتری کا دعویٰ نہیں کرتا۔ لیکن میں کچھ اور گزارش نہیں کرنا چاہتا۔ جناب والا! یہ حالات تھے جن کے تحت مرزاغلام احمد نے اپنی نبوت کا دعویٰ کیا اور پھر مرحلہ وار اپنے مرتبے خود ہی بلند کرتا چلا گیا۔ جناب والا! اب میں اختصار کے ساتھ مرزاغلام احمد یا قادیانیوں کے ’’ختم نبوت‘‘ اور ’’خاتم النّبیین‘‘ کے تصور کے بارے میں معروضات کروں گا۔ عام مسلمانوں کا ایمان ہے کہ حضرت نبی کریم ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ مگر قادیانیوں کا عقیدہ ہے کہ ’’خاتم النّبیین‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ سوائے اسلام کے اور کسی مذہب میں نبی نہیں آئے گا اور جو نبی ہوگا وہ امتی نبی ہوگا اور اس کی نبوت پر حضرت نبی کریم ﷺ کی مہر ہوگی۔ مہر نبوت سے قادیانی یہی مطلب کہتے ہیں۔ نیا نبی اپنی شریعت لے کر نہیں آئے گا۔ اس وقت تک ان کا عقیدہ تھا کہ نہ صرف ایک بلکہ کئی نبی آئیں گے اور اس طرح بات کو خلط ملط کرتے رہے۔ اس موضوع پر مرزابشیر احمد اپنی کتاب ’’ریویو آف ریلجن‘‘ ص۱۱۰ پر لکھتا ہے۔ (یہ میں نے مرزا ناصر احمد کو بھی پڑھ کر سنایا تھا)۱؎:
’’اگر میری گردن کے دونوں طرف تلوار رکھ دی جائے اور مجھے کہا جائے کہ تم یہ کہو کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تو میں اسے ضرور کہوں گا کہ تو جھوٹا ہے، کذاب ہے۔ آپ کے بعد نبی آسکتے ہیں ضرور آسکتے ہیں۔‘‘
(انوار خلافت ص۶۵)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ ریویو آف ریلیجنز کا حوالہ نہیں بلکہ انوار خلافت کا ہے جو مرزامحمود کی تصنیف ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
پھر ’’انوار خلافت‘‘ ص۶۲تا۶۵ پر لکھتا ہے: ’’یہ بات بالکل روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ بند نہیں ہوا۔‘‘
(حقیقت النبوہ ص۲۲۸)
پھر ’’انوار خلافت‘‘ میں لکھتا ہے: ’’انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ خدا کے خزانے ختم ہو گئے۔ ان کا یہ سمجھنا خداتعالیٰ کی قدر کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے۔ ورنہ ایک نبی کیا، میں کہتا ہوں کہ ہزاروں نبی ہوں گے۔‘‘
یہ تحریر جب مرزاناصر احمد کو بتائی گئی تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ امکانی صورت کے طور پر ہے کہ اﷲتعالیٰ سب کچھ کر سکتا ہے۔ ان کا یہ مطلب نہیں کہ کئی نبی آئیں گے۔ ماسوائے مرزاغلام احمد کے ایک اور پہلو جو غالباً براہ راست متعلق نہیں ہے۔ یہ ہے کہ مرزاغلام احمد کا بیٹا دیدہ دلیری سے کہتا ہے: ’’اگر میری گردن کے دونوں طرف تلوار بھی رکھ دی جائے اور مجھے کہا جائے کہ تم کہو کہ آنحضرت ﷺ کے بعد نبی نہیں آئے گا تو میں اسے ضرور کہوں گا کہ تم جھوٹے ہو، کذاب ہو۔ اس کے بعد نبی آسکتے ہیں اور ضرور آسکتے ہیں۔‘‘)
----------
(اس موقعہ پر جناب محمد حنیف خان صاحب نے کرسی صدارت سنبھالی)
----------
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے حکم پر مرزا نے اپنی وحی کا اظہار روک دیا)
(جناب یحییٰ بختیار: جناب والا! یہ ایک بہت ہی بے باکی کی بات ہے۔ ایک ایسے شخص کے بیٹے کی طرف سے جو نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ لیکن جب آپ اس کا موازنہ اس نبی کے اپنے ذاتی کردار کے ساتھ کریں تو انسان حیرت میں گم ہو جاتا ہے۔ مرزاغلام احمد کے خلاف گورداسپور کی ضلع کچہری میں ایک استغاثہ دائر ہوا تھا۔ مرزاغلام احمد نے مستغیث کے خلاف کوئی پیش گوئی کی تھی۔ جس پر مستغیث نے دعویٰ دائر کر کے عدالت سے درخواست کی کہ مرزاغلام احمد کو اس قسم کی پیش گوئیاں کرنے سے باز رکھا جائے۔ اس پر مرزاغلام احمد نے تحریری طور پر عدالت میں اقرار کیا کہ وہ آئندہ کسی کے خلاف اس کی موت یا تباہی کی پیش گوئی نہیں کیا کرے گا اور نہ ہی اس بارے میں موصول ہونے والی وحیوں کا اظہار کرے گا۔ اب آپ ہی اندازہ لگائیں۔ یہ ہے خدا کا نبی جو ایک ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے حکم کے تحت خداتعالیٰ سے موصول ہونے والی ’’وحی‘‘ کے ظاہر کرنے سے رک جاتا ہے اور اس کا بیٹا کیا کہتا ہے۔
جناب والا! یہی بات کہ کئی نبی آئیں گے۔ اس جدول میں بھی ملتی ہے جو جماعت احمدیہ ربوہ کی طرف سے داخل کیاگیا ہے۔ مولوی ابوالعطاء جالندھری کی کتاب کے ص۸ (جس کا حوالہ مرزاناصر احمد کو بھی دیاگیا تھا) پر لکھا ہے: ’’خاتمیت محمدیہ یا آنحضرت ﷺ کو خاتم النّبیین ماننے والوں کے دو نظریے ہیں۔ پہلا نظریہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی خاتمیت نے دیگر انبیاء کے فیوض کو بند کر کے فیضان محمدی کا دروازہ کھول دیا ہے۔ آپ ﷺ کی امت کو آپ ﷺ کی پیروی کے طفیل وہ تمام انعامات ممکن الحصول ہیں جو پہلے منعم علیہم کو ملتے رہے ہیں۔ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد خاتمیت فیضان محمدی کے بند ہونے کے مترادف ہے۔ آپ ﷺ کی امت ان تمام اعلیٰ انعامات سے محروم ہو گئی جو بنی اسرائیل اور پہلی امتوں کو ملتے رہے ہیں۔‘‘
یہ تحریر میں نے مرزاناصر احمد کو بتائی تو اس نے جواب دیا کہ اس کا تعلق نبیوں یا ان کی آمد سے نہیں ہے۔ گو کہ کتاب کا موضوع یہی ہے تاہم کچھ بھی ہو۔ ایک طرف وہ کہتے ہیں کہ اور نبی آئیں گے اور اسی نظریہ یا عقیدہ کو عقلمندی سمجھتے ہیں۔ مگر دوسری طرف کہتے ہیں کہ مرزاغلام احمد ہی وہ نبی ہے جس نے آنا تھا۔
جناب والا! جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ مرزاغلام احمد کے دعویٰ نبوت کا اسلام پر یا مسلمانوں کے حوالے سے کیا اثرات ہوئے۔ جب اس نے یہ دعویٰ کیا تو قدرتی طور پر مسلمانوں میں احساس اور خیال پیدا ہوا کہ جو شخص نبی کریم ﷺ پیغمبر اسلام کے بعد نبوت کا دعویٰ کرتا ہے۔ وہ جھوٹا ہے۔ یہ ایک قدرتی ردعمل تھا کہ ایسا شخص مسلمانوں کے مذہبی اور معاشرتی نظام کو تہ وبالا کرنا چاہتا ہے۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق اس شخص نے اسلام کے بنیادی تصور کے خلاف بغاوت کی تھی اور اسلام کی جڑ کاٹنے کی کوشش کی تھی۔ اس لئے فطری طور پر اس کا شدید ردعمل ہوا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزا کی عیاری)
جناب والا! پیشتر ازیں کہ میں اس دعوے کے اثرات کی تفصیل میں جاؤں میں مختصراً یہ عرض کروں گا کہ مرزاغلام احمد نے نبوت کا دعویٰ کرنے کے بعد کن حالات میں جلسوں وغیرہ کو خطاب کیا۔ جناب والا! اس سے مرزاغلام احمد کے دعویٰ نبوت کا ایک اور پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ میں نے عرض کیا تھا کہ اس کی زندگی تین مراحل پر مشتمل ہے۔ پہلا، دوسرا، تیسرا! ہم دیکھتے ہیں کہ مرزاغلام احمد کی زندگی کے تیسرے مرحلے میں بھی ایک ایسا بیان ملتا ہے جس کی مثل پہلے مرحلہ میں بھی موجود ہے۔ جس میں وہ نبوت کے دعوے کا انکاری ہے اور کہتا ہے کہ اس کا مطلب یہ تھا اور یہ نہیں تھا۔ وغیرہ، وغیرہ! میں سمجھتا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ جب بھی مرزاغلام احمد کی مخالفت شدت اختیار کر جاتی تھی یا جب بھی وہ اپنے آپ کو لاجواب پاتا تھا تو وہ اپنی بات تبدیل کر لیتا تھا۔ لیکن بعد میں پھر نہایت ہوشیاری اور مکاری سے (بات کو بدل کر) اپنی نبوت کا اعلان کر دیتا تھا۔
جناب والا! نبوت کا دعویٰ کرنے کے بعد ۱۸۹۱ء میں وہ دہلی جاتا ہے۔ یہاں میں مرزابشیرالدین احمد محمود کی کتاب ’’احمد یا آخری دنوں کا پیغامبر‘‘ کے ص۳۲تا۳۴ کا حوالہ دوں گا۔ ممکن حد تک میں اختصار سے کام لوں گا۔ تاہم عرض کرنا ضروری ہے کہ ایسے جلسوں میں کیا ہوتا رہا۔ جس کی وضاحت میں بعد میں کروں گا: ’’بحث مباحثہ کے لئے جامع مسجد بطور جائے مناظرہ مقرر کی گئی تھی۔ یہ تمام امور مخالفین نے خود طے کئے تھے اور احمد کو اس کی اطلاع نہیں دی گئی۔ جب بحث مباحثہ کا وقت آیا، دہلی کا حکیم عبدالمجید خان گاڑی لے کر آیا اور مسیح موعود کو جامع مسجد جانے کی درخواست کی۔ مگر مسیح موعود نے جواب دیا کہ لوگوں کے جوش اور ولولہ کے مدنظر نقص امن کا خطرہ ہے۔ اس لئے جب تک پولیس انتظامات نہ کرلے وہ (مسیح موعود) وہاں نہیںجائے گا۔ مزید کہا کہ بحث مباحثہ کے متعلق اس سے پہلے مشورہ کیا جانا چاہئے تھا اور بحث مباحثہ کی شرائط پہلے طے ہونا فریقین کے مابین ضروری تھیں۔ مرزاغلام احمد کی جامع مسجد سے غیرحاضری کے باعث عوام کا جوش وخروش اور زیادہ ہوگیا۔ اس لئے مرزاغلام احمد نے اعلان کیا کہ اگر دہلی کے مولوی نذیر حسین جامع مسجد کے اندر قرآن پر حلف لے کر کہیں کہ قرآن مجید کی رو سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں اور وفات نہیں ہوئی اور ایسی قسم لینے کے ایک سال کے اندر اندرمولوی نذیر حسین پر عذاب الٰہی نازل نہ ہوا۔ تب مرزا غلام احمد جھوٹا قرار پائے گا اور وہ اپنی تمام کتابیں جلا دے گا۔ اس نے حلف لینے کی تاریخ بھی مقرر کر دی۔ مولوی نذیر حسین کے حمایتی اس تجویز سے بہت پریشان ہوگئے اور راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر دیں۔ لیکن عوام بضد تھے۔ عوام کا کہنا تھا کہ مولوی نذیر حسین، مرزاغلام احمد کی تجویز سن لیں اور قسم لے لیں کہ وہ جھوٹا ہے۔ جامع مسجد میں ایک جم غفیر جمع تھا۔ لوگوں نے مسیح موعود کو مشورہ دیا کہ وہ مسجد میں نہ جائیں۔ کیونکہ شدید ہنگاموں کا خطرہ موجود تھا۔ تاہم وہ اپنے بارہ ’’حواریوں‘‘ کے ہمراہ وہاں گیا۔ (حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بھی بارہ حواری تھے۔ یہ بارہ کی تعداد بذات خود ایک اشارہ تھا۔ جناب والا! اس کا نوٹس لیا جائے) جامع مسجد کی بہت بڑی عمارت اندر اور باہر سے آدمیوں سے بھری پڑی تھی۔ حتیٰ کہ سیڑھیوں پر بھی عوام کا ہجوم تھا۔ انسانوں کے اس سمندر سے جن کی آنکھوں میں غم وغصہ کے سبب خون اترا ہوا تھا۔ مسیح موعود اور اس کی مختصر سی جماعت گذر کر محراب تک پہنچے اور اپنی جگہ سنبھال لی۔ سپرنٹنڈنٹ پولیس اور دیگر افسران بمعہ تقریباً ایک سو سپاہیوں کے امن قائم کرنے کی خاطر وہاں آئے ہوئے تھے۔ ہجوم کے اندر بہت سے لوگوں نے اپنی قمیصوں کے اندر پتھر چھپا رکھے تھے اور ذرا سے اشارہ پر یہ پتھر وہ احمد اور اس کے ساتھیوں کو مارنے کے لئے بالکل تیار بیٹھے تھے۔ اس طرح مسیح ثانی کو مکاری سے شکار کرنا مقصود تھا۔ وہ مسیحا ثانی کو سولی پر لٹکانے کی بجائے سنگسار کرنا چاہتے تھے۔ زبانی بحث مباحثہ میں جو اس کے بعد ہوا وہ ناکام رہے۔ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت کے مسئلے پر بحث کرنے پر رضامند نہ ہوئے۔ ان میں سے کوئی بھی مجوزہ حلف لینے کو تیار نہ تھا اور نہ ہی مولوی نذیر حسین کو حلف لینے کی اجازت دے رہے تھے۔ اس مرحلہ پر خواجہ محمد یوسف پلیڈر علیگڑھ نے مسیح موعود سے اس کے ایمانی عقائد کے بارے میں ایک تحریری بیان لیا اور (عوام کے سامنے) پڑھنے کے لئے تیار ہوا۔ لیکن چونکہ مولویوں نے عوام سے کہہ رکھا تھا کہ مسیح موعود نہ قرآن نہ فرشتوں اور نہ ہی نبی کریم ﷺ کو مانتا ہے۔ اس لئے ان کو خطرہ تھا کہ مذکورہ بالا تحریری بیان پڑھنے سے ان کا فریب ظاہر ہو جائے گا۔ چنانچہ انہوں نے عوام کو اکسایا۔ فوراً ہی ایک قطار بنادی گئی اور اس طرح خواجہ یوسف کو بیان پڑھنے سے روک دیا گیا۔ افسران پولیس نے موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے سپاہیوں کو ہجوم منتشر کرنے کا حکم دے دیا اور اعلان کر دیا کہ کوئی بحث مباحثہ نہیں ہوگا۔ اس پر ہجوم منتشر ہوگیا۔ پولیس نے مسیح موعود کے گرد گھیرا ڈال دیا اور (حفاظت سے) اسے مسجد سے باہر نکالا۔‘‘
جناب والا! یہ اقتباس تفصیل کے ساتھ پڑھنے کے میرے دو مقاصد ہیں۔ ابھی میں کچھ اور حوالہ جات بھی پڑھوں گا۔ سب سے پہلے یہ کہ اس (مسیح موعود) نے کیا کہا اور کیا لکھ کر دیا تھا۔ جب کہ اسے مخالف عوام کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ ۲۳؍اکتوبر ۱۸۹۱ء کا ذکر ہے۔ الفاظ یہ ہیں: ’’ان تمام امور میں میرا وہی مذہب ہے جو دیگر اہل سنت والجماعت کا ہے… اب میں مفصلہ ذیل امور کا مسلمانوں کے سامنے صاف صاف اقرار اس خانہ خدا جامعہ مسجد دہلی میں کرتا ہوں اور میں خاتم الانبیاء کی ختم نبوت کا قائل ہوں اور جو شخص ختم نبوت کا منکر ہو اس کو بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۵۵)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(لفظ نبی سے انکار پھر اسی لفظ کا استعمال)
جناب والا! دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ (مرزاغلام احمد) اپنی نبوت کا پرچار اور وضاحت پولیس کی بھاری جمعیت کے نیچے ہی کر سکتا تھا۔ جناب والا! میں یہ سوالات پوچھتا رہا ہوں۔ ایک مرتبہ جب وہ عبدالحکیم کلانور والے کے ساتھ مناظرہ کر رہا تھا اور جب دیکھا کہ مسلمان اس کی نبوت کے دعویٰ کے خلاف سخت غصہ میں ہیں تو اس (مرزاغلام احمد) نے اعلان کر دیا کہ اس نے سادگی میں اپنے بارے میں نبی کا لفظ لکھ دیا ہے۔ جب کہ اس کا مدعا محدث سے ہے۔ اس لئے اس کی تحریروں میں مسلمانوں کو جہاں جہاں نبی کا لفظ ہے۔ وہ اس کو محدث سے تبدیل کر لیں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس سے بعد بھی مرزاغلام احمد نے اپنے بارے میں نبی کا لفظ لکھنا شروع کر دیا اور اس کی کوئی معقول وضاحت بھی نہ کی۔ اس کے متعلق میں نے لاہوری گروپ والوں سے متعدد سوالات کئے۔ کیونکہ اس نقطۂ سے ان کا زیادہ تعلق تھا۔ اس ضمن میں سب سے پہلے یہ جواب دیا گیا کہ چونکہ عوام کو غلط فہمی ہو جاتی تھی۔ اس لئے وہ (مرزاغلام احمد) نبی کہلوانا اس کا عندیہ نہیں تھا۔ وہ یہ نہیں کہتا تھا کہ حقیقی معنی میں وہ نبی ہے۔ وہ ایک محدث تھا۔ جیسا کہ لاہوری گروپ والے لکھتے ہیں۔ اس لئے مرزاغلام احمد نے حکم دیا کہ اس کے بارے میں نبی کا لفظ منسوخ تصور کیا جائے۔ جب میں نے سوال کیا کہ مرزاغلام احمد نے پھر نبی کا لفظ استعمال کرنا کیوں شروع کر دیا۔ تو لاہوری گروپ نے جواب دیا کہ کچھ لوگوں کو غلط فہمی تھی۔ اس لئے ان کے لئے اس نے ترمیم کر دی۔ اوروں کو، کوئی شک وشبہ نہیں تھا۔ اس لئے اس نے (نبی) کے لفظ کا استعمال جاری رکھا۔ پھر میں نے اس (لاہوری گروپ) سے پوچھا کہ جب مرزاغلام احمد خود اپنے کو نبی کہتا تھا۔ خواہ کسی معنی میں سہی۔ تو آپ اسے اسی مخصوص معنی میں نبی کیوں نہیں مانتے۔ جس کے تحت آپ کہتے ہیں کہ نبی کا مطلب غیرنبی ہوتا ہے۔ کیونکہ ربوہ والے مرزاغلام احمد کو کسی نہ کسی معنی میں نبی کہتے ہیں۔ مجھے یہ سن کر افسوس ہوا کہ لاہوری گروپ والے مرزاغلام احمد کو نبی محض اس وجہ سے نہیں کہتے کہ یہ کہنے سے لوگ طیش میں آجاتے ہیں۔ تو یہ کسی اور وجہ سے نہیں بلکہ مصلحت کے تحت تھا۔ لاہوری گروپ والے نبی کا لفظ کیوں استعمال نہیں کرتے؟ وجہ ظاہر ہے۔ جناب والا! ان تین ادوار میں مرزاغلام احمد حالات کے تحت بیان تبدیل کر دیا کرتا تھا۔
اب میں ایک یا دو دیگر جلسوں کا ذکر کروں گا جن کو مرزاغلام احمد نے خطاب کیا۔ ان میں سے ایک جلسہ لاہور میں ہوا۔ ایک مرتبہ پھر میں اس کے بیٹے کی کتاب کا حوالہ دوں گا۔ وہ کہتا ہے: ’’اس کے قیام کے دوران سارے شہر میں شور وغوغا تھا۔ صبح سے شام تک لوگوں کا ہجوم اس مکان کے باہر جس میں مسیح موعود قیام پذیر تھا۔ منتظر رہتا تھا۔ وقفہ، وقفہ سے مخالفین آتے اور اسے گالیاں دیتے۔ ان میں جو زیادہ سرکش ہوتے وہ مرزاغلام احمد کے ذاتی کمرے کی طرف زبردستی جانے کی کوشش کرتے۔ جنہیں طاقت کے استعمال سے باہر نکالنا پڑتا۔ دوستوں کے مشورہ پر لاہور میں ایک عوامی لیکچر کا انتظام کیاگیا۔ یہ ایک لکھی ہوئی تقریر تھی جسے ایک بڑے ہال میں مولوی عبدالکریم نے پڑھا۔ مسیح موعود اس وقت پاس ہی موجود تھا۔ کوئی تو دس ہزار کے قریب سامعین تھے۔ جب تو یہ پڑھی جاچکی تو سامعین نے درخواست کی کہ اب مسیح موعود خود الفاظ زبانی بھی کہے۔ اس پر وہ یکدم کھڑا ہوگیا اور تقریباً آدھ گھنٹہ تقریر کی۔ چونکہ یہ بات تجربہ میں آچکی تھی کہ مسیح موعود جہاں بھی جاتا تھا تمام مذاہب اور فرقوں کے لوگ اس کے خلاف نفرت کا اظہار کرتے تھے۔ خاص طور پر نام نہاد مسلمان۔ اس لئے پولیس نے مسیح موعود کی حفاظت کے لئے بہت عمدہ انتظامات کر رکھے تھے۔ ہندوستانی پولیس کے علاوہ یورپین سپاہی بھی تلواریں لئے موجود تھے۔ جو تھوڑے ہی فاصلے پر تھے۔ پولیس کو اطلاع ملی تھی کہ کچھ جاہل لوگ لیکچر ہال کے باہر گڑبڑ کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے انہوں نے مسیح موعود کی لیکچر ہال سے واپسی کے لئے خصوصی انتظامات کئے ہوئے تھے۔ سب سے آگے گھوڑ سوار پولیس کا دستہ تھا۔ اس کے پیچھے مسیح موعود کی بگھی تھی۔ بگھی کے پیچھے بہت سے پیادہ پولیس والے تھے۔ ان کے پیچھے پھر گھوڑسوار پولیس کا دستہ تھا اور اس کے پیچھے پیادہ پولیس والوں کا ایک اور دستہ تھا۔ اس طرح مسیح موعود کو پوری حفاظت کے ساتھ گھر واپس پہنچایا گیا اور شرپسندوں کے عزائم خاک میں ملا دئیے گئے۔ لاہور سے مسیح موعود قادیان واپس چلا گیا۔‘‘
اسی کتاب کے ص۷۰،۷۱ کے حوالہ سے امرتسر کے جلسے کا حال اس طرح لکھا ہے: ’’لیکن جب ایک دفعہ عوام کو اکسا دیا گیا تو پھر ان کو روکا نہیں جاسکتا تھا۔ ہیجان بڑھتا ہی چلا گیا اور پولیس کی کوشش کے باوجود اسے دبایا نہ جاسکا۔ آخر کار یہی مناسب سمجھا گیا کہ مسیح موعود اپنی جگہ پر بیٹھ جائے۔ ایک دوسرے شخص کو نظم پڑھنے کے لئے بلایا گیا۔ اس پر سامعین خاموش ہوگئے۔ پھر مسیح موعود اپنی تقریر جاری رکھنے کے لئے دوبارہ کھڑا ہوا۔ لیکن مولویوں نے شور مچانا شروع کردیا۔ جب مسیح موعود نے تقریر شروع کرنے کی کوشش کی تو مولویوں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا اور ڈائس کی جانب حملہ آور ہوئے۔ پولیس نے لوگوں کو روکنے کی کوشش کی۔ مگر ہزاروں کو روکنا چند پولیس والوں کے بس کی بات نہ تھی۔ عوام کے ہجوم نے جلسہ گاہ پر قبضہ کر لیا۔ جب پولیس کو اپنی بے بسی کا اندازہ ہوگیا تو انہوں نے مسیح موعود کو مطلع کر دیا کہ وہ اب اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتی۔ یہ میری رائے ہے کہ پولیس والے اپنا فرض منصبی ادا کرنے سے قاصر رہے۔ ان میں کوئی یورپین پولیس والا نہیں تھا۔ تمام پولیس والے انڈین (ہندوستانی) تھے۔ یہ سب کے سب۔ بلوائیوں کے ساتھی تھے۔ مسیح موعود کے خلاف مذہبی نفرت رکھتے تھے اور اس کی تقریر کے خاتمہ کے خواہشمند تھے۔ اس پر مسیح موعود نے تقریر کو ادھورا چھوڑ دیا۔ لیکن اس سے بھی لوگوں کا شور وغوغا کم نہ ہوا۔ لوگ بدستور جلسہ گاہ کے ڈائس کی طرف مسلسل بڑھتے رہے اور نقصان پہنچانے کی کوشش میں تھے۔ اس پر انسپکٹر پولیس نے مسیح موعود سے درخواست کی کہ وہ پچھلے کمرہ میں چلا جائے اور ایک سپاہی کو بگھی لانے کے لئے بھیجا۔ اس دوران پولیس والے لوگوں کو ان کمروں کی طرف جانے سے روکتے رہے۔ بگھی کو کمرہ کے دروازے کے قریب لایا گیا اور مسیح موعود اس میں بیٹھا۔ خدا کی مہربانی سے ہم میں سے کوئی بھی زخمی نہ ہوا۔ صرف ایک پتھر کھڑکی سے ہوتا ہوا میرے چھوٹے بھائی مرزابشیراحمد کے ہاتھ پر لگا۔ بہت سے پتھر ان پولیس والوں کو لگے جو بگھی کے گرد حلقہ بنائے ہوئے تھے۔ پھر پولیس والوں نے ہجوم کی پٹائی کی اور انہیں منتشر کر دیا۔ پولیس والے بگھی کے آگے اور پیچھے ہوگئے۔ کچھ چھت پر چڑھ گئے اور اس طرح تیزی میں بگھی کو مسیح موعود کی قیام گاہ تک پہنچایا۔ لوگ اس قدر بپھرے ہوئے تھے کہ پولیس کی مار کٹائی کے باوجود وہ کافی دور تک بگھی کے تعاقب میں گئے۔ دوسرے روز مسیح موعود قادیان روانہ ہوگیا۔‘‘
اب جناب والا! آخر میں میں اسی کتاب کے ص۶۱ سے ایک پیراگراف پڑھوں گا کہ مرزاغلام احمد کی موت کے دن کیا واقعہ پیش آیا:
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزا کی موت کے دن کیا ہوا؟)
’’انتقال کے نصف گھنٹہ کے اندر لاہوری عوام کا ہجوم اس مکان کے سامنے جمع ہوگیا۔ جس میں اس کی میت رکھی ہوئی تھی اور خوشی کے ترانے گانے شروع کر دئیے۔ اس طرح اپنے دلوں کی تاریکی کا مظاہرہ کیا۔ کچھ لوگوں نے بھونڈے طور پر ناچنا شروع کر دیا۔ جس سے ان کی فطری کمینگی ظاہر ہوتی ہے۔‘‘
جناب والا! مجھے افسوس ہے کہ میں نے ان جلسوں کا جسے مرزاغلام احمد نے خطاب کیا۔ ذکر کرنے میں کافی وقت لیا ہے۔ سوائے ایک حد کے جس میں اس نے اسلام کے تحفظ کے لئے عیسائیوں سے مناظرہ کیا۔ مرزاغلام احمد نے جب کبھی بھی اپنے دعویٰ نبوت کا پرچار کرنا چاہا یا کوشش کی تو اسے شدید مخالف قسم کے عوام کا سامنا کرنا پڑا اور وہ پولیس حفاظت کے بغیر ایک جلسہ کو بھی خطاب نہ کر سکا اور پولیس بھی وہ جو کہ یورپین افسروں اور جوانوں پر مشتمل ہوتی تھی۔ جب میں نے مرزاغلام احمد کی موت کے موقع پر خوشی کے ترانوں کا ذکر کیا تو میرا مقصد معزز اراکین کی توجہ اس پیش گوئی کی طرف دلانا تھا۔ جو مرزاغلام احمد نے مولوی ثناء اﷲ کے متعلق کی تھی۔ لوگوں نے جان لیا کہ مرزاغلام احمد کی بددعا کا اثر اس کی اپنی ذات پر ہی ہوا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزاقادیانی مفسد تھا)
جناب والا! ردعمل کیا ہوا؟ یہ میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں۔ ایسا کیوں ہوتا تھا کہ جہاں کہیں بھی وہ (مرزاغلام احمد) جاتا تھا۔ مخالف لوگوں کا ہجوم اس کا تعاقب کرتا تھا۔ وجوہات بالکل عیاں ہیں ۔ اس شخص نے مسلمانوں کے بنیادی عقیدے کے خلاف بغاوت کی تھی۔ پھر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اس کے بعد مرزاغلام احمد خود بھی فسادی بن گیا۔ وہ گالی گلوچ اور لعن طعن سے بھرپور زبان استعمال کرتا رہا۔ لیکن میں اس تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ اس کے دو پہلو ہیں۔ پہلا یہ کہ جب اس نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا تو قدرتی طور پر اعتقاد اور ایمان کا سوال پیدا ہوا۔ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق اگر کوئی شخص خدا کے سچے نبی کو نہ مانے تو وہ کافر قرار پاتا ہے۔ ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ ان تمام نبیوں پر ایمان لائے جن کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔ مرزاغلام احمد کا دعویٰ ہے کہ چونکہ اس کا ذکر بھی قرآن میں موجود ہے کہ وہ نبی ہے۔ اس لئے اس کا کہنا تھا کہ جو اس کو نبی نہیں مانتے وہ کافر ہیں۔ مسلمانوں کا کہنا تھا کہ چونکہ مرزاغلام احمد خود ساختہ جھوٹا نبی ہے۔ اس نے جھوٹا دعویٰ کیا ہے۔ وہ کذاب اور دجال ہے۔ یہ ہے وہ بات جس سے شدید قسم کی تکرار، حملے اور عیسائیوں کے جوابی حملے شروع ہوئے۔ کیونکہ وہ اپنے آپ کو مسیح موعود کہتا تھا اور مسلمانوں کی طرف سے اس لئے کہ وہ نبی ہونے اور مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتا تھا۔ تو جناب والا! اس نے کہنا شروع کر دیا: ’’جو شخص تیری پیروی نہیں کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہوگا اور وہ تمہارا مخالف رہے گا۔ وہ خدا اور رسول کی مخالفت کرنے والا جہنمی ہے۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۷۵)
اور مزید کہا: ’’کل مسلمانوں نے مجھے قبول کیا اور میری دعوت کی تصدیق کر لی۔ مگر کنجریوں اور بدکاروں کی اولاد نے مجھے نہیں مانا۔‘‘
یہ اقتباس ’’روحانی خزائن‘‘ ج۵، ص۵۴۷،۵۴۸ سے ہے۔ یہاں پر میں مرزاناصر احمد کے ساتھ پورا پورا انصاف کرتے ہوئے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے لفظ بغیہ کی وضاحت کرتے ہوئے بتلایا کہ اس کا مطلب باغی ہے نہ کہ بدکار عورت، اس طرح اس کا ترجمہ باغی کی اولاد ہوگا نہ کہ بدکارہ کی اولاد اور مرزاناصر احمد کے مطابق مرزاغلام احمد کا یہی مدعا تھا۔ لیکن ہمارے علماء اس وضاحت کو نہیں مانتے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس لفظ کو مرزاغلام احمد نے فاحشہ اور بدکار عورتوں کے حوالے سے باربار خود استعمال کیا ہے۔ میں اس بارے میں مزید کچھ نہیں کہوں گا۔ دوسری بات جس سے اس نے انکار نہیں کیا وہ یہ ہے۔ جب اس نے کہا: ’’جو شخص میرا مخالف ہے…‘‘
جناب والا! اب میں ’’روحانی خزائن‘‘ ج۱۶ ص۵۳ سے ایک اور حوالہ پڑھ رہا ہوں: ’’بلاشبہ تمہارے دشمن بیابانوں کے خنزیر ہوگئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بھی بڑھ گئیں۔‘‘
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزاقادیانی کی بدزبانی)
یہاں اس (مرزاناصر احمد) نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ یہ مسلمانوں کے بارے میں نہیں کہا گیا۔ بلکہ عیسائیوں کے متعلق ہے۔ میں پورے احترام کے ساتھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کیا یہ ایک نبی کی زبان ہوسکتی ہے؟ خواہ وہ عیسائیوں یا ہندوؤں کا کسی اور کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ میں مزید کچھ اور عرض نہیں کرنا چاہتا۔ ایسی زبان استعمال کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ بالکل نہیں۔ اسی طرح وہ (مرزاغلام احمد) کہتا ہے: ’’جو شخص ہماری فتح کا قائل نہ ہوگا تو صاف سمجھا جائے گا کہ اس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے۔‘‘
یہ حوالہ بھی ’’روحانی خزائن‘‘ ج۹ ص۳۱ سے ہے۔ درحقیقت یہی زیادہ نازیب، اشتعال انگیز اور فتنہ اٹھانے والی بات تھی کہ ایک ایسا شخص جو اپنے آپ کو عین محمد اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بہتر ہونے کا دعویدار ہو۔ وہ اپنے مخالفین خواہ وہ مسلمان ہوں یا عیسائی کے لئے ایسی زبان استعمال کرے۔ (مرزاغلام احمد کے دعوے کے مطابق) اﷲتعالیٰ نے نبیوں کے تمام کمالات کا مظہر اس کی ذات کو بنایا تھا اور یہ ہیں وہ کمالات جن کا مظاہرہ مرزاغلام احمد نے کیا۔ مجھے اس موضوع پر مزید کچھ اور کہنے کی ضرورت نہیں۔
جناب والا! یہی دور تھا کہ مرزاغلام احمد نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کھلم کھلا توہین شروع کر دی۔ پہلے اس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر برتری کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا:
’’ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو
اس سے بہتر غلام احمد ہے‘‘
(دافع البلاء ص۲۰،خزائن ج۱۸ ص۲۴۰)
مرزاناصر احمد نے اس کے جواز میں یہ وضاحت کی کہ یہ بات مرزاغلام احمد نے اپنے بارے میں نہیں کی۔ بلکہ غلام احمد (یعنی حضرت محمد ﷺ کے غلام) کے بارے میں کی تھی۔ ہمیں تو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ تمام انبیاء واجب الاحترام ہیں۔ اس ضمن میں تمام انبیاء برابر ہیں۔ کیونکہ وہ سب ہی اﷲ کے رسول ہیں۔ لیکن ایک یہ شخص مرزاغلام احمد ہے۔ جو کہتا ہے کہ وہ (نعوذ باﷲ) حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بہتر ہے اور جواز یہ دیتا ہے کہ حضرت محمد ﷺ کا ہر غلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بہتر ہے۔ یہ مسلمانوں کا عقیدہ نہیں ہے اور نہ ہی ایسے عقیدے کا کوئی جواز ہوسکتا ہے۔ لیکن مرزاغلام احمد آگے بڑھتا ہے اور کہتا ہے:
’’خدا نے اس امت میں مسیح بھیجا جو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے۔‘‘
یہ حوالہ (ریویو آف ریلجس) ص۴۷۸، نیز حقیقت الوحی ص۱۵۲ اور اب ’’روحانی خزائن ‘‘ ج۲۲ ص۱۵۳ سے ہے۔ جہاں پر اور کہتا ہے: ’’مجھے قسم ہے اس اﷲ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر مسیح ابن مریم میرے زمانے میں ہوتا تو وہ کام جو میں کر سکتا ہوں وہ ہرگز نہ کر سکتا اور وہ نشان جو مجھ میں ظاہر ہورہے ہیں ہرگز نہ دکھلا سکتا۔‘‘
چلئے! وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر برتری کا دعویدار ہے۔ یہ بھی بہت بری بات ہے۔ لیکن اس نے (ادبی لحاظ سے) ایک عمدہ شو بھی کیا ہے۔ مجھے امید ہے میں غلط نہیں کہہ رہا۔
’’اینک منم کہ حسب بشارات آمدم
عیسیٰ کجاست تابنہد پابمنبرم‘‘
(ازالہ اوہام ص۱۵۸، خزائن ج۳ ص۱۸۰)
اب یہ شخص حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر برتری کی ان بلندیوں کو پہنچا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام (نعوذ باﷲ) اس کے ممبر کے پائے تک بھی نہیں پہنچ سکتے۔ حالت یہ ہے کہ اس کے بعد وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دادیوں پر تنقید کرتا ہے۔ مجھے تو اس بات کی سمجھ نہیں آئی۔ا س کا جواز یہ دیاگیا کہ اس زمانے میں چونکہ عیسائی حضرت محمد ﷺ پر حملے کرتے تھے تو اس کے مقابلے یہ جواب مرزاغلام احمد اور اس وقت کے دیگر مسلم علماء نے دیا۔ لیکن یہ کوئی جواز نہیں ہے۔ اس زمانے میں بھی ایسی باتیں کرنے پر مرزاغلام احمد پر تنقید کی گئی تھی۔مرزاغلام احمد کہتا ہے:
’’آپ کا خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے۔ تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زناکار اور کسبی عورتیں تھیں۔ جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم حاشیہ ص۶، خزائن ج۱۱ ص۲۹۱)
وہ مزید کہتا ہے کہ چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نانیاں اور دادیاں کنجریاں تھیں۔ اس لئے جدی مناسبت ہے۔ وہ (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) فاحشہ عورتوں کے ساتھ رہنا پسند کرتے تھے۔ (نعوذ باﷲ من ذالک) جناب والا! یہ ہے وہ کچھ جو کہ مرزاغلام احمد کہتا ہے۔ جب میں نے مرزاناصر احمد سے سوال کیا کہ وہ اس تحریر کو کس طرح درگزر کر سکتے ہیں۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ تحریر اس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں نہیں جس کا قرآن میں ذکر ہے۔ بلکہ یہ تحریر اس یسوع مسیح کے بارے میں ہے جو اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہتا ہے۔ جب سب نے مرزاناصر احمد سے کہا کہ یہ دو الگ الگ ہستیاں نہیں ہیں۔ بلکہ ایک ہی ہستی ہے جو نبی ہے اور اس سے پوچھا کہ کیا یسوع مسیح کی دادیاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دادیوں سے مختلف تھیں۔ تو اس نے جواب دیا کہ قرآن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دادیوں نانیوں کا ذکر نہیں ہے۔ اس کے علاوہ مرزاناصر احمد نے اس سوال کا کوئی اور جواب نہیں دیا۔
پھر مرزاغلام احمد کہتا ہے: ’’اور آپ کے ہاتھ میں سوائے مکروفریب کے کچھ نہیں تھا۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۷، خزائن ج۱۱ ص۲۹۱)
’’ہاں گالیاں دینے اور بدزبانی کی اکثر عادت تھی… اور یہ بھی یاد رہے کہ کسی قدر جھوٹ بولنے کی بھی عادت تھی۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم حاشیہ ص۵، خزائن ج۱۱ ص۲۸۹)
قدرتی طور پر یہ بیانات نہ صرف مسلمانوں بلکہ عیسائیوں کے لئے بھی تکلیف کا باعث تھے۔ مسلمانوں کا ایمان ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اﷲ کے سچے پیغمبر تھے۔ انہیں مرزاغلام احمد کی تنقید بالکل ناپسند تھی۔ میں نے مرزاناصر احمد سے سوال کیا کہ یہ کہنا شاید آسان ہے کہ یسوع مسیح اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام دو مختلف ہستیاں تھیں ۔ ایک کا ذکر بائبل میں ہے اور دوسری کا قرآن میں۔ لیکن آپ کے پاس شیعوں پر تنقید کا کیا جواز ہے؟ مرزاغلام احمد کہتا ہے: ’’مردہ علی کو چھوڑو۔ یہاں تمہارے درمیان زندہ علی موجود ہے۔‘‘
(ملفوظات ج۲ ص۱۴۲)
پھر حضرت امام حسینؓ کے متعلق وہ (مرزاغلام احمد) کیا کہتا ہے۔ مرزاغلام احمد کے پاس یہ کہنے کا کیا جواز تھا کہ توحید معطر ہے اور (نعوذ باﷲ) ذکر امام حسینؓ گندگی کا ڈھیر۔ (اعجاز احمدی ص۸۲، خزائن ج۱۹ ص۱۹۴) اس (مرزاناصر احمد) نے جواباً کہا کہ مرزاغلام احمد کا مطلب شیعہ تصور کے علی اور شیعہ تصور کے حسین سے تھا۔ میں نہیں سمجھتا کہ مسلمانوں میں حضرت علیؓ اور امام حسینؓ کے تصور کے متعلق کوئی اختلاف ہے۔ سب مسلمان ان کے لئے محبت اور احترام کے جذبات رکھتے ہیں۔ مرزاغلام احمد کے یہی خیالات تھے۔ جن کی وجہ سے تمام مسلمانوں میں اشتعال پیدا ہوچکا تھا۔ یہی جذبات تھے جن کے باعث مرزاغلام احمد پولیس حفاظت کے بغیر کسی جلسہ کو بھی خطاب نہیں کر سکتا تھا۔
 
Top