• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

ملحد ایاز نظامی اور مرزا احمد وسیم کا تحریری مناظرہ

میاں عمران

رکن ختم نبوت فورم
ملحد ایاز نظامی

جواب نمبر 2 ------ کمنٹ نمبر 7 کا جواب
(4) رفق و فتق کا آپ نے خود ہی اس سلسلہ تخلیق کی ترتیب سے جوڑا، اس لئے ذکر کرنا پڑا، اور سلسلہ تخلیق سے رتق و فتق کا کوئی تعلق نہ ہونے پر کسی حدیث اور تفسیر کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ آیت کے ابتداء میں ہے کہ او لم یر الذین کفروا (کیا کافروں نے نہیں دیکھا) خود قرآن کے یہ الفاظ اس بات کا ثبوت ہیں کہ رتق و فتق کا فعل تخلیق سے کوئی تعلق نہیں۔ وجہ اصرار پہلیے بھی بیان کر دی تھی اب پھر دہرا دی ہے کہ وجہ اصرار قران کے الفاظ او لم یر الذین کفروا ہیں۔ لغت میں جسے رتق کے معنیٰ جیسے جڑنا مذکور ہے اسی طرح بند ہونا بھی ہے، نیز فتق کا معنی بھی لغت میں دیکھ لیجئے جس کے واضح معنی درست کرنا، اصلاح کرنا ہے، اس لئےب سیاق و سباق بھی یہی دلالت کر رہا ہے کہ یہاں تخلیق کا عمل نہیں بلکہ زمین و آسمان میں ایک خرابی کے بعد اس کی درستگی اور اصلاح کی ہے جو بارش اور زراعت کی صورت میں عمل پذیر ہو۔ئی۔ اولم یر الذین کفروا کے الفاظ پر ضرور غور کیجئے گا۔
 

میاں عمران

رکن ختم نبوت فورم
جواب کمنٹ نمبر 8
(5)
تخلیق کے تمام مراحل کو عمل تخلیق کے تدریجی مراحل ماننا کوئی زبردستی کی بات نہیں ہے۔ عام فہم بات ہے کامن سینس ہے، ایک مجسمہ ساز محض پتھر کے ٹکڑے کو جس پر محض ابتدائی کام کیا گیا ہو اپنی تخلیق بطور مجسمہ قرار نہیں دے سکتا اور نہ ہی کوئی ذی شعور انسان اسے مکمل تخلیق تسلیم کرے گا۔ جب تک کہ وہ اس کا تسویہ (Finishing) نہ کرلے، اس طرح محض زمین کے مادہ کی تخلیق کو محض مادہ کی تخلیق تو کہا جا سکتا ہے، لیکن زمین کی تخلیق اسی صورت قرر دیا جائے گا جب اس مادے سے زمین کی شکل برآدمد ہوگی، اسی طرح محض دخان کو آسمان کا مادہ تو کہا جا سکتا ہے، لیکن آسمان نہیں، آسمان اس وقت قرار دیا جائے گا جب آسمان کی شکل نکل آئے گی۔ یعنی باقی اشیاء سے اسے ممتاز کرنا ممکن ہو جائے گا۔ اس لئے محض دخان سے تخلیق آسمان اور مادہ زمین سے تخلیق زمین کا عمل اسی وقت پایہ تکمیل تک پہنچے گا جب تسویہ اور دحو تک صدور ہو، تبھی تخلیق آسمان اور زمین کو مکمل قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ تو آپ کا آصرار ہے کہ تخلیق الگ عمل ہے اور تسویہ و دحو الگ عمل ہے، جبکہ میں اپنی بات کی تائید میں تفسیر جلالین کی عبارت نقل کر چکا ہوں۔ اس لئے یہ کوئی میرا ذاتی موقف نہیں ہے۔
تو جناب تضاد خود قرآن کے بیان کردہ تخلیق کے مراحل میں ہے جیسے پوسٹ میں واضح کیا گیا کہ سورۃ حم سجدہ میں تخلیق کے مراحل کی ترتیب کچھ اور ہے، اور سورۃ نازعات میں تخلیق کے مراحل کی ترتیب کچھ اور ہے، اس لئے تضاد اپنی جگہ موجود ہے۔ (ترتیب پر کیوں اصرار ہے اس کا جواب اگلے کمنٹ میں آئے گا)
 

میاں عمران

رکن ختم نبوت فورم
جواب کمنٹ نمبر 9
(6)
تخلیق کے مراحل کی ترتیب کے بارے میں میرا استدلال خود قرآن کی آیات سے ہی ہے، یہ ترتیب میں بیان نہیں کر رہا بلکہ خود قرآن نے ترتیب بیان کی ہے اور احادیث سے بھی اسی ہی ترتیب کی تائید ہوتی ہے۔ مفسرین نے بھی یہاں ترتیب میں تضاد پر گفتگو کی ہے۔ القرآن یفسر بعضه بعضا کے اصول کے تحت سورہ بقرہ کی آیت نمبر 29 کو دیکھ لیجئے:
هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴿٢٩﴾
الله وہ ہے جس نے جو کچھ زمین میں ہے سب تمہارے لیے پیدا کیا، پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا تو انہیں سات آسمان بنایا اور وہ ہر چیز جانتا ہے۔
یہاں بھی قرآن کے الفاظ سے ہی واضح ہے کہ اللہ زمین کی تخلیق، زمین کو بچھانے، پانی نکالنے، سبزہ اگانے ( خلق لکم ما فی الارض جمیعا) یعنی زمین کی تخلیق کی تکمیل سے فراغت کے بعد آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور ان کا تسویہ کیا۔
قرآن میں یہاں بھی لفظ ثم کا استعمال کیا اگر صرف واو استعمال کیا ہوتا تو آپ کہہ سکتے تھے کہ یہاں ترتیب مقصود نہیں ہے، لیکن ثم کا لفظ تو ترتیب کیلئے ہی استعمال ہوتا ہے۔ جاء زید و عمرو، اور جاء زید ثم عمرو میں لفظی و معنوی فرق تو بالکل واضح ہے۔ ۔
اسی طرح سورۃ نازعات میں و الارض بعد ذالک دحاھا کے الفاظ صراحتا ترتیب پر دلالت کر رہے ہیں۔
اس لئے ترتیب سے اجتناب آپ کی زبردستی ہے، ورنہ قرآن نے تو واضح طور پر جہاں بھی تخلیق زمین و آسمان کی بات کی ہے وہاں ترتیب ضرور بیان کی ہے، اور اس ترتیب میں تضاد واضح اور نمایاں ہے۔
 

میاں عمران

رکن ختم نبوت فورم
جواب کمنٹ نمبر 10
(7)
یہ تسلیم کرنے کے بعد بھی ثمّ تراخی (delay) کیلئے آتا ہے آپ کا یہ کہنا کہ ثمّ سے استدلال کرکے میری کشیدہ کاری مکمل نہیں ہوتی واضح طور پر قرآن میں تضاد واضح ہو جانے کے بعد اس تضاد سے صرف نظر کا ایک بہانے سے زیادہ کچھ نہیں۔ تخلیق کی ترتیب پر اوپر کے کمنٹس میں دلائل دے چکا ہوں۔ اگر ان کے باوجود بھی ان آیات میں ترتیب کے وجود سے انکار ہے تو اگلی باری میں اس بابت مزید استدلال بھی پیش کروں گا۔
ترتیب کے بارے میں آپ کا سارا زور قرآن کی بیان کردہ ترتیب کے مقابلے میں اپنی بیان کردہ ترتیب کو ترجیح دینے پر ہے۔ ترتیب تو آپ بھی بیان کر رہے ہیں، لیکن تضاد رفع کرنے کیلئے قرآن کی بیان کردہ ترتیب لینے کے بجائے اپنی ذاتی خانہ ساز ترتیب پر آپ کا اصرار ہے اور ظاہر ہے قرآن کی بیان کردہ ترتیب کی اصلاح نہیں کریں گے تو پھر تضاد کیسے رفع ہوگا۔ فلیتدبر۔
 

میاں عمران

رکن ختم نبوت فورم
جواب کمنٹ نمبر 11
(8)
پھر وہی تکرار کہ یہ میری زبردستی کی بیان کردہ ترتیب ہے۔ جناب آپ بھی تو اپنی ہی بیان کردہ ترتیب پیش کر رہے ہیں، اور قرآن کی بیان کردہ ترتیب کو ہی درست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، میں جو ترتیب بیان کررہا ہوں اس ترتیب کا استدلال خود قرآن کی آیات سے ہے جیسا اوپر کے کمنٹ میں بیان کیا۔ سورۃ بقرہ کی آیت 29 اور سورۃ حم سجدہ کی آیات میں آپ کے نزدیک ترتیب بیان نہیں کی گئی ہے اور اگر ترتیب یوں ہو کہ پہلے زمین بنائی گئی پھر آسمان کا تسویہ کیا گیا اور پھر زمین کا دحو ہوا تو آپ کے نزدیک یہ ترتیب درست ہے۔ آپ خود ذرا غور کیجئے کہ آپ کس بنیاد پر اپنی بیان کردہ ترتیب کو مستند قرار دے رہے ہیں اور قرآن کی ترتیب کو سرے سے ترتیب ہی ماننے سے انکاری ہیں ؟ بیانِ ترتیب کیلئے آپ کے نزدیک کیا امور ضروری ہیں؟ میں بھلا کب واو سے ترتیب ثابت کر رہا ہوں، میں تو ثمّ کے لفظ سے ترتیب کے بیان پر استدلال کر رہا ہوں۔
دوسری زبردستی کا الزام جو اپ نے مجھ پر لگایا ہے وہ زبردستی بذات خود سورۃ حم سجدہ کی آیات 9 تا 11 میں اور سورۃ بقرہ کی آیت 29 میں مذکور ہے۔ جہاں تمام تر تخلیق کو ایک ساتھ بیان کیا ہے، جب دحو خود تخلیق کا ہی ایک مرحلہ ہے تو اسے تخلیق کہنے میں کیا مانع و حارج ہے ؟
تیسری زبردستی کے الزام کا تو جواب دینے کو بھی جی نہیں چاہ رہا۔ کیا دحو کے بغیر اخراج الماء و مرعیٰ اور ارساء الجبال ممکن ہے ؟ یا ان امور کا صدور دحو کے بعد ہی ہوگا ؟ ذرا سوچئے تو سہی۔
 

میاں عمران

رکن ختم نبوت فورم
جواب کمنٹ نمبر 12
(9)
جناب آپ نے اپنے استدلال کے تائید کیلئے ایک حدیث بیان کی، اس لئے اگر میں نے قرآن کی ترتیب کے بارے میں استدلال کیلئے ایک حدیث پیش کر دی تو اس میں بھلا کیا خرابی ؟ کیا آپ کے ہاں حدیث کو وحی غیر متلو نہیں مانا جاتا ؟ اس لئے قرآن کے تضاد کے ثبوت کے طور پر اگر کسی حدیث سے مجھے استدلال پیش کرنا پڑا تو ضرور کروں گا۔
اب رہی بات اس حدیث کے ضعیف ہونے کی اس بارے میں کچھ گذارشات عرض کروں گا کہ حدیث کے ضعیف ہونے کا مطلب کسی بھی محدث کے نزدیک یہ نہیں کہ وہ قول رسول نہیں ہو سکتا، ضعیف حدیث کا قصور صرف اتنا ہوتا ہے کہ اسے محدث تک پہنچنے میں درمیاں میں کوئی ضعیف راوی میسر آگیا اور ثقہ راوی میسر نہ ہوسکا،
دوسری بات حدیث ضعیف کو مسترد اس وقت کیا جاتا ہے جب اس سے کوئی فقہی حکم ثابت کرنا ہو، اگر ایک ہی حکم سے متعلق دو متضاد روایات سامنے آئیں مثلا ما مسته النار کے تناول کے بعد وضو کا حکم ------- تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ احادیث متعارض ہیں تو وہاں یہ دیکھا جائے گا کہ کون سی حدیث زیادہ صحیح اور حسن ہے اور کون سی ضعیف، وہاں ضعیف سے استدلال نہیں کیا جائے گا، واقعات کے بیان میں جب تک اس کے خلاف کوئی روایت نہ ہو تو اسے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں، رسول اللہ نے تو یہاں تک اجازت مرحمت فرمائی کہ "بلغوا عني ولو آية، وحدثوا عن بني إسرائيل ولا حرج، ومن كذب علي متعمداً، فليتبوأ مقعده من النار". تو حدیث ضعیف سے عدم استدلال فقہی مسائل میں ہوتا ہے وہ بھی جبکہ اس کے مقابل حدیث حسن موجود ہو، تاریخ اور قصص کے باب میں یہ اصول نہیں ہے۔
تیسری بات کہ یہی روایت جو میں نے پیش کی جس سے باقاعدہ ایک ایک دن کی وضاحت کے ساتھ تخلیق کی ترتیب بیان کی گئی ہے، یہ روایت صرف اسی طریق سے نہیں بلکہ متعدد طرق سے مروی ہے۔ عند الطلب وہ تمام روایات بھی بمعہ سند مہیا کی جا سکتی ہیں۔ نیز روات حدیث میں جب امام مالک، یحیٰ بن معین جیسے جلیل القدر محدث جرح کے نشتر سے نہ بچ سکے تو باقیوں کا تو ذکر ہی کیا۔
چوتھی بات یہ کہ مستدرک ابن حاکم میں مذکور احادیث سے متعلق محدثین ہی کی صراحت ہے کہ جس حدیث کے بارے میں ابن حاکم خود صراحت کر دیں کہ هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه .تو وہ حدیث صحیح ہوگی اور شیخین کی شرط پر ہوگی۔ اس مذکورہ حدیث پر ابن حاکم کا یہی قول ہے جو میں نے حدیث کے ساتھ نقل کیا تھا۔ اور جن احادیث پر انہیں یہ تصریح کی نوبت نہیں آئی اور وہ اس کام کی تکمیل سے قبل ہی انتقال پاگئے ان کا معاملہ الگ ہے، کہ ان احادیث کے بارے میں تفحص کیا جائے گا۔ باقی آپ کو بہت اچھی طرح علم ہی ہے کہ مستدرک لکھنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی تھی۔ اس سے بھی مستدرک ابن حاکم کی اہمیت و صحت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
(ان گذارشات کو جملہ معترضہ سمجھ کر نظر انداز کر دیجئے گا، لیکن اگر کچھ ارشاد فرمانا چاہیں تو بسر و چشم )
 

میاں عمران

رکن ختم نبوت فورم
ایک گذارش یہ کرنی تھی کہ میں اپنا موقف ثابت کرنے میں کامیاب ہوا یا نہیں ہوا، یا آپ اپنا موقف ثابت کرنے میں کامیاب ہوئے یا نہیں ہوئے، اس کا فیصلہ سمجھ دار قارئین کو خود کرنے دیجئے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے بارے میں کسی بھی کسی قسم کا کوئی فیصلہ سنانے سے اجتناب ہی کریں تو مناسب رہے گا۔ اگر کوئی ملحد اس مباحثے کے بعد مسلمان ہو جاتا ہے تو مجھے بہت خوشی ہوگی کہ اس نے اپنا ایک ذاتی اختیار استعمال کیا، اور اگر اس کے برعکس کسی مسلمان کے ذہن می شکوک و شبہات پیدا ہوئے تو وہ براہ راست آپ سے رابطہ کرکے اپنے شکوک و شبہات رفع کرا سکتا ہے، اس کے ایمان کی سلامتی پر بھی مجھے خوشی ہی ہوگی۔
 

میاں عمران

رکن ختم نبوت فورم
مرزا احمد وسیم بیگ صاحب

بسم اللہ الرحمن الرحیم
جواب نمبر 3
(13)
عجیب بات ہے کہ آج آپ کے کمنٹس میں سوائے پرانی باتوں کی تکرار اور بلا دلیل ان پر اصرار کے کچھ نہیں، وہ باتیں جن کا وضاحت کے ساتھ جواب عرض کر دیا گیا ہے.. اگر کچھ نئی چیزیں ہیں بھی تو وہ کچھ ایسے بلنڈر ہیں، جو موضوع سے دور کا بھی واسطہ نہیں رکھتے..
جناب اگر نہیں دفاع کرسکتے تو صحت مند طرز عمل یہ ہے کہ اپنی غلطی کو تسلیم کر لیں، ہم آپ کو جدید اعتراض کا موقعہ دے دیں گے، مگر ہمارے دلائل کو بالکل نظر انداز کرکے آپ اپنی ہی سنائے جائیں اور بار بار انہیں باتوں کو دہرائے جائیں جن کی بہت اچھی طرح تردید کی جاچکی ہے تو اسے مکالمہ تو نہیں کہہ سکتے، خود کلامی البتہ کہا جاسکتا ہے...

کمنٹ نمبر 4 کا جواب
آپ نے اپنے اصرار کی جو وجہ بتائی اس کا جواب جو ہم دے چکے، اسے ہو بہو نقل کرتے ہیں:
"آپ كا یہ فرمانا كہ اولم یر الذین كفروا كے الفاظ دلالت كررہے ہیں كہ یہ كوئی قابل مشاہدہ عمل تھا! لغت اور قرآن دونوں سے تجاہل عارفانہ ہے!!! رؤیۃ لغت میں ہرگز صرف سر كی آنكھوں سے دیكھنے كا نام نہیں!! قران كریم كی مندرجہ ذیل آیات پر غور فرمائیں:

ألم تروا كيف خلق الله سبع سماوات طباقا (اب كیا آپ كہیں گے كہ سات آسمانوں كی طبق در طبق تخلیق بھی قابل مشاہدہ عمل تھی؟؟)

أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِ (اور واضح ہے كہ اصحاب فیل كاواقعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم كی پیدائش سے پہلے كا ہے)

أَلَمْ تَرَ‌ كَيْفَ فَعَلَ رَ‌بُّكَ بِعَادٍ (عاد كے ساتھ رب نے جو كیا، اس كا مشاہدہ بھی كسی نے نہیں كیا! ہاں، اس كے آثار وہ ضرور دیكھ سكتے تھے!! اسی طرح اللہ نے زمین وآسمان كو جدا كركے زندگی كے لائق بنایا، اس كا مشاہدہ بھی وہ كرسكتے تھے!!)

اور مثالیں اس كی بكثرت ہیں!! ((أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ ، أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ بَعْدِ مُوسَى إِذْ قَالُوا لِنَبِيٍّ لَهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُقَاتِلْ، أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ ، وغیرہ ))"
اب آپ بتائیں کہ کیا یہی مکالمہ ہے کہ آپ سامنے والے کے دلائل کا رد کیے بغیر انہیں سرے سے نظر انداز کرکے لکیر پیٹتے رہیں؟
اور رتق کے معنی ملے ہونے اور جڑے ہونے کے ہی ہیں، اور اسی طرح فتق کے معنی پھاڑنے اور جدا کرنے کے ہی ہیں..

آئیے عربی كی دو اہم ترین لغات كے حوالے آپ كی نذر كرتے ہیں:
فتق كے معنی
ابن منظور كہتے ہیں:
فَتَقَهُ يَفْتُقُه ويَفْتِقُه فَتْقاً: شقه؛ (لسان العرب (10/ 296))
جوہری كہتے ہیں:
فتقت الشئ فتقا: شققته. (الصحاح للجوهري (4/ 1539))
فتق كا معنی پھاڑنا، شق كرنا!

رتق كے معنی
ابن منظور كہتے ہیں:
رتق: الرَّتْقُ: ضِدُّ الفَتْق. ابْنُ سِيدَهْ: الرَّتْقُ إِلحام الفَتْق وإِصلاحُه. رَتَقَه يَرْتُقُه ويَرْتِقُه رَتْقاً فارْتَتَق أَي التأَم. (لسان العرب (10/ 114))
جوہری كہتے ہیں:
رتق، فتق كی ضد ہے، ابن سیدہ كہتے ہیں، فتق (شگاف) كو جوڑنا، ملانا، یا بھرنا، اور اس كی "اصلاح" كرنا (واضح رہے كہ یہ اصلاح عربی والا ہے، ہم اردو میں كسی جگہ پڑے شگاف یا دراڑ كو بنانے كے لئے عام طور پر اصلاح كا لفظ استعمال نہیں كرتے، بلكہ ٹھیك كرنا، درست كرنا استعمال كرسكتے ہیں، اور وہیں یہاں مراد ہے) ! اسی سے ہے رتق ۔۔۔ فارتتق ، اس نے اسے ملایا تو وہ مل گیا۔۔
الرَتْقُ: ضدُّ الفتق. وقد رَتَقْتُ الفتق أَرْتُقُهُ، فارْتَتَقَ، أي التأم، ومنه قوله تعالى: {كانتا رَتْقاً فَفَتَقْناهُما} (الصحاح للجوهري(4/ 1480))
رتق فتق كی ضد ہے، عربی میں رتقت الفتق فارتئق كہا جاتا ہے، جس كے معنی ہیں (میں نے پھٹن كو ملایا تو) مل گیا! اسی سے اللہ رب العالمین كا قول ہے، كانتا رتقا ففتقناھما

فتق كا معنی ہمیں اصلاح كہیں نہیں ملا، اسی طرح رتق كا معنی بند ہونا نہیں ملا، چلیں اردو میں بند ہونے كے ایك معنی وہ بھی ہیں، جو رتق پر صادق آسكتے ہیں، یعنی جو جوڑنے اور ملانے سے قریب ہیں، لیكن یاد رہے كہ اردو میں بند ہونے ایك دوسرے معنی بھی ہیں، یعنی ركنا، یہ معنی كہیں بھی مذكور نہیں ہیں، اور آپ نے قارئین كو اسی معنی كا شبہہ دلانے كی كوشش فرمائی ہے!!
اور فتق كے معنی اصلاح كرنے پرتو ہم آپ كے لئے كوئی عذر سرے سے نہیں پاتے!!! آپ نے جان بوجھ كر اسے رتق كے معنی سے اٹھا كر فتق پر چسپاں كرنے كی كوشش كی ہے، تاكہ لوگوں كی آنكھوں میں دھول جھونك سكیں، فتق كے معنی اصلاح آپ ہرگز كہیں سے نہ دكھا سكیں گے!!!
پس یہ ان لفظوں كے اصل معنی ہیں، جس نے بھی بارش نہ ہونے اور زمین بنجر ہونے والی بات كہی ہے، (اور ہم نے انكار نہیں كیا كہ كہی ہے) ان اصلی لغوی معنوں كا اعتراف كرتے ہوئے، اور ان كی تاویل كرتے ہوئے كہی ہے!! ورنہ سیاق صاف طور پر بدء خلق كا ہے!
ان مسائل پر تنبیہ اس لئے ضروری تھی كہ آپ كے بلنڈرز كا پول كھولا جاسكے، اور ہرگز كوئی پڑھنے والا اس سے گمراہ نہ ہو!
 

میاں عمران

رکن ختم نبوت فورم
مرزا احمد وسیم

(14)
کمنٹ نمبر 5 کا جواب
جناب والا! لفظ تخلیق پر ہماری بحث خالص لسانیاتی معاملہ ہے، لہذا یہاں كامن سینس كا جھانسہ دینا كامن سینس كی كمی ہے! یہاں بھی میں نے قرانی اسلوب پر خود قران ہی سے واضح شواہد پیش كیے تھے، اور ظاہر ہے كہ قرآن كے زبان وبیان اور اسلوب كو سمجھنے كے لئے قرآنی شواہد سے قوی تر كیا چیز ہوسكتی ہے؟؟ مگر آپ نے انہیں بالكیہ نظر انداز كردیا، آخر كیا مكالمہ مكالمہ كی اوچھی دلیل سے آپ كیوں اسے خود كلامی بنانا چاہتے ہیں؟؟ ایك آدھ جگہ ہو تو چلیں كچھ مارجن دیا جاسكتا ہے، مگر آپ مسلسل ہمارے دلائل كو نظر انداز كركے اپنی ہی كہانی سنانے میں مگن ہیں!! آخر اس كو ہم كیا سمجھیں؟؟ كیوں بار بار پرانی باتیں دہرا رہے ہیں؟؟
یہ لیجئے كل والے شواہد، یہاں مزید وضاحت كے ساتھ پیش كرتا ہوں:
{الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ} [الانفطار: 7]
جس نے تجھے "خلق"کیا پھر تجھے ٹھیک کیا پھر تجھے برابر کیا

{ الَّذِي خَلَقَ فَسَوَّى} [الأعلى: 2]
جس نے "خلق" کیا پھر ٹھیک ٹھاک بنایا

{وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِي فَتَنْفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي } [المائدة: 110]
اور جب کہ تم میرے حکم سے گارے سے ایک شکل "خلق" كرتے تھے جیسے پرندے کی شکل ہوتی ہے پھر تم اس کے اندر پھونک مار دیتے تھے جس سے وہ پرندہ بن جاتا تھا میرے حکم سے

{أَنِّي أَخْلُقُ لَكُمْ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنْفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا} [آل عمران: 49]
میں تمہارے پاس تمہارے رب کی نشانی لایا ہوں، میں تمہارے لئے پرندے کی شکل کی طرح مٹی کا پرندہ"خلق" كرتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے
"معلوم ہوا کہ تخلیق صرف عدم سے وجود میں لانے کو بھی کہتے ہیں، صرف ڈھانچہ بنانے کو بھی کہتے ہیں... اور تسویہ وغیرہ اس کے بعد کا مستقل مرحلہ شمار ہوتے ہیں... "

يہ شواہد كل پیش كیے گئے تھے، كچھ مزید شواہد ملاحظہ فرمائیں:
{وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ} [البقرة: 228]
اور اگر وہ اللہ اور روز قیامت پر ایمان رکھتی ہیں تو ان کے لئے جائز نہیں کہ خدا نے جو کچھ ان کے رحم میں "خلق"کیا ہے اس کو چھپائیں
یہاں دیكھیں كہ رحم میں موجود جنین جو واضح طور پر ادھوری مخلوق ہے كے لئے خلق اللہ كا لفظ استعمال ہوا!!

اور يہ لیجئے، ثم كی تراخی پر كچھ یہاں بھی كلام فرمائیے:
{خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ} [آل عمران: 59]
اس نے (پہلے) مٹی سے ان کا قالب"تخلیق" كیا پھر فرمایا کہ (انسان) ہوجاؤ تو وہ (انسان) ہوگئے

یہ لیجئے، آدم كی تخلیق كب مكمل ہوئی؟؟ جب وہ انسان ہوگئے، مگر اس سے پہلے صرف مٹی كے قالب كی تخلیق كے لئے جس میں روح پھونكنے كا مرحلہ ابھی باقی تھا خلق كہا گیا، پھر "ثم" سے اس پر كن فیكون كے مرحلے كا عطف كیا گیا!

قرآن كے اسلوب پر قرآن سے ان واضح شواہد كے بعد آپ كی رٹ كو كیا كہا جائے كہ تخلیق مكمل تخلیق ہی كو كہا جاسكتا ہے؟؟؟
آپ كی مثالیں اس لائق ہی نہیں ہیں كہ ان پر كلام كیا جائے، اس لئے كہ قرآن كے زبان وبیان پر قرآنی شاہد سے بڑھ كر كوئی چیز ہو ہی نہیں سكتی!!
آخر پرانی ہی باتوں كے اس گھماؤ پھراؤ كا كیا مطلب ہے؟؟؟
اور آپ كی یہ بات كہ (تخلیق اسی وقت كہا جائے گا جب) "یعنی باقی اشیاء سے اسے ممتاز کرنا ممکن ہو جائے گا" چلیں ہم اس پر بھی صاد كرلیتے ہیں!! تو ہم نے كب كہا كہ ابتدائی مرحلے میں زمین كی تخلیق میں اس كا دیگر اشیاء سے ممتاز كرنا ممكن نہ تھا؟؟ نہیں بلكہ زمین ممتاز ہوگئی تھی دوسری چیزوں سے اور اس پر ان تمام چیزوں كی اصل ركھ دی گئی تھی، جنہیں بعد میں نكالا اور سجایا اور پھیلایا اور لائق استعمال بنایا گیا!!!
الجھا ہے پاؤں یار كا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا!
لہذا بلاشبہ خوف تردید كہا جاسكتا ہے كہ آپ كا ارشاد "جب تسویہ اور دحو تک صدور ہو، تبھی تخلیق آسمان اور زمین کو مکمل قرار دیا جا سکتا ہے" نری زبردستی ہے، اور ایك ایسی بات كی رٹ ہے، جسے ہم نے دلیلوں كے ذریعے كب كا ڈائنامائٹ كردیا!
اور جلالین كی عبارت كا جواب بھی ضمنا آگیا تھا، مگر جب آپ بار بار اس سے لوگوں كو دھوكہ دینا چاہ رہے ہیں تو اس كی وضاحت بھی سن لیجئے!! صاحب جلالین كے قول میں آپ كے دعوے كی كوئی تائید نہیں!! تخلیق كے مراحل ہونے كا ہم نے بھی انكار نہیں كیا، البتہ اس دعوے كو دلائل سے رد كیا ہے كہ تخلیق كا اطلاق اسی وقت ہوگا جب دحو وتسویہ ہوجائے!! جو ایك نرا تحكم اور مكابرہ ہے!!
ہم نے پہلے بھی كہا تھا اب پھر كہتے ہیں، یہ مراحل تخلیق كا حصہ ہیں لیكن "... ہر ہر جگہ تخلیق سے یہ تمام مراحل مراد ہوں یہ ضروری نہیں..."
 

میاں عمران

رکن ختم نبوت فورم
مرزا احمد وسیم

(15)
سورہ حم سجدہ اور نازعات كی آیات میں تضاد محض آپ كا دعوی ہے، جسے ہرگز آپ ثابت نہ كرسكے!! بھلا ایك ہی چیز كے اندر ایك ہی وقت اور جگہ میں ایك ہی جہت سے اجتماع النقیضین كہاں آپ ثابت كرسكے؟؟ آپ كی زبردستیوں اور بلا دلیل اصرار سے كچھ ثابت نہیں ہوسكا!!

كمنٹ نمبر 6 كا جواب:
وہی پرانی بات كہ آپ كی مزعومہ ترتیب قران بیان كررہا ہے، جس كی بار بار واضح انداز میں تردید كی جاچكی، آپ كے بیان كردہ ایك ایك مرحلے پر كھل كر كلام كیا گیا، اور آپ كی شعبدہ بازیوں كے سارے حجابات كو تار تار كیا گیا!! ہماری تردید اور تردیدی دلائل پر تو آنجناب نے كوئی كلام فرمایا ہی نہیں، بس ہٹلر كی طرف منسوب اس قول ہی كو مستقل حرز جاں بنائے ہوئے ہیں كہ جھوٹ كو اتنی بار بولو كہ لوگ اسے سچ مان لیں!! ارے جناب! آیات سے آپ كا استدلال اور كشید كاری ثابت كب ہوئی؟؟ آیات آپ كی بیان كردہ ترتیب كی متحمل كب ہیں؟ كیا ہم نے كھول كھول كر اس كی وضاحت نہیں كردی؟؟
اب آپ ایك نئی آیت سورہ بقرہ كی لے كر آئے ہیں تو پھر سن لیں، اس میں بھی كہیں دحو كا ذكر نہیں ہے كہ آپ اسے نازعات كی آیت سے ٹكرانے كی سعی فرمائیں!! ہاں جو كچھ بھی زمین پر ہے، اس كو پیدا كردیا گیا تھا! ہر چیز كی اصل ركھ دی گئی تھی!! اس كا دحو یعنی اخراج الماء والمرعی وغیرہ كا یہاں ذكر ہی نہیں!! مگر یہ آپ كی زبردستی ہی ہے كہ آپ اسے بھی نازعات كی آیات سے ٹكرانے كی سعی فرما رہے ہیں
اسی طرح آپ كا یہ فرمانا كہ "سورۃ نازعات میں و الارض بعد ذالک دحاھا کے الفاظ صراحتا ترتیب پر دلالت کر رہے ہیں۔" اس كا بھی بار بار جواب دیا، ہمارے پچھلے دلائل كا تو كوئی جواب نہیں آیا، دلائل نظر انداز كرنے كے ایك پورا سلسلہ ہے یہاں!! مزید، بعد ذلك اور ثم كی صراحت كے تعلق سے ایك اور چیز ذكر كردوں، چلیں، ہم نے تھوڑی دیر كے لئے فرض كرلیا كہ ترتیب ہی پر صراحت كررہے ہیں یہ دونوں كلمات! تو كس نے كہا كہ ترتیب وقوع پر دلالت كررہے ہیں؟؟ ترتیب بیان كے لئے كیوں نہیں ہوسكتے؟؟ ہے كوئی دلیل آپ كے پاس اسے رد كرنے كے لئے؟؟

كمنٹ نمبر 7 كا جواب
سوائے تكرار واصرار كے ہر چیز ندارد! یہ تسلیم كرنے كے بعد كے میرے دلائل كا جواب دیے بغیر آپ كی ترتیب ثابت ہی كیسے ہوئی؟؟ میں كل كا اپنا كمنٹ نمبر دس پھر كاپی كرتا ہوں، كیونكہ اس میں دیے گئے دلائل سے بھی اور دلائل كی طرح تعرض نہیں كیا گیا، اور ان كو عادت كے مطابق نظر انداز كركے اپنے استدلال كے صحیح ہونے كی رٹ لگائی جارہی ہے!!:
"ثم سے آپ كی كشیدكاری مكمل نہیں ہورہی، جب تك كہ آپ آیت "قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَندَادًا ۚ ذَٰلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ ﴿٩﴾ " جس میں خلق كو مستقلا بیان كردیا گیا، اوراگلی آیت میں زمین كے متعلقات كو واو كے ذریعے جمع كیا گیا، "وجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِن فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّائِلِينَ ﴿١٠﴾ " كو آپس میں زبردستی نتھی نہ كریں! اور ان كے یقینا ایك وقت میں وقوع پذیر ہونے اور درمیان میں فصل نہ ہونے پر بلا دلیل اصرار نہ كرلیں! آپ كے اسی استدلال كے جواب میں میں نے عرض كیا كہ واو سے اگر آپ ایسا كوئی معنی كشید كر رہے ہیں، تو واو اس كا متحمل نہیں ہے!! اور ہم نے جو اسے مؤخر مانا تو نازعات كی اسی آیت كی دلیل سے جسے بڑے زور وشور سے آپ ہی پیش فرمارہے ہیں!! اور لغت ہرگز اس میں مانع نہیں ہے! اور وقوع میں مؤخر ہونے،جیسا كہ نازعات سے معلوم ہوتا ہے، كے باوجود اس كو یہاں خلق (كو مستقلا الگ سے ذكر دیے جانے كے بعد ، اس) كے ساتھ جمع كرنے كی معقول وجہ ہم نے بتائی! (اس كے لئے ہمارے كل كے كمنٹ نمبر چار كے آخری پیرا كی طرف رجوع كیا جائے) اور دنیا كی ہر زبان ميں ایسے جملہ ہائے معترضہ كی بھرپور گنجائش موجود ہے!! اس گنجائش پر قدغن زبردستی نہیں تو اور كیا ہے؟؟
ثم حرف عطف ہے، تو اس كا عطف كس پر ہے؟؟ ہم نے بوجوہ كہا كہ "خَلَقَ الارضَ ..." پر ہے!! اور زبان وبیان میں اس كی بھر پور گنجائش موجود ہے!! "
میری كسی ایك بات كا بھی آپ نے جواب دیا؟؟ نہیں! بھلا جواب دیا ہی كیا جاسكتا ہے!! جب آپ كا سارا تضاد مفروضہ اور زور زبر دستی پر مبنی ہے!! رہی قران كی بیان كردہ ترتیب تو وہ حكمتوں سے بھرپور ہے، اور اس میں كوئی تعارض بھی كہیں سے كہیں تك نہیں ہے۔۔۔
آپ كا یہ بہتان كے میں قران كے مقابلے پر اپنی ترتیب بیان كر رہا ہوں نرا مكابرہ ہے! ثم اور ترتیب كے تعلق سے اپنے سارے مقدمات كے باوجود، اور مقصود آیات كو بار بار واضح كرنے كے باوجود، میں نے ایك بار بھی انكار نہیں كیا كہ تسویہ سماء خلق ارض كے بعد ہوا ہے جس كا ذكر سورہ بقرہ اور سورہ حم سجدہ میں ہوا ہے! اور نہ اس كا انكار كیا كہ نازعات میں مذكور دحو ارض آسمان كی تخلیق وتسویہ كے بعد ہوا ہے!! تو كون اپنی تھوپ رہا ہے؟؟ میں یا آپ؟؟
میں نے سادے مفہوم میں متعدد سوالات كھڑے كیے، لیكن كسی سے آپ نے تعرض نہیں كیا!!
یہاں رك كر ایك بار پھر میں سوال كرتا ہوں كہ تضاد كسے كہتے ہیں؟؟ تضاد كے بارے میں میں نے كہا كہ جب تك ہم كوئی ایسا معنی لینے پر "مجبور" نہیں ہیں كہ جس سے تضاد لازم آتا ہو، تضاد نہیں كہا جائے گا!! اور یہاں مجبوری تو دركنار، ایك چھوڑ دس آپشن ہیں، مقصود آیات میں كسی سے كوئی فرق نہیں پڑتا!! لیكن آپ كو اصرار ہے كہ نہیں تضاد مان لیا جائے!! آخر كس منطق سے مان لیا جائے؟؟؟
 
Top