محمد اسامہ حفیظ
رکن ختم نبوت فورم
مکتوبات ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ جلد 1
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پرانی تحریروں کا سلسلہ نمبر
اَلْمَکَتُوْبُ نَصْفُ الْمُلاقَاتُ
مکتوبات احمدیہ
(جلداوّل)
حضرت حجۃ اللہ امام ربانی میرزا غلام احمد قادیانی (مغفور) مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مکتوبات بنام میر عباس علی شاہ لودہانوی
جنکو
خاکسار یعقوب علی تراب احمدی ایڈیٹر الحکم نے مرتب کر کے اپنے کارخانہ انوار احمدیہ مشین پریس قادیان میں چھاپ کر شائع کیا
۲۹ ؍ دسمبر ۱۹۰۸ء
(حقوق محفوظ ہیں)
تعداد جلد ۱۰۰۰ قیمت فی جلد ۸؍
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ
مکتوب نمبر۱
مکرمی مخدومی میر عباس علی صاحب زاد عنائۃ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ کا عنایت نامہ پہنچ کر باعث خوشی ہوا۔جَزَاکُمُ اللّٰہ خَیْرَا۔ آپ اللہ اور رسول کی محبت میں جس قدر کوشش کریں وہ جوش خود آپ کی ذات میں پایا جاتا ہے۔ حاجت تاکید نہیں چونکہ یہ کام خالصاً خدا کیلئے اور خود حضرت احدیت کے ارادہ خاص سے ہے اس لئے آپ اس کے خریداروں کی فراہمی میں یہ ملحوظ خاطر شریف رکھیں کہ کوئی ایسا خریدار شامل نہ ہو جس کی محض خرید فروخت پر نظر ہو۔ بلکہ جو لوگ دینی محبت سے مدد کرنا چاہتے ہیں اُنہیں کی خریداری مبارک اور بہتر ہے کیونکہ درحقیقت یہ کوئی خرید فروخت کا کام نہیں بلکہ سرمایۂ جمع کرنے کیلئے یہ ایک تجویز ہے۔ مگر جن کا اصول محض خریداری ہے۔ اُن سے تکلیف پہنچتی ہے اور اپنے روپیہ کو یاد دلا کر تقاضا کرتے رہتے ہیں۔ سو ایسے صاحب اگر خریداری کے سلسلہ میں داخل نہ ہو اور نہ وہ روپیہ بھیجیں اور نہ کچھ مدد کریں تو یہ اُن کے لئے اس حالت سے بہتر ہے کہ کسی وقت بدگمانی اور شتابکاری سے پیش آویں۔ اس کام میں جیسے جیسے عرصہ میں خداوندکریم سرمایۂ کافی کسی حصہ کے چھپنے کیلئے حسب حکمت کاملہ خود میسر کرتا ہے اُسی عرصہ میں یہ کتاب چھتی ہے۔ پس کسی وقت کچھ دیر ہوتی ہے تو بعض صاحب جن کی خریداری پر نظر ہے۔ طرح طرح کی باتیں لکھتے ہیں جن سے رنج پہنچتا ہے۔ غرض آن مخدوم اسی سعی اور کوشش میں خداوند کریم پر توکّل کر کے صادق الاردات لوگوں سے مدد لیں۔ اور اگر ایسے نہ ملیں تو آپ کی طرف سے دعا ہی مدد ہے۔ ہم عاجز اور ذلیل بندے کیا حیثیت اور کیا قدر رکھتے ہیں۔ وہ جو قادر مطلق ہے۔ وہ جب چاہے گا تو اسباب کاملہ خود بخود میسر کر دے گا۔ کونسی بات ہے جو اُس کے آگے آسان نہ ہوئی ہو۔(۲۸؍ اکتوبر ۱۹۸۲ء؍ ۱۵؍ ذالحجہ ۱۲۹۹ ہجری)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ
مکتوب نمبر۲
مشفقی مکرمی حضرت میر عباس علی شاہ صاحب زاد عنائۃ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ بعد ہذا دوقطعہ ہنڈوی… پہنچ گئے۔ جَزَاکُمُ اللّٰہ خَیْرَا۔ امور خمسہ کی بابت جو آپ نے حسب الارشادمنشی احمد جان صاحب تاکید لکھی ہے۔ مناسب ہے۔ جو آپ بعد سلام مسنون منشی صاحب مخدوم کی خدمت میںاس عاجز کی طرف سے عرض کر دیں کہ حتی الوسع آپ کے فرمودہ پر تعمیل ہوگی۔ اور آپ کو خدا جزاخیر بخشے۔ یہ بھی گزارش کی جاتی ہے کہ حصہ سوم کتاب براہین احمدیہ میں جو دس وسوسوں کا بیان ہے وہ آریہ سماج والوں کے متعلق نہیں۔ آریا سماج ایک اور فرقہ ہے جو وید کو خدا کا کلام جانتے ہیںاور دوسری کتابوں کو نَعُوْذُبِاللّٰہٖ انسان کا اختراع سمجھتے ہیں۔ اس فرقہ کے ردّ کے لئے کتاب براہین احمدیہ میں دوسرا مقام ہے۔ لیکن دس وساوس جو حصہ سوم میں لکھے گئے ہیں۔ وہ برہموسماج والوں کا ردّ ہے۔ یہ ایک اور فرقہ ہے جو کلکتہ اور ہندوستان کے اکثر مقامات میں پھیلا ہوا ہے اور لاہور میں بھی موجود ہے۔ یہ لوگ کتب الہامیہ کا انکار کرتے ہیں اور اگرچہ ہندو ہیں مگر وید کو نہیں مانتے۔ نہ اُس کی تعلیم کو عمدہ سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ آریہ سماج والوں کی نسبت بہت ذی علم اور دانا ہوتے ہیں۔ اور کئی اصول اُن کے اسلام سے ملتے ہیں۔ مثلاً یہ تناسخ کے قائل نہیں۔ بُت پرستی کو بُرا سمجھتے ہیں۔ خدا کو صاحب اولاد اور متولد ہونے سے پاک سمجھتے ہیں۔ مگر کتب الہامیہ کے مُنکر ہیں اور الہام صرف ایسی باتوں کا نام رکھتے ہیں جن کو انسان خود عقل یا فکر کے ذریعہ سے پیدا کرے۔ یا معمولی طور پر اُس کے دل میں گزر جائیں اور انبیاء کی متابعت کو ضروری نہیں سمجھتے اور صرف عقل کو کامل قرار دیتے ہیں۔ الہام ربانی سے انکار کرنا اُن کا ایک مشہور اصول ہے جیسا رسالہ برادر ہند میں جو پنڈت شیونارائن کی طرف سے شائع ہوتا تھا۔ چھپتا رہا ہے چونکہ ہندوستان میں اُن کی جماعت بہت پھیل گئی ہے اور اُن کے وساوس کے ضرر کا نو تعلیم یافتہ لوگوں کو بہت اثر پہنچتا ہے اور پہنچ رہا ہے۔ اس لئے ضرور تھا کہ ان کا ردّ لکھا جاوے۔ اور اُن کا کتب الہامیہ سے انکار کرنا ایسا جزو مذہب ہے جیسا ہمار ا لَااِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ۔ غرض آریہ سماج ایک الگ فرقہ ہے۔ جو بہت ذلیل اور ناکارہ خیال رکھتا ہے اور وہ عقل کے پابند نہیں۔ بلکہ صرف وید پر چلتے ہیں اور بہت سے واہیات اور مزخرفات کے قائل ہیں۔ مگر برہمو سماج کا فرقہ دلائل عقلیہ پر چلتا ہے اور اپنی عقل ناتمام کی وجہ سے کتب الہامیہ سے منکر ہے۔ چونکہ انسان کا خاصہ ہے جو معقولات سے زیادہ اور جلد تر متاثر ہوتا ہے۔ اس لئے اطفال مدارس اور بہت سے نو تعلیم یافتہ ان کی سوفسطائی تقریروں سے متاثر ہوگئے اور سید احمد خاں بھی اُنہیں کی ایک شاخ ہے اور ان کی سوفسطائی تقریروں سے متاثر ہے۔ پس اُن کے زہرناک وساوس کی بیخ کنی کرنا از حد ضرورتھا۔ لاہور کے برہموسماج نے پرچہ رفاہ میں بہ نیت ردّ حصہ سیوم کچھ لکھنا بھی شروع کیا ہے۔ مگر حق محض کے آگے اُن کی کوششیں ضائع ہیں۔ عنقریب خدا اُن کو ذلیل اور رسوا کرے گا اور اپنے دین کی عظمت اور صداقت ظاہر کردے گا۔ جو منشی احمد جان صاحب نے یہ نصیحت فرمائی کہ تعریف میں مبالغہ نہ ہو۔ اس کا مطلب اس عاجز کو معلوم نہیں ہوا۔ اس کتاب میں تعریف قرآن شریف اور حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔ سو وہ دونوں وہ دریائے بے انتہا ہیں کہ اگر تمام دنیا کے عاقل اور فاضل اُن کی تعریف کرتے رہیں۔ تب بھی حق تعریف کا ادا نہیں ہو سکتا۔ چہ جائیکہ مبالغہ تک نوبت پہنچے۔ ہاں الہامی عبارت میں کہ جو اس عاجز پر خداوند کریم کی طرف سے القا ہوئی کچھ کچھ تعریفیں ایسی لکھی ہیں کہ جو بظاہر اس عاجز کی طرف منسوب ہوتی ہیں مگر حقیقت میں وہ سب تعریفیں حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں اور اسی وقت تک کوئی دوسرا اُن کی طرف منسوب ہو سکتا ہے کہ جب تلک اس نبی کریم کی منابعت کرے اور متابعت سے ایک ذرّہ منہ پھیرے۔ تو بھر تحت الثری میں گر جاتا ہے۔ اُن الہامی عبارتوں میں خداوند کریم کا یہی منشاء ہے کہ تا اپنے نبی اور اپنی کتاب کی عظمت ظاہر کرے۔(۸؍ نومبر ۱۸۸۲ء مطابق ۲۶ ذالحجہ ۱۲۹۹ ہجری)
مکتوب نمبر۳
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِنَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ
مشفقی مکرم اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ۔ آپ کا عنایت نامہ معہ ایک ہنڈوی مبلغ… بابت خریداری دو جلد کتاب پہنچا۔ جَزَاکُمُ اللّٰہ خیرا وھویسمع ویرا۔ میں آپ کی مساعی پر نظر کر کے آپ کی قبولیت کا بہت امیدوار ہوں۔ خصوص ایک عجیب کشف سے مجھ کو ۳۰؍ دسمبر ۱۸۸۲ء بروز شنبہ کو یکدفعہ ہوا۔ آپ کے شہر کی طرف نظر لگی ہوئی تھی اور ایک شخص نام الاسم کی ارادت صادقہ خدا نے میرے پر ظاہر کی۔ جو باشندہ لودہیانہ ہے۔ اس عالم کشف میں اُس تمام پتہ و نشان، سکونت بتلا دیا جو اب مجھ کو یاد نہیں رہا۔ صرف اتنا یاد رہا کہ سکونت خاص لودہیانہ اُس کے بعد اُس کی صفت میں یہ لکھا ہوا پیش کیا گیا۔ سچا ارادت مند اصلہا ثابت و فرعہافی السماء۔ یہ اُس کی ارادت ایسی قومی اور کامل ہے کہ جس میں نہ کچھ نزلزل ہے نہ نقصان۔ کئی پادریوں اور ہندؤں اور برہمو لوگوں کو کتابیں دی گئی ہیں اور وہ کچھ جان کنی کر رہے ہیں۔
مکتوب نمبر۴
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِمشفقی مکرم اخویم میر عباس علی شاہ صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ۔
بعد ہذا خداوند کریم آپ بہت جزا خیر دیوے۔ آپ سرگرمی سے تائید دین کیلئے مصروف ہیں۔ آپ کی تحریر سے معلوم ہوا کہ قاضی باجی خان صاحب نے محض بطور امداد دس روپیہ بھیجے ہیں۔ خداوند اُن کو اجر بخشے۔ اس پُرآشوب وقت میں ایسے لوگ بہت تھوڑے ہیں کہ اللہ اور رسول کی تائید کیلئے اور غیرت دینی کے جوش سے اپنے مالوں میں سے کچھ خرچ کریں اور ایک وہ بھی وقت تھا کہ جان کا خرچ کرنا بھی بھاری نہ تھا۔ لیکن جیسا کہ ہر ایک چیز پُرانی ہو کر اُس پر گردوغبار بیٹھ جاتا ہے۔ اب اسی طرح اکثر دلوں پر جب دنیا کا گردہ بیٹھاہوا ہے۔ خدا اس گرد کو اُٹھاوے۔ خدا اس ظلمت کو دور کرے۔ دنیا بہت ہی بے وفا اور انسان بہت ہی بے بنیاد ہے۔ مگر غفلت کی سخت تاریکیوں نے اکثر لوگوں کو اصلیت کے سمجھنے سے محروم رکھا ہے اور چونکہ ہر یک عسر کے بعد یسر اور ہر یک جذر کے بعد مد اور ہر ایک رات کے بعد دن بھی ہے۔ اس لئے تفضلات الٰہیہ آخر فرو ماندہ بندوں کی خبر لے لیتے ہیں۔ سو خداوند کریم سے یہی تمنا ہے کہ اپنے عاجز بندوں کی کامل طور پر دستگیری کرے اور جیسے اُنہوں نے اپنے گزشتہ زمانہ میں طرح طرح کے زخم اُٹھائے ہیں۔ ویسا ہی اُن کو مرہم عطا فرماوے اور اُن کو ذلیل اور رسوا کرے جنہوں نے نور کو تاریکی اور تاریکی کو نور سمجھ لیا ہے اور جن کی شوخی حد سے زیادہ بڑھ گئی اور نیز اُن لوگوں کو بھی نادم اور منفعل کرے جنہوں نے حضرت احدیّت کی توجہ کو جو عین اپنے وقت پر ہوئی۔ غنیمت نہیں سمجھا اور اُس کا شکر ادا نہیں کیا بلکہ جاہلوں کی طرح شک میں پڑے۔ سو اگراس عاجز کی فریادیں رب العرش تک پہنچ گئی ہیں تو وہ زمانہ کچھ دور نہیں۔ جو نور محمدی اس زمانہ کے اندھوں پر ظاہر ہو اور الٰہی طاقتیں اپنے عجائبات دکھلا دیں۔ اس عاجز کے صادق دوستوں کی تعداد بھی تین چار سے زیادہ نہیں جن میں سے ایک آپ ہیں اور باقی لوگ لاپروا اور غافل ہیں بلکہ اکثر کے حالات ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ وہ اپنی تیرہ باطنی کے باعث سے اس کارخانہ کو کسی مکر اور فریب پر مبنی سمجھتے ہیں اور اس کا مقصود اصلی دنیا ہی قرار دیتے ہیں کیونکہ خود جیفہ دنیا میں گرفتار ہیں۔ اس لئے اپنے حال پر قیاس کر لیتے ہیں۔ سو اُن کی روگردانی بھی خداوند کریم کی حکمت سے باہر نہیں۔ اس میں بھی بہت سی حکمتیں ہیں جو پیچھے سے ظاہر ہوں گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ مگر اپنے دوستوں کی نسبت اس عاجز کی یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کو اُن کے صدق کا اجر بخشے اور اُن کو اپنی استقامت میں بہت مضبوط کرے چونکہ ہر طرف ایک زہرناک ہوا چل رہی ہے اس لئے صادقوں کو کسی قدر غم اُٹھانا پڑے گا اور اُس غم میں اُن کے لئے بہت اجر ہیں۔
(۹؍ فروری ۱۸۸۳ء مطابق ۳۰؍ ربیع الاوّل ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۵
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِاخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ و نظر اللہ سرحمایۃٗ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
بعد ہذا آنمخدوم کی سعی و کوششوں سے اس عاجز کو بہت مدد ملی ہے۔ یہ خداوند کریم کی عنایات میں سے ہے کہ اُس نے اپنے مخلص بندوں کو اس طرف ایمانی جوش بخشا ہے۔ سو چونکہ عمل وہی معتبر ہے جس کا خاتمہ بالخیر ہو اور صدق اور وفاداری سے انجام پذیر ہو اور اس پُر فتنہ زمانہ میں اخیر تک صدق اور وفا کو پہنچانا اور بدباطن لوگوں کے وساوس سے متاثر نہ ہونا سخت مشکل ہے۔ اس لئے خداوند کریم سے التجا ہے کہ وہ اس عاجز کے دوستوں کو جو ابھی تین چار سے زیادہ نہیں۔ آپ سکینت اور تسلی بخشے۔ زمانہ نہائت پُرآشوب ہے اور فریبوں اور مکاریوں کی افراط نے بدظنیوں اور بدگمانیوں کو افراط تک پہنچا دیا ہے۔ ایسے زمانہ میں صداقت کی روشنی ایک نئی بات ہے اور اُس پر وہ ہی قائم رہ سکتے ہیں جن کے دلوں کو خداوند کریم آپ مضبوط کرے اور چونکہ خداوند کریم کی بشارتوں میں تبدیلی نہیں اس لئے امید ہے کہ وہ اس ظلمت میں سے بہت سے نورانی دل پیدا کر کے دکھلا دے گا کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ آنمخدوم کی تحریرات کے پڑھنے سے بہت کچھ حال صداقت و نجابت آنمخدوم ظاہر ہوتا ہے اور ایک مرتبہ بنظر کشفی بھی کچھ ظاہر ہوا تھا۔ شاید کسی زمانہ میں خداوند کریم اس سے زیادہ اور کچھ ظاہر کرے۔ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیئٍ قَدِیْر وَرْحَمْہُ اللّٰہ وَاِیَّاکُمْ وھُوَ مَوْلٰنٰا نِعْمُ المُوْلٰی وَیغْمُ النَصِیر۔
۱۷؍ فروری ۱۸۸۳ء مطابق ۸؍ ربیع الثانی ۱۳۰۰ھ
آخری تدوین
: