محمد اسامہ حفیظ
رکن ختم نبوت فورم
مکتوب نمبر(۵۲)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کل کی ڈاک میں آں محب کا عنایت نامہ مجھ کو ملا۔ آپ کی محبت اور اخلاص اور ہمدردی میں کچھ شک نہیں ۔ہاں میں ایک استاد کی طرح جو شاگردوں کی ترقی چاہتا ہوں۔ آیندہ کی زیادہ قوت کے لئے اپنے مخلصوں کے حق میں ایسے الفاظ بھی استعمال کرتا ہوں جن سے وہ متبنہ ہو کر اپنی اعلیٰ سے اعلیٰ قوتیں ظاہر کریں اور دعا ہی کرتا ہوں کہ خداتعالیٰ ان کی کمزوریاں دور فرمائے۔ میں دیکھتا ہوں کہ اس دنیا کا تمام کاروبار اور اس کی نمائش اور عزتیں جناب کی طرح ہیں اور نہایت سعادت مندی اسی میں ہے کہ پورے جوش سے اور پوری صحت کے ساتھ دین کی طرف حرکت کی جائے اورمیرے نزدیک بڑے خوش نصیب وہ ہیں کہ اس وقت اور میری آنکھوں کے سامنے دکھ اٹھا کر اپنے سچے ایمان کے جوش دکھاویں۔ مجھے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس زمانہ کے لئے تجھے گواہ کی طرح کھڑا کروں گا۔ پس کیا خوش نصیب ہے وہ شخص جس کے بارے میں اچھی طرح گواہی ادا کر سکوں۔ اس لئے میں بار بار کہتا ہوں کہ خد اکا خوف بہت بڑھا لیا جائے۔ تا اس کی رحمتیں نازل ہوں اورتا وہ گناہ بخشے۔ آپ کے دو خط آنے کے بعد ہمارے اس جگہ کے دوستوں نے اس رائے کو پسند کیا کہ جو زمانہ گھر کے حصہ مغربی کے مکانات کچے اور دیوار کچی ہے۔اس کو مسمار کر کے اس کی چھت پر مردانہ مکان تیار ہو جائے اور نیچے کامکان بدستور گھر سے شامل رہے۔ چنانچہ حکمت الٰہی سے یہ غلطی ہو گئی کہ وہ کل مکان مسمار کر دیا گیا۔ اب حال یہ ہے کہ مردانہ مکان تو صرف اوپر تیار ہو سکتا ہے اور زنانہ مکان جو تمام گرایا گیا ہے۔ اگر نہایت ہی احتیاط اور کفایت سے اس کو بنایا جائے تو شاید ہے کہ آٹھ سو روپیہ تک بن سکے۔ کیو نکہ اس جگہ انیٹ اور دوہری قیمت خرچ ہوتی ہے اور مجھے یقین نہیں کہ چار سور وپیہ کی لکڑی آکر بھی کام ہوسکے۔ بہرحال یہ پہلی منزل اگر تیار ہو جائے تو بھی بیکار ہے۔ جب تک دوسری منزل اس پر نہ پڑے کیوں کہ مردانہ مکان اسی چھت پر پڑ گیا اور چونکہ ایک حصہ مکان گرنے سے گھر بے پردہ ہورہا ہے اور آج کل ہندو بھی قتل وغیرہ کے لئے بہت کچھ اشتہارات شائع کر رہے ہیں۔ اس لئے میں نے کنویں کے چندہ میں سے عمارت کو شروع کرا دیا ہے۔ تاجلد پردہ ہو جائے گا۔ا گر اس قدر پکا مکان بن جائے جو پہلے کچا تھا توشاید آیندہ کسی سال اگر خداتعالیٰ نے چاہا تو اوپر کا مردانہ حصہ بن سکے۔ افسوس کہ لکڑی چھت کی محض بیکار نکلی اور ایسی بوسیدہ کہ اب جلانے کے کام میں آتی ہے۔ لہذا قریباً چار سو روپیہ کی لکڑی چھت وغیرہ کے لئے درکار ہو گی۔ خدا تعالیٰ کے کام آہستگی سے ہوتے ہیں۔ اگر اس نے چاہا ہے تو کسی طرح سے انجام کر دے گا۔ یقین کہ مولوی صاحب کاعلیحدہ خط آپ کو پہنچے گا۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۶؍ اپریل ۱۸۹۶ء
مکتوب نمبر(۵۳)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
قادیان میں تیزی سے طاعون شروع ہو گئی ہے۔ آج میاں محمد افضل ایڈیٹر اخبار البدر کا لڑکا جاں بلب ہے۔ نمونیا پلیگ ہے۔ آخری دم معلوم ہوتا ہے۔ ہر طرف آہ وزاری ہے۔ خدا تعالیٰ فضل کرے۔ ایسی صورت میں میرے نزدیک بہت ہے کہ آپ آخیر اپریل ۱۹۰۵ء تک ہرگز تشریف نہ لاویں۔ دنیا پر ایک تلوار چل رہی ہے۔ خدا تعالیٰ رحم فرمائے۔ باقی خداتعالیٰ کے فضل سے سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر (۵۴)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج مولوی مبارک علی صاحب جن کی نسبت آپ نے برخاستگی کی تجویز کی تھی۔ حاضر ہو گئے ہیں۔ چونکہ وہ میرے استاد نادہ ہیں اور مولوی فضل احمد صاحب والد بزرگوار ان کے جو بہت نیک اور بزرگ آدمی تھے۔ ان کے میرے پر حقوق استادی ہیں۔ میری رائے ہے کہ اب کی دفعہ آپ ان کی لمبی رخصت پر اغماض فرماویں۔ کیونکہ وہ رخصت بھی چونکہ کمیٹی کی منظوری سے تھی کچھ قابل اعتراض نہیں۔ ماسوا اس کے چونکہ وہ واقعہ( میں ) ہم پر ایک حق رکھتے ہیں اور عفو اور کرم سیرت ابرار میں سے ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے واعفو اوا صفحوا الا اتحبون ان یغفر اللہ لکم واللہ غفور الرحیم یعنی عفو اور درگزر کی عادت ڈالو۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ خدابھی تمہاری تقصیر میں معاف کرے اورخداتو غفور رحیم ہے۔ پھر تم غفور کیوں نہیں بنتے۔ اس بناء پر ان کا یہ معاملہ درگزر کے لائق ہے۔ اسلام میں یہ اخلاق ہرگز نہیں سکھلائے گئے۔ ایسے سخت قواعد نصرانیت کے ہیں اور ان سے خداہمیں اپنی پناہ میں رکھے۔ ماسوا اس کے چونکہ میں ایک مدت سے آپ کے لئے دعا کرتا ہوں اوراللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ان کے گناہ معاف کرتا ہوں جو لوگوں کے گناہ معاف کرتے ہیں اور یہی میرا تجربہ ہے۔ پس ایسانہ ہو کہ آپ کی سخت گیری کچھ آپ ہی کی راہ میں سنگ راہ ہو۔ ایک جگہ میں نے دیکھا ہے کہ ایک شخص فوت ہوگیا۔ جس کے اعمال کچھ اچھے نہ تھے۔ اس کو کسی نے خواب میںدیکھا کہ خداتعالیٰ نے تیرے ساتھ کیا معاملہ کیا ۔ اس نے کہا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بخش دیا اورفرمایا کہ تجھ میں یہ صفت تھی کہ تو لوگوں کے گناہ معاف کرتا تھا اس لئے میں تیرے گناہ معاف کرتا ہوں۔ سو میری صلاح یہی ہے کہ آپ اس امر سے درگزر کرو تا آپ کو خداتعالیٰ کی جناب میں درگزر کرانے کا موقعہ ملے۔ اسلامی اصول انہی باتوں کا چاہتے ہیں۔ دراصل ہماری جماعت کے ہمارے عزیز دوست جو خدمت مدرسہ پر لگائے گئے ہیں وہ ان طالب علم لڑکوں سے ہمیں زیادہ عزیز ہیں۔ جن کی نسبت ابھی تک معلوم نہیں کہ نیک معاش ہوں گے یا بدمعاش۔
یہ سچ ہے کہ آپ تمام اختیارات رکھتے ہیں۔ مگر یہ محض بطور نصیحتاً للہ لکھا گیا ہے۔ اختیارات سے کام چلانا نازک امرہے۔ اس لئے خلفاء راشدین نے اپنے خلافت کے زمانہ میں شوریٰ کوسچے دل سے اپنے ساتھ رکھا تا اگر خطا بھی ہو تو سب پر تقسیم ہوجائے نہ صرف ایک کی گردن پر۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر (۵۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایسے وقت آپ کاعنایت نامہ مجھ کو ملا کہ میں دعا میں مشغول ہوں اور امیدوار رحمت ایزوی حالات کے معلوم کرنے سے میری بھی یہی رائے ہے کہ ایسی حالت میں قادیان میں لانا مناسب نہیں ۔ امید کہ انشاء اللہ تعالیٰ جلد وہ دن آئے گا کہ با آسانی سواری کے لائق ہو جائیںگے۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ جس وقت عزیزی عبدالرحمن ڈاکٹروں کی رائے سے ریل کی سواری کے لائق ہو جائیں۔ تو بٹالہ میں پہنچ کر ڈولی کاانتظام کیا جائے۔ کیونکہ یکہ وراستہ وغیرہ ضعف کی حالت میں ہرگز سواری کے لائق نہیں ہیں۔ میںخداتعالیٰ کے فضل اور توفیق سے بہت توجہ سے کرتا رہوں گا۔
دو خاص وقت ہیں (۱) وقت تہجد (۲) اشراق ماسوا اس کے پانچ وقت نماز میں انشاء اللہ دعا کروں گا اور جہاں تک ہو سکے آپ تازہ حالات سے ہرروز مجھے اطلاع دیتے رہیں کیونکہ اگرچہ اسباب کی رعایت بھی ضروری ہے۔ مگر حق بات یہ ہے۔ کہ اسباب بھی تب ہی درست اور طیب کو بھی تب ہی سیدھی راہ ملتی ہے۔ جب کہ خداتعالیٰ کا ارادہ ہو اور انسان کے لئے بجز دعا کے کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے جو خداتعالیٰ کے ارادہ کو انسان کی مرضی کے موافق کردے ایک دعا ہی ہے کہ اگر کمال تک پہنچ جائے توایک مردہ کی طرح انسان زندہ ہوسکتا ہے۔ خداتعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ دعا کمال کو پہنچ جائے وہ نہایت عمدہ چیز ہے۔ یہی کیمیا ہے اگر اپنے تمام شرائط کے ساتھ متحقق ہوجائے۔ خداتعالیٰ کا جن لوگوں پر فرض ہے اور جو لوگ اصطفا اوراجتباء کے درجہ تک پہنچے ہیں۔ اس سے بڑھ کر کوئی نعمت ان کو نہیں دی گئی کہ اکثر دعائیں ان کی قبول ہوجائیں۔ گو مشیت الٰہی نے یہ قانون رکھا ہے کہ بعض دعائیں مقبولوں کی بھی قبول نہیں ہوتیں لیکن جب دعا کمال کے نقطہ تک پہنچ جاتی ہے۔ جس کا پہنچ جانا محض خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ وہ ضرور قبول ہوجاتی ہے۔ یہ کبریت احمر ہے جس کا وجود قلیل ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزاغلام احمد عفی عنہ
از قادیان
مکتوب (۵۶) نمبرملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ مجھ کو ملا۔ جو کچھ آپ نے مجھ کو لکھا ہے اس سے مجھے بکلی اتفاق ہے۔ میںنے مفتی محمد صادق صاحب کو کہہ دیا ہے کہ آپ کے منشاء کے مطابق جواب لکھ دیں اورآپ ہی کی خدمت میں بھیج دیں۔ آپ پڑھ کر اور پسند فرما کر روانہ کر دیں۔ ہاں ایک بات میرے نزدیک ضروری ہے گو آپ کی طبیعت اس کو قبول کرے یا نہ کرے اوروہ یہ ہے کہ ہمیشہ دو چار ماہ کے بعد کمشنر صاحب وغیرہ حکام کو آپ کا ملنا ضروری ہے۔ کیو نکہ معتبر ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ بعض شکی مزاج حکام کو جو اصلی حقیقت سے بے خبر ہیں ہمارے فرقہ پر سوء ظن ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی حکام کو نہیں ملتا اورمخالف ہمیشہ ملتے رہتے ہیں۔ پس جس حالت میں آپ جاگیردار ہیں اور حکام کو معلوم ہے کہ آپ فرقہ میں شامل ہیں۔ اس لئے ترک ملاقات سے اندیشہ ہے کہ حکام کے دل میں یہ بات مرکوز نہ ہو جائے کہ یہ فرقہ اس گورنمنٹ سے بغض رکھتا ہے۔گو یہ غلطی ہو گی اورکسی وقت رفع ہو سکتی ہے۔ مگر تا تریاق ازعرق آوردہ شود مار گزیدہ مردہ شود باقی سب طرح سے خیریت ہے۔ میں انشاء اللہ بروز جمعرات قادیان سے روانہ ہوں گا۔
والسلام
خاکسار
مرزاغلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر (۵۷)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کاعنایت نامہ پہنچا۔ خاکسار بباعث کثرت پیشاب اور دوران سر اور دوسرے عوارض کے خط لکھنے سے قاصر رہا۔ ضعف بہت ہو رہاہے۔ یہاں تک کہ بجز دو وقت یعنی ظہر اور عصر کے گھر میں نماز پڑھتا ہوں۔ آپ کے خط میں جس قدر ترددات کا تذکرہ تھا پڑھ کر اور بھی دعا کے لئے جوش پیدا ہوا۔ میںنے یہ التزام کر رکھا ہے کہ پنچ وقت نماز میں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں اورمیںبہ یقین دل جانتا ہوں کہ یہ دعائیں بیکار نہیں جائیںگی۔ ابتلائوں سے کوئی انسان خالی نہیں ہوتا۔ اپنے اپنے قدر کے موافق ابتلاء ضرور آتے ہیں اور وہ زندگی بالکل طفلانہ زندگی ہے جو ابتلائوں سے خالی ہو۔ ابتلائوں سے آخر خد اتعالیٰ کا پتہ لگ جاتاہے۔ حوادث دھر کاتجربہ ہو جاتاہے اور صبر کے ذریعہ سے اجر عظیم ملتا ہے۔ اگر انسان کوخداتعالیٰ کی ہستی پر ایمان ہے تو اس پر بھی ایمان ضرور ہوتا ہے کہ وہ قادر خدابلائوں کے دور کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔ میرے خیال میں اگرچہ وہ تلخ زندگی جس کے قدم قدم میں خارستان مصائب و حوادث و مشکلات ہے۔ بسا اوقات ایسی گراں گزرتی ہے کہ انسان خود کشی کا ارادہ کرتا ہے۔ یا دل میں کہتا ہے کہ اگر میں اس سے پہلے مر جاتا تو بہتر تھا۔ مگر درحقیقت وہی زندگی قدرتا ہوتی ہے اور اس کے ذریعہ سے سچا او رکامل ایمان حاصل ہوتا ہے۔ ایمان ایوب نبی کی طرح چاہئے کہ جب اس کی سب اولاد مر گئی اور تمام مال جاتا رہا تو اس نے نہایت صبر اور استقلال سے کہا کہ میں ننگا آیا اور ننگا جائوں گا۔
پس اگر دیکھیں تو یہ مال اورمتاع جو انسان کو حاصل ہوتا ہے صرف خدا کی آزمائش ہے۔ اگر انسان ابتلاء کے وقت خدا تعالیٰ کا دامن نہ چھوڑے۔ تو ضرور وہ اس کی دستگیری کرتا ہے۔ خداتعالیٰ درحقیقت موجود ہے اور درحقیقت وہ ایک مقرر وقت پر دعا قبول کرتا ہے اورسیلاب ہموم وغموم سے رہائی بخشتا ہے۔ پس قوی ایمان کے ساتھ اس پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔ وہ دن آتا ہے کہ یہ تمام ہموم وغموم صرف ایک گزشتہ قصہ ہو جائے گا۔ آپ جب تک مناسب سمجھیں لاہور رہیں۔ خدا تعالیٰ جلد ان مشکلات سے رہائی بخشے۔ آمین۔
اپیل مقدمہ جرمانہ دائر کیا گیا ہے۔ مگر حکام نے مستغیث کی طرف سے یعنی کرم دین کی مدد کے لئے سرکاری وکیل مقرر کر دیا ہے۔ یہ امر بھی اپیل میں ہمارے لئے بظاہر ایک مشکل کا سامنا ہے۔ کیو نکہ دشمن کو وکیل کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ اس میں وہ بہت خوش ہو گا اور اس کو بھی اپنی فتح سمجھے گا۔ ہر طرف دشمنوں کا زور ہے۔ خون کے پیاسے ہیں۔ مگر وہی ہو گا جو خواستئہ ایزوی ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲؍ دسمبر ۱۹۰۶ء
مکتوب نمبر (۵۸) دستی
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
رات مجھے مولوی صاحب نے خبر دی کہ آپ کی طبیعت بہت بیمارتھی۔ تب میں نماز میں آپ کے لئے دعا کرتارہا۔ چند روز ایک دینی کام کے لئے اس قدر مجھے مشغولی رہی کہ تین راتیں میں جاگتا رہا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو شفاء بخشے۔ میں دعا میں مشغول ہوں او بیماری مومن کے لئے کفارہ گناہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ شفا بخشے آمین۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
نوٹ:۔ یہ مکتوب حضرت نواب صاحب قبلہ کے ایک خط کے جواب میں ہے جوحسب ذیل ہے۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
سیدی و مولائی طبیب روحانی سلمکم اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم
مجھ کو اس دفعہ نزلہ کچھ عجیب طرح کا ہوا ہے۔ بالکل بخار کی سی کفیت رہتی ہے۔ پہلے زکام ہوا۔ اس سے ذرا افاقہ ہوا۔میں نے سمجھا کہ اب آرام ہو گیا۔ مگر اسی روز کھانسی ہوگئی ۔ اب سینہ میں جس طرح چھری سے کھرچتے ہیں۔ اس طرح خراش ہو رہی ہے اورسر میں بدن میں کسل۔ کمر میں درد ہو گیا۔ چونکہ قبض بھی رہتی ہے۔ اس لئے سرمیں غبار رہتا ہے۔ کل ذرا طبیعت بحال ہوئی تھی۔ مگر آج باقی استدعائے دعا۔ (راقم محمد علی خاں)
مکتوب نمبر (۵۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم نواب صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
تمام خط میںنے پڑھا۔ اصل حال یہ ہے کہ جو کچھ میں نے لکھا تھا وہ اس بناء پر تھا کہ نور محمد کی بیوی نے میرے پاس بیان کیا کہ نواب صاحب میرے خاوند کو یہ تنخواہ چار روپیہ ماہوار کوٹلہ میں بھیجتے ہیں اور اس جگہ چھ روپیہ تنخواہ تھی اور روٹی بھی ساتھ تھی۔ اب ہماری تباہی کے دن ہیں اس لئے ہم کیا کریں۔ یہ کہہ کر وہ روپڑی۔ میں توجانتا تھا کہ اس تنزل تبدیلی کی کوئی اسباب ہوںگے اور کوئی ان کا قصور ہو گا۔ مگر مجھے خیال آیا کہ ایک طرف تو میں نواب صاحب کے لئے پنج وقت نماز میں دعا کرتا ہوں کہ خداتعالیٰ ان کی پریشانی دور کرے اور دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جن کی شکایت ہے کہ ہم اب اس حکم سے تباہ ہو جائیںگے تو ایسی صورت میں میری دعا کیا اثر کرے گی۔ گو یہ سچ ہے کہ خدمت گار کم حوصلہ اور احسان فراموش ہوتے ہیں۔ مگر بڑے لوگوں کے بڑے حوصلے ہوتے ہیں۔ بعض وقت خدا تعالیٰ اس بات کی پرواہ نہیںرکھتا کہ کسی غریب بادار خدمت گار نے کوئی قصور کیا ہے اور یہ دیکھتا ہے کہ صاحب دولت نے کیوں ایسی حرکت کی ہے کہ اس کی شکر گزاری کے برخلاف ہے۔ اس لئے میں نے آپ کو ان دلی رنجش کے برے اثر سے بچانے کے لئے مولوی محمد علی صاحب کو لکھا تھا۔ ورنہ میں جانتا ہوں کہ اکثر خدمت گار اپنے قصور پر پردہ ڈالتے ہیں اوریوں ہی واویلا کرتے رہتے ہیں۔ اس وجہ سے میں نے مہمان کے طور پر اس کی بیوی کو اپنے گھر میںرکھ لیا ۔ تاکوئی امر ایسانہ ہو کہ جو میری دعائوں کی قبولیت میں حرج ڈالے اور حدیث شریف میں آیا ہے۔ ارحمو افی الارض ترحمو افیالسماء زمین میں رحم کرو تا آسمان پر تم پر رحم ہو۔ مشکل یہ ہے کہ امراء کے قواعد انتظام قائم رکھنے کے لئے اور ہیں اور وہاں آسمان پر کچھ اور چاہتے ہیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر (۶۰) دستی
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اشتہار کے بارے میں جو مدرسہ کے متعلق لکھا ہے۔ چند دفعہ میں نے ارادہ کیا کہ لکھوں اور ایک دفعہ یہ مانع اس میں آیا کہ وہ حال سے خالی نہیں کہ یا تو یہ لکھا جائے کہ جس قدر مدد کا لنگر خانہ کی نسبت ارادہ کیا جاتا ہے۔ اسی رقم میں سے مدرسہ کی نسبت ثلث یا نصف ہونا چاہئے۔ تواس میں یہ قباحت ہے کہ ممکن ہے اس انتظام سے دونوں میں خرابی پید اہو۔ یعنی نہ تو مدرسہ کا کام پورا ہو اور نہ لنگر خانہ کا۔ جیسا کہ دو روٹیاں دو آدمیوں کو دی جائیںتو دونوں بھوکے رہیںگے اور اگر چندہ والے صاحبوں پر یہ زور ڈالا جائے کہ وہ علاوہ اس چندہ کے وہ مدرسہ کے لئے ایک چندہ دیں تو ممکن ہے کہ ان کو ابتلاء پیش آوے اور وہ اس تکلیف کو فوق الطاقت تکلیف سمجھیں۔ اس لئے میںنے خیال کیا کہ بہتر ہے کہ مارچ اور اپریل دو مہینے امتحان کیا جائے کہ اس تحریک کے بعد جو لنگر خانہ کے لئے کی گئی ہے۔ کیا کچھ ان دو مہینوں میں آتا ہے۔ پس اگر اس قدر روپیہ آگیا جو لنگرخانہ کے تخمینی خرچ سے بچت نکل آئے تو وہ روپیہ مدرسہ کے لئے خرچ ہو گا۔ میرے نزدیک ان دو ماہ کے امتحان سے ہمیں تجربہ ہو جائے گا کہ جو کچھ انتظام کیا گیاہے۔ کس قدر اس سے کامیابی کی امید ہے۔ اگر مثلاً ہزار روپیہ ماہوار چندہ کا بندوبست ہو گیا تو آٹھ سو روپیہ لنگر خانہ کے لئے نکال کر دو سو روپیہ ماہوار مدرسہ کے لئے نکل آئے گا۔ یہ تجویز خوب معلوم ہوتی ہے کہ ہر ایک روپیہ جو ایک رجسٹر میں درج ہوتا رہے اور پھر دو ماہ بعد سب حقیقت معلوم ہوجائے۔
غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر (۶۱) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں اس جگہ آکر چند روز بیمار رہا۔ آج بھی بائیں آنکھ میں درد ہے۔ باہر نہیں جا سکتا۔ ارادہ تھا کہ اس شہر کے مختلف فرقوں کو سنانے کے لئے کچھ مضمون لکھوں۔ ڈرتا ہوں کہ آنکھ کا جوش زیادہ نہ ہو جائے خدا تعالیٰ فضل کرے۔
مرزا خد ابخش کی نسبت ایک ضروری امر بیان کرنا چاہتا ہوں۔ گو ہر شخص اپنی رائے کا تابع ہوتا ہے۔ مگر میں محض آپ کی ہمدردی کی وجہ سے لکھتا ہوں کہ مرزا خد ابخش آپ کا سچا ہمدرد اورقابل قدر ہے اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ کئی لوگ جیسا کہ ان کی عادت ہوتی ہے۔ اپنی کمینہ اغراض کی وجہ سے یا حسد سے یا محض سفلہ پن کی عادت سے بڑے آدمیوں کے پاس ان کے ماتحتوں کی شکایت کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ میںنے سناہے کہ ان دنوں میں کسی شخص نے آپ کی خدمت میں مرزا خدا بخش صاحب کی نسبت خلاف واقعہ باتیں کہ کر آپ پر ناراض کیا ہے۔ گویا انہوں نے میرے پاس آپ کی شکایت کی ہے اور آپ کی کسر شان کی غرض سے کچھ الفاظ کہے ہیں مجھے اس امر سے سخت ناراضگی حاصل ہوئی اور عجیب یہ کہ آپ نے ان پر اعتبار کر لیا ایسے لوگ دراصل بد خواہ ہیں نہ کہ مفید۔ میں اس بات کا گواہ ہوں کہ مرز اخد ابخش کے منہ سے ایک لفظ بھی خلاف شان آپ کے نہیں نکلا اور مجھے معلوم ہے کہ وہ بے چارہ دل وجان سے آپ کا خیر خواہ ہے اور غائبانہ دعا کرتا ہے اور مجھ سے ہمیشہ آپ کے لئے دعا کی تاکید کرتا رہتا ہے اور چاہتا ہے کہ یہ چند روزہ زندگی آپ کے ساتھ ہو۔ رہی یہ بات کہ مرزا خدا بخش ایک بیکار ہے۔ یا آج تک اس سے کوئی کام نہیں ہو سکا۔ یہ قضائو قدر کا معاملہ ہے۔ انسان اپنے لئے خود کوشش کرتا ہے اوراگر بہتری مقدر میں نہ ہو تو اپنی کوشش سے کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ ایسے انسانوں کے لئے جوایک بڑا حصہ عمر کاخدمت میں کھو چکے ہیں اور پیرانہ سالی تک پہنچ گئے ہیں۔ میرا تو یہی اصول ہے کہ ان کی مسلسل ہمدردیوں کو فراموش نہ کیا جائے۔ کام کرنے والے مل جاتے ہیں۔ مگر ایک سچا ہمدرد انسان حکم کیمیا رکھتا ہے۔وہ نہیں ملتے۔ ایسے انسانوں کے لئے شاہان گزشتہ بھی دست افسوس ملتے رہے ہیں۔ اگر آپ ایسے انسانوں کی محض کسی وجہ سے بے قدری کریں تو میری رائے میں ایک غلطی کریں گے۔ یہ میری رائے ہے کہ جومیں نے آپ کی خدمت میں پیش کی ہے اور آپ ہر ایک غائبانہ بد ذکر کرنے والوں سے بھی چوکس رہیں کہ حاسدوں کا جو وجود دنیا میں ہمیشہ بکثرت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
مکرر یاد دلاتا ہوں کہ میرے کہنے سے مرزا خد ابخش چند روز کے لئے لاہور میرے ساتھ آئے تھے۔
مکتوب نمبر (۶۲) ملفوف
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
عزیزہ امۃ الحمید بیگم زاہ عمرہا۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا خط مجھ کو ملا۔ میں نے اوّل سے آخر تک اس کوپڑھ لیا ہے۔ یاد رہے کہ میں آپ کی نسبت کسی قسم کی بات نہیں سنتا۔ ہاں مجھے یہ خیال ضرور ہوتا ہے کہ جن کو ہم عزیز سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دین اور دنیا میں ان کی بھلائی ہو۔ ان کی نسبت ہمیں یہ جوش ہوتا ہے کہ کوئی غلطی ان میں ایسی مذر ہے۔ جو خداتعالیٰ کے سامنے گناہ ہو یا جس میں ایمان کا خطرہ ہو اور جس قدر کسی سے میری محبت ہوتی ہے اسی قدر
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
عرض حال
میں اپنی زندگی کایہ بھی ایک مقصد سمجھتا ہوںکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہر قسم کی پرانی تحریروںکو جو کبھی شائع نہیں ہوئی ہیں۔نایاب ہو چکی ہیں اورلوگوںکو خبر بھی نہیں ……کروںاور جمع کرتا رہوں۔ اس سلسلہ میں اب تک بہت کچھ شائع ہو چکاہے اورابھی کچھ باقی ہے۔ میںخد اکا بہت شکر کرتا ہوں کہ مکتوبات احمدیہ کے سلسلہ میں پانچویں جلد( جو حضرت کے ان مکتوبات پر مشتمل ہے۔ جو آپ نے اپنے دوستوں کو لکھے)کا چوتھا نمبر شائع کر رہا رہوں۔ یہ مکاتیب نواب محمد علی خان صاحب قبلہ کے نام اور ممکن ہے کہ آپ کے نام کے اور خطوط بھی ہوں۔ مگر مجھے جو مل سکے ہیں میں نے شائع کردئیے ہیں اور اگر اور مکتوبات میسر آئے تو وہ بھی نمبر کے ضمیمہ کے طور پر شائع کر سکوں گا۔ وباللہ التوفیق۔
مجھے یہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے کہ افسوس ہے ابھی تک جماعت میں ایسے قدر کی تعداد بہت کم ہے۔ جوبیش قیمت موتیوں کی اصل قدر کریں۔
بہرحال میں اپنا کام جس رفتار سے ممکن ہے کرتا رہوں گا۔ جب تک خدا تعالیٰ توفیق دے۔ تاہم دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس کام میں میرے مدد گار ہوں۔
والسلام
خاکسار
عرفانی کنج عافیت قادیان دارلامان
یکم فروری ۱۹۲۳ء
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر چہارم
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلا م کے مکتوبات حضرت نواب محمد علی خان صاحب آف مالیرکوٹلہ کے نام
مکتوب نمبر( ۱) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
از طرف عاید باللہ الصمد غلام احمد عافاہ اللہ وایدباخویم محمد علی خان صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ کاخط پہنچا۔ اس عاجز نے جو بیعت کے لئے لکھا تھا۔ وہ محض آپ کے پہلے خط کے حقیقی جواب میں واجب سمجھ کر تحریر ہوا تھا۔ کیونکہ آپ کاپہلا خط اس سوال پر متضمن تھا کہ پر معصیت حالت سے کیونکر رستگاری ہو۔ سو جیسا کہ اللہ جلشانہ نے اس عاجز پر الفا کیا تحریر میں آیا اورفی الحقیقت جذبات نفانیہ سے نجات پانا کسی کے لئے بجز اس صورت کے ممکن نہیں کہ عاشق زار کی طرح خاکپائے محبان الٰہی ہو جائے اور بصدق ارادت ایسے شخص کے ہاتھ میں دے جس کی روح کو روشنی بخشی جاوے تا اسی کے چشمہ صافیہ سے اس فردماندہ کو زندگی کا پانی پہنچے اور اس تر وتازہ اور درخت کی ایک شاخ ہوکر اس کے موافق پھل لاوے۔ غرض آپ نے پہلے خط میں نہایت انکسار اور تواضع سے اپنے روحانی علاج کی درخواست کی تھی۔ سو آپ کو وہ علاج بتلایا گیا۔ جس کو سعید آدمی بصد شکریہ قبول کرے گا۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ ابھی آپ کاوقت نہیں آیا۔ معلوم نہیں ابھی کیا کیا دیکھنا ہے اورکیا کیا ابتلا درپیش ہے اوریہ جو آپ نے لکھا ہے کہ میں شیعہ ہوں اس لئے بیعت نہیں کرسکتا ۔ سو آپ کو اگر صحبت فقراء کاملین میسر ہو تو آپ خود ہی سمجھ لیں کہ شیعوں کا یہ عقیدہ کہ ولایت اور امامت بارہ شخص پر محدود ہو کر آیندہ قرب الٰہی کے دروازو ںپر مہر لگ جائے تو پرپھر اس سے تمام تعلیم عبث ٹھہرتی ہے اور اسلام ایک ایسا گھر ویران اور سنسان ماننا پڑتا ہے۔ جس میں کسی نوع کی برکت کانام نشان نہیں اور اگر یہ سچ ہے کہ خد اتعالیٰ تمام برکتوں اور امامتوں اور ولایتوں پر مہر لگا چکا ہے اور آیندہ کے لئے وہ راہیں بند ہیں۔ توخدا تعالیٰ کے سچے طالبوں کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی دل توڑنے والا واقعہ نہ ہو گا۔ گویا وہ جلتے ہی مر گئے اور ان کے ہاتھ میں بجز چند خشک قصوں کے اور کوئی مفروار نہیں اور اگر شیعہ لوگ اس عقیدہ کو سچ مانتے ہیں تو پھر پنج وقت نماز میںیہ دعا پڑھتے ہیں
اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم
کیونکہ اس دعا کے تو یہ معنی ہیںکہ اے خدائے قادر ہم کو وہ راہ اپنے قرب کا عنایت کر جو تونے نبیوں اور اماموں اور صدیقوں اور شہیدوں کو عنایت کیا تھا۔ پس یہ آیت صاف بتلائی ہے کہ کمالات امامت کا راہ ہمیشہ کے لئے کھلا ہے اور ایسا ہی ہونا چاہیئے تھا۔ اس عاجز نے اسی راہ کے اظہار ثبوت کے لئے بیس ہزار اشتہار مختلف دیار امصار میں بھیجا ہے۔
اگر یہی کھلا نہیں تو پھر اسلام میں فضیلت کیا ہے
یہ تو سچ ہے کہ بارہ امام کامل اور بزرگ اور سید القوم تھے۔ مگر یہ ہرگز سچ نہیں کہ کمالات میں ان کے برابر ہونا ممکن نہیں۔
خداتعالیٰ کے دونوں ہاتھ رحمت اور قدرت کے ہمیشہ کے لئے کھلے ہیں اور کھلے رہیں گے اور جس دن اسلام میں یہ برکتیں نہیں ہوں گی۔ اس دن قیامت آجائے گی۔ خداتعالیٰ ہر ایک کو راہ راست کی ہدائت کرے۔
پرانا عقیدہ ایسا مو ثر ہوتا ہے کہ بجائے دلیل ماناجاتا ہے اور اس سے کوئی انسان بغیر فضل خداتعالیٰ نجات نہیں پاسکتا۔ ایک آدمی آپ لوگوں میں سے کسی کو خیال آتا ہے۔ کہ اس کی آزمائش کروں۔
٭ کتاب براہین احمدیہ کا اب تک حصہ پنجم طبع نہیں ہوا ہے۔ امید کہ خداتعالیٰ کے فضل سے جلد سامان طبع کا پیدا ہوجائے۔ صرف کتاب کے چند نسخے باقی ہیں اور بطور پیشگی دئے جاتے ہیں اور بعد تکمیل طبع باقی انہی کو ملیں گے۔ جو اول خریدار ہوچکے ہیں ۔ قیمت کتاب سوروپیہ سے پچیس روپیہ حسب مقدرت ہے۔ یعنی جس کو سو روپیہ کی توفیق ہے وہ سوروپیہ ادا کرے اور جس کو کم توفیق ہے وہ کم مگر بہرحال پچیس روپیہ سے کم نہ ہواور نادار کو مفت للہ ملتی ہے۔ آپ جس صیغہ میں چاہیں لے سکتے ہیں اور چاہیں تو مفت بھیجی جاوے۔
والسلام
احقر عباد اللہ غلام احمد
ازلودہانہ محلہ اقبال گنج
شہزادہ حیدر
۷؍اگست ۱۸۹ء
مکتوب نمبر (۲) ملفوف
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہٰ الکریم۔
بخدمت اخویم عزیزی خان صاحب محمد علی خاں السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
عنایت نامہ متضمن بہ دخول درسلسلہ بیعت این عاجز موصول ہوا۔ دعا ثبات و استقامت درحق آں عزیز کی گئی۔
ثبلتکم علی للتقویٰ والا یمان وافتح لکم ابواب الخلوص و المجتہ والفرقان امین ثم امین۔
اشتہار شرائط بیعت بھیجا جاتا ہے۔ جہاں تک وسعت و طاقت ہو اس پر پابند ہوں اور کمزوری دور کرنے کے لئے خداتعالیٰ سے مدد چاہتے رہیں۔ اپنے رب کریم سے مناجات خلوت کی مداومت رکھیں اور ہمیشہ طلب قوت کرتے رہیں۔
جس دن کا آنا نہایت ضروری اور جس گھڑی کا وارد ہوجانا نہایت یقینی ہے۔ اس کو فراموش مت کرو اور ہروقت ایسے رہو کہ گویا تیار ہو کیونکہ نہیں معلوم کہ وہ دن اور گھڑی کس وقت آجائے گی۔ سو اپنے وقتوں کے محافظت کرو اور اس اس سے ڈرتے رہو۔ جس کے تصرف میں سب کچھ ہے۔ جو شخص قبل از بلا ڈرتا ہے۔ اس کے امن دیا جائے گا۔ کیونکہ جو شخص بلا سے پہلے دنیا کی خوشیوں میں مست ہورہا ہے۔ وہ ہمیشہ کے لئے دکھوںمیں ڈالا جائے گا۔ جو شخص اس قادر سے ڈرتا ہے۔ وہ اس کے حکموں کی عزت کرتاہے۔ پس اس کو عزت دی جائے گی۔ جو شخص نہیں ڈرتا اس کو ذلیل کیا جائے گا۔ دنیا بہت ہی تھوڑا وقت ہے۔
بے وقوف وہ شخص ہے جو اس سے دل لگا وے اور نادان ہے وہ آدمی جو اس کے لئے اپنے رب کریم کو ناراض کرے۔ سو ہو شیار ہو جائو تا غیب سے قوت پائو۔ دعا بہت کرتے رہو اورعاجزی کو اپنی خصلت بنائو۔ جو صرف رسم اور عادت کے طور پر زباں سے دعا کی جاتی ہے۔ کچھ بھی چیز نہیں۔ جب دعا کرو تو بجز صلوٰۃ فرض کے یہ دستور رکھو کہ اپنی خلوت میں جائو اوراپنی زبان میں نہایت عاجزی کے ساتھ جیسے ایک اونیٰ سے ادنیٰ بندہ ہوتا ہے۔خدا ئے تعالیٰ کے حضور میں دعا کرو۔
اے رب العالمین ! تیرے احسان کا میں شکر نہیں کر سکتا۔
تونہایت رحیم وکریم ہے اور تیرے بے نہایت مجھ پر احسان ہیں۔ میرے گناہ بخش تا میں ہلاک نہ ہو جائوں ۔ میرے دل میں اپنی خالص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پودہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے عمل کرا۔ جن سے تو راضی ہو جائے۔ میں تیرے وجہ سے کریم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وارد ہو۔ رحم فرما اور دین وآخرت کی بلائوں سے مجھے بچاکہ ہر ایک فضل وکرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔آمین ثم آمین۔
آپ کی اس بیعت کی کسی کو خبر نہیں دی گئی اور بغیر آ پ کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ لیکن مناسب ہے کہ اس اخفا کو صرف اسی وقت تک رکھیں کہ جب تک کوئی اشد مصلحت درپیش ہو۔ کیونکہ اخفا میں ایک قسم کا ضعف ہے اور نیز اظہار سے گویا قولاً نصیحت للخلق ہے۔
آپ کے اظہار سے ایک گروہ کو فائدہ پہنچتا ہے ا ور غبت الی الخیر پیدا ہو تی ہے۔ خداتعالیٰ ہر ایک کام میں مدد گار ہو کہ بغیر اس کی مدد کے انسانی طاقتیں ہیچ ہیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
نوٹ:۔اس خط کی تاریخ تو معلوم نہیں۔ لیکن واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے نواب صاحب کو بیعت کی تحریک فرمائی تھی۔ مگر ا س وقت وہ اس کے لئے تیار نہ تھے اور اپنی جگہ بعض شکوک ایسے رکھے تھے جو مزید اطمینان کے لئے رفع کرنے ضروری تھے۔ جب وہ شکوک رفع ہوئے تو انہوں نے تامل نہیں کیا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ازالہ اوہام میں نواب صاحب کے ایک خط کا اقتباس دیا ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ
ابتدا میں گو میں آپ کی نسبت نیک ظن ہی تھا۔ لیکن صرف اس قدر کہ آپ اور علماء اور مشائخ ظاہری کی طرح مسلمانوں کے تفرقہ کے موید نہیں ہیں۔ بلکہ مخالفین اسلام کے مقابل پر کھڑے ہیں۔ مگر الہامات کے بارے میں مجھ کو نہ اقرار تھا نہ انکار۔ پھر جب میں معاصی سے بہت تنگ آیا اور ان پر غالب نہ ہو سکا تو میں سوچا کہ آپ نے بڑے بڑے دعوے کئے ہیں۔ یہ سب جھوٹے نہیں ہوسکتے۔ تب میں نے بطور آزمائش آپ کی طرف خط وکتابت شروع کی جس سے مجھ کو تسکین ہوتی رہی اور جب قریباً اگست میں آپ سے لودہانہ ملنے گیا تواس وقت میری تسکین خوب ہو گئی اور آپ کو باخدابزرگ پایا اور بقیہ شکوک کو پھر بعد کی خط وکتابت میں میرے دل سے بکلی دھویا گیا اور جب مجھے یہ اطمینان دی گئی کہ ایک ایسا شیعہ جو خلفائے ثلثہ کی کسر شان نہ کرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو سکتا ہے۔ تب میں نے آپ سے بیعت کر لی۔ اب میں اپنے آپ کو نسبتاً بہت اچھا پاتا ہوں اور آپ گواہ رہیں کہ میں نے تمام گناہوں سے آیندہ کے لئے توبہ کی ہے۔ مجھ کو آپ کے اخلاق اور طرز معاشرت سے کافی اطمینان ہے کہ آپ سچے مجدو اوردنیا کے لئے رحمت ہیں۔
جیساکہ پہلے خط سے ظاہر حضرت اقدس اگست ۱۸۹۰ء میں لودھانہ ہی تھے۔ اس لئے کہ وہ خط لودہانہ سے ہی حضرت نے لکھا ہے۔ پس ۱۸۹۰ء کی آخری سہ۶ماہی میں غالباً نواب صاحب کے شکوک وغیرہ صاف ہو گئے اور آپ نے سلسلہ بیعت میں شمولیت اختیار کی۔ اگر میں صحیح تاریخ بیعت بھی معلوم کر سکا تو وہ کسی دوسری جگہ درج کردی جائے گی۔وباللہ التوفیق۔عرفانی۔
مکتوب نمبر(۳)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
مشفقی عزیزی محبی نواب صاحب سردار محمد علی خان صاحب سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کاعنایت نامہ آج کی ڈاک میں مجھ کو ملا۔ الحمد للہ والمنۃ کہ خداتعالیٰ نے آپ کو صحت بخشی اللہ جلشانہ آپ کو خوش رکھے اور عمر اور راحت اورمقاصد دلی میںبرکت اور کامیابی بخشے۔ اگرچہ حسب تحریر مرزا خدابخش صاحب آپ کے مقاصد میں سخت پیچدگی ہے۔ مگر ایک دعا کے وقت کشفی طور پر مجھے معلوم ہو اکہ آپ میرے پاس موجود ہیں اورایک دفعہ گردن اونچی ہو گئی ا ورجیسے اقبال اورعزت کے بڑھنے سے انسان اپنی گردن کو خوشی کے ساتھ ابھارتا ہے۔ ویسی ہی صورت پیدا ہوئی۔ میں حیران ہوں کہ یہ بشارت کس وقت اور کس قسم کے عروج سے متعلق ہے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس صورت کے ظہور کا زمانہ کیا ہے۔ مگر میں کہہ سکتا ہوں کہ کسی وقت میں کسی کا اقبال اور کامیابی اور ترقی عزت اللہ جلشانہ کی طرف سے آپ کے لئے مقررہے۔ اگر اس زمانہ نزدیک ہو یا دور ہو سو میں آپ کے پیش آمدہ ملال سے گو پہلے غمگین تھا۔ مگر آج خوش ہوں۔ کیونکہ آپ کے مال کار کی بہتری کشفی طور پر معلوم ہوگئی۔ واللہ اعلم بالصواب۔
میں پہلے خط میں لکھ چکا ہوں کہ ایک آسمانی فیصلہ کے لئے میں مامور ہوں اور اس کے ظاہری انتظام کے دست کرنے کے لئے میں نے ۲۷؍ دسمبر ۱۸۹۱ء کو ایک جلسہ تجویز کیا ہے۔ متفرق مقامات سے اکثر مخلص جمع ہوں گے۔ مگر میں افسوس کرتا ہوں کہ آں محب بوجہ ضعف و نقاہت ایسے متبرک جلسہ میں شریک نہیں ہو سکتے۔ اس حالت میں مناسب ہے کہ آں محب اگر حرج کار نہ ہو تو مرزا خدا بخش صاحب کو روانہ کر دیں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۲۲؍ دسمبر ۱۸۹۱ء
مکتوب نمبر(۴)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
میرے پیارے دوست نواب محمد علی خان صاحب سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا عنایت عین انتظار میں مجھ کو ملا۔ جس کو میں نے تعظیم سے دیکھا اور ہمدردی اور اخلاص کے جوش سے حرف حرف پڑھا۔ میری نظر میں طلب ثبوت اور استکشاف حق کا طریقہ کوئی ناجائز اور ناگوار طریقہ نہیں ہے۔ بلکہ سعیدوں کی یہی نشانی ہے کہ وہ ورطہ مذبذبات سے نجات پانے کے لئے حل مشکلات چاہتے ہیں۔ لہذا یہ عاجز آپ کے اس طلب ثبوت سے ناخوش نہیں ہوا۔ بلکہ نہایت خوش ہے کہ آپ میں سعادت کی وہ علامتیں دیکھتا ہوں جس سے آپ کی نسبت عرفانی ترقیات کی امید بڑھتی ہے۔
اب آپ پر یہ واضح کرتا ہوں کہ میں نے مباہلہ سے قطعی طور پر انکار نہیں کیا۔ا گر امر متنازعہ فیہ میں قرآن اورحدیث کی رو سے مباہلہ جائز ہو تو میں سب سے پہلے مباہلہ کے لئے کھڑا ہوں ۔ لیکن ایسی صورت میں ہرگز مباہلہ جائز نہیںجب کہ فریقین کا یہ خیال ہو کہ فلاں مسئلہ میں کسی فریق کی اجتہاد یا فہم یا سمجھ کی غلطی ہے۔ کسی کی طرف سے عمداً افتدا یہ دروغ باقی نہیں کیونکہ مجرو ایسے اختلافات ہیں۔جو قطع نظر مصیبت یا محظی ہونے کے صحت نیت اور اخلاص اور صدق پر مبنی ہیں۔مباہلہ جائز ہوتا اور خداتعالیٰ ہر ایک جزئی اختلاف کی وجہ سے محظی پر عندالمباہلہ عذاب نازل کرتا تو آج تک تمام انسان کا روئے زمین سے خاتمہ ہو جاتا۔ کیونکہ کچھ شک نہیں کہ مباہلہ سے یہ غرض ہوتی ہے کہ جو فریق حق پر نہیں اس پر بلا نازل ہو اور یہ بات ظاہر ہے کہ اجتہادی امور میں مثلاً کسی جزئی میں حنفی حق پر نہیں اور کسی میں شافعی حق پر اور کسی میں اہل حدیث اب جب کہ فرض کیا جائے کہ سب فرقے اسلام کی جزئی اختلاف کی وجہ سے باہم مباہلہ کریں اورخداتعالیٰ اس جو حق پر نہیں عذاب نازل کرے تو اس کانتیجہ یہ ہو گا کہ اپنی اپنی خطا کی وجہ سے تمام فرقے اسلام کے روئے زمین سے نابود کئے جائیں۔ اب ظاہر ہے کہ جس امر کے تجویز کرنے سے اسلام کا استیصال تجویز کرتا پڑتا ہے۔ وہ خداتعالیٰ کے نزدیک جو حامی اسلام اورمسلمین ہے۔ کیوں کر جائز ہو گا۔ پھر کہتا ہوں کہ اگر اس کے نزدیک جزئی اختلاف کی وجہ سے مباہلہ جائز ہوتا تو وہ ہمیں یہ تعلیم نہ دیتا ربنا اغفرلنا والا خواننا یعنی اے خداہماری خطا معاف کراور ہمارے بھائیوں کی خطا بھی عفوفرما۔ بلکہ لا یُصب اور محظی کا تصفیہ مباہلہ پر چھوڑتا اور ہمیں ہر ایک جزئی اختلاف کی وجہ سے مباہلہ کی رغبت دیتا لیکن ایسا ہر گز نہیں اگر اس امت کے باہمی اختلافات کاعذاب سے فیصلہ ہوناضروری ہے تو پھر تمام مسلمانوں کے ہلاک کرنے کے لئے دشمنوں کی نظر میں اس سے بہتر کوئی حکمت نہیں ہو گی کہ ان تمام جزئیات مختلف میں مباہلہ کرایا جائے۔ تاایک ہی مرتبہ سب مسلمانوں پر قیامت آجائے۔ کیونکہ کوئی فرقہ کسی خطا کی وجہ سے ہلاک ہو جائے گااور کوئی کسی خطا کے سبب سے مورد عذاب و ہلاکت ہوگا۔ وجہ یہ کہ جزئی خطا سے تو کوئی فرقہ بھی خالی نہیں۔
اب میں یہ بیان کرتا چاہتا ہوں کہ کس صورت میں مباہلہ جائز ہے۔ سو واضح ہو کہ وہ صورت میں مباہلہ جائز ہے۔
(۱)اوّل اس کافر کے ساتھ جو یہ دعویٰ رکھتا ہے کہ مجھے یقینا معلوم ہے کہ اسلام حق پر نہیں اور جو کچھ غیراللہ کی نسبت خدائی کی صفتیں میں مانتاہوں وہ یقینی امر ہے۔
(۲)دوم اس ظالم کے ساتھ جو ایک بے جا تہمت کسی پر لگا کر اس کو ذلیل کرنا چاہتا ہے۔ مثلاً ایک مستورہ کو کہتا ہے۔ کہ میں یقینا جانتا ہوں کہ یہ عورت زانیہ ہے۔ کیونکہ میں نے بچشم خود اس کا زنا کرتے دیکھا ہے۔ یا مثلاً ایک شخص کو کہتا ہے کہ میں یقینا جانتا ہوں کہ یہ شراب خور ہے اور بچشم خود اس کو شراب پیتے دیکھا ہے۔ سوا س حالت میں بھی مباہلہ جائز ہے کیونکہ اس جگہ کوئی اجتہادی اختلاف نہیں بلکہ ایک شخص اپنے یقین اور رؤیت پر بنا رکھ کر ایک مومن بھائی کو ذلت پہنچانا چاہتا ہے۔ جیسے مولوی اسمٰعیل صاحب نے کیاتھا اور کہا تھا کہ یہ میرے ایک دوست کی چشم دید بات ہے۔ کہ مرزا غلام احمد یعنی یہ عاجز پوشیدہ طورپر آلات نجوم اپنے پاس رکھتا ہے اورا نہیں کے ذریعہ سے کچھ کچھ آئندہ کی خبریں معلوم کرکے لوگوں کو کہہ دیتا ہے کہ مجھے الہام ہوا ہے۔ مولوی اسمٰعیل صاحب نے کسی اجتہادی مسئلہ میں اختلاف نہیں کیا تھا بلکہ اس عاجز کی دیانت اور صدق پر ایک تہمت لگائی تھی جس کی اپنے ایک دوست کی رؤیت پر بنا رکھی تھی۔ لیکن بنا صرف اگر اجتہاد پر ہو اور اجتہادی طو پر کوئی شخص کسی مومن کو کافر کہے یا ملحد نام رکھے ۔ تو یہ کوئی تعجب نہیں ۔ بلکہ جہاں تک اس کی سمجھ اور اس کا علم تھا۔ اس کے موافق اس نے فتویٰ دیا ہے۔ غرض مباہلہ صرف ایسے لوگوں سے ہوتا ہے۔جو اپنے قول کی قطعی اور یقین پر بنا رکھ کر دوسرے کو مفتری اور زانی وغیرہ قرار دیتے ہیں۔
پس انا نحن فیہ میں مباہلہ اس وقت جائز ہوگا۔ کہ جب فریق مخالف یہ اشتہار دیں کہ ہم اس مدعی کو اپنی نظر میں اس قسم کا مخطی نہیں سمجھتے کہ جیسے اسلام کے فرقوں میں مصیب بھی ہوتے ہیں اور مخطی بھی اور بعض فرقے بعض سے اختلاف رکھتے ہیں بلکہ ہم یقین کلی سے اس شخص کو مفتری جانتے ہیں اور ہم اس بات کے محتاج نہیں کہ یہ کہیں کہ امر متنازعہ فیہ کہ اصل حقیقت خدا تعالیٰ جانتا ہے۔ بلکہ یقینا اس پیشگوئی کی سب اصل حقیقت ہمیں معلوم ہوچکی ہے۔ اگر یہ لوگ اس قدر اقرار کردیں۔ توپھرکچھ ضرورت نہیں کہ علماء کا مشورہ اس میں لیا جائے وہ مشورہی نقصان علم کی وجہ سے طلب نہیںکیا گیا۔ صرف اتمام حجت کی غرض سے طلب کیا گیاہے۔ سو اگر یہ مدعیان ایسا اقرار کریں کہ جو اوپر بیان ہو چکا ہے تو پھر کچھ حاجت نہیں کہ علماء سے فتویٰ پوچھا جائے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ جوشخص آپ ہی یقین نہیں کرتا۔ وہ مباہلہ کس بناء پر کرناچاہتا ہے؟ مباہل کا منصب یہ ہے کہ اپنے دعوے میں یقین ظاہر کرے صرف ظن اور شبہ پر بنا نہ ہو۔ مباہل کو یہ کہنا ماننا پڑتا ہے کہ جو کچھ اس امر کے بارے میں خداتعالیٰ کو معلوم ہے وہی مجھ کو یقینی طور پر معلوم ہوگیا ہے۔تب مباہلہ کی بنیاد پیدا ہوتی ہے۔پھر یہ بات بھی ہے کہ مباہلہ سے پہلے شخص مبلغ کا وعظ بھی سن لینا ضروری امر ہے۔ یعنی جو شخص خداتعالیٰ سے مامور ہو کرآیا ہے۔ اسے لازم ہے کہ اوّل دلایل بینہ سے اشخاص منکرین کو اپنے دعوے کی صداقت سمجھا دے اور اپنے صدق کی علامتیں ان پر ظاہر کرے۔ پھر اگر اس کے بیانات کو سن کرا شخاص منکرین باز نہ آویں اور کہیں کہ ہم یقینا جانتے ہیںکہ مفتری ہے تو آخر الحیل مباہلہ ہے۔ یہ نہیں کہ ابھی نہ کچھ سمجھا نہ بوجھا نہ کچھ سنا پہلے مباہلہ ہی لے بیٹھے۔
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مباہلہ کی درخواست کی تواس وقت کی تھی کہ جب کئی برس قرآن شریف نازل ہو کرکامل طور پر تبلیغ ہوچکی تھی۔ مگر یہ عاجز کئی برس نہیں چاہتا۔ صرف یہ چاہتا ہے کہ ایک مجلس علماء کی جمع ہو اور ان میں وہ لوگ بھی جمع ہوں جو مباہلہ کی درخواست کرتے ہیں۔ پہلے یہ عاجز انبیاء کے طریق پر شرط نصیحت بجا لائے اور صاف صاف بیان سے اپنا حق ہونا ظاہر کرے جب اس وعظ سے فراغت ہو جائے تو درخواست کنندہ مباہلہ اٹھ کر یہ کہے کہ وعظ میں نے سن لیا۔ مگر میں اب بھی یقینا جانتا ہوں کہ یہ شخص کاذب اور مفتری ہے اور اس یقین میں شک و شبہ کو راہ نہیں بلکہ روئیت کی طرح قطعی ہے۔ ایسا ہی مجھے اس بات پر بھی یقین ہے کہ جو کچھ میںنے سمجھا ہے وہ ایسا شک و شبہ سے منزہ ہے کہ جیسے روئیت تب اس کے بعد مباہلہ شروع ہو۔ مباہلہ سے پہلے کسی قدر مناظرہ ضروری ہوتا ہے۔ تا حجت پوری ہو جائے۔ کبھی سنا نہیں گیاکہ کسی نبی نے ابھی تبلیغ نہیں کی اور مباہلہ پہلے ہی شروع ہو گیا۔ غرض اس عاجز کومباہلہ سے ہرگز انکار نہیں۔ مگر اسی طریق سے جو اللہ تعالیٰ نے اس کا پسند کیا ہے۔ مباہلہ کی بناء یقین ہوتی ہے نہ اجتہادی خطا و صواب پر جب مباہلہ سے غرض تائید دین ہے۔ تو کیونکر پہلا قدم ہی دین کے مخالف رکھا جائے۔
یہ عاجز انشاء اللہ ایک ہفتہ تک ازالۃ الااوہام کے اوراق مطبوعہ آپ کے لئے طلب کرے گا۔ مگر شرط ہے کہ ابھی تک آپ کسی پر ان کو ظاہر نہ کریں۔ اس کامضمون اب تک امانت رہے۔ اگرچہ بعض مقاصد عالیہ ابھی تک طبع نہیں ہوئے اور یک جائی طور پر دیکھنا بہتر ہوتا ہے۔ تا خدانخواستہ قبل ازوقت طبیعت سیر نہ ہو جائے۔ مگر آپ کے اصرار سے آپ کے لئے طلب کروں گا۔ چونکہ میرا نوکر جس کے اہتمام اور حفاظت میں یہ کاغذات ہیں۔ اس جگہ سے تین چار روز تک امرتسر جائے گا۔ اس لئے ہفتہ یا عشرہ تک یہ کاغذات آپ کی خدمت میں پہنچیں گے۔ آپ کے لئے ملاقات کرنا ضروری ہے۔ ورنہ تحریر کے ذریعہ سے وقتاً فوقتاً استکشاف کرنا چاہئے۔
خاکسار
غلام احمد
نوٹ:۔ اس خط پر تاریخ نہیں ہے۔ لیکن ازالہ اوہام کی طبع کا چونکہ ذکر ہے۔ اس سے پایا جاتا ہے کہ ۱۸۹۱ء کا یہ مکتوب ہے۔ نواب صاحب قبلہ نے آپ کو مباہلہ کی درخواست منظور کرنے کے متعلق تحریک کی تھی۔ جو عبدالحق غزنوی وغیرہ کی طرف سے ہوئی تھی۔اس کے جواب میں آپ نے یہ مکتوب لکھا۔ ا س مکتوب سے آپ کی سیرۃ پر بھی ایک خاص روشنی پڑتی ہے اور آپ کے دعا وہی پر بھی جب مباہلہ کے لئے آپ کھڑے ہونے کی آمادگی ظاہر کرتے ہیں۔ تو صاف فرماتے ہیں کہ پہلے یہ عاجز انبیاء کے طریق پر شرط نصیحت بجا لائے اپنے سلسلہ کو ہمیشہ منہاج نبوت پر پیش کیا ہے۔ دوسرے آپ استکشاف حق کے لئے کسی سوال اور جرح کو برا نہیں مانتے۔ بلکہ سایل کو شوق دلاتے ہیں کہ وہ دریافت کرے۔ اس لئے کہ اسے آپ سعیدوں کی نشانی قرار دیتے ہیں۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۵)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
محبی عزیزی نواب صاحب سردار محمد علی خان سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مبلغ …… ۲۸۱ روپیہ آں محب کل کی ڈاک میں مجھ کو مل گئے۔ جزاکم اللہ خیراً۔ جس وقت آپ کا روپیہ پہنچا ہے مجھ کو اتفاقاً نہایت ضرورت درپیش تھی۔ موقعہ پر آنے کی وجہ سے میں جانتا ہوں کہ خداووند کریم و قادر اس خدمت للہی کا آپ کو بہت اجردے گا۔ واللہ یحب المحسین۔آج مجھ کو صبح کی نماز کے وقت بہت تضرع اور ابتہال سے آپ کے لئے دعا کرنے کا موقعہ ملا۔ یقین کہ خداتعالیٰ اس کو قبول کرے گا اور جس طرح چاہے گا اس کی برکات ظاہر کرے گا۔ میں آپ کوخبر دے چکا ہوں کہ میں نے پہلے بھی بشارت کے طور پر ایک امر دیکھا ہوا ہے۔ گو میں ابھی اس کو کسی خاص مطلب یا کسی خاص وقت سے منسوب نہیں کرسکتا۔ تاہم بفضلہ تعالیٰ جانتا ہوں کہ وہ آپ کے لئے کسی بہتری کی بشارت ہے اور کوئی اعلیٰ درجہ کی بہتری ہے۔ جو اپنے مقررہ وقت پر ظاہر ہوگی۔ واللہ اعلم بالصواب۔
خداوند ذوالجلال کی جناب میں کوئی کمی نہیں۔ اُس کی ذات میں بڑی بڑی عجائب قدرتیں ہیں اور وہی لوگ ان قدرتوں کو دیکھتے ہیں۔ کہ جووفاداری کے ساتھ اس کے تابع ہو جاتے ہیں۔ جو شخص عہد وفا کو نہیںتورٹا اور صدق قدم سے نہیں ہارتا اورحسن ظن کو نہیں چھوڑتا۔ اس کی مراد پوری کرنے کے لئے اگر خداتعالیٰ بڑے بڑے محالات کوممکنات کر دیوے تو کچھ تعجب کی بات نہیں کیونکہ ایسے بندوں کا اس کی نظر میںبڑی ہی قدر ہے۔ کہ جو کسی طرح اس کے دروازہ کو چھوڑتا نہیں چاہتے اور شتاب بازو اور بے وفانہیں ہیں۔
یہ عاجز انشاء اللہ العزیز ۲۰؍ جنوری ۱۸۹۲ء کو لاہور جائے گا اورارادہ ہے کہ تین ہفتہ تک لاہور رہے۔ اگر کوئی تقریب لاہور میں آپ کے آنے کی اس وقت پید اہو تو یقین کہ لاہور میں ملاقات ہو جائے گی۔
والسلام
راقم خاکسار
غلام احمد از قادیان
۹؍ جنوری ۱۸۹۲ء
مشفقی اخویم مرزا خدابخش صاحب کو السلام علیکم
مکتوب نمبر(۶)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب محمد علی خان صاحب سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک ہفتہ سے بلکہ عشرہ سے زیادہ گزر گیا کہ آں محب کا محبت نامہ پہنچا تھا۔ چونکہ اس میں امور مستفسرہ بہت تھے اور مجھے بباعث تالیف کتاب آئینہ کمالات اسلام بغایت درجہ کی کمی فرصت تھی۔ کیونکہ ہر روز مضمون تیار کر کے دیاجاتا ہے۔ اس لئے جواب لکھنے سے معذور رہا اور ّآپ کی طرف سے تقاضا بھی نہیں تھا۔ آج مجھے خیال آیا کہ چونکہ آپ خالص محب ہیں اور آپ کا استفسار سراسر نیک ارادہ اور نیک نیتی پر مبنی ہے۔ اس لئے بعض امور سے آپ کو آگا ہ کرنا اور آپ کے لئے جو بہتر ہے۔ اُس سے اطلاع دینا ایک امر ضروری ہے۔ لہذا چند سطور آپ کی آگاہی کے لئے ذیل میں لکھتا ہوں۔
یہ سچ ہے کہ جب سے اس عاجز نے مسیح موعودہونے کادعویٰ بامر اللہ کیا ہے۔ تب سے وہ لوگ جو اپنے اندر قوت فیصلہ نہیں رکھتے عجب تذب ذب اور کشمش میں مبتلا پڑ گئے ہیں اور آپ یہ بھی کہتے ہیں کہ کوئی نشان بھی دکھلانا چاہئے۔
(۱) مباہلہ کی نسبت آپ کے خط سے چند روز پہلے مجھے خود بخود اللہ جلشانہ نے اجازت دی ہے اور یہ خداتعالیٰ کے ارادہ سے آپ کے ارادہ کا توارد ہے کہ آپ کی طبیعت میں یہ جنبش پید ا ہوئی۔ مجھے معلوم ہوتا کہ اب اجازت دینے میں حکمت یہ ہے کہ اوّل حال میں صرف اس لئے مباہلہ ناجائز تھا کہ ابھی مخالفین کو بخوبی سمجھایا نہیں گیا تھا اور وہ اصل حقیقت سے سراسر ناواقف تھے اور تکفیر پر بھی ان کاجوش نہ تھا۔ جو بعد ا س کے ہوا۔ لیکن اب تالیف آئینہ کمالات اسلام کے بعد تفہیم اپنے کمال کو پہنچ گئی اور اب اس کتاب کے دیکھنے سے ایک ادنیٰ استعداد کا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ مخالف لوگ اپنی رائے میں سراسر خطا پر ہیں۔اس لئے مجھے حکم ہو اہے کہ مباہلہ کی درخواست کو کتاب آئینہ کمالات اسلام کے ساتھ شائع کردوں۔ سو وہ درخواست انشاء اللہ القدیر پہلے حصے کے ساتھ ہی شائع ہوگی۔ اوّل دنوں میں میرا یہ بھی خیال تھا کہ مسلمانوں سے کیونکر مباہلہ کیا جائے۔ کیونکہ مباہلہ کہتے ہیں کہ ایک دوسرے پر * بھیجنا اور مسلمانوں پر * بھیجنا جائز نہیں۔مگر اب چونکہ وہ لوگ بڑے اسرار سے مجھ کو کافر ٹھہراتے ہیں اورحکم شرع یہ ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کو کافر ٹھہراوے اگر وہ شخص درحقیقت کافر نہ ہو توکفر الٹ کر اسی پر پڑتا ہے۔ جو کافر ٹھہراتا ہے۔ اسی بناء پر مجھے یہ حکم ہو ا ہے کہ جو لوگ تجھ کو کافر ٹھہراتے ہیں اور انباء اور نساء رکھتے ہیں اور فتویٰ کفر کے پیشوا ہیں ان سے مباہلہ کی درخواست کرو۔
(۲) نشان کے بارے جو آپ نے لکھا ہے کہ یہ بھی درخواست ہے درحقیقت انسان دو قسم کے ہوتے ہیں۔ اوّل وہ جو زیرک اور زکی ہیں او راپنے اندر قوت فیصلہ رکھتے ہیں اور متخاصمین کی قیل وقال میں سے جو تقریر حق کی عظمت اور برکت پر روشنی ڈالتی ہے۔ اس تقریر کو پہچان لیتی ہے اور باطل جو تکلیف اور بناوٹ کی بدبو رکھتا ہے۔ وہ بھی ان کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہتا۔ ایسے لوگ مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شناخت کے لئے اس بات کے محتاج نہیں ہو سکتے کہ ان کے سامنے سوٹی کا سانپ بنایا جائے اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شناخت کے لئے حاجت مند ہو سکتے ہیں کہ ان کے ہاتھ سے مفلوجوں اور مجذوبوں کو اچھے ہوتے دیکھ لیں اورنہ ہمارے سیدو مولیٰ حضرت خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ایسے اعلیٰ درجہ کے لوگوں نے کبھی معجزہ طلب نہیں کیا کوئی ثابت نہیںکرسکتا کہ صحابہ کبار رضی اللہ عنہم کوئی معجزہ دیکھ کر ایمان لائے تھے بلکہ وہ زکی تھے اور نور قلب رکھتے تھے انہوںنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا منہ دیکھ کر ہی پہچان لیاتھا کہ یہ جھوٹوں کامنہ نہیں ہے اس لئے خداتعالیٰ کے نزدیک صدیق اور راستباز ٹھہرے انہوں نے حق کو دیکھا اور ان کے دل بول اٹھے کہ یہ منجانب اللہ ہے۔
دوسرے قسم کے وہ انسان ہیں جو معجزہ او ر کرامت طلب کرتے ہیں اور ان کے حالات خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں تعریف کے ساتھ نہیں بیان کئے اور اپنا غضب ظاہر کیا ہے جیسا کہ ایک جگہ فرماتاہے واقسمو ا باللہ جھد ایمانھم لئن جاء تھم ایۃ لیومنن بھاقل انما الا یات عنداللہ ومایشعر کم انھا اذا جائت لایومنون یعنی یہ لوگ سخت قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر کوئی نشان دیکھیں تو ضرور ایمان لے آئیں گے ان کو کہہ دے کہ نشان تو خداتعالیٰ کے پاس ہیں اور تمہیں خبر نہیں کہ جب نشان بھی دیکھیںگے تو کبھی ایمان نہ لائیںگے۔ پھر فرماتا ہے یوم یاتی بعض ایات ربک لا ینفع نفسا ایمانھا لم تکن امنت من قبل یعنی جب بعض نشان ظاہر ہوں گے تو اس دن ایمان لانا بے سود ہو گا اور جو شخص صرف نشان کے دیکھنے کے بعد ایمان لاتا ہے اس کو وہ ایمان نفع نہیں دے گا پھر فرماتا ہے ویقولون متی ھذا لوعذان کنتم صادقین قل لا املک لنفسی ضراً ولا نفعاً الا ماشاء اللہ کل امۃ اجل الخ۔ یعنی کافر کہتے ہیں کہ وہ نشان کب ظاہر ہوں گے اوریہ وعدہ کب پورا ہو گا۔ سو ان کہہ دے کہ مجھے ان باتوں میں دخل نہیں۔نہ میں اپنے نفس کے لئے ضرر کا مالک ہوں نہ نفع کا۔ مگر جو خدا چاہے۔ ہر ایک گروہ کے لئے ایک وقت مقرر ہے جوٹل نہیں سکتا اور پھر اپنے رسول کو فرماتا ہے وان کان کبرعلیک اعراضھم فان اسطعت ان تبتغی نفقافی الارض ااوسلما فی السما فتاتیھم بایۃ ولوشاء اللہ لجعھم علیٰ الھدی فلا تکونن من الجاھلین۔یعنی اگر تیرے پر اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کافروں کا اعراض بہت بھاری ہے ۔ سو اگر تجھے طاقت ہے تو زمین میں سرنگ کھود کر یا آسمان پر زینہ لگا کر چلاجا اور ان کے لئے کوئی نشان لے آ اور اگر خدا چاہتا تو ان سب کو جونشان مانگتے ہیں ہدائت دیتا تو جاہلوں میں سے مت ہو۔ اب ان تمام آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں کافر نشان مانگا کرتے تھے۔ بلکہ قسمیں کھاتے تھے کہ ہم ایمان لائیں گے۔ مگر جلشانہ‘ صاف صاف فرماتا ہے کہ جو شخص نشان دیکھنے کے بعد ایمان لاوے اس کا ایمان مقبول نہیں۔ جیسا کہ ابھی آیت لا یِنفع نفسا ایمانھا تحریر ہوچکی ہے اور اسی کے قریب قریب ایک دوسری آیت ہے اور وہ یہ ہے۔ ولقد جا ء تھم رسلھم با لبینات فما کانو الیومنوا بما کذبو امن کذالک یطبع اللہ قلوب الکا فرین یعنی پہلی امتوں میں جب ان کے نبیوں نے نشان دکھلائے تو ان نشانوں کو دیکھ بھی لوگ ایمان لائے ۔ کیونکہ وہ نشان دیکھنے سے پہلے تکذیب کرچکے تھے۔ اسی طرح خدا ان لوگوں کے دلوں پر مہریں لگا دیتا ہے۔ جوا س قسم کے کافر ہیں جو نشان سے پہلے ایمان نہیں لاتے ۔
یہ تمام آیتیں اور ایسا ہی اوربہت سی آیتیں قرآن کریم کی جن کا اس وقت لکھنا موجب طوالت ہے با لا تفاق بیان فرما رہیں ہیں کے نشان کو طلب کرنے والے مورد غضب الہی ہوتے ہیں اور جو شخص نشان دیکھنے سے ایمان لاویں اس کا ایمان منظور نہیں اس پردو اعتراض وار ہوتے ہیں اول یہ کے نشان طلب کرنے والے کیوں مورد غضب الٰہی ہیں۔ جو شخص اپنے اطمنان کے لئے یہ آزمائش کرنا چاہتا ہے کہ یہ شخص منجانب اللہ ہے یا نہیں بظاہر وہ نشان طلب کرنے کا حق رکھتا ہے تا دھوکہ نہ کھاوے اور مرداہ الٰہی کو قبول الٰہی خیال نہ کرے۔
اس وہم کا جواب یہ ہے کہ تمام ثواب ایمان پر مترتب ہوتا ہے اور ایمان اسی بات کا نام ہے کہ جو بات پردہ غیب میں ہو۔ اس کو قراین مرحجہ کے لحاظ سے قبول کیا جاوے۔ یعنی اس قدر دیکھ لیا جائے کہ مثلاً صدق کے وجوہ کذب کے وجوہ پر غالب ہیں اور قراین موجودہ ایک شخص کے صادق ہونے پر بہ نسبت اس کے کاذب ہونے کے بکثرت پائے جاتے ہیں۔
یہ تو ایمان کی حد ہے لیکن اگر اس حدسے بڑھ کر کوئی شخص نشان طلب کرتا ہے تو وہ عنداللہ فاسق ہے اور اسی کے بارہ میں اللہ جلشانہ‘ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ نشان دیکھنے کے بعد اس کو ایمان نفع نہیں دے گا یہ بات سوچنے سے جلد سمجھ میں آسکتی ہے کہ انسان ایمان لانے سے کیوں خداتعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرتا ہے اس کی وجہ یہی ہے جن چیزوں کو ہم ایمانی طور پر قبول کر لیتے ہیں وہ بکل الوجود ہم پر مکشوف نہیں ہوتیں۔مثلاً خد ائے تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے مگر اس کو دیکھا نہیں۔ فرشتوں پر بھی ایمان لاتا ہے مگر وہ بھی نہیں دیکھے۔ بہشت اور دوخ پر بھی ایمان لاتا ہے اور وہ بھی نظر سے غائب ہیں محض حسن ظن سے مان لیتا ہے اس لئے خداتعالیٰ کے نزدیک صادق ٹھہر جاتا ہے اور یہ صدق اس کے لئے موجب نجات ہوجاتا ہے ورنہ ظاہر ہے کہ بہشت اور دوخ ملایک مخلوق خداتعالیٰ کی ہے ان پر ایمان لانا نجات سے کیا تعلق رکھتا ہے جو چیز واقعی طور پر موجود ہے اور بد یہی طور پر اس کا موجود ہونا ظاہر ہے اگر ہم اس کو موجود مان لیں تو کس اجر کے ہم مستحق ٹھہر سکتے ہیں۔ مثلاً اگر ہم یہ کہیں کہ ہم آفتاب کے وجود پر بھی ایمان لائے اور زمین پر بھی ایمان لائے کہ موجود ہے اور چاند کے موجود ہونے پر بھی ایمان لائے اور اس بات پرایمان لائے کہ دنیا میں گدھے بھی ہیں اور گھوڑے بھی خچر بھی اور بیل بھی اور طرح طرح کے پرند بھی تو کیا اس ایمان سے کسی ثواب کی توقع ہوسکتی ہے پھر کیا وجہ سے کہ جب ہم مثلاً ملایک کہ وجود پر ایمان لاتے ہیں تو خداتعالیٰ کے نزدیک مومن ٹھہر تے ہیں اور مستحق ثواب بنتے ہیں اور جب ہم ان تمام حیوانات پر ایمان لاتے ہیں جو زمین پر ہماری نظر کے سامنے موجود ہیں تو ایک ذرہ بھی ثواب نہیں ملتا حالانکہ ملایک اور دوسری سب چیزیں برابر خداتعالیٰ کی مخلوق ہیں ۔ پس اس کی یہی وجہ ہے کہ ملایک پر وہ غائب میں ہیں اور اور دوسری چیزیں یقینی طور پر ہمیں معلوم ہیں اور یہی وجہ ہے کہ قیامت کے دن ایمان لانا منظور نہیں ہو گا یعنی اگر اس وقت کوئی شخص خداتعالیٰ کی تجلیات دیکھ کر اور اس کے ملایک اور بہشت اور دوزخ کا مشاہدہ کرکے یہ کہے کہ اب میں ایمان لایا تو منظور نہ ہو گا۔ کیوں منظور نہ ہو گا؟ اسی وجہ سے کہ اس وقت کوئی پردہ غیب درمیان نہ ہو گا تا اس سے ماننے والے کاصدق ثابت ہو۔
اب پھر غور کر کے ذرا اس بات کو سمجھ لینا چاہئے کہ ایمان کس بات کو کہتے ہیں اور ایمان لانے پر کیوں ثواب ملتا ہے امید ہے کہ آپ بفضلہ تعالیٰ تھوڑا سا فکر کرکے اس بات کاجلد سمجھ جائیں گے کہ ایمان لانا اس طرز قبول سے مراد ہے کہ جب بعض گوشے یعنی بعض پہلو کسی حقیقت کے جس پر ایمان لایا جاتا ہے مخفی ہوں اور نظر دقیق سے سو چکر اور قراین مرحجہ کو دیکھ کر اس حقیقت کو قبل اس کے کہ وہ تجلی کھل جائے قبول کرلیا جائے یہ ایمان ہے جس پر ثواب مترتب ہوتا ہے اور اگرچہ رسولوں اور انبیاء اور اولیاء کرام علیہم السلام سے بلاشبہ نشان ظاہر ہوتے ہیں۔ مگر سعید آدمی جو خداتعالیٰ کے پیارے ہیں۔ ان نشانوں سے پہلے اپنی فراست صحیحہ کے ساتھ قبول کر لیتے ہیں اور جولوگ نشانوں کے بعد قبول کرتے ہیں۔ وہ لوگ خدا ئے تعالیٰ کی نظر میں ذلیل اوربے قدر ہیں۔ بلکہ قرآن کریم بآواز بلند بیان فرماتا ہے کہ جولوگ نشان دیکھنے کے بغیر حق کوقبول نہیں کر سکتے وہ نشان کے بعد بھی قبول نہیں کرتے اور کیونکہ نشان کے ظاہر ہونے سے پہلے وہ بالجہر منکر ہوتے ہیں اور علانیہ کہتے پھرتے ہیں کہ یہ شخص کذاب اور جھوٹا ہے۔ کیونکہ اس نے کوئی نشان نہیں دکھلایا اور ان کی ضلالت کا زیادہ یہ موجب ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ بھی بباعث آزمائش اپنے بندوں کے نشان دکھلانے میں عمداتاً خیر اور توقف ڈالتا ہے اور وہ لوگ تکذیب اور انکار میں بڑھتے جاتے ہیں اور دعویٰ سے کہنے لگتے ہیں کہ درحقیقت یہ شخص کذاب ہے۔ مفتری ہے۔ مکار ہے۔ دردغگو ہے۔ جھوٹا ہے اور منجانب اللہ نہیں ہے۔ پس جب وہ شدت سے اپنی رائے کو قائم کر چکتے ہیں اور تقریروں کے ذریعہ سے اور تحریروں کے ذریعہ سے اور مجلسوں میں بیٹھ کر اور منبروں پر چڑھ کر اپنی مستقل رائے دنیا میں پھیلا دیتے ہیں کہ درحقیقت یہ شخص کذاب ہے۔ تب اس پر عنایت الٰہی توجہ فرماتی ہے کہ اپنے عاجز بندے کی عزت اورصداقت ظاہر کرنے کے لئے کوئی اپنا نشان ظاہر کرے۔ سو اس وقت کوئی غیبی نشان ظاہر ہوتا ہے جس سے صرف لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جو پہلے مان چکے ہیں اور انصار حق میں داخل ہو گئے تھے۔ یاد جنہوں اپنی زبانوں اور اپنی قلموں سے اپنے خیالات کو مخالفانہ اظہار سے بچا لیاتھا۔ لیکن وہ بدنصیب گروہ جو مخالفانہ رائوں کو ظاہر کر چکے تھے۔ وہ نشان دیکھنے کے بعد بھی اس کو قبول نہیں کرسکتے کیونکہ وہ تو اپنی رائیں علیٰ رئوس الاشہاد شائع کرچکے ۔ اشتہار دے چکے مہریں لگا چکے کہ یہ شخص درحقیقت کذاب ہے۔ اس لئے اب اپنی مشہور کردہ رائے سے مخالف اقرار کرنا ان کے لئے مرنے سے بھی زیادہ سخت ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اس سے ان کی ناک کٹتی ہے اورہزاروں لوگوں پر ان کی حمایت ثابت ہوتی ہے کہ پہلے تو بڑے زور شور سے دعوے کرتے تھے کہ شخص ضرور کاذب ہے ضرور کاذب ہے اور قسمیں کھاتے اور اپنی عقل اور علمیت جتلاتے تھے اور اب اسی کی تائید کرتے ہیں۔
میں پہلے اس سے بیان کرچکا ہوں کہ ایمان لانے پر ثواب اسی وجہ سے ملتا ہے کہ ایمان لانے والا چند قراین صدق کے لحاظ سے ایسی باتوں کو قبول کر لیتا ہے کہ وہ ہنوز مخفی ہیں۔ جیسا کہ اللہ جلشانہ نے مومنوں کی تعریف قرآن کریم میں فرمائی ہے یومنون بالغیب یعنی ایسی بات کو مان لیتے ہیں کہ وہ ہنوز در پردہ غیب ہے۔ جیساکہ صحابہ کرام نے ہمارے سید و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو مان لیا اور کسی نے نشان نہ مانگا اور کوئی ثبوت طلب نہ کیا اورگو بعد اس کے اپنے وقت پر بارش کی طرح نشان برسے اور معجزات ظاہر ہوئے۔ لیکن صحابہ کرا م ایمان لانے میں معجزات کے محتاج نہیں ہوئے اوراگر وہ معجزات کے دیکھنے اپر ایمان موقوف رکھتے تو ایک ذرہ بزرگی ان کی ثابت نہ ہوتی اور عوام میں سے شمار کئے جاتے تو خداتعالیٰ کے مقبول اور پیارے بندوں میں داخل نہ ہوسکتے کیونکہ جن لوگوں نے نشان مانگا خداتعالیٰ نے ان پر عتاب ظاہر کیا اور درحقیقت ان کاانجام اچھا نہ ہوا اور اکثر وہ بے ایمانی حالت میں ہی مرے۔ غرض خداتعالیٰ کی تمام کتابوں سے ثابت ہوتا ہے کہ نشان مانگنا کسی قوم کے لئے مبارک نہیں ہوا اور جس نے نشان مانگا وہی تباہ ہوا۔ انجیل میں بھی حضرت مسیح فرماتے ہیں کہ اس وقت کے حرامکار مجھ سے نشان مانگتے ہیں ان کوکوئی نشان نہیں دیا جائے گا۔
میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ بالطبع ہر شخص کے دل میں اس جگہ یہ سوال پید اہو گا کہ بغیر کسی نشان کے حق اور باطل میں انسان کیونکر فرق کر سکتا ہے او راگر بغیر نشان دیکھنے کے کسی کو منجانب اللہ قبول کیا جائے تو ممکن ہے کہ اس قبول کرنے میں دھوکا ہو۔
اس کاجواب وہی ہے جو میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ خداتعالیٰ نے ایمان کا ثواب اکبر اسی امر سے مشروط کر رکھا ہے کہ نشان دیکھنے سے پہلے ایمان ہو اور حق و باطل میں فرق کرنے کے لئے یہ کافی ہے کہ چند قراین جو وجہ تصدیق ہو سکیں اپنے ہاتھ میں ہوں او رتصدیق کاپلہ تکذیب کے پلہ سے بھاری ہو۔ مثلاً حضرت صدیق اکبر ابوبکر رضی اللہ عنہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تو انہوںنے کوئی معجزہ طلب نہیں کیا او رجب پوچھا گیا کہ کیوں ایمان لائے۔ توبیان کیاکہ میرے پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کاامین ہونا ثابت ہے اور میں یقین رکھتاہوں کہ انہوں نے کبھی کسی انسان کی نسبت بھی جھوٹ استعمال نہیں کیا چہ جائیکہ خداتعالیٰ پر جھوٹ باندھیں۔ ایسا ہی اپنے اپنے مذاق پر ہر ایک صحابی ایک ایک اخلاقی یا تعلیمی فضلیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھ کر اور اپنی نظر دقیق سے اس کو وجہ صداقت ٹھہرا کر ایمان لائے تھے اور ان میں سے کسی نے بھی نشان نہیں مانگا تھا اور کاذب اور صادق میں فرق کرنے کے لئے ان کی نگاہوں میں یہ کافی تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تقوے کے اعلیٰ مراتب پر ہیں۔ اپنے منصب کے اظہار میں بڑی شجاعت اور استقامت رکھتے ہیں اور جس تعلیم کو لائے ہیں وہ دوسری تعلیموں سے صاف تراور پاک تر اور سراسرا نور ہے اور تمام اخلاق حمیدہ میں بے نظیر ہیں اور للہی جوش ان میں اعلیٰ درجے کے پائے جاتے ہیں اور صداقت ان کے چہرہ پر برس رہی ہے۔ پس انہیں باتوں کو دیکھ کر انہو ں نے قبول کر لیا کہ وہ درحقیقت خداتعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ اس جگہ یہ نہ سمجھا جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معجزات ظاہر نہیںہوئے۔ بلکہ تمام انبیاء سے زیادہ ظاہر ہوئے لیکن عادت اللہ اسی طرح پر جاری رہے کہ اوائل میں کھلے کھلے معجزات اور نشان مخفی رہتے ہیں۔ تا صادقوں کا صدق اور کاذبوں کا کذب پرکھا جائے یہ زمانہ ابتلاکا ہوتاہے اور اس میں کوئی کھلا نشان ظاہر نہیں ہوتا۔پھر جب ایک گروہ صافی دلوں کااپنی نظر دقیق سے ایمان لاتا لے آتا ہے اورعوام کا لانعام باقی رہ جاتے ہیں۔ تو ان پر حجت پوری کرنے کے لئے یا ان پر عذاب نازل کرنے کے لئے نشان ظاہر ہو جاتے ہیں ۔ مگر ان نشانوں سے وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیںجو پہلے ایمان لا چکے تھے اور بعد میں ایمان لانے والے بہت کم ہوتے ہیں۔ کیونکہ ہر روز تکذیب سے ان کے دل سخت ہوجاتے ہیں اور اپنی مشہور کردہ رائوں کو وہ بدل نہیں سکتے۔ آخر اسی کفر اور انکار میں واصل جہنم ہوتے ہیں۔
مجھے دلی خواہش ہے اور میں دعا کرتا ہوں کہ آپ کو یہ بات سمجھ میں آجائے کہ درحقیقت ایمان کے مفہوم کے لئے یہ بات ضروری ہے کہ پوشیدہ چیزوں کو مان لیا جائے اور جب ایک چیز کی حقیقت ہر طرح سے کھل جائے یا ایک وافر حصہ اس کا کھل جائے۔ تو پھر اس کو مان لینا ایمان میں داخل نہیں مثلاً اب جو دن کاوقت ہے۔ اگر میں کہوں کہ میں اس بات پر ایمان لاتا ہوں کہ اب دن ہے رات نہیں ہے۔ تو میرے اس ماننے میں کیا خوبی ہو گی اور اس ماننے میں مجھے دوسروں پر کیا زیادت ہے۔ سعید آدمی کی پہلی نشانی یہی ہے کہ اس بابرکت بات کو سمجھ لے کہ ایمان کس چیز کو کہا جاتا ہے۔ کیونکہ جس قدر ابتدائے دنیاسے لوگ انبیاء کی مخالفت کرتے آئے ہیں۔ ان کی عقلوں پر یہی پردہ پڑا ہو اتھا کہ وہ ایمان کی حقیقت کانہیں سمجھتے تھے اورچاہتے تھے کہ جب تک دوسرے امور مشہودہ محسوسہ کی طرح انبیاء کی نبوت اور ان کی تعلیم کھل نہ جائے۔ تب تک قبول کرنا مناسب نہیں اور وہ بیوقوف یہ خیال کرتے تھے کہ کھلی ہوئی چیز کو ماننا ایمان میں کیونکر داخل ہو گا۔ وہ تو ہندسہ اور حساب کی طرح ایک علم ہوا نہ کہ ایمان۔ پس یہی حجاب تھا کہ جس کی وجہ سے ابوجہل اور ابولہب وغیرہ اوایل میں ایمان لانے سے محروم رہے اور پھر جب اپنی تکذ یب میں پختہ ہو گئے اور مخالفانہ رائوں پر اصرار کر چکے۔اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے کھلے کھلے نشان ظاہر ہوئے تب انہوں کہا کہاب قبول کرنے سے مرنا بہتر ہے۔ غرض نظر دقیق سے صادق کے صدق کو شناخت کرنا سعیدوں کا کام ہے اورنشان طلب کرنا نہایت منحوس طریق اور اشقیا کا شیوہ ہے۔ جس کی وجہ سے کروڑ ہا منکر ہیزم جنہم ہو چکے ہیں۔ خداتعالیٰ اپنی نسبت کو نہیں بدلتا۔ وہ جیسا کہ اس نے فرمادیا ہے۔ ان ہی کے ایمان کو ایمان سمجھتا ہے۔ جو زیادہ ضد نہیں کرتے اور قرآن مرحجہ کودیکھ کر اور علامات صدق پا کر صادق کوقبول کرلیتے ہیں اورصادق کا کلام اورصادق کی راستبازی۔ صادق کی استقامت اورخود صادق کا منہ ان کے نزدیک اس کے صدق پر گواہ ہوتا ہے۔ مبارک وہ جن کو مردم شناسی کی عقل دی جاتی ہے۔
ماسوا اس کے جو شخض ایک نبی متبوع علیہ السلام کا متبع ہے اور اس کے فرمودہ پر اور کتاب اللہ پر ایمان لاتا ہے۔ اس کی آزمائش انبیاء کی آزمائش کی طرح کرنا سمجھی جاتی ہے۔ کیونکہ انبیاء اس لئے آتے ہیں کہ تا ایک دین سے دوسرے دین میں داخل کریں اور ایک قبلہ سے دوسرا قبلہ مقرر کراویں اور بعض احکام کومنسوخ کریں اوربعض نئے احکام لاویں۔ لیکن اس جگہ تو ایسے انقلاب کادعویٰ نہیں ہے وہی اسلام ہے جو پہلے تھا۔ وہ ہی نمازیں ہیں جوپہلے تھیں۔وہ ہی رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ہے جو پہلے تھا اور وہی کتاب ہے جو پہلے تھی۔ اصل دین سے کوئی ایسی بات چھوڑنی نہیں پڑی جس سے اس قدر حیرانی ہو۔ مسیح موعود کادعویٰ اس وقت گراں اورقابل احتیاط ہوتا کہ جب اس دعوے کے ساتھ نعوذباللہ کچھ دین کے احکام کی کمی بیشی ہوتی اور ہماری عملی حالت دوسرے مسلمانوں سے کچھ فرق رکھتی۔ اب جبکہ ان باتوں میں سے کوئی بھی نہیں۔ صرف مابہ التراع حیات مسیح اور وفات مسیح ہے اور مسیح موعود کا دعویٰ اس مسئلہ کی درحقیقت ایک فرع ہے اور اس دعویٰ سے مراد کوئی عملی انقلاب نہیں اورنہ اسلامی اعتقادات پر ا س کا کوئی مخالفانہ اثر ہے۔ تو کیا اس دعویٰ کے تسلیم کرنے کے لئے کسی بڑے معجزہ یا کرامت کی حاجت ہے؟ جس کا مانگنا رسالت کے دعویٰ میں عوام کا قدیم شیوہ ہے۔ ایک مسلمان جسے تائید اسلام کے لئے خداتعالیٰ نے بھیجا۔ جس کے مقاصد یہ ہیں کہ تا دین اسلام کی خوبیاں لوگوں پر ظاہر کرے اورآج کل کے فلسفی وغیرہ الزاموں سے اسلام کا پاک ہونا ثبوت کر دیوے اور مسلمانوں کو اللہ و رسول کی محبت کی طرف رجوع دلا وے۔ کیا اس کاقبول کرنا ایک منصف مزاج اور خدا ترس آدمی پر کوئی مشکل امر ہے؟
مسیح موعود کادعویٰ اگر اپنے ساتھ ایسے لوازم رکھتا جن سے شریعت کے احکام اور عقائد پر کچھ اثر پہنچتا۔ تو بے شک ایک ہولناک بات تھی۔ لیکن دیکھنا چاہئے کہ میں نے اس دعویٰ کے ساتھ کس اسلامی حقیقت کو منقلب کر دیا ہے کون سے حکام اسلام میں سے ایک ذرہ بھی کم یا زیادہ کردیا ہے ہاں ایک پیشگوئی کے وہ معنی کئے گئے ہیں جو خداتعالیٰ نے اپنے وقت پر مجھ پر کھولے ہیں او رقرآن کریم ان معنوں کے صحت کے لئے گواہ ہے اور احادیث صحیحہ بھی ان کی شہادت دیتے ہیںپھر نہ معلوم کہ اس قدر کیوں شور وغوعا ہے۔
ہاں طالب حق ایک سوال بھی اس جگہ کر سکتا ہے اور وہ یہ کہ مسیح موعود کا دعویٰ تسلیم کرنے کے لئے کون سے قرائن موجود ہیںکیوں اس مدعی کی صداقت کو ماننے کے لئے قراین تو چاہئے خصوصاً آج کل کے زمانہ میں جو مکرو فریب او ربد دیانتی سے بھرا ہوا ہے اور دعاوی باطلہ کا بازار گرم ہے۔
اس سوال کے جواب میں مجھے یہ کہنا کافی ہے کہ مندرجہ زیل امور طالب حق کے لئے بطور علامات اور قراین کے ہیں۔
(۱) اوّل وہ پیشگوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو تواتر معنوی تک پہنچ گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ خداتعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ ہر ایک صدی کے سر پر وہ ایسے شخص کو معبوث کرے گا جودین کو پھر تازہ کر دے گا اس کی کمزوریوں کا دور کرکے پھر اپنی اصلی طاقت اور قوت پر اس کو لے آئے گااس پیشگوئی کی رو سے ضرور تھا کہ کوئی شخص اس چودہویں صدی پر بھی خداتعالیٰ کی طرف سے معبوث ہوتا اور موجوہ خرابیوں کی اصلاح کے لئے درپیش قدمی دکھلاتا سو یہ عاجز عین وقت پر مامور ہوا۔ اس لئے پہلے صدہا اولیاء نے اپنے الہام سے گواہی دی تھی کہ چودہویں صدی کا مجدو مسیح ہو گا اوراحادیث صحیحہ ……پکار پکار کرکہتی ہے کہ تیرہویںصدی کے بعد ظہور مسیح ہے۔ پس کیا اس عاجز کا یہ دعویٰ اس وقت اپنے محل اور اپنے وقت پر نہیں ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ فرمودہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطا جاوے۔ میں نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ اگر فرض کیا جائے کہ چودہویں صدی کے سر پر مسیح موعود پید انہیں ہوا۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی پیشگوئیاں خطاجاتی ہیں اور صدہا بزرگوار صاحب الہام جھوٹے ٹھہرتے ہیں۔
(۲) اس بات کو بھی سوچنا چاہیئے کہ جب علماء سے یہ سوال کیا جائے کہ چودھویں صدی کا مجدد ہونے کے لئے بجز اس احقر کے اور کس نے دعویٰ کیا ہے اور کس نے منجانب اللہ آنے کی خبر دی ہے اورملہم ہونے اور مامور ہونے کا دعویٰ ملہم من اللہ اور مجدد من اللہ کے دعویٰ سے کچھ بڑا نہیں ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ جس کو یہ رتبہ حاصل ہو کہ وہ خدا تعالیٰ کا ہمکلا م ہو ۔ اس کا نام منجانب اللہ خوا ہ مثیل مسیح خوا ہ مثیل موسی ہو یہ تمام نام اس کے حق میں جائز ہیں ۔ مثیل ہونے میں کوئی اصلی فضیلت نہیں۔ اصلی اور حقیقی فضیلت ملہم من اللہ اور کلیم اللہ ہونے میںہے۔ پھر جس شخص مکالمہ الہٰیہ کی فضیلت حاصل ہوگی اور کسی خدمت دین کے لئے مامور من اللہ ہوگیا۔ تواللہ جلشانہ‘ وقت کے مناسب حال اس کا کوئی نام رکھ سکتا ہے۔ یہ نام رکھنا تو کوئی بڑی بات نہیں ۔ اسلام میں موسیٰ عیسیٰ ۔داؤد۔ سلیمان۔ یعقوب وغیرہ بہت سے نام نبیوں کے نام پر لوگ رکھ لیتے ہیں۔ اس تفادل کی نیت سے کہ ان کے اخلاق انہیں حاصل ہوجائیں۔ پھر اگر خدا تعالیٰ کسی کو اپنے مکالمہ کا شرف دے کر کسی موجودہ مصلحت کے موافق اس کا کوئی نام بھی رکھ دے۔ تو کیااس میں استبعادہے؟
اور اس زمانہ کے مجدد کا نام مسیح موعود رکھنا اس مصلحت پر مبنی معلوم ہوتا ہے کہ اس مجدد کا عظیم الشان کام عیسائیت کا غلبہ توڑنا اور ان کے حملوں کو دفع کرنا اور ان کے فلسفہ کو جو مخالف قرآن ہے۔ دلائل قویہ کے ساتھ توڑنا اور ان پر اسلام کی حجت پوری کرنا ہے کیونکہ سب سے بڑی آفت اس زمانہ میں اسلام کے لئے جو بغیر تائید الہٰی دور نہیں ہوسکتی۔ عیسائیوں کے فلسفیانہ حملے اور مذہبی نکتہ چینیاں ہیں۔ جن کے دورکرنے کے لئے ضرور تھا کہ خداتعالیٰ کی طرف سے کوئی آوے اور جیسا کہ میرے پر کشفاً کھولا گیا ہے۔ حضرت مسیح کی روح ان افتراؤں کی وجہ سے جو ان پر اس زمانہ میں کئے گئے۔ اپنے مثالی نزول کے لئے شدت جوش میں تھی اور خداتعالیٰ سے درخواست کرتی تھی کہ اس وقت مثالی طور پر اس کا نزول ہو سو خدا تعالیٰ نے اس کے جوش کے موافق اس کی مثال کو دنیا میں بھیجا تا وہ وعدہ پورا ہو جو پہلے سے کیا گیا تھا۔
یہ ایک سراسرارا الہٰیہ میں سے ہے کہ جب کسی رسول یا نبی کی شریعت اس کے فوت ہونے کے بعد بگڑ جاتی ہے اور اور اس اصل تعلیموں اور ہدایتوں کے بدلا کر بہیودہ اور بیجا باتیں اس کی طرف منسوب کی جاتی ہیں اور ناحق کا جھوٹ افتراکرکے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ تمام کفر اور بدکاری کی باتیں اس نبی نے ہی سکھلائی تھیں تواس نبی کے دل میں ان فساد اور تہمتوں کے دور کرنے کے لئے ایک اشد توجہ اور اعلیٰ درجہ کا جوش پیدا ہو جاتا ہے تب اس نبی کی روحانیت تقاضا کرتی ہے کہ کوئی قائم مقام اس کا زمین پر پید اہو۔
اب غور سے اس معرفت کے دقیقہ کو سنو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دومرتبہ یہ موقعہ پیش آیا کہ ان کی روحانیت نے قائم مقام طلب کیا اوّل جبکہ ان کے فوت ہونے پر چھ سو برس گزر گیا اور یہودیوں نے اس بات پر حد سے زیادہ اصرار کیا کہ وہ نعوذ بااللہ مکار اور کاذب تھا اور اس کا ناجائز طور پر غلو کیا کہ وہ خدا تھا اور اسی لئے وہ مصلوب ہوا اور عیسائیوں نے اس بات پر غلو کیا کہ وہ خدا تھا اور خدا کا بیٹا تھا اور دنیا کو نجات دینے کے لئے اس نے صلیب پر جان دی پس جبکہ مسیح موعود علیہ السلام کی بابرکت شان میں نابکار یہودیوں نے نہایت خلاف تہذیب جرح کی اور اوبموجب توریت کے اس آیت کے جو کتاب استفاء میں ہے کہ جو شخص صلیب پر کھینچا جائے وہ * ہوتا ہے نعوذ بااللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو * قرار دیا اور مفتری اور کاذب اور باپاک پیدائش والا ٹھہرایا اور عیسائیوں نے ان کی مدح میں اطراء کر کے ان کوخدا ہی بنا دیا اور ان پر یہ تہمت لگائی کہ یہ تعلیم انہی کی ہے تب یہ اعلام الٰہی مسیح کی روحانیت جوش میں آئی اور اس نے ان تمام الزاموں سے اپنی بریت چاہی اور خداتعالیٰ سے اپنا مقام چاہا تب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے جن کی بعثت کی اغراض کثیرہ میں سے ایک یہ بھی غرض تھی کہ ان تمام بیجا الزاموں سے مسیح موعود کا دامن پاک صاف کریں اور اس کے حق میں صداقت کی گواہی دیں کہ یہی وجہ ہے کہ خود مسیح موعود نے یوحنا کی انجیل کے ۱۶ باب میں کہا ہے کہ میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ تمہارے لئے میرا جانا ہی مفید مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جائوں تو تسلی دینے والا (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) تم پاس نہیں آئے گا پھر اگر ملیں جائوں تو اسے تم پاس بھیج دو ں گا اور وہ آکر دنیا کو گناہ سے اور راستی سے اور عدالت سے نقصیر وار ٹھہرائے گا گناہ سے اس لئے کہ وہ مجھ پر ایمان نہیں لائے راستی سے اس لئے کہ میں اپنے باپ پاس جاتا ہوں اور تم مجھے پھر نہ دیکھو گے عدالت سے اس لئے کہ اس جہان کے سردار پر حکم کیا گیا ہے جب وہ روح حق آئے گی تو تمہیں ساری سچائی کی راہ بتا دے گی اورروح حق میری بزرگی کرے گی اس لئے وہ میری چیزوں سے پائے گی (۱۴) وہ تسلی دینے والا جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب چیزیں سکھائے گا۔ لوکا ۱۴؍ میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ مجھ کو نہ دیکھو گے۔ اس وقت تک کہ تم کہو گے مبارک ہے وہ جو خدا وند کے نام پر یعنی مسیح موعود علیہ السلام کے نام پر آتا ہے۔
ان آیات میں مسیح کا یہ فقرہ کہ میں اسے تم پاس بھیج دوں گا۔ اس بات پر صاف دلالت کرتا ہے کہ مسیح کی روحانیت اس کے آنے کے لئے تقاضا کرے گی اور یہ فقرہ کہ باپ اس کو میرے نام سے بھیجے گااس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آنے والا مسیح موعود کی تمام روحانیت پائے گا اور اپنے کمالات کی ایک شاخ کے رو سے وہ مسیح ہو گا۔ جیسا کہ ایک شاخ کی رو سے وہ موسیٰ ہے۔ بات یہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء کے نام اپنے اندر جمع رکھتے ہیں۔ کیونکہ وہ وجود پاک جامع کمالات متفرقہ ہے۔ پس وہ موسیٰ بھی ہے اور عیسیٰ بھی اورآدم بھی اورابراہیم بھی اور یوسف بھی اور یعقوب بھی اسی کی طرف اللہ جل شانہ اشارہ فرماتا ہے۔ فبہدی ھم اقتدہ یعنی اے رسول اللہ تو ان تمام ہدایات متفرقہ کو اپنے وجود میں جمع کرلے۔ جو ہر ایک نبی خاص طور پر اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ پس اس سے ثابت ہے کہ تمام انبیاء کی شاخیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں شامل تھیںاور درحقیقت محمد کانام صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرف اشارہ کرتا ہے کیونکہ محمد کے یہ معنی ہیںکہ بغایت تعریف کیا گیا اور غایت درجہ کی تعریف تب ہی متصور ہو سکتی ہے کہ جب انبیاء کے تمام کمالات متفرقہ اورصفات خاصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں جمع ہوں۔ چنانچہ قرآن کریم کی بہت سی آیتیں جن اس وقت لکھنا موجب طوالت ہے اسی پر دلالت کرتی بلکہ بصراحت بتلاتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک باعتبار اپنی صفات اور کمالات کے مجموعہ انبیاء تھی اور ہر ایک نبی نے اپنے وجود کے ساتھ مناسب پاکر یہی خیال کیا کہ میرے نام پر آنے والاہے اور قرآن کریم ایک جگہ فرماتا ہے کہ سب سے زیادہ ابراہیم سے مناسبت رکھنے والا یہ نبی ہے اور بخاری میں ایک حدیث ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مسیح سے یہ شدت مناسبت ہے اور اس کے وجود سے میرا وجود ملا ہو اہے پس اس حدیث میں حضرت مسیح موعود کے اس فقرہ کی تصدیق ہے کہ وہ نبی میرے نام پر آئے گا سو ایسا ہی ہو اکہ ہمارا مسیح صلی اللہ علیہ وسلم جب آیا تو اس نے مسیح ناصری کے ناتمام کاموں کو پورا کیا اور اس کی صداقت کے لئے گواہی دی اور ان تہمتوں سے اس کو بری قرار دیا یہود اورنصاریٰ نے اس پر لگائی تھیں او رمسیح کی روح کو خوشی پہنچائی۔ یہ مسیح ناصری کی روحانیت کا پہلا جوش تھا جو ہمارے سید ہمارے مسیح خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے اپنی مراد کو پہنچا۔ فالحمداللہ۔
پھر دوسری مرتبہ مسیح کی روحانیت اس وقت جوش میں آئی کہ جب نصاریٰ میں دجالیت کی صفت اتم اور اکمل طور پر آگئی جیسا کہ لکھا ہے کہ دجال نبوت کا دعویٰ بھی کرے گا اور خدائی کا بھی ایسا ہی انہوں نے کیا نبوت کا دعویٰ اس طرح پر کیا کہ کلام الٰہی میں اپنی طرف سے وہ دخل دئیے تو وہ قواعد مرتب کئے اور وہ تنسیخ و ترمیم کی جو ایک نبی کا کلام تھا۔ جس حکم کو چاہا قائم کر دیا اور اپنی طرف سے عقائد نامے اورعبادت کے طریقے گھڑ لئے اور ایسی آزادی سے مداخلت بیجا کی کہ گویا ان باتوں کے لئے وحی الٰہی ان پر نازل ہو گئی سو الٰہی کتابوں میں اس قدر بیجا دخل دوسرے رنگ میں نبوت کادعویٰ ہے اور خدائی کا دعویٰ اس طرح پر کہ ان کے فلسفہ والوں نے یہ ارادہ کیا کہ کسی طرح تمام کام خدائی کے ہمارے قبضہ میں آجائیں۔ جیساکہ ان کے خیالات اس ارادہ پر شائد ہیں کہ وہ دن رات ان فکروں میں پڑے ہوئے ہیں کہ کسی طرح ہم بھی مینہ برسائیں اور نطفہ کو کسی آلہ میں ڈال کر اوررحم عورت میں پہنچا کر بچے بھی پید اکر لیں اور ان کاعقیدہ ہے کہ خداکی تقدیر کچھ چیز نہیں ناکامی ہماری بوجہ غلطی تدبیر تقدیر ہو جاتی ہے اور جوکچھ دنیا میں خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے وہ صرف اس وجہ سے ہے کہ پہلے زمانہ کے لوگوں کو ہر ایک چیز کی طبع اسباب معلوم نہیں تھے اور اپنے تھک جانے کی انتہاء کا نام خدا اور خدا کی تقدیر رکھا تھا اب عللہ طبیعت کا سلسلہ جب بکلی لوگوں کو معلوم ہو جائے گا تو یہ خام خیالات خود بخود ور ہو جائیں گے۔ پس دیکھنا چاہئے کہ یورپ اور امریکہ کے فلاسفروں کے یہ اقوال خدائی کا دعویٰ ہے یا کچھ اور ہے اسی وجہ سے ان فکروں میں پڑے ہوئے ہیں کہ کسی طرح مرد بھی زندہ ہوجائیں اور امریکہ میں ایک گھر وہ عیسائی فلاسفروں کا انہیں باتوں کا تجربہ کر رہا ہے اور مینہ برسانے کا کارخانہ تو شروع ہو گیا اور ان کا منشاء ہے کہ بجائے اس کے کہ لوگ مینہ کے لئے خداتعالیٰ سے دعا کریں یا استقاء کی نمازیں پڑھیں گورنمنٹ میں ایک عرضی دے دیں کہ فلاں کھیت میں مینہ برسا یا جائے اور یورپ میں یہ کوشش ہو رہی ہے کہ نطفہ رحم میں ٹھہرانے کے لئے کوئی مشکل پید ا نہ ہو اور نیز یہ بھی کہ جب چاہیں لڑکا پید ا کرلیں اور جب چاہیں لڑکی اور ایک مرد کا نطفہ لے کر اور کسی پچکاری میں رکھ کر کسی عورت کے رحم میں چڑہا دیں اور اس تدبیر سے اس کو حمل کر دیں۔ اب دیکھنا چاہئے کہ یہ خدائی پر قبضہ کرنے کی فکر ہے یا کچھ اور ہے اور یہ جو حدیثوں میں آیا ہے کہ دجال اوّل نبوت کا دعویٰ کرے گا پھر خدائی کا اگر اس کے یہ معنی لئے جائیں کہ چند روز نبوت کا دعویٰ کر کے پھر خدا بننے کا دعویٰ کرے گا تو یہ معنی صریح باطل ہیں کیونہ جو شخص نبوت کا دعویٰ کرے گا اس دعویٰ میں ضرور ہے کہ وہ خداتعالیٰ کی ہستی کا اقرار کرے اور نیز خلق اللہ کو وہ کلام سنا وے جو اس پر خداتعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے اور ایک اُمت بنادے جو اس کو ہی سمجھتی اور اس کی کتاب کو کتاب اللہ جانتی ہے اب سمجھنا چاہئے کہ ایسا دعویٰ کرنے والا اسی اُمت کے روبرو خدائی کا دعویٰ کیونکر کر سکتا ہے کیونکہ وہ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ بڑا مفتری ہے پہلے تو خداتعالیٰ کا اقرار کرتا تھا اور خداتعالیٰ کا کلام سناتا تھا اور اب اس سے انکار ہے اور اب آپ خدابنتا ہے پھر جب اوّل دفعہ تیرے ہی اقرار سے تیرا جھوٹ ثابت ہو گیا تو دوسرا دعویٰ کیونکر سچا سمجھا جائے جس نے پہلے خدا تعالیٰ کی ہستی کا اقرار کر لیا اور اپنے تئیں بندہ قرار دے دیا اور بہت سا الہام اپنا لوگوں میں شائع کر دیا کہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے وہ کیو نکر ان تمام اقرارات سے انحراف کر کے خدا ٹھہر سکتا ہے اور ایسے کذاب کو کون قبول کر سکتا ہے۔ سو یہ معنی جو ہمارے علماء لیتے ہیں بالکل فاسد ہیں صحیح معنی ہیں کہ نبوت کے دعویٰ سے مراد خل در امور نبوت اورخدائی کے دعویٰ دخل در امور خدائی ہے جیسا کہ آجکل عیسائیوں سے یہ حرکات ظہور میں آرہی ہیں ایک فرقہ ان میں سے انجیل کو ایساتوڑ مروڑ رہا ہے کہ گویا وہ نبی ہے اور پر آیتیں نازل ہو رہی ہیں اور ایک فرقہ خدائی کے کاموں میں اس قدر دخل دے رہا ہے کہ گویاخدائی کو اپنے قبضے میں کرنا چاہتا ہے۔
غرض یہ دجالیت عیسائیوں کی اس زمانہ میں کمال درجہ تک پہنچ گئی ہے اور اس کے قائم کرنے کے لئے پانی کی طرح انہوں نے اپنے مالوں کو بہادیا ہے اور کروڑ ہا مخلوقات پر بد اثر ڈالا ہے۔ تقریر سے تحریر سے مال سے عورتوں گانے سے بجانے سے تماشے دکھلانے سے ڈاکٹر کھلائے سے غرض ہر ایک پہلو سے ہر ایک طریق سے ہر ایک پیرایہ سے ہر ایک ملک پر انہوں نے اثر ڈالا ہے چنانچہ چھ کروڑ تک ایسی کتاب تالیف ہو چکی ہے جس میں یہ غرض ہے کہ دنیا میں یہ ناپاک طریق عیسیٰ پرستی کا پھیل جائے پس اس زمانہ میں دوسری مرتبہ حضرت مسیح کی روحانیت کو جوش آیا اور انہوں نے دوبارہ مثالی طور پر دنیا میں اپنا نزول چاہا اور جب ان میں مثالی نزول کے لئے اشد درجہ کی توجہ اور خواہش پید اہوئی تو خداتعالیٰ نے اس خواہش کے موافق دجال موجودہ کے نابود کرنے کے لئے ایسا شخص بھیج دیا جو ان کی روحانیت کا نمونہ تھا۔ وہ نمونہ مسیح علیہ السلام کاروپ بن کر مسیح موعود کہلایا۔ کیونکہ حقیقت عیسویہ کا اس میں حلول تھا۔ یعنی حقیقت عیسویہ اس سے متحد ہو گئے تھے اور مسیح کی روحانیت کے تقاضا سے وہ پید اہوا تھا۔ پس حقیقت عیسویہ اس میں ایسی منعکس ہو گئی جیسا کہ آئینہ میں اشکال اور چونکہ وہ نمونہ حضرت مسیح کی روحانیت کے تقاضا سے ظہور پذیر ہوا تھا۔اس لئے وہ عیسیٰ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ کیوکہ حضرت عیسیٰ کی روحانیت نے قادر مطلق غزاسمہ سے بوجہ اپنے جوش کے اپنی ایک شبیہہ چاہی اور چاہا کہ حقیقت عیسویہ اس شبیہہ میں رکھی جائے۔ تا اس شبیہہ کا نزول ہو۔ پس ایسا ہی ہو گیا۔ اس تقریر میں اس وہم کا بھی جواب ہے کہ نزول کے لئے مسیح کو کیوں مخصوص کیا گیا۔ یہ کیوں نہ کہا گیا کہ موسیٰ نازل ہو گا یا ابراہیم نازل ہو گا یا دائود نازل ہو گا۔ کیونکہ اس جگہ صاف طور پر کھل گیا کہ موجودہ فتنوں کے لحاظ سے مسیح کا نازل ہونا ہی ضروری تھا۔ کیونکہ مسیح کی ہی قوم بگڑی تھی اور مسیح کی قوم میں ہی دجالیت پھیلی تھی۔ اس لئے مسیح کی روحانیت کو ہی جوش آنا لائق تھا۔ یہ وہ دقیق معرفت ہے کہ جو کشف کے ذریعہ سے اس عاجز پرکھلی ہے اور یہ بھی کھلا کہ یوں مقدر ہے کہ ایک زمانے کے گزرنے کے بعد کہ خیر اوراصلاح اور غلبہ توحید کا زمانہ ہو گا پھر دنیا میں فساد اور شرک اور ظلم عود کرے گا اور بعض کو کیڑوں کی طرح کھائیں گے اور جاہلیت غلبہ کرے گی اور دوبارہ مسیح کی پرستش ہو جائے گی اور مخلوق کو خدابنانے کی جہالت بڑی زور سے پھیلے گی اوریہ سب فساد عیسائی مذہب سے اس آخری زمانہ کے آخری حصہ میں دنیا میں پھیلیں گے تب پھر مسیح کی روحانیت سخت جوش میں آکر جلالی طور پر اپنا نزول چاہے گی تب کہ قہری شبیہہ میں اس کا نزول ہو کر اس زمانہ کا خاتمہ ہو جائے گا تب آخر ہو گا اور دنیا کی صف لپیٹ دی جائے گی اس سے معلوم ہوا ہے کہ مسیح کی امت کی نالائق کرتوتوں کی وجہ سے مسیح کی روحانیت کے لئے یہی مقدر تھا کہ تین مرتبہ دنیا میں نازل ہو۔
اس جگہ یہ نکتہ بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت بھی اسلام کے اندورنی مفاسد کے غلبہ کے وقت ہمیشہ ظہور فرماتی رہتی ہے اورحقیقت محمدیہ کا حلول ہمیشہ کسی کامل متبع میں ہوکر جلوہ گر ہوتا ہے اور جو احادیث میں آیا ہے مہدی پید اہو گا او راس کا نام میرا ہی نام ہو گا اور اس کا خلق ہوگا۔ اگر یہ حدیثیں صحیح ہیں تو یہ معنی اسی نزول روحانیت کی طرف اشارہ ہے لیکن وہ نزول کسی خاص فرد میں محدود نہیں صدہا ایسے لوگ گزرے ہیں کہ جن میں حقیقت محمدیہ متحتق تھی اور عنداللہ ظلی طور پر ان کا نام محمد یا احمد تھا لیکن چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت مرحومہ ان فسادوں سے بفضلہ تعالیٰ محفوظ رہی ہے جو حضرت عیسیٰ کی امت کو پیش آئے اور آج تک ہزار ہا صلحا اور اتفیاس امت میں موجود ہیں کہ قحبہ دنیا کی طرف پشت دے کر بیٹھے ہوئے ہیں پنج وقت توحید کی اذان مسجد میں ایسی گونج پڑتی ہے کہ آسمان تک محمدی توحید کی شعاعیں پہنچتی ہیں پھر کون موقع تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت کو ایسا جوش آتا جیسا کہ حضرت مسیح کی روح عیسائیوں کے دل آزاد عظوں اور نفرتی کاموں اور مشترکہ تعلیموں اور نبوت میں بیجا دخلوں اور خداتعالیٰ کی ہمسری کرنے نے پید اکردیا اس زمانہ میں یہ جوش حضرت موسیٰ کی روح میں بھی اپنی امت کے لئے نہیں آسکتا تھا کیونکہ وہ تونابود ہو گئی اور اب صفحہ دنیا میں ذریت ان کی بجز چند لاکھ کے باقی نہیں اور وہ بھی ضربت علیھم الذلۃ والمسکنۃ کے مصداق اور اپنی دنیا داری کے خیالات میں غرق اور نظروں سے گرے ہوئے ہیں لیکن عیسائی قوم اس زمانہ میںچالیس کروڑ سے کچھ زیادہ ہے اور بڑے زور سے اپنے دجالی خیالات کو پھیلا رہی ہے اور صدہا پیرایوں میں اپنے شیطانی منصوبوں کو دلوں میں جاگزین کر رہی ہے بعض واعظوں کے رنگ میں پھرتے ہیں بعض گوئیے بن کر گیت گاتے ہیں بعض شاعر بن کر تثلیت کے متعلق غزلیں سناتے ہیں بعض جوگی بن کر اپنے خیالات کو شائع کرتے پھرتے ہیں بعض نے یہی خدمت لی ہے کہ دنیا کی تمام زبانوں میں اپنی محرف انجیل کا ترجمہ کر کے اور ایسا ہی دوسری کتابیں اسلا م کے مقابل پر ہر ایک زبان میں لکھ کر تقسیم کرتے پھرتے ہیں بعض تھٹیر کے پیرایہ میں اسلام کی بری تصویر لوگوں کے دلوں میں جماتے ہیں اور ان کاموں میں کروڑ ہا روپیہ ان کا خرچ ہوتا ہے اور بعض ایک فوج بناکر اور مکتی فوج اس کانام رکھ کر ملک بہ ملک پھرتے ہیں اور ایسا ہی اور کاروایئوں نے بھی جو ان کے مرد بھی کرتے ہیں اور ان کی عورتیں بھی کروڑ ہا بند گان خداکو نقصان پہنچایا ہے اور بات انتہا تک پہنچ گئی ہے۔ اس لئے ضرور تھا کہ اس زمانہ میں حضرت مسح کی روحانیت جوش میں آتی اور اپنی شبیہہ کے نزول کے لئے جو اس حقیقت سے متحد ہو تقاضا کرتی۔ سو اس عاجز کے صدق کی شناخت کے لئے ایک بڑی علامت ہے مگر ان کے لئے جو سمجھتے ہیں اسلام کے صوفی جو قبروں سے فیض طلب کرنے کے عادی ہیں اور اس بات کے بھی قائل ہیں کہ ایک فوت شدہ نبی یا ولی کی روحانیت کبھی ایک زندہ مرد خدا سے متحد ہو جاتی ہے۔ جس کو کہتے ہیں فلاں ولی موسیٰ کے قدم پر ہے اور فلاں ابراہیم کے قدم پر یا محمدی المشرب اور ابراہیمی المشرب نام رکھتے ہیں۔ وہ ضرور اس دقیقہ معرفت کی طرف توجہ کریں۔
(۳)تیسری علامت اس عاجز کے صدق کی یہ ہے کہ بعض اہل اللہ نے اس عاجز سے بہت سے سال پہلے اس عاجز کے آنے کی خبر دی ہے۔ یہاں تک کہ نام اور سکونت اور عمر کا حال تبصریح بتلایا ہے۔ جیسا کہ ’’نشان آسمانی‘‘ میں لکھ چکا ہوں۔
(۴) چوتھی علامت اس عاجز کے صدق کی یہ ہے کہ اس عاجز نے بارہاہزار کے قریب خط اور اشتہار الہامی برکات کے مقابلہ کے لئے مذاہب غیر کی طرف روانہ کئے۔ بالخصوص پادریوں میں سے شاید ایک بھی نامی پادری یورپ اور امریکہ اور ہندوستان میں باقی نہیں رہے گا۔ جس کی طرف خط رجسڑی کرکے نہ بھیجا ہو۔ مگر سب پر حق کا رعب چھا گیا۔اب جو ہماری قوم کے مُلا مولوی لوگ اس دعوت میں نکتہ چینی کرتے ہیں۔ درحقیقت یہ ان کی دو وغگوئی اور نجاست خواری ہے مجھے یہ قطعی طور بشارت دی گئی ہے کہ اگر کوئی مخالف دین میرے سامنے مقابلہ کے لئے آئے گا تو اس میں اس پر غالب ہوں گا اور وہ ذلیل ہوگا۔ پھر یہ لوگ جو مسلمان کہلاتے ہیں او ر میری نسبت شک رکھتے ہیں کیوں اس زمانہ کے پادری سے میرا مقابلہ نہیں کراتے۔ کسی پادری یا پنڈت کو کہہ دیں کہ یہ شخص درحقیقت مفتری ہے۔ اس کے ساتھ مقابلہ کرنے میں کچھ نقصان نہیں ہم ذمہ دار ہیں۔ پھر خداتعالیٰ خود فیصلہ کردے گا۔ میں اس بات پر راضی ہوں کہ جس دنیا کی جائیداد یعنی اراضی وغیرہ بطور رواثت میرے قبضہ میں آئی ہے۔ بحالت در وغگو نکلنے کے وہ سبب اس پادری یا پنڈت کو دے دوں گا۔ا گر وہ دروغگو نکلا تو بجز اس کے اسلام لانے کے میں اس سے کچھ نہیں مانگتا۔ یہ بات میں نے اپنے جی میں جزماً ٹھہرائی ہے اورتہ دل سے بیان کی ہے اور اللہ جلشانہ کی قسم کھا کر کہتاہوں کہ میں اس مقابلہ کے لئے تیار ہوں اوراشتہار دینے کے لئے مستعد بلکہ میں نے بارہ اشتہار شائع کر دیا ہے۔ بلکہ میں بلاتا بلاتا تھک گیا کوئی پنڈت پادری نیک نیتی سے سامنے نہیں آتا۔ میری سچائی کے لئے اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ میں اس مقابلہ کے لئے ہر وقت حاضر ہوںاور اگر کوئی مقابلہ پر کچھ نشان دکھلانے کا دعویٰ نہ کرے تو ایسا پنڈت یا ایسا پادری صرف اخبار کے ذریعہ سے یہ شائع کر دے کہ میں صرفر ایک طرفہ کوئی امر غارق عادت دیکھنے کو تیار ہوں اور اگر امر خارق عادت ظاہر ہو جائے اور میں اس کا مقابلہ نہ کر سکوں تو فی الفور اسلام قبول کر لوںگا تو یہ تجویز بھی مجھے منظور ہے کہ کوئی مسلمان میں سے ہمت کرے اور جس شخص کو کافر بیدین کہتے ہیں اور دجال نام رکھتے ہیں بمقابل کسی پادری کے اس امتحان کر لیں اور آپ صرف تماشا دیکھیں۔
(۵)پانچویں علامت اس جز کے صدق کی یہ ہے کہ مجھے اطلاع دی گئی کہ میں ان مسلمانوں پر بھی اپنے کشفی او ر الہامی علوم میں غالب ہوں ان کے ملہوں کو چاہئے کہ میرے مقابل پر آویں پھر اگر تائید الٰہی میں اور فیض سماوی ہیں او رآسمانی نشانوں میں مجھ پر غالب ہو جائیں تو جس کا رو سے چاہیں مجھ کو ذبح کر دیں مجھے منظور ہے اور اگر مقابلہ کی طاقت نہ ہوتو کفر کے فتوی دینے والے جو الہاماً میرے مخاطب ہیں یعنی جن کو مخاطب ہونے کے لئے الہام الٰہی مجھ کو ہو گیاہے پہلے لکھ دیں او رشائع کرا دیں کہ اگر کوئی خارق عادت امر دیکھیں تو بلا چون و چرا دعوی کو منظور کر لیں۔ میں ا س کام کے لئے بھی حاضرہوں اورمیرا خدا وند کریم میرے ساتھ ہے لیکن مجھے یہ حکم ہے کہ میں ایسا مقابلہ صرف المۃ الکفر سے کروں انہی سے مباہلہ کروں اور انہی سے اگر وہ چاہیں یہ مقابلہ کروں مگر یاد رکھنا چاہئے کہ وہ ہر گز مقابلہ نہیں کریں گے کیونکہ حقانیت کے ان کے دلوں پر دعب ہیں اور وہ اپنے اور زیادتی کو خوب جانتے ہیں وہ ہر گز مباہلہ نہیں کریں گے مگر میری طرف عنقریب کتاب وافع الوساوس میں ان کے نام اشتہار جاری ہو جائیں گے۔
رہے احادالناس کہ جو امام اور فضلاء علم کے نہیں ہیں اور نہ ان کافتویٰ ہے ان کے لئے مجھے حکم ہے کہ اگر وہ خوارق دیکھنا چاہتے ہیں تو صحبت میں رہیں۔ خداتعالیٰ غنی بے نیاز ہے جب تک کسی میں تذلل اور انکسار نہیں دیکھتا اس کی طرف توجہ نہیں فرماتا۔ لیکن وہ اس عاجز کو ضائع نہیں کرے گا اور اپنی حجت دنیاپر پوری کردے گا اورکچھ زیادہ دیر نہ ہو گی کہ وہ اپنے نشان دکھلادے گا۔ لیکن مبارک وہ جو نشانوں سے پہلے قبول کر گئے۔ وہ خداتعالیٰ کے پیارے بندے ہیں او روہ صادق ہیں جن میں دغا نہیں۔ نشانوں کے مانگنے والے حسرت سے اپنے ہاتھوں کو کاٹیں گے کہ ہم کو رضائے الٰہی اور اس کی خوشنودی حاصل نہ ہوئی جوا ن بزرگ لوگوں کو ہوئی جنہوں نے قرائن سے قبول کیا اور کوئی نشان نہیں مانگا۔
سو یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ خداتعالیٰ اپنے اس سلسلہ کو بے ثبوت نہیں چھوڑے گا۔ وہ خود فرماتا ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے کہ :۔
دنیا میں ایک نذیر آیا۔ ہر دنیا نے ا س کو قبول نہ کیا۔ لیکن خدااسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کرے گا۔ جن لوگوں نے انکار کیا اور جو انکار کے لئے مستعد ہیں۔ ان کے لئے ذلت اور خواری مقدر ہے۔ انہوںنے یہ بھی سوچا کہ اگر یہ انسان کا افرا ہوتا تو کب کا ضائع ہوجاتا۔ کیونکہ خداتعالیٰ مفتری کا ایسا دشمن ہے کہ دنیا میں ایسا کسی کا دشمن نہیں۔ وہ بے وقوف یہ بھی خیال نہیں کرتے کہ کیا یہ استقامت اور جرات کسی کذاب میں ہو سکتی ہے۔ وہ نادان یہ بھی نہیں جانتے کہ جو شخص ایک غیبی پناہ سے بول رہا ہے وہ اس بات سے مخصوص ہے کہ اس کے کلام میں شوکت اور بیعت ہو اور یہ اسی کا جگر اور دل ہوتا ہے کہ ایک فرد تمام جہاں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جائے۔ یقینا منتظر رہو کہ وہ دن آتے ہیں بلکہ نزدیک ہیں کہ دشمن رو سیاہ ہو گا اور دوست نہایت ہی بشاش ہوں گے کون ہے دوست؟ وہی جس نے نشان دیکھنے سے پہلے مجھے قبول کیا اور جس نے اپنی جان اور مال اور عزت کو ایسا فدا کردیا ہے کہ گویا اس نے ہزاروں نشان دیکھ لئے ہیں۔ سو یہی میری جماعت ہے اور میرے ہیں جنہوں نے مجھے اکیلا پایا اور میری مدد کی اور مجھے غمگین دیکھا اورمیرے غمخوار ہوئے اور ناشنا سا ہو کر آشنائوں کا ادب بجا لائے۔ خداتعالیٰ کی ان پر رحمت ہو۔اگر نشانوں کے دیکھنے کے بعد کوئی کھلی صداقت کو مان لے گا تو مجھے کیا اور اس کو اجر کیا اور حضرت عزت میں اس کی عزت کیا۔ مجھے درحقیقت انہوں نے ہی قبول کیا ہے۔ جنہوں نے دقیق نظر سے مجھ کو دیکھا اور فراست سے میری باتوں ک وزن کیا اور میرے حالات کو جانچا اور میرے کلام کو سنا اور اس میں غور کی تب اسی قدر قرائن سے حق تعالیٰ نے ان کے سینوں کو کھول دیا اور میرے ساتھ ہوگئے۔ میرے ساتھ وہی ہے۔ جو میری مرضی کے لئے اپنی مرضی کو چھوڑتا ہے اوراپنے نفس کے ترک اور اخذ کے لئے مجھے حکم بتاتا ہے اور میری راہ پر چلتا ہے اوراطاعت میں فانی ہے اور امانیت کی جلد سے باہر آگیا ہے۔ مجھے آہ کھینچ کر یہ کہنا پڑتاہے کہ کھلے نشانوں کے طالب وہ تحسین کے لائق خطاب اورعزت کے لائق مرتبے خداوند کی جناب میں نہیں پا سکتے۔ جو ان راستبازوں کو ملیں گے۔ جنہوں نے چھپے ہوئے بھید کو پہنچان لیا اورجو اللہ جلشانہ کی چادر کے تحت میں ایک چھپا ہو ا بندہ تھا ۔ اس کی خوشبو ان کو آگئی۔ انسان کا اس میں کیا کمال ہے کہ مثلاً ایک شہزادہ کو اپنی فوج اور جاہ جلال میں دیکھ کر پھر اس کو سلام کر ے باکمال وہ آدمی ہے جو گدائوں کے پیرایہ میں اس کوپاوے اور شناخت کر لے۔ مگر میرے اختیار میں نہیں کہ یہ زیرکی کسی کو دوں ایک ہی ہے جو دیتا ہے۔ وہ جس کو عزیز رکھتا ہو ایمانی فراست اس کو عطا کرتا ہے۔ انہیں باتوں سے ہدایت پانے والے ہدایت پاتے ہیں اور یہی باتیں ان کے لئے جن کے دلوں میں کجی ہے۔ زیادہ تر کجی کا موجب ہو جاتی ہیں۔ اب میں جانتا ہوں کہ نشانوں کے بارہ میں بہت کچھ لکھ چکا ہوں اور خداتعالیٰ جانتا ہے کہ یہ بات صحیح اور راست ہے کہ اب تک تین ہزار کے قریب یا کچھ زیادہ وہ امور میرے لئے خداتعالیٰ سے صادر ہوئے ہیں۔ جو انسانی طاقتوں سے بالا تر ہیں اور آیندہ ان کا دروازہ بند نہیں۔ ان نشانوں کے لئے ادنیٰ ادنیٰ میعادوں کا ذکر کرنا یہ ادب سے دور ہے۔ خداتعالیٰ غنی بے نیاز ہے جب مکہ کے کافر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے تھے کہ نشان کب ظاہر ہوں گے تو خداتعالیٰ نے کبھی یہ جواب نہ دیا کہ فلاں تاریخ نشان ظاہر ہوں گے۔ کیونکہ یہ سوال ہی بے ادبی سے پر تھا اور گستاخی سے بھرا ہوا تھا۔ انسان اس نابکار اور بے بنیاد دنیا کے لئے سالہا سال انتظاروں میں وقت خرچ کردیتا ہے۔ ایک امتحان دینے میں کئی برسوں سے تیاری کرتا ہے۔ وہ عمارتیں شروع کرا دیتا ہے جوبرسوں میں ختم ہوں۔ وہ وپودے باغ میں لگاتا ہے۔ جن کا پھل کھانے کے لئے ایک دور زمانہ تک انتظار کرنا ضروری ہے پھر خداتعالیٰ کی راہ میں کیوں جلدی کرتا ہے۔ اس کا باعث بجز اس کے کچھ نہیں کہ دین کو ایک کھیل سمجھ رکھا ہے انسان خداتعالیٰ سے نشان طلب کرتا ہے اوراپنے دل میں مقرر نہیں کر تا کہ نشان دیکھنے کے بعد اس کی راہ میں کونسی جانفشانی کروں گا اور کس قدر دنیا کو چھوڑ دوں گا اورکہاں تک خدا تعالیٰ کے مامور بندے کے پیچھے ہوچلوں گا۔ بلکہ غافل انسان ایک تماشا کی طرح سمجھتا ہے حواریوں نے حضرت مسیح سے نشان مانگا تھا کہ ہمارے لئے مائدہ اترے تابعض شبہات ہمارے جو آپ کی نسبت ہیں دور ہو جائیں۔ پس اللہ جلشانہ قرآن کریم میں حکایتاً حضرت عیسیٰ کو فرماتا ہے کہ ان کو کہہ دے کہ میں اس نشان کو ظاہرکروں گا۔ لیکن پھر اگر کوئی شخص مجھ کو ایسا نہیں مانے گا کہ جو حق ماننے کا ہے۔ تو میں اس پر وہ عذاب نازل کروں گا جو آج تک کسی پر نہ کیا ہو گا۔ تب حواری اس بات کو سن کر نشان مانگنے سے تائب ہو گئے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ جس قوم پر ہم نے عذاب نازل کیا ہے نشان دکھلانے کے بعد کیا ہے اور قرآن کریم میں کئی جگہ فرماتا ہے کہ نشان نازل ہونا عذاب نازل ہونے کی تہمید ہے۔ وجہ یہ کہ جو شخص نشان مانگتا ہے اس پر فرض ہو جاتا ہے کہ نشان دیکھنے کے بعد یک لخت دینا سے دست بردار ہو جائے اور فقیرانہ دلق پہن لے او رخداتعالیٰ کی حکمت اور ہیبت دیکھ کر اس کا حق اد اکرے۔ لیکن چو نکہ غافل انسان اس درجہ کی فرمابراداری کر نہیں سکتا۔ اس لئے شرطی طور پر نشان دیکھنا اس کے حق میں وبال ہو جاتا ہے۔ کیونکہ نشان کے بعد خداتعالیٰ کی حجت اس پر پوری ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر پھر کامل اطاعت کے بجالانے میں کچھ کسر رکھے تو غضب الٰہی مستولی ہوتا ہے اور اس کا نابود کر دیتاہے۔
تیسرا سوال آپ کا استخارہ کے لئے ہیں جو درحقیقت استخبارہ ہے۔ پس آپ پر واضح ہو کہ جو مشکلات آپ نے تحریر فرمائی ہیں۔ درحقیقت استخارہ میں ایسی مشکلات نہیں ہیں۔ میری مراد میری تحریر میں صرف اس قدر ہے کہ استخارہ ایسی حالت میں ہو کہ جب جذبات محبت اور جذبات عداوت کسی تحریک کی وجہ سے جوش میں نہ ہوں۔ مثلاً ایک شخص کسی شخص سے عداوت رکھتا ہے اورغصہ اور عداوت کے اشتعال میں سو گیا ہے۔ تب وہ شخص اس کا دشمن ہے۔ اس کو خواب میں کتے یاسور کی شکل میں نظر آیا ہے یا کسی اور درندہ کی شکل میں دکھائی دیا ہے۔ تو وہ خیال کرتا ہے کہ شائد درحقیقت یہ شخص عنداللہ کتا یا سو ر ہی ہے۔ لیکن یہ خیال اس کا غلط ہے۔ کیونکہ جوش عداوت میں جب دشمن خواب میں نظر آئے تو اکثر درندوں کی شکل میں یا سانپ کی شکل میں نظر آتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ درحقیقت وہ بد آدمی ہے کہ جو ایسی شکل میں ظاہر ہوا ایک غلطی ہے بلکہ چونکہ دیکھنے والے کی طبیعت اور خیال میں وہ درندوں کی طرح تھا۔ اس لئے خواب میں درندہ ہو کر اس کو دکھائی دیا۔ سو میرا مطلب یہ ہے کہ خواب دیکھنے والا جذبات نفس سے خالی ہو اور ایک آرام یا فتہ اور سراسر روبحق دل سے محض اظہار حق کی غرض سے استخارہ کرے۔ میں یہ عہد نہیں کر سکتاکہ ہر ایک شخص کو ہر ایک حالت نیک یا بد میں ضرور خواب آجائے گی۔ لیکن آپ کی نسبت میں کہتا ہوں کہ اگر چالیس روز تک روبحق ہو کر بشرائط مندرجہ آسمانی استخارہ کریں تو میں آپ کے لئے دعاکروں گا۔ کیا خوب ہو کہ یہ استخارہ میرے روبرو ہو۔تا میری توجہ زیادہ ہو۔ آپ پر کچھ بھی مشکل نہیں۔ لوگ معمولی اور نفلی طور پر حج کرنے کو بھی جاتے ہیں۔ مگر اس جگہ نفلی حج سے ثواب زیادہ ہے اور غافل رہنے میں نقصان اور خطرہ۔ کیونکہ سلسلہ آسمانی ہے اور حکم ربانی۔
سچی خواب اپنی سچائی کے آثار آپ ظاہر کردیتی ہے اوردل پر ایک نور کااثر ڈالتی ہے اور میخ آہنی کی طرح اندر کھب جاتی ہے اوردل اس کو قبول کرلیتا ہے اور اس کی نورانیت اور ہیبت بال بال پر طاری ہوجاتی ہے۔ میں آپ سے عہد کرتا ہوں کہ اگر آپ میرے روبرو میری ہدایت اور تعلیم کے موافق اس کار میں مشغول ہوں تو آپ کے لئے بہت کوشش کروں گا۔ کیونکہ میرا خیال آپ کی نسبت بہت نیک ہے اور خداتعالیٰ سے چاہتا ہوں کہ آپ کو ضائع نہ کرے اور رشد اور سعادت میں ترقی دے۔ اب میں نے آپ کا بہت وقت لے لیا۔ ختم کرتا ہوں۔ والسلام ۔ علیٰ من اتبع الہدیٰ۔
آپ کا مکرر خط پڑھ کر ایک کچھ زیادہ تفصیل کی محتاج معلوم ہوئی اور یہ ہے کہ استخارہ کے لئے ایسی دعاکی جائے کہ ہر ایک شخص کا استخارہ شیطان کے دخل سے محفوظ ہو۔ عزیز من یہ بات خداتعالیٰ کے قانون قدرت کے برخلاف ہے کہ وہ شیاطین کو ان کے مواضع مناسبت سے معطل کر دیوے۔ اللہ جلشانہ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ وما ارسلنا من رسول ولا نبی الا اذا تمنی القی الشیطن فی امنیۃ فینسخ اللہ مایلقی الشیطان ثم یحکم اللہ ایۃواللہ علیھم الحکیمیعنی ہم نے کوئی ایسا رسول اور نبی نہیں بھیجا کہ اس کی یہ حالت نہ ہو کہ جب وہ کوئی تمنا کرے۔ یعنی اپنے نفس سے کوئی بات چاہے تو شیطان اس کی خواہش میں کچھ نہ ملاوے۔ یعنی جب کوئی رسول نہ کوئی نبی اپنے نفس کے جوش سے کسی بات کو چاہتا ہے تو شیطان اس میں بھی دخل دیتا ہے۔ تب وحی متلو جو شوکت اور ہبیت اور روشنی نام رکھتی ہے۔ اس دخل کو اٹھا دیتی ہے اور منشاء الٰہی کو مصفا کرکے دکھلا دیتی ہے۔ یہ بات اس کی طرف اشارہ ہے کہ نبی کے دل میںجو خیالات اٹھتے ہیں اور جو کچھ خواطر اس کے نفس میں پید اہوتی ہے۔ وماینطق عن الھویٰ ان ھو الاوحی یوحیٰ لیکن قرآن کی وحی دوسری وحی سے جو صرف منجانب اللہ ہوتی ہیں تمیز کلی رکھتی ہے اور نبی کے اپنے تمام اقوال وحی غیر متلّو میں داخل ہوتے ہیں۔ کیونکہ روح القدس کی برکت اور چمک ہمیشہ نبی کے شامل حال رہتی ہے اور ہر ایک بات اس کی برکت سے بھری ہوئی ہوتی ہے اور وہ برکت روح القدس سے اس کلام میں رکھی جاتی ہے۔ لہذا ہر ایک جو نبی کی توجہ نام سے اور اس کے خیال کی پوری مصروفیت سے اس کے منہ سے نکلتی ہے۔ وہ بلا شبہ وحی ہوتی ہے۔ تمام احادیث اسی درجہ کی وحی میں داخل ہیں۔ جن کو غیر متلوو حی ہوتی ہے۔ اب اللہ جلشانہ‘ آیت موصوفہ ممدوحہ میں فرماتا ہے کہ اس ادنی درجہ کی وحی جو حدیث کہلاتی ہے۔ بعض صورتوں میں شیطان کا دخل بھی ہوجاتا ہے اور وہ اس وقت کہ جب نبی کا نفس ایک بات کے لئے تمنّا کرتا ہے تو اس کا اجتہاد غلطی کرجاتا ہے اور نبی کی اجتہادی غلطی بھی درحقیقت وحی کی غلطی ہے کیونکہ نبی تو کسی حالت میں وحی سے خالی نہیں ہوتا۔ وہ اپنے نفس سے کھویا جاتا ہے اور خداتعالیٰ کے ہاتھ میں ایک اٰ لہ کی طرح ہوتا ہے۔ پس چونکہ ہر ایک بات جو اس کے منہ سے نکلتی ہے وحی کہلائے گی نہ اجتہاد کی اب خدا تعالیٰ اس کا جواب قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ کبھی نبی کی اس قسم کی وحی جس کو دوسرے لفظوں میں اجتہادی بھی کہتے ہیں مس شیطان سے مخلوط ہوجاتی ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے کہ جب بنی کوئی تمنّا کرتا ہے کہ یوں ہوجائے۔ تب ایساہی خیال اس کے دل میں گزرتا ہے۔ جس پر نبی مستقل رائے قائم کرنے کے لئے ارادہ کرلیتا ہے تب فی الفور وحی اکبر جو کلام الہیٰ اور وحی متلوّ شیطان کی دخل سے بکلی منزّہ ہوتی ہے کیونکہ وہ سخت ہیبت اور شوکت اور روشنی اپنے اندر رکھتی ہے اور قول ثقیل اور شدید النزول بھی ہے اور اس کی تیز شعائیں شیطان کو جلاتی ہے ۔ اس لئے شیطان اس کے نام سے دور بھاگتا ہے اور نزدیک نہیں آسکتااور نزدیک ملائک کی کامل محافظت اس کے ارد گرد ہوتی ہے لیکن وحی غیر متلوّ جس نبی کا اجتہاد بھی داخل ہے یہ قوت نہیں رکھتی ۔ اس لئے تمنّا کے وقت جو کھبی شاذ و نادر اجتہاد ک سلسلہ میں پیدا ہو جاتی ہے ۔ شیطان بنی یا رسول کے اجتہاد میں دخل دیتا ہے۔ پھر وحی متلوّ اس دخل کو اٹھادیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء کے بعض اجتہادات میں غلطی بھی ہوگئی ہے ۔ جو بعد میں رفع کی گئی۔
اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ جس حالت میں خدا تعالیٰ کا یہ قانون قدرت ہے کہ بنی بلکہ رسول کی ایک قسم کی وحی میں بھی جو وحی غیر متلّوہے۔ شیطان کا دخل بموجب قرآن کی تصریح کے ہوسکتا ہے تو پھر کسی دوسرے شخص کو کب یہ حق پہنچتا ہے کہ اس قانون قدرت کی تبدیلی کی درخواست کرے۔ ماسواس کے صفائی اور راستی خواب کی اپنی پاک باطنی اور سچائی اور طہارت پر موقوف ہے۔ ہی قدیم قانون قدرت ہے جو اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت ہم تک پہنچا ہے کہ سچی خوابوں کے لئے ضرور ہے کہ بیداری بیداری کی حالت میں انسان ہمیشہ سچا اور خدا تعالیٰ کے لئے راستبازہو اور کچھ شک نہیں کہ جو شخص اس قانون پر چلے گا اور اپنے دل کو راست گوئی اور راست روی اور راست منشیٰ کا پورا پابند کرلے گا۔ تواس کی خوابیں سچی ہوں گی۔ اللہ جل شانہ‘ فرماتا ہے قَد اَفلَحَ مَن زَکَّھَا یعنی جو شخص باطل خیالات اور باطل نیات اور باطل اعمال اور باطل عقائد سے اپنے نفس کو پاک کر لیوے۔ وہ شیطان کی بند سے رہائی پاجائے گا۔ آخرت میں عقو بات اخروی سے رستگار ہوگا اور شیطان اس پر غالب نہیں آسکے گا۔ ایسا ہی ایک دوسری جگہ فرماتا ہے انّ عبادی لیس لک علیھم سلطا یعنی اے شیطان میرے بندے جو ہیں جنہوں نے میری مرضی کی راہوں پر قدم مارا ہے۔ ان پر تیرا تسلط نہیں ہوسکتا۔ سوجب تک انسان تمام کجیوں اورنالائق خیالات اور بہیودہ طریقوں کو چھوڑ کر صرف آستانہ الٰہی پر گرا ہوا نہ ہوجائے۔ جب تک وہ شیطان کی کسی عادت سے مناسبت رکھتا ہے اور شیطان مناسبت کی وجہ سے اس کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس پر دوڑتا ہے۔
اورجب کہ یہ حالت ہے تو میں الٰہی قانون قدرت کے مخالف کون سی تدبیر کرسکتا ہوں کہ کسی سے شیطان اس کے خواب میں دور رہے۔ جو شخص ان راہوں پر چلے گا جو رحمانی راہیں ہیں خود شیطان شیطان اس سے دور رہے گا۔
اب اگر یہ سوال ہو کہ جبکہ شیطان کے دخل سے بکلی امن نہیں تو ہم کیوں کر اپنی خوابوں پر بھروسہ کرلیں کہ وہ رحمانی ہیں۔ کیا ممکن نہیں کہ ایک خواب کو ہم روحانی سمجھیں اور در اصل وہ شیطانی ہو اور یا شیطانی خیال کریں اور دراصل وہ رحمانی ہو توا س وہم کا جواب یہ ہے کہ رحمانی خواب اپنی شوکت اور برکت اور عظمت اور نورانیت سے خود معلوم ہو جاتی ہے۔ جو چیز پاک چشمہ سے نکلی ہے وہ پاکیزگی اور خوشبو اپنے اندر رکھتی ہے اور چیز ناپاک اور گندے پانی سے نکلی ہے اس کا گند اور اس کی بدبو فی الفور آجاتی ہے۔ سچی خوابیں جو خداتعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں۔ وہ ایک پاک پیغام کی طرح ہوتی ہیں۔ جن کے ساتھ پریشان خیالات کا کوئی مجموعہ نہیں ہوتا اور اپنے اندر ایک اثر ڈالنے والی قوت رکھتے ہیں اور دل ان کی طرف کھینچے جاتے ہیں اور روح گواہی دیتی ہے کہ یہ منجانب اللہ ہے کیونکہ اس کی عظمت اور شوکت ایک فولادی میخ کی طرح دل کے اندر دھس جاتی ہے اور بسااوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص سچی خواب دیکھتا ہے اور خداتعالیٰ اس کے کوئی ہمشکل دکھلاتا ہے۔ تب اس خواب کو دوسرے کی خواب سے قوت مل جاتی ہے۔ سو بہتر ہے کہ آپ کسی اپنے دوست کو رفیق خواب کر لیں جو صلاحیت اور تقویٰ رکھتا ہو اور اس کا کہہ دیں کہ جب کوئی خواب دیکھے لکھ کر دکھلا دے اور آپ بھی لکھ کر دکھلا دیں۔ تب امید ہے کہ اگر سچی خواب آئے گی تو ا س کے کئی اجزاء آپ کی خواب میں اور اس رفیق کی خواب میں مشترک ہوں گے اورایسا اشتراک ہو گا کہ آپ تعجب کریں گے افسوس کہ اگر میرے روبرو آپ ایساارادہ کرسکتے ہیں تو میں غالب امید رکھتا تھا کہ کچھ عجوبہ قدرت ظاہر ہوتا میری حالت ایک عجیب حالت ہے۔ بعض دن ایسے گزرتے ہیں کہ الہامات الٰہی بارش کی طرح برستے ہیں اور بعض پیشگوئیاں ایسی ہوتی ہیں کہ ایک منٹ کے اندر ہی پوری ہو جاتی ہیں اور بعض مدت دراز کے بعد پوری ہوتی ہیں۔ صحبت میں رہنے والا محروم نہیں رہ سکتا۔ کچھ نہ کچھ تائید الٰہی دیکھ لیتا ہے۔ جو اس کی باریک بین نظر کے لئے کافی ہوتی ہے۔ اب میں متواتر دیکھتا ہوں کہ کوئی امر ہونے والا ہے۔ میں قطعاً نہیں کہہ سکتا کہ وہ جلد یا دیر سے ہو گا۔ مگر آسمان پر کچھ تیاری ہورہی ہے۔ تاخداتعالیٰ بدظنوں کو ملزم اور رسوا کرے۔ کوئی دن یا رات کم گزرتی ہے۔ جو مجھ کو اطمینان نہیں دیا جاتا۔ یہی خط لکھتے لکھتے یہ الہام ہوا۔ الحی الحق ویکشف الصدق ویخسر الخاسرون یاتی قمر الانبیاء وامرک بتائی ان ربک فعال لما یرید یعنی حق ظاہر ہو گا اور صدق کھل جائے گا اور جنہوں نے بدظنیوں سے زیان اٹھایا وہ ذلت اوررسوائی کا زیان بھی اٹھائیں گے۔ نبیوں کا چاند آئے گا اور تیرا کام ظاہر ہو جائے گا۔ تیرا رب جو چاہتا ہے کہ کرتا ہے مگر میں نہیں جانتا کہ یہ کب ہوگا اور جو شخص جلدی کرتا ہے۔ خداتعالیٰ کو اس کی ایک ذرہ بھی پرواہ نہیں وہ غنی ہے دوسرے کا محتاج نہیں۔ اپنے کاموں کو حکمت اور مصلحت سے کرتا ہے اورہر ایک شخص کی آزمائش کر کے پیچھے سے اپنی تائید دکھلاتا ہے کہ پہلے نشان ظاہر ہوتے تو صحابہ کبار اور اہل بیت کے ایمان اور دوسرے لوگوں کے ایمانوں میں فرق کیا ہوتا۔ خداتعالیٰ اپنے عزیزوں اور پیاروں کی عزت ظاہر کرنے کے لئے نشان دکھلانے میں کچھ توقف ڈال دیتا ہے۔ تا لوگوں پر ظاہر ہو کہ خداتعالیٰ کے خاص بندے نشانوں کے محتاج نہیں ہوتے اور تا ان کی فراست اور دوربینی سب پر ظاہر ہو جائے اور ان کے مرتبہ عالیہ میں کسی کا کلام نہ ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بہتر آدمی اوائل میں اس بد خیال سے پھر گئے اور مرتد ہو گئے کہ آپ نے ان کو کوئی نشان نہیں دکھلاتا۔ ان میں سے بار ہ قائم رہے اور بارہ میں سے پھر ایک مرتد ہو گیا اور جو قائم رہے انہوںنے آخر میں بہت سے نشان دیکھے اور عنداللہ صادق شمار ہوئے۔
مکرر میں آپ کو کہتاہوں کہ اگر آپ چالیس روز تک میری صحبت میں آجائیں تو مجھے یقین ہے کہ میرے قرب وجوار کا اثر آپ پر پڑے اور اگرچہ میں عہد کے طور پر نہیں کہہ سکتا۔ مگر میرا دل شہادت دیتا ہے کہ کچھ ظاہر ہو گا جو آپ کو کھینچ کر یقین کی طرف لے جائے گا اور میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ کچھ ہونے والا ہے۔ مگر ابھی خداتعالیٰ اپنی سنت قدیمہ سے دو گروہ بنانا چاہتا ہے۔اگر ایک وہ گروہ جو نیک ظنی کی برکت سے میری طرف آتے جاتے ہیں۔ دوسرے وہ گروہ جو بد ظنی کی شامت سے مجھ سے دور پڑتے جاتے ہیں۔
میں نے آپ کے اس بیان کو افسوس کے ساتھ پڑھا جو آپ فرماتے ہیں کہ مجرو قیل وقال سے فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ میں آپ کو ازراہ تو دودو مہربانی و رحم اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اکثر فیصلے دنیا میں قیل و قال سے ہی ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ صرف باتوں کے ثبوت یا عدم ثبوت کے لحاظ سے ایک شخص کو عدالت نہایت اطمینان کے ساتھ پھانسی دے سکتی ہے اور ایک شخص کو تہمت خون سے بری کر سکتی ہے۔ واقعات کے ثبوت یا عدم ثبوت پر تمام مقدمات فیصلہ پاتے ہیں۔ کسی فریق سے یہ سوال نہیں ہوتاکہ کوئی آسمانی نشان دکھلاوے۔ تب ڈگری ہو گی یا فقط اس صورت میں مقدمہ ڈسمس ہوگا کہ جب مدعا علیہ سے کوئی کرامت ظہور میں آوے بلکہ اگر کوئی مدعی بجائے واقعات کے ثابت کرنے کے ایک سوٹی کا سانپ بنا کر دکھلا دیوے یا ایک کاغذ کا کبوتر بنا کر عدالت میں اڑ دے تو کوئی حاکم صرف ان وجوہات کی رو سے اس کو ڈگری نہیں دے سکتا۔ جب تک باقاعدہ صحت دعویٰ ثابت نہ ہو اور واقعات پرکھے نہ جائیں۔ پس جس حالت میں واقعات کا پرکھنا ضروری ہے اور میر ایہ بیان ہے کہ میرے تمام دعاوی قرآن کریم اور احادیث نبویہ اور اولیاء گزشتہ کی پیشگوئیوں سے ثابت ہیں اور جو کچھ میری مخالف تاویلات سے اصل مسیح کو دوبارہ دنیا میں نازل کرنا چاہتے ہیں نہ صرف عدم ثبوت کا داغ ان پر ہے۔ بلکہ یہ خیال بہ بداہت قرآن کریم کی نصوص بینہ سے مخالف پڑا ہوا ہے اور اس کے ہرایک پہلو میں ا س قدر مفاسد ہیں اور اس قدر خرابیاں ہیں کہ ممکن نہیں کہ کوئی شخص ان سب کو اپنی نظر کے سامنے رکھ کر پھر اس کو بدیہی البطلان نہ کہہ سکے۔ تو پھر ان حقائق اور معارف اور دلائل اوربراہین کو کیونکر فضول قیل و قال کہہ سکتے ہیں۔ قرآن کریم بھی تو بظاہر قیل وقال ہی ہے جو عظیم الشان معجزہ اور تمام معجزات سے بڑھ کر ہے۔ معقولی ثبوت تو اوّل درجہ پر ضروری ہوئے ہیں۔ بغیر اس کے نشان ہیچ ہیں۔ یاد رہے کہ جن ثبوتوں پر مدعا علیہ کو عدالتوں میں سزائے موت دی جاتی ہے وہ ثبوت ا ن ثبوتوں سے کچھ بڑھ کرنہیں ہیں۔ جو قرآن اور حدیث اور اقوال اکابر او راولیاء کرام سے میرے پاس موجود ہیں۔ مگر غور سے دیکھنا اور مجھ سے سننا شرط ہے۔
میں نے ان ثبوتوں کو صفائی کے ساتھ کتاب آئینہ کمالات اسلام میں لکھا ہے اور کھول کر دکھلاتا ہے کہ جو لوگ اس انتظار میں اپنی عمر او ر وقت کو کھوتے ہیںکہ حضرت مسیح پھر اپنے خاکی قالب کے ساتھ دنیامیں آئیں گے وہ کس قدر منشاء کلام الٰہی سے دور جا پڑے ہیںاور کیسے چاروں طرف کے فسادوں او رخرابیوں نے ان کو گھیر لیا ہے۔ میں نے ا س کتاب میں ثابت کر دیا ہے مسیح موعود کا قرآن کریم میں ذکر ہے اور دجال کا بھی۔ لیکن جس طرز سے قرآن کریم میں یہ بیان فرماتا ہے وہ جبھی صحیح اور درست ہو گا جب مسیح موعود سے مراد کوئی مثیل مسیح لیا جائے جو اسی امت میں پید اہو اور نیز دجال سے مراد ایک گروہ لیا جائے او ردجال خود گروہ کو کہتے ہیں بلاشبہ ہمارے مخالفوں نے بڑی ذلت پہنچانے والی غلطی اپنے لئے اختیار کی ہے گویا قرآن اورحدیث کو یک طرف چھوڑ دیا ہے۔ وہ اپنی نہایت درجہ کی بلاہت سے اپنی غلطی پر متنبہ نہیں ہوتے اور اپنے موٹے اور سطحی خیالات پر مغرور ہیں۔ مگر ان کو شرمندہ کرنے والا وقت نزدیک آتا جاتا ہے۔
میں انہیں جانتا کہ میرے اس خط کا آپ کے دل پر کیا اثر پڑے گا۔ مگر میں نے ایک واقعی نقشہ آپ کے سامنے کھینچ کر دکھلا دیا ہے۔ ملاقات نہایت ضروری ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ جس طرح ہو سکے ۲۷؍ دسمبر ۱۹۹۲ء کے جلسہ میں تشریف لاویں۔ انشاء اللہ القدیر آپ کے لئے بہت مفید ہو گا اور للہ سفر کیا جاتا ہے۔ وہ عنداللہ ایک قسم عبادت کے ہوتا ہے۔ اب دعا پر ختم کر تاہوں۔ ایدکم اللہ من عندہ ورحمکم فی الدنیا والاخیر۔
والسلام
غلام احمد از قادیان
ضلع گورداسپور
۱۰؍ دسمبر ۱۸۹۲ء
نوٹ:۔ اس خط کو کم سے کم تین مرتبہ غور سے پڑھیں۔ یہ خط اگرچہ بظاہر آپ کے نام ہے اس بہت سی عبارتیں دوسروں کے اوہام دور کرنے کے لئے ہیں۔ گو آپ ہی مخاطب ہیں۔
مکتوب نمبر(۷)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم نواب صاحب سردار محمد علی خاں صاحب سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کاعنایت نامہ مجھ کو آج کی ڈاک میں ملا۔ آتھم کے زندہ رہنے کے بارے میں میرے دوستوں کے بہت خط آئے۔ لیکن یہ پہلا خط ہے جو تذبذب او رتردد اور شک اور سو ظن سے بھر اہوا تھا ایسے ابتلاء کے موقعہ پر جو لوگ اصل حقیقت سے بے خبر تھے جس ثابت قدمی سے اکثر دوستوں نے خط بھیجے ہیں تعجب میں ہوں کہ کس قدر سوز یقین کا خداتعالیٰ نے ان کے دلوں میں ڈال دیا اوربعض نے ایسے موقعہ پر نئے سرے کی اس نیت سے تا ہمیں زیادہ ثواب ہو( ان سے دوبارہ بیعت کرنے والوں میں چودہری رستم علی رضی اللہ عنہ کا نام مجھے معلوم ہے۔ عرفانی) بہرحال آپ کا خط پڑھنے سے اگرچہ آپ کے ان الفاظ سے بہت رنج ہوا۔ جن کے استعمال کی نسبت ہرگز امید نہ تھی۔ لیکن چونکہ دلوں پر اللہ جل شانہ کا تصرف ہے اس لئے سوچا کہ کسی وقت اگر اللہ جلشانہ نے چاہا تو آپ کے لئے دعا کی ہے۔ نہایت مشکل یہ ہے کہ آپ کو اتفاق ملاقات کا کم ہوتا ہے اور دوست اکثر آمد ورفت رکھتے ہیں۔ کتنے مہینوں سے ایک جماعت میر ے پا س رہتی ہے۔ جو کبھی پچاس کبھی ساٹھ اور کبھی سو سے بھی زیادہ ہوتے ہیںا ورمعارف سے اطلاع پاتے رہتے ہیں اور آپ کا خط کبھی خواب خیال کی طرح آجاتا ہے اور اکثر نہیں۔
اب آپ کے سوال کی طرف توجہ کر کے لکھا ہوں کہ جس طرح آپ سمجھتے ہیں کہ ایسا نہیں بلکہ درحقیقت یہ فتح عظیم ہے۔ مجھے خداتعالیٰ نے بتلایا ہے کہ عبداللہ آتھم نے حق کی عظمت قبول کر لی اور سچائی کی طرف رجوع کرنے کی وجہ سے سزائے موت سے بچ گیا ہے اور اس کی آزمائش یہ ہے کہ اب اس سے ان الفاظ میں اقرار لیا جائے تا اس کی اندورنی حالت ظاہر ہو۔ یا اس پر عذاب نازل ہو۔ میں نے اس غرض سے اشتہار دیا ہے کہ آتھم کو یہ پیغام پہنچایا جائے کہ اللہ جلشانہ کی طرف یہ خبر ملی ہے کہ تو نے حق کی طرف رجوع کیا ہے اور اگر وہ اس کا قائل ہوجائے تو ہمارا مدعا حاصل ورنہ ایک ہزار روپیہ نقد بلاتوقف اس کو دیا جائے کہ وہ قسم کھاجائے کہ میں نے حق کی طرف رجوع نہیں کیا اور اگروہ اس قسم کے بعد ایک برس کے بعد (تک عرفانی) ہلاک نہ ہو تو ہم ہرطرح سے کاذب ہیں اور اگر وہ قسم نہ کھائے تو وہ کاذب ہے آپ اس کا سمجھ سکتے ہیں کہ اگر تجربہ سے اس نے مجھ کو کاذب یقین کر لیاہے اور وہ اپنے مذہب پر قائم ہے تو قسم کھانے میں اس کا کچھ حرج نہیں۔ لیکن اگر اس نے قسم نہ کھائی اور باوجود یہ کہ وہ کلمہ کے لئے ہزار روپیہ اس کے حوالے کیا جاتا ہے۔ اگر وہ گریز کر گیا تو آپ کیا سمجھیں گے۔ اب وقت نزدیک ہے۔ اشتہار آئے چاہتے ہیں۔ میں ہزار روپیہ کے لئے متردد تھاکہ کس سے مانگوں۔ ایسا دیندار کون ہے جو بلاتوقف بھیج دے گا۔ آخر میں نے ایک شخص کی طر ف لکھا ہے اگر اس نے دے دیا تو بہتر ہے ورنہ یہ دنیا کی نابکار جائیداد و بیچ کر خود اس کے آگے جاکر رکھوں گا۔ تا کامل فیصلہ ہو جائے۔
اور جھوٹوںکا منہ سیاہ ہو جائے اور خداتعالیٰ نے کئی دفعہ میرے پر ظاہر کیا ہے کہ اس جماعت پرایک ابتلاء آنے والا ہے۔ تا اللہ تعالیٰ دیکھے کہ کون سچا ہے اورکون کچا ہے اور اللہ جلشانہ کی قسم ہے کہ میرے دل میں اپنی جماعت کا انہیں کے فائدہ کے لئے جوش مارتا ہے۔ ورنہ اگر کوئی میرے ساتھ نہ ہوتو مجھے تنہائی میں لذت ہے۔ بے شک فتح ہو گی۔ اگر ہزار ابتلاء درمیان ہو تو آخر ہمیں فتح ہو گی۔ اب ابتلائوں کی نظیر آپ مانگتے ہیں ان کی نظیریں بہت ہیں۔ آپ کو معلوم نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بادشاہ ہونے کا جو وعدہ کیا اور وہ ان کی زندگی میں پورا نہ ہوا۔ تو ستر آدمی مرتد ہو گئے۔ حدیبہ کے قصبہ میں تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے کہ کئی سچے آدمی مرتد ہو گئے۔ وجہ یہ تھی کہ اس پیشگوئی کی کفار مکہ کو خبر ہو گئی تھی اس لئے انہوں نے شہر کے اندر داخل نہ ہونے دیا اور صحابہ پانچ ہزار سے کم نہیں تھے۔ یہ امر کس قد رمعرکہ کا امر تھا۔ مگر خدا تعالیٰ نے صادقتوں کو بچایا۔ مجھے اور میرے خاص دوستوں کو آپ کے اس خط سے اس قدر افسوس ہو ا کہ اندازہ سے زیادہ ہے۔ یہ کلمہ آپ کا کہ مجھے ہلاک کیا کس قدر اس اخلاص سے دور ہے جو آپ سے ظاہر ہوتا رہا۔
ہمارا تو مذہب ہے کہ اگر ایک مرتبہ نہیں کروڑ مرتبہ لوگ پیش گوئی نہ سمجھیں۔ یا اس رات کے طور پر ظاہر ہو تو خداتعالیٰ کے صادق بندوں کا کچھ بھی نقصان نہیں۔ آخر وہ فتح یاب ہو جاتے ہیں۔ میں نے اس فتح کے بارے میں لاہور پانچ ہزار اشتہار چھپوایا ہے اور ایک رسالہ تالیف کیا ہے۔ جس کانام انوارالسلام ہے وہ بھی پانچ ہزار چھپے گا۔ آپ ضرور اشتہار اور رسالہ کو غور سے پڑھیں۔ اگر خداتعالیٰ چاہے تو آپ کو اس سے فائدہ ہوگا۔ ایک ہی وقت میں اور ایک ہی ڈاک میں آپ کا خط اور حضرت مولوی نورالدین صاحب کاخط پہنچا۔ مولوی صاحب کا اس صدق اور ثبات کا خط جس کا پڑھ کر رونا آتا تھا۔ ایسے آدمی ہیں جن کی نسبت میں یقین رکھتا ہوں کہ اس جہاں میں بھی میرے ساتھ ہوں گے اور اس جہاں میں بھی میرے ساتھ ہوں گے۔
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
نوٹ:۔ اس خط پر کوئی تاریخ نہیں اور لفافہ بھی محفوظ نہیں تاہم خط کے مضمون سے ظاہر ہے کہ ستمبر ۱۸۹۴ء کاخط ہے۔ حضرت نواب صاحب نے جس جرات اور دلیری سے اپنے شکوک کو پیش کیا ہے۔ اس سے حضرت نواب صاحب کی ایمانی اور اخلاقی جرات کا پتہ چلتا ہے۔ انہوںنے کسی چیز کو اندھی تقلید کے طور پر ماننا نہیں چاہا۔ جو شبہ پید اہوا اس کو پیش کر دیا۔ خداتعالیٰ نے جو ایمان انہیں دیا ہے۔ وہ قابل رشک ہے۔خداتعالیٰ نے اس کا ا جر انہیں یہ دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نسبت فرزندی کی عزت نصیب ہوتی۔ یہ موقعہ نہیں کہ حضرت نواب صاحب کی قربانیوں کا میں ذکر کروں جو انہوںنے سلسلہ کے لئے کی تھیں۔
بہت ہیں جن کے دل میں شبہات پیدا ہوتے ہیں اور وہ ان کو اخلاقی جرات کی کمی کی وجہ سے اگل نہیں سکتے۔ مگر نواب صاحب کو خداتعالیٰ نے قابل رشک ایمانی قوت اور ایمانی جرات عطا کی ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مرتبہ فرمایا کہ اگر کسی شخص کے دل میں کوئی شبہ پید اہو تو اسے قے کی طرح باہر نکال دینا چاہئے۔ اگر اسے اندر سے رہنے دیا جائے تو بہت برا اثر پیدا کر تا ہے۔ غرض حضرت نواب صاحب کے اس سوال سے جو انہوں نے حضرت اقدس سے کیا۔ ان کے مقام اور مرتبہ پر کوئی مضر اثر نہیں پڑتا بلکہ ان کی شان کو بڑھاتا ہے اور واقعات نے بتا دیا کہ وہ خداتعالیٰ کے فضل اور رحم سے اپنے ایمان میں سے بڑے مقام پر تھے۔ اللم زدفزد۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۸)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی نواب صاحب سلمہ ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
باعث تکلیف وہی یہ ہے کہ چونکہ اس عاجز نے پانچ سو روپیہ آں محب کا قرض دینا ہے۔ مجھے یا د نہیں کہ میعاد میں سے کیا باقی رہ گیاہے اور قرضہ کاایک نازک اور خطرناک معاملہ ہوتا ہے۔ میرا حافظہ اچھا نہیں یاد پڑتا ہے کہ پانچ برس میں ادا کرنے کا وعدہ کیا تھا اور کتنے برس گزر گئے ہوں گے۔ عمر کا کچھ اعتبار نہیں۔ آپ براہ مہربانی اطلاع بخشیں کہ کس قدر میعاد باقی رہ گئی ہے۔ تاحتی الوسع اس کافکر رکھ کر توفیق بار یتعالیٰ میعاد کے اندر اندر اد اہو سکے اور اگر ایک دفعہ نہ ہوسکے تو کئی دفعہ کر کے میعاد کے اندر بھیج دوں۔ امید کہ جلد اس سے م مطلع فرماویں۔ تا میں اس فکر میں لگ جائوں۔ کیونکہ قرضہ بھی دنیا کی بلائوں میں سے ایک سخت بلاہے اور راحت اسی میں ہے کہ اس سے سبکدوشی ہو جائے۔
دوسری بات قابل استفسار یہ ہے کہ مکرمی اخویم مولوی سید محمد احسن صاحب قریباً دو ہفتہ سے قادیان تشریف لائے ہوئے ہیں اور آپ نے جب آپ کا اس عاجز کا تعلق اور حسن ظن تھا۔ بیس روپیہ ماہوار ان کو سلسلہ کی منادی اور واعظ کی غرض سے دنیا مقرر کیا گیاتھا۔ چنانچہ آپ نے کچھ عرصہ ان کودیا امید کہ اس کا ثواب بہرحال آپ کو ہوگا۔ لیکن چند ماہ سے ان کو کچھ نہیں پہنچا۔ اب اگر اس وقت مجھ کو اس بات کے ذکر کرنے سے بھی آپ کے ساتھ دل رکتا ہے۔ مگر چونکہ مولوی صاحب موصوف اس جگہ تشریف رکھتے ہیں۔ اس لئے آپ جو مناسب سمجھیں میرے جواب کے خط میں اس کی نسبت تحریر کردیں۔ حقیقت میں مولوی صاحب نہایت صادق دوست اور عارف حقائق ہیں۔ وہ مدراس اور بنگلور کی طرف دورہ کر کے ہزار ہا آدمیوں کے دلوں سے تکفیر اور تکذیب کے غبار کو دور کر آئے ہیں اور ہزار ہا کو ا س جماعت میں داخل کر آئے ہیں اور نہایت مستفیم اور قوی الایمان اور پہلے سے بھی نہایت ترقی پر ہیں۔
ہماری جماعت اگرچہ غرباء اور ضعفاء کی جماعت ہے۔ لیکن العزیز یہی علماء اور محققین کی جماعت ہے اور انہی کو میں متقی اور خداترس اور عارف حقائق پاتا ہوں اورنیک روحوں اور دلوں کو دن بدن خدا تعالیٰ کھینچ کر اس طرف لاتا ہے۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک۔
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۹؍ دسمبر ۱۸۹۴ء
مکتوب نمبر(۹)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مولوی صاحب کو کل ایک دورہ مرض پھر ہوا۔ بہت دیر تک رہا۔ مالش کرانے سے صورت افاقہ ہوئی۔ مگر بہت ضعف ہے۔ا للہ تعالیٰ شفا بخشے۔
اس جگہ ہماری جماعت کا ایک قافلہ تحقیق السنہ کے لئے بہت جوش سے کام رہا ہے اور یہ اسلام کی صداقت پرایک نئی دلیل ہے۔ جو تیرہ سو برس سے آج تک کسی کی اس طرف توجہ نہیں ہوئی۔ اس مختصر خط میں آپ کو سمجھا نہیںسکتا کہ یہ کس پایہ کا کام ہے۔ اگر آپ کو ایک ماہ تک اس خدمت میں مرزا خدابخش صاحب کوشریک کریں اور وہ قادیان میں رہیں تو میری دانست میں بہت ثواب ہو گا۔ آیندہ جیسا کہ آپ کی مرضی ہو۔ دنیا کے کام نہ تو کسی نے پورے کئے اور نہ کرے گا۔ دنیا دار لوگ نہیں سمجھتے کہ ہم کیوں دنیامیں آئے اور کیوں جائیں گے۔ کون سمجھائے جبکہ خداتعالیٰ نے سمجھایا ہو۔ دنیا کے کام کرنا گناہ نہیں۔ مگر مومن وہ ہے جودرحقیقت دین کو مقدم سمجھے اورجس طرح اس ناچیز اور پلید دنیا کی کامیابیوں کے لئے دن رات سوچتا یہاں تک کہ پلنگ پر لیٹے بھی فکر کرتا ہے اور اس کی ناکامی پر سخت رنج اٹھاتا ہے۔ ایسا ہی دین کی غمخواری میں بھی مشغول رہے۔ دنیا سے دل لگانا بڑا دھوکا ہے۔ موت کاذرا اعتبار نہیں موت ہر ایک سال نئے کرشمے دکھلاتی رہتی ہے۔ دوستوں ک دوستوں سے جد اکرتی اور لڑکوں کو باپوں سے، اور باپوں کو لڑکوں سے علیحدہ کر دیتی ہے۔
مورکھ وہ انسان ہے جو اس ضروری سفر کا کچھ بھی فکر نہیں رکھتا۔ خداتعالیٰ اس شخص کی عمر بڑھا دیتا ہے۔ جو سچ مچ اپنی زندگی کاطریق بدل کر خد ا تعالیٰ ہی کاہو جاتا ہے۔ ورنہ اللہ جلشانہ فرماتاہے۔ قل ما یعباء بکم ربی لوکا دعاء کم
یعنی ان کو کہہ دو کہ خدا تعالیٰ تمہاری پرواہ کیا رکھتا ہے۔ا گر تم اس کی بندگی و اطاعت نہ کرو۔ سو جاگنا چاہئے اور ہوشیار ہو جانا چاہئے اور غلطی نہیں کھانا چاہئے کہ گھر سخت بے بنیاد ہے۔ میں نے اس لئے کہا کہ میں اگر غلطی نہیں کرتا تو مجھے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ان دنوں میں دنیوی غم وہم یں اعتدال سے زیادہ مصروف ہیں اور دوسرا پلہ ترازو کا کچھ خالی سا معلوم ہوتا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ یہ تحریریں آپ کے دل کیا اثر کریں یا کچھ بھی نہ کریں۔ کیونکہ بقول آپ کے وہ عتقادی امر بھی اب درمیان نہیں جو بظاہر پہلے تھے۔ میں نہیں چاہتا کہ ہماری جماعت میں سے کوئی ہلاک ہو۔ بلکہ چاہتا ہوں کہ خود خداتعالیٰ قوت بخشے اور زندہ کرے۔ کاش اگر ملاقات کی سرگرمی بھی آپ کے دل میں باقی رہتی تو کبھی کبھی ملاقات سے کچھ فائدہ ہو جاتا۔ مگر اب یہ امید بھی مشکلات میں پڑ چکی ہے۔ کیونکہ اعتقادی محرک باقی نہیں رہا۔اگر کوئی لاہور وغیرہ کسی انگریز حاکم کا جلسہ ہو جس میں خیالی طور پر داخل ہونا آپ اپنی دنیا کے لئے مفید سمجھتے ہوں تو کوئی دنیا کاکام آپ کو شمولیت سے نہیں روکے گا۔ خداتعالیٰ قوت بخشے۔
بیچارہ نورالدین جو دنیاکو عموماً لات مار کر اس جنگل قادیان میں آبیٹھا ہے بے شک قابل نمونہ ہے۔ بہتری تحریکیں اٹھیں کہ آپ لاہور میں رہیں اور امرتسر میں رہیں۔ دنیاوی فائدہ طباعت کی رو سے بہت ہو گا۔ مگر کسی کی بات انہوں نے قبول نہیں کی۔ میں یقینا سمجھتا ہون کہ انہوں نے سچی توبہ کر کے دین پر مقدم رکھ لیا ہے۔ خد اتعالیٰ ان کو شفاء بخشے اور ہماری جماعت کو توفیق عطا کرے کہ ان کے نمونہ پر چلیں آمین۔ کیا آپ بالفعل اس قدر کام کر سکتے ہیں کہ ایک ماہ کے لئے اور کاموں کو پس انداز کر کے مرزا خد ابخش صاحب کو ایک ماہ کے بھیج دیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۸؍ اپریل ۱۸۹۵ء
نوٹ:۔ آتھم کی پیشگوئی پر حضرت نواب صاحب کو بتلایا تھا اور انہیں کچھ شکوک پید ا ہوئے تھے۔ مگر وہ بھی اخلاص اور نیک نیتی پر منبی تھے۔ وہ ایک امر جوان کی سمجھ میں نہ آوے ماننا نہیں چاہتے تھے اور اسی لئے انہوں نے حضرت اقدس کو ایسے خطوط لکھے ہیں جن سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ گویا کوئی تعلق سلسلہ سے باقی نہ رہے گا۔ مگر خداتعالیٰ نے انہیں ضائع نہیں کیا اپنی معرفت بخشی اور ایمان میں قوت عطا فرمائی۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۱۰)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
عزیزی محبی اخویم خان صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا محبت نامہ پہنچا۔ میں بوجہ علالت طبع کچھ لکھ نہیں سکا۔ کیونکہ دورہ مرض کا ہو گیاتھا اور اب بھی طبیعت ضعیت ہے۔ خداتعالیٰ آپ کو اپنی محبت میں ترقی بخشے اور اپنی اس جادوانی دولت کی طرف کھینچ لیوے جس پر کوئی زوال نہیں آسکتا کبھی کبھی اپنے حالات خیریت آیات سے ضرور اطلاع بخشا کریں کہ خط بھی کسی قدر حصہ ملاقات کا بخشتا ہے۔ مجھے آپ کی طرف سے دلی خیال ہے اور چاہتا ہوں کہ آپ کی روحانی ترقیات بحشپم خود دیکھوں مجھے جس وقت جسمانی قوت میں اعتدال پید اہوا تو آپ کے لئے ہمیشہ توجہ کاشروع کروں گا۔ اللہ تعالیٰ اپنا فضل اور توفیق شامل حال کرے۔ آمین۔
والسلام
غلام احمد عفی عنہ
۱۴؍ دسمبر ۱۸۹۵ء
روز پنجشنبہ
مکتوب نمبر(۱۱)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویمنواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مبلغ دو سو روپیہ کے نصف نوٹ آج کی تاریخ آگئے۔ عمارت کا یہ حال ہے کہ تخمینہ کیا گیاہے کہ نو سو رپیہ تک پہلی منزل جس پر مکان مقصود بنانے کی تجویز ہے ختم ہو گی۔ کل صحیح طورپر تخمینہ کو جانچا گیا ہے۔ اب تک …… روپیہ تک لکڑی اور انیٹ اور چونہ اور مزدوروں کے بارے میں خرچ ہوا ہے۔ معماران کی مزدوری ……سے الگ ہے۔ اس لئے بہتر معلوم ہوتا ہے کہ پہلی منزل کے تیار ہونے کے بعد بالفعل عمارت کو بند کردیا جائے۔ کیونکہ کوئی صورت اس کی تکمیل کی نظر نہیں آتی۔ یہ اخراجات گویا ہرروز پیش آتے ہیں۔ ان کے لئے اوّل سرمایہ ہو تو پھر چل سکتے ہیں۔ شائد اللہ جلشانہ اس کا کوئی بندوبست کر دیوے۔ بالفعل اگر ممکن ہو سکے تو آں محب بجائے پانچ سو روپیہ کے سات سو روپیہ کی امداد فرما دیں۔ دو سو روپیہ کی جو کمی ہے وہ کنویں کے چندہ میں سے پوری کر دی جائے گی اور بالفعل کنواں بنانا موقوف رکھا جائے گا۔ پس اگر سات سو روپیہ آپ کی طرف سے ہو اور دو سو روپیہ کنویں کے اس طرح پر نو سو روپیہ تک منزل انشاء اللہ پوری ہو جائے گی اور کیا تعجب ہے کچھ دنوں کے بعد کوئی اور صاحب پیدا ہو جائیں تو وہ دوسری منزل اپنے خرچ سے بنوا لیں۔ نیچے کی منزل مردانہ رہائش کے لائق نہیں ہے۔ کیونکہ وہ زنانہ مکان سے ملی ہوئی ہے۔ مگر اوپر کی منزل اگر ہوجائے تو عمدہ ہے۔
مکان مردانہ بن جائے جس کی لاگت بھی اسی قدر یعنی نوسو یا ہزار روپیہ ہو گا۔ میں شرمندہ ہوں کہ آپ کو اس وقت میں نے تکلیف دی اور ذاتی طور پر مجھ کو کسی مکان کی حاجت نہیں۔ خیال کیا گیا تھا کہ نیچے کی منزل میں ایسی عورتوں کے لئے مکان تیار ہو گا جو مہمان کے طور پر آئیں اور اوپر کی منزل مردانہ مکان ہو۔ سو اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس خیال کو پورا کر دے گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۴؍ مئی ۱۸۹۷ء
نوٹ:۔ جب یہ مکان بن رہا تھا تو خاکسار عرفانی ان ایام میں یہاں تھا۔ گرمی کو موسم تھا۔ گول کمرے میں دوپہر کا کھانا حضرت کھایا کرتے تھے اور دستر خوان پر گڑنبہ ضرور آیا کرتا تھا۔ حضرت ان ایام میں بھی یہی فرمایا کرتے تھے کہ ذاتی طورپر ہمیں کسی مکان کی ضرورت نہیں۔ مہانوں کو جب تکلیف ہوتی ہے تو تکلیف ہوتی ہے۔ یہ لوگ خدا کے لئے آتے ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ان کے آرام کا فکر کریں۔
خداتعالیٰ نے جیسا کہ اس خط میں آپ نے ظاہر فرمایا تھا ۔ آخر وہ تمام مکانات بنوا دئیے اور وسع مکانک کی پیشگوئی ہمیشہ پوری ہو تی رہتی ہے اور اس کی شان ہمیشہ جد اہوتی ہے۔ مبارک وہ جن کو اس کی تکمیل میں حصہ ملتا ہے۔ ابتدائی ایام میں حضرت نواب صاحب کو سابق ہونے کا اجر ملا۔ جزاہم اللہ احسن الجزا۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۱۲)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخو یم نو اب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آخر مولوی صاحب کی وہ پیاری لڑکی جس کی شدت سے بیماری کی وجہ سے مولوی صاحب آنہ سکے کل نماز عصر سے پہلے اس جہان فانی سے کوچ کر گئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔اس کی والدہ سخت مصیبت میں ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو صبر بخشے۔
والسلام
خاکسار
مرزا اغلام احمد عفی اللہ عنہ
۱۷؍ اپریل ۱۸۹۷ء
نوٹ:۔یہ لڑکی حضرت حکیم الامۃ کی چھوٹی لڑکی ایک سال کی تھی اور اس کی وفات کے متعلق حضرت حکیم الامۃ کو خدا تعالیٰ نے ایک رویا کے ذریعہ پہلے ہی بتا دیا تھا۔ یوں تو حضرت حکیم الامۃ خد اتعالیٰ کی مقادیر سے پہلے ہی مسالمت تامہ رکھتے تھے۔ مگر خداتعالیٰ نے جب قبل از وقت ان کو بتا دیا تھا تو انہیں نہ صرف ایک راحت بخش یقین اور معرفت پید اہوئی۔ بلکہ خدا تعالیٰ کے اس انعام اورفضل پر انہوں نے شکریہ کا اظہار کیا تھا۔ ان ایام میں نواب صاحب نے مولوی صاحب کو بلایا تھا۔ اسی وجہ سے آپ نہیں جا سکے تھے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۱۳)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
افسوس کہ مولوی صاحب اس قدر تکلیف کی حالت میں ہیں کہ اگر اور کوئی سبب بھی نہ ہوتا تب بھی اس لائق نہیں تھے کہ اس شدت گرمی میں سفر کرسکتے۔ ہفتہ میں ایک مرتبہ سخت بیمار ہوجاتے ہیں۔ پیرانہ سالی کے عوارض ہیں اور مولوی صاحب کی بڑی لڑکی سخت بیمار ہے کہتے ہیں اس کو بیماری سل ہو گئی ہے۔ علامات سخت خطرناک ہیں۔ نواسی بھی ابھی بیماری سے صحت یاب نہیںہوئی۔ ان وجوہ کی وجہ سے درحقیقت وہ سخت مجبور ہیں اور جو د وآدمی نکالے گئے تھے۔ یعنی غلام محی الدین اور غلام محمد۔ وہ کسی کی نمامی کی وجہ سے نہیں نکالے گئے۔ بلکہ خود مجھ کو کئی قراین سے معلوم ہوگیا تھاکہ ان کاقادیان میں رہنا خطرناک ہے اور مجھے سرکاری مخبر نے خبر دے دی تھی اور نہایت بد اور گندے حالات بیان کئے اور وہ مستعد ہو ا کہ میں ضلع میں رپورٹ کرتا ہوں۔ کیونکہ اس کے یہ کام سپرد ہے اور چاروں طرف سے ثبوت مل گیا کہ ان لوگوں کے حالات خراب ہیں۔ تب سخت ناچار ہو کر نرمی کے ساتھ ان کو رخصت کر دیا گیا۔ لیکن باوجود اس قدر نرمی کے غلام محی الدین نے قادیان سے نکلتے ہی طرح طرح کے افتراء اور میرے پر بہتان لگانے شروع کر دئیے۔ بٹالہ میں محمد حسین کے پاس گیا اور امرتسر میں غزنویوں کے گروہ میں گیا اور لاہور میں بد گوئی میں صدہا لوگوں میں وعظ کیا۔ چنانچہ ایک اشتہار زٹلی کا آپ کی خدمت میں بھیجتا ہوں ۔ جس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہ شخص کس قسم کا آدمی ہے اور چونکہ سرکاری مخبر بھی ہماری جماعت کے حال لکھتے ہیں۔ اس لئے مناسب نہ تھا کہ ایسا آدمی قادیان میں رکھا جاتا اور دوسرا آدمی اس کا دوست تھا۔
والسلام
خاکسار
مرزاغلام احمد عفی اللہ عنہ
نوٹ:۔ ا س خط پر کوئی تاریخ درج نہیں ہے۔ مگر نفس واقعات مندرجہ خط سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مئی ۱۸۹۸ء کا مکتوب ہے۔ اس میں غلام محی الدین نام جس شخص کا ذکر ہے وہ راہوں ضلع جالندھر کاباشندہ تھا اورخاکی شاہ اس کا عرف تھا۔ وہ عیسائی بھی رہ چکا تھا۔ قادیان میں آکر اور اپنی اس اباحتی زندگی کو جو عیسائیت میں رہ چکا تھا۔یہاں بھی جاری رکھنا چاہا۔ مگر حضرت اقدس تک جب اس کی شکایت پہنچی تو آپ نے اسے نکال دیا۔ اس کے ساتھ جس شخص غلام محمد کاذکر ہے۔ خو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے مکتوب میں اس کے متعلق اس قدر فرمایا ہے کہ وہ اس کادوست تھا۔ دراصل ہم وطنی اور ہم صحبتی نے اسے بھی اس وقت اس بہشت سے نکالا۔ لیکن چونکہ اس میں اخلاص اور سلسلہ کے لئے سچی محبت تھی۔ خدا نے اس کو ضائع نہیں کیا۔ وہ اور اس کاسارا خاندان خد اکے فضل اوررحم سے نہایت مخلص ہے۔ خاکی شاہ جیسا کہ خود حضرت نے لکھ دیا ہے۔ یہاں سے نکل کر اپنی بد باطنی سے عملی اظہار کر دیا۔ آخر وہ خائب خاسر رہ کر مر گیا۔ اب اس کامعاملہ خداتعالیٰ سے ہے۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۱۴)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نوا ب صاحب سلمہ تعالیٰ
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ آپ کی شفاء کے لئے نماز میں اور خارج نماز میں دعا کرتا ہوں۔ خد اتعالیٰ کے فضل و کرم پر امید ہے کہ شفاء عطا فرمائے آمین ثم آمین۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ چیچک خاص طور کے دانے ہوں گے۔ جن میں تبزی نہیں ہوتی ۔ یہ خد ا تعالیٰ کا رحم ہے کہ چیچک کے موذی سم سے بچایا ہے اور چیچک ہو یاخسرہ ہو دونوں طاعون کے قائم مقام ہوتے ہیں۔ یعنی ان کے نکلنے سے طاعون کا مادہ نکل جاتاہے اور اس کے بعد طاعون سے امن رہتا ہے۔ امیدہے کہ آں محب ۵؍ اگست ۱۸۹۸ء سے پہلے مرزا خد ا بخش صاحب کو ادائے شہادت کے لئے روانہ قادیان فرمائیںگے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ
۲۶؍ جولائی ۱۸۹۸ء
مکتوب نمبر(۱۵)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو بکلی عطافرمائے۔ چونکہ ان دنوں بباعث ایام برسات موسم میں ایک ایسا تغیر ہے۔ جو تپ وغیرہ پیدا کرتا ہے۔ا س لئے درحقیقت یہ سفر کے دن نہیں ہیں۔ میں اس سے خوش ہوں کہ اکتوبر کے مہینہ میں آپ تشریف لائیں۔ افسوس کہ مولوی صاحب کے لئے نکاح ثانی کا کچھ بندوبست نہیں ہو سکا۔اگر کوٹلہ میں یہ بندوبست ہو سکے تو بہتر تھا۔ آپ نے سن لیا ہو گا کہ مولوی صاحب کی جوان لڑکی چند خورد سال بچے چھوڑ کر فوت ہو گئی ہے۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمدعفی اللہ عنہ
۴؍ ستمبر ۱۸۹۸ء
مکتوب نمبر(۱۶)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آں محب کے چار خط یکے بعد دیگرے پہنچے۔ آپ کے لئے دعا کرنا تو میںنے ایک لازمی امر ٹھہرا رکھا ہے۔ لیکن بے قرار نہیں ہونا چاہئے کہ کیوں اس کااثر ظاہر نہیں ہوتا۔ دعائوں کے لئے تاثیرات ہیں اور ضرور ظاہر ہوتی ہیں۔ ایک جگہ حضرت ابوالحسن خرقانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تیس برس میں نے بعض دعائیں کیں جن کا کچھ بھی اثر نہ ہوا اور گمان گزرا کہ قبول نہیں ہوئیں۔ آخر تیس برس کے بعد وہ تمام مقاصد میسر آگئے اور معلوم ہوا کہ تمام دعائیں قبول ہو گئیں ہیں۔ جب دیر سے دعا قبول ہوتی ہے تو عمر زیادہ کی جاتی ہے۔
جب جلد کوئی مراد مل جاتی ہے تو کمی عمر کااندیشہ ہے میں اس بات کو درست رکھتا ہوں کہ مطلب کے حصول کی بشارت خدا تعالیٰ کی طرف سے سن لوں۔ لیکن وہ مطلب دیر کے بعد حاصل ہونا موجب طول عمر ہو۔ کیو نکہ طول عمر او ر عمال صالحہ بڑی نعمت ہے۔
آپ نے اپنے گھر کے لوگوں کی نسبت جو لکھا تھا کہ بعض امور میں مجھے رنج پید ا ہوتا ہے۔ سو میں آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ میرا یہ مذہب نہیں ہے۔ میں اس حدیث پر عمل کرنا علامت سعادت سمجھتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اور وہ یہ ہے
خیر کم خیر کم لا ھلہیعنی تم میں سب سے اچھا وہ آدمی ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ اچھا ہو۔ عورتوں کی طبیعت میں خداتعالیٰ نے ا س قدر کجی رکھی ہوئی ہے کہ کچھ تعجب نہیںکہ بعض وقت خدا اور رسول یا اپنے خاوند یا خاوند کے باپ یا مرشد یا ماں یا بہن کو بھی برا کہہ بیٹھیں اور ان کے نیک ارادہ کی مخالفت کریں۔ سو ایسی حالت میں بھی کبھی مناسب رعب کے ساتھ اور کبھی نرمی سے ان کو سمجھا دیں اور ان کی تعلیم میں بہت مشغول رہیں۔ لیکن ان کے ساتھ ہمیشہ نیک سلوک کریں۔
اشتہار رشتہ کے لئے آپ کی شرط موجود نہیں۔ ایم۔ اے صاحب اگرچہ بہت صالح نیک چلن جوان خوش رو جنٹلمین ہر طرح سے لائق نیک چلن بہت سی نیک صفات اپنے اندر رکھتے ہیں۔ مگر افسوس کہ وہ نہ پٹھان ہیں نہ مغل۔ نہ سید نہ قریشی۔ بلکہ اس ملک کے زمینداروں میں سے ہیں۔ غریب خاندان میں سے ہیں۔ میری بیوی کا برادر حقیقی محمد اسمٰعیل اٹھارہ سالہ خاندانی سید ہے ایف۔ اے میں پڑھتا ہے۔ مگر افسوس کہ کوئی آمدنی ان کے پاس نہیں اوّل شائد سلاطین اسلامیہ کی طرف پچیس ہزار کی جاگیر تھی۔ وہ ۱۸۵۷ء میں ضبط ہو گئی اور کچھ تھوڑا ان لوگوں کو ملتا ہے۔ جس میں سے …… ماہوار میر صاحب کی والدہ کو ملتا ہے بس۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر(۱۷)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ الحمدللہ والمنۃ کہ آپ کو اس نے اپنے فضل و کرم سے شفابخشی۔ میں نے آپ کے لئے اب کی دفعہ غم اٹھایا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس جگہ قادیان میں جس بڑی عمر کے آدمی کو جو اسّی برس سے زیادہ کی عمر کاتھا۔ چیچک نکلی وہ جانبر نہ ہو سکا۔ ہمارے ہمسایوں میں دو جوان عورتیں اس مرض سے راہی ملک بقاہوئیں۔ آپ کو اطلاع نہیں دی گئی۔ یہ بیماری اس عمر میں نہایت خطرناک تھی۔ بالخصوص ا ب کی دفعہ یہ چیچک وبائی طرح پر ہوئی ہے۔ اس لئے نہایت اضطراب اور دلی درد سے نماز پنچگانہ میں اور خارج نماز گویا ہر وقت دعا کی گئی ۔ اصل باعث عاقبت خدا کا فضل ہے جو بموجب وعدہ اللہ سے بہت سی امیدیں اس کے فضل کے لئے ہو جاتی ہیں مجھے کثرت مخلصین کی وجہ سے اکثر زمانہ غم میں ہی گزرتا ہے۔ ایک طرف فراغت پاتا ہوں۔ دوسری طرف سے پریشانی لاحق حال ہو جاتی ہے۔ خداتعالیٰ کی بہت سی عنایات کی ضرورت ہے۔ جس کو میں مشاہدہ بھی کرتا ہوں۔ اب یہ غم لگا ہوا ہے کہ چند دفعہ الہامات اور خوابوں سے طاعون کاغلبہ پنجاب میں معلوم ہو اتھا۔ جس کے ساتھ یہ بھی تھا کہ لوگ توبہ توبہ کریں گے اورنیک چلن ہو جائیںگے۔ تو خد اتعالیٰ اس گھر کو بچا لے گا۔ لیکن نیک ہونے کاکام بڑا مشکل ہے اگرچہ بدچلن بدمعاش اور طرح طرح کے جرائم ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اگر پنجاب میں وبائے طاعون یا ہیضہ یا پھوٹا تو بڑی مصیبت ہوگی بہت سے گھروں میں ماتم ہو جائیں گے۔ بہت سے گھر ویران ہو جائیںگے۔ مرزا خد ابخش صاحب پہنچ گئے۔ ان کے گھر بیماری ہے۔ تپ روز چڑھتا ہے اور جگر اور معدہ ضعیف معلوم ہوتا ہے۔ مولوی صاحب کی دوسری لڑکی انہی دنوں سے بیمار ہے۔ جب کہ آپ نے بلایا تھا۔ اب بظاہر ان کی زندگی کی چنداں امید نہیں۔ حواس میں بھی فرق آگیا ہے اورمولوی صاحب بھی ہفتہ میں ایک مرتبہ بیمار ہوجاتے ہیں۔ بعض دفعہ خطرناک بیماری ہوتی ہے میرے دل میں خیال ہے کہ اپنے اور اپنی جماعت کے لئے خاص طو ر پر ایک قبرستان بنایا جائے جس طرح مدینہ میں بنایا گیا تھا۔ بقول شیخ سعدی۔ کہ ہداں رابہ نیکاں بہ بخشد کریم
یہ بھی ایک وسیلہ مغفرت ہوتا ہے۔ جس کو شریعت میں معتبر سمجھا گیاہے۔ اس قبرستان کی فکر میں ہوں کہ کہاں بنایا جائے امید کہ خداتعالیٰ کوئی جگہ میسر کر دے گا او راس کے اردگرد ایک دیوار چاہئے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۶؍اگست ۱۸۹۸ء
مکتوب نمبر(۱۸)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ معہ مبلغ دو سو روپیہ مجھ کو ملا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ہر ایک مرض اور غم سے نجات بخشے۔ آمین ثم آمین۔ خط میں سو روپیہ لکھا ہو اتھا اور حامل خط نے دو سو روپیہ دیا۔ اس کا کچھ سبب معلوم نہ ہوا۔ میں عنقریب دوائی طاعون آپ کی خدمت میں مع مرہم عیسیٰ روانہ کرتاہوں اور جس طورسے یہ دوائی استعمال ہو گی آج اس کااشتہار چھاپنے کی تجویز ہے امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ اشتہار ہمراہ بھیج دوں گا۔ بہتر ہے کہ یہ دوا ابھی سے آپ شروع کر دیں۔ کیونکہ آیندہ موسم بظاہر وہی معلوم ہوتا ہے۔ جو کچھ الہاماً معلوم ہوا تھا۔ وہ خبر بھی اندیشہ ناک ہے۔ میرے نزدیک ان دنوں میں دینا کے غموم و ہموم کچھ مختصر کرنے چاہئیں۔ د ن بہت سخت ہیں جہاں تک ممکن ہوآپ اپنے بھایئوں کو بھی نصیحت کریں اور اگر باز نہ آئیں تو آپ کا فرض ادا ہو جائے گا اور جو گلٹیاں آپ کے نکلی ہیں۔ وہ ماشاء اللہ سنیک دینے اور دوسری تدبیروں سے جو مولوی صاحب تحریر فرمائیں گے اچھی ہو جائی گی۔ ان دنوں التزام نماز ضروری ہے مجھے تو یہ معلوم ہو ا ہے کہ یہ دن دنیا کے لئے بڑی بڑی مصیبتوں اور موت اور دکھ کے دن ہیں۔ اب بہرحال متبہ ہونا چاہئے۔ عمر کا کچھ اعتبار نہیں میں نے خط کے پڑھنے کے بعد آپ کے لئے بہت دعا کی ہے اور امید ہے کہ خد اتعالیٰ قبول فرمائے گا۔ مجھے اس بات کا خیال ہے کہ
اس شور قیامت کے وقت جس کی مجھے الہام الٰہی سے خبر ملی ہے۔ حتی الوسع اپنے عزیز دوست قادیان میں ہوں۔مگر سب بات خداتعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲۱؍ جولائی ۱۸۹۸ء
مکتوب نمبر(۱۹)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبیعزیزی اخویم نواب سردار محمد علی خاں صاحب، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ خداتعالیٰ فرزند نوزاد کومبارک اور عمر دراز کرے آمین ثم آمین۔ میں نے سنا ہے کہ جب کم دنوں میں لڑکا پید اہوتا ہے تو دوسرے تیسرے روز ضرور ایک چمچہ کیسڑائل دے دیتے ہیں اور لڑکے کے بدن پر تیل ملتے رہتے ہیں۔ حافظ حقیقی خود حفاظت فرماوے اور آپ کے لئے مبارک کرے۔ آمین ثم آمین۔ دعا میں آپ کے لئے مشغول ہوں۔ اللہ تعالیٰ قبول فرماوے
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۱۱؍ نومبر ۱۸۹۸ء
مکتوب نمبر(۲۰)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ انشاء اللہ تعالیٰ آپ کی بیوی مرحومہ کے لئے توجہ اور الحاح سے دعائے مغفرت کروں گا۔ اس جگہ موسمی بخار سے گھر میں اور بچوں کو بیماری ہے۔ اللہ تعالیٰ فضل کرے اور مرزا خدابخش صاحب کی بیوی بھی تپ ……اب طاعون بھی ہمارے ملک سے نزدیک آگئی ہے۔ خداتعالیٰ کارحم درکار ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد ازقادیان
مکتوب نمبر(۲۱)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ خسرہ کا نکلنا ایک طرح پر جائے خوشی ہے کہ اس سے طاعون کا مادہ نکلتا ہے اور انشاء اللہ تین سال امن کے ساتھ گزرتے ہیں۔ کیونکہ طبی تحقیق سے خسرہ اور چیچک کا مادہ اور طاعون کا مادہ ایک ہی ہے۔ آپ تین تین چار چار رتی جدوار رگڑ کر کھاتے رہیںکہ اس مادہ اور طاعون کے مادہ کایہ ترق ہے۔ میں ہر وقت نماز میں اورخارج نماز کے آپ کے لئے دعاکرتا ہوں۔ خط پہنچنے پر تردد ہوا۔ اس لئے جلدی مرزا خدا بخش آپ کی خدمت میں پہنچتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جلد شفا بخشے۔ آمین ثم آمین۔
میرے پر عدالت ضلع گورداسپور کی طرف سے تحصیل میں ایک مقدمہ انکم ٹیکس ہے۔ جس میں مولوی حکیم نورالدین صاحب اور چھ سات اور آدمی اور نیز مرزا خدا بخش صاحب میری طرف سے گواہ ہیںامید کہ تاریخ سے تین چار روز پہلے ہی مرزا صاحب کو روانہ قادیان فرماویں اور حالات سے جلد از جلد مطلع فرماتے رہیں۔ خد ا تعالیٰ حافظ ہو۔
(نوٹ:۔ اس خط پر حضرت اپنا نام بھول گئے ہیںاور تاریخ بھی درج نہیں ہوئی۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۲۲)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا عنایت نامہ معہ دوسرے خط کے جو آپ کے گھر کے لوگوں کی طرف سے تھا۔ جس میں صحبت کی نسبت لکھا ہوا تھا پہنچا۔ بعد پڑھنے کے دعا کی گئی۔ اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں ہر ایک بلا سے محفوظ رکھے۔ آمین ثم آمین۔ ہمدست مرزا خدابخش صاحب مبلغ تین سو روپیہ کے نوٹ بھی پہنچ گئے۔ جزاکم اللہ خیرا۔ا ن کے لڑکے کا حال ابھی قابل اطمینان نہیں ہے۔ گو پہلی حالت سے کچھ تخفیف ہے۔ مگر اعتبار کے لائق نہیں۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمدعفی اللہ عنہ
مکتوب نمبر(۲۳)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم (۱۸؍اپریل ۱۸۹۹) نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ا گرچہ آں محبت کی ملاقات پر بہت مدت گزر گئی ہے اور دل چاہتا ہے کہ او ر دوستوں کی طرح آپ بھی تین چارماہ تک میرے پاس رہ سکیں۔ لیکن اس خانہ داری کے صدمہ سے جو آپ کو پہنچ گیا ہے۔ بڑی مشکلات پید اہو گئی ہیں۔ یہ روک کچھ ایسی معلوم نہیں ہوتی کہ ایک دو سال تک بھی دور ہو سکے بلکہ یہ دائمی اور اس وقت تک ہے کہ ہم دنیا سے چلے جائیں۔ غرض سخت مزاحم معلوم ہوتی ہے۔ صرف یہ ایک تدبیر ہے کہ آپ کی طرف سے ایک زنانہ مکان بقدر کفالت قادیان میں تیار ہو اور پھر کبھی کبھی معہ قبائل اور سامان کے اس جگہ آجایا کریں اوردو تین ماہ تک رہا کریں لیکن یہ بھی کسی قدر خرچ کا کام ہے اور پھر ہمت کاکام ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے اسباب پیدا کردے اوراپنی طرف سے ہمت اور توفیق بخشے۔ دنیا گذشتنی و گذاشتتنی ہے وقت آخر کسی کو معلوم نہیں۔ اس لئے دینی سلسلہ کو کامل کرنا ہر ایک کے لئے ضروری ہے۔ دانشمند کے لئے فخر سے شام تک زندگی کی امید نہیں۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے کسی سے یہ عہد نہیں کیا کہ اس مدت تک زندہ رہے گا۔ ماسوا اس کے ہمارے ملک میں طاعون نے ایسے ہی پیرجمائے ہیں کہ دن بدن خطرناک حالت معلوم ہوتی ہے۔ مجھے ایک الہام میں معلوم ہوا تھا کہ اگر لوگوں کے اعمال میں اصلاح نہ ہوئی تو طاعون کسی وقت جلد پھیلے گی اور سخت پھیلے گی۔ ایک گائوں کو خدامحفوظ رکھے گا۔ وہ گائوں پریشانی سے بچایا جائے گا۔ میں اپنی طرف سے گمان کرتاہوں کہ وہ گائوں غالباً قادیان ہے اوربڑا اندیشہ ہے کہ شائد آیندہ سال کے ختم ہونے تک خطرناک صورت پر طاعون پھیل جائے اس لئے میں نے اپنے دوستوں کو یہ بھی صلاح دی تھی کہ وہ مختصر طور پر قادیان میں مکان بنا لیں۔ مگر یہی وقت ہے اور پھر شائد وقت ہاتھ سے جاتارہے۔ سو آں محب بھی ا س بات کو سوچ لیں اور عید کی تقریب پر اکثر احباب قادیان آئیں گے اور بعض دینی مشورے بھی اس دن پر موقوف رکھے گئے ہیں۔ سو اگر آں محب آنہ سکیں جیسا کہ ظاہر ی علامات ہیں تو مناسب ہے کہ ایک ہفتہ کے لئے مرزا خد ابخش صاحب کو بھیج دیں تا ان مشوروں میں شامل ہو جائیں۔ باقی سب خیریت ہے۔ مرزا خدا بخش صاحب کے گھر میں سب خیریت ہے۔
والسلام
راقم مرزا غلام احمد عفی عنہ از قادیان
مکتوب نمبر(۲۴)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم (۲۱؍ نومبر ۱۸۹۸ء) نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کل سے میرے گھر میں بیماری کی شدت بہت ہو گئی ہے او رمرزا خدا بخش صاحب کے گھر میں بھی تپ تیز چڑھتا ہے۔ا سی طرح تمام گھر کے لوگ یہاں تک کہ گھر کے بچے بھی بیمار ہیں۔ اگر مرزاخدابخش صاحب آجائیں تو اپنے گھر کی خبر لیں۔ اس قدر بیماری ہے کہ ایک شخص دوسرے کے حال کا پرساں نہیں ہو سکتا۔ حالات تشویش ناک ہیں۔ خداتعالیٰ فضل کرے امید ہے کہ آپ حسب تحریر میرے استقامت اور استواری سے کام لے کر جلد تر تجویز شادی فرماویں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کل کی ڈاک میں آں محب کا عنایت نامہ مجھ کو ملا۔ آپ کی محبت اور اخلاص اور ہمدردی میں کچھ شک نہیں ۔ہاں میں ایک استاد کی طرح جو شاگردوں کی ترقی چاہتا ہوں۔ آیندہ کی زیادہ قوت کے لئے اپنے مخلصوں کے حق میں ایسے الفاظ بھی استعمال کرتا ہوں جن سے وہ متبنہ ہو کر اپنی اعلیٰ سے اعلیٰ قوتیں ظاہر کریں اور دعا ہی کرتا ہوں کہ خداتعالیٰ ان کی کمزوریاں دور فرمائے۔ میں دیکھتا ہوں کہ اس دنیا کا تمام کاروبار اور اس کی نمائش اور عزتیں جناب کی طرح ہیں اور نہایت سعادت مندی اسی میں ہے کہ پورے جوش سے اور پوری صحت کے ساتھ دین کی طرف حرکت کی جائے اورمیرے نزدیک بڑے خوش نصیب وہ ہیں کہ اس وقت اور میری آنکھوں کے سامنے دکھ اٹھا کر اپنے سچے ایمان کے جوش دکھاویں۔ مجھے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس زمانہ کے لئے تجھے گواہ کی طرح کھڑا کروں گا۔ پس کیا خوش نصیب ہے وہ شخص جس کے بارے میں اچھی طرح گواہی ادا کر سکوں۔ اس لئے میں بار بار کہتا ہوں کہ خد اکا خوف بہت بڑھا لیا جائے۔ تا اس کی رحمتیں نازل ہوں اورتا وہ گناہ بخشے۔ آپ کے دو خط آنے کے بعد ہمارے اس جگہ کے دوستوں نے اس رائے کو پسند کیا کہ جو زمانہ گھر کے حصہ مغربی کے مکانات کچے اور دیوار کچی ہے۔اس کو مسمار کر کے اس کی چھت پر مردانہ مکان تیار ہو جائے اور نیچے کامکان بدستور گھر سے شامل رہے۔ چنانچہ حکمت الٰہی سے یہ غلطی ہو گئی کہ وہ کل مکان مسمار کر دیا گیا۔ اب حال یہ ہے کہ مردانہ مکان تو صرف اوپر تیار ہو سکتا ہے اور زنانہ مکان جو تمام گرایا گیا ہے۔ اگر نہایت ہی احتیاط اور کفایت سے اس کو بنایا جائے تو شاید ہے کہ آٹھ سو روپیہ تک بن سکے۔ کیو نکہ اس جگہ انیٹ اور دوہری قیمت خرچ ہوتی ہے اور مجھے یقین نہیں کہ چار سور وپیہ کی لکڑی آکر بھی کام ہوسکے۔ بہرحال یہ پہلی منزل اگر تیار ہو جائے تو بھی بیکار ہے۔ جب تک دوسری منزل اس پر نہ پڑے کیوں کہ مردانہ مکان اسی چھت پر پڑ گیا اور چونکہ ایک حصہ مکان گرنے سے گھر بے پردہ ہورہا ہے اور آج کل ہندو بھی قتل وغیرہ کے لئے بہت کچھ اشتہارات شائع کر رہے ہیں۔ اس لئے میں نے کنویں کے چندہ میں سے عمارت کو شروع کرا دیا ہے۔ تاجلد پردہ ہو جائے گا۔ا گر اس قدر پکا مکان بن جائے جو پہلے کچا تھا توشاید آیندہ کسی سال اگر خداتعالیٰ نے چاہا تو اوپر کا مردانہ حصہ بن سکے۔ افسوس کہ لکڑی چھت کی محض بیکار نکلی اور ایسی بوسیدہ کہ اب جلانے کے کام میں آتی ہے۔ لہذا قریباً چار سو روپیہ کی لکڑی چھت وغیرہ کے لئے درکار ہو گی۔ خدا تعالیٰ کے کام آہستگی سے ہوتے ہیں۔ اگر اس نے چاہا ہے تو کسی طرح سے انجام کر دے گا۔ یقین کہ مولوی صاحب کاعلیحدہ خط آپ کو پہنچے گا۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۶؍ اپریل ۱۸۹۶ء
مکتوب نمبر(۵۳)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
قادیان میں تیزی سے طاعون شروع ہو گئی ہے۔ آج میاں محمد افضل ایڈیٹر اخبار البدر کا لڑکا جاں بلب ہے۔ نمونیا پلیگ ہے۔ آخری دم معلوم ہوتا ہے۔ ہر طرف آہ وزاری ہے۔ خدا تعالیٰ فضل کرے۔ ایسی صورت میں میرے نزدیک بہت ہے کہ آپ آخیر اپریل ۱۹۰۵ء تک ہرگز تشریف نہ لاویں۔ دنیا پر ایک تلوار چل رہی ہے۔ خدا تعالیٰ رحم فرمائے۔ باقی خداتعالیٰ کے فضل سے سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر (۵۴)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج مولوی مبارک علی صاحب جن کی نسبت آپ نے برخاستگی کی تجویز کی تھی۔ حاضر ہو گئے ہیں۔ چونکہ وہ میرے استاد نادہ ہیں اور مولوی فضل احمد صاحب والد بزرگوار ان کے جو بہت نیک اور بزرگ آدمی تھے۔ ان کے میرے پر حقوق استادی ہیں۔ میری رائے ہے کہ اب کی دفعہ آپ ان کی لمبی رخصت پر اغماض فرماویں۔ کیونکہ وہ رخصت بھی چونکہ کمیٹی کی منظوری سے تھی کچھ قابل اعتراض نہیں۔ ماسوا اس کے چونکہ وہ واقعہ( میں ) ہم پر ایک حق رکھتے ہیں اور عفو اور کرم سیرت ابرار میں سے ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے واعفو اوا صفحوا الا اتحبون ان یغفر اللہ لکم واللہ غفور الرحیم یعنی عفو اور درگزر کی عادت ڈالو۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ خدابھی تمہاری تقصیر میں معاف کرے اورخداتو غفور رحیم ہے۔ پھر تم غفور کیوں نہیں بنتے۔ اس بناء پر ان کا یہ معاملہ درگزر کے لائق ہے۔ اسلام میں یہ اخلاق ہرگز نہیں سکھلائے گئے۔ ایسے سخت قواعد نصرانیت کے ہیں اور ان سے خداہمیں اپنی پناہ میں رکھے۔ ماسوا اس کے چونکہ میں ایک مدت سے آپ کے لئے دعا کرتا ہوں اوراللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ان کے گناہ معاف کرتا ہوں جو لوگوں کے گناہ معاف کرتے ہیں اور یہی میرا تجربہ ہے۔ پس ایسانہ ہو کہ آپ کی سخت گیری کچھ آپ ہی کی راہ میں سنگ راہ ہو۔ ایک جگہ میں نے دیکھا ہے کہ ایک شخص فوت ہوگیا۔ جس کے اعمال کچھ اچھے نہ تھے۔ اس کو کسی نے خواب میںدیکھا کہ خداتعالیٰ نے تیرے ساتھ کیا معاملہ کیا ۔ اس نے کہا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بخش دیا اورفرمایا کہ تجھ میں یہ صفت تھی کہ تو لوگوں کے گناہ معاف کرتا تھا اس لئے میں تیرے گناہ معاف کرتا ہوں۔ سو میری صلاح یہی ہے کہ آپ اس امر سے درگزر کرو تا آپ کو خداتعالیٰ کی جناب میں درگزر کرانے کا موقعہ ملے۔ اسلامی اصول انہی باتوں کا چاہتے ہیں۔ دراصل ہماری جماعت کے ہمارے عزیز دوست جو خدمت مدرسہ پر لگائے گئے ہیں وہ ان طالب علم لڑکوں سے ہمیں زیادہ عزیز ہیں۔ جن کی نسبت ابھی تک معلوم نہیں کہ نیک معاش ہوں گے یا بدمعاش۔
یہ سچ ہے کہ آپ تمام اختیارات رکھتے ہیں۔ مگر یہ محض بطور نصیحتاً للہ لکھا گیا ہے۔ اختیارات سے کام چلانا نازک امرہے۔ اس لئے خلفاء راشدین نے اپنے خلافت کے زمانہ میں شوریٰ کوسچے دل سے اپنے ساتھ رکھا تا اگر خطا بھی ہو تو سب پر تقسیم ہوجائے نہ صرف ایک کی گردن پر۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر (۵۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایسے وقت آپ کاعنایت نامہ مجھ کو ملا کہ میں دعا میں مشغول ہوں اور امیدوار رحمت ایزوی حالات کے معلوم کرنے سے میری بھی یہی رائے ہے کہ ایسی حالت میں قادیان میں لانا مناسب نہیں ۔ امید کہ انشاء اللہ تعالیٰ جلد وہ دن آئے گا کہ با آسانی سواری کے لائق ہو جائیںگے۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ جس وقت عزیزی عبدالرحمن ڈاکٹروں کی رائے سے ریل کی سواری کے لائق ہو جائیں۔ تو بٹالہ میں پہنچ کر ڈولی کاانتظام کیا جائے۔ کیونکہ یکہ وراستہ وغیرہ ضعف کی حالت میں ہرگز سواری کے لائق نہیں ہیں۔ میںخداتعالیٰ کے فضل اور توفیق سے بہت توجہ سے کرتا رہوں گا۔
دو خاص وقت ہیں (۱) وقت تہجد (۲) اشراق ماسوا اس کے پانچ وقت نماز میں انشاء اللہ دعا کروں گا اور جہاں تک ہو سکے آپ تازہ حالات سے ہرروز مجھے اطلاع دیتے رہیں کیونکہ اگرچہ اسباب کی رعایت بھی ضروری ہے۔ مگر حق بات یہ ہے۔ کہ اسباب بھی تب ہی درست اور طیب کو بھی تب ہی سیدھی راہ ملتی ہے۔ جب کہ خداتعالیٰ کا ارادہ ہو اور انسان کے لئے بجز دعا کے کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے جو خداتعالیٰ کے ارادہ کو انسان کی مرضی کے موافق کردے ایک دعا ہی ہے کہ اگر کمال تک پہنچ جائے توایک مردہ کی طرح انسان زندہ ہوسکتا ہے۔ خداتعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ دعا کمال کو پہنچ جائے وہ نہایت عمدہ چیز ہے۔ یہی کیمیا ہے اگر اپنے تمام شرائط کے ساتھ متحقق ہوجائے۔ خداتعالیٰ کا جن لوگوں پر فرض ہے اور جو لوگ اصطفا اوراجتباء کے درجہ تک پہنچے ہیں۔ اس سے بڑھ کر کوئی نعمت ان کو نہیں دی گئی کہ اکثر دعائیں ان کی قبول ہوجائیں۔ گو مشیت الٰہی نے یہ قانون رکھا ہے کہ بعض دعائیں مقبولوں کی بھی قبول نہیں ہوتیں لیکن جب دعا کمال کے نقطہ تک پہنچ جاتی ہے۔ جس کا پہنچ جانا محض خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ وہ ضرور قبول ہوجاتی ہے۔ یہ کبریت احمر ہے جس کا وجود قلیل ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزاغلام احمد عفی عنہ
از قادیان
مکتوب (۵۶) نمبرملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ مجھ کو ملا۔ جو کچھ آپ نے مجھ کو لکھا ہے اس سے مجھے بکلی اتفاق ہے۔ میںنے مفتی محمد صادق صاحب کو کہہ دیا ہے کہ آپ کے منشاء کے مطابق جواب لکھ دیں اورآپ ہی کی خدمت میں بھیج دیں۔ آپ پڑھ کر اور پسند فرما کر روانہ کر دیں۔ ہاں ایک بات میرے نزدیک ضروری ہے گو آپ کی طبیعت اس کو قبول کرے یا نہ کرے اوروہ یہ ہے کہ ہمیشہ دو چار ماہ کے بعد کمشنر صاحب وغیرہ حکام کو آپ کا ملنا ضروری ہے۔ کیو نکہ معتبر ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ بعض شکی مزاج حکام کو جو اصلی حقیقت سے بے خبر ہیں ہمارے فرقہ پر سوء ظن ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی حکام کو نہیں ملتا اورمخالف ہمیشہ ملتے رہتے ہیں۔ پس جس حالت میں آپ جاگیردار ہیں اور حکام کو معلوم ہے کہ آپ فرقہ میں شامل ہیں۔ اس لئے ترک ملاقات سے اندیشہ ہے کہ حکام کے دل میں یہ بات مرکوز نہ ہو جائے کہ یہ فرقہ اس گورنمنٹ سے بغض رکھتا ہے۔گو یہ غلطی ہو گی اورکسی وقت رفع ہو سکتی ہے۔ مگر تا تریاق ازعرق آوردہ شود مار گزیدہ مردہ شود باقی سب طرح سے خیریت ہے۔ میں انشاء اللہ بروز جمعرات قادیان سے روانہ ہوں گا۔
والسلام
خاکسار
مرزاغلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر (۵۷)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کاعنایت نامہ پہنچا۔ خاکسار بباعث کثرت پیشاب اور دوران سر اور دوسرے عوارض کے خط لکھنے سے قاصر رہا۔ ضعف بہت ہو رہاہے۔ یہاں تک کہ بجز دو وقت یعنی ظہر اور عصر کے گھر میں نماز پڑھتا ہوں۔ آپ کے خط میں جس قدر ترددات کا تذکرہ تھا پڑھ کر اور بھی دعا کے لئے جوش پیدا ہوا۔ میںنے یہ التزام کر رکھا ہے کہ پنچ وقت نماز میں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں اورمیںبہ یقین دل جانتا ہوں کہ یہ دعائیں بیکار نہیں جائیںگی۔ ابتلائوں سے کوئی انسان خالی نہیں ہوتا۔ اپنے اپنے قدر کے موافق ابتلاء ضرور آتے ہیں اور وہ زندگی بالکل طفلانہ زندگی ہے جو ابتلائوں سے خالی ہو۔ ابتلائوں سے آخر خد اتعالیٰ کا پتہ لگ جاتاہے۔ حوادث دھر کاتجربہ ہو جاتاہے اور صبر کے ذریعہ سے اجر عظیم ملتا ہے۔ اگر انسان کوخداتعالیٰ کی ہستی پر ایمان ہے تو اس پر بھی ایمان ضرور ہوتا ہے کہ وہ قادر خدابلائوں کے دور کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔ میرے خیال میں اگرچہ وہ تلخ زندگی جس کے قدم قدم میں خارستان مصائب و حوادث و مشکلات ہے۔ بسا اوقات ایسی گراں گزرتی ہے کہ انسان خود کشی کا ارادہ کرتا ہے۔ یا دل میں کہتا ہے کہ اگر میں اس سے پہلے مر جاتا تو بہتر تھا۔ مگر درحقیقت وہی زندگی قدرتا ہوتی ہے اور اس کے ذریعہ سے سچا او رکامل ایمان حاصل ہوتا ہے۔ ایمان ایوب نبی کی طرح چاہئے کہ جب اس کی سب اولاد مر گئی اور تمام مال جاتا رہا تو اس نے نہایت صبر اور استقلال سے کہا کہ میں ننگا آیا اور ننگا جائوں گا۔
پس اگر دیکھیں تو یہ مال اورمتاع جو انسان کو حاصل ہوتا ہے صرف خدا کی آزمائش ہے۔ اگر انسان ابتلاء کے وقت خدا تعالیٰ کا دامن نہ چھوڑے۔ تو ضرور وہ اس کی دستگیری کرتا ہے۔ خداتعالیٰ درحقیقت موجود ہے اور درحقیقت وہ ایک مقرر وقت پر دعا قبول کرتا ہے اورسیلاب ہموم وغموم سے رہائی بخشتا ہے۔ پس قوی ایمان کے ساتھ اس پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔ وہ دن آتا ہے کہ یہ تمام ہموم وغموم صرف ایک گزشتہ قصہ ہو جائے گا۔ آپ جب تک مناسب سمجھیں لاہور رہیں۔ خدا تعالیٰ جلد ان مشکلات سے رہائی بخشے۔ آمین۔
اپیل مقدمہ جرمانہ دائر کیا گیا ہے۔ مگر حکام نے مستغیث کی طرف سے یعنی کرم دین کی مدد کے لئے سرکاری وکیل مقرر کر دیا ہے۔ یہ امر بھی اپیل میں ہمارے لئے بظاہر ایک مشکل کا سامنا ہے۔ کیو نکہ دشمن کو وکیل کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ اس میں وہ بہت خوش ہو گا اور اس کو بھی اپنی فتح سمجھے گا۔ ہر طرف دشمنوں کا زور ہے۔ خون کے پیاسے ہیں۔ مگر وہی ہو گا جو خواستئہ ایزوی ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲؍ دسمبر ۱۹۰۶ء
مکتوب نمبر (۵۸) دستی
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
رات مجھے مولوی صاحب نے خبر دی کہ آپ کی طبیعت بہت بیمارتھی۔ تب میں نماز میں آپ کے لئے دعا کرتارہا۔ چند روز ایک دینی کام کے لئے اس قدر مجھے مشغولی رہی کہ تین راتیں میں جاگتا رہا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو شفاء بخشے۔ میں دعا میں مشغول ہوں او بیماری مومن کے لئے کفارہ گناہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ شفا بخشے آمین۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
نوٹ:۔ یہ مکتوب حضرت نواب صاحب قبلہ کے ایک خط کے جواب میں ہے جوحسب ذیل ہے۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
سیدی و مولائی طبیب روحانی سلمکم اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم
مجھ کو اس دفعہ نزلہ کچھ عجیب طرح کا ہوا ہے۔ بالکل بخار کی سی کفیت رہتی ہے۔ پہلے زکام ہوا۔ اس سے ذرا افاقہ ہوا۔میں نے سمجھا کہ اب آرام ہو گیا۔ مگر اسی روز کھانسی ہوگئی ۔ اب سینہ میں جس طرح چھری سے کھرچتے ہیں۔ اس طرح خراش ہو رہی ہے اورسر میں بدن میں کسل۔ کمر میں درد ہو گیا۔ چونکہ قبض بھی رہتی ہے۔ اس لئے سرمیں غبار رہتا ہے۔ کل ذرا طبیعت بحال ہوئی تھی۔ مگر آج باقی استدعائے دعا۔ (راقم محمد علی خاں)
مکتوب نمبر (۵۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم نواب صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
تمام خط میںنے پڑھا۔ اصل حال یہ ہے کہ جو کچھ میں نے لکھا تھا وہ اس بناء پر تھا کہ نور محمد کی بیوی نے میرے پاس بیان کیا کہ نواب صاحب میرے خاوند کو یہ تنخواہ چار روپیہ ماہوار کوٹلہ میں بھیجتے ہیں اور اس جگہ چھ روپیہ تنخواہ تھی اور روٹی بھی ساتھ تھی۔ اب ہماری تباہی کے دن ہیں اس لئے ہم کیا کریں۔ یہ کہہ کر وہ روپڑی۔ میں توجانتا تھا کہ اس تنزل تبدیلی کی کوئی اسباب ہوںگے اور کوئی ان کا قصور ہو گا۔ مگر مجھے خیال آیا کہ ایک طرف تو میں نواب صاحب کے لئے پنج وقت نماز میں دعا کرتا ہوں کہ خداتعالیٰ ان کی پریشانی دور کرے اور دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جن کی شکایت ہے کہ ہم اب اس حکم سے تباہ ہو جائیںگے تو ایسی صورت میں میری دعا کیا اثر کرے گی۔ گو یہ سچ ہے کہ خدمت گار کم حوصلہ اور احسان فراموش ہوتے ہیں۔ مگر بڑے لوگوں کے بڑے حوصلے ہوتے ہیں۔ بعض وقت خدا تعالیٰ اس بات کی پرواہ نہیںرکھتا کہ کسی غریب بادار خدمت گار نے کوئی قصور کیا ہے اور یہ دیکھتا ہے کہ صاحب دولت نے کیوں ایسی حرکت کی ہے کہ اس کی شکر گزاری کے برخلاف ہے۔ اس لئے میں نے آپ کو ان دلی رنجش کے برے اثر سے بچانے کے لئے مولوی محمد علی صاحب کو لکھا تھا۔ ورنہ میں جانتا ہوں کہ اکثر خدمت گار اپنے قصور پر پردہ ڈالتے ہیں اوریوں ہی واویلا کرتے رہتے ہیں۔ اس وجہ سے میں نے مہمان کے طور پر اس کی بیوی کو اپنے گھر میںرکھ لیا ۔ تاکوئی امر ایسانہ ہو کہ جو میری دعائوں کی قبولیت میں حرج ڈالے اور حدیث شریف میں آیا ہے۔ ارحمو افی الارض ترحمو افیالسماء زمین میں رحم کرو تا آسمان پر تم پر رحم ہو۔ مشکل یہ ہے کہ امراء کے قواعد انتظام قائم رکھنے کے لئے اور ہیں اور وہاں آسمان پر کچھ اور چاہتے ہیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر (۶۰) دستی
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اشتہار کے بارے میں جو مدرسہ کے متعلق لکھا ہے۔ چند دفعہ میں نے ارادہ کیا کہ لکھوں اور ایک دفعہ یہ مانع اس میں آیا کہ وہ حال سے خالی نہیں کہ یا تو یہ لکھا جائے کہ جس قدر مدد کا لنگر خانہ کی نسبت ارادہ کیا جاتا ہے۔ اسی رقم میں سے مدرسہ کی نسبت ثلث یا نصف ہونا چاہئے۔ تواس میں یہ قباحت ہے کہ ممکن ہے اس انتظام سے دونوں میں خرابی پید اہو۔ یعنی نہ تو مدرسہ کا کام پورا ہو اور نہ لنگر خانہ کا۔ جیسا کہ دو روٹیاں دو آدمیوں کو دی جائیںتو دونوں بھوکے رہیںگے اور اگر چندہ والے صاحبوں پر یہ زور ڈالا جائے کہ وہ علاوہ اس چندہ کے وہ مدرسہ کے لئے ایک چندہ دیں تو ممکن ہے کہ ان کو ابتلاء پیش آوے اور وہ اس تکلیف کو فوق الطاقت تکلیف سمجھیں۔ اس لئے میںنے خیال کیا کہ بہتر ہے کہ مارچ اور اپریل دو مہینے امتحان کیا جائے کہ اس تحریک کے بعد جو لنگر خانہ کے لئے کی گئی ہے۔ کیا کچھ ان دو مہینوں میں آتا ہے۔ پس اگر اس قدر روپیہ آگیا جو لنگرخانہ کے تخمینی خرچ سے بچت نکل آئے تو وہ روپیہ مدرسہ کے لئے خرچ ہو گا۔ میرے نزدیک ان دو ماہ کے امتحان سے ہمیں تجربہ ہو جائے گا کہ جو کچھ انتظام کیا گیاہے۔ کس قدر اس سے کامیابی کی امید ہے۔ اگر مثلاً ہزار روپیہ ماہوار چندہ کا بندوبست ہو گیا تو آٹھ سو روپیہ لنگر خانہ کے لئے نکال کر دو سو روپیہ ماہوار مدرسہ کے لئے نکل آئے گا۔ یہ تجویز خوب معلوم ہوتی ہے کہ ہر ایک روپیہ جو ایک رجسٹر میں درج ہوتا رہے اور پھر دو ماہ بعد سب حقیقت معلوم ہوجائے۔
غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر (۶۱) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں اس جگہ آکر چند روز بیمار رہا۔ آج بھی بائیں آنکھ میں درد ہے۔ باہر نہیں جا سکتا۔ ارادہ تھا کہ اس شہر کے مختلف فرقوں کو سنانے کے لئے کچھ مضمون لکھوں۔ ڈرتا ہوں کہ آنکھ کا جوش زیادہ نہ ہو جائے خدا تعالیٰ فضل کرے۔
مرزا خد ابخش کی نسبت ایک ضروری امر بیان کرنا چاہتا ہوں۔ گو ہر شخص اپنی رائے کا تابع ہوتا ہے۔ مگر میں محض آپ کی ہمدردی کی وجہ سے لکھتا ہوں کہ مرزا خد ابخش آپ کا سچا ہمدرد اورقابل قدر ہے اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ کئی لوگ جیسا کہ ان کی عادت ہوتی ہے۔ اپنی کمینہ اغراض کی وجہ سے یا حسد سے یا محض سفلہ پن کی عادت سے بڑے آدمیوں کے پاس ان کے ماتحتوں کی شکایت کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ میںنے سناہے کہ ان دنوں میں کسی شخص نے آپ کی خدمت میں مرزا خدا بخش صاحب کی نسبت خلاف واقعہ باتیں کہ کر آپ پر ناراض کیا ہے۔ گویا انہوں نے میرے پاس آپ کی شکایت کی ہے اور آپ کی کسر شان کی غرض سے کچھ الفاظ کہے ہیں مجھے اس امر سے سخت ناراضگی حاصل ہوئی اور عجیب یہ کہ آپ نے ان پر اعتبار کر لیا ایسے لوگ دراصل بد خواہ ہیں نہ کہ مفید۔ میں اس بات کا گواہ ہوں کہ مرز اخد ابخش کے منہ سے ایک لفظ بھی خلاف شان آپ کے نہیں نکلا اور مجھے معلوم ہے کہ وہ بے چارہ دل وجان سے آپ کا خیر خواہ ہے اور غائبانہ دعا کرتا ہے اور مجھ سے ہمیشہ آپ کے لئے دعا کی تاکید کرتا رہتا ہے اور چاہتا ہے کہ یہ چند روزہ زندگی آپ کے ساتھ ہو۔ رہی یہ بات کہ مرزا خدا بخش ایک بیکار ہے۔ یا آج تک اس سے کوئی کام نہیں ہو سکا۔ یہ قضائو قدر کا معاملہ ہے۔ انسان اپنے لئے خود کوشش کرتا ہے اوراگر بہتری مقدر میں نہ ہو تو اپنی کوشش سے کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ ایسے انسانوں کے لئے جوایک بڑا حصہ عمر کاخدمت میں کھو چکے ہیں اور پیرانہ سالی تک پہنچ گئے ہیں۔ میرا تو یہی اصول ہے کہ ان کی مسلسل ہمدردیوں کو فراموش نہ کیا جائے۔ کام کرنے والے مل جاتے ہیں۔ مگر ایک سچا ہمدرد انسان حکم کیمیا رکھتا ہے۔وہ نہیں ملتے۔ ایسے انسانوں کے لئے شاہان گزشتہ بھی دست افسوس ملتے رہے ہیں۔ اگر آپ ایسے انسانوں کی محض کسی وجہ سے بے قدری کریں تو میری رائے میں ایک غلطی کریں گے۔ یہ میری رائے ہے کہ جومیں نے آپ کی خدمت میں پیش کی ہے اور آپ ہر ایک غائبانہ بد ذکر کرنے والوں سے بھی چوکس رہیں کہ حاسدوں کا جو وجود دنیا میں ہمیشہ بکثرت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
مکرر یاد دلاتا ہوں کہ میرے کہنے سے مرزا خد ابخش چند روز کے لئے لاہور میرے ساتھ آئے تھے۔
مکتوب نمبر (۶۲) ملفوف
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
عزیزہ امۃ الحمید بیگم زاہ عمرہا۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا خط مجھ کو ملا۔ میں نے اوّل سے آخر تک اس کوپڑھ لیا ہے۔ یاد رہے کہ میں آپ کی نسبت کسی قسم کی بات نہیں سنتا۔ ہاں مجھے یہ خیال ضرور ہوتا ہے کہ جن کو ہم عزیز سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دین اور دنیا میں ان کی بھلائی ہو۔ ان کی نسبت ہمیں یہ جوش ہوتا ہے کہ کوئی غلطی ان میں ایسی مذر ہے۔ جو خداتعالیٰ کے سامنے گناہ ہو یا جس میں ایمان کا خطرہ ہو اور جس قدر کسی سے میری محبت ہوتی ہے اسی قدر
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
عرض حال
میں اپنی زندگی کایہ بھی ایک مقصد سمجھتا ہوںکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہر قسم کی پرانی تحریروںکو جو کبھی شائع نہیں ہوئی ہیں۔نایاب ہو چکی ہیں اورلوگوںکو خبر بھی نہیں ……کروںاور جمع کرتا رہوں۔ اس سلسلہ میں اب تک بہت کچھ شائع ہو چکاہے اورابھی کچھ باقی ہے۔ میںخد اکا بہت شکر کرتا ہوں کہ مکتوبات احمدیہ کے سلسلہ میں پانچویں جلد( جو حضرت کے ان مکتوبات پر مشتمل ہے۔ جو آپ نے اپنے دوستوں کو لکھے)کا چوتھا نمبر شائع کر رہا رہوں۔ یہ مکاتیب نواب محمد علی خان صاحب قبلہ کے نام اور ممکن ہے کہ آپ کے نام کے اور خطوط بھی ہوں۔ مگر مجھے جو مل سکے ہیں میں نے شائع کردئیے ہیں اور اگر اور مکتوبات میسر آئے تو وہ بھی نمبر کے ضمیمہ کے طور پر شائع کر سکوں گا۔ وباللہ التوفیق۔
مجھے یہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے کہ افسوس ہے ابھی تک جماعت میں ایسے قدر کی تعداد بہت کم ہے۔ جوبیش قیمت موتیوں کی اصل قدر کریں۔
بہرحال میں اپنا کام جس رفتار سے ممکن ہے کرتا رہوں گا۔ جب تک خدا تعالیٰ توفیق دے۔ تاہم دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس کام میں میرے مدد گار ہوں۔
والسلام
خاکسار
عرفانی کنج عافیت قادیان دارلامان
یکم فروری ۱۹۲۳ء
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر چہارم
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلا م کے مکتوبات حضرت نواب محمد علی خان صاحب آف مالیرکوٹلہ کے نام
مکتوب نمبر( ۱) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
از طرف عاید باللہ الصمد غلام احمد عافاہ اللہ وایدباخویم محمد علی خان صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ کاخط پہنچا۔ اس عاجز نے جو بیعت کے لئے لکھا تھا۔ وہ محض آپ کے پہلے خط کے حقیقی جواب میں واجب سمجھ کر تحریر ہوا تھا۔ کیونکہ آپ کاپہلا خط اس سوال پر متضمن تھا کہ پر معصیت حالت سے کیونکر رستگاری ہو۔ سو جیسا کہ اللہ جلشانہ نے اس عاجز پر الفا کیا تحریر میں آیا اورفی الحقیقت جذبات نفانیہ سے نجات پانا کسی کے لئے بجز اس صورت کے ممکن نہیں کہ عاشق زار کی طرح خاکپائے محبان الٰہی ہو جائے اور بصدق ارادت ایسے شخص کے ہاتھ میں دے جس کی روح کو روشنی بخشی جاوے تا اسی کے چشمہ صافیہ سے اس فردماندہ کو زندگی کا پانی پہنچے اور اس تر وتازہ اور درخت کی ایک شاخ ہوکر اس کے موافق پھل لاوے۔ غرض آپ نے پہلے خط میں نہایت انکسار اور تواضع سے اپنے روحانی علاج کی درخواست کی تھی۔ سو آپ کو وہ علاج بتلایا گیا۔ جس کو سعید آدمی بصد شکریہ قبول کرے گا۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ ابھی آپ کاوقت نہیں آیا۔ معلوم نہیں ابھی کیا کیا دیکھنا ہے اورکیا کیا ابتلا درپیش ہے اوریہ جو آپ نے لکھا ہے کہ میں شیعہ ہوں اس لئے بیعت نہیں کرسکتا ۔ سو آپ کو اگر صحبت فقراء کاملین میسر ہو تو آپ خود ہی سمجھ لیں کہ شیعوں کا یہ عقیدہ کہ ولایت اور امامت بارہ شخص پر محدود ہو کر آیندہ قرب الٰہی کے دروازو ںپر مہر لگ جائے تو پرپھر اس سے تمام تعلیم عبث ٹھہرتی ہے اور اسلام ایک ایسا گھر ویران اور سنسان ماننا پڑتا ہے۔ جس میں کسی نوع کی برکت کانام نشان نہیں اور اگر یہ سچ ہے کہ خد اتعالیٰ تمام برکتوں اور امامتوں اور ولایتوں پر مہر لگا چکا ہے اور آیندہ کے لئے وہ راہیں بند ہیں۔ توخدا تعالیٰ کے سچے طالبوں کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی دل توڑنے والا واقعہ نہ ہو گا۔ گویا وہ جلتے ہی مر گئے اور ان کے ہاتھ میں بجز چند خشک قصوں کے اور کوئی مفروار نہیں اور اگر شیعہ لوگ اس عقیدہ کو سچ مانتے ہیں تو پھر پنج وقت نماز میںیہ دعا پڑھتے ہیں
اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم
کیونکہ اس دعا کے تو یہ معنی ہیںکہ اے خدائے قادر ہم کو وہ راہ اپنے قرب کا عنایت کر جو تونے نبیوں اور اماموں اور صدیقوں اور شہیدوں کو عنایت کیا تھا۔ پس یہ آیت صاف بتلائی ہے کہ کمالات امامت کا راہ ہمیشہ کے لئے کھلا ہے اور ایسا ہی ہونا چاہیئے تھا۔ اس عاجز نے اسی راہ کے اظہار ثبوت کے لئے بیس ہزار اشتہار مختلف دیار امصار میں بھیجا ہے۔
اگر یہی کھلا نہیں تو پھر اسلام میں فضیلت کیا ہے
یہ تو سچ ہے کہ بارہ امام کامل اور بزرگ اور سید القوم تھے۔ مگر یہ ہرگز سچ نہیں کہ کمالات میں ان کے برابر ہونا ممکن نہیں۔
خداتعالیٰ کے دونوں ہاتھ رحمت اور قدرت کے ہمیشہ کے لئے کھلے ہیں اور کھلے رہیں گے اور جس دن اسلام میں یہ برکتیں نہیں ہوں گی۔ اس دن قیامت آجائے گی۔ خداتعالیٰ ہر ایک کو راہ راست کی ہدائت کرے۔
پرانا عقیدہ ایسا مو ثر ہوتا ہے کہ بجائے دلیل ماناجاتا ہے اور اس سے کوئی انسان بغیر فضل خداتعالیٰ نجات نہیں پاسکتا۔ ایک آدمی آپ لوگوں میں سے کسی کو خیال آتا ہے۔ کہ اس کی آزمائش کروں۔
٭ کتاب براہین احمدیہ کا اب تک حصہ پنجم طبع نہیں ہوا ہے۔ امید کہ خداتعالیٰ کے فضل سے جلد سامان طبع کا پیدا ہوجائے۔ صرف کتاب کے چند نسخے باقی ہیں اور بطور پیشگی دئے جاتے ہیں اور بعد تکمیل طبع باقی انہی کو ملیں گے۔ جو اول خریدار ہوچکے ہیں ۔ قیمت کتاب سوروپیہ سے پچیس روپیہ حسب مقدرت ہے۔ یعنی جس کو سو روپیہ کی توفیق ہے وہ سوروپیہ ادا کرے اور جس کو کم توفیق ہے وہ کم مگر بہرحال پچیس روپیہ سے کم نہ ہواور نادار کو مفت للہ ملتی ہے۔ آپ جس صیغہ میں چاہیں لے سکتے ہیں اور چاہیں تو مفت بھیجی جاوے۔
والسلام
احقر عباد اللہ غلام احمد
ازلودہانہ محلہ اقبال گنج
شہزادہ حیدر
۷؍اگست ۱۸۹ء
مکتوب نمبر (۲) ملفوف
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہٰ الکریم۔
بخدمت اخویم عزیزی خان صاحب محمد علی خاں السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
عنایت نامہ متضمن بہ دخول درسلسلہ بیعت این عاجز موصول ہوا۔ دعا ثبات و استقامت درحق آں عزیز کی گئی۔
ثبلتکم علی للتقویٰ والا یمان وافتح لکم ابواب الخلوص و المجتہ والفرقان امین ثم امین۔
اشتہار شرائط بیعت بھیجا جاتا ہے۔ جہاں تک وسعت و طاقت ہو اس پر پابند ہوں اور کمزوری دور کرنے کے لئے خداتعالیٰ سے مدد چاہتے رہیں۔ اپنے رب کریم سے مناجات خلوت کی مداومت رکھیں اور ہمیشہ طلب قوت کرتے رہیں۔
جس دن کا آنا نہایت ضروری اور جس گھڑی کا وارد ہوجانا نہایت یقینی ہے۔ اس کو فراموش مت کرو اور ہروقت ایسے رہو کہ گویا تیار ہو کیونکہ نہیں معلوم کہ وہ دن اور گھڑی کس وقت آجائے گی۔ سو اپنے وقتوں کے محافظت کرو اور اس اس سے ڈرتے رہو۔ جس کے تصرف میں سب کچھ ہے۔ جو شخص قبل از بلا ڈرتا ہے۔ اس کے امن دیا جائے گا۔ کیونکہ جو شخص بلا سے پہلے دنیا کی خوشیوں میں مست ہورہا ہے۔ وہ ہمیشہ کے لئے دکھوںمیں ڈالا جائے گا۔ جو شخص اس قادر سے ڈرتا ہے۔ وہ اس کے حکموں کی عزت کرتاہے۔ پس اس کو عزت دی جائے گی۔ جو شخص نہیں ڈرتا اس کو ذلیل کیا جائے گا۔ دنیا بہت ہی تھوڑا وقت ہے۔
بے وقوف وہ شخص ہے جو اس سے دل لگا وے اور نادان ہے وہ آدمی جو اس کے لئے اپنے رب کریم کو ناراض کرے۔ سو ہو شیار ہو جائو تا غیب سے قوت پائو۔ دعا بہت کرتے رہو اورعاجزی کو اپنی خصلت بنائو۔ جو صرف رسم اور عادت کے طور پر زباں سے دعا کی جاتی ہے۔ کچھ بھی چیز نہیں۔ جب دعا کرو تو بجز صلوٰۃ فرض کے یہ دستور رکھو کہ اپنی خلوت میں جائو اوراپنی زبان میں نہایت عاجزی کے ساتھ جیسے ایک اونیٰ سے ادنیٰ بندہ ہوتا ہے۔خدا ئے تعالیٰ کے حضور میں دعا کرو۔
اے رب العالمین ! تیرے احسان کا میں شکر نہیں کر سکتا۔
تونہایت رحیم وکریم ہے اور تیرے بے نہایت مجھ پر احسان ہیں۔ میرے گناہ بخش تا میں ہلاک نہ ہو جائوں ۔ میرے دل میں اپنی خالص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پودہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے عمل کرا۔ جن سے تو راضی ہو جائے۔ میں تیرے وجہ سے کریم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وارد ہو۔ رحم فرما اور دین وآخرت کی بلائوں سے مجھے بچاکہ ہر ایک فضل وکرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔آمین ثم آمین۔
آپ کی اس بیعت کی کسی کو خبر نہیں دی گئی اور بغیر آ پ کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ لیکن مناسب ہے کہ اس اخفا کو صرف اسی وقت تک رکھیں کہ جب تک کوئی اشد مصلحت درپیش ہو۔ کیونکہ اخفا میں ایک قسم کا ضعف ہے اور نیز اظہار سے گویا قولاً نصیحت للخلق ہے۔
آپ کے اظہار سے ایک گروہ کو فائدہ پہنچتا ہے ا ور غبت الی الخیر پیدا ہو تی ہے۔ خداتعالیٰ ہر ایک کام میں مدد گار ہو کہ بغیر اس کی مدد کے انسانی طاقتیں ہیچ ہیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
نوٹ:۔اس خط کی تاریخ تو معلوم نہیں۔ لیکن واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے نواب صاحب کو بیعت کی تحریک فرمائی تھی۔ مگر ا س وقت وہ اس کے لئے تیار نہ تھے اور اپنی جگہ بعض شکوک ایسے رکھے تھے جو مزید اطمینان کے لئے رفع کرنے ضروری تھے۔ جب وہ شکوک رفع ہوئے تو انہوں نے تامل نہیں کیا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ازالہ اوہام میں نواب صاحب کے ایک خط کا اقتباس دیا ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ
ابتدا میں گو میں آپ کی نسبت نیک ظن ہی تھا۔ لیکن صرف اس قدر کہ آپ اور علماء اور مشائخ ظاہری کی طرح مسلمانوں کے تفرقہ کے موید نہیں ہیں۔ بلکہ مخالفین اسلام کے مقابل پر کھڑے ہیں۔ مگر الہامات کے بارے میں مجھ کو نہ اقرار تھا نہ انکار۔ پھر جب میں معاصی سے بہت تنگ آیا اور ان پر غالب نہ ہو سکا تو میں سوچا کہ آپ نے بڑے بڑے دعوے کئے ہیں۔ یہ سب جھوٹے نہیں ہوسکتے۔ تب میں نے بطور آزمائش آپ کی طرف خط وکتابت شروع کی جس سے مجھ کو تسکین ہوتی رہی اور جب قریباً اگست میں آپ سے لودہانہ ملنے گیا تواس وقت میری تسکین خوب ہو گئی اور آپ کو باخدابزرگ پایا اور بقیہ شکوک کو پھر بعد کی خط وکتابت میں میرے دل سے بکلی دھویا گیا اور جب مجھے یہ اطمینان دی گئی کہ ایک ایسا شیعہ جو خلفائے ثلثہ کی کسر شان نہ کرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو سکتا ہے۔ تب میں نے آپ سے بیعت کر لی۔ اب میں اپنے آپ کو نسبتاً بہت اچھا پاتا ہوں اور آپ گواہ رہیں کہ میں نے تمام گناہوں سے آیندہ کے لئے توبہ کی ہے۔ مجھ کو آپ کے اخلاق اور طرز معاشرت سے کافی اطمینان ہے کہ آپ سچے مجدو اوردنیا کے لئے رحمت ہیں۔
جیساکہ پہلے خط سے ظاہر حضرت اقدس اگست ۱۸۹۰ء میں لودھانہ ہی تھے۔ اس لئے کہ وہ خط لودہانہ سے ہی حضرت نے لکھا ہے۔ پس ۱۸۹۰ء کی آخری سہ۶ماہی میں غالباً نواب صاحب کے شکوک وغیرہ صاف ہو گئے اور آپ نے سلسلہ بیعت میں شمولیت اختیار کی۔ اگر میں صحیح تاریخ بیعت بھی معلوم کر سکا تو وہ کسی دوسری جگہ درج کردی جائے گی۔وباللہ التوفیق۔عرفانی۔
مکتوب نمبر(۳)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
مشفقی عزیزی محبی نواب صاحب سردار محمد علی خان صاحب سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کاعنایت نامہ آج کی ڈاک میں مجھ کو ملا۔ الحمد للہ والمنۃ کہ خداتعالیٰ نے آپ کو صحت بخشی اللہ جلشانہ آپ کو خوش رکھے اور عمر اور راحت اورمقاصد دلی میںبرکت اور کامیابی بخشے۔ اگرچہ حسب تحریر مرزا خدابخش صاحب آپ کے مقاصد میں سخت پیچدگی ہے۔ مگر ایک دعا کے وقت کشفی طور پر مجھے معلوم ہو اکہ آپ میرے پاس موجود ہیں اورایک دفعہ گردن اونچی ہو گئی ا ورجیسے اقبال اورعزت کے بڑھنے سے انسان اپنی گردن کو خوشی کے ساتھ ابھارتا ہے۔ ویسی ہی صورت پیدا ہوئی۔ میں حیران ہوں کہ یہ بشارت کس وقت اور کس قسم کے عروج سے متعلق ہے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس صورت کے ظہور کا زمانہ کیا ہے۔ مگر میں کہہ سکتا ہوں کہ کسی وقت میں کسی کا اقبال اور کامیابی اور ترقی عزت اللہ جلشانہ کی طرف سے آپ کے لئے مقررہے۔ اگر اس زمانہ نزدیک ہو یا دور ہو سو میں آپ کے پیش آمدہ ملال سے گو پہلے غمگین تھا۔ مگر آج خوش ہوں۔ کیونکہ آپ کے مال کار کی بہتری کشفی طور پر معلوم ہوگئی۔ واللہ اعلم بالصواب۔
میں پہلے خط میں لکھ چکا ہوں کہ ایک آسمانی فیصلہ کے لئے میں مامور ہوں اور اس کے ظاہری انتظام کے دست کرنے کے لئے میں نے ۲۷؍ دسمبر ۱۸۹۱ء کو ایک جلسہ تجویز کیا ہے۔ متفرق مقامات سے اکثر مخلص جمع ہوں گے۔ مگر میں افسوس کرتا ہوں کہ آں محب بوجہ ضعف و نقاہت ایسے متبرک جلسہ میں شریک نہیں ہو سکتے۔ اس حالت میں مناسب ہے کہ آں محب اگر حرج کار نہ ہو تو مرزا خدا بخش صاحب کو روانہ کر دیں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۲۲؍ دسمبر ۱۸۹۱ء
مکتوب نمبر(۴)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
میرے پیارے دوست نواب محمد علی خان صاحب سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا عنایت عین انتظار میں مجھ کو ملا۔ جس کو میں نے تعظیم سے دیکھا اور ہمدردی اور اخلاص کے جوش سے حرف حرف پڑھا۔ میری نظر میں طلب ثبوت اور استکشاف حق کا طریقہ کوئی ناجائز اور ناگوار طریقہ نہیں ہے۔ بلکہ سعیدوں کی یہی نشانی ہے کہ وہ ورطہ مذبذبات سے نجات پانے کے لئے حل مشکلات چاہتے ہیں۔ لہذا یہ عاجز آپ کے اس طلب ثبوت سے ناخوش نہیں ہوا۔ بلکہ نہایت خوش ہے کہ آپ میں سعادت کی وہ علامتیں دیکھتا ہوں جس سے آپ کی نسبت عرفانی ترقیات کی امید بڑھتی ہے۔
اب آپ پر یہ واضح کرتا ہوں کہ میں نے مباہلہ سے قطعی طور پر انکار نہیں کیا۔ا گر امر متنازعہ فیہ میں قرآن اورحدیث کی رو سے مباہلہ جائز ہو تو میں سب سے پہلے مباہلہ کے لئے کھڑا ہوں ۔ لیکن ایسی صورت میں ہرگز مباہلہ جائز نہیںجب کہ فریقین کا یہ خیال ہو کہ فلاں مسئلہ میں کسی فریق کی اجتہاد یا فہم یا سمجھ کی غلطی ہے۔ کسی کی طرف سے عمداً افتدا یہ دروغ باقی نہیں کیونکہ مجرو ایسے اختلافات ہیں۔جو قطع نظر مصیبت یا محظی ہونے کے صحت نیت اور اخلاص اور صدق پر مبنی ہیں۔مباہلہ جائز ہوتا اور خداتعالیٰ ہر ایک جزئی اختلاف کی وجہ سے محظی پر عندالمباہلہ عذاب نازل کرتا تو آج تک تمام انسان کا روئے زمین سے خاتمہ ہو جاتا۔ کیونکہ کچھ شک نہیں کہ مباہلہ سے یہ غرض ہوتی ہے کہ جو فریق حق پر نہیں اس پر بلا نازل ہو اور یہ بات ظاہر ہے کہ اجتہادی امور میں مثلاً کسی جزئی میں حنفی حق پر نہیں اور کسی میں شافعی حق پر اور کسی میں اہل حدیث اب جب کہ فرض کیا جائے کہ سب فرقے اسلام کی جزئی اختلاف کی وجہ سے باہم مباہلہ کریں اورخداتعالیٰ اس جو حق پر نہیں عذاب نازل کرے تو اس کانتیجہ یہ ہو گا کہ اپنی اپنی خطا کی وجہ سے تمام فرقے اسلام کے روئے زمین سے نابود کئے جائیں۔ اب ظاہر ہے کہ جس امر کے تجویز کرنے سے اسلام کا استیصال تجویز کرتا پڑتا ہے۔ وہ خداتعالیٰ کے نزدیک جو حامی اسلام اورمسلمین ہے۔ کیوں کر جائز ہو گا۔ پھر کہتا ہوں کہ اگر اس کے نزدیک جزئی اختلاف کی وجہ سے مباہلہ جائز ہوتا تو وہ ہمیں یہ تعلیم نہ دیتا ربنا اغفرلنا والا خواننا یعنی اے خداہماری خطا معاف کراور ہمارے بھائیوں کی خطا بھی عفوفرما۔ بلکہ لا یُصب اور محظی کا تصفیہ مباہلہ پر چھوڑتا اور ہمیں ہر ایک جزئی اختلاف کی وجہ سے مباہلہ کی رغبت دیتا لیکن ایسا ہر گز نہیں اگر اس امت کے باہمی اختلافات کاعذاب سے فیصلہ ہوناضروری ہے تو پھر تمام مسلمانوں کے ہلاک کرنے کے لئے دشمنوں کی نظر میں اس سے بہتر کوئی حکمت نہیں ہو گی کہ ان تمام جزئیات مختلف میں مباہلہ کرایا جائے۔ تاایک ہی مرتبہ سب مسلمانوں پر قیامت آجائے۔ کیونکہ کوئی فرقہ کسی خطا کی وجہ سے ہلاک ہو جائے گااور کوئی کسی خطا کے سبب سے مورد عذاب و ہلاکت ہوگا۔ وجہ یہ کہ جزئی خطا سے تو کوئی فرقہ بھی خالی نہیں۔
اب میں یہ بیان کرتا چاہتا ہوں کہ کس صورت میں مباہلہ جائز ہے۔ سو واضح ہو کہ وہ صورت میں مباہلہ جائز ہے۔
(۱)اوّل اس کافر کے ساتھ جو یہ دعویٰ رکھتا ہے کہ مجھے یقینا معلوم ہے کہ اسلام حق پر نہیں اور جو کچھ غیراللہ کی نسبت خدائی کی صفتیں میں مانتاہوں وہ یقینی امر ہے۔
(۲)دوم اس ظالم کے ساتھ جو ایک بے جا تہمت کسی پر لگا کر اس کو ذلیل کرنا چاہتا ہے۔ مثلاً ایک مستورہ کو کہتا ہے۔ کہ میں یقینا جانتا ہوں کہ یہ عورت زانیہ ہے۔ کیونکہ میں نے بچشم خود اس کا زنا کرتے دیکھا ہے۔ یا مثلاً ایک شخص کو کہتا ہے کہ میں یقینا جانتا ہوں کہ یہ شراب خور ہے اور بچشم خود اس کو شراب پیتے دیکھا ہے۔ سوا س حالت میں بھی مباہلہ جائز ہے کیونکہ اس جگہ کوئی اجتہادی اختلاف نہیں بلکہ ایک شخص اپنے یقین اور رؤیت پر بنا رکھ کر ایک مومن بھائی کو ذلت پہنچانا چاہتا ہے۔ جیسے مولوی اسمٰعیل صاحب نے کیاتھا اور کہا تھا کہ یہ میرے ایک دوست کی چشم دید بات ہے۔ کہ مرزا غلام احمد یعنی یہ عاجز پوشیدہ طورپر آلات نجوم اپنے پاس رکھتا ہے اورا نہیں کے ذریعہ سے کچھ کچھ آئندہ کی خبریں معلوم کرکے لوگوں کو کہہ دیتا ہے کہ مجھے الہام ہوا ہے۔ مولوی اسمٰعیل صاحب نے کسی اجتہادی مسئلہ میں اختلاف نہیں کیا تھا بلکہ اس عاجز کی دیانت اور صدق پر ایک تہمت لگائی تھی جس کی اپنے ایک دوست کی رؤیت پر بنا رکھی تھی۔ لیکن بنا صرف اگر اجتہاد پر ہو اور اجتہادی طو پر کوئی شخص کسی مومن کو کافر کہے یا ملحد نام رکھے ۔ تو یہ کوئی تعجب نہیں ۔ بلکہ جہاں تک اس کی سمجھ اور اس کا علم تھا۔ اس کے موافق اس نے فتویٰ دیا ہے۔ غرض مباہلہ صرف ایسے لوگوں سے ہوتا ہے۔جو اپنے قول کی قطعی اور یقین پر بنا رکھ کر دوسرے کو مفتری اور زانی وغیرہ قرار دیتے ہیں۔
پس انا نحن فیہ میں مباہلہ اس وقت جائز ہوگا۔ کہ جب فریق مخالف یہ اشتہار دیں کہ ہم اس مدعی کو اپنی نظر میں اس قسم کا مخطی نہیں سمجھتے کہ جیسے اسلام کے فرقوں میں مصیب بھی ہوتے ہیں اور مخطی بھی اور بعض فرقے بعض سے اختلاف رکھتے ہیں بلکہ ہم یقین کلی سے اس شخص کو مفتری جانتے ہیں اور ہم اس بات کے محتاج نہیں کہ یہ کہیں کہ امر متنازعہ فیہ کہ اصل حقیقت خدا تعالیٰ جانتا ہے۔ بلکہ یقینا اس پیشگوئی کی سب اصل حقیقت ہمیں معلوم ہوچکی ہے۔ اگر یہ لوگ اس قدر اقرار کردیں۔ توپھرکچھ ضرورت نہیں کہ علماء کا مشورہ اس میں لیا جائے وہ مشورہی نقصان علم کی وجہ سے طلب نہیںکیا گیا۔ صرف اتمام حجت کی غرض سے طلب کیا گیاہے۔ سو اگر یہ مدعیان ایسا اقرار کریں کہ جو اوپر بیان ہو چکا ہے تو پھر کچھ حاجت نہیں کہ علماء سے فتویٰ پوچھا جائے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ جوشخص آپ ہی یقین نہیں کرتا۔ وہ مباہلہ کس بناء پر کرناچاہتا ہے؟ مباہل کا منصب یہ ہے کہ اپنے دعوے میں یقین ظاہر کرے صرف ظن اور شبہ پر بنا نہ ہو۔ مباہل کو یہ کہنا ماننا پڑتا ہے کہ جو کچھ اس امر کے بارے میں خداتعالیٰ کو معلوم ہے وہی مجھ کو یقینی طور پر معلوم ہوگیا ہے۔تب مباہلہ کی بنیاد پیدا ہوتی ہے۔پھر یہ بات بھی ہے کہ مباہلہ سے پہلے شخص مبلغ کا وعظ بھی سن لینا ضروری امر ہے۔ یعنی جو شخص خداتعالیٰ سے مامور ہو کرآیا ہے۔ اسے لازم ہے کہ اوّل دلایل بینہ سے اشخاص منکرین کو اپنے دعوے کی صداقت سمجھا دے اور اپنے صدق کی علامتیں ان پر ظاہر کرے۔ پھر اگر اس کے بیانات کو سن کرا شخاص منکرین باز نہ آویں اور کہیں کہ ہم یقینا جانتے ہیںکہ مفتری ہے تو آخر الحیل مباہلہ ہے۔ یہ نہیں کہ ابھی نہ کچھ سمجھا نہ بوجھا نہ کچھ سنا پہلے مباہلہ ہی لے بیٹھے۔
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مباہلہ کی درخواست کی تواس وقت کی تھی کہ جب کئی برس قرآن شریف نازل ہو کرکامل طور پر تبلیغ ہوچکی تھی۔ مگر یہ عاجز کئی برس نہیں چاہتا۔ صرف یہ چاہتا ہے کہ ایک مجلس علماء کی جمع ہو اور ان میں وہ لوگ بھی جمع ہوں جو مباہلہ کی درخواست کرتے ہیں۔ پہلے یہ عاجز انبیاء کے طریق پر شرط نصیحت بجا لائے اور صاف صاف بیان سے اپنا حق ہونا ظاہر کرے جب اس وعظ سے فراغت ہو جائے تو درخواست کنندہ مباہلہ اٹھ کر یہ کہے کہ وعظ میں نے سن لیا۔ مگر میں اب بھی یقینا جانتا ہوں کہ یہ شخص کاذب اور مفتری ہے اور اس یقین میں شک و شبہ کو راہ نہیں بلکہ روئیت کی طرح قطعی ہے۔ ایسا ہی مجھے اس بات پر بھی یقین ہے کہ جو کچھ میںنے سمجھا ہے وہ ایسا شک و شبہ سے منزہ ہے کہ جیسے روئیت تب اس کے بعد مباہلہ شروع ہو۔ مباہلہ سے پہلے کسی قدر مناظرہ ضروری ہوتا ہے۔ تا حجت پوری ہو جائے۔ کبھی سنا نہیں گیاکہ کسی نبی نے ابھی تبلیغ نہیں کی اور مباہلہ پہلے ہی شروع ہو گیا۔ غرض اس عاجز کومباہلہ سے ہرگز انکار نہیں۔ مگر اسی طریق سے جو اللہ تعالیٰ نے اس کا پسند کیا ہے۔ مباہلہ کی بناء یقین ہوتی ہے نہ اجتہادی خطا و صواب پر جب مباہلہ سے غرض تائید دین ہے۔ تو کیونکر پہلا قدم ہی دین کے مخالف رکھا جائے۔
یہ عاجز انشاء اللہ ایک ہفتہ تک ازالۃ الااوہام کے اوراق مطبوعہ آپ کے لئے طلب کرے گا۔ مگر شرط ہے کہ ابھی تک آپ کسی پر ان کو ظاہر نہ کریں۔ اس کامضمون اب تک امانت رہے۔ اگرچہ بعض مقاصد عالیہ ابھی تک طبع نہیں ہوئے اور یک جائی طور پر دیکھنا بہتر ہوتا ہے۔ تا خدانخواستہ قبل ازوقت طبیعت سیر نہ ہو جائے۔ مگر آپ کے اصرار سے آپ کے لئے طلب کروں گا۔ چونکہ میرا نوکر جس کے اہتمام اور حفاظت میں یہ کاغذات ہیں۔ اس جگہ سے تین چار روز تک امرتسر جائے گا۔ اس لئے ہفتہ یا عشرہ تک یہ کاغذات آپ کی خدمت میں پہنچیں گے۔ آپ کے لئے ملاقات کرنا ضروری ہے۔ ورنہ تحریر کے ذریعہ سے وقتاً فوقتاً استکشاف کرنا چاہئے۔
خاکسار
غلام احمد
نوٹ:۔ اس خط پر تاریخ نہیں ہے۔ لیکن ازالہ اوہام کی طبع کا چونکہ ذکر ہے۔ اس سے پایا جاتا ہے کہ ۱۸۹۱ء کا یہ مکتوب ہے۔ نواب صاحب قبلہ نے آپ کو مباہلہ کی درخواست منظور کرنے کے متعلق تحریک کی تھی۔ جو عبدالحق غزنوی وغیرہ کی طرف سے ہوئی تھی۔اس کے جواب میں آپ نے یہ مکتوب لکھا۔ ا س مکتوب سے آپ کی سیرۃ پر بھی ایک خاص روشنی پڑتی ہے اور آپ کے دعا وہی پر بھی جب مباہلہ کے لئے آپ کھڑے ہونے کی آمادگی ظاہر کرتے ہیں۔ تو صاف فرماتے ہیں کہ پہلے یہ عاجز انبیاء کے طریق پر شرط نصیحت بجا لائے اپنے سلسلہ کو ہمیشہ منہاج نبوت پر پیش کیا ہے۔ دوسرے آپ استکشاف حق کے لئے کسی سوال اور جرح کو برا نہیں مانتے۔ بلکہ سایل کو شوق دلاتے ہیں کہ وہ دریافت کرے۔ اس لئے کہ اسے آپ سعیدوں کی نشانی قرار دیتے ہیں۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۵)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
محبی عزیزی نواب صاحب سردار محمد علی خان سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مبلغ …… ۲۸۱ روپیہ آں محب کل کی ڈاک میں مجھ کو مل گئے۔ جزاکم اللہ خیراً۔ جس وقت آپ کا روپیہ پہنچا ہے مجھ کو اتفاقاً نہایت ضرورت درپیش تھی۔ موقعہ پر آنے کی وجہ سے میں جانتا ہوں کہ خداووند کریم و قادر اس خدمت للہی کا آپ کو بہت اجردے گا۔ واللہ یحب المحسین۔آج مجھ کو صبح کی نماز کے وقت بہت تضرع اور ابتہال سے آپ کے لئے دعا کرنے کا موقعہ ملا۔ یقین کہ خداتعالیٰ اس کو قبول کرے گا اور جس طرح چاہے گا اس کی برکات ظاہر کرے گا۔ میں آپ کوخبر دے چکا ہوں کہ میں نے پہلے بھی بشارت کے طور پر ایک امر دیکھا ہوا ہے۔ گو میں ابھی اس کو کسی خاص مطلب یا کسی خاص وقت سے منسوب نہیں کرسکتا۔ تاہم بفضلہ تعالیٰ جانتا ہوں کہ وہ آپ کے لئے کسی بہتری کی بشارت ہے اور کوئی اعلیٰ درجہ کی بہتری ہے۔ جو اپنے مقررہ وقت پر ظاہر ہوگی۔ واللہ اعلم بالصواب۔
خداوند ذوالجلال کی جناب میں کوئی کمی نہیں۔ اُس کی ذات میں بڑی بڑی عجائب قدرتیں ہیں اور وہی لوگ ان قدرتوں کو دیکھتے ہیں۔ کہ جووفاداری کے ساتھ اس کے تابع ہو جاتے ہیں۔ جو شخص عہد وفا کو نہیںتورٹا اور صدق قدم سے نہیں ہارتا اورحسن ظن کو نہیں چھوڑتا۔ اس کی مراد پوری کرنے کے لئے اگر خداتعالیٰ بڑے بڑے محالات کوممکنات کر دیوے تو کچھ تعجب کی بات نہیں کیونکہ ایسے بندوں کا اس کی نظر میںبڑی ہی قدر ہے۔ کہ جو کسی طرح اس کے دروازہ کو چھوڑتا نہیں چاہتے اور شتاب بازو اور بے وفانہیں ہیں۔
یہ عاجز انشاء اللہ العزیز ۲۰؍ جنوری ۱۸۹۲ء کو لاہور جائے گا اورارادہ ہے کہ تین ہفتہ تک لاہور رہے۔ اگر کوئی تقریب لاہور میں آپ کے آنے کی اس وقت پید اہو تو یقین کہ لاہور میں ملاقات ہو جائے گی۔
والسلام
راقم خاکسار
غلام احمد از قادیان
۹؍ جنوری ۱۸۹۲ء
مشفقی اخویم مرزا خدابخش صاحب کو السلام علیکم
مکتوب نمبر(۶)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب محمد علی خان صاحب سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک ہفتہ سے بلکہ عشرہ سے زیادہ گزر گیا کہ آں محب کا محبت نامہ پہنچا تھا۔ چونکہ اس میں امور مستفسرہ بہت تھے اور مجھے بباعث تالیف کتاب آئینہ کمالات اسلام بغایت درجہ کی کمی فرصت تھی۔ کیونکہ ہر روز مضمون تیار کر کے دیاجاتا ہے۔ اس لئے جواب لکھنے سے معذور رہا اور ّآپ کی طرف سے تقاضا بھی نہیں تھا۔ آج مجھے خیال آیا کہ چونکہ آپ خالص محب ہیں اور آپ کا استفسار سراسر نیک ارادہ اور نیک نیتی پر مبنی ہے۔ اس لئے بعض امور سے آپ کو آگا ہ کرنا اور آپ کے لئے جو بہتر ہے۔ اُس سے اطلاع دینا ایک امر ضروری ہے۔ لہذا چند سطور آپ کی آگاہی کے لئے ذیل میں لکھتا ہوں۔
یہ سچ ہے کہ جب سے اس عاجز نے مسیح موعودہونے کادعویٰ بامر اللہ کیا ہے۔ تب سے وہ لوگ جو اپنے اندر قوت فیصلہ نہیں رکھتے عجب تذب ذب اور کشمش میں مبتلا پڑ گئے ہیں اور آپ یہ بھی کہتے ہیں کہ کوئی نشان بھی دکھلانا چاہئے۔
(۱) مباہلہ کی نسبت آپ کے خط سے چند روز پہلے مجھے خود بخود اللہ جلشانہ نے اجازت دی ہے اور یہ خداتعالیٰ کے ارادہ سے آپ کے ارادہ کا توارد ہے کہ آپ کی طبیعت میں یہ جنبش پید ا ہوئی۔ مجھے معلوم ہوتا کہ اب اجازت دینے میں حکمت یہ ہے کہ اوّل حال میں صرف اس لئے مباہلہ ناجائز تھا کہ ابھی مخالفین کو بخوبی سمجھایا نہیں گیا تھا اور وہ اصل حقیقت سے سراسر ناواقف تھے اور تکفیر پر بھی ان کاجوش نہ تھا۔ جو بعد ا س کے ہوا۔ لیکن اب تالیف آئینہ کمالات اسلام کے بعد تفہیم اپنے کمال کو پہنچ گئی اور اب اس کتاب کے دیکھنے سے ایک ادنیٰ استعداد کا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ مخالف لوگ اپنی رائے میں سراسر خطا پر ہیں۔اس لئے مجھے حکم ہو اہے کہ مباہلہ کی درخواست کو کتاب آئینہ کمالات اسلام کے ساتھ شائع کردوں۔ سو وہ درخواست انشاء اللہ القدیر پہلے حصے کے ساتھ ہی شائع ہوگی۔ اوّل دنوں میں میرا یہ بھی خیال تھا کہ مسلمانوں سے کیونکر مباہلہ کیا جائے۔ کیونکہ مباہلہ کہتے ہیں کہ ایک دوسرے پر * بھیجنا اور مسلمانوں پر * بھیجنا جائز نہیں۔مگر اب چونکہ وہ لوگ بڑے اسرار سے مجھ کو کافر ٹھہراتے ہیں اورحکم شرع یہ ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کو کافر ٹھہراوے اگر وہ شخص درحقیقت کافر نہ ہو توکفر الٹ کر اسی پر پڑتا ہے۔ جو کافر ٹھہراتا ہے۔ اسی بناء پر مجھے یہ حکم ہو ا ہے کہ جو لوگ تجھ کو کافر ٹھہراتے ہیں اور انباء اور نساء رکھتے ہیں اور فتویٰ کفر کے پیشوا ہیں ان سے مباہلہ کی درخواست کرو۔
(۲) نشان کے بارے جو آپ نے لکھا ہے کہ یہ بھی درخواست ہے درحقیقت انسان دو قسم کے ہوتے ہیں۔ اوّل وہ جو زیرک اور زکی ہیں او راپنے اندر قوت فیصلہ رکھتے ہیں اور متخاصمین کی قیل وقال میں سے جو تقریر حق کی عظمت اور برکت پر روشنی ڈالتی ہے۔ اس تقریر کو پہچان لیتی ہے اور باطل جو تکلیف اور بناوٹ کی بدبو رکھتا ہے۔ وہ بھی ان کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہتا۔ ایسے لوگ مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شناخت کے لئے اس بات کے محتاج نہیں ہو سکتے کہ ان کے سامنے سوٹی کا سانپ بنایا جائے اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شناخت کے لئے حاجت مند ہو سکتے ہیں کہ ان کے ہاتھ سے مفلوجوں اور مجذوبوں کو اچھے ہوتے دیکھ لیں اورنہ ہمارے سیدو مولیٰ حضرت خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ایسے اعلیٰ درجہ کے لوگوں نے کبھی معجزہ طلب نہیں کیا کوئی ثابت نہیںکرسکتا کہ صحابہ کبار رضی اللہ عنہم کوئی معجزہ دیکھ کر ایمان لائے تھے بلکہ وہ زکی تھے اور نور قلب رکھتے تھے انہوںنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا منہ دیکھ کر ہی پہچان لیاتھا کہ یہ جھوٹوں کامنہ نہیں ہے اس لئے خداتعالیٰ کے نزدیک صدیق اور راستباز ٹھہرے انہوں نے حق کو دیکھا اور ان کے دل بول اٹھے کہ یہ منجانب اللہ ہے۔
دوسرے قسم کے وہ انسان ہیں جو معجزہ او ر کرامت طلب کرتے ہیں اور ان کے حالات خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں تعریف کے ساتھ نہیں بیان کئے اور اپنا غضب ظاہر کیا ہے جیسا کہ ایک جگہ فرماتاہے واقسمو ا باللہ جھد ایمانھم لئن جاء تھم ایۃ لیومنن بھاقل انما الا یات عنداللہ ومایشعر کم انھا اذا جائت لایومنون یعنی یہ لوگ سخت قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر کوئی نشان دیکھیں تو ضرور ایمان لے آئیں گے ان کو کہہ دے کہ نشان تو خداتعالیٰ کے پاس ہیں اور تمہیں خبر نہیں کہ جب نشان بھی دیکھیںگے تو کبھی ایمان نہ لائیںگے۔ پھر فرماتا ہے یوم یاتی بعض ایات ربک لا ینفع نفسا ایمانھا لم تکن امنت من قبل یعنی جب بعض نشان ظاہر ہوں گے تو اس دن ایمان لانا بے سود ہو گا اور جو شخص صرف نشان کے دیکھنے کے بعد ایمان لاتا ہے اس کو وہ ایمان نفع نہیں دے گا پھر فرماتا ہے ویقولون متی ھذا لوعذان کنتم صادقین قل لا املک لنفسی ضراً ولا نفعاً الا ماشاء اللہ کل امۃ اجل الخ۔ یعنی کافر کہتے ہیں کہ وہ نشان کب ظاہر ہوں گے اوریہ وعدہ کب پورا ہو گا۔ سو ان کہہ دے کہ مجھے ان باتوں میں دخل نہیں۔نہ میں اپنے نفس کے لئے ضرر کا مالک ہوں نہ نفع کا۔ مگر جو خدا چاہے۔ ہر ایک گروہ کے لئے ایک وقت مقرر ہے جوٹل نہیں سکتا اور پھر اپنے رسول کو فرماتا ہے وان کان کبرعلیک اعراضھم فان اسطعت ان تبتغی نفقافی الارض ااوسلما فی السما فتاتیھم بایۃ ولوشاء اللہ لجعھم علیٰ الھدی فلا تکونن من الجاھلین۔یعنی اگر تیرے پر اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کافروں کا اعراض بہت بھاری ہے ۔ سو اگر تجھے طاقت ہے تو زمین میں سرنگ کھود کر یا آسمان پر زینہ لگا کر چلاجا اور ان کے لئے کوئی نشان لے آ اور اگر خدا چاہتا تو ان سب کو جونشان مانگتے ہیں ہدائت دیتا تو جاہلوں میں سے مت ہو۔ اب ان تمام آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں کافر نشان مانگا کرتے تھے۔ بلکہ قسمیں کھاتے تھے کہ ہم ایمان لائیں گے۔ مگر جلشانہ‘ صاف صاف فرماتا ہے کہ جو شخص نشان دیکھنے کے بعد ایمان لاوے اس کا ایمان مقبول نہیں۔ جیسا کہ ابھی آیت لا یِنفع نفسا ایمانھا تحریر ہوچکی ہے اور اسی کے قریب قریب ایک دوسری آیت ہے اور وہ یہ ہے۔ ولقد جا ء تھم رسلھم با لبینات فما کانو الیومنوا بما کذبو امن کذالک یطبع اللہ قلوب الکا فرین یعنی پہلی امتوں میں جب ان کے نبیوں نے نشان دکھلائے تو ان نشانوں کو دیکھ بھی لوگ ایمان لائے ۔ کیونکہ وہ نشان دیکھنے سے پہلے تکذیب کرچکے تھے۔ اسی طرح خدا ان لوگوں کے دلوں پر مہریں لگا دیتا ہے۔ جوا س قسم کے کافر ہیں جو نشان سے پہلے ایمان نہیں لاتے ۔
یہ تمام آیتیں اور ایسا ہی اوربہت سی آیتیں قرآن کریم کی جن کا اس وقت لکھنا موجب طوالت ہے با لا تفاق بیان فرما رہیں ہیں کے نشان کو طلب کرنے والے مورد غضب الہی ہوتے ہیں اور جو شخص نشان دیکھنے سے ایمان لاویں اس کا ایمان منظور نہیں اس پردو اعتراض وار ہوتے ہیں اول یہ کے نشان طلب کرنے والے کیوں مورد غضب الٰہی ہیں۔ جو شخص اپنے اطمنان کے لئے یہ آزمائش کرنا چاہتا ہے کہ یہ شخص منجانب اللہ ہے یا نہیں بظاہر وہ نشان طلب کرنے کا حق رکھتا ہے تا دھوکہ نہ کھاوے اور مرداہ الٰہی کو قبول الٰہی خیال نہ کرے۔
اس وہم کا جواب یہ ہے کہ تمام ثواب ایمان پر مترتب ہوتا ہے اور ایمان اسی بات کا نام ہے کہ جو بات پردہ غیب میں ہو۔ اس کو قراین مرحجہ کے لحاظ سے قبول کیا جاوے۔ یعنی اس قدر دیکھ لیا جائے کہ مثلاً صدق کے وجوہ کذب کے وجوہ پر غالب ہیں اور قراین موجودہ ایک شخص کے صادق ہونے پر بہ نسبت اس کے کاذب ہونے کے بکثرت پائے جاتے ہیں۔
یہ تو ایمان کی حد ہے لیکن اگر اس حدسے بڑھ کر کوئی شخص نشان طلب کرتا ہے تو وہ عنداللہ فاسق ہے اور اسی کے بارہ میں اللہ جلشانہ‘ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ نشان دیکھنے کے بعد اس کو ایمان نفع نہیں دے گا یہ بات سوچنے سے جلد سمجھ میں آسکتی ہے کہ انسان ایمان لانے سے کیوں خداتعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرتا ہے اس کی وجہ یہی ہے جن چیزوں کو ہم ایمانی طور پر قبول کر لیتے ہیں وہ بکل الوجود ہم پر مکشوف نہیں ہوتیں۔مثلاً خد ائے تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے مگر اس کو دیکھا نہیں۔ فرشتوں پر بھی ایمان لاتا ہے مگر وہ بھی نہیں دیکھے۔ بہشت اور دوخ پر بھی ایمان لاتا ہے اور وہ بھی نظر سے غائب ہیں محض حسن ظن سے مان لیتا ہے اس لئے خداتعالیٰ کے نزدیک صادق ٹھہر جاتا ہے اور یہ صدق اس کے لئے موجب نجات ہوجاتا ہے ورنہ ظاہر ہے کہ بہشت اور دوخ ملایک مخلوق خداتعالیٰ کی ہے ان پر ایمان لانا نجات سے کیا تعلق رکھتا ہے جو چیز واقعی طور پر موجود ہے اور بد یہی طور پر اس کا موجود ہونا ظاہر ہے اگر ہم اس کو موجود مان لیں تو کس اجر کے ہم مستحق ٹھہر سکتے ہیں۔ مثلاً اگر ہم یہ کہیں کہ ہم آفتاب کے وجود پر بھی ایمان لائے اور زمین پر بھی ایمان لائے کہ موجود ہے اور چاند کے موجود ہونے پر بھی ایمان لائے اور اس بات پرایمان لائے کہ دنیا میں گدھے بھی ہیں اور گھوڑے بھی خچر بھی اور بیل بھی اور طرح طرح کے پرند بھی تو کیا اس ایمان سے کسی ثواب کی توقع ہوسکتی ہے پھر کیا وجہ سے کہ جب ہم مثلاً ملایک کہ وجود پر ایمان لاتے ہیں تو خداتعالیٰ کے نزدیک مومن ٹھہر تے ہیں اور مستحق ثواب بنتے ہیں اور جب ہم ان تمام حیوانات پر ایمان لاتے ہیں جو زمین پر ہماری نظر کے سامنے موجود ہیں تو ایک ذرہ بھی ثواب نہیں ملتا حالانکہ ملایک اور دوسری سب چیزیں برابر خداتعالیٰ کی مخلوق ہیں ۔ پس اس کی یہی وجہ ہے کہ ملایک پر وہ غائب میں ہیں اور اور دوسری چیزیں یقینی طور پر ہمیں معلوم ہیں اور یہی وجہ ہے کہ قیامت کے دن ایمان لانا منظور نہیں ہو گا یعنی اگر اس وقت کوئی شخص خداتعالیٰ کی تجلیات دیکھ کر اور اس کے ملایک اور بہشت اور دوزخ کا مشاہدہ کرکے یہ کہے کہ اب میں ایمان لایا تو منظور نہ ہو گا۔ کیوں منظور نہ ہو گا؟ اسی وجہ سے کہ اس وقت کوئی پردہ غیب درمیان نہ ہو گا تا اس سے ماننے والے کاصدق ثابت ہو۔
اب پھر غور کر کے ذرا اس بات کو سمجھ لینا چاہئے کہ ایمان کس بات کو کہتے ہیں اور ایمان لانے پر کیوں ثواب ملتا ہے امید ہے کہ آپ بفضلہ تعالیٰ تھوڑا سا فکر کرکے اس بات کاجلد سمجھ جائیں گے کہ ایمان لانا اس طرز قبول سے مراد ہے کہ جب بعض گوشے یعنی بعض پہلو کسی حقیقت کے جس پر ایمان لایا جاتا ہے مخفی ہوں اور نظر دقیق سے سو چکر اور قراین مرحجہ کو دیکھ کر اس حقیقت کو قبل اس کے کہ وہ تجلی کھل جائے قبول کرلیا جائے یہ ایمان ہے جس پر ثواب مترتب ہوتا ہے اور اگرچہ رسولوں اور انبیاء اور اولیاء کرام علیہم السلام سے بلاشبہ نشان ظاہر ہوتے ہیں۔ مگر سعید آدمی جو خداتعالیٰ کے پیارے ہیں۔ ان نشانوں سے پہلے اپنی فراست صحیحہ کے ساتھ قبول کر لیتے ہیں اور جولوگ نشانوں کے بعد قبول کرتے ہیں۔ وہ لوگ خدا ئے تعالیٰ کی نظر میں ذلیل اوربے قدر ہیں۔ بلکہ قرآن کریم بآواز بلند بیان فرماتا ہے کہ جولوگ نشان دیکھنے کے بغیر حق کوقبول نہیں کر سکتے وہ نشان کے بعد بھی قبول نہیں کرتے اور کیونکہ نشان کے ظاہر ہونے سے پہلے وہ بالجہر منکر ہوتے ہیں اور علانیہ کہتے پھرتے ہیں کہ یہ شخص کذاب اور جھوٹا ہے۔ کیونکہ اس نے کوئی نشان نہیں دکھلایا اور ان کی ضلالت کا زیادہ یہ موجب ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ بھی بباعث آزمائش اپنے بندوں کے نشان دکھلانے میں عمداتاً خیر اور توقف ڈالتا ہے اور وہ لوگ تکذیب اور انکار میں بڑھتے جاتے ہیں اور دعویٰ سے کہنے لگتے ہیں کہ درحقیقت یہ شخص کذاب ہے۔ مفتری ہے۔ مکار ہے۔ دردغگو ہے۔ جھوٹا ہے اور منجانب اللہ نہیں ہے۔ پس جب وہ شدت سے اپنی رائے کو قائم کر چکتے ہیں اور تقریروں کے ذریعہ سے اور تحریروں کے ذریعہ سے اور مجلسوں میں بیٹھ کر اور منبروں پر چڑھ کر اپنی مستقل رائے دنیا میں پھیلا دیتے ہیں کہ درحقیقت یہ شخص کذاب ہے۔ تب اس پر عنایت الٰہی توجہ فرماتی ہے کہ اپنے عاجز بندے کی عزت اورصداقت ظاہر کرنے کے لئے کوئی اپنا نشان ظاہر کرے۔ سو اس وقت کوئی غیبی نشان ظاہر ہوتا ہے جس سے صرف لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جو پہلے مان چکے ہیں اور انصار حق میں داخل ہو گئے تھے۔ یاد جنہوں اپنی زبانوں اور اپنی قلموں سے اپنے خیالات کو مخالفانہ اظہار سے بچا لیاتھا۔ لیکن وہ بدنصیب گروہ جو مخالفانہ رائوں کو ظاہر کر چکے تھے۔ وہ نشان دیکھنے کے بعد بھی اس کو قبول نہیں کرسکتے کیونکہ وہ تو اپنی رائیں علیٰ رئوس الاشہاد شائع کرچکے ۔ اشتہار دے چکے مہریں لگا چکے کہ یہ شخص درحقیقت کذاب ہے۔ اس لئے اب اپنی مشہور کردہ رائے سے مخالف اقرار کرنا ان کے لئے مرنے سے بھی زیادہ سخت ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اس سے ان کی ناک کٹتی ہے اورہزاروں لوگوں پر ان کی حمایت ثابت ہوتی ہے کہ پہلے تو بڑے زور شور سے دعوے کرتے تھے کہ شخص ضرور کاذب ہے ضرور کاذب ہے اور قسمیں کھاتے اور اپنی عقل اور علمیت جتلاتے تھے اور اب اسی کی تائید کرتے ہیں۔
میں پہلے اس سے بیان کرچکا ہوں کہ ایمان لانے پر ثواب اسی وجہ سے ملتا ہے کہ ایمان لانے والا چند قراین صدق کے لحاظ سے ایسی باتوں کو قبول کر لیتا ہے کہ وہ ہنوز مخفی ہیں۔ جیسا کہ اللہ جلشانہ نے مومنوں کی تعریف قرآن کریم میں فرمائی ہے یومنون بالغیب یعنی ایسی بات کو مان لیتے ہیں کہ وہ ہنوز در پردہ غیب ہے۔ جیساکہ صحابہ کرام نے ہمارے سید و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو مان لیا اور کسی نے نشان نہ مانگا اور کوئی ثبوت طلب نہ کیا اورگو بعد اس کے اپنے وقت پر بارش کی طرح نشان برسے اور معجزات ظاہر ہوئے۔ لیکن صحابہ کرا م ایمان لانے میں معجزات کے محتاج نہیں ہوئے اوراگر وہ معجزات کے دیکھنے اپر ایمان موقوف رکھتے تو ایک ذرہ بزرگی ان کی ثابت نہ ہوتی اور عوام میں سے شمار کئے جاتے تو خداتعالیٰ کے مقبول اور پیارے بندوں میں داخل نہ ہوسکتے کیونکہ جن لوگوں نے نشان مانگا خداتعالیٰ نے ان پر عتاب ظاہر کیا اور درحقیقت ان کاانجام اچھا نہ ہوا اور اکثر وہ بے ایمانی حالت میں ہی مرے۔ غرض خداتعالیٰ کی تمام کتابوں سے ثابت ہوتا ہے کہ نشان مانگنا کسی قوم کے لئے مبارک نہیں ہوا اور جس نے نشان مانگا وہی تباہ ہوا۔ انجیل میں بھی حضرت مسیح فرماتے ہیں کہ اس وقت کے حرامکار مجھ سے نشان مانگتے ہیں ان کوکوئی نشان نہیں دیا جائے گا۔
میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ بالطبع ہر شخص کے دل میں اس جگہ یہ سوال پید اہو گا کہ بغیر کسی نشان کے حق اور باطل میں انسان کیونکر فرق کر سکتا ہے او راگر بغیر نشان دیکھنے کے کسی کو منجانب اللہ قبول کیا جائے تو ممکن ہے کہ اس قبول کرنے میں دھوکا ہو۔
اس کاجواب وہی ہے جو میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ خداتعالیٰ نے ایمان کا ثواب اکبر اسی امر سے مشروط کر رکھا ہے کہ نشان دیکھنے سے پہلے ایمان ہو اور حق و باطل میں فرق کرنے کے لئے یہ کافی ہے کہ چند قراین جو وجہ تصدیق ہو سکیں اپنے ہاتھ میں ہوں او رتصدیق کاپلہ تکذیب کے پلہ سے بھاری ہو۔ مثلاً حضرت صدیق اکبر ابوبکر رضی اللہ عنہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تو انہوںنے کوئی معجزہ طلب نہیں کیا او رجب پوچھا گیا کہ کیوں ایمان لائے۔ توبیان کیاکہ میرے پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کاامین ہونا ثابت ہے اور میں یقین رکھتاہوں کہ انہوں نے کبھی کسی انسان کی نسبت بھی جھوٹ استعمال نہیں کیا چہ جائیکہ خداتعالیٰ پر جھوٹ باندھیں۔ ایسا ہی اپنے اپنے مذاق پر ہر ایک صحابی ایک ایک اخلاقی یا تعلیمی فضلیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھ کر اور اپنی نظر دقیق سے اس کو وجہ صداقت ٹھہرا کر ایمان لائے تھے اور ان میں سے کسی نے بھی نشان نہیں مانگا تھا اور کاذب اور صادق میں فرق کرنے کے لئے ان کی نگاہوں میں یہ کافی تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تقوے کے اعلیٰ مراتب پر ہیں۔ اپنے منصب کے اظہار میں بڑی شجاعت اور استقامت رکھتے ہیں اور جس تعلیم کو لائے ہیں وہ دوسری تعلیموں سے صاف تراور پاک تر اور سراسرا نور ہے اور تمام اخلاق حمیدہ میں بے نظیر ہیں اور للہی جوش ان میں اعلیٰ درجے کے پائے جاتے ہیں اور صداقت ان کے چہرہ پر برس رہی ہے۔ پس انہیں باتوں کو دیکھ کر انہو ں نے قبول کر لیا کہ وہ درحقیقت خداتعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ اس جگہ یہ نہ سمجھا جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معجزات ظاہر نہیںہوئے۔ بلکہ تمام انبیاء سے زیادہ ظاہر ہوئے لیکن عادت اللہ اسی طرح پر جاری رہے کہ اوائل میں کھلے کھلے معجزات اور نشان مخفی رہتے ہیں۔ تا صادقوں کا صدق اور کاذبوں کا کذب پرکھا جائے یہ زمانہ ابتلاکا ہوتاہے اور اس میں کوئی کھلا نشان ظاہر نہیں ہوتا۔پھر جب ایک گروہ صافی دلوں کااپنی نظر دقیق سے ایمان لاتا لے آتا ہے اورعوام کا لانعام باقی رہ جاتے ہیں۔ تو ان پر حجت پوری کرنے کے لئے یا ان پر عذاب نازل کرنے کے لئے نشان ظاہر ہو جاتے ہیں ۔ مگر ان نشانوں سے وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیںجو پہلے ایمان لا چکے تھے اور بعد میں ایمان لانے والے بہت کم ہوتے ہیں۔ کیونکہ ہر روز تکذیب سے ان کے دل سخت ہوجاتے ہیں اور اپنی مشہور کردہ رائوں کو وہ بدل نہیں سکتے۔ آخر اسی کفر اور انکار میں واصل جہنم ہوتے ہیں۔
مجھے دلی خواہش ہے اور میں دعا کرتا ہوں کہ آپ کو یہ بات سمجھ میں آجائے کہ درحقیقت ایمان کے مفہوم کے لئے یہ بات ضروری ہے کہ پوشیدہ چیزوں کو مان لیا جائے اور جب ایک چیز کی حقیقت ہر طرح سے کھل جائے یا ایک وافر حصہ اس کا کھل جائے۔ تو پھر اس کو مان لینا ایمان میں داخل نہیں مثلاً اب جو دن کاوقت ہے۔ اگر میں کہوں کہ میں اس بات پر ایمان لاتا ہوں کہ اب دن ہے رات نہیں ہے۔ تو میرے اس ماننے میں کیا خوبی ہو گی اور اس ماننے میں مجھے دوسروں پر کیا زیادت ہے۔ سعید آدمی کی پہلی نشانی یہی ہے کہ اس بابرکت بات کو سمجھ لے کہ ایمان کس چیز کو کہا جاتا ہے۔ کیونکہ جس قدر ابتدائے دنیاسے لوگ انبیاء کی مخالفت کرتے آئے ہیں۔ ان کی عقلوں پر یہی پردہ پڑا ہو اتھا کہ وہ ایمان کی حقیقت کانہیں سمجھتے تھے اورچاہتے تھے کہ جب تک دوسرے امور مشہودہ محسوسہ کی طرح انبیاء کی نبوت اور ان کی تعلیم کھل نہ جائے۔ تب تک قبول کرنا مناسب نہیں اور وہ بیوقوف یہ خیال کرتے تھے کہ کھلی ہوئی چیز کو ماننا ایمان میں کیونکر داخل ہو گا۔ وہ تو ہندسہ اور حساب کی طرح ایک علم ہوا نہ کہ ایمان۔ پس یہی حجاب تھا کہ جس کی وجہ سے ابوجہل اور ابولہب وغیرہ اوایل میں ایمان لانے سے محروم رہے اور پھر جب اپنی تکذ یب میں پختہ ہو گئے اور مخالفانہ رائوں پر اصرار کر چکے۔اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے کھلے کھلے نشان ظاہر ہوئے تب انہوں کہا کہاب قبول کرنے سے مرنا بہتر ہے۔ غرض نظر دقیق سے صادق کے صدق کو شناخت کرنا سعیدوں کا کام ہے اورنشان طلب کرنا نہایت منحوس طریق اور اشقیا کا شیوہ ہے۔ جس کی وجہ سے کروڑ ہا منکر ہیزم جنہم ہو چکے ہیں۔ خداتعالیٰ اپنی نسبت کو نہیں بدلتا۔ وہ جیسا کہ اس نے فرمادیا ہے۔ ان ہی کے ایمان کو ایمان سمجھتا ہے۔ جو زیادہ ضد نہیں کرتے اور قرآن مرحجہ کودیکھ کر اور علامات صدق پا کر صادق کوقبول کرلیتے ہیں اورصادق کا کلام اورصادق کی راستبازی۔ صادق کی استقامت اورخود صادق کا منہ ان کے نزدیک اس کے صدق پر گواہ ہوتا ہے۔ مبارک وہ جن کو مردم شناسی کی عقل دی جاتی ہے۔
ماسوا اس کے جو شخض ایک نبی متبوع علیہ السلام کا متبع ہے اور اس کے فرمودہ پر اور کتاب اللہ پر ایمان لاتا ہے۔ اس کی آزمائش انبیاء کی آزمائش کی طرح کرنا سمجھی جاتی ہے۔ کیونکہ انبیاء اس لئے آتے ہیں کہ تا ایک دین سے دوسرے دین میں داخل کریں اور ایک قبلہ سے دوسرا قبلہ مقرر کراویں اور بعض احکام کومنسوخ کریں اوربعض نئے احکام لاویں۔ لیکن اس جگہ تو ایسے انقلاب کادعویٰ نہیں ہے وہی اسلام ہے جو پہلے تھا۔ وہ ہی نمازیں ہیں جوپہلے تھیں۔وہ ہی رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ہے جو پہلے تھا اور وہی کتاب ہے جو پہلے تھی۔ اصل دین سے کوئی ایسی بات چھوڑنی نہیں پڑی جس سے اس قدر حیرانی ہو۔ مسیح موعود کادعویٰ اس وقت گراں اورقابل احتیاط ہوتا کہ جب اس دعوے کے ساتھ نعوذباللہ کچھ دین کے احکام کی کمی بیشی ہوتی اور ہماری عملی حالت دوسرے مسلمانوں سے کچھ فرق رکھتی۔ اب جبکہ ان باتوں میں سے کوئی بھی نہیں۔ صرف مابہ التراع حیات مسیح اور وفات مسیح ہے اور مسیح موعود کا دعویٰ اس مسئلہ کی درحقیقت ایک فرع ہے اور اس دعویٰ سے مراد کوئی عملی انقلاب نہیں اورنہ اسلامی اعتقادات پر ا س کا کوئی مخالفانہ اثر ہے۔ تو کیا اس دعویٰ کے تسلیم کرنے کے لئے کسی بڑے معجزہ یا کرامت کی حاجت ہے؟ جس کا مانگنا رسالت کے دعویٰ میں عوام کا قدیم شیوہ ہے۔ ایک مسلمان جسے تائید اسلام کے لئے خداتعالیٰ نے بھیجا۔ جس کے مقاصد یہ ہیں کہ تا دین اسلام کی خوبیاں لوگوں پر ظاہر کرے اورآج کل کے فلسفی وغیرہ الزاموں سے اسلام کا پاک ہونا ثبوت کر دیوے اور مسلمانوں کو اللہ و رسول کی محبت کی طرف رجوع دلا وے۔ کیا اس کاقبول کرنا ایک منصف مزاج اور خدا ترس آدمی پر کوئی مشکل امر ہے؟
مسیح موعود کادعویٰ اگر اپنے ساتھ ایسے لوازم رکھتا جن سے شریعت کے احکام اور عقائد پر کچھ اثر پہنچتا۔ تو بے شک ایک ہولناک بات تھی۔ لیکن دیکھنا چاہئے کہ میں نے اس دعویٰ کے ساتھ کس اسلامی حقیقت کو منقلب کر دیا ہے کون سے حکام اسلام میں سے ایک ذرہ بھی کم یا زیادہ کردیا ہے ہاں ایک پیشگوئی کے وہ معنی کئے گئے ہیں جو خداتعالیٰ نے اپنے وقت پر مجھ پر کھولے ہیں او رقرآن کریم ان معنوں کے صحت کے لئے گواہ ہے اور احادیث صحیحہ بھی ان کی شہادت دیتے ہیںپھر نہ معلوم کہ اس قدر کیوں شور وغوعا ہے۔
ہاں طالب حق ایک سوال بھی اس جگہ کر سکتا ہے اور وہ یہ کہ مسیح موعود کا دعویٰ تسلیم کرنے کے لئے کون سے قرائن موجود ہیںکیوں اس مدعی کی صداقت کو ماننے کے لئے قراین تو چاہئے خصوصاً آج کل کے زمانہ میں جو مکرو فریب او ربد دیانتی سے بھرا ہوا ہے اور دعاوی باطلہ کا بازار گرم ہے۔
اس سوال کے جواب میں مجھے یہ کہنا کافی ہے کہ مندرجہ زیل امور طالب حق کے لئے بطور علامات اور قراین کے ہیں۔
(۱) اوّل وہ پیشگوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو تواتر معنوی تک پہنچ گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ خداتعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ ہر ایک صدی کے سر پر وہ ایسے شخص کو معبوث کرے گا جودین کو پھر تازہ کر دے گا اس کی کمزوریوں کا دور کرکے پھر اپنی اصلی طاقت اور قوت پر اس کو لے آئے گااس پیشگوئی کی رو سے ضرور تھا کہ کوئی شخص اس چودہویں صدی پر بھی خداتعالیٰ کی طرف سے معبوث ہوتا اور موجوہ خرابیوں کی اصلاح کے لئے درپیش قدمی دکھلاتا سو یہ عاجز عین وقت پر مامور ہوا۔ اس لئے پہلے صدہا اولیاء نے اپنے الہام سے گواہی دی تھی کہ چودہویں صدی کا مجدو مسیح ہو گا اوراحادیث صحیحہ ……پکار پکار کرکہتی ہے کہ تیرہویںصدی کے بعد ظہور مسیح ہے۔ پس کیا اس عاجز کا یہ دعویٰ اس وقت اپنے محل اور اپنے وقت پر نہیں ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ فرمودہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطا جاوے۔ میں نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ اگر فرض کیا جائے کہ چودہویں صدی کے سر پر مسیح موعود پید انہیں ہوا۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی پیشگوئیاں خطاجاتی ہیں اور صدہا بزرگوار صاحب الہام جھوٹے ٹھہرتے ہیں۔
(۲) اس بات کو بھی سوچنا چاہیئے کہ جب علماء سے یہ سوال کیا جائے کہ چودھویں صدی کا مجدد ہونے کے لئے بجز اس احقر کے اور کس نے دعویٰ کیا ہے اور کس نے منجانب اللہ آنے کی خبر دی ہے اورملہم ہونے اور مامور ہونے کا دعویٰ ملہم من اللہ اور مجدد من اللہ کے دعویٰ سے کچھ بڑا نہیں ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ جس کو یہ رتبہ حاصل ہو کہ وہ خدا تعالیٰ کا ہمکلا م ہو ۔ اس کا نام منجانب اللہ خوا ہ مثیل مسیح خوا ہ مثیل موسی ہو یہ تمام نام اس کے حق میں جائز ہیں ۔ مثیل ہونے میں کوئی اصلی فضیلت نہیں۔ اصلی اور حقیقی فضیلت ملہم من اللہ اور کلیم اللہ ہونے میںہے۔ پھر جس شخص مکالمہ الہٰیہ کی فضیلت حاصل ہوگی اور کسی خدمت دین کے لئے مامور من اللہ ہوگیا۔ تواللہ جلشانہ‘ وقت کے مناسب حال اس کا کوئی نام رکھ سکتا ہے۔ یہ نام رکھنا تو کوئی بڑی بات نہیں ۔ اسلام میں موسیٰ عیسیٰ ۔داؤد۔ سلیمان۔ یعقوب وغیرہ بہت سے نام نبیوں کے نام پر لوگ رکھ لیتے ہیں۔ اس تفادل کی نیت سے کہ ان کے اخلاق انہیں حاصل ہوجائیں۔ پھر اگر خدا تعالیٰ کسی کو اپنے مکالمہ کا شرف دے کر کسی موجودہ مصلحت کے موافق اس کا کوئی نام بھی رکھ دے۔ تو کیااس میں استبعادہے؟
اور اس زمانہ کے مجدد کا نام مسیح موعود رکھنا اس مصلحت پر مبنی معلوم ہوتا ہے کہ اس مجدد کا عظیم الشان کام عیسائیت کا غلبہ توڑنا اور ان کے حملوں کو دفع کرنا اور ان کے فلسفہ کو جو مخالف قرآن ہے۔ دلائل قویہ کے ساتھ توڑنا اور ان پر اسلام کی حجت پوری کرنا ہے کیونکہ سب سے بڑی آفت اس زمانہ میں اسلام کے لئے جو بغیر تائید الہٰی دور نہیں ہوسکتی۔ عیسائیوں کے فلسفیانہ حملے اور مذہبی نکتہ چینیاں ہیں۔ جن کے دورکرنے کے لئے ضرور تھا کہ خداتعالیٰ کی طرف سے کوئی آوے اور جیسا کہ میرے پر کشفاً کھولا گیا ہے۔ حضرت مسیح کی روح ان افتراؤں کی وجہ سے جو ان پر اس زمانہ میں کئے گئے۔ اپنے مثالی نزول کے لئے شدت جوش میں تھی اور خداتعالیٰ سے درخواست کرتی تھی کہ اس وقت مثالی طور پر اس کا نزول ہو سو خدا تعالیٰ نے اس کے جوش کے موافق اس کی مثال کو دنیا میں بھیجا تا وہ وعدہ پورا ہو جو پہلے سے کیا گیا تھا۔
یہ ایک سراسرارا الہٰیہ میں سے ہے کہ جب کسی رسول یا نبی کی شریعت اس کے فوت ہونے کے بعد بگڑ جاتی ہے اور اور اس اصل تعلیموں اور ہدایتوں کے بدلا کر بہیودہ اور بیجا باتیں اس کی طرف منسوب کی جاتی ہیں اور ناحق کا جھوٹ افتراکرکے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ تمام کفر اور بدکاری کی باتیں اس نبی نے ہی سکھلائی تھیں تواس نبی کے دل میں ان فساد اور تہمتوں کے دور کرنے کے لئے ایک اشد توجہ اور اعلیٰ درجہ کا جوش پیدا ہو جاتا ہے تب اس نبی کی روحانیت تقاضا کرتی ہے کہ کوئی قائم مقام اس کا زمین پر پید اہو۔
اب غور سے اس معرفت کے دقیقہ کو سنو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دومرتبہ یہ موقعہ پیش آیا کہ ان کی روحانیت نے قائم مقام طلب کیا اوّل جبکہ ان کے فوت ہونے پر چھ سو برس گزر گیا اور یہودیوں نے اس بات پر حد سے زیادہ اصرار کیا کہ وہ نعوذ بااللہ مکار اور کاذب تھا اور اس کا ناجائز طور پر غلو کیا کہ وہ خدا تھا اور اسی لئے وہ مصلوب ہوا اور عیسائیوں نے اس بات پر غلو کیا کہ وہ خدا تھا اور خدا کا بیٹا تھا اور دنیا کو نجات دینے کے لئے اس نے صلیب پر جان دی پس جبکہ مسیح موعود علیہ السلام کی بابرکت شان میں نابکار یہودیوں نے نہایت خلاف تہذیب جرح کی اور اوبموجب توریت کے اس آیت کے جو کتاب استفاء میں ہے کہ جو شخص صلیب پر کھینچا جائے وہ * ہوتا ہے نعوذ بااللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو * قرار دیا اور مفتری اور کاذب اور باپاک پیدائش والا ٹھہرایا اور عیسائیوں نے ان کی مدح میں اطراء کر کے ان کوخدا ہی بنا دیا اور ان پر یہ تہمت لگائی کہ یہ تعلیم انہی کی ہے تب یہ اعلام الٰہی مسیح کی روحانیت جوش میں آئی اور اس نے ان تمام الزاموں سے اپنی بریت چاہی اور خداتعالیٰ سے اپنا مقام چاہا تب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے جن کی بعثت کی اغراض کثیرہ میں سے ایک یہ بھی غرض تھی کہ ان تمام بیجا الزاموں سے مسیح موعود کا دامن پاک صاف کریں اور اس کے حق میں صداقت کی گواہی دیں کہ یہی وجہ ہے کہ خود مسیح موعود نے یوحنا کی انجیل کے ۱۶ باب میں کہا ہے کہ میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ تمہارے لئے میرا جانا ہی مفید مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جائوں تو تسلی دینے والا (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) تم پاس نہیں آئے گا پھر اگر ملیں جائوں تو اسے تم پاس بھیج دو ں گا اور وہ آکر دنیا کو گناہ سے اور راستی سے اور عدالت سے نقصیر وار ٹھہرائے گا گناہ سے اس لئے کہ وہ مجھ پر ایمان نہیں لائے راستی سے اس لئے کہ میں اپنے باپ پاس جاتا ہوں اور تم مجھے پھر نہ دیکھو گے عدالت سے اس لئے کہ اس جہان کے سردار پر حکم کیا گیا ہے جب وہ روح حق آئے گی تو تمہیں ساری سچائی کی راہ بتا دے گی اورروح حق میری بزرگی کرے گی اس لئے وہ میری چیزوں سے پائے گی (۱۴) وہ تسلی دینے والا جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب چیزیں سکھائے گا۔ لوکا ۱۴؍ میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ مجھ کو نہ دیکھو گے۔ اس وقت تک کہ تم کہو گے مبارک ہے وہ جو خدا وند کے نام پر یعنی مسیح موعود علیہ السلام کے نام پر آتا ہے۔
ان آیات میں مسیح کا یہ فقرہ کہ میں اسے تم پاس بھیج دوں گا۔ اس بات پر صاف دلالت کرتا ہے کہ مسیح کی روحانیت اس کے آنے کے لئے تقاضا کرے گی اور یہ فقرہ کہ باپ اس کو میرے نام سے بھیجے گااس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آنے والا مسیح موعود کی تمام روحانیت پائے گا اور اپنے کمالات کی ایک شاخ کے رو سے وہ مسیح ہو گا۔ جیسا کہ ایک شاخ کی رو سے وہ موسیٰ ہے۔ بات یہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء کے نام اپنے اندر جمع رکھتے ہیں۔ کیونکہ وہ وجود پاک جامع کمالات متفرقہ ہے۔ پس وہ موسیٰ بھی ہے اور عیسیٰ بھی اورآدم بھی اورابراہیم بھی اور یوسف بھی اور یعقوب بھی اسی کی طرف اللہ جل شانہ اشارہ فرماتا ہے۔ فبہدی ھم اقتدہ یعنی اے رسول اللہ تو ان تمام ہدایات متفرقہ کو اپنے وجود میں جمع کرلے۔ جو ہر ایک نبی خاص طور پر اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ پس اس سے ثابت ہے کہ تمام انبیاء کی شاخیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں شامل تھیںاور درحقیقت محمد کانام صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرف اشارہ کرتا ہے کیونکہ محمد کے یہ معنی ہیںکہ بغایت تعریف کیا گیا اور غایت درجہ کی تعریف تب ہی متصور ہو سکتی ہے کہ جب انبیاء کے تمام کمالات متفرقہ اورصفات خاصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں جمع ہوں۔ چنانچہ قرآن کریم کی بہت سی آیتیں جن اس وقت لکھنا موجب طوالت ہے اسی پر دلالت کرتی بلکہ بصراحت بتلاتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک باعتبار اپنی صفات اور کمالات کے مجموعہ انبیاء تھی اور ہر ایک نبی نے اپنے وجود کے ساتھ مناسب پاکر یہی خیال کیا کہ میرے نام پر آنے والاہے اور قرآن کریم ایک جگہ فرماتا ہے کہ سب سے زیادہ ابراہیم سے مناسبت رکھنے والا یہ نبی ہے اور بخاری میں ایک حدیث ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مسیح سے یہ شدت مناسبت ہے اور اس کے وجود سے میرا وجود ملا ہو اہے پس اس حدیث میں حضرت مسیح موعود کے اس فقرہ کی تصدیق ہے کہ وہ نبی میرے نام پر آئے گا سو ایسا ہی ہو اکہ ہمارا مسیح صلی اللہ علیہ وسلم جب آیا تو اس نے مسیح ناصری کے ناتمام کاموں کو پورا کیا اور اس کی صداقت کے لئے گواہی دی اور ان تہمتوں سے اس کو بری قرار دیا یہود اورنصاریٰ نے اس پر لگائی تھیں او رمسیح کی روح کو خوشی پہنچائی۔ یہ مسیح ناصری کی روحانیت کا پہلا جوش تھا جو ہمارے سید ہمارے مسیح خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے اپنی مراد کو پہنچا۔ فالحمداللہ۔
پھر دوسری مرتبہ مسیح کی روحانیت اس وقت جوش میں آئی کہ جب نصاریٰ میں دجالیت کی صفت اتم اور اکمل طور پر آگئی جیسا کہ لکھا ہے کہ دجال نبوت کا دعویٰ بھی کرے گا اور خدائی کا بھی ایسا ہی انہوں نے کیا نبوت کا دعویٰ اس طرح پر کیا کہ کلام الٰہی میں اپنی طرف سے وہ دخل دئیے تو وہ قواعد مرتب کئے اور وہ تنسیخ و ترمیم کی جو ایک نبی کا کلام تھا۔ جس حکم کو چاہا قائم کر دیا اور اپنی طرف سے عقائد نامے اورعبادت کے طریقے گھڑ لئے اور ایسی آزادی سے مداخلت بیجا کی کہ گویا ان باتوں کے لئے وحی الٰہی ان پر نازل ہو گئی سو الٰہی کتابوں میں اس قدر بیجا دخل دوسرے رنگ میں نبوت کادعویٰ ہے اور خدائی کا دعویٰ اس طرح پر کہ ان کے فلسفہ والوں نے یہ ارادہ کیا کہ کسی طرح تمام کام خدائی کے ہمارے قبضہ میں آجائیں۔ جیساکہ ان کے خیالات اس ارادہ پر شائد ہیں کہ وہ دن رات ان فکروں میں پڑے ہوئے ہیں کہ کسی طرح ہم بھی مینہ برسائیں اور نطفہ کو کسی آلہ میں ڈال کر اوررحم عورت میں پہنچا کر بچے بھی پید اکر لیں اور ان کاعقیدہ ہے کہ خداکی تقدیر کچھ چیز نہیں ناکامی ہماری بوجہ غلطی تدبیر تقدیر ہو جاتی ہے اور جوکچھ دنیا میں خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے وہ صرف اس وجہ سے ہے کہ پہلے زمانہ کے لوگوں کو ہر ایک چیز کی طبع اسباب معلوم نہیں تھے اور اپنے تھک جانے کی انتہاء کا نام خدا اور خدا کی تقدیر رکھا تھا اب عللہ طبیعت کا سلسلہ جب بکلی لوگوں کو معلوم ہو جائے گا تو یہ خام خیالات خود بخود ور ہو جائیں گے۔ پس دیکھنا چاہئے کہ یورپ اور امریکہ کے فلاسفروں کے یہ اقوال خدائی کا دعویٰ ہے یا کچھ اور ہے اسی وجہ سے ان فکروں میں پڑے ہوئے ہیں کہ کسی طرح مرد بھی زندہ ہوجائیں اور امریکہ میں ایک گھر وہ عیسائی فلاسفروں کا انہیں باتوں کا تجربہ کر رہا ہے اور مینہ برسانے کا کارخانہ تو شروع ہو گیا اور ان کا منشاء ہے کہ بجائے اس کے کہ لوگ مینہ کے لئے خداتعالیٰ سے دعا کریں یا استقاء کی نمازیں پڑھیں گورنمنٹ میں ایک عرضی دے دیں کہ فلاں کھیت میں مینہ برسا یا جائے اور یورپ میں یہ کوشش ہو رہی ہے کہ نطفہ رحم میں ٹھہرانے کے لئے کوئی مشکل پید ا نہ ہو اور نیز یہ بھی کہ جب چاہیں لڑکا پید ا کرلیں اور جب چاہیں لڑکی اور ایک مرد کا نطفہ لے کر اور کسی پچکاری میں رکھ کر کسی عورت کے رحم میں چڑہا دیں اور اس تدبیر سے اس کو حمل کر دیں۔ اب دیکھنا چاہئے کہ یہ خدائی پر قبضہ کرنے کی فکر ہے یا کچھ اور ہے اور یہ جو حدیثوں میں آیا ہے کہ دجال اوّل نبوت کا دعویٰ کرے گا پھر خدائی کا اگر اس کے یہ معنی لئے جائیں کہ چند روز نبوت کا دعویٰ کر کے پھر خدا بننے کا دعویٰ کرے گا تو یہ معنی صریح باطل ہیں کیونہ جو شخص نبوت کا دعویٰ کرے گا اس دعویٰ میں ضرور ہے کہ وہ خداتعالیٰ کی ہستی کا اقرار کرے اور نیز خلق اللہ کو وہ کلام سنا وے جو اس پر خداتعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے اور ایک اُمت بنادے جو اس کو ہی سمجھتی اور اس کی کتاب کو کتاب اللہ جانتی ہے اب سمجھنا چاہئے کہ ایسا دعویٰ کرنے والا اسی اُمت کے روبرو خدائی کا دعویٰ کیونکر کر سکتا ہے کیونکہ وہ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ بڑا مفتری ہے پہلے تو خداتعالیٰ کا اقرار کرتا تھا اور خداتعالیٰ کا کلام سناتا تھا اور اب اس سے انکار ہے اور اب آپ خدابنتا ہے پھر جب اوّل دفعہ تیرے ہی اقرار سے تیرا جھوٹ ثابت ہو گیا تو دوسرا دعویٰ کیونکر سچا سمجھا جائے جس نے پہلے خدا تعالیٰ کی ہستی کا اقرار کر لیا اور اپنے تئیں بندہ قرار دے دیا اور بہت سا الہام اپنا لوگوں میں شائع کر دیا کہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے وہ کیو نکر ان تمام اقرارات سے انحراف کر کے خدا ٹھہر سکتا ہے اور ایسے کذاب کو کون قبول کر سکتا ہے۔ سو یہ معنی جو ہمارے علماء لیتے ہیں بالکل فاسد ہیں صحیح معنی ہیں کہ نبوت کے دعویٰ سے مراد خل در امور نبوت اورخدائی کے دعویٰ دخل در امور خدائی ہے جیسا کہ آجکل عیسائیوں سے یہ حرکات ظہور میں آرہی ہیں ایک فرقہ ان میں سے انجیل کو ایساتوڑ مروڑ رہا ہے کہ گویا وہ نبی ہے اور پر آیتیں نازل ہو رہی ہیں اور ایک فرقہ خدائی کے کاموں میں اس قدر دخل دے رہا ہے کہ گویاخدائی کو اپنے قبضے میں کرنا چاہتا ہے۔
غرض یہ دجالیت عیسائیوں کی اس زمانہ میں کمال درجہ تک پہنچ گئی ہے اور اس کے قائم کرنے کے لئے پانی کی طرح انہوں نے اپنے مالوں کو بہادیا ہے اور کروڑ ہا مخلوقات پر بد اثر ڈالا ہے۔ تقریر سے تحریر سے مال سے عورتوں گانے سے بجانے سے تماشے دکھلانے سے ڈاکٹر کھلائے سے غرض ہر ایک پہلو سے ہر ایک طریق سے ہر ایک پیرایہ سے ہر ایک ملک پر انہوں نے اثر ڈالا ہے چنانچہ چھ کروڑ تک ایسی کتاب تالیف ہو چکی ہے جس میں یہ غرض ہے کہ دنیا میں یہ ناپاک طریق عیسیٰ پرستی کا پھیل جائے پس اس زمانہ میں دوسری مرتبہ حضرت مسیح کی روحانیت کو جوش آیا اور انہوں نے دوبارہ مثالی طور پر دنیا میں اپنا نزول چاہا اور جب ان میں مثالی نزول کے لئے اشد درجہ کی توجہ اور خواہش پید اہوئی تو خداتعالیٰ نے اس خواہش کے موافق دجال موجودہ کے نابود کرنے کے لئے ایسا شخص بھیج دیا جو ان کی روحانیت کا نمونہ تھا۔ وہ نمونہ مسیح علیہ السلام کاروپ بن کر مسیح موعود کہلایا۔ کیونکہ حقیقت عیسویہ کا اس میں حلول تھا۔ یعنی حقیقت عیسویہ اس سے متحد ہو گئے تھے اور مسیح کی روحانیت کے تقاضا سے وہ پید اہوا تھا۔ پس حقیقت عیسویہ اس میں ایسی منعکس ہو گئی جیسا کہ آئینہ میں اشکال اور چونکہ وہ نمونہ حضرت مسیح کی روحانیت کے تقاضا سے ظہور پذیر ہوا تھا۔اس لئے وہ عیسیٰ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ کیوکہ حضرت عیسیٰ کی روحانیت نے قادر مطلق غزاسمہ سے بوجہ اپنے جوش کے اپنی ایک شبیہہ چاہی اور چاہا کہ حقیقت عیسویہ اس شبیہہ میں رکھی جائے۔ تا اس شبیہہ کا نزول ہو۔ پس ایسا ہی ہو گیا۔ اس تقریر میں اس وہم کا بھی جواب ہے کہ نزول کے لئے مسیح کو کیوں مخصوص کیا گیا۔ یہ کیوں نہ کہا گیا کہ موسیٰ نازل ہو گا یا ابراہیم نازل ہو گا یا دائود نازل ہو گا۔ کیونکہ اس جگہ صاف طور پر کھل گیا کہ موجودہ فتنوں کے لحاظ سے مسیح کا نازل ہونا ہی ضروری تھا۔ کیونکہ مسیح کی ہی قوم بگڑی تھی اور مسیح کی قوم میں ہی دجالیت پھیلی تھی۔ اس لئے مسیح کی روحانیت کو ہی جوش آنا لائق تھا۔ یہ وہ دقیق معرفت ہے کہ جو کشف کے ذریعہ سے اس عاجز پرکھلی ہے اور یہ بھی کھلا کہ یوں مقدر ہے کہ ایک زمانے کے گزرنے کے بعد کہ خیر اوراصلاح اور غلبہ توحید کا زمانہ ہو گا پھر دنیا میں فساد اور شرک اور ظلم عود کرے گا اور بعض کو کیڑوں کی طرح کھائیں گے اور جاہلیت غلبہ کرے گی اور دوبارہ مسیح کی پرستش ہو جائے گی اور مخلوق کو خدابنانے کی جہالت بڑی زور سے پھیلے گی اوریہ سب فساد عیسائی مذہب سے اس آخری زمانہ کے آخری حصہ میں دنیا میں پھیلیں گے تب پھر مسیح کی روحانیت سخت جوش میں آکر جلالی طور پر اپنا نزول چاہے گی تب کہ قہری شبیہہ میں اس کا نزول ہو کر اس زمانہ کا خاتمہ ہو جائے گا تب آخر ہو گا اور دنیا کی صف لپیٹ دی جائے گی اس سے معلوم ہوا ہے کہ مسیح کی امت کی نالائق کرتوتوں کی وجہ سے مسیح کی روحانیت کے لئے یہی مقدر تھا کہ تین مرتبہ دنیا میں نازل ہو۔
اس جگہ یہ نکتہ بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت بھی اسلام کے اندورنی مفاسد کے غلبہ کے وقت ہمیشہ ظہور فرماتی رہتی ہے اورحقیقت محمدیہ کا حلول ہمیشہ کسی کامل متبع میں ہوکر جلوہ گر ہوتا ہے اور جو احادیث میں آیا ہے مہدی پید اہو گا او راس کا نام میرا ہی نام ہو گا اور اس کا خلق ہوگا۔ اگر یہ حدیثیں صحیح ہیں تو یہ معنی اسی نزول روحانیت کی طرف اشارہ ہے لیکن وہ نزول کسی خاص فرد میں محدود نہیں صدہا ایسے لوگ گزرے ہیں کہ جن میں حقیقت محمدیہ متحتق تھی اور عنداللہ ظلی طور پر ان کا نام محمد یا احمد تھا لیکن چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت مرحومہ ان فسادوں سے بفضلہ تعالیٰ محفوظ رہی ہے جو حضرت عیسیٰ کی امت کو پیش آئے اور آج تک ہزار ہا صلحا اور اتفیاس امت میں موجود ہیں کہ قحبہ دنیا کی طرف پشت دے کر بیٹھے ہوئے ہیں پنج وقت توحید کی اذان مسجد میں ایسی گونج پڑتی ہے کہ آسمان تک محمدی توحید کی شعاعیں پہنچتی ہیں پھر کون موقع تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت کو ایسا جوش آتا جیسا کہ حضرت مسیح کی روح عیسائیوں کے دل آزاد عظوں اور نفرتی کاموں اور مشترکہ تعلیموں اور نبوت میں بیجا دخلوں اور خداتعالیٰ کی ہمسری کرنے نے پید اکردیا اس زمانہ میں یہ جوش حضرت موسیٰ کی روح میں بھی اپنی امت کے لئے نہیں آسکتا تھا کیونکہ وہ تونابود ہو گئی اور اب صفحہ دنیا میں ذریت ان کی بجز چند لاکھ کے باقی نہیں اور وہ بھی ضربت علیھم الذلۃ والمسکنۃ کے مصداق اور اپنی دنیا داری کے خیالات میں غرق اور نظروں سے گرے ہوئے ہیں لیکن عیسائی قوم اس زمانہ میںچالیس کروڑ سے کچھ زیادہ ہے اور بڑے زور سے اپنے دجالی خیالات کو پھیلا رہی ہے اور صدہا پیرایوں میں اپنے شیطانی منصوبوں کو دلوں میں جاگزین کر رہی ہے بعض واعظوں کے رنگ میں پھرتے ہیں بعض گوئیے بن کر گیت گاتے ہیں بعض شاعر بن کر تثلیت کے متعلق غزلیں سناتے ہیں بعض جوگی بن کر اپنے خیالات کو شائع کرتے پھرتے ہیں بعض نے یہی خدمت لی ہے کہ دنیا کی تمام زبانوں میں اپنی محرف انجیل کا ترجمہ کر کے اور ایسا ہی دوسری کتابیں اسلا م کے مقابل پر ہر ایک زبان میں لکھ کر تقسیم کرتے پھرتے ہیں بعض تھٹیر کے پیرایہ میں اسلام کی بری تصویر لوگوں کے دلوں میں جماتے ہیں اور ان کاموں میں کروڑ ہا روپیہ ان کا خرچ ہوتا ہے اور بعض ایک فوج بناکر اور مکتی فوج اس کانام رکھ کر ملک بہ ملک پھرتے ہیں اور ایسا ہی اور کاروایئوں نے بھی جو ان کے مرد بھی کرتے ہیں اور ان کی عورتیں بھی کروڑ ہا بند گان خداکو نقصان پہنچایا ہے اور بات انتہا تک پہنچ گئی ہے۔ اس لئے ضرور تھا کہ اس زمانہ میں حضرت مسح کی روحانیت جوش میں آتی اور اپنی شبیہہ کے نزول کے لئے جو اس حقیقت سے متحد ہو تقاضا کرتی۔ سو اس عاجز کے صدق کی شناخت کے لئے ایک بڑی علامت ہے مگر ان کے لئے جو سمجھتے ہیں اسلام کے صوفی جو قبروں سے فیض طلب کرنے کے عادی ہیں اور اس بات کے بھی قائل ہیں کہ ایک فوت شدہ نبی یا ولی کی روحانیت کبھی ایک زندہ مرد خدا سے متحد ہو جاتی ہے۔ جس کو کہتے ہیں فلاں ولی موسیٰ کے قدم پر ہے اور فلاں ابراہیم کے قدم پر یا محمدی المشرب اور ابراہیمی المشرب نام رکھتے ہیں۔ وہ ضرور اس دقیقہ معرفت کی طرف توجہ کریں۔
(۳)تیسری علامت اس عاجز کے صدق کی یہ ہے کہ بعض اہل اللہ نے اس عاجز سے بہت سے سال پہلے اس عاجز کے آنے کی خبر دی ہے۔ یہاں تک کہ نام اور سکونت اور عمر کا حال تبصریح بتلایا ہے۔ جیسا کہ ’’نشان آسمانی‘‘ میں لکھ چکا ہوں۔
(۴) چوتھی علامت اس عاجز کے صدق کی یہ ہے کہ اس عاجز نے بارہاہزار کے قریب خط اور اشتہار الہامی برکات کے مقابلہ کے لئے مذاہب غیر کی طرف روانہ کئے۔ بالخصوص پادریوں میں سے شاید ایک بھی نامی پادری یورپ اور امریکہ اور ہندوستان میں باقی نہیں رہے گا۔ جس کی طرف خط رجسڑی کرکے نہ بھیجا ہو۔ مگر سب پر حق کا رعب چھا گیا۔اب جو ہماری قوم کے مُلا مولوی لوگ اس دعوت میں نکتہ چینی کرتے ہیں۔ درحقیقت یہ ان کی دو وغگوئی اور نجاست خواری ہے مجھے یہ قطعی طور بشارت دی گئی ہے کہ اگر کوئی مخالف دین میرے سامنے مقابلہ کے لئے آئے گا تو اس میں اس پر غالب ہوں گا اور وہ ذلیل ہوگا۔ پھر یہ لوگ جو مسلمان کہلاتے ہیں او ر میری نسبت شک رکھتے ہیں کیوں اس زمانہ کے پادری سے میرا مقابلہ نہیں کراتے۔ کسی پادری یا پنڈت کو کہہ دیں کہ یہ شخص درحقیقت مفتری ہے۔ اس کے ساتھ مقابلہ کرنے میں کچھ نقصان نہیں ہم ذمہ دار ہیں۔ پھر خداتعالیٰ خود فیصلہ کردے گا۔ میں اس بات پر راضی ہوں کہ جس دنیا کی جائیداد یعنی اراضی وغیرہ بطور رواثت میرے قبضہ میں آئی ہے۔ بحالت در وغگو نکلنے کے وہ سبب اس پادری یا پنڈت کو دے دوں گا۔ا گر وہ دروغگو نکلا تو بجز اس کے اسلام لانے کے میں اس سے کچھ نہیں مانگتا۔ یہ بات میں نے اپنے جی میں جزماً ٹھہرائی ہے اورتہ دل سے بیان کی ہے اور اللہ جلشانہ کی قسم کھا کر کہتاہوں کہ میں اس مقابلہ کے لئے تیار ہوں اوراشتہار دینے کے لئے مستعد بلکہ میں نے بارہ اشتہار شائع کر دیا ہے۔ بلکہ میں بلاتا بلاتا تھک گیا کوئی پنڈت پادری نیک نیتی سے سامنے نہیں آتا۔ میری سچائی کے لئے اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ میں اس مقابلہ کے لئے ہر وقت حاضر ہوںاور اگر کوئی مقابلہ پر کچھ نشان دکھلانے کا دعویٰ نہ کرے تو ایسا پنڈت یا ایسا پادری صرف اخبار کے ذریعہ سے یہ شائع کر دے کہ میں صرفر ایک طرفہ کوئی امر غارق عادت دیکھنے کو تیار ہوں اور اگر امر خارق عادت ظاہر ہو جائے اور میں اس کا مقابلہ نہ کر سکوں تو فی الفور اسلام قبول کر لوںگا تو یہ تجویز بھی مجھے منظور ہے کہ کوئی مسلمان میں سے ہمت کرے اور جس شخص کو کافر بیدین کہتے ہیں اور دجال نام رکھتے ہیں بمقابل کسی پادری کے اس امتحان کر لیں اور آپ صرف تماشا دیکھیں۔
(۵)پانچویں علامت اس جز کے صدق کی یہ ہے کہ مجھے اطلاع دی گئی کہ میں ان مسلمانوں پر بھی اپنے کشفی او ر الہامی علوم میں غالب ہوں ان کے ملہوں کو چاہئے کہ میرے مقابل پر آویں پھر اگر تائید الٰہی میں اور فیض سماوی ہیں او رآسمانی نشانوں میں مجھ پر غالب ہو جائیں تو جس کا رو سے چاہیں مجھ کو ذبح کر دیں مجھے منظور ہے اور اگر مقابلہ کی طاقت نہ ہوتو کفر کے فتوی دینے والے جو الہاماً میرے مخاطب ہیں یعنی جن کو مخاطب ہونے کے لئے الہام الٰہی مجھ کو ہو گیاہے پہلے لکھ دیں او رشائع کرا دیں کہ اگر کوئی خارق عادت امر دیکھیں تو بلا چون و چرا دعوی کو منظور کر لیں۔ میں ا س کام کے لئے بھی حاضرہوں اورمیرا خدا وند کریم میرے ساتھ ہے لیکن مجھے یہ حکم ہے کہ میں ایسا مقابلہ صرف المۃ الکفر سے کروں انہی سے مباہلہ کروں اور انہی سے اگر وہ چاہیں یہ مقابلہ کروں مگر یاد رکھنا چاہئے کہ وہ ہر گز مقابلہ نہیں کریں گے کیونکہ حقانیت کے ان کے دلوں پر دعب ہیں اور وہ اپنے اور زیادتی کو خوب جانتے ہیں وہ ہر گز مباہلہ نہیں کریں گے مگر میری طرف عنقریب کتاب وافع الوساوس میں ان کے نام اشتہار جاری ہو جائیں گے۔
رہے احادالناس کہ جو امام اور فضلاء علم کے نہیں ہیں اور نہ ان کافتویٰ ہے ان کے لئے مجھے حکم ہے کہ اگر وہ خوارق دیکھنا چاہتے ہیں تو صحبت میں رہیں۔ خداتعالیٰ غنی بے نیاز ہے جب تک کسی میں تذلل اور انکسار نہیں دیکھتا اس کی طرف توجہ نہیں فرماتا۔ لیکن وہ اس عاجز کو ضائع نہیں کرے گا اور اپنی حجت دنیاپر پوری کردے گا اورکچھ زیادہ دیر نہ ہو گی کہ وہ اپنے نشان دکھلادے گا۔ لیکن مبارک وہ جو نشانوں سے پہلے قبول کر گئے۔ وہ خداتعالیٰ کے پیارے بندے ہیں او روہ صادق ہیں جن میں دغا نہیں۔ نشانوں کے مانگنے والے حسرت سے اپنے ہاتھوں کو کاٹیں گے کہ ہم کو رضائے الٰہی اور اس کی خوشنودی حاصل نہ ہوئی جوا ن بزرگ لوگوں کو ہوئی جنہوں نے قرائن سے قبول کیا اور کوئی نشان نہیں مانگا۔
سو یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ خداتعالیٰ اپنے اس سلسلہ کو بے ثبوت نہیں چھوڑے گا۔ وہ خود فرماتا ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے کہ :۔
دنیا میں ایک نذیر آیا۔ ہر دنیا نے ا س کو قبول نہ کیا۔ لیکن خدااسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کرے گا۔ جن لوگوں نے انکار کیا اور جو انکار کے لئے مستعد ہیں۔ ان کے لئے ذلت اور خواری مقدر ہے۔ انہوںنے یہ بھی سوچا کہ اگر یہ انسان کا افرا ہوتا تو کب کا ضائع ہوجاتا۔ کیونکہ خداتعالیٰ مفتری کا ایسا دشمن ہے کہ دنیا میں ایسا کسی کا دشمن نہیں۔ وہ بے وقوف یہ بھی خیال نہیں کرتے کہ کیا یہ استقامت اور جرات کسی کذاب میں ہو سکتی ہے۔ وہ نادان یہ بھی نہیں جانتے کہ جو شخص ایک غیبی پناہ سے بول رہا ہے وہ اس بات سے مخصوص ہے کہ اس کے کلام میں شوکت اور بیعت ہو اور یہ اسی کا جگر اور دل ہوتا ہے کہ ایک فرد تمام جہاں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جائے۔ یقینا منتظر رہو کہ وہ دن آتے ہیں بلکہ نزدیک ہیں کہ دشمن رو سیاہ ہو گا اور دوست نہایت ہی بشاش ہوں گے کون ہے دوست؟ وہی جس نے نشان دیکھنے سے پہلے مجھے قبول کیا اور جس نے اپنی جان اور مال اور عزت کو ایسا فدا کردیا ہے کہ گویا اس نے ہزاروں نشان دیکھ لئے ہیں۔ سو یہی میری جماعت ہے اور میرے ہیں جنہوں نے مجھے اکیلا پایا اور میری مدد کی اور مجھے غمگین دیکھا اورمیرے غمخوار ہوئے اور ناشنا سا ہو کر آشنائوں کا ادب بجا لائے۔ خداتعالیٰ کی ان پر رحمت ہو۔اگر نشانوں کے دیکھنے کے بعد کوئی کھلی صداقت کو مان لے گا تو مجھے کیا اور اس کو اجر کیا اور حضرت عزت میں اس کی عزت کیا۔ مجھے درحقیقت انہوں نے ہی قبول کیا ہے۔ جنہوں نے دقیق نظر سے مجھ کو دیکھا اور فراست سے میری باتوں ک وزن کیا اور میرے حالات کو جانچا اور میرے کلام کو سنا اور اس میں غور کی تب اسی قدر قرائن سے حق تعالیٰ نے ان کے سینوں کو کھول دیا اور میرے ساتھ ہوگئے۔ میرے ساتھ وہی ہے۔ جو میری مرضی کے لئے اپنی مرضی کو چھوڑتا ہے اوراپنے نفس کے ترک اور اخذ کے لئے مجھے حکم بتاتا ہے اور میری راہ پر چلتا ہے اوراطاعت میں فانی ہے اور امانیت کی جلد سے باہر آگیا ہے۔ مجھے آہ کھینچ کر یہ کہنا پڑتاہے کہ کھلے نشانوں کے طالب وہ تحسین کے لائق خطاب اورعزت کے لائق مرتبے خداوند کی جناب میں نہیں پا سکتے۔ جو ان راستبازوں کو ملیں گے۔ جنہوں نے چھپے ہوئے بھید کو پہنچان لیا اورجو اللہ جلشانہ کی چادر کے تحت میں ایک چھپا ہو ا بندہ تھا ۔ اس کی خوشبو ان کو آگئی۔ انسان کا اس میں کیا کمال ہے کہ مثلاً ایک شہزادہ کو اپنی فوج اور جاہ جلال میں دیکھ کر پھر اس کو سلام کر ے باکمال وہ آدمی ہے جو گدائوں کے پیرایہ میں اس کوپاوے اور شناخت کر لے۔ مگر میرے اختیار میں نہیں کہ یہ زیرکی کسی کو دوں ایک ہی ہے جو دیتا ہے۔ وہ جس کو عزیز رکھتا ہو ایمانی فراست اس کو عطا کرتا ہے۔ انہیں باتوں سے ہدایت پانے والے ہدایت پاتے ہیں اور یہی باتیں ان کے لئے جن کے دلوں میں کجی ہے۔ زیادہ تر کجی کا موجب ہو جاتی ہیں۔ اب میں جانتا ہوں کہ نشانوں کے بارہ میں بہت کچھ لکھ چکا ہوں اور خداتعالیٰ جانتا ہے کہ یہ بات صحیح اور راست ہے کہ اب تک تین ہزار کے قریب یا کچھ زیادہ وہ امور میرے لئے خداتعالیٰ سے صادر ہوئے ہیں۔ جو انسانی طاقتوں سے بالا تر ہیں اور آیندہ ان کا دروازہ بند نہیں۔ ان نشانوں کے لئے ادنیٰ ادنیٰ میعادوں کا ذکر کرنا یہ ادب سے دور ہے۔ خداتعالیٰ غنی بے نیاز ہے جب مکہ کے کافر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے تھے کہ نشان کب ظاہر ہوں گے تو خداتعالیٰ نے کبھی یہ جواب نہ دیا کہ فلاں تاریخ نشان ظاہر ہوں گے۔ کیونکہ یہ سوال ہی بے ادبی سے پر تھا اور گستاخی سے بھرا ہوا تھا۔ انسان اس نابکار اور بے بنیاد دنیا کے لئے سالہا سال انتظاروں میں وقت خرچ کردیتا ہے۔ ایک امتحان دینے میں کئی برسوں سے تیاری کرتا ہے۔ وہ عمارتیں شروع کرا دیتا ہے جوبرسوں میں ختم ہوں۔ وہ وپودے باغ میں لگاتا ہے۔ جن کا پھل کھانے کے لئے ایک دور زمانہ تک انتظار کرنا ضروری ہے پھر خداتعالیٰ کی راہ میں کیوں جلدی کرتا ہے۔ اس کا باعث بجز اس کے کچھ نہیں کہ دین کو ایک کھیل سمجھ رکھا ہے انسان خداتعالیٰ سے نشان طلب کرتا ہے اوراپنے دل میں مقرر نہیں کر تا کہ نشان دیکھنے کے بعد اس کی راہ میں کونسی جانفشانی کروں گا اور کس قدر دنیا کو چھوڑ دوں گا اورکہاں تک خدا تعالیٰ کے مامور بندے کے پیچھے ہوچلوں گا۔ بلکہ غافل انسان ایک تماشا کی طرح سمجھتا ہے حواریوں نے حضرت مسیح سے نشان مانگا تھا کہ ہمارے لئے مائدہ اترے تابعض شبہات ہمارے جو آپ کی نسبت ہیں دور ہو جائیں۔ پس اللہ جلشانہ قرآن کریم میں حکایتاً حضرت عیسیٰ کو فرماتا ہے کہ ان کو کہہ دے کہ میں اس نشان کو ظاہرکروں گا۔ لیکن پھر اگر کوئی شخص مجھ کو ایسا نہیں مانے گا کہ جو حق ماننے کا ہے۔ تو میں اس پر وہ عذاب نازل کروں گا جو آج تک کسی پر نہ کیا ہو گا۔ تب حواری اس بات کو سن کر نشان مانگنے سے تائب ہو گئے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ جس قوم پر ہم نے عذاب نازل کیا ہے نشان دکھلانے کے بعد کیا ہے اور قرآن کریم میں کئی جگہ فرماتا ہے کہ نشان نازل ہونا عذاب نازل ہونے کی تہمید ہے۔ وجہ یہ کہ جو شخص نشان مانگتا ہے اس پر فرض ہو جاتا ہے کہ نشان دیکھنے کے بعد یک لخت دینا سے دست بردار ہو جائے اور فقیرانہ دلق پہن لے او رخداتعالیٰ کی حکمت اور ہیبت دیکھ کر اس کا حق اد اکرے۔ لیکن چو نکہ غافل انسان اس درجہ کی فرمابراداری کر نہیں سکتا۔ اس لئے شرطی طور پر نشان دیکھنا اس کے حق میں وبال ہو جاتا ہے۔ کیونکہ نشان کے بعد خداتعالیٰ کی حجت اس پر پوری ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر پھر کامل اطاعت کے بجالانے میں کچھ کسر رکھے تو غضب الٰہی مستولی ہوتا ہے اور اس کا نابود کر دیتاہے۔
تیسرا سوال آپ کا استخارہ کے لئے ہیں جو درحقیقت استخبارہ ہے۔ پس آپ پر واضح ہو کہ جو مشکلات آپ نے تحریر فرمائی ہیں۔ درحقیقت استخارہ میں ایسی مشکلات نہیں ہیں۔ میری مراد میری تحریر میں صرف اس قدر ہے کہ استخارہ ایسی حالت میں ہو کہ جب جذبات محبت اور جذبات عداوت کسی تحریک کی وجہ سے جوش میں نہ ہوں۔ مثلاً ایک شخص کسی شخص سے عداوت رکھتا ہے اورغصہ اور عداوت کے اشتعال میں سو گیا ہے۔ تب وہ شخص اس کا دشمن ہے۔ اس کو خواب میں کتے یاسور کی شکل میں نظر آیا ہے یا کسی اور درندہ کی شکل میں دکھائی دیا ہے۔ تو وہ خیال کرتا ہے کہ شائد درحقیقت یہ شخص عنداللہ کتا یا سو ر ہی ہے۔ لیکن یہ خیال اس کا غلط ہے۔ کیونکہ جوش عداوت میں جب دشمن خواب میں نظر آئے تو اکثر درندوں کی شکل میں یا سانپ کی شکل میں نظر آتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ درحقیقت وہ بد آدمی ہے کہ جو ایسی شکل میں ظاہر ہوا ایک غلطی ہے بلکہ چونکہ دیکھنے والے کی طبیعت اور خیال میں وہ درندوں کی طرح تھا۔ اس لئے خواب میں درندہ ہو کر اس کو دکھائی دیا۔ سو میرا مطلب یہ ہے کہ خواب دیکھنے والا جذبات نفس سے خالی ہو اور ایک آرام یا فتہ اور سراسر روبحق دل سے محض اظہار حق کی غرض سے استخارہ کرے۔ میں یہ عہد نہیں کر سکتاکہ ہر ایک شخص کو ہر ایک حالت نیک یا بد میں ضرور خواب آجائے گی۔ لیکن آپ کی نسبت میں کہتا ہوں کہ اگر چالیس روز تک روبحق ہو کر بشرائط مندرجہ آسمانی استخارہ کریں تو میں آپ کے لئے دعاکروں گا۔ کیا خوب ہو کہ یہ استخارہ میرے روبرو ہو۔تا میری توجہ زیادہ ہو۔ آپ پر کچھ بھی مشکل نہیں۔ لوگ معمولی اور نفلی طور پر حج کرنے کو بھی جاتے ہیں۔ مگر اس جگہ نفلی حج سے ثواب زیادہ ہے اور غافل رہنے میں نقصان اور خطرہ۔ کیونکہ سلسلہ آسمانی ہے اور حکم ربانی۔
سچی خواب اپنی سچائی کے آثار آپ ظاہر کردیتی ہے اوردل پر ایک نور کااثر ڈالتی ہے اور میخ آہنی کی طرح اندر کھب جاتی ہے اوردل اس کو قبول کرلیتا ہے اور اس کی نورانیت اور ہیبت بال بال پر طاری ہوجاتی ہے۔ میں آپ سے عہد کرتا ہوں کہ اگر آپ میرے روبرو میری ہدایت اور تعلیم کے موافق اس کار میں مشغول ہوں تو آپ کے لئے بہت کوشش کروں گا۔ کیونکہ میرا خیال آپ کی نسبت بہت نیک ہے اور خداتعالیٰ سے چاہتا ہوں کہ آپ کو ضائع نہ کرے اور رشد اور سعادت میں ترقی دے۔ اب میں نے آپ کا بہت وقت لے لیا۔ ختم کرتا ہوں۔ والسلام ۔ علیٰ من اتبع الہدیٰ۔
آپ کا مکرر خط پڑھ کر ایک کچھ زیادہ تفصیل کی محتاج معلوم ہوئی اور یہ ہے کہ استخارہ کے لئے ایسی دعاکی جائے کہ ہر ایک شخص کا استخارہ شیطان کے دخل سے محفوظ ہو۔ عزیز من یہ بات خداتعالیٰ کے قانون قدرت کے برخلاف ہے کہ وہ شیاطین کو ان کے مواضع مناسبت سے معطل کر دیوے۔ اللہ جلشانہ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ وما ارسلنا من رسول ولا نبی الا اذا تمنی القی الشیطن فی امنیۃ فینسخ اللہ مایلقی الشیطان ثم یحکم اللہ ایۃواللہ علیھم الحکیمیعنی ہم نے کوئی ایسا رسول اور نبی نہیں بھیجا کہ اس کی یہ حالت نہ ہو کہ جب وہ کوئی تمنا کرے۔ یعنی اپنے نفس سے کوئی بات چاہے تو شیطان اس کی خواہش میں کچھ نہ ملاوے۔ یعنی جب کوئی رسول نہ کوئی نبی اپنے نفس کے جوش سے کسی بات کو چاہتا ہے تو شیطان اس میں بھی دخل دیتا ہے۔ تب وحی متلو جو شوکت اور ہبیت اور روشنی نام رکھتی ہے۔ اس دخل کو اٹھا دیتی ہے اور منشاء الٰہی کو مصفا کرکے دکھلا دیتی ہے۔ یہ بات اس کی طرف اشارہ ہے کہ نبی کے دل میںجو خیالات اٹھتے ہیں اور جو کچھ خواطر اس کے نفس میں پید اہوتی ہے۔ وماینطق عن الھویٰ ان ھو الاوحی یوحیٰ لیکن قرآن کی وحی دوسری وحی سے جو صرف منجانب اللہ ہوتی ہیں تمیز کلی رکھتی ہے اور نبی کے اپنے تمام اقوال وحی غیر متلّو میں داخل ہوتے ہیں۔ کیونکہ روح القدس کی برکت اور چمک ہمیشہ نبی کے شامل حال رہتی ہے اور ہر ایک بات اس کی برکت سے بھری ہوئی ہوتی ہے اور وہ برکت روح القدس سے اس کلام میں رکھی جاتی ہے۔ لہذا ہر ایک جو نبی کی توجہ نام سے اور اس کے خیال کی پوری مصروفیت سے اس کے منہ سے نکلتی ہے۔ وہ بلا شبہ وحی ہوتی ہے۔ تمام احادیث اسی درجہ کی وحی میں داخل ہیں۔ جن کو غیر متلوو حی ہوتی ہے۔ اب اللہ جلشانہ‘ آیت موصوفہ ممدوحہ میں فرماتا ہے کہ اس ادنی درجہ کی وحی جو حدیث کہلاتی ہے۔ بعض صورتوں میں شیطان کا دخل بھی ہوجاتا ہے اور وہ اس وقت کہ جب نبی کا نفس ایک بات کے لئے تمنّا کرتا ہے تو اس کا اجتہاد غلطی کرجاتا ہے اور نبی کی اجتہادی غلطی بھی درحقیقت وحی کی غلطی ہے کیونکہ نبی تو کسی حالت میں وحی سے خالی نہیں ہوتا۔ وہ اپنے نفس سے کھویا جاتا ہے اور خداتعالیٰ کے ہاتھ میں ایک اٰ لہ کی طرح ہوتا ہے۔ پس چونکہ ہر ایک بات جو اس کے منہ سے نکلتی ہے وحی کہلائے گی نہ اجتہاد کی اب خدا تعالیٰ اس کا جواب قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ کبھی نبی کی اس قسم کی وحی جس کو دوسرے لفظوں میں اجتہادی بھی کہتے ہیں مس شیطان سے مخلوط ہوجاتی ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے کہ جب بنی کوئی تمنّا کرتا ہے کہ یوں ہوجائے۔ تب ایساہی خیال اس کے دل میں گزرتا ہے۔ جس پر نبی مستقل رائے قائم کرنے کے لئے ارادہ کرلیتا ہے تب فی الفور وحی اکبر جو کلام الہیٰ اور وحی متلوّ شیطان کی دخل سے بکلی منزّہ ہوتی ہے کیونکہ وہ سخت ہیبت اور شوکت اور روشنی اپنے اندر رکھتی ہے اور قول ثقیل اور شدید النزول بھی ہے اور اس کی تیز شعائیں شیطان کو جلاتی ہے ۔ اس لئے شیطان اس کے نام سے دور بھاگتا ہے اور نزدیک نہیں آسکتااور نزدیک ملائک کی کامل محافظت اس کے ارد گرد ہوتی ہے لیکن وحی غیر متلوّ جس نبی کا اجتہاد بھی داخل ہے یہ قوت نہیں رکھتی ۔ اس لئے تمنّا کے وقت جو کھبی شاذ و نادر اجتہاد ک سلسلہ میں پیدا ہو جاتی ہے ۔ شیطان بنی یا رسول کے اجتہاد میں دخل دیتا ہے۔ پھر وحی متلوّ اس دخل کو اٹھادیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء کے بعض اجتہادات میں غلطی بھی ہوگئی ہے ۔ جو بعد میں رفع کی گئی۔
اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ جس حالت میں خدا تعالیٰ کا یہ قانون قدرت ہے کہ بنی بلکہ رسول کی ایک قسم کی وحی میں بھی جو وحی غیر متلّوہے۔ شیطان کا دخل بموجب قرآن کی تصریح کے ہوسکتا ہے تو پھر کسی دوسرے شخص کو کب یہ حق پہنچتا ہے کہ اس قانون قدرت کی تبدیلی کی درخواست کرے۔ ماسواس کے صفائی اور راستی خواب کی اپنی پاک باطنی اور سچائی اور طہارت پر موقوف ہے۔ ہی قدیم قانون قدرت ہے جو اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت ہم تک پہنچا ہے کہ سچی خوابوں کے لئے ضرور ہے کہ بیداری بیداری کی حالت میں انسان ہمیشہ سچا اور خدا تعالیٰ کے لئے راستبازہو اور کچھ شک نہیں کہ جو شخص اس قانون پر چلے گا اور اپنے دل کو راست گوئی اور راست روی اور راست منشیٰ کا پورا پابند کرلے گا۔ تواس کی خوابیں سچی ہوں گی۔ اللہ جل شانہ‘ فرماتا ہے قَد اَفلَحَ مَن زَکَّھَا یعنی جو شخص باطل خیالات اور باطل نیات اور باطل اعمال اور باطل عقائد سے اپنے نفس کو پاک کر لیوے۔ وہ شیطان کی بند سے رہائی پاجائے گا۔ آخرت میں عقو بات اخروی سے رستگار ہوگا اور شیطان اس پر غالب نہیں آسکے گا۔ ایسا ہی ایک دوسری جگہ فرماتا ہے انّ عبادی لیس لک علیھم سلطا یعنی اے شیطان میرے بندے جو ہیں جنہوں نے میری مرضی کی راہوں پر قدم مارا ہے۔ ان پر تیرا تسلط نہیں ہوسکتا۔ سوجب تک انسان تمام کجیوں اورنالائق خیالات اور بہیودہ طریقوں کو چھوڑ کر صرف آستانہ الٰہی پر گرا ہوا نہ ہوجائے۔ جب تک وہ شیطان کی کسی عادت سے مناسبت رکھتا ہے اور شیطان مناسبت کی وجہ سے اس کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس پر دوڑتا ہے۔
اورجب کہ یہ حالت ہے تو میں الٰہی قانون قدرت کے مخالف کون سی تدبیر کرسکتا ہوں کہ کسی سے شیطان اس کے خواب میں دور رہے۔ جو شخص ان راہوں پر چلے گا جو رحمانی راہیں ہیں خود شیطان شیطان اس سے دور رہے گا۔
اب اگر یہ سوال ہو کہ جبکہ شیطان کے دخل سے بکلی امن نہیں تو ہم کیوں کر اپنی خوابوں پر بھروسہ کرلیں کہ وہ رحمانی ہیں۔ کیا ممکن نہیں کہ ایک خواب کو ہم روحانی سمجھیں اور در اصل وہ شیطانی ہو اور یا شیطانی خیال کریں اور دراصل وہ رحمانی ہو توا س وہم کا جواب یہ ہے کہ رحمانی خواب اپنی شوکت اور برکت اور عظمت اور نورانیت سے خود معلوم ہو جاتی ہے۔ جو چیز پاک چشمہ سے نکلی ہے وہ پاکیزگی اور خوشبو اپنے اندر رکھتی ہے اور چیز ناپاک اور گندے پانی سے نکلی ہے اس کا گند اور اس کی بدبو فی الفور آجاتی ہے۔ سچی خوابیں جو خداتعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں۔ وہ ایک پاک پیغام کی طرح ہوتی ہیں۔ جن کے ساتھ پریشان خیالات کا کوئی مجموعہ نہیں ہوتا اور اپنے اندر ایک اثر ڈالنے والی قوت رکھتے ہیں اور دل ان کی طرف کھینچے جاتے ہیں اور روح گواہی دیتی ہے کہ یہ منجانب اللہ ہے کیونکہ اس کی عظمت اور شوکت ایک فولادی میخ کی طرح دل کے اندر دھس جاتی ہے اور بسااوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص سچی خواب دیکھتا ہے اور خداتعالیٰ اس کے کوئی ہمشکل دکھلاتا ہے۔ تب اس خواب کو دوسرے کی خواب سے قوت مل جاتی ہے۔ سو بہتر ہے کہ آپ کسی اپنے دوست کو رفیق خواب کر لیں جو صلاحیت اور تقویٰ رکھتا ہو اور اس کا کہہ دیں کہ جب کوئی خواب دیکھے لکھ کر دکھلا دے اور آپ بھی لکھ کر دکھلا دیں۔ تب امید ہے کہ اگر سچی خواب آئے گی تو ا س کے کئی اجزاء آپ کی خواب میں اور اس رفیق کی خواب میں مشترک ہوں گے اورایسا اشتراک ہو گا کہ آپ تعجب کریں گے افسوس کہ اگر میرے روبرو آپ ایساارادہ کرسکتے ہیں تو میں غالب امید رکھتا تھا کہ کچھ عجوبہ قدرت ظاہر ہوتا میری حالت ایک عجیب حالت ہے۔ بعض دن ایسے گزرتے ہیں کہ الہامات الٰہی بارش کی طرح برستے ہیں اور بعض پیشگوئیاں ایسی ہوتی ہیں کہ ایک منٹ کے اندر ہی پوری ہو جاتی ہیں اور بعض مدت دراز کے بعد پوری ہوتی ہیں۔ صحبت میں رہنے والا محروم نہیں رہ سکتا۔ کچھ نہ کچھ تائید الٰہی دیکھ لیتا ہے۔ جو اس کی باریک بین نظر کے لئے کافی ہوتی ہے۔ اب میں متواتر دیکھتا ہوں کہ کوئی امر ہونے والا ہے۔ میں قطعاً نہیں کہہ سکتا کہ وہ جلد یا دیر سے ہو گا۔ مگر آسمان پر کچھ تیاری ہورہی ہے۔ تاخداتعالیٰ بدظنوں کو ملزم اور رسوا کرے۔ کوئی دن یا رات کم گزرتی ہے۔ جو مجھ کو اطمینان نہیں دیا جاتا۔ یہی خط لکھتے لکھتے یہ الہام ہوا۔ الحی الحق ویکشف الصدق ویخسر الخاسرون یاتی قمر الانبیاء وامرک بتائی ان ربک فعال لما یرید یعنی حق ظاہر ہو گا اور صدق کھل جائے گا اور جنہوں نے بدظنیوں سے زیان اٹھایا وہ ذلت اوررسوائی کا زیان بھی اٹھائیں گے۔ نبیوں کا چاند آئے گا اور تیرا کام ظاہر ہو جائے گا۔ تیرا رب جو چاہتا ہے کہ کرتا ہے مگر میں نہیں جانتا کہ یہ کب ہوگا اور جو شخص جلدی کرتا ہے۔ خداتعالیٰ کو اس کی ایک ذرہ بھی پرواہ نہیں وہ غنی ہے دوسرے کا محتاج نہیں۔ اپنے کاموں کو حکمت اور مصلحت سے کرتا ہے اورہر ایک شخص کی آزمائش کر کے پیچھے سے اپنی تائید دکھلاتا ہے کہ پہلے نشان ظاہر ہوتے تو صحابہ کبار اور اہل بیت کے ایمان اور دوسرے لوگوں کے ایمانوں میں فرق کیا ہوتا۔ خداتعالیٰ اپنے عزیزوں اور پیاروں کی عزت ظاہر کرنے کے لئے نشان دکھلانے میں کچھ توقف ڈال دیتا ہے۔ تا لوگوں پر ظاہر ہو کہ خداتعالیٰ کے خاص بندے نشانوں کے محتاج نہیں ہوتے اور تا ان کی فراست اور دوربینی سب پر ظاہر ہو جائے اور ان کے مرتبہ عالیہ میں کسی کا کلام نہ ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بہتر آدمی اوائل میں اس بد خیال سے پھر گئے اور مرتد ہو گئے کہ آپ نے ان کو کوئی نشان نہیں دکھلاتا۔ ان میں سے بار ہ قائم رہے اور بارہ میں سے پھر ایک مرتد ہو گیا اور جو قائم رہے انہوںنے آخر میں بہت سے نشان دیکھے اور عنداللہ صادق شمار ہوئے۔
مکرر میں آپ کو کہتاہوں کہ اگر آپ چالیس روز تک میری صحبت میں آجائیں تو مجھے یقین ہے کہ میرے قرب وجوار کا اثر آپ پر پڑے اور اگرچہ میں عہد کے طور پر نہیں کہہ سکتا۔ مگر میرا دل شہادت دیتا ہے کہ کچھ ظاہر ہو گا جو آپ کو کھینچ کر یقین کی طرف لے جائے گا اور میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ کچھ ہونے والا ہے۔ مگر ابھی خداتعالیٰ اپنی سنت قدیمہ سے دو گروہ بنانا چاہتا ہے۔اگر ایک وہ گروہ جو نیک ظنی کی برکت سے میری طرف آتے جاتے ہیں۔ دوسرے وہ گروہ جو بد ظنی کی شامت سے مجھ سے دور پڑتے جاتے ہیں۔
میں نے آپ کے اس بیان کو افسوس کے ساتھ پڑھا جو آپ فرماتے ہیں کہ مجرو قیل وقال سے فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ میں آپ کو ازراہ تو دودو مہربانی و رحم اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اکثر فیصلے دنیا میں قیل و قال سے ہی ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ صرف باتوں کے ثبوت یا عدم ثبوت کے لحاظ سے ایک شخص کو عدالت نہایت اطمینان کے ساتھ پھانسی دے سکتی ہے اور ایک شخص کو تہمت خون سے بری کر سکتی ہے۔ واقعات کے ثبوت یا عدم ثبوت پر تمام مقدمات فیصلہ پاتے ہیں۔ کسی فریق سے یہ سوال نہیں ہوتاکہ کوئی آسمانی نشان دکھلاوے۔ تب ڈگری ہو گی یا فقط اس صورت میں مقدمہ ڈسمس ہوگا کہ جب مدعا علیہ سے کوئی کرامت ظہور میں آوے بلکہ اگر کوئی مدعی بجائے واقعات کے ثابت کرنے کے ایک سوٹی کا سانپ بنا کر دکھلا دیوے یا ایک کاغذ کا کبوتر بنا کر عدالت میں اڑ دے تو کوئی حاکم صرف ان وجوہات کی رو سے اس کو ڈگری نہیں دے سکتا۔ جب تک باقاعدہ صحت دعویٰ ثابت نہ ہو اور واقعات پرکھے نہ جائیں۔ پس جس حالت میں واقعات کا پرکھنا ضروری ہے اور میر ایہ بیان ہے کہ میرے تمام دعاوی قرآن کریم اور احادیث نبویہ اور اولیاء گزشتہ کی پیشگوئیوں سے ثابت ہیں اور جو کچھ میری مخالف تاویلات سے اصل مسیح کو دوبارہ دنیا میں نازل کرنا چاہتے ہیں نہ صرف عدم ثبوت کا داغ ان پر ہے۔ بلکہ یہ خیال بہ بداہت قرآن کریم کی نصوص بینہ سے مخالف پڑا ہوا ہے اور اس کے ہرایک پہلو میں ا س قدر مفاسد ہیں اور اس قدر خرابیاں ہیں کہ ممکن نہیں کہ کوئی شخص ان سب کو اپنی نظر کے سامنے رکھ کر پھر اس کو بدیہی البطلان نہ کہہ سکے۔ تو پھر ان حقائق اور معارف اور دلائل اوربراہین کو کیونکر فضول قیل و قال کہہ سکتے ہیں۔ قرآن کریم بھی تو بظاہر قیل وقال ہی ہے جو عظیم الشان معجزہ اور تمام معجزات سے بڑھ کر ہے۔ معقولی ثبوت تو اوّل درجہ پر ضروری ہوئے ہیں۔ بغیر اس کے نشان ہیچ ہیں۔ یاد رہے کہ جن ثبوتوں پر مدعا علیہ کو عدالتوں میں سزائے موت دی جاتی ہے وہ ثبوت ا ن ثبوتوں سے کچھ بڑھ کرنہیں ہیں۔ جو قرآن اور حدیث اور اقوال اکابر او راولیاء کرام سے میرے پاس موجود ہیں۔ مگر غور سے دیکھنا اور مجھ سے سننا شرط ہے۔
میں نے ان ثبوتوں کو صفائی کے ساتھ کتاب آئینہ کمالات اسلام میں لکھا ہے اور کھول کر دکھلاتا ہے کہ جو لوگ اس انتظار میں اپنی عمر او ر وقت کو کھوتے ہیںکہ حضرت مسیح پھر اپنے خاکی قالب کے ساتھ دنیامیں آئیں گے وہ کس قدر منشاء کلام الٰہی سے دور جا پڑے ہیںاور کیسے چاروں طرف کے فسادوں او رخرابیوں نے ان کو گھیر لیا ہے۔ میں نے ا س کتاب میں ثابت کر دیا ہے مسیح موعود کا قرآن کریم میں ذکر ہے اور دجال کا بھی۔ لیکن جس طرز سے قرآن کریم میں یہ بیان فرماتا ہے وہ جبھی صحیح اور درست ہو گا جب مسیح موعود سے مراد کوئی مثیل مسیح لیا جائے جو اسی امت میں پید اہو اور نیز دجال سے مراد ایک گروہ لیا جائے او ردجال خود گروہ کو کہتے ہیں بلاشبہ ہمارے مخالفوں نے بڑی ذلت پہنچانے والی غلطی اپنے لئے اختیار کی ہے گویا قرآن اورحدیث کو یک طرف چھوڑ دیا ہے۔ وہ اپنی نہایت درجہ کی بلاہت سے اپنی غلطی پر متنبہ نہیں ہوتے اور اپنے موٹے اور سطحی خیالات پر مغرور ہیں۔ مگر ان کو شرمندہ کرنے والا وقت نزدیک آتا جاتا ہے۔
میں انہیں جانتا کہ میرے اس خط کا آپ کے دل پر کیا اثر پڑے گا۔ مگر میں نے ایک واقعی نقشہ آپ کے سامنے کھینچ کر دکھلا دیا ہے۔ ملاقات نہایت ضروری ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ جس طرح ہو سکے ۲۷؍ دسمبر ۱۹۹۲ء کے جلسہ میں تشریف لاویں۔ انشاء اللہ القدیر آپ کے لئے بہت مفید ہو گا اور للہ سفر کیا جاتا ہے۔ وہ عنداللہ ایک قسم عبادت کے ہوتا ہے۔ اب دعا پر ختم کر تاہوں۔ ایدکم اللہ من عندہ ورحمکم فی الدنیا والاخیر۔
والسلام
غلام احمد از قادیان
ضلع گورداسپور
۱۰؍ دسمبر ۱۸۹۲ء
نوٹ:۔ اس خط کو کم سے کم تین مرتبہ غور سے پڑھیں۔ یہ خط اگرچہ بظاہر آپ کے نام ہے اس بہت سی عبارتیں دوسروں کے اوہام دور کرنے کے لئے ہیں۔ گو آپ ہی مخاطب ہیں۔
مکتوب نمبر(۷)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم نواب صاحب سردار محمد علی خاں صاحب سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کاعنایت نامہ مجھ کو آج کی ڈاک میں ملا۔ آتھم کے زندہ رہنے کے بارے میں میرے دوستوں کے بہت خط آئے۔ لیکن یہ پہلا خط ہے جو تذبذب او رتردد اور شک اور سو ظن سے بھر اہوا تھا ایسے ابتلاء کے موقعہ پر جو لوگ اصل حقیقت سے بے خبر تھے جس ثابت قدمی سے اکثر دوستوں نے خط بھیجے ہیں تعجب میں ہوں کہ کس قدر سوز یقین کا خداتعالیٰ نے ان کے دلوں میں ڈال دیا اوربعض نے ایسے موقعہ پر نئے سرے کی اس نیت سے تا ہمیں زیادہ ثواب ہو( ان سے دوبارہ بیعت کرنے والوں میں چودہری رستم علی رضی اللہ عنہ کا نام مجھے معلوم ہے۔ عرفانی) بہرحال آپ کا خط پڑھنے سے اگرچہ آپ کے ان الفاظ سے بہت رنج ہوا۔ جن کے استعمال کی نسبت ہرگز امید نہ تھی۔ لیکن چونکہ دلوں پر اللہ جل شانہ کا تصرف ہے اس لئے سوچا کہ کسی وقت اگر اللہ جلشانہ نے چاہا تو آپ کے لئے دعا کی ہے۔ نہایت مشکل یہ ہے کہ آپ کو اتفاق ملاقات کا کم ہوتا ہے اور دوست اکثر آمد ورفت رکھتے ہیں۔ کتنے مہینوں سے ایک جماعت میر ے پا س رہتی ہے۔ جو کبھی پچاس کبھی ساٹھ اور کبھی سو سے بھی زیادہ ہوتے ہیںا ورمعارف سے اطلاع پاتے رہتے ہیں اور آپ کا خط کبھی خواب خیال کی طرح آجاتا ہے اور اکثر نہیں۔
اب آپ کے سوال کی طرف توجہ کر کے لکھا ہوں کہ جس طرح آپ سمجھتے ہیں کہ ایسا نہیں بلکہ درحقیقت یہ فتح عظیم ہے۔ مجھے خداتعالیٰ نے بتلایا ہے کہ عبداللہ آتھم نے حق کی عظمت قبول کر لی اور سچائی کی طرف رجوع کرنے کی وجہ سے سزائے موت سے بچ گیا ہے اور اس کی آزمائش یہ ہے کہ اب اس سے ان الفاظ میں اقرار لیا جائے تا اس کی اندورنی حالت ظاہر ہو۔ یا اس پر عذاب نازل ہو۔ میں نے اس غرض سے اشتہار دیا ہے کہ آتھم کو یہ پیغام پہنچایا جائے کہ اللہ جلشانہ کی طرف یہ خبر ملی ہے کہ تو نے حق کی طرف رجوع کیا ہے اور اگر وہ اس کا قائل ہوجائے تو ہمارا مدعا حاصل ورنہ ایک ہزار روپیہ نقد بلاتوقف اس کو دیا جائے کہ وہ قسم کھاجائے کہ میں نے حق کی طرف رجوع نہیں کیا اور اگروہ اس قسم کے بعد ایک برس کے بعد (تک عرفانی) ہلاک نہ ہو تو ہم ہرطرح سے کاذب ہیں اور اگر وہ قسم نہ کھائے تو وہ کاذب ہے آپ اس کا سمجھ سکتے ہیں کہ اگر تجربہ سے اس نے مجھ کو کاذب یقین کر لیاہے اور وہ اپنے مذہب پر قائم ہے تو قسم کھانے میں اس کا کچھ حرج نہیں۔ لیکن اگر اس نے قسم نہ کھائی اور باوجود یہ کہ وہ کلمہ کے لئے ہزار روپیہ اس کے حوالے کیا جاتا ہے۔ اگر وہ گریز کر گیا تو آپ کیا سمجھیں گے۔ اب وقت نزدیک ہے۔ اشتہار آئے چاہتے ہیں۔ میں ہزار روپیہ کے لئے متردد تھاکہ کس سے مانگوں۔ ایسا دیندار کون ہے جو بلاتوقف بھیج دے گا۔ آخر میں نے ایک شخص کی طر ف لکھا ہے اگر اس نے دے دیا تو بہتر ہے ورنہ یہ دنیا کی نابکار جائیداد و بیچ کر خود اس کے آگے جاکر رکھوں گا۔ تا کامل فیصلہ ہو جائے۔
اور جھوٹوںکا منہ سیاہ ہو جائے اور خداتعالیٰ نے کئی دفعہ میرے پر ظاہر کیا ہے کہ اس جماعت پرایک ابتلاء آنے والا ہے۔ تا اللہ تعالیٰ دیکھے کہ کون سچا ہے اورکون کچا ہے اور اللہ جلشانہ کی قسم ہے کہ میرے دل میں اپنی جماعت کا انہیں کے فائدہ کے لئے جوش مارتا ہے۔ ورنہ اگر کوئی میرے ساتھ نہ ہوتو مجھے تنہائی میں لذت ہے۔ بے شک فتح ہو گی۔ اگر ہزار ابتلاء درمیان ہو تو آخر ہمیں فتح ہو گی۔ اب ابتلائوں کی نظیر آپ مانگتے ہیں ان کی نظیریں بہت ہیں۔ آپ کو معلوم نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بادشاہ ہونے کا جو وعدہ کیا اور وہ ان کی زندگی میں پورا نہ ہوا۔ تو ستر آدمی مرتد ہو گئے۔ حدیبہ کے قصبہ میں تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے کہ کئی سچے آدمی مرتد ہو گئے۔ وجہ یہ تھی کہ اس پیشگوئی کی کفار مکہ کو خبر ہو گئی تھی اس لئے انہوں نے شہر کے اندر داخل نہ ہونے دیا اور صحابہ پانچ ہزار سے کم نہیں تھے۔ یہ امر کس قد رمعرکہ کا امر تھا۔ مگر خدا تعالیٰ نے صادقتوں کو بچایا۔ مجھے اور میرے خاص دوستوں کو آپ کے اس خط سے اس قدر افسوس ہو ا کہ اندازہ سے زیادہ ہے۔ یہ کلمہ آپ کا کہ مجھے ہلاک کیا کس قدر اس اخلاص سے دور ہے جو آپ سے ظاہر ہوتا رہا۔
ہمارا تو مذہب ہے کہ اگر ایک مرتبہ نہیں کروڑ مرتبہ لوگ پیش گوئی نہ سمجھیں۔ یا اس رات کے طور پر ظاہر ہو تو خداتعالیٰ کے صادق بندوں کا کچھ بھی نقصان نہیں۔ آخر وہ فتح یاب ہو جاتے ہیں۔ میں نے اس فتح کے بارے میں لاہور پانچ ہزار اشتہار چھپوایا ہے اور ایک رسالہ تالیف کیا ہے۔ جس کانام انوارالسلام ہے وہ بھی پانچ ہزار چھپے گا۔ آپ ضرور اشتہار اور رسالہ کو غور سے پڑھیں۔ اگر خداتعالیٰ چاہے تو آپ کو اس سے فائدہ ہوگا۔ ایک ہی وقت میں اور ایک ہی ڈاک میں آپ کا خط اور حضرت مولوی نورالدین صاحب کاخط پہنچا۔ مولوی صاحب کا اس صدق اور ثبات کا خط جس کا پڑھ کر رونا آتا تھا۔ ایسے آدمی ہیں جن کی نسبت میں یقین رکھتا ہوں کہ اس جہاں میں بھی میرے ساتھ ہوں گے اور اس جہاں میں بھی میرے ساتھ ہوں گے۔
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
نوٹ:۔ اس خط پر کوئی تاریخ نہیں اور لفافہ بھی محفوظ نہیں تاہم خط کے مضمون سے ظاہر ہے کہ ستمبر ۱۸۹۴ء کاخط ہے۔ حضرت نواب صاحب نے جس جرات اور دلیری سے اپنے شکوک کو پیش کیا ہے۔ اس سے حضرت نواب صاحب کی ایمانی اور اخلاقی جرات کا پتہ چلتا ہے۔ انہوںنے کسی چیز کو اندھی تقلید کے طور پر ماننا نہیں چاہا۔ جو شبہ پید اہوا اس کو پیش کر دیا۔ خداتعالیٰ نے جو ایمان انہیں دیا ہے۔ وہ قابل رشک ہے۔خداتعالیٰ نے اس کا ا جر انہیں یہ دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نسبت فرزندی کی عزت نصیب ہوتی۔ یہ موقعہ نہیں کہ حضرت نواب صاحب کی قربانیوں کا میں ذکر کروں جو انہوںنے سلسلہ کے لئے کی تھیں۔
بہت ہیں جن کے دل میں شبہات پیدا ہوتے ہیں اور وہ ان کو اخلاقی جرات کی کمی کی وجہ سے اگل نہیں سکتے۔ مگر نواب صاحب کو خداتعالیٰ نے قابل رشک ایمانی قوت اور ایمانی جرات عطا کی ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مرتبہ فرمایا کہ اگر کسی شخص کے دل میں کوئی شبہ پید اہو تو اسے قے کی طرح باہر نکال دینا چاہئے۔ اگر اسے اندر سے رہنے دیا جائے تو بہت برا اثر پیدا کر تا ہے۔ غرض حضرت نواب صاحب کے اس سوال سے جو انہوں نے حضرت اقدس سے کیا۔ ان کے مقام اور مرتبہ پر کوئی مضر اثر نہیں پڑتا بلکہ ان کی شان کو بڑھاتا ہے اور واقعات نے بتا دیا کہ وہ خداتعالیٰ کے فضل اور رحم سے اپنے ایمان میں سے بڑے مقام پر تھے۔ اللم زدفزد۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۸)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی نواب صاحب سلمہ ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
باعث تکلیف وہی یہ ہے کہ چونکہ اس عاجز نے پانچ سو روپیہ آں محب کا قرض دینا ہے۔ مجھے یا د نہیں کہ میعاد میں سے کیا باقی رہ گیاہے اور قرضہ کاایک نازک اور خطرناک معاملہ ہوتا ہے۔ میرا حافظہ اچھا نہیں یاد پڑتا ہے کہ پانچ برس میں ادا کرنے کا وعدہ کیا تھا اور کتنے برس گزر گئے ہوں گے۔ عمر کا کچھ اعتبار نہیں۔ آپ براہ مہربانی اطلاع بخشیں کہ کس قدر میعاد باقی رہ گئی ہے۔ تاحتی الوسع اس کافکر رکھ کر توفیق بار یتعالیٰ میعاد کے اندر اندر اد اہو سکے اور اگر ایک دفعہ نہ ہوسکے تو کئی دفعہ کر کے میعاد کے اندر بھیج دوں۔ امید کہ جلد اس سے م مطلع فرماویں۔ تا میں اس فکر میں لگ جائوں۔ کیونکہ قرضہ بھی دنیا کی بلائوں میں سے ایک سخت بلاہے اور راحت اسی میں ہے کہ اس سے سبکدوشی ہو جائے۔
دوسری بات قابل استفسار یہ ہے کہ مکرمی اخویم مولوی سید محمد احسن صاحب قریباً دو ہفتہ سے قادیان تشریف لائے ہوئے ہیں اور آپ نے جب آپ کا اس عاجز کا تعلق اور حسن ظن تھا۔ بیس روپیہ ماہوار ان کو سلسلہ کی منادی اور واعظ کی غرض سے دنیا مقرر کیا گیاتھا۔ چنانچہ آپ نے کچھ عرصہ ان کودیا امید کہ اس کا ثواب بہرحال آپ کو ہوگا۔ لیکن چند ماہ سے ان کو کچھ نہیں پہنچا۔ اب اگر اس وقت مجھ کو اس بات کے ذکر کرنے سے بھی آپ کے ساتھ دل رکتا ہے۔ مگر چونکہ مولوی صاحب موصوف اس جگہ تشریف رکھتے ہیں۔ اس لئے آپ جو مناسب سمجھیں میرے جواب کے خط میں اس کی نسبت تحریر کردیں۔ حقیقت میں مولوی صاحب نہایت صادق دوست اور عارف حقائق ہیں۔ وہ مدراس اور بنگلور کی طرف دورہ کر کے ہزار ہا آدمیوں کے دلوں سے تکفیر اور تکذیب کے غبار کو دور کر آئے ہیں اور ہزار ہا کو ا س جماعت میں داخل کر آئے ہیں اور نہایت مستفیم اور قوی الایمان اور پہلے سے بھی نہایت ترقی پر ہیں۔
ہماری جماعت اگرچہ غرباء اور ضعفاء کی جماعت ہے۔ لیکن العزیز یہی علماء اور محققین کی جماعت ہے اور انہی کو میں متقی اور خداترس اور عارف حقائق پاتا ہوں اورنیک روحوں اور دلوں کو دن بدن خدا تعالیٰ کھینچ کر اس طرف لاتا ہے۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک۔
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۹؍ دسمبر ۱۸۹۴ء
مکتوب نمبر(۹)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مولوی صاحب کو کل ایک دورہ مرض پھر ہوا۔ بہت دیر تک رہا۔ مالش کرانے سے صورت افاقہ ہوئی۔ مگر بہت ضعف ہے۔ا للہ تعالیٰ شفا بخشے۔
اس جگہ ہماری جماعت کا ایک قافلہ تحقیق السنہ کے لئے بہت جوش سے کام رہا ہے اور یہ اسلام کی صداقت پرایک نئی دلیل ہے۔ جو تیرہ سو برس سے آج تک کسی کی اس طرف توجہ نہیں ہوئی۔ اس مختصر خط میں آپ کو سمجھا نہیںسکتا کہ یہ کس پایہ کا کام ہے۔ اگر آپ کو ایک ماہ تک اس خدمت میں مرزا خدابخش صاحب کوشریک کریں اور وہ قادیان میں رہیں تو میری دانست میں بہت ثواب ہو گا۔ آیندہ جیسا کہ آپ کی مرضی ہو۔ دنیا کے کام نہ تو کسی نے پورے کئے اور نہ کرے گا۔ دنیا دار لوگ نہیں سمجھتے کہ ہم کیوں دنیامیں آئے اور کیوں جائیں گے۔ کون سمجھائے جبکہ خداتعالیٰ نے سمجھایا ہو۔ دنیا کے کام کرنا گناہ نہیں۔ مگر مومن وہ ہے جودرحقیقت دین کو مقدم سمجھے اورجس طرح اس ناچیز اور پلید دنیا کی کامیابیوں کے لئے دن رات سوچتا یہاں تک کہ پلنگ پر لیٹے بھی فکر کرتا ہے اور اس کی ناکامی پر سخت رنج اٹھاتا ہے۔ ایسا ہی دین کی غمخواری میں بھی مشغول رہے۔ دنیا سے دل لگانا بڑا دھوکا ہے۔ موت کاذرا اعتبار نہیں موت ہر ایک سال نئے کرشمے دکھلاتی رہتی ہے۔ دوستوں ک دوستوں سے جد اکرتی اور لڑکوں کو باپوں سے، اور باپوں کو لڑکوں سے علیحدہ کر دیتی ہے۔
مورکھ وہ انسان ہے جو اس ضروری سفر کا کچھ بھی فکر نہیں رکھتا۔ خداتعالیٰ اس شخص کی عمر بڑھا دیتا ہے۔ جو سچ مچ اپنی زندگی کاطریق بدل کر خد ا تعالیٰ ہی کاہو جاتا ہے۔ ورنہ اللہ جلشانہ فرماتاہے۔ قل ما یعباء بکم ربی لوکا دعاء کم
یعنی ان کو کہہ دو کہ خدا تعالیٰ تمہاری پرواہ کیا رکھتا ہے۔ا گر تم اس کی بندگی و اطاعت نہ کرو۔ سو جاگنا چاہئے اور ہوشیار ہو جانا چاہئے اور غلطی نہیں کھانا چاہئے کہ گھر سخت بے بنیاد ہے۔ میں نے اس لئے کہا کہ میں اگر غلطی نہیں کرتا تو مجھے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ان دنوں میں دنیوی غم وہم یں اعتدال سے زیادہ مصروف ہیں اور دوسرا پلہ ترازو کا کچھ خالی سا معلوم ہوتا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ یہ تحریریں آپ کے دل کیا اثر کریں یا کچھ بھی نہ کریں۔ کیونکہ بقول آپ کے وہ عتقادی امر بھی اب درمیان نہیں جو بظاہر پہلے تھے۔ میں نہیں چاہتا کہ ہماری جماعت میں سے کوئی ہلاک ہو۔ بلکہ چاہتا ہوں کہ خود خداتعالیٰ قوت بخشے اور زندہ کرے۔ کاش اگر ملاقات کی سرگرمی بھی آپ کے دل میں باقی رہتی تو کبھی کبھی ملاقات سے کچھ فائدہ ہو جاتا۔ مگر اب یہ امید بھی مشکلات میں پڑ چکی ہے۔ کیونکہ اعتقادی محرک باقی نہیں رہا۔اگر کوئی لاہور وغیرہ کسی انگریز حاکم کا جلسہ ہو جس میں خیالی طور پر داخل ہونا آپ اپنی دنیا کے لئے مفید سمجھتے ہوں تو کوئی دنیا کاکام آپ کو شمولیت سے نہیں روکے گا۔ خداتعالیٰ قوت بخشے۔
بیچارہ نورالدین جو دنیاکو عموماً لات مار کر اس جنگل قادیان میں آبیٹھا ہے بے شک قابل نمونہ ہے۔ بہتری تحریکیں اٹھیں کہ آپ لاہور میں رہیں اور امرتسر میں رہیں۔ دنیاوی فائدہ طباعت کی رو سے بہت ہو گا۔ مگر کسی کی بات انہوں نے قبول نہیں کی۔ میں یقینا سمجھتا ہون کہ انہوں نے سچی توبہ کر کے دین پر مقدم رکھ لیا ہے۔ خد اتعالیٰ ان کو شفاء بخشے اور ہماری جماعت کو توفیق عطا کرے کہ ان کے نمونہ پر چلیں آمین۔ کیا آپ بالفعل اس قدر کام کر سکتے ہیں کہ ایک ماہ کے لئے اور کاموں کو پس انداز کر کے مرزا خد ابخش صاحب کو ایک ماہ کے بھیج دیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۸؍ اپریل ۱۸۹۵ء
نوٹ:۔ آتھم کی پیشگوئی پر حضرت نواب صاحب کو بتلایا تھا اور انہیں کچھ شکوک پید ا ہوئے تھے۔ مگر وہ بھی اخلاص اور نیک نیتی پر منبی تھے۔ وہ ایک امر جوان کی سمجھ میں نہ آوے ماننا نہیں چاہتے تھے اور اسی لئے انہوں نے حضرت اقدس کو ایسے خطوط لکھے ہیں جن سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ گویا کوئی تعلق سلسلہ سے باقی نہ رہے گا۔ مگر خداتعالیٰ نے انہیں ضائع نہیں کیا اپنی معرفت بخشی اور ایمان میں قوت عطا فرمائی۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۱۰)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
عزیزی محبی اخویم خان صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا محبت نامہ پہنچا۔ میں بوجہ علالت طبع کچھ لکھ نہیں سکا۔ کیونکہ دورہ مرض کا ہو گیاتھا اور اب بھی طبیعت ضعیت ہے۔ خداتعالیٰ آپ کو اپنی محبت میں ترقی بخشے اور اپنی اس جادوانی دولت کی طرف کھینچ لیوے جس پر کوئی زوال نہیں آسکتا کبھی کبھی اپنے حالات خیریت آیات سے ضرور اطلاع بخشا کریں کہ خط بھی کسی قدر حصہ ملاقات کا بخشتا ہے۔ مجھے آپ کی طرف سے دلی خیال ہے اور چاہتا ہوں کہ آپ کی روحانی ترقیات بحشپم خود دیکھوں مجھے جس وقت جسمانی قوت میں اعتدال پید اہوا تو آپ کے لئے ہمیشہ توجہ کاشروع کروں گا۔ اللہ تعالیٰ اپنا فضل اور توفیق شامل حال کرے۔ آمین۔
والسلام
غلام احمد عفی عنہ
۱۴؍ دسمبر ۱۸۹۵ء
روز پنجشنبہ
مکتوب نمبر(۱۱)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویمنواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مبلغ دو سو روپیہ کے نصف نوٹ آج کی تاریخ آگئے۔ عمارت کا یہ حال ہے کہ تخمینہ کیا گیاہے کہ نو سو رپیہ تک پہلی منزل جس پر مکان مقصود بنانے کی تجویز ہے ختم ہو گی۔ کل صحیح طورپر تخمینہ کو جانچا گیا ہے۔ اب تک …… روپیہ تک لکڑی اور انیٹ اور چونہ اور مزدوروں کے بارے میں خرچ ہوا ہے۔ معماران کی مزدوری ……سے الگ ہے۔ اس لئے بہتر معلوم ہوتا ہے کہ پہلی منزل کے تیار ہونے کے بعد بالفعل عمارت کو بند کردیا جائے۔ کیونکہ کوئی صورت اس کی تکمیل کی نظر نہیں آتی۔ یہ اخراجات گویا ہرروز پیش آتے ہیں۔ ان کے لئے اوّل سرمایہ ہو تو پھر چل سکتے ہیں۔ شائد اللہ جلشانہ اس کا کوئی بندوبست کر دیوے۔ بالفعل اگر ممکن ہو سکے تو آں محب بجائے پانچ سو روپیہ کے سات سو روپیہ کی امداد فرما دیں۔ دو سو روپیہ کی جو کمی ہے وہ کنویں کے چندہ میں سے پوری کر دی جائے گی اور بالفعل کنواں بنانا موقوف رکھا جائے گا۔ پس اگر سات سو روپیہ آپ کی طرف سے ہو اور دو سو روپیہ کنویں کے اس طرح پر نو سو روپیہ تک منزل انشاء اللہ پوری ہو جائے گی اور کیا تعجب ہے کچھ دنوں کے بعد کوئی اور صاحب پیدا ہو جائیں تو وہ دوسری منزل اپنے خرچ سے بنوا لیں۔ نیچے کی منزل مردانہ رہائش کے لائق نہیں ہے۔ کیونکہ وہ زنانہ مکان سے ملی ہوئی ہے۔ مگر اوپر کی منزل اگر ہوجائے تو عمدہ ہے۔
مکان مردانہ بن جائے جس کی لاگت بھی اسی قدر یعنی نوسو یا ہزار روپیہ ہو گا۔ میں شرمندہ ہوں کہ آپ کو اس وقت میں نے تکلیف دی اور ذاتی طور پر مجھ کو کسی مکان کی حاجت نہیں۔ خیال کیا گیا تھا کہ نیچے کی منزل میں ایسی عورتوں کے لئے مکان تیار ہو گا جو مہمان کے طور پر آئیں اور اوپر کی منزل مردانہ مکان ہو۔ سو اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس خیال کو پورا کر دے گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۴؍ مئی ۱۸۹۷ء
نوٹ:۔ جب یہ مکان بن رہا تھا تو خاکسار عرفانی ان ایام میں یہاں تھا۔ گرمی کو موسم تھا۔ گول کمرے میں دوپہر کا کھانا حضرت کھایا کرتے تھے اور دستر خوان پر گڑنبہ ضرور آیا کرتا تھا۔ حضرت ان ایام میں بھی یہی فرمایا کرتے تھے کہ ذاتی طورپر ہمیں کسی مکان کی ضرورت نہیں۔ مہانوں کو جب تکلیف ہوتی ہے تو تکلیف ہوتی ہے۔ یہ لوگ خدا کے لئے آتے ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ان کے آرام کا فکر کریں۔
خداتعالیٰ نے جیسا کہ اس خط میں آپ نے ظاہر فرمایا تھا ۔ آخر وہ تمام مکانات بنوا دئیے اور وسع مکانک کی پیشگوئی ہمیشہ پوری ہو تی رہتی ہے اور اس کی شان ہمیشہ جد اہوتی ہے۔ مبارک وہ جن کو اس کی تکمیل میں حصہ ملتا ہے۔ ابتدائی ایام میں حضرت نواب صاحب کو سابق ہونے کا اجر ملا۔ جزاہم اللہ احسن الجزا۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۱۲)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخو یم نو اب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آخر مولوی صاحب کی وہ پیاری لڑکی جس کی شدت سے بیماری کی وجہ سے مولوی صاحب آنہ سکے کل نماز عصر سے پہلے اس جہان فانی سے کوچ کر گئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔اس کی والدہ سخت مصیبت میں ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو صبر بخشے۔
والسلام
خاکسار
مرزا اغلام احمد عفی اللہ عنہ
۱۷؍ اپریل ۱۸۹۷ء
نوٹ:۔یہ لڑکی حضرت حکیم الامۃ کی چھوٹی لڑکی ایک سال کی تھی اور اس کی وفات کے متعلق حضرت حکیم الامۃ کو خدا تعالیٰ نے ایک رویا کے ذریعہ پہلے ہی بتا دیا تھا۔ یوں تو حضرت حکیم الامۃ خد اتعالیٰ کی مقادیر سے پہلے ہی مسالمت تامہ رکھتے تھے۔ مگر خداتعالیٰ نے جب قبل از وقت ان کو بتا دیا تھا تو انہیں نہ صرف ایک راحت بخش یقین اور معرفت پید اہوئی۔ بلکہ خدا تعالیٰ کے اس انعام اورفضل پر انہوں نے شکریہ کا اظہار کیا تھا۔ ان ایام میں نواب صاحب نے مولوی صاحب کو بلایا تھا۔ اسی وجہ سے آپ نہیں جا سکے تھے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۱۳)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
افسوس کہ مولوی صاحب اس قدر تکلیف کی حالت میں ہیں کہ اگر اور کوئی سبب بھی نہ ہوتا تب بھی اس لائق نہیں تھے کہ اس شدت گرمی میں سفر کرسکتے۔ ہفتہ میں ایک مرتبہ سخت بیمار ہوجاتے ہیں۔ پیرانہ سالی کے عوارض ہیں اور مولوی صاحب کی بڑی لڑکی سخت بیمار ہے کہتے ہیں اس کو بیماری سل ہو گئی ہے۔ علامات سخت خطرناک ہیں۔ نواسی بھی ابھی بیماری سے صحت یاب نہیںہوئی۔ ان وجوہ کی وجہ سے درحقیقت وہ سخت مجبور ہیں اور جو د وآدمی نکالے گئے تھے۔ یعنی غلام محی الدین اور غلام محمد۔ وہ کسی کی نمامی کی وجہ سے نہیں نکالے گئے۔ بلکہ خود مجھ کو کئی قراین سے معلوم ہوگیا تھاکہ ان کاقادیان میں رہنا خطرناک ہے اور مجھے سرکاری مخبر نے خبر دے دی تھی اور نہایت بد اور گندے حالات بیان کئے اور وہ مستعد ہو ا کہ میں ضلع میں رپورٹ کرتا ہوں۔ کیونکہ اس کے یہ کام سپرد ہے اور چاروں طرف سے ثبوت مل گیا کہ ان لوگوں کے حالات خراب ہیں۔ تب سخت ناچار ہو کر نرمی کے ساتھ ان کو رخصت کر دیا گیا۔ لیکن باوجود اس قدر نرمی کے غلام محی الدین نے قادیان سے نکلتے ہی طرح طرح کے افتراء اور میرے پر بہتان لگانے شروع کر دئیے۔ بٹالہ میں محمد حسین کے پاس گیا اور امرتسر میں غزنویوں کے گروہ میں گیا اور لاہور میں بد گوئی میں صدہا لوگوں میں وعظ کیا۔ چنانچہ ایک اشتہار زٹلی کا آپ کی خدمت میں بھیجتا ہوں ۔ جس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہ شخص کس قسم کا آدمی ہے اور چونکہ سرکاری مخبر بھی ہماری جماعت کے حال لکھتے ہیں۔ اس لئے مناسب نہ تھا کہ ایسا آدمی قادیان میں رکھا جاتا اور دوسرا آدمی اس کا دوست تھا۔
والسلام
خاکسار
مرزاغلام احمد عفی اللہ عنہ
نوٹ:۔ ا س خط پر کوئی تاریخ درج نہیں ہے۔ مگر نفس واقعات مندرجہ خط سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مئی ۱۸۹۸ء کا مکتوب ہے۔ اس میں غلام محی الدین نام جس شخص کا ذکر ہے وہ راہوں ضلع جالندھر کاباشندہ تھا اورخاکی شاہ اس کا عرف تھا۔ وہ عیسائی بھی رہ چکا تھا۔ قادیان میں آکر اور اپنی اس اباحتی زندگی کو جو عیسائیت میں رہ چکا تھا۔یہاں بھی جاری رکھنا چاہا۔ مگر حضرت اقدس تک جب اس کی شکایت پہنچی تو آپ نے اسے نکال دیا۔ اس کے ساتھ جس شخص غلام محمد کاذکر ہے۔ خو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے مکتوب میں اس کے متعلق اس قدر فرمایا ہے کہ وہ اس کادوست تھا۔ دراصل ہم وطنی اور ہم صحبتی نے اسے بھی اس وقت اس بہشت سے نکالا۔ لیکن چونکہ اس میں اخلاص اور سلسلہ کے لئے سچی محبت تھی۔ خدا نے اس کو ضائع نہیں کیا۔ وہ اور اس کاسارا خاندان خد اکے فضل اوررحم سے نہایت مخلص ہے۔ خاکی شاہ جیسا کہ خود حضرت نے لکھ دیا ہے۔ یہاں سے نکل کر اپنی بد باطنی سے عملی اظہار کر دیا۔ آخر وہ خائب خاسر رہ کر مر گیا۔ اب اس کامعاملہ خداتعالیٰ سے ہے۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۱۴)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نوا ب صاحب سلمہ تعالیٰ
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ آپ کی شفاء کے لئے نماز میں اور خارج نماز میں دعا کرتا ہوں۔ خد اتعالیٰ کے فضل و کرم پر امید ہے کہ شفاء عطا فرمائے آمین ثم آمین۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ چیچک خاص طور کے دانے ہوں گے۔ جن میں تبزی نہیں ہوتی ۔ یہ خد ا تعالیٰ کا رحم ہے کہ چیچک کے موذی سم سے بچایا ہے اور چیچک ہو یاخسرہ ہو دونوں طاعون کے قائم مقام ہوتے ہیں۔ یعنی ان کے نکلنے سے طاعون کا مادہ نکل جاتاہے اور اس کے بعد طاعون سے امن رہتا ہے۔ امیدہے کہ آں محب ۵؍ اگست ۱۸۹۸ء سے پہلے مرزا خد ا بخش صاحب کو ادائے شہادت کے لئے روانہ قادیان فرمائیںگے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ
۲۶؍ جولائی ۱۸۹۸ء
مکتوب نمبر(۱۵)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو بکلی عطافرمائے۔ چونکہ ان دنوں بباعث ایام برسات موسم میں ایک ایسا تغیر ہے۔ جو تپ وغیرہ پیدا کرتا ہے۔ا س لئے درحقیقت یہ سفر کے دن نہیں ہیں۔ میں اس سے خوش ہوں کہ اکتوبر کے مہینہ میں آپ تشریف لائیں۔ افسوس کہ مولوی صاحب کے لئے نکاح ثانی کا کچھ بندوبست نہیں ہو سکا۔اگر کوٹلہ میں یہ بندوبست ہو سکے تو بہتر تھا۔ آپ نے سن لیا ہو گا کہ مولوی صاحب کی جوان لڑکی چند خورد سال بچے چھوڑ کر فوت ہو گئی ہے۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمدعفی اللہ عنہ
۴؍ ستمبر ۱۸۹۸ء
مکتوب نمبر(۱۶)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آں محب کے چار خط یکے بعد دیگرے پہنچے۔ آپ کے لئے دعا کرنا تو میںنے ایک لازمی امر ٹھہرا رکھا ہے۔ لیکن بے قرار نہیں ہونا چاہئے کہ کیوں اس کااثر ظاہر نہیں ہوتا۔ دعائوں کے لئے تاثیرات ہیں اور ضرور ظاہر ہوتی ہیں۔ ایک جگہ حضرت ابوالحسن خرقانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تیس برس میں نے بعض دعائیں کیں جن کا کچھ بھی اثر نہ ہوا اور گمان گزرا کہ قبول نہیں ہوئیں۔ آخر تیس برس کے بعد وہ تمام مقاصد میسر آگئے اور معلوم ہوا کہ تمام دعائیں قبول ہو گئیں ہیں۔ جب دیر سے دعا قبول ہوتی ہے تو عمر زیادہ کی جاتی ہے۔
جب جلد کوئی مراد مل جاتی ہے تو کمی عمر کااندیشہ ہے میں اس بات کو درست رکھتا ہوں کہ مطلب کے حصول کی بشارت خدا تعالیٰ کی طرف سے سن لوں۔ لیکن وہ مطلب دیر کے بعد حاصل ہونا موجب طول عمر ہو۔ کیو نکہ طول عمر او ر عمال صالحہ بڑی نعمت ہے۔
آپ نے اپنے گھر کے لوگوں کی نسبت جو لکھا تھا کہ بعض امور میں مجھے رنج پید ا ہوتا ہے۔ سو میں آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ میرا یہ مذہب نہیں ہے۔ میں اس حدیث پر عمل کرنا علامت سعادت سمجھتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اور وہ یہ ہے
خیر کم خیر کم لا ھلہیعنی تم میں سب سے اچھا وہ آدمی ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ اچھا ہو۔ عورتوں کی طبیعت میں خداتعالیٰ نے ا س قدر کجی رکھی ہوئی ہے کہ کچھ تعجب نہیںکہ بعض وقت خدا اور رسول یا اپنے خاوند یا خاوند کے باپ یا مرشد یا ماں یا بہن کو بھی برا کہہ بیٹھیں اور ان کے نیک ارادہ کی مخالفت کریں۔ سو ایسی حالت میں بھی کبھی مناسب رعب کے ساتھ اور کبھی نرمی سے ان کو سمجھا دیں اور ان کی تعلیم میں بہت مشغول رہیں۔ لیکن ان کے ساتھ ہمیشہ نیک سلوک کریں۔
اشتہار رشتہ کے لئے آپ کی شرط موجود نہیں۔ ایم۔ اے صاحب اگرچہ بہت صالح نیک چلن جوان خوش رو جنٹلمین ہر طرح سے لائق نیک چلن بہت سی نیک صفات اپنے اندر رکھتے ہیں۔ مگر افسوس کہ وہ نہ پٹھان ہیں نہ مغل۔ نہ سید نہ قریشی۔ بلکہ اس ملک کے زمینداروں میں سے ہیں۔ غریب خاندان میں سے ہیں۔ میری بیوی کا برادر حقیقی محمد اسمٰعیل اٹھارہ سالہ خاندانی سید ہے ایف۔ اے میں پڑھتا ہے۔ مگر افسوس کہ کوئی آمدنی ان کے پاس نہیں اوّل شائد سلاطین اسلامیہ کی طرف پچیس ہزار کی جاگیر تھی۔ وہ ۱۸۵۷ء میں ضبط ہو گئی اور کچھ تھوڑا ان لوگوں کو ملتا ہے۔ جس میں سے …… ماہوار میر صاحب کی والدہ کو ملتا ہے بس۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر(۱۷)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ الحمدللہ والمنۃ کہ آپ کو اس نے اپنے فضل و کرم سے شفابخشی۔ میں نے آپ کے لئے اب کی دفعہ غم اٹھایا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس جگہ قادیان میں جس بڑی عمر کے آدمی کو جو اسّی برس سے زیادہ کی عمر کاتھا۔ چیچک نکلی وہ جانبر نہ ہو سکا۔ ہمارے ہمسایوں میں دو جوان عورتیں اس مرض سے راہی ملک بقاہوئیں۔ آپ کو اطلاع نہیں دی گئی۔ یہ بیماری اس عمر میں نہایت خطرناک تھی۔ بالخصوص ا ب کی دفعہ یہ چیچک وبائی طرح پر ہوئی ہے۔ اس لئے نہایت اضطراب اور دلی درد سے نماز پنچگانہ میں اور خارج نماز گویا ہر وقت دعا کی گئی ۔ اصل باعث عاقبت خدا کا فضل ہے جو بموجب وعدہ اللہ سے بہت سی امیدیں اس کے فضل کے لئے ہو جاتی ہیں مجھے کثرت مخلصین کی وجہ سے اکثر زمانہ غم میں ہی گزرتا ہے۔ ایک طرف فراغت پاتا ہوں۔ دوسری طرف سے پریشانی لاحق حال ہو جاتی ہے۔ خداتعالیٰ کی بہت سی عنایات کی ضرورت ہے۔ جس کو میں مشاہدہ بھی کرتا ہوں۔ اب یہ غم لگا ہوا ہے کہ چند دفعہ الہامات اور خوابوں سے طاعون کاغلبہ پنجاب میں معلوم ہو اتھا۔ جس کے ساتھ یہ بھی تھا کہ لوگ توبہ توبہ کریں گے اورنیک چلن ہو جائیںگے۔ تو خد اتعالیٰ اس گھر کو بچا لے گا۔ لیکن نیک ہونے کاکام بڑا مشکل ہے اگرچہ بدچلن بدمعاش اور طرح طرح کے جرائم ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اگر پنجاب میں وبائے طاعون یا ہیضہ یا پھوٹا تو بڑی مصیبت ہوگی بہت سے گھروں میں ماتم ہو جائیں گے۔ بہت سے گھر ویران ہو جائیںگے۔ مرزا خد ابخش صاحب پہنچ گئے۔ ان کے گھر بیماری ہے۔ تپ روز چڑھتا ہے اور جگر اور معدہ ضعیف معلوم ہوتا ہے۔ مولوی صاحب کی دوسری لڑکی انہی دنوں سے بیمار ہے۔ جب کہ آپ نے بلایا تھا۔ اب بظاہر ان کی زندگی کی چنداں امید نہیں۔ حواس میں بھی فرق آگیا ہے اورمولوی صاحب بھی ہفتہ میں ایک مرتبہ بیمار ہوجاتے ہیں۔ بعض دفعہ خطرناک بیماری ہوتی ہے میرے دل میں خیال ہے کہ اپنے اور اپنی جماعت کے لئے خاص طو ر پر ایک قبرستان بنایا جائے جس طرح مدینہ میں بنایا گیا تھا۔ بقول شیخ سعدی۔ کہ ہداں رابہ نیکاں بہ بخشد کریم
یہ بھی ایک وسیلہ مغفرت ہوتا ہے۔ جس کو شریعت میں معتبر سمجھا گیاہے۔ اس قبرستان کی فکر میں ہوں کہ کہاں بنایا جائے امید کہ خداتعالیٰ کوئی جگہ میسر کر دے گا او راس کے اردگرد ایک دیوار چاہئے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۶؍اگست ۱۸۹۸ء
مکتوب نمبر(۱۸)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ معہ مبلغ دو سو روپیہ مجھ کو ملا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ہر ایک مرض اور غم سے نجات بخشے۔ آمین ثم آمین۔ خط میں سو روپیہ لکھا ہو اتھا اور حامل خط نے دو سو روپیہ دیا۔ اس کا کچھ سبب معلوم نہ ہوا۔ میں عنقریب دوائی طاعون آپ کی خدمت میں مع مرہم عیسیٰ روانہ کرتاہوں اور جس طورسے یہ دوائی استعمال ہو گی آج اس کااشتہار چھاپنے کی تجویز ہے امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ اشتہار ہمراہ بھیج دوں گا۔ بہتر ہے کہ یہ دوا ابھی سے آپ شروع کر دیں۔ کیونکہ آیندہ موسم بظاہر وہی معلوم ہوتا ہے۔ جو کچھ الہاماً معلوم ہوا تھا۔ وہ خبر بھی اندیشہ ناک ہے۔ میرے نزدیک ان دنوں میں دینا کے غموم و ہموم کچھ مختصر کرنے چاہئیں۔ د ن بہت سخت ہیں جہاں تک ممکن ہوآپ اپنے بھایئوں کو بھی نصیحت کریں اور اگر باز نہ آئیں تو آپ کا فرض ادا ہو جائے گا اور جو گلٹیاں آپ کے نکلی ہیں۔ وہ ماشاء اللہ سنیک دینے اور دوسری تدبیروں سے جو مولوی صاحب تحریر فرمائیں گے اچھی ہو جائی گی۔ ان دنوں التزام نماز ضروری ہے مجھے تو یہ معلوم ہو ا ہے کہ یہ دن دنیا کے لئے بڑی بڑی مصیبتوں اور موت اور دکھ کے دن ہیں۔ اب بہرحال متبہ ہونا چاہئے۔ عمر کا کچھ اعتبار نہیں میں نے خط کے پڑھنے کے بعد آپ کے لئے بہت دعا کی ہے اور امید ہے کہ خد اتعالیٰ قبول فرمائے گا۔ مجھے اس بات کا خیال ہے کہ
اس شور قیامت کے وقت جس کی مجھے الہام الٰہی سے خبر ملی ہے۔ حتی الوسع اپنے عزیز دوست قادیان میں ہوں۔مگر سب بات خداتعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲۱؍ جولائی ۱۸۹۸ء
مکتوب نمبر(۱۹)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبیعزیزی اخویم نواب سردار محمد علی خاں صاحب، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ خداتعالیٰ فرزند نوزاد کومبارک اور عمر دراز کرے آمین ثم آمین۔ میں نے سنا ہے کہ جب کم دنوں میں لڑکا پید اہوتا ہے تو دوسرے تیسرے روز ضرور ایک چمچہ کیسڑائل دے دیتے ہیں اور لڑکے کے بدن پر تیل ملتے رہتے ہیں۔ حافظ حقیقی خود حفاظت فرماوے اور آپ کے لئے مبارک کرے۔ آمین ثم آمین۔ دعا میں آپ کے لئے مشغول ہوں۔ اللہ تعالیٰ قبول فرماوے
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۱۱؍ نومبر ۱۸۹۸ء
مکتوب نمبر(۲۰)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ انشاء اللہ تعالیٰ آپ کی بیوی مرحومہ کے لئے توجہ اور الحاح سے دعائے مغفرت کروں گا۔ اس جگہ موسمی بخار سے گھر میں اور بچوں کو بیماری ہے۔ اللہ تعالیٰ فضل کرے اور مرزا خدابخش صاحب کی بیوی بھی تپ ……اب طاعون بھی ہمارے ملک سے نزدیک آگئی ہے۔ خداتعالیٰ کارحم درکار ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد ازقادیان
مکتوب نمبر(۲۱)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ خسرہ کا نکلنا ایک طرح پر جائے خوشی ہے کہ اس سے طاعون کا مادہ نکلتا ہے اور انشاء اللہ تین سال امن کے ساتھ گزرتے ہیں۔ کیونکہ طبی تحقیق سے خسرہ اور چیچک کا مادہ اور طاعون کا مادہ ایک ہی ہے۔ آپ تین تین چار چار رتی جدوار رگڑ کر کھاتے رہیںکہ اس مادہ اور طاعون کے مادہ کایہ ترق ہے۔ میں ہر وقت نماز میں اورخارج نماز کے آپ کے لئے دعاکرتا ہوں۔ خط پہنچنے پر تردد ہوا۔ اس لئے جلدی مرزا خدا بخش آپ کی خدمت میں پہنچتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جلد شفا بخشے۔ آمین ثم آمین۔
میرے پر عدالت ضلع گورداسپور کی طرف سے تحصیل میں ایک مقدمہ انکم ٹیکس ہے۔ جس میں مولوی حکیم نورالدین صاحب اور چھ سات اور آدمی اور نیز مرزا خدا بخش صاحب میری طرف سے گواہ ہیںامید کہ تاریخ سے تین چار روز پہلے ہی مرزا صاحب کو روانہ قادیان فرماویں اور حالات سے جلد از جلد مطلع فرماتے رہیں۔ خد ا تعالیٰ حافظ ہو۔
(نوٹ:۔ اس خط پر حضرت اپنا نام بھول گئے ہیںاور تاریخ بھی درج نہیں ہوئی۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۲۲)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا عنایت نامہ معہ دوسرے خط کے جو آپ کے گھر کے لوگوں کی طرف سے تھا۔ جس میں صحبت کی نسبت لکھا ہوا تھا پہنچا۔ بعد پڑھنے کے دعا کی گئی۔ اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں ہر ایک بلا سے محفوظ رکھے۔ آمین ثم آمین۔ ہمدست مرزا خدابخش صاحب مبلغ تین سو روپیہ کے نوٹ بھی پہنچ گئے۔ جزاکم اللہ خیرا۔ا ن کے لڑکے کا حال ابھی قابل اطمینان نہیں ہے۔ گو پہلی حالت سے کچھ تخفیف ہے۔ مگر اعتبار کے لائق نہیں۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمدعفی اللہ عنہ
مکتوب نمبر(۲۳)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم (۱۸؍اپریل ۱۸۹۹) نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ا گرچہ آں محبت کی ملاقات پر بہت مدت گزر گئی ہے اور دل چاہتا ہے کہ او ر دوستوں کی طرح آپ بھی تین چارماہ تک میرے پاس رہ سکیں۔ لیکن اس خانہ داری کے صدمہ سے جو آپ کو پہنچ گیا ہے۔ بڑی مشکلات پید اہو گئی ہیں۔ یہ روک کچھ ایسی معلوم نہیں ہوتی کہ ایک دو سال تک بھی دور ہو سکے بلکہ یہ دائمی اور اس وقت تک ہے کہ ہم دنیا سے چلے جائیں۔ غرض سخت مزاحم معلوم ہوتی ہے۔ صرف یہ ایک تدبیر ہے کہ آپ کی طرف سے ایک زنانہ مکان بقدر کفالت قادیان میں تیار ہو اور پھر کبھی کبھی معہ قبائل اور سامان کے اس جگہ آجایا کریں اوردو تین ماہ تک رہا کریں لیکن یہ بھی کسی قدر خرچ کا کام ہے اور پھر ہمت کاکام ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے اسباب پیدا کردے اوراپنی طرف سے ہمت اور توفیق بخشے۔ دنیا گذشتنی و گذاشتتنی ہے وقت آخر کسی کو معلوم نہیں۔ اس لئے دینی سلسلہ کو کامل کرنا ہر ایک کے لئے ضروری ہے۔ دانشمند کے لئے فخر سے شام تک زندگی کی امید نہیں۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے کسی سے یہ عہد نہیں کیا کہ اس مدت تک زندہ رہے گا۔ ماسوا اس کے ہمارے ملک میں طاعون نے ایسے ہی پیرجمائے ہیں کہ دن بدن خطرناک حالت معلوم ہوتی ہے۔ مجھے ایک الہام میں معلوم ہوا تھا کہ اگر لوگوں کے اعمال میں اصلاح نہ ہوئی تو طاعون کسی وقت جلد پھیلے گی اور سخت پھیلے گی۔ ایک گائوں کو خدامحفوظ رکھے گا۔ وہ گائوں پریشانی سے بچایا جائے گا۔ میں اپنی طرف سے گمان کرتاہوں کہ وہ گائوں غالباً قادیان ہے اوربڑا اندیشہ ہے کہ شائد آیندہ سال کے ختم ہونے تک خطرناک صورت پر طاعون پھیل جائے اس لئے میں نے اپنے دوستوں کو یہ بھی صلاح دی تھی کہ وہ مختصر طور پر قادیان میں مکان بنا لیں۔ مگر یہی وقت ہے اور پھر شائد وقت ہاتھ سے جاتارہے۔ سو آں محب بھی ا س بات کو سوچ لیں اور عید کی تقریب پر اکثر احباب قادیان آئیں گے اور بعض دینی مشورے بھی اس دن پر موقوف رکھے گئے ہیں۔ سو اگر آں محب آنہ سکیں جیسا کہ ظاہر ی علامات ہیں تو مناسب ہے کہ ایک ہفتہ کے لئے مرزا خد ابخش صاحب کو بھیج دیں تا ان مشوروں میں شامل ہو جائیں۔ باقی سب خیریت ہے۔ مرزا خدا بخش صاحب کے گھر میں سب خیریت ہے۔
والسلام
راقم مرزا غلام احمد عفی عنہ از قادیان
مکتوب نمبر(۲۴)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم (۲۱؍ نومبر ۱۸۹۸ء) نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کل سے میرے گھر میں بیماری کی شدت بہت ہو گئی ہے او رمرزا خدا بخش صاحب کے گھر میں بھی تپ تیز چڑھتا ہے۔ا سی طرح تمام گھر کے لوگ یہاں تک کہ گھر کے بچے بھی بیمار ہیں۔ اگر مرزاخدابخش صاحب آجائیں تو اپنے گھر کی خبر لیں۔ اس قدر بیماری ہے کہ ایک شخص دوسرے کے حال کا پرساں نہیں ہو سکتا۔ حالات تشویش ناک ہیں۔ خداتعالیٰ فضل کرے امید ہے کہ آپ حسب تحریر میرے استقامت اور استواری سے کام لے کر جلد تر تجویز شادی فرماویں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ