ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
وَ اِذَا ضَرَبۡتُمۡ فِی الۡاَرۡضِ فَلَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ جُنَاحٌ اَنۡ تَقۡصُرُوۡا مِنَ الصَّلٰوۃِ ٭ۖ اِنۡ خِفۡتُمۡ اَنۡ یَّفۡتِنَکُمُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ؕ اِنَّ الۡکٰفِرِیۡنَ کَانُوۡا لَکُمۡ عَدُوًّا مُّبِیۡنًا ﴿۱۰۱﴾ اس سے نماز کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ جنگ کے خطرات میں بھی کوئی مسلمان اسے نظر انداز نہیں کرسکتا۔ سورة بقرہ میں بیان ہوچکا ہے کہ خطرہ ہو تو نماز پیدل چلتے ہوئے یا سواری پر، جس طرح ممکن ہو پڑھ لی جائے۔ یہاں فرمایا ہے کہ حالات کے لحاظ سے اس میں کمی بھی ہوسکتی ہے۔ اصطلاح میں اسے قصر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) نے اس کے لیے یہ سنت قائم کی ہے کہ صرف چار رکعت والی نمازیں دو رکعت پڑھی جائیں گی۔ دو اور تین رکعت والی نمازوں میں کوئی کمی نہ ہوگی۔ چنانچہ فجر اور مغرب کی نمازیں اس طرح کے موقعوں پر بھی پوری پڑھیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فجر پہلے ہی دو رکعت ہے اور مغرب دن کے وتر ہیں، ان کی یہ حیثیت تبدیل نہیں ہوسکتی۔ نماز میں کمی کی یہ رخصت یہاں ’
اِنْ خِفْتُمْ
‘ (اگر تمہیں اندیشہ ہو) کی شرط کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) نے اپنے زمانے کے عام سفروں کی پریشانی، افراتفری اور آپادھاپی کو بھی اس پر قیاس فرمایا اور ان میں بالعموم قصر نماز ہی پڑھی ہے۔ سیدنا عمر کا بیان ہے کہ اس طرح بغیر کسی خطرے کے قصر کرلینے پر مجھے تعجب ہوا۔ چنانچہ میں نے پوچھا تو آپ نے فرمایا : یہ اللہ کی عنایت ہے جو اس نے تم پر کی ہے، سو اللہ کی اس عنایت کو قبول کرو۔ نماز میں تخفیف کی اس اجازت سے رسول اللہ (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) نے اس کے اوقات میں تخفیف کا استنباط بھی کیا ہے اور اس طرح کے سفروں میں ظہر و عصر، اور مغرب اور عشا کی نمازیں جمع کر کے پڑھائی ہیں۔ یہی معاملہ حج کا ہے۔ اس میں چونکہ شیطان کے خلاف جنگ کو علامتوں کی زبان میں ممثل کیا جاتا ہے، اس لیے تمثیل کے تقاضے سے آپ نے یہ سنت قائم فرمائی ہے کہ لوگ مقیم ہوں یا مسافر، وہ منیٰ میں قصر اور مزدلفہ اور عرفات میں جمع اور قصر، دونوں کریں گے۔ مسلم، رقم ٦٨٦۔ ابوداؤد، رقم ١٢٢٠۔
وَ اِذَا کُنۡتَ فِیۡہِمۡ فَاَقَمۡتَ لَہُمُ الصَّلٰوۃَ فَلۡتَقُمۡ طَآئِفَۃٌ مِّنۡہُمۡ مَّعَکَ وَ لۡیَاۡخُذُوۡۤا اَسۡلِحَتَہُمۡ ۟ فَاِذَا سَجَدُوۡا فَلۡیَکُوۡنُوۡا مِنۡ وَّرَآئِکُمۡ ۪ وَ لۡتَاۡتِ طَآئِفَۃٌ اُخۡرٰی لَمۡ یُصَلُّوۡا فَلۡیُصَلُّوۡا مَعَکَ وَ لۡیَاۡخُذُوۡا حِذۡرَہُمۡ وَ اَسۡلِحَتَہُمۡ ۚ وَدَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَوۡ تَغۡفُلُوۡنَ عَنۡ اَسۡلِحَتِکُمۡ وَ اَمۡتِعَتِکُمۡ فَیَمِیۡلُوۡنَ عَلَیۡکُمۡ مَّیۡلَۃً وَّاحِدَۃً ؕ وَ لَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ اِنۡ کَانَ بِکُمۡ اَذًی مِّنۡ مَّطَرٍ اَوۡ کُنۡتُمۡ مَّرۡضٰۤی اَنۡ تَضَعُوۡۤا اَسۡلِحَتَکُمۡ ۚ وَ خُذُوۡا حِذۡرَکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ اَعَدَّ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابًا مُّہِیۡنًا ﴿۱۰۲﴾ یہ ایک مشکل کا حل ہے۔ نبی (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) کے حین حیات اگر خطرے کے موقعوں پر نماز کی جماعت کھڑی کی جائے اور حضور امامت کرائیں تو کوئی مسلمان اس جماعت کی شرکت سے محروم رہنے پر راضی نہیں ہوسکتا تھا۔ ہر سپاہی کی یہ آرزو ہوتی کہ وہ آپ ہی کی اقتدا میں نماز ادا کرے۔ یہ آرزو ایک فطری آرزو تھی، لیکن اس کے ساتھ دفاع کا اہتمام بھی ضروری تھا۔ اس مشکل کا ایک حل تو یہ تھا کہ رسول اللہ (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
خود چار رکعتیں پڑھتے اور اہل لشکر دو حصوں میں تقسیم ہو کردو دو رکعتوں میں آپ کے ساتھ شامل ہوجاتے۔ بعض موقعوں پر یہ طریقہ اختیار کیا بھی گیا، لیکن رسول اللہ (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) کے لیے اس میں جو زحمت ہوسکتی تھی، اس کے پیش نظر قرآن نے ان آیتوں میں یہ تدبیر بتائی کہ امام اور مقتدی، دونوں قصر نماز ہی پڑھیں اور لشکر کے دونوں حصے یکے بعد دیگرے آپ کے ساتھ آدھی نماز میں شامل ہوں اور آدھی نماز اپنے طور پر ادا کرلیں۔ چنانچہ ایک حصہ پہلی رکعت کے سجدوں کے بعد پیچھے ہٹ کر حفاظت و نگرانی کا کام سنبھالے اور دوسرا حصہ، جس نے نماز نہیں پڑھی ہے، آپ کے پیچھے آکر دوسری رکعت میں شامل ہوجائے۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حکم کی رو سے لشکر کو جو رکعت اپنے طور پر ادا کرنا تھی، اس کے لیے حالات کے لحاظ سے مختلف طریقے اختیار کیے گئے۔ ایسا بھی ہوا کہ رسول اللہ (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
نے توقف فرمایا اور لوگ نماز پوری کر کے پیچھے ہٹے اور ایسا بھی ہوا کہ انھوں نے بعد میں نماز پوری کرلی۔ اس کی تفصیلات بیان کرنے کی ضرورت اب باقی نہیں رہی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس تدبیر کا تعلق، جیسا کہ آیت میں ’
وَاِذَا کُنْتَ فِیْہِمْ
‘ (اور جب تم ان کے درمیان ہو) کے الفاظ سے واضح ہے، خاص نبی (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) کی موجودگی سے تھا۔ آپ کے بعد کسی ایک ہی امام کی اقتدا کی خواہش نہ اتنی شدید ہوسکتی ہے اور نہ اس کی اتنی اہمیت ہے۔ قیام جماعت کا موقع ہو تو لوگ اب الگ الگ اماموں کی اقتدا میں نہایت آسانی کے ساتھ نماز ادا کرسکتے ہیں۔ بخاری، رقم ٣٩٠٠۔ مسلم، رقم ٨٤٢۔
فَاِذَا قَضَیۡتُمُ الصَّلٰوۃَ فَاذۡکُرُوا اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوۡدًا وَّ عَلٰی جُنُوۡبِکُمۡ ۚ فَاِذَا اطۡمَاۡنَنۡتُمۡ فَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ ۚ اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتۡ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ کِتٰبًا مَّوۡقُوۡتًا ﴿۱۰۳﴾ نماز کی اصل حقیقت ذکر الٰہی ہے اور دین کی روح اس ذکر کا دوام ہے۔ قصر کی اجازت سے اس میں جو کسر ہوئی تھی، یہ اس کے جبر کی ہدایت فرمائی ہے کہ میدان جنگ میں اور خطرے کے موقعوں پر بالخصوص اس کا اہتمام کیا جائے، اس لیے کہ تمام عزم و حوصلہ کا منبع درحقیقت اللہ تعالیٰ کی یاد ہی ہے۔ نماز کے اوقات میں تخفیف کی طرف یہ قرآن نے خود اشارہ کردیا ہے۔ آیت میں ’
اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًا
‘ کے الفاظ عربیت کی رو سے تقاضا کرتے ہیں کہ ان سے پہلے ’ اور وقت کی پابندی کرو ‘ یا اس طرح کا کوئی جملہ مقدر سمجھا جائے۔ اس سے یہ بات آپ سے آپ واضح ہوئی کہ قصر کی اجازت کے بعد یہ بھی ممکن ہے کہ لوگ نماز کی رکعتوں کے ساتھ اس کے اوقات میں بھی کمی کرلیں۔ چنانچہ ہدایت کی گئی کہ جب اطمینان میں ہوجاؤ تو پوری نماز پڑھو اور اس کے لیے جو اوقات مقرر ہیں، ان کی پابندی کرو، اس لیے کہ نماز مسلمانوں پر وقت کی پابندی کے ساتھ فرض کی گئی ہے۔
وَ لَا تَہِنُوۡا فِی ابۡتِغَآءِ الۡقَوۡمِ ؕ اِنۡ تَکُوۡنُوۡا تَاۡلَمُوۡنَ فَاِنَّہُمۡ یَاۡلَمُوۡنَ کَمَا تَاۡلَمُوۡنَ ۚ وَ تَرۡجُوۡنَ مِنَ اللّٰہِ مَا لَا یَرۡجُوۡنَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا ﴿۱۰۴﴾٪ اصل میں لفظ ’
الْقَوْم
‘ آیا ہے۔ یہ جب اس طرح کے سیاق میں آتا ہے تو اس سے مراد دشمن اور حریف ہوتا ہے۔ اس کی مثالیں قرآن مجید اور کلام عرب، دونوں میں موجود ہیں۔ لہٰذا مطمئن رہو۔ تمہیں جو تکلیف بھی پہنچتی ہے تمہاری مصلحت کے لیے پہنچتی ہے اور خدا کے اسی علم و حکمت کا تقاضا ہوتی ہے۔
اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ لِتَحۡکُمَ بَیۡنَ النَّاسِ بِمَاۤ اَرٰىکَ اللّٰہُ ؕ وَ لَا تَکُنۡ لِّلۡخَآئِنِیۡنَ خَصِیۡمًا ﴿۱۰۵﴾ۙ یعنی اس طرح بتایا ہے کہ گویا بچشم سر دکھا دیا ہے۔
وَّ اسۡتَغۡفِرِ اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿۱۰۶﴾ۚ اِن آیتوں میں خطاب اگرچہ بظاہر نبی (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
سے ہے، لیکن عتاب کا رخ انھی مسلمانوں کی طرف ہے جو منافقین کی حمایت کر رہے تھے۔ آگے ’
ہٰٓاَنْتُمْ ہٰٓؤُلَآءِ جٰدَلْتُمْ عَنْہُمْ
‘ کے الفاظ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے۔ یہ اسلوب اس وقت اختیار کیا جاتا ہے، جب ان لوگوں سے ایک قسم کی بےالتفاتی اور بےپروائی کا اظہار کیا جاتا ہے جن کو سرزنش مقصود ہوتی ہے۔
وَ لَا تُجَادِلۡ عَنِ الَّذِیۡنَ یَخۡتَانُوۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ خَوَّانًا اَثِیۡمًا ﴿۱۰۷﴾ۚۙ اصل میں لفظ ’
مُجَادَلَۃ
‘ آیا ہے۔ اس کے معنی جھگڑنے کے بھی ہیں اور الحاح و اصرار کے ساتھ کسی کی وکالت کرنے اور تدلل کے ساتھ شکوہ اور شکایت کرنے کے بھی۔ یہاں یہ اسی دوسرے مفہوم میں ہے۔
ہٰۤاَنۡتُمۡ ہٰۤؤُلَآءِ جٰدَلۡتُمۡ عَنۡہُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۟ فَمَنۡ یُّجَادِلُ اللّٰہَ عَنۡہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ اَمۡ مَّنۡ یَّکُوۡنُ عَلَیۡہِمۡ وَکِیۡلًا ﴿۱۰۹﴾ اصل میں لفظ ’
وَکِیْل
‘ آیا ہے۔ اس کے ساتھ ’
عَلٰی
‘ کا صلہ ہو تو عربی زبان میں یہ جس طرح نگران اور ضامن کے معنی میں آتا ہے، اسی طرح ذمہ دار اور مسؤل کے معنی میں بھی آتا ہے۔ آیت میں ان لوگوں کو تنبیہ فرمائی ہے جو اپنے ذاتی تعلقات کی بنا پر منافقین کی حمایت کرتے اور ان کی صریح غلطیوں کے باوجود ان کو بری قرار دینے کے لیے کوئی نہ کوئی عذر تلاش کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ آیت ١١٥ تک یہ پورا سلسلہ بیان انھی لوگوں کے جواب میں ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس پر تبصرہ فرمایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :” میں جب یہ آیتیں پڑھتا ہوں تو میرا ذہن باربار اس طرف جاتا ہے کہ یہ ان لوگوں کو جواب دیا گیا ہے جو ان منافقین کی حمایت میں رسول اللہ (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) اور مومنین مخلصین سے بحثیں اور مناظرے کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ان منافقین کی ان خفیہ مجلسوں اور درپردہ سازشوں کی اطلاعات جب حضور کو اور صحابہ کو پہنچتی رہی ہوں گی تو ان پر کسی نہ کسی نوعیت سے گرفت بھی ہوتی رہی ہوگی۔ اس وقت ان کے یہ حمایتی، جن کا اوپر ذکر ہوا، ان کی صفائی میں کہتے رہے ہوں گے کہ یہ لوگ تو بڑے مخلص ہیں، یہ تو ملت کے بڑے ہوا خواہ ہیں، ان کی مجلسوں میں جو باتیں ہوتی ہیں وہ اسلام اور مسلمانوں کی بہبود اور خیرخواہی کی ہوتی ہیں۔ اور اگر اس ذیل میں کوئی ایسی بات گرفت میں آتی رہی ہوگی جس کا جواب نہ بن آتا ہوگا تو اس کا الزام، جیسا کہ اوپر اشارہ گزرا، کسی ایسے بھلے مانس پر ٹھونک دیتے رہے ہوں گے جس کے حاشیہ خیال میں بھی وہ بات کبھی نہیں آئی ہوگی۔ ان لوگوں کی اس وکالت کے جواب میں قرآن نے نہایت بلیغ طریقے سے ان اندرون خانہ سرگوشیوں سے پردہ اٹھایا اور دیکھیے کتنی خوب صورتی سے پردہ اٹھایا ہے کہ ساری بات بھی سامنے آگئی اور مخاطب کے لیے کسی بحث و تردید کی گنجایش بھی باقی نہیں رہی۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٣٨٣)
وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ سُوۡٓءًا اَوۡ یَظۡلِمۡ نَفۡسَہٗ ثُمَّ یَسۡتَغۡفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿۱۱۰﴾ یعنی خدا کی گرفت سے بچنے کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ مجرموں کی حمایت میں دوسرے لوگ ان کے پشت پناہ بن کر کھڑے ہوجائیں، بلکہ یہ ہے کہ خود مجرم اللہ کی طرف متوجہ ہو، اپنے گناہ کا اعتراف کرے اور اس سے مغفرت چاہے۔
وَ مَنۡ یَّکۡسِبۡ اِثۡمًا فَاِنَّمَا یَکۡسِبُہٗ عَلٰی نَفۡسِہٖ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا ﴿۱۱۱﴾ اس لیے وہ اس بات کو کس طرح روا رکھ سکتا ہے کہ ایک کا بوجھ دوسرے پر ڈال دے۔