وحید احمد
رکن ختم نبوت فورم
پیشگوئی نمبر۱۳ :
سر الخلافت صفحہ ۶۲ پر مخالفوں پر طاعون پڑنے کے لیے دعا کی سو طاعون پھیل گئی۔ (۹۷۳)
الجواب:
سرا لخلافت صفحہ ۶۲ پر طاعون کا ذکر نہیں صرف رجز کا لفظ ہے(۹۷۴) اور رجز کے خود مرزا صاحب نے کئی ایک معنے کئے ہیں منجملہ ان کے ایک معنی از روئے لغت عرب یہ کئے ہیں کہ:
'' رجز لغت عرب میں ان کاموں کو کہتے ہیں جن کا نتیجہ عذاب ہو۔'' (۹۷۵)
گویا مرزا صاحب کے مخالف نیک اور پاک تھے اور باوجود مرزا کو کاذب دجال کہنے کے بھی مستحق عذاب نہیں تھے۔ تب مرزا نے بقول شما، سرالخلافت میں بد دعا کی کہ خدایا ان پر رجز نازل کر یعنی انہیں بد اعمالیوں میں گرفتار کر جن کی وجہ سے وہ لائق عذاب ہو جائیں۔
ناظرین کرام! غور فرمائیں کہ جب لوگ مرزا کو کافر وغیرہ کہتے ہیں اور طرح طرح کی شوخی و تکذیب کے ہوتے ہوئے مستحق عذاب نہیں تھے تو پھر انہیں قابلِ عذاب ٹھہرانے کو مرزا کی دعا کیا اثر رکھ سکتی ہے کیا کافروں کی دعائیں ان کی نبوت کی دلیل ہوتی ہیں؟ وَمَا دُعَأُ الْکٰفِریْنَ اِلاَّ فِی ضَلٰلٍ ۔(۹۷۶)
دنیا جب سے شروع ہوئی ہے تب سے ہی حسب موسم و وقت و حسبِ اعمال لوگوں کے ان پر دبائیں (طاعون، ہیضہ، ملیریا وغیرہ) وارد و نازل ہوتی رہی اب رجز کے معنے محض طاعون بیان کرنا بھی کیا دلیل ہے کہ اس بد دعا مرزا کے آٹھ سال بعد جو ملک پنجاب میں طاعون پھوٹی تھی وہ مرزا کی کرامت ہے۔ کیا دنیا میں طاعون اس سے پہلے نہیں آئی تھی یا مرزا کے مرنے کے بعد آج تک کبھی نہیں آئی یا آئندہ نہیں آئے گی؟ ہاں اگر یہ طاعون مرزا کی بد دعا کا اثر تھا اور یہ محض مخالفین کے لیے عذاب تھا جیسا کہ مرزا بھی کہتا ہے:
'' طاعون کا عذاب ظالموں اور فاسقوں کے لیے ہے۔'' (۹۷۷)
تو پھر مرزا کے ماننے والے کیوں اس میں گرفتار ہولیے؟ مزے کی بات ہے، بقول مرزائیوں کے مرزا نے مخالفین کے لیے طاعون کی دعا کی، مگر جب وہ آئی اور اس نے بھوکے شیر کی طرح مرزائیوں کو کھانا شروع کیا تو مرزا صاحب لگے چیخنے چلانے کہ:
'' میں دعا مانگتا ہوں کہ خدا ہماری جماعت سے اس طاعون کو اٹھا لے۔'' (۹۷۸)
مختصر یہ کہ کروڑہا مخالفین پر بد دعا کرنا وہ بھی کسی مخصوص مرض سے نہیں ذو معنی لفظ رجز سے اور ساتھ ہی '' یا کسی دوسری موت سے ہلاک کر یا کوئی اور مؤاخذہ کر ''(۹۷۹)کے سے وسیع الفاظ میں پیش کرنا کوئی دلیل نہیں بقول حکیم نور الدین خلیفہ اول:
'' کال اور زلزلے اور وبا کا واقع ہونا نیچر کی ایسی عادات میں سے ہے کہ اس کی نسبت کسی ایک بلا کا بلا تعین وقت اور گول مول پیشگوئی کرنا کبھی غلط نہیں جانا جاسکتا۔'' (۹۸۰)
اسی طرح مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ:
'' پس اس نادان اسرائیلی (حضرت مسیح علیہ السلام معاذ اللہ۔ ناقل) کی پیشگوئیاں ہی کیا تھیں ، یہی کہ زلزلے آئیں گے قحط پڑیں گے لڑائیاں ہونگی۔ کیا ہمیشہ زلزلے نہیں آتے؟ کیا ہمیشہ قحط نہیں پڑتے؟ کیا کہیں نہ کہیں لڑائی کا سلسلہ شروع نہیں رہتا؟'' (۹۸۱)
مرزائیو! کیا ہم انہی الفاظ کو الٹ کر کہہ سکتے ہیں کہ اس مرزا قادیانی کی بد دعائیں کیا تھیں؟ یہی کہ گول مول اور ذو معنی الفاظ میں وباؤں کی ڈینگ مارنا اور بلا تعین وقت زلازل کی پیشگوئیاں جڑنا وہ بھی اس رنگ میں کہ '' مجھے معلوم نہیں کہ زلزلہ کے کیا معنی ہیں؟'' (۹۸۲)
ہاں ہمارا دعویٰ ہے کہ مرزا صاحب نے جب اس بلا تعین وقت اجمال کو چھوڑ کر طاعون کے لیے مدت لگائی تو وہ سراسر جھوٹی اور شیطانی ثابت ہوئی۔ چنانچہ ۶؍ فروری ۱۸۹۸ء کو جب مرزا صاحب نے پیشگوئی کی کہ:
'' میں نے خواب میں طاعون کے درخت دیکھے ہیں مجھ پر یہ مشتبہ رہا کہ یہ آئندہ جاڑے میں بہت پھیلے گی یا اس کے بعد کے جاڑے میں۔'' (۹۸۳)
'' ابھی ہم خطرات کی حدود سے باہر نہیں آئے جب تک دو جاڑے کے موسم نہ گزر جائیں۔'' (۹۸۴)
تو یہ پیشگوئی صریح غلط نکلی کیونکہ طاعون کا زور ان ہر دو جاڑوں میں نہیں ہوا۔ بلکہ ۱۹۰۲ء میں ہوا۔ ملاحظہ ہو تحریر ذیل مرزا صاحب خود لکھتے ہیں:
'' چار سال ہوئے کہ میں نے پیشگوئی شائع کی تھی کہ پنجاب میں سخت طاعون آنے والی ہے۔ جس کا نتیجہ طاعون کی یہ حالت ہے جواب دیکھ رہے ہو۔'' (۹۸۵)
---------------------------------------------------------------------------
(۹۷۳) احمدیہ پاکٹ بک ص۶۱۸
(۹۷۴) سر الخلافت ص۶۲ و روحانی ص۳۹۱، ج۸
(۹۷۵) ایام الصلح ص۹۳ و روحانی ص۳۳۰، ج۱۴
(۹۷۶) پ۱۳ الرعد آیت نمبر ۱۵
(۹۷۷) الحکم جلد ۶ نمبر ۱۹ مورخہ ۲۴؍ مئی ۱۹۰۲ء ص۷ و ملفوظات مرزا ص۱۴۱، ج۲ مفہوم
(۹۷۸) بدر جلد ۷ نمبر ۳ مورخہ ۴؍ مئی ۱۹۰۵ء ص۲ والحکم جلد ۹ نمبر ۱۵ مورخہ ۳۰؍ اپریل ۱۹۰۵ء و ملفوظات مرزا ص۲۷۲ ج۴، فرمودہ ۲۸؍ اپریل ۱۹۰۵ء
(۹۷۹) نزول المسیح ص۱۵۶ و روحانی ص۵۳۴ ج ۱۸ ، نوٹ: مرزا نے نزول المسیح میں سِر الخلافت کے صفحہ ۶۲ سے اپنی منظوم عربی دعاء نقل کی ہے کہ '' ونزل علیہ الرجز حقًا ودمر'' اور پھر اس کا حسب ذیل ترجمہ کیا ہے کہ :
'' مفسدوں پر طاعون نازل کر'' ظاہر ہے کہ یہاں مرزا نے الرجز کا معنیٰ طاعون کیا ہے جو کہ صریحاً تصرف فی اللغت اور دروغ گوئی ہے مرزا کی عبارت ایام الصلح کے علاوہ لغت عرب گواہ ہے کہ رجز کا معنیٰ طاعون نہیں ہوتا، چنانچہ منجد، میں ہے الرجز القذر العذاب، ص۴۷۶ ۔ علامہ ابن منظور فرماتے ہیں کہ وھو العمل الذی یؤدی الی العذاب ، لسان العرب ص۳۵۲، ج۵ یعنی رجز اس عمل کو کہتے ہیں جو عذاب کی طرف لے جائے۔ مرزا محمود لکھتا ہے کہ '' الرجز کے معنیٰ ہیں القذر، گند، عبادۃ الاوثان، بتوں کی عبادت، العذاب، عذاب، الشرک، شرک، (اقرب) رجز کے اصل لغوی معنیٰ اضطراب اور پے در پے حرکت کرنے کے ہیں۔ چنانچہ اسی بناء پر رجز کے معنیٰ زلزلہ کی قسم کے عذاب کے بھی کیے جاتے ہیں اور شرک اور بتوں کی عبادت کے معنیٰ رجز کے اس اعتبار سے ہیں کہ جو ایسا فعل کرتا ہے اس کے اعتقاد میں ایک قسم کا اضطراب ہوتا ہے، تفسیر کبیر ص۴۶۹ ج۱، تقریباً یہی معنیٰ مولوی محمد علی لاہوری نے اپنی تفسیر، بیان القرآن ص۱۹۰۳، ج۳ میں بحوالہ لسان العرب کیے ہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ رجز کا معنیٰ طاعون کرنا غلط بیانی ہے، ابو صہیب
(۹۸۰) فصل الخطاب لمقدمۃ اھل الکتاب ص۴۲۵، ج۲
(۹۸۱) ضمیمہ انجام آتھم ص۲ و روحانی ص۲۸۸، ج۱۱
(۹۸۲) ضمیمہ براہین احمدیہ ص۹۱، ج۵ و روحانی ص۲۵۲، ج۲۱
(۹۸۳) اشتہار مرزا مورخہ ۶؍ فروری ۱۸۹۸ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات ص۵، ج۳ وایام الصلح ص۱۲۱ و روحانی ص۳۶۱، ج۱۴ و تذکرہ ص۳۱۴
(۹۸۴) ایام الصلح ص۱۰۲ و روحانی ص۳۳۹، ج۱۴
(۹۸۵) دافع البلا ص۴ و روحانی ص۲۲۵، ج۱۸ ، تحریر مرزا، ۲۱؍ اپریل ۱۹۰۲ء و طبعہ اپریل ۱۹۰۲ء
سر الخلافت صفحہ ۶۲ پر مخالفوں پر طاعون پڑنے کے لیے دعا کی سو طاعون پھیل گئی۔ (۹۷۳)
الجواب:
سرا لخلافت صفحہ ۶۲ پر طاعون کا ذکر نہیں صرف رجز کا لفظ ہے(۹۷۴) اور رجز کے خود مرزا صاحب نے کئی ایک معنے کئے ہیں منجملہ ان کے ایک معنی از روئے لغت عرب یہ کئے ہیں کہ:
'' رجز لغت عرب میں ان کاموں کو کہتے ہیں جن کا نتیجہ عذاب ہو۔'' (۹۷۵)
گویا مرزا صاحب کے مخالف نیک اور پاک تھے اور باوجود مرزا کو کاذب دجال کہنے کے بھی مستحق عذاب نہیں تھے۔ تب مرزا نے بقول شما، سرالخلافت میں بد دعا کی کہ خدایا ان پر رجز نازل کر یعنی انہیں بد اعمالیوں میں گرفتار کر جن کی وجہ سے وہ لائق عذاب ہو جائیں۔
ناظرین کرام! غور فرمائیں کہ جب لوگ مرزا کو کافر وغیرہ کہتے ہیں اور طرح طرح کی شوخی و تکذیب کے ہوتے ہوئے مستحق عذاب نہیں تھے تو پھر انہیں قابلِ عذاب ٹھہرانے کو مرزا کی دعا کیا اثر رکھ سکتی ہے کیا کافروں کی دعائیں ان کی نبوت کی دلیل ہوتی ہیں؟ وَمَا دُعَأُ الْکٰفِریْنَ اِلاَّ فِی ضَلٰلٍ ۔(۹۷۶)
دنیا جب سے شروع ہوئی ہے تب سے ہی حسب موسم و وقت و حسبِ اعمال لوگوں کے ان پر دبائیں (طاعون، ہیضہ، ملیریا وغیرہ) وارد و نازل ہوتی رہی اب رجز کے معنے محض طاعون بیان کرنا بھی کیا دلیل ہے کہ اس بد دعا مرزا کے آٹھ سال بعد جو ملک پنجاب میں طاعون پھوٹی تھی وہ مرزا کی کرامت ہے۔ کیا دنیا میں طاعون اس سے پہلے نہیں آئی تھی یا مرزا کے مرنے کے بعد آج تک کبھی نہیں آئی یا آئندہ نہیں آئے گی؟ ہاں اگر یہ طاعون مرزا کی بد دعا کا اثر تھا اور یہ محض مخالفین کے لیے عذاب تھا جیسا کہ مرزا بھی کہتا ہے:
'' طاعون کا عذاب ظالموں اور فاسقوں کے لیے ہے۔'' (۹۷۷)
تو پھر مرزا کے ماننے والے کیوں اس میں گرفتار ہولیے؟ مزے کی بات ہے، بقول مرزائیوں کے مرزا نے مخالفین کے لیے طاعون کی دعا کی، مگر جب وہ آئی اور اس نے بھوکے شیر کی طرح مرزائیوں کو کھانا شروع کیا تو مرزا صاحب لگے چیخنے چلانے کہ:
'' میں دعا مانگتا ہوں کہ خدا ہماری جماعت سے اس طاعون کو اٹھا لے۔'' (۹۷۸)
مختصر یہ کہ کروڑہا مخالفین پر بد دعا کرنا وہ بھی کسی مخصوص مرض سے نہیں ذو معنی لفظ رجز سے اور ساتھ ہی '' یا کسی دوسری موت سے ہلاک کر یا کوئی اور مؤاخذہ کر ''(۹۷۹)کے سے وسیع الفاظ میں پیش کرنا کوئی دلیل نہیں بقول حکیم نور الدین خلیفہ اول:
'' کال اور زلزلے اور وبا کا واقع ہونا نیچر کی ایسی عادات میں سے ہے کہ اس کی نسبت کسی ایک بلا کا بلا تعین وقت اور گول مول پیشگوئی کرنا کبھی غلط نہیں جانا جاسکتا۔'' (۹۸۰)
اسی طرح مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ:
'' پس اس نادان اسرائیلی (حضرت مسیح علیہ السلام معاذ اللہ۔ ناقل) کی پیشگوئیاں ہی کیا تھیں ، یہی کہ زلزلے آئیں گے قحط پڑیں گے لڑائیاں ہونگی۔ کیا ہمیشہ زلزلے نہیں آتے؟ کیا ہمیشہ قحط نہیں پڑتے؟ کیا کہیں نہ کہیں لڑائی کا سلسلہ شروع نہیں رہتا؟'' (۹۸۱)
مرزائیو! کیا ہم انہی الفاظ کو الٹ کر کہہ سکتے ہیں کہ اس مرزا قادیانی کی بد دعائیں کیا تھیں؟ یہی کہ گول مول اور ذو معنی الفاظ میں وباؤں کی ڈینگ مارنا اور بلا تعین وقت زلازل کی پیشگوئیاں جڑنا وہ بھی اس رنگ میں کہ '' مجھے معلوم نہیں کہ زلزلہ کے کیا معنی ہیں؟'' (۹۸۲)
ہاں ہمارا دعویٰ ہے کہ مرزا صاحب نے جب اس بلا تعین وقت اجمال کو چھوڑ کر طاعون کے لیے مدت لگائی تو وہ سراسر جھوٹی اور شیطانی ثابت ہوئی۔ چنانچہ ۶؍ فروری ۱۸۹۸ء کو جب مرزا صاحب نے پیشگوئی کی کہ:
'' میں نے خواب میں طاعون کے درخت دیکھے ہیں مجھ پر یہ مشتبہ رہا کہ یہ آئندہ جاڑے میں بہت پھیلے گی یا اس کے بعد کے جاڑے میں۔'' (۹۸۳)
'' ابھی ہم خطرات کی حدود سے باہر نہیں آئے جب تک دو جاڑے کے موسم نہ گزر جائیں۔'' (۹۸۴)
تو یہ پیشگوئی صریح غلط نکلی کیونکہ طاعون کا زور ان ہر دو جاڑوں میں نہیں ہوا۔ بلکہ ۱۹۰۲ء میں ہوا۔ ملاحظہ ہو تحریر ذیل مرزا صاحب خود لکھتے ہیں:
'' چار سال ہوئے کہ میں نے پیشگوئی شائع کی تھی کہ پنجاب میں سخت طاعون آنے والی ہے۔ جس کا نتیجہ طاعون کی یہ حالت ہے جواب دیکھ رہے ہو۔'' (۹۸۵)
---------------------------------------------------------------------------
(۹۷۳) احمدیہ پاکٹ بک ص۶۱۸
(۹۷۴) سر الخلافت ص۶۲ و روحانی ص۳۹۱، ج۸
(۹۷۵) ایام الصلح ص۹۳ و روحانی ص۳۳۰، ج۱۴
(۹۷۶) پ۱۳ الرعد آیت نمبر ۱۵
(۹۷۷) الحکم جلد ۶ نمبر ۱۹ مورخہ ۲۴؍ مئی ۱۹۰۲ء ص۷ و ملفوظات مرزا ص۱۴۱، ج۲ مفہوم
(۹۷۸) بدر جلد ۷ نمبر ۳ مورخہ ۴؍ مئی ۱۹۰۵ء ص۲ والحکم جلد ۹ نمبر ۱۵ مورخہ ۳۰؍ اپریل ۱۹۰۵ء و ملفوظات مرزا ص۲۷۲ ج۴، فرمودہ ۲۸؍ اپریل ۱۹۰۵ء
(۹۷۹) نزول المسیح ص۱۵۶ و روحانی ص۵۳۴ ج ۱۸ ، نوٹ: مرزا نے نزول المسیح میں سِر الخلافت کے صفحہ ۶۲ سے اپنی منظوم عربی دعاء نقل کی ہے کہ '' ونزل علیہ الرجز حقًا ودمر'' اور پھر اس کا حسب ذیل ترجمہ کیا ہے کہ :
'' مفسدوں پر طاعون نازل کر'' ظاہر ہے کہ یہاں مرزا نے الرجز کا معنیٰ طاعون کیا ہے جو کہ صریحاً تصرف فی اللغت اور دروغ گوئی ہے مرزا کی عبارت ایام الصلح کے علاوہ لغت عرب گواہ ہے کہ رجز کا معنیٰ طاعون نہیں ہوتا، چنانچہ منجد، میں ہے الرجز القذر العذاب، ص۴۷۶ ۔ علامہ ابن منظور فرماتے ہیں کہ وھو العمل الذی یؤدی الی العذاب ، لسان العرب ص۳۵۲، ج۵ یعنی رجز اس عمل کو کہتے ہیں جو عذاب کی طرف لے جائے۔ مرزا محمود لکھتا ہے کہ '' الرجز کے معنیٰ ہیں القذر، گند، عبادۃ الاوثان، بتوں کی عبادت، العذاب، عذاب، الشرک، شرک، (اقرب) رجز کے اصل لغوی معنیٰ اضطراب اور پے در پے حرکت کرنے کے ہیں۔ چنانچہ اسی بناء پر رجز کے معنیٰ زلزلہ کی قسم کے عذاب کے بھی کیے جاتے ہیں اور شرک اور بتوں کی عبادت کے معنیٰ رجز کے اس اعتبار سے ہیں کہ جو ایسا فعل کرتا ہے اس کے اعتقاد میں ایک قسم کا اضطراب ہوتا ہے، تفسیر کبیر ص۴۶۹ ج۱، تقریباً یہی معنیٰ مولوی محمد علی لاہوری نے اپنی تفسیر، بیان القرآن ص۱۹۰۳، ج۳ میں بحوالہ لسان العرب کیے ہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ رجز کا معنیٰ طاعون کرنا غلط بیانی ہے، ابو صہیب
(۹۸۰) فصل الخطاب لمقدمۃ اھل الکتاب ص۴۲۵، ج۲
(۹۸۱) ضمیمہ انجام آتھم ص۲ و روحانی ص۲۸۸، ج۱۱
(۹۸۲) ضمیمہ براہین احمدیہ ص۹۱، ج۵ و روحانی ص۲۵۲، ج۲۱
(۹۸۳) اشتہار مرزا مورخہ ۶؍ فروری ۱۸۹۸ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات ص۵، ج۳ وایام الصلح ص۱۲۱ و روحانی ص۳۶۱، ج۱۴ و تذکرہ ص۳۱۴
(۹۸۴) ایام الصلح ص۱۰۲ و روحانی ص۳۳۹، ج۱۴
(۹۸۵) دافع البلا ص۴ و روحانی ص۲۲۵، ج۱۸ ، تحریر مرزا، ۲۱؍ اپریل ۱۹۰۲ء و طبعہ اپریل ۱۹۰۲ء