ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
کذبات مرزا ’’ایام الصلح‘‘ 99 ( قرآن و حدیث کو چھوڑ کر وفات عیسیؑ کا عقیدہ اپنانے والے کا بیان)
۹۹… ’’یہ لوگ (مسلمان) نصوص صریحہ قرآن اور حدیث کو چھوڑ کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات کے قائل ہیں۔‘‘ (ایام الصلح ص۸۷، خزائن ج۱۴ ص۳۲۴)
ابوعبیدہ: مرزاقادیانی خود اور اس کی جماعت صدی کے سر پر مجدد کی بعثت ضروری قرار دیا کرتے ہیں۔ گذشتہ تیرہ صدیوں کے مجددین کی فہرست جو (عسل مصفی حصہ اوّل ص۱۶۳تا۱۶۵) پر آپ کے حواری نے درج کی ہے۔ وہ سب کے سب حیات عیسیٰ علیہ السلام کے قائل ہیں۔ پھر حضرت ابن عباسؓ جن کو آپ اوّل درجہ کا مفسر مانتے ہیں۔ وہ بھی حیات عیسیٰ علیہ السلام کے قائل ہیں۔ (کنز، درمنثور، ابن کثیر، ابن جریر)
کذبات مرزا ’’ایام الصلح‘‘ 100 تا 102 ( 52 سال تک مرزا نصوص قرآنیہ و حدیثیہ کا منکر رہا؟)
۱۰۰تا۱۰۲… ’’ہم (مرزاقادیانی) بموجب نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ متذکرہ بالا کے اور اجماع آئمہ اہل بصارت کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے قائل ہیں۔‘‘ (ایام الصلح ص۸۷، خزائن ج۱۴ ص۳۲۴)
ابوعبیدہ: یہاں مرزاقادیانی نے تین جھوٹوں کا ارتکاب کیا ہے اور ذرا نہیں شرمائے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پر نہ کوئی آیت، نہ حدیث اور نہ کوئی قول کسی مجدد امت کا پیش کر سکتے ہیں۔ کسی نے مرزاقادیانی سے نہ پوچھا کہ اجی حضرت اگر آپ کا یہ بیان صحیح ہے تو ۵۲سال تک آپ نصوص قرآنیہ وحدیثیہ واجماع آئمہ اہل بصارت کے خلاف کیوں حیات مسیح اور نزول جسمانی کے قائل رہے؟ معلوم ہوا سب کچھ صاحب الغرض مجنون کا نتیجہ ہے۔
کذبات مرزا ’’ایام الصلح‘‘ 103 ( فلما توفیتنی وفات مسیحؑ پر نص صریح ہے)
۱۰۳… ’’
فلما توفیتنی
‘‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پر نص صریح ہے۔ (ایام الصلح ص۸۸، خزائن ج۱۴ ص۳۲۴)
ابوعبیدہ:کذب صریح ہے نمبر۱۰۱،۱۰۲ کا جواب ملاحظہ ہو۔ نیز مرزاقادیانی اگر یہ آیت وفات مسیح پر نص صریح ہے تو ہمیں بتاؤ کہ نص صریح کے منکر کے حق میں جناب کا کیا فتویٰ ہے؟ آپ ۵۲سال تک نص صریح کے منکر رہے۔ پھر لطف یہ کہ منکر قرآن ہوکر ۱۲سال تک مجدد بھی بنے رہے۔ مستزاد یہ کہ اگر یہ نص صریح ہے تو پھر جناب کو نص صریح پر کیوں یقین نہ آیا۔ کیونکہ آپ نے اپنا عقیدہ حیات مسیح کا الہام کی بناء پر تبدیل کیا تھا۔ (ازالہ اوہام ص۵۶۱، خزائن ج۳ ص۴۰۲، نیز نمبر۶۴)
کذبات مرزا ’’ایام الصلح‘‘ 104 ( یہودیوں پر مرزا کا جھوٹ، جھوٹ بولنے میں یہود سے بھی دو گنا آگے)
۱۰۴… ’’وہ (یہود) بھی اس بات کے قائل ہوگئے ہیں کہ یہ نسخہ (مرہم عیسیٰ) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی چوٹوں کے لئے بتایا گیا تھا۔‘‘ (ایام الصلح ص۱۱۰، خزائن ج۱۴ ص۳۴۸)
ابوعبیدہ: جھوٹ! اگر سچے ہو تو کسی معتبر یہودی کی شہادت پیش کرو۔
کذبات مرزا ’’ایام الصلح‘‘ 105 تا 109 (نصرانی و مسلمان طبیبوں اور مجوسیوں پر بغیر کسی حوالے کے مرزا کا جھوٹ)
۱۰۵تا۱۰۹…’’نصرانی طبیبوں کی کتابوں اور مجوسیوں اور مسلمان طبیبوں اور دوسرے تمام طبیبوں نے جو مختلف قوموں میں گزرے ہیں۔ اس بات کو بالاتفاق تسلیم کر لیا ہے کہ یہ نسخہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے بنایاگیا تھا۔‘‘ (ایام الصلح ص۱۱۰، خزائن ج۱۴ ص۳۴۸) ابوعبیدہ: جس قدر طبیب دنیا میں گزرے ہیں۔ اتنے ہی جھوٹوں کا ارتکاب مرزاقادیانی نے کیا ہے۔ میں نے صرف ۵ کے بیان پر ہی اکتفا کیا ہے۔ کسی مستند کتاب سے مرزاقادیانی کے اس بیان کی تصدیق ممکن نہیں۔ سب افتراء ہے۔ مرزاقادیانی کو مطلب براری سے کام تھا جو کچھ دل میں آیا۔ لکھ دیا۔ اس خیال سے کہ کون تحقیق کرے گا۔ مگر یہ توقع مرزاقادیانی اپنے مریدین بااخلاص ہی سے رکھ سکتے ہیں۔
کذبات مرزا ’’ایام الصلح‘‘ 110 (ہزار نہیں صرف دس کتابوں میں سے اپنی یہ بات ثابت کر کے دکھا دو)
۱۱۰… ’’چنانچہ ان مختلف فرقوں کی کتابوں میں سے ہزار کتاب ایسی پائی گئی ہے۔ جن میں یہ نسخہ معہ وجہ تسمیہ درج ہے۔‘‘ (ایام الصلح ص۱۱۱، خزائن ج۱۴ ص۳۴۸)
ابوعبیدہ: ہزار نہیں صرف دس کتابیں ہی ایسی دکھاؤ۔ جن میں اس کی وجہ تسمیہ یہ لکھی ہو کہ یہ مرہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زخموں کے لئے بنائی گئی تھی۔ اگر اتنا بھی نہ کر سکو اور یقینا نہیں کر سکو گے تو کیوں نہیں ڈرتے جھوٹ بولنے سے۔
کذبات مرزا ’’ایام الصلح‘‘ 111 (مرہم عیسیؑ پر مبنی کتابوں کا مطالبہ پورا کر کے دکھا دو)
۱۱۱… ’’اور خداتعالیٰ کے فضل سے اکثر وہ کتابیں ہمارے کتب خانہ میں ہیں۔‘‘ (ایام الصلح ص۱۱۱، خزائن ج۱۴ ص۳۴۸)
ابوعبیدہ: یہ بھی جھوٹ ہے۔ اگر واقعی آپ کے کتب خانہ میں اکثر وہ کتابیں موجود ہیں تو ہمارا مطالبہ مندرجہ بالا کذب نمبر۱۱۰ پورا کر دو۔ جو صرف ۱۰کتابوں پر مبنی ہے۔ حالانکہ (۱۰۰۰) ہزار کا ’’اکثر‘‘ تو سینکڑوں تک جاتا ہے۔
کذبات مرزا ’’ایام الصلح‘‘ 112 (وماقتلوہ ، مرزا کی ضد اور اللہ کی تردید)
۱۱۲… ’’اﷲتعالیٰ بھی قرآن شریف میں فرماتا ہے: ’’
وما قتلوہ یقینا(النساء:۱۵۷)‘‘
یعنی یہود قتل مسیح کے بارہ میں ظن میں رہے اور یقینی طور انہوں نے نہیں سمجھا کہ درحقیقت ہم نے قتل کر دیا۔‘‘ (ایام الصلح ص۱۱۴، خزائن ج۱۴ ص۳۵۲)
ابوعبیدہ: اﷲتعالیٰ تو قتل مسیح کے اعتقاد کی وجہ سے یہود کو ملعون قرار دے رہے ہیں۔ (پڑھو ساری آیت) اور آپ اس کا رد کر رہے ہیں۔ سبحان اﷲ!
کذبات مرزا ’’ایام الصلح‘‘ 113 (رفع مسیح سے مراد روحانی نہیں بلکہ جسمانی رفع ہے)
۱۱۳… ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع کا خصوصیت کے ساتھ اس لئے ذکر کیاگیا کہ یہودی لوگ آپ کے رفع روحانی سے سخت منکر تھے۔‘‘ (ایام الصلح ص۱۱۶، خزائن ج۱۴ ص۳۵۳)
ابوعبیدہ: نہیں صاحب لوگوں کو دھوکہ نہ دیجئے۔ اس کی وجہ قرآن کریم میں تو یہ لکھی ہے۔ ’’
وبقولہم انا قتلنا المسیح عیسیٰ ابن مریم
‘‘ یعنی ان کے (یہود کے) اس کہنے کے سبب (وہ مورد لعنت ہوئے) کہ بالتحقیق ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو قتل کر دیا ہے۔ اﷲتعالیٰ نے جواب دیا کہ نہیں ایسا نہیں بلکہ ہم نے ان کو اپنی (آسمان کی) طرف اٹھا لیا تھا۔ یہاں قتل اور رفع آپس میں مقابلہ پر مذکور ہیں۔ اگر روحانی مراد ہوتا تو کلام فضول ٹھہرتی ہے۔ کیونکہ قتل اور رفع روحانی میں کوئی منافات نہیں۔
کذبات مرزا ’’ایام الصلح‘‘ 114 (صلیب دیا جانے والے شخص کا رفع روحانی نہیں ہوتا، توریت پر جھوٹ)
۱۱۴… ’’توریت میں لکھا ہے کہ جو شخص صلیب دیا جائے۔ اس کا رفع روحانی نہیں ہوتا۔‘‘ (ایام الصلح ص۱۱۶، خزائن ۱۴ ص۳۵۳)
ابوعبیدہ: جھوٹ ہے۔ نہ تو توریت کا یہ منشاء جو آپ نے سمجھا ہے۔ نہ عقل اس کو مانتی ہے۔ کیا اگر کسی آدمی کو بے گناہ صلیب دیا جائے تو وہ شہید نہیں ہوگا اور قتل کرنے والا ملعون ہوگا نہ کہ مقتول۔ مرزاقادیانی! آپ نے بھی سکھا شاہی مچارکھی ہے۔ پھر لطف یہ کہ آپ کے خیال میں خدا بھی یہودیوں کے اس اصول کو مانتا ہے کہ جو آدمی بھی افتراء کرے توریت کی رو سے وہ مصلوب لعنتی ہوتا ہے۔ جس نے ارتکاب قتل کیا ہو۔ جناب عالیٰ خود آپ نے اپنی کتاب ’’کتاب البریہ‘‘ میں لکھا ہے۔ ’’بنی اسرائیل میں قدیم سے یہ رسم تھی کہ جرائم پیشہ اور قتل کے مجرموں کو بذریعہ صلیب ہی ہلاک کیا کرتے تھے۔‘‘ (کتاب البریہ ص۲۱۴، خزائن ج۱۳ ص۲۳۲)