• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قومی اسمبلی میں ہونے والی اکیس دن کی مکمل کاروائی

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
آیت کا معنی
آیت کا معنی اور مختصر مفہوم بیان ہو گیا۔ یہی آیت وہ مرکزی آیت ہے جس نے سرور عالم ﷺ کے بعد نبی بننے کے تمام دروازے بند کر دئیے ہیں۔ اگر کسی نے ان تمام آیات کا استیعاب کرنا اور پورا دیکھنا ہو تو ہم نے ختم نبوت فی القرآن ساتھ منسلک کر دی ہے۔ اس میں سو آیتوں سے یہ ثابت کیاگیا ہے کہ آپ ﷺ نے نبیوں کی تعداد پوری کر دی ہے اور آپ ﷺ خاتم النّبیین ہیں۔ ہم یہاں صرف مختصراً ایک آیت کریمہ پر بحث کریں گے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قرآن کی تفسیر قرآن سے
یہ قران کے معانی کے بیان کا مسلمہ اصول ہے کہ پہلے ہم یہ دیکھیں گے کہ قرآن کی اسی آیت کا معنی خود قرآن سے کیا معلوم ہوتا ہے تو اس اصول کے تحت اسی آیت ’’ولکن رسول اﷲ وخاتم النّبیین‘‘ کی دوسری قرأت جو حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ کی قرأت ہے اور تفاسیر میں درج ہے یہ ہے۔ ’’ولکن نبیا ختم النّبیین‘‘ {لیکن آپ ایسے نبی ہیں جنہوں نے تمام نبیوں کو ختم کر ڈالا۔}
2396اس قرأت نے ’’ ولکن رسول اﷲ وخاتم النّبیین ‘‘ کا معنی بالکل واضح کر دیا کہ آپ ﷺ نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں۔ اس تفسیر سے ان تمام غلط تاویلوں کے راستے ہی بند ہو گئے کہ آپ ﷺ نبیوں کی مہر ہیں۔ آئندہ آپ ﷺ کی مہر سے نبی بنا کریں گے۔ کیونکہ اب معنی بالکل صاف ہوگیا کہ اس نبی نے تمام نبیوں کو ختم کر ڈالا۔ گویا خاتم کا معنی ختم کرنے والا ہوگیا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
سرور عالم ﷺ کی تفسیر
ظاہر ہے کہ جس ذات مبارک پر قرآن نازل ہوا ان سے بڑھ کر اس قرآن کا معنی کون سمجھ سکتا ہے۔ یہ اصول بھی سب میں مسلم ہے۔ اب آپ حضور ﷺ کی تفسیر سنئے۔ ترمذی شریف کی حدیث ہے جس کی صحت میں کلام نہیں ہے۔
’’ انہ سیکون فی امتی کذابون ثلثون کلہم یزعم انہ نبی وانا خاتم النّبیین لا نبی بعدی (ترمذی ج۲ ص۴۵، باب ماجاء لا تقوم الساعۃ حتی یخرج الکذابون)‘‘ {تحقیق بات یہ ہے کہ میری امت میں تیس کذاب (جھوٹے) ظاہر ہوں گے ہر ایک کا زعم یہ ہوگا کہ میں نبی ہوں۔ حالانکہ میں خاتم النّبیین ہوں۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔}
اس مبارک، صحیح اور کفر شکن حدیث سے چند باتیں معلوم ہوئیں۔
۱… کہ خاتم النّبیین کا معنی ہے لا نبی بعدی کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔
۲… اس کے کذاب ودجال ہونے کی نشانی ہی یہ ہوگی کہ وہ کہے گا کہ میں نبی ہوں اس کا یہ دعویٰ کرنا ہی اس کے جھوٹے اور دجال ہونے کے لئے کافی ہے۔
۳… وہ دجال وکذاب میری امت میں سے نکلیں گے۔ اپنے کو امتی نبی کہیں گے۔ اگر حضور ﷺ کی امت میں ہونے کا دعویٰ نہ کریں تو کون ان کی بات پر کان دھرے۔ ان الفاظ سے امتی نبی کے ڈھونگ کا پتہ بھی لگ گیا۔
2397اس حدیث میں آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ میری امت میں بعض جھوٹے نبی آئیں گے اور بعض سچے بھی ہوں گے۔ دیکھنا ان کا انکار کر کے سب کے سب کافر نہ بن جانا۔ نہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بروزی، ظلی، عکسی اور غیرتشریعی نبی ہوں تو کذاب ودجال نہ کہنا۔
نہ آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ تیرہ سو سال تک سب دجال ہوں گے۔ بعد والوں کو مان لینا اور اگر کوئی شخص نبوت کا دعویٰ کر کے انگریز کے خلاف لڑنے اور جہاد کو حرام کہہ کر ساری دنیا میں لٹریچر پہنچائے تو اس انگریزی نبی کو مان لینا اور یہ کہ تیرہ سو سال تک جھوٹی نبوت بند ہے۔ بعد میں آزادی ہے (معاذ اﷲ) بہرحال جناب خاتم النّبیین ﷺ کی اس پاک حدیث نے مخالفین ختم نبوت کے سارے وسوسے خاک میں ملا دئیے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
نبی کریم ﷺ کا دوسرا ارشاد
آپ ﷺ کا دوسرا ارشاد بھی ملاحظہ فرمائیں کہ جو بخاری اور مسلم دونوں میں ہے۔
’’ عن ابی ہریرۃؓ قال قال رسول اﷲ ﷺ مثلی ومثل الانبیاء کمثل قصر احسن بنیانہ ترک منہ موضع لبنۃ فطاف بہ النظّار یتعجبون من حسن بنیانہ الا موضع تلک اللبنۃ فکنت انا سددت موضع اللبنۃ وختم الرسل وفی روایۃ فانا اللبنۃ وانا خاتم النّبیین (مسلم ج۲ ص۲۴۸، باب ذکر کونہ خاتم النّبیین)‘‘ {حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میری اور پیغمبروں کی مثال ایک ایسے محل کی ہے جو نہایت خوبصورت بنایا گیا ہو۔ مگر ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی گئی ہو۔ اس کو دیکھنے والے تعجب کرتے ہیں کہ کیسی اچھی تعمیر ہے۔ ہاں ایک اینٹ کی جگہ خالی ہے (کیوں چھوڑ دی گئی) تو میں نے اس اینٹ کی جگہ پر کر دی اورمیرے ذریعہ پیغمبر ختم کر دئیے گئے اور ایک روایت میں ہے کہ میں وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النّبیین ہوں۔}
2398اس حدیث نے تو خاتم النّبیین کا معنی حسی طور پر بیان فرما دیا کہ نبوت کا محل پورا تھا صرف ایک اینٹ کی جگہ باقی تھی۔ وہ حضور ﷺ سے پوری ہوگئی۔ اب مرزاقادیانی اس محل میں گھسنا چاہتا ہے۔ مگر کون گھسنے دیتا ہے۔ مرزائیوں کے پاس اس کا کیا جواب ہے؟ بخاری اور مسلم کی حدیث میں کیڑے نکالتے اور کہتے ہیں کہ صاحب لولاک کی شان اور ایک چھوٹی سی اینٹ کو کیا نسبت؟ انا ﷲ وانا الیہ راجعون!
یہ مثال تو آپ ﷺ نے سارے جہان کی بیان نہیں کی۔ صرف قصر انبیاء کی بیان کی ہے۔ پھر ان مرزائیوں کو کیا معلوم ہے کہ اس ایک اینٹ کی کتنی جگہ ہے۔ وہ کتنی خوبصورت اینٹ ہے۔ وہ کتنی بڑی ہے۔ محل کا سارا حسن ایسی ایک اینٹ سے دوبالا کیوں نہیں ہوسکتا؟
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حدیثی نکتہ
اس مبارک حدیث نے یہ وہم بھی دور کر دیا کہ آیت خاتم النّبیین کا تعلق آنے والوں سے ہے۔ آپ ﷺ نے تمام آنے والے پیغمبروں کا ذکر کر کے صرف ایک اینٹ کی جگہ خالی رہنے کی بات فرمائی اور اپنے کو آخری اینٹ فرماکر خاتم النّبیین فرمادیا۔ مطلب صاف ہوگیا کہ خاتم کا تعلق سابقین سے ہے۔ لاحقین اور آنے والوں سے نہیں ہے کہ آپ ﷺ کی مہر اور قدسی قوت نبی تراشتی رہے گی اور آپ ﷺ کی مہر سے لوگ نبی بنا کریں گے اور امتی نبی کہلائیں گے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مرزائی کفر پر کفر
مرزائی ابوالعطاء جالندھری نے اس حدیث کے سلسلہ میں لکھا ہے کہ آخری زمانہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب آئیں گے تو محل میں تو جگہ خالی نہ ہوگی وہ کہاں ہوں گے۔
2399افسوس ہے کہ مرزائی گندی باتوں سے اور خاص کر پیغمبروں کے بارے میں غلط بیانیوں سے باز نہیں آتے۔ پہلے تو آپ ویسے ہی اس کا جواب سن لیں۔ جب مرزاجی آئیں گے اور کسی اینٹ کی جگہ خالی نہ ہوگی۔ یہ مرزاجی کہاں لگنے کی کوشش کریں گے؟ یہ ایسی ہی بات ہوئی جیسے ایک میراثی نے بات بنائی تھی کہ جب انبیاء سب باری باری خدا کے سامنے سے گزر جائیں اور مرزاجی کی باری آئے گی تو اس پر اعتراض ہوگا کہ تمہارا تو نام فہرست میں نہیں۔ تم کدھر سے نبیوں میں رہے تو فوراً شیطان ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو جائے گا کہ یا الٰہی آپ نے کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے۔ میں نے صرف یہ ایک بھیجا تھا۔ اس کو تو داخل کر لو۔
مرزائیو! پیغمبروں کا مذاق اڑا کر پھر مذاق سے خفاء نہ ہوں۔ اب تحقیقی جواب سن لو۔ یہ صرف مثال ختم نبوت کے محل کی ہے اور امت کو سمجھانے کے لئے۔ اس سے پیغمبر اینٹ کی طرح بے حس وحرکت اور بے جان ثابت نہیں ہوتے۔ نبوت کا محل حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت سرور عالم ﷺ کے ذریعے مکمل ہوچکا ہے۔ وہ تعداد پوری ہوچکی ہے۔ اب آخری نبی کی عزت نوازی کے لئے جس پرانے پیغمبر کو لے آئے۔ پیغمبر آخر الزمان کی عزت افزائی کے لئے ان کو زندہ رکھ کر پھر آپ ﷺ کی امت کی امداد کرائے۔ وہ صاحب اختیار ہے۔ مرزائی کون ہوتے ہیں جو اس میں دخل دیں۔ اس کی بحث علیحدہ مسئلہ حیات عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام میں مفصل دیکھئے: ’’عن ابی ہریرۃؓ قال قال رسول اﷲ ﷺ یا ایہا الناس انہ لم یبق من النبوۃ الا المبشرات (رواہ البخاری ج۲ ص۱۰۳۵، کتاب التعبیر)‘‘ {حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ سرور عالم ﷺ نے فرمایا۔ اے لوگو! (سن لو) بات یہ ہے کہ نبوت میں سے صرف مبشرات باقی رہ گئے ہیں۔}
2400ایک روایت میں ہے کہ سرور عالم ﷺ سے پوچھا گیا مبشرات کیا ہیں۔ آپ نے فرمایا:
(اچھے خواب جو مسلمان دیکھے یا دوسرا اس کے لئے دیکھے)
ایک روایت میں ہے کہ مبشرات نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہیں۔ بہرحال نبوت کے اجزاء کو اﷲتعالیٰ ہی جانتے ہیں۔ نبوت، شرف ہم کلامی، اسرار الٰہیہ تقدیر اور اسباب، مخلوق اور خالق کا تعلق، نبوت کا واسطہ یہ اور اس قسم کے مباحث…
ہماری عقول اور افہام سے بہت بلند ہیں۔ ان سب کو راز میں رکھا گیا دو اجزاء ظاہر کئے گئے۔ اچھی اور سچی خوابیں۔ کون ہے جو ان غیبی امور کے بارے میں خواب کی اطلاعات کی حقیقت بیان کر سکے؟ دوسرا جز مکالمات الٰہیہ ہے۔ نہ رب العزت جل وعلا کی ذات ہمارے احاطۂ علم میں ہے اور نہ اس کی صفات اور خاص کر مکالمہ الٰہیہ، آخر یہ مکالمہ کس طرح ہوتا ہے۔ بالمشافہ رب العزت جل وعلا سے، ملائکہ کے توسط سے۔ دل میں القاء سے۔ پردے کے پیچھے سے، یا غیب کی آوازیں سنائی دینے سے، پھر ہر ایک کی کیا کیفیت ہوتی ہے۔ ہمارے خیال میں یہ مقام قرب اور مقام معیّت کی باتیں ہیں۔ بہرحال یہ اجزاء نبوت ہیں۔ جزیات نبوت نہیں ہیں۔ نبی جس قسم کا ہو، چاہے صاحب کتاب وصاحب شریعت ہو۔ جیسے موسیٰ علیہ السلام وغیرہ۔ چاہے بغیر شریعت وکتاب ہو جیسے ہارون علیہ السلام اور سارے انبیاء بنی اسرائیل۔ یہ اصلاح خلق کے لئے مامور ہوتے ہیں۔ ان سے مکالمہ ہوتا ہے۔ ان کو مبعوث کیا جاتا ہے اور نبوت کامنصب عطاء ہوتا ہے۔ ان پر وہ وحی آتی ہے جو فرشتہ پیغمبروں پر لاتا ہے۔ یہ شریعت کے اجراء کے لئے مامور ہوتے ہیں۔ ان کی وحی میں شریعت کی باتیں ہوتی ہیں۔ یہ اﷲتعالیٰ کی طرف سے عہدۂ نبوت پر فائز ہوتے ہیں۔ ان دونوں نبوتوں کو اولیاء کرام تشریعی نبوت کہہ دیتے ہیں اور دونوں کو بند اور ختم بتاتے ہیں۔
عام اہل علم کلام، علم شریعت والے پہلی کو نبوت تشریعی اور دوسری کو نبوت غیر تشریعی کہتے ہیں، اور ’’ ولکن رسول اﷲ وخاتم النّبیین ‘‘ کے بعد دونوں کو ختم بتاتے ہیں۔ اولیائے کرام میں سے بعض کو شرف مکالمہ نصیب ہوتا ہے۔ لیکن نبی اور نبوت کے 2401نام کو غیرنبی کے لئے استعمال کرنے کو وہ کفر سمجھتے ہیں۔ وہ بھی صرف مکالمات کو نبوت غیرتشریعی کہہ دیتے ہیں۔ جس سے ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اﷲتعالیٰ جس ذات مبارک کو نبی کانام دیتا ہے اور منصب نبوت سے سرفراز کر کے اصلاح خلق کے لئے پرانے یا نئے احکام وحی کر کے بھیجتا ہے۔ یہ وہ نبوت نہیں ہے۔ اس سے دھوکہ دیا جاتا ہے کہ شیخ اکبر وغیرہ تشریعی نبوت کی بقاء اور اجراء کے قائل ہیں۔ خلاصہ یہ ہوا کہ ارباب علم وکلام وشریعت جن دونبوتوں کو علیحدہ ذکر کر کے ختم بتاتے ہیں تو بعض اولیاء ان دونوں کو نبوت تشریعی کہہ کر ختم بتادیتے ہیں۔ مقصد دونوں کا ایک ہی ہو جاتا ہے۔ مطلب بالکل صاف ہے کہ انسان کے کسی جزو مثلاً پاؤں کو انسان نہیں کہتے۔ مجموعہ اجزاء کو انسان کہتے ہیں۔ مگر حیوان کے جزئیات کو حیوان کہہ سکتے ہیں۔ مثلاً گھوڑا، گدھا، بلی وغیرہ سب کو حیوان کہہ سکتے ہیں۔ یہ جزیات ہیں لیکن گھوڑے کے سر کو گھوڑا نہیں کہہ سکتا، مجموعہ اعضاء کو کہیں گے۔ اب انبیاء علیہم السلام کی نبوت کے چھیالیس اجزاء جمع ہوں تو کوئی نبی بنتا ہے۔مگر ان اجزاء کا جمع ہونا اور منصب نبوت ملنا محض موہبت اور فضل خداوندی ہے۔ حدیث بہرحال بخاری کی ہے اور ختم نبوت کی صاف دلیل ہے۔ یہی تفسیر ہوگئی اس پہلی آیت کی۔ مرزاغلام احمد کے ایک پیرو مرزائی ابوالعطاء نے لکھا ہے کہ دیکھو پانی کا ایک قطرہ دریا کا جزو ہے۔ لیکن دونوں کو پانی کہتے ہیں۔ یہ سراسر دھوکہ ہے اور جزو اور جزئی میں امتیاز نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ قطرہ بھی پانی ہے اور دریابھی۔
قطرات پانی کے اجزاء نہیں ہیں۔ پانی کے اجزاء ہائیڈروجن اور آکسیجن ہیں۔ کیا کوئی شخص ان دو اجزاء میں سے کسی ایک کو پانی کہہ سکتا ہے؟ جیسے چھوٹا گدھا اور بڑا گدھا دونوں حیوان کے جزئیات ہیں۔ دونوں کو حیوان کہہ سکتے ہیں۔ مگر گدھے کے کسی جزو کو گدھا نہیں کہہ سکتے۔ ابوالعطاء مرزائی باتیں بنا کر قرآن اور حدیث کا مقابلہ کرتا ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حضور ﷺ کا چوتھا ارشاد
بخاری غزوہ تبوک میں یہ حدیث درج ہے: 2402’’ الاترضیٰ ان تکون منی بمنزلۃ ہارون من موسیٰ الّا انہ لا نبی بعدی (بخاری ج۲ ص۶۳۳، باب غزوہ تبوک)‘‘ {کیا تم اس پر خوش نہیں ہوتے کہ تم مجھ سے اس طرح ہو جاؤ۔ جیسے ہارون علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تھے۔ مگر بات یہ ہے کہ میرے بعد نبی کوئی نہیں۔}
جب آپ نے غزوۂ تبوک کو جاتے ہوئے حضرت علیؓ کو اہل خانہ وغیرہ کی نگرانی کے لئے چھوڑا تو حضرت علیؓ نے بچوں اور عورتوں کے ساتھ پیچھے رہنے کو محسوس کیا۔ جس پر آپ ﷺ نے ان کو یہ فرما کر تسلی دے دی۔
حضرت ہارون علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے چچازاد بھائی تھے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تابع نبی تھے۔ مستقل صاحب شریعت نہ تھے۔ نہ صاحب کتاب تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر جاتے وقت ان کو نگرانی کے لئے چھوڑ گئے۔ یہی بات آپ ﷺ نے حضرت علیؓ سے فرما کر ان کو تسلی کرادی۔ لیکن چونکہ حضرت ہارون علیہ السلام پیغمبر تھے۔ یہ غلط فہمی اس ارشاد سے دور فرمادی کہ ’’میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہوسکتا۔‘‘ گویا تابع غیرمستقل نبی اور بغیر شریعت کے بھی آپ ﷺ کے بعد کوئی نہیں بن سکتا۔ آپ کومعلوم ہوگیا ہوگا کہ نبوت ایک عظیم منصب اور بھاری انعام ہے اور محض موہبت اور بخشش سے ملتا ہے۔ اس میں کسی کے اتباع واطاعت کا دخل نہیں ہوتا۔ مرزاقادیانی نے امتی نبی کی خود ساختہ اصطلاح گھڑ کر لوگوں کو کافر بنایا ہے۔ امت میں سے ہو یا باہر جس کو اﷲتعالیٰ چاہے یہ منصب دے دیں۔ وہ نبی ہے۔ لیکن اب یہ دروازہ بند ہوچکا ہے۔ مرزاجی اسی لئے تو کبھی صدیقیت کی کھڑکی کھولتے ہیں۔ کبھی فنا فی الرسول اور آپ ﷺ کے اتباع کا سہارا ڈھونڈتے ہیں۔ یہ سب دجل وفریب اور دھوکہ ہے۔ امتی نبی کی اصطلاح یا مسیح موعود کی اصطلاح کوئی مرزائی پرانے دین میں نہیں بتاسکتا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حضور ﷺ کا پانچواں ارشاد
2403’’ عن ابی ہریرۃؓ عن النبی ﷺ قال کانت بنو اسرائیل تسوسہم الانبیاء کلّما ہلک نبی خلفہ نبی وانہ لا نبی بعدی وسیکون خلفاء فیکثرون قالوا فماذا تامرنا یا رسول اﷲ قال فوابیعۃ الاوّل فالاوّل اعطوہم حقہم فان اﷲ سائلہم عما استر عاہم (بخاری ج۱ ص۴۹۱، کتاب الانبیائ، مسلم ج۲ ص۱۲۶، کتاب الامارۃ)‘‘ {حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں۔ سرور عالم ﷺ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کی سیاست اور انتظام ان کے پیغمبر کرتے تھے۔ جب ایک چل بستا تو اس کی جگہ دوسرا آ جاتا اور تحقیقی بات یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں (البتہ) خلفاء (وامرائ) ہوں گے اور وہ بہت ہوں گے۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ آپ ﷺ کا حکم ہم کو کیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا پہلے جس سے بیعت کی ہے اس کا حق پورا کرو۔ (اسی طرح درجہ بدرجہ) ان کا حق ان کو دو (اگر تمہارا حق ادا نہ کریں) تو اﷲتعالیٰ خود ان سے رعیت کے متعلق پوچھ لیں گے۔}
ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل کی نبوتیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تابع تھیں۔ مستقل اور تشریعی نبوتیں نہ تھیں۔ مگر سرور عالم ﷺ نے اپنی امت میں سے ان کی بندش اور ختم نبوت کا بھی اعلان کر دیا۔ وہاں سارا کام نبی کرتے تھے۔ یہاں حضور ﷺ کے بعد خلفائ، امرائ، علمائ، اولیاء کریں گے۔
----------
[At this stage Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi vacated the Chair which was occupied by Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali).]
(اس موقع پر مسز اشرف خاتون عباسی نے کرسی صدارت چھوڑ دی اور مسٹر چیئرمین (صاحبزادہ فاروق علی) نے اجلاس کی صدارت شروع کر دی)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حضور کریم ﷺ کا چھٹا ارشاد
مولانا عبدالحکیم: ’’ لوکان بعدی نبی لکان عمرؓ (ترمذی ج۲ ص۲۰۹، باب مناقب ابی حفص عمرؓ بن الخطاب)‘‘ {اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمرؓ ہوتے۔}
2404حضرت عمرؓ کے محدث ہونے کی تصریح بھی آپ ﷺ فرماچکے ہیں کہ ان سے مکالمات ہوتے تھے۔ مگر پھر بھی فرمایا کہ وہ نبی نہیں اور وجہ صرف یہ بتائی کہ میرے بعد نبی نہیں ہوسکتا۔ واقعی جو ہستی مکارم اخلاق، کمالات نبوت اور تمام اعلیٰ صفات نبوت کی جامع ہو اور تمام انبیاء ومرسلین سے افضل اور سب کی سرتاج اور امام ہو۔ ایسی ہی پاک ہستی کو لائق ہے تمام انبیاء علیہم السلام کے بعد آنا اور منصب نبوت کا خاتم ہونا۔
معلوم ہوا کہ محدث بھی نبی نہ ہوسکتا نہ کہلا سکتا ہے اور اگر کسی کو یہ دعویٰ ہو کہ اس کوحضرت عمرؓ سے بھی زیادہ مکالمات کی دولت نصیب ہوئی ہے تو اپنے دماغ کا علاج کرائے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
جناب امام الانبیاء علیہ السلام کا ساتواں ارشاد
’’ عن ابی ہریرۃؓ ان رسول اﷲ ﷺ قال فضلت علی الانبیاء بست اعطیت جوامع الکلم، ونصرت بالرعب، واحلت لی الغنائم، وجعلت لی الارض مسجداً وطہوراً وارسلت الی الخلق کافۃ وختم بی النبیون (مسلم ج۱ ص۱۹۹، کتاب المساجد ومواضع الصلوٰۃ)‘‘ {حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے تمام انبیاء علیہم السلام پر چھ باتوں میں فضیلت دی گئی ہے۔ مجھے جوامع الکلم دئیے گئے ہیں اور رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی ہے۔ غنیمت کا مال میرے لئے حلال کر دیا گیا ہے۔ (جب کہ پہلی امتوں میں مال غنیمت کے ڈھیر کو آسمان کی آگ جلا دیتی تھی اور یہی اس کی قبولیت کی نشانی تھی) اور ساری زمین میرے لئے مسجد اور طہور بنادی گئی۔ (نماز زمین پر ہر جگہ پڑھ سکتے ہیں اور بوقت ضرورت تیمم بھی کر سکتے ہیں) اور میں تمام مخلوق کے لئے مبعوث کیاگیا ہوں اورمیرے ساتھ تمام پیغمبروں کو ختم کر دیا گیا ہے (یعنی یہ سلسلہ بند ہوگیا اور تعداد معیّن پوری ہوگئی)}
2405اس مبارک ارشاد میں آخری جملہ صاف اور صریح ہے۔ جس میں کسی مرزائی کی تاویل یا وسوسہ کی گنجائش نہیں۔ صاف صاف فرمان ہے کہ میرے آنے سے سارے نبی ختم کر دئیے گئے ہیں۔ یہاں مہر وغیرہ کا معنی نہیں چل سکتا۔
 
Top