• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قومی اسمبلی میں ہونے والی اکیس دن کی مکمل کاروائی

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
بعض دیگر الزامات
اسی طرح لگے ہاتھوں ہم مرزاناصر احمد کے محضر نامے ص۱۴۹ کا بھی جواب دیتے ہیں جو انہوں نے (بعض دیگر الزامات) کے عنوان سے ذکر کیا ہے۔ اس میں انہوں نے مرزائیوں کا مسلمانوں کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کا ذکر کیا ہے۔ اس موضوع میں مرزاناصر احمد صاحب کا برا حال رہا ہے۔ انہوں نے جان چھڑانے کے لئے ص۱۵۴ سطر۱۳ سے لے کر ص۱۶۲ تک فتاویٰ نقل کر کے یہ لکھا ہے کہ ہم ان میں سے کس کے پیچھے نماز پڑھیں جن کو فلاں نے کافر کہا اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے روکا۔ پڑھیں تو فتویٰ دینے والے کے ہاں کافر ہوتے ہیں، نہ پڑھیں تو غیرمسلم اقلیت۔ مرزاناصر احمد صاحب اس سوال میں بری طرح پھنسے ہیں وہ صاف نہیں کہتے کہ مسلمانوں کے پیچھے نماز ہم کس طرح پڑھیں کہ وہ ایک نبی کے منکر اور کافر ہیں؟ جب کہ مرزاقادیانی نے خداتعالیٰ کے حکم سے شک کرنے والے کے پیچھے نماز پڑھنے سے روک دیا ہے۔ گویا مرزاجی کی نبوت کا انکار اور اس کو مفتری سمجھنا ہی نماز نہ پڑھنے کی وجہ ہے باقی لفاظی ہے، مرزاناصر احمد 2437صاحب نے باتیں بنائی ہیں۔ باقی طبقات کا کسی کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کا حکم دینا دعویٰ نبوت کے انکار کی وجہ سے نہیں ہے۔ اسی لئے وہ باہم اختلاف رکھنے کے باوجود مرزائیوں کے سلسلہ میں ایک ہیں۔
۱… ذات باری کا عرفان ص۳۹۔
۲… قرآن عظیم کی اعلیٰ وارفع شان ص۵۵۔
۳… مقام خاتم النّبیین ﷺ ص۷۵۔
ان تین عنوانات میں سے پہلے دو عنوانوں کا تو کسی مسلمان کو انکار نہیں تیسرے عنوان کا جواب لکھ دیا گیا ہے اور دراصل یہ ساری بحث مسلمان قوم کو الجھانے کے لئے ہے ورنہ بحث کسی نبی کے آنے میں نہیں ہے۔ صرف مرزاقادیانی کی ذات میں ہے۔ باقی دو عنوان سے جو لکھا گیا ہے۔ اگرچہ عنوان مسلم ہے مگر ان عبارات اور مرزاجی کے اقوال نقل کرنے کا اصلی مقصد مرزاقادیانی کی شخصیت بنانا اور اس کو محدث نبی اور مسیح موعود جتلانا ہے اور کوئی مقصد نہیں ہے۔ چنانچہ ص۴۲ سطر نمبر۱۱، ص۴۳ سطر۱۲، ص۴۴ سطر نمبر۵ اور سطر نمبر۱۵، ص۴۸ سطر نمبر۲، ص۵۷ سطر نمبر۳، ص۵۸ سطر نمبر۸، ص۶۱ سطر نمبر۴، ص۶۵ سطر نمبر۱۸، ص۷۰ سطر نمبر۳ سے ظاہر ہے۔ یہ صرف اپنے لئے مرزاجی نے راستہ صاف کرنے کی سعی کی ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مقام خاتم النّبیین ص۲۹تاص۳۶
اس عنوان کے تحت مرزائیوں نے خواہ مخواہ خاتم النّبیین کا معنی بدل کر اور بزرگان دین کے اقوال سے غیرتشریعی نبوت کا بقاء واجراء ثابت کرتے ہوئے مغز پاشی کی ہے۔ جب آپ نے مان لیا کہ سوائے قادیانی کے نہ پہلے کوئی نبی بن سکا ہے نہ بعد میں آئے گا۔ تو اب خاتم النّبیین کے معنی میں بحث فضول ہے۔ بحث صرف اتنی ہے کہ آنے والے 2438مسیح واقعی وہی مسیح ابن مریم عیسیٰ رسول اﷲ ہیں جو آسمان پر زندہ ہیں اور نازل ہوکر دجال کو قتل کریں گے اور چالیس سال زندہ رہ کر وفات پائیں گے اور حضور ﷺ کے مقبرہ میں دفن ہوں گے یا وہ مر چکے ہیں اور آنے والے مسیح (نظر بددور) مرزاغلام احمد قادیانی ہیں؟ مرزاناصر احمد نے خاتم النّبیین کا معنی بیان کرتے ہوئے مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، شیخ اکبرؒ، ملا علی قاریؒ وغیرہ وغیرہ حضرات کے نام لئے ہیں کہ یہ غیرتشریعی نبوت کو باقی سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ان حضرات کی مراد صرف یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب نازل ہوں گے وہ ہماری شریعت کو چلائیں گے اور کوئی شریعت نہیں لائیں گے نہ چلائیں گے۔ اس کی خاطر انہوں نے بعض الفاظ لکھے ہیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مرزاناصر احمد کو چیلنج
اگر یہ بات نہیں، تو ہم مرزاناصر احمد صاحب کو چیلنج کرتے ہیں کہ وہ کسی ولی یا عالم کی کتاب سے دکھائیں کہ فلاں آدمی حضور ﷺ کے بعد سچا نبی بنا ہے۔
خود مرزاصاحب مذکور نے اقرار کیا ہے کہ کوئی سچا نبی مرزاقادیانی سے پہلے نہیں آیا تو بحث ختم ہو گئی۔ آپ خاتم النّبیین کے معنوں میں کیوں مسلمانوں کو الجھاتے اور تیرہ صدیوں کے متفقہ معانی کی تردید کرتے ہیں؟
مرزاجی نے اور خود مرزاناصر احمد صاحب نے تو یہ بھی اقرار کیا کہ مرزاقادیانی کے بعد بھی قیامت تک کوئی نبی نہ آئے گا تو ساری بحث اس پر کرو کہ سینکڑوں حدیثوں میں مسیح ابن مریم کے نزول اور ساری دنیا پر حکومت کرنے اور چالیس سال کے بعد وفات پاجانے کی حدیثیں غلط ہیں یا صحیح؟
ہم خود شیخ اکبرؒ اور ملا علی قاریؒ وغیرہ کے ارشادات سے ثابت کریں گے کہ حضرت مسیح ابن مریم آسمان میں ہیں اور وہ آخری زمانہ میں نازل ہوں گے۔ جب یہ 2439حضرات خود کسی اور کو نبی نہیں مانتے اور انہی مسیح ابن مریم کو آسمان سے نازل ہونے والا بتاتے ہیں تو مرزاقادیانی تو ان کے ہاں بھی جھوٹا ثابت ہوگیا۔ اس لئے ہم اس عنوان کے تحت زیادہ بحث نہیں کریں گے۔ البتہ ختم نبوت کے عنوان سے جو باب لکھا گیا وہ مرزاناصر احمد صاحب کے مندرجہ بالا اقرار سے پہلے لکھا گیا۔ ناظرین اس کو بھی دیکھ لیں۔
آئندہ صفحات میں ہم مرزاغلام احمد صاحب قادیانی، ان کے دعاوی، توہین انبیاء علیہم السلام، ان کی اخلاقی حالت، جہاد کے بارے میں ان کے کفریہ خیالات، انگریزی دربار میں ان کے عجزوانکسار اور وفاداری کے مشت نمونہ ازخروار حوالہ جات پیش کرتے ہیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مرزاغلام احمد قادیانی
یہ ضلع گورداسپور قصبہ قادیان میں مغل خاندان کا بقول خود گمنام آدمی تھا۔ روزگار کے سلسلہ میں ملازم ہوا۔ مگر ضرورۃ کے تحت مختاری کے امتحان میں شریک ہوا۔ جس میں فیل ہوگیا۔ اس زمانے کے مطابق اردو، عربی، فارسی جانتا تھا۔ جب یہ مختاری کے امتحان میں فیل ہوا تو اس نے ایک اور طریقہ اختیار کیا۔ عیسائیوں اور آریوں سے مباحثات شروع کر دئیے اور بعض کتابوں کو چھاپنے کے اشتہار شائع کرکے عوام سے خوب پیسے بٹورے۔ مبلغ اسلام بنا پھر مجدد مامور بنا۔ اس کے بعد مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ کیا اور مسیح موعود ہونے کی سختی سے تردید کی۔
(ازالتہ الاوہام ص۱۹۰، خزائن ج۳ ص۱۹۲)
مگر چند ہی دنوں کے بعد مسیح موعود بن بیٹھا۔ یہ اس کی اپنی گھڑی ہوئی اصطلاح ہے۔ کتابوں میں صرف مسیح یا عیسیٰ ابن مریم کا ذکر آتا ہے۔ پہلے پہل اس نے دعویٰ نبوت کا انکار کیا۔ بلکہ اس کو کفر ٹھہرایا۔
(حمامتہ البشریٰ ص۷۹، خزائن ج۷ ص۲۹۷)
مگر جب خاصے چیلے چانٹے مل گئے تو نبوت کا دعویٰ کر بیٹھا۔ اپنے معجزات سرورعالم ﷺ سے بھی زیادہ بتائے اور دس لاکھ تک کی گپ لگادی۔ اس کو علم تھا کہ مسلمان قوم میں نبی ہونا مشکل ہے تو اس نے اپنا شوق پورا کرنے کے لئے نزول مسیح ابن مریم والی 2440حدیث کی آڑ لی مگر چونکہ تیرہ سو سال سے مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ چلا آرہا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر موجود ہیں اور قرب قیامت میں نازل ہوکر دجال کو قتل کر کے دین اسلام کی خدمت کریں گے۔ اس لئے اس کو حضرت مسیح علیہ السلام کو قرآن وحدیث سے وفات شدہ ثابت کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور پوچ دلائل سے چند فرنگی زدہ افراد کو اپنا پیرو بنایا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت ثابت کرنے اور خود مسیح بننے کے لئے اس کو بڑے پاپڑ بیلنے پڑے۔ اس نے انگریزوں کے لئے دعائیں کیں اور اشتہارات چھاپ چھاپ کر اور ممانعت جہاد کے مضامین لکھ لکھ کر تمام مسلم ممالک میں پھیلائے۔ اب اس کو روپوں کی کیا کمی ہوسکتی تھی۔
مگر اس کو علمائے حق کے مقابلے سے بڑی ذلت اٹھانی پڑی۔ اتنے میں اس کو ایک نابالغ بچی مسماۃ محمدی بیگم سے نکاح کا شوق چرایا اور حضور ﷺ کی نقل اتارتے ہوئے اپنی اس وحی کا اعلان کر دیا۔ زوجنٰکہا ہم نے (عرش پر یا آسمان پر) تمہارا نکاح محمدی بیگم سے کر دیا۔ شاید اسی نقل اتارنے کی اس کو سزا ملی اور محمدی بیگم کے رشتہ داروں نے اس کی شادی سلطان محمد نامی شخص سے کر دی۔ اس کے بعد مرزاجی پر بڑے بڑے خودساختہ الہامات ہوتے رہے کہ باکرہ ہو یا ثیبہ اس کو تمہاری طرف لوٹاؤں گا۔ مگر اس کی بست سالہ جدوجہد اور وحی کی شکل میں ساری پیش گوئیاں غلط ہوئیں۔ اگرچہ مرزاجی نے اعلان کیا کہ اس کے ساتھ میرا نکاح تقدیر مبرم اور اٹل ہے اور اس کے پورے نہ ہونے کی شکل میں میں بد سے بدتر اور جھوٹا ہوں گا۔ مگر آخرکار ۱۹۰۸ء میں یہ نامراد چل بسا۔ اس پیش گوئی نے اس کی لٹیا ڈبودی اور جھوٹی مسیحیت کا بھانڈا پھوڑ کے رکھ دیا۔
یہ انگریز کا خاص وفار آدمی تھا۔ جہاں جہاں انگریز گیا اس کی تحریک بھی گئی۔ ترکی، افغانستان اور حجاز میں نہ جاسکی۔ مصروشام وغیرہ میںجب تک فرنگی اثرات تھے یہ 2441دندناتے رہے۔ جب انقلاب آیا ان ممالک نے ان کو خلاف قانون کر ڈالا اور ان کے دفاتر ضبط کر لئے۔ یہودی فلسطین حیفہ میں اب تک ان کا دفتر موجود ہے۔
حال ہی میں عالم اسلام کے نمائندوں نے حجاز مقدس میں مرزائیوں کے دعویٰ اسلام کی قلعی کھول دی۔ وائسرائے ہند نے چوہدری ظفر اﷲ خان مرزائی کو اپنی ایگزیکٹو کونسل کا ممبر بنایا۔ اب مرزائیوں کو مسلمانوں کے پھنسانے کا خوب موقع ملا۔ پاکستان بنا تو چوہدری ظفر اﷲ خان وزارت خارجہ کا قلمدان تھامے ہوئے تھے۔ مختلف آسامیوں پر مرزائیوں کا قبضہ کرایا گیا۔ انگریز گیا توامریکی حکومت کو یہ غلط فہمی ہوگئی کہ پاکستان میں مذہب کے علمبردار مرزائی ہیں۔ خواجہ ناظم الدین مرحوم نے ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں یہ بیان دیا تھا کہ اگر میں ظفر اﷲ خان کو نکال دوں گا تو امریکہ گندم نہیں دے گا۔ (منیر تحقیقاتی رپورٹ ص۳۱۹)
چوہدری صاحب مذکور نے بیرونی دنیا میں سفارتخانوں کے ذریعے مرزائی بھر دئیے۔ خداخدا کر کے یہ ملک سے باہر گیا تو بعض دوسرے مرزائیوں نے گل کھلائے۔ آخر کار سیاسی حرکات کی وجہ سے ائیرمارشل ظفر چوہدری کو محترم ذوالفقار علی بھٹو صاحب وزیراعظم پاکستان نے علیحدہ کر کے کروڑوں مسلمانوں کو مطمئن کیا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
پاکستان بننے کے بعد انگریزوں کا دخل
ہماری قسمت میں یہی لکھا تھا کہ پاکستان بننے کے بعد صوبہ سرحد کا گورنر کنگھم انگریز ہو۔ ساری پاکستانی فوج کا کمانڈر انچیف مسٹر گریسی انگریز ہو۔ جب کہ ہندوستان کا گورنر جنرل لارڈ مونٹ بیٹن تھا۔ مسٹر گریسی کے زمانہ میں مرزائیوں کی ایک فوج بنائی گئی جس کا نام فرقان بٹالین تھا۔ جس کو بعد میں مسلمانوں کے شدید مطالبہ پر مسٹر گریسی نے توڑا۔ مگر بے انتہاء تعریف کے ساتھ، کشمیر کی لڑائی میں میجر جنرل نذیر احمد پیش پیش رہا۔ چوہدری ظفر اﷲ خان کا ہم زلف تھا اور آخر کار شہید ملت لیاقت علی خان کے سازش 2442کیس میں گرفتار ہو کر ملازمت سے علیحدہ ہوا۔ تعجب ہے کہ کچھ عرصہ بعد اس مجرم کو لاہور کارپوریشن کا ’’میئر‘‘ بنادیا گیا۔ جس کے خلاف غلام غوث ہزاروی نے مغربی پاکستان اسمبلی ۱۹۶۲ء میں آواز اٹھائی۔
اب اس بیان کی ضرورت نہیں کہ کس طرح مرزائی فرقہ آہستہ آہستہ ہزاروں آسامیوں پر فائز ہوکر مسلمانوں کے لئے مارآستین بنا۔ ہمارے بچوں کے حقوق تباہ ہوئے۔ عقائد کی جنگ شروع ہوئی۔ جس سے مذہب کو عظیم نقصان پہنچا۔ ایک بات سے اس پر تھوڑی روشنی پڑتی ہے کہ چوہدری ظفر اﷲ خان نے ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں منیر کمیشن کے سامنے کہا کہ جب لیاقت علی خان صاحب مرحوم باہر جاتے تو وزارت عظمیٰ کا قلمدان میرے سپرد کرتے۔
فرنگی نے متحدہ ہندوستان سے جاتے جاتے مرزائی وفاداری کا حق یوں ادا کیا کہ پنجاب کے انگریز گورنر سرموڈی نے ان کو چنیوٹ کے پاس بہت بڑی زمین کوڑیوں کے مول دے دی۔ جو انجمن احمدیہ کے نام وقف ہے۔ مگر مرزابشیرالدین محمود نے اس زمین کے ساتھ ذاتی جائیداد کا سا معاملہ بناڈالا۔ یہیں بہشتی مقبرہ بنایا اور یہیں نبوت کا کاروبار چلایا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
موجودہ فساد اور اسمبلی
اب جب کہ مرزائیوں نے ۲۹؍مئی ۱۹۷۴ء کو ربوہ سٹیشن پر کالج کے طلبہ پر حملہ کر کے ان کو زدوکوب کیا تو ملک میں جو پہلے ہی سے ان کے خلاف تھا۔ جس کی نشاندہی مسٹر منیر صاحب جج انکوائری کورٹ پہلے سے کر چکے تھے۔ خطرناک ہل چل شروع ہوگئی اور ان کے خلاف دریا امڈ آیا۔ ہم نے قومی اسمبلی میں، پھر لاہور ٹربیونل کے سامنے یہ کہا کہ ہوسکتا ہے کہ مرزائیوں نے ربوہ اسٹیشن کی حرکت پاکستان دشمنوں کی سازش سے کی ہو، 2443تاکہ ملک میں فسادات ہوں اور دشمن اپنا الّو سیدھا کرے۔ اس کا ایک قرینہ ہے جب کہ مرزائیوں نے مسلمانوں کے پر امن جلوسوں پر گولیاں چلائیں۔ عوامی حکومت نے عوامی مطالبہ کے پیش نظر اسمبلی سے کہا کہ وہ اس سلسلے میں مرزائیوں کی مذہبی پوزیشن کا تعین کرے۔ پہلے بطور تمہید کے چند باتیں عرض کی جاتی ہیں۔ پھر مسئلہ ختم نبوت پر بحث کی جائے گی۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
عقائد فاسدہ کی بھرمار
۱… مرزاقادیانی نے جب خود مسیح موعود بننے کی ٹھان لی تو اس کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت ثابت کرنے کے لئے سینکڑوں آیتوں، حدیثوں اور روایات اسلامیہ کاانکار یا ان کی مضحکہ خیز تاویلات کرنی پڑیں۔
۲… آنے والا مسیح چونکہ نبی تھا اور مرزاجی کا دامن اسلام کے مقتضیات سے بالکل خالی تھا۔ اس لئے اس نے سرور عالم ﷺ کے اتباع کی آڑ لی اور آپ کا تابع نبی بنا۔ اسی طرح غیرمستقل اور غیرتشریعی نبوت بھی اس کو ثابت کرنی پڑی اور ختم نبوت کی سینکڑوں آیتوں، حدیثوں اور امت کے اجماعی فیصلے کے خلاف رکیک باتیں بنانی پڑ گئیں۔
۳… چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تمام اہل اسلام کے متفقہ عقیدے کے مطابق آسمان پر زندہ لے جائے گئے۔ تو مرزاجی نے آسمان پر جانے کو محال ثابت کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ کی معراج جسمانی سے بھی انکار کر دیا۔
۴… 2444بعضوں کے قول کے مطابق وہ چند منٹ یا چند سیکنڈ سو کر آسمان پر اٹھائے گئے اور عیسائیوں نے لکھا پھر زندہ ہوکر آسمان پر لے جائے گئے۔ اسی طرح قرآن پاک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزہ احیاء موتیٰ یعنی مردے زندہ کرنے کا ذکر کرتا ہے تو مرزاجی کو ان آیتوں کا بھی انکا کرنا پڑا۔ جن سے دنیا میں حسب فرمان وبیان قرآن مردہ زندہ کرنے کا ذکر ہے اور ایسی آیتیں قرآن میں بہت ہیں۔
۵… چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات تھے اور یہ بیچارہ خالی خولی تھا۔ اس لئے اس نے سرے سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ان معجزات کا بھی انکار کر دیا۔
۶… چونکہ اس کی پیش گوئیاں جھوٹی نکلیں۔ اس لئے اس نے باقی انبیاء علیہم السلام اور خود سرور عالم ﷺ کو بھی ملوث کرنا چاہا کہ وہ بھی کبھی کبھی اپنی وحی اور الہام کا معنی نہیں سمجھتے تھے۔ بلکہ یہاں تک تہمت لگادی کہ ایک بار چار سو نبیوںکی پیش گوئی غلط ثابت ہوئی۔
(ازالہ اوہام ص۶۲۹، خزائن ج۳ ص۴۳۹)
۷… اس کو مسیح ابن مریم بننے کے لئے بڑے پاپڑ بیلنے پڑے۔ کبھی مریم بنا، پھر مریم سے عیسیٰ پیدا ہوکر خود عیسیٰ ابن مریم بنا۔ کبھی روحانی واخلاقی مماثلت ثابت کر کے مسیح بنا۔ کبھی ابجد کا حساب لڑا کر مسیح بنا۔ کبھی کہا کہ مخالف میرا حیض دیکھنا چاہتے ہیں وہ اب کہاں رہا۔ وہ اب بچہ بن گیا ہے۔ اس طرح مرزاجی نے مریم مرتبہ سے عیسوی مرتبہ میں داخل ہونے کی سبیل نکالی۔ کبھی بروز وحلول کا سہارا لے کر مسیح بنا۔ پھر مسیح کے نزول کی سینکڑوں روایات کے معانی اپنی طرف سے گھڑنے پڑے۔
۸… 2445چونکہ مرزاجی کو مسیح ابن مریم بننے کا شوق تھا اور ساری امت مسیح ابن مریم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سوا کسی کو ماننے کے لئے تیار نہ تھی تو اس نے سرور عالم ﷺ کی اتباع کی آڑ لی۔ اسی لئے آپ کی تمام صفات کا بروز بنا بلکہ اس کو فنا فی الرسول ہونے اور حضرت سرور عالم ﷺ سے متحد الذات ہونے کی گپیں لگانی پڑیں۔
۹… کبھی مجدد والی روایت کا سہارا لے کر مجدد کہلایا اور کبھی مکالمات الٰہیہ اور تحدیث کے بہانے محدث اور ناقص نبی بنا۔
۱۰… اس کو خود مسیح بننا تھا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں بہت کچھ گستاخیاں کیں اور ان کی وفات ثابت کرنے کے لئے تمام کتابوں میں رطب ویا بس جمع کیں۔
۱۱… وجاہت، اقتدار اور دولت کا چسکہ لگ جائے تو بات کہیں روکنے سے رکتی نہیں۔ چنانچہ مرزاجی ہندوؤں کو ساتھ ملانے کے لئے کرشن کا اوتار بنے۔ اسی طرح رودرگوپال بھی بنا اور سکھوں کے لئے جے سنگھ بہادر بھی۔ اس نے مہدی، مسیح بلکہ تمام پیغمبروں کے نام اپنے اوپر چسپاں کئے۔
۱۲… (تذکرہ ص۳۱۱، ۴۱۰ طبع سوم، کتاب البریہ ص۷۶، خزائن ج۱۳ ص۱۰۲) میں یہ وحی بھی اپنے اوپر اتروائی۔ ’’آواہن‘‘ جس کا معنی بھی خود مرزاجی نے کیا کہ ’’خدا تمہارے اندر اتر آیا ہے‘‘ معاذ اﷲ! وہ کون سا کفر ہے کہ جو مرزاجی نے اختیار نہ کیا ہو۔
۱۳… خدائی کا دعویٰ: اور جب دیکھا کہ چیلے چانٹے مانتے چلے جاتے ہیں تو یہاں تک کہہ دیا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں خدا ہوں۔ پھر میں نے زمین وآسمان پیدا کئے۔ (ظاہر ہے کہ پیغمبر کا خواب وحی ہوتا ہے تو اب اس 2446وحی کو آپ خود دیکھیں شیطانی ہے یا رحمانی)
(آئینہ کمالات اسلام ص۵۶۴، خزائن ج۵ ص۵۶۴، کتاب البریہ ص۷۸، خزائن ج۱۳ ص۱۰۳)
دعویٰ یہ ہے کہ میں پیغمبر ہوں۔ مگر پیغمبر دین کا محافظ ہوتا ہے۔ کسی پیغمبر نے ایسا خواب یا کشف بیان نہیں کیا۔
۱۴… چونکہ مسیح علیہ السلام کے زمانہ میں آخری وقت میں اسلام کی عالمگیر فتح مروی ہے اور مرزاجی انگریزوں کے دعاگو تھے۔ اس لئے فتح سے روحانی اور مباحثے کی فتح مراد لی اور اس کے مریدوں نے روحانی فتح کو خوب ہوادی۔ مگر اس میں بھی چاروں شانے چت رہا۔ علمائے حق نے اس کا ناطقہ بند کر دیا۔
اور باوجود سرکاری سرپرستی کے مرزائی کسی جگہ کامیاب مقابلہ ومناظرہ نہ کر سکے۔ بھاگ بھاگ کر روحانی فتح کا نقارہ بجاتے رہے۔ جیسے پہلے جنگ عظیم میں کسی نے کہا تھا کہ فتح انگلش کی ہوتی ہے۔ قدم جرمن کا بڑھتا ہے۔
۱۵… ہمارے پاس کسی کے الہام، کسی کی وحی، کسی کے کشف اور کسی کے دعوے پرکھنے کے لئے قرآن وحدیث ہی تھے۔ مگر مرزاقادیانی نے حیات مسیح کے سلسلہ میں حدیث کا قصہ یوں ختم کیا۔ اس نے لکھا ’’میں حکم بن کر آیا ہوں۔ مجھے اختیار ہے۔ حدیثوں کے جس ڈھیر کو چاہوں خدا سے وحی پاکر ردی کر دوں۔‘‘ چاہے ایک ہزار حدیث ہوں۔
(حاشیہ ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۱۰، خزائن ج۱۷ ص۵۱، اعجاز احمدی ص۳۰، خزائن ج۱۹ ص۱۴۰)
اب حدیث سے بھی اس کو نہیں پرکھا جاسکتا۔ بس آنکھیں بند کر کے اس پر ایمان لانا ہوگا۔ ورنہ ستر کروڑ مسلمان مرزاجی کو نہ ماننے کی وجہ سے کافر ہو 2447جائیں گے۔ قرآن وحدیث سے کسی الہام یا انسان کو پرکھنے کا راستہ تو اس نے بند کر دیا۔ اب جو چاہے کرے۔ دینی بحث سرور عالم ﷺ اور آپ کے مبارک صحابہؓ سے منقول روایات کے ذریعے ہوسکتی ہے۔ دین ہے ہی وہ جو پیچھے سے نقل ہوتا چلا آرہا ہے۔ مگر مرزاجی نے اپنی کتاب (اربعین نمبر۴ ص۱۹، خزائن ج۱۷ ص۴۵۴) پر لکھ دیا ہے کہ مجھے خدا نے مسیح کر کے بھیجا اور بتادیا ہے کہ فلاں حدیث سچی اور فلاں جھوٹی ہے اور قرآن کے صحیح معنوں سے مجھے اطلاع بخشی ہے تو پھر میں کس بات میں اور کس غرض کے لئے ان لوگوں سے منقولی بحث کروں۔ جب کہ مجھے اپنی وحی پر ایسا ایمان ہے جیسے کہ توریت، انجیل اور قرآن پر۔
۱۶… افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنی سخت کلامی اور تشدد میں مذہبی حدود کے اندر رہنا کافی نہ سمجھا۔ بلکہ اس نے اپنی تحریرات میں وہ طریقہ اختیار کیا جو کسی طرح دائرہ تہذیب میں نہیں آسکتا۔ حالانکہ اس کا دعویٰ نبوت اور مسیحیت کا تھا اور وہ سرور عالم ﷺ کی تمام صفات واخلاق اپنے اندر جذب ہونے کا بھی مدعی تھا۔ اس نے ظاہری طور پر سہی مگر اپنے جھوٹے دعوؤں کی لاج نہ رکھی۔ (چنانچہ اس کی گالیاں بطور ضمیمہ علیحدہ آپ ملاحظہ کریں)
۱۷… عین محمد ہونے کا دعویٰ: اس بل بوتے پر مرزاقادیانی دعویٰ کرتے ہوئے (ایک غلطی کا ازالہ ص۶، خزائن ج۱۸ ص۲۱۶) میں لکھتے ہیں کہ میں عین محمد ہوں۔ اس طرح مہر نبوت نہ ٹوٹی اور محمد کی نبوت محمد ہی کے پاس رہی۔ (انا ﷲ وانا الیہ راجعون! کیا زبردست چور ہے کہ مہر بھی نہ ٹوٹی اور مال بھی چرالے گئے) ہم پوچھتے ہیں کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے یہ جو کہا ہے کہ میں عین محمد ہوں واقعی وہ دو شخص 2448نہیں ایک ہی ہیں، تو یہ صاف غلط اور مشاہدے کے خلاف ہے اور اگر دو ہیں تو مہر نبوت ٹوٹ گئی اور یہ کہنا غلط ہوا کہ محمد کی نبوت محمد ہی کے پاس رہی اور اگر حضرت ﷺ کی روح پاک مرزاجی میں آئے گی تو یہ ہندوؤں کا عقیدۂ تناسخ ہے جو قطعاً باطل ہے اور اگر مراد یہ ہے کہ مرزاقادیانی آپ ﷺ کے اخلاق وصفات کے مظہر ہیں تو اس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی غلط بیانی نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ جس پیغمبر کے اخلاق وعادات کے سامنے بڑے بڑے مخالفین نے ہتھیار ڈال دئیے۔ اس کی ہمسری کا دعویٰ مندرجہ بالا حوالہ جات وواقعات والا شخص کرے؟ یہ قطعاً صحیح نہیں۔
۱۸… ظاہر ہے کہ ظل (سایہ) اور ذی ظل (جس کا سایہ ہے) قطعاً ایک نہیں ہو سکتے۔ سایہ میں وہ تمام صفات نہیں آسکتی اور اگر کوئی شخص بعض صفات کی وجہ سے عین محمد بنے تو ہم پوچھتے ہیں کہ مرزاجی نے (اربعین نمبر۴ ص۱۶، خزائن ج۱۷ ص۴۴۷) یقینا سمجھو کہ خدا کی اصلی اخلاقی صفات چار ہیں۔
۱… رب العالمین، سب کو پالنے والا۔
۲… رحمان، بغیر عوض کسی خدمت کے خود بخود رحمت کرنے والا۔
۳… رحیم، کسی خدمت پر حق سے زیادہ انعام۔ انعام وکرام کرنے والا اور خدمت کرنے والا اور خدمت قبول کرنے والا اور ضائع نہ کرنے والا۔
۴… اپنے بندوں کی عدالت کرنے والا۔
سو احمد وہی ہے جو ان چاروں صفتوں کو ظلی طور پر اپنے اندر جمع کرے، تو کیا مرزاغلام احمد قادیانی یا رسول اﷲ ﷺ ظلی طور پر خدا اور عین خدا ہوگئے؟ یہ سب غلط اور ہذیان صرف نبی بننے کے شوق کو پورا کرنا ہے۔
۱۹… ایک بات اس سے یہ معلوم ہوئی کہ جب مرزاجی کہتے ہیں کہ محمد کی نبوت محمد ہی کے پاس رہی اور مہر نبوت نہیں ٹوٹی تو وہ اس بات کے معترف ہوگئے کہ 2449نبوت تو ختم ہے اور کوئی جدا شخص نبی نہیں بن سکتا۔ رہ گیا میں تو میں عین محمدہوں۔ مجھ میں اور سرور عالم ﷺ میں کوئی دوئی نہیں ہے۔ میں بالکل وہی ہوں۔ (یہ منہ اور مسور کی دال)
جناب چیئرمین: اب ہم چائے کے لئے وقفہ کرتے ہیں اور پھر گیارہ بج کر بیس منٹ پر دوبارہ شروع کریں گے۔
مولانا عبدالحکیم: جی، جناب؟
جناب چیئرمین: ہم چائے کے لئے وقفہ کرتے ہیں اور پھر گیارہ بج کر بیس منٹ پر شروع کریں۔
مولانا عبدالحکیم: بہت اچھا! جیسا آپ حکم فرمائیں۔
----------
[The Special Committee adjourned for tea break to meet at 11: 20 am.]
(خصوصی کمیٹی کا اجلاس چائے کے وقفہ کے لئے صبح گیارہ بج کر بیس منٹ تک ملتوی کر دیا گیا)
----------
[The Special Committee re-assembled at 11:20 am, Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali) in the Chair.]
(خصوصی کمیٹی کا اجلاس مسٹر چیئرمین صاحبزادہ فاروق علی کی زیرصدارت صبح گیارہ بج کر بیس منٹ پر دوبارہ شروع ہوا)
----------
جناب چیئرمین: مولانا عبدالحکیم! مولانا صاحب! کم از کم ڈیڑھ بجے تک ہم بیٹھیں گے۔ اگر آپ تھک جائیں تو بتادیں۔ تو ہم ایک بجے دس منٹ کابریک کر لیں گے۔ ممبر صاحبان کھسکنا شروع نہ ہو جائیں۔
مولانا عبدالحکیم:
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
دعاوی مرزا
ماخوذ از کتاب دعاوی مرزا
تصنیف: مولانا مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندیؒ
2450یوں تو مہدی بھی ہو عیسیٰ بھی ہو سلمان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو
دنیا میں بہت سے گمراہ فرقے پیدا ہوئے اور آئے دن ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن مرزائی فرقہ ایک عجیب چیستان ہے۔ اس کے دعوے اور عقیدہ کا پتہ آج تک خود مرزائیوں کو بھی نہیں لگا۔ جس کی وجہ اصل میں یہ ہے کہ اس فرقہ کے بانی مرزاقادیانی نے خود اپنے وجود کو دنیا کے سامنے لاینحل معمّے کی شکل میں پیش کیا ہے اور ایسے متناقض اور متضاد دعوے کئے کہ خود ان کی امت بھی مصیبت میں ہے کہ ہم اپنے گرو کو کیا کہیں۔ کوئی تو ان کومستقل صاحب شریعت نبی کہتا ہے کوئی غیرتشریعی نبی مانتا ہے اور کسی نے ان کی خاطر ایک نئی قسم کا نبی لغوی تراشا ہے اور ان کو مسیح موعود، مہدی اور لغوی یا مجازی نبی کہا ہے۔
اور یہ حقیقت ہے کہ مرزاصاحب کا وجود ایک ایسی چیستان ہے جس کا حل نہیں۔ انہوں نے اپنی تصانیف میں جو کچھ اپنے متعلق لکھا ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ متعین کرنا بھی دشوار ہے کہ مرزاصاحب انسان ہیں یا اینٹ پتھر، مرد ہیں یا عورت، مسلمان ہیں یا ہندو، مہدی ہیں یا حارث، ولی ہیں یا نبی، فرشتے ہیں یا دیو۱؎۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
2451مرزائیوں کے تمام فرقوں کو کھلا چیلنج
اس لئے دعویٰ کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ مرزائی امت کے تینوں فرقے مل کر قیامت تک یہ بھی متعین نہیں کر سکتے کہ مرزاصاحب کا دعویٰ کیا ہے اور وہ کون ہیں اور کیا ہیں۔ دنیا سے اپنے آپ کو کیا کہلوانا چاہتے ہیں۔ لیکن جب ہم مرزاصاحب کی تحریرات کو بغور پڑھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ دعویٰ میں اختلاط واختلاف بھی ان کی ایک گہری چال ہے۔ وہ اصل میں خدائی کا دعویٰ کرنا چاہتے تھے۔ لیکن سمجھے کہ قوم اس کو تسلیم نہیں کرے گی۔ اس لئے تدریج سے کام لیا۔ پہلے خادم اسلام مبلغ بنے۔ پھر مجدد ہوئے۔ پھر مہدی ہوگئے اور جب دیکھا کہ قوم میں ایسے بے وقوفوں کی کمی نہیں جو ان کے ہر دعویٰ کو مان لیں تو پھر کھلے بندوں، نبی، رسول، خاتم الانبیاء وغیرہ سبھی کچھ ہوگئے اور ہونہار مرد نے اپنے آخری دعویٰ (خدائی) کی بھی تمہید ڈال دی تھی۔ جس کی تصدیق عبارات مذکورہ نمبر۲۶ لغایت نمبر۳۰ سے بخوبی ہوتی ہے۔ لیکن قسمت سے عمر نے وفانہ کی ورنہ مرزائی دنیا کا خدا بھی نئی روشنی اور نئے فیشن کا بن گیا ہوتا۔ خود مرزاصاحب کی عبارات ذیل اس تدریجی ترقی اور اس کے سبب ہمارے دعویٰ کی گواہ ہیں۔
(نصرۃ الحق المعروف براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۵۳، خزائن ج۲۱ ص۶۸) پر فرماتے ہیں۔ ’’میری دعوت کی مشکلات میں سے ایک رسالت ایک وحی الٰہی ایک مسیح موعود کا دعویٰ تھا۔‘‘ (اور پھر فرماتے ہیں) ’’علاوہ اس کے اور مشکلات یہ معلوم ہوئیں کہ بعض امور اس دعوت میں ایسے تھے کہ ہرگز امید نہ تھی کہ قوم ان کو قبول کر سکے اور قوم پر تو اس قدر بھی امید نہ تھی کہ وہ اس امر کو بھی تسلیم کر سکیں کہ بعد زمانہ نبوت وحی غیرتشریعی کا سلسلہ منقطع نہیں ہوا اور قیامت تک باقی ہے۔‘‘
2452نیز حقیقت الوحی کی عبارت ذیل بھی خود اس تدریجی ترقی کی شاہد ہے۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پہلے مرزاصاحب ختم نبوت کے قائل تھے اور اپنے کو نبی نہیں کہتے تھے۔ بعدمیں ارزانی غلہ نے نبی بنا دیا۔
(حقیقت الوحی ص۱۴۹، ۱۵۰، خزائن ج۲۲ ص۱۵۳)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ ’’اگر کوئی مرزائی یہ ثابت کر دے کہ یہ عبارت مرزاصاحب کی نہیں ہے تو فی عبارت دس (۱۰)روپے انعام۔‘‘
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
’’اسی طرح اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے۔ وہ نبی اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے، اور اگر کوئی امر میری فضیلت کے متعلق ظاہر ہوتا تھا تو میں اس کو جزوی فضیلت قرار دیتا تھا۔ مگر بعد میں جو خداتعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی۔ اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا۔‘‘
----------
[At this stage Mr. Chairman vacated the Chair which has accupied by (Prof. Ghafoor Ahmad)]
(اس موقع پر مسٹر چیئرمین نے صدارت چھوڑ دی اور پروفیسر غفور احمد نے صدارت سنبھال لی)
----------
مولانا عبدالحکیم: اس کے بعد ہم مرزاصاحب کے دعاوی خود ان کی تصانیف سے معہ حوالہ صفحات نقل کرتے ہیں جو دعوے متعدد کتابوں اور مختلف مقامات میں موجود ہیں۔ بغرض اختصار عبارت تو ان میں سے ایک ہی نقل کر دی گئی ہے۔ باقی حوالہ صفحات درج کر دئیے گئے ہیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مبلغ اسلام اور مصلح ہونے کا دعویٰ
’’یہ عاجز مؤلف براہین احمدیہ حضرت قادر مطلق جل شانہ کی طرف سے مامور ہوا ہے کہ بنی اسرائیل مسیح کے طرز پر کمال مسکینی وفروتنی وغربت وتذلل وتواضع سے اصلاح خلق کے لئے کوشش کرے۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۰)
 
Top