ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’
فانی آخر الانبیاء ومسجدی آخر المساجد
(مسلم ج۱ ص۴۴۶، باب فضل الصلوٰۃ بمسجد مکۃ والمدینۃ ونسائی شریف)‘‘
اس حدیث شریف کے پہلے حصے نے تو سرور عالم ﷺ کے آخری نبی ہونے کی تصریح فرمادی ہے۔ لیکن مرزائی بڑے خوش ہیں کہ ان کو احادیث کا معنی بدلنے کا موقعہ اس حدیث کے دوسرے جزو سے ہاتھ آگیا وہ کہتے ہیں کہ جیسے حضور ﷺ کی مسجد کے بعد ہزارں مسجدیں بنی ہیں اسی طرح آپ ﷺ کے بعد اور نبی آسکتے ہیں۔ مگر قدرت کو یہی منظور ہے کہ یہ ہر ہر جگہ لاجواب اور رسوا ہوں۔ چنانچہ اسی حدیث کو امام دیلمی، ابن نجار اور امام بزارؒ نے نقل فرمایا اور اس میں یہ الفاظ ہیں ’’ومسجدی آخر مساجد الانبیائ‘‘ کہ میری مسجد پیغمبروں کی مساجد میں سے آخری مسجد ہے (کنزالعمال) لیجئے! حدیث کی تشریح خود دوسری حدیث نے کر دی اور مرزائیوں کی خوشی خاک میں ملادی۔
ان روایات سے آپ کو صحابہ کرامؓ کی تفسیر کا بھی علم ہوگیا۔ کسی صحابیؓ نے کسی ایک حدیث کے مطلب کا انکار نہیں کیا اور کر کیسے سکتے تھے۔ وہ تو حضور اکرم ﷺ کے اشاروں پر جان قربان کرنے والے تھے۔
تیرہ سو سال تک انہی معانی پر اور سرور کائنات ﷺ کے خاتم النّبیین ہونے پر تمام علماء کرام، محدثین، مجددین اور مجتہدین بلکہ عام اہل اسلام کا اتفاق رہا اور مدعی نبوت سے کبھی نہیں پوچھا گیا کہ تو کس قسم کی نبوت کا مدعی ہے۔ بلکہ اس کو سخت ترین سزادی گئی۔
۱… قرآن پاک کی صریح روایات اور خود سرور کائنات کی تفسیر پھر صحابہ کرامؓ کی متواتر روایات کے بعد کسی اجماع کے نقل کی ضرورت نہیں ہے۔ جب کہ کسی صحابیؓ نے اس معروف ومشہور تفسیر کا انکار بھی نہیں کیا۔ جب کہ اس کا تعلق کفر وایمان سے تھا تو یہ بات بجائے خود تمام اسلاف کا اجماع ہوگیا کہ سرور عالم ﷺ کی تشریف آوری اور بعثت سے انبیاء علیہم السلام کی تعداد پوری ہو چکی ہے اور خاتم النّبیین کے بعد کسی قسم کا پیغمبر کسی نام سے نہیں بن سکتا اور اگر یہ مان لیا جائے کہ خاتم النّبیین اور لا نبی بعدی اور خاتم الانبیاء کا معنی تیرہ سو سال تک صحابہؓ اور تابعین اور کاملین اسلام پر باوجود پوری کوشش وکاوش کے کھل نہ سکا تو قرآن پاک ہدایت کی کتاب کیسی ہوئی۔ العیاذ باﷲ! چیستان ہوگئی اور پھر آج کے نئے معنوں کا کیا اعتبار رہ سکتا ہے؟
۲… تفسیر روح المعانی میں ہے: ’’
وکونہ ﷺ خاتم النّبیین ممانطق بہ الکتاب وصدقت بہ السنۃ واجمعت علیہ الامۃ فیکفر مدعی خلافہ ویقتل ان اصرّ
(روح المعانی ج۲۲ ص۳۹، زیر آیت خاتم النّبیین)‘‘ 2407{اور آنحضرت ﷺ کا آخر النّبیین ہونا ان مسائل میں سے ہے جن پر قرآن نے تصریح کی اور جن کو احادیث نے صاف صاف بیان کیا اور جن پر امت نے اجماع کیا۔ اس لئے اس کے خلاف دعویٰ کرنے والے کو کافر سمجھا جائے گا اور توبہ نہ کرے بلکہ اپنی بات پر اصرار کرے تو قتل کر دیا جائے گا۔}
۳… حجۃ الاسلام امام غزالیؒ نے اپنی کتاب (اقتصاد ص۱۲۳، مطبوعہ مصر، الباب فی بیان من یجب التکفیر من الفرق) میں اس مسئلہ کو یوں بیان فرمایا ہے کہ جس نے اس کی تاویل کی وہ بکواس ہے۔ امت کا اجماع ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں آسکتا۔ اس میں کسی قسم کی تاویل وتخصیص نہیں ہے۔
۴… (شرح عقائد سفارینی ص۲۵۷) پر بھی احادیث کے متواتر ہونے کا قول فرمایاہے۔
اس مسئلہ پر ہم اتنے ہی پر اکتفاء کرتے اور ساتھ ہی حضرت مولانا مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحبؒ کراچی کی کتاب منسلک کرتے ہیں جس میں سو آیات سے اور دوسو حدیثوں سے اور سینکڑوں اقوال سلف صالحین سے مسئلہ ختم نبوت ثابت کیاگیا اور مخالفین کے تمام اوہام اور وساوس کا تار پود بکھیر کے رکھ دیا ہے۔ جو تفصیل دیکھنا چاہے یہ کتاب دیکھے۔
البتہ مرزائیوں کا منہ بند کرنے کے لئے خود مرزاجی کے تین قول نقل کر دیتے ہیں۔ مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنی کتاب (حمامتہ البشریٰ ص۲۰، خزائن ج۷ ص۲۰۰) پر لکھا ہے۔
2408۱… ’’
لانہ یخالف قول اﷲ عزوجل ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النّبیین الا تعلم ان الرب الرحیم المتفضل سمّٰی نبینا ﷺ خاتم الانبیاء بغیر استثناء وفسرّہ نبینا فی قولہ لا نبی بعدی ببیان واضح للطالبین… وقد انقطع الوحی بعد وفاتہ وختم اﷲ بہ النّبیین
‘‘
’’اس لئے کہ یہ خداتعالیٰ کے اس قول کے مخالف ہے ’’ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النّبیین‘‘ کیا تو نہیں جانتا کہ خدائے مہربان نے ہمارے نبی کا نام بغیر استثناء کے خاتم الانبیاء رکھا اور ہمارے نبی نے اس کی تفسیر لا نبی بعدی میں واضح بیان سے صاحب طلب لوگوں کے لئے کر دی (دوسطروں کے بعد) اور وحی منقطع ہوچکی ہے۔ آپ کی وفات کے بعد اور اﷲتعالیٰ نے آپ کے ذریعہ نبیوں کو ختم کر ڈالا ہے۔‘‘ مرزاغلام احمد کے اس قول سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ سرور عالم ﷺ کی وفات شریف کے بعد وحی بند ہوچکی ہے اور اﷲتعالیٰ نے بغیر کسی استثناء کے آپ ﷺ کو خاتم الانبیاء قرار دیا دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ حضور ﷺ کا یہ ارشاد کہ لانبی بعدی قرآن پاک کی واضح تفسیر ہے۔
۲… مرزاجی نے اسی کتاب (حمامتہ البشریٰ) پر لکھا ہے:
’’
وماکان لی ان ادعی النبوۃ واخرج من الاسلام والحق بقوم کافرین
‘‘
(حمامتہ البشریٰ ص۷۹، خزائن ج۷ ص۲۹۷)
’’اور میرے لئے یہ جائز نہیں کہ نبوت کا دعویٰ کر کے اسلام سے خارج ہو جاؤں اور کافروں سے جا ملوں۔‘‘
یعنی دعویٰ نبوت کرنا کافر ہونا ہے۔
2409۳… ’’
ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین
‘‘
’’یعنی محمد ﷺ تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں۔ مگر وہ رسول اﷲ ہیں اور ختم کرنے والا نبیوں کا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۶۱۴، خزائن ج۳ ص۴۳۱)
اب مرزائیوں کو خاتم النّبیین کے معنوں میں بحث نہیں کرنی چاہئے۔
۱… ’’جو دین دین ساز نہ ہو وہ ناقص ہے۔‘‘ یہ بات قطعاً غلط ہے۔ بلکہ سچ پوچھیں تو خود مرزاقادیانی کے ہاں بھی یہ غلط ہے۔ کیونکہ اس نے لکھا ہے کہ نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیاگیا ہوں۔ دوسرے اس کے مستحق نہ تھے۔ حتیٰ کہ صحابہؓ سے لے کر آج تک کوئی بھی مرزا کی طرح نہ تھا۔ چنانچہ اسی مضمون کو اس نے اپنی کتاب (حقیقت الوحی ص۳۹۱، خزائن ج۲۲ ص۴۰۶) میں درج کر کے یہ بھی لکھ دیا کہ وہ ایک ہی ہوگا۔ تو دین دین ساز کہاں رہا؟ یہ تو صرف مرزاجی کی اپنے نفس کی پیروی اور تسویل ہے۔
۲… اور یہ کہنا کہ آپ کی قوت قدسی نبی تراش ہے اور آپ کی مہر سے نبی ہی بنتے رہیں گے اور نبوت ختم کرنا خداتعالیٰ کی رحمت وبرکت کو روکنا اور ختم کرنا ہے۔ قطعاً درست نہیں ہے۔ اس لئے کہ دنیا میں اﷲتعالیٰ نے جس چیز کو پیدا فرمایا ہے اس کو ختم کرنا ہے۔ اگر ایک رسی کا ایک سرا ہے تو دوسرا سرا بھی ہوتا ہے۔ اگر ایک دریا کا ایک کنارہ ہے تو دوسرے کنارے پر جاکر ختم ہو جاتا ہے۔ اگر دن صبح کو شروع ہوتا ہے تو مغرب کو ختم ہوتا ہے۔ اگر دنیا کی ابتداء ہوئی ہے تو اس کی انتہاء بھی ہوگی۔ اگر نبوت حضرت آدم علیہ السلام سے شروع کی ہے تو اس کو بڑھا بڑھا کر خاتم کمالات نبوت حضرت خاتم النّبیین( ﷺ ) 2410پر پورا کامل کر کے ختم کرنا ہے۔ یہاں ہر چیز کی حد ہے۔ اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ’’کل شیٔ عندہ بمقدار (رعد:۸)‘‘ {اس کے ہاں ہر چیز کی مقدار معین ہے۔} اگرچہ بارش رحمت ہے۔ لیکن یہ ضرورت کی حد تک رحمت ہے۔ اگر چند دن مسلسل بارش ہو تو سب روکنے کے لئے دعائیں کریں گے۔
۳… دین سازی کمال نہیں۔ بلکہ نبوت آدم علیہ السلام سے شروع کر کے اس کو کامل کرتے کرتے آخری کمال پر پہنچا کر ختم کرنا کمال ہے۔ ناقص نبی بنا کر ختم کرنا کمال نہیں ہے۔
۴… یہ دین کا کمال نہیں ہے کہ اس دین کے تمام اجزاء پر ایمان لانے کے باوجود صدیوں کے بعد کسی ایک مدعی نبوت پر ایمان نہ لانے سے کروڑوں کی تعداد میں امت کافر ہو جائے۔ جس مدعی کا کوئی ذکر نہ کیاگیا ہو اور نہ حضرت رحمتہ للعالمین نے تمام آنے والی نسلوں کو کفر سے بچانے کے لئے کچھ ارشاد فرمایا ہو۔ جب کہ آپ نے اور بیسیوں امور کی خبریں دیں۔ بلکہ آپ نے لا نبی بعدی کہہ کر گویا اپنی امت کو آمادہ کیا کہ کسی نبی کا بھی اقرار نہ کرو۔ اگر کوئی نبی آنے والا تھا جس کاانکار کفر تھا تو کیا حضور ﷺ نے العیاذ باﷲ مجرمانہ خاموشی اختیار نہیں کی؟ بلکہ اپنی امت کے کافر بننے کا سامان کیا۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون!
۵… یہ کمال نہیں ہے کہ امت کا تعلق اپنے کامل نبی سے واسطہ درواسطہ ہو۔ بلکہ یہ کمال اور بہتر ہے کہ تمام امت کا تعلق اپنے نبی سے بلاواسطہ قائم رہے۔
۶… خاتم النّبیین میں ’’خاتم‘‘ کا تعلق سابقین اور گزرے ہوئے انبیاء علیہم السلام سے ہے۔ نہ ’’لاحقین‘‘ اور آئندہ والوں سے، مرزاجی اور اس کے چیلوں نے کہا کہ خاتم النّبیین کا معنی ہے کہ سارے نبیوں کی مہر ہیں۔ آپ ﷺ نبی 2411تراش ہیں اور آپ ﷺ کی قوت قدسیہ سے نبی بنتے ہیں۔ دراصل دائرۂ نبوت کا مرکزی نقطہ آپ ﷺ کی ذات ہے۔ آپ ﷺ نے تمام کمالات نبوت خود طے فرماکر کمال تک پہنچا دئیے اور ختم کر دئیے۔ آپ ﷺ اسی لئے آخر میں آئے۔ جیسے صدر جلسہ تمام انتظامات کے بعد آتے ہیں۔ جن کے لئے جلسہ منعقد کیاگیا ہو۔ اسی وجہ سے آدم علیہ السلام بھی تمام انتظامات کے بعد لائے گئے کہ وہ انتظامات آپ کے لئے تھے۔ جیسے زمین وآسمان اور سورج وچاند وغیرہ کی پیدائش۔ پھر جب نبوت کو ختم کرنا تھا تو کامل کر کے ایک کامل کے ذریعے ختم کرنا زیادہ مناسب تھا۔ اسی لئے بیت المقدس میں تمام پیغمبر امامت کے لئے آپ کا انتظار کرتے رہے اور اسی لئے آپ نے ارشاد فرمایا۔ ’’
نحن الآخرون والسابقون
(منتخب کنزالعمال علیٰ حامش مسند احمد ج۴ ص۳۰۶)‘‘ {ہم آخری اور پہلے کے ہیں۔}
اور دوسری حدیث جس کو ابن ابی شیبہ اور ابن سعد وغیرہ نے روایت کیا ہے: ’’
کنت اوّل النّبیین فی الخلق وآخرہم فی البعث
(منتخب کنزالعمال علی حامش مسند احمد ج۴ ص۳۰۱)‘‘ {میں پیدائش میں سب سے پہلا نبی تھا اور مبعوث ہونے میں سب سے آخری۔}
اور اسی لئے قیامت میں بھی ’’لواء حمد‘‘ آپ ﷺ کوملے گا اور تمام انبیاء علیہم السلام شفاعت کبریٰ کا معاملہ آپ ﷺ کے سپرد فرمائیں گے۔
اور ایک حدیث نے اس کی تشریح کی ہے جو شرح السنہ اور مسند امام احمدؒ میں ہے۔
’’
انی عند اﷲ مکتوب خاتم النبیین وان آدم لمنجدل فی طینتہ
(مشکوٰۃ ص۵۱۳، باب فضائل سید المرسلین)‘‘ {میں اﷲ تعالیٰ کے ہاں اس وقت خاتم النّبیین تھا۔ جب کہ آدم علیہ السلام ابھی گارے میں تھے۔}
2412یہاں صرف یہ مراد نہیں کہ اﷲتعالیٰ پہلے سے یہ جانتے تھے اور تقدیر ہی یہ تھی۔ کیونکہ اﷲتعالیٰ تو ہر پیغمبر اور اس کے وقت کو جانتے تھے۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ آپ ﷺ کو ایک طرح یہ خصوصیت اور خلعت ختم نبوت کا شرف عطاء ہوچکا تھا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبوت وہبی نعمت ہے یہ کسبی نہیں ہے۔
۷… یہ نبوت کا آپ ﷺ پر خاتمہ دین کا نقصان نہیں ہے۔ بلکہ اﷲتعالیٰ کی نعمتوں میں سے بڑی نعمت ہے۔ اﷲتعالیٰ نے قرآن میں ساری امتوں کو ایک طرف اور اس ساری امت کو دوسری طرف رکھا ہے۔ چنانچہ چند آیتیں حسب ذیل ہیں:
’’
کنتم خیر امۃ اخرجت للناس
(آل عمران:۱۱۰)‘‘ {تم بہترین امت ہو جو لوگوں کی خاطر پیدا کی گئی ہو۔}
’’
وکذالک جعلناکم امۃ وسطاً لتکونوا شہداء علی الناس ویکون الرسول علیکم شہیداً
(بقرہ:۱۴۳)
فکیف اذا جئنا من کل امۃ بشہید وجئنابک علیٰ ہئولاء شہیداً
(نسائ:۴۱)‘‘ {اور ایسے ہی ہم نے تم کو درمیانی (اور بہترین) امت بنایا تاکہ تم باقی لوگوں پر گواہ بنو اور رسول تم پر گواہی دے۔ وہ کیسا وقت ہوگا کہ جب ہم ہر امت میں سے گواہ لائیں گے اور آپ کو ان (سب) پر گواہ بنائیں گے۔} ایسی بہت سی آیات ہیں۔
بہرحال اگر کثرۃ کا کوئی انضباط نہ ہو تو وہ بھیڑ ہو جاتی ہے۔ اگر اس میں نظم وضبط ہو تو وہ ایک طاقت ہوتی ہے۔ کثرت اگر کسی وحدت پر ختم ہو تو وہ مربوط اور قوی طاقت ہوتی ہے۔ تمام انبیاء علیہم السلام، سرور عالم ﷺ کے ماتحت ہیں اور اس وحدت کا مظاہرہ معراج کی رات مسجد اقصیٰ میں ہوا۔ اﷲتعالیٰ نے ساری امتوں کو ایک طرف اور آپ ﷺ کی امت کو دوسری طرف رکھا۔ اس لئے کہ آپ ﷺ آخری نبی اور آپ ﷺ کی امت آخری امت ہے۔
2413۸… پیغمبر شریعت وکتاب لاتے ہیں یا پرانی شریعت کو بیان کرتے اور چلاتے ہیں۔ یہاں تکمیل دین وشریعت کا کام پورا ہو چکا ہے۔ ’’
الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً
(مائدہ:۳)‘‘ {آج میں نے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی مہربانی تم پر پوری کر دی اور تمہارے لئے دین اسلام پسند کر لیا۔}
بقاء وتحفظ شریعت کی ذمہ داری بھی خود خدا نے لے رکھی ہے۔ ’’
انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون
(الحجر:۹)‘‘ {ہم نے ہاں ہم ہی نے یہ قرآن اتار اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔}
سیاست اور ملکی انتظام کاکام خلفاء کے سپرد ہوچکا ہے۔ حدیث شریف میں ہے۔ ’’
کانت بنو اسرائیل تسوسہم الانبیاء کلمّا ہلک نبی خلفہ نبی ولکن لا نبی بعدی وسیکون الخلفاء فیکثرون
(اوکماقال) (بخاری ج۱ ص۴۹۱، کتاب الانبیائ، مسلم ج۲ ص۱۲۶، کتاب الامارۃ)‘‘ {بنی اسرائیل کا انتظام پیغمبر کیا کرتے تھے۔ جب ایک نبی جاتا دوسرا آجاتا۔ مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ البتہ خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے اور تم پہلے خلیفہ سے وفاداری کرتے رہنا۔}
اور مبشرات سچے خوابوں کی طرح نبوت کا جز ہے۔ بعینہ نبوت نہیں نہ جز کو کل کا نام دیا جاتا ہے۔ آدمی کی ٹانگ کو آدمی نہیں کہا جاسکتا۔ نہ اس کی ایک آنکھ کا نام انسان ہوتا ہے۔ یہ اجزاء انسانی ہیں۔ ہاں انسان کی تمام جزئیات کو انسان کہا جائے گا۔ جیسے مرد، عورت، کالا، گورا۔ بہرحال اجزاء 2414اور جزئیات کا فرق ہر پڑھا لکھا جانتا ہے یا حیوان ہر گھوڑے، گدھے اور بلی کو کہہ سکتے ہیں۔ لیکن کسی پاؤں یا سرکو حیوان نہیں کہہ سکتے۔ اب کسی نئے نبی یا نئی شریعت کی اس امت کو ضرورت نہیں ہے اور سرور عالم ﷺ نے صاف اور واضح اعلان فرما کر ہر طرح کی نبوت کا دروازہ بند کر دیا۔ مرزائیوں کو سرور عالم ﷺ کی مخالفت میں مزہ آتا ہے۔ مبشرات کا معنی خود حدیث میں سرور عالم ﷺ نے سچے خواب بتایا ہے۔
۹… یہ کہنا کہ ’’وہ لعنتی دین ہے جو نبی ساز نہ ہو۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۳۸، خزائن ج۲۱ ص۳۰۶)
جیسے کہ مرزاقادیانی اور اس کے چیلے چانٹے کہتے ہیں۔ بالکل غلط ہے۔ یہ بات تو پہلی امتیں بھی کہہ سکتی تھیں پھر تمہاری کون سی تخصیص ہے؟ پہلی امتوں نے اپنے اپنے پیغمبر کی اطاعت کر کے نبوت کے سوا باقی مراتب قرب حاصل کئے اور جس کو اﷲتعالیٰ نے چاہا نبوت عطاء کی۔ وہ دین نبی ساز نہ تھا۔ بلکہ نبیوں کی تعداد باقی تھی۔ اس کو پورا کرنا تھا۔ ان امتوں کی اپنے نبی سے تعلق ونسبت بھی قائم رہی۔ اسی طرح اﷲتعالیٰ کا منشاء ہے کہ یہ آخری امت اپنی نسبت قیامت تک اپنے نبی الزمان سے رکھتے ہوئے مراتب قرب حاصل کرتی رہے۔ کسی دوسرے کا واسطہ درمیان میں نہ ہو۔ یہ بات تو شیطان نے اﷲتعالیٰ سے کہی تھی کہ ذاتی طور سے میں آدم سے بہتر ہوں۔ آپ کے انتخاب اور اجتباء پر دارومدار کیوں ہو کہ آپ آدم کو سجدہ کراتے ہیں؟ اسی لئے شیطان ملعون ومردود ہوا، اور آدم علیہ السلام نے عبودیت اور اطاعت اختیار کی وہ مقبول ہوگئے۔ یہاں بھی مرزاغلام احمد قادیانی نے لکھا کہ ’’نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص ہوں۔ دوسرے کوئی اس کے مستحق نہیں۔‘‘ گویا یہ بھی شیطان کی وراثت تھامے ہوئے اپنا استحقاق اور شدت 2415اتباع ثابت کرتا ہے اور اب اس کے گم کردۂ راہ چیلے چانٹے اس سے وابستہ رہ کر اپنی عاقبت خراب کر رہے ہیں۔
یہاں سے مرزاقادیانی کی یہ جہالت بھی ظاہر ہو گئی ہے کہ پہلے پیغمبر براہ راست پیغمبر ہوئے۔ موسیٰ علیہ السلام یا کسی دوسرے پیغمبر کے اتباع کا اس میں دخل نہ تھا۔ مگر یہاں مجھے حضور ﷺ کی اتباع اور غایت اطاعت سے نبوت کا مقام ملا ہے۔ (حقیقت الوحی) اس لئے کہ پہلے کے پیغمبر بھی کسی نہ کسی پیغمبر کے دین کا اتباع کرتے تھے اور ہم بھی کرتے ہیں۔ نبوت تو موہبت اور بخشش ہے۔ جہاں ظرف اس کے مناسب دیکھا وہاں عطاء فرمادی اور ظرف بھی خود مہربانی کر کے عنایت کرتے تھے۔
’’
اﷲ اعلم حیث یجعل رسالتہ
(انعام:۱۲۴)‘‘ {خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کہاں اپنی نبوت دے۔}
مگر اب تو سلسلۂ نبوت کی تکمیل کر کے اس کو بند فرمادیا۔ جتنے نبی آنے تھے وہ آگئے اور دائرۂ نبوت کی ساری مسافت آپ ﷺ نے طے کر لی اور تکمیل شریعت فرماگئے۔ اب آپ ﷺ کی نبوت کے ہوتے ہوئے اگر کوئی اور بھی نبوت کا دعویٰ کرتا ہے وہ ایسے ہے جیسے کوئی احمق الذی دوپہر کے وقت پوری روشنی میں اپنا چراغ جلا کر بھینس ڈھونڈتا پھرے۔ اس احمق الذی کی عقل کو بھینس ہی کی عقل کہہ سکتے ہیں۔
۱۰… پھر یہ مدعی (مرزا) تو دین محمد کی توہین کرتا ہے کہ سرور عالم ﷺ کی پیروی سے صرف مرزاقادیانی ہی نبی بن سکا اور وہ بھی ایساجو انگریزوں کی اطاعت فرض قرار دے اور غیرمحرم عورتوں سے مٹھیاں بھروائے اور اپنے نہ ماننے والے کروڑوں افراد امت کو کافر قرار دے اور جو پورا وحی کا 2416ڈراوے کا اور لالچ کا اور تقدیر مبرم کا واویلا کر کے محمدی بیگم کو حاصل نہ کر سکا۔ بلکہ مسلسل بیس سال تک اس کی شادی کے زبانی مزے بھی لیتا رہا اور عقل کے اندھے مگر گانٹھ کے پکے مریدوں کو بتلاتا اور پھسلاتا رہا اور اپنے ساتھ سرور عالم ﷺ کو بھی شریک کر کے جھوٹا کرنے کی ناپاک کوشش کی اور یہ وحی بھی ایسی تھی بلکہ اس کو مرزاجی نے اپنے صدق وکذب کا معیار قرار دے کر دنیا کو چیلنج کیا تھا۔
کیا اسی بل بوتے پر ہم اس کی بات یا گپ کو سچ مان لیں کہ میری وحی قرآن کی طرح ہے۔ پھر ایسا شخص کہ جو اپنے نہ ماننے والوں کو کنجریوں کی اولاد کہے۔ اپنے مخالفین کو جنگل کے سور لکھے۔ حضرت پیر مہرعلی شاہ صاحب گولڑہ شریفؒ کو ملعون کہے۔ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کو اندھا شیطان لکھے۔ مولوی سعد اﷲؒ کو نسل بدکاراں قرار دے۔ تمام علماء کو بدذات فرقہ مولویاں سے تعبیر کرے اور حضرت حسینؓ کے مبارک ذکر کو گوہ کے ڈھیر سے تشبیہ دے۔ اپنے کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے افضل کہے۔ بلکہ تمام پیغمبروں کی صفات وکمالات کا اپنے کو جامع قرار دے۔ (یہ منہ اور مسور کی دال) اسی طرح اس نے پیش گوئی کی کہ عبداﷲ آتھم پندرہ ماہ میں مر جائے گا۔ جب وہ نہ مرا تو جھوٹا اعلان شائع کر دیا کہ اس نے رجوع الی الحق کر دیا تھا اور جب ۲۲ماہ بعد وہ اپنی موت مرا تو اعلان کر دیا کہ میری پیش گوئی یہ تھی کہ جھوٹا سچے کے سامنے مرے گا۔ لعنۃ اﷲ علی الکاذبین!
اﷲتعالیٰ ناصر احمد اور سارے قادیانیوں کو سمجھ دے۔ بہت سے نیک آدمیوں کے باپ دادا گمراہ گزرے ہیں۔ اگر یہ بھی توبہ کر کے سچے مسلمان ہو جائیں اور مرزاقادیانی کو خدا کے حوالے کریں۔ پیسے تو اب 2417بہت ہوگئے ہیں۔ عزت بھی مل گئی اور اگر یہ خیال ہو جیسے کہ آپ کی ڈینگوں سے بو آتی ہے کہ کوئی آپ کا سرپرست آپ کو بچالے گا تو ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ آپ کو خدا کے عذاب سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ وہ وقت گیا جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ آپ نے عام مسلمانوں کو بدنام اور ذلیل کرنے کی اپنے بیان میں کوشش کی ہے۔ اس لئے ہم نے یہ چند سطریں لکھ دی ہیں۔
۱۱… خاتم النّبیین میں خاتم کی اضافت نبیین کی طرف ہے۔ یہاں پرانے نبی پیش نظر ہیں۔ آپ ﷺ نے سابقین کی تعداد ختم کر دی جو آئے تھے آگئے۔ اب کسی کو آپ ﷺ کے بعد نبوت نہیں مل سکتی۔ خاتم النّبیین کا معنی خاتم الاحقین نہیں ہے کہ آنے والے آپ ﷺ کی مہر سے آیا کریں گے۔ یہ تو اﷲ پر جھوٹ بولا گیا۔ کیونکہ آپ ﷺ کی مہر سے کون کون آئے کیا مرزاجی یا اس کا پوتا ناصر احمد صاحب بتاسکتے ہیں؟ کیا مرزاجی کے بغیر تیرہ سو سال میں آپ ﷺ کی قوت قدسیہ نامکمل رہی۔ خاتم النّبیین میں پرانے پیغمبروں کا ذکر ہے کہ آپ ﷺ نے ان کی تعداد کو ختم کر دیا اور قصر نبوت کی تکمیل فرما دی۔ اب کوئی شخص نبوت نہ پاسکے گا۔ یہ اضافت اشخاص کی طرف ہے۔ باقی نبوت ورسالت کے خاتمہ کے لئے وہ مبارک الفاظ زیادہ موزوں ہیں جو امام ترمذیؒ نے روایت کئے ہیں وہ حدیث یہ ہے: ’’
ان الرسالۃ والنبوۃ قد انقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی (قال) فشق ذالک علی الناس فقال لکن المبشرات فقال رؤیا المسلم وہی جزء من اجزاء النبوۃ
(ترمذی ج۲ ص۳، باب ذہبت النبوۃ وبقیت المبشرات)‘‘ {رسالت اور نبوت منقطع ہوچکی ہے تو اب میرے بعد نہ کوئی رسول بنے گا نہ نبی (راوی کہتا ہے) یہ بات لوگوں کو مشکل نظر آئی تو آپ ﷺ 2418نے فرمایا۔ لیکن مبشرات باقی ہیں۔ انہوں نے دریافت کیا کہ مبشرات کا کیا مطلب ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ مسلمان کا خواب اور وہ نبوت کے اجزاء میں سے ایک جزو ہے۔}
اس حدیث نے تمام مرتدوں کی کمر توڑ دی ہے۔ جس سے صاف صاف معلوم ہوگیا کہ آپ ﷺ کے بعد نہ کسی کو رسول بنایا جاسکتا ہے کہ جس کے پاس کتاب یا شریعت ہو۔ نہ کسی کو نبی بنایا جاسکتا ہے چاہے وہ دوسرے نبی کا تابع ہو اور کوئی نئی شریعت یا نئے احکام اس کو نہ دئیے گئے ہوں۔ جیسے لفظ خاتم النّبیین نے اگلے پیغمبروں کی تعداد ختم کر دی۔ اس حدیث کے مبارک الفاظ نے بعد میں دعویٰ کرنے والوں کی حقیقت بھی کھول دی۔ اب نہ کسی کے پاس وحی نبوت آسکتی ہے نہ وحی رسالت۔ اب یہ کہنا کہ مستقل نبی ختم ہوگئے۔ غیرمستقل باقی ہیں یا یہ کہ صاحب شریعت نہ آئیں گے مگر تابع اور غیرتشریعی نبی آسکتے ہیں۔ یہ سب بکواس ہے کفر ہے اور دین سے استہزاء ہے۔ اﷲتعالیٰ بچائے۔ آمین! مرزاجی کبھی بروزی اور ظلی نبوت کی آڑ لیتا ہے۔ کبھی فنا فی الرسول ہو کر نبی بننے لگتا ہے۔ کبھی مسیح موعود بننے کے لئے تنکوں کا سہارا لیتا ہے کبھی مریم بنتا ہے۔ پھر مرزاجی کو حیض آتا ہے۔ پھر مریم سے عیسیٰ بن جاتا ہے۔ کبھی آسمان میں اپنا نام محمد واحمد ظاہر کرتا ہے۔ کبھی اپنا نام ہی ابن مریم رکھ لیتا ہے۔ کبھی محدث ومجدد کا روپ اختیار کرتا ہے اور کبھی مہدی کی حدیثوں کو اپنے اوپر چسپاں کرتا ہے۔ کبھی کرشن کا اوتار بنتا ہے اور کبھی جے سنگھ بہادر، کبھی عین محمد بنتا ہے، کبھی مثیل مسیح کہلاتا ہے تو کبھی ان سے افضل۔ کبھی انسان کی جائے نفرت بنتا ہے۔ کبھی انگریزی عدالت میں توبہ نامہ داخل کرتا ہے اور کبھی 2419اپنے معجزات حضور ﷺ سے بڑھ کر ظاہر کرتا ہے۔ غرضیکہ مرزاغلام احمد صاحب عجیب چیز اور ایک چیستان تھے۔ ہم اس کو صرف انگریز کا کمال تصور کرتے ہیں۔ یہ کمال مرزاناصر احمد صاحب کو مبارک ہو۔ اگر ایسا نہیں تو پھر شیطان نے جو تلعب اس سے کیا ہے۔ بہت کم ہی کسی اور سے کیا ہوگا۔
مرزائی لوگ شیخ اکبر کی بعض عبارتیں پیش کر کے ثابت کرتے ہیں کہ وہ بھی غیرتشریعی نبوت کو باقی سمجھتے ہیں۔ یہ صریح دھوکہ ہے اور علمی جہالت ہے۔ دراصل بعض اولیاء یہ کہتے ہیں کہ خداتعالیٰ سے مکالمہ ومخاطبہ ہوسکتا ہے۔ جس کو لغت میں نبوت بھی کہتے ہیں۔ لیکن وہ ساتھ ہی یہ کہتے ہیں کہ نہ کوئی نبوت کا دعویٰ کر سکتا ہے نہ نبی کہلا سکتا ہے۔ نہ اس کی اجازت ہے۔ یہ جو مکالمہ ہوتا ہے اس کا معنی یہ نہیں کہ وہ بیان شریعت کے لئے مامور ہوکر خداتعالیٰ کے ہاں منصب نبوت پالیتا ہے۔ وہ صرف اس مکالمے کو غیرتشریعی نبوت کہتے ہیں۔ تشریعی نبوت وہ ہر اس وحی نبوت کو کہتے ہیں جس میں شریعت کے لئے احکام ہوں۔ نئے یا پرانے اور یہ صرف نبی کے لئے ہوسکتا ہے۔ گویا لغوی طور پر وہ مکالمہ الٰہیہ کا نام غیرتشریعی رکھتے ہیں۔ جس کا معنی یہ ہے کہ شرعی وحی اور نبی کی وحی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ نبی اور رسول ایک عہدہ ہے جو اب ختم ہوچکا ہے۔ اس میں کوئی استثناء نہیں ہے۔ گویا ان اولیاء کے ہاں تشریعی نبوت میں دونوں نبوتیں شامل ہیں جو ختم ہوچکی ہیں۔ نئی شریعت والی اور پرانی شریعت والی یعنی وہ غیرتشریعی کا اطلاق بھی کبھی ولایت پر کر دیتے ہیں۔ لیکن کسی نے آج تک ان میں سے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا۔ نہ نبی ہونے کے اعلان کی اجازت دی۔ اگر مرزائیوں میں سکت ہے تو کسی ولی کا دعویٰ نبوت ثابت کریں۔ یہاں مرزاجی کا ایک قول اولیاء کی اطلاق واصطلاح کے 2420بارے میں سن لیجئے۔ مرزاجی اپنی کتاب (انجام آتھم ص۲۸، خزائن ج۱۱ ص ایضاً) میں لکھتے ہیں: ’’لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ جیسا کہ ابھی ہم نے بیان کیا ہے۔ بعض اوقات خداتعالیٰ کے الہامات میں ایسے الفاظ استعارہ اور مجاز کے طور پر اس کے بعض اولیاء کی نسبت استعمال ہو جاتے ہیں اور وہ حقیقت پر محمول نہیں ہوتے۔ سارا جھگڑا یہ ہے جس کو نادان متعصب اور طرف کھینچ کر لے گئے ہیں۔ آنے والے مسیح موعود کا نام جو صحیح مسلم وغیرہ میں زبان مقدس حضرت نبوی سے نبی اﷲ نکلا ہے وہ انہی مجازی معنوں کے رو سے ہے جو صوفیائے کرام کی کتابوں میں مسلّم اور ایک معمولی محاورہ مکالمات الٰہیہ کا ہے۔ ورنہ خاتم الانبیاء کے بعد نبی کیا۔‘‘
اس عبارت میں مرزاجی نے بہت دجل کئے ہیں۔ مثلاً عبارت مذکورہ میں صحیح مسلم کے حوالے سے لکھا کہ ’’آنے والے مسیح موعود کا نام‘‘ حالانکہ صحیح مسلم میں مسیح موعود کا لفظ نہیں ہے۔ یہ اصطلاح خود مرزاجی نے گھڑی ہے۔ مگر یہاں ہم کو صرف یہ بتانا ہے کہ شیخ اکبر وغیرہ کے الفاظ جو نبوت غیر تشریعی کے آئے ہیں۔ وہ صرف مکالمات الٰہیہ کی وجہ سے آپ کی اصطلاح ہے۔ ورنہ نبوت کا عہدہ اور نبی کے نام کا اطلاق وہ بھی ناجائز سمجھتے ہیں۔ جیسے یہاں مرزاجی نے تصریح کر دی ہے۔ بہرحال قرآن پاک نے خاتم النّبیین فرما کر نبیوں کا بننا بند کر دیا اور جو تعداد اﷲتعالیٰ کے علم میں مقرر تھی اس کے پورا ہونے کا اعلان فرمادیا۔ مگر مرزاجی نے خاتم النّبیین کا مطلب نبی تراش قرار دیا۔ یعنی آپ ﷺ کی پیروی سے نبی بنتا ہے۔ یہ صریح طور پر خداتعالیٰ کا ایسا مقابلہ ہے جو شیطان نے کیا تھا کہ اے اﷲ آپ کیوں آدم کو سجدہ کرواتے ہیں۔میں اس سے اچھا ہوں۔ یعنی اﷲتعالیٰ کی حکمت ومصلحت اور رضاء اور ارادے پر راضی نہ ہوا۔ بلکہ اپنا حق بتایا۔ اس صریح عدول حکمی اور حجت بازی سے کافر ومردود ہوگیا۔ اسی طرح اﷲتعالیٰ جو دروازۂ خاتم النّبیین کہہ کر بند فرمانا چاہتے ہیں مرزاجی اس کا مطلب نبی تراش بتا کر اس کو کھلا 2421رکھنا چاہتے ہیں۔ تاکہ ہر گاما، گھسیٹا فنافی الرسول بن کر نبی بن جایا کرے۔
ایں کار از توآید ومرداں چناں کنند
۱۲… سرور عالم ﷺ پر نبوت کا خاتمہ اﷲ کی اس امت پر بڑا انعام ہے۔ ایک مرزاجھوٹا نبی بنا اور تمام مسلمانوں میں ہلچل پڑ گئی۔ یہ ستر کروڑ مسلمانوں کو کافر کہتے اور وہ سب ان کو کافر سمجھتے ہیں۔ اگر سرور عالم ﷺ ان جھوٹے نبیوں کا سلسلہ بند اور ان سے بچنے کی تاکید نہ فرماتے تو اب تک امت محمدیہ میں کتنے ہی فرقے اور کتنی ہی امتیں ہوتیں۔ جو ایک دوسری کو کافر کہتیں۔ اس لئے مسئلہ ختم نبوت رحمت الٰہیہ ہے۔ چنانچہ (تفسیر ابن کثیر ج۳ ص۲۲) میں ہے: ’’
وہذہ اکبر نعم اﷲ علی ہذہ الامۃ حیث اکمل تعالیٰ لہم دینہم فلا یحتا جون الیٰ دین غیرہ ولا الیٰ نبی غیر نبیہم صلوٰۃ اﷲ وسلامہ علیہ ولہذاجعلہ خاتم الانبیاء وبعثہ الیٰ الانس والجن
‘‘ {اور یہ اﷲتعالیٰ کی اس امت پر بہت بڑی نعمت ہے اورمہربانی ہے کہ اس خدائے برتر نے ان کا دین مکمل کر دیا۔ اب وہ کسی اور دین کے محتاج ہیں نہ اپنے نبی کے بغیر کسی اور نبی کے اور اس لئے ان کو خاتم الانبیاء بنا کر جن وانس کی طرف بھیجا۔}
یہاں تک لکھا گیا تھا کہ آٹھ اگست ۱۹۷۴ء کو مرزاناصر احمد صاحب امام جماعت احمدیہ ربوہ نے خصوصی کمیٹی کے سامنے بیان دے دیا کہ سرور عالم ﷺ کے بعد تیرہ سو برس تک کوئی نبی نہیں آیا نہ مرزاغلام احمد قادیانی کے بعد کوئی نبی آئے گا۔ 2422چاہے امتی نبی ہی کیوں نہ ہو۔ جب محترم اٹارنی جنرل نے سوال کیا کہ ابوالعطاء صاحب جالندھری نے لکھا ہے کہ آپ ﷺ کی خاتمیت نے وسیع دروازہ کھول دیا ہے۔ آپ ﷺ کی امت کے لئے آپ کی پیروی کے طفیل وہ تمام انعامات ممکن الحصول ہیں جو پہلے منعم علیہ لوگوں کو ملتے رہے ہیں تو کیا حضور ﷺ کے اس فیضان سے پہلے تیرہ سو برس میں کوئی نبی یا امتی نبی آیا ہے یامرزاغلام احمد کے بعد آئے گا؟ اس کا جواب مرزاناصر احمد صاحب نے قطعاً انکار میں دیا اور ابوالعطاء صاحب کی بات کو صرف امکان عقلی پر حمل کیا۔ یعنی ہو تو سکتا ہے لیکن ہوگا نہیں اور اس سلسلہ میں مرزاناصر احمد صاحب نے مولانا اسماعیل شہیدؒ کا قول نقل کیا کہ اﷲتعالیٰ کو قدرت ہے کہ ایک آن میں کروڑوں فرشتے جبرائیل اور محمد جیسے پیغمبر پیدا کر دے۔ حالانکہ ان کا ایمان تھا کہ ایسا کبھی نہ ہو گا۔ کوئی بھی محمد رسول اﷲ کی طرح پیدا نہیں ہوگا۔ بلکہ آپ ﷺ خاتم النّبیین ہیں صرف خد اکی قدرت کا بیان ہے۔
مرزاناصر احمد صاحب کے اس بیان کے بعد سارا مسئلہ صاف ہوگیا۔ بقاء نبوت اور اجزاء نبوت کی ساری بحثیں فضول ہیں۔ حضور ﷺ پر نبوت ختم ہو گئی ہے۔ نہ تیرہ سو برس میں پہلے کوئی نبی آیا، نہ مرزاغلام احمد کے بعد آئے گا۔ بقول مرزاناصر احمد کے ایک ہی مرزاغلام احمد امتی نبی بنایا گیا۔ کیونکہ مسلم شریف میں چار جگہ آنے والے کو نبی کہا گیا۔ حالانکہ مسلم شریف اور سینکڑوں احادیث میں ایک مسیح کے نزول کی خبر ہے جو آسمان سے نازل ہوکر دجال کو قتل کریں گے۔ چالیس سال دنیا میں رہیں گے۔ ساری دنیا مسلمان ہو جائے گی۔ پھر وفات ہوگی۔ دنیا کے کروڑوں مسلمانوں کا ابتداء ہی سے یہی عقیدہ رہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ اٹھائے گئے ہیں اور قرب قیامت کو وہی دوبارہ نازل ہوں گے اور مرزاجی کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مر چکے ہیں اور آنے والا مسیح میں ہوں۔
یہاں دو مسئلے ہیں۔
۱… کہ آیا واقعی حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں یا زندہ آسمان میں موجود ہیں اور آخری زمانہ میں دوبارہ نازل ہوں گے۔
۲… دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر بالفرض وہ فوت ہوچکے ہیں تو کیا مرزاغلام احمد قادیانی وہی آنے والا مسیح ابن مریم ہوسکتا ہے؟ جس کی خبر سینکڑوں حدیثوں میں موجود ہے۔
ہم یہاں دوسرے مسئلہ پر پہلے بحث کریں گے۔ فرض کیجئے! حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں تو کیا مرزاغلام احمد قادیانی آنے والا مسیح ہوسکتا ہے؟
مرزاغلام احمد قادیانی کا ہمارے خیال میں یہ دعویٰ جھوٹ، افتراء اور قرآن وحدیث سے مذاق واستہزاء کے مترادف ہے۔ مرزاغلام احمد قادیانی مسیح ابن مریم تو کیا مسلمان ہی نہیں ہوسکتا۔ مندرجہ ذیل امور ملاحظہ فرمائیں:
۱… ’’مرزاجی کو ایک نامحرم عورت مسماۃ بھانو رات کو مٹھیاں بھر اکرتی تھی۔‘‘
(سیرت المہدی ج۳ ص۲۱۰، روایت ۷۸۰)
۲… ’’مرزاجی کا پہرہ راتوں کو عورتیں دیا کرتی تھیں۔‘‘
(سیرت المہدی ج۳ ص۲۱۳، روایت۷۸۶)
۳… ’’مرزاجی نے ایک دوشیزہ لڑکی مسماۃ محمدی بیگم کے حصول کے لئے کوششیں کیں۔ مگر محمدی بیگم کے رشتہ داروں نے مخالفت کر کے اس کی شادی دوسری جگہ کرادی۔ مرزاجی نے اپنے بیٹے فضل احمد سے اس کی بیوی کو طلاق دلوائی جو احمد بیگ والد محمدی بیگم کی بھانجی تھی۔‘‘
(سیرت المہدی ج۱ ص۲۹، روایت۳۷)
۴… ’’جب محمدی بیگم کا نکاح دوسری جگہ ہوگیا اور مرزاجی کی بیوی والدہ فضل احمد نے ان سے قطع تعلق نہ کیا تو مرزاجی نے اس کو طلاق دے دی۔‘‘
(سیرت المہدی ج۱ ص۳۴، روایت۴۱)
2424۵… مرزاجی نے محمدی بیگم کے سلسلہ میں اپنے بیٹے سلطان احمد کو جائیداد سے محروم اور عاق کر دیا۔ کیونکہ یہ بھی مخالفانہ کوشش کرتے رہے۔
(سیرت المہدی ج۱ ص۳۴، روایت۴۱)
۶… مرزاجی نے نبی بننے کے لئے (حقیقت الوحی ص۳۹۰، خزائن ج۲۲ ص۴۰۶) پر جھوٹ کہا کہ امام ربانی نے مکتوبات میں لکھا ہے کہ جب مکالمات الٰہیہ کی کثرۃ ہو تو پھر وہ نبی کہلاتا ہے۔ حالانکہ اس مکتوب میں نبی کا لفظ نہیں بلکہ محدث کا لفظ ہے اور خود مرزاجی نے اس سے پہلے جب تک کہ ان کو نبی بننے کا شوق نہیں چرایا تھا۔ (ازالہ اوہام ص۹۱۵، خزائن ج۳ ص۶۰۱) میں محدث کا لفظ لکھا۔ اب شوق نبوت میں امام ربانی پر جھوٹ بولا اور اسی لئے مکتوبات کا حوالہ بھی درج نہیں کیا۔
۷… مرزاجی نے یہ بھی امام بخاریؒ کے حوالے سے جھوٹ لکھا کہ ’’آخری زمانہ میں بعض خلیفوں کی نسبت آسمان سے آواز آئے گی۔ ’’ہذا خلیفۃ اﷲ المہدی‘‘ اب سوچو کہ یہ حدیث کس پایہ کی ہے جو ایسی کتاب میں ہے جو اصح الکتاب بعد کتاب اﷲ ہے۔‘‘ (شہادۃ القرآن ص۴۱، خزائن ج۶ ص۳۳۷) کیا کوئی مرزائی یہ حدیث بخاری شریف میں بتلا سکتا ہے؟
۸… مرزاجی نے سرور عالم ﷺ پر جھوٹ کہا کہ آپ کے حکم سے ایک دن میں دس ہزار یہودی قتل کئے گئے۔ (حقیقت الوحی ص۱۵۷، خزائن ج۲۲ ص۱۶۱) اس سلسلہ میں بعض مرزائی یہ عذر لنگ پیش کرتے ہیں۔ دس ہزار کے ہندسوں میں دراصل کاتب سے ایک صفر کا اضافہ ہوگیا۔ یہ غلط بیانی ہے اس لئے کہ مرزاجی نے اپنی کتاب (حقیقت الوحی ص۱۱۱، خزائن ج۲۲ ص۱۱۴) پر لکھا ہے کہ ’’کئی ہزار یہودی ایک دن میں قتل کئے گئے۔‘‘ یہ سب جھوٹ ہے اور خواہ مخواہ سرور عالم ﷺ کو بدنام کرنا ہے۔ ورنہ غزوہ 2425خندق کے بعد جب بنو قریظہ نے ہتھیار ڈالے تو خود انہوں نے کہا تھا کہ ہمارا فیصلہ سعد بن معاذؓ کریں۔ انہوں نے تورات کے مطابق فیصلہ دیا جس کے تحت چار سو یا چھ سو آدمیوں کو قتل کیاگیا۔ یہ وہ یہودی تھے جو ہمیشہ اسلام کے خلاف سازشیں کیا کرتے تھے۔ غزوہ خندق میں اگر یہ کامیاب ہو جاتے تو ہزاروں مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کا قتل عام ہو جاتا ہے اور جزیرۃ العرب کے سارے مسلمان شہید کر دئیے جاتے۔
۹… مرزاجی نے عوام کو الّو بنانے کے لئے ڈپٹی عبداﷲ آتھم کے لئے پیش گوئی کی کہ ’’پندرہ ماہ میں مر جائے گا۔ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے۔‘‘ مگر آتھم ۱۵ماہ میں نہ مرا۔
(جنگ مقدس ص۲۱۱، خزائن ج۶ ص۲۹۲)
۱۰… مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنے مخالفوں کو مغلظ گالیاں دیں جو علیحدہ لکھی گئی ہیں۔
۱۱… مرزاجی نے مخالفوں پر لعنت لکھی۔ مگر پورے ایک ہزار بار لکھی اور ہر دفعہ ساتھ ساتھ ہندسہ لکھتے گئے۔
(نور الحق ص۱۱۸تا۱۲۲، خزائن ج۸ ص۱۵۸ تا۱۶۲)
حالانکہ لکھنؤ کی بھٹیاری ’’لکھ لعنت‘‘ کہہ کر ہی معاملہ ختم کر دیتی تھی۔ اب کوئی مرزائی ہو جو لعنت لعنت کے ان چار صفحات کو پڑھ پڑھ کر ثواب کمائے؟
۱۲… مرزاپہلے صرف مبلغ بنا۔ پھر مجدد، پھر مثیل مسیحِ پھر خود مسیح موعود بنا اور جب دیکھا کہ کچھ آدمی پھنس گئے ہیں نبی بن بیٹھا۔ حالانکہ یہ تدریج خود غرضی اور بناوٹی سکیم کی غمازی کرتی ہے۔
(ملاحظہ ہو ضمیمہ دعاوی مرزا)
۱۳… مرزاجی نے ہر وہ بڑا شخص بننے کی کوشش کی جس کا ذکر کسی کتاب میں تھا یا وہ آنے والا ہے۔ چنانچہ کرشن کا مثیل بنا۔
(سیرت المہدی حصہ اوّل)
۱۴… وہ کرشن بنا اور رودرگوپال کہلایا۔
2426۱۵… وہ جے سنگھ بہادر کہلایا۔
۱۶… مہدی، مسیح، حارث، رجل فارسی بنا بلکہ تمام انبیاء علیہم السلام کے نام اپنے اوپر چسپاں کئے حوالہ کے لئے ضمیمہ دعاوی مرزاملاحظہ ہو۔
۱۷… مرزاجی نے سرور عالم ﷺ کے معجزات تین ہزار اور ’’اپنے دس لاکھ بتائے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۵۶، خزائن ج۲۱ ص۷۲)
۱۸… اس نے اپنے کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے افضل کہا۔
(دافع البلاء ص۱۳، خزائن ج۱۸ ص۲۳۳)
۱۹… اس نے حضرت امام حسینؓ کے ذکر کو گوہ کے ڈھیر سے تشبیہ دی۔
(اعجاز احمدی ص۸۲، خزائن ج۱۹ ص۱۹۴)
۲۰… مرزاجی نے ایک غیرمحرم لڑکی سے اپنا نکاح آسمان میں ہو جانے کی خبر دی اور کہا کہ خدا نے مجھ سے زوجنکہا فرمایا ہے۔ (کہ ہم نے اس لڑکی سے تمہارا نکاح کر دیا ہے)
(تذکرہ ص۳۷۱، ۱۶۱، طبع سوم)
۲۱… اس نے کہا کہ ہمارا صدق وکذب جانچنے کے لئے ہماری پیش گوئی سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے۔ (دافع الوساوس ص۲۸۸، خزائن ج۵ ص ایضاً) جب کہ اس کی یہ پیش گوئی غلط ثابت ہوگئی اور بیس برس تک اس کو مایوس رکھ کر آخرکار جھوٹا ثابت کر دیا۔
۲۲… مرزاجی نے کہا کہ محمدی بیگم کا میرے ساتھ نکاح تقدیر مبرم اور اٹل ہے کوئی نہیں جو اس کو روک سکے۔ (مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۴۳)
۲۳… مرزاجی نے یہ بھی لکھا کہ خدا نے مجھے کہا ہے کہ میں ہر روک کو دور کر کے تمہارے پاس اس عورت کو واپس لاؤں گا۔
(ازالہ اوہام ص۳۹۶، خزائن ج۳ ص۳۰۵، دافع الوساوس ص۲۸۶، خزائن ج۵ ص ایضاً)
۲۴… اس نے یہ بھی لکھا کہ اک بار بیمار ہوا اورقریب الموت ہورہا تھا کہ مجھے پیش گوئی کا خیال آیا تو قدرت نے تسلی دی کہ اس میں شک نہ کرو۔ یہ ہوکر 2427رہے گا۔ تب میں سمجھا کہ جب پیغمبر مایوس ہونے لگتے ہیں تو اس طرح خدا ان کو تسلی دیتا ہے۔
(ازالہ اوہام ص۳۹۸، خزائن ج۳ ص۳۰۶)
۲۵… مرزاجی نے یہ بھی لکھا کہ یہ (محمدی بیگم) باکرہ ہونے کی حالت میں ہو یا ثییہ ہو، خدا لوٹا کر میرے پاس لائے گا۔
(ازالہ اولام ص۳۹۶، خزائن ج۳ ص۳۰۵)
۲۶… مسلسل بیس سال تک یہ پیش گوئی کرتا رہا اور مریدوں کی تازہ بتازہ الہاموں سے طفل تسلی کرتا اور عوام کو الّو بناتا رہا۔ مگر آخر کار بے نیل مرام چل بسا۔
۲۷… مرزاجی نے خداتعالیٰ پر افتراء کیا کہ اﷲتعالیٰ نے میرے ساتھ اس محمدی بیگم کا نکاح کر دیا۔ اگر خدا نے نکاح کیا ہوتا تو کوئی اس کو کیسے بیاہتا۔ پھر نکاح پر نکاح کا مقدمہ نہ مرزاجی نے کیا اور نہ ہی ان کے مریدوں نے۔
۲۸… سلطان محمد کے ساتھ محمدی بیگم کے نکاح کے بعد خدا نے مرزاجی کے ساتھ کیسے نکاح پڑھا؟
۲۹… اور جب خدا نے نکاح پڑھ دیا تھا تو پھر دوسرے سے شادی کیسے ہونے دی؟ معلوم ہوا کہ آسمانی نکاح کی وحی اﷲتعالیٰ پر افتراء تھا جو صریح کفر ہے۔
۳۰… مرزاجی نے لکھا اگر محمدی بیگم میرے نکاح میں نہ آئی اور یہ پیش گوئی پوری نہ ہوئی تو میں بد سے بدتر ہوں گا۔ کیا اس طرح وہ بد سے بدتر نہ ہو گیا۔ کیا بد سے بدتر کی تعبیر سخت سے سخت نہیں ہوسکتی؟ اور کیا اس کو کافر مفتری علی اﷲ نہیں کہہ سکتے؟
۳۱… جب یہ پیش گوئی پوری نہ ہوئی تو کیا وہ اپنے مقرر کئے ہوئے معیار کے مطابق جھوٹا ثابت نہ ہوگیا؟ جب کہ اس پیش گوئی کو مرزاجی نے اپنے صادق یا 2428کاذب ہونے کی دلیل ٹھہرایا تھا اور اتنا بڑا جھوٹ بولنے والا آدمی حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا محمد رسول اﷲ ﷺ کی ہمسری کا دعویٰ کرسکتا ہے؟ (انجام آتھم ص۲۲۳، خزائن ج۱۱ ص ایضاً)
۳۲… مرزاجی نے جہاد کو حرام کہا ہے اور انگریز کی خاطر یہ فتویٰ ساری دنیامیں پہنچایا۔
(ستارہ قیصریہ ص۳، خزائن ج۱۵ ص۱۱۴)
۳۳… مرزاجی نے انگریز کی اطاعت کو اسلام کا حصہ قرار دیا۔
(شہادۃ القرآن کا آخری اشتہار ص۳، خزائن ج۶ ص۳۸۰)
۳۴… مرزاجی نے انگریزوں کو دعائیں دیں جو تمام دنیا میں مسلمانوں کو ذلیل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔
(ملاحظہ ہو ستارہ قیصریہ ص۱تا۱۲، خزائن ج۱۵ ص۱۱۱تا۱۲۵، تحفہ قیصرہ ص۴،۵، خزائن ج۱۲ ص۲۸۸، ۲۸۹)
۳۵… مرزا نے اپنے کو گورنمنٹ برطانیہ کا حرز اور تعویذ کہا۔
(مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۳۷۱، نور الحق ص۳۳، خزائن ج۸ ص۴۵)
۳۶… مرزاجی مکلف کھانے کھایا کرتا۔ پرندوں کا گوشت بھنا ہوامرغ وغیرہ۔
(سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص۱۸۱، روایت نمبر۱۶۷)
۳۷… ریل کو دجال کا گدھا کہہ کر خود کرایہ دے کر اس گدھے پر سوار ہوتا۔
(ازالہ اوہام ص۷۳۱، خزائن ج۳ ص۴۹۳)
۳۸… مرزاجی نے خاتم النّبیین کے معنی بدل کر آپ کو نبی تراش قرار دے دیا۔ مگر پھر ایک نبی بھی نہ گھڑا گیا صرف خود ہی نبی بن بیٹھا۔
۳۹… مرزاجی کے لئے قادیان میں حکومت نے ایک سپاہی رکھا تھا۔
(سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص۲۷۵، روایت نمبر۲۸۶)
۴۰… مرزاجی کے ساتھ جہلم تک گوروں کا پہرہ رہا۔
(سیرۃ المہدی حصہ سوم ص۲۸۹، روایت نمبر۹۴۱)
۴۱… ایک انگریز نے دریافت کیا کہ بڑے لوگوں کی طرح مرزاجی نے بھی کسی کو اپنا جانشین بنایا ہے۔
۴۲… 2429مرزاجی نے ایک عدالت میں لکھ دیا کہ میں آئندہ اس قسم کے الہامات شائع نہ کروں گا گویا یہ توبہ نامہ لکھا۔
۴۳… مرزاجی نے فخر کرتے ہوئے اور انگریزوں کو ممنون کر کے فائدے حاصل کرنے کے لئے انگریزوں کی سندیں اور چٹھیاں شائع کیں۔
(شہادۃ القرآن ص۷تا۱۰، خزائن ج۶ ص۳۸۵تا۳۸۷)
۴۴… مرزاجی نے سکھوں کے ساتھ شاہ اسماعیل شہیدؒ کی جنگ کو مفسدہ لکھا۔
۴۵… مرزانے ۱۸۵۷ء کے جہاد میں اپنے باپ کی امداد اور وفاداری کو انگریز کے سامنے پیش کر کے فخر کیا اور اپنے خاندان کو انگریزوں کا وفادار ثابت کیا۔
(ستارہ قیصریہ ص۳، خزائن ج۱۵ ص۱۱۳)
۴۶… مرزانے ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کو ناجائز قرار دیا اور حملہ آوروں کو چوروں اور ڈاکوؤں سے تشبیہ دی۔
۴۷… مرزاجی نے لکھا کہ مولوی ثناء اﷲ اور مجھ میں جو جھوٹا ہے وہ مر جائے گا۔ چنانچہ وہ مولوی ثناء اﷲ کے سامنے مر گیا اور اسی طرح اس کے جھوٹے ہونے کا قرآنی فیصلہ ہوگیا۔
(مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۷۹)
۴۸… مرزاجی نے ایسی ایسی دوائیں تیار کیں جن میں صرف یاقوت دوہزار روپے کے (آج کل شاید ان کی قیمت بیس ہزار روپے ہو داخل کئے) یہ عین محمدؐ ہیں؟ جن کے دولت خانہ میں بسااوقات آگ نہیں جلتی تھی۔
۴۹… مرزاجی نے اپنے چیلوں کو پورا پورا معتقد بنانے کے لئے یہ گپ بھی لگائی کہ خدا کا کلام مجھ پر اس قدر نازل ہوا ہے کہ وہ تمام لکھا جائے تو بیس جزو سے کم نہیں ہوگا۔
(حقیقت الوحی ص۳۹۱، خزائن ج۲۲ ص۴۰۷)
2430بھلا بیس جزو کلام الٰہی کا کیا مطلب ہے اور مرزاجی نے کیوں چھپایا جب کہ باقی شائع کر دیا؟
۵۰… مرزا جی نے انبیاء علیہم السلام کی توہین کی جیسے کہ اس عنوان کے تحت اور مرزاجی کے دعاوی سے آپ کو معلوم ہوگا۔
۵۱… مرزاجی نے اپنی وحی کو قرآن کی طرح قطعی کہا ہے۔ کیا بیس سال کی جھوٹی اور پرفریب وحی کو قرآن پاک کی طرح قطعی سمجھا جاسکتا ہے اور کیا کوئی نبی وحی کا معنی سمجھنے میں بیس سال یا موت تک قاصر رہ سکتا ہے؟ ہم مرزائیوں کو چیلنج کرتے ہیں کہ کیا کسی قطعی امر کے انکار کرنے والے آدمی کو یہ کہہ کر معاف کیا جائے کہ یہ ملت اسلامیہ سے خارج ہے۔ خود مرزائی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ پچھلی صدیوں میں علماء کے فتوؤں سے فلاں فلاں کو سزا دی گئی۔ اگر وہ نہیں ثابت کر سکتے اور قطعی ثابت نہیں کریں گے۔ پھر معلوم ہوا کہ ’’کافر اور اسلام سے خارج کر کے ملت اسلامیہ میں باقی رہنے کی بات ایجاد بندہ ہے۔‘‘ اور مرزائیوں نے صرف اپنے بچاؤ کے لئے ڈھونگ بنایا ہے۔
۵۲… یہ سب جھوٹ، بناوٹ اور فریب ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی کی نبوت حضور ﷺ کے اتباع اور مکمل طور پر فنا فی الرسول ہونے سے ملی۔ کیونکہ محدثیت (خداتعالیٰ سے ہم کلامی) ہو یا نبوت یہ محض خداتعالیٰ کی بخشش سے ملتی ہے۔ اس میں عمل اور کسب کو قطعاً دخل نہیں ہوتا۔ اس حقیقت کو خود مرزاقادیانی نے اپنی کتاب (حمامتہ البشریٰ ص۸۲، خزائن ج۷ ص۳۰۱) پر یہ تسلیم کرتے ہوئے لکھا ہے: 2431’’ولا شک ان التحدیث موہبۃ مجردۃ لاتنال بکسب البتۃ کما ہو شان النبوۃ‘‘
’’اور اس میں شک وشبہ نہیں کہ محدث ہونا محض اﷲتعالیٰ کی بخشش ہے۔ یہ کسی طرح کی (محنت وعمل اور) کسب سے نہیں مل سکتی۔‘‘ جیسے نبوت کی شان ہے۔ یعنی جس طرح نبوت کسی عمل یا اکتساب کا نتیجہ نہیں ہوتی۔ اسی طرح محدث ہونا بھی۔
مرزاقادیانی نے کما ہو شان النبوۃ کہہ کر اس حقیقت کو اور بھی زیادہ واضح کر دیا کہ محدث اور نبی کسی عمل کے نتیجہ میں نہیں بن سکتا۔ اس سے صاف معلوم ہوا کہ اگر مرزاجی کو نبوت ملی ہے جیسے کہ مرزاناصر احمد اور سارے مرزائی بلکہ خود مرزاقادیانی بھی کہتے ہیں تو وہ محض خدائی بخشش اور موہبت الٰہیہ ہے جس طرح پہلے نبیوں کو ملا کرتی تھی اور اس نبوت میں یا محدث ہونے میں حضور کے اتباع اور فنافی الرسول ہونے کا کوئی دخل نہ تھا اور یہ کفر صریح ہے کہ حضور ﷺ کے بعد کوئی نبی بننے لگے یا کسی کو نبی مانا جائے۔ عین محمد کی گپ اور کامل اتباع کے دعوے سے مرزاجی نبی نہیں ہوسکتے اور نہ ہی عیسیٰ ابن مریم نام رکھنے سے حضرت عیسیٰ ہوسکتے ہیں۔
عیسیٰ نتواں گشت بتصدیق خرے چند
مرزاناصر احمد صاحب ناراض نہ ہوں۔ آپ نے بحیثیت امام جماعت احمدیہ جو محضرنامہ قومی اسمبلی کی کمیٹی کے سامنے سنایا۔ اس کے ص۹۱ سطر۸ پر جو لکھا کہ ’’اس طرح ممتنع نہیں کہ وہ چراغ نبوت محمدیہ سے مکتسب اور مستفاض ہو… بوجہ اکتساب انوار محمدیہ نبوت کے کمالات بھی اپنے اندر رکھتا ہو۔‘‘ یہ قطعاً غلط اور اپنے دادا مرزاجی قادیانی کی عبارت مذکورہ اور متفقہ عقیدہ کے قطعاً خلاف اور جھوٹی نبوت کے لئے ایک ڈھونگ ہے۔
یہ عنوان مرزاناصر احمد نے اپنے محضرنامے کے ص۲۲ میں قائم کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سواد اعظم والے ارشاد سے مرزاناصر احمد پر کپکپی پڑی ہوئی ہے۔ مرزاموصوف نے مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر کے فتوے ایک دوسرے کے خلاف نقل کر کے گویا ایک طرح دنیائے کفر کو مسلمانوں پر ہنسنے کا موقعہ فراہم کیا ہے۔ ورنہ دنیائے کفر اس گئی گزری ہوئی حالت میں بھی مسلمانوں سے لرزاں ہیں اور وہ ان کے اتفاق سے خائف اور نفاق ڈالنے کے لئے کوشاں ہے۔ مرزاناصر احمدکو معلوم ہے کہ مسلمانوں کا سواد اعظم (عظیم اکثریت) ان کو کافر سمجھتی ہے تو انہوں نے محضرنامے کے ص۲۳ سطر نمبر۹ پر لکھ دیا ’’کہ کسی ایک فرقہ کو خاص طور پر مدنظر رکھا جائے تو اس کے مقابل پر دیگر تمام فرقے سواد اعظم کی حیثیت اختیار کر جائیں گے اور اس طرح باری باری ہر ایک فرقے کے خلاف بقیہ سواد اعظم کا فتویٰ کفر ثابت ہوتا چلا جائے گا۔‘‘
اس عبارت میں جو دھوکا اور فریب ہے وہ ظاہر ہے۔ مرزاناصر احمد صاحب کو معلوم ہونا چاہئے:
۱… پہلے تو کسی ایک مسلک اور مکتب فکر نے مل کر کسی دوسرے فرقہ کے خلاف سخت فتویٰ نہیں دیا۔ یہ بعض افراد ہیں اور ایسے افراد ہر ہر فرقہ میں ہوسکتے ہیں۔
۲… بعض حضرات بے شک اونچی حیثیت رکھتے ہیں۔ مگر ان کے افتاء میں بہت احتیاط ہے۔
۳… بعض فتوے جھوٹی خبروں پر مبنی ہیں۔ مثلاً دیوبندیوں پر یہ الزام کہ ان کے ہاں خدا جھوٹ بولتا ہے۔ حالانکہ یہ بات سب کے ہاں کفر صریح ہے۔
دراصل بات صرف اتنی ہے جو خود مرزاناصر احمد صاحب نے تسلیم کر لی ہے کہ شاہ اسماعیل شہیدؒ نے کہا کہ اﷲتعالیٰ ایک آن میں کروڑوں فرشتے 2433جبرائیل کی طرح اور کروڑوں پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی طرح پیدا کر سکتے ہیں۔ مرزاناصر احمد نے اقرار کیا کہ شاہ اسماعیل شہیدؒ حضور کو خاتم النّبیین سمجھتے اور یقین کرتے ہیں کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہ بن سکے گا مگر صرف اﷲ تعالیٰ کی قدرت بیان کر دی گئی ہے۔
اسی طرح خود احقر (مولانا غلام غوث) ہزاروی نے بعض علماء بریلوی سے گفتگو کی۔ انہوں نے حضور ﷺ کے بشر ہونے سے بالکل اختلاف نہ کیا اور کر کیسے سکتے تھے؟ جب کہ قرآن میں ایسا کہا گیا اور دنیا کا کوئی فرد سرور عالم ﷺ کے اولاد آدم میں سے ہونے کا انکار نہیں کر سکتا۔ رہا آپ ﷺ کا درجہ اور مرتبہ تو یہ ہماری سمجھ، عقل اور وہم سے بھی بالاتر ہے۔
اسی طرح احقر ہزاروی نے بریلوی حضرات سے رسول اﷲ ﷺ کے حاضر وناظر پر گفتگو کی تو انہوں نے اس کا خلاصہ وہی علم غیب بتایا۔
علم غیب میں بالواسطہ اور بلاواسطہ کی بحث بھی ہے۔ پھر خداتعالیٰ کے برابر علم ہونے یا نہ ہونے کی بھی بحث ہے۔ بہرحال خود حضرت مولانا اشرف علی تھانوی دیوبندیؒ نے بریلویوں کی تکفیر سے انکار کیا۔
شیعہ حضرات ہیں ان کی کتابوں میں تحریف قرآن کا قول موجود ہے۔ مگر آج کوئی شیعہ دوست قرآن کی تحریف کا اقرار نہیں کرتا۔ باقی شان صحابہؓ کے بارہ میں ان کا رویہ تو مولانا مظہر علی اظہر (احرار لیڈر) جو تحریک مدح صحابہؓ کے سلسلہ میں لکھنؤ گئے اور انہوں نے تقریر کی کہ جب حضرت علیؓ بیس سال کے قریب ان صحابہؓ کے پیچھے نمازیں پڑھیں تو ہم کیوں ان کی اقتداء نہ کریں؟ بہرحال شیعہ فرقہ پر بحیثیت فرقہ یا اس نے بحیثیت فرقہ کوئی فتویٰ نہیں لگایا۔
یہی حال اہل حدیث حضرات کا ہے۔
۴… 2434پھر یہ فتاویٰ اکثر انگریز کے عہد کے ہیں۔ جس انگریز نے جب اپنی فوجیں ترکوں کے دارالحکومت قسطنطنیہ میں اتاریں تو خلیفۂ ترکی سے اپنے حق میں فتویٰ دلا دیا۔
انگریزوں کی دسیسہ کاریوں کا علم ہونا آسان نہ تھا اور نہ اب ہے۔
۵… اسلام کا کامل دین ہندو دھرم کی طرح نہیں ہے کہ پنڈت جواہرلعل نہرو خدا کے منکر بھی ہوں۔ پھر بھی ہندو ہوں۔ سنالی دھرجی بت پرستی کریں اور آریہ بت پرستی کے خلاف ہوں پھر بھی رشتے ناتے جاری ہوں۔ دین اسلام کی حدود ہیں۔ ان حدود کو پھلانگنے والا ظاہر ہے ان حدود سے باہر سمجھا جائے گا۔ مگر اسلامی وحدت، اسلامی حکومت اور خلافت کا شیرازہ منتشر ہونے کے بعد مختلف طبقات میں افراتفری پیدا ہوئی اور اسی لئے اسلامی عہد کے بہت ہی کم واقعات مرزاناصر بیان کر سکا ہے۔ ان میں بھی کسی جگہ نیک نیتی اور کہیں بدنیتی کا دخل ہے۔
مرزاناصر احمد صاحب! جب کوئی فرقہ بحیثیت فرقہ دوسرے کو کافر نہیں کہتا تو سب مل کر کسی ایک کو کیسے کافر کہہ سکتے ہیں؟ اور یہ حقیقت ہے کہ صحابہؓ کو ماننے والے سواد اعظم کے مصداق کبھی ایسا نہیں کر سکتے۔ نہ آج تک کیا ہے۔ نہ آئندہ کریں گے۔
۶… بہتوں کے فتاویٰ دوسروں کے خلاف فروعی مسائل میں ہیں۔ مثلاً ایک فریق کا الزام ہے کہ دوسرا انبیاء علیہم السلام کی توہین کرتا ہے۔ مگر دوسرا فریق اس الزام کے ماننے سے منکر ہے۔ بلکہ وہ اصول میں متفق ہے کہ توہین انبیاء علیہم السلام کفر ہے۔ آیا اس عبارت سے توہین ہوتی ہے یا نہیں؟ صرف اس میں بحث ہے۔
۷… 2435ان کا اختلاف اسی طرح کے الزامات یا غلط فہمیوں پر مبنی ہے یا اسی قسم کے مختلف مسائل ہیں۔
۱… مگر مرزائیوں سے مسلمانوں کا اختلاف اصولی ہے۔ وہ کھلم کھلا مرزاقادیانی کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے افضل کہتے ہیں۔
۲… وہ کھلم کھلا حضور ﷺ کے بعد مرزاجی کو نبی مانتے ہیں اور اس طرح ختم نبوت کی مہر توڑ کر غلط تاویلوں سے اس کو چھپاتے ہیں۔
۳… وہ تیرہ سو سال کے مسلمانوں کے تمام فرقوں کے متفقہ عقائد کی مخالفت کرتے ہیں۔
۴… اور تمام کے تمام فرقے دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، شیعہ، سنی سب ہی ان مرزائیوں کو کافر کہتے اور سمجھتے ہیں۔ خود مرزاناصر احمد نے سب کے فتاویٰ اپنے خلاف نقل کئے ہیں اور یہ بات حق ہونے کی کھلی دلیل ہے کہ آپس میں مختلف ہوکر بھی وہ سب کے سب مرزائیوں کو قطعی کافر اور غیر مسلم اقلیت سمجھتے ہیں۔
۵… پھر مرزاغلام احمد قادیانی بھی تمام مسلمانوں کو جو اس کو مسیح موعود نہیں مانتے کافر کہتے ہیں۔ (یہ جرأت اس کو انگریزی سرپرستی سے ہوئی ورنہ وہ کبھی ایسا کہنے کی جرأت نہ کرتا)
۶… اور مرزاجی خدا کے حکم سے کہتے ہیں کہ جومرزاجی کے مسیح ہونے میں شک بھی کرے اس کے پیچھے نماز نہ پڑھو۔
۷… مرزابشیرالدین محمود نے صفائی سے تمام مسلمانوں کو کافر قرار دیا۔
۸… تمام مسلم فرقے مل کرمرزائیوں کو کافر کہتے ہیں اور مرزائی مسلمانوں کو کافر قرار دیتے اور رشتے ناتے اور نمازیں علیحدہ کرنے کا حکم دیتے ہیں تو اب یہ 2436کس طرح ایک قوم رہ سکتے ہیں؟ یہ کیوں مسلمان کے نام سے مسلم حقوق اور منصوبوں پر قبضہ کرتے ہیں اور کیوں اپنی حقیقت کو چھپاتے ہیں؟
الف… اس بیان سے دو باتوں کا جواب ہوگا۔ ایک تو فتاویٰ کفر کی حیثیت کے مندرجات کا۔ کہ سارے فرقے مل کر کبھی ایک فرقہ کے خلاف ہوکر سواداعظم نہیں بنے نہ بنیں گے نہ بن سکتے ہیں۔
ب… دوسرے مرزائی ایک دوسرے کے خلاف فتاویٰ لگانے کاجو الزام لگاتے ہیں اس کی بھی حقیقت واضح ہوگئی اور مرزائیوں کا ان اختلافات کو ہوا دینا اسلام دشمنی سے کم نہیں ہے اور دنیا بھر میں مسلمانوں کو ذلیل کرنے کے مترادف ہے۔